فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)4%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 362257 / ڈاؤنلوڈ: 6023
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

تھی تو دونوں گروہ نے حد سے تجاوز کیا ہے ہم تم لوگوں کو کتابِ خدا کی حکومت کی دعوت دیتے ہیں اگر تم لوگوں نے دعوت دی ہوتی تو ہم ضرور قبو ل کرتے اس فرصت کو غنیمت جانو۔

دشمنوں کے اس فریبی نعروںنے عراق کے سادہ لوح لوگوں کو دھوکے میں ڈال دیا اور لوگ کمزوری و ناتوانائی کی حالت میں امام کے پاس آئے اور کہا ان کی دعوت کو قبول کر لیجیئے،امام علیہ السلام نے اس حسّاس موقع پر دھوکہ کھائے لوگوں کے ذہنوں کو واضح و روشن کرنے کے لئے ان سے کہا: ''اے خدا کے بندو!میں ہر شخص کی دعوت کو بحکم قرآن قبول کرنے میں تم لوگوں سے زیادہ شائستہ ہوں لیکن معاویہ ،عمروعاص ، ابن ابی معیط،حبیب بن مسلمہ اور ابن ابی سرح اہل دین اور قرآن نہیں ہیں، میں تم لوگو ں سے بہتر ان کو پہچانتا ہوں میں نے ان لوگوں کے ساتھ بچپن سے آج تک زندگی گزاری ہے، وہ لوگ ہر زمانے میں بدترین بچے اور بدترین مرد تھے خدا کی قسم ان لوگوں نے قرآن کو اس لئے بلند نہیں کیا کہ وہ قرآن کو پہچانتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس پر عمل کریں ان کا یہ کا م مکر و فریب کے علاوہ کچھ نہیں ہے

اے خدا کے بندو اپنے سروں اور بازوؤں کو کچھ لمحوں کے لئے مجھے عاریةً دے دو،کیونکہ حق قطعی نتیجہ پر پہونچ گیا اور ستمگروں کی جڑ کو کاٹنے میں کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی ہے۔

مخلص افراد نے امام علیہ السلام کے نظریہ کی طرفداری کی مگر اچانک عراق کی فوج کے( ۲۰) بیس ہزار آدمی جبکہ وہ آہنی لباس پہنے تھے اور ان کی پیشانیوں پر سجدوں کے نشانات تھے اور کندھوں پر تلواریں لٹکی تھیں،(۱) میدان جنگ چھوڑ کر سردار کے خیمے کے پاس آگئے اس گروہ کی رہبری مسعر بن فدکی،زید بن حصین اور عراق کے بعض قاری کر رہے تھے اور بعد میں یہی لوگ خوارج کے سردار بن گئے یہ لوگ اما م علیہ السلام کی قیام گاہ کے سامنے کھڑے ہوئے اور آپ کو یا امیرالمومنین کے بجائے یاعلی کہہ کر خطاب کیا اور بے ادبی سے کہا اس قوم کی دعوت کو قبول کر لو ورنہ تمھیں قتل کردیںگے جس طریقے سے عثمان بن عفان کو قتل کیا ہے خدا کی قسم اگر ان لوگوں کی دعوت قبول نہیں کی تو تمھیں قتل کردینگے ۔وہ سردارجس کی کل تک مکمل اطاعت ہو رہی تھی آج ایسے موڑ پر کھڑاتھا کہ اسے زبردستی تسلیم ہونے اور صلح قبول کرنے کا حکم دیا جا رہا تھا امام علیہ السلام نے ان لوگوں کے جواب میں کہا:

______________________

(۱) واقعہ صفین ص۴۸۹۔ تاریخ طبری ج ۳جزئ۶ص۲۷۔مروج الذہب ج ۲ص۴۰۱۔ کامل ابن اثیرج ۳ص۱۶۱۔

۶۴۱

''میں پہلا وہ شخص ہوںجس نے خدا کی کتاب کی طرف لوگوں کو بلایا اور پہلا شخص ہوںجس نے خدا کی کتاب کی دعوت کو قبول کیا میرے لئے جائز نہیں ہے کہ میں تم لوگوں کو غیر کتاب ِخداکی طرف دعوت دوں، میں ان لوگوں کے ساتھ جنگ کروں گا کیونکہ وہ لوگ قرآن کے حکم پر عمل نہیں کرتے ان لوگوں نے خدا کی نافرمانی کی اور اس کے عہد و پیمان کوتوڑ ڈالا اور اس کی کتاب کو چھوڑ دیا ہے، میں تم لوگوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کے ان لوگوں نے تمھیں دھوکہ دیا ہے وہ لوگ قرآن پر عمل کرنے کے خواہش مند نہیں ہیں ۔

امام علیہ السلام کی منطقی اور استدلالی گفتگو کا ان لوگوں پر اثر نہ ہوا کچھ دنوں کے بعد یہ واضح ہو گیا کہ یہ لوگ تندمزاج اور حقیقت کو سمجھنے اور درک کرنے سے غافل تھے شامیوں کے بیہودہ نعروں سے متاثر ہوگئے تھے اور امام علیہ السلام ان کو جتنی بھی نصیحت کرتے وہ اتنے ہی زیادہ شیطان صفت ہوجاتے اور کہتے کہ اما م حکم دیں کہ مالک اشتر جنگ کرنے سے باز آجائیں۔

ایک فوج کے لئے جنگ کے دوران سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ اختلاف کی وجہ سے فوج دو حصوں میں تقسیم ہوجائے اور اس سے بدترسادہ لوح گروہ کا فتنہ و فساد کرنا اور اپنے عاقل و دانہ سردار کے متعلق سیاسی مسائل سے دور ہونا ہے، امام علیہ السلام اپنے کو کامیابی کی راہ پر دیکھ رہے تھے اور دشمن کی پیش کش کی واقعیت سے باخبر تھے لیکن کیا کرتے کہ آپسی اختلاف نے فوج کے اتحاد و اتفاق کو ختم کردیا تھا ۔

امام علیہ السلام نے( ۲۰) بیس ہزار مسلح اور مقدس نما جن کی پیشانیوں پر سجدوں کے نشان تھے، سے مقابلہ کرنے میں مصلحت نہیں دیکھا اور اپنے ایک قریبی چاہنے والے یزید بن ہانی کو بلایا اور اس سے کہا:تم جتنی جلدی ہو جہاںمالک اشتر جنگ میں مشغول ہو وہاں پہونچو اور اشتر سے کہو کہ امام علیہ السلام نے حکم دیا ہے کہ جنگ سے ہاتھ روک لواور میری طرف واپس آجائو۔

یزید بن ھان نے اپنے کو مورچہ تک پہونچایا اور مالک اشتر سے کہا جنگ روک دو اور امام ـکے چلو

مالک اشتر: امام کی خدمت میں میرا سلام پہونچا دو اور کہہ دو کہ ابھی وہ وقت نہیں ہے کہ مجھے میدان سے بلائیں امید ہے کہ بہت جلد ہی فتح وکامرانی کی خوشبو پرچم اسلام سے اٹھے۔

قاصد نے واپس آکر کہا کہ اشتر واپس آنے میں مصلحت نہیں سمجھتے اور کہا ہے کہ میں کامیابی کے بالکل قریب ہوں ۔فتنہ فساد کرنے والوں نے امام سے کہا، اشتر کا واپس آنے سے منع کرنا تمھارا حکم ہے تم نے پیغام دیا کہ میدان جنگ میں مقابلہ کریں۔

۶۴۲

علی علیہ السلام نے باکمال سنجیدگی فرمایا: میں نے اپنے قاصد سے ہرگز محرمانہ گفتگو نہیں کی ہے بلکہ جو کچھ بھی میں نے کہا ہے تم لوگوں نے سنا ہے تم لوگ کیوں ایسی چیز پر جس کو میں نے واضح و آشکار کہا ہے الزام لگا رہے ہو؟

باغیوں نے کہا جلد سے جلد مالک اشتر کو حکم دو کہ واپس آ جائیں ورنہ جس طرح ہم لوگوں نے عثمان کو قتل کیا ہے تمہیں بھی قتل کر دیں گے یا معاویہ کے حوالے کر دیں گے

امام علیہ السلام نے یزید بن ہانی سے کہا جو کچھ تم نے دیکھا ہے وہ مالک اشتر تک پہونچا دو۔

مالک اشتر امام علیہ السلام کے پیغام سے باخبر ہوئے اور قاصد سے کہا کہ یہ فتنہ قرآن کو نیزے پر بلند کرکے پیدا کیا گیا ہے اور یہ عمروعاص کا کیا ہوا ہے پھر بڑے افسردہ انداز سے کہا کیا تم فتح کو نہیں دیکھ رہے ہو؟ اور خدا کی نشانیوں کو نہیں دیکھ رہے ہو؟ کیا یہ بات صحیح ہے کہ ایسی حالت میں جنگ کے معرکہ کو چھوڑدیا جائے؟

قاصد: کیا یہ بات صحیح ہے کہ تم یہاں رہو اور امیر المومنین قتل کردیئے جائیں یا دشمن کے سپر د کر دیے جائیں ؟ مالک اشتر یہ باتیں سن کر لرزنے لگے اور فوراً جنگ سے ہاتھ روک لیا اور خود امام علیہ السلام کی خدمت میں پہونچ گئے اور جب آپ کی نگاہ فتنہ و فساد کرنے والوں پر پڑی جو ذلت و رسوائی کے طلب گار تھے تو ان سے کہا اس وقت جب تم نے دشمن پر غلبہ پید ا کر لیاہے اور کامیابی کے مرحلے تک پہونچ گئے ہو،ان کے دھوکے میں آگئے ؟ خدا کی قسم ان لوگوں نے خدا کے حکم کو چھوڑ دیا ہے اور پیغمبر کی سنت کو بھی ترک کر دیا ہے ہرگز ان کی درخواست کو قبو ل نہ کرو اور مجھے کچھ مہلت دو تاکہ کام کو یک طرفہ کردوں ۔

فتنہ و فساد کرنے والے : تمھاری موافقت کرنا تمھار ی خطاؤں میں شریک ہونا ہے ۔

مالک اشتر: ہائے افسوس کے تمھارے بہترین لوگ قتل ہوگئے اور تمھارے مجبور و عاجز لوگ باقی بچے ہیں، مجھے بتاؤ کہ تم لوگ کس زمانے میں حقّ پر تھے؟کیا اس زمانے میں جس وقت تم نے جنگ کی اس وقت حق پر تھے اور اس وقت جب کہ جنگ سے باز آگئے ہوباطل پر ہو؟ یا اس وقت کہ جب تم نے جنگ کی باطل پر تھے اور اس وقت حق پر ہو ؟اگر ایسا گمان رکھتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کے تمھارے جتنے بھی افراد قتل ہوئے ہیں اور ان کے ایمان ، تقویٰ اور اخلاص کے تم معترف ہو، وہ لوگ جہنم میں ہوںگے۔

۶۴۳

فتنہ کرنے والے: ہم نے خدا کی راہ میں جنگ کی اور خدا کے لئے جنگ سے ہاتھ اٹھا لیا اور ہم لوگ تمھاری پیروی نہیں کریں گے ہم سے دور ہوجاؤ۔

مالک اشتر: تم لوگوں نے دھوکہ کھایا ہے اور اس وجہ سے جنگ چھوڑنے کے لئے دعوت دی گئی ہے پیشانیوں پر سجدوں کے نشان رکھنے والو، میں تمھاری نمازوں کو دنیا سے سرخرو جانے اور شہادت کے شوق میں سمجھ رہا تھا لیکن اب یہ ثابت ہو گیا ہے کہ تمھارا ہدف موت سے فرار اور دنیا کی طرف رغبت ہے تم پرتف ہو اے فضلہ خوار جانوروں ، ہرگز تمھیں عزت نصیب نہیں ہوگی دور ہوجاؤ جس طرح سے ظالم و ستمگر دور ہوگئے اس وقت فتنہ و فسا د پیدا کرنے والے ایک طرف اور مالک اشتر دوسری طرف،ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہے تھے اور ایک دوسروں کے گھوڑوں پر تازیانہ سے حملہ کر رہے تھے امام علیہ السلام کے سامنے یہ ناگوار منظر اتنا درد ناک تھا کہ آپ نے فریاد بلند کی کہ ایک دوسرے سے دور ہوجاؤ۔

ایسے حالات میں فتنہ و فساد اور فرصت طلب افراد نے امام علیہ السلام کی آنکھوں کے سامنے فریاد بلند کی کہ قرآن کے فیصلے سے راضی ہوجائیں تا کہ امام کو بنائے ہوئے منصوبے کے سامنے تسلیم کریں۔ امام علیہ السلام خاموش تھے اور کچھ نہیں کہہ رہے تھے اور فکر کے دریا میں غرق تھے۔(۱)

______________________

(۱) واقعہ صفین ص۴۹۲،۴۸۹۔ شرح نہج البلاغہ ابن اابی الحدید ج۲ص۲۱۹،۲۱۶۔

۶۴۴

بیسویں فصل

مسئلہ تحکیم

عمرو عاص نے معاویہ کو جو مشورہ دیا تھاکہ اما م علیہ السلام کی فوج کو قرآن کی حاکمیت کی دعوت دو یا وہ قبول کریں یا نہ کریں آپس میں اختلاف کا شکار ہوجائیں گے ، مکمل طو ر سے کارگر ثابت ہوااور امام علیہ السلام کی فوج میں عجیب اختلاف پیدا ہوا جس نے فوج کودوگروہ میںتقسیم کردیا، لیکن اس میں اکثر سادہ لوح تھے جو جنگ سے تھک جانے کی وجہ سے معاویہ کے ظاہری فریب کا شکار ہوگئے تھے اور امام علیہ السلام کی اجازت کے بغیر نعرہ لگایا کہ ''علی نے حکمیت قرآن کی اجازت دیدی ہے '' جب کہ حضرت بالکل خاموش بیٹھے تھے اور اسلام کے مستقبل کے بارے میں فکر کر رہے تھے،(۱)

معاویہ کا خط امام ـ کے نام

ایسے پُر آشوب حالات میں معاویہ نے امام علیہ السلام کو یہ خط لکھا:

''ہمارے درمیان لڑائی ہوتے ہوئے بہت وقت ہوگیا ہے اور ہم میں سے ہر ایک جو چیز مقابل سے حاصل کرنا چاہتا ہے اسے حق سمجھتا ہے، جب کہ دونوں میں کوئی بھی ایک دوسرے کی اطاعت نہیں کرتاچاہتا اور دونوں طرف سے بہت زیادہ لوگ قتل ہو گئے ہیں اور مجھے خوف ہے کہ آئندہ، گزشتہ سے بدتر ہو اور ہم لوگ اس جنگ کے ذمہ دار ہیںاور میرے اور تمھار ے علاوہ اس کا کوئی ذمہ دار نہیں ہے لہذا میرا ایک مشورہ ہے جس کے اند ر زندگی ،امت کی صلاح اور ان کی جان و مال کی حفاظت اور دین سے محبت اور کینہ کا دور ہونا ہے اور وہ یہ ہے کہ دوآدمی، یعنی ایک ہمارے دوستوں میں سے اور دوسرا تمھارے اصحاب سے جو مورد رضایت ہو، ہمارے درمیان قرآن کے مطابق فیصلہ کرے یہی میرے او ر تمھارے لئے اور فتنہ کو دور کرنے کے لئے بہتر راستہ ہے، اس مسئلہ میں خدا سے ڈرواور قرآن کے حکم کے مطابق راضی رہو اگر اس کے اہل ہو''۔(۲)

______________________

(۱) الامامة والسیاسة ج ۱ ص۱۰۴۔

(۲) الاخبارالطوال ص۱۹۱۔ وقعہ صفین ص۴۹۳۔

۶۴۵

نیزہ پر قرآن کا بلند کرنا صرف ایک جھوٹی اور بیہودہ تبلیغ اور اختلاف کرنا تھا یہ قرآن سے فیصلہ بالکل نہیں چاہتے تھے لیکن معاویہ نے اس خط میں اس ابہام کو با لکل دور کر دیا اور دونو ں طرف سے آدمیوں کے انتخاب کو تحریر کیا اور خط کے آخر میں امام علیہ السلام کو تقویٰ اور قرآن کی پیروی کرنے کی دعوت دی۔

امام علیہ السلام کا جواب معاویہ کے نام

جھوٹ اور ظلم وستم ، انسان کے دین اور دنیا دونوں کو تباہ کردیتا ہے اور اس کی لغزش کو عیب نکالنے والوں کے سامنے ظاہر کردیتا ہے ،تو جانتا ہے کہ جو تو نے اس سے پہلے انجام دیا ہے اس کو پورا نہیں کرسکتا ایک گروہ نے بغیر حق کے عہدو پیمان توڑ دیا اور خلافت کا دعویٰ کردیا اور خدا وند عالم کے صریحی حکم کی تاؤیل کردی اور خدا وند عالم نے ان کے جھوٹ کو ظاہر کردیا، اس دن سے ڈرو کہ جس دن کا م کی تعریف ہوگی تو وہ خوشحال ہوگا، اور جس شخص نے اپنی رہبری کو شیطان کے ہاتھوں میںسپرد کردیا ہے اور اس سے جنگ کے لئے نہیں اٹھا،شر مندہ و پشیمان ہوگا۔دنیا نے اسے دھوکہ دیا ہے اور اس سے دل لگایا ہے ،مجھے حکم قرآن کی دعوت دی ہے جب کہ تو خود ایسا نہیں ہے میں نے تجھے جواب نہیں دیا ہے لیکن قرآن کے فیصلے کو قبول کیا ہے۔(۱)

اشعث بن قیس جو پہلے ہی دن سے معاویہ کا جاسوس سمجھا جاتا تھا اور جنگ کے دوران بھی اکثر یہ چیزیں دیکھنے کو ملیں، اس مرتبہ اس نے اصرا ر کیا کہ معاویہ کے پاس جائے اور نیزہ پر قرآن بلند کرنے کی وجہ اس سے دریافت کرے،(۲)

اشعث کی دوستی امام علیہ السلام سے سچی نہ تھی، اس کے ذہن میں صلح کا خیال معاویہ کے بھائی عتبہ سے گفتگو کرنے کے بعد ہی آیاتھا۔ لیلة الہریر میں جنگ جاری رکھنے کو اس نے دونوں طرف کی تباہی سے تعبیر کیا اور'' رفع المصاحف'' (قرآن کو نیزے پر بلند کرنے کا واقعہ)فتنہ کے واقع ہونے کے وقت اس

______________________

(۱)دونوںخط کوابن مزاحم منقری نے ''وقعہ صفین ''ص۴۹۴،۴۹۳ اور ابن اعثم کوفی نے کتاب ''الفتوح'' (ج۳،ص۳۲۲) میں نقل کیا ہے امام علیہ السلام کا خط تھوڑ ے فرق کے ساتھ نہج البلاغہ(مکتوب نمبر۴۸) میں بھی آیا اور نہج البلاغہ سے بھی مختصر دینوری نے اخبار الطوال ص ۹۱ میں ذکر کیا ہے۔

(۲) تاریخ طبری ج۳جزء ۶ص۲۸۔ کامل ابن اثیرج ۳ص۱۶۱

۶۴۶

نے بہت اصرار کیا کہ علی علیہ السلام فوج ِشام کی دعوت کا جواب دیں، وہ فوج کی خستگی سے متعل بات کہتا تھا، اس مرتبہ اس نے اجازت مانگی کہ معاویہ سے ملاقات کرے اور صلح کے متعلق آخری حکم کومعلوم کرے، اور اسی بحث میں ہم انشأاللہ ذکر کریں گے ، کہ اس نے امام علیہ السلام سے نمائندہ معین کرنے کی قدرت کو سلب کر لیا اور حضرت کے مورد نظر نمائندے کوبہانہ سے پیچھے کردیا، اور اپنے مورد ِنظر شخص کو معین کرایا جو عراقی فوج کے لئے نقصان دہ تھا،جی ہاں اشعث نے معاویہ سے ملاقات کے بعد کوئی نئی بات نہیں بتائی اور معاویہ کے خط کے موضوع کو دہرایا۔

مسلّح گروہ کے اصرار نے امام علیہ السلام کو مجبور کردیاکہ قرآن کے فیصلہ کو قبول کریں ، اسی وجہ سے دونوں فوج کے قاری فوج کے درمیان آئے اور قرآن کو دیکھا اور ارادہ کیا کہ قرآن کے حکم کوزندہ کریں پھر اپنی اپنی جگہ واپس چلے گئے اور دونوں طرف سے آواز بلند ہوئی کہ ہم لوگ قرآن کے حکم اور فیصلہ پر راضی ہیں۔(۱)

حکمین کا انتخاب

اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن بولتا نہیں بلکہ ضروری ہے کہ قرآن پر عبور رکھنے والے اسے بلوائیں اور اس میں غور و فکر کریں اور خدا کے حکم کو تلاش کریں تاکہ کینہ و دشمنی سے دوری اختیار کریں، اس ہدف تک پہونچنے کے لئے یہ طے پایا کہ شامیوں میں سے اور عراقیوں میں سے کچھ لوگ معین ہوں ،شام کے لوگ بغیر کسی قید و شرط کے معاویہ کے پیرو تھے کہ وہ جس کو بھی منتخب کرتا اسے قبول کرتے اور سبھی جانتے تھے کہ وہ فتنہ و فساد کا موجد عمروعاص کے علاوہ کسی کو منتخب نہیں کرے گا، مشہورمثل کے مطابق کہ شام کے لوگ مخلوق کے سب سے زیادہ فرماں برداراور خدا کے سب سے نا فرمان افراد تھے۔

لیکن جب امام علیہ السلام کی باری آئی تودباؤڈالنے والوںنے (جنہوں نے بعد میں اپنا نام خوارج رکھا اور حکمیت کے مسئلے کو گناہ کبیرہ سمجھا اور خو د اسے قبول کرنے سے توبہ کی اور علی علیہ السلام سے بھی کیا کہ توبہ کریں)دوچیز کے لئے حضرت پر دباؤ ڈالا۔

_______________________________

(۱ ) تاریخ طبری ج۳جزء ۶ص۲۸۔ کامل ابن اثیرج ۳ص۱۶۱

۶۴۷

۱۔ حکمیت کو قبول کریں۔

۲۔ اپنے اعتبار سے حکم کا انتخاب ، نہ کہ امام علیہ السلام کی نظر کے مطابق،تاریخ اسلام کے اس حصہ کوجو واقعا درس عبرت ہے،ہم اسے تحریر کر رہے ہیں۔

دباؤ ڈالنے والے: ہم ابو موسیٰ اشعری کو حکمیت کے لئے منتخب کر رہے ہیں۔

امام علیہ السلام : میں ہر گز اس کام پر راضی نہیں ہوں اور ہرگز اسے یہ حق نہیں دوں گا۔

دباؤ ڈالنے والے: ہم بھی اس کے علاوہ کسی کو منتخب نہیں کریں گے یہ وہی ہے جس نے ابتداء سے ہی ہم لوگوں کواس جنگ سے منع کیا اور اسے فتنہ قرار دیا۔

امام علیہ السلام : ابو موسیٰ وہ شخص ہے جو خلافت کے پہلے ہی دن مجھ سے جدا ہوگیا اور لوگوں کو میری مدد کرنے سے منع کیا اور اپنی برائی کی وجہ سے بھاگ گیا یہاں تک کہ اسے امان دیا اور پھر میر ی طرف واپس آگیا، میں ابن عباس کو حاکم کے طور پر منتخب کر رہا ہوں۔

دباؤ ڈالنے والے: ہمارے لئے تمھارے اور ابن عباس میں کوئی فرق نہیں ہے، ایسے شخص کو منتخب کروتمھارے اور معاویہ کے لئے مساوی ہو۔

امام علیہ السلام : مالک اشتر کو اس کام کے لئے منتخب کروں گا۔

دباؤ ڈالنے والے: اشتر نے جنگ کی آگ کو بھڑکایا ہے اور اس وقت ہم لوگ ان کی نظر میں مرم ہیں۔

امام علیہ السلام : اشتر کا کیا حکم ہے؟

دباؤ ڈالنے والے: وہ چاہتا ہے کہ لوگوں کی جان چلی جائے تاکہ اپنی اور تمھاری آرزو پوری ہو جائے ۔

امام علیہ السلام: اگر معاویہ حاکم کے انتخاب میں ہر طرح سے آزاد ہے تو قرشی (عمروعاص) کے مقابلے سوائے قرشی (ابن عباس) کے کوئی اور منا سب نہیں ہے تم لوگ بھی اس کے مقابلے میں عبد اللہ بن عباس کو منتخب کرو، کیونکہ عاص کا بیٹا کوئی گرہ نہیں باندھتا مگر یہ کہ ابن عباس اسے کھول دیتے ہیںیا گرہ کو نہیں کھولتا مگر یہ کہ اسے باندھ دیتے ہیں کسی چیز کو وہ مضبوط و محکم نہیں کرتا مگر یہ کہ ابن عباس اسے اور کمزور کر دیتے ہیں اور کسی کام کو کمزور نہیں کرتا مگر یہ کہ اسے محکم کردیتے ہیں۔

۶۴۸

اشعث : عمر وعاص اور عبد اللہ بن عباس دونوں قبیلہ مضَر سے ہیں اور دومضَری ایک ساتھ فیصلے کے لئے مناسب نہیں ہیں کہ بیٹھیں، اگر ایک مضَری ہو(مثلاً عمرو عاص) تو ضروری ہے کہ حتماً دوسرا یمنی (ابو موسیٰ اشعری) ہو۔ کسی نے اس شخص (اشعث) سے نہ پوچھا کہ اس قانون پر تمھارے پا س کیا دلیل ہے)

امام علیہ السلام :مجھے اس با ت کا ڈر ہے کہ تمھار ا یمنی دھوکہ نہ کھا جائے کیونکہ عمروعاص ایسا شخص ہے جو اپنے مقصد کو پورا کرنے میں کسی کام سے بھی نہیں ہچکچاتا۔

اشعث: خدا کی قسم جب بھی ان دو حکم میں سے ایک یمنی ہوگا تو یہ میرے لئے بہترہے اگر چہ وہ ہماری خواہش کے مطابق فیصلہ نہ کرے اورجب بھی دونوں مضَری ہوں تو ہمارے لئے نقصان دہ ثابت ہوں گے اگرچہ وہ ہمارے اعتبار سے فیصلہ کریں۔

امام علیہ السلام : اس وقت تم لوگ ابو موسیٰ اشعری کے لئے اصرار کررہے ہو تو تم خود ذمہ دار ہو، جو تمھارا دل چلے چاہے کرو۔(۱)

ابوموسیٰ اشعری جس وقت کوفہ کا سردار تھا اس وقت اس نے لوگوں کو امام کی ہمراہی میں جنگ جمل کے فتنہ میں جانے سے روک دیا تھا اور اس نے پیغمبر کی حدیث کو بہانہ بنایا تھا کہ پیغمبر نے فرمایا کہ ''جب بھی میری امت میں فتنہ و فساد پیدا ہو تو کنارہ کشی اختیار کرو'' اس وقت ایسا شخص چاہتا ہے کہ حکمیت کے مسئلے میں امام کی نمائندگی کرے، اس کی گزشتہ سادگی میں کوئی شک نہیں ، کیونکہ طبعاً امام کا مخالف تھا اور ہر گز وہ امام کے حق میں رائے نہیں دیتا۔

امام علیہ السلام نے دباؤ ڈالنے والے گروہ کوباطل اور نقصان دہ نظریہ سے واپس لانے کی دوبارہ کوشش نہیں کی۔اس وجہ سے اپنے تمام سرداروں کو ایک جگہ جمع کیا اور تمام مطالب کو مجمع عام میں اس طرح بیان کیا۔

''آگاہ رہو کہ شامیوں نے تو اپنے نزدیک ترین فرد کا انتخاب کر لیا ہے اور تم نے حکمیت کے لئے

______________________

(۱) الاخبار الطوال ص۱۹۲۔الامامةولسیاسة ج۱،ص۱۱۳۔ تاریخ یعقوبی ج ۲ص۱۸۹۔ وقعہ صفین ص۴۹۹۔

۶۴۹

ایسے نزدیک تریک فرد کو لوگوں کے درمیان سے منتخب کیا ہے (ابو موسی) جس سے تم راضی نہیں ہو : تمھارا واسطہ عبداللہ بن قیس(۱) سے ہے، یہ وہی شخص ہے جو کل تک کہتا پھرتا تھاکہ''کہ جنگ، فتنہ ہے کمانوں کے چلّے توڑ ڈالو، اور اپنی تلواروں کو نیاموں میں رکھ لو''۔

تو اگر وہ اپنے اس قول میں سچھاتھا تو تمھارے ساتھ جنگ میں زبردستی کیوں شامل ہوا اور اگر جھوٹا تھا تو اس پر (نفاق کی)تہمت لازم ہے (پھر اس پر اعتماد کیسا؟) عمروعاص کے سینے کا راز توڑنے کے لئے عبد اللہ ابن عباس کو منتخب کرو، اور اس موقع کوہاتھ سے نہ جانے دو اور اسلامی سرحدوں کو نہ چھوڑو، کیا تم نہیں دیکھتے کہ تمھارے شہروں پر حملے ہورہے ہیں اور تمھاری سرزمین پر تیر اندازی کی جارہی ہے۔(۲)

اما م علیہ السلام کی باتوں کا سرداروں پر صرف ملاقات کے علاوہ کچھ اثر نہ ہوا، اس وجہ سے احنف بن قیس نے امام علیہ السلام سے کہا: میں نے ابو مو سیٰ کو آزمایا ہے اور اسے معمولی عقل والا پایا ہے یہ وہ ہے جس نے اسلام کے آغاز میں ان لوگوں سے مقابلہ کیا اگر آپ راضی ہوں تو مجھے حکمیت کے لئے چن لیجیۓ اور اگر مصلحت نہ ہوتو مجھے دوسرا یا تیسرا قرار دیجئے تاکہ آپ دیکھ لیجیۓ کہ عمرو عاص گرہ نہیں باندھ سکتا مگر یہ کہ میں اسے کھول دوں گا اور گرہ کو نہیں کھولے گامگر یہ کہ میں اسے باند ھ دوں گا،امام علیہ السلام نے احنف کی نمائندگی کو فوج کے سامنے پیش کیا لیکن وہ لوگ اتنے گمراہ اور جھگڑالو تھے کہ ابو موسیٰ کی نمائندگی کے علاوہ کسی کو رائے نہیں دیااور یہ انتخاب اس قدر نقصان دہ ہواکہ شام کے ایک شاعر نے اپنے شعر میں اس حقیقت کو واضح کیا ہے وہ کہتا ہے:''اگر عراق کے لوگوں کے پاس صحیح رائے ہوتی تو ان لوگوں کو گمراہی سے محفوظ رکھتی اور ابن عباس کو لوگ منتخب کرتے لیکن یمن کے بوڑھے کو منتخب کیا جو شش و پنج میں گرفتار ہے علی تک اس شخص کی بات پہونچا دو جو حق بات کہنے میں کسی کی پرواہ نہیں کرتا ابو موسیٰ اشعری امانتدار نہیں ہے۔(۳)

______________________

(۱) ابو موسیٰ اشعری کا نام ہے۔

(۲)نہج البلاغہ عبدہ خطبہ۲۳۳۔ عقدالفرید ۴،ص۳۰۹۔کامل مبّرد،ج۱،ص۱۱۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۳، ص۳۰۹۔

(۳) وقعہ صفین ص۵۰۲۔ الاخبار الطوال ص۱۹۳۔

۶۵۰

ہم آئندہ ذکر کریں گے کہ یہی لوگ جنہوں نے امام علیہ السلام پر معاویہ سے صلح کرنے کے لئے دباؤ ڈالا تھا اور حَکَم انتخاب کرنے میں آپ کے نظریہ کو رد کردیا تھا وہی پہلے لوگ ہیں جنہوں نے حکمیت کے موضوع کو بہت بڑا گناہ سمجھا اور صلح نا مہ لکھنے کے بعد امام علیہ السلام سے اس کے توڑنے پر اصرار کر نے لگے لیکن افسوس کہ امام عہد و پیمان کو کیسے توڑیں اور دوبارہ مقدس نما کم عقلوں کی بات پر عمل کریں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ حکمیت کی عبارت کس طرح لکھی گئی اور کیا تیسری مرتبہ بھی امام علیہ السلام دباؤ ڈالنے والوں کے دبائو میں رہے۔

تحمیل عہد حَکمیت

سر زمین صفین پر واقعۂ حکمیت تاریخ ِ اسلام کابے نظیر واقعہ شمار ہوتا ہے امیر المومنین علیہ السلام جو فتح و کامیابی سے دو قدم کے فاصلے پر تھے اور اگر آپ کے بے خبر اور نادان ساتھی آپ کی حمایت سے منہ نہ موڑتے یاکم سے کم ان کے لئے زحمت کا باعث نہ بنتے ، تو فتنہ کی آنکھ کو اس کے ڈھیلے سے نکال لیتے اور بنی امیہ کی خبیث حکومت جو بعد میں ۸۰ سال یا اس سے کچھ زیادہ طولانی ہوئی اسے ختم کردیتے اور تاریخ اسلام اور مسلمانوں کے تمدن کو تبدیل کردیتے ، اور عمر وعاص کی چالاکی اور بعض لوگوں کے دھوکہ کھانے ، اور اپنے نادان سپاہیوں کی ہٹ دھرمی کو جنگ جاری رکھنے اور کامیابی تک پہونچنے کے لئے مانع ہوئے۔

ان نادان دوستوں نے جو دانا دشمنوں سے زیادہ ضرر رساں تھے چار چیزوں کے بارے میں امام علیہ السلام پر دباؤ ڈالاکہ جس کا دھواںپہلے ان کی آنکھوں میں پھر تمام مسلمانوں کی آنکھوں میں گیا اور یہ ہیں۔

۱۔ جنگ بندی کو قبول کرنا اور قرآن و سنت پیغمبر کی حکمیت قبول کرنا۔

۲۔ ابو موسیٰ اشعری کو امام علیہ السلام کے نمائندہ کے طور پر چُننا۔

۳۔ حکمیت کے عہد و پیمان کی تحریر سے لقب ''امیر المومنین''کاخدف کرنا۔

۴۔ حکمیت کے عہد و پیمان کو دستخط کے بعد اس کوتوڑنے پر اصرار۔

گزشتہ بحثوں میں پہلے اور دوسرے دباؤ کے طریقے کو واضح کیا ہے اب تیسرے اور چوتھے دباؤ کے طریقے اور صلح نامہ کی عبارت کو پیش کر رہا ہوں۔

۶۵۱

قرآن کو نیزے پر بلند کرنے کی سیاست کے بعد جنگ اور بحث و مباحثہ ختم ہو گیا اور یہ طے پایا کہ دونوں فوج کے سردار حکمیت کے عہد و پیمان کو تنظیم کر دیں ایک طرف امام اور آپ کے ساتھی ، دوسری طرف معاویہ اور اس کی دوسری عقل یعنی عمر و عاص اور اس کی حفاظت کرنے والوں میں سے کچھ لوگ معین ہوئے۔ عہد نامہ کے لئے دو زرد ورق جس کے شروع اور آخر میں امام علیہ السلام کی مہر جس پر''محمد رسول اللہ(ص)''کندہ تھا اسی طرح معاویہ کی مہر جس پر یہی ''محمد رسول اللہ(ص)''لکھا تھا مہر لگا کر تیار کیا گیا اما م علیہ السلام نے صلح نامہ کی عبارت لکھوائی اور آپ کے کاتب عبید اللہ بن رافع نے لکھنے کی ذمہ داری سنبھالی امام علیہ السلام نے اپنی گفتگو کا آغاز اس طرح کیا:

''بسم اللّه الرحمن الرحیم هٰذا ماتقاضٰا علیه علی امیر المومنین و معاویة ابن ابی سفیان وشیعتهما فیماتراضیٰا به من الحکم بکتاب اللّه وسنّة نبیهِ(ص)''

امیر المومنین علی اور معاویہ اور دونوں کی پیروی کرنے والوں نے یہ فیصلہ کیاہے کہ کتاب خدا اور پیغمبر کی سنت کے مطابق حکم کو مانیں گے۔

اس وقت معاویہ اپنی جگہ سے اچھل پڑا اور کہنے لگا: وہ بہت برا آدمی ہے جو کسی کو''امیر المومنین'' کے عنوان سے قبول کرے اور پھر اس سے جنگ کرے ، عمرو عاص نے فوراً امام علیہ السلام کے کاتب سے کہا علی اور ان کے باپ کا نام لکھو وہ تمھارا امیر ہے نہ کہ ہمارا ، احنف امام علیہ السلام کے بہادرسردار نے امام سے کہا آپ اپنے نام کے ساتھ اپنے لقب امیر المومنین کو حذف نہ کیجیۓ میں ڈر رہا ہوں کہ دوبارہ یہ لقب آپ تک نہ پہونچ سکے اس کی طرف زیاوہ دھیان نہ دیجیۓ چاہے جنگ و جدال ہی کیوں نہ ہو ،گفتگو طولانی ہوگئی اور دن کاکچھ حصہ اسی گفتگو میں گزر گیا اور امام علیہ السلام اپنے نام کے ساتھ امیر المومنین حذف کرنے کیلئے راضی نہ ہوئے، اشعث بن قیس ، جو پہلے ہی دن سے دوستی کا لباس پہن کر اما م علیہ السلام کے خلاف کام کر رہا تھا، اور معاویہ سے مخفیانہ رابطہ رکھے تھا اس نے بہت اصرار کیا کہ لقب حذف کردیا جائے،اس کشمکش میں امام علیہ السلام نے ''صلح حدیبیہ''جیسے تلغ واقعۂ کو بیان کیا اور فرمایا: میں حدیبیہ کی سر زمین پر پیغمبر اسلام (ص)کا کاتب تھا ایک طرف خدا کا پیغمبراور دوسری طرف سہیل بن عمرو تھے میں نے صلح نامہ کو اس طرح سے منظم کیا '' ھذا ماتصالح علیہ محمد رسول اللّہ(ص)صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم و سھیل بن عمرو'' لیکن مشرکین کے نمائندے نے پیغمبر سے کہا، میں ہرگز ایسے خط پردستخط نہیں کروں گا جس میں تم اپنے کو ''خدا کا پیغمبر '' لکھو گے،

۶۵۲

اگر میں مانتا کہ تم خدا کے نبی ہو تو ہرگز تم سے جنگ نہیں کرتا، میر ا ظالم و ستمگر میں شمار ہو کہ تمھیں خدا کے گھر کے طواف سے روک دوں جب کہ تم خدا کے پیغمبر رہو تم یہ لکھو،''محمد بن عبد اللہ'' تاکہ میں اسے قبول کرلوں۔

اس وقت پیغمبر نے مجھ سے فرمایا علی، میں خدا کا نبی ہوں جس طرح سے کہ عبد اللہ کا بیٹا ہوں ہرگزمیری رسالت عنوان''رسول اللہ(ص)'' میرے نام سے حذف ہونے سے ختم نہیں ہوگی ، لکھو، محمد بن عبداللہ ہاں۔اس دن مشرکوں نے مجھ پربہت زیادہ دباؤ ڈالا کہ ''رسول اللہ(ص)'' کا لقب حضرت کے نام کے آگے سے ہٹا دوں۔ اگر اس دن پیغمبر اسلام نے صلح نامہ مشرکوں کے لئے لکھا تو آج میں ان کے فرزندوں کے لئے لکھ رہا ہوں میر ا اور پیغمبر ِخدا کا طور طریقہ ایک ہی ہے۔

عمر و عاص نے علی علیہ السلام سے کہا سبحان اللہ ہم لوگوں کو کافروں سے شبیہ دے رہے ہیں جب کہ ہم لوگ مومن ہیں ،امام علی السلام نے فرما یا کونسا ایسا دن تھا کہ تو کافروں کا حامی اور مسلمانوں کا دشمن نہ تھا،تو اپنی ما ں کی طرح ہے جس نے تم کو پیدا کیا ہے یہ سننے کے بعد عمروعاص وہاں سے اٹھ کے چلا اور کہا خدا کی قسم آج کے بعد کبھی بھی تمھارے ساتھ ایک جگہ نہیں بیٹھوں گا۔

امام علیہ السلام کے دوست نما لوگوں کے اس اصرار نے کہ امیر المومنین لقب کو اپنے نام کے ساتھ نہ لکھیں ،امام علیہ السلام کی مظلومیت کو اور بڑھا دیا۔(۱) لیکن امام علیہ السلام کے کچھ سچے اور حقیقی ساتھی تلواریں کھینچے ہوئے امام علیہ السلام کے پاس آئے اور کہا حکم دیجیۓ تا کہ ہم اس پر عمل کریں عثمان بن حنیف نے ان لوگوں کو نصیحت کی اور کہا میں صلح حدیبیہ میں موجو د تھا اور ہم فی الحال پیغمبر اسلام(ص)کے راستے پر چلیں گے۔(۲)

______________________

(۱) وقعہ صفین (دوسرا ایڈیشن )ص ۵۰۹،۵۰۸۔ الاخبار الطوال ص۱۹۴۔الامامةولسیاسة ج۱ص۱۱۴۔ تاریخ طبری ج۳جزئ۶ص۲۹ کامل بن اثیرج ۳،ص۱۶۲۔ تاریخ یعقوبی ج ۲ص۱۸۹۔ (تھوڑے فرق کے ساتھ) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۲ص۲۳۲۔

(۲) الامامة و السیاسة ج۱ص۱۱۲۔

۶۵۳

اما م علیہ السلام نے فرمایا: پیغمبر اسلام (ص)نے حدیبیہ میں اس واقعہ کی مجھے خبر دی تھی یہاں تک کہ فرمایا:اِنَّ لَکَ مثلهٰا سَتُعطِیْهٰا وانت مضطهد'' ایک دن تمہیں بھی ایسا واقع پیش آئے گا اور تم بے بس و مجبور ہو گے

صلح نامہ کی عبارت

اس سلسلے میں دونوں طرف کا اختلاف امام علیہ السلام کے سکوت کرنے اور پیغمبر اسلام کے طریقے پر عمل کرنے سے ختم ہوا، اور علی علیہ السلام نے اجازت دی کہ ان کا نام بغیر لقب امیر المومنین کے لکھا جائے اور صلح نامہ لکھا جانے لگا جس کے اہم دفعات یہ ہیں:

۱۔ دونوں گروہ کے َحکمَ اس بات پر راضی ہوئے کہ قرآن کی رو سے فیصلے کریں اور اس کے حکم کی خلاف ورزی نہ کریں

۲۔ علی اور ان کی پیروی کرنے والوں نے عبداللہ بن قیس ( ابوموسیٰ اشعری) کو ناظر وحاکم کے عنوان سے چنا ہے اور معاویہ اور اس کی پیروی کرنے والوںنے عمروعاص کو اس کام کے لئے منتخب کیا ۔

۳۔دونوں آدمی خدا کی کتاب کو اپنا پیشوا قرار دیں اور اگر اس نے فیصلہ کردیا تواس سے آگے نہ بڑھیں اور جہاں وہ فیصلہ نہ کرسکے وہاں پیغمبر (ص) کی سیرت وسنت کی طرف رجوع کریں اور اختلاف سے پرہیز کریں اور خواہشات کی پیروی نہ کریں اور مشتبہ کاموں کو انجام نہ دیں ۔

۴۔ عبداللہ بن قیس اور عمروعاص میں سے ہر ایک نے اپنے پیشوا ورہبر سے الٰہی عہد لیا کہ یہ دونوں قرآن اور سنت کی بنیاد پرجو بھی فیصلہ ہو گا اس پر راضی رہیں گے اور اسے توڑیںگے نہیں اور نہ ان کے علاوہ کسی کو چنیںگے اور ان لوگوں کی جان ومال و عزت و آبرو اگر حق سے تجاوز نہ کریں تو محترم ہے۔

۵۔ اگر دونوں حاکموں میں سے کوئی ایک حاکم اپنے وظیفے کو انجام دینے سے پہلے مرجائے تو اس گروہ کا امام ایک عادل شخص کو اس کی جگہ پر معین کرے گا انھیں شرائط کے ساتھ جس طرح سے اس کو معین کیا گیا تھا اور اگر دونوں پیشوا ورہبر میں سے کوئی ایک فیصلہ کرنے سے پہلے مرجائے تو اس کے ماننے والے کسی کو اس جگہ پر معین کرسکتے ہیں ۔

۶۵۴

۶۔ حاکمین سے یہ عہد لیا گیاکہ تلاش وکوشش میں غفلت نہ برتیں اور غلط فیصلہ نہ کریں اور اگر اپنے تعہد پر عمل نہ کریں تو اس عہد نامہ پرامت والوں کے لئے عمل ضروری نہیں ہوگا۔ اس عہد نامہ پر امیر اور امت اور حاکم کے لئیعمل کرنا لازم وواجب ہے اور اس کے بعد سے اس عہد نامہ کی مدت ختم ہونے تک لوگوں کی جان ومال وعزت وآبرو سب محفوظ ہے اور تمام اسلحے رکھ دیئے جائیںگے اور امن وامان کا ماحول پیدا کیا جائے گا اور اس سلسلے میں اس واقعہ میں حاضر رہنے والوں اور غائب رہنے والوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔

۷۔ حاکمین پر لازم ہے کہ عراق وشام کے درمیان اجتماع ہو اور وہاں ان کے دوست واحباب کے علاوہ کوئی اور نہ جائے اور ان کو ماہ رمضان المبارک کے آخرتک فیصلہ کر دینا چاہیئے اور اگر چاہیں تو اس سے پہلے بھی فیصلہ کرسکتے ہیں اور اسی طرح اگر وہ لوگ چاہیں تو فیصلہ موسم تمام ہونے تک کرسکتے ہیں ۔

۸۔ اگر دونوں حاکم قرآن وسنت کے مطابق فیصلہ نہ کریں تو مسلمان اپنی جنگ کو جاری رکھیں گے اور پھر دونوں فوجوں کے درمیان کوئی عہد وپیمان نہ ہوگا اور امت اسلامی کے لئے ضروری ہے کہ جو چیز اس میں تحریر ہے اس پر عمل کریں اوراگر کوئی زبردستی کرنا چاہے یا اس صلح کو توڑنے کا ارادہ کرے تو امت مسلمہ کو اور متحد ہونا چاہیے۔(۱) طبری کے نقل کے مطابق اس وقت دونوں طرف سے دس لوگوں نے پیمان حکمیت کے شاہد کے عنوان سے اپنے دستخط کئے، امام علیہ السلام کی طرف سے دستخط کرنے والوںمیں عبداللہ بن عباس، اشعث بن قیس ، مالک اشتر، سعید بن قیس ہمدانی ، خیّاب بن ارّت،سہل بن حنیف، عمرو بن الحمق الخزاعی اور امام علیہ السلام کے بیٹے امام حسن اور امام حسین تھے(۲) صلح نامہ ۱۷ صفر ۳۷ ہجری بروز بدھ عصر کے وقت لکھا گیا تھا اور دونوں طرف کے لوگوں نے دستخط کئے تھے(۳) حکمین نے چاہا کہ سرزمین '' اذرح '' ( شام وحجاز کے درمیان کی سرحدی جگہ ) میں جمع ہوں اور وہاں پر فیصلہ کریں اور دونوں طرف سے چار سو لوگ ناظر کے عنوان سے گئے تاکہ فیصلہ پر نگاہ رکھیں ۔

______________________

(۱)مروج الذھب ج۲ ص ۴۰۳۔ تاریخ طبری ج۳ جزئ۶ ص ۲۹۔ الاخبار الطوال ص ۱۹۵

(۲)تاریخ طبری ج، ۳ جزئ۶ ص ۳۰۔ وقعہ صفین ص ۵۱۰۔ کامل ابن اثیرج۳، ص۱۶۲

(۳)کامل ابن اثیر ج۳، ص ۱۶۳

۶۵۵

تحکیم کے خلاف خوارج کا رد عمل

صلح نامہ لکھے جانے کے بعد طے پایا کہ شام اور عراق کے لوگ اس گفتگو کے نتیجہ سے باخبر ہوں ، اس وجہ سے اشعث نے عراقیوں اور شامیوں کے درمیان حکمیت کے صلح نامہ کو پڑھ کر سنایا پہلی مرتبہ کسی نے بھی کوئی مخالفت نہیں کی جب کہ بعض عراقی '' عنزہ'' وغیرہ نے مخالفت کی اور پہلی مرتبہ دو عنزی نوجوان معدان اور جعد کے منھ سے یہ نعرہ نکلا '' لا حکم الا للّٰہ ''اور دونوں جوانوں نے تلواریں کھینچیں اور معاویہ کی فوج پر حملہ کردیا اور معاویہ کے خیمے کے پاس مارے گئے اور جب اس صلح نامہ کو قبیلہ مراد کے سامنے پڑھا گیا تو اس قبیلے کے رئیس '' صالح بن شفیق '' نے ان جوانوں کے نعرے کو دھہرایا اور کہا '' لا حکم الااللّٰہ ولوکرہ المشرکون''پھر اس شعر کو پڑھا:

مالعلی فی الدماء قد حکم

لوقاتل الاحزاب یوماً ما ظلم

کیا ہوا کہ علی نے اتنے لوگوں کی شہادت کے بعد حکمیت کو قبول کرلیا حالانکہ اگر فوج ( معاویہ اور اس کے ہم فکروں) سے جنگ کرتے تو ان کے کام میں نقص نہ ہوتا۔

اشعث نے اپنا کام جاری رکھا اور جب وہ قبیلہ بن تمیم کے پرچم کے روبرو ہوا تو حکمیت کے صلح نامہ کو ان کے سامنے پڑھا تو ان کے درمیان سے یہ نعرہ بلند ہوا''لا حکم الا للّٰه یقضی بالحق وهو خیر الفاصلین''اور عروہ تمیمی نے کہا''أتحکّمون الرجال فی أمراللّٰه؟ لاحکم الّا للّٰه، أین قتلانایاأشعث ''(۱) یعنی کیا لوگوں کو دین خدا میں حَکَم قراردے لیا ہے؟حکم اور فیصلہ خدا کے لئے ہے اے اشعث ہمارے لوگ کیوںقتل کئے گئے ؟ ( کیا وہ لوگ حق کی راہ میں قتل ہوئے ہیں یا باطل کی راہ میں؟)پھر اپنی تلوار سے اشعث پر حملہ کیا لیکن وار اس کے گھوڑے پر لگا اور اشعث کو زمین پر گرادیا اور اگر دوسرے افراد مدد نہ کرتے تو اشعث عروہ تمیمی کے ہاتھوں قتل ہوجاتا۔

______________________

(۱) عروہ کا خیال یہ تھا کہ اس صلح نامہ سے پہلے عراقی فوج کے تمام کام غلط تھے لہٰذا سب کے سب جہنم میں جائیں گے ،وقعہ صفین ص ۵۱۲۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ ص ۲۳۷۔ الاخبار الطوال ص۱۹۷۔ کامل ابن اثیر ج۳ ص ۱۶۳۔ مروج الذھب ج۲ ص ۴۰۳

۶۵۶

اشعث نے عراقی فوج پھر امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور ایسے باتیں کرنے لگا جیسے امام علیہ السلام کے اکثر حامی حکمیت کے صلح نامہ پر راضی ہوں اور علاوہ ایک دوگروہ کے کوئی مخالف نہیں ہے لیکن زیادہ وقت نہ گزراتھا کہ چاروں طرف سے''لا حکم الا للّٰه ، والحکم للّٰه یا علیُّ لاٰ لکَ'' کا نعرہ بلند ہوگیا اور لوگ فریادبلند کرنے لگے ہم ہرگز اجازت نہیں دیں گے کہ دین خدا میں لوگ حاکم ہوں ( اور حکم خدا کو بدل ڈالیں ) خدا نے حکم دیاہے کہ معاویہ اور اس کے ساتھی قتل ہوجائیں یا ہمارے حکم کے تابع ہوجائیں حکمیت کا واقعہ ایک لغزش تھی جو ہم سے ہوگئی اور ہم لوگ اس سے پھر گئے اور توبہ کرلیا تم بھی اس سے منھ موڑ لو اور توبہ کرلو اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو ہم تم سے بھی بیزار رہیں گے۔(۱)

چوتھا دباؤ

امام علیہ السلام کے نادان اور بے وقوف ساتھی اس مرتبہ چوتھا دباؤ ڈال رہے تھے اور وہ یہ کہ امام علیہ السلام کے لئے ضروری تھا کہ اسی دن حکمیت کے صلح نامہ کو نظر انداز کردیتے اور اسے معتبر نہ جانتے ، لیکن اس مرتبہ امام علیہ السلام نے زبردست مقابلہ کیا اور ان لوگوں کے سامنے فریاد بلند کی ۔

( ویحکم،ابعد الرضا والعهد نرجع؟ ألیس اللّٰه تعالیٰ قد قال، اوفوا بالعقود ) (۲) ( وقال ، وأوفو ا بعهد اللّٰه اذا عاهدٰ تم ولا تنقضوا الایمان بعد توکیدها وقد جعلتم اللّٰه علیکم کفیلاً ان اللّٰه یَعلَم ما تفعلون ) (۳) ،(۴)

'' لعنت ہو تم پر ،اس وقت اب یہ باتیں کررہے ہو ؟ جب کہ راضی ہوگئے ہیں اور عہد کرلیا ہے تو دوسری مرتبہ جنگ کی طرف واپس آجائیں ؟ کیا خدا کا فرمان نہیں ہے کہ '' اپنے وعدوں کو وفا کرو'' او ر پھر خدا کہتاہے ، خدا کے عہد وپیمان پر جب کہ تم نے عہد کرلیا ہے تو وفا کرو اور قسم کھانے کے بعد اسے توڑو نہیں اور جب کہ اپنے کاموں پر خدا کو ضامن قرار دیا ہے اور خدا جو کچھ انجام دیتا ہے اس سے باخبرہے۔

_______________________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ ص ۲۳۷۔ وقعہ صفین ص۵۱۳۔

(۲)سورہ مائدہ آیت ۱----(۳)سورہ نحل آیت ۹۱----(۴)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲، ص ۲۳۸

۶۵۷

لیکن امام علیہ السلام کا کلام ان لوگوں پر اثر انداز نہ ہوا اور امام علیہ السلام کی پیروی سے منھ پھیر لیا اور حکمیت کے مسئلے کو گمراہی قراردیا اور امام علیہ السلام سے بیزاری کیا اور تاریخ میں '' خوارج '' یا ''محکمہ''کے نام سے مشہور ہوگئے اور اسلامی گروہوں میں سب سے زیادہ خطرناک گروہ بنایا۔

ان لوگوں نے کبھی بھی کسی حکومت سے تعلقات نہیں رکھا اور اپنے لئے خاص نظریہ اور روش اختیار کی ہم ''مارقین'' کی بحث میں تفصیلی طور پر ان لوگوں کی فکری غلطیوں کے بارے میں بحث کریں گے اور یہ بھی ذکر کریں گے کہ مسئلہ حکمیت ، دین میں لوگوں کو حکم قرار نہیں دینا تھا بلکہ دو گروہ کے درمیان اختلاف کے وقت قرآن و سنت پیغمبر کو حکم قرار دینا تھا اور یہ بہترین راستہ تھا ، گرچہ عمرو عاص نے یہ حربہ ،حلیہ و مکر سے اختیار کیا تھا۔

امام علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں :'' انا لم نحکّم الرجالُ وانما حکمنا القرآن وهذا القرآن انما هو خط مسطور بین الدفتین لاینطق بلسان ولا بد من ترجمان وانما ینطق عنه الرجال ، ولما دعانا القوم الیٰ ان نحکم بیننا القرآن لم نکن الفریق المتولی عن کتاب اللّٰه وقد قال سبحانه ( فان تنازعتم فی شئی فردّو ه الی الله والرسول) فرده الیٰ الله أن نحکم بکتابه ورده الی الرسول أن ناخذ بسنته (۱) '' ہم نے لوگو ں کو نہیں بلکہ قرآن کو حکم مقرر کیا اور یہ دفتیوں کے درمیان لکھی ہوئی کتاب ہے جو زبان سے نہیں بولتی اس کے لئے ترجمان ضروری ہے اور وہ ترجمان آدمی ہی ہوتے ہیں جو قرآن کی روشنی میں کلام کرتے ہیں ، جس قوم (اہل شام)نے ہم سے خواہش کی ہم اپنے اور ان کے درمیان قرآن مجید کو حکم قرار دیں تو ہم ایسے لوگ نہ تھے کہ اللہ کی کتاب سے منحرف ہوجاتے ، حالانکہ خداوند عالم فرماتا ہے کہ اگر تم کسی بات میں اختلاف کرنے لگو تو خدا اور رسول کی طرف اسے پھیر دو ، خدا کی طرف رجوع کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ہم اس کتاب کو حَکم مانیں اور رسول کی طرف رجوع کرنے کے معنی ہیں کہ ہم ان کی سنت ( طریقے) پر چلیں ''

______________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۱۲۵۔طبری نے اپنی تاریخ (ج، ۳ جزئ۶ ص۳۷)میں ۳۷ ہجری کے واقعات میں ا ور ابن اثیر نے اپنی کتاب کامل ( ج ۳، ص ۱۶۶) میں اس بات کو نہج البلاغہ سے مختصر طریقے سے لکھا ہے ۔ سبط ابن جوزی نے کتاب تذکرہ (ص۱۰۰) میں ہشام کلبی سے ،شیخ مفید نے ارشاد میں (ص، ۱۲۹) ۔طبرسی نے احتجاج (ج۱، ص ۲۷۵) میں اس خطبہ کو نقل کیا ہے ۔

۶۵۸

امام علیہ السلام کا اس خطبہ کے ساتھ ایک اور جملہ بھی ہے جو توجہ کے لائق ہے امام فرماتے ہیں :

'' فاذا حکم بالصدق فی کتاب اللّه فنحن أحسن الناس به وان حکم بسنة رسول اللّٰه فنحن أولاهم به''

اگر سچائی کے ساتھ کتاب خدا سے حکم حاصل کیا جائے تو اس کی رو سے سب سے زیادہ ہم حق دار ہیں اور اگر سنت رسول کے مطابق فیصلہ کیا جائے تو ہم سب سے زیادہ اس کے اہل ہیں ۔

جی ہاں ! بالآخر جنگ صفین میں کئی مہینے تک امام علیہ السلام کا قیمتی وقت ضائع و برباد ہوا اور عراق کی فوج کے ۲۰ سے ۲۵ ہزار تک لوگ شہید ہوئے اور ۴۵ ہزار اور ایک قول کی بنیاد پر ۹۰ ہزار افراد فوج شام سے مارے گئے اور دونوں فوج ایک دوسرے سے دور ہوگئی اورلوگ اپنے اپنے شہروں کو واپس چلے گئے(۱)

قیدیوں کی رہائی

جب صلح نامہ لکھ گیا اور اس پر دستخط ہوگئے اور دونوں طرف بھیج دئے گئے تو اس وقت امیر المومنین نے دشمن کی فوج کے تمام قیدیوں کورہا کردیا ، ان قیدیوں کی رہائی سے پہلے ہی عمرو عاص اصرار کررہا تھاکہ معاویہ امام علیہ السلام کی فوج کے قیدیوں کو پھانسی دیدے جب معاویہ نے امام علیہ السلام کے اس عظیم کام کو دیکھا تو کانپنے لگا اور عاص کے بیٹے سے کہا ، اگر ہم لوگ قیدیوںکو قتل کردیتے تو دوستوں اور دشمنوں کے درمیان رسوا ہوجاتے۔

جنگ کے وقت دشمن کے قیدیوں کے ساتھ امام علیہ السلام کا طریقہ دوسرا تھا اگر کوئی قید ہوتا تو اسے آزاد کردیتے مگر یہ کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو،تو اس صورت میں قصاص ( جان کا بدلہ جان) کے طور پر قتل کردیا جاتاتھا اور اگر آزاد ہونے والا قیدی دوبارہ گرفتار ہوتا تھا تو بغیر کسی چوں چراں کے اسے پھانسی دیدی جاتی تھی کیونکہ دشمن کی فوج میں اس کا واپس جانا اس کی پلیدی وبری نیت کی عکاسی کرتاہے ۔(۲)

______________________

(۱)جنگ صفین ۱۷ صفر ۳۷ ہجری کو ختم ہوئی اور ۱۱۰ دن تک جاری رہی اور اس مدت مین ۹۰ مرتبہ حملہ ہوا۔ مسعودی نے التنبیہ والاشراف ،ص۲۵۶ مطبوعہ قاہرہ ۔ اور مروج الذھب (ج۲، ص۳۰۵) میں قتل ہونے والوں کی تعدادایک لاکھ دس ہزار لکھا ہے ( ۲۵ ہزار امام علیہ السلام کے فوجی اور ۹۰ ہزار معاویہ کے فوجی ) اور ایک قول کی بناء پر ۷۰ ہزار آدمی ( ۲۵ ہزار امام علیہ السلام کی طرف سے اور ۴۵ ہزار معاویہ کے فوجی) نقل ہو اہے ۔

(۲) وقعہ صفین ص ۵۱۸۔

۶۵۹

حکمیت پر امام ـ کی نظارت

امام علیہ السلام صفین سے کوفہ جاتے وقت حکمیت کے واقعہ سے غافل نہ تھے اور ہمیشہ ضروری نکتوں کی طرف ابن عباس ( جو ۴۰۰ لوگ اس علاقے میں بھیجے گئے تھے) کو توجہ دلاتے رہے، معاویہ بھی حکمین کے کام سے غافل نہ تھا اور اس نے بھی ۴۰۰ لوگوں کو اس علاقے میں بھیجا امام علیہ السلام کے دوستوں اور معاویہ کے دوستوں میں فرق یہ تھا کہ شامی افراد آنکھ ، کان بند کئے ہوئے اپنے سرپرست کے مطیع وفرماں بردار تھے اور جب بھی معاویہ کی طرف سے کوئی خط پہونچتا تو کوئی بھی نہیں پوچھتا کہ معاویہ نے کیا لکھا ہے ، جبکہ جب بھی امام علیہ السلام کا خط ابن عباس کے پاس آتا اس وقت سب کی نگاہیں ابن عباس پر ہوتیں کہ امام علیہ السلام نے اسے کیا حکم دیا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ ابن عباس نے ان لوگوں کی مذمت کی اور کہا جب بھی امام علیہ السلام کی طرف سے کوئی پیغام آتاہے توتم لوگ پوچھتے ہو کہ کیا حکم آیا ہے اگر اسے نہ بتاؤں تو تم لوگ کہو گے کہ کیوں چھپادیا اور اگر اسے بیان کردوں تو یہ راز سب پر ظاہر ہوجائے گا اور پھر ہمارے لئے کوئی راز، راز نہیں رہ جائے گا۔(۱)

______________________

(۱) وقعہ صفین ص ۵۳۳۔ تاریخ طبری ج، ۳ جزئ۶ ص ۳۷۔کامل ابن اثیرج۳، ص۱۶۷۔ الاخبارالطوال ص ۱۹۸

۶۶۰

اکیسویں فصل

امام ـ کی صفین سے کوفہ کی طرف روانگی

حکمیت کا مسئلہ ایک ایسا امر ہے جسے امام علیہ السلام نے زور وزبردستی اور تمام راستے بند ہوجانے کی صورت میں قبول کیا کیونکہ اگر اس کا مقابلہ کرتے تو خود اپنی فوج کے مخالفین ،معاویہ کی فوج کی مدد سے امام علیہ السلام سے جنگ کرنے کے لئے اٹھ جاتے جس کا انجام آپ اور آپ کے وفادار ساتھیوں کی بربادی کے علاوہ کچھ نہ ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب حکمیت کے تعیین کا مسئلہ ختم ہوا تو امام علیہ السلام اپنے نمائندوں کو اعزام اور فیصلہ اور مشکلات کے رفع ،دفع کرنے اور اس پر ناظر وغیرہ معین کرنے کے لئے کوفہ واپس آگئے اور وہاں سے روانہ ہوتے وقت اس دعا کو پڑھا جو پیغمبر اسلام (ص) سے نقل ہوئی ہے : '' بارالٰہا سفر کی مشکلات اور غم سے نجات عطا کر اور اہل وعیال اور مال پر بری نظر ڈالنے والوں سے پناہ مانگتاہوں ۔

امام علیہ السلام نے اس دعا کو پڑھا اور فرات کے کنارے سے کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے اور جب '' صندودائ''(۱) شہر کے پاس پہونچے تو قبیلہ بن سعید کے لوگ آپ کے استقبال کے لئے آئے اور خواہش ظاہر کی کہ ہمارے قبیلے میں تشریف لائیے اور ہمیں رونق بخشیں لیکن امام علیہ السلام نے ان کی دعوت قبول نہیں کیا(۲) آپ جب کوفہ کے نخلستان ( کھجور کے باغ) میں پہونچے تو ایک ضعیف شخص سے ملاقات ہوئی جو ایک گھر کے سائے میں بیٹھا تھا اور اس کے چہرے سے بیماری کے آثار نمایا ں تھے امام اور اس کے درمیان جو باتیں ہوئیں وہ یہ ہیں :امام علیہ السلام:تیرے چہرے کا رنگ کیوں اڑا ہے؟ کیا بیمار ہے؟

ضعیف :جی ہاں۔

امام علیہ السلام : بیماری کو اچھا نہیں سمجھتے؟

ضعیف : نہیں ، میں نہیں چاہتا کہ بیمار پڑوں۔

_______________________________

(۱) صندودائ، عراق وشام کے درمیان کا شہر ، معجم البلدان،یاقوت حموی

(۲) وقعہ صفین ص۵۲۸۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۲، ص ۸۶

۶۶۱

امام علیہ السلام:کیا اس طرح کی بیماریاں خدا کے سامنے '' بہترین نیکی'' شمار نہیں ہوتیں؟

ضعیف : کیوں نہیں ؟

امام علیہ السلام : مبارک ہو خدا کی رحمت نے تمہارا احاطہ کیا ہے اور تمہارے گناہوں کو بخش دیا ہے ، تمہارا کیا نام ہے؟

ضعیف : میرا نام صالح بن سلیم ہے اور سلامان بن طیّ اور اس کے وفادار سلیم بن منصور قبیلے سے ہوں ۔

آپ نے خوش ہوکر فرمایا: تمہارا اور تمہارے باپ اور تمہارے وفاداروں کا نام کتنا بہترین ہے کیا ہماری جنگوں میں تم نے شرکت کی ہے؟

ضعیف:نہیں ، میں جنگ میں شریک نہیں ہوسکا لیکن اس کی طرف مائل تھا جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ جسم کی کمزوری نے جو بخار کی وجہ سے ہے مجھے ان کاموں سے روک دیا ہے۔

امام علیہ السلام: خدا کے کلام کو غور سے سنو وہ فرماتاہے:( لیس علی الضعفاء ولا علی المرضی ولا علی الذین لایجدون ماینفقون حرج اذا نَصحُوالله ورسوله ماعلی المحسنین من سبیل والله غفور رحیم ) (توبہ : ۹۱)( اے رسول جہاد میں نہ جانے کا ) نہ توکمزوروں پر کچھ گناہ ہے نہ بیماروں پراورنہ ان لوگوں پر جو کچھ نہیں پاتے کہ خرچ کریں بشرطیکہ یہ لوگ خدا اور اس کے رسول کی خیر خواہی کریں ، نیکی کرنے والوں پر (الزام) کوئی سبیل نہیں ہے اورخدا بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔

امام علیہ السلام : شامیوں کے ساتھ ہمارے کام کے متعلق لوگ کیا کہتے ہیں؟

ضعیف:آپ کے دشمن اس کام سے خوش ہیں لیکن آپ کے حقیقی دوست ناراض اور افسوس کرتے ہیں ۔

امام علیہ السلام : تم سچ کہتے ہو خدا تمہاری بیماریوں کو تمہارے گناہوں کی بخشش کا سہارا قرار دے اگرچہ بیماری کا کوئی اجر نہیں ہے مگر یہ کہ گناہ بخش دئے جاتے ہیں ، اجر و ثواب ، انسان کے کردار وگفتار پر منحصر ہے لیکن کبھی بھی حسن نیت (اچھی نیت) سے غفلت نہیں برتنا چاہیے کیونکہ خداوندعالم بہت زیادہ گروہوں کو ان کی بہترین نیت کی وجہ سے جنت میں داخل کرے گا امام علیہ السلام اتنا کہنے کے بعد

۶۶۲

اپنے سفر پر روانہ ہوگئے۔(۱)

ابھی امام علیہ السلام نے تھوڑا ہی راستہ طے کیا تھا کہ عبداللہ بن ودیعہ انصاری سے ملاقات ہوئی آپ نے چاہا کہ معاویہ کے ساتھ صلح کے متعلق لوگوں کے نظریہ سے آگاہی پیدا کریں لہٰذا اس کے ساتھ کچھ دیر گفتگو ہوئی جسے ہم یہاں نقل کرتے ہیں۔

امام علیہ السلام : ہمارے کاموں کے بارے میں لوگوں کا کیا نظریہ ہے؟

انصاری : آپ کے متعلق لوگوں کے دو نظریے ہیں بعض لوگوں نے اسے پسند کیا ہے اور بعض لوگ اس سے ناراض ہیں اور ( قرآن کی تعبیر کے مطابق''ولا یزالون مختلفین '')ہمیشہ اختلاف کے خواہاں ہیں ۔

امام علیہ السلام: عقلمندوں کا کیا نظریہ ہے؟

انصاری: ان لوگوں کا کہنا ہے کہ کچھ گروہ علی کے ساتھ تھے لیکن علی نے انہیں دور کردیا بہترین قلعہ تھا لیکن اسے ویران کردیا اب علی کب ان لوگوں کو اپنے پاس بلائیں گے جنہیں دور کردیا ہے اور جس قلعہ کو ویران کیا ہے اسے کب آباد کریں گے؟ اگر وہ اسی گروہ کے ساتھ جو ان کے تابع تھے جنگ کو جاری رکھتے تو یا تو کامیاب ہوجاتے یا ختم ہوجاتے انہوں نے عقلمندی اور بہترین سیاست سے کام انجام دیا تھا۔

امام علیہ السلام : میں نے ویران کیا ہے یا ان لوگوں (خوارج) نے؟ میں نے ان لوگوں کو دور کردیا یا ان لوگوں نے اختلاف اور تفرقہ ایجاد کیا؟ اور جو یہ کہتے ہو کہ حسن تدبیر یہ تھی کہ جس وقت کچھ لوگوں نے میرے خلاف بغاوت کیا تھا تو میں اپنے وفاداروں کے ساتھ جنگ جاری رکھتا یہ ایک ایسا نظریہ نہ تھاکہ میں اس سے غافل ہوتا، میں اس بات پر حاضر تھا کہ اپنی جان کو قربان کر دیتا او رموت کو خندہ پیشانی کے ساتھ گلے لگا تا لیکن حسن وحسین پر نہیں رویا اور دیکھا کہ وہ مجھ سے پہلے شہید ہونا چاہتے ہیں لہذا میں نے اس بات کا خوف محسوس کیا کہ ان دونوں کے مرنے سے پیغمبر اسلام (ص) کی نسل نہ منقطع ہوجائے لہٰذا اس کام کو نہیں پسند کیا خدا کی قسم اگر اس مرتبہ شامیوں سے مقابلہ ہواتو اس راہ کو انتخاب کروں گا اور ہرگز وہ دونوں

______________________

(۱) وقعہ صفین ص ۵۲۸۔ تاریخ طبری ج، ۳ جزئ۶ ص ۳۲

۶۶۳

( حسن و حسین) میرے ساتھ نہ ہوں گے۔(۱)

امام علیہ السلام کے ساتھ انصاری کی صاف صاف باتیں دو مطلب کو واضح کرتی ہیں :

۱۔وہ ماحول جس میں امام علیہ السلام زندگی بسر کررہے تھے وہ آزاد ماحول تھا اور لوگوں کو یہ حق حاصل تھاکہ وہ حکومت وقت کے بارے میں اپنے افکار و نظریات کو پیش کرسکیں اور امام علیہ السلام کی نظر میں اپنے نظریہ کو ظاہر کرنے میں مخالف وموافق برابر تھے اور جب تک کہ مخالف اسلحہ نہیں اٹھاتااور حملہ نہیں کرتا مکمل آزاد رہتا تھا۔

۲۔پیغمبر اسلام (ص) کی نسل کی حفاظت کہ جسے قرآن کریم نے لفظ '' کوثر'' سے تعبیر کیا ہے اسلام کے واجبات سے اہم ہے اور اگر امام علیہ السلام معاویہ اور اپنے مخالفوں سے جنگ جاری رکھتے کہ جن کی تعداد کم نہ تھی تو خود امام علیہ السلام اور حسنین علیھم السلام شہید ہوجاتے اور پیغمبر اسلام (ص) کی نسل ختم ہوجاتی جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ خود '' امامت'' ہی ختم ہوجاتی ، جب کہ پروردگار عالم کا ارادہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ معصومین علیھم السلام کی نسل ظہور امام زمان علیہ السلام تک باقی رہے اسی لئے امام علیہ السلام نے حکمیت کو قبول کرلیا، اور تمام علتوں میں سے ایک یہ بھی علت تھی جس کی وجہ سے امام علیہ السلام نے اسے قبول کیا۔

______________________

(۱) تاریخ طبری ج، ۳ جزئ۶ ص ۳۸ ۔ کامل ابن اثیر ج۳، ص ۱۶۴،وقعہ صفین ص ۵۳۰،۵۲۹۔

۶۶۴

امام ـ خباب بن ارت کی قبر پر

امام علیہ السلام چلتے چلتے بنی عوف کے گھروں کے پاس پہونچے راستے کے داہنی طرف ایک اونچی جگہ پر آپ نے سات یا آٹھ قبروں کو دیکھا امام علیہ السلام نے ان قبروں میں دفن کے نام پوچھے ، قدامہ بن عجلان ازدی نے جواب دیا ، آپ کے صفین جانے کے بعد خباب بن ارت کا انتقال ہوگیا اور اس نے خواہش ظاہر کی تھی کہ اسے بلند جگہ پر دفن کیا جائے یہاں پر اس کے دفن ہونے کی وجہ سے لوگوں نے اپنے مردوں کو بھی اس کے اطراف میں دفن کرنا شروع کردیا ، امام علیہ السلام نے خباب کے لئے رحمت ومغفرت طلب کرنے کے بعد اس کے متعلق کہا اس نے صدق دل سے اسلام قبول کیا اور اپنی مرضی سے ہجرت کیا تھا اور پوری عمر جہاد کیا اور پھر اس کا جسم کمزور ہوگیا خداوند عالم اچھے لوگوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا اور پھر وہاں پر دفن ہوئے تمام لوگوں کے بارے میں فرمایا:

'' اے خوفناک زمین اور بے آب وگیاہ محلہ میں رہنے والو! تم پر درود وسلام ہو اے مؤمن اور مومنات ، تم نے ہم پر سبقت حاصل کی ہم بھی تمہارے پیچھے آ رہے ہیں اور کچھ ہی دیر میں تم لوگوں سے ملحق ہوجائیں گے خدایا ہمیں اور ان لوگوں کو بخش دے اور ان کی اور ہماری غلطیوں کو معاف کردے۔ (پھرفرمایا)اس خدا کا شکر جس نے زمین کو مردوں اور زندوں کے جمع ہونے کی جگہ بنائی ، شکر اس خدا کا جس نے ہمیں پیدا کیا اور پھر ہم اسی کی طرف پلٹ کر جائیں گے اور اس کے سامنے حاضر ہوں گے کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو قیامت کو یاد کرتے ہیں اور حساب وکتاب کے دن کے لئے صحیح امور انجام دیتے ہیں

۶۶۵

اور اپنے امور میں قناعت کرتے ہیں۔(۱)

پھر امام علیہ السلام نے اپنے سفر کو جاری کیا اور قبیلہ ہمدان کے گھروں کے پاس سے گزر رہے تھے کہ آپ نے عورتوں کے رونے کی آواز سنی ، جو جنگ صفین میں قتل ہونے والے اپنے رشتہ داروں پر رورہی تھیں۔

امام علیہ السلام نے شرحبیل کو بلایا اور کہا: کہ اپنی عورتوں سے کہو کہ صبر کریں اور چیخ و فریاد نہ کریں اس نے امام علیہ السلام کے جواب میں کہا: اگر بات صرف چند گھروں کی ہوتی تو اس درخواست پر عمل کرنا ممکن تھا لیکن تنہا صرف اس علاقے سے ۱۸۰ آدمی قتل ہوئے ہیں اور کوئی بھی ایسا گھر نہیں ہے جہاں گریہ وزاری نہ ہو لیکن ہم سب مرد ہرگز نہیں روتے بلکہ ہم لوگ ان کی شہادت پر بہت خوش ہیں ، امام علیہ السلام نے ان کے مرنے والوں پر رحمت کی دعا دی، امام علیہ السلام چونکہ گھوڑے پر سوار تھے اور شرحبیل نے چاہا کہ آپ کو کچھ دور جا کر خداحافظ کرے لہذا اس سے فرمایا: ارجع فان مشی مثلک فتنة لِلوالی ومذ لة للمومنین(۲) یعنی واپس چلے جاؤ کہ اس طرح سے مشایعت کرنا( کسی کو رخصت کرنے کے لئے تھوڑی دور جانا) حاکم کے غرور ارو مومنین کی ذلت کا سبب ہے۔

جب آپ کوفہ پہونچے تو چار سو لوگوں کو حکمین کے کاموں پر بعنوان ناظر معین کیا اور شریح کو فوج کا سردار اور ابن عباس کو مذہبی پیشوا معین کیا اور پھر وہ وقت آیا کہ اپنے زبردستی منتخب ہونے والے نمائندے

______________________

(۱) تاریخ طبری ج، ۳ جزئ۶ ص ۳۴ ۔ کامل ابن اثیر ج۳، ص ۱۶۴۔وقعہ صفین ص ۵۳۰،۵۲۹

(۲)وقعہ صفین ص ۵۳۱۔ تاریخ طبری ج، ۳ جزئ۶ ص ۳۵ ۔ کامل ابن اثیر ج۳، ص ۱۶۴

۶۶۶

یعنی ابوموسیٰ اشعری کوبھیجیں(۱)

امام علیہ السلام اپنے دور خلافت کے آغا ز ہی سے اپنی خلافت ورہبری میں اس کی بے پرواہی سے باخبر تھے اور لوگ بھی اس کی سادگی اور بے وقوفی سے آگاہ تھے یہی وجہ ہے کہ اس کو بھیجنے کے وقت امام علیہ السلام اور لوگوں نے اس سے گفتگو کی اس میں سے بعض باتوں کو ہم یہاں نقل کررہے ہیں ۔

امام علیہ السلام اور ابو موسیٰ اشعری کے درمیان گفتگو

ابو موسیٰ اشعری کی بیوقوفی اور کم عقلی کودوست ودشمن سبھی جانتے تھے اور اسے (بغیر دھار اور قبضے کی چھری)اور کم ظرف کہتے تھے لیکن علی علیہ السلام کیا کرسکتے تھے؟ ان کے سادہ اور کم ظرف دوستوں نے جو ابوموسیٰ اشعری ہی کی صفت کے تھے امام کو دو چیزوں پر مجبور کردیا تھا۔کہ خود حکمیت کو قبول کریں اور حکم کے عنوان سے ابو موسی اشعری ہی ہو امام علیہ السلام نے ابو موسیٰ کو '' دومة الجندل'' بھیجتے وقت اس سے اور اپنے کاتب عبیداللہ بن ابی رافع سے اس طرح گفتگو کی:

امام علیہ السلام نے ابو موسیٰ سے کہا '' احکم بکتاب اللہ ولا تجاوزہ '' یعنی خدا کی کتاب کے مطابق فیصلہ کرنا اور اس سے تجاوز نہ کرنا۔

جب ابو موسیٰ روانہ ہوا تو امام علیہ السلام نے فرمایا میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ اس واقعہ میں ضرور دھوکہ کھائے گا۔

عبیداللہ : اگر واقعا ایسا ہے اور وہ دھوکہ کھائے گا تو پھر اسے کیوں بھیج رہے ہیں ؟

امام علیہ السلام :''لوعمِلَ اللّهُ فی خَلقِهِ بعلمه مااحتج علیهم بالرسل '' (۲) یعنی اگر خداوند عالم اپنے علم کے مطابق اپنے بندوں سے محاسبہ کرتاتو وہ پیغمبروں کو نہ بھیجتا اور ان کے ذریعے سے ان لوگوں پر اپنی دلیلیں قائم نہیں کرتا۔

______________________

(۱)وقعہ صفین ص۵۳۳،۔تاریخ طبری ج، ۳ جزئ۶ ص ۳۷ ۔مروج الذھب ج۲، ص ۴۰۶

(۲) مناقب ابن شہر آشوب ج۲، ص ۲۶۱

۶۶۷

فوج کے سردار اور ابوموسیٰ اشعری کے درمیان گفتگو

سردار شریح بن ہانی جسے امام علیہ السلام نے چار سو آدمیوں پر مشتمل ایک گروہ کے ساتھ دومة الجندل بھیجا تھا اس نے ابو موسیٰ کا ہاتھ پکڑ کر کہا ، تمہارے کاندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری ہے ایسا کام نہ کرنا کہ جس کی تعمیر ممکن نہ ہو، جان لو کہ اگر معاویہ نے عراق پر قبضہ کرلیا تو پھر عراق باقی نہ رہے گا لیکن اگر علی نے شا م پر قبضہ کرلیا تو شامیوں پر کوئی آفت ومشکل نہیں آئے گی تم نے امام علیہ السلام کی حکومت کے اوائل میں خاموشی اختیار کی ، اگرتم نے پھر ایسا کیا توجان لو کہ گمان یقین میں اور امید، نا امیدی میں بدل جائے گی۔

ابو موسیٰ اشعری نے اس کے جواب میں کہا : وہ گروہ جو ہم پر الزام لگارہا ہے اس کے لئے بہتر نہیں ہے کہ مجھے قاضی کے طور پر معین کریکہ باطل کو ان لوگوں سے دور اور حق کو ان لوگوں سے قریب کروں(۱) امام علیہ السلام کی فوج کے مشہور شاعر اور ابوموسیٰ کے دوست نجاشی نے اس کے لئے اشعار کہے جس میں اسے حق اور عدالت کی رعایت کرنے کی تاکید کی اور جب وہ اشعار ابوموسیٰ کو سنایا گیا تو اس نے کہا ، میری خدا سے دعا ہے کہ میرا نصیب چمک اٹھے اور خدا کی مرضی کے مطابق اپنے فریضہ کو انجام دوں ۔(۲)

______________________

(۱) الامامة والسیاسة ج۱، ص ۱۱۵۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۲، ص ۲۴۵

(۲) وقعہ صفین ص۵۳۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۲، ص ۲۴۷

۶۶۸

ابو موسیٰ اشعری اور احنف کے درمیان گفتگو

سب سے آخر میں جس نے ابو موسیٰ اشعری کو خدا حافظ کیا وہ احنف تھا، اس نے ابو موسیٰ کا ہاتھ پکڑا اور اس سے یہ کہا اس کام کی عظمت کی قدر کرو اور جان لو کہ یہ کام جاری رہے گا اگر عراق کوبربادکیا تو پھر عراق ختم ہوجائے گا ، خدا کی مخالفت کرنے سے پرہیز کرو ، خدا دنیا وآخرت کو تمہارے لئے ذخیرہ کرے گا اگر آئندہ عمروعاص سے تمہاری ملاقات ہو تو تم پہلے سلام مت کرنا اگر چہ پہلے سلام کرنا مستحب ہے لیکن وہ سلام کے لائق نہیں ہے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں نہ دینا کیونکہ تیرا ہاتھ امت کی امانت ہے ممکن ہے کہ تجھے مجمع میں صدر جگہ پر بٹھائے تو جان لو کہ اس کام میں دھوکہ وفریب ہے اور اگر تم سے اکیلے میں بات کرنا چاہے تو اس سے پرہیز کرنا کیونکہ ممکن ہے وہاں کچھ لوگوں کو گواہ کے طور پر چھپائے رہے تاکہ بعد میں وہ لوگ تمہارے خلاف گواہی دیں۔

پھر احنف نے ابو موسیٰ کو آزمانے کے لئے کہ امام علیہ السلام سے اسے کتنا خلوص ہے اس سے یہ درخواست کی کہ ، اگر عمرو کے ساتھ امام علیہ السلام کے بارے میں توافق نہ ہوسکے تو اس سے درخواست کرنا کہ عراقی لوگ شام میں رہنے والے قرشیوں میں سے کسی کو بھی خلیفہ چن سکتے ہیں اور اگر اسے قبول نہ کیا تو دوسری درخواست کرنا اور وہ یہ کہ شامی لوگ عراقیوں میں سے کسی ایک کو بھی خلیفہ منتخب کرسکتے ہیں(۱)

ابو موسیٰ نے اس بات کو ، جس میں امام علیہ السلام کا خلافت سے معزول ہونا اور دوسرے خلیفہ کا انتخاب تھا، سنا لیکن اس نے کوئی عکس العمل نہ دکھایا۔

احنف فوراً امام علیہ السلام کی خدمت میں آئے اور پورا واقعہ آپ سے بیان کیا اور کہا کہ ہم ایسے شخص کو اپنے حق کے ثابت کرنے کے لئے بھیج رہے ہیں جو آپ کے عزل اور دور ہونے کی پرواہ نہیں کرتا۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: '' ان اللّٰہ غالب علیٰ امرہ''احنف نے کہا یہ کام ہم لوگوں کی ناراضگی کا سبب ہے۔(۲)

______________________

(۱) الامامة والسیاسة ج۱، ص ۱۱۶۔وقعہ صفین ص۵۳۶۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۲، ص ۲۴۹

(۲) وقعہ صفین ص۵۳۷

۶۶۹

سعد وقاص اور اس کا بیٹا عمر

سعد وقاص ان لوگوں میں سے تھاجس نے امام علیہ السلام کے ہاتھوں پر بیعت نہیں کیا تھا لیکن خود کو قضیے میں داخل نہیں کیا تھا اور جنگ صفین کی آگ بھڑکنے کے بعد وہ سرزمین بنی سلیم چلا گیا اور مستقل دونوں فوجوں کی خبروںسے آگاہ ہورہاتھا ، اسی فکر میں غرق تھا کہ ایک دن دور سے اسے سواری نظر آئی جو اسی کی طرف آرہی تھی لیکن جب نزدیک پہونچی تو معلوم ہوا کہ وہ اس کا بیٹا عمر ہے ( یہ وہی شخص ہے جس نے کربلا میں امام حسین اور آپ کے باوفا ساتھیوں کو قتل کیا تھا) باپ نے اس سے حالات معلوم کئے اور عمر نے جبری حکمیت اور دومة الجندل میں حکمین کے اجتماع کی خبر دی اور اپنے باپ سے کہا کہ اسلام کی آپ نے بہت خدمتیں کی ہیں لہٰذا آپ اس علاقے میں ضرور جائیں ،شاید کہ خلافت اسلامی پر آپ کا قبضہ ہوجائے ، باپ نے کہا، بیٹا خاموش رہو میں نے پیغمبر سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا

۶۷۰

ہے کہ میرے بعد فتنہ برپا ہوگا اور بہترین شخص وہ ہے جو اس سے بچا رہے اور اس سے دور رہے ، خلافت کا مسئلہ ایک ایسا امر ہے کہ میں نے پہلے ہی دن سے اس میں دخالت نہیں کی اورآئندہ بھی داخل نہیں ہوؤں گا اور اگر بنا یہ ہو کہ میں اس میں دخالت کروں تو علی کا ساتھ دوں گا لوگوں نے تلوار سے مجھے ڈرایالیکن میں نے اسے آگ پر مقدم کیا۔(۱)

سعد وقاص نے دونوں طرف سے کسی ایک کی مدد کرنے کو فتنہ وفساد سمجھا اور اس کے نتیجہ واختتام کو آگ تصورکیا لیکن اس کے باوجود اس نے علی علیہ السلام کی شخصیت کو معاویہ پر ترجیح دیا اور اسی رات جو اس نے اشعار کہے تھے اس میں علی علیہ السلام کی تعریف اور معاویہ کی مذمت کی تھی اور کہا تھا:

ولو کنت یوماً لا محالة وافداً

تبعت علیاً والهویٰ حیث یُجعلُ

اگربنا ہو کہ کسی دن اس کام کے لئے اقدام کروں تو علی کی پیروی کروں گا یہاں تک کہ وہ راضی ہوں ، اس کے اندھے دل کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ امام علیہ السلام کی پیروی اور اطاعت جو غدیر خم میں سب پر واضح اور روشن ہوگئی اور عثمان کے قتل کے بعد تمام مہاجرین وانصار نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی ، کو فتنہ میں داخل کرتاہے جب کہ ایسے امام سے منھ موڑنے والے کا انجام جہنم میں داخل ہونا ہے(۲)

______________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۲، ص ۲۴۹

(۲) وقعہ صفین ص۵۳۹

۶۷۱

معاویہ کا حالات سے پریشان ہونا

بعض صحابہ اور ان کے بیٹے ،جنہوں نے علی علیہ السلام سے دور رہنے کے بعد بھی معاویہ کا ساتھ نہیں دیا تھا اور جنگ تمام ہونے کے بعد معاویہ کے کہنے پر شام آگئے تھے مثلا ً عبداللہ بن زبیر ، عبداللہ بن عمر، مغیرہ بن شعبہ '' معاویہ نے مغیرہ سے التجا کی کہ وہ اس کام میں اس کی مدد کرے اور اسے حکمین کی فکروں سے آگاہ کرے مغیرہ نے یہ ذمہ داری قبول کرلی اور دومة الجندل کے لئے روانہ ہوگیا اور حکمین کے نظریات معلوم کرنے کے لئے ہر ایک سے الگ الگ ملاقات کی ، سب سے پہلے اس نے ابو موسیٰ سے ملاقات کی اور کہا اس شخص کے بارے میں تمہارا کیا نظریہ ہے جس نے اس اضطرابی کیفیت سے پرہیز اور قتل وخوں ریزی سے دوری اختیار کی ہے ؟ ابو موسیٰ نے کہا ، وہ لوگ نیک اور اچھے افراد ہیں ! ان کی پیٹھ خون کے بوجھ سے ہلکی اور ان کے پیٹ حرام مال سے خالی ہیں ۔

پھر اس نے عمرو سے ملاقات کی اور یہی سوال اس سے بھی کیا اس نے جواب دیاکہ کنارہ کشی کرنے والے بدترین لوگ ہیں نہ ان لوگوں نے حق کو پہچانا ہے اور نہ باطل کا انکار کیاہے ۔ مغیرہ شام واپس آگیا اور معاویہ سے کہا میں نے دونوں حکم کا امتحان لیا ، ابو موسیٰ ،علی کو خلافت سے دور کردے گا اور عبداللہ بن عمر جو اس واقعہ میں شریک نہیں ہوا تھا اسے خلافت دیدے گا لیکن عمرو عاص تمہارا قدیمی ساتھی ہے لوگوں کا کہنا ہے وہ خلافت خود لینا چاہتا ہے اور تجھے اپنے سے بہتر نہیں جانتا۔(۱)

______________________

(۱)وقعہ صفین ص ۵۳۹۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۲، ص ۲۵۱۔ کامل ابن اثیر ج۳، ص ۱۶۷۔

۶۷۲

فتنہ حکمیت کا خاتمہ

وہ مسائل جن کے لئے ضروری تھا کہ دونوں طرف کے نمائندے اس موضوع پر گفتگو کریں اور اس کے حکم کو کتاب وسنت سے نکالیں اور امام علیہ السلام اور معاویہ کے ساتھیوں کو اس کی خبر کردیں وہ موضوع یہ ہیں :

۱۔ عثمان کے قتل کی تحقیق ۔

۲۔ امام علیہ السلام کی حکومت کا قانونی ہونا۔

۳۔ امام علیہ السلام کی قانونی حکومت سے معاویہ کی مخالفت اور اس کا صحیح ہونا۔

۴۔ وہ چیز جو ایسے حالات میں صلح کی ضامن بنے۔

لیکن افسوس کہ حکمین نے جس موضوع پر بحث وگفتگو نہیں کی وہ یہی چار موضوع تھے کیونکہ

ان میں سے ہر ایک خاص سابقہ ،تجربہ کے ساتھ حکمیت کے میدان میں وارد ہوا اور اپنی ہی خواہش کے مطابق حکم چلانا چاہا اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان موضوعات کاحکمین سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔

حکمین اور نظارت کرنے والوں کے بہت دنوں تک دومة الجندل میں رہنے کی وجہ سے اسلامی معاشرے کے اندر تشویش اور خوف کا سماں بن گیا اور ہر آدمی طرح طرح کی باتیں سوچ رہا تھا عجلت کرنے والے ، اسی طرح کم عقل لوگ کچھ اور فکر میں تھے تو دور اندیش اور دانشمند کچھ اور فکر کررہے تھے۔ سب سے پہلے جس موضوع پر بحث ہونی تھی وہ یہ تھی کہ خلیفہ سوم اور اس کے حاکم کے عمدہ امور جس پر اعتراضات ہوئے ہیں انہیں صحیح سندوں کے ساتھ پیش کیا جائے اور پھر جن لوگوں نے خلیفہ کو قتل کیا ہے چاہے عراقی ہوں یا مصری یا صحابی ، انہیں دعوت دی جائے اور ا س مسئلہ کی دقیق تحقیق و جستجو کی جائے اور قاتلوں کے اس دعوے کو کہ خلیفہ نے اسلامی اصولوں کو نظر انداز کردیا تھا اور رسول خدا (ص) کی سیرت حتیٰ شیخین سے بھی منحرف ہوگیاتھا ، منصفانہ تحقیق کی جائے لیکن اس سلسلے میں دقت سے کام نہیں لیا گیا

۶۷۳

اور صرف عمروعاص نے اپنے مقصد کے حصول( امام کو خلافت سے دور کرکے اس جگہ پر معاویہ یا اپنے بیٹے عبداللہ کو مسند خلافت پر بٹھائے )کے لئے ابو موسیٰ سے کہا: کیا تو اس بات کو قبول کرتاہے کہ عثمان مظلوم قتل ہواہے؟ اس نے بھی ایک طرح سے تصدیق کردی(۱) اور کہا، خلیفہ کے قاتلوں نے انہیں تو بہ کرایا پھر قتل کردیا جب کہ مجرم توبہ کرلے تو اس کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں ۔

اور اسی طرح وہ موضوع جو اصلاً زیر بحث نہ رہا وہ امام علیہ السلام کی حکومت کا قانونی ہونا تھا ، وہ حکومت جو مہاجرین وانصار کے اتحاد واتفاق سے علی علیہ السلام کو ملی اور خودآپ ابتداء میں اسے قبول نہیں کررہے تھے اور جب مہاجرین وانصار کے مجمع کو دیکھا کہ سب کے سب اصرار کررہے ہیں کہ ان کے علاوہ کسی کے ہاتھ پر بیعت نہیں کریں گے اس وقت آپ نے اپنی ذمہ داری کا احساس کیا اور حکومت قبول کی ، اگر سقیفہ میں خلیفہ اول کی خلافت چند آدمیوں کی بیعت سے قانونی ہوگئی اور خلیفہ دوم کی خلافت ابوبکر کے نصب کرنے سے قانونی ہوگئی تو امام علیہ السلام کی خلافت تمام مہاجرین وانصار ( علاوہ پانچ لوگوں ) کی بیعت کی وجہ سے قطعاً حقیقی اور قانونی تھی اور اس کے بارے میں ہرگز شک وتردد نہیں کرنا چاہیے۔

اور تیسرے مرحلے میںبھی مثل دوسرے مرحلے کے اصلاً گفتگو نہ ہوئی کیونکہ دونوںحَکم جانتے تھے کہ معاویہ کے مخالفت کرنے کی صرف وجہ یہ تھی کہ امام علیہ السلام کو منصب خلافت سے ہٹا کر خلافت پر قبضہ کرلے ، معاویہ کی پوری زندگی ، اس کے رفتار وکردار چاہے عثمان کے قتل سے پہلے چاہے اس کے بعد سب پر واضح ہے کہ وہ بہت دنوں سے خلافت کو بنی امیہ میں لے جانا چاہتاہے تاکہ خلافت اسلامی کے نام پر قیصر وکسریٰ کی سلطنت کو زندہ کرے اور '' خلیفہ کے خون کا بدلہ اور قاتلوں کو سزا وقصاص دینا'' یہ سب قانون

______________________

(۱)الاخبار الطوال ص۱۹۹

۶۷۴

توڑنے اور مخالفت کی توجیہ کرنے کے لئے ایک بہانہ تھا اگر وہ حقیقت میں اپنے کوعثمان کے خون کا ولی سمجھتا تو ضروری تھا کہ تمام مسلمانوں کی طرح امام علیہ السلام کی قانونی حکومت کی پیروی کرتا اور ا س وقت خلیفہ وقت سے کہتا کہ عثمان کے قاتلوں کے قصاص کے بارے میں اقدام کریں ۔

امام علیہ السلام نے معاویہ کی مخالفت کے اوائل ہی میں کئی مرتبہ خلیفہ کے مخالفوں کی مخالفت میں دلیل وغیرہ قائم کر کے دکھایا اور کہا کہ میرا سب سے پہلا فریضہ یہ ہے کہ میں لوگوں کو متحد کروں اور مہاجرین وانصار کی شوریٰ (انجمن) کا احترام کروں اور پھر دعوے اور قصاص وغیرہ کے مسئلہ کو حل کروں اور جب تک وہ حکومت کو صحیح تصور نہیں کرتا تو وہ کسی بھی مسئلہ کو بیان کرنے کا حق نہیں رکھتا۔

چوتھے مرحلے میں ، ابوموسیٰ نے بجائے اس کے کہ معاویہ کی سرکشی کی اس حکومت پر جو مہاجرین وانصار کے توسط سے بنی تھی مذمت کرتا ،یا خود اپنے کو امام علیہ السلام کی خلافت کے اوائل میں بیعت نہ کرنے کی وجہ سے مقصر سمجھتا ، اس نے دونوں طرف کے لوگوں کو قصور وار ٹھہرایا اور چاہا کہ ایسے شخص کوخلافت کے لئے منصوب کرے کہ جس کے افتخار کے لئے یہی کافی تھا کہ وہ خلیفہ دوم کا بیٹا ہے اور ان تمام چیزوں سے دورتھا جب کہ عبداللہ بن عمر کام وغیرہ کرنے میں اتنا ضعیف تھا کہ اس کے باپ نے اس کے بارے میں کہا تھا کہ میرا بیٹا اس قدر سست ہے کہ اپنی عورت کو طلاق دینے سے بھی عاجزہے(۱)

جب کہ حکمین کا فریضہ یہ تھا کہ ان چاروں موضوع پر منصفانہ بحث وگفتگو کرتے اور شاید امام علیہ السلام کی حکومت کا قانونی ہونا اور مرکزی حکومت معاویہ کی سرکشی پر توجہ دینا ہی کافی تھا کہ دوسرے مواردمیں صحیح رائے ومشورہ لیا جاتا ،لیکن افسوس امام علیہ السلام کے نادان دوستوں نے آپ پر ایسے نمائندہ کو تحمیل کردیا تھا کہ جو فیصلہ اور دلیل قائم کرنے میں ایسے ذرات کی طرح تھا جسے ہوا کے جھونکے ادھر سے ادھر کرتے ہیں ۔

عمروعاص نے دومة الجندل میں قدم رکھتے ہی ابوموسیٰ اشعری کا پیغمبر کا صحابی اور اپنے سے بزرگ ہونے کی حیثیت سے اس کا احترام کرنے لگا اور گفتگو کرتے وقت ہمیشہ اسے مقدم کرتاتھا اور جس وقت یہ طے پایا کہ دونوں حَکم علی اور معاویہ کو معزول کریں اس وقت بھی عمروعاص نے اپنا نظریہ ظاہر کرنے اور اپنے پیشوا کو

______________________

(۱) طبقات ابن سعد ج۳، ص ۳۴۳ مطبوعہ بیروت

۶۷۵

معزول کرنے میں بھی اسی کو مقدم رکھا ، کیونکہ دنوں کے دومة الجندل میں دونوں کی روش یہی تھی ، اسی وجہ سے پہلے ابو موسیٰ نے امام علیہ السلام کو خلافت سے دور کیا اور چلتے وقت تمام دوستوں نے جو سفارشیں کی تھیں اسے نظر اندازکردیالیکن عمرو عاص نے فوراً ہی معاویہ کو مسند خلافت پر بٹھا دیا ! یہاں بھی دونوں کے درمیان ہوئی باتوں کو نقل کررہے ہیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ حکمیت کا کھیل کس طریقے سے ختم ہوا اور امام علیہ السلام کے سادہ لوح اور ضدی ساتھیوں نے اسلام کو کیا نقصان پہونچایا :

عمروعاص: کیا تم جانتے ہو کہ ، عثمان مظلوم قتل ہوئے ہیں ؟

ابوموسیٰ : ہاں ۔

عمروعاص: اے لوگو تم لوگ گواہ رہنا علی کے نمائندے نے عثمان کے مظلوم ہونے کا اعتراف کرلیا ہے، اس وقت ابو موسیٰ کی طرف متوجہ ہوکر کہا ،کیوں معاویہ سے کہ جو عثمان کا ولی ہے اپنا منھ پھیرے ہو جب کہ وہ بھی قرشی ہے؟ اور اگر لوگوں کے اعتراض کرنے کی وجہ سے ڈر رہے ہو کہ لوگ کہیں گے کہ ایسے شخص کو خلافت کے لئے چنا ہے جس کا اسلام میں کوئی سابقہ، خدمات نہیں ہے توتم یہ جواب دے سکتے ہو کہ معاویہ خلیفہ مظلوم کا ولی ہے اور خلیفہ کے خون کا بدلہ لینے کی قدرت رکھتا ہے اور تدبیر وسیاست کے لحاظ سے ممتاز ہے اور پیغمبر سے نسبت کے اعتبار سے پیغمبر کی بیوی ( ام حبیبہ) کا بھائی ہے اس کے علاوہ اگر خلافت کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں ہوگی تو سب سے زیادہ تمہارا احترام کرے گا۔

ابوموسیٰ : خدا سے ڈر ،خلافت ان لوگوں کے لئے ہے جو اہل دین وفضیلت ہیں اور اگر خلافت کے لئے خاندانی شرافت معیار ہے تو قریش میں سب سے شریف علی ہیں ، میں نے ہرگز پہلے مہاجرین کو نظر انداز نہیں کیا ، معاویہ کو خلافت کے لئے منتخب نہیں کروں گا، یہاں تک اگر معاویہ میرے لئے خلافت سے دور ہوجائے پھر بھی میں اس کی خلافت کے لئے رائے نہیں دوں گا اگر تو چاہے تو عمر بن خطاب کا نام زندہ کریں اور عبداللہ بن عمر کو خلافت کے لئے منتخب کریں۔

عمرو عاص : اگر تو عبداللہ بن عمر کی خلافت چاہتا ہے تو کیوں میرے بیٹے عبداللہ کی تائید نہیں کرتاکہ وہ ہرگز اس سے کم نہیں ہے اور اس کی سچائی اور فضیلت سب پر واضح ہے؟

ابوموسیٰ: وہ بھی اپنے باپ کی طرح اس فتنے میں شریک ہے اور خلافت کے لائق نہیں ہے ۔

۶۷۶

عمروعاص: خلافت اس کے لئے قطعی ہے جو خود بھی کھائے اور دوسرے کوبھی کھلائے اور عمر کے بیٹے میں یہ چیز موجود نہیں ہے۔

ابھی تک ہم لوگ کسی فرد پر متفق نہیں ہوئے کوئی دوسرا مشورہ دو شاید اس پر توافق ہو جائے اس کے بعد دونوں نے خفیہ طور پر جلسہ منعقد کیا جس چیز پر دونوں نے توافق کیا وہ حسب ذیل ہیں:

ابوموسیٰ : میرا نظریہ ہے کہ دونوں (علی اور معاویہ )کو خلافت سے معزول کر دیں اور خلافت کا فیصلہ مسلمانوں کی شوریٰ کے حوالے کردیں ، تاکہ وہ لوگ جس کو بھی چاہیں خلیفہ منتخب کریں۔

عمروعاص: میں اس نظریہ سے موافق ہوں اور ضروری ہے کہ اپنے نظریہ کو باقاعدہ طور پر اعلان کروں، ناظر اور دوسرے افراد جو حکمین کے فیصلے کے منتظر تھے سب کے سب جمع ہوگئے تاکہ ان دونوں کی گفتگو سنیں ، اس وقت عمرو نے ابوموسیٰ کی بیوقوفی اور کم عقلی سے فائدہ اٹھایا اور اسے مقدم کیا کہ گفتگو کا آغاز کرے اور اپنے نظریہ کو بیان کرے ، ابوموسیٰ ان تمام چیزوں سے غافل تھا کہ ممکن ہے کہ عمروعاص میری گفتگو کے بعد اس نظریہ کی جس پر دونوں نے موافقت کی تھی تائید نہ کرے لہٰذا اس نے اپنی گفتگو شروع کی اور کہا:

'' میں اور عمروعاص ایک نظریہ پر متحد ہیں اور امید ہے کہ اس میں مسلمانوں کی کامیابی اور مصلحت ہو گی ۔

عمروعاص: بالکل صحیح ہے اپنی گفتگو کو جاری رکھئے۔

اس موقع پر ابن عباس ابوموسیٰ کے پاس پہونچے اور اسے متنبہ کیا اور کہا کہ اگر تم لوگ ایک ہی نظریہ پر متحد ہوتو اجازت دو کہ پہلے عمروعاص گفتگو کرے اور پھرتم اپنے نظریہ کو بیان کرو، کیونکہ اس سے کوئی بعید نہیں ہے کہ وہ جس چیز پر متحد ہے اس کے برخلاف بیان کرے ، لیکن ابوموسیٰ نے ابن عباس کے منع کرنے کے باوجود اس پر کوئی توجہ نہیں دی اور کہا، چھوڑدو ، ہم دونوں نے ایک ہی نظریہ پر موافقت کی ہے اور پھر اٹھا اور کہا:

ہم لوگوں نے امت کے حالات کا جائزہ لیا اور اختلاف ختم کرنے اور پھر سے متحد ہونے کے لئے اس سے بہتر کوئی راستہ نہیں دیکھا کہ علی اور معاویہ کو خلافت سے معزول کردیں اور خلافت کے مسئلے کو مسلمانوں کی شوریٰ کے حوالے کردیں تاکہ وہ لوگ جس کو چاہیں بہ عنوان خلیفہ منتخب کرلیں ، اس بنیاد پر ، میں نے علی اور معاویہ کو خلافت سے معزول کردیا۔

۶۷۷

یہ جملے کہنے کے بعد وہ بیٹھ گیا پھر عمروعاص ابوموسیٰ کی جگہ پر کھڑا ہوا اور خداکی حمد وثناء کے بعد کہا '' اے لوگو ، تم نے ابوموسیٰ کی گفتگو سنی اس نے اپنے امام کو معزول کردیا اور میں اس سلسلے میں اس کا موافق ہوں اور انہیں خلافت سے معزول کررہا ہوں لیکن اس کے برخلاف ،میں نے معاویہ کو خلافت پر باقی رکھا ہے وہ عثمان کا ولی اور اس کے خون کا بدلہ لینے والا ہے اورخلافت کے لئے بہترین شخص ہے''۔

ابوموسیٰ نے غصہ میں آکر عمروعاص سے کہا : تو کامیاب نہیں ہوگا جوتو نے مکروفریب اور گناہ کیا ہے تیری مثال اس کتے کی ہے کہ اگراس پر حملہ کیا جائے تو اپنا منھ کھولتا ہے اور اپنی زبان کو باہر نکالتاہے اور اگر اسے چھوڑدیا جب بھی وہ ویسا ہی ہے(۱)

عمروعاص: تیری بھی حالت گدھے کی طرح ہے اگرچہ اس کی پیٹھ پر بہت کتابیں ہوں(۲)

اس وقت عمرو کا مکروفریب سب پر ظاہر ہوگیا اور لوگ منتشر ہوگئے(۳)

شریح بن ہانی اپنی جگہ سے اٹھے اور زبردست تازیانہ عمرو کے سر پر مارا ، عمروعاص کا بیٹا اپنے باپ کی مدد کے لئے دوڑا اور شریح پر تازیانہ مارا اور لوگ دونوں کے درمیان میں آگئے ۔ شریح بن ہانی بعد میں یہی کہتے تھے کہ ، میں بہت پشیمان ہوں کہ کیوں تازیانہ کہ جگہ پر میں نے اس کے سر پر تلوار نہیں ماری ۔(۴)

ابن عباس : خدا ابوموسیٰ کے چہرے کو برباد کردے میں نے اسے عمروعاص کے دھوکہ وفریب سے آگاہ کیا تھا لیکن اس نے کوئی توجہ نہ دی۔

______________________

(۱) یہ اس آیت کریمہ کا مفہوم ہے کہ جو لوگ خد ا کی نشانیوں کو جھٹلاتے ہیں انہیں کتے سے شباہت دی جاتی ہے خدا فرماتاہے'' فمثله کمثل الکلب ان تحمل علیه یلهث او تترکه یلهث ذالک مثل القوم الذین کذبوا بأیاتنا'' (سورہ اعراف ۱۷۶)

(۲) قرآن مجید کی اس آیت سے اقتباس ''کمثل الحمار یحمل اسفاراً ''سورہ جمعہ آیت ۵

(۳)الاخبارا لطوال ص۱۹۹ ۔ الامامة والسیاسة ج۱، ص ۱۱۸۔تاریخ طبری ج۳، جزء ۶، ص ۳۸۔ کامل ابن اثیر ج۳، ص ۱۶۷۔ تجارب السلف ص ۴۸۔ مروج الذھب ج۲، ص ۴۰۸

(۴) تاریخ طبری ج۳، جزء ۶، ص ۴۰۔ کامل ابن اثیر ص۱۶۸، وقعہ صفین ص ۵۴۶

۶۷۸

ابوموسیٰ : یہ صحیح ہے کہ ابن عباس نے مجھے اس فاسق کے دھوکہ وفریب سے آگاہ کیا تھا لیکن میں نے اس پر یقین واطمینان کرلیا اور کبھی بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ میری خیر خواہی کے علاوہ میرے بارے میں کچھ کہے گا۔(۱)

سعیدبن قیس نے دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: اگر تم لوگ سچائی پرمتفق ہوجاتے توبھی ہم لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں پہونچتا چہ جائیکہ تم لوگوں نے گمراہی اور ضلالت پر اتفاق واتحاد کیا ، اور تم لوگوں کا نظریہ ہم حجت نہیں ہے آج بھی اسی حالت میں ہیں جیسے پہلے تھے اور سرکشوں کے ساتھ جنگ جاری رہے گی(۲) ۔

اس واقعہ میں سب سے زیادہ ابوموسیٰ اشعری اور اشعث بن قیس ( مسئلہ حکمیت کا کھلاڑی )

لعنت وملامت کے مستحق قرار پائے ، ابوموسیٰ مسلسل عمروعاص کو برا بھلا کہتا رہا اور اشعث کی زبان بند ہوگئی تھی وہ بالکل خاموش تھا ،آخر کار عمروعاص اور معاویہ کے ساتھیوں نے اپنا بوریا بستر باندھا اور شام کی طرف روانہ ہوگئے اور پورا واقعہ معاویہ کو تفصیل سے سنایا اور اسے خلیفہ مسلمین کے عنوان سے سلام کیا ۔ ابن عباس اور شریح بن ہانی بھی کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے اور پورا ماجرا بیان کیا ، لیکن ابوموسیٰ اپنی غلطیوں کی وجہ سے جو اس نے انجام دی تھیں مکہ کی طرف روانہ ہوگیا اور وہیں رہنے لگا۔(۳)

بالآخر جنگ صفین اور حاکمیت کا واقعہ ۴۵ ہزار لوگوں یا ایک قول کی بناء پر ۹۰ ہزار شامی اور ۲۰ یا ۲۵ ہزار عراقیوں کے قتل(۴) کے بعد شعبان ۳۷ ہجری کو ختم ہوگیا(۵) اور حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی حکومت اور اسلامی خلافت کے لئے مختلف مشکلیں پیدا ہوگئیں جس میں سے اکثر ختم نہ ہوسکیں ۔

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۳، جزء ۶، ص ۴۰۔ کامل ابن اثیر ص۱۶۸، وقعہ صفین ص ۵۴۶

(۲)وقعہ صفین ص ۵۴۷

(۳)الاخبارا لطوال ص۲۰۰ ۔کامل ابن اثیر ج۳، ص ۱۶۸۔ تجارب السلف ص۴۹۔ الامامة والسیاسة ج۱، ص ۱۱۸

(۴)مروج الذھب ج۲، ص۴۰۴

(۵) تاریخ طبری ج۳، جزء ۶، ص ۴۰۔ طبری نے اس قول کو واقدی سے نقل کیا ہے اور مسعودی نے مروج الذھب ( ج۲، ص ۴۰۲) اور التنبیہ الاشراف ( ص،۲۶۵) نے بھی اسی قول کو نقل کیا ہے لیکن سب سے صحیح قول ماہ صفر ۳۷ ہجری ۔ تجارب السلف ص ۵۰

۶۷۹

بائیسویں فصل

جنگ نہروان یا قرآن کو نیزہ پر بلند کرنے کا نتیجہ

ابوسفیان کے بیٹے کی غلط سیاست اور اس کی دوسری عقل عمروعاص کی وجہ سے بہت زیادہ تلخ اور غم انگیز واقعات رونماہوئے ، اس کی پلاننگ بنانے والا پہلے ہی دن سے اس کے برے آثار سے آگاہ تھااور اپنی کامیابی کے لئے حکمیت کے مسئلہ پر اسے مکمل اطمینان تھا اس سیاست کو سمجھنے کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ اس بدترین سیاست کی وجہ سے دشمن نے اپنی آرزو حاصل کی ، جو نتیجہ اس سلسلہ میں نکلا ہے اس میں سے درج ذیل چیزوں کا نام لے سکتے ہیں :

۱۔ شام پر معاویہ کا قبضہ ہوگیا اور اس کے تمام سردار اور اس علاقہ میں اس کے نمائندے صدق دل سے اس کے مطیع وفرماں بردار ہوگئے اور اگر کسی وجہ یا غرض کی بنا پر حضرت علی علیہ السلام سے دل لگائے ہوئے تھے تو ان کو چھوڑ کر معاویہ سے ملحق ہوگئے۔

۲۔ امام علیہ السلام جو کامیابی کی آخری منزل پر تھے اس سے بہت دور ہوگئے اور پھر کامیابی حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا ، کیونکہ امام علیہ السلام کی فوج میں جہاد کرنے کا جذبہ ختم ہو گیا تھا اور اب لوگوں کے اندر شہادت کا جوش و جذبہ نہیں تھا۔

۶۸۰

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809