فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)9%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 361632 / ڈاؤنلوڈ: 6013
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

امام ـ نے کس طرح ہجرت کی

پیغمبر(ص) کی ہجرت کے بعد امام علیہ السلام پیغمبر کے خط کے منتظر تھے .کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ابو واقد لیثی حضرت کا خط لیکر مکہ پہونچا اور حضرت علی علیہ السلام کے سپرد کیا. پیغمبر نے جو کچھ بھی ہجرت کی تیسری شب غار ثور میں زبانی حضرت علی سے کہا تھا اس خط میں ان چیزوں کی تاکید کی اور حکم دیا کہ خاندان رسالت کی عورتوں کولے کر روانہ ہو جائیں اور غریب و ناتوان افراد جو ہجرت کی طرف مائل ہیں ان کی مدد کریں۔

امام علیہ السلام لوگوں کی امانت ادا کرنے کے سلسلے میں پیغمبر کے حکم پرپورے طور پر عمل کرچکے تھے اور اب صرف ایک کام باقی تھا اور وہ یہ کہ خود اور خاندان رسالت کی عورتوں کو مدینہ لے جانے کا اسباب فراہم کریں. لہٰذا مومنین کا وہ گروہ جو ہجرت کے لئے آمادہ تھا اسے حکم دیاکہ خاموشی سے مکہ سے باہر نکل جائیں اور چند کیلو میٹر دور ''ذو طویٰ'' مقام پر قیام کریں تاکہ امام کا قافلہ وہاں پہونچ جائے، حضرت علی ـ نے مومنین کو خاموشی سے جانے کا حکم دیا تھا مگر خود دن کے اجالے میں سفر کے لئے آمادہ ہوئے اورعورتوں کو ام ایمن کی بیٹی ایمن کے ذریعے عماریوں پر سوار کرایا اور ابوواقد سے کہا اونٹوں کو آہستہ آہستہ لے جاؤ کیونکہ عورتیں تیز تیز جانے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔

ابن شہر آشوب لکھتے ہیں :

جب عباس حضرت علی کے اس ارادے سے باخبر ہوئے کہ وہ دن کے اجالے میں دشمنوں کے سامنے سے مکہ سے ہجرت کر رہے ہیں اور عورتوں کو بھی اپنے ساتھ لے جارہے ہیں تو فوراً حضرت علی کی خدمت میں آئے اور کہا کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پوشیدہ طور سے مکہ سے گئے تو قریش ان کو تلاش کرنے کے لئے پورے مکہ اور اطراف مکہ میں ڈھونڈتے رہے تو تم کس طرح سے دشمنوں کے سامنے عورتوں کے ہمراہ مکہ سے باہر نکلو گے؟ کیاتم نہیں جانتے کہ دشمن تمھیں مکہ سے باہر نہیں جانے دیں گے؟

علی علیہ السلام نے اپنے چچا کو جواب دیتے ہوئے فرمایا: کل رات جب میں نے غار ثور میں پیغمبر سے ملاقات کی اور پیغمبر نے حکم دیاکہ ہاشمی عورتوں کے ساتھ مکہ سے ہجرت کرنا تو اسی وقت مجھے خوشخبری بھی دی کہ اب مجھے کوئی بھی تکلیف نہیں پہونچے گی، میں اپنے پروردگار پر اعتماداور احمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قول پر ایمان رکھتا ہوں اور ان کا اور میرا راستہ ایک ہی ہے اسی لئے میں دن کے اجالے اور دشمنوں کی آنکھوں کے سامنے سے مکہ سے ہجرت کروں گا۔

۶۱

پھر، امام علیہ السلام نے کچھ اشعار پڑھے جن کا مفہوم وہی ہے جو ہم بیان کرچکے ہیں۔(۱)

امام نے نہ صرف اپنے چچا کو ایسا جواب دیا، بلکہ جب لیثی نے اونٹوں کی ذمہ داری اپنے سر لی اورقافلے کو جلدی جلدی لے جانے لگا تاکہ دشمنوں کے سامنے سے جلدی سے دور ہو جائے تو امام نے اُسے اونٹوں کو تیز تیز لے جانے سے منع کیا اور فرمایا: پیغمبر نے مجھ سے فرمایا ہے کہ اس سفر میں تمھیں کوئی تکلیف واذیت نہیں پہونچے گی پھر اونٹوں کو لے جانے کی ذمہ داری خود لے لی اور یہ رجز پڑھا۔

تمام امور کی باگ ڈور خدا کے ہاتھ میں ہے لہٰذا ہر طرح کی بدگمانی کو اپنے سے دور کرو کیونکہ اس جہان کا پیداکرنے والا ہر اہم حاجت کے لئے کافی ہے۔(۲)

______________________

(۱) امام علیہ السلام کے اشعار یہ ہیں:

ان ابن آمنة النبی محمداً

رجل صدوق قال عن جبرئیل

ارخ الزمام و لاتخف عن عائق

فالله یردیهم عن التنکیل

انی بربی واثق و باحمد

و سبیله متلا حق بسبیلی

(۲) امالی شیخ طوسی ص۲۹۹، بحار الانوار ج۱۹ ص ۶۵ اور رجز کی عبارت یہ ہے:

لیس الا الله فارفع ظنکا یکفیک رب الناس ما اهمّکا

۶۲

قریش نے حضرت علی ـ کا تعاقب کیا

امام کا قافلہ سرزمین ''ضجنان'' پہونچنے والا تھا کہ سات نقاب پوش سوار سامنے سے آتے ہوئے دکھائی دیئے جو اپنے گھوڑوں کو بہت تیزی کے ساتھ قافلے کی طرف دوڑائے ہوئے تھے. امام نے عورتوںکو ہر طرح کی مشکلات سے بچانے اور ان کی حفاظت کے لئے واقد اور ایمن کوحکم دیا کہ فوراً اونٹوں کو بٹھادواوران کے پیروں کو باندھ دو. پھر عورتوں کواونٹوں سے اتارنے میں مدد فرمائی، جیسے ہی یہ کام ختم ہوا تمام نقاب پوش سوار برہنہ تلواریں لئے ہوئے قافلے کے قریب آگئے اور چونکہ وہ غصے سے بھرے ہوئے تھے اس لئے اس طرح برا و ناسزا کہنا شروع کردیا : کیاتم یہ سوچتے ہو کہ ان عورتوں کے ساتھ ہمارے سامنے فرار کرسکتے ہو؟ بس اس سفر سے باز آجاؤ!

حضرت علی علیہ السلام نے کہا: اگر واپس نہ گیاتو کیا کرو گے؟

انھوں نے کہا: زبردستی تم کو اس سفر سے روکیں گے یا تمہارے سر قلم کردیںگے۔

اتنا کہنے کے بعد وہ لوگ اونٹوں کی طرف بڑھے تاکہ ان کو واپس لے جائیں اس وقت حضرت علی نے اپنی تلوار نکال کر ان کو اس کام سے روکا. ان میں سے ایک شخص نے اپنی برہنہ تلوار حضرت علی کی طرف بڑھائی. ابوطالب کے لال نے اس کی تلوار کے وار کو روکا اور غصے کی حالت میں تھے ان پر حملہ کیا اور اپنی تلوار سے ''جناح'' نامی شخص پر وار کیا. قریب تھا کہ تلوار اس کے شانے کو کاٹتی کہ اچانک اس کا گھوڑا پیچھے کی طرف ہٹا اورامام کی تلوار گھوڑے کی پشت پر جالگی، اس وقت حضرت علی نے ان سب کو متوجہ کرتے ہوئے بآواز بلندکہا:

''میں عازم مدینہ ہوں اور رسول خدا کی ملاقات کے علاوہ میراکوئی اور مقصد نہیں ہے ،جو شخص بھی یہ ارادہ رکھتا ہے کہ انھیں ٹکڑے ٹکڑے کرے اور ان کا خون بہائے وہ میرے ساتھ یامیرے نزدیک آئے۔''

۶۳

اتنا کہنے کے بعد آپ نے ایمن او رابوواقد کو حکم دیاکہ فوراً اٹھ کر اونٹوں کے پیر کھول دیںاور چلنے کے لئے آمادہ ہوجائیں۔

دشمنوں نے یہ احساس کرلیا کہ حضرت علی جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہیں او رانھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ان کے ساتھیوں میں سے ایک شخص عنقریب مرنے ہی والا تھا، لہٰذا اپنے ارادے سے باز آگئے او رمکہ کے راستے کی طرف چل پڑے. امام نے بھی اپنے سفر کو مدینے کی طرف جاری رکھا آپ نے کوہ ضجنان کے نزدیک ایک دن او رایک رات قیام کیا تاکہ وہ لوگ جوہجرت کے لئے آمادہ تھے وہ بھی آجائیں تمام افراد میں سے جو حضرت علی اور ان کے ہمراہیوں سے ملحق ہوئے ان میں ایک ام ایمن تھیں جوایک پاکدامن عورت تھیں جنھوں نے آخر عمر تک خاندان رسالت کو نہیں چھوڑا۔

تاریخ کا بیان ہے کہ حضرت علی نے یہ پورا راستہ پیدل چل کر تمام کیا،اور ہر ہر منزل پر خدا کا ذکر کرتے رہے اور پورے سفر میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ نماز پڑھی۔

بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ درج ذیل آیت ان افراد کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔(۱)

( الَّذِینَ یَذْکُرُونَ اﷲَ قِیَامًا وَقُعُودًا وَعَلَی جُنُوبِهِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْارْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا ً ) (۲)

جو لوگ اٹھتے، بیٹھتے ، کروٹ لیتے (الغرض ہر حال میں) خدا کا ذکر کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی بناوٹ میںغور و فکر کرتے ہیں اور (بے ساختہ) کہہ اٹھتے ہیں کہ خداوندا تونے اس کو بیکار پیدا نہیں کیا ہے۔

جب حضرت علی ، اور ان کے ہمراہی مدینہء منورہ پہونچے تو رسول اکرم(ص) ان کے دیدار کے لئے فوراً گئے جس وقت پیغمبر اسلام کی نگاہ حضرت علی پر پڑی تو آپ نے دیکھا کہ ان کے پیر ورم کر گئے ہیںاوران سے خون کے قطرے گر رہے ہیں.آپ نے فوراً حضرت علی کو گلے سے لگایا اورفرط محبت سے آپ کی چشم مبارک سے آنسووؤں کے قطرات جاری ہوگئے۔(۳)

______________________

(۱) امالی شیخ طوسی ص ۳۰۳۔ ۳۰۱

(۲) سورۂ آل عمران، آیت ۱۹۱

(۳) اعلام الوریٰ ص ۱۹۲، تاریخ کامل ج۲ ص ۷۵

۶۴

دوسری فصل

دو بڑی فضیلتیں

اگر اجتماعی مسئلوں کے ہر مسئلے پر شک کریں یا ان کو ثابت کرنے کے لئے تحقیق ،دلیل اور برہان کے محتاج رہیں توایسی صورت میں اجتماعی اتحاد و ہمبستگی اور منافع وغیرہ کے سلسلے میں شک و تردید میں نہیں الجھیں گے .اور کوئی شخص بھی ایسا نہیں ملے گا جویہ کہے کہ نااتفاقی اوراختلاف مفید چیزہے اور اتحاد واتفاق برا اور نقصان دہ ہے. کیونکہ اتفاق کی وجہ سے سب سے کم فائدہ جومعاشرے کو پہونچے گا وہ یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی اور بکھری ہوئی فوجیں آپس میں مل جائیں گی ،اور عظیم فوج کے سائے میں معاشرے میں مختلف طریقوں سے بڑے بڑے تحولات پیدا ہوںگے۔

وہ پانی جو بڑی بڑی ندیوں کے کنارے چھوٹی چھوٹی نہروں کی طرح بہتا ہوا نظر آتا ہے وہ چھوٹے دریاؤں سے ملنے کی وجہ سے وجود میں آیا ہے جس کے اندر نہ اتنی صلاحیت ہے کہ بجلی پیدا کرسکے اور نہ اتنی مقدار ہی میں ہے کہ اس سے کھیتی کی جاسکے ،لیکن جب یہ چھوٹی چھوٹی نہریں ایک جگہ جاکر مل جاتی ہیں تو ایک دریا کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور اب یہ دریاہزاروں کیلو واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا کرلیتا ہے اور اس کے پانی سے ہزاروں ایکٹر زمین سیراب کر کے کھیتی کی جاتی ہے۔

غرض ز انجمن واجتماع وجمع قواست

چرا کہ قطرہ چوشدمتصل بہ ہم دریا است

اجتماع اور انجمن اور جمع ہونے کا مقصد طاقت ہے ،کیونکہ اگر پانی کا ایک قطرہ دریاسے مل جائے تو وہ بھی دریا بن جاتا ہے۔

ز قطرہ ہیچ نیایدولی چو دریا گشت

ہر آنچہ نفع تصور کنی در آن آنجا است

قطرہ سے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا ،لیکن اگر یہی قطرہ دریابن گیا تو تم جتنا بھی فائدہ سوچ سکتے ہو تمہیں ملے گا۔

۶۵

ز قطرہ ماہی پیدا نمی شود ہرگز

محیط گشت ، از آن نہنگ خواہد خاست

قطرہ میں کبھی بھی مچھلی زندہ نہیں رہ سکتی، مگر جب یہی قطرہ دریا بن گیا تواس میں نہنگ مچھلی زندہ رہ سکتی ہے ۔

ز گند می نتوان پخت نان وقوت نمود

چو گشت خرمن وخروار وقت برگ ونواست

ایک گیہوں سے روٹی نہیں پکائی جاسکتی اور زندگی بسر نہیں ہو سکتی جب وہ کھلیہان میں گیاتو ایک ذخیرہ بن گیا ہے

ز فرد فرد محال است کارہای بزرگ

ولی ز جمع توان خواستہ ہرچہ خواہی خواست

ایک بڑا کام الگ الگ مردوں سے انجام پانابہت محال ہے، لیکن اگر یہی تمام لوگ ایک ساتھ جمع ہو جائیں تو جو بھی کرناچاہیں انجام دے سکتے ہیں۔

۶۶

بلی چو مورچگان را وفاق دست دہد

بہ قول شیخ، ہژ بر ژیان اسیر و فنا است

اگر چیونٹیوں کی طرح اتحاد و اتفاق کا دامن ہاتھ میں رہے تو شیخ کے بقول زندگی فنا و برباد ہے ۔

اپنے مقصد میں کامیابی کے لئے نہ صرف مادی چیزوں کو طلب کرے بلکہ ضروری ہے کہ لوگوں کی فکری اور معنوی قدرت وطاقت سے اجتماعی مشکلوں کا حل تلاش کرے ،اور صحیح لائحہ عمل بنانے میں مددطلب کرے، اور ایک دوسرے سے مشورہ اور تبادلۂ نظر کے نئے نئے راستے ہموار کرے اور بزرگ و سنگین پہاڑ جیسی مشکلوں سے ہوشیار رہے۔

یہی وجہ ہے کہ آئین اسلام کے اصلی اور بیش قیمتی برناموںمیں تبادلہ خیالات اور مشورے کی اجتماعی امور میں بہت زیادہ اہمیت بیان کی گئی ہے، اور قرآن مجید نے جن لوگوں کوحق پسند اور حق شناس جیسے ناموں سے تعبیر کیا ہے ان کے تمام کام مشورے اور تبادلہ خیالات سے انجام پاتے ہیں۔

( وَالَّذِینَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَاقَامُوا الصَّلاَةَ وََمْرُهُمْ شُورَی بَیْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ یُنْفِقُونَ ) (۱)

اور جو اپنے پروردگار کا حکم مانتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیںاور ان کے کل کام آپس کے مشورے سے ہوتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیں عطا کیاہے اس میں سے (راہ خدا میں) خرچ کرتے ہیں۔

______________________

(۱) سورۂ شوریٰ آیت ۳۸

۶۷

اتحاد اور اخوت

آئین اسلام کاایک اہم اور اجتماعی اصول ''اخوت و برادری'' ہے .پیغمبر اسلام(ص) مختلف صورتوں سے اخوت و برادری کو عام کرنے میں بہت زیادہ کوشاں رہے ہیں۔مہاجرین کے مدینہ پہونچنے کے بعد پہلی مرتبہ اخوت وبرادری کا رشتہ انصار کے دو گروہ یعنی اوس و خزرج کے درمیان پیغمبر اسلام کے ذریعے قائم ہوا۔

یہ دو قبیلے جومدینہ ہی کے رہنے والے تھے اور عرصۂ دراز سے آپس میں جنگ وجدال کرتیتھے ، رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی کوششوں کے نتیجے میں ایک دوسرے کے بھائی بن گئے اورارادہ کرلیاکہ ہم لوگ پرانی باتوں کو کبھی نہیں دہرائیں گے.اس اخوت و برادری کاہدف و مقصد یہ تھاکہ اوس و خزرج جو اسلام کے دواہم گروہ مشرکوںکے مقابلے میںتھے وہ آپس میں ظلم و بربریت، لڑائی جھگڑا او رایک دوسرے پر زیادتی کرنے سے باز آجائیں اور پرانی دشمنی کی جگہ صلح و صفا کویاد رکھیں۔

دوسری مرتبہ پیغمبر نے اپنے صحابیوں اوردوستوں کوچاہے مہاجرین سے ہوںیاانصار میں سے ، حکم دیا کہ آپس میں ایک دوسرے کواپنا بھائی بنالیں اوردوسرے کے بھائی بن جائیں ،کتنی عمدہ بات ہے کہ دومہاجر ایک دوسرے کے بھائی یا ایک مہاجر میں سے اور ایک انصار میں سے ایک دوسرے کے بھائی بن گئے اور بھائی چارگی کے عنوان سے ایک دوسرے کے ہاتھ میں اپناہاتھ دیااوراس طرح سے ایک سیاسی اور معنوی قدرت و طاقت ابھر کر ان کے سامنے آگئی۔

اسلامی مؤرخین ومحدثین لکھتے ہیں:

ایک دن پیغمبر اپنی جگہ سے اٹھے اوراپنے دوستوں سے فرمایا: ''تآٔخوا فی الله اخوین اخوین''

یعنی خدا کی راہ میں آپس میں دودوآدمی بھائی بن جاؤ۔

تاریخ نے اس موقع پر ان افراد کا نام ذکر کیا ہے جن لوگوں نے اس دن پیغمبر کے حکم سے ایک دوسرے کے ساتھ رشتۂ اخوت کو قائم کیا مثلاً ابوبکر اور عمر ،عثمان اور عبدالرحمن بن عوف، طلحہ او ر زبیر، ابی ابن کعب اور ابن مسعود، عمار اور ابو حذیفہ، سلمان اور ابو الدرداء وغیرہ آپس میں ایک دوسرے کے بھائی بنے اور ان افراد کی بھائی چارگی کو پیغمبر نے تائید کیا .یہ برادری اوربھائی چارگی جو چند افراد کے درمیان قائم ہوئی اس برادری اور اسلامی برادری کے علاوہ ہے جسے قرآن کریم نے اسلامی معاشرے میں معیار ومیزان قرار دیا ہے اور تمام مومنین کوایک دوسرے کا بھائی کہا ہے۔

۶۸

حضرت علی ـ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بھائی تھے :

رسول اسلام(ص) نے جتنے افراد بھی مسجد نبوی میں حاضر تھے انھیںایک دوسرے کا بھائی بنایا، صرف علی ـان کے درمیان تنہا بچے جن کے لئے بھائی کانتخاب نہیں کیا، اس وقت حضرت علی آنکھوں میں آنسوؤوں کا سوغات لئے ہوئے پیغمبر اسلام کی خدمت میں پہونچے اور کہا آپ نے اپنے تمام دوستوں کے لئے ایک ایک بھائی کا انتخاب کردیا لیکن میرے لئے کسی کو بھائی نہیں بنایا۔

اس وقت پیغمبر اکرم نے اپنا تاریخی کلام جوحضرت علی کی پیغمبر سے قربت و منزلت اور نسبت اور آپ کی شخصیت کو اجاگر کرتا ہے انھیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

''اَنْتَ اَخِیْ فِی الدُّنْیٰا وَ الْآخِرَةِ وَالَّذِیْ بَعَثَنِیْ بِالْحَقِّ مٰا اَخَّرتُکَ الاّٰ لِنَفْسِیْ اَنْتَ اَخِیْ فِی الدُّنْیٰاوَ الْآخِرَةِ'' (۱)

تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو .وہ خدا جس نے ہمیںحق پر مبعوث کیا ہے میں نے تمہاری برادری کے سلسلے میں خود تاخیر سے کام لیا ہے تاکہ تمہیںاپنابھائی قرار دوں، ایسی بھائی چارگی جو دونوں جہان (دنیا و آخرت) میں باقی رہے۔

رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ کلام حضرت علی ـ کی عظمت اور پیغمبر اسلام سے نسبت کو معنوی و پاکیزگی اور دین کے اہداف میں خلوص کو بخوبی واضح ورو شن کرتا ہے. خود اہلسنت کے دانشمندوں میں سے

______________________

(۱) مستدرک حاکم، ج۳، ص ۱۴، استیعاب ، ج۳، ص ۳۵

۶۹

الریاض النضرة کے مؤلف نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔(۱)

یہاں پر آیت مباہلہ(۲) کی تفسیر کا مبنٰی سمجھ میں اتا ہے تمام علمائے تفسیر کا اتفاق ہے کہ( اَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ ) سے مراد علی بن ابی طالب ہیںجسے قرآن نے ''نفس پیامبر'' کے خطاب سے یاد کیا ہے. اس لئے کہ فکری اور روحی جاذبیت نہ یہ کہ صرف دو فکروں کواپنی طرف کھینچتی ہے بلکہ کبھی کبھی دو انسان کو ایک ہی شخص بتاتی ہے۔

اس لئے کہ ہر موجود اپنے ہم جنس کو جذب اور اپنے مخالف کو دفع کرتی ہے، اور یہ عالم اجسام اور اجرام زمین و آسمان سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ عظیم وبزرگ شخصیتیں جذب اوردفع کا مظہر ہیں.ایک گروہ کو جذب اور دوسرے گروہ کو دفع کرتی ہیں. اس طریقے کی کشش اور گریز سنخیت یا روح کے متضاد ہونے کی وجہ سے ہے اور یہی سنخیت اور تضاد ہے جوایک گروہ کواپنے قریب کرتی ہے اور دوسرے گروہ کواپنے سے دور کردیتی ہے۔ اس مسئلہ کو اسلامی فلسفۂ نے اس طرح تعبیر کیا ہے''السنخیة علة الانضمام'' یعنی سنخیت اور مشابہت اجتماع اورانضمام کا سرچشمہ ہے۔

امام ـ کی ایک اور فضیلت

جب مسجد نبوی کی تعمیر ہوچکی تو پیغمبر کے صحابیوں نے مسجد کے اطراف میں اپنے اپنے لئے گھر بنائے اور ہر گھر کا ایک دروازہ مسجد کی طرف کھلا رکھا پیغمبر اسلام نے بحکم خدا فرمایا: تمام دروازے جو مسجد کی طرف کھلتے ہیں اسے بند کردیا جائے سوائے علی بن ابی طالب کے دروازے کے ، یہ بات رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بہت سے صحابیوں پر ناگوار گذری لہٰذا پیغمبر اسلام منبر پر تشریف لائے اور فرمایا : خداوند عالم نے مجھے حکم دیاہے کہ تمام دروازے جو مسجد کی طرف کھلتے ہیںانھیں بند کردوں سوائے حضرت علی کے دروازے کے، اور خودمیں نے اپنی طرف سے دروازہ بند کرنے یا کھولنے کا حکم نہیں دیاہے بلکہ میں اس مسئلے میں خدا کے حکم کا پابند ہوں۔(۳)

______________________

(۱)الریاض النضرة ج۲ ص ۱۶ مؤلف محب الدین طبری

(۲)سورہ آل عمران ۶۱

(۳) مسند احمد ج۳ ص ۳۴۹، مستدرک حاکم ج۳ ص ۱۲۵ ،الریاض النضرة ج۳ ص ۱۹۲

۷۰

اس دن رسول خدا کے تمام صحابیوں نے اس واقعہ کو حضرت علی ـ کی ایک بہت بڑی فضیلت سمجھا یہاں تک کہ بہت زمانے کے بعد خلیفۂ دوم نے کہا کہ ، کاش وہ تین فضیلتیں جو علی کونصیب ہوئیں وہ مجھے بھی نصیب ہوتیں، اور وہ تین فضیلتیں یہ ہیں:

۱۔ پیغمبر نے اپنی بیٹی کا عقد علی ـ سے کیا۔

۲۔ تمام دروازے جو مسجد کی طرف کھلتے تھے وہ بند ہوگئے صرف علی ـکے گھر کا دروازہ کھلا رہا۔

۳۔ جنگ خیبر میں پیغمبر نے علم کوعلی ـ کے ہاتھوں میں دیا۔(۱)

حضرت علی ـاور لوگوں کے درمیان جو فرق ہے وہ اسی لئے کہ آپ کا مسجد سے کسی وقت بھی رابطہ منقطع نہیں ہوا ،وہ خدا کے گھر میں پیدا ہوئے اورکعبہ میں آنکھ کھولی اس بنا پر پہلے ہی دن سے مسجد آپ کا گھر تھا اور یہ تمام فضیلتیں کسی دوسرے کے لئے نہ تھیں اس کے علاوہ حضرت علی ہمیشہ اور ہر حالت میں مسجد کے احکام کی رعایت کرتے تھے لیکن دوسرے افرادبہت کم مسجدکے آداب و احکام کی رعایت کرتے تھے۔

______________________

(۱) مسند احمد، ج۲، ص ۲۶

۷۱

تیسری فصل

جنگ بدر کا بے نظیر بہادر

ضمضم نامی شخص کی دلسوز آواز، جس نے اپنے اونٹ کا کان کاٹ ڈالا ،اس کی ناک کو شگافتہ کر ڈالا،کوہان کو موڑے ، اونٹ کو الٹا کئے ہوئے تھا، نے قریش کو اپنی طرف متوجہ کیا .اس نے اپنے پیراہن کو آگے سے پیچھے تک پھاڑ دیا اور اونٹ کی پیٹھ پر سوار جس کے کان اور دماغ سے خون ٹپک رہا تھا ،کھڑا ہوا تھا اور چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ اے لوگو جس اونٹ کے ناف میں مشک ہے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے ساتھیوں کی وجہ سے خطرے میں ہے .وہ لوگ چاہتے ہیں کہ ان تمام اونٹوں کو سر زمین بدر کا تاوان قرار دیں، میری مدد کو پہونچو میری مدد کرو۔اس کے مسلسل چیخنے اوراستغاثہ کرنے کی وجہ سے قریش کے تمام بہادر اور نوجوان گھر، کارخانہ اور دوکانوں سے نکل کر اس کے پاس جمع ہوگئے .زخمی اونٹ کی حالت اور ضمضم کی آہ و بکا نے ان لوگوں کی عقلوں کو حیرت میں ڈال دیا اور لوگوں کواحساسکے حوالے کر دیا، اکثر لوگوں نے یہ ارادہ کرلیا کہ شہر مکہ کو کاروان قریش سے نجات دینے کے لئے ''بدر'' کی طرف چلے جائیں۔پیغمبر اسلام(ص) اس سے بلند و بالا تھے کہ کسی کے مال و دولت پر نگاہ کرتے اور کسی گروہ کے مال و متاع کو بغیر کسی سبب کے تاوان قرار دیتے، تو پھر کیاہوا کہ آپ نے اس طرح کا ارادہ بنالیا تھا؟

رسول اسلام (ص) کا مقصداس کام سے فقط دو چیز تھا۔

۱۔ قریش کواس بات کا علم ہو جائے کہ ان کے تجارت کرنے کا طریقہ ،اسلام کے ہاتھوں میں قرار دیا گیاہے اور اگر وہ لوگ اسلام کی نشر واشاعت اور تبلیغ کے لئے مانع ہوں اور بیان آزادی کو مسلمانوں سے چھین لیںتو ان کے حیات کی رگوں کواسلامی طاقتوں کے ذریعہ کاٹ دیا جائے گا. کیونکہ بولنے والا جتنا بھی قوی ہواور چاہے جتنا بھی خلوص واستقامت دکھائے لیکن اگر آزادیٔ بیان و تبلیغ سے استوار نہ ہو تو شائستہ طور پر اپنے وظیفے کو انجام نہیں دے سکتا۔

مکہ میں قریش، اسلام کی تبلیغ واشاعت اورآئین الہی کی طرف لوگوں کے متوجہ ہونے میں سب سے زیادہ مانع تھے. ان لوگوںنے تمام قبیلے والوں کواجازت دیدیا کہ حج کے زمانے میں مکہ آئیںلیکن اسلام اور مسلمانوں کے عظیم المرتبت رہبر کو مکہ اور اطراف مکہ میںداخلے پر پابندی عائد کردی ، یہاں تک کہ اگر ان کو پکڑ لیتے تو قتل کردیتے .اس وقت جب لوگ حج کے زمانے میں حجاز کے تمام شہروںسے خانہ کعبہ کے اطراف جمع ہو رہے تھے ، قوانین اسلام وتوحید کے پیغام کو پہونچا نے کا بہترین وقت تھا۔

۷۲

۲۔ مسلمانوں کے بعض گروہ جو کسی بھی وجہ سے مکہ سے مدینے کی طرف ہجرت نہیں کرسکے تھے وہ ہمیشہ قریش کے عذاب میں مبتلا تھے. وہ اپنا مال و متاع اور جولوگ ہجرت کر گئے تھے ان کے مال و متاع کوآج تک حاصل نہ کرسکے تھے اور قریش کی طرف سے ہمیشہ ڈرائے اور دھمکائے جاتے تھے۔

پیغمبر اسلام نے کاروان قریش سے تجارت کے سامانوں کا تاوان لینے کے لئے قدم اٹھایااور ارادہ کیا کہ سختی سے ان کی تنبیہ کی جائے جنھوں نے مسلمانوں سے ہر طرح کی آزادی کو چھین لیا تھا اور مسلسل انھیں اذیت وتکلیف دیتے رہتے تھے اور ان کے اسباب کی پرواہ تک نہ کرتے تھے۔

اسی وجہ سے پیغمبر ماہ رمضان ۲ھ میں۳۱۳/ آدمیوںکے ہمراہ کاروان قریش کے مال و سامان سے تاوان لینے کے لئے مدینہ سے باہر آئے اور بدر کے کنویں کے پاس ٹھہر گئے، قریش کا تجارتی لشکر شام سے مکہ کی طرف واپس جا رہا تھا اور راستے میں اسے ''بدر'' نامی دیہات سے ہوکر گذرنا تھا۔

ابو سفیان جواس قافلے کا سرپرست تھا، پیغمبر کے ارادے سے باخبر ہوگیا اوراس خبر کو قریش کے سرداروں کے پاس ضمضم کے ذریعے بھیج دیا اور اسے قریش کے سرداروں کے پاس اپنا پیغام بھیجوانے کے لئے اجیر کرلیا تاکہ لوگ قافلے کی مدد کرنے جلد سے جلد آجائیں. ضمضم نے جوماحول بنایا وہ باعث ہوا کہ قریش کے تمام بہادر نوجوان اور جنگجو،قافلے کی مدد کے لئے اٹھ کھڑے ہوں اور جنگ کے ذریعے اس کام کا خاتمہ کردیں۔

قریش نے ایسے نو سو سپاہیوں کا لشکر تیار کیا جوجنگ کے امور میں پختہ دلیری سے لڑنے والے بہترین اسلحوںکے ساتھ ''بدر'' کی طرف روانہ ہوئے لیکن مقصد پر پہونچنے سے پہلے ہی راستے میں ابوسفیان کے دوسرے ایلچی نے اس خبر سے آگاہ کیا کہ قافلے نے اپنا راستہ بدل دیا ہے اور ایک دوسرے راستے سے مسلمانوں سے بچ کر نکل گیا اوراپنے کو محفوظ کرلیا ہے، لیکن ان لوگوں نے اسلام کو، جوابھی شباب کی منزل پر پہونچا تھا سرکوبی کے لئے اپنے ہدف کی طرف سفر جاری رکھااور ۱۷ رمضان ۲ ھ کی صبح کوایک پہاڑ کے پیچھے سے بدر کے میدان میں وارد ہوئے۔

۷۳

مسلمان بدر کے شمالی طرف سے گذرنے والے درہ کی ڈھلان''العدوة الدنیا'' (۱) کوپناہ گاہ بنائے ہوئے قافلہ کے گذر نے کا انتظار کر رہے تھے. کہ اچانک یہ خبر پہونچی کہ قریش کا لشکر اپنے تجارتی سامان کی حفاظت کے لئے مکہ سے روانہ ہوچکا ہے اورالعدوة القصویٰ(۲) درہ کی بلندی سے نیچے اتر رہا ہے ۔

پیغمبر اسلام کا انصار سے عہد و پیمان، دفاعی تھانہ کہ جنگی، انھوں نے عقبہ میں پیغمبر کے ساتھ عہد کیا تھا کہ اگر دشمن نے مدینہ پر حملہ کیا تووہ پیغمبر اکرم (ص)کا دفاع کریں گے نہ یہ کہ ان کے ساتھ مدینہ کے باہر دشمنوں سے لڑیںگے لہٰذا پیغمبر اسلام نے سپاہیوںکی ایک میٹنگ جوکچھ جوانان انصار اور کچھ مہاجرین کے نوجوانوں پر مشتمل تھی بلائی اور اس میں لوگوں کا نظریہ جاننا چاہا. اس میٹنگ میں جونظریات وجود میں آئے وہ یہ تھے کہ کچھ لوگوںنے شجاعت و بہادری کی بات کی اور کچھ لوگوںنے بزدلی اور عاجزی وبے چارگی کی باتیں کیں۔

سب سے پہلے ابوبکر اٹھے اور کہا:

قریش کے بزرگان اورنوجوان نے اس قافلے سے مقابلے کے لئے شرکت کی ہے، اور قریش آج تک کسی بھی قانون پر ایمان نہیں لائے اورایک لمحہ کے لئے بھی ذلیل ور سوا نہیں ہوئے ہیں اور ہم لوگ مکمل تیاری کے ساتھ یہاں نہیں آئے ہیں(۳) یعنی مصلحت یہ ہے کہ یہاں سے مدینہ واپس چلے جائیں۔

عمربھی اپنی جگہ سے اٹھے اوراپنے دوست کی بات کی مزید وضاحت کی ۔

اسی وقت مقداد اٹھے اور انھوں نے کہا :

خدا کی قسم ہم بنی اسرائیل کی طرح نہیں ہیں جو موسیٰ سے کہیں : ''اے موسیٰ تم اپنے خدا کے ساتھ جاؤ جہاد کرواورہم لوگ یہاںبیٹھے ہیں'' بلکہ ہم اس کے برعکس کہتے ہیں کہ آپ پروردگار کے زیر سایہ جہاد کیجئے ہم بھی آپ کے ہمراہ جہاد کریںگے۔

______________________

(۱)،(۲) سورۂ انفال، آیت ۴۲

(۳)مغازی واقدی ج۱ ص ۴۸

۷۴

طبری لکھتا ہے کہ جس وقت مقداداٹھے اور چاہا کہ گفتگو کریں توپیغمبر اکرم کے چہرے سے غیض و غضب (جو عمر وابوبکر کی باتیں سن کر ہوا تھا) کے آثار نمودار تھے. لیکن جب مقداد کی گفتگواور مدد کرنے کی خوشخبری سنا تو آپ کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔(۱)

سعد معاذ بھی اٹھے اور کہا کہ جب بھی تم اس دریا (بحر احمر کی طرف اشارہ) کی طرف قدم بڑھاؤ گے ہم بھی تمہارے پیچھے پیچھے اپنے قدم بڑھائیں گے، اور جہاں پر بھی تم مصلحت سمجھناہمیں راستہ دیدینا، اس موقع پر خوشی اور مسرت کے آثار پیغمبر کے چہرۂ اقدس پر آشکار ہوئے اور خوشخبری کے طور پر ان سے کہا: میں قریش کے قتل عام کی وجہ سے مضطرب ہوں. پھر اسلام کی فوج پیغمبر کی سپہ سالاری میں وہاں سے روانہ ہوگئی اور دریائے بدر کے کنارے مستقر ہوئی۔

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۲ ص ۱۴۰، عبداللہ بن مسعود سے نقل ہوا ہے۔

۷۵

حقیقت کوچھپانا :

طبری اور مقریزی جیسے مؤرخین نے کوشش کی ہے کہ حقیقت کے چہرے کوتعصب کے پردے سے چھپادیں اور شیخین کی پیغمبر کے ساتھ ہوئی گفتگو کو جس طرح سے کہ واقدی نے مغازی میں نقل کیا ہے اس طرح نقل نہ کریں ،لہذاکہتے ہیں کہ ابوبکر نے اٹھ کر بہترین گفتگو کی اور اسی طرح سے عمر نے بھی اٹھ کر اچھی باتیں کیں۔

لیکن ضروری ہے کہ یہاں پران دو تاریخ لکھنے والوں سے سوال کیا جائے کہ جب ان دونوںنے اس میٹنگ میں اچھی اچھی باتیں کہی تھیں تو پھر تم لوگوںنے ان کی اصل گفتگوکو نقل کرنے سے کیوںگریز کیا؟ جب کہ تم لوگوں نے مقداد اور سعد کی گفتگو کو تمام جزئیات کے ساتھ نقل کیا ہے؟ تواگر ان لوگوںنے بھی اچھی گفتگواور عمدہ بات کہی تھی تو کیوں پیغمبر کا چہرہ ان کی باتیں سن کر رنجیدہ ہوگیا جیسا کہ خود طبری نے اس چیز کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے؟

لہذا ضروری ہے کہ حضرت علی ـ کی شخصیت و عظمت کے بارے میں اس جنگ کے حوالے سے تحقیق و جستجو کیا جائے۔

حق و باطل کا مقابلہ

مسلمان اور قریش دونوںگروہوں نے جنگ کے لئے صف بندی شروع کردی، اور چند چھوٹے چھوٹے حادثوں نے آتش جنگ کو شعلہ ور کردیا، ابتدا میں ایک ایک شخص لڑنے کوآمادہ ہوا تین افراد بنام عتبہ پدرہندہ (ابوسفیان کی بیوی کا باپ) اوراس کا بڑا بھائی شیبہ اور عتبہ کا بیٹا ولید میدان جنگ میں آکر کھڑے ہوگئے اور اپنا مقابل طلب کیا .سب سے پہلے انصار میں سے تین آدمی ان سے لڑنے کے لئے میدان جنگ میں آئے اور اپنا تعارف کرایا،لیکن مکہ کے بہادروں نے ان سے جنگ کرنے سے پرہیز کیا اور آواز دی''یٰا مُحَمَّدُ اُخْرُجْ اِلَیْنَا اِکْفَائَنٰا مِنْ قَوْمِنٰا'' یعنی اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! جو لوگ ہماری قوم اور ہمارے شایان شان ہیں انھیں ہمارے ساتھ جنگ کے لئے بھیجو۔

۷۶

رسول خدا نے عبیدہ بن حارث بن عبد المطلب اور حمزہ اور علی کوحکم دیا کہ اٹھ کر دشمن کا جواب دیں، اسلام کے تین عظیم سپہ سالار چہرے پر نقاب ڈالے ہوئے میدان جنگ کی طرف روانہ ہوئے. ہر ایک نے اپنا اپنا تعارف کرایااو رعتبہ تینوں افراد سے لڑنے کے لئے تیار ہوگیااورکہاکہ یہ سب کے سب ہمارے شایان شان ہیں۔

یہاں پر بعض مؤرخین مثلاً واقدی لکھتاہے :

جس وقت انصار کے تین بہادر میدان جنگ میںجانے کے لئے تیار ہوئے تو خود پیغمبر نے انھیں جنگ کرنے سے روکا، کیونکہ پیغمبر نہیں چاہتے تھے کہ اسلام کی سب سے پہلی جنگ میں انصار شرکت کریںاور اسی کے ساتھ ساتھ تمام افراد کواس بات سے بھی باخبر کردیاکہ آئین توحید میری نگاہ میں اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ آپ نے اپنے عزیز ترین اور نزدیک ترین افرادکو بھی اس جنگ میں شریک کیا اسی وجہ سے بنی ہاشم کی طرف رخ کر کے کہا کہ اٹھو اور باطل کے ساتھ جنگ کرو کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ نور خدا کوخاموش کردیں۔(۱)

بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ اس جنگ میں ہر سپاہی اپنے ہم سن و سال اوراپنے مقابل سے لڑنے گیااوراس میں سب سے جوان فرد حضرت علی ، ولید (جو معاویہ کا ماموں تھا) سے لڑے اور ان سے کچھ

______________________

(۱) مغازی واقدی ج۱ ص ۶۲

۷۷

بڑے حمزہ جنہوں نے عتبہ (معاویہ کا نانا) سے اور عبیدہ جو ان دونوں سے بوڑھے تھے شیبہ سے جنگ کرنا شروع کردی۔

ابن ہشام کہتے ہیں کہ شیبہ ، حمزہ کا مقابل اورعتبہ ، عبیدہ کا مقابل تھا.(۱) اب دیکھتے ہیں کہ ان دونوں نظریوں میں کونسا نظریہ صحیح ہے ان دونوں کی تحقیق و جستجوکے بعد حقیقت واضح ہوجائے گی۔

۱۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ علی ـ اور حمزہ نے اپنے حریف ومقابل کو فوراً ہی زمین پر گرادیا. لیکن عبیدہ اور ان کے مقابل کے درمیان بہت دیرتک زور آزمائی ہوتی رہی اور ان میں سے ہر ایک نے ایک دوسرے کومجروح کردیااور کسی نے بھی ایک دوسرے پرغلبہ حاصل نہیں کیا .علی ـاور حمزہ اپنے رقیبوں کو قتل کرنے کے بعد عبیدہ کی مدد کی لئے دوڑے اور ان کے مقابل کو قتل کردیا۔

۲۔ امیر المومنین علیہ السلام معاویہ کو خط لکھتے ہوئے اسے یاد دلاتے ہیںکه'' وَ عِنْدِیْ اَلْسَّیْفُ الَّذِیْ اَعْضَضْتُه بِجَدِّکَ وَ خَالِکَ وَاَخِیْکَ فِیْ مَقَامٍ وَاحِدٍ'' (۲) یعنی وہ تلوار جسے میں نے ایک دن تیرے نانا (عتبہ ، ہندہ کا باپ ہند معاویہ کی ماں) او رتیرے ماموں (ولید بن عتبہ) اور تیرے بھائی (حنظلہ) کے سر پر چلائی تھی اب بھی میرے پاس موجود ہے یعنی ابھی اسی قدرت پر باقی ہوں۔ایک اور مقام پر حضرت امیر فرماتے ہیں کہ''قَدْ عَرَفْتَ مَوَاقِعَ نصالِهٰا فِیْ اَخِیْکَ وَخَالِکَ وَجَدِّکَ وَمَا هِیَ مِنَ الظَّالِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ'' .(۳) یعنی تواے معاویہ! مجھے تلوار سے ڈراتا ہے ؟جب کہ میری تلوار جوتیرے بھائی ، ماموں، اور نانا کے سر پر پڑی تھی تواس سے خوب باخبر ہے اور تو یہ بھی جانتا کہ میں نے ان سب کوایک ہی دن میں قتل کردیا تھا۔

امام علیہ السلام کے ان دونوںخطووں سے بخوبی استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت علی نے معاویہ کے جد کو قتل کیا تھا اور دوسری طرف یہ بھی جانتے ہیں کہ حمزہ او رحضرت علی دونوںنے اپنے مد مقابل کو بغیر کسی تاخیر کے ہلاک کر ڈالا تھا ،لہٰذا اگر حمزہ کی جنگ عتبہ (معاویہ کا جد) سے ہوتی توحضرت امیر علیہ السلام یہ کبھی نہیں فرماتے کہ ''اے معاویہ تیرے جد میری ہی تلوار کے وار سے ہلاک ہوئے ہیں'' ایسی صورت میں یہ کہنا پڑے گا کہ شیبہ اور حمزہ ایک ساتھ لڑے اور عتبہ ، عبیدہ کے مقابلے میں تھا اور حضر ت علی اور حمزہ اپنے اپنے حریفوںکوقتل کرنے کے بعد اس کی طرف گئے اوراسے قتل کردیا۔

______________________

(۱) سیرۂ ابن ہشام ج۱ ص ۶۲۵------(۲) نہج البلاغہ نامہ ۶۴---(۳) نہج البلاغہ نامہ ۶۴

۷۸

چوتھی فصل

حضرت علی ـ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے داماد ہیں

حکم الہی اور سنت حسنہ پر عمل پیراہونے کے لئے حضرت علی کے لئے ضروری تھا کہ جوانی کے بحران سے نکلنے کے لئے اپنی زندگی کی کشتی کو سکون و آرام دیں، مگر حضرت علی جیسی شخصیت کے لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ کسی کو وقتی آرام وآسایش کے لئے اپنی شریک حیات بنائیں اور اپنی زندگی کے بقیہ ایام کو ایسے ہی چھوڑ دیں. لہٰذا ایسی شریک حیات چاہتے ہیں جو ایمان، تقویٰ، علم اور بصیرت، نجابت واصالت میں ان کی کفو اوران کی ہم پلہ ہو. اور ایسی شریک حیات سوائے پیغمبر کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا جن کی تمام خصوصیات سے بچپن سے لے کر اس وقت تک آپ واقف تھے، کے علاوہ کوئی اور نہ تھا۔

حضرت زہرا سے شادی کے خواہشمندافراد

حضرت علی سے پہلے بہت سے دوسرے افراد مثلاً ابوبکر، عمر نے حضرت زہرا کے ساتھ شادی کے لئے پیغمبر کو رشتہ دیا تھا اور دونوں نے پیغمبر سے ایک ہی جواب سنا تھا آپ نے فرمایا تھا کہ میں زہرا کی شادی کے سلسلے میں وحی کا منتظر ہوں۔

ان دونوں نے جو حضرت زہرا سے شادی کے سلسلے میں ناامید ہوچکے تھے رئیس قبیلہ اوس، سعد معاذ کے ساتھ گفتگو کی اور آپس میں سمجھ لیا کہ حضرت علی کے علاوہ کوئی بھی زہرا کا کفونہیں بن سکتا ،اور پیغمبر کی نظر انتخاب بھی علی ـکے علاوہ کسی پر نہیں ہے. اسی بنا پر یہ لوگ ایک ساتھ حضرت علی کی تلاش میں نکلے اور بالآخر انھیں انصار کے ایک باغ میں پایا .آپ اپنے اونٹ کے ساتھ کجھور کے درختوں کی سینچائی میں مصروف تھے ،ان لوگوں نے علی ـ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا : قریش کے شرفا نے پیغمبر کی بیٹی سے شادی کے لئے رشتہ دیا تو پیغمبر نے ان کے جواب میں کہا کہ زہرا کی شادی کے سلسلے میں میں حکم خدا کا منتظر ہوں ہمیں امید ہے کہ اگر تم نے (اپنے تمام فضائل کی وجہ سے) فاطمہ سے شادی کی درخواست کی تو تمہاری درخواست ضرور قبول ہوجائے گی اور اگر تمہاری مالی حالت اچھی نہیں ہے تو ہم سب تمہاری مدد کریں گے۔اس گفتگو کو سنتے ہی حضرت علی کی آنکھو میں خوشی کے آنسو آگئے اور کہا: میری بھی یہی آرزو ہے کہ میں پیغمبر کی بیٹی سے شادی کروں. اتنا کہنے کے بعد آپ کام چھوڑ کر پیغمبر کے گھر کی طرف روانہ ہوگئے ،اس وقت پیغمبر ام سلمہ کے پاس تھے. جس وقت آپ نے دروازے پر دستک دی. پیغمبر نے فوراً ام سلمہ سے کہا جاؤ اور دروازہ کھولو، کیونکہ یہ وہ شخص ہے جسے خدا اور اس کا رسول دوست رکھتا ہے۔

۷۹

ام سلمہ کہتی ہیں کہ اس شخص کودیکھنے کے لئے میرا دل بے چین ہوگیا کہ جس شخص کی پیغمبر نے ستائش کی ہے. میں اٹھی کہ دروازہ کھولوں.عنقریب تھا کہ میرے پیر لڑکھڑا جاتے. میں نے دروازہ کھولا حضرت علی داخل ہوئے اور پیغمبر کے پاس بیٹھ گئے ،لیکن پیغمبر کی عظمت و جلالت کی وجہ سے حیا مانع بن رہی تھی کہ پیغمبر سے گفتگو کریں،اس لئے سر کو جھکائے بیٹھے تھے یہاں تک کہ پیغمبر نے خاموشی کوختم کیا اور کہا:شاید کسی کام سے آئے ہو؟حضرت علی نے جواب دیا: ہماری رشتہ داری ومحبت خاندان رسالت سے ہمیشہ ثابت و پائدار رہی اور ہمیشہ دین و جہاد کے ذریعے اسلام کو ترقی کے راستے پر لگاتے رہے ہیں، یہ تمام چیزیںآپ کے لئے روشن و واضح ہیں. پیغمبر نے فرمایا:جوکچھ تم نے کہا تم اس سے بلند و بالا ہو۔ حضرت علی نے کہا:کیا آپ میری شادی فاطمہ سے کرسکتے ہیں۔(۱)

حضرت علی نے اپنا پیغام دیتے وقت تقویٰ اور اپنے گذرے ہوئے روشن سابقہ اوراسلام پر اعتماد کیا، اور اس طرح سے دنیا والوں کویہ پیغام دیا کہ معیار فضیلت یہ چیزیں ہیں نہ کہ خوبصورتی، دولت اور منصب وغیرہ۔

پیغمبر اسلام نے شوہر کے انتخاب میں عورت کو آزاد رکھا ہے اور حضرت علی کے جواب میں فرمایا:تم سے پہلے کچھ لوگ اور بھی میری بیٹی سے شادی کی درخواست لے کر آئے تھے ، میں نے ان کی درخواست کواپنی بیٹی کے سامنے پیش کیا لیکن اس کے چہرے پر ان لوگوں کے لئے عدم رضایت کوبہت شدت سے محسوس کیا ۔اب میں تمہاری درخواست کواس کے سامنے پیش کروں گا پھر جو بھی نتیجہ ہوگا تمہیں مطلع کروں گا۔

پیغمبر اسلام جناب فاطمہ زہرا کے گھر آئے آپ ان کی تعظیم کے لئے اٹھیں، آپ کے

______________________

(۱) حضرت علی، شادی کے پیغام کے وقت ایک سنت پر عمل کر رہے تھے ،جب کہ ان پر بہت زیادہ حیا طاری تھی .آپ بذات خود اور بغیر کسی واسطے کے پیغام دے رہے تھے ،اور یہ روحی شجاعت و بہادری ، عفاف کے ہمراہ لائق تقدیر ہے

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

ہو اور اسکی آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہوئی ہو اور کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جس نے اسکو ذلیل سمجھا ہو اور اس نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا ہو''

کتب احادیث میں اس قسم کی روایات بہت زیادہ ہیں مگر یہ دوسری بات ہے کہ ان روایات میں کا ئنات کے بارے میںالہی سنتوںکی وضاحت جس انداز میںپیش کی گئی ہے اگر کوئی اس سے واقف نہ ہوتو یہ روایات اسکے لئے کچھ مبہم ہیں لیکن جولوگ زبان وبیان حدیث سے واقفیت رکھتے ہیں انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ان روایات میں جس عذاب کا تذکرہ کیا گیا ہے اس سے مراد وہ عذاب ہے جو خدا سے روگردانی کرنے اور دنیا سے دل لگالینے کی صورت میں اسکے سامنے آتا ہے یعنی یہ دنیا ہی اسکے لئے عذاب بن جاتی ہے لیکن اگر اسکا دل خداوند عالم کی طرف متوجہ رہے اور وہ دنیا کو خداوند عالم تک رسائی حاصل کرنے کے ذریعہ کے علاوہ کچھ اور خیال نہ کرے اور اسی نیت سے دنیاکا ہر کام کرتار ہے اور اپنا رزق کمائے تو دنیا اسے نقصان نہیں پہونچاسکتی بلکہ وہ اسکے لئے فائدہ مند اور خدمت گذارہی ثابت ہوگی۔

خواہشات کی پیروی کے بعد انسان کی دوسری مصیبت

گذشتہ صفحات میں ہم نے دنیا داری اور خواہشات کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے پہلے عذاب کا تذکرہ کیا ہے جس میں انسان کے معاملاتِ زندگی بکھرکر رہ جاتے ہیں اوراسکی خواہشات کے آپسی ٹکرائو کی بناء پر اسکا نفس عجیب وغریب اندرونی خلفشار کا شکار ہوجاتا ہے ۔

مگر اس تذبذب اور خلفشار کے بعد بھی یہ خواہشات انسان کو چین سے نہیں رہنے دیتیں بلکہ جب انسان خدا سے اپنا منھ پھیرکر انہیں خواہشات کے مطابق چلتا ہے تو وہ حرص اور لالچ کے عذاب میں بھی پھنس جاتا ہے کیونکہ اگر انسان کی توجہ خدا کے بجائے دنیا کی طرف ہوتو وہ کسی چیز سے سیر نہیں ہوپاتا اور اسے چاہے جس مقدار میںدنیا مل جائے یا اسکے برعکس وہ اس سے منھ پھیرے رہے تب بھی اسکی طمع کا وہی حال رہے گا کیونکہ یہ ایک نفسیاتی بات ہے اور مال ودولت وغیرہ کی کمی یا زیادتی سے اسکا کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اکثر تو ایسا ہوتا ہے کہ انسان کو جتنی زیادہ فراوانی کے ساتھ دولت ملتی ہے اسکے اندر دنیا کی محبت اور لالچ اتنی ہی زیادہ بڑھ جاتی ہے اور انسان دنیا کے پیچھے دیوانہ بنا رہتا ہے اور اسکا پیٹ کبھی بھی نہیں بھر پاتا اور اسکے سینہ میں محبت دنیا کی آگ پہلے کی طرح ہی جلتی رہتی ہے اور وہ کبھی سردنہیں پڑتی ہے ۔

۱۶۱

دنیا انسان کا ایک سایہ

جب انسان اس دنیا کو اپنا مقصد حیات بنالے تو پھر اس دنیا کے بارے میں وہی مثال مناسب ہے جو بعض روایات میں امیر المومنین سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :

(مثل الدنیا کظلکِ،انْ وقفتَ وقفَ،وانْ طلبتَه بَعُدَ )( ۱ )

''دنیا کی مثال تمہارے سایہ کی طرح ہے کہ اگر تم رک جائو تو وہ بھی رک جائے گا اور اگر تم اسے پکڑنا چاہو تو وہ تم سے دور بھاگے گا''

آپ کا یہ جملہ دنیا سے انسان کے رابطہ اور انسان سے دنیا کے رابطہ کے بارے میں بہت ہی بلیغ ہے کیونکہ دنیا کی لالچ اور اس پر ٹوٹ پڑنے سے اسے اپنے نصیب سے زیادہ کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے کیونکہ دنیا بالکل سایہ کی طرح ہے کہ اگرہم اسکی طرف آگے بڑھیں گے تووہ ہم سے اتنا ہی آگے بڑھ جائے گا ۔گویا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپناپیچھا کرنے والے سے فرار کرجاتا ہے ، لہٰذا اسکے پیچھے دوڑنے سے تھکن اور دردسر کے علاوہ اور کچھ ہاتھ آنے والا نہیں ہے ۔۔۔ اور بالکل یہی حال دنیا کا بھی ہے ۔

لہٰذا دنیا کو حاصل کرنے کا سب سے بہتر راستہ یہی ہے کہ طلب دنیا کی آرزو کو مختصر کردیا جائے اور دنیا کے اوپر جان کی بازی نہ لگائی جائے کیونکہ اس کے اوپر مرمٹنے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے بلکہ انسان اپنے لئے مزید مصیبت مول لے لیتا ہے ۔

____________________

(۱)غررالحکم ج۲ ص۲۸۴۔

۱۶۲

روایات کی روشنی میں عذاب دنیا کے چند نمونے

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :(ما سکن حب الدنیاقلباً الا التاط بثلاث:شغل لاینفدْ عناؤه،وفقرلا ید رکغناه،وأمل لاینال مناه )( ۱ )

''دنیا کی محبت کسی دل میں نہیں آتی مگر یہ کہ وہ تین چیزوں میں مبتلاہوجاتاہے ایسی مصروفیت جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی،ایسی فقیری جو مالداری میں تبدیل نہیں ہوسکتی اور ایسی آرزو جو کبھی پوری نہیں ہوسکتی ہے ''

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے :

(من أصبح والدنیا أ کبرهمه،فلیس من ﷲ فی شی ئ،وألزمه قلبه أربع خصال:همّاً لا ینقطع أبداً،وشغلاً لاینفرج عنه أبداً،وفقراً لایبلغ غناه أبداً،وأملا ً لا یبلغ منتهاه ابداً )( ۲ )

''صبح ہوتے ہی جسے سب سے زیادہ دنیا کی فکر ہوا سے خدا سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے بلکہ وہ اسکے دل میں چار خصلتوںکو راسخ کردے گا۔کبھی ختم نہ ہونے والا غم،ایسی مصروفیت جس سے کبھی چھٹکارانہ ملے،ایسی فقیری جو استغنا تک نہ پہونچ سکے ،ایسی آرزو جو کبھی اپنی آخری منزل نہ پا سکے''

حضرت علی :

(من لهج قلبه بحب الدنیاالتاط قلبه منهابثلاث:همّ لایغنیه، ومرض لایترکه،وأمل لایدرکه )( ۳ )

____________________

(۱)بحارالانوار ج ۷۷ ص ۱۸۸ ۔

(۲)میزان الحکمت ج۳ص۳۱۹۔

(۳)شرح نہج البلاغہ ابی الحدیدج۱۹ص۵۲،بحارالانوار ج۷۳ص۱۳۰۔

۱۶۳

''جس شخص کا دل دنیا کی محبت کا دلدادہ ہوجائے اسکا دل تین چیزوں میں پھنس کررہ جاتا ہے ۔ ایسا غم جس سے افاقہ ممکن نہیںایسی بیماری جو اسے کبھی نہ چھوڑے گی ایسی آرزو جسے وہ کبھی نہیں پاسکتا''

حضرت علی :

(من کانت الدنیا اکبر همّه،طال شقاؤه وغمه )( ۱ )

''جسکے لئے دنیا سب کچھ ہوگی اسکی بدبختی اور غم طولانی ہوجائینگے''

حضرت علی :

(من کانت الدنیا همّته اشتدت حسرته عند فراقها )( ۲ )

''جسکا سب سے بڑا مقصد، دنیا ہو تو اس سے دوری کے وقت اس کی حسرت شدید ہوجاتی ہے ''

حضرت علی :

(المتمتّعون من الدنیا تبکی قلوبهم وان فرحوا،ویشتد مقتهم لانفسهم وان اغتبطواببعض مارزقوا )( ۳ )

''دنیا سے لطف اندوز ہونے والے اگر چہ بظاہر خوش نظر آتے ہیں مگر ان کے دل روتے ہیں اور وہ خود اپنے نفس سے بیزار رہتے ہیں چاہے لوگ ان کے رزق سے غبطہ ہی کیوں نہ کریں''

امام جعفر صادق :

(من تعلّق قلبه بالدنیا تعلّق قلبه بثلاث خصال:همّ لایُغنی،وأمل لایُدرک، ورجاء لایُنال )( ۴ )

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ص۸۱۔

(۲) بحارالانوار ج۷۱ ص۱۸۱۔

(۳)بحارالانوارج۷۸ص۲۱۔

(۴)بحار الانوار جلد ۷۳ص۲۴۔

۱۶۴

''جسکا دل دنیا سے وابستہ ہوجائے اسکے دل کے اندر تین خصلتیں پیدا ہوجاتی ہیں:لازوال غم ،پو ری نہ ہونے والی آرزو،ہاتھ نہ آنے والی امید''

یہ رنگ برنگے عذاب ،دنیا کے ان عذابوں کا کچھ حصہ ہیں جو خداوند عالم نے خواہشات کی پیروی کرنے والوں کے لئے آخرت سے پہلے اسی دنیا میں معین فرمادئے ہیں مثلاً اہل ثروت کو اپنے اقرباء یا دور والوں سے اپنے مال کے بارے میں جو خوف اور پریشانی لا حق رہتی ہے یہ ان کے لئے دنیاوی عذاب کا صرف ایک حصہ ہے ۔

آخرت میں انسان کی سرگردانی وپریشا ں حالی

حدیث قدسی میں انسان کی جس پریشان حالی (افتراق اوردرہم برہم ہوجانے )کا تذکرہ ہے اسکا تعلق صرف دنیا سے ہی نہیںہے بلکہ دنیا کی طرح اسے آخرت میں بھی اسی صورتحال سے دوچارہونا پڑے گا ۔

آخرت میں یہ افتراق اور بیقراری سب سے پہلے اپنے خواہشات نفس اور ہوی وہوس کے پیچھے چلنے والوں کے درمیان ہی دکھائی دینگے کیونکہ وہ دنیا میں جسمانی اعتبار سے بظاہر متحدضرور تھے مگر ان سب کی تمنائیں اور ہوس ایک دوسرے سے الگ تھیں نیزانھوں نے اپنے جواختلافات دنیا میں چھپارکھے تھے وہ سب آخرت میں کھل کر سامنے آجائیں گے خداوند عالم نے قرآن مجید میں اہل جہنم کے حالات کی یوںتصویر کشی کی ہے :

(کلّما دخلت اُمة لعنت اُختها )( ۱ )

''جہنم میں داخل ہونے والی ہر جماعت اپنی دوسری برادری پر لعنت کرے گی''

اس اختلاف اور انتشار یا خانہ جنگی کی دوسری صورت اس وقت سامنے آئے گی کہ جب

انسان خدا سے اپنے جرائم چھپانا چاہے گا اور اسی وقت اس کے اعضاء اسکے جرائم کے بارے میں

____________________

(۱)سورئہ اعراف آیت ۳۸

۱۶۵

گواہی دینے لگیں گے تو وہ ان پر غصہ ہو گااوراسی وقت اسکے یہی ہاتھ پیر اور کھال وغیرہ اسے ذلیل و رسوا کرکے رکھ دینگے تووہ اپنے اعضاء سے یہ کہے گا:

(وقالوا لجلود هم لم شهد تم علینا قالوا أنطقنا ﷲ الذی أنطق کلّ شیئ )( ۱ )

''اور وہ (اہل جہنم )اپنے اعضاء سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیسے شہادت دیدی تو وہ جواب دینگے کہ ہمیں اسی خدا نے گویا بنایا ہے جس نے ہر چیز کو گویائی عطا کی ہے ''

بلکہ روایات میں تو یہاں تک ہے کہ روز قیامت اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والے گنہگاروں کے بعض اعضاء ان سے اظہار نفرت کرینگے اور ایک دوسرے پر لعنت کرتے دکھائی دینگے اور یہ بعینہ وہی صورتحال ہے جو دنیا میں خواہشات کی پیروی کی بنا پر انسان کے اندر دکھائی دیتی ہے ۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے :

(کُفّ أذاک عننفسک،ولا تتابع هواهافی معصیةاللّٰه،اذتخاصمک یوم القیامة،فیلغی بعضک بعضاً،الا أن یغفرﷲو یستر برحمته )( ۲ )

''اپنے نفس کو اذیت نہ دواور معصیت خدا میں اپنے نفس کے خواہشات کی پیروی نہ کرو کیونکہ وہ روز قیامت تم سے جھگڑا کریگا اور اسکا بعض حصہ دوسرے حصہ کو برا بھلاکہے گا ۔مگر یہ کہ خدا وند کریم تمہیں معاف فرمادے اور اپنی رحمت کے پردے ڈال دے ''

____________________

(۱)سورئہ فصلت آیت ۲۱۔

(۲)محجةالبیضاء فیض کاشانی ج۵ص۱۱۱۔

۱۶۶

۲۔اسکی دنیا کو اسکے لئے مزین کردوںگا

دنیا کا ظاہر اور باطن

خواہشات کی پیروی کرنے والے کی دوسری سزا یہ ہے کہ اسکے لئے دنیا مزین کردی جاتی ہے اور دنیا کے مزین ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ظاہری لحاظ سے دنیا اس پرفریب انداز میں اس کے سامنے آتی ہے کہ وہ اسے دیکھ کر دھوکہ میں پڑا رہتا ہے جبکہ وہ دنیا کی واقعی شکل نہیں ہو تی ہے اور انسان اسی ظاہری صورت سے فریب کھا جاتا ہے کیونکہ اس کی جن ظاہری صورتوں کو دیکھ کر وہ فریب خوردہ رہتا ہے وہ وقتی ہیں اور ان میں بہت جلد تبدیلی آجاتی ہے لیکن دنیا کی واقعی شکل و صورت جو اسکے بالکل برخلاف ہے وہ درحقیقت یہ ہے کہ یہ دنیاانسان کے لئے مقام عبرت اور چشم بصیرت حاصل کرنے نیز زہد وتقوی اختیار کرنے کا سرچشمہ اور مرکز ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ جن افراد کو خداوند عالم نے چشم بصیرت عنایت فرمائی ہے ان کی نگاہیں دنیاکے وقتی اور اوپری خول کے اندر گھس کر اس کی حقیقت کو بخوبی دیکھ لیتی ہیں اسی لئے وہ اس میں زہد سے کام لیتے ہیں اور اس سے عبرت اور نصیحت حاصل کرتے رہتے ہیںلیکن جو لوگ خداوندعالم کی عطا کردہ بصیرت کو ضائع کردیتے ہیں وہ زندگانی دنیا کو اسی ظاہری نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کی نگاہیں اس کے باطن اور حقیقت تک نہیں پہونچ پاتی ہیں لہٰذا ان کے دل اس کے دھوکہ میں پڑے رہتے ہیں ۔

مختصر یہ کہ دنیا کے دو روپ ہیں :

۱۔ظاہری

۲۔ باطنی

اسی اعتبار سے اہل دنیا کی بھی دو قسمیں ہیں :

۱۔کچھ وہ لوگ ہیں جن کی نگاہیں دنیا کے ظاہرسے آگے نہیں بڑھتی ہیں ۔

۲۔ کچھ ایسے افراد ہیں جن کی نظر یںدنیا کے باطن کو بخوبی دیکھ لیتی ہیں ۔

۱۶۷

اس تقسیم کی طرف قرآن مجید نے اس آیت میں اشارہ کیا ہے ۔

(یعلمون ظاهراًمن الحیاة الدنیا وهم عن الآخرة هم غافلون )( ۱ )

''یہ لوگ صرف زندگانی دنیا کے ظاہر کو جانتے ہیں اور آخرت کی طرف سے بالکل غافل ہیں ''

لیکن جن لوگوں کو خداوند عالم نے فہم وبصیرت عطا فرمائی ہے ان کے سامنے دنیاکا ظاہر وباطن ایک دوسرے سے مشتبہ نہیں ہوتا ہے ۔البتہ جب خداوند عالم کسی سے غضبنا ک ہوجاتا ہے تو اس کی بصیرت سلب کرلیتا ہے اور پھر اسکے سامنے دنیا کا ظاہر وباطن مخلوط ہو کر رہ جاتا ہے اور وہ اسکے ظاہری خول اور اسکی واقعی حقیقت کے درمیان تمیزنہیں کرپاتا لہٰذا دنیا کی ظاہری رنگینیاں اسے دھوکہ دیدیتی ہیں اور وہ بھی اس دنیا کوفریب خوردہ نگاہ سے دیکھتا ہے جسکی طرف قرآن مجید نے یوں اشارہ کیا ہے :

(زُیّن للذ ین کفروا الحیاة الدنیا )( ۲ )

''اصل میں کافروں کے لئے زندگانی دنیا آراستہ کردی گئی ہے ''

لہٰذا کیونکہ وہ اسکے پرفریب ظاہر کو دیکھتا ہے اس لئے اسکی نگاہوں میں دنیا سجی رہتی ہے لیکن اگر اسکے باطن پر نگاہ رکھی جائے تو پھر کبھی اسکی رنگینی نظر نہ آئے گی۔

مختصر یہ کہ زندگانی دنیا کے دو روپ اور دوچہرے ہوتے ہیں :

ا۔باطنی حقیقت (اصلی چہرہ)

ب۔ظاہری چہرہ

أ ۔دنیا کا باطنی چہرہ (اصل حقیقت)

جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں کہ دنیاکی واقعی شکل و صورت صرف اہل بصیرت کو دکھائی دیتی

____________________

(۱)سورئہ روم آیت ۷۔

(۲)سورئہ بقرہ آیت۲۱۲۔

۱۶۸

ہے اوراسکی اس شکل میں کسی قسم کا دھوکہ اور فریب نہیں ہے بلکہ وہ منزل عبرت ونصیحت ہے جیسا کہ قرآن کریم نے بھی دنیا کے اس پہلو کی نہایت دقیق تعریف و توصیف فرمائی ہے جسکے بعض نمونے ملاحظہ فرمائیں :

۱۔دنیا ایک پونجی ہے :ارشاد الٰہی ہے :

(وماالحیاة الدنیا فی الآخرة الامتاع )( ۱ )

''اور آخرت میں زندگانی دنیا کی حقیقت مختصر پونجی کے علاوہ اور کیا ہے ''

متاع ،وقتی لذت کو کہا جاتا ہے جبکہ اس کے بالمقابل آخرت کی لذتیں دائمی اور باقی رہنے والی ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

(فما متاع الحیاة الدنیا فی الآخرة الا قلیل )( ۲ )

''پس آخرت میں اس متاع زندگانی دنیا کی حقیقت بہت قلیل ہے ''

۲۔دنیا عارضی ہے ۔ارشاد الٰہی ہے :

(تریدون عرَضَ الد نیاوﷲ یرید الآخرة )( ۳ )

''تم لوگ صرف مال دنیا چاہتے ہو جبکہ اللہ آخرت چاہتا ہے ''

یا ارشا د ہے :

(تبتغون عَرَضَ الحیاة الدنیا فعند ﷲ مغانم کثیرة )( ۴ )

''اس طرح تم زندگانی دنیا کا چند روزہ سرمایہ چاہتے ہو اور خدا کے پاس بکثرت فوائد پائے جاتے ہیں''

____________________

(۱)سورئہ رعد آیت ۲۶۔

(۲)سورئہ توبہ آیت ۳۸۔

(۳)سورئہ انفال آیت ۶۷۔

(۴)سورئہ نساء آیت ۹۴۔

۱۶۹

(یأخذون عَرَضَ هذا الادنیٰ و یقولون سَیُغْفَرلنا )( ۱ )

''لیکن وہ دنیا کا ہر مال لیتے رہے اور یہ کہتے رہے کہ عنقریب ہمیں بخش دیا جائے گا ''

عارضی چیز اسکو کہتے ہیں جو بہت جلد تبدیل ہوکر ختم ہوجائے اور کیونکہ دنیا کی لذتیں تبدیل ہوکر ختم ہو جاتی ہیں اور کسی کے لئے بھی باقی رہنے والی نہیںہیںاسکے باوجود بھی یہ لوگوںکو بری طرح فریب میں مبتلا کردیتی ہیں۔

گویادنیا کی دوصفتیں ہیں :

۱۔وہ صفت جس سے انسان زاہد دنیا بن جاتا ہے ۔

۲۔وہ صفت جو انسان کو فریب میں مبتلا کردیتی ہے ۔(جس سے انسان دھوکہ کھاجاتاہے )

وہ صفت جس کی بنا پر انسان زاہد بن جاتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ دنیا عارضی، زوال پذیر اور بہت جلد ختم ہوجانے والی ہے ۔(لہٰذا وہ اس سے دل نہیں لگاتا)

لیکن اسکا پر فریب رخ یہ ہے کہ یہ نرم لقمہ ہے نچلی سطح پر جلد ہاتھ آجاتی ہے ۔

اور کیونکہ لوگ عام طورسے عجلت پسند ہوتے ہیں لہٰذاوہ جلد ہاتھ آنے والی چٹپٹی چیزوں کو دیر سے ملنے والی دائمی نعمتوں پر ترجیح دیتے ہیں جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے :

(لوکان عرضاً قریباً وسفراً قاصد اً لا تّبعوک )( ۲ )

''پیغمبر،اگر کوئی قریبی فائدہ یا آسان سفر ہوتا تو یہ ضرور تمہارا اتباع کرتے ''

اس طرح انسان کی طبیعت اور فطرت میں ہی جلدبازی پائی جاتی ہے ۔

۳۔دنیا دھوکہ اور فریب کا اڈہ ہے ۔

ﷲتعالی کا ارشاد ہے :

____________________

(۱)سورئہ اعراف آیت ۱۶۹۔

(۲)سورئہ توبہ آیت ۴۲۔

۱۷۰

(فلا تغرّنّکم الحیاة الدنیا ولایغرّنّکم بﷲ الغرور )( ۱ )

''لہٰذا تمہیں زندگانی دنیا دھوکہ میں نہ ڈال دے اور خبردار کوئی دھوکہ دینے والا بھی تمہیں دھوکہ نہ دے سکے''

۴۔اور دنیا متاع غرور ہے: یہ دو الفاظ کی ترکیب ہے جن کو قرآن مجید نے دنیا کے لئے الگ الگ اور ایک ساتھ دونوں طرح استعمال کیا ہے ۔جیسا کہ ارشاد ہے :

(وماالحیاةالدنیاالامتاع الغرور )( ۲ )

''اور زندگانی دنیا تو صرف دھوکہ کا سرمایہ ہے ''

اس فریب کی اصل بنیاد دنیا کی وقتی اور ختم ہوجانے والی پونجی ہے ۔

دنیا اورآخرت کا تقابلی جائزہ

اگر ہم قرآن مجید پر ایک اور نظر ڈالیں تو اسکے بیان کردہ اوصاف کی روشنی میں دنیا و آخرت کا موازنہ کرنا بہت آسان ہے جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں کے قرآن مجید کی نگاہ میں یہ دنیا وقتی ،بہت جلد قابل زوال اور ایسی پونجی ہے جو کسی کے لئے دائمی (اور باقی رہنے والی)نہیں ہے لیکن آخرت سکون واطمینان کی ایک دائمی جگہ ہے ۔جیسا کہ ارشادالٰہی ہے :

( یاقوم انماهذه الحیاة الدنیامتاع وانّ الآخرة هی دارالقرار ) ( ۳ )

''قوم والو،یاد رکھو کہ یہ حیات دنیا صرف چند روزہ لذت ہے اور ہمیشہ رہنے کا گھر صرف آخرت کا گھر ہے ''

____________________

(۱)سورئہ لقمان آیت ۳۳سورئہ فاطر آیت ۵۔

(۲)سورئہ آل عمران آیت ۱۸۵سورئہ حدید آیت ۲۰ ۔

(۳)سورئہ غافر آیت۳۹۔

۱۷۱

دنیا ایک کھیل تماشہ ہے لیکن آخرت دائمی حیات کا گھر ہے اور وہی حقیقی زندگی ہے اور وہ زندگی کھیل تما شہ نہیں ہے ۔

جیسا کہ ارشادالٰہی ہے :

(وماهذه الحیاةالدنیاالالهوولعب وان الدارالآخرة لهی الحیوان لوکانوایعلمون )( ۱ )

''اور یہ دنیاوی زندگی تو کھیل تماشہ کے سوا کچھ نہیں اور اگر یہ لوگ سمجھیں بو جھیں تو اس میں شک نہیں کہ ابدی زندگی (کی جگہ)تو بس آخرت کا گھر ہے ''

کلا م امیر المومنین میں دنیاکا تذکرہ

مولائے کائنات نے اپنے اقوال میں دنیا کی حقیقت کو بالکل آشکار کر دیا ہے اور اس کے چہرہ سے دھوکہ اور فریب کی نقاب نوچ لی ہے جس کے بعد ہر شخص دنیا کی اصلی شکل و صورت کو بآسانی پہچان سکتا ہے۔

لہٰذا دنیا کے بارے میں آپ کے چند اقوال ملاحظہ فرمائیں :

۱۔(وﷲ مادنیاکم عندی الاکسَفْرٍعلیٰ منهل حلّوا،اذصاح بهم سائقهم فارتحلوا،ولالذاذاتُهافی عینی الاکحمیم أشربُه غسّاقا،وعلقم أتجرع به زُعافا،وسمّ أفعاةٍ دِهاقاً،وقَلادةٍ من نار )( ۲ )

''خدا کی قسم تمہاری دنیا میرے نزدیک ان مسافروں کی طرح ہے جو کسی چشمہ پر اترے ہوں ،اور جیسے ہی قافلہ سالار آواز لگائے وہ چل پڑیں ،اور اسکی لذتیں میری نگاہ میں اس گرم اور

____________________

(۱)سورئہ عنکبوت آیت ۶۴۔

(۲)بحارالانوارج۷۷ص۳۵۲۔

۱۷۲

گندے پانی کی طرح ہیں جسے مجبوراً پینا پڑے اور وہ کڑوی چیز ہے جسے مردنی کی حالت میں زبردستی گلے سے نیچے اتارا جائے اور وہ اژدہے کے زہر سے بھرا ہوا پیالہ اور آگ کا طوق ہے''

اس دنیا کا جو رخ لوگوں کو دکھائی دیتا ہے وہ اسی بھرے ہوئے چشمہ کی طرح ہے جس پر قافلہ ٹھہراہو '' سفرعلی منھل حلوا''اور یہ اسکا وہی ظاہری رخ ہے جس کے اوپر وہ ایک دوسرے کو مرنے اور مارنے کو تیار رہتے ہیں ۔جبکہ مولائے کائنات نے اس کو زود گذر قرار دیا ہے جو کہ دنیا کا واقعی چہرہ ہے :

(اذصاح بهم سائقهم فارتحلوا )''جیسے ہی قافلہ سالار آواز لگائے وہ چل پڑیں''

یہی وجہ ہے کہ دنیا کی جن لذتوں کیلئے لوگ ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتے ہیں وہ مولائے کائنات کی نگاہ میں گرم، بدبوداراور سانپ کے زہر کے پیالہ کی طرح ہے ۔

''جب معاویہ نے جناب ضرار بن حمزہ شیبانی(رح) سے امیر المومنین کے اوصاف و خصائل و معلوم کئے تو آپ نے کہا کہ بعض اوقات میں نے خوددیکھا ہے کہ آپ رات کی تاریکی میں محراب عبادت میں کھڑے ہیں اور اپنی ریش مبارک ہاتھ میںلئے ہوئے ایک بیمار کی طرح تڑپ رہے ہیں اور ایک غمزدہ کی طرح گریہ کررہے ہیںاس وقت آپ کی زبان مبارک پر یہ الفاظ جاری رہتے ہیں :

(یادنیاالیک عنی،أبی تعرّضتِ؟أم الیّ تشوّقتِ؟هیهات!!غرّی غیری لا حاجة لی فیکِ،قدطلقتک ثلاثاً،لارجعة فیها:فعیشک قصیر،وخطرک کبیر،واملک حقیر،آه من قلّة الزاد،وطول الطریق )( ۱ )

''اے دنیا مجھ سے دورہوجا کیا تو میرے سامنے بن ٹھن کر آئی ہے اور کیا واقعاً میری مشتاق بن کر آئی ہے بہت بعید ہے جا میرے علاوہ کسی اور کو دھوکا دینا مجھے تیری کوئی ضرورت نہیں ہے ۔میں تجھے تین بار طلاق دے چکا ہوں جسکے بعد رجوع ممکن نہیں ہے تیری زندگی بہت مختصر، تیری حیثیت

____________________

(۱) نہج البلاغہ حکمت ۷۷وبحارالانوار ج۷۳ص۱۲۹۔

۱۷۳

بہت معمولی ،تیری آرزوئیں حقیر ہیں ،آہ، زاد راہ کس قدر کم اور راستہ کتنا طولانی ہے ''

آپ نے دنیاکے ان تینوں حقائق کو اس سے فریب کھانے والے شخص کے لئے واضح کردیا ہے کہ اسکی زندگی بہت مختصر اسکے خطرات زیادہ اور اسکی آرزوئیں حقیر ہیں ۔

اس بارے میں آپ کے یہ ارشادات بھی ہیں ۔

۱۔(ألاوان الدنیا دارغرّارة،خدّاعة، تنکح فی کل یوم بعلاً،وتقتل فی کل لیلة أهلاً،وتُفرّق فی کل ساعة شملاً )( ۱ )

''یاد رکھو یہ دنیا بہت پر فریب گھر ہے اور بیحد دھوکے باز(عورت کے مانند ہے جو) ہر روز ایک نئے شوہر سے نکاح کرتی ہے اوہر رات اپنے گھر والوں کوہلاک کرڈالتی ہے اور ہرساعت ایک قوم کو متفرق کرڈالتی ہے ''

۲۔(ان اقبلت غرّت،وان أدبرت ضرّت )( ۲ )

''اگریہ دنیا تمہاری طرف رخ کرے گی تو تمہیں فریب میں مبتلا کردیگی اور اگروہ تمہارے ہاتھ سے نکل گئی تونقصان دہ ہے ''

۳۔(الدنیا غرورحائل،وسراب زائل،وسنادمائل )( ۳ )

''دنیابدل جانے والا فریب، زائل ہوجانے والا سراب اور خم شدہ ستون ہے ''

۴۔دنیا کے ظاہر وباطن کی نقشہ کشی آپ نے ان الفاظ میں کی ہے :

(مثل الد نیا مثل الحیّة مسّها لیّن،وفی جوفهاالسم القاتل،یحذرها الرجال ذووالعقول،ویهوی الیهاالصبیان بأید یهم )( ۴ )

____________________

(۱)بحارالانوارج۷۷ص۳۷۴۔

(۲)بحارالانوارج۷۸ ص۲۳۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۱۰۹۔

(۴) بحارالانوارج۷۸ص۳۱۱۔

۱۷۴

''یہ دنیا بالکل سانپ کی طرح ہے جو چھونے میں بہت نرم ہے مگراسکے اندر مہلک زہر بھرا ہوا ہے اہل عقل اس سے ڈرتے رہتے ہیں اور بچے اسے ہاتھ میں اٹھانے کیلئے جھک جاتے ہیں ''

اس قول میں امام نے بہت ہی حسین وجمیل انداز میں دنیا کے ظاہروباطن کو ایک دوسرے سے جدا کردیا ہے کہ اسکا ظاہر سانپ کی طرح جاذب نظراور چھونے پر بہت نرم معلوم ہوتا ہے لیکن اسکے باطن میں دھوکہ اور زوال ہی زوال ہے جیسے ایک سانپ کے منھ میں مہلک زہر بھرا رہتا ہے ۔

اسی طرح اس دنیا کی طرف دیکھنے والے لوگوں کی بھی دو قسمیں ہیں :

اہل عقل اور صاحبان بصیرت اس سے خائف رہتے ہیں جس طرح انہیں سانپ سے خوف محسوس ہوتاہے ۔لیکن ان کے علاوہ بقیہ لوگ اس سے اسی طرح دھوکہ کھاجاتے ہیں جس طرح زہریلے سانپ کی چمکیلی اور نرم کھال دیکھ کر بچے دھوکہ کھاتے ہیں ۔

آپ کے ایک خطبہ کا ایک حصہ

''یہ ایک ایسا گھر ہے جو بلائوں میں گھرا ہوا ہے اور اپنی غداری میں مشہور ہے نہ اس کے حالات کو دوام ہے اور نہ اس میں نازل ہونے والوں کے لئے سلامتی ہے ۔

اسکے حالات مختلف اور اسکے طورطریقے بدلنے والے ہیں اس میں پر کیف زندگی قابل مذمت ہے اور اس میں امن وامان کا کہیں دو ر دور تک پتہ نہیں ہے ۔۔۔اسکے باشندے وہ نشانے ہیں جن پر دنیا اپنے تیر چلاتی رہتی ہے اور اپنی مدت کے سہارے انھیں فنا کے گھاٹ اتارتی رہتی ہے ۔

۱۷۵

اے بندگان خدا ،یاد رکھو اس دنیا میں تم اور جو کچھ تمہارے پاس ہے سب کا وہی راستہ ہے جس پر پہلے والے چل چکے ہیں جن کی عمریں تم سے زیادہ طویل اور جن کے علاقے تم سے زیادہ آبادتھے ان کے آثار بھی دور دور تک پھیلے ہوئے تھے لیکن اب ان کی آوازیں دب گئیں ہیں ان کی ہوائیں اکھڑگئیں ہیں ان کے جسم بوسیدہ ہوگئے ہیں ۔ان کے مکانات خالی ہوگئے ہیں اور ان کے آثار مٹ چکے ہیں وہ مستحکم قلعوں اور بچھی ہوئی مسندوں کو پتھروں اور چنی ہوئی سلوں اور زمین کے اندرقبروں میں تبدیل کرچکے ہیں جن کے صحنوں کی بنیاد تباہی پر قائم ہے اور جن کی عمارت مٹی سے مضبوط کی گئی ہے ۔ان قبروں کی جگہیں تو قریب قریب ہیں لیکن ان کے رہنے والے سب ایک دوسرے سے اجنبی اور بیگانہ ہیں ایسے لوگوں کے درمیان ہیں جو بوکھلائے ہوئے ہیں اور یہاں کے کاموں سے فارغ ہوکر وہاں کی فکر میں مشغول ہوگئے ہیں ۔نہ اپنے وطن سے کوئی انس رکھتے ہیں اور نہ اپنے ہمسایوں سے کوئی ربط رکھتے ہیں ۔حالانکہ بالکل قرب وجوار اور نزدیک ترین دیار میں ہیں ۔ اور ظاہر ہے اب ملاقات کا کیاامکان ہے جبکہ بوسیدگی نے انہیں اپنے سینہ سے دباکر پیس ڈالا ہے اور پتھروں اور مٹی نے انہیں کھاکر برابر کردیا ہے اور گویا کہ اب تم بھی وہیں پہونچ گئے ہو جہاں وہ پہونچ چکے ہیں اور تمہیں بھی اسی قبر نے گروی رکھ لیا ہے اور اسی امانت گا ہ نے جکڑلیا ہے ۔

ذرا سوچو اس وقت کیا ہوگا جب تمہارے تمام معاملات آخری حد تک پہنچ جائیںگے اور دوبارہ قبروں سے نکال لیا جائے گا اس وقت ہر نفس اپنے اعمال کا خود محاسبہ کرے گا اور سب کو مالک برحق کی طرف پلٹادیا جائے گا اور کسی پر کوئی افترا پر دازی کام آنے والی نہ ہوگی۔( ۱ )

سید رضی نے نہج البلاغہ میں نقل کیا ہے کہ حضرت امیر المومنین نے شریح بن حارث سے فرمایا:

(بلغنی انّک ابتعت داراً بثمانین دیناراً،وکتبت لهاکتاباً، وأشهدت فیه شهوداً؟!)

مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم نے اسی (۸۰) دینا ر میں ایک گھر خریدا ہے اور اسکے لئے باقاعدہ ایک بیع نامہ لکھ کر لوگوں کی گواہی بھی درج کی ہے ۔تو شریح نے عرض کی :اے امیر المومنین ۔جی ہاں: ایسا ہی ہے ۔تو آپ نے ان کی طرف غصہ بھری نظر وں سے دیکھ کرکہا ۔اے شریح عنقریب تمہارے پاس ایسا شخص آنے والا ہے جو نہ تمہارے اس بیع نامہ کو دیکھے گا اور نہ گواہوں کے بارے

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۲۲۶۔

۱۷۶

میں تم سے کچھ سوال کرے گا اور وہ تمہیں اس گھر سے نکال کر تن تنہا تمہاری قبر کے حوالے کردیگا لہٰذا ۔ اے شریح۔کہیں ایسا نہ ہوکہ تم نے اس گھر کو اپنے مال سے نہ خریدا ہو اور ناجائز طریقے سے اسکے دام ادا کئے ہوں۔اگر ایسا ہواتو تم دنیا اورآخرت دونوں جگہ گھاٹے میں ہو ۔کاش تم یہ گھر خریدنے سے پہلے میرے پاس آجاتے تو میں تمہارے لئے ایک دستاویز تحریر کردیتا تو تم ایک درہم میں بھی یہ گھر نہ خریدتے ۔

میں اسکی دستاویز اس طرح لکھتا :

یہ وہ مکان ہے جسے ایک بندئہ ذلیل نے اس مرنے والے سے خریداہے جسے کوچ کے لئے آمادہ کردیا گیا ہے ۔یہ مکان پر فریب دنیا میں واقع ہے جہاں فنا ہونے والوں کی بستی ہے اور ہلاک ہونے والوں کا علاقہ ہے ۔اس مکان کے حدود اربعہ یہ ہیں ۔

ایک حد اسباب آفات کی طرف ہے اور دوسری اسباب مصائب سے ملتی ہے تیسری حد ہلاک کردینے والی خواہشات کی طرف ہے اور چوتھی گمراہ کرنے والے شیطان کی طرف اور اسی طرف سے گھر کا دروازہ کھلتا ہے ۔

اس مکان کو امیدوں کے فریب خوردہ نے اجل کے راہ گیر سے خریدا ہے جس کے ذریعہ قناعت کی عزت سے نکل کر طلب وخواہش کی ذلت میں داخل ہوگیا ہے ۔اب اگر اس خریدار کو اس سودے میں کوئی خسارہ ہوتو یہ اس ذات کی ذمہ داری ہے جو بادشاہوں کے جسموں کو تہ وبالا کرنے والا، جابروں کی جان لینے والا،فرعونوں کی سلطنت کوتباہ کردینے والا،کسریٰ وقیصر ،تبع وحمیر اور زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے والوں،مستحکم عمارتیں بناکر انھیں سجانے والوں،ان میں بہترین فرش بچھانے والوں اور اولاد کے خیال سے ذخیرہ کرنے والوں اور جاگیریں بنانے والوں کو فناکے گھاٹ اتار دینے والا ہے ۔کہ ان سب کو قیامت کے میدان حساب اور منزل ثواب و عذاب میں حاضر کردے جب حق وباطل کا حتمی فیصلہ ہوگا اور اہل باطل یقیناخسارہ میں ہونگے۔

۱۷۷

اس سودے پر اس عقل نے گواہی دی ہے جو خواہشات کی قید سے آزاد اور دنیا کی وابستگیوں سے محفوظ ہے ''( ۱ )

دنیا کے بارے میںآپ نے یہ بھی فرمایا ہے :

یاد رکھو:اس دنیا کا سرچشمہ گندہ اور اسکا گھاٹ گندھلاہے ،اسکا منظر خوبصورت دکھائی دیتا ہے لیکن اندر کے حالات انتہائی درجہ خطرناک ہیں ،یہ ایک فنا ہوجانے والا فریب، بجھ جانے والی روشنی ،ڈھل جانے والا سایہ اور ایک گر جانے والا ستون ہے ۔جب اس سے نفرت کرنے والا مانوس ہوجاتا ہے اور اسے برا سمجھنے والا مطمئن ہوجاتا ہے تو یہ اچانک اپنے پیروں کو پٹکنے لگتی ہے اور عاشق کو اپنے جال میں گرفتار کرلیتی ہے اور پھر اپنے تیروں کا نشانہ بنالیتی ہے انسان کی گردن میں موت کا پھندہ ڈال دیتی ہے اور اسے کھینچ کر قبر کی تنگی اور وحشت کی منزل تک لے جاتی ہے جہاں وہ اپنا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہے اور اپنے اعمال کا معاوضہ حاصل کرلیتا ہے اور یوں ہی یہ سلسلہ نسلوں میں چلتا رہتا ہے کہ اولاد بزرگوں کی جگہ پر آجاتی ہے نہ موت چیرہ دستیوں سے بازآتی ہے اور نہ آنے والے افراد گناہوں سے باز آتے ہیں پرانے لوگوں کے نقش قدم پر چلتے رہتے ہیں اور تیزی کے ساتھ اپنی آخری منزل انتہا ء وفنا کی طرف بڑھتے رہتے ہیں ۔( ۲ )

دنیا کے بارے میں آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے :

''میں اس دار دنیاکے بارے میں کیا بیان کروں جسکی ابتداء رنج وغم اور انتہا فنا ونابودی ہے

____________________

(۱)نہج البلاغہ مکتوب ۳۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ۸۳۔

۱۷۸

اسکے حلال میں حساب ہے اور حرام میںعذاب،جو اس میں غنی ہوجائے وہ آزمائشوں میں مبتلا ہوجائے ۔ اور جو فقیر ہوجائے وہ رنجیدہ و افسردہ ہوجائے ۔جو اسکی طرف دوڑلگائے اسکے ہاتھ سے نکل جائے اور جو منھ پھیر کر بیٹھ رہے اسکے پاس حاضر ہوجائے جو اسکو ذریعہ بناکر آگے دیکھے اسے بینابنادے اور جو اسے منظور نظر بنالے اسے اندھا بنادے ''( ۱ )

اپنے دور خلافت سے پہلے آپ نے جناب سلمان فارسی کو اپنے ایک خط میں یہ بھی تحریر فرمایا تھا ۔اما بعد :اس دنیا کی مثال صرف اس سانپ جیسی ہے جو چھونے میں انتہائی نرم ہوتا ہے لیکن اسکا زہر انتہائی قاتل ہوتا ہے اس میں جو چیز اچھی لگے اس سے بھی کنارہ کشی اختیار کرو۔کہ اس میں سے ساتھ جانے والا بہت کم ہے ۔اسکے ہم وغم کو اپنے سے دور رکھو کہ اس سے جدا ہونا یقینی ہے اور اسکے حالات بدلتے ہی رہتے ہیں ۔اس سے جس وقت زیادہ انس محسوس کرو اس وقت زیادہ ہوشیار رہو کہ اسکا ساتھی جب بھی کسی خوشی کی طرف سے مطمئن ہوجاتا ہے تو یہ اسے کسی ناخوشگواری کے حوالے کردیتی ہے اور انس سے نکال کرو حشت کے حالات تک پہونچادیتی ہے ۔والسلام ''( ۲ )

دنیا کے بارے میں آپ نے یہ بھی فرمایاہے :

آگاہ ہوجائو دنیا جارہی ہے اور اس نے اپنی رخصت کا اعلان کردیا ہے اور اسکی جانی پہچانی چیزیں بھی اجنبی ہوگئی ہیں وہ تیزی سے منھ پھیر رہی ہے اور اپنے باشندوں کو فنا کی طرف لی جارہی ہے اور اپنے ہمسایوں کو موت کی طرف ڈھکیل رہی ہے اسکی شیرینی تلخ ہوچکی ہے اور اسکی صفائی ہوچکی ہے اب اس میں صرف اتنا ہی پانی باقی رہ گیا ہے جو، تہ میں بچاہوا ہے اور وہ نپا تلا گھونٹ رہ گیا ہے جسے پیاسا پی بھی لے تو اسکی پیاس نہیں بجھ سکتی ہے لہٰذا بند گان خدا اب اس دنیا سے کوچ کرنے کا ارادہ کرلو جسکے رہنے والوں کا مقدر زوال ہے اور خبردار: تم پر خواہشات غالب نہ آنے پائیں اور اس

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۸۲۔

(۲)نہج البلاغہ مکتوب۶۸۔

۱۷۹

مختصر مدت کو طویل نہ سمجھ لینا''( ۱ )

دنیا کے بارے میں آپ نے یہ بھی فرمایاہے :

میں تم لوگوں کو دنیا سے ہوشیار کر رہا ہوں کہ یہ شیریں اور شاداب ہے لیکن خواہشات میں گھری ہو ئی ہے اپنی جلد مل جانے والی نعمتوں کی بنا پر محبوب بن جاتی ہے اور تھوڑی سی زینت سے خوبصورت بن جاتی ہے یہ امیدوں سے آراستہ ہے اور دھوکہ سے مزین ہے۔نہ اس کی خو شی دائمی ہے اور نہ اس کی مصیبت سے کو ئی محفوظ رہنے والا ہے یہ دھوکہ باز ،نقصان رساں ،بدل جانے والی ،فنا ہو جانے والی ،زوال پذیراور ہلاک ہو جانے والی ہے ۔یہ لوگوں کو کھا بھی جاتی ہے اور مٹا بھی دیتی ہے ۔

جب اسکی طرف رغبت رکھنے والوں اور اس سے خوش ہو جانے والوںکی خواہشات انتہاء کو پہونچ جاتی ہے تویہ بالکل پروردگار کے اس ارشاد کے مطابق ہو جاتی ہے :

(کمائٍ أنزلناه من السماء فاختلط به نبَات الأرض فأصبح هشیماً تذروه الریاح وکان ﷲ علیٰ کل شیئٍ مقتدرا )( ۲ )

''یعنی دنیا کی مثال اس پانی کے جیسی ہے جسے ہم نے آسمان سے نازل کیا اور اسکے ذریعہ زمین کے سبزہ مخلوط(ہوکر روئیدہ)ہوئے وہ سبزہ سوکھ کر ایسا تنکا ہوگیا جسے ہوائیں اڑالے جاتی ہیں اور اللہ ہر شئے پر قدرت رکھنے والا ہے ''

اس دنیا میں کو ئی شخص خوش نہیں ہوا ہے مگر یہ کہ اسے بعد میں آنسو بہانا پڑے اور کوئی اس کی خوشی کو آتے نہیں دیکھتا ہے مگر یہ کہ وہ مصیبت میں ڈال کر پیٹھ دکھلا دیتی ہے اور کہیں راحت وآرام کی ہلکی بارش نہیں ہوتی ہے مگر یہ کہ بلائوں کا دو گڑا گرنے لگتا ہے ۔اس کی شان ہی یہ ہے کہ اگر صبح کو کسی طرف سے بدلہ لینے آتی ہے تو شام ہوتے ہوتے انجان بن جاتی ہے اور اگر ایک طرف سے

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۵۲۔

(۲)سورئہ کہف آیت۴۵۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809