فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)7%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 362083 / ڈاؤنلوڈ: 6018
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حافظ حسکانی ، کتاب شواہد التنزیل، جلد۲،صفحہ۳۵۶،۳۵۹،نمبر۱۱۲۵،۱۱۳۰،اشاعت اوّل۔

۲۔ حافظ ابن عساکر، کتاب تاریخ دمشق، جلد۲،صفحہ۳۴۴،۴۴۲،باب امیر المومنین کے حالات، حدیث۸۵۲،۹۵۸، اشاعت دوم(شرح محمودی)۔

۳۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور، جلد۶،صفحہ۳۷۹،اشاعت دوم، صفحہ۴۲۴۔

۴۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، جلد۱،صفحہ۱۵۵، باب۳۱۔

۵۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، صفحہ۲۴۵،باب۶۲۔

۶۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة ، صفحہ۳۶۱۔

۷۔ بلاذری، کتاب النساب الاشراف، ج۲ص۱۱۳حدیث۵۰،اشاعت اوّل بیروت

۸۔ شبلنجی ،کتاب نورابصار، صفحہ۷۰،۱۰۱۔

۹۔ خوارزمی، کتاب مناقب امیر المومنین ،حدیث۱۱،صفحہ۶۲۔

پندرہویں آیت

پیغمبر کی صداقت پر قرآن ایک روشن دلیل ہے اور علی ایک سچے گواہ ہیں

( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَمِنْ قَبْلِه کِتٰبُ مُوْسٰٓی اِمَامًا وَّرَحْمَةً )

”کیا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے کھلی دلیل پر ہو اور اُس کے پیچھے پیچھے ایک گواہ آتا ہو جو اُسی کا جزو ہو(سورئہ ہود:آیت۱۷)

۴۱

تشریح

اس آیت شریفہ کی تفسیر میں بیان کیا گیا ہے کہ کون(مَنْ) سے مرادجناب رسول خدا

فضائل علی علیہ السلام قرآن کی نظر میں ۔۳

کی ذات مبارک ہے اور روشن دلیل(بَینَہ)سے مرادقرآن مجید ہے اور (نبوت کے) گواہ صادق(شاہد) سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔بعض مفسرین نے شاہد سے مراد جبرئیل علیہ السلام کو لیا ہے اور بعض نے َیَتْلُوْهُ کو مادّہ تلاوت سے قرأ ت کے معنی میں لیا ہے نہ کہ اس معنی میں کہ ایک کے بعد دوسرے کا آنا۔ انہوں نے شاہد سے مراد زبان رسول اللہ لی ہے۔ لیکن بہت سے اہل سنت اور شیعہ مفسرین نے شاہد سے مراد سچے مومنین لئے ہیں اور سچے مومن کی تصویر علی علیہ السلام کو لیا ہے اور اس ضمن یں بڑی اہم روایات کو بیان کیا ہے۔ ان میں سے چند ایک یہاں بیان کی جاتی ہیں:

(ا)۔ سیوطی نے کتاب جمع الجوامع اور تفسیر الدرالمنثور میں یہ روایت بیان کی ہے:

حَدَّثْنَا عبادُ بنُ عَبْدِاللّٰهِ الاَ سَدِی قال:سَمِعْتُ عَلِیَّ بنَ ابی طالبٍ وَهُوَ یَقُولُ:مٰا أَحَدٌ مِنْ قُرَیْشٍ اِلَّا وَقَدْ نَزَلَتْ فیهِ آیةٌ وآیتانِ فَقٰالَ لَهُ رَجُلٌ:وَمٰانَزَلَ فِیْکَ یٰااَمِیْرَالمومنینَ؟قٰالَ:فَغَضِبَ ثُمَّ قٰالَ: اَمٰاوَاللّٰهِ لَولَمْ یَسْأَلْنِیْ عَلٰی رُووسِ الْقَوْمِ مٰاحَدَّ ثْتُکَ،ثُمَّ قال:هَلْ تَقْرَأُ سورةَ هودٍ؟ ثُمَّ قَرَاءَ: ( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ ) رسولُ اللّٰه عَلٰی بَینةٍ مِنْ رَبَّهِ وَاَنَاالشّٰاهِدُ مِنْهُ ۔

”عباد بن عبداللہ اسدی کہتے ہیں کہ میں نے علی علیہ السلام سے سنا کہ وہ فرماتے ہیں کہ قریش کے سرداروں میں کوئی نہیں مگر اُس کے بارے میں ایک یا دو آیتیں نازل ہوئی ہوں۔ پس ایک شخص نے سوال کیا:یا امیر المومنین ! آپ کے بارے میں کونسی آیت نازل ہوئی ہے۔ آپ(اُس شخص کے جہل یا عداوت کی وجہ سے) غضبناک ہوئے اور کہا کہ اگر دوسرے لوگ موجود نہ ہوتے تو میں تمہارے سوال کا جواب نہ دیتا۔ اُس وقت آپ نے فرمایا : کیا تم نے سورئہ ہود پڑھی ہے؟ اور پھر یہ آیت تلاوت فرمائی:

( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ ) ”اور فرمایا کہ پیغمبر روشن دلیل یعنی قرآن مجید (بَینَةٍ) رکھتے تھے اور میں گواہ تھا“۔

۴۲

(ب)۔ کچھ مفسرین اس روایت کو نقل کرتے ہیں:

عَنْ انس(فی قَولِه تعالٰی) ( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُط“قَالَ هُوَرسولُ اللّٰهِ ”وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ ) قَالَ هُوَ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْطَالِب، کَانَ وَاللّٰهِ لِسَانَ رَسُولِ اللّٰهِ ۔

”انس بن مالک سے اس آیت کی تفسیر سے متعلق روایت کی گئی ہے، انہوں نے کہا کہ آیت کے اس حصہ( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه ) سے مراد پیغمبر اسلام کی ذات مبارک ہے اور( یَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ ) سے مرادعلی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔ خدا کی قسم! یہ(علی کا نام)رسول اللہ کی زبان پر تھا“۔

(ج)۔ تفسیر برہان، جلد۲،صفحہ۲۱۳پر یہ روایت بیان کی گئی ہے:

امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اس آیت میں ”شاہد“ سے مراد امیرالمومنین علی علیہ السلام ہیں اور اُن کے یکے بعد دیگرے جانشین ہیں۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ سیوطی، کتاب جمع الجوامع، جلد۲،صفحہ۶۸،حدیث۴۰۷،۴۰۸ اور ج۳،ص۳۲۴۔

۲۔ حافظ ابن عساکر تاریخ دمشق میں، جلد۲،صفحہ۴۲۰،حدیث۹۲۸۔

۳۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب ۶۲،صفحہ۲۳۵۔

۴۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل، حدیث۳۸۶،جلد۱،صفحہ۲۷۷۔

۵۔ ابن مغازلی شافعی، کتاب مناقب امیرالمومنین ، حدیث۳۱۸،صفحہ۲۷۰۔

۶۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۲۶،صفحہ۱۱۵۔

۷۔ متقی ہندی، کتاب کنزل العمال، جلد۱،صفحہ۲۵۱،اشاعت اوّل۔

۸۔ طبری اپنی تفسیر میں جلد۱۵،صفحہ۲۷۲،شمارہ۱۸۰۴۸۔

۹۔ ثعلبی اپنی تفسیر میں، جلد۲،صفحہ۲۳۹۔

۴۳

سولہویں آیت

علی صدیق اکبر اورشہید فی سبیل اللہ ہیں

( وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْابِاللّٰهِ وَرُسُلِه اُوْلٰٓئِکَ هُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ وَالشُّهَدَآءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ اَجْرُهُمْ وَنُوْرُهُمْْ )

”اور جو لوگ اللہ پر اور اُس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں وہی تو اپنے پروردگارکے نزدیک صدیق اور شہید ہیں۔ اُن کا اجر اور اُن کا نور اُن ہی کیلئے ہوگا“(سورئہ حدید،آیت۱۹)

تشریح

اس میں کوئی شک نہیں کہ سچائی اور راست گوئی ایسی صفت ہے جو انسان کو اعلیٰ مقام تک پہنچادیتی ہے۔ ہمیں یہ صفت حضرت علی کے وجود پاک میں روز روشن کی طرح نظر آتی ہے۔

اگرچہ اہل سنت میں خلیفہ اوّل ہی صدیق کے طور پر مشہور ہیں لیکن بہت سی روایات جو اہل سنت اور شیعہ مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں نقل کی ہیں، اُن کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ صفت سچائی اور راست گوئی ہر لحاظ سے مکمل طور پر حضرت علی علیہ السلام کے وجود پاک میں نظر آتی ہے۔ چند روایات ذیل پرتوجہ فرمائیں:

(ا)۔عَنْ اِبْنِ عباس فِی قَوْلِه تعٰالٰی ( وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْابِاللّٰهِ وَرُسُلِه اُوْلٰٓئِکَ هُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ ) قال صدیقُ هَذِه الْاُمَّةِ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْطَالِب هُوَ الصِّدِّ یقُ الْاَکْبَرُ وَالْفَارُوْقُ الْاَعْظَمُ

”ابن عباس سے روایت ہے کہ اس آیت شریفہ( وَالَّذیْ نَ اٰمَنُوْابِاللّٰهِ وَرُسُلِه اُوْلٰٓئِکَ هُمُ الصِّدِّ یْ قُوْن ) کے بارے میں حضور نے فرمایا کہ اس اُمت کے صدیق علی ابن ابی طالب ہیں۔ علی ابن ابی طالب علیہ السلام صدیق اکبر بھی ہیں اور فاروق(حق اور باطل کو جدا کرنے والا) اعظم بھی“۔

۴۴

(ب)۔عَنْ عبدالرحمٰنِ بن ابی لیلٰی عَنْ اَبِیْهِ قٰالَ رسولُاللّٰهِ اَلصِّدِّیْقُوْنَ ثَلاٰ ثَةٌ: حَبِیبُ النَّجَّارِ، مومِنُ آلِ یٰسِینَ وَحِزْبِیْلُ مُومِنُ آلِ فِرْعَوْنَ وَ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْطالِبٍ وَهُوَ اَفْضَلُهُمْ

”عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ تین افراد صدیق ہیں اور وہ ہیں:حبیب نجار، مومن آل یاسین اور حزبیل مومن آل فرعون اور علی ابن ابی طالب علیہما السلام اور علی علیہ السلام اُن سب سے افضل ہیں“۔

(ج)۔عَنْ عُبادِ بنِ عَبْداللّٰهِ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِیّاً علیه السلام یقولُ: أَ نَا الصِّدِّیقُ الْاَکْبَرُ لَایقُولُهَا بَعْدِیْ اِلَّا کَذَّابٌ وَلَقَدْ صَلَّیْتُ قَبْلَ النَّاسِ سَبْعَ سِنِیْنَ ۔

”عباد بن عبداللہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے علی علیہ السلام سے سنا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں ہی صدیق اکبر ہوں اور میرے بعد کوئی بھی اپنے آپ کو صدیق اکبر نہیں کہلا سکتا لیکن سوائے جھوٹے اور کذاب کے اور میں نے لوگوں سے سات سال پہلے نماز پڑھی(یعنی سب سے پہلے خدا اور اُس کے رسول پر میں ایمان لایا)“۔

(د)۔ اسی طرح سب علمائے اہل سنت مثلاً حافظ ابی نعیم، ثعلبی، حافظ بن عساکر، سیوطی اور دوسرے بہت سے مفسرین سورئہ توبہ آیت۱۱۹( اِتَّقُوااللّٰهَ وَکُوْنُوْامَعَ الصَّادِقِیْن ) میں ابن عباس اور دوسروں سے بھی روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ”الصادقین“ سے مراد علی ہیں ۔ روایت اس طرح سے ہے:

عَنْ ابنِ عباس فِی قوله تعٰالٰی ( اِتَّقُواللّٰهَ وَکُوْنُوْامَعَ الصَّادِقِیْنَ ) قَالَ نَزَلَتْ فِی عَلِیٍّ عَلَیْهِ السَّلَامُ خٰاصَّةً“

”ابن عباس کہتے ہیں کہ یہ آیت صرف علی علیہ السلام کی شان میں نازل کی گئی ہے“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں، جلد۲،صفحہ۲۸۲،حدیث۸۱۲،اشاعت اوّل۔

۲۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب امیر المومنین ، صفحہ۲۴۶،۲۴۷، حدیث۲۹۶۔

۳۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۳۶اور باب۲۴،صفحہ۱۲۳۔

۴۔ حافظ حسکانی ، کتاب شواہد التنزیل۔

۴۵

۵۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب ۴۲،صفحہ۱۴۶۔

۶۔ نسائی، کتاب خصائص امیرالمومنین ، حدیث۶،صفحہ۳۸۔

۷۔ سیوطی ،کتاب اللئالی المصنوعہ، باب فضائل علی ، جلد۱،صفحہ۱۶۰۔

۸۔ احمد بن حنبل، کتاب الفضائل، باب فضائل امیر المومنین ،حدیث۱۱۷،صفحہ۷۸۔

۹۔ حافظ المزی،کتاب تہذیب الکمال، ترجمہ العلاء بن صالح، جلد۴،صفحہ۱۹۳۔

سترہویں آیت

اللہ تعالیٰ نے علی کے وسیلہ سے پیغمبر کی مدد کی

( هُوَالَّذِیْٓ اَ یَّدَکَ بِنَصْرِه وَبِالْمُومِنِیْنَیٰٓاَ یُّهَاالنَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰهُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُومِنِیْنَ )

”وہ وہی ہے جس نے اپنی امداد سے اور مومنین کے ذریعہ سے تمہاری تائید کی تھی۔

اے نبی! تمہارے لئے اللہ اور مومنین میں سے جو تمہارا اتباع کرتے ہیں، وہی کافی ہیں ہیں“۔(سورئہ انفال: آیات۶۲،۶۴)۔

تشریح

کچھ مفسرین نے ان آیات کے ضمن میں خصوصاً آیت :۶۴کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ آیت اُس وقت نازل ہوئی جب یہودیوں کے قبائل بنی قریظہ اور بنی نضیر کے کچھ افراد پیغمبر اسلام کی خدمت میں مکروفریب سے حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ” اے پیغمبر خدا! ہم حاضر ہیں کہ آپ پر ایمان لائیں اور آپ کی پیروی کریں اور مدد کریں“۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر سے کہہ رہا ہے کہ ہرگز کسی غیر پر اعتماد نہ کریں بلکہ اللہ اور وہ مومنین جو آپ کی اتباع کرتے ہیں، آپ کے لئے کافی ہیں، انہی پر اعتماد کریں(تفسیر تبیان، جلد۵،صفحہ۱۵۲)۔

۴۶

اہل سنت اور شیعہ علماء کی کثیر تعداد روایات لکھنے کے بعد کہتے ہیں کہ ان دو آیتوں میں مومنین سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔ اگرچہ دوسرے مومنین بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں لیکن ان آیتوں کے مصداق(پوری طرح آیت کے مطابق) علی ابن ابی طالبعلیہما السلام ہیں۔ پیغمبر اسلام نے ہمیشہ تمام مشکلات اور سخت حالات میں علی علیہ السلام کے وجود مقدس پر فخر کیا۔ ذیل میں لکھی گئی دو روایات پر توجہ فرمائیں:

(ا)۔عَنْ اَبِیْ هُریرةِ قَالَ: قال رسولُ اللّٰه رَأَیْتُ لَیْلَةً اُسْرِیَ بِی اِلَی السَّمٰاءِ عَلَی الْعَرْشِمَکْتُوْباً: لَااِلٰهَ اِلّٰا أَنَا وَحْدِیْ لَا شَرِیْکَ لِیْ وَمحمدًعَبْدِی وَرَسُوْلِی اَیَّدْتُهُ بِعَلیٍّ(قال)فَذٰلِکَ قَوْلُهُ ( هُوَالَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِه وَبِالْمُومِنِیْن ) ۔

”ابوہریرہ نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ شب معراج میں نے دیکھا کہ عرش پر لکھا ہوا تھا :’میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ میں تنہا اور لاشریک ہوں اور محمد میرا بندہ اور میرا رسول ہے اور میں نے علی کے ذریعے سے اپنے رسول کی مدد کی ہے اور اس آیت شریفہ( هُوَالَّذِیْٓ اَ یَّدَکَ بِنَصْرِه وَبِالْمُومِنِیْنَ ) میں بھی اسی طرف اشارہ ہے“۔

(ب)۔ حافظ حسکانی جو اہل سنت کے نامور عالم ہیں، کتاب شواہد التنزیل میں روایت نقل کرتے ہیں جو معتبر اسناد کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے والد بزرگوارحضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے حوالہ سے لکھتے ہیں۔ انہوں نے اس آیت( یٰٓاَ یُّهَاالنَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰهُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُومِنِیْنَ ) کی تفسیرمیں فرمایا کہ یہ آیت علی علیہ السلام کی شان میں نازل کی گئی ہے جو ہمیشہ رسول اللہ کے مددگار و حامی و ناصر رہے ہیں۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں حدیث۹۲۶، باب احوال امیرالمومنین ، ج۲،ص۴۱۹

۲۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۳۴۔

۳۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں، جلد۳،صفحہ۲۱۶،اشاعت دوم، صفحہ۱۹۹۔

۴۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل، شمارہ۲۹۹،جلد۱،صفحہ۲۲۳اور اشاعت اوّل میں جلد۱،صفحہ۲۳۰،شمارہ۳۰۵۔

۴۷

۵۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد، باب مناقب علی علیہ السلام، جلد۹،صفحہ۱۲۱۔

۶۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب ۲۳،صفحہ۱۰۹ اور باب۲ص۲۱

۷۔ ذہبی، میزان الاعتدال، ج۱،ص۲۶۹،حدیث۱۰۰۶اور ص۵۳۰،ج۱،شمارہ۱۹۷۷۔

۸۔ المحب الطبری، کتاب ریاض النضرہ، جلد۲،صفحہ۱۷۲۔

۹۔ متقی ہندی، کتاب کنزل العمال،جلد۶،صفحہ۱۵۸، اشاعت اوّل۔

اٹھارہویں آیت

حضرت علی کا بغض اور دشمنی شقاوت قلب، نفاق اور انسان کی بدبختی کا باعث ہے

( وَلَوْنَشَآءُ لَاَرَیْنَکَهُمْ فَلَعَرَفْتَهُمْ بِسِیْمٰهُمْوَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ )

”اور اگر ہم چاہیں تو ہم اُن لوگوں کو تمہیں دکھلا دیں پھر تم اُن لوگوں کو اُن کی علامتوں سے پہچان لو اور تم اُن کو اُن کی بات کے لہجے سے ضرور پہچان لوگے“۔(سورئہ محمد، آیت:۳۰)۔

تشریح

اس آیت شریفہ میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر اسلام کومنافقین کی اور شقاوت قلبی رکھنے والے انسانوں کی نشاندہی کرتا ہے ۔اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر سے فرماتا ہے :”اگر ہم چاہیں تو ہم تمہیں اُن کی شناخت کروادیں گے“ تاکہ صرف اُن کی چال ڈھال اور قیافہ دیکھنے سے ہی اُن کو پہچا ن لو۔ اس کے علاوہ اُن کے لہجہ و کلام سے بھی پہچان سکتے ہو کہ اُن کے ناپاک دلوں میں کیا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اُن کے بولنے کا انداز کیا تھا کہ پروردگار نے اُس کو منافقین کے پہچاننے کا ایک اہم طریقہ بتایا۔اس ضمن میں اہل سنت اور شیعہ علماء نے جو روایات بیان کی ہیں، اُن پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ منافقین کے دلوں میں حضرت علی علیہ السلام کیلئے شدید دشمنی اور کینہ پایا جاتا تھا۔

۴۸

البتہ وہ اپنی اس دشمنی اور کینہ کو رسول اللہ کی زندگی میں واضح طور پر ظاہر نہیں کرتے تھے۔ شاید وہ اس میں اپنی بھلائی اور فائدہ نہیں دیکھتے تھے ۔ اس لئے وہ موقع بہ موقع رسول اللہ اور مسلمانوں کے پاس آکر حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں بدگوئی کرتے تھے اور تنقید کرتے تھے۔ اُن کی اس چال کا مقصد صرف حضرت علی علیہ السلام کو لوگوں کے درمیان کمزور کرنا اور اُن کی محبوبیت کو کم کرنا تھا۔

لیکن خدائے بزرگ نے یہ آیت نازل کرکے اُن کے مکروفریب کو باطل کردیا اور اُن کے ناپاک چہروں کو سب کے سامنے آشکار کردیا۔ اس ضمن میں دو روایات پر توجہ فرمائیں:

(ا)۔عَنْ اَبی سعیدُالخَدْری فِی قوله عزوجل”وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ“ قال بِبُغْضِهِمْ عَلَیّاً عَلَیْهِ السَّلَام ۔

”ابی سعید خدری سے روایت ہے کہ اس آیت’( وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ ) کی تفسیر میں فرمایاکہ یہ علی کی دشمنی اور بغض کی وجہ سے ہے(یعنی دشمنی علی اُن کی زبان سے ظاہر ہوجاتی ہے)“۔

(ب)۔ درج ذیل روایت کو اکثر مفسرین نے اس آیت کی بحث کے دوران ذکر کیا ہے اور رسول اکرم کے خاص صحابہ کی زبان سے بیان کی گئی ہے جیسے ابی سعید اور دوسروں نے نقل کیا ہے:

کُنَّا نَعْرِفُ الْمُنَافِقِیْنَ عَلٰی عَهْدِ رَسُوْلِ اللّٰهِ بِبُغْضِهِمْ عَلِیّاً ۔

”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں منافقین کو اُن کی علی علیہ السلام سے دشمنی کے سبب پہچانتے تھے“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حافظ الحسکانی، شواہد التنزیل، جلد۲،صفحہ۱۷۸،حدیث۸۸۳،اشاعت اوّل۔

۲۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ،ج۲، ص۴۲۱،حدیث۹۲۹،باب احوال علی ،اشاعت۲

۳۔ گنجی شافعی،کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۳۵۔

۴۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب امیرالمومنین ، حدیث۳۵۹،۳۶۲،صفحہ۳۱۵۔

۵۔ سیوطی، تفسیر المدرالمنثور، جلد۶،صفحہ۷۴اورتاریخ الخلفاء،صفحہ۱۷۰۔

۴۹

۶۔ ابن عمر یوسف بن عبداللہ، کتاب استیعاب، جلد۳،صفحہ۱۱۰۔

۷۔ بلاذری، انساب الاشراف، جلد۲،صفحہ۹۶،حدیث۱۹،اشاعت اوّل از بیروت۔

۸۔ متقی ہندی کنزالعمال، جلد۱،صفحہ۲۵۱،اشاعت اوّل اور اسی طرح احمد بن حنبل ۔

کتاب فضائل میں اور ابن اثیر کتاب جامع الاصول میں، طبری کتاب ریاض النضرہ میں اور بہت سے دوسرے۔

اُنیسویں آیت

علی صالح المو منین ہیں

( وَاِنْ تَظٰهَرَاعَلَیْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَمَوْلَهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُومِنِیْنَ )

”اور اگر تم دونوں ہمارے رسول کے برخلاف ایک دوسرے کے پشت و پناہ بنو تو اللہ ، جبرئیل اور صالح مومنین اُس کے مددگار ہیں“۔(سورئہ تحریم:آیت۴)

تشریح

یہ نکتہ توجہ طلب ہے کہ اگرچہ کلمہ”صالح المومنین“ اپنے اندر وسیع تر معنی رکھتا ہے اور تمام صالح مومنین اور پرہیز گار اس میں شامل ہوسکتے ہیں لیکن مومن کامل اور اکمل ترین انسان کون ہے؟اس کے لئے ہمیں روایات سے مدد لینا ہوگی اور روایات کو دیکھنا ہوگا۔ تحقیق کرنے پر بڑی آسانی سے ہم منزل تک پہنچ جائیں گے ۔ شیعہ علماء سے منقول روایات کے علاوہ اہل سنت نے بھی بہت سی روایات نقل کی ہیں۔ ان سب سے یہی پتہ چلتا ہے کہ متذکرہ بالا آیت میں صالح مومنین سے مراد ذات مقدس امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔ یہاں ہم چند ایک روایات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

(ا)۔عَنْ اَسماءِ بنتِ عُمَیس قٰالَتْ:سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ یَقْرَأُ هٰذِهِ الآیَة:وَاِنْ تَظٰهَرَاعَلَیْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَمَوْلَهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُومِنِیْنَ، قَالَ صَالِحُ المُومِنِیْنَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْطَالِب ۔

۵۰

”اسماء بنت عمیس روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے پیغمبر اسلام سے یہ آیت سنی( وَاِنْ تَظٰهَرَاعَلَیْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَمَوْلٰهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُومِنِیْنَ ) آیت پڑھنے کے بعد پیغمبر خدا نے فرمایا کہ صالح المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں“۔

(ب)۔عَنْ السُّدی عَن ابنِ عَبَّاس، فِی قَولِه عَزَّوَجَلَّ’وَصَالِحُ المُومِنِیْنَ قَالَ:هُوَ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْ طَالِب ۔

”سدی، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کہ جس میں صالح المومنین کا ذکر کیا گیا ہے، اس سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں“۔

(ج)۔عَنْ مُجٰاهِد فی قَولِهِ تَعٰالٰی:”وَصَالِحُ المُومِنِیْنَ“ قَالَ: صَالِحُ المُومِنِیْنَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِب ۔

”مجاہد سے روایت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس کلام میں جہاں صالح المومنین کا تذکرہ ہے، وہاں صالح المومنین سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل میں، حدیث۹۸۴ اور ۹۸۵،جلد۲،صفحہ۲۵۷۔

۲۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین میں، باب۶۷،جلد۱،صفحہ۳۶۳۔

۳۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں، جلد۶،صفحہ۲۴۴اور اشاعت دیگر صفحہ۲۶۹،۲۷۰۔

۴۔ ابن مغازلی، مناقب امیر المومنین میں، حدیث۳۱۶،صفحہ۲۶۹،اشاعت اوّل۔

۵۔ گنجی شافعی، کتاب کفایت الطالب میں، باب۳۰،صفحہ۱۳۷۔

۶۔ متقی ہندی، کتاب کنزالعمال میں،حدیث لا شی، جلد۱،صفحہ۲۳۷، اشاعت اوّل۔

۷۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں، جلد۲،صفحہ۴۲۵، اشاعت دوم، حدیث۹۳۲،۹۳۳۔

۸۔ ابن حجر فتح الباری میں، جلد۱۳،صفحہ۲۷۔

۵۱

بیسویں آیت

قیامت کے دن لوگوں سے ولایت علی کے بارے میں سوال کیا جائے گا

( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ )

”اور ان کو ٹھہرا ؤ کہ ابھی ان سے سوالات کئے جائیں گے“۔(سورئہ صافات:آیت۲۴)

تشریح

سورئہ مبارکہ صافات کے ایک حصہ میں جہاں پروردگار قیامت اور اس کے متعلقہ مسائل اور عذاب عظیم جو مشرکین اور گمراہوں کے انتظار میں ہے، کے بارے میں بیان فرماتا ہے، اس آیت( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) سے اپنے تمام فرشتوں اور ملائکہ کو اُس دن دوسرے احکام کے ساتھ یہ اہم حکم دے گا اور وہ حکم یہ ہوگا کہ اے میرے فرشتو ! ان کو روک لو ، ابھی ان سے سوال کیا جائیگا۔

لوگوں کے اس سوال پر کہ قیامت والے دن اس آیت کے مطابق کونسی چیز کے بارے میں سوال کیا جائے گا، اہل سنت اور شیعہ مفسرین نے مختلف جواب دئیے ہیں۔ کچھ نے کہا ہے کہ توحید کے بارے میں سوال کیا جائے گا، کچھ نے کہا ہے کہ اُس دن لوگوں سے بدعتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا جو وہ دنیا میں چھوڑ گئے، کچھ اوروں نے مختلف دیگر چیزوں کا ذکر کیا ہے۔ لیکن یہ جوابات آیت کے مفہوم سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اہل سنت اور شیعہ کتب میں بہت سی روایات موجود ہیں جن کے مطابق باقی اہم سوالوں کے علاوہ جو مجرموں سے پوچھے جائیں گے، ولایت علی ابن ابی طالب کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا۔ اس مطلب کی وضاحت کیلئے درج ذیل روایات پر توجہ فرمائیں:

(ا)۔عَنْ اَبِیْ سعید خدری، عَنْ النبی فی قوله تعالٰی ( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) قال: عَنْ وِلَایَةَ عَلِیِّ ابْنِ اَبِیْ طَالِب ۔

”ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) ک ی تفسیر میں فرمایا کہ ولایت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا جائے گا“۔

۵۲

(ب)۔وَرَوِیٰ اَبُوالْاَحْوَضِ عَنْ أَبی اسحٰاقِ فی قولِهِ تعٰالٰی: ( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) قَالَ یَعنی مِنْ وِلَایَةِ عَلِیِّ ابنِ اَبِی طَالِب اِنَّهُ لَا یَجُوْزُ اَحَدُالصِّرَاطَ اِلَّا وَبِیَدِهِ بَرَاةً بِوِلَایةِ عَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب ۔

”ابو احوض، ابواسحاق سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اس آیہ شریفہ( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) کی تفسیر میں کہا کہ ولایت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا جائیگااور مزید کہا:”اِنَّهُ لَا یَجُوْزُ اَحَدُالصِّرَاطَ اِلَّا وَبِیَدِهِ بَرَاةً بِوِلَایَةِ عَلِی“ ’ کسی کو پل صراط سے گزرنے کا حق حاصل نہ ہوگا مگر وہ جس کے ہاتھ میں ولایت علی ابن ابی طالب علیہما السلام کا پروانہ ہوگا‘۔

(ج)۔عَنْ اِبْنِ عباس فِی قولِه عَزَّوَجَلَّ ( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْن ) قَالَ:عَنْ وِلَایةِ علی ابنِ ابی طالب ۔

”ابن عباس سے اس آیت( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْن ) کي باري م یں روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ علی ابن ابی طالب علیہما السلام کے بارے میں سوال کیا جائے گا“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، باب۴،جلد۱،صفحہ۷۹۔

۲۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل، شمارہ۷۸۷،جلد۲،صفحہ۱۰۶،اشاعت اوّل۔

۳۔ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال، باب حال علی بن حاتم، ج۳،ص۱۱۸،شمارہ۵۸۰۲۔

۴۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۴۷۔

۵۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۳۷،صفحہ۱۳۳اور اسی کتاب میں

باب مناقب ،صفحہ۲۸۲،حدیث۵۱۔

۶۔ خوارزمی، کتاب مناقب، باب۱۷،صفحہ۱۹۵۔

۷۔ ہیثمی، کتاب صواعق المحرقہ، صفحہ۸۹اور کتاب لسان المیزان،جلد۴،صفحہ۲۱۱۔

۸۔ ابن جوزی، کتاب تذکرة الخواص، باب دوم، صفحہ۲۱۔

۵۳

اکیسویں آیت

اللہ تعالیٰ نے جنگوں اور مشکلات میں مسلمانوں کی مدد علی کے وسیلہ سے کی

( وَرَدَّاللّٰهُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْابِغَیْظِهِمْ لَمْ یَنَالُوْا خَیْرًاوَکَفَی اللّٰهُ الْمُومِنِیْنَ الْقِتَالَوَکَانَ اللّٰهُ قَوِیًّا عَزِیْزًا )

”اور اُن لوگوں کو جو کافر ہوگئے تھے، اللہ نے اُن کے غصے ہی کی حالت میں لوٹا دیا کہ وہ کسی مراد کو نہ پہنچیں اور اللہ نے مومنوں پر لڑائی کی نوبت ہی نہ آنے دی اور اللہ صاحب قوت اور صاحب غلبہ ہے“۔(سورئہ احزاب: آیت۲۵)۔

تشریح

یہ آیت سورئہ احزاب سے ہے جس کی کچھ دوسری آیتیں جنگ خندق(جنگ احزاب) کے متعلق ہیں۔ جنگ خندق ایسی جنگ ہوئی ہے جس میں مسلمانوں کو کامیابی معجزانہ طور پر نصیب ہوئی اور بغیر کسی وسیع قتل و غارت کے کفار شکست خوردہ اور مایوس ہوکر مدینہ کے محاصرے کو توڑ کر ناکام واپس اپنے علاقوں کی طرف چلے گئے۔اس میں مدد غیبی کی ایک شکل تو قدرت کی طرف سے زبردست طوفان اور سخت ترین سرد ہوائیں چلیں جس نے کفار کے حوصلے پست کردئیے ۔ اُن کے دلوں میں خدائی طاقت کا رعب اور ڈر بیٹھ گیا اور دوسری طرف حضرت علی علیہ السلام نے اُن کے طاقتور ترین پہلوان اور جنگجو یعنی عمر بن عبدود پر وہ کاری ضرب لگائی کہ وہ نیست و نابود ہوگیا۔ اس سے کفار کی اُمیدوں پر پانی پھر گیا اور وہ مایوسی میں تبدیل ہوگئیں۔ کفارکے بڑے بڑے سرداروں کے حوصلے پست ہوگئے۔

اس جنگ میں حضرت علی علیہ السلام کی فداکاری اور کارکردگی اتنی اہمیت کی حامل تھی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ:

”لَمُبارِزَةُ عَلِی ابنِ ابی طالب لِعُمروبنِ عَبدُوَدیَومَ الْخَنْدَقِاَفْضَلُ مِنْ اَعْمٰالِ اُمَّتِیْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰامَةِ“

”حضرت علی علیہ السلام کی جنگ خندق میں ایک ضربت میری تمام اُمت کی قیامت تک کی عبادت سے افضل ہے“۔

حاکم، کتاب المستدرک میں، جلد۳،صفحہ۳۲۔

شیخ سلیمان قندوزی، ینابیع المودة، باب۲۳،صفحہ۱۰۹اور باب۴۶،ص۱۶۱اوربہت سے دوسرے۔

۵۴

اب اس آیت کی تفسیر میں چند ایک روایات بیان کی جارہی ہیں جو توجہ طلب ہیں:

(ا)۔عَنْ عَبْدِاللّٰهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ اِنّه کَانَ یَقْرَاُ هٰذِهِ الآیة”وَکَفَی اللّٰهُ الْمُومِنِیْنَ الْقِتَالَ“ بِعَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب عَلَیْهِ السَّلَام ۔

”عبداللہ بن مسعود سے روایت کی گئی ہے کہ وہ یہ آیت

( وَکَفَی اللّٰهُ الْمُومِنِیْنَ الْقِتَال )

تلاوت فرمارہے تھے اور اس سے مراد حضرت علی علیہ السلام کی ذات مقدس کو لے رہے تھے“۔

(ب)۔عَنْ عبداللّٰهِ بن مسعود قَالَ: لَمَّا قَتَلَ عَلِیٌّ عمروبن عَبْدُوَدْ یَوْمَ الْخَنْدَقِ، اَنْزَلَ اللّٰهُ تعالٰی:”وَکَفَی اللّٰهُ الْمُومِنِیْنَ الْقِتَال“بِعَلِیٌّ ۔

”عبداللہ بن مسعود سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ جب حضرت علی علیہ السلام نے جنگ خندق میں عمربن عبدود کو ہلاک کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت

( وَکَفَی اللّٰهُ الْمُومِنِیْنَ الْقِتَال )

حضرت علی علیہ السلام (کے عمل) کی خاطر نازل فرمائی“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حافظ الحسکانی کتاب شواہد التنزیل میں، شمارہ۶۲۹،جلد۲،صفحہ۳۔

۲۔ ابن عساکر تاریخ دمشق میں، باب حال امیرالمومنین ، شمارہ۹۲۷،جلد۲،صفحہ۴۲۰،

اشاعت دوم(شرح محمودی)۔

۳ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال میں، شمارہ۴۱۴۹،جلد۲،صفحہ۳۸۰۔

۴۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۳۴۔

۵۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، باب۲۳،صفحہ۱۰۸اور باب۴۶،ص۱۶۱۔

۶۔ سیوطی تفسیر الدالمنثور میں، جلد۵،صفحہ۲۰۹۔

۵۵

بائیسویں آیت

علی اورفاطمہ علم و معرفت کے دریائے بیکراں ہیںاور حسن و حسین اُن کے انتہائی قیمتی موتی ہیں

( مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِبَیْنَهُمَابَرْزَخٌ لَّایَبْغِیٰنِفَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَآ تُکَذِّبٰنِیَخْرُجُ مِنْهُمَاالُّلو وَالْمَرْجَانُ )

”اُس نے دودریا بہادئیے، وہ باہم ملتے ہیں اور اُن دونوں کے مابین پردہ ہے کہ ایک دوسرے پر زیادتی نہیں کرسکتا۔پھر تم اپنے پروردگار کی کون کونسی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ اُن دونوں سے موتی اور مونگا برآمد ہوتے ہیں“۔(سورئہ رحمٰن:آیات۱۹تا۲۱)۔

تشریح

وہ افراد جو قرآن اور علوم قرآن سے واقف ہیں، اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ کتاب آسمانی اپنے اندر معنی کا سمندر رکھتی ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ ایک آیت بعض اوقات چند معنی رکھتی ہو اور بعض اوقات بیسیوں معنی رکھتی ہو جبکہ اُن کا ہر معنی اپنی جگہ قابل توجہ اور اہمیت کا حامل ہو اور وہ ایک دوسرے سے ٹکراؤ بھی نہ رکھتے ہوں۔مثال کے طور پر یہ چند آیات جو سورئہ رحمٰن سے ہیں اوراوپر بیان کی گئی ہیں، اس طرح کی آیات ہیں جن کے مختلف معنی نکل سکتے ہیں۔

وہ لوگ جو ان آیات کو ظاہری اعتبار سے دیکھتے ہیں تو اُن کے اذہان میں یہی معنی آتے ہیں کہ کرئہ ارض کے بڑے بڑے دریا اور سمندر جو اس کے تین چوتھائی حصے پر پھیلے ہوئے ہیں اور اُن کے اندر بڑے بڑے قیمتی گوہر اور معدنیات موجود ہیں، یہ خدائے بزرگ کی طرف سے عظیم نعمتیں ہیں۔ یہ سب ،انسان کو غوروفکر کرنے پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ دیکھیں کہ خدا نے انسان کیلئے کس طرح یہ دریااور سمندر پھیلائے اور اُن میں بیش بہا نعمتیں پیدا کیں۔ لیکن ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ ان آیات کے دوسرے مطالب ہیں جو مقصود خالق ہیں۔

۵۶

روایات اور اطلاعات جو اسلامی تاریخ میں موجود ہیں، اُن کو بغور دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ ان آیات سے دو عظیم ہستیوں کا تعارف کروانا مقصود ہے۔ وہ ہستیاں جو علم و معرفت اور کمال کے دریائے بیکراں ہیں اور ان سے ملنے والے دو قیمتی موتی حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام ہیں۔توضیح کیلئے درج ذیل روایات پر توجہ فرمائیں:

عَنْ اِبْنِ عباس رضی اللّٰه عنه فی قوله تعالٰی ( مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰن ) قال:علی و فاطمه ،( بَیْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّایَبْغِیٰنِ ) اَلنّبی،( یَخْرُجُ مِنْهُمَاالُّلو وَالْمَرْجَانُ ) قال:اَلْحَسَنُ وَالْحُسَیْن علیهماالسلام ۔

”ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ تفسیر( مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰن ) سے مراد علی علیہ السلام اور فاطمہ سلام اللہ علیہا ہیں۔”بَیْ نَھُمَابَرْزَخٌ لَّایَبْغِ یٰن“ سے مراد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے(پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات جناب علی علیہ السلام اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے درمیان وہ واسطہ ہے جس سے یہ صحیح بندگی خدا اور اُس کی عبودیت کے لئے روشنی حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح اُن کی ذات گرامی سے خود بھی فیض یاب ہوتے ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کیلئے بطور نمونہ اُن کی رہنمائی اور ہدایت کا باعث بنتے ہیں)۔( یَخْرُجُ مِنْهُمَاالُّلووَالْمَرْجَانُ ) سے مراد امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام ہیں۔

یہ قابل توجہ بات ہے کہ درج بالا روایت کو علمائے اہل سنت نے دوسرے صحابہ سے بھی نقل کیا ہے اور شیعہ علماء نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کیا ہے اور یہ روایت بجائے خود بہت اہمیت کی حامل ہے۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ سیوطی تفسیر الدرالمنثور میں، جلد۶،صفحہ۱۵۸اور دوسری اشاعت میں ج۶،ص۱۴۲

۲۔ حافظ الحسکانی، شواہد التنزیل ، حدیث۹۱۹،ج۲،ص۲۰۹،اشاعت اوّل،ج۲،

صفحہ۲۱۲،اشاعت دوم۔

۳۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب امیر المومنین ، صفحہ۳۳۹،حدیث ۳۹۰۔

۴۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۳۹،صفحہ۱۳۸۔

۵۷

۵۔ ثعلبی، تفسیر ثعلبی میں جلد۴،صفحہ۲۸۹۔

۶۔ حافظ ابونعیم اصفہانی، کتاب ”مانزل من القرآن فی علی “،اس آیت کی تشریح میں۔

۷۔ شبلنجی، کتاب نورابصار میں، صفحہ۱۰۱۔

۸۔ خوارزمی، کتاب مقتل الحسین ، صفحہ۱۱۲۔

۹۔ کراجکی، کتاب کنزالفوائد میں، صفحہ۳۶۶۔

تئیسویں آیت

علی اور اہل بیت سے محبت نیکی ہے اور ان سے بغض گناہ ہے

( مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَه خَیْرٌ مِّنْهَا وَهُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَئِذٍاٰمِنُوْنَ وَمَنْ جَآءَ بِالسَّيِّئَةِ فَکُبَّتْ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِ هَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَاکُنْتُمْ تَعَْمَلُوْنَ )

”جو شخص کوئی نیکی لے کر آئے گا پس اُس کیلئے اس کا عوض اس سے بہتر موجود ہے اور وہ اُس دن خوف سے امن میں ہوں گے اور جو بدی لے کر آئے گا وہ اوندھے منہ دوزخ میں ڈال دئیے جائیں گے، جو کچھ تم کرتے تھے، اُسی کا بدلہ تمہیں ملے گا“(سورئہ نمل:آیت۸۹اور۹۰)

تشریح

اس آیت میں دو الفاظ یعنی”حَسَنَةِ“ اور”سَيِّئَةِ“ استعمال ہوئے ہیں۔آیت کا اصلی مقصد بھی انہی کو سمجھانا ہے کہ نیکی اور بدی اصل میں کہتے کسے ہیں کیونکہ اس کا انسان کی مادّی اور روحانی زندگی پر گہرا اثر پڑتا ہے۔

”حَسَنَةِ“ اور”سَيِّئَةِ“ ، یہ دوالفاظ اس آیت میں اور قرآن کی دیگر آیات میں استعمال ہوئے ہیں۔ان الفاظ کے مفہوم اور معنی نہایت وسیع ہیں مثلاً”حَسَنَةِ“ میں تمام نیک اور پسندیدہ اعمال شامل ہیں اور ان میں سرفہرست خدا پر ایمان، اُس کے پیغمبر پر ایمان اور حضرت علی علیہ السلام اور آئمہ علیہم السلام کی ولایت پر ایمان ہے اور”سَيِّئَةِ“ میں تمام قبیح اور ناپسندیدہ اعمال شامل ہیں جو انسان کو خدا اور اُس کے رسول

۵۸

اور اُس کے اولیائے حق کے خلاف سرکشی پر ابھارتے ہیں اور یہ ”حَسَنَة“کی مکمل ضد ہے۔ لیکن ان کلمات کی تفاسیر اور تعابیر جو ہم تک آئمہ معصومین کے ذریعے سے پہنچی ہیں اور جسے بہت سے علمائے اہل سنت اور شیعہ نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے، کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ”حَسَنَة“ سے مراد قبول ولایت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور اُن کی اولاد ہیں اور ”سَےئَة“ سے مرادعدم قبول ولایت علی اور اولاد علی ہے۔درج ذیل روایت میں اسی بات کی تفسیر ہے:

عَنْ ابی عبدِاللّٰهِ الجَدَلِی قال: قٰال لی علی علیه السلام:اَلٰا اُنَبِّئُکَ بِالْحَسَنَةِ الَّتِی مَنْ جٰاءَ بِهٰااَدْخَلَهُ اللّٰهُ الجَنَّةَ وَبِالسَّيّئَةِ الَّتِی مَنْ جٰاءَ بِهٰااَکَبَّهُ اللّٰهُ فِی النّٰارِوَلَمْ یُقْبَلُ لَه عَمَلاً؟ قُلْتُ بلٰی ثُمَّ قَرَأَ(امیرالمومنین) مَنْ جٰاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَه خَیْرُ مِنْهٰاوَهُمْ مِنْ فَزَعِ یَومَئِذٍآمِنُوْنَ وَمَنْ جٰاءَ بالسَّيّئَةِ فَکُبَّتْ وَجُوْهَهُمْ فِی النَّارِهَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَاکُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ثُمَّ قٰالَ: یٰا أَبٰاعَبْدِاللّٰهِ، اَلْحَسَنَةُ حُبُّنٰاوَالسَّيِّئَةُ بُغْضُنَا

”ابو عبداللہ جدلی سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ امیر المومنین علی علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا:’کیا میں تجھے اُس نیک عمل کی خبر نہ دوں کہ جو کوئی اُس کو انجام دے گا، پروردگار اُس کو بہشت میں داخل کرے گا اور کیا تجھے اُس بدعمل کی خبر نہ دوں کہ اُسے جو کوئی انجام دے گا، پروردگار اُسے جہنم میں پھینکے گااور اُس کاکوئی دوسراعمل بھی قبول نہ ہوگا‘۔

میں نے عرض کی:’ہاں مولا! میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے اس سے باخبرکریں‘۔ حضرت علی علیہ السلام نے پھر یہ آیت پڑھی:

مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَه خَیْرٌ مِّنْهَا وَهُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَئِذٍاٰمِنُوْنَوَمَنْ جَآءَ بِالسَّيِّئَةِ فَکُبَّتْ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِهَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَاکُنْتُمْ تَعْمَلَُوْنَ

پھر فرمایاحَسَنَةہم اہل بیت سے محبت ہے اورسَےئَة اہل بیت سے بغض و دشمنی ہے۔اسی طرح بعض دوسری روایات میں آیاہے کہ آپ نے اس بارے میں فرمایا:

”اَلْحَسَنَةُ مَعْرِفَةُ الْوِلَایَةِ وَحُبُّنٰا اَهْلِ الْبَیْتِ وَالسِّيِّئَةُ اِنْکَارُ الْوِلَایَةِ وَبُغْضُنَا اَهْلَ الْبَیْتِ“ ۔

”حَسَنَة یعنی معرفت ولایت علی علیہ السلام اورہم اہل بیت سے محبت ہے اور سَّےئَة یعنی انکار ولایت علی علیہ السلام اور ہم اہل بیت سے بغض و دشمنی ہے“۔

۵۹

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، باب۶۱،جلد۲،صفحہ۲۹۹۔

۲۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل میں، حدیث۵۸۲،۵۸۷،ج۱،ص۴۲۶،۴۲۸

۳۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۲۴،صفحہ۱۱۳۔

۴۔ ثعلبی اپنی تفسیر میں، جلد۲۔

۵۔ الحنینی کتاب خصائص الوحی المبین، صفحہ۱۲۸۔

۶۔ رشید الدین، مناقب آل علی ، جلد۲،صفحہ۲۲۵،عنوان درجات علی عند قیام الساعة۔

چوبیسویں آیت

اللہ تعالیٰ علی کے وسیلہ سے کفارو مشرکین سے انتقام لیتا ہے

( فَاِمَّانَذْهَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْهُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ )

”پس اگر تم کو ہم لے جائیں گے تو ہم اُن سے بھی ضرور ہی بدلہ لینے والے ہیں“۔

(سورئہ زخرف:آیت۴۱)۔

تشریح

سورئہ مبارکہ زخرف میں اللہ تعالیٰ کفار کی حرکتوں کو نظر میں رکھتے ہوئے اپنے پیغمبر کی تسلی اور سکون کی خاطر فرمارہا ہے کہ کفار کی چالوں کی وجہ سے اسلام کے مستقبل کے بارے میں بالکل پریشان نہ ہوں کیونکہ اگر وہ کفر، ظلم اور انتقام جوئی کو ترک نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ بھی یقینا اُن سے انتقام لے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ بشری زندگی کے مختلف زمانوں میں اپنے قابل دید اور ناقابل دید لشکروں سے کفار، منافق اور مشرکوں سے انتقام لیتا رہا ہے اور اُن کوسزائیں دیتا رہا ہے اور یہ عمل اُس کیلئے کوئی مشکل نہیں کیونکہ اُس کی ذات

( فَعَّالٌ لِمٰا یُرِیْد )

”وہ جو چاہتا ہے ، کرتا ہے“۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

ابونوح : ہاں ، قسم اس خدا کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں انہوں نے جنگ جمل میں مجھ سے کہا کہ ہم اصحاب جمل پرکامیاب ہوں گے اور کل تجھ سے کہا کہ اگر شامی ہمارے اوپر حملہ کریں گے اور ہمیں سرزمین''ہجر'' پر دوڑائیں گے تب بھی ہم جنگ سے باز نہیں آئیں گے۔ کیو نکہ ہم جا نتے ہیں کہ ہم حق پر ہیں اور وہ باطل پر ہیں اور ہمارے قتل ہونے والے جنت اور ان کی فوج سے قتل ہونے والے جہنم میں ہوں گے۔

عمروعاص: کیا تم ایسا کر سکتے ہوکہ میں عمار سے ملاقات کرسکوں؟

ابونوح : میں نہیں جانتا ، لیکن میں کوشش کروں گا کہ ملاقات ہوجائے اس کے بعدان لوگوںسے جدا ہوئے اور امام علیہ السلام کے لشکر میں جہاں عمار یاسر تھے وہاں پہونچے اور اپنی پوری داستان شروع سے آخر تک انہیں سنائی اور کہا کہ بارہ آدمیوں پر مشتمل ایک گروہ جس میں عمروعاص بھی ہے آپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہے۔

عمار، ملاقات کرنے کے لئے تیار ہوگئے، اور پھر ایک گروہ جس میں سب کے سب سوار تھے امام علیہ السلام کی فوج سے روانہ ہوئے اور عوف بن بشر عمار سے رخصت ہوئے اور خود کو فوجِ شام کے پاس پہونچایا اور بلند آواز سے کہاعمر وعاص کہاںہے؟ لوگوں نے کہا یہاں ہے، عوف نے عمار کی جگہ بتائی، عمرو عاص نے درخواست کی کہ عمار شام کی طرف روانہ ہوں، عوف نے کہا کہ تمھارے مکروفریب سے وہ مطمئن نہیں ہیں، پھر یہ طے پایا کہ دونوں آدمی فوجوں کے تھوڑے فاصلے پر گفتگوکریں،اور دونوں کی فوج حمایت کرے، دونوں گروہ معین جگہ کے لئے روانہ ہوئے لیکن احتیاط کو مد نظر رکھا اور وہاں اترتے وقت اپنے ہاتھوں کو تلواروں پررکھا، عمرو نے عمار کو دیکھتے ہی بلند آواز سے کلمہ شہادتین سے گفتگو شروع کیا تاکہ اسلام سے اپنی الفت و محبت کا اظہار کرے لیکن عمار اس کے دھوکہ میں نہیں آئے اور سخت لہجہ میں کہا، خاموش ہوجاتونے پیغمبر کی زندگی اور ان کے مرنے کے بعد بھی اسے (اسلام کو)چھوڑدیا اور اس وقت نعرہ بلند کررہاہے؟ عمر و عاص نے بے حیا ئی سے کہا، عمار ہم ان باتوں کے لئے نہیں آئے ہیں میں نے اس فوج میں تمھیں سب سے زیادہ مخلص پایا ہے اور میں نے سوچا کہ تم سے معلوم کروں کہ ہم سے جنگ کیوںکررہے ہو جب کہ خدا، کتاب اور قبلہ دونوں کا ایک ہی ہے، عمار نے مختصر گفتگو کے بعد کہا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہمیں خبر دی ہے کہ عہد و پیمان(جمل) توڑنے اور حق سے منحرف ہونے والوں سے جنگ کروں گا اور میں نے عہدو پیمان توڑ نے والے سے جنگ کی اور تم وہی حق سے دور ہونے والے ہو۔

۶۲۱

لیکن میں نہیں جانتا دین سے خارج ہونے(نہروان) والوں کو درک کر سکوں گایا نہیں پھر عمر و کی طرف رخ کرکے کہا، اے عقیم !تو جانتا ہے کہ پیغمبر نے علی کے بارے میں کہا ہے :''مَنْ کُنْتُ مولاَ ه فَعِلیّ مولاَ ه اللّٰهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُ وعٰادِ مَن عَادَاهُ'' (جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں پرودگار ان کے دوست کو دوست اور ان کے دشمن کو دشمن رکھ) دونوں کی گفتگو عثمان کے قتل کی گفتگو کے بعد ختم ہوگئی اور دونوںایک دوسرے سے جدا ہو کر اپنے اپنے قیام کی جگہ واپس آگئے۔(ا)

اس ملاقات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جو چیز عمر وعاص نہیں چاہتا تھا وہ عمار کا امام علیہ السلام کی فوج میںشریک ہوناتھا ۔ کیونکہ وہ علی علیہ السلام کی فوج کے سرداروں کو بہت اچھی طرح پہچانتا تھا،لہٰذا عمار کی منطقی و عقلی باتوں کے مقابلے میں جنگ و جدال و اختلاف کی باتیں کرنے لگا اور عثمان کے قتل کی باتیںکرنے لگا تاکہ ان سے اقرار کرالے کہ خلیفہ کے قتل میں شامل تھے، اور اس طرح سے بے خبر شامیوں کو حملہ و شورش کے لئے آمادہ کرے، البتہ معاویہ او ر عمر وعاص کے لئے بہتر ہوا کہ ذوالکلاع عمار سے پہلے قتل ہوگیا ،کیونکہ اگر وہ عمار یاسر کی شہادت کے بعد زندہ ہوتا تو عمرو عاص اپنی بے ہودہ گفتگو کی بنیاد پر اسے دھوکہ نہیں دے سکتا تھا اور خود وہ شام کی فوج کے درمیان اور معاویہ و عمرو عاص کے لئے بہت بڑی مشکل بن جاتا۔ لہٰذا ذوالکلاع کے قتل ہونے اور عما ر یاسر کی شہادت کے بعد عمرو عاص نے معاویہ سے کہا میں نہیں جانتا کہ دونوں میں سے کس کے قتل پر خوشی مناؤں ،ذوالکلاع کے قتل پر یاعمار یاسر کی شہادت پر؟ خدا کی قسم اگر ذوالکلاع، عمار یاسر کے قتل کے بعد زندہ ہوتا تو تمام شامیوں کو علی علیہ السلام کی فوج میں داخل کردیتا۔(۲)

______________________

( ۱) دقعہ صفین ص۳۳۶،۳۳۲۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،ج۸ص۲۲۔۱۶۔

(۲) کامل ابن ثیرج۳ص۱۵۷۔

۶۲۲

جنگ صفین میں امام علیہ السلام کی بہادری

امام علیہ السلام پوری فوج کے سردارتھے،آپ ، معاویہ اور عمر وعاص جیسے سرداروں کی طرح نہ تھے

کہ سب سے امن کی جگہ ، اور فوج کے بڑے بڑے طاقتوروں کی حفاظت میں رہتے اور خطرے کے وقت بھاگ جاتے ، بلکہ آپ نے اپنی سرداری کو فوج کے مختلف علاقوں میںگھوم کر نبھایا اور مشکل سے مشکل لمحوں میں بھی اپنے سپاہیوں سے آگے آگے جنگ اور زبردست حملوں میں کامیابی آپ کے مبارک اور طاقتور ہاتھوں سے ہوتی تھی۔اب ہم امام علیہ السلام کی بہادری کے چند نمونے یہاں ذکر رہے ہیں:ان واقعات کی تفصیلات ابن مزاحم کی کتاب وقعہ صفین اور تاریخ طبری میں موجود ہے دلچسپی رکھنے والے قارئین ان کتابوں کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

امام علیہ السلام تیروں کی بارش میں

امام علیہ السلام کی فوج کین میمنہ کا نظام عبد اللہ بن بدیل کے مارے جانے کی وجہ سے درہم برہم ہو گیا، معاویہ نے حبیب بن مسلمہ کو بچی ہوئی فوج کی سر کوبی کے لئے میمنہ پر معین کردیا ادھر اما م علیہ السلام کے میمنہ کی فوج کی سرداری سہیل بن حنیف کو ملی لیکن یہ نئی سرداری بھی بے نتیجہ ثابت ہوئی میمنہ کے حیران و پریشان فوجی قلب لشکر سے ملحق ہوگئے جس کی رہبری خود امام علیہ السلام کررہے تھے، اس مقام پر تاریخ نے قبیلۂ ربیعہ کی تعریف اور قبیلۂ مضر کے بھاگنے اور ان کے خوف وہراس کے متعلق تذکرہ کیا ہے، امام علیہ السلام نے ایسے حالات میں قدم آگے بڑھایا اور خود میدان جنگ میں آئے۔

جنگ صفین کے خبر نگار زید بن وہب کا کہنا ہے کہ میں نے خود امام علیہ السلام کو تیروں کی بارش میں دیکھا کہ دشمن کے تیر آپ کی گردن اور شانے سے گزر رہے تھے، امام علیہ السلام کے بیٹوں کو خوف محسوس ہوا کہ امام علیہ السلام دشمن کے شدید باراں میں زخمی نہ ہوجائیں لہٰذا امام علیہ السلام کی مرضی کے بر خلاف سپر کے طور پر ان کے اطراف کھڑے ہوگئے لیکن امام علیہ السلام ان لوگوں کی خواہش کے بر خلاف آگے بڑھتے ہی رہے اور دشمن کو پچھاڑتے رہے اچانک امام کے بالکل سامنے آپ کے غلام کیسان اور ابوسفیان کا غلام احمر لڑتے لڑتے آگئے اور بالآخر کیسان قتل ہوگئے۔ ابو سفیان کا غلام اپنی کامیابی پر غرور کرتے ہوئے برہنہ تلوار کے ساتھ امام کی طرف آیا لیکن امام علیہ السلام نے پہلے ہی حملے

۶۲۳

میں اس کی زرہ کے دستہ پر ہاتھ ڈالا اور اسے اپنی طرف کھینچا اور پھر اٹھایا اور پوری طاقت سے اُسے زمین پر اسطرح پٹکا کہ اسکا شانہ اور بازوٹوٹ گیااور پھر اسے چھوڑ دیا اس وقت امام حسین علیہ السلام اور محمد حنیفہ نے اپنی تلوار سے اس کی زندگی کا خاتمہ کردیا اور امام کے پاس واپس گئے ، امام نے اپنے بیٹے امام حسن علیہ السلام سے کہا، اپنے بھائیوں کی طرح اس کے قتل میں کیوں شریک نہ ہوئے۔امام نے جواب دیا''کَفیانی یٰا امیر المومنین'' یعنی وہ دونوں بھائی کافی تھے،

زید بن وہب کہتے ہیں ، امام علیہ السلام جتنا شام کے لشکر سے قریب ہوتے تھے اپنی رفتار کو بڑھاتے تھے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے اس خوف سے کہ کہیں معاویہ کی فوج امام علیہ السلام کا محاصرہ نہ کر لے اور آپ کی زندگی خطرے میں نہ پڑ جائے ، حضرت سے کہا تھوڑا سا ٹھہر جائیں تو آپ کے وفادار ، ثابت قدم قبیلہ ربیعہ کے ساتھی آپ تک پہونچ جائیں۔ امام علیہ السلام نے اپنے بیٹے کے جواب میں فرمایا:''ان لا بیک یوماً لَنْ یَعْدوه ولاٰ یُبطِیُٔ بَهِ عنه السّعُ ولاٰ یُعجلُ به اِالیه المش اَنّ اباکَ واللّٰهِ لاٰ یُبالِی وَقَعَ عَلیَ الموتِ اَوْوُقِعَ الموتُ علیه'' (۱)

''تمھارے باپ کی موت کے لئے ایک دن معین ہے جو آگے نہیں بڑھے گا،توقف سے نہ تو پیچھے ہٹے گا ، تمھارے باپ کو یہ خوف نہیں ہے کہ وہ موت کا استقبال کریں یا موت خود ان کا استقبال کرے''۔

ابو اسحاق کہتے ہیں:اما م علیہ السلام جنگ صفین کے دوران اپنی فوج کے سردار سعید بن قیس کے پاس سے گزرے جب کہ امام علیہ السلام کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا نیزہ تھا، اس نے امام علیہ السلام سے کہا کہ آپ کو ڈر نہیں لگتا کہ دشمن سے اتنا قریب ہونے کی وجہ سے اچانک ان کے ہاتھوں قتل ہوجائیں ؟ امام علیہ السلام نے اس کے جواب فرمایا،''انّه لیس من احدٍ الاّٰ عَلَیْهِ مَن اللّٰهِ حَفِظَة یحفظونِه مِنْ ان یَتَرَدّیٰ فی قَلیِبٍ أویَخِرَّ علیه حائط اَوْ تصیبه آفة، فاذا جَأ الْقَدر خَلوْ بینَه و بَینَه'' (۲)

''کوئی شخص نہیں ہے مگر یہ کہ خدا کی طرف سے اس پر محافظ ہے کہ اگر وہ کنویںمیں گر جائے یا دیوار کے نیچے دب جائے یا اس پر آفت آجائے تو وہ اس کی حفاظت کرے گا اور جب قدرت کا لکھا ہوا وقت

پہونچ جائے گا تو وہ خود اپنی سر نوشت کو پہونچ جائے گا''۔

______________________

(۱) وقعہ صفین ص ۲۵۰،۲۴۸۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۵ ص ۲۰۰،۱۹۸، تاریخ طبری ج ۳ جز ۶ ص۱۱،۰ ۱ ۔ کامل ابن اثیر ج۳ ص ۱۵۲،۱۵۱۔------(۲) وقعہ صفین ص ۲۵۰۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۵ ص ۱۹۹۔

۶۲۴

معاویہ کے غلام حریث کا قتل

شام کی فوج میں سب سے بڑا بہادر معاویہ کا غلام حریث تھا ، وہ کبھی کبھی معاویہ کا کپڑا پہن کر جنگ کرتا تھا اور جو لوگ اِ سے نہیں پہچانتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ معاویہ جنگ کررہا ہے۔

ایک دن معاویہ نے اسے بلایا اور کہا علی سے جنگ نہ کرو اور اپنے نیزے سے جس کو چاہو مارو، وہ عمرو عاص کے پا س گیا اور اس سے معاویہ کی بات بتائی، عمروعاص (چاہے اس کی جو بھی نیت رہی ہو) نے معاویہ کی بات کو غلط بتایا اور کہا اگر تو قرشی ہوتا تو معاویہ کی خواہش و آرزو یہی ہوتی کہ تو علی کو قتل کردے کیونکہ وہ نہیں چا ہتا کہ یہ افتخار کسی غیر قرشی کو نصیب ہو لہٰذا اگر تجھے موقع ملے تو علی پر بھی حملہ کر،اتفاقاً امام علیہ السلام اسی دن اپنے سوار لشکر کے سامنے میدان میں آئے ، حریث نے عمر و عاص کی گفتگو پر عمل کرتے ہوئے امام علیہ السلام کو جنگ کی دعوت دی، امام علیہ السلام رجز پڑھنے کے بعد آگے بڑھے اور جنگ شروع کی اسی وقت ایک ضربت اس پر لگائی اور اسے دو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا،جب معاویہ کے پاس خبر پہونچی تو وہ بہت زیادہ متاثر ہوا اور عمرو عاص کی مذمت میں کہ اسے دھوکہ دیا ہے بہت سے شعر کہے جس کے دوشعر یہ ہیں :

حریث الم تعلم وجهلک ضائر

بان علیاً للفوارس قاهر

وان علیاً لم یبارزه فارس

من الناس الا اقصدته الاّٰ ظافِرُ

حریث(اے میرے شکست کھائے ہوئے بہادر) کیا تو نہیں جانتا تھا کہ علی تمام بہادروں سے زیادہ بہادر اور کامیاب ہیں علی سے کوئی بھی بہادر جنگ کے لئے نہیں اٹھا مگر یہ کہ ان کے حملے غلط نہ ہوئے اور اسے ختم کردیا،حریث کے قتل ہونے کی وجہ سے معاویہ کی فوج میں خوف پھیل گیا ایک دوسرا بہادر بنام عمر و بن الحصین میدان جنگ میں آیا تاکہ امام علیہ السلام سے اسکا بدلہ لے، لیکن ابھی حضرت کے سامنے بھی نہ آیا تھا کہ امام علیہ السلام کی فوج کے ایک سردار بنام سعید بن قیس کے ہاتھوں مارا گیا۔(۱)

_______________________________

(۱) وقعہ صفین ص ۲۷۳،۲۷۲۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۵ ص ۲۱۶،۲۱۵۔ الاخبار الطول ص ۱۷۶۔

۶۲۵

امام علیہ السلام نے معاویہ کو جنگ کی دعوت دی

ایک دن امام علیہ السلام میدان میں آئے اور دونوں صفوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور چاہا کہ آخری مرتبہ معاویہ پر حجت تمام کریں۔

امام علیہ السلام:معاویہ.معاویہ.معاویہ.!

معاویہ نے اپنے مخصوص محافظوں سے کہا جاؤ اور مجھے ان کے مقصد سے آگاہ کرو

محافظ:اے ابو طالب کے بیٹے کیا کہہ رہے ہیں؟

امام علیہ السلام: میں چاہتا ہوں کہ اس سے بات کروں،

محافظ:محافظوں نے معاویہ سے کہا علی تم سے بات کرنا چاہتے ہیں، اس وقت معاویہ، عمروعاص کے ساتھ میدان میں آیا اور امام کے سامنے کھڑا ہوگیا،امام علیہ السلام نے عمر وعاص کو نظر انداز کرتے ہوئے معاویہ کی طرف رخ کرکے کہا تجھ پرلعنت ہو کیوں ہمارے درمیان لوگ ایک دوسرے کو قتل کریں؟ اس سے بہتر ہے کہ تو میدان میں آ،تاکہ ایک دوسرے سے جنگ کریں اور ہم میں سے جوبھی کامیاب ہو، وہ لوگوں کے امور کی ذمہ داری سنبھالے۔

معاویہ: عمر وعاص اس بارے میں تیرا کیا نظریہ ہے؟

عمروعاص: علی نے انصاف کے بات کہی ہے اگر تو نے منھ پھیر لیا تو تیرے خاندان کے دامن پر ایسا داغ لگے گاکہ جب تک عر ب اس دنیا میں زندہ رہیں گے اس وقت تک نہیں دھلاجاسکے گا۔

معاویہ: عمرو میرے جیسا ہرگز تیرے دھوکہ میں نہیں آئے گا کیونکہ کوئی بھی بہادر و شجاع علی سے جنگ کرنے نہ اٹھا مگر یہ کہ زمین اس کے خون سے سیراب ہوگئی یہ جملہ کہنے کے بعد دونوں اپنی فوج کی طرف واپس چلے گئے،

امام علیہ السلام بھی مسکرائے اور اپنی فوج کی طرف واپس آگئے،معاویہ نے عمرو کی طرف رخ کرکے کہا، تو کتنا نادان اور بھولا ہے اور پھر کہا کہ مجھے گمان ہے کہ تیری یہ درخواست واقعی نہ تھی بلکہ تو مذاق

۶۲۶

کر رہا تھا(۱)

شہید کے بیٹے کی بہادری

ہاشم مِر قال، امام علیہ السلام کی فوج کے بہادر اور طاقتور سردار تھے اور اسلام کی عظیم جنگوں میں ان کی روشن اور عمدہ کارکردگی کسی سے پوشیدہ نہیں تھی، ممکن تھا کہ ان کی شہادت کی وجہ سے امام علیہ السلام کے لشکر میں بے ادبی پیدا ہوجائے، لیکن ان کے بیٹے کے شعلہ ور خطبے نے حالات کو تبدیل کردیا اور ا س کی راہ پر چلنے والوں نے اسے اور بھی مصمم بنا دیا، اس نے اپنے باپ کے پرچم کو ہاتھ میں لیا(۲) اور راہ حق و حقیقت کے جانبازوں کی طرف رخ کرکے کہا:''ہاشم خدا کے بندوں میں سے ایک بندہ تھا جس کے لئے ایک دن معین تھااور اس کے کارنامے الہی دفتر میں محفوظ ہیں، اس کی موت آگئی اور وہ خدا کہ جس کی مخالفت نہیں کرسکتے اس نے اسے اپنی طرف بلالیااور اس نے بھی موت کا جام پی لیا اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس چچازاد بھائی کی راہ میںجہاد کیا جو آپ پر سب سے پہلے ایمان لایا اور خدا کے قوانین لوگوں سے زیادہ خبر رکھنے والا، اور خدا کے دشمنوں کا سخت مخالف ہے ، وہ دشمنان خدا جنہوںنے خدا کے حرام کو حلال بناتے ہیں اور لوگوں کے درمیان ظلم و ستم کے ساتھ حکومت کرتے ہیں او ر شیطان ان لوگوں پر کامیاب ہوگیا اور ان کے برے کاموں کو انکی نظر میں خوبصورت بنا کر دکھایا ہے۔

تم پر ان لوگوں سے جہاد کرنا واجب ہے جنہوں نے پیغمبر کی سنت کی مخالفت کی ہے اورحدودالہی(سزاؤں) کو جاری نہیں کیا اور خدا کے دوستوں کی مخالفت کے لئے اٹھ گئے ہیں، اس دنیا میں اپنی پاکیزہ جانوں کو خدا کی راہ میں قربان کرو تاکہ آخرت میں بلند ترین مقام پر فائز ہو( اس کے بعد کہا)''فَلوْلم یکن ثواب ولا عقاب ولا جنّة ولاٰ نار لکان القتال مع عل أفضل مِنَ الْقتَال مَعَ معاویةَ بن آکِلَةِ الا کباٰدِ وَکیف وأنتم ترجُونَ مٰا ترجُونَ' (۳) اگر بالفرض، ثواب و عذاب نہ ہو،

______________________

(۱) وقعہ صفین ص ۲۷۵،۲۷۴۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۵ ص ۲۱۷،۲۱۷۔ الاخبار الطول ص ۱۷۷،۱۷۶، تاریخ طبری ج۳ جزء ۶ ص ۲۳ ۔ کامل ابن اثیرج ۳ص۱۵۸ (تھوڑے فرق کے ساتھ)---- (۲) الاخبار الطول ص ۱۷۴۔مروج الذہب ج۲ص۳۹۳۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۸ ص ۲۹۔

(۳) وقعہ صفین ص ۳۵۶۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۸ص۲۹۔

۶۲۷

جنت و جہنم نہ ہو، تو کیا علی کے رکاب میں رہ کر معاویہ جگر خوار کے بیٹے کے ساتھ جنگ کرنا بہتر نہیں ہے اور کیوں ایسا نہ ہو کیونکہ تم لوگ امید وار ہو اس چیز کے جس کی امید رکھتے ہو۔

ابھی شہید کے بیٹے کی شعلہ ور گفتگو ختم نہ ہوئی تھی کہ ابو طفیل صحابی جو امام علیہ السلام کے مخلص شیعوں میں سے تھا ہاشم کے متعلق اشعار کہے جس کا صرف پہلا شعر یہاں نقل کررہے ہیں:

یَا هاشمَ الخیرِ جزیتَ الجنّة

قَاتلْتَ فی اللّٰه عدوَّ السنّة(۱)

(خدا کے بہترین بندے ہاشم تیری جزا جنت ہے اور تم نے اللہ کی راہ میں سنت الہی کے دشمنوں سے جہاد کیا۔رضوی)

لومڑی، شیر کے پنجے میں

جنگ کی شدت نے معاویہ کی فوج کے لئے زمین تنگ کر دی تھی اور جنگ چھیڑنے والوں نے لوگوں کی زبان کو بند کرنے کے لئے مجبور ہوئے کہ خود بھی میدان میں جائیں ، عمرو عاص کا ایک دشمن حارث بن نضرَ تھا اگر چہ دونوں ایک ہی مزاج کے تھے لیکن ایک دوسرے کے مخالف تھے حارث نے اپنے شعر میں عمر وپر اعتراض کیا کہ وہ کیوں خود علی کے ساتھ جنگ میں شرکت نہیں کرتا فقط دوسروں کو میدان میں روانہ کرتا ہے، اس کے اشعار شام کی فوج کے درمیان منتشر ہو گئے عمر و مجبور ہوا کہ ایک ہی بار صحیح میدان جنگ میں امام علیہ السلام کے روبروہوا، لیکن میدان سیاست کی لومڑی نے میدان جنگ میں بھی مکر وفریب سے کام لیا جب امام علیہ السلام کے مقابلے میں آیا تو حضرت نے اسے مہلت نہیں دی اور نیزے کے زور سے اسے زمین پر گرادیا عمر و نے جو امام کی جواں مردی سے آگاہ تھا فوراًبرہنہ ہوکر اپنی جان بچائی امام نے اپنی آنکھوں کو بند کرلیا اور اس کی طرف سے منھ پھیر لیا۔(۲)

_______________________________

(۱) وقعہ صفین ص ۳۵۹۔

(۲) وقعہ صفین ص۴۲۳۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۶ ص۳۱۳۔ اعیان الشیعہ ج۱ص۵۰۱ ۔

۶۲۸

عمروعاص اور مالک اشتر آمنے سامنے

میدان جنگ میں مالک اشتر کی بہادری نے معاویہ کی آنکھوں میںنیند حرام کردی تھی، لہٰذامروان بن حکم کو حکم دیا کہ کچھ لوگوں کی مدد سے مالک اشتر کو قتل کردے مگر مروان نے اس ذمہ داری کو قبول نہیں کیا اور

کہا: تمھارا سب سے قریبی ساتھی عمروعاص ہے کہ جس سے تو نے مصر کی حکومت کا وعدہ کیا ہے بہتر ہوتا کہ اس ذمہ داری کو اس کے کاندھوں پر ڈالتا، وہ تمھارا رازدار ہے نہ کہ میں، اس پر تونے اپنا لطف وکرم کیا ہے اور مجھے محروموں کے خیمے میں جگہ دی ہے، معاویہ نے مجبور ہو کر عمر و عاص کو یہ ذمہ داری سونپی کہ کچھ لوگوں

کے ساتھ مالک اشتر سے جنگ کرے، کیونکہ ان کی بے مثال بہادری اور جنگی تدبیروں نے شامیوں کی فوج کی صفوں کو درہم برہم کردیا تھا،عمروعاص جو مروان کی باتوں سے باخبر تھا مجبوراً ذمہ داری کو قبول کیا لیکن مگس کہاں اور سمیرغ (بہت بڑا پرندہ)کی عظمت کہاں؟عمروعاص جب مالک اشتر کے سامنے آیا تو اس کا بدن لرزرہا تھا لیکن میدان سے بھاگنے کی بد نامی کوبھی قبول نہیں کیا، دونوں طرف سے رجزکا سلسلہ ختم ہوا، اوردونوں نے ایک دوسرے پر حملہ کیا، عمرو پر جب مالک اشتر نے حملہ کیاتو پیچھے ہٹ گیا اور مالک اشتر کے نیزے سے اس کے چہرے پر خراش پڑگئی، عمرونے اپنی جان کے خوف سے اپنے چہرے کے زخم کابہانہ بنایا اور ایک ہاتھ سے گھوڑے کی لگام اور دوسرے ہاتھ سے اپنے چہرے کو پکڑا اور بہت تیزی سے اپنی فوج کی طرف بھاگ گیا اس کے میدان سے بھاگنے کی وجہ سے معاویہ کے سپاہیوں نے اعتراض کرناشروع کردیا کہ کیوں ایسے ڈرپوک اور بے غیرت انسان کو ہمارا امیر بنایا ہے۔(۱)

_______________________________

(۱) وقعہ صفین ص۴۴۰۴۴۱۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۸ ص۷۹۔

۶۲۹

پرہیز گار نوجوان اور دنیا طلب بوڑھا

جنگ کے دنوں میں ایک دن مالک اشتر نے عراقیوں کے درمیان بلند آواز سے کہا، کیا تمھارے درمیان میں کوئی ایسا ہے جو اپنی جان کو خدا کی مرضی کے بدلے بیچ دے ؟ایک نوجوان اثال بن حجل میدان میں گیا، معاویہ نے ایک بوڑھے کو جس کا نام بھی حجل تھا میدان جنگ میں اس کے مقابلے کے لئے بھیجا دونوں ایک دوسرے پر نیزے سے حملہ کررہے تھے اور اسی حالت میں اپنا حسب و نسب بھی بیان کررہے تھے اچانک انہیں معلوم ہوا کہ وہ باپ اوربیٹے ہیں اس لئے وہ دونوں گھوڑے سے اترے اور ایک دوسرے کے گلے لگ گئے باپ نے بیٹے سے کہا اے میرے لال دنیا کی طرف آجا! بیٹے نے کہا اے بابا آپ آخرت کی طرف آجائیے یہی آپ کے لئے بہتر ہے اگر میں دنیا کو طلب کروں اور شامیوں کی طرف جاؤں تو آپ مجھے اس کام سے روکیںآپ علی اور ان مومن اور صالح دوستوں کے بارے میں کیا کہتے

۶۳۰

ہیں؟ بالآخر یہ طے ہوا کہ دونوں اپنی اپنی جگہ واپس چلے جائیں۔(۱) وہ جنگ جس کی بنیاد عقیدہ سے دفاع ہو اس میں ہرطرح کا رشتہ ، سوائے دینی رشتہ کے، سب بیکار ہے۔

شام کے سپاہیوں کی بزدلی

ابرہہ معاویہ کی فوج کا ایک سردار تھا ، جو معاویہ کی زیادہ فوج کے مارے جانے کی وجہ سے بہت غمگین تھا، اس نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ شامی معاویہ کی خواہشات نفسانی کا شکار ہوئے ہیں اور غصبی حکومت کی حفاظت کرنے کے لئے ایسی و حشتناک جنگ کر رہے ہیں، اسی وجہ سے شام میں رہنے والے یمنی لوگوں کے درمیان اس نے بلند آواز میں کہا: افسوس ہے تم لوگوں پر۔ اے یمن کے لوگو، اے لوگو جو خود کو فنا کرنا چاہتے ہو، ان دونوں آدمیوں (علی ور معاویہ) کو ان کے حال پر چھوڑ دو تاکہ آپس میں جنگ کریں اور ان میں سے جو بھی کامیاب ہو، ہم اس کی پیروی کریں، جب ابرہہ کی باتیں امام علیہ السلام تک پہونچی تو آپ نے فرمایا: بہت اچھی بات کہی ہے جب سے میں شام کی سرزمین پر آیا ہوں ایسی بات نہیں سنی ہے، اس خبر کے پھیلنے کی وجہ سے معاویہ بہت خوف زدہ ہوااور خود فوج کی آخری صف میں گیا اور اپنے اردگرد رہنے والوں سے کہا ابرہہ کی عقل زائل ہو گئی ہے جبکہ یمن کے تمام لوگوں نے مل جل کر کہا ابرہہ عقلمندی ، دینداری اور بہادری میں سب لوگوں سے اچھاہے۔

ٰایسے حالات میں شام کی فوج کو حوصلہ دینے کے لئے عروۂ دمشقی میدان جنگ میں گیا اور پکار کر کہا: اگر معاویہ نے علی سے جنگ کرنے سے منھ موڑا ہے تو اے علی میرے ساتھ جنگ کرنے کے لئے تیار ہوجاؤ۔ امام علیہ السلام کے دوستوں نے چاہا کہ اس کو اس مقابلے(اس کے کمینہ پن کی وجہ سے) سے روکیں، لیکن اما م علی علیہ السلام نے قبول نہیں کیا اور فرمایا، معاویہ اور عروہ دونوں میری نظر میں برابر ہیں، اتنا کہنے کے بعد اس پر حملہ کیا اور سے ایک ہی وار میں دو ٹکڑوں میں اس طرح تقسیم کردیا کہ دونوں ٹکڑے ادھر اُدھر گر گئے دونوںفوجیں امام علی علیہ السلام کے اس زبردست وار سے لرز اٹھیں، اس وقت امام علیہ السلام نے لاش کے دونوں ٹکڑوں سے کہا: اس خدا کی قسم جس نے پیغمبر اسلام (ص)کو پیغمبری کے لئے چنا، آگ کو دیکھا اورپشیمان ہوگئے،اس وقت عروہ کا چچا زاد بھائی اس کا انتقام لینے کیلئے میدان میں آیا اور امام علی علیہ السلام

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۸ ص۸۲۔ وقعہ صفین ص۴۴۳۔

۶۳۱

سے جنگ کرنے کا خواہا ںہوا ، اور وہ بھی امام کی تلوار کے وار سے عروہ کے پاس پہونچ گیا۔(۱)

_______________________________

(۱) وقعہ صفین ص۴۵۵۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۸ ص۹۴۔

۶۳۲

تاریخ اپنے کو دہراتی ہے

امام علیہ السلام کی بے مثال بہادری کے سامنے فوج شام کا دل بیٹھنے لگا، معاویہ جو پہاڑ کی چوٹی سے تمام حالات کا مشاہدہ کر رہا تھا ، بے اختیار شام کے لوگوں کی مذمت کرنے لگا اورکہا:برباد ہوجاؤ، کیا تمھارے درمیان کوئی ایسا نہیں ہے جو ابو الحسن کو جنگ کے وقت یا حملہ کرکے یاجب دونوں فوجیں ایک دوسرے سے مل جاتی ہیں اور گرد و غبار انہیں چھپا دیتا ہے، ایسے وقت قتل کردے؟ ولید بن عتبہ جو معاویہ کے پاس کھڑا تھا اس نے معاویہ سے کہا، تو اس کام کو انجام دینے میں سب سے زیادہ بہتر ہے ، معاویہ نے کہا،علی نے مجھے ایک با رجنگ کی دعوت دی لیکن میں ہرگز ان کے مقابلہ میں میدان میں نہیں جاؤں گا کیونکہ فوج سردار کی حفاظت کے لئے ہے، آخر اس نے بُسر بن ارطاة کو امام علیہ السلام سے مقابلے کرنے کی تشویق و ترغیب دلائی اور کہا ، اس سے جب گرد و غبار ہو اس وقت جنگ کرو، بُسر کا چچازاد بھائی جو ابھی ابھی حجاز سے شام آیا تھا اس نے بُسر کو اس کام سے روکا لیکن چونکہ بُسر نے معاویہ سے وعدہ کر لیا تھا اس لئے میدان جنگ کی طرف روانہ ہوگیا، جب کہ اس کا پورا بدن لوہے سے چھپا ہوا تھا، اس نے علی علیہ السلام کو جنگ کی دعوت دی امام علیہ السلام کے نیزے کے وارنے اسے زمین پر گرادیا اور اس نے بھی عمر و عاص کی طرح اپنی شرمگاہ سے لباس ہٹا دیا اسی وجہ سے امام علیہ السلام نے اس کا پیچھا نہیں کیا۔

صلح کے لئے معاویہ کا اصرار

صفین میں جنگ کے طولانی ہونے اور فوج شام سے بہت زیادہ سپاہی مارے جانے کی وجہ سے معاویہ نے ارادہ کیا کہ جس طرح سے بھی ممکن ہو،امام علیہ السلام کو صلح ودوستی اور جنگ ختم کرنے اور دونوں فوجوں کو ان کے اصلی مرکز پر واپس جانے کے لئے تیار کرے اور اس کام کو ایک خاص طریقے سے شروع کیا کہ جس میں سے تین اہم راستے یہ تھے۔

ا۔ اشعث بن قیس سے گفتگو

۲۔ قیس بن سعد سے گفتگو

۳۔ اما م علیہ السلام کو خط لکھنا

۶۳۳

لیکن امام علیہ السلام کی فوج کے مستحکم ایمان و عقیدہ کی بنا پر اس کا یہ پروگرام بے نتیجہ ثابت ہوا یہاں تک کے مسئلہ ''لیلة الہریر'' پیش آگیا اور قریب تھا کی معاویہ کی پوری فوج معدوم ہوجائے لیکن معاویہ کا فریب و دھوکا اور عراقیوں کا سادہ لوح ہونا شام کے جاسوسوں کا امام علیہ السلام کی فوج میں کام کرنا،حالات کو شام کی فوج کے حق میں لے گیاہم یہاں معاویہ کی ملاقاتوں اور گفتگوؤں کو ذکر کر رہے ہیں:

ا۔معاویہ نے اپنے بھائی عتبہ بن ابو سفیان کو جو بہتر ین خطیب تھا اپنے پاس بلایا اور یہ ذمہ داری سونپی کہ اشعث بن قیس جو امام کی فوج میں کافی نفوذ رکھتا تھا، سے ملاقات کرے اور اس سے درخواست کرے کہ طرفین سے جو باقی ہیں ان پر رحم کرے،عتبہ فوج کے بالکل سامنے آیااور وہیں سے اس نے اپنا تعارف کرایا پھر اشعث کو بلایا تاکہ معاویہ کا پیغام اس تک پہونچائے اشعث نے اسے پہچان لیا اور کہا کہ وہ فضول آدمی ہے اس سے ملاقات کرنا چاہیے عتبہ کے پیام کا خلاصہ یہ تھا کہ اگربنا یہ ہوتی کہ معاویہ، علی کے علاوہ کسی اور سے ملاقات کرتا تو صرف تجھ سے ملاقات کرتا کیونکہ تو عراق کے لوگو ں کا سردار اور اہل یمن کے بزرگوں میں سے ہے اور عثمان کا داماد اور اس کا کارمند تھا تیرا مسئلہ مالک اشتر اور عدی بن حاتم سے جدا ہے، اشتر عثما ن کا قاتل اور عدی اس کام کی طرف رغبت دلانے والا ہے میں یہ نہیں کہتا کہ علی کو چھوڑ دو اور معاویہ کی مدد کو پہونچو بلکہ تجھے جوافراد باقی بچے ہیں ان کہ حفاظت کے لئے بلا رہا ہوں اس میں تمھارے اور میرے لئے مصلحت ہے۔

اشعث نے اس کے جواب میں امام علیہ اسلام کی بہت زیادہ تعریف و تکریم کی اور کہا عراق اور یمن میں سب سے بزرگ علی ہیں لیکن اپنے کلام کے آخر میں ایک سیاسی کے مثل اس نے صلح کی درخواست قبول کر لی اور کہا کہ تمھاری ضرورت باقی بچے لوگوں کی حفاظت کے لئے ہم سے زیادہ نہیں ہے جب عتبہ نے اشعث کی باتوں سے معا ویہ کو باخبر کیا تو اس نے کہا''قَدْ جَنَحَ لِلسَّلمِ'' صلح کے لئے آمادگی ظاہرکی ہے۔(۱)

______________________

(۱)وقعہ صفین ص۴۰۸۔ شرح نہج البلاغہ ابن اابی الحدید ج۸ص۶۱۔ الا مامة و السیاسة ج ۱ ص۱۰۲۔ اعیان الشیعہ ج ۱ ص۵۰۳۔

۶۳۴

۲۔ پیغمبر اسلام (ص)کے اصحاب جو مہاجرین اور انصار میں سے تھے امام علیہ السلام کے اطراف میں جمع تھے، انصار میں سے صرف افراد نعمان بن بشیر اور مسلمہ بن مخلّد نے معا ویہ کا ساتھ دیا، معاویہ نے نعمان بن بشیر سے کہا کہ امام علیہ السلام کے بہادر سردار قیس بن سعد سے ملاقات کرو اور اس کو اپنی طرف راغب کرکے صلح کے مقدمات کو فراہم کرو اس نے جب قیس سے ملاقات کی تو دونوں فوجوں کوجو نقصا ن پہونچے تھے اس کو بیان کیا اور کہا:''أخذتِ الحربُ مِنّٰا و منکم مارأ یتم فاتّقُو االلّٰه فِیْ البقیّةِ'' جنگ نے ہم سے اور تم سے وہ چیزیں لے لی ہیں جوتم دیکھ رہے ہو، لہٰذاجو باقی بچے ہیں ان کے لئے خدا سے ڈرو(اور ان کے بارے میں کچھ فکر کرو)۔

قیس نے نعمان کے جواب میں معاویہ اور علی علیہ السلام کے ساتھیوں کے حالات بیا ن کیے اور کہا ہم نے پیغمبر (ص)کے زمانے میں خوش و خرم ہو کر دشمن کے نیزہ وتلوار کاجواب دیا اور حق کامیاب ہوگیا اگر چہ کافر اس کام سے ناراض تھے ۔ اے نعمان یہ لوگ جو معاویہ کہ مدد کر رہے ہیں وہ تھوڑے سے آزاد کئے ہوئے اور بیابانوں میں رہنے والے اور یمنی لوگ ہیں جو معاویہ کا دھوکہ کھائے ہوئے ہیں علی کی طرف دیکھو کہ ان کے اطراف میں تمام مہاجرین و انصار اور تابعین جمع ہیں اور ان سب سے خدا راضی ہے لیکن معاویہ کے اطراف میں تمھار ے اور تمھارے دوست (مسلمہ بن مخلّد) کے علاوہ کوئی نہیں ہے اور تم میں سے کوئی ایک بھی نہ جنگ بدر میں تھا اور نہ ہی احد میں اور نہ ہی اسلام کے لئے تم لوگوں کی خدمات ہیں اور نہ ہی تم لوگوں کے بارے میں کوئی آیت نازل ہوئی اگر ان چیزو ں کے برخلاف تم نے قدم بڑھایا تو اس کے پہلے تمھارے باپ نے بھی یہی کام کیا تھا۔(۱)

۳۔ ان سب ملاقاتوں کا مقصد صرف اور صرف صلحا ور سازش تھی لیکن معاویہ کا مقصد پورا نہ ہوا اس وجہ سے وہ مجبو ر ہوا کہ امام علیہ السلام کو خط لکھے اور اس میں ایسی چیز کی درخواست کرے جس کی اس نے سرکشی و نافرمانی کے پہلے ہی دن درخواست کیا تھا یعنی شام کی حکومت اسے دیدیں بغیر اس کے کہ اطاعت

______________________

(۱) اس سے مراد سقیفہ کا واقعہ ہے جس میں نعمان کے باپ بشیر نے صرف اس وجہ سے کہ اس کے چچا زاد بھائی قیس کے باپ یعنی سعد بن عبادة تک خلافت نہ پہونچے اٹھا اور ابوبکر کے ہاتھ پر بیعت کی اور انصار کے اتحاد کو توڑدیا،شرح نہج البلاغہ ابن اابی الحدید ج۸ص۸۷،وقعہ صفین ص۴۴۸،الا مامة و السیاسة ج ۱ ص۹۷۔

۶۳۵

اور بیعت اس کی گردن پر ہو اور اس وقت کہا ہم سب عبد مناف کے بیٹے ہیں اور ہم میں کوئی بھی ایک دوسرے پر فضلیت نہیں رکھتا مگر وہ شخص جو عزیز کو خوار و ذلیل اور آزاد کو غلام نہ کرے ۔

امام علیہ السلام نے اپنے منشی ابن ابی رافع کو بلا یا اورا سے حکم دیا کہ اس کا جواب اس طرح لکھوجیسے کہ میں لکھوارہا ہوں،امام علیہ السلام کے خط کی عبارت نہج البلاغہ مکتوب نمبر ۱۷ کے ضمن میں تحریر ہے۔(۱)

______________________

(۱) اس خط کی عبارت جو کہ نہج البلاغہ میں تحریر ہے اور یہ عبارت جو کہ اخبار الطوال ص۱۸۷،اور الا مامة و السیاسة ج ۱ ص۱۰۴،۱۰۳۔ اور وقعہ صفین ص۴۷۱۔ میں ہے فرق ہے۔

۶۳۶

انیسویں فصل

جنگ صفین میں تبدیلی اور تاریخ اسلام

امام علیہ اسلام نے ۱۰ ربیع الاوّل ۳۸ھ منگل کے دن ہنگام فجر جبکہ ابھی اندھیرا چھایہ ہوا تھا، نمازِ صبح اپنے دوستوں کے ساتھ پڑھی آپ فوج ِ شام کی ناتوانی اور خستگی سے مکمل طور پر آگا ہ تھے اور جانتے تھے کہ دشمن آخری مورچے تک پیچھے چلا گیا ہے اور ایک زبردست حملے سے معاویہ کے خیمہ تک پہونچا جا سکتا ہے، اسی وجہ سے آپ نے مالک اشتر کو حکم دیا کہ فوج کو منظم کریں جب کہ مالک اشتر لوہے کا پورا لباس پہنے تھے فوج کے پاس آئے اور اپنے نیزے پر ٹیک لگایا اور بلند آواز سے پکارا''سَوُّوْاصُفُوفَکُمْ رَحِمَکُمُ الله'' اپنی صفوں کو مرتب کرو تھوڑی دیر نہ گزر ی تھی کہ حملہ شروع ہوگیا اور ابتدا سے ہی دشمن کی شکست ان کے بھاگنے کی وجہ سے ظاہر ہوگئی تھی۔

اس موقع پر ایک شام کا آدمی باہر آیا اور امام علیہ السلام سے با ت کرنے کی پیشکش کی امام علیہ السلام نے دونوں صفوں کے درمیان اس سے گفتگو کی اس نے فرمائش کی کہ دونوں فوجیں اپنی پہلی جگہ پر واپس چلی جائیں اور امام، شام کومعاویہ کے حوالے کر دیں، امام علیہ السلام نے اس کی فرمائش کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اس موضو ع کے بارے میں مدتوں فکر کیا ہے اور اس میں دو راستوں کے علاوہ میں نے کوئی راستہ نہیں دیکھایا نا فرمانوں سے جنگ کروںیا کافر ہو جائوں اور جو چیز پیغمبر پر نازل ہوئی ہے اس سے انکار کردوں اور خدا اس سے بالکل راضی نہیں ہے کہ اس کی مملکت میں گنا ہ و نافرمانی ہو اور دوسرے لوگ اس کے مقابلے میں خاموش رہیں ،اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر سے منہ پھیر لیں ،اسی وجہ سے ہم نے نافرمانوں سے میل جول کے بجائے جنگ کرنا بہتر جانا ہے۔

وہ شخص امام علیہ السلام کی رضامندی حاصل کرنے سے مایوس ہو گیا جب کہ اسکی زبان پر''اِنَّالِلّٰهِ وَانّٰا اِلَیْهِ رَاجِعُونَ'' کی آیت جاری تھی وہ سیاہ شام کی طرف واپس چلا گیا۔(۱)

دونوں فوجو ں کے درمیان گھمسان کی جنگ دوبارہ شروع ہوگئی اور اس جنگ میں جتنے بھی وسائل

______________________

(۱) الاخبار الطوال ص۱۸۷ ۔ وقعہ صفین ص۴۷۴۔ اعیان الشیعہ ج ۱، ص۵۱۰۔

۶۳۷

ممکن تھے اسے استعمال کیا گیا تیر و پتھر، نیزہ و تلوار اور لوہے سلاخیں جو دونوں طرف کے فوجیوں کے سر پر مثل پہاڑ کے گر رہے تھے استعمال ہوئے جنگ بد ھ کو صبح تک جاری رہی معاویہ کی فوج کے لوگ زخمی اور قتل ہوئے، لوگ اس رات میں کتوں کی طرح چیخ رہے تھے اور اسی لئے بدھ کی اس رات کو تاریخ نے ''لیلة الہریر'' کے نا م سے یاد کیا۔

مالک اشتر اپنے سپاہیوںکے درمیان ٹہل رہے تھے اور لوگوں سے کہہ رہے تھے: لوگو فتح و کامرانی میں ایک کمان سے زیادہ کا فاصلہ نہیں بچا ہے اور بلند آواز سے کہا''الاٰ من یشری نفسه لِلّٰهِ ویقاتل مع ألاشتر حتٰی یَظْهَرَ اَوْ یَلْحَقَ باِللّٰهِ'' ؟ یعنی کیا کوئی ایسا شخص ہے جو اپنی جان کو خدا کے لئے بیچ دے اور اس راہ میں اشتر کے ساتھ جنگ کرے تاکہ فتح پائے یا خدا سے ملحق ہو جائے ؟(۱)

امام علیہ السلام نے ایسے حسّاس موقع پر اپنے سرداروں اور فوج کے بااثر افراد کے سامنے تقریر کی اور فرمایا:''اے لوگو ، تم لوگ دیکھ رہے ہو کہ تمھار ا اور دشمن کا اقدام کہاں تک پہونچ چکا ہے اور دشمن کے پاس آخری سانس کے سوا کچھ باقی نہیں ہے کام کی آغاز کو انجام کے ساتھ میں حساب کیا جاتاہے میں صبح کے وقت ان لوگوں کو محکمہ الہی میں لے جاؤں گا اور ان کی ذلت بھری زندگی کو ختم کر دونگا۔(۲) معاویہ امام علیہ السلام کی تقر یر سے باخبر ہو ا لہٰذا عمروعاص سے کہا یہ وہی را ت ہے کہ علی کل جنگ کو یک طرفہ کردینگے اس وقت ضروری ہے کہ کچھ فکر کرو؟

عمر و عاص نے کہا: نہ تمھارے سپاہی ان کے سپاہی کی طرح ہیںاور نہ تو ہی ان کی طرح ہے وہ دینی جذبے کے تحت جنگ کررہے ہیں اور تو دوسرے مقصد کی خاطہر ،تو زندگی کی تمنا کر رہا ہے اور وہ شہادت کے طلبگار ہیں، عراق کی فوج تمھاری فتح سے خوف زدہ ہیں، جب کہ شام کی فوج علی کی فتح سے خوف زدہ نہیں ہے ۔

معاویہ:اس وقت کیا کرنا چاہئے؟

عمروعاص: اس وقت ایسی دعوت دینی چاہیے کہ اگر قبول کریں تو اختلاف کا شکار ہوجائیں اوراگر

______________________

(۱) تاریخ طبری ج ۳جزئ۶ص۲۶۔ واقعہ صفین ص۴۷۵۔ کامل ابن اثیرج ۳ص۱۶۰۔

(۲) واقعہ صفین ص ۴۷۶۔ الاخبار الطوال ص۱۸۸۔ الا مامة و السیاسة ج ۱ص۸۔

۶۳۸

قبول نہیں کریں تو دوگروہ ہوجائیں گے ان لوگوں کو خدا کی کتاب کی طرف دعوت دو تاکہ خدا کی کتاب تمھارے اور ان کے درمیان حاکم ہے اس طرح سے تو اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے گا ،یہ بات بہت دنوں سے ہمارے ذہن میں تھی لیکن اس کو ظاہر کرنے سے میں نے پرہیز کیا تاکہ اس کا وقت پہونچ جائے ،معاویہ نے اپنے قدیمی طرین ساتھی کا شکریہ ادا کیااور اس نقشے کو عملی صورت دینے کی کوشش میں لگ گیا۔

۱۳ ربیع الاوّل جمعرات کے دن صبح سویرے یاایک قول کی بناء پر ۱۳ صفر کو امام علیہ السلام کی فوج بالکل نئے دھوکے سے روبرو ہوگئی ،اس کی وجہ سے عمر و عاص نے شام کے سر کشوں کی جوخدمت کی امیہ کے گروہ کو دوبارہ زندگی کے حق میں اور وہ معاشرے میں منہ دیکھانے کے لائق ہوے،شام کی فوج نے عمرو کے دستور کے مطابق قرآن کو نوک ِ نیزہ پر اٹھایا اورصف میں کھڑی ہوگئی ، دمشق کا سب سے بڑا قرآن دس آدمی کی مدد سے نوک ِ نیزہ پر اٹھایا گیا اور اس وقت سب نے ایک آواز ہوکر نعرہ بلند کیا ''ہمارے اور تمھارے درمیان خدا کی کتاب حاکم ہے''

عراقیوں کے کان میں یہ آواز پہونچی اور ان کی آنکھیں نوک نیزہ پر پڑیں شام کی فوج سے نعروں اور رحم و کرم کی فریادوں کے علاوہ کوئی دوسری چیز سنائی نہیں دے رہی تھی سب ایک آواز ہوکر کہہ رہے تھے :

''اے عرب کے لوگو اپنی عورتوں اور لڑکیوں کے لئے خدا کو نظر میں رکھو''!

خدا کے واسطے خدا کے واسطے دین کے واسطے میں !

شام کے لوگوں کے بعد کون شام کی سرحدوں کی حفاظت کرینگے اور عراق کے لوگوں کے بعد کون عراق کی سرحدوں کی حفاظت کریںگے؟کون لوگ روم و ترک اور دوسرے کافروں کے ساتھ جہاد کرنے کے لئے باقی رہیں گے؟(۱)

قرآن اور ان کے محبت آمیز نعروں کے دلنشین منظر نے اما م علیہ السلام کی فوج کے بہت سے سپاہیوں کے عقل و ہوش اڑا دیئے تھے ،جنگ کرنے والے بہادر جو کچھ دیر پہلے فخر و مباہات کر رہے تھے اور کامیا بی کے

______________________

(۱) واقعہ صفین ص۴۸۱۔ الاخبارا لطوال۱۸۸۔ مروج الذہب ج ۲ص۴۰۰۔ تاریخ طبری ج ۳جزئ۶ص۲۶۔ کامل ابن اثیرج ۳ص۱۶۰۔

۶۳۹

ایک قدم فاصلے پر تھے افسو س اور تأسف میں اپنی جگہ پر گڑکر رہ گئے لیکن عدی بن حاتم ، مالک اشتر،اور عمروبن الحمق جیسے شجاع و بہادر ان کے فریبی حربہ سے با خبر تھے اور جانتے تھے کہ چونکہ دشمن کے اندر مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے اور نابود ہونے کی منزل میں ہیں لہذا وہ اپنے کو اس طریقے سے نجا ت دینا چاہتے ہیں ورنہ یہ لوگ کبھی بھی قرآن کو نہ اٹھاتے اور نہ کبھی اٹھائیں گے اسی وجہ سے عدی بن حاتم نے امام علیہ السلا م سے کہا:کبھی بھی باطل کی فوج حق سے مقابلہ نہیں کرسکتی دونوں طرف لوگ زخمی یا قتل ہوئے ہیں اور وہ لوگ جو ہمارے ساتھ باقی بچے ہیں ان لوگوں سے طاقت ور ہیں شامیوں کے نعروں پر دھیان نہ دیجیے اور ہم سب آپ کے مطیع اور فرما نبردار ہیں ۔

مالک اشتر نے کہا: معا ویہ کا کوئی جانشین نہیں ہے لیکن آپ کا جانشین موجو د اس کے پاس فوجی ہیں لیکن آپ کے فوجی کی طرح صبر و تحمل نہیں رکھتے، لوہے کو لوہے سے کاٹئیے اور خدا سے مدد طلب کیجیے۔

تیسرے(عمرو بن الحمق)نے کہا: اے مولا ہم نے جانبداری کی وجہ سے پر آ پ کی حمایت نہیں کی ہے بلکہ خدا کی مرضی کے لئے آپ کی دعوت پرلبیک کہا ہے اس وقت حق آخری نقطے پر پہونچ گیا ہے اور ہم لوگوں کو آپ کے وجود کے علاوہ کوئی فکر نہیں ہے ۔(۱) لیکن اشعث بن قیس جس نے اپنے کو امام علیہ السلام کے خیمے کے محافظوں میں شامل کر لیا تھا جس کے حرکات و سکنات پہلے ہی دن سے مشکوک تھے اور معا ویہ سے اس کا رابطہ تقریباً آشکار ہوچکا تھا، نے امام علیہ السلام سے کہا : اس قوم کی دعوت کا جواب دیجیۓ کیونکہ انکی درخواست کا جواب آپ سے بہتر کوئی نہیں دے سکتا اور لوگ زندگی کے خواہاں ہیں اور جنگ سے خوش نہیں ہیں،امام علیہ السلام اس کی ناپاک نیت سے آگا ہ تھے فرمایا اس مسئلے میں فکر کرنے کی ضرورت ہے،(۲)

معاویہ نے امام کی فوج کے احساسات کو ابھارنے کے لئے عمروعاص کے بیٹے عبد اللہ کو جو اس زمانے میں مقدس نما بنا تھا ،حکم دیا کہ دونوں صفوں کے درمیان کھڑا ہو کر ان لوگوں کو قرآن مجید کے طرف فیصلہ کی دعوت دے، وہ دونوں صفوں کے درمیان کھڑا ہوا اور کہا: اے لوگو اگر ہماری جنگ دین کے لئے تھی تو دونوں گروہ نے اپنے اپنے مخالف پرحجت تمام کردی ہے اور اگر ہماری جنگ دنیا کے لئے

______________________

(۱ )،(۲) وقعہ صفین ص۴۸۲۔ الامامة والسیاسة ج۱ص ۱۰۸۔ مروج الذہب ج ۲ص۴۰۱۔

۶۴۰

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809