فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)4%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 362213 / ڈاؤنلوڈ: 6022
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

امام ـ نے کس طرح ہجرت کی

پیغمبر(ص) کی ہجرت کے بعد امام علیہ السلام پیغمبر کے خط کے منتظر تھے .کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ابو واقد لیثی حضرت کا خط لیکر مکہ پہونچا اور حضرت علی علیہ السلام کے سپرد کیا. پیغمبر نے جو کچھ بھی ہجرت کی تیسری شب غار ثور میں زبانی حضرت علی سے کہا تھا اس خط میں ان چیزوں کی تاکید کی اور حکم دیا کہ خاندان رسالت کی عورتوں کولے کر روانہ ہو جائیں اور غریب و ناتوان افراد جو ہجرت کی طرف مائل ہیں ان کی مدد کریں۔

امام علیہ السلام لوگوں کی امانت ادا کرنے کے سلسلے میں پیغمبر کے حکم پرپورے طور پر عمل کرچکے تھے اور اب صرف ایک کام باقی تھا اور وہ یہ کہ خود اور خاندان رسالت کی عورتوں کو مدینہ لے جانے کا اسباب فراہم کریں. لہٰذا مومنین کا وہ گروہ جو ہجرت کے لئے آمادہ تھا اسے حکم دیاکہ خاموشی سے مکہ سے باہر نکل جائیں اور چند کیلو میٹر دور ''ذو طویٰ'' مقام پر قیام کریں تاکہ امام کا قافلہ وہاں پہونچ جائے، حضرت علی ـ نے مومنین کو خاموشی سے جانے کا حکم دیا تھا مگر خود دن کے اجالے میں سفر کے لئے آمادہ ہوئے اورعورتوں کو ام ایمن کی بیٹی ایمن کے ذریعے عماریوں پر سوار کرایا اور ابوواقد سے کہا اونٹوں کو آہستہ آہستہ لے جاؤ کیونکہ عورتیں تیز تیز جانے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔

ابن شہر آشوب لکھتے ہیں :

جب عباس حضرت علی کے اس ارادے سے باخبر ہوئے کہ وہ دن کے اجالے میں دشمنوں کے سامنے سے مکہ سے ہجرت کر رہے ہیں اور عورتوں کو بھی اپنے ساتھ لے جارہے ہیں تو فوراً حضرت علی کی خدمت میں آئے اور کہا کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پوشیدہ طور سے مکہ سے گئے تو قریش ان کو تلاش کرنے کے لئے پورے مکہ اور اطراف مکہ میں ڈھونڈتے رہے تو تم کس طرح سے دشمنوں کے سامنے عورتوں کے ہمراہ مکہ سے باہر نکلو گے؟ کیاتم نہیں جانتے کہ دشمن تمھیں مکہ سے باہر نہیں جانے دیں گے؟

علی علیہ السلام نے اپنے چچا کو جواب دیتے ہوئے فرمایا: کل رات جب میں نے غار ثور میں پیغمبر سے ملاقات کی اور پیغمبر نے حکم دیاکہ ہاشمی عورتوں کے ساتھ مکہ سے ہجرت کرنا تو اسی وقت مجھے خوشخبری بھی دی کہ اب مجھے کوئی بھی تکلیف نہیں پہونچے گی، میں اپنے پروردگار پر اعتماداور احمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قول پر ایمان رکھتا ہوں اور ان کا اور میرا راستہ ایک ہی ہے اسی لئے میں دن کے اجالے اور دشمنوں کی آنکھوں کے سامنے سے مکہ سے ہجرت کروں گا۔

۶۱

پھر، امام علیہ السلام نے کچھ اشعار پڑھے جن کا مفہوم وہی ہے جو ہم بیان کرچکے ہیں۔(۱)

امام نے نہ صرف اپنے چچا کو ایسا جواب دیا، بلکہ جب لیثی نے اونٹوں کی ذمہ داری اپنے سر لی اورقافلے کو جلدی جلدی لے جانے لگا تاکہ دشمنوں کے سامنے سے جلدی سے دور ہو جائے تو امام نے اُسے اونٹوں کو تیز تیز لے جانے سے منع کیا اور فرمایا: پیغمبر نے مجھ سے فرمایا ہے کہ اس سفر میں تمھیں کوئی تکلیف واذیت نہیں پہونچے گی پھر اونٹوں کو لے جانے کی ذمہ داری خود لے لی اور یہ رجز پڑھا۔

تمام امور کی باگ ڈور خدا کے ہاتھ میں ہے لہٰذا ہر طرح کی بدگمانی کو اپنے سے دور کرو کیونکہ اس جہان کا پیداکرنے والا ہر اہم حاجت کے لئے کافی ہے۔(۲)

______________________

(۱) امام علیہ السلام کے اشعار یہ ہیں:

ان ابن آمنة النبی محمداً

رجل صدوق قال عن جبرئیل

ارخ الزمام و لاتخف عن عائق

فالله یردیهم عن التنکیل

انی بربی واثق و باحمد

و سبیله متلا حق بسبیلی

(۲) امالی شیخ طوسی ص۲۹۹، بحار الانوار ج۱۹ ص ۶۵ اور رجز کی عبارت یہ ہے:

لیس الا الله فارفع ظنکا یکفیک رب الناس ما اهمّکا

۶۲

قریش نے حضرت علی ـ کا تعاقب کیا

امام کا قافلہ سرزمین ''ضجنان'' پہونچنے والا تھا کہ سات نقاب پوش سوار سامنے سے آتے ہوئے دکھائی دیئے جو اپنے گھوڑوں کو بہت تیزی کے ساتھ قافلے کی طرف دوڑائے ہوئے تھے. امام نے عورتوںکو ہر طرح کی مشکلات سے بچانے اور ان کی حفاظت کے لئے واقد اور ایمن کوحکم دیا کہ فوراً اونٹوں کو بٹھادواوران کے پیروں کو باندھ دو. پھر عورتوں کواونٹوں سے اتارنے میں مدد فرمائی، جیسے ہی یہ کام ختم ہوا تمام نقاب پوش سوار برہنہ تلواریں لئے ہوئے قافلے کے قریب آگئے اور چونکہ وہ غصے سے بھرے ہوئے تھے اس لئے اس طرح برا و ناسزا کہنا شروع کردیا : کیاتم یہ سوچتے ہو کہ ان عورتوں کے ساتھ ہمارے سامنے فرار کرسکتے ہو؟ بس اس سفر سے باز آجاؤ!

حضرت علی علیہ السلام نے کہا: اگر واپس نہ گیاتو کیا کرو گے؟

انھوں نے کہا: زبردستی تم کو اس سفر سے روکیں گے یا تمہارے سر قلم کردیںگے۔

اتنا کہنے کے بعد وہ لوگ اونٹوں کی طرف بڑھے تاکہ ان کو واپس لے جائیں اس وقت حضرت علی نے اپنی تلوار نکال کر ان کو اس کام سے روکا. ان میں سے ایک شخص نے اپنی برہنہ تلوار حضرت علی کی طرف بڑھائی. ابوطالب کے لال نے اس کی تلوار کے وار کو روکا اور غصے کی حالت میں تھے ان پر حملہ کیا اور اپنی تلوار سے ''جناح'' نامی شخص پر وار کیا. قریب تھا کہ تلوار اس کے شانے کو کاٹتی کہ اچانک اس کا گھوڑا پیچھے کی طرف ہٹا اورامام کی تلوار گھوڑے کی پشت پر جالگی، اس وقت حضرت علی نے ان سب کو متوجہ کرتے ہوئے بآواز بلندکہا:

''میں عازم مدینہ ہوں اور رسول خدا کی ملاقات کے علاوہ میراکوئی اور مقصد نہیں ہے ،جو شخص بھی یہ ارادہ رکھتا ہے کہ انھیں ٹکڑے ٹکڑے کرے اور ان کا خون بہائے وہ میرے ساتھ یامیرے نزدیک آئے۔''

۶۳

اتنا کہنے کے بعد آپ نے ایمن او رابوواقد کو حکم دیاکہ فوراً اٹھ کر اونٹوں کے پیر کھول دیںاور چلنے کے لئے آمادہ ہوجائیں۔

دشمنوں نے یہ احساس کرلیا کہ حضرت علی جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہیں او رانھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ان کے ساتھیوں میں سے ایک شخص عنقریب مرنے ہی والا تھا، لہٰذا اپنے ارادے سے باز آگئے او رمکہ کے راستے کی طرف چل پڑے. امام نے بھی اپنے سفر کو مدینے کی طرف جاری رکھا آپ نے کوہ ضجنان کے نزدیک ایک دن او رایک رات قیام کیا تاکہ وہ لوگ جوہجرت کے لئے آمادہ تھے وہ بھی آجائیں تمام افراد میں سے جو حضرت علی اور ان کے ہمراہیوں سے ملحق ہوئے ان میں ایک ام ایمن تھیں جوایک پاکدامن عورت تھیں جنھوں نے آخر عمر تک خاندان رسالت کو نہیں چھوڑا۔

تاریخ کا بیان ہے کہ حضرت علی نے یہ پورا راستہ پیدل چل کر تمام کیا،اور ہر ہر منزل پر خدا کا ذکر کرتے رہے اور پورے سفر میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ نماز پڑھی۔

بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ درج ذیل آیت ان افراد کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔(۱)

( الَّذِینَ یَذْکُرُونَ اﷲَ قِیَامًا وَقُعُودًا وَعَلَی جُنُوبِهِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْارْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا ً ) (۲)

جو لوگ اٹھتے، بیٹھتے ، کروٹ لیتے (الغرض ہر حال میں) خدا کا ذکر کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی بناوٹ میںغور و فکر کرتے ہیں اور (بے ساختہ) کہہ اٹھتے ہیں کہ خداوندا تونے اس کو بیکار پیدا نہیں کیا ہے۔

جب حضرت علی ، اور ان کے ہمراہی مدینہء منورہ پہونچے تو رسول اکرم(ص) ان کے دیدار کے لئے فوراً گئے جس وقت پیغمبر اسلام کی نگاہ حضرت علی پر پڑی تو آپ نے دیکھا کہ ان کے پیر ورم کر گئے ہیںاوران سے خون کے قطرے گر رہے ہیں.آپ نے فوراً حضرت علی کو گلے سے لگایا اورفرط محبت سے آپ کی چشم مبارک سے آنسووؤں کے قطرات جاری ہوگئے۔(۳)

______________________

(۱) امالی شیخ طوسی ص ۳۰۳۔ ۳۰۱

(۲) سورۂ آل عمران، آیت ۱۹۱

(۳) اعلام الوریٰ ص ۱۹۲، تاریخ کامل ج۲ ص ۷۵

۶۴

دوسری فصل

دو بڑی فضیلتیں

اگر اجتماعی مسئلوں کے ہر مسئلے پر شک کریں یا ان کو ثابت کرنے کے لئے تحقیق ،دلیل اور برہان کے محتاج رہیں توایسی صورت میں اجتماعی اتحاد و ہمبستگی اور منافع وغیرہ کے سلسلے میں شک و تردید میں نہیں الجھیں گے .اور کوئی شخص بھی ایسا نہیں ملے گا جویہ کہے کہ نااتفاقی اوراختلاف مفید چیزہے اور اتحاد واتفاق برا اور نقصان دہ ہے. کیونکہ اتفاق کی وجہ سے سب سے کم فائدہ جومعاشرے کو پہونچے گا وہ یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی اور بکھری ہوئی فوجیں آپس میں مل جائیں گی ،اور عظیم فوج کے سائے میں معاشرے میں مختلف طریقوں سے بڑے بڑے تحولات پیدا ہوںگے۔

وہ پانی جو بڑی بڑی ندیوں کے کنارے چھوٹی چھوٹی نہروں کی طرح بہتا ہوا نظر آتا ہے وہ چھوٹے دریاؤں سے ملنے کی وجہ سے وجود میں آیا ہے جس کے اندر نہ اتنی صلاحیت ہے کہ بجلی پیدا کرسکے اور نہ اتنی مقدار ہی میں ہے کہ اس سے کھیتی کی جاسکے ،لیکن جب یہ چھوٹی چھوٹی نہریں ایک جگہ جاکر مل جاتی ہیں تو ایک دریا کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور اب یہ دریاہزاروں کیلو واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا کرلیتا ہے اور اس کے پانی سے ہزاروں ایکٹر زمین سیراب کر کے کھیتی کی جاتی ہے۔

غرض ز انجمن واجتماع وجمع قواست

چرا کہ قطرہ چوشدمتصل بہ ہم دریا است

اجتماع اور انجمن اور جمع ہونے کا مقصد طاقت ہے ،کیونکہ اگر پانی کا ایک قطرہ دریاسے مل جائے تو وہ بھی دریا بن جاتا ہے۔

ز قطرہ ہیچ نیایدولی چو دریا گشت

ہر آنچہ نفع تصور کنی در آن آنجا است

قطرہ سے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا ،لیکن اگر یہی قطرہ دریابن گیا تو تم جتنا بھی فائدہ سوچ سکتے ہو تمہیں ملے گا۔

۶۵

ز قطرہ ماہی پیدا نمی شود ہرگز

محیط گشت ، از آن نہنگ خواہد خاست

قطرہ میں کبھی بھی مچھلی زندہ نہیں رہ سکتی، مگر جب یہی قطرہ دریا بن گیا تواس میں نہنگ مچھلی زندہ رہ سکتی ہے ۔

ز گند می نتوان پخت نان وقوت نمود

چو گشت خرمن وخروار وقت برگ ونواست

ایک گیہوں سے روٹی نہیں پکائی جاسکتی اور زندگی بسر نہیں ہو سکتی جب وہ کھلیہان میں گیاتو ایک ذخیرہ بن گیا ہے

ز فرد فرد محال است کارہای بزرگ

ولی ز جمع توان خواستہ ہرچہ خواہی خواست

ایک بڑا کام الگ الگ مردوں سے انجام پانابہت محال ہے، لیکن اگر یہی تمام لوگ ایک ساتھ جمع ہو جائیں تو جو بھی کرناچاہیں انجام دے سکتے ہیں۔

۶۶

بلی چو مورچگان را وفاق دست دہد

بہ قول شیخ، ہژ بر ژیان اسیر و فنا است

اگر چیونٹیوں کی طرح اتحاد و اتفاق کا دامن ہاتھ میں رہے تو شیخ کے بقول زندگی فنا و برباد ہے ۔

اپنے مقصد میں کامیابی کے لئے نہ صرف مادی چیزوں کو طلب کرے بلکہ ضروری ہے کہ لوگوں کی فکری اور معنوی قدرت وطاقت سے اجتماعی مشکلوں کا حل تلاش کرے ،اور صحیح لائحہ عمل بنانے میں مددطلب کرے، اور ایک دوسرے سے مشورہ اور تبادلۂ نظر کے نئے نئے راستے ہموار کرے اور بزرگ و سنگین پہاڑ جیسی مشکلوں سے ہوشیار رہے۔

یہی وجہ ہے کہ آئین اسلام کے اصلی اور بیش قیمتی برناموںمیں تبادلہ خیالات اور مشورے کی اجتماعی امور میں بہت زیادہ اہمیت بیان کی گئی ہے، اور قرآن مجید نے جن لوگوں کوحق پسند اور حق شناس جیسے ناموں سے تعبیر کیا ہے ان کے تمام کام مشورے اور تبادلہ خیالات سے انجام پاتے ہیں۔

( وَالَّذِینَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَاقَامُوا الصَّلاَةَ وََمْرُهُمْ شُورَی بَیْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ یُنْفِقُونَ ) (۱)

اور جو اپنے پروردگار کا حکم مانتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیںاور ان کے کل کام آپس کے مشورے سے ہوتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیں عطا کیاہے اس میں سے (راہ خدا میں) خرچ کرتے ہیں۔

______________________

(۱) سورۂ شوریٰ آیت ۳۸

۶۷

اتحاد اور اخوت

آئین اسلام کاایک اہم اور اجتماعی اصول ''اخوت و برادری'' ہے .پیغمبر اسلام(ص) مختلف صورتوں سے اخوت و برادری کو عام کرنے میں بہت زیادہ کوشاں رہے ہیں۔مہاجرین کے مدینہ پہونچنے کے بعد پہلی مرتبہ اخوت وبرادری کا رشتہ انصار کے دو گروہ یعنی اوس و خزرج کے درمیان پیغمبر اسلام کے ذریعے قائم ہوا۔

یہ دو قبیلے جومدینہ ہی کے رہنے والے تھے اور عرصۂ دراز سے آپس میں جنگ وجدال کرتیتھے ، رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی کوششوں کے نتیجے میں ایک دوسرے کے بھائی بن گئے اورارادہ کرلیاکہ ہم لوگ پرانی باتوں کو کبھی نہیں دہرائیں گے.اس اخوت و برادری کاہدف و مقصد یہ تھاکہ اوس و خزرج جو اسلام کے دواہم گروہ مشرکوںکے مقابلے میںتھے وہ آپس میں ظلم و بربریت، لڑائی جھگڑا او رایک دوسرے پر زیادتی کرنے سے باز آجائیں اور پرانی دشمنی کی جگہ صلح و صفا کویاد رکھیں۔

دوسری مرتبہ پیغمبر نے اپنے صحابیوں اوردوستوں کوچاہے مہاجرین سے ہوںیاانصار میں سے ، حکم دیا کہ آپس میں ایک دوسرے کواپنا بھائی بنالیں اوردوسرے کے بھائی بن جائیں ،کتنی عمدہ بات ہے کہ دومہاجر ایک دوسرے کے بھائی یا ایک مہاجر میں سے اور ایک انصار میں سے ایک دوسرے کے بھائی بن گئے اور بھائی چارگی کے عنوان سے ایک دوسرے کے ہاتھ میں اپناہاتھ دیااوراس طرح سے ایک سیاسی اور معنوی قدرت و طاقت ابھر کر ان کے سامنے آگئی۔

اسلامی مؤرخین ومحدثین لکھتے ہیں:

ایک دن پیغمبر اپنی جگہ سے اٹھے اوراپنے دوستوں سے فرمایا: ''تآٔخوا فی الله اخوین اخوین''

یعنی خدا کی راہ میں آپس میں دودوآدمی بھائی بن جاؤ۔

تاریخ نے اس موقع پر ان افراد کا نام ذکر کیا ہے جن لوگوں نے اس دن پیغمبر کے حکم سے ایک دوسرے کے ساتھ رشتۂ اخوت کو قائم کیا مثلاً ابوبکر اور عمر ،عثمان اور عبدالرحمن بن عوف، طلحہ او ر زبیر، ابی ابن کعب اور ابن مسعود، عمار اور ابو حذیفہ، سلمان اور ابو الدرداء وغیرہ آپس میں ایک دوسرے کے بھائی بنے اور ان افراد کی بھائی چارگی کو پیغمبر نے تائید کیا .یہ برادری اوربھائی چارگی جو چند افراد کے درمیان قائم ہوئی اس برادری اور اسلامی برادری کے علاوہ ہے جسے قرآن کریم نے اسلامی معاشرے میں معیار ومیزان قرار دیا ہے اور تمام مومنین کوایک دوسرے کا بھائی کہا ہے۔

۶۸

حضرت علی ـ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بھائی تھے :

رسول اسلام(ص) نے جتنے افراد بھی مسجد نبوی میں حاضر تھے انھیںایک دوسرے کا بھائی بنایا، صرف علی ـان کے درمیان تنہا بچے جن کے لئے بھائی کانتخاب نہیں کیا، اس وقت حضرت علی آنکھوں میں آنسوؤوں کا سوغات لئے ہوئے پیغمبر اسلام کی خدمت میں پہونچے اور کہا آپ نے اپنے تمام دوستوں کے لئے ایک ایک بھائی کا انتخاب کردیا لیکن میرے لئے کسی کو بھائی نہیں بنایا۔

اس وقت پیغمبر اکرم نے اپنا تاریخی کلام جوحضرت علی کی پیغمبر سے قربت و منزلت اور نسبت اور آپ کی شخصیت کو اجاگر کرتا ہے انھیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

''اَنْتَ اَخِیْ فِی الدُّنْیٰا وَ الْآخِرَةِ وَالَّذِیْ بَعَثَنِیْ بِالْحَقِّ مٰا اَخَّرتُکَ الاّٰ لِنَفْسِیْ اَنْتَ اَخِیْ فِی الدُّنْیٰاوَ الْآخِرَةِ'' (۱)

تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو .وہ خدا جس نے ہمیںحق پر مبعوث کیا ہے میں نے تمہاری برادری کے سلسلے میں خود تاخیر سے کام لیا ہے تاکہ تمہیںاپنابھائی قرار دوں، ایسی بھائی چارگی جو دونوں جہان (دنیا و آخرت) میں باقی رہے۔

رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ کلام حضرت علی ـ کی عظمت اور پیغمبر اسلام سے نسبت کو معنوی و پاکیزگی اور دین کے اہداف میں خلوص کو بخوبی واضح ورو شن کرتا ہے. خود اہلسنت کے دانشمندوں میں سے

______________________

(۱) مستدرک حاکم، ج۳، ص ۱۴، استیعاب ، ج۳، ص ۳۵

۶۹

الریاض النضرة کے مؤلف نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔(۱)

یہاں پر آیت مباہلہ(۲) کی تفسیر کا مبنٰی سمجھ میں اتا ہے تمام علمائے تفسیر کا اتفاق ہے کہ( اَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ ) سے مراد علی بن ابی طالب ہیںجسے قرآن نے ''نفس پیامبر'' کے خطاب سے یاد کیا ہے. اس لئے کہ فکری اور روحی جاذبیت نہ یہ کہ صرف دو فکروں کواپنی طرف کھینچتی ہے بلکہ کبھی کبھی دو انسان کو ایک ہی شخص بتاتی ہے۔

اس لئے کہ ہر موجود اپنے ہم جنس کو جذب اور اپنے مخالف کو دفع کرتی ہے، اور یہ عالم اجسام اور اجرام زمین و آسمان سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ عظیم وبزرگ شخصیتیں جذب اوردفع کا مظہر ہیں.ایک گروہ کو جذب اور دوسرے گروہ کو دفع کرتی ہیں. اس طریقے کی کشش اور گریز سنخیت یا روح کے متضاد ہونے کی وجہ سے ہے اور یہی سنخیت اور تضاد ہے جوایک گروہ کواپنے قریب کرتی ہے اور دوسرے گروہ کواپنے سے دور کردیتی ہے۔ اس مسئلہ کو اسلامی فلسفۂ نے اس طرح تعبیر کیا ہے''السنخیة علة الانضمام'' یعنی سنخیت اور مشابہت اجتماع اورانضمام کا سرچشمہ ہے۔

امام ـ کی ایک اور فضیلت

جب مسجد نبوی کی تعمیر ہوچکی تو پیغمبر کے صحابیوں نے مسجد کے اطراف میں اپنے اپنے لئے گھر بنائے اور ہر گھر کا ایک دروازہ مسجد کی طرف کھلا رکھا پیغمبر اسلام نے بحکم خدا فرمایا: تمام دروازے جو مسجد کی طرف کھلتے ہیں اسے بند کردیا جائے سوائے علی بن ابی طالب کے دروازے کے ، یہ بات رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بہت سے صحابیوں پر ناگوار گذری لہٰذا پیغمبر اسلام منبر پر تشریف لائے اور فرمایا : خداوند عالم نے مجھے حکم دیاہے کہ تمام دروازے جو مسجد کی طرف کھلتے ہیںانھیں بند کردوں سوائے حضرت علی کے دروازے کے، اور خودمیں نے اپنی طرف سے دروازہ بند کرنے یا کھولنے کا حکم نہیں دیاہے بلکہ میں اس مسئلے میں خدا کے حکم کا پابند ہوں۔(۳)

______________________

(۱)الریاض النضرة ج۲ ص ۱۶ مؤلف محب الدین طبری

(۲)سورہ آل عمران ۶۱

(۳) مسند احمد ج۳ ص ۳۴۹، مستدرک حاکم ج۳ ص ۱۲۵ ،الریاض النضرة ج۳ ص ۱۹۲

۷۰

اس دن رسول خدا کے تمام صحابیوں نے اس واقعہ کو حضرت علی ـ کی ایک بہت بڑی فضیلت سمجھا یہاں تک کہ بہت زمانے کے بعد خلیفۂ دوم نے کہا کہ ، کاش وہ تین فضیلتیں جو علی کونصیب ہوئیں وہ مجھے بھی نصیب ہوتیں، اور وہ تین فضیلتیں یہ ہیں:

۱۔ پیغمبر نے اپنی بیٹی کا عقد علی ـ سے کیا۔

۲۔ تمام دروازے جو مسجد کی طرف کھلتے تھے وہ بند ہوگئے صرف علی ـکے گھر کا دروازہ کھلا رہا۔

۳۔ جنگ خیبر میں پیغمبر نے علم کوعلی ـ کے ہاتھوں میں دیا۔(۱)

حضرت علی ـاور لوگوں کے درمیان جو فرق ہے وہ اسی لئے کہ آپ کا مسجد سے کسی وقت بھی رابطہ منقطع نہیں ہوا ،وہ خدا کے گھر میں پیدا ہوئے اورکعبہ میں آنکھ کھولی اس بنا پر پہلے ہی دن سے مسجد آپ کا گھر تھا اور یہ تمام فضیلتیں کسی دوسرے کے لئے نہ تھیں اس کے علاوہ حضرت علی ہمیشہ اور ہر حالت میں مسجد کے احکام کی رعایت کرتے تھے لیکن دوسرے افرادبہت کم مسجدکے آداب و احکام کی رعایت کرتے تھے۔

______________________

(۱) مسند احمد، ج۲، ص ۲۶

۷۱

تیسری فصل

جنگ بدر کا بے نظیر بہادر

ضمضم نامی شخص کی دلسوز آواز، جس نے اپنے اونٹ کا کان کاٹ ڈالا ،اس کی ناک کو شگافتہ کر ڈالا،کوہان کو موڑے ، اونٹ کو الٹا کئے ہوئے تھا، نے قریش کو اپنی طرف متوجہ کیا .اس نے اپنے پیراہن کو آگے سے پیچھے تک پھاڑ دیا اور اونٹ کی پیٹھ پر سوار جس کے کان اور دماغ سے خون ٹپک رہا تھا ،کھڑا ہوا تھا اور چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ اے لوگو جس اونٹ کے ناف میں مشک ہے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے ساتھیوں کی وجہ سے خطرے میں ہے .وہ لوگ چاہتے ہیں کہ ان تمام اونٹوں کو سر زمین بدر کا تاوان قرار دیں، میری مدد کو پہونچو میری مدد کرو۔اس کے مسلسل چیخنے اوراستغاثہ کرنے کی وجہ سے قریش کے تمام بہادر اور نوجوان گھر، کارخانہ اور دوکانوں سے نکل کر اس کے پاس جمع ہوگئے .زخمی اونٹ کی حالت اور ضمضم کی آہ و بکا نے ان لوگوں کی عقلوں کو حیرت میں ڈال دیا اور لوگوں کواحساسکے حوالے کر دیا، اکثر لوگوں نے یہ ارادہ کرلیا کہ شہر مکہ کو کاروان قریش سے نجات دینے کے لئے ''بدر'' کی طرف چلے جائیں۔پیغمبر اسلام(ص) اس سے بلند و بالا تھے کہ کسی کے مال و دولت پر نگاہ کرتے اور کسی گروہ کے مال و متاع کو بغیر کسی سبب کے تاوان قرار دیتے، تو پھر کیاہوا کہ آپ نے اس طرح کا ارادہ بنالیا تھا؟

رسول اسلام (ص) کا مقصداس کام سے فقط دو چیز تھا۔

۱۔ قریش کواس بات کا علم ہو جائے کہ ان کے تجارت کرنے کا طریقہ ،اسلام کے ہاتھوں میں قرار دیا گیاہے اور اگر وہ لوگ اسلام کی نشر واشاعت اور تبلیغ کے لئے مانع ہوں اور بیان آزادی کو مسلمانوں سے چھین لیںتو ان کے حیات کی رگوں کواسلامی طاقتوں کے ذریعہ کاٹ دیا جائے گا. کیونکہ بولنے والا جتنا بھی قوی ہواور چاہے جتنا بھی خلوص واستقامت دکھائے لیکن اگر آزادیٔ بیان و تبلیغ سے استوار نہ ہو تو شائستہ طور پر اپنے وظیفے کو انجام نہیں دے سکتا۔

مکہ میں قریش، اسلام کی تبلیغ واشاعت اورآئین الہی کی طرف لوگوں کے متوجہ ہونے میں سب سے زیادہ مانع تھے. ان لوگوںنے تمام قبیلے والوں کواجازت دیدیا کہ حج کے زمانے میں مکہ آئیںلیکن اسلام اور مسلمانوں کے عظیم المرتبت رہبر کو مکہ اور اطراف مکہ میںداخلے پر پابندی عائد کردی ، یہاں تک کہ اگر ان کو پکڑ لیتے تو قتل کردیتے .اس وقت جب لوگ حج کے زمانے میں حجاز کے تمام شہروںسے خانہ کعبہ کے اطراف جمع ہو رہے تھے ، قوانین اسلام وتوحید کے پیغام کو پہونچا نے کا بہترین وقت تھا۔

۷۲

۲۔ مسلمانوں کے بعض گروہ جو کسی بھی وجہ سے مکہ سے مدینے کی طرف ہجرت نہیں کرسکے تھے وہ ہمیشہ قریش کے عذاب میں مبتلا تھے. وہ اپنا مال و متاع اور جولوگ ہجرت کر گئے تھے ان کے مال و متاع کوآج تک حاصل نہ کرسکے تھے اور قریش کی طرف سے ہمیشہ ڈرائے اور دھمکائے جاتے تھے۔

پیغمبر اسلام نے کاروان قریش سے تجارت کے سامانوں کا تاوان لینے کے لئے قدم اٹھایااور ارادہ کیا کہ سختی سے ان کی تنبیہ کی جائے جنھوں نے مسلمانوں سے ہر طرح کی آزادی کو چھین لیا تھا اور مسلسل انھیں اذیت وتکلیف دیتے رہتے تھے اور ان کے اسباب کی پرواہ تک نہ کرتے تھے۔

اسی وجہ سے پیغمبر ماہ رمضان ۲ھ میں۳۱۳/ آدمیوںکے ہمراہ کاروان قریش کے مال و سامان سے تاوان لینے کے لئے مدینہ سے باہر آئے اور بدر کے کنویں کے پاس ٹھہر گئے، قریش کا تجارتی لشکر شام سے مکہ کی طرف واپس جا رہا تھا اور راستے میں اسے ''بدر'' نامی دیہات سے ہوکر گذرنا تھا۔

ابو سفیان جواس قافلے کا سرپرست تھا، پیغمبر کے ارادے سے باخبر ہوگیا اوراس خبر کو قریش کے سرداروں کے پاس ضمضم کے ذریعے بھیج دیا اور اسے قریش کے سرداروں کے پاس اپنا پیغام بھیجوانے کے لئے اجیر کرلیا تاکہ لوگ قافلے کی مدد کرنے جلد سے جلد آجائیں. ضمضم نے جوماحول بنایا وہ باعث ہوا کہ قریش کے تمام بہادر نوجوان اور جنگجو،قافلے کی مدد کے لئے اٹھ کھڑے ہوں اور جنگ کے ذریعے اس کام کا خاتمہ کردیں۔

قریش نے ایسے نو سو سپاہیوں کا لشکر تیار کیا جوجنگ کے امور میں پختہ دلیری سے لڑنے والے بہترین اسلحوںکے ساتھ ''بدر'' کی طرف روانہ ہوئے لیکن مقصد پر پہونچنے سے پہلے ہی راستے میں ابوسفیان کے دوسرے ایلچی نے اس خبر سے آگاہ کیا کہ قافلے نے اپنا راستہ بدل دیا ہے اور ایک دوسرے راستے سے مسلمانوں سے بچ کر نکل گیا اوراپنے کو محفوظ کرلیا ہے، لیکن ان لوگوں نے اسلام کو، جوابھی شباب کی منزل پر پہونچا تھا سرکوبی کے لئے اپنے ہدف کی طرف سفر جاری رکھااور ۱۷ رمضان ۲ ھ کی صبح کوایک پہاڑ کے پیچھے سے بدر کے میدان میں وارد ہوئے۔

۷۳

مسلمان بدر کے شمالی طرف سے گذرنے والے درہ کی ڈھلان''العدوة الدنیا'' (۱) کوپناہ گاہ بنائے ہوئے قافلہ کے گذر نے کا انتظار کر رہے تھے. کہ اچانک یہ خبر پہونچی کہ قریش کا لشکر اپنے تجارتی سامان کی حفاظت کے لئے مکہ سے روانہ ہوچکا ہے اورالعدوة القصویٰ(۲) درہ کی بلندی سے نیچے اتر رہا ہے ۔

پیغمبر اسلام کا انصار سے عہد و پیمان، دفاعی تھانہ کہ جنگی، انھوں نے عقبہ میں پیغمبر کے ساتھ عہد کیا تھا کہ اگر دشمن نے مدینہ پر حملہ کیا تووہ پیغمبر اکرم (ص)کا دفاع کریں گے نہ یہ کہ ان کے ساتھ مدینہ کے باہر دشمنوں سے لڑیںگے لہٰذا پیغمبر اسلام نے سپاہیوںکی ایک میٹنگ جوکچھ جوانان انصار اور کچھ مہاجرین کے نوجوانوں پر مشتمل تھی بلائی اور اس میں لوگوں کا نظریہ جاننا چاہا. اس میٹنگ میں جونظریات وجود میں آئے وہ یہ تھے کہ کچھ لوگوںنے شجاعت و بہادری کی بات کی اور کچھ لوگوںنے بزدلی اور عاجزی وبے چارگی کی باتیں کیں۔

سب سے پہلے ابوبکر اٹھے اور کہا:

قریش کے بزرگان اورنوجوان نے اس قافلے سے مقابلے کے لئے شرکت کی ہے، اور قریش آج تک کسی بھی قانون پر ایمان نہیں لائے اورایک لمحہ کے لئے بھی ذلیل ور سوا نہیں ہوئے ہیں اور ہم لوگ مکمل تیاری کے ساتھ یہاں نہیں آئے ہیں(۳) یعنی مصلحت یہ ہے کہ یہاں سے مدینہ واپس چلے جائیں۔

عمربھی اپنی جگہ سے اٹھے اوراپنے دوست کی بات کی مزید وضاحت کی ۔

اسی وقت مقداد اٹھے اور انھوں نے کہا :

خدا کی قسم ہم بنی اسرائیل کی طرح نہیں ہیں جو موسیٰ سے کہیں : ''اے موسیٰ تم اپنے خدا کے ساتھ جاؤ جہاد کرواورہم لوگ یہاںبیٹھے ہیں'' بلکہ ہم اس کے برعکس کہتے ہیں کہ آپ پروردگار کے زیر سایہ جہاد کیجئے ہم بھی آپ کے ہمراہ جہاد کریںگے۔

______________________

(۱)،(۲) سورۂ انفال، آیت ۴۲

(۳)مغازی واقدی ج۱ ص ۴۸

۷۴

طبری لکھتا ہے کہ جس وقت مقداداٹھے اور چاہا کہ گفتگو کریں توپیغمبر اکرم کے چہرے سے غیض و غضب (جو عمر وابوبکر کی باتیں سن کر ہوا تھا) کے آثار نمودار تھے. لیکن جب مقداد کی گفتگواور مدد کرنے کی خوشخبری سنا تو آپ کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔(۱)

سعد معاذ بھی اٹھے اور کہا کہ جب بھی تم اس دریا (بحر احمر کی طرف اشارہ) کی طرف قدم بڑھاؤ گے ہم بھی تمہارے پیچھے پیچھے اپنے قدم بڑھائیں گے، اور جہاں پر بھی تم مصلحت سمجھناہمیں راستہ دیدینا، اس موقع پر خوشی اور مسرت کے آثار پیغمبر کے چہرۂ اقدس پر آشکار ہوئے اور خوشخبری کے طور پر ان سے کہا: میں قریش کے قتل عام کی وجہ سے مضطرب ہوں. پھر اسلام کی فوج پیغمبر کی سپہ سالاری میں وہاں سے روانہ ہوگئی اور دریائے بدر کے کنارے مستقر ہوئی۔

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۲ ص ۱۴۰، عبداللہ بن مسعود سے نقل ہوا ہے۔

۷۵

حقیقت کوچھپانا :

طبری اور مقریزی جیسے مؤرخین نے کوشش کی ہے کہ حقیقت کے چہرے کوتعصب کے پردے سے چھپادیں اور شیخین کی پیغمبر کے ساتھ ہوئی گفتگو کو جس طرح سے کہ واقدی نے مغازی میں نقل کیا ہے اس طرح نقل نہ کریں ،لہذاکہتے ہیں کہ ابوبکر نے اٹھ کر بہترین گفتگو کی اور اسی طرح سے عمر نے بھی اٹھ کر اچھی باتیں کیں۔

لیکن ضروری ہے کہ یہاں پران دو تاریخ لکھنے والوں سے سوال کیا جائے کہ جب ان دونوںنے اس میٹنگ میں اچھی اچھی باتیں کہی تھیں تو پھر تم لوگوںنے ان کی اصل گفتگوکو نقل کرنے سے کیوںگریز کیا؟ جب کہ تم لوگوں نے مقداد اور سعد کی گفتگو کو تمام جزئیات کے ساتھ نقل کیا ہے؟ تواگر ان لوگوںنے بھی اچھی گفتگواور عمدہ بات کہی تھی تو کیوں پیغمبر کا چہرہ ان کی باتیں سن کر رنجیدہ ہوگیا جیسا کہ خود طبری نے اس چیز کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے؟

لہذا ضروری ہے کہ حضرت علی ـ کی شخصیت و عظمت کے بارے میں اس جنگ کے حوالے سے تحقیق و جستجو کیا جائے۔

حق و باطل کا مقابلہ

مسلمان اور قریش دونوںگروہوں نے جنگ کے لئے صف بندی شروع کردی، اور چند چھوٹے چھوٹے حادثوں نے آتش جنگ کو شعلہ ور کردیا، ابتدا میں ایک ایک شخص لڑنے کوآمادہ ہوا تین افراد بنام عتبہ پدرہندہ (ابوسفیان کی بیوی کا باپ) اوراس کا بڑا بھائی شیبہ اور عتبہ کا بیٹا ولید میدان جنگ میں آکر کھڑے ہوگئے اور اپنا مقابل طلب کیا .سب سے پہلے انصار میں سے تین آدمی ان سے لڑنے کے لئے میدان جنگ میں آئے اور اپنا تعارف کرایا،لیکن مکہ کے بہادروں نے ان سے جنگ کرنے سے پرہیز کیا اور آواز دی''یٰا مُحَمَّدُ اُخْرُجْ اِلَیْنَا اِکْفَائَنٰا مِنْ قَوْمِنٰا'' یعنی اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! جو لوگ ہماری قوم اور ہمارے شایان شان ہیں انھیں ہمارے ساتھ جنگ کے لئے بھیجو۔

۷۶

رسول خدا نے عبیدہ بن حارث بن عبد المطلب اور حمزہ اور علی کوحکم دیا کہ اٹھ کر دشمن کا جواب دیں، اسلام کے تین عظیم سپہ سالار چہرے پر نقاب ڈالے ہوئے میدان جنگ کی طرف روانہ ہوئے. ہر ایک نے اپنا اپنا تعارف کرایااو رعتبہ تینوں افراد سے لڑنے کے لئے تیار ہوگیااورکہاکہ یہ سب کے سب ہمارے شایان شان ہیں۔

یہاں پر بعض مؤرخین مثلاً واقدی لکھتاہے :

جس وقت انصار کے تین بہادر میدان جنگ میںجانے کے لئے تیار ہوئے تو خود پیغمبر نے انھیں جنگ کرنے سے روکا، کیونکہ پیغمبر نہیں چاہتے تھے کہ اسلام کی سب سے پہلی جنگ میں انصار شرکت کریںاور اسی کے ساتھ ساتھ تمام افراد کواس بات سے بھی باخبر کردیاکہ آئین توحید میری نگاہ میں اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ آپ نے اپنے عزیز ترین اور نزدیک ترین افرادکو بھی اس جنگ میں شریک کیا اسی وجہ سے بنی ہاشم کی طرف رخ کر کے کہا کہ اٹھو اور باطل کے ساتھ جنگ کرو کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ نور خدا کوخاموش کردیں۔(۱)

بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ اس جنگ میں ہر سپاہی اپنے ہم سن و سال اوراپنے مقابل سے لڑنے گیااوراس میں سب سے جوان فرد حضرت علی ، ولید (جو معاویہ کا ماموں تھا) سے لڑے اور ان سے کچھ

______________________

(۱) مغازی واقدی ج۱ ص ۶۲

۷۷

بڑے حمزہ جنہوں نے عتبہ (معاویہ کا نانا) سے اور عبیدہ جو ان دونوں سے بوڑھے تھے شیبہ سے جنگ کرنا شروع کردی۔

ابن ہشام کہتے ہیں کہ شیبہ ، حمزہ کا مقابل اورعتبہ ، عبیدہ کا مقابل تھا.(۱) اب دیکھتے ہیں کہ ان دونوں نظریوں میں کونسا نظریہ صحیح ہے ان دونوں کی تحقیق و جستجوکے بعد حقیقت واضح ہوجائے گی۔

۱۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ علی ـ اور حمزہ نے اپنے حریف ومقابل کو فوراً ہی زمین پر گرادیا. لیکن عبیدہ اور ان کے مقابل کے درمیان بہت دیرتک زور آزمائی ہوتی رہی اور ان میں سے ہر ایک نے ایک دوسرے کومجروح کردیااور کسی نے بھی ایک دوسرے پرغلبہ حاصل نہیں کیا .علی ـاور حمزہ اپنے رقیبوں کو قتل کرنے کے بعد عبیدہ کی مدد کی لئے دوڑے اور ان کے مقابل کو قتل کردیا۔

۲۔ امیر المومنین علیہ السلام معاویہ کو خط لکھتے ہوئے اسے یاد دلاتے ہیںکه'' وَ عِنْدِیْ اَلْسَّیْفُ الَّذِیْ اَعْضَضْتُه بِجَدِّکَ وَ خَالِکَ وَاَخِیْکَ فِیْ مَقَامٍ وَاحِدٍ'' (۲) یعنی وہ تلوار جسے میں نے ایک دن تیرے نانا (عتبہ ، ہندہ کا باپ ہند معاویہ کی ماں) او رتیرے ماموں (ولید بن عتبہ) اور تیرے بھائی (حنظلہ) کے سر پر چلائی تھی اب بھی میرے پاس موجود ہے یعنی ابھی اسی قدرت پر باقی ہوں۔ایک اور مقام پر حضرت امیر فرماتے ہیں کہ''قَدْ عَرَفْتَ مَوَاقِعَ نصالِهٰا فِیْ اَخِیْکَ وَخَالِکَ وَجَدِّکَ وَمَا هِیَ مِنَ الظَّالِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ'' .(۳) یعنی تواے معاویہ! مجھے تلوار سے ڈراتا ہے ؟جب کہ میری تلوار جوتیرے بھائی ، ماموں، اور نانا کے سر پر پڑی تھی تواس سے خوب باخبر ہے اور تو یہ بھی جانتا کہ میں نے ان سب کوایک ہی دن میں قتل کردیا تھا۔

امام علیہ السلام کے ان دونوںخطووں سے بخوبی استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت علی نے معاویہ کے جد کو قتل کیا تھا اور دوسری طرف یہ بھی جانتے ہیں کہ حمزہ او رحضرت علی دونوںنے اپنے مد مقابل کو بغیر کسی تاخیر کے ہلاک کر ڈالا تھا ،لہٰذا اگر حمزہ کی جنگ عتبہ (معاویہ کا جد) سے ہوتی توحضرت امیر علیہ السلام یہ کبھی نہیں فرماتے کہ ''اے معاویہ تیرے جد میری ہی تلوار کے وار سے ہلاک ہوئے ہیں'' ایسی صورت میں یہ کہنا پڑے گا کہ شیبہ اور حمزہ ایک ساتھ لڑے اور عتبہ ، عبیدہ کے مقابلے میں تھا اور حضر ت علی اور حمزہ اپنے اپنے حریفوںکوقتل کرنے کے بعد اس کی طرف گئے اوراسے قتل کردیا۔

______________________

(۱) سیرۂ ابن ہشام ج۱ ص ۶۲۵------(۲) نہج البلاغہ نامہ ۶۴---(۳) نہج البلاغہ نامہ ۶۴

۷۸

چوتھی فصل

حضرت علی ـ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے داماد ہیں

حکم الہی اور سنت حسنہ پر عمل پیراہونے کے لئے حضرت علی کے لئے ضروری تھا کہ جوانی کے بحران سے نکلنے کے لئے اپنی زندگی کی کشتی کو سکون و آرام دیں، مگر حضرت علی جیسی شخصیت کے لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ کسی کو وقتی آرام وآسایش کے لئے اپنی شریک حیات بنائیں اور اپنی زندگی کے بقیہ ایام کو ایسے ہی چھوڑ دیں. لہٰذا ایسی شریک حیات چاہتے ہیں جو ایمان، تقویٰ، علم اور بصیرت، نجابت واصالت میں ان کی کفو اوران کی ہم پلہ ہو. اور ایسی شریک حیات سوائے پیغمبر کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا جن کی تمام خصوصیات سے بچپن سے لے کر اس وقت تک آپ واقف تھے، کے علاوہ کوئی اور نہ تھا۔

حضرت زہرا سے شادی کے خواہشمندافراد

حضرت علی سے پہلے بہت سے دوسرے افراد مثلاً ابوبکر، عمر نے حضرت زہرا کے ساتھ شادی کے لئے پیغمبر کو رشتہ دیا تھا اور دونوں نے پیغمبر سے ایک ہی جواب سنا تھا آپ نے فرمایا تھا کہ میں زہرا کی شادی کے سلسلے میں وحی کا منتظر ہوں۔

ان دونوں نے جو حضرت زہرا سے شادی کے سلسلے میں ناامید ہوچکے تھے رئیس قبیلہ اوس، سعد معاذ کے ساتھ گفتگو کی اور آپس میں سمجھ لیا کہ حضرت علی کے علاوہ کوئی بھی زہرا کا کفونہیں بن سکتا ،اور پیغمبر کی نظر انتخاب بھی علی ـکے علاوہ کسی پر نہیں ہے. اسی بنا پر یہ لوگ ایک ساتھ حضرت علی کی تلاش میں نکلے اور بالآخر انھیں انصار کے ایک باغ میں پایا .آپ اپنے اونٹ کے ساتھ کجھور کے درختوں کی سینچائی میں مصروف تھے ،ان لوگوں نے علی ـ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا : قریش کے شرفا نے پیغمبر کی بیٹی سے شادی کے لئے رشتہ دیا تو پیغمبر نے ان کے جواب میں کہا کہ زہرا کی شادی کے سلسلے میں میں حکم خدا کا منتظر ہوں ہمیں امید ہے کہ اگر تم نے (اپنے تمام فضائل کی وجہ سے) فاطمہ سے شادی کی درخواست کی تو تمہاری درخواست ضرور قبول ہوجائے گی اور اگر تمہاری مالی حالت اچھی نہیں ہے تو ہم سب تمہاری مدد کریں گے۔اس گفتگو کو سنتے ہی حضرت علی کی آنکھو میں خوشی کے آنسو آگئے اور کہا: میری بھی یہی آرزو ہے کہ میں پیغمبر کی بیٹی سے شادی کروں. اتنا کہنے کے بعد آپ کام چھوڑ کر پیغمبر کے گھر کی طرف روانہ ہوگئے ،اس وقت پیغمبر ام سلمہ کے پاس تھے. جس وقت آپ نے دروازے پر دستک دی. پیغمبر نے فوراً ام سلمہ سے کہا جاؤ اور دروازہ کھولو، کیونکہ یہ وہ شخص ہے جسے خدا اور اس کا رسول دوست رکھتا ہے۔

۷۹

ام سلمہ کہتی ہیں کہ اس شخص کودیکھنے کے لئے میرا دل بے چین ہوگیا کہ جس شخص کی پیغمبر نے ستائش کی ہے. میں اٹھی کہ دروازہ کھولوں.عنقریب تھا کہ میرے پیر لڑکھڑا جاتے. میں نے دروازہ کھولا حضرت علی داخل ہوئے اور پیغمبر کے پاس بیٹھ گئے ،لیکن پیغمبر کی عظمت و جلالت کی وجہ سے حیا مانع بن رہی تھی کہ پیغمبر سے گفتگو کریں،اس لئے سر کو جھکائے بیٹھے تھے یہاں تک کہ پیغمبر نے خاموشی کوختم کیا اور کہا:شاید کسی کام سے آئے ہو؟حضرت علی نے جواب دیا: ہماری رشتہ داری ومحبت خاندان رسالت سے ہمیشہ ثابت و پائدار رہی اور ہمیشہ دین و جہاد کے ذریعے اسلام کو ترقی کے راستے پر لگاتے رہے ہیں، یہ تمام چیزیںآپ کے لئے روشن و واضح ہیں. پیغمبر نے فرمایا:جوکچھ تم نے کہا تم اس سے بلند و بالا ہو۔ حضرت علی نے کہا:کیا آپ میری شادی فاطمہ سے کرسکتے ہیں۔(۱)

حضرت علی نے اپنا پیغام دیتے وقت تقویٰ اور اپنے گذرے ہوئے روشن سابقہ اوراسلام پر اعتماد کیا، اور اس طرح سے دنیا والوں کویہ پیغام دیا کہ معیار فضیلت یہ چیزیں ہیں نہ کہ خوبصورتی، دولت اور منصب وغیرہ۔

پیغمبر اسلام نے شوہر کے انتخاب میں عورت کو آزاد رکھا ہے اور حضرت علی کے جواب میں فرمایا:تم سے پہلے کچھ لوگ اور بھی میری بیٹی سے شادی کی درخواست لے کر آئے تھے ، میں نے ان کی درخواست کواپنی بیٹی کے سامنے پیش کیا لیکن اس کے چہرے پر ان لوگوں کے لئے عدم رضایت کوبہت شدت سے محسوس کیا ۔اب میں تمہاری درخواست کواس کے سامنے پیش کروں گا پھر جو بھی نتیجہ ہوگا تمہیں مطلع کروں گا۔

پیغمبر اسلام جناب فاطمہ زہرا کے گھر آئے آپ ان کی تعظیم کے لئے اٹھیں، آپ کے

______________________

(۱) حضرت علی، شادی کے پیغام کے وقت ایک سنت پر عمل کر رہے تھے ،جب کہ ان پر بہت زیادہ حیا طاری تھی .آپ بذات خود اور بغیر کسی واسطے کے پیغام دے رہے تھے ،اور یہ روحی شجاعت و بہادری ، عفاف کے ہمراہ لائق تقدیر ہے

۸۰

کاندھے سے ردا اٹھایا اور آپ کے پیر سے جوتے اتارے اور پائے اقدس کودھلایا پھر وضو کر کے آپ کے پاس بیٹھ گئیں. پیغمبر نے اپنی بیٹی سے اس طرح گفتگو شروع کی:

چچاابوطالب کا نور نظر علی وہ ہے جس کی فضیلت ومرتبہ اسلام کی نظر میں ہم پر واضح وروشن ہے. میں نے خدا سے دعا کی تھی کہ خدا کی بہترین مخلوق سے تمہارا عقد کروں اور اس و قت وہ تم سے شادی کی درخواست لے کر آیا ہے اس بارے میں تمہاری کیارائے ہے؟ جناب فاطمہ زہرا نے مکمل خاموشی اختیار کرلی، لیکن اپنے چہرے کو پیغمبر کے سامنے سے نہیں ہٹایااور ہلکی سی ناراضگی کے آثار بھی چہرے پر رونما نہ ہوئے .رسول اسلام اپنی جگہ سے اٹھے اور فرمایا:''اَللّٰهُ اَکْبَرُ سُکُوْتُهٰا اِقْرَارُهٰا'' یعنی خدا بہت بڑا ہے میری بیٹی کی خاموشی اس کی رضایت کی دلیل ہے۔(۱)

______________________

(۱) کشف الغمہ ج۱ ص ۵۰

۸۱

روحی ، فکری اوراخلاقی اعتبار سے برابر ہونا

یہ حقیقت ہے کہ اسلام کے آئین میںہر مردمسلمان ایک دوسرے مسلمان کا کفو اورہم پلہ ہے. اور ہر مسلمان عورت جو ایک مسلمان مرد کے عقد میں آتی ہے اپنے برابر وکفوسے عقد باندھتی ہے لیکن اگر روحی و فکری اعتبار سے دیکھا جائے تو بہت سی عورتیںبعض مردوں کے ہم شان وہم رتبہ نہیں ہیںیا اس کے برعکس بعض مرد بعض عورتوں کے برابر وہم رتبہ نہیں ہیں۔

شریف و مومن او ر متدین مسلمان جوانسانیت کے بلند و بالا مراتب اوراخلاق وعلم ودانش کے وسیع مراتب پر فائز ہیں انھیں چاہئے کہ ایسی عورتوں کواپنی شریک حیات بنائیںجو روحی واخلاقی اعتبار سے ان کے ہم مرتبہ اوران سے مشابہ ہوں۔

یہ امر پاکدامن اور پرہیزگار عورتوں،جوفضائل اخلاقی اوراعلی ترین علم واندیشہ سے مالا مال ہیں ،کے لئے بھی ہے۔ شادی کا سب سے اہم مقصد، پوری زندگی میں سکون واطمینان کا ہونا ہے اوریہ چیز بغیر اس کے ممکن نہیں ہے اور جب تک اخلاقی مشابہت اور روحی ہم آہنگی پوری زندگی پر سایہ فگن نہیں ہوتیں شادی عبث اور بیکار ہوجاتی ہے۔

اس حقیت کے بیان کرنے کے بعد خدا کے اس کلام کی حقیقت روشن ہو جاتی ہے جواس نے اپنے

پیغمبر سے فرمایا تھا :

''لَوْ لَمْ اخْلقُ عَلِیّاً لَمٰا کَانَ لِفٰاطِمَةَ اِبْنَتِک کُفْو عَلٰی وَجْهِ الْاَرْضِ'' (۱)

اگر میں نے علی کو پیدا نہ کیا ہوتا توروئے زمین پر ہرگز تمہاری بیٹی فاطمہ کا کفو نہ ہوتا۔

بطور مسلم اس برابری اور کفوسے مراد مقام ومرتبے میں برابری ہے۔

______________________

(۱) بحار الانوار، ج۴۳، ص ۹ ۔

۸۲

شادی کے اخراجات :

حضرت علی کے پاس مال دنیا میں صرف تلوار اور زرہ تھی جس کے ذریعے آپ راہ خدا میں جہاد کرتے تھے اور ایک اونٹ تھا کہ جس کے ذریعہ سے مدینہ کے باغوں میں کام کرکے خود کوانصار کی مہمانی سے بے نیاز کرتے تھے۔

منگنی اورعقد وغیرہ کے بعد وہ وقت بھی آ پہونچا کہ حضرت علی اپنی شریک زندگی کے لئے کچھ سامان آمادہ کریںاور اپنی نئی زندگی کو پیغمبر کی بیٹی کے ساتھ شروع کریں. پیغمبر نے قبول کرلیا کہ حضرت علی اپنی زرہ کو بیچ دیں اور اس کی قیمت سے فاطمہ کی مہر کے عنوان سے پیغمبر کوکچھ ادا کریں. زرہ چار سودرہم میں فروخت ہوئی .پیغمبر نے اس میں کچھ درہم بلال کو دیا تاکہ زہرا کے لئے عطر خریدیں اور اس میں سے کچھ درہم عمار یاسر اور اپنے کچھ دوستوں کودیا تاکہ علی و فاطمہ کے گھر کے لئے کچھ ضروری سامان خریدیں. حضرت زہرا کے جہیز کودیکھ کر اسلام کی عظیم خاتون کی زندگی کے حالات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے. پیغمبر کے بھیجے ہوئے افراد بازار سے واپس آگئے اور جو کچھ بھی سامان انھوںنے حضرت زہرا کے لئے آمادہ کیاتھا وہ یہ ہیں:

حضرت زہرا کا جہیز :

۱۔ پیراہن ۷ درہم کا۔

۲۔ روسری ۱ درہم کا۔

۳۔ کالی چادر،جو پورے بدن کوچھپا نہیں سکتی تھی۔

۴۔ ایک عربی تخت، جو لکڑی اور کھجور کی چھال سے بنا تھا۔

۵۔ دو مصری کتان سے بنی ہوئی توشک جس میں ایک ریشمی اوردوسری کھجور کی چھال سے بنی تھی۔

۶۔ چار مسندیں، دو ریشم اور دو کھجور کی چھال سے بنی ہوئیں۔

۷۔ پردہ۔

۸۔ ہجری چٹائی ۔

۹۔ چکی۔

۸۳

۱۰۔ بڑا طشت۔

۱۱۔ چمڑے کی مشک۔

۱۲۔ دودھ کے لئے لکڑی کا پیالہ۔

۱۳۔ پانی کے لئے چمڑے کے کچھ برتن۔

۱۴۔ لوٹا۔

۱۵۔ پیتل کا بڑا برتن (لگن)

۱۶۔ چند پیالے۔

۱۷۔ چاندی کے بازو بند۔

پیغمبر کے دوستوں نے جو کچھ بھی بازار سے خریدا تھا پیغمبر کے حوالے کیااور پیغمبر اسلام نے اپنی بیٹی کے گھر کا سامان دیکھ کر فرمایا:''اَلّٰلهُمَّ بَارِکْ لِقَوْمٍ جُلَّ آنِیَتِهُمُ الْخَزْفَ'' یعنی خداوندا جولوگ زیادہ تر مٹی کے برتن استعمال کرتے ہیں ان کی زندگی کو مبارک قرار دے۔(۱)

______________________

(۱) بحار الانوار ج۴۳ ص ۹۴، کشف الغمہ، ج۱، ص ۳۵۹، کشف الغمہ کے مطابق حضرت زہرا کے گھر کے تمام سامان کل ۶۳ درہم میں خریدے گئے تھے۔

۸۴

حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کا مہر :

پیغمبر اسلام(ص) کابیٹی کی مہر پانچ سودرہم تھا اور ہر درہم ایک مثقال چاندی کے برابر تھا(ہر مثقال ۱۸ چنے کے برابر ہوتاہے)۔پیغمبر اسلام کی عظیم المرتبت بیٹی کا عقد بہت زیادہ سادگی اور بغیر کسی کمی کے ہوا عقدہوئے ایک مہینہ سے زیادہ گزر گیا پیغمبر کی عورتوں نے حضرت علی سے کہا: اپنی بیوی کواپنے گھرکیوں نہیں لے جاتے؟ حضرت علی نے ان لوگوں کو جواب دیا: لے جاؤں گا. ام ایمن پیغمبر کی خدمت حاضر ہوئیں اور کہا اگر خدیجہ زندہ ہوتیںتووہ فاطمہ کے مراسم ازدواج کو دیکھ کرخوش ہوجاتیں۔

پیغمبر نے جب خدیجہ کا نام سنا تو آنکھیں آنسوؤ ں سے تر ہوگئیں اور کہا:اس نے میری اس وقت تصدیق کی تھی جب سب نے مجھے جھٹلا دیا تھا. اور خدا کے دین کودوام بخشنے کے لئے میری مدد کی اور اپنے مال کے ذریعے اسلام کے پھیلانے میں مدد کی۔(۱)

ام ایمن نے کہا: فاطمہ کوان کے شوہر کے گھر بھیج کر ہم سب کو خوشحال کیجئے۔رسول اکرم نے حکم دیا کہ ایک کمرہ کو زہرا کے زفاف کے لئے آمادہ کرو اورانھیں آج کی رات اچھے لباس سے آراستہ کرو۔(۲) جب دلہن کی رخصتی کا وقت قریب آیاتو پیغمبر نے حضرت زہرا کو اپنے پاس بلایا. زہرا پیغمبر کے پاس آئیں، جب کہ ان کے چہرے پر شرم و حیا کا پسینہ تھا اور بہت زیادہ شرم کی وجہ سے پیر لڑکھڑا رہے تھے اور ممکن تھا کہ زمین پر گرجائیں. اس موقع پر پیغمبر نے ان کے حق میں دعا کی اور فرمایا:

''اَقَالَکَ اللّٰهُ الْعَثْرَةَ فِی الدُّنْیٰا وَ الآْخِرَةِ ''

خدا تمہیںدونوںجہان کی لغزش سے محفوظ رکھے، پھر زہرا کے چہرے سے حجاب ہٹایا اور ان کے ہاتھ کوعلی ـکے ہاتھ میں دیا اور مبارکباد پیش کر کے فرمایا:

''بٰارِکْ لَکَ فِی اِبْنَةِ رَسُوْلِ اللّٰهِ یَا عَلِیُّ نِعْمَتِ الزُّوْجَةُ فَاطِمَةُ''

پھر فاطمہ کی طرف رخ کر کے کہا:''نِعْمَ الْبَعْلُ عَلِیُّ '' ۔پھر دونوں کو اپنے گھر جانے کے لئے کہااور بزرگ شخصیت مثلاً سلمان کو حکم دیا کہ جناب زہرا کے اونٹ کی مہار پکڑیں اور اس طرح اپنی باعظمت بیٹی کی جلالت کا اعلان کیا۔

______________________

(۱) بحار الانوار ج۴۳ ص ۱۳۰

(۲) بحار الانوار ج۴۳ ص ۵۹

۸۵

جس وقت دولہا ودولہن حجلہ عروسی میں گئے تودونوں شرم وحیا سے زمین کی طرف نگاہ کئے ہوئے تھے، پیغمبر ان کے کمرے میں داخل ہوئے اور ایک برتن میں پانی لیا اور تبرک کے طور پر اپنی بیٹی کے سر اور بدن پر چھڑکا، پھر دونوںکے حق میں اس طرح سے دعا کی:

''اَلّٰلهُمَّ هٰذِهِ اِبْنَتِیْ وَ اَحَبُّ الْخَلْقِ اِلیَّ اَلّٰلهُمَّ وَ هٰذَا اَخِیْ وَ اَحَبُّ الْخَلْقِ اِلَیَّ اَلّٰلهُمَّ اجْعَلْهُ وَ لِیّاً وَ (۱)

______________________

(۱) بحار الانوار ج۴۳ ص ۹۶

۸۶

پانچویں فصل

جنگ احد میں امیر المومنین ـ کی جاں نثاری

جنگ بدر میںشکست کی وجہ سے قریش کے دل بہت زیادہ افسردہ اور مرجھائے ہوئے تھے .ان لوگوںنے اس مادی اور معنوی شکست کی تلافی کے لئے ارادہ کیا کہ اپنے قتل ہونے والوں کا انتقام لیں. اور اکثر عرب کے قبیلوں کے بہادر وجانباز اور جنگجو قسم کے افراد کاایک منظم لشکر تیار کرکے مدینہ کی طرف روانہ کریں۔

لہٰذا عمرو عاص او ربعض دوسرے افرادکومامورکیاگیاکہ کنانہ او رثقیف قبیلے کے افراد کو اپنا بنائیں اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے میں ان سے مدد طلب کریں .ان لوگوںنے کافی محنت و مشقت کر کے تین ہزار جنگ جو افراد کو مسلمانوںسے مقابلے کے لئے آمادہ کرلیا۔

اسلام کے اطلاعاتی دستہ نے پیغمبر اسلام کو قریش کے ارادے اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے وہاں سے روانہ ہونے سے آگاہ کردیا. پیغمبر اسلام نے دشمنوں سے مقابلے کے لئے جانبازوں کی ایک کمیٹی بنائی جس میں سے اکثریت کا کہنا یہ تھا کہ اسلام کا لشکر مدینے سے نکل جائے اور شہر کے باہر جاکر دشمنوں سے مقابلہ کرے. پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد ایک ہزار کا لشکر لے کر مدینہ سے کوہ احد کی طرف نکل پڑے۔

۷ شوال ۳ھ کی صبح کودونوں لشکر صف بستہ ایک دوسرے کے روبرو کھڑے ہوگئے ،اسلام کی فوج نے ایسی جگہ کومورچہ بنایاکہ ایک طرف یعنی پیچھے سے طبیعی طورپر ایک محافظ کوہ احد تھا لیکن کوہ احد کے بیچ میں اچھی خاصی جگہ کٹی ہوئی تھی اور احتمال یہ تھا کہ دشمن کی فوج کوہ کو چھوڑ کر اسی کٹی ہوئی جگہ اور مسلمانوں کے لشکر کے پیچھے کی طرف سے حملہ کرے، لہٰذا پیغمبر نے اس خطرے کو ختم کرنے کے لئے عبداللہ جبیر کو پچاس تیر اندازوں کے ساتھ اسی پہاڑی پر بھیج دیا تاکہ اگر دشمن اس راستے سے داخل ہو تواس کا مقابلہ کریں. اور حکم دیاکہ ایک لمحہ کے لئے بھی اپنی جگہ سے نہ ہٹیں، یہاں تک کہ اگر مسلمانوں کو فتح نصیب ہو جائے اوردشمن بھاگنے بھی لگیںجب بھی ا پنی جگہ چھوڑ کر نہ جائیں۔

۸۷

پیغمبر نے علم کو مصعب کے حوالے کیا کیونکہ وہ قبیلۂ بنی عبد الدار کے تھے اور قریش کے پرچمدار بھی اسی قبیلے کے رہنے والے تھے۔

جنگ شروع ہوگئی اور مسلمانوں کے جانباز اور بہادروں کی وجہ سے قریش کی فوج بہت زیادہ نقصان اٹھانے کے بعد بھاگنے لگی، پہاڑی پر بیٹھے ہوئے تیر اندازوں نے یہ خیال کیا کہ اب اس پہاڑی پر رکنا ضروری نہیں ہے. لہٰذا پیغمبر کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مال غنیمت لوٹنے کے لئے مورچہ کو چھوڑ کر میدان میں اگئے، خالد بن ولید جوجنگ کرنے میں بہت ماہر وبہادر تھا جنگ کے پہلے ہی سے وہ جانتاتھا کہ اس پہاڑی کا دہانہ کامیابی کی کلید ہے، اس نے کئی مرتبہ کوشش کی تھی کہ اس کے پشت پر جائے اور وہاں سے اسلام کے لشکر پر حملہ کرے، مگر محافظت کرنے والے تیر اندازوںنے اسے روکا اور یہ پیچھے ہٹ گیا، اس مرتبہ جب خالدنے اس جگہ کومحافظوں سے خالی پایا توایک زبردست اور غافل گیرحملہ کرتے ہوتے فوج اسلام کی پشت سے ظاہر ہوا ،اور غیر مسلح اور غفلت زدہ مسلمانوں پر پیچھے کی جانب سے حملہ کردیا، مسلمانوں کے درمیان عجیب کھلبلی مچ گئی اور قریش کی بھاگتی ہوئی فوج اسی راستے سے دوبارہ میدان جنگ میں اتر آئی، اور اسی دور ان اسلامی فوج کے پرچم دار مصعب بن عمیر دشمن کے ایک سپاہی کے ہاتھوں قتل کردیئے گئے اور چونکہ مصعب کا چہرا چھپا ہوا تھا ،ان کے قاتل نے یہ سوچا کہ یہ پیغمبر ہیں لہٰذا چیخنے لگا''اَلٰا قَدْ قُتِلَ مُحَمَّداً'' (اے لوگو! آگاہ ہوجاؤ محمد قتل ہوگئے) پیغمبر کے قتل کی خبر مسلمانوں کے درمیان پھیل گئی. اور ان کی اکثریت میدان چھوڑ کر بھاگنے لگی اور میدان میں چند لوگوںکے علاوہ کوئی باقی نہ بچا۔

اسلام کا بزرگ سیرت نگار ،ابن ہشام اس طرح رقمطراز ہے:

انس بن مالک کا چچا انس بن نضرکہتاہے : جس وقت اسلام کی فوج ذہنی دباؤ کا شکار ہوئی اور پیغمبر کے قتل کی خبر چاروں طرف پھیل گئی توا کثر مسلمان اپنی جان بچانے کی فکر کرنے لگے اور ہر شخص ادھر ادھر چھپنے لگا.انس کہتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ انصار و مہاجر کا ایک گروہ جس میں عمر بن خطاب، طلحہ اور عبیداللہ بھی تھے ایک کنارے پر بیٹھا اپنی نجات کی فکر کر رہا ہے.میں نے اعتراض کے انداز میں ان سے کہا: کیوںیہاں بیٹھے ہو؟

۸۸

ان لوگوںنے مجھے جواب دیا: پیغمبر قتل ہوگئے ہیں او راب جنگ کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے.میں نے ان لوگوں سے کہا کہ اگر پیغمبر قتل ہوگئے تو کیا زندگی کا کوئی فائدہ نہیں ہے تم لوگ اٹھو او ر جس راہ میں وہ قتل ہوئے ہیں تم بھی شہیدہو جاؤ اور اگر محمد قتل کردیئے گئے تومحمد کا خدا زندہ ہے وہ کہتاہے کہ میں نے دیکھاکہ میری باتوں کا ان پر ذرہ برابر بھی اثر نہ ہوا، میں نے اسلحہ اٹھایا اور جنگ میں مشغول ہوگیا۔(۱)

ابن ہشام کہتے ہیں:

انس کواس جنگ میں ستر زخم لگے اور اس کی لاش کواس کی بہن کے علاوہ کوئی پہچان نہ سکا، مسلمانوں کے بعض گروہ اس قدر افسردہ تھے کہ انہوں نے خود ایک بہانہ تلاش کیا کہ عبد اللہ بن ابی منافق کا ساتھ کس طرح سے دیں تاکہ ابوسفیان سے ان کے لئے امان نامہ لیں.اور مسلمانوں کے بعض گروہ نے پہاڑی پر پناہ لی۔(۲)

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں:

بغداد میں ۶۰۸ھ میں ایک شخص واقدی کی کتاب ''مغازی'' کوایک بزرگ دانشمند محمد بن معد علوی سے پڑھتا تھا.ایک دن میں نے بھی اس درس میں شرکت کی.او رجس وقت گفتگو یہاں پہونچی کہ محمد بن مسلمہ جوصریحاً نقل کرتاہے کہ احد کے دن خود میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ مسلمان پہاڑی کے اوپر چڑھ رہے تھے اور پیغمبر ان کا نام لے کر پکار رہے تھے کہ ''اِلَیَّ یا فلان'' (اے فلاں میری طرف آؤ) لیکن کسی نے بھی پیغمبر کی آواز پر لبیک نہ کہا .استادنے مجھ سے کہا فلاں سے مراد وہی لوگ ہیں جنھوں نے پیغمبر کے بعد مقام ومنصب کو حاصل کیا.اور راوی نے خوف وڈر کی وجہ سے ان کا نام لکھنے سے پرہیز کیا ہے اوروہ نہیں چاہتا تھا کہ صریحی طور پر ان سب کا نام لکھے۔(۳)

______________________

(۱)،(۲) سیرۂ ابن ہشام ج۳ ص ۸۴۔ ۸۳

(۳) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۵ ص ۲۳

۸۹

جانثاری مقصد وہدف پر ایمان کی علامت ہے

جانثاری اور جانبازی ،مقصدوہدف پر ایمان کی علامت و نشانی ہے اور اس کے ذریعے سے انسان کی جانثاری کا اندازہ اس کے ہدف پر ایمان واعتقاد کے ذریعے لگایا جاسکتا ہے ،اور حقیقت میںبلندترین اور صحیح کسوٹی ایک شخص کے عقیدے کا اندازہ کرنے کے لئے ، اس کے گزرے ہوئے حالات کودیکھ کر لگایاجاسکتاہے قرآن کریم نے اس حقیقت کو اپنی آیتوں میں اس طرح سے بیان کیا ہے:

( انَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ آمَنُوا بِاﷲِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِامْوَالِهِمْ وَانفُسِهِمْ فِی سَبِیلِ اﷲِ ُوْلَئِکَ هُمْ الصَّادِقُونَ ) (۱)

(سچے مومن) تو بس وہی ہیں جو خدا اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر انھوں نے اس میں کسی طرح کا شک و شبہ نہ کیا اوراپنے مال سے اور اپنی جانوں سے خدا کی راہ میں جہاد کیا، یہی لوگ (دعوائے ایمان میں) سچے ہیں۔

جنگ احد ،مومن اور غیر مومن کی پہچان کے لئے بہترین کسوٹی تھی اورایک عمدہ پیمانہ تھا بہت سے ان افراد کے لئے جوایمان کا دعوی کرتے تھے. مسلمانوں کے بعض گروہ کا اس جنگ سے بھاگنا اتنا پر اثر تھا کہ مسلمانوں کی عورتیںجواپنے بیٹوں کے ساتھ میدان جنگ میں آئی تھیں اور کبھی کبھی زخمیوں کی خبر گیری کرتی تھیں اور پیاسے جانبازوں کو پانی سے سیراب کرتی تھیں اس بات پر مجبور ہوگئیں کہ پیغمبر کا دفاع کریں۔جب نسیبہ نامی عورت نے ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کوبھاگتے ہوئے دیکھا تو ہاتھ میں تلوار لے کر رسول اسلام(ص) کا دشمنوں سے دفاع کیا .جس وقت پیغمبر نے اس عورت کی جانثاری کو بھاگنے والوں کے مقابلے میں مشاہدہ کیا تو آپ نے اس بہادر عورت کے بارے میں ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا:''مَقٰاُم نَسِیْبَةِ بِنْتِ کَعْبٍ خَیْر مِنْ مَقٰامِ فُلٰانِ وَ فُلٰانِ'' (کعب کی بیٹی نسیبہ کا مقام و مرتبہ فلاں فلاں سے بہتر ہے)ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ راوی نے پیغمبر کے ساتھ خیانت کی ہے کیونکہ جن لوگوں کا نام پیغمبر نے صریحی طور پر ذکر کیا تھا اسے بیان نہیں کیا۔(۲) انہی افرادکے مقابلے میں تاریخ ایک ایسے جانباز کااعتراف کرتی ہے جواسلام کی پوری تاریخ میں فداکاری اور جانثاری کا نمونہ ہے، اور جنگ احد میں مسلمانوں کی دوبارہ کامیابی اسی جانثار کی قربانیوں کا

______________________

(۱) سورۂ حجرات آیت ۱۵

(۲) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۴ ص ۲۶۶

۹۰

نتیجہ تھی. یہ عظیم المرتبت جانثار، یہ حقیقی فداکار مولائے متقیان حضرت امیر المومنین کی ذات گرامی ہے.جنگ کی ابتدا میں قریش کے بھاگنے کی وجہ یہ تھی کہ ان کے پرچم اٹھانے والے ۹ افراد ایک کے بعد ایک مولائے کائنات کے رعب و دبدبہ کی وجہ سے اپنی جگہ سے ہٹ گئے اور نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے دلوں میںشدید رعب بیٹھ گیا اور ان کے اندر ٹھہر نے اور مقابلے کرنے کی صلاحیت باقی نہ رہی۔(۱)

امام ـ کی جانثاری پر ایک نظر:

معاصر مصری مؤرخین مجنھوں نے اسلامی واقعات کا تجزیہ کیا ہے حضرت علی کے حق کو جیسا کہ آپ کے شایان شان تھا یا کم از کم جیساکہ تاریخ نے لکھا ہے ادانہیں کیا ہے، اور امیر المومنین کی جانثاری کو دوسرے کے حق میں قرار دیا ہے اس بنا پر ضروری ہے کہ مختصر طور پر حضرت امیر کی جانثاریوں کوانہی کے مأخذ سے بیان کروں۔

۱۔ ابن اثیر نے اپنی تاریخ(۲) میں لکھا ہے:پیغمبر چاروں طرف سے قریش کے لشکر میں گھر گئے تھے ،ہر گروہ جب بھی پیغمبر پر حملہ کرتا توحضرت علی پیغمبر کے حکم سے جب کچھ قتل ہوجاتے تھے تو باقی راہ فرار اختیار کرتے تھے .ایسا جنگ احد میں کئی مرتبہ ہوا. اس جانثاری کی بنیاد پر جبرئیل امین نازل ہوئے اور حضرت علی کے ایثار کوپیغمبر کے سامنے سراہا اور کہا:یہ ایک بلند ترین جانثاری ہے جس کوانھوں نے کر دکھایا ہے. رسول خدا نے جبرئیل امین کی تصدیق کی اور کہا:''میں علی سے ہوں اور علی مجھ سے ہیں''کچھ ہی دیر کے بعد میدان میں ایک آواز سنائی دی جس کا مفہوم یہ تھا:

لَاسَیْفَ اِلاّٰ ذُوْ الْفِقٰارِ

وَلَا فَتٰی اِلاّٰ عَلی

ذو الفقار جیسی کوئی تلوار نہیں اور علی ـ کے جیسا کوئی جوان نہیں ۔

ابن ابی الحدید اس واقعہ کی مزید شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وہ گروہ جس نے پیغمبر پر حملہ کیا تاکہ ان کو قتل کردیں اس میں پچاس آدمی تھے اور علی ـنے جوکہ باپیادہ

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۴ ص ۲۵۰

(۲)تاریخ کامل جلد ۲ ص ۱۰۷

۹۱

جنگ کر رہے تھے ان لوگوں کومتفرق کردیا۔

پھر جبرئیل امین کے نازل ہونے کے بارے میں کہتے ہیں:اس مطلب کے علاوہ جو کہ تاریخ کے اعتبار سے مسلم ہے میں نے محمد بن اسحاق کی کتاب ''غزوات'' کے بعض نسخوں میں جبرئیل امین کے نزول کے متعلق دیکھا ہے کہ یہاں تک ایک دن اپنے استاد عبدالوہاب سکینہ سے اس واقعہ کی صحت کے متعلق پوچھاتوانھوں نے کہا صحیح ہے، میں نے ان سے کہا پھر کیوں اس صحیح روایت کوصحاح ستہ کے مؤلفین نے نہیں لکھا؟ انھوں نے جواب میں کہا : بہت سی صحیح روایتیں موجود ہیں جس کے لکھنے میں صحاح ستہ کے مؤلفین سے غفلت ہوئی ہے۔(۱)

۲۔ حضرت امیر المومنین نے ''رأس الیہود'' کے متعلق اپنے اصحاب کے بعض گروہ کے سامنے جو تفصیلی تقریر فرمائی اس میں اپنی جانثاری کے بارے میں اس طرح اشارہ کیا ہے :

جس وقت قریش کے لشکر نے طوفان کی طرح ہم پر حملہ کیا توانصار اور مہاجرین اپنے گھروں کی طرف روانہ ہوگئے، لیکن میں نے ستر زخم کھانے کے باوجود بھی حضرت کا دفاع کیا۔

پھر آپ نے قبا کواتارا اور زخم کے نشانات جوباقی تھے اس پر ہاتھ لگا کر دکھایا، یہاں تک کہ بنا بر نقل ، ''خصال شیخ صدوق'' حضرت علی نے پیغمبر کے دفاع کرنے میں اتنی جانفشانی و جانثاری کی کہ آپ کی تلوار ٹوٹ گئی اور پیغمبر نے اپنی تلوار، ذو الفقار کو حضرت علی کے حوالے کیا تاکہ اس کے ذریعے سے راہ خدا میں جہاد کرتے رہیں۔(۲)

۳۔ ابن ابی الحدید لکھتے ہیں:جب پیغمبر کے اکثر صحابی وسپاہی میدان سے بھاگ گئے تو دشمنوں نے پیغمبر پر اور بڑھ چڑھ کر حملہ کرنا شروع کردیا. بنی کنانہ قبیلہ کا ایک گروہ اور بنی عبد مناف قبیلے کا گروہ جن کے درمیان چار نامی پہلوان موجود تھے پیغمبر کی طرف حملہ آور ہوئے.اس وقت علی ـ پیغمبر کی چاروں طرف سے پروانہ کی طرح حفاظت کر رہے تھے ، اور دشمن کونزدیک آنے سے روک رہے تھے ،ایک گروہ جس کی تعداد پچاس آدمیوں سے بھی

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۴ ص ۲۱۵

(۲) خصال شیخ صدوق ج۲ ص ۱۵

۹۲

زیادہ تھی انھوں نے پیغمبر کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا اور صرف حضرت علی کا شعلہ ور حملہ تھا جس نے اس گروہ کومنتشر کردیا، لیکن وہ پھر دوبارہ آگئے اور پھر سے حملہ شروع کردیا اور اس حملے میں وہ چار نامی پہلوان اوردس دوسرے افراد جن کا نام تاریخ نے بیان نہیں کیا ہے قتل ہوگئے جبرئیل نے حضرت علی کی اس جانثاری پر پیغمبر کو مبارک باد دی اور پیغمبر نے فرمایا: علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں۔

۴۔ اس پہلے کی جنگوںمیں لشکر کی علمبرداری کے سلسلے میں بہت زیادہ احتیاط رکھی گئی اور پرچم کو بہادر اور دلیر افراد کے ہاتھ میں دیا گیا. علمبردار کے بہادر ہونے کی وجہ سے جنگجووں میں بہادری و شجاعت بڑھ گئی اور سپاہیوں کوذہنی خلفشار سے بچانے کے لئے کچھ لوگوں کو لشکر کاعلمبردار معین کیا گیا تاکہ اگر ایک ماراجائے تودوسرااس کی جگہ پر پرچم کو اپنے ہاتھ میں لے لے۔

قریش، مسلمانوں کی بہادری اورجانثاریوں سے جنگ بدر میں باخبر تھے، اسی وجہ سے اپنے بہت زیادہ سپاہیوں کولشکر کا علمبردار بنایاتھا.قریش کا سب سے پہلا علمبردار طلحہ بن طلیحہ تھا وہ پہلا شخص تھا جو حضرت علی کے ہاتھوں مارا گیا.اس کے قتل کے بعد قریش کے پرچم کوافراد درج ذیل نے سنبھالا اور تمام کے تمام حضرت علی ـ کے ہاتھوںمارے گئے. سعید بن طلحہ ، عثمان بنم طلحہ ، شافع بن طلحہ، حارث بن ابی طلحہ، عزیز بن عثمان، عبد اللہ بن جمیلہ، ارطاة بن شراحبیل، صوأب۔

ان لوگوں کے مارے جانے کی وجہ سے قریش کی فوج میدان چھوڑ کر بھاگ گئی، اس طرح سے مسلمانوں نے حضرت علی کی جانثاری کی وجہ سے جنگ فتح کرلی۔(۱)

علامہ شیخ مفید اپنی کتاب ''ارشاد'' میں امام جعفر صادق ـ سے نقل کرتے ہیں کہ قریش کے علمبرداروں کی تعداد ۹ آدمیوں پر مشتمل تھی اورتمام کے تمام یکے بعد دیگرے حضرت علی کے ہاتھوںمارے گئے۔

ابن ہشام نے اپنی کتاب ''سیرئہ'' میں ان افراد کے علاوہ اور بھی نام ذکر کئے ہیں جو حضرت علی کے پہلے ہی حملہ میں قتل ہوگئے تھے۔(۲)

______________________

(۱) تفسیر قمی ص ۱۰۳، ارشاد مفید ۱۱۵، بحار الانوار ج۲۰ ص ۱۵

(۲) سیرئہ ابن ہشام ج۱ ص ۸۴، ۸۱

۹۳

چھٹیں فصل

اسلام کی شرک پر کامیابی

عرب کے بت پرستوں کی فوج چیونٹی اور ٹڈی کی طرح ایک گہرے خندق کے کنارے آکر رک گئی جسے مسلمانوںنے چھ دن میں کھودی تھی. ان لوگوں نے سوچا پچھلی مرتبہ کی طرح اس مرتبہ بھی احد کے جنگل میں مسلمانوں سے مقابلہ کریں گے لیکن اس مرتبہ وہاں کوئی موجود نہ تھا. بہرحال وہ لوگ آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ شہر مدینہ کے دروازے تک پہونچ گئے. مدینے کے نزدیک ایک گہری اور خطرناک خندق دیکھ کر وہ لوگ حیران و پریشان ہوگئے ،دشمن کی فوج کے سپاہیوں کی تعداد دس ہزار سے زیادہ تھی جب کہ اسلام کے مجاہدوں کی تعداد تین ہزار سے زیادہ نہ تھی۔(۱)

تقریباً ایک مہینے تک مدینہ کا محاصرہ کئے رہے اور قریش کے سپاہی ہر لمحہ اس فکر میں تھے کہ کسی طرح سے خندق کو پار کر جائیں. دشمن کے سپاہی خندق کے سپاہیوں سے مقابلے کے لئے جنہوںنے تھوڑے سے فاصلے پر اپنے دفاع کے لئے مورچہ بنایاتھا روبرو ہوئے اور دونوں طرف سے تیر چلنے کا سلسلہ شب و روز جاری رہا اور کسی نے بھی ایک دوسرے پر کامیابی حاصل نہ کی۔

دشمن کی فوج کا اس حالت پر باقی رہنا بہت دشوار اور مشکل تھا، چونکہ ٹھنڈی ہوا اور غذا کی کمی انھیں موت کی دعوت دے رہی تھی اورعنقریب تھا کہ جنگ کا خیال ان کے دماغوں سے نکل جائے اور سستی اور تھکن ان کی روح میں رخنہ پیدا کردے. اس وجہ سے فوج کے بزرگوں کے پاس کوئی اور چارہ نہ تھا مگر یہ کہ کسی بھی صورت سے ان کے بہادرو دلیر سپاہی خندق کو پار کر جائیں. فوج قریش کے چھ پہلوان و بہادر اپنے گھوڑے کودوڑاتے ہوئے خندق کے پاس گئے اوردھاوابول دیا اور بہت ہی احتیاط سے خندق پار کرکے میدان میں داخل ہوگئے ،ان چھ پہلوانوں میں عرب کا نامی گرامی پہلوان عمرو بن عبدود بھی تھا جو شبہ جزیرہ کا قوی اور بہادر جنگجو مشہور تھا،لوگ اسے ایک ہزار بہادروں پر بھاری سمجھتے تھے اور وہ اندر سے لوہے کی زرہ پہنے ہوئے تھا اور مسلمانوں کی صفوں کے سامنے شیر کی طرح غرایااور تیز تیز چلا کر کہا کہ بہشت کا

______________________

(۱) امتاع الاسماع، مقریزی،منقول از سیرۂ ہشام ج۲ ص ۲۳۸

۹۴

دعوی کرنے والے کہاںہیں؟کیاتمہارے درمیان کوئی ایسا نہیں ہے جومجھے جہنم واصل کردے یامیں اس کو جنت میں بھیج دوں؟

اس کے کلمات موت کی آواز تھے اور اس کے مسلسل نعروں کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں اس طرح ڈر بیٹھ گیا تھاایسا معلوم ہوتا تھا کہ سب کے کان بند ہوگئے ہوں اور زبانیں گنگ ہو گئی ہوں۔(۱)

ایک مرتبہ پھر عرب کے بوڑھے پہلوان نے اپنے گھوڑے کی لگام کو چھوڑ دیا اور مسلمانوں کی صفوں کے درمیان پہونچ گیا اور ٹہلنے لگااور پھر اپنا مقابل مانگنے لگا۔

جتنی مرتبہ بھی اس عرب کے نامی پہلوان کی آواز جنگ کے لئے بلند ہوتی تھی فقط ایک ہی جوان اٹھتاتھا اور پیغمبر سے میدان جنگ میں جانے کی اجازت مانگتا،. مگر ہر بار پیغمبر اسے منع کردیتے تھے اوروہ جوان حضرت علی تھے. پیغمبر ان کی درخواست پر فرماتے تم بیٹھ جاؤ یہ عمرو ہے۔عمرو نے تیسری مرتبہ پھر آواز دی اور کہا میری آواز چیختے چیختے بیٹھ گئی، کیا تمہارے درمیان کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو میدان جنگ میں قدم رکھے؟ اس مرتبہ بھی حضرت علی نے پیغمبر سے بہت اصرار کیا کہ جنگ میں جانے کی اجازت دیدیں. پیغمبر نے فرمایا: یہ لڑنے والا عمرو ہے ، حضرت علی خاموش ہوگئے بالآخر پیغمبر نے حضرت علی کی درخواست کو قبول کرلیا. پھر اپنی تلوار انھیں عطا کی اوراپنا عمامہ ان کے سر پر باندھااور ان کے حق میں دعا کی(۲) اور کہا: خداوندا! علی ـ کودشمن کے شر سے محفوظ رکھ. پروردگارا: جنگ بدر میں عبیدہ اور جنگ احد میں شیر خدا حمزہ کو تو نے مجھ سے لے لیا، خدایا! علی ـکو مشکلات سے دور رکھ. پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی:( رب لاتذرنی فرداً و انتَ خیرُ الوارثین ) (۳) پھر اس تاریخی جملے کو بیان فرمایا:''برزَ الایمانُ کلّهُ الی الشرک کلِّه'' یعنی ایمان و شرک کے دو مظہر ایک دوسرے کے روبرو ہوئے ہیں۔(۴)

______________________

(۱) واقدی نے اپنی کتاب مغازی میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے وہ کہتا ہے کہ ''کان علی رؤوسہم الطیر'' گویاان کے سروں پر پرندے بیٹھے تھے. مغازی ج۲ ص ۴۸

(۲) تاریخ الخمیس ج۱ ص ۴۸۶

(۳) سورۂ انبیاء آیت ۸۹

(۴) کنز الفوائد ص ۱۳۷

۹۵

حضرت علی مکمل ایمان کے مظہر اورعمرو شرک وکفر کا کا مل مظہر تھا. شاید پیغمبر کے اس جملے سے مقصد یہ ہو کہ ایمان اور شرک کا فاصلہ کم ہوگیاہے اور اس جنگ میں ایمان کی شکست شرک کی موقعیت کو پوری دنیا میں اجاگر کردے گی۔

امام ـ تاخیرکے جبران کے لئے بہت تیزی سے میدان کی طرف روانہ ہوئے اور عمرو کے پڑھے ہوئے رجز کے وزن اور قافیہ پر رجز پڑھنا شروع کیا جس کا مفہوم یہ تھا: جلدی نہ کر اے بہادر میں تجھے جواب دینے کے لئے آیا ہوں۔

حضرت علی لوہے کی زرہ پہنے ہوئے تھے اور ان کی آنکھیں مغفر (لوہے کی ٹوپی) کے درمیان چمک رہی تھیں، عمرو حضرت علی کو پہچاننے کے بعد ان سے مقابلہ کرنے سے کترانے لگا اور کہا تمہارے باپ ہمارے دوستوں میں سے تھے اور میں نہیں چاہتا کہ ان کے بیٹے کے خون کو بہاؤ ں۔

ابن ابی الحدید کہتے ہیں :جب میرے استاد ابو الخیر نے تاریخ کے اس حصے کا درس دیا تو اس طرح بیان کیا : عمرو نے جنگ بدر میں شرکت کی تھی اور بہت ہی قریب سے حضرت علی کی شجاعت و بہادری کو دیکھا تھا اسی وجہ اس نے بہانہ بنایا او ربہت خوفزدہ تھا کہ کس طرح سے ایسے بہادر سے مقابلہ کرے۔

حضرت علی نے اس سے کہا: تومیری فکر نہ کر. میں چاہے قتل ہو جاؤں چاہے فتح حاصل کرلوں، خوش نصیب رہوں گا اور میری جگہ جنت میں ہے لیکن ہر حالت میں جہنم تیرا انتظار کر رہا ہے اس وقت عمرونے ہنس کر کہا:اے میرے بھتیجے یہ تقسیم عادلانہ نہیں ہے جنت اور جہنم دونوں تمہارا مال ہے۔(۱)

اس وقت حضرت علی نے اسے وہ نذر یاد دلائی جس کو جو اس نے خدا سے کیا تھا کہ اگر قریش کا کوئی شخص اس سے دو چیزوں کا تقاضا کرے تو وہ ایک چیز کو قبول کرلے گا. عمرو نے کہا:بالکل ایسا ہی ہے حضرت علی نے کہا:میری پہلی درخواست یہ ہے کہ اسلام قبول کرلے عرب کے نامی پہلوان نے کہا: یہ درخواست مجھ سے نہ کرو مجھے تمہارے دین کی ضرورت نہیں ہے ،. پھر علی ـنے کہا:جا اور جنگ کرنے کا خیال اپنے دل سے نکال دے اور اپنے گھر کی طرف چلاجا. اور پیغمبر کے قتل کودوسروں کے حوالہ کردے کیونکہ اگروہ کامیاب ہوگیا تو قریش کے لئے باعث افتخار ہو گا اور اگر قتل ہوگیا تو تیری آرزو بغیر جنگ کے پوری ہوجائے گی ۔

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ ص ۱۴۸

۹۶

عمرو نے جواب میں کہا: قریش کی عورتیں اس طرح گفتگو نہیں کرتیں، کس طرح واپس جاؤں، جب کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میرے قبضے میں ہیں اور اب وہ وقت پہونچ چکا ہے کہ جو میں نے نذر کی تھی اس پر عمل کروں؟ کیونکہ میں نے جنگ بدر کے بعد نذر کی تھی کہ اپنے سر پر تیل اس وقت تک نہیں رکھوں گا جب تک محمد سے اپنے بزرگوں کاانتقام نہ لے لوں گا۔حضرت علی نے اس سے کہا: اب تو جنگ کے لئے آمادہ ہوجا! تاکہ پڑی ہوئی گتھی کو شمشیر کے ذریعے سلجھائیں. اس وقت بوڑھا پہلوان سخت غصے کی وجہ سے جلتے ہوئے لوہے کی طرح سرخ ہوگیا اور جب حضرت علی کو پیادہ دیکھا تو خود گھوڑے سے اتر آیا گھوڑے کو ایک ہی وار میں قتل کر دیااور ان کی طرف بڑھا اور اپنی تلوار سے حضرت علی پر حملہ کردیا اور پوری قوت سے حضرت کے سر پر مارا، حضرت علی نے اس کی ضربت کو اپنی سپر کے ذریعے روکا لیکن سپر دو ٹکڑے ہوگئی اورخود بھی ٹوٹ گئی اور آپ کا سر زخمی ہوگیا اسی لمحے امام نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور ایک کاری ضرب لگائی اور اسے زمین پر گرادیا تلوار کے چلنے کی آواز اور میدان میں گردو غبار کی وجہ سے دونوں طرف کے سپاہی اس منظر کونزدیک سے نہیں دیکھ پا رہے تھے، لیکن اچانک جب حضرت علی کی تکبیر کی آواز بلند ہوئی تومسلمان خوش ہوکر چیخنے لگے اور ان کو یقین ہوگیا کہ حضرت علی نے عرب کے پہلوان پر غلبہ پالیا ہے اور مسلمانوں کو اس کے شر سے محفوظ کردیاہے۔اس نامی و مشہور پہلوان کے قتل ہونے کی وجہ سے، پانچ اور نامی پہلوان، عکرمہ ، ہبیرہ، نوفل، ضرار اور مرد اس، جنھوں نے عمرو کے ساتھ خندق پار کیا تھا اور حضرت علی اورعمرو کی جنگ کے نتیجے کے منتظر تھے ، وہاں سے بھاگ گئے .ان میں سے چار پہلوان خندق سے پار ہوگئے تاکہ قریش کو عمروکے مرنے کی خبر سنائیں ،مگر نوفل بھاگتے وقت اپنے گھوڑے سے خندق میں گرگیا اور حضرت علی جوان سب کا پیچھا کر رہے تھے خندق میں گئے اور اس کو ایک ہی حملے میں موت کے گھاٹ اتار دیا۔(۱) اس نامی پہلوان کی موت کی وجہ سے شعلۂ جنگ ہوگیااور عرب کے ہر قبیلے والے اپنے ا پنےقبیلے کی طرف واپس جانے لگے .زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ دس ہزار کا لشکر ٹھنڈک اور بھوک کی وجہ سے اپنے گھروں کی طرف چلا گیا اور ا سلام کی اساس و بنیاد جسے عرب کے نامی اور قوی دشمن نے دھمکی دی تھی حضرت کی جانثاری کی وجہ سے محفوظ ہوگئی۔

______________________

(۱) تاریخ الخمیس ج۱ ص ۴۸۷

۹۷

اس جانثاری کی اہمیت

جو لوگ اس جنگ کے جزئیات اور مسلمانوں کی ابتر حالت اور قریش کے نامی پہلوان کی دھمکیوں کے خوف و ہراس سے مکمل باخبر نہیں ہیں وہ اس جانثاری اور قربانی کی واقعی حقیقت کو کبھی بھی سمجھ نہیں سکتے لیکن ایک محقق جس نے تاریخ اسلام کے اس باب کا دقیق مطالعہ کیا ہے اور بہترین روش اور طریقے سے اس کا تجزیہ و تحلیل کیا ہے پر اس واقعے کی اہمیت پوشیدہ نہیں ہے۔

اس حقیقت کا جاننا بھی ضروری ہے کہ اگر حضرت علی میدان جنگ میں دشمن سے مقابلے کے لئے نہ جاتے تو پھر کسی بھی مسلمان میں اتنی جرأت نہ تھی کہ وہ عمروکے مقابلے میں جاتا، اور ایک فوج کے لئے سب سے بڑی ذلت و رسوائی کی بات یہ ہے کہ دشمن مقابلے کے لئے بلائے اور کوئی نہ جائے اور سپاہیوں پر خوف چھا جائے. حتی اگر دشمن جنگ کرنے سے باز آجاتا اور محاصرہ کوختم کر کے اپنے گھر واپس چلا جاتا. تب بھی اس ذلت کا داغ تاریخ اسلام کی پیشانی پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے باقی رہتا۔

اگر حضرت علی اس جنگ میں شرکت نہ کرتے یا شہید ہو جاتے تو قریب تھا کہ کوہ ''سلع'' میں پیغمبر کے پاس رہنے والے سپاہی جو عمرو کی للکار سے بید کے درختوں کی طرح لرز رہے تھے، میدان چھوڑ کر چلے جاتے اور کوہ سلع سے اوپر جاتے اور پھر وہاں سے بھاگ جاتے، جیسا کہ جنگ احد اور حنین میں ہوااور تاریخ کے صفحات پر آج بھی درج ہے کہ سب کے سب فرار ہوگئے علاوہ چند افراد کے، جنھوں نے پیغمبر کی جان بچائی اور سب کے سب جان بچا کر بھاگ گئے اور پیغمبر کو میدان میں تنہا چھوڑ دیا۔

اگر امام علیہ السلام اس مقابلے میں(معاذ اللہ) ہارجا تے تو نہ صرف یہ کہ جتنے بھی سپاہی کوہ ''سلع'' کے دامن میں اسلام کے زیر پرچم اور پیغمبر کے پاس کھڑے تھے بھاگ جاتے بلکہ وہ تمام سپاہی جو پوری خندق کے کنارے حفاظت اور مورچہ سنبھالنے کے لئے کھڑے تھے وہ مورچے کو چھوڑ دیتے اور ادھراُدھر بھاگ جاتے۔

۹۸

اگر حضرت علی علیہ السلام نے قریش کے پہلوانوں کا مقابلہ کر کے ان کو بڑھنے سے روکا نہ ہوتا یااس راہ میں قتل ہو جاتے تودشمن بڑی آسانی سے خندق کو پار کر جاتا اور پھر دشمن کی فوج اسلام کی فوج کی طرف بڑھتی اور پورے میدان میں بڑھ بڑھ کر حملہ کرتی جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ آئین توحیدی پر شرک کامیاب ہوجاتااور اسلام خطرے میں پڑ جاتا، ان تمام چیزوں کودیکھنے کے بعد پیغمبر اسلام نے، الہام اور وحی الہی سے حضرت علی کی جانثاری کو اس طرح سراہتے ہیں:

''ضَرْبَةُ عَلِیٍّ یَوْمَ الْخَنْدَقِ اَفْضَلُ مِنْ عِبَادَةِ الثَّقَلَیْنِ'' (۱)

اس ضربت کی عظمت و رفعت جو علی ـنے خندق میں دشمن پر ماری تھی دونوںجہان کی عبادتوں سے بہتر ہے۔

اس بیان کا فلسفہ یہ ہے کہ اگر یہ جانثاری واقع نہ ہوتی توقانون شرک پوری دنیا پر چھا جاتااور پھر کوئی بھی ایسی شمع باقی نہ رہتی جس کے اردگرد ثقلین طواف کرتا. اور اس کی نورانیت کے زیر سایہ خدا کی عبادت و پرستش کرتا۔

ہم یہاں پر بڑے فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ امام نے اپنی بے نظیر اور عظیم فداکاری کی وجہ سے اس دنیاکے مسلمانوں اور توحید کے متوالوںکورہین منت قرار دیاہے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ اتنا زمانہ گزر جانے کے بعد بھی اسلام و ایمان، امام کی فداکاری وجانثاری کے صدقے میں آج تک باقی ہے۔

جی ہاں، حضرت علی کی فداکاری وجانثاری کے علاوہ آپ کی سخاوت و فیاضی کایہ عالم تھا کہ عمروبن عبدود کوقتل کرنے کے بعداس کی قیمتی زرہ اور لباس کواس کی لاش کے پاس چھوڑ کر میدان سے واپس آگئے، جب کہ عمرو نے اس کام کی وجہ سے آپ کی ملامت و سرزنش کی، لیکن امام علیہ السلام نے اس کی ملامت و سرزنش پر کوئی توجہ نہ دی. اور جب اس کی بہن اس کی لاش کے سراہنے پہونچی تو اس نے کہا کہ ہرگز میں تم پر گریہ نہ کروںگی کیونکہ تو کسی کریم و شریف کے ہاتھوں قتل ہوا ہے(۲) جس نے تیرے قیمتی لباس اور قیمتی اسلحوں تک کوہاتھ نہیں لگایاہے۔

______________________

(۱) مستدرک حاکم ج۳ ص ۳۲، بحار الانوار ج۲۰ ص ۲۱۶

(۲) مستدرک حاکم ج۳ ص۳۲، بحار الانوار ج۲۰ ص ۳۳

۹۹

ساتویں فصل

جنگ خیبر اوراس کے تین اہم امتیازات

کس طرح سے دشمن کی زبان حضرت علی کی عظمت وافتخار کوبیان کرنے لگی اور وہ نشست جو آپ کو برا وناسزا کہنے کے لئے تیار کی گئی تھی مدح و ستائش میں تبدیل ہوگئی؟

امام حسن مجتبیٰ ـ کی شہادت کے بعد معاویہ کو فرصت ملی کہ خود اپنی زندگی میں اپنے بیٹے یزید کی خلافت کے لئے زمین ہموار کرے اور بزرگ صحابیوں اور رسول کے دوستوں سے جو مکہ اور مدینہ میں زندگی بسر کر رہے تھے ، یزید کی بیعت لے، تاکہ اس کا بیٹا خلیفة المسلمین اور پیغمبر کا جانشین معین ہوجائے۔

اسی مقصد کے لئے معاویہ سرزمین شام سے خدا کے گھر کی زیارت کے لئے روانہ ہوا اور اپنے قیام کے دوران حجاز کے دینی مراکز اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوستوں سے ملاقاتیں کیں اورجب کعبہ کے طواف سے فارغ ہوا تو ''دار الندوہ'' جس میں جاہلیت کے زمانے میں قریش کے بزرگ افراد جمع ہوتے تھے، میں تھوڑی دیر آرام کیا اور سعد وقاص اور دوسری اسلامی شخصیتوں سے ملاقات کی جن کی مرضی کے بغیر اس زمانے میں یزید کی خلافت وجانشینی ممکن نہ تھی.

وہ اس تخت پر بیٹھا جو دار الندوہ میں اسی کے لئے رکھا گیا تھا اور سعد وقاص کو بھی اپنے ساتھ بیٹھایا اس نے جلسہ کے ماحول کو دیکھا اور امیر المومنین کو برااورناسزا کہنے لگا یہ برا کام، اور وہ بھی خدا کے گھر کے پاس، اوروہ بھی اس صحابی پیغمبر کے سامنے جس نے حضرت امیر کی جانثاریوںاور قربانیوں کوبہت نزدیک سے دیکھا تھا اور جس کے فضائل و کمالات سے مکمل آگاہ تھا ایسی حرکت کرنا آسان کام نہ تھا، کیونکہ وہ جانتا تھاکہ کچھ ہی دنوں پہلے کعبہ کے سامنے کعبے کے اندر اور باہر بہت سے باطل خدا پناہ لئے ہوئے تھے اور حضرت علی کے ہاتھوں ہی وہ ہمیشہ کے لئے سرنگوں ہوئے تھے اور اس نے پیغمبر کے حکم سے پیغمبر کے کاندھوں پر قدم رکھا تھااوران بتوںکوجس کی خود معاویہ اور اس کے باپ دادا بہت زمانے تک عبادت کیا کرتے تھے اسے عزت کے منارے سے ذلت کے گڑھے میںگرایا اور سب کو توڑ ڈالاتھا۔(۱)

______________________

(۱) مستدرک حاکم ج۲ ص ۳۶۷، تاریخ الخمیس ج۲ ص ۹۵

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809