فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)7%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 362192 / ڈاؤنلوڈ: 6022
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

معاویہ کے خطوط اسلامی شخصیتوں کے نام

معاویہ نے جنگ صفین پر روانہ ہونے سے پہلے عمرو عاص سے کہا میں چاہتا ہوں تین لوگوں کو خط لکھوں او ران لوگوں کو علی کے خلاف برانگیختہ کروں وہ تین آدمی یہ ہیں عبد اللہ بن عمر، سعد بن وقاص ، محمد بن مسلمہ۔

معاویہ کے مشاورنے اس کے نظریہ کو قبول نہیں کیا اور اس سے کہا یہ تینوں افراد تین حالتوں سے

خالی نہیں ہیںیا علی کے چاہنے والے ہیںاس صورت میں تمہارا خط باعث بنے گا کہ راہ علی پر باقی رہنے میں ان لوگوں کا ارادہ ٹھوس ہو جائے یا عثمان کے چاہنے والے ہیں اس صورت میں ان کے استحکام میں اضافہ نہیں ہو گا اور اگر وہ لوگ کسی بھی طرف نہیں ہیں تو ہرگز تم ان لوگوں کی نظر میں علی سے زیادہ مورد اعتماد نہیں ہو۔ اس لئے تمہارے خط کا اثر ان لوگوں پر نہیں

۵۰۱

پڑے گا۔(۱)

معاویہ نے اپنے مشاور کے نظریہ کو قبول نہیں کیا اور اپنی اور عمرو عاص کی دستخط کے ساتھ ایک خط عبد اللہ ابن عمر کو لکھا جس کی عبارت یہ تھی:

''حقائق اگر ہم پر پوشیدہ ہوں تو تم پر پوشیدہ نہیں ہیں، عثمان کو علی نے قتل کیا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ ان کے قاتلوں کو امان دی ہے ،ہم عثمان کے خون کا بدلہ لینا چاہتے ہیں تاکہ حکم قرآن کے مطابق انہیں قتل کریں اور اگر علی عثمان کے قاتلوں کو ہمارے حوالے کردیں تو ہم ان سے کوئی مطالبہ نہیں کریں گے اور اس وقت خلافت کے مسئلہ کو عمر بن خطاب کی طرح مسلمانوں کے درمیان شوری میں پیش کریں گے ہم ہرگز نہ خلافت کے طلبگار تھے او رنہ ہیں تم سے بس گذارش یہ ہے کہ قیام کرو او رہماری اس راہ میں مدد کرو، اگر ہم اور تم آپس میں متحد ہوگئے تو علی مرعوب ہو جائیں گے اور پھر اپنے ارادے سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔(۲)

عبد اللہ بن عمر کا جواب

اپنی جان کی قسم، تم دونوںنے اپنی بصیرت اور حقیقت شناسی کو اپنے ہاتھوں سے کھودیا ہے اور حوادث کو فقط دور سے دیکھ رہے ہو اور تمہارے خط نے شک کرنے والوں کے شک و تردید میں اضافہ کردیا ہے تم لوگوںکا خلافت سے کیا ربط؟ معاویہ تم طلیق و آزاد شدہ ہو او رعمرو تم ایک متہم شخص او رغیر قابل اعتماد ہو، اس کام سے باز آجاؤ میں تمہاری مدد نہیں کر سکتا۔(۳)

عبد اللہ بن عمر نے جو خط معاویہ کو لکھا اس نے عمرو عاص کی مردم شناسی اور دور اندیشی کو ثابت کردیااور یہ بھی واضح کردیا کہ معاویہ اپنے قدیمی حریف کے کاموں تک نہیں پہونچ سکا ہے اور اگر بعض سیاسی مسئلوں میں برتری رکھتا ہے(مثلاً کشادہ دلی کے ساتھ مخالف کی بات سنتااو راگر اس کے سامنے آتا تو گذشتہ کونظر انداز کردیتا، اور اگر گفتگو ایک طرف ہو جاتی تو فوراً گفتگو کا عنوان بدل دیتا اور بحث کے اصل موضوع کو دوسرے انداز سے شروع کرتا) اس کے باوجود ابھی پورا مردم شناس نہیں ہورہے۔

_______________________________

(۱) الامامة و السیاسة ج۱ ص ۸۹۔ ۸۸۔----(۲) وقعۂ صفین، ص ۶۳، ابن قتیبہ کے نظریہ کے مطابق اس خط کو معاویہ نے اہل مکہ او رمدینہ کے لئے لکھاتھا ۔ الامامة و السیاسة ص ۸۹۔----(۳)وقعة صفین ص۶۳،لیکن ابن قتیبہ نے معاویہ کے جواب میں ایک دوسرے خط کا ذکر کیا ہے،الامامة والسیاسةص۹۰۔۸۹

۵۰۲

معاویہ کے خط لکھنے کا مقصد

معاویہ کا مختلف لوگوں کو خط لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ بعض شخصیتوں کو متوجہ کرے جو نہ موافقوں کی صف میں تھے نہ ہی مخالفوں کی صف میں ۔ یہ لوگ مکہ و مدینہ میںلائق احترام اور با اثر شخصیت کے حامل تھے اور ان کی نظر جذب کرنے کی وجہ سے دو شہروں میں مخالفت ایجاد کرنا تھا جو شوریٰ کے مرکزی افراد اور خلیفہ انتخاب کرنے میں ایک اہمیت رکھتے تھے۔

لیکن یہ لوگ ان لوگوں سے زیادہ عقلمند تھے جن لوگوں نے معاویہ سے دھوکہ کھایا اور اس کے ساتھ رہے لہٰذا دوسروں نے بھی، یعنی سعد وقاص اور محمد بن مسلمہ نے بھی عبد اللہ بن عمر کی طرح جواب دیا۔(۱)

نصر بن مزاحم نے کتاب ''وقعہ صفین'' میں معاویہ کا ایک دوسراخط نقل کیا ہے جواس نے عبد اللہ بن عمر کے نام لکھا تھا اور اس پر امام ـ کی مخالفت کرنے کا الزام لگایا ہے اور اس طرح چاہا کہ مخالفت کا بیج اس کے دل میں بودے اور پھر لکھتا ہے کہ میں خلافت کواپنے لئے نہیں چاہتا بلکہ تمہارے لئے چاہتا ہوں اوراگر تم نے بھی قبول نہیں کیا تو ضروری ہے کہ مسئلہ خلافت کو مسلمانوں کی شوریٰ میں بیان کیا جائے ۔

عبد اللہ بن عمر اگر چہ سادگی میں بہت مشہور تھا اس نے معاویہ کا خط پڑھ کر اس کو جواب دیاکہ تم نے لکھاہے کہ میں نے علی کی نکتہ چینی کی ہے اپنی جان کی قسم میں کہاں او رعلی کاسابقہ ایمان، ان کی ہجرت ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک ان کی و رفعت ومنزلت اور مشرکوں کے مقابلے میں ان کی مقاومت کہاں؟ اگر میں نے ان کی موافقت نہیں کی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اس حادثہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے کوئی حدیث نہیں

______________________

(۱) معاویہ کے اصل خط کو جو اس نے سعد بن ابی وقاص اور محمد بن مسلمہ انصاری کے نام لکھا تھا اور ان کے جواب کو ابن قتیبہ نے الامامة و السیاسة ص ۹۱۔ ۹۰۔ پر لکھا ہے۔

۵۰۳

آئی تھی لہذا ہم نے دونوں میں سے کسی کی طرف بھی رغبت کرنے سے پرہیز کیا۔(۱)

معاویہ کا خط سعد بن وقاص کے نام

معاویہ نے فاتح سرزمین ایران سعد وقاص کو خط لکھا:

عثمان کی مدد کے لئے بہترین لوگ قریش کی شوریٰ تھی، ان لوگوں نے اسے چنا اور دوسروں پر مقدم کیا، طلحہ و زبیر نے اس کی مدد کرنے میں جلدی کی اور وہ لوگ تمہاری شوری کے ہمراہی اور اسلام میں بھی تمہاری ہی طرح تھے ام المومنین (عائشہ) بھی اس کی مدد کے لئے گئیں تمہارے لئے بہتر نہیں ہے کہ ان لوگوں نے جس چیز کو پسند کیا ہے تم اسے ناپسند کرو اور جس چیز کو ان لوگوں نے اختیار کیا ہے تم اسے چھوڑ دو، ہمیں چاہیئے کہ ہم خلافت کو شوریٰ کے حوالے کردیں۔(۲)

سعد وقاص کا جواب

عمر بن خطاب نے ایسے افراد کو شوریٰ میں شامل کیا جن کے لئے خلافت جائز تھی، ہم سے زیادہ کوئی بھی خلافت کے لئے بہتر نہ تھا، مگر یہ کہ ہم اس کی خلافت پر راضی رہیں اگر ہم بافضیلت ہیں تو علی بھی اہل فضل میں سے ہیںجب کہ علی کے فضائل بہت زیادہ ہیں اور ہمارے فضائل اتنے نہیں ہیں اور اگر طلحہ و زبیر اپنے گھر میں خاموشی سے بیٹھتے تو بہتر تھا، خداوند عالم ام المومنین کو جوانھوں نے کام کیاہے معاف کردے۔(۳)

معاویہ نے کوشش کی تھی کہ شوریٰ کے تمام اراکین سے زیادہ خلیفۂ سوم کی فضیلت کو ثابت کرے، لیکن سعد وقاص نے اسے قبول نہیں کیا اور اس کی حاکمیت او رسب سے آگے بڑھنے کو شوریٰ کے اراکین کی رائے سے توجیہ کیا اور اسی کے ساتھ طلحہ و زبیر پر اعتراض بھی کیا۔

______________________

(۱) وقعۂ صفین ص ۷۳۔ ۷۲۔

(۲) الامامة و السیاسة، ج۱ ص ۹۰ وقعۂ صفین، ص ۷۴۔

(۲) الامامة والسیاسة ج۱ ص ۹۰، وقعۂ صفین ص ۷۷۔ ۷۵۔

۵۰۴

معاویہ کا خط محمد بن مسلمہ کے نام

معاویہ نے اس خط میں اسے انصار کے فارس(بہادر) سے تعبیر کیاہے او رخط کے آخر میں لکھتا ہے:

انصار جو تمہاری قوم ہے اس نے خدا کی نافرمانی کی ہے اور عثمان کو ذلیل کیاہے اور خدا تم سے اور ان لوگوں سے قیامت کے دن سوال کرے گا۔(۱)

مسلمہ کے بیٹے نے ایک مقدمہ کے بعد جواب دیا:

تم دنیا کے علاوہ کسی چیز کو نہیں چاہتے اور خواہشات نفسانی کے علاوہ کسی چیز کی پیروی نہیں کرتے، عثمان کی موت کے بعد اس کا دفاع کر رہے ہو لیکن اس کی زندگی میں اسے ذلیل و خوار کیا اور اس کی مدد نہیں کی۔(۲)

______________________

(۱) الامامة والسیاسة ج۱ ص ۹۰، وقعۂ صفین ص ۷۷۔ ۷۵۔

(۲)الامامة والسیاسةج۱ص۹۰،وقعة صفین ص۷۷۔۷۵

۵۰۵

(۲) معاویہ کے خط کا مفہوم اور اس کا مقصد

معاویہ کے خط کا مفہوم مکمل طور سے اشتعال انگیز تھا اور معاویہ کی یہ کوشش تھی کہ لوگوں کو امام ـ کی مخالفت کے لئے برانگیختہ کردے، مثلاً عمر کے بیٹے کو خلافت پر قبضہ کرنے کے لئے بلایا کیونکہ وہ شوریٰ کا ناظر تھا، سعد وقاص چونکہ چھ نفری شوریٰ کا ممبر اور طلحہ و زبیر کے مثل تھا لہذا شوریٰ میں اس کے ممبر ہونے کا تذکرہ کیااور اسے طلحہ و زبیر کے راستے پر چلنے کی دعوت دی او رمحمد بن مسلمہ کو انصار کا شہسوار اور مہاجروں کو منظم کرنے والا قرار دیا او ر یاد دلایاکہ ان لوگوںنے عثمان کی مدد نہیں کی لہذا اس کا جبران کرنے کے لئے فوراً اٹھ جائیں اور اس کی مدد کریں۔

ان تمام خطوط سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ معاویہ کا مقصد صرف اسلامی معاشرہ کودرہم برہم کر کے علی ـ کا مخالف بنانے کے علاوہ کچھ نہ تھا اور بنا بر فرض محال اگروہ عثمان کا ولی دم تھا تو یہ بات کوئی عقلمند انسان قبول نہیں کرے گا کہ ایک انسان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے تمام مسلمانوں کی جان جوکھم میں ڈال دے ۔

معاویہ کا اصرار تھا کہ خلیفہ کا انتخاب شوریٰ کے ذریعے ہو اور عمر کی شوریٰ کی تعداد چھ آدمیوں سے زیادہ نہ تھی، اگر شوریٰ کا انتخاب تکلیف دہ تھا تو مہاجرین وانصار کا متحد ہونا بدرجہ اولی الزام آور تھا سب لوگ اس سے باخبر ہیں کہ امام ـ مہاجرین و انصار کے ذریعے اس مقام پر منتخب ہوئے ہیں آپ اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ لوگ جوق درجوق آپ کے پاس آئے اور بہت زیادہ اصرار کر کے آپ کو مسجد میں لے گئے اور پھر آپ کے ہاتھوں پر بیعت کی، اور چند لوگوں کے علاوہ کسی نے بھی آپ کی بیعت کی مخالفت نہیں کی۔

۵۰۶

اس کے علاوہ اگر مہاجرین و انصار نے عثمان کی مدد نہیں کی تو خود معاویہ نے بھی تو اس کی مدد نہیں کی جب کہ عثمان کے گھر کا محاصرہ بہت دنوں تک تھا اور وہ اس سے آگاہ بھی تھا اور وہ اپنی فوج کے ساتھ خلیفہ کی مدد کے لئے جاسکتا تھا، لیکن ہرگز اس نے ایسا نہیں کیا اور اس کے خون کو بہتا ہوا دیکھتا رہا۔

اس کے علاوہ خود عثمان نے شام کے لوگوں او روہاں کے حاکم معاویہ کے پاس خط لکھا اور ان سے مدد مانگی تھی یہاں تک کہ اپنے خط کے آخر میں یہ بھی لکھا تھا:

''فیاغوثاه و لا امیرُ علیکم دونی ، فالعجل العجل یا معاویة وادرک ثم ادرک و ما اراک تدرک'' (۱)

ان تمام چیزوں کے باوجود معاویہ نے ان خطوط کو نظر انداز کردیا اور اپنے خلیفہ کی بالکل بھی حمایت نہیں کی لیکن اس کی موت کے بعد اس کے خون کا بدلہ لینے کی فکر ہوگئی۔

مؤرخین نے عثمان کے دو طرح کے محاصروں کو لکھا ہے اور پہلے محاصرہ اوردوسرے محاصرے کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ تھا، بعض نے محاصرہ کی مدت ۴۹ دن بعض نے ۷۰ دن اور بعض نے ۴۰ دن اور بعض نے ۱ مہینے سے زیادہ لکھا ہے اس لئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ عثمان کے محاصرے کی خبر معاویہ نے نہ سنی ہو، اور وہ پورے واقعہ سے بے خبر ہو۔

_______________________________

(۱) الامامة و السیاسة ص ۳۸۔

۵۰۷

شام کا خطیب

ہر زمانے اورہر جگہ پر ایسے افراد موجود ہوتے ہیں کہ اپنا کھانا روزانہ کی قیمت سے کھاتے ہیں اور چاپلوسی اور جھوٹی تعریف کرنے والے صاحبان قدرت و ثروت کی خوشامد اور اور ان کیتعریفیں کیا کرتے ہیں اور حق کو ناحق، اور باطل کو حق دکھاتے ہیں لیکن تاریخ میں ایسے بھی افراد موجود ہیں جو حق و حقیقت کا کسی بھی چیز سے معاملہ نہیں کرتے اور ان کی زبانوں پر کلمہ حق کے علاوہ کچھ جاری نہیں ہوتا۔

قبیلہ ''طی'' کے لوگ جو مدینہ او رشام کے دو پہاڑوں کے درمیان زندگی بسر کر رہے تھے وہ سب کے سب خصوصاً عدی بن حاتم، علی ـ کے عاشق تھے۔ عدی امام ـ کی خدمت میں آئے اور کہا ہمارے قبیلہ کا ایک شخص ''خفاف'' اپنے چچازاد بھائی ''حابس'' کی ملاقات کے لئے شام جانے والاہے، خفاف بہترین خطیب و مقرر اور عمدہ شاعر ہے اگر آپ کی اجازت ہوتوہم اس سے کہیں کہ معاویہ سے ملاقات کرے اور مدینیاور عراق میں اپ کی جو شان و شوکت ہے اسے بیان کرکے، معاویہ او رشامیوں کا حوصلہ پست کرے، امام ـ نے عدی کی درخواست کو قبول کیا، خفاف شام کی طرف روانہ ہوا، اور اپنے چچازاد بھائی حابس کے پاس گیا اور اس سے کہا میں عثمان کے قتل کے وقت مدینہ میں موجود تھا پھر حضرت علی ـ کے ساتھ مدینہ سے کوفہ آیا ہوں اور تمام حالات سے باخبر ہوں دونوں چچازاد بھائیوں نے طے کیا کہ دوسرے دن معاویہ کے پاس جائیں او راسے تمام واقعات سے آگاہ کریں ، دوسرے دن دونوں بھائی معاویہ کے پاس گئے حابس نے اپنے بھائی کا تعارف کرایا اور کہا کہ وہ حادثہ ''یوم الدار'' اور عثمان کے قتل کے دن موجود تھا اور علی کے ساتھ کوفہ آیا ہے او راپنی بات میں مکمل یقین و اعتماد رکھتا ہے معاویہ نے خفاف سے کہا، عثمان کے واقعات سے مجھے آگاہ کرو، خفاف نے مختصر طور پر عثمان کے قتل کے واقعات کو اس طرح بیان کیا:

''مکشوح نے اس کا محاصرہ کیا اور حکیم نے حملہ کرنے کا حکم دیا، محمد بن ابوبکر او رعمار قتل کرنے میں شریک تھے اور تین آدمی عدی بن حاتم، مالک اشتر نخعی اور عمرو بن الحمق اس کارنامے میں بہت فعال تھے اسی طرح سے طلحہ و زبیر قتل کرنے میں بہت زیادہ کوشش کر رہے تھے، اور اس گروہ سے سب سے جدا رہنے والے علی ـ تھے جو عثمان کے قتل میںکسی طرح بھی شریک نہیں تھے۔

۵۰۸

معاویہ نے کہا: پھر اس کے بعد کیا ہوا؟

خفاف نے کہا: لوگ عثمان کے قتل کے بعد جب کہ ابھی اس کا جنازہ ایسے ہی زمین پر پڑا تھا پروانے کی طرح علی کے پاس اس طرح جمع ہوئے کہ جوتے گم ہوگئے اور ردائیں کاندھوں سے گر گئیں، بوڑھے لوگ مجمع میں دب گئے اور سب نے رہبر اور پیشوا کی حیثیت سے علی ـ کی بیعت کی، اور جب طلحہ و زبیر نے اپنی بیعت کو توڑ دیا تو امام ـ سفر کرنے کے لئے آمادہ ہوئے اور مہاجرین وانصار بہت تیزی کے ساتھ آپ کے ہمراہ چلنے کے لئے تیار ہوگئے، اس سفرسے تین لوگ، سعد بن مالک، عبد اللہ بن عمر، محمد بن مسلمہ بہت ناراض ہوئے اور تینوں افراد نے گوشہ نشینی اختیار کرلی، لیکن علی (علیہ السلام) پہلے گروہ کی وجہ سے ان تینوں سے بے نیاز ہوگئے امام ـ کا کاروان سرزمین ''طی'' پہونچااور میرے قبیلہ سے کچھ لوگ امام کے لشکر سے ملحق ہوئے، اور ابھی بصرہ کا آدھا ہی راستہ طے کیا تھا کہ طلحہ و زبیر کے بصرہ جانے کی خبر ملی، ایک گروہ کو کوفہ روانہ کیا اور ان لوگوں نے بھی ان کی دعوت کو قبول کیا او ربصرہ کی طرف روانہ ہوگئے، بصرہ پر حملہ ہوا اور شہر پر ان کا قبضہ ہوگیا پھر کوفہ کی فکر کی، اس شہر میں شور و غل مچ گیا، بچے محل کی طرف دوڑے او ربوڑھے او رنوجوان خوشی خوشی ان کی طرف دوڑ پڑے اس وقت وہ کوفہ میں ہیں اور شام پر قبضہ کرنے کے علاوہ کوئی اور فکر نہیں کر رہے ہیں، جب خفاف کی گفتگو ختم ہوئی تو معاویہ خوف کے مارے تھرتھر کانپنے لگا۔

اس وقت حابس نے معاویہ سے کہا: میرا چچازاد بھائی خفاف بہت اچھا شاعر ہے میری جب اس سے ملاقات ہوئی تھی تو اس نے بہت اچھا شعر پڑھا تھا اورعثمان کے متعلق میری نظر کو بدل ڈالا اور علی کی خوب تعریف کی، معاویہ نے کہا کہ وہ شعر جو تم نے اس کے لئے کہا تھا مجھے سناؤ اس نے وہ اشعار پڑھا، خفاف کا شعر سن کر معاویہ نے سخت لہجہ میں حابس سے کہا: میرے خیال سے یہ شخص علی کاجاسوس ہے جتنی جلدی ممکن ہو اس کو شام سے باہر کردو، لیکن معاویہ نے اسے دوبارہ اپنے پاس بلایا اور کہا: مجھے لوگوں کے کام وغیرہ سے آگاہ کرو، اس نے پھر وہی باتیں دہرائیں ، معاویہ ا س کی عاقلانہ باتیں سن کر حیرت میں ڈوب گیا۔(۱)

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین ص ۶۶۔ ۶۴، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۱۱۲۔ ۱۱۰۔

۵۰۹

صحابہ کے بیٹوں کا سہارا

ابو سفیان کا بیٹااس اما م سے مقابلہ کرنے کی کوشش میں تھا جس کا سبقت ایمان اور مشرکین کے ساتھ جہاد کرنا روشن وواضح تھا لہذا اس نے بعض صحابیوں اور ان کے بیٹوں کو اپنی طرف جذب کرکے اپنی شخصیت بنانی چاہی جب عبیداللہ ابن عمر حضرت علی کی حکومت سے بھاگ کر شام گیاکیونکہ حضرت ھرمزان کے قتل کی بنا پر اس سے قصاص چاہ رہے تھے اور معاویہ کو یہ خبر ملی تو وہ(۱) خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا لہٰذا اپنے مشاور اور عقل (عمروعاص) سے رابطہ کیا اور عبیداللہ کی آمد پر اسے مبارک باد دی اور اسے ملک شام کے اور اپنے پاس رہنے کا وسیلہ سمجھا(۲) پھر دونوں نے ارادہ کیا کہ اس سے درخواست کریں کہ لوگوں کے مجمع میں منبر پر جا کر علی کو برا بھلا کہے، جب عبیداللہ معاویہ کے پاس آیا تو معاویہ نے اس سے کہا اے میرے بھتیجے ،تمہارے باپ کا نام (عمر بن الخطاب) تمہارے اوپر لگا ہواہے خواب غفلت سے بیدار ہوجاؤ اور مکمل آمادگی کے ساتھ گفتگو کرو، کیونکہ تم لوگوں کے درمیان قابل اعتماد ہو، منبر پر جاؤ علی کو برا بھلا کہو، گالی دو اور گواہی دو کہ عثمان کو علی نے قتل کیا ہے۔

زمام حکومت ایسے فتنہ پرور لوگوں کے ہاتھوں میں تھی جنہوںنے خلفاء کے بیٹوں کو برے اور بیہودہ کاموں کی ترغیب کرتے تھے تاکہ اس کے ذریعہ امام علیہ السلام کی عظمت کو گھٹادیں ،لیکن امام علیہ السلام کی رفعت وعظمت اتنی بلند تھی جس کا دشمن بھی منکر نہیں ہوسکتا ۔ عبیداللہ جوامام علیہ السلام کی عدالت کی وجہ سے بھاگ گیا تھا اس نے معاویہ سے کہا ، میں علی کو گالی نہیں دے سکتا اور ناسزا نہیں کہہ سکتا کیونکہ وہ فاطمہ بنت اسد بن ہاشم کے بیٹے ہیں ان کے نسب کے بارے میں میں کیا کہوں؟ ان کی جسمانی اور روحاحی طاقت کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتاہے کہ وہ پچھاڑ دینے والے بہادر ہیں، میں عثمان کے قتل کا الزام ہی صرف ان کی گردن پر ڈال سکتاہوں ۔

عمرو عاص اپنی جگہ سے اٹھا اور کہا:

خدا کی قسم، اس وقت زخم نمایاں ہوں گے(بھیجے باہر نکلیں گے) جب عبیداللہ وہاں سے چلا گیا تو

_______________________________

(۱) تاریخ طبری ج۳،جز۵ ص ۴۲،۴۱۔ کامل ابن اثیر ج ۳ص ۴۰

(۲) الامامة والسیاسة ج۱ ص ۹۲

۵۱۰

معاویہ نے عمر وعاص سے کہا ،اگر وہ ہرمزان کو قتل نہ کرتا اور علی کے قصاص سے نہ ڈرتا تو ہماری طرف کبھی بھی نہ آتا کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اس نے علی کی کیسی تعریف کی؟

جی ہاں، عبیداللہ نے تقریر کی اور جب بات علی علیہ السلام تک پہونچی تو اس نے اپنی بات روک دی اور ان کے بارے میں کچھ نہ کہا اور منبر سے اتر گیا۔

معاویہ نے اس کے پاس پیغام بھیجا اورکہا: اے میرے بھتیجے ، علی کے بارے میں تمھاری خاموشی دو علتوں کی بناء پر تھی ناتوانی کی وجہ سے یا خیانت کی وجہ سے۔

اس نے معاویہ کو جواب دیا :میں نہیں چاہتا کہ ایسے شخص کے بارے میں گواہی دوں جو عثمان کے قتل میں شامل نہ تھا اور اگر میں گواہی دیتا تو لوگ ضرور قبول کرلیتے ،معاویہ اس کا جواب سن کر ناراض ہوا اور اسے نکال دیا اور اس کو کوئی مقام ومنصب نہیں دیا۔

عبیداللہ نے اپنے شعر میں کچھ ترمیم کرکے اس طرح بیان کیا کہ ،اگرچہ علی عثمان کے قتل میں شامل نہ تھے لیکن ان کے قاتلوں نے علی کے پاس پناہ لی اور انہوں نے نہ ان کے کام کو برا کہا اور نہ

ہی کہااور میں عثمان کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ انہوں نے توبہ کرلی تھی اور بعد میں قتل ہوئے۔(۱) عمرکے بیٹے کا معاویہ کے ساتھ اتنا ہی محبت سے پیش آنا کافی تھا اور اسی محبت کی وجہ سے اس کا دل جیت لیا اور اسے اپنے مقربین میں شامل کر لیا۔

_______________________________

(۱) واقعہ صفین : ص ۸۴،۸۲

۵۱۱

قاتلان عثمان کے کو سپرد کرنا ایک مشکل مرحلہ تھا

معاویہ نے امام علیہ السلام کے خلاف جو لشکر جمع کیا اس کے لئے سب سے بڑا بہانہ یہ تھا کہ امام علیہ السلام عثمان کے قاتلوں کی حمایت کررہے ہیں۔

عثمان کے قتل کی علتیں تفصیل کے ساتھ بیان ہو چکی ہیں یہاں پر جس چیز کا تذکرہ کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ہجوم کرنے والوں کی معاشرے میں شخصیت ایسی تھی کہ خود علی علیہ السلام ان لوگوں کو معاویہ کے حوالے نہیں کرسکتے تھے، یہ بات درست ہے کہ کچھ لوگوں نے عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا تھااور کچھ نے انہیں قتل کیا

تھا لیکن خلفاء کے اموی والیوں کے ظلم وستم کی وجہ سے لوگوں کی نظر میں یہ گروہ اتنی اہمیت کا حمل ہوگیا تھا کہ ان کا معاویہ کے حوالے کرنا بہت بڑی مشکل کو دعوت دینا تھا، اس سلسلے میں ذیل کے واقعے پر توجہ فرمائیں۔

علی کے ساتھ جنگ کرنا آسان کام نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ یمن کا زاہد ابو مسلم خولانی جوکہ شام میں سکونت پذیر تھا، کو جب یہ خبر ملی کہ معاویہ علی کے ساتھ جنگ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو قاریوں کے گروہ کے ساتھ معاویہ کے پاس گیا اوراس سے پوچھا ،کیوں علی کے ساتھ جنگ کرنا چاہتے ہو جب کہ کسی بھی زاویہ سے تو ان کے برابر نہیں ہوسکتا؟ نہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ان کی جیسی مصاحبت تجھے نصیب ہے نہ تمہارے پاس سابقہ اسلام ہے، اور نہ ہی ہجرت اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خویشاوندی تمہیں حاصل ہے ، معاویہ نے ان لوگوں کے جواب میں کہامیں ہرگزاس بات کا دعویٰ نہیں کرتا کہ علی کی طرح میرے فضائل ہیں، لیکن میں تم سے پوچھتا ہوں کہ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ عثمان کا قتل بے گناہ ہوا ہے؟ ان لوگوں نے جواب دیا ہاں، پھر اس نے کہا علی عثمان کے قاتلوں کو میرے حوالے کردیں تاکہ میں ان سے عثمان کے خون کا بدلہ لوں ۔ ایسی صورت میں ہم ان سے جنگ نہیں کریں گے۔

۵۱۲

ابو مسلم اور اس کے ہمفکروں نے معاویہ سے درخواست کی کہ علی کے نام خط لکھے، معاویہ نے اس سلسلے میں خط لکھا اور ابومسلم کو دیا تاکہ وہ امام تک پہونچا دے ( ہم معاویہ کا خط اور امام علیہ السلام کا جواب بعد میں ذکر کریں گے)۔

ابو مسلم کوفہ میں داخل ہوا اور معاویہ کا خط علی علیہ السلام کے سپردکرکے کہا:

آپ نے ایسا کام اپنے ذمہ لیا ہے کہ خدا کی قسم مجھے ہرگز پسند نہیں کہ وہ آپ کے علاوہ کسی دوسرے کے ذمہ ہو لیکن عثمان جو ایک محترم مسلمان تھے بے گناہ مظلومیت کے ساتھ مارے گئے ان کے قاتلوں کو ہمارے حوالے کردیں آپ میرے پیشوا وحاکم ہیں اگر آپ کی کوئی مخالفت کرے گا تو ہمارے ہاتھ آپ کی مدد کریں گے اور ہماری زبانیں آپ کے لئے گواہی دیں گی اور اس صورت میں آپ پر کوئی ذمہ داری نہ ہوگی۔

امام نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا صرف یہ فرمایا،کہ کل آنا اور اپنے خط کا جواب لے لینا دوسرے دن ابومسلم اپنے خط کا جواب لینے امام علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا تو دیکھا کہ بہت بڑا مجمع مسجد کو فہ میں ہے اور سب کے سب اسلحوں سے مسلح ہیں اور یہ نعرہ لگارہے ہیں ، ہم عثمان کے قاتل ہیں ابومسلم نے یہ منظر دیکھا اور امام علیہ السلام کی خدمت میں جواب کے لئے گیا اور امام سے کہا

میں نے ان لوگوں کو دیکھا کیا یہ آپ کے ساتھ رابطہ رکھتے ہیں ؟ امام نے کہا : تم نے کیا دیکھا؟ ابومسلم نے کہا: ایک گروہ تک یہ خبر پہونچی ہے کہ آپ عثمان کے قاتلوں کو ہمارے حوالے کرنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ سب جمع ہوگئے ہیں اور مسلح ہوگئے ہیں اور نعرہ لگارہے ہیں کہ سب کے سب عثمان کے قتل میں شریک ہیں، علی علیہ ا لسلام نے فرمایا:

۵۱۳

خدا کی قسم ! میں نے ایک لمحے کے لئے بھی یہ ارادہ نہیں کیا کہ ان لوگوں کوتمہارے حوالے کروں ،میں نے اس سلسلے میں بہت زیادہ تحقیق کی ہے اوراس نتیجے پر پہنچا کہ یہ صحیح نہیں ہے کہ ان لوگوں کو تمہارے یا تمہارے علاوہ کسی کے حوالے کروں۔(۱)

یہ واقعہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ اس زمانے میں عثمان کے قاتلین اہم حیثیت کے مالک تھے اور ان لوگوں کو کسی کے حوالے کرنا ایک عظیم خونی جنگ کو دعوت دینے کے برابر تھا۔

لوگوں کا یہ اجتماع ایک فطری امر تھا ورنہ امام علیہ السلام ابو مسلم خولانی کے سوال کا جواب دینے میں لاعلمی کا اظہا ر نہیں کرتے ، یہ ابومسلم کی سادگی تھی کہ اس نے بھرے مجمع میں اپنے آنے کا سبب بیان کردیا اور یہ خبر دھیرے دھیرے سب تک پہونچ گئی جس کی وجہ سے انقلابی لوگ جو خلیفہ سوم کے حاکموں کے ظلم وستم سے تنگ آگئے تھے اسی وجہ سے انہیں قتل کیا تھا، آپس میں متحد ہوگئے ،اور اگر امام علیہ السلام نے کہا کہ ہم نے اس مسئلے کی تحقیق کی ہے کہ کسی بھی صورت میں مناسب نہیں ہے کہ ان لوگوں کو شامیوں یا کسی اور کے حوالے کریں تو وہ اسی وجہ سے تھا کہ ان میں سے کسی ایک کے بارے میں فیصلہ کرنا تمام لوگوں کے اندر اشتعال کا باعث بن جاتا ۔

اس کے علاوہ قصاص (خون کا بدلہ ) کی درخواست کرنا مرنے والے کے ولی کا حق ہوتاہے اور وہ عثمان کے بیٹے تھے نہ کہ معاویہ ،جو اس کا بہت دور کا رشتہ دار تھا اس نے عثمان کے قتل کو حکومت تک پہنچنے کا ایک بہانہ بنایا تھا۔

_______________________________

(۱) وقعہ صفین ص۸۵،۸۶، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۵اص ۷۵،۷۴

۵۱۴

چودہویں فصل

جنگ صفین کے لئے امام کی فوج کی آمادگی

نخلیہ میں امام کی فوج کی پیش قدمی

ابو سفیان کے بیٹے کی وقت برباد کرنے والی سیاست کا خاتمہ ہوا اور خط اور عظیم شخصیتوں کو روانہ کرکے وہ جس مقصدکو حاصل کرنا چاہتاتھا حاصل کرلیا، اس عرصے میں اس نے اپنی فوج کو خوب مضبوط کرلیااور اپنے جاسوسوں کو چاروں طرف روانہ کردیاتاکہ امام علیہ السلام کے بعض حاکموں کو دھوکہ دیں اور آپ کی فوج کے اندر پھوٹ ڈال دیں ۔امام علیہ السلام ۲۵ ذی الحجہ ۳۵ہجری کو رسول خدا (ص)کی طرف سے منصوص خلافت کے علاوہ ظاہری خلافت پر بھی فائز ہوئے(۱) اور تمام مہاجرین و انصار نے آپ کے ہاتھ پر بعنوان خلیفہ مسلمین بیعت کی، آپ نے اپنی حکومت کے ابتدائی دنوں میں ہی سبرہ جہمی نامی قاصد کے ہمراہ معاویہ کو خط بھیجا کہ وہ مرکزی حکومت کی اطاعت کرے لیکن اس نے سوائے خود خواہی،خود غرضی،ڈرانے دھمکانے، رعب و دبدبہ، خطوط کے روانہ کرنے اور تہمت لگانے اور قاصد کو بھیجنے اور حضرت علی علیہ السلام کو معطل کرنے کے کچھ نہیں کیا اب وہ وقت آچکا تھا کہ امام علیہ السلام ابو مسلم خولانی کے توسط سے آئے ہوئے خط کا جواب دے کر جنگ کریں اوراس شجرۂ خبیثہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں، اسی وجہ سے آپ نے شوال ۳۶ء کے اوائل میں فوج روانہ کرنے کا ارادہ کیااور اس کے پہلے مہاجرین وانصار کو بلایا اور اس آیت کے حکم کے مطابق'' وشاورھم فی الأمر' ' ان کے بزرگوں سے جو آپ کے ساتھ مدینہ سے آئے تھے اور آپ کے ہمراہ تھے اس طرح فرمایا :

''انکم میامین الرّأی، مراجیح الحلم، مقاویل بالحق، مبارکو الفعل والأمرِ، وقدأردنا المسیر اِلیٰ عَدوِّنا وَعدوِّ کم فأ شیروالیناٰ برأیکم'' (۲)

تم لوگ بہترین رائے و مشورہ کرنے والے، بردبار و حلیم، حق کہنے والے،اور ہمارے معاشرے

_______________________________

(۱) تاریخ طبری ج۴ص۴۵۷۔تاریخ یعقوبی.ج۲ص۱۷۸ مطبوعہ بیروت.

(۲)۔ وقعہ صفین ص ۹۲

۵۱۵

کے بہترین و صاحب کردار ہو، ہم لوگ اپنے اور تمھارے دشمن کی طرف بڑھناچاہتے ہیں تم لوگ اس سلسلے میں اپنا نظریہ بیان کرو۔

مہاجرین کے گروہ میں سے ہاشم بن عتبہ بن ابی وقّاص اٹھا اور کہنے لگا:

اے امیرالمومنین ، ہم لوگ ابوسفیان کے خاندان کو بہت اچھی طرح پہچانتے ہیں وہ آپ اور آپ کے شیعوں کے دشمن اور دنیا پرستوں کے دوست ہیں، اور حصول دنیا کے لئے اپنی پوری قوت و طاقت کے ساتھ اس سے آپ کے خلاف آپ سے جنگ کریں گے اس سلسلے میں وہ کسی بھی چیز سے دریغ نہیں کریں گے اس کے علاوہ ان کا کوئی اور مقصد نہیں ہے ۔ ان لوگوں نے سیدھے سادھے لوگوں کو بہکانے کے لئے عثمان کے خون کا بہانہ بنایا ہے۔ وہ لوگ جھوٹے ہیں اور اس کے خون کا بدلہ نہیں لینا چاہتے تھے بلکہ وہ دنیا چاہتے تھے ہم لوگوں کو اجازت دیں کہ ان کے مقابلے کے لئے جائیں اور اگر ان لوگوں نے حق کی باتیں مان لیں توکوئی بات نہیں ، لیکن اگر تفرقہ اور جنگ کرنے کے خواہاں ہوئے اور میرا گمان بھی یہی ہے کہ وہ لوگ اس کے علاوہ کچھ اور نہیں چاہتے تو ہمیں چاہیے کہ ان کے ساتھ جنگ کریں۔اس وقت مہاجرین میں سے ایک اور عظیم شخصیت اٹھی جس کے بارے میں پیغمبر نے فرمایا ہے''عمار مع الحقِّ والحقّ مع عّمار یدورمعه حیث مادار'' (۱)

اے امیر المومنین : اگر ممکن ہوتو ایک دن بھی دیر نہ کریں ہم لوگوں کو ان کی طرف روانہ کریںاور قبل اس کے کہ وہ فاسد لوگ جنگ کی آگ روشن کریں اور مقابلہ کرنے کی تیاری اور حق سے جدائی کا ارادہ کریں، ان لوگوں کو جس میں ان کے لئے سعادت ہے ا سکی طرف دعوت دیں اگر ان لوگوں نے قبول کرلیا تو ٹھیک ہے اور اگر مقابلہ کرنے کے لئے آمادہ ہوئے تو ان کے ساتھ جنگ کریں خدا کی قسم ان لوگوں کا خون بہانااور ان لوگوں کے ساتھ جہاد کرنا خداکا قرب اور اس کی طرف سے ہمارے لئے لطف وکرم ہے۔

مہاجرین کے ان دو اہم افراد کی تقریر نے کچھ حد تک زمینہ فراہم کیا۔ اب وقت تھاکہ انصار کی طرف سے بھی عظیم شخصیتیں اس سلسلے میں اپنا نظریہ پیش کریں ۔ اس وقت قیس بن سعد بن عبادہ نے کہا : ہمیں جلد سے جلد دشمن کی طرف روانہ کریں خدا کی قسم، ہمارے لئے ان کے ساتھ جنگ کرنا روم کے

_______________________________

(۱)طبقات ابن سعد ،ج،۳۔ص ۱۸۷ (مطبوعہ لیدن)

۵۱۶

ساتھ جہاد کرنے سے بہتر ہے، کیونکہ یہ لوگ اپنے دین میں مکروفریب کررہے ہیں اور خدا کے اولیائ(مہاجرین وانصار ) اور وہ لوگ جوان کے ساتھ نیکی کرتے ہیں انہیں ذلیل و خوار سمجھتے ہیں وہ لوگ ہمارے مال کو حلال اور ہمیں اپنا غلام سمجھتے ہیں ۔

جب قیس کی گفتگو ختم ہوئی تو خزیمہ بن ثابت اور ابو ایوب انصاری اس کے جلد بازی کے فیصلے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بہتر تھا کہ تھوڑا صبر کرتے تاکہ تم سے بزرگ لوگ اپنا نظریہ پیش کرتے ، اس وقت انصار کے سرداروں کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا تم لوگ اٹھو اور امام علیہ السلام کے سامنے اپنے نظریہ کا اظہار کرو،

سہل بن حنیف ،جو انصار کی عظیم شخصیت تھی اس نے کہا:اے امیر المومنین : ہم آپ کے اور آپ کے دوستوں کے دوست اور آپ کے دشمنوں کے دشمن ہیں ، ہمارا نظریہ آپ کا نظریہ ہے ہم لوگ آپ کا داہنا بازو ہیں، لیکن ضروری ہے کہ یہ کام کوفہ کے لوگوں کے لئے انجام دیجئے اور ان لوگوں کو جنگ کرنے کی دعوت دیجئیے اور جو فضیلتیں انہیں نصیب ہوئی ہیں ان سے انہیں باخبر کیجئے چاہے وہ لوگ اس سرزمین اوریہاں کے لوگ سمجھے جائیں ، اگر وہ لوگ آپ کی آواز پر لبیک کہیں تو آپ کا مقصد پورا ہوجائے گا، ہم لوگ ذرہ برابر بھی آپ کے نظریہ کے خلاف نہیں ہیں آپ جب بھی ہمیں بلائیں گے ہم حاضر ہوں گے اور جب بھی کوئی حکم دیں گے اس پر عمل کریں گے۔(۱)

سہل کی گفتگو اس کے کامل العقل ہونے کی حکایت کرتی ہے، کیونکہ اگرچہ مہاجرین و انصار امام علیہ السلام کے ہمرکاب تھے اور اسلامی امت کی عظیم شخصیت شمار ہوتے تھے اوران لوگوں کا اتحاد معاشرہ کی بیداری میں بہترین اثر رکھتا تھا لیکن فی الحال امام علیہ السلام کا لشکر عراقی افراد نے تشکیل دیا تھا اور ان کے درمیان قبیلوں کے بزرگ تھے بغیر ان کے اعلان کئے ایک لاکھ کا لشکر جمع کرنا ممکن نہ تھا لیکن امام علیہ السلام نے سب سے پہلے مہاجرین و انصار سے کیوں مشورہ کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ امام علیہ السلام کی حکومت کے بانی اور تمام مسلمانوں کی توجہ کا مرکز تھے اور بغیر ان کو اپنائے ہوئے عراقیوں کو اپنی طرف مائل کرنا ممکن نہ تھا۔

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص ۹۳،۹۲

۵۱۷

امام علیہ السلام کی تقریر

امام علیہ السلام نے سہل کے مشورہ کے بعداپنے خصوصی مشاورتی جلسہ کو ایک عظیم اجتماع میں تبدیل کردیا۔ اس عظیم اجتماع میں اکثر افراد شریک تھے منبر پر تشریف لے گئے اور با آواز بلند فرمایا:

''سیروا اِ لیٰ اعدائِ اللّه ، سیروا اِلیٰ اعدائِ السنن والقرآن، سیروا اِلیٰ بقیة الاحزاب، قتلةِ المهاجرین والانصار''

خدا کے دشمنوں کی طرف حرکت کرو ، قرآن اور پیغمبر کی سنتوں کے دشمنوں کی طرف حرکت کرو اور، بقیہ بچے ہوئے (احزاب) اور مہاجرین و انصار کے قاتلوں کی طرف حرکت کرو۔

اس وقت قبیلہ بنی فزار کے اربد نامی شخص نے اٹھ کر کہا:

آپ چاہتے ہیںکہ ہم لوگوں کو شام روانہ کریں تاکہ اپنے بھائیوں کے ساتھ جنگ کریں جس طرح بصرہ بھیجا تھا اور ہم نے اپنے بصری بھائیوں کے ساتھ جنگ کی؟ نہیں ، خدا کی قسم ہم ایسا کام انجام نہیں دیں گے۔

اس وقت مالک اشتر کھڑے ہوئے اور پوچھا یہ کون شخص ہے؟ جیسے ہی مالک اشتر کے منہ سے یہ جملہ نکلا سب کے سب اس کی طرف متوجہ ہوگئے اور وہ لوگوں کے حملہ کے خوف سے فرار ہوگیا اور مال بیچنے والوں کے بازار میں پناہ لے لی اور لوگ طوفان کی طرح اس کا پیچھا کرنے لگے اور اسے تلوار کے غلاف، ہاتھ پیر سے اتنا مارا کہ وہ مرگیا، جب اس کی موت کی خبر امام علیہ السلام کو ملی تو آپ بہت ناراض ہوئے کیونکہ اس کی گستاخی کی سزا یہ نہیں تھی کہ اسے اس طرح قتل کردیا جائے ، اسلامی عدالت کا تقاضا یہ تھا کہ اس کے قاتل کے بارے میں تحقیق وجستجو کی جائے اور اس تحقیق کا نتیجہ یہ معلوم ہوا کہ وہ '' ہمدان'' قبیلہ اور کچھ لوگوں کے ذریعہ قتل ہوا ہے اور اس کا کوئی ایک قاتل نہیں ہے امام علیہ السلام نے فرمایا : یہ اندھا قتل ہے کہ اس کے قاتل کی خبر نہیں ہے لہٰذا اس کی دیت بیت المال سے ادا کی جائے اور آپ نے ایسا ہی کیا۔(۱)

_______________________________

(۱) وقعہ صفین۔ص۹۵،۹۴

۵۱۸

مالک اشتر کی تقریر

یہ غیر متوقع واقعہ امام علیہ السلام کی ناراضگی کا سبب بنا اگرچہ آپ نے حکم دیا کہ اس کی دیت بیت المال سے ادا کی جائے مگر آپ کے چہرے پر ناراضگی کے اثرات نمایاں تھے، اسی وجہ سے امام علیہ السلام کے دلعزیز اور چاہنے والے مالک اشتر اٹھے اور خدا کی حمد وثناء کے بعد کہا:

اس واقعہ سے آپ پریشان نہ ہوں، اس بد بخت خیانت کارکی گفتگو آپ کو مدد و نصرت کرنے والوں سے مایوس نہ کرے، یہ سیلاب کی طرح امڈتا ہوا مجمع جو آپ دیکھ رہے ہیں سب کے سب آپ کے پیرو ہیں اور آپ کے علاوہ کسی اور چیز کو نہیں چاہتے اورآپ کے بعد زندہ نہیں رہنا چاہتے اگر ہمیں دشمنوں کی طرف بھیجنا چاہتے ہیں تو بھیج دیجیئے خدا کی قسم اگر کوئی شخص موت سے ڈرتا ہے تو اس سے نجات حاصل نہیں کرسکتا اور جو شخص زندگی چاہتا ہے اسے نہیں دی جائے گی اور ان لوگوں کے ساتھ بدبخت اور شقی شخص کے علاوہ کوئی دوسرا زندگی گزارنا نہیں چاہتا اور ہم لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ کوئی بھی شخص اس وقت تک موت کی آغوش میں نہیں جاسکتا جب تک کہ اس کی موت کا وقت نہ آچکا ہو، کس طرح سے ہم ان لوگوں سے جنگ نہ کریں جنہیں آپ نے خدا اور قرآن اور سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دشمن اور مہاجرین وانصار کے قاتل کے طور پر بتایاہے؟ کل انہیں میں سے کچھ لوگوںنے (بصرہ میں ) مسلمانوں کے کچھ گروہ پر حملہ کر کے خدا کو غضبناک کیا تھا اور زمین ان کے برے کاموں کی وجہ سے تاریک ہوگئی تھی ان لوگوں نے اپنے آخرت کے حصے کو اس دنیا کے تھوڑے سے مال ودولت کے لئے بیچ دیا ، امام علیہ السلام مالک اشتر کی تقریر سننے کے بعد لوگوں سے مخاطب ہوئے اور فرمایا:

'' الطریق مشترک والناسُ فی الحقِّ سوائ ومن ِ اجتهدَ رأیُهُ فی نصیحة العامّة ِ فله مانویٰ وقد قضیٰ ما علیه ''

یہ راستہ ، عمومی راستہ ہے او ر لوگ حق کے مقابلے میں برابر ہیں اور وہ شخص جو خود اپنی نظر ورائے سے معاشرے کے لئے اچھائی کرے تو خدا اس کی نیت کے مطابق اسے جزا دے گا اور وہ کام جو '' فزاری'' نے انجام دیا وہ ختم ہوگیا ۔(۱)

آپ اتنا کہہ کر منبر سے نیچے تشریف لائے اور اپنے گھر واپس چلے گئے۔

_______________________________

(۱) وقعہ صفین۔ص۹۵

۵۱۹

امام کے لشکر میں معاویہ کے نفوذ کے عوامل

فوجیوں اور لشکریوں کے اندراپنا اثرورسوخ پیدا کرنا،گروہ مخالف کے کمانڈروں کو درہم و دینار کے ذریعے خریدنا، بڑی طاقتوںکی بڑی پرانی روشن رہی ہے ابو سفیان کا بیٹا اس فن میں ایک نابغہ اور ماہر تھا۔

ایک گروہ کی نظر میں سیاست کا مطلب یہ ہے کہ انسان کسی بھی صورت سے چاہے وہ شرعی اعتبار سے ہو یا غیر شرعی لحاظ سے اپنے مقصد تک پہونچ جائے اور ان لوگوں کا فلسفہ یہ ہے کہ مقصد اور ہدف ایک توجیہی وسیلہ ہے سادہ لوح افراد جن لوگوں نے معاویہ کی ظاہری کامیابی کو علی علیہ السلام سے زیادہ سمجھی تھی ان لوگوں نے امام علیہ السلام پر الزام لگایا کہ وہ سیاست کے رموز و اسرار سے واقف نہیں ہیں اور معاویہ ان سے زیادہ سیاسی سوج بوج رکھتا ہے اسی وجہ سے امام علیہ السلام اسلامی سیاست کے تمام اصول و قوانین سے بے بہرہ تنقید کرنے والوں کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :

'' واللّهِ ما معاویةُ بأدهیٰ منّی ولکنّه یغدرُ ویفجرُ ولولا کراهیةُ الغدر لکنتُ من أدهیٰ الناس ولکنَّ کلَّ غدرِةٍ فجرة وکلَّ فجرةٍ ضلالة ولکلِ غادِرٍ لوائُ یعرفُ به یوم القیامة'' (۱)

''خدا کی قسم معاویہ مجھ سے زیادہ سیاست مدار نہیں ہے لیکن وہ دھوکہ کرتاہے اور گناہ کرتاہے اور اگر دھوکہ بازی اور حیلہ گری میں کراہت نہ ہوتی تومیں لوگوں میں سب سے زیادہ سیاست مدار ہوتا، لیکن ہر طرح کی چالبازی اور فریب گناہ ہے اور ہرگناہ ایک قسم کا کفر ہے اور قیامت کے دن ہر دھوکہ باز کے ہاتھ میں ایک مخصوص قسم کا پرچم ہوگا جس کے ذریعہ سے وہ پہچان لیا جائے گا''۔

اس بنا پر کہ ہماری گفتگو دلیل یا شاہد سے خالی نہ ہو معاویہ کی چالبازیوں اور مکاریوں کے چند نمونوں کو یہاں پر بیان کررہے ہیں جن کے ذریعہ سے اس نے امام علیہ السلام کی فوج میں نفوذ پیدا کیا تھا ۔

معاویہ کے خلاف جنگ کرنے کے سلسلے میں جو امام علیہ السلام کی تقریر کا اثر ہوا اس کی توصیف ممکن

_______________________________

(۱) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ۱۹۵

۵۲۰

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

تاریخ دہراتی ہے

یہ واقعہ بذات خود بے مثال نہیں ہے بلکہ جنگ صفین میں کم وبیش اس طرح کا واقعہ ہوا ہے جس میں بعض کی طرف ہم اشارہ کررہے ہیں۔

۱۔ نعیم بن صہیب بَجلی عراقی قتل ہوا اس کاچچازاد بھائی نعیم بن حارث بَجلی جو شام کی فوج میں تھا ، اس نے معاویہ سے اصرار کیا کہ اپنے چچازاد بھائی کی لاش کو کپڑے سے چھپادے، لیکن اس

نے اجازت نہیں دی اور بہانہ بنایا کہ اسی گروہ کے خوف سے عثمان کو رات میں دفن کیا گیا لیکن بَجلی شامی نے کہا یا تو یہ کام انجام پائے گایا تجھے چھوڑ دوں گا اور علی کے لشکر میں شامل ہوجاؤں گاآخرکار معاویہ نے اسے اجازت دی کہ اپنے چچا زاد بھائی کے جناز ے کو دفن کردے۔(۱)

۲۔ قبیلۂ ازد کے دو گروہ آمنے سامنے تھے ان دونوں قبیلوں میں سے ایک قبیلے کے سردار نے کہا سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ ایک ہی قبیلہ کے دو گروہ ایک دوسرے سے مقابلے کے لئے آمادہ ہیں۔ خدا کی قسم، ہم اس جنگ میں اپنے ہاتھوں سے اپنے ہاتھ پیر کاٹنے کے علاوہ کچھ اور نہیں کر سکتے اور اگر یہ کام انجام نہ دیا تو ہم نے اپنے رہبر اور قبیلے کی مدد نہیں کی، اور اگر انجام دیں تو اپنی عزت کو برباد اور اپنی زندگی کی لو کو خاموش کردیا ہے۔( ۲)

۳۔ شامیوں میں سے ایک نے میدان ِ میں قدم رکھا اور جنگ کی دعوت دی ،عراق کا ایک شخص اس سے مقابلہ کرنے کے لئے مید ان میں آیا اور دونوںنے زبردست حملے کئے بالآخر عراقی نے شامی کی گردن پکڑی اور اسے زور سے زمین پرپٹک دیا اور اس کے سینے پر بیٹھ گیا جس وقت اس نے خودشامی کے چہرے سے نقاب اور سر سے ٹوپی اتاری تو دیکھا کہ اس کا اپنا بھائی ہے! اس نے امام علیہ السلام کے دوستوں سے کہا کہ امام علیہ السلام سے کہو کہ اس مشکل کو حل کریں۔ امام علیہ السلام نے حکم دیا کہ اُسے آزاد کردو لہٰذا اس نے آزاد کردیا اس کے باوجود وہ دوبارہ معاویہ کی فوج میں شامل ہوگیا۔(۳)

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص۲۵۹۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۰۷۔ تاریخ طبری ج ۳جزئ۶، ص۱۴،کامل ابن اثیرج ۳ص۱۵۴۔---(۲) وقعہ صفین ص۲۶۲۔ تاریخ طبری ج ۳،جزئ۶، ص۱۵۔شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵،ص۲۰۹۔---(۳)وقعہ صفین ص۲۷۲۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۱۵۔

۶۰۱

۴۔ معاویہ کی فوج سے ایک شخص بنام ''سوید'' میدان میں آیا اور مقابلے کے لئے للکارا امام علیہ السلام کی فوج سے قیس میدان میں آئے، جب دونوں نزدیک ہوئے تو ایک دوسرے کو پہچان گئے اور دونوں نے ایک دوسرے کو اپنے رہبر و پیشوا کی طرف آنے کی دعوت دی، قیس نے امام علیہ السلام سے اپنی محبت و ایمان کو اپنے چچازاد بھائی سے بیان کیااور کہا،وہ خدا کہ جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے اگر ممکن ہوتا تو اس تلوار سے اس سفید خیمے(معاویہ کا خیمہ) پر اتنا زبردست حملہ کرتا کہ صاحب خیمہ کا کوئی آثار باقی نہ رہتا۔(۱)

شمر بن ذی الجوشن امام علیہ السلام کی رکاب میں

تعجب کی بات (ایسی حیرت و تعجب جس کی کوئی انتہاء نہیں ہے) یہ ہے کہ شمر جنگ صفین میں امام علیہ السلام کے ہمراہ تھا، اور میدان جنگ میں''ادھم''نام کے ایک شامی نے اس کی پیشانی پر سخت ضربت لگائی جس سے اس کی ہڈی ٹوٹ گئی،وہ بھی بدلہ لینے کے لئے اٹھا اور شامی پر تلوار سے زبردست حملہ کیا، مگر کوئی فائدہ نہ ہوا، شمر اپنی توانائی واپس کرنے کے لئے اپنے خیمے میں پانی پیا اور ہاتھ میں نیزہ لے لیا پھر میدان میں آگیا اس نے دیکھا کہ شامی اسی طریقے سے اپنی جگہ پر کھڑا ہے، اس نے شامی کو مہلت نہ دی اور اپنا نیزہ اس کے اوپر اس طرح مارا کہ وہ گھوڑے سے زمین پر گر گیا اور اگر فوج شام سے لوگ اسکی مدد کو نہ پہونچتے تو اسے قتل کردیتا اس وقت شمر نے کہا یہ نیزہ کی مار اس حملہ کے مقابلے میں ہے۔(۲)

______________________

(۱)وقعہ صفین ص۲۶۸۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۱۳۔

(۲)تاریخ طبری ج ۳جزئ۶، ص۱۸۔شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۱۳۔

۶۰۲

شہادت پر فخر و مباہات

شہادت اور اللہ تعالیٰ سے عشق و محبت پر مومنین اور قیامت پر ایمان و اعتقاد رکھنے والے ہی افتخار کرتے ہیں اورمقد س مقصد کے تحت جنگ کرتے ہیں اور یہ افتخار اور فخرو مباہات ایک ایسی ثقافت ہے جو دوسری قوموں میں نہیں ، شہادت سے عشق و محبت قیام و جہاد کے لئے ایک بہترین محرّک اور علت ہے، شہید اپنی چند روزہ زندگی کو ابدی زندگی سے اسی عقیدے کی بنا پر تبدیل کرتا ہے اور پھر وہ اپنے مقصد کے پیش نظر کسی کو نہیں پہچانتا ہے۔

جنگ صفین کے زمانے میں ایک دن فوج شام کے قبیلۂ بنی اسد کا ایک بہادر سپاہی میدان میں آیا اور جنگ کے لئے بلایا عراقی فوجی اس بہادر کو دیکھ کر پیچھے ہٹنے لگے اچانک ایک ضعیف شخص بنام''مقطّع عامری'' اٹھا تاکہ بنی اسد کے اس شخص سے لڑنے کے لئے میدان میںجائے،لیکن جب امام علیہ السلام متوجہ ہوئے تو اسے میدان جنگ میں جانے سے منع کردیا، ادھر اس شامی بہادر کیهَلْ مِنْ مبارز کی بلند آواز نے لوگوں کے کانوں کوبہرا کر دیا تھا۔ ادھر ہر مرتبہ و ہ ضعیف جو شہادت کا عاشق تھا اپنی جگہ سے مقابلے کے لئے اٹھتا تھا لیکن امام اُسے منع کردیتے تھے، اس ضعیف نے عرض کیا اے میرے مولا، اجازت دیجیے کہ اس جنگ میں شرکت کروں تا کہ شہید ہو جاؤں اور بہشت کی طرف جاؤں یا اسے قتل کردوںاور اس کے شرّ سے آپ کو امان دوں ، امام علیہ السلام نے اس مرتبہ اسے اجازت دی اور اس کے حق میں دعا کی۔

۶۰۳

اس دلیر اور بہادر کے عاشقانہ حملے نے اس بہادر شامی کے دل میں ایسا رعب پیدا کر دیا کہ اسے بھاگنے کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہ آیا۔ اور اتنا دور ہوگیا کہ خود کو معاویہ کے خیمے کے پاس پہونچا دیا لیکن اس بوڑھے مجاہد نے اس کا وہاں تک پیچھا کیا اور جب اس کو نہ پایا تو اپنی جگہ پر وآپس آگیا۔ اور جب علی علیہ السلام کی شہادت ہوگئی اور لوگوں نے معاویہ کے ہاتھ پر بیعت کی تو معاویہ نے مقطّع عامری کو تلاش کرایا اور اسے اپنے پاس بلایا،مقطّع جب کہ پیری اور ضعیفی کی زندگی بسر کر رہے تھے معاویہ کے پاس آئے۔

معاویہ:بھائی ، اگر تم ایسی حالت میں(بہت بڑھاپا اور ضعیفی میں ) میرے پاس نہ آئے ہوتے تو ہرگز میرے ہاتھ سے نہ بچتے (یعنی قتل کردیتا)

عامری:میں تجھے خدا کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ مجھے قتل کردے اور ایسی ذلت کی زندگی سے مجھے نجات دیدے اور خدا کی ملاقات سے نزدیک کردے۔

معاویہ: میں ہرگز تمھیں قتل نہیں کروں گا بلکہ مجھے تمہاری ضرورت ہے۔

عامری: تیری حاجت کیا ہے؟

معاویہ: میری حاجت ہے کہ میں تمھارا بھائی بنوں۔

عامری: میں خدا کے لئے تجھ سے پہلے ہی جدا ہوچکا ہوں اور اسی حالت پر باقی ہوں تاکہ خدا وند عالم قیامت کے دن ہم لوگوں کو اپنے پاس بلائے اور ہمارے اور تمھارے درمیان فیصلہ کرے۔

معاویہ: اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کردو۔

عامری: میں نے اس سے آسان درخواست کو ٹھکرادیا تو پھر یہ درخواست کہا ں (قبول کرسکتا ہوں)

معاویہ: مجھ سے کچھ مال لے لو۔

۶۰۴

عامری: مجھے تمھارے مال کی ضرورت نہیں ہے۔(۱)

ایک فوجی حکمت عملی

دسویں دن یا اس کے بعد جب کہ عراقیوں اور شامیوں کی سواروںکے درمیان گھمسان کی

جنگ ہو رہی تھی، امام علیہ السلام کی فوج کے ایک ہزار آدمیوں کا شامیوں نے محاصرہ کر لیا اور ان لوگوں کا رابطہ آپ سے منقطع ہوگیا اس وقت امام علیہ السلام نے بلند آواز سے فرمایا، کیا کوئی نہیں ہے جو خدا کی رضاخریدے اور اپنی دنیا کو آخرت کے بدلے بیچ دے؟ عبدالعزیز کا لے گھوڑے پر سوار اور زرہ پہنے ہوئے آنکھ کے علاوہ بدن کا کوئی حصّہ نظر نہیں آرہا تھا امام علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا آپ جو بھی حکم دیں گے اسے انجام دوںگا، امام علیہ السلام نے اس کے لئے دعا کی اور کہا: فوج شام پر حملہ کرو اور خود کو گھیرے ہوئے لوگوں تک پہونچا دو اور جب ان کے پاس پہونچنا تو کہنا کہ امیر المومنین نے تمھیںسلام کہا ہے اور کہا ہے کہ تم لوگ اس طرف سے تکبیر کہو اور ہم اس طرف سے تکبیر کہتے ہیں اور تم لوگ اس طرف سے اور ہم اس طرف سے حملہ کریں تاکہ محاصرہ کو ختم کردیںاور تم لوگوں کو آزادی مل جائے۔

امام علیہ السلام کے بہادر سپاہی نے فوج شام پرزبردست حملہ کیا اور اپنے کو محاصرہ ہوئے لوگوں تک پہونچایااور امام علیہ السلام کا پیغام پہونچایا، لوگ امام علیہ السلام کا پیغام سن کر بہت خوش ہوئے اور اس وقت تکبیر و تہلیل کی آوازاور دونوں طرف سے جنگ شروع ہوگئی اور محاصرہ ختم ہوگیا اور محاصرہ ہوئے لوگ امام علیہ السلام کے لشکرسے مل گئے۔ شامیوں کے آٹھ سو لوگ مارے گئے اورجو بچے وہ پیچھے ہٹ گئے اور جنگ وقتی طور پر رک گئی۔(۲)

_______________________________

(۱)۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۲۴،۲۲۳۔ وقعہ صفین ص ۲۷۸۔

(۲) شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۴۳۔ وقعہ ٔ صفین ص ۳۰۸۔

۶۰۵

شدیدجنگ کے دوران سیاسی ہتھکنڈے

امور جنگ کے ماہرین نے امام علی علیہ السلام کی فوج کے اجتماعی حملے کو ابتدأ ہی میں دیکھ کر یہ

سمجھ گئے تھے کہ جنگ میں اما م کے لشکر کو کامیابی ملے گی، کیونکہ وہ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ ہر دن جنگ کے حالات امام علیہ السلام کے حق میں جارہے ہیں اور معاویہ کی فوج نابودی اور موت کی طرف جا رہی ہے۔ یہ کامیابی ان علتوں کی بنأ پر تھی جس میں سے بعض کی طرف ہم اشارہ کر رہے ہیں:

۱۔ سب سے بڑے سردار کی شائستہ اور مدّبرانہ رہبری ،یعنی حضرت علی علیہ السلام ،اور اسی صحیح نظام ِ رہبری کی وجہ سے معاویہ کی فوج تقریباً اما م کے لشکر سے دوگنی تھی، قتل ہوئی (جنگ صفین کے واقعات نقل کرنے کے بعد دونوں فوج کے مرنے والوں کی تعداد تحریر کی جائے گی)

۲۔ امام علیہ السلام کی بے مثال شجاعت و بہادری کہ دنیا نے آج تک ایسا بہادر نہیں دیکھا، ایک دشمن کے قول کے مطابق، علی علیہ السلالم نے کسی بھی بہادر سے مقابلہ نہیں کیا مگر یہ کہ زمین کو اس کے خون سے سیراب کردیااس سور ما کی بنا پر عراقیوں کے سامنے سے بڑے بڑے شر ہٹا لئے گئے اور دشمنوں کے دل میں زبردست رعب بیٹھ گیا اور میدان جنگ میں ٹھہرنے کے بجائے بھاگنے کو ترجیح دیا۔

۳۔ امام علیہ السلام کی فوج کا آنحضرت کی فضیلت،خلافت،تقویٰ اور امامت برحق پر ایمان وعقیدہ رکھنا، جن لوگوں نے نص الہٰی کو رہبری کا ملاک سمجھااور جنہوں نے انصارو مہاجرین کے انتخاب کو معیار خلافت جانا، وہ سب کے سب امام علیہ السلام کے پرچم تلے حق و عدالت کے ساتھ باطل و سرکش سے جنگ کرنے آئے تھے، جب کہ معاویہ کی فوج کی حالت کچھ اورہی تھی،اگرچہ کچھ خلیفہ کے خون کا بدلہ لینے کے لئے معاویہ کے ساتھ آئے تھے اور ان کے لئے تلوار چلا رہے تھے مگر بہت زیادہ لوگ مادیت کی لالچ اور دنیا طلبی کے لئے اس کے ہمراہ آئے تھے اور ان میں سے بعض گروہ امام علیہ السلام سے دیر ینہ بغض وعداوت کی وجہ سے یہاں آئے تھے اور یہ حقیقت کسی بھی مؤرخ سے پوشیدہ نہیں ہے۔

۴۔ امام علیہ السلام کی فوج میں مشہور و معروف اور امت اسلامیہ کی محبوب شخصیتوں کا موجود ہونا، وہ عظیم شخصیتیں جنہوں نے پیغمبر اسلام (ص)کے ہمرکاب ہو کر بدر، اُحد ،حنین میں جنگیں کی تھیں اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی سچائی اور پاکیزگی پر گواہی دی تھی،

۶۰۶

ان لوگوں میں چند کا نام قابل ذکر ہے مثلاً عمار یاسر، ابوایوب انصاری،قیس بن سعد، حُجر بن عدی اور عبد اللہ بن بدیل ، جنہوں نے معاویہ کی فوج کے بہت سے خود غرض لیکن سادہ لوح سپاہیوں کے دل میں شک و تردید پیدا کر دی تھی، یہ علتیں اور دوسری چیزیں سبب بنیں کہ معاویہ اور اس کی دوسری عقل عمرو عاص نے اپنی شکست کو قطعی سمجھااور اس سے بچنے کے لئے سیاسی حربے چلنے لگا تاکہ امام علیہ السلام کی فوج کی کامیابی کو کسی بھی صورت سے روک سکے، اور وہ سیاسی حربہ، علی علیہ السلام کی فوج کے سرداروں سے خط و کتابت اور ان لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے اور امام کی فوج میں تفرقہ و اختلاف کرنے کا تھا۔

۱۔ جنگ صفین میں امام علیہ السلام کی فوج میںسب سے وفادار ربیعہ والے تھے اگرچہ قبیلۂ مُضَر والے اپنی جگہ سے ہٹ گئے لیکن قبیلہ ربیعہ والے پہاڑ کی طرح اپنی جگہ پر موجو د رہے. جب امام علیہ السلام کی نظر ان کے پرچموں پر پڑی تو آپ نے پوچھا کہ یہ پرچم کس کے ہیں لوگوں نے کہا یہ پرچم ربیعہ کے ہیں اس وقت آپ نے فرمایا:''هِیَ رایات عَصَمَ اللّٰه أهلهاو صبَّر هم و ثبّتَ اَقْدامهم'' (۱)

''یعنی یہ سب خدا کے پرچم ہیں خدا ان کے مالکوں کی حفاظت کرے اور انہیں صبر عطا کرے اور یہ ثا بت قدم رہیں''

امام علیہ السلام کو خبر ملی کہ اسی قبیلے کا ایک سردار خالد بن معمّر، معاویہ سے قریب ہوگیا ہے اور اس کے اور معاویہ کے درمیان ایک خط یا متعد د خطوط لکھے جاچکے ہیں تو امام علیہ السلام نے فوراً اس کواور قبیلہ ربیعہ کے بزرگوں کو طلب کیا اور ان سے فرمایا:اے قبیلہ ربیعہ کے لوگو ،تم لوگ میرے چاہنے والے اور میری آواز پر لبیک کہنے والے ہو، مجھے خبر ملی ہے کہ تمھارے سرداروں میں سے کسی ایک نے معاویہ کے ساتھ خط و کتابت کی ہے اور پھر خالد کی طرف نگاہ کی اور کہا : اگر تمھارے متعلق جو باتیں ہم تک پہونچی ہیں اگر وہ سچی ہیں تو میں تمھیں بخش دوں گا اور امان دوں گا لیکن شرط یہ ہے کہ عراق اور حجاز یا ہر وہ جگہ جہاںپر معاویہ کی حکومت و قدرت نہیں ہے وہاں جا کر زندگی بسر کرو اور اگر وہ چیزیں جو تمھارے متعلق ہم تک پہونچی ہیں جھوٹی ہیں تو ہمارے دھڑکتے ہوئے دل کواپنی مطمٔن قسم کے ذریعے آرام پہونچاؤ،اس نے اسی وقت سب

______________________

(۱)تاریخ طبری ج ۳جزء ۶ ص۱۹،۸۱۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۲۶،۲۲۵۔

۶۰۷

کے سامنے قسم کھائی کہ ہرگز ایسا نہیں ہے اس کے دوستوں نے کہا اگر یہ بات سچی ہوگی تو اسے قتل کردیں گے اور انہیں میں سے ایک شخص زید بن حفصہ نے امام علیہ السلام سے کہا خالد کی قسم پر آپ کوئی چیز بطور ضمانت رکھئے تاکہ آپکے ساتھ خیانت نہ کرے(۱)

تمام قرأین سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امام علیہ السلام کی فوج میں وہ معاویہ کی طرف سے خصوصی نمائندہ تھا اور کامیابی کے وقت یہاں تک کہ اس موقع پر کہ عنقریب تھا کہ لوگ معاویہ تک پہونچیں اور اس کے خیمے میں اسے گرفتار کرلیں ،خالد نے فوج کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا اور پھر اپنے کام کی توجیہ پیش کرنے لگا اس سلسلے میں چند باتوں کی طرف اشارہ کررہے ہیں ۔

امام علیہ السلام نے میسرہ قبیلہ ربیعہ کے سپرد کیا تھا اور اس کی سرداری عبداللہ ابن عباس کے ہاتھوں میں تھی، امام علیہ السلام کا میسرہ معاویہ کے میمنہ کے مقابلے میں تھا اور اس کی ذمہ داری شام کی مشہور ترین شخصیتیں ذوالکلاع حمیری اورعبیداللہ بن عمر کے ہاتھوں میں تھی قبیلہ حمیر، ذوالکلاع کی سرداری میں اور عبید اللہ نے سواروں اور پیادوں کے ساتھ امام علیہ السلام کے میسرہ پر شدید حملہ کیا لیکن زیادہ مؤثر ثابت نہ ہوا دوسرے حملے میں عبیداللہ بن عمر فوج کے بالکل آگے کھڑا ہوا اور شامیوں سے کہا عراق کے اس گروہ نے عثمان کو قتل کیا ہے اگر ان لوگوں کو شکست دیدیا تو تم نے انتقام لے لیا اور علی کو نابود کردیا ۔ اس حملے میں بھی ربیعہ کے لوگوں نے ثابت قدم رہتے ہوئے اپنا دفاع کیا اور کمزوروناتواں لوگوں کے علاوہ کوئی بھی پیچھے نہ ہٹا۔

امام علیہ السلام کی فوج کے تیز بین لوگوں نے بتا دیاکہ جس وقت خالد نے امام علیہ السلام کی فوج کے کچھ لوگوں کو پیچھے ہوتے دیکھا تو وہ بھی ان کے ساتھ پیچھے ہونے لگا اور چاہا کہ اپنے اس عمل سے امام کی فوج کے ثابت قدم سپاہیوں کو پیچھے ہٹنے کے لئے آمادہ کرے لیکن جب اس نے ان لوگوں کی ثابت قدمی دیکھی تو فوراً ان لوگوں کی طرف واپس چلا گیا اور اپنے فعل کی توجیہ کرنے لگا اور کہا: میرے پیچھے ہٹنے کا مطلب یہ تھا کہ جو لوگ بھاگ رہے تھے ان کو تم لوگوں کی طرف واپس پلٹا دوں۔(۲)

______________________

(۱) تاریخ طبری ج ۳جزء ۶ ص۱۹،۸۱۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۲۶،۲۲۵۔

(۲)تاریخ طبری ج ۳ جز ۶ ص ۱۹۔ کامل ابن اثیر ج۳ ص ۱۵۶

۶۰۸

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں :

اسلامی مؤرخین مثلاً کلبی اور واقدیمی کا نظریہ ہے کہ خالد نے جان بوجھ کر دوسرے حملے میں پیچھے ہٹنے کا حکم دیا تھا تاکہ میسرہ میں امام کی فوج شکست کھاجائے کیونکہ معاویہ نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ اگر امام کی فوج پر اس نے کامیابی حاصل کرلی تو جب تک خالد زندہ رہے گا خراسان کی گورنری اسے دے دے گا۔(۱)

ابن مزاحم لکھتے ہیں :

معاویہ نے خالد سے وعدہ کیا تھا کہ اگر اس جنگ میں کامیابی ملی تو خراسان کی گورنری اس کے ہاتھ میں ہوگی، خالد معاویہ کے دھوکہ میں آگیا مگراس کی آرزو پوری نہ ہوسکی کیونکہ جب معاویہ نے حکومت کی ذمہ داری سنبھالی تو اسے خراسان کاگورنر تو بنادیا لیکن اس سے پہلے کہ معین شدہ جگہ پر پہونچتا آدھے ہی راستے میں ہلاک ہوگیا۔(۲)

شام کی فوج عبید اللہ ابن عمر کے وجود پر افتخار کرتی تھی اور کہتی تھی کہ پاکیزہ کا بیٹا ہمارے ساتھ ہے اور عراقی محمد بن ابو بکرپرافتخار کرتے تھے اور اسے طیب بن طیب(اچھا اور اچھے کا بیٹا) کہتے تھے۔

جی ہاں، بالآخرشام کی فوج حمیرا اور امام کی فوج ربیعہ کے درمیان زبردست جنگ کی وجہ سے دونوں طرف کے بہت زیادہ افراد مارے گئے اور سب سے کم نقصان یہ تھا کہ امام علیہ السلام کی فوج سے پانچ سو سپاہی جب کہ وہ سر سے پیر تک اسلحوں سے لیس تھے اور ان کی آنکھوں کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا میدان جنگ میں آئے اور تقریباً اتنی ہی تعداد میں معاویہ کی فوج کے سپاہی ان سے مقابلے کے لئے میدان میں آئے پھر دونو ں گروہوں کے درمیان زبردست جنگ ہوئی اور دونوں فوجوں میں سے کوئی ایک بھی اپنی چھاؤنی میں واپس نہیں گیا اور سب کے سب مارئے گئے۔

دونوں فوجوں کے دور ہوتے وقت سروں کے ٹیلوں میں سے ایک سر نیچے گرا جسے''تل الجماجم'' کہتے ہیں، اور اسی جنگ میں ذوالکلاع جو معاویہ کا سب سے بڑا محا فظ تھا اور قبیلۂ حمیر کو معاویہ

_______________________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۵ ص ۲۲۸

(۲) وقعہ صفین ص ۳۰۶

۶۰۹

کی جان کی حفاظت کے لئے آمادہ کرتا تھا خندف نامی شخص کے ہاتھوں ماراگیا اور حمیریان کے درمیان عجیب خوف وہراس پیدا ہوگیا۔(۱)

۲۔ عبید اللہ بن عمر نے جنگ کے شدید ترین لمحات میں شیطنت اور تفرقہ ایجاد کرنے کے لئے کسی کو امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجا اور ان سے ملاقات کرنے کی درخواست کی امام حسن علیہ السلام نے امام کے حکم سے اس سے ملاقات کی، گفتگو کے دوران عبید اللہ نے امام حسن علیہ السلام سے کہا ، تمھارے باپ نے پہلے بھی اور اس وقت بھی قریش کا خون بہایا ہے کیا تم اس بات کے لئے آمادہ ہو کہ ان کے جانشین بنو، اور تمھیں مسلمانوں کے خلیفہ کے عنوان سے پہچنوائیں؟امام علیہ السلام نے بہت تیز اس کے سینہ پر ہاتھ مارا اور اس وقت علم امامت کے ذریعے عبید اللہ کے ذلت سے مارے جانے کی اُسے خبر دی اور کہا آج یا کل تو مارا جائے گا۔ آگاہ ہوجا کہ شیطان نے تیرے بُرے کام کو تیری نظر میں خوبصورت بنا کر دکھایا ہے، راوی کہتا ہے کہ وہ اسی دن یا دوسرے دن چار ہزار سبز پوش سپاہیوں کے ساتھ میدان میں آیا اور اسی دن قبیلہ ہمدان سے تعلق رکھنے والے ہانی بن خطاب کے ہاتھوں مارا گیا۔(۲)

۳۔معاویہ نے اپنے بھائی عتبہ بن سفیان کوجو فصیح وبلیغ تقریر کرنے والا تھا اپنے پاس بلایا اور کہاکہ اشعث بن قیس کے ساتھ ملاقات کرو، اور اسے صلح اور سازش کے لئے دعوت دو، وہ امام علیہ السلام کی فوج میں آیا اور بلند آواز سے پکارا ، لوگو اشعث کو خبرکردو کہ معاویہ کی فوج کا ایک شخص تم سے ملاقات کرنا چاہتا ہے، اس نے کہاکہ اس کا نام پوچھو اور جب سے خبر دی کہ وہ عتبہ بن سفیان ہے تو کہا وہ جو ان خوش کلام ہے اس سے ملاقات کرنا چاہیے عتبہ نے جب اشعث سے ملاقات کی تو اس سے کہا:اگر معاویہ علی کے علاوہ کسی اور سے ملاقات کرتاتو تم سے کرتاکیونکہ تم عراقیوں اوریمنیوں میں سب سے بزرگ ہو اور عثمان کے داماد اور اس کے زمانے میں حاکم تھے تم اپنے کو علی کی فوج کے دوسرے سپہ سالاروں سے برابری نہ کرو، کیونکہ اشتر وہ ہے جس نے عثمان کو قتل کیا اور عدی حاتم وہ ہے جس نے لوگوں کو قتل عثمان پر ورغلایا اور سعید بن قیس وہی ہے جس کی دیت ،امام علی نے اپنے ذمہ لی ہے اور شریح اور زحربن قیس خواہشات نفس کے علاوہ کوئی دوسری چیز

______________________

(۱) وقعہ صفین ص ۳۰۶-------(۲) وقعہ صفین ص ۲۹۷ ۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۵ ص ۲۳۳ ۔

۶۱۰

کی فکر نہیں کرتے تم نے نمک حلالی کرتے ہوئے عراق والوں کا دفاع کیا اور تعصب کی وجہ سے شامیوں سے جنگ کیا ، خدا کی قسم ،کیا تم جانتے ہو کہ ہمارا اور تمھارا کام کہا ں تک پہونچ چکا ہے ، میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ علی کو چھوڑ دو اور معاویہ کی مدد کرو، میں تجھے اس راہ کو اختیار کرنے کی دعوت دے رہا ہوں جس میں میرا اور تمھار ا دونوں کا فائدہ ہے۔

تاریخ کابیان ہے کہ اشعث، خفیہ طور پر معاویہ سے رابطہ رکھے تھا اور موقع کی تلاش میں تھا کہ جیسے بھی ممکن ہو جنگ کی کامیابی کو معاویہ کی طرف موڑ دے، اس نے پہلے تو اپنے جواب میں امام علیہ السلام کی تعریف کی اور عتبہ کی گفتگو کو ایک ایک کرکے رد کیا، لیکن آخر میں جنگ کو ختم کرنے کے لئے اشارة موافقت کر لی اور کہا تم لوگ مجھ سے زیادہ زند گی گزارنے اور باقی رہنے میں محتاج نہیں ہو میں اس سلسلے میں فکر کروں گا اور خدا نے چاہا تو اپنے نظریہ کا اعلان کروں گا۔

جب عتبہ معاویہ کے پاس واپس پہونچا اور اس سے پورا ماجرا بیان کیا تو معاویہ بہت خوش ہواور کہا اس نے اپنی نظر میں صلح کا اعلان کردیاہے۔(۱)

۴۔ معاویہ نے عمر و عاص سے کہا، علی کے بعد سب سے مشہور و معروف شخضیت ابن عباس کی ہے اگر وہ کوئی بات کہے تو علی اس کی مخالفت نہیں کریں گے، ، جتنی جلدی ہو کوئی تدبیرکروکیونکہ یہ جنگ ہم لوگوں کو ختم کردیگی، ہم ہرگز عراق نہیں پہونچ سکتے مگر یہ کہ شام کے لوگ نابود ہوجائیں ۔

عمر و عاص نے کہا: ابن عباس دھوکہ نہیں کھا سکتے اگر اس کو دھوکہ دے دیا تو علی کو بھی دھوکہ دے سکتے ہو، معاویہ کے بے حد اصرار پر عمر و عاص نے ابن عباس کو خط لکھا اور خط کے آخر میں کچھ شعر بھی

لکھا، جب عمروعاص نے اپنا خط اور اپنا کہا ہواشعر معاویہ کو دکھایا تو معاویہ نے کہا''لاٰ أریٰ کتابک علیٰ رقّةِ شعرِک'' یعنی تیراخط تیرے شعر کے پائے کا نہیں ہے!

دھوکہ بازوں کے سردار نے اس خط اور اشعار میں ابن عباس اور ان کے خاندان کی تعریف اور مالک اشتر کی برائی کی تھی اور آخر میں یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر جنگ ختم ہوگئی تو ابن عباس شوریٰ کے ایک ممبر ہوگے جس کے ذریعے سے امیر اور خلیفہ معین ہوگا، جب یہ خط ابن عباس کو ملا تو انہوں نے امام علیہ السلام کو

______________________

( ۱)وقعہ صفین ص۴۰۸ ۔

۶۱۱

دکھایا اس وقت امام نے فرمایا۔ خدا وند عالم عاص کے بیٹے کو موت دے، کیسا دھوکہ دینے والا خط ہے جتنی جلدی ہو اس کاجواب لکھو اور اس کے شعر کے جواب کے لئے اپنے بھائی سے شعر لکھواؤ کیونکہ وہ شعر کہنے میں ماہرہے۔

ابن عباس نے خط کے جواب میں لکھا:

میں نے عربوں کے درمیان تجھ جیسا بے حیا نہیں دیکھا اپنے دین کو بہت کم قیمت میں بیچ دیا اور دنیا کو گناہگاروں کی طرح بہت بڑی سمجھا، اور ریاکاری کے ذریعے تقویٰ نمایاںکرتا ہے، اگر تو چاہتا ہے کہ خدا کو راضی کرے ،تو سب سے پہلے مصر کی حکومت کی ہوس اپنے دل سے نکال دے اور اپنے گھر واپس چلاجا، علی اور معاویہ ایک جیسے نہیں ہیں جس طرح سے عراق اور شام کے لوگ برابر نہیں ہیں، میں نے خدا کی مرضی چاہی ہے اور تو نے مصر کی حکومت ، اور پھر ان اشعار کو جو ان کے بھائی فضل نے عمر وعاص کے اشعار کے وزن پر کہے تھے اس خط میں لکھا اور امام علیہ السلام کو خط دکھا یا ۔ امام علیہ السلام نے کہا اگر وہ عقلمند ہوگاتو تمھارے خط کا جواب نہیں دے گا۔

جب عمرو عاص کو خط ملا تو اس نے معاویہ کو دکھایا اور کہا تو نے مجھے خط کی دعوت دی لیکن نہ تجھے کوئی فائدہ ہوا اور نہ مجھے فائدہ ہوا، معاویہ نے کہا: علی اور ابن عباس کا دل ایک ہی جیسا ہے اوردونوں عبدالمطلب کے بیٹے ہیں۔(۱)

۵۔ جب معاویہ نے احساس کیا کہ علی کے سپاہی پہلے سے کچھ زیادہ آمادہ ہوگئے ہیں اور محاصرہ تنگ ہوگیا ہے اورقریب ہے کہ،شکست کھا جائیں تو اس نے خود براہ راست ابن عباس کو خط لکھا اور یا د دلایا کہ یہ جنگ بنی ہاشم اور بنی امیہ کے درمیان بغض وعداوت کی بھڑکتی ہوئی چنگاری ہے اور انہیں اس کام کے انجام سے ڈرایا، اس خط میں اس نے ابن عباس کو لالچ دلائی اور کہا : اگر لوگ تمھارے ہاتھ پر بیعت کریں تو ہم بھی تمھار ی بیعت کرنے کے لئے تیار ہیں۔

جب ابن عباس کو خط ملا تو آپ نے ٹھوس او ر دندان شکن جواب معاویہ کو لکھا ، ایسا جواب کہ معاویہ اپنے

_______________________________

(۱) وقعہ صفین ص۴۱۴۔۴۱۰ (تھوڑے فرق کے ساتھ اور دونوں خطوط کے اشعارکے بغیر)۔ الامامة السیاسةج۱ص۹۹۔۹۸

۶۱۲

خط لکھنے پربہت شرمندہ ہوا اور کہا یہ خود میر ے کام کا نتیجہ ہے اب ایک سال تک اُسے خط نہیں لکھوں گا۔(۱)

عمار اور باغی گروہ

یاسر کا گھرانہ اسلام کے عظیم گھرانے میں شمار ہوتا ہے جنہوں نے آغاز اسلام میں ہی پیغمبر اسلام (ص)کی دعوت پر لبیک کہا اور اس راہ میں زبردست مصائب و آلام برداشت کیایہاں تک کہ یاسر اور ان کی بیوی سمیہ نے خدا کی راہ میں ابوجہل اور اس کے ساتھیوں کے ظلم و ستم سے اپنی جان دیدی۔

ان دونوں کے جوان بیٹے عمار مکہ کے جوانوں کی سفارش اور نئے قوانین سے ظاہری اظہار بیزاری کرنے سے نجات پاگئے خداوند عالم نے عمار کے اس فعل کو اس آیت میںقرار دیا ہے:

( اِلّٰا مَنْ اُکرِ ه و قلبُه مطمئن بالایمان ) (سورۂ نحل آیت ۱۰۶)

مگر وہ شخص کہ جو (کفر کہنے پر) مجبور ہوجائے جب کہ اس کا قلب ایمان سے مطمئن ہے۔

جس وقت عمار کے واقعات اور ان کے کفر ظاہر کرنے کی خبر پیغمبر (ص)کو ملی تو آپ نے فرمایا: ہرگزنہیں بلکہ عمار کا پورا وجود ایمان سے سرشار ہے اور توحید ان کے گوشت و خون میں رچ بس گئی ہے اسی وقت عمار وہاں پہونچ گئے جب کہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے آنسوؤں کو صاف کیااور کہا کہ اگر دوبارہ ایسی مشکل پیش آئے تو اظہار برائت کرنا۔(۲) صرف یہی ایک آیت نہیں ہے جو اس بزرگ صحابی کی شان میں نازل ہوئی بلکہ مفسرین نے دواور آیتوں کو لکھا ہے جو ان کے بارے میں نازل ہوئی ہے(۱) وہ پیغمبر اسلام کے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد آپ کے ہم رکاب رہے اور تمام غزوات اور بعض سریوں میں شرکت کی اور پیغمبر(ص)کے انتقال کے بعد، اگرچہ خلافت ِوقت سے راضی نہ تھے مگر خلافت کی مدد کرنے میں اگر اسلام کا فائدہ ہوتا تو مدد کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے۔پیغمبر اسلام (ص)نے مدینہ آنے کے بعد سب سے پہلے جو کام انجام دیا وہ مسجد کی تعمیر تھی، عمار

_______________________________

(۱)آیتیںاَمّنْ هو ٰقانتٔ آنأ اللیل ساجد اوقائماً یحذرالآخرة (زمر، ۹)ولا تطرد الذین ید عون ربّهم بالغداوة والعشی ۔ اس سلسلے میں تفسیر قرطبی۔کشاف۔درالمنثور۔تفسیررازی کی طرف رجوع کریں۔----(۲)وقعہ صفین ص۲۱۶۔۲۱۴ ۔ الامامة السیاسة ج۱ص۱۰۰

۶۱۳

نے مسجد بنانے میں سب سے زیادہ زحمت برداشت کی اکیلے کئی لوگوں کا کام انجام دیتے تھے ، اسلام سے عشق سبب بناکہ لوگ انہیں ان کی طاقت سے زیادہ کام لیں، ایک دن عمار نے ان لوگوں کی پیغمبر سے شکایت کی اور کہا ان لوگوںنے مجھے مار ڈالا ہے، پیغمبر اسلام(ص)نے اپنا تاریخی بیان دیا جو تمام حاضرین کے دل میں اتر گیا، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''انک لن تموتَ حتیٰ تقتُلک الفئة الباغیةُ النّٰا کِبَةُعنِ الحقّ یکونُ آخِر زادِک من الدّنیٰا شَر بةُلَبن'' (۱)

''تمھیں اس وقت تک موت نہیں آئے گی جب تک تجھے باغی اور حق سے منحرف گروہ قتل نہ کرے دنیا میں تمہارا آخری رزق ایک پیالہ دودھ ہے''۔

یہ بات پیغمبر (ص)کے تما م صحابیوں میں پھیل گئی اور پھر ایک سے دوسروں تک منتقل ہو گئی، اسی دن تمام مسلمانوں کی نظر میں عمار ایک خاص مقام کے حامل ہوگئے پیغمبر اسلام (ص)نے مختلف مواقع پر بھی آپ کی تعریف کی، جنگ صفین میں امام علیہ السلام کی فوج میں عمار کے شامل ہونے کی خبر نے معاویہ کی دھوکہ کھائی ہوئی فوج کے دلوں کو لرزا دیا، اور بعض لوگ اس بات کی تحقیق کرنے لگے۔

______________________

(۱)یہ حدیث جس میں پیغمبر(ص)نے غیب کی خبر دی ہے محدثین اور مؤرخین نے اسے نقل کیا ہے اور سیوطی نے اپنی کتاب خصائص میں اس کے تو اتر کی تصریح کی ہے ،اور مرحوم علامہ امینی نے الغدیر(ج۹ص۲۲،۲۱) میں اس کی سندوں کو ذکر کیا ہے ۔ تاریخ طبری ج ۳ جزء ۶ص۲۱۔ کامل ابن اثیرج ۳، ص۱۵۷ کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

۶۱۴

عمار کی تقریر

جب عمار نے چاہا کہ میدان جنگ میں جائیں تو امام علیہ السلام کے دوستوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور اسطرح سے گفتگو شروع کی:اے خدا کے بندو ، ایسی قوم سے جنگ کرنے کے لئے اٹھو ، جو ایسے شخص کے خون کا بدلہ لینا چاہتی ہے جس نے خود اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور خدا کی کتاب کے خلاف حکم دیا اور اسے صالح گروہ ، نہی عن المنکر اور امر با لمعروف کرنے والوں نے قتل کیا ہے لیکن وہ گروہ جس کی دنیا اس کے قتل کی وجہ سے خطرے میں پڑگئی تھی، ان لوگوں نے اعتراض کیا اور کہا کہ کیوں اسے قتل کر دیاتو اس کا جواب دیاگیا کہ وہ اپنے برے کاموں کی وجہ سے مارا گیاہے، ان لوگوں نے کہا عثمان نے کوئی برا کام نہیں کیا ہے جی ہاں! ان لوگوں کی نظر میں عثمان نے براکام انجام نہیں دیا ، تمام دینار ان کے ہاتھ میں تھے وہ سب کھا گئے اور ہضم کرگئے ، وہ عثمان کے خون کا بدلہ لینا نہیں چاہتے بلکہ وہ دنیا کی لذتوں سے آشنا ہیں اور اسے دوست رکھتے ہیں اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ اگر ہمارے ہاتھوں گرفتار ہوئے تو دنیا کی وہ لذ ت و آرام و آسایش سے محروم ہوجائیں گے۔

بنی امیہ کا خاندان اسلام قبول کرنے میں آگے نہ تھا کہ وہ رہبری کے لایق ہوتا، انہوں نے لوگوں کو دھوکہ دیا اور ''ہمارا ا مام مظلوم مارا گیا'' کا نعرۂ لگایا تا کہ لوگوںپر ظلم و ستم کے ساتھ حکومت و سلطنت کرے، یہ ایک ایسا بہانہ ہے جو ان لوگوں کی طرف سے ہواہے جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں اور اگر ایسا دھوکہ اور فریب انجام نہ دیتے تو دو آدمی بھی ان کی بیعت نہ کرتے اور ان کی

۶۱۵

مددکے لئے نہ اٹھتے۔(۱)

عمار تقریر ختم کرنے کے بعد میدان میں آئے اور ان کے ساتھی بھی انکے پیچھے پیچھے تھے، جب عمر و عاص کے خیمے پر نگاہ پڑی تو بلند آوا ز سے کہا تو نے اپنے دین کو مصر کی حکومت کے بدلے بیچ دیا ،لعنت ہو تجھ پر یہ پہلی مرتبہ تو نے اسلام پر وار نہیں کیاہے، اور جب آپ کی نگاہ عبید اللہ بن عمر کے خیمے پر پڑی تو پکار کر کہا: خدا تجھے نابو د کرے تو نے اپنے دین کو خدا اور اسلام کے دشمن کی دنیا کے بدلے بیچ دیا ہے، اس نے جواب دیا میں شہید مظلوم کے خون کا بدلہ لینا چاہتا ہوں عمار نے کہا تو جھوٹ بول رہا ہے خدا کی قسم میں جانتا ہوں کہ تو ہرگز خدا کی مرضی نہیں چاہتا اگر تو آج مارا نہ گیا تو کل ضرور مارا جائے گا، سوچ لے کہ اگر خدا وند عالم اپنے بند وں کو ان کی نیت کے مطابق جزاء و سزا دے تو تیری نیت کیاہے(۲)

اس وقت جب کہ ان کے چاروں طرف علی علیہ السلام کے دوست جمع تھے، کہا خدا وندا تو جانتا ہے کہ اگر مجھے معلوم ہو کہ تیری مرضی اس میں ہے کہ اس دریا میں کود جاؤ ںتو کود جاؤنگا اگر مجھے معلوم ہو کہ تیر ی مرضی اس میں ہے کہ تلوار کی نوک کو اپنے سینہ پر رکھوں اور اتنا جھکوں کہ پشت کے پار ہو جائے تو میں اس سے بھی دریغ نہیں کرونگا، خدا یا میں جانتا ہو ں اور مجھے آگا ہ بھی کیا ہے کہ آج کے دن وہ کام جس سے تو سب سے زیادہ راضی ہوگا وہ اس گروہ کے ساتھ جہاد کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور اگر مجھے معلوم ہو تا کہ

_______________________________

(۱) کامل ابن اثیرج ۳ ص۱۵۷ ۔ وقعہ صفین ص۳۱۹۔ تاریخ طبری ج ۳ جزء ۶ص۲۱

(۲) وقعہ صفین ص۳۳۶۔ اعیان الشیعہ ج۱ ص۴۹۶ مطبوعہ بیروت لبنان۔

۶۱۶

اس عمل کے علاوہ کوئی اور کام ہے تو اس کو ضرور انجام دیتا۔(۱)

_______________________________

( ۱) تاریخ طبری ج ۳ جزء ۶،ص۲۱ ۔ کامل ابن اثیرج ۳ ص۱۵۷ ۔ وقعہ صفین ص۳۲۰۔

۶۱۷

امام کی فوج میں عمار کے ہونے کا اثر

عمار کی شخصیت اور اسلام میں ان کی خدمات ایسی چیز نہ تھی جو اہل شام سے پوشیدہ ہوتی۔ ان کے بارے میں پیغمبر اسلام کی حدیث شہرت پاچکی تھی اور جو چیز شام کے لوگوں سے کچھ پوشیدہ تھی وہ اما م علیہ السلام کی فوج میں عمار کا شریک ہونا تھا، جب عمار کی امام علیہ السلام کی فوج میں احتمالاً شرکت کی خبر معاویہ کے فوج میں پھیلی تو جو لوگ معاویہ کی جھوٹی اور مسموم تبلیغ کی وجہ سے اس کی فوج میں داخل ہوئے تھے وہ چھان بین کرنے لگے ، انھی میں سے ایک یمن کی مشہور و معروف شخصیت ذوالکلاع کی تھی جس نے حمیر ی قبیلے کے بہت سے آدمیوں کو معاویہ کے لشکر میں شامل کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی، اب اس کے دل میں حقانیت کا نور چمک گیا وہ چاہتا تھا کہ حقیقت کو پالے، لہٰذا اس نے ارادہ کیا کہ ابونوح کے ساتھ ، جو کہ حمیر قبیلے کا سردار تھااور کوفہ میں رہتا تھا اور اس وقت امام علیہ السلام کی فوج میں شامل تھا اس سے ملاقات کرے، اسی لئے ذوالکلاع نے معاویہ کی فوج میں سب سے آگے کھڑے ہوکر بلند آواز میں کہا :میں ابو نوح حمیری جو کلاع قبیلے کا ہے سے بات کرناچاہتا ہوں ۔

ابونوح یہ آواز سن کر اس کے سامنے آیا اور کہا،تم کون ہوں،اپنا تعارف کراؤ؟

ذوالکلاع : میں ذوالکلاع ہوں میر ی التجا ہے کہ میر ے پاس آؤ۔

ابونوح :میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں جو تنہا تمھارے پاس آؤں ،مگر اپنے گروہ کے ہمراہ جو میرے اختیا ر میں ہے ۔

ذوالکلاع : تم خدا اور اس کے رسول اور ذوالکلاع کی پنا ہ میں ہو، میں چاہتا ہوں کہ تم سے ایک موضوع کے سلسلے میںگفتگو کرو ں،لہٰذا تم اکیلے میرے پاس آؤ،اور میں بھی تنہا تمھار ے پاس آؤنگا اور دونوں صفوں کے درمیان گفتگو کریں ، دونوں اپنی اپنی صف سے نکلے اور صفوں کے درمیان گفتگو کا سلسلہ جاری ہوا۔

ذوالکلاع : میں نے تمھیں اس لئے بلایا ہے کہ میں نے پہلے (عمربن خطاب کے زمانے میں)

عمرو عاص سے ایک حدیث سنی ہے ۔

ابونوح : وہ حدیث کیا ہے؟

ذوالکلاع : عمروعاص نے کہا کہ رسول ِ خدا (ص)نے فرمایا ہے کہ ! اہل عراق اور اہل شام ایک دوسرے کے مقابلے میں جمع ہونگے، حق اور ہدایت کرنے والا ایک طرف ہے اور عمار بھی اسی طرف ہوگا۔

۶۱۸

ابونوح : خدا کی قسم عمار ہمارے ساتھ ہیں۔

ذوالکلاع : کیا ہم سے جنگ کا مکمل ارادہ ہے

ابونوح : ہاں کعبہ کے رب کی قسم ! کہ وہ تمھارے ساتھ جنگ کے لئے ہم سے زیادہ مصر ہیں اور خود میرا ارادہ یہ ہے کہ کاش تم سب لوگ ایک آدمی ہوتے اور میں سب کا سر کاٹ دیتا اور سب سے پہلے میں تمھارا سر قلم کرتا جب کہ تو میرا چچا زاد بھائی ہے۔

ذوالکلاع : کیوں ایسی آرزو تمھار ے دل میں ہے جب کہ میں نے اپنی رشتہ داری کو ختم نہیں کیا اورتمہیں اپنی قوم کا سب سے قریبی شخص جانااور میں نہیں چاہتا کہ تمھیں قتل کروں۔

ابونوح : خدا نے اسلام کی وجہ سے ایک رشتہ ختم کردیا ہے اور جو افراد دور تھے ان کو قریبی عزیز بنا دیا تم نے اور تمھارے دوستوں نے ہمارے سا تھ معنوی رشتہ کو ختم کر دیا ہے ہم حق پر ہیںاور تم باطل پر ہو سردارِکفر اور اور اس کے لشکر کی مدد کر رہے ہو۔

ذوالکلاع : کیا تم شام کی فوج کے درمیان میرے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہو؟ میں تمھیں امان دے رہا ہوں کہ اس راہ میں قتل نہیں کئے جاؤ گے او ر نہ تجھ سے کوئی چیز لی جائے گی۔ اور نہ بیعت کے لئے مجبور ہوگے بلکہ مقصد یہ ہے کہ عمروعاص کو آگاہ کردو کہ عمار، امام علی علیہ السلام کے لشکر میں موجود ہیں۔شاید خداوند عالم دونوں لشکروں کے درمیان صلح و آشتی کا ماحول پیدا کردے۔

ابونوح :میں تمھارے اور تمھارے دوستوں کے مکر و فریب سے خوف محسوس کر رہا ہوں۔

ذواکلاع :میں اپنی بات کا ضامن ہوں۔

ابونوح نے آسمان کی طرف رخ کرکے کہا ، خدا یا تو بہتر جانتا ہے کہ ذوالکلاع نے مجھے امان دیا ہے اور جو کچھ میرے دل میں ہے تو اس سے باخبر ہے ، میر ی حفا ظت فرما، اتنا کہنے کے بعد ذوالکلاع کے ساتھ معاویہ کی فوج کی طرف گئے اور جب عمروعاص اور معاویہ کے خیمے کے پاس پہونچے تو دیکھا کہ دونوں ،لوگوں کو جنگ کے لئے تیار کر رہے ہیں۔

ذوالکلاع نے عمرو عاص کو متوجہ کر تے ہوئے کہا کیا تو ایک سچے اور عقلمند انسان سے عمار یاسر کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتا ہے؟

۶۱۹

عمروعاص : یہ کون آدمی ہے؟

ذوالکلاع نے ابونوح کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ میرا چچا زادبھائی اورکوفہ کا رہنے والا ہے، عمرو عاص نے ابونوح سے کہا میں تمھارے چہرے پر ابوتراب کی نشانیاں دیکھ رہا ہوں۔

ابونوح : میرے چہرے پرمحمد (ص)اور ان کے دوستوں کی نشانیاں ہیں اور تیرے چہرے پر ابوجہل و فرعون کی نشانیاں ہیں۔ اس وقت معاویہ کی فوج کا ایک سردار ابوالاعور اٹھا اور اپنی تلوار کھینچ کر کہاکہ اس جھوٹے کے چہرے پر ابوتراب کی نشانیاں ہیں میں اس کو قتل کروں گا، اس میںکیسے اتنی جرأت پیدا ہو گئی کہ ہمارے درمیان ہوتے ہوئے بھی ہمیں گالی دے رہا ہے۔

ذوالکلاع نے کہا: خدا کی قسم ، اگر تم نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تو میں تجھے تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا۔ یہ میرا چچازاد بھائی ہے اور میری امان میں وہ اس صف میں داخل ہوا ہے، میں اسے اس لئے لایا ہوںکہ تم لوگ عمار کے بارے میں سوال کرو کہ جس کے متعلق مستقل جنگ و جدال کررہے ہو۔

عمر وعاص : میں تمھیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ سچ بولنا کیاعمار یا سر تمھاری فوج میں ہیں۔

ابونوح : میں جواب نہیں دوں گا مگر یہ کہ اس سوال کی وجہ سے آگاہ ہو جاؤں ، جب کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بہت دوست ہمارے ساتھ ہیںاور سب کے سب تمھارے ساتھ جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہیں۔

عمرو عاص :میں نے پیغمبر (ص)سے سنا ہے کہ عمار کو ظالم وستمگر گروہ قتل کرے گا اور عمار کے لئے سزاوار نہیں ہے کہ حق سے دور ہو ں جہنم کی آگ ان پرحرام ہے۔

ابونوح :اس خدا کی قسم جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں و اللہ وہ ہمارے ساتھ اور وہ تم لوگوں سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہیں۔

عمر وعاص : وہ ہم سے جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہیں؟!

۶۲۰

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809