فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)9%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 362085 / ڈاؤنلوڈ: 6018
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حافظ حسکانی ، کتاب شواہد التنزیل، جلد۲،صفحہ۳۵۶،۳۵۹،نمبر۱۱۲۵،۱۱۳۰،اشاعت اوّل۔

۲۔ حافظ ابن عساکر، کتاب تاریخ دمشق، جلد۲،صفحہ۳۴۴،۴۴۲،باب امیر المومنین کے حالات، حدیث۸۵۲،۹۵۸، اشاعت دوم(شرح محمودی)۔

۳۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور، جلد۶،صفحہ۳۷۹،اشاعت دوم، صفحہ۴۲۴۔

۴۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، جلد۱،صفحہ۱۵۵، باب۳۱۔

۵۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، صفحہ۲۴۵،باب۶۲۔

۶۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة ، صفحہ۳۶۱۔

۷۔ بلاذری، کتاب النساب الاشراف، ج۲ص۱۱۳حدیث۵۰،اشاعت اوّل بیروت

۸۔ شبلنجی ،کتاب نورابصار، صفحہ۷۰،۱۰۱۔

۹۔ خوارزمی، کتاب مناقب امیر المومنین ،حدیث۱۱،صفحہ۶۲۔

پندرہویں آیت

پیغمبر کی صداقت پر قرآن ایک روشن دلیل ہے اور علی ایک سچے گواہ ہیں

( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَمِنْ قَبْلِه کِتٰبُ مُوْسٰٓی اِمَامًا وَّرَحْمَةً )

”کیا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے کھلی دلیل پر ہو اور اُس کے پیچھے پیچھے ایک گواہ آتا ہو جو اُسی کا جزو ہو(سورئہ ہود:آیت۱۷)

۴۱

تشریح

اس آیت شریفہ کی تفسیر میں بیان کیا گیا ہے کہ کون(مَنْ) سے مرادجناب رسول خدا

فضائل علی علیہ السلام قرآن کی نظر میں ۔۳

کی ذات مبارک ہے اور روشن دلیل(بَینَہ)سے مرادقرآن مجید ہے اور (نبوت کے) گواہ صادق(شاہد) سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔بعض مفسرین نے شاہد سے مراد جبرئیل علیہ السلام کو لیا ہے اور بعض نے َیَتْلُوْهُ کو مادّہ تلاوت سے قرأ ت کے معنی میں لیا ہے نہ کہ اس معنی میں کہ ایک کے بعد دوسرے کا آنا۔ انہوں نے شاہد سے مراد زبان رسول اللہ لی ہے۔ لیکن بہت سے اہل سنت اور شیعہ مفسرین نے شاہد سے مراد سچے مومنین لئے ہیں اور سچے مومن کی تصویر علی علیہ السلام کو لیا ہے اور اس ضمن یں بڑی اہم روایات کو بیان کیا ہے۔ ان میں سے چند ایک یہاں بیان کی جاتی ہیں:

(ا)۔ سیوطی نے کتاب جمع الجوامع اور تفسیر الدرالمنثور میں یہ روایت بیان کی ہے:

حَدَّثْنَا عبادُ بنُ عَبْدِاللّٰهِ الاَ سَدِی قال:سَمِعْتُ عَلِیَّ بنَ ابی طالبٍ وَهُوَ یَقُولُ:مٰا أَحَدٌ مِنْ قُرَیْشٍ اِلَّا وَقَدْ نَزَلَتْ فیهِ آیةٌ وآیتانِ فَقٰالَ لَهُ رَجُلٌ:وَمٰانَزَلَ فِیْکَ یٰااَمِیْرَالمومنینَ؟قٰالَ:فَغَضِبَ ثُمَّ قٰالَ: اَمٰاوَاللّٰهِ لَولَمْ یَسْأَلْنِیْ عَلٰی رُووسِ الْقَوْمِ مٰاحَدَّ ثْتُکَ،ثُمَّ قال:هَلْ تَقْرَأُ سورةَ هودٍ؟ ثُمَّ قَرَاءَ: ( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ ) رسولُ اللّٰه عَلٰی بَینةٍ مِنْ رَبَّهِ وَاَنَاالشّٰاهِدُ مِنْهُ ۔

”عباد بن عبداللہ اسدی کہتے ہیں کہ میں نے علی علیہ السلام سے سنا کہ وہ فرماتے ہیں کہ قریش کے سرداروں میں کوئی نہیں مگر اُس کے بارے میں ایک یا دو آیتیں نازل ہوئی ہوں۔ پس ایک شخص نے سوال کیا:یا امیر المومنین ! آپ کے بارے میں کونسی آیت نازل ہوئی ہے۔ آپ(اُس شخص کے جہل یا عداوت کی وجہ سے) غضبناک ہوئے اور کہا کہ اگر دوسرے لوگ موجود نہ ہوتے تو میں تمہارے سوال کا جواب نہ دیتا۔ اُس وقت آپ نے فرمایا : کیا تم نے سورئہ ہود پڑھی ہے؟ اور پھر یہ آیت تلاوت فرمائی:

( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ ) ”اور فرمایا کہ پیغمبر روشن دلیل یعنی قرآن مجید (بَینَةٍ) رکھتے تھے اور میں گواہ تھا“۔

۴۲

(ب)۔ کچھ مفسرین اس روایت کو نقل کرتے ہیں:

عَنْ انس(فی قَولِه تعالٰی) ( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُط“قَالَ هُوَرسولُ اللّٰهِ ”وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ ) قَالَ هُوَ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْطَالِب، کَانَ وَاللّٰهِ لِسَانَ رَسُولِ اللّٰهِ ۔

”انس بن مالک سے اس آیت کی تفسیر سے متعلق روایت کی گئی ہے، انہوں نے کہا کہ آیت کے اس حصہ( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه ) سے مراد پیغمبر اسلام کی ذات مبارک ہے اور( یَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ ) سے مرادعلی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔ خدا کی قسم! یہ(علی کا نام)رسول اللہ کی زبان پر تھا“۔

(ج)۔ تفسیر برہان، جلد۲،صفحہ۲۱۳پر یہ روایت بیان کی گئی ہے:

امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اس آیت میں ”شاہد“ سے مراد امیرالمومنین علی علیہ السلام ہیں اور اُن کے یکے بعد دیگرے جانشین ہیں۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ سیوطی، کتاب جمع الجوامع، جلد۲،صفحہ۶۸،حدیث۴۰۷،۴۰۸ اور ج۳،ص۳۲۴۔

۲۔ حافظ ابن عساکر تاریخ دمشق میں، جلد۲،صفحہ۴۲۰،حدیث۹۲۸۔

۳۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب ۶۲،صفحہ۲۳۵۔

۴۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل، حدیث۳۸۶،جلد۱،صفحہ۲۷۷۔

۵۔ ابن مغازلی شافعی، کتاب مناقب امیرالمومنین ، حدیث۳۱۸،صفحہ۲۷۰۔

۶۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۲۶،صفحہ۱۱۵۔

۷۔ متقی ہندی، کتاب کنزل العمال، جلد۱،صفحہ۲۵۱،اشاعت اوّل۔

۸۔ طبری اپنی تفسیر میں جلد۱۵،صفحہ۲۷۲،شمارہ۱۸۰۴۸۔

۹۔ ثعلبی اپنی تفسیر میں، جلد۲،صفحہ۲۳۹۔

۴۳

سولہویں آیت

علی صدیق اکبر اورشہید فی سبیل اللہ ہیں

( وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْابِاللّٰهِ وَرُسُلِه اُوْلٰٓئِکَ هُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ وَالشُّهَدَآءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ اَجْرُهُمْ وَنُوْرُهُمْْ )

”اور جو لوگ اللہ پر اور اُس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں وہی تو اپنے پروردگارکے نزدیک صدیق اور شہید ہیں۔ اُن کا اجر اور اُن کا نور اُن ہی کیلئے ہوگا“(سورئہ حدید،آیت۱۹)

تشریح

اس میں کوئی شک نہیں کہ سچائی اور راست گوئی ایسی صفت ہے جو انسان کو اعلیٰ مقام تک پہنچادیتی ہے۔ ہمیں یہ صفت حضرت علی کے وجود پاک میں روز روشن کی طرح نظر آتی ہے۔

اگرچہ اہل سنت میں خلیفہ اوّل ہی صدیق کے طور پر مشہور ہیں لیکن بہت سی روایات جو اہل سنت اور شیعہ مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں نقل کی ہیں، اُن کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ صفت سچائی اور راست گوئی ہر لحاظ سے مکمل طور پر حضرت علی علیہ السلام کے وجود پاک میں نظر آتی ہے۔ چند روایات ذیل پرتوجہ فرمائیں:

(ا)۔عَنْ اِبْنِ عباس فِی قَوْلِه تعٰالٰی ( وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْابِاللّٰهِ وَرُسُلِه اُوْلٰٓئِکَ هُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ ) قال صدیقُ هَذِه الْاُمَّةِ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْطَالِب هُوَ الصِّدِّ یقُ الْاَکْبَرُ وَالْفَارُوْقُ الْاَعْظَمُ

”ابن عباس سے روایت ہے کہ اس آیت شریفہ( وَالَّذیْ نَ اٰمَنُوْابِاللّٰهِ وَرُسُلِه اُوْلٰٓئِکَ هُمُ الصِّدِّ یْ قُوْن ) کے بارے میں حضور نے فرمایا کہ اس اُمت کے صدیق علی ابن ابی طالب ہیں۔ علی ابن ابی طالب علیہ السلام صدیق اکبر بھی ہیں اور فاروق(حق اور باطل کو جدا کرنے والا) اعظم بھی“۔

۴۴

(ب)۔عَنْ عبدالرحمٰنِ بن ابی لیلٰی عَنْ اَبِیْهِ قٰالَ رسولُاللّٰهِ اَلصِّدِّیْقُوْنَ ثَلاٰ ثَةٌ: حَبِیبُ النَّجَّارِ، مومِنُ آلِ یٰسِینَ وَحِزْبِیْلُ مُومِنُ آلِ فِرْعَوْنَ وَ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْطالِبٍ وَهُوَ اَفْضَلُهُمْ

”عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ تین افراد صدیق ہیں اور وہ ہیں:حبیب نجار، مومن آل یاسین اور حزبیل مومن آل فرعون اور علی ابن ابی طالب علیہما السلام اور علی علیہ السلام اُن سب سے افضل ہیں“۔

(ج)۔عَنْ عُبادِ بنِ عَبْداللّٰهِ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِیّاً علیه السلام یقولُ: أَ نَا الصِّدِّیقُ الْاَکْبَرُ لَایقُولُهَا بَعْدِیْ اِلَّا کَذَّابٌ وَلَقَدْ صَلَّیْتُ قَبْلَ النَّاسِ سَبْعَ سِنِیْنَ ۔

”عباد بن عبداللہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے علی علیہ السلام سے سنا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں ہی صدیق اکبر ہوں اور میرے بعد کوئی بھی اپنے آپ کو صدیق اکبر نہیں کہلا سکتا لیکن سوائے جھوٹے اور کذاب کے اور میں نے لوگوں سے سات سال پہلے نماز پڑھی(یعنی سب سے پہلے خدا اور اُس کے رسول پر میں ایمان لایا)“۔

(د)۔ اسی طرح سب علمائے اہل سنت مثلاً حافظ ابی نعیم، ثعلبی، حافظ بن عساکر، سیوطی اور دوسرے بہت سے مفسرین سورئہ توبہ آیت۱۱۹( اِتَّقُوااللّٰهَ وَکُوْنُوْامَعَ الصَّادِقِیْن ) میں ابن عباس اور دوسروں سے بھی روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ”الصادقین“ سے مراد علی ہیں ۔ روایت اس طرح سے ہے:

عَنْ ابنِ عباس فِی قوله تعٰالٰی ( اِتَّقُواللّٰهَ وَکُوْنُوْامَعَ الصَّادِقِیْنَ ) قَالَ نَزَلَتْ فِی عَلِیٍّ عَلَیْهِ السَّلَامُ خٰاصَّةً“

”ابن عباس کہتے ہیں کہ یہ آیت صرف علی علیہ السلام کی شان میں نازل کی گئی ہے“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں، جلد۲،صفحہ۲۸۲،حدیث۸۱۲،اشاعت اوّل۔

۲۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب امیر المومنین ، صفحہ۲۴۶،۲۴۷، حدیث۲۹۶۔

۳۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۳۶اور باب۲۴،صفحہ۱۲۳۔

۴۔ حافظ حسکانی ، کتاب شواہد التنزیل۔

۴۵

۵۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب ۴۲،صفحہ۱۴۶۔

۶۔ نسائی، کتاب خصائص امیرالمومنین ، حدیث۶،صفحہ۳۸۔

۷۔ سیوطی ،کتاب اللئالی المصنوعہ، باب فضائل علی ، جلد۱،صفحہ۱۶۰۔

۸۔ احمد بن حنبل، کتاب الفضائل، باب فضائل امیر المومنین ،حدیث۱۱۷،صفحہ۷۸۔

۹۔ حافظ المزی،کتاب تہذیب الکمال، ترجمہ العلاء بن صالح، جلد۴،صفحہ۱۹۳۔

سترہویں آیت

اللہ تعالیٰ نے علی کے وسیلہ سے پیغمبر کی مدد کی

( هُوَالَّذِیْٓ اَ یَّدَکَ بِنَصْرِه وَبِالْمُومِنِیْنَیٰٓاَ یُّهَاالنَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰهُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُومِنِیْنَ )

”وہ وہی ہے جس نے اپنی امداد سے اور مومنین کے ذریعہ سے تمہاری تائید کی تھی۔

اے نبی! تمہارے لئے اللہ اور مومنین میں سے جو تمہارا اتباع کرتے ہیں، وہی کافی ہیں ہیں“۔(سورئہ انفال: آیات۶۲،۶۴)۔

تشریح

کچھ مفسرین نے ان آیات کے ضمن میں خصوصاً آیت :۶۴کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ آیت اُس وقت نازل ہوئی جب یہودیوں کے قبائل بنی قریظہ اور بنی نضیر کے کچھ افراد پیغمبر اسلام کی خدمت میں مکروفریب سے حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ” اے پیغمبر خدا! ہم حاضر ہیں کہ آپ پر ایمان لائیں اور آپ کی پیروی کریں اور مدد کریں“۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر سے کہہ رہا ہے کہ ہرگز کسی غیر پر اعتماد نہ کریں بلکہ اللہ اور وہ مومنین جو آپ کی اتباع کرتے ہیں، آپ کے لئے کافی ہیں، انہی پر اعتماد کریں(تفسیر تبیان، جلد۵،صفحہ۱۵۲)۔

۴۶

اہل سنت اور شیعہ علماء کی کثیر تعداد روایات لکھنے کے بعد کہتے ہیں کہ ان دو آیتوں میں مومنین سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔ اگرچہ دوسرے مومنین بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں لیکن ان آیتوں کے مصداق(پوری طرح آیت کے مطابق) علی ابن ابی طالبعلیہما السلام ہیں۔ پیغمبر اسلام نے ہمیشہ تمام مشکلات اور سخت حالات میں علی علیہ السلام کے وجود مقدس پر فخر کیا۔ ذیل میں لکھی گئی دو روایات پر توجہ فرمائیں:

(ا)۔عَنْ اَبِیْ هُریرةِ قَالَ: قال رسولُ اللّٰه رَأَیْتُ لَیْلَةً اُسْرِیَ بِی اِلَی السَّمٰاءِ عَلَی الْعَرْشِمَکْتُوْباً: لَااِلٰهَ اِلّٰا أَنَا وَحْدِیْ لَا شَرِیْکَ لِیْ وَمحمدًعَبْدِی وَرَسُوْلِی اَیَّدْتُهُ بِعَلیٍّ(قال)فَذٰلِکَ قَوْلُهُ ( هُوَالَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِه وَبِالْمُومِنِیْن ) ۔

”ابوہریرہ نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ شب معراج میں نے دیکھا کہ عرش پر لکھا ہوا تھا :’میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ میں تنہا اور لاشریک ہوں اور محمد میرا بندہ اور میرا رسول ہے اور میں نے علی کے ذریعے سے اپنے رسول کی مدد کی ہے اور اس آیت شریفہ( هُوَالَّذِیْٓ اَ یَّدَکَ بِنَصْرِه وَبِالْمُومِنِیْنَ ) میں بھی اسی طرف اشارہ ہے“۔

(ب)۔ حافظ حسکانی جو اہل سنت کے نامور عالم ہیں، کتاب شواہد التنزیل میں روایت نقل کرتے ہیں جو معتبر اسناد کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے والد بزرگوارحضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے حوالہ سے لکھتے ہیں۔ انہوں نے اس آیت( یٰٓاَ یُّهَاالنَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰهُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُومِنِیْنَ ) کی تفسیرمیں فرمایا کہ یہ آیت علی علیہ السلام کی شان میں نازل کی گئی ہے جو ہمیشہ رسول اللہ کے مددگار و حامی و ناصر رہے ہیں۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں حدیث۹۲۶، باب احوال امیرالمومنین ، ج۲،ص۴۱۹

۲۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۳۴۔

۳۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں، جلد۳،صفحہ۲۱۶،اشاعت دوم، صفحہ۱۹۹۔

۴۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل، شمارہ۲۹۹،جلد۱،صفحہ۲۲۳اور اشاعت اوّل میں جلد۱،صفحہ۲۳۰،شمارہ۳۰۵۔

۴۷

۵۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد، باب مناقب علی علیہ السلام، جلد۹،صفحہ۱۲۱۔

۶۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب ۲۳،صفحہ۱۰۹ اور باب۲ص۲۱

۷۔ ذہبی، میزان الاعتدال، ج۱،ص۲۶۹،حدیث۱۰۰۶اور ص۵۳۰،ج۱،شمارہ۱۹۷۷۔

۸۔ المحب الطبری، کتاب ریاض النضرہ، جلد۲،صفحہ۱۷۲۔

۹۔ متقی ہندی، کتاب کنزل العمال،جلد۶،صفحہ۱۵۸، اشاعت اوّل۔

اٹھارہویں آیت

حضرت علی کا بغض اور دشمنی شقاوت قلب، نفاق اور انسان کی بدبختی کا باعث ہے

( وَلَوْنَشَآءُ لَاَرَیْنَکَهُمْ فَلَعَرَفْتَهُمْ بِسِیْمٰهُمْوَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ )

”اور اگر ہم چاہیں تو ہم اُن لوگوں کو تمہیں دکھلا دیں پھر تم اُن لوگوں کو اُن کی علامتوں سے پہچان لو اور تم اُن کو اُن کی بات کے لہجے سے ضرور پہچان لوگے“۔(سورئہ محمد، آیت:۳۰)۔

تشریح

اس آیت شریفہ میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر اسلام کومنافقین کی اور شقاوت قلبی رکھنے والے انسانوں کی نشاندہی کرتا ہے ۔اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر سے فرماتا ہے :”اگر ہم چاہیں تو ہم تمہیں اُن کی شناخت کروادیں گے“ تاکہ صرف اُن کی چال ڈھال اور قیافہ دیکھنے سے ہی اُن کو پہچا ن لو۔ اس کے علاوہ اُن کے لہجہ و کلام سے بھی پہچان سکتے ہو کہ اُن کے ناپاک دلوں میں کیا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اُن کے بولنے کا انداز کیا تھا کہ پروردگار نے اُس کو منافقین کے پہچاننے کا ایک اہم طریقہ بتایا۔اس ضمن میں اہل سنت اور شیعہ علماء نے جو روایات بیان کی ہیں، اُن پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ منافقین کے دلوں میں حضرت علی علیہ السلام کیلئے شدید دشمنی اور کینہ پایا جاتا تھا۔

۴۸

البتہ وہ اپنی اس دشمنی اور کینہ کو رسول اللہ کی زندگی میں واضح طور پر ظاہر نہیں کرتے تھے۔ شاید وہ اس میں اپنی بھلائی اور فائدہ نہیں دیکھتے تھے ۔ اس لئے وہ موقع بہ موقع رسول اللہ اور مسلمانوں کے پاس آکر حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں بدگوئی کرتے تھے اور تنقید کرتے تھے۔ اُن کی اس چال کا مقصد صرف حضرت علی علیہ السلام کو لوگوں کے درمیان کمزور کرنا اور اُن کی محبوبیت کو کم کرنا تھا۔

لیکن خدائے بزرگ نے یہ آیت نازل کرکے اُن کے مکروفریب کو باطل کردیا اور اُن کے ناپاک چہروں کو سب کے سامنے آشکار کردیا۔ اس ضمن میں دو روایات پر توجہ فرمائیں:

(ا)۔عَنْ اَبی سعیدُالخَدْری فِی قوله عزوجل”وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ“ قال بِبُغْضِهِمْ عَلَیّاً عَلَیْهِ السَّلَام ۔

”ابی سعید خدری سے روایت ہے کہ اس آیت’( وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ ) کی تفسیر میں فرمایاکہ یہ علی کی دشمنی اور بغض کی وجہ سے ہے(یعنی دشمنی علی اُن کی زبان سے ظاہر ہوجاتی ہے)“۔

(ب)۔ درج ذیل روایت کو اکثر مفسرین نے اس آیت کی بحث کے دوران ذکر کیا ہے اور رسول اکرم کے خاص صحابہ کی زبان سے بیان کی گئی ہے جیسے ابی سعید اور دوسروں نے نقل کیا ہے:

کُنَّا نَعْرِفُ الْمُنَافِقِیْنَ عَلٰی عَهْدِ رَسُوْلِ اللّٰهِ بِبُغْضِهِمْ عَلِیّاً ۔

”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں منافقین کو اُن کی علی علیہ السلام سے دشمنی کے سبب پہچانتے تھے“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حافظ الحسکانی، شواہد التنزیل، جلد۲،صفحہ۱۷۸،حدیث۸۸۳،اشاعت اوّل۔

۲۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ،ج۲، ص۴۲۱،حدیث۹۲۹،باب احوال علی ،اشاعت۲

۳۔ گنجی شافعی،کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۳۵۔

۴۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب امیرالمومنین ، حدیث۳۵۹،۳۶۲،صفحہ۳۱۵۔

۵۔ سیوطی، تفسیر المدرالمنثور، جلد۶،صفحہ۷۴اورتاریخ الخلفاء،صفحہ۱۷۰۔

۴۹

۶۔ ابن عمر یوسف بن عبداللہ، کتاب استیعاب، جلد۳،صفحہ۱۱۰۔

۷۔ بلاذری، انساب الاشراف، جلد۲،صفحہ۹۶،حدیث۱۹،اشاعت اوّل از بیروت۔

۸۔ متقی ہندی کنزالعمال، جلد۱،صفحہ۲۵۱،اشاعت اوّل اور اسی طرح احمد بن حنبل ۔

کتاب فضائل میں اور ابن اثیر کتاب جامع الاصول میں، طبری کتاب ریاض النضرہ میں اور بہت سے دوسرے۔

اُنیسویں آیت

علی صالح المو منین ہیں

( وَاِنْ تَظٰهَرَاعَلَیْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَمَوْلَهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُومِنِیْنَ )

”اور اگر تم دونوں ہمارے رسول کے برخلاف ایک دوسرے کے پشت و پناہ بنو تو اللہ ، جبرئیل اور صالح مومنین اُس کے مددگار ہیں“۔(سورئہ تحریم:آیت۴)

تشریح

یہ نکتہ توجہ طلب ہے کہ اگرچہ کلمہ”صالح المومنین“ اپنے اندر وسیع تر معنی رکھتا ہے اور تمام صالح مومنین اور پرہیز گار اس میں شامل ہوسکتے ہیں لیکن مومن کامل اور اکمل ترین انسان کون ہے؟اس کے لئے ہمیں روایات سے مدد لینا ہوگی اور روایات کو دیکھنا ہوگا۔ تحقیق کرنے پر بڑی آسانی سے ہم منزل تک پہنچ جائیں گے ۔ شیعہ علماء سے منقول روایات کے علاوہ اہل سنت نے بھی بہت سی روایات نقل کی ہیں۔ ان سب سے یہی پتہ چلتا ہے کہ متذکرہ بالا آیت میں صالح مومنین سے مراد ذات مقدس امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔ یہاں ہم چند ایک روایات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

(ا)۔عَنْ اَسماءِ بنتِ عُمَیس قٰالَتْ:سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ یَقْرَأُ هٰذِهِ الآیَة:وَاِنْ تَظٰهَرَاعَلَیْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَمَوْلَهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُومِنِیْنَ، قَالَ صَالِحُ المُومِنِیْنَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْطَالِب ۔

۵۰

”اسماء بنت عمیس روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے پیغمبر اسلام سے یہ آیت سنی( وَاِنْ تَظٰهَرَاعَلَیْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَمَوْلٰهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُومِنِیْنَ ) آیت پڑھنے کے بعد پیغمبر خدا نے فرمایا کہ صالح المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں“۔

(ب)۔عَنْ السُّدی عَن ابنِ عَبَّاس، فِی قَولِه عَزَّوَجَلَّ’وَصَالِحُ المُومِنِیْنَ قَالَ:هُوَ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْ طَالِب ۔

”سدی، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کہ جس میں صالح المومنین کا ذکر کیا گیا ہے، اس سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں“۔

(ج)۔عَنْ مُجٰاهِد فی قَولِهِ تَعٰالٰی:”وَصَالِحُ المُومِنِیْنَ“ قَالَ: صَالِحُ المُومِنِیْنَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِب ۔

”مجاہد سے روایت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس کلام میں جہاں صالح المومنین کا تذکرہ ہے، وہاں صالح المومنین سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل میں، حدیث۹۸۴ اور ۹۸۵،جلد۲،صفحہ۲۵۷۔

۲۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین میں، باب۶۷،جلد۱،صفحہ۳۶۳۔

۳۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں، جلد۶،صفحہ۲۴۴اور اشاعت دیگر صفحہ۲۶۹،۲۷۰۔

۴۔ ابن مغازلی، مناقب امیر المومنین میں، حدیث۳۱۶،صفحہ۲۶۹،اشاعت اوّل۔

۵۔ گنجی شافعی، کتاب کفایت الطالب میں، باب۳۰،صفحہ۱۳۷۔

۶۔ متقی ہندی، کتاب کنزالعمال میں،حدیث لا شی، جلد۱،صفحہ۲۳۷، اشاعت اوّل۔

۷۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں، جلد۲،صفحہ۴۲۵، اشاعت دوم، حدیث۹۳۲،۹۳۳۔

۸۔ ابن حجر فتح الباری میں، جلد۱۳،صفحہ۲۷۔

۵۱

بیسویں آیت

قیامت کے دن لوگوں سے ولایت علی کے بارے میں سوال کیا جائے گا

( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ )

”اور ان کو ٹھہرا ؤ کہ ابھی ان سے سوالات کئے جائیں گے“۔(سورئہ صافات:آیت۲۴)

تشریح

سورئہ مبارکہ صافات کے ایک حصہ میں جہاں پروردگار قیامت اور اس کے متعلقہ مسائل اور عذاب عظیم جو مشرکین اور گمراہوں کے انتظار میں ہے، کے بارے میں بیان فرماتا ہے، اس آیت( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) سے اپنے تمام فرشتوں اور ملائکہ کو اُس دن دوسرے احکام کے ساتھ یہ اہم حکم دے گا اور وہ حکم یہ ہوگا کہ اے میرے فرشتو ! ان کو روک لو ، ابھی ان سے سوال کیا جائیگا۔

لوگوں کے اس سوال پر کہ قیامت والے دن اس آیت کے مطابق کونسی چیز کے بارے میں سوال کیا جائے گا، اہل سنت اور شیعہ مفسرین نے مختلف جواب دئیے ہیں۔ کچھ نے کہا ہے کہ توحید کے بارے میں سوال کیا جائے گا، کچھ نے کہا ہے کہ اُس دن لوگوں سے بدعتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا جو وہ دنیا میں چھوڑ گئے، کچھ اوروں نے مختلف دیگر چیزوں کا ذکر کیا ہے۔ لیکن یہ جوابات آیت کے مفہوم سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اہل سنت اور شیعہ کتب میں بہت سی روایات موجود ہیں جن کے مطابق باقی اہم سوالوں کے علاوہ جو مجرموں سے پوچھے جائیں گے، ولایت علی ابن ابی طالب کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا۔ اس مطلب کی وضاحت کیلئے درج ذیل روایات پر توجہ فرمائیں:

(ا)۔عَنْ اَبِیْ سعید خدری، عَنْ النبی فی قوله تعالٰی ( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) قال: عَنْ وِلَایَةَ عَلِیِّ ابْنِ اَبِیْ طَالِب ۔

”ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) ک ی تفسیر میں فرمایا کہ ولایت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا جائے گا“۔

۵۲

(ب)۔وَرَوِیٰ اَبُوالْاَحْوَضِ عَنْ أَبی اسحٰاقِ فی قولِهِ تعٰالٰی: ( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) قَالَ یَعنی مِنْ وِلَایَةِ عَلِیِّ ابنِ اَبِی طَالِب اِنَّهُ لَا یَجُوْزُ اَحَدُالصِّرَاطَ اِلَّا وَبِیَدِهِ بَرَاةً بِوِلَایةِ عَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب ۔

”ابو احوض، ابواسحاق سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اس آیہ شریفہ( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) کی تفسیر میں کہا کہ ولایت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا جائیگااور مزید کہا:”اِنَّهُ لَا یَجُوْزُ اَحَدُالصِّرَاطَ اِلَّا وَبِیَدِهِ بَرَاةً بِوِلَایَةِ عَلِی“ ’ کسی کو پل صراط سے گزرنے کا حق حاصل نہ ہوگا مگر وہ جس کے ہاتھ میں ولایت علی ابن ابی طالب علیہما السلام کا پروانہ ہوگا‘۔

(ج)۔عَنْ اِبْنِ عباس فِی قولِه عَزَّوَجَلَّ ( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْن ) قَالَ:عَنْ وِلَایةِ علی ابنِ ابی طالب ۔

”ابن عباس سے اس آیت( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْن ) کي باري م یں روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ علی ابن ابی طالب علیہما السلام کے بارے میں سوال کیا جائے گا“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، باب۴،جلد۱،صفحہ۷۹۔

۲۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل، شمارہ۷۸۷،جلد۲،صفحہ۱۰۶،اشاعت اوّل۔

۳۔ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال، باب حال علی بن حاتم، ج۳،ص۱۱۸،شمارہ۵۸۰۲۔

۴۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۴۷۔

۵۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۳۷،صفحہ۱۳۳اور اسی کتاب میں

باب مناقب ،صفحہ۲۸۲،حدیث۵۱۔

۶۔ خوارزمی، کتاب مناقب، باب۱۷،صفحہ۱۹۵۔

۷۔ ہیثمی، کتاب صواعق المحرقہ، صفحہ۸۹اور کتاب لسان المیزان،جلد۴،صفحہ۲۱۱۔

۸۔ ابن جوزی، کتاب تذکرة الخواص، باب دوم، صفحہ۲۱۔

۵۳

اکیسویں آیت

اللہ تعالیٰ نے جنگوں اور مشکلات میں مسلمانوں کی مدد علی کے وسیلہ سے کی

( وَرَدَّاللّٰهُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْابِغَیْظِهِمْ لَمْ یَنَالُوْا خَیْرًاوَکَفَی اللّٰهُ الْمُومِنِیْنَ الْقِتَالَوَکَانَ اللّٰهُ قَوِیًّا عَزِیْزًا )

”اور اُن لوگوں کو جو کافر ہوگئے تھے، اللہ نے اُن کے غصے ہی کی حالت میں لوٹا دیا کہ وہ کسی مراد کو نہ پہنچیں اور اللہ نے مومنوں پر لڑائی کی نوبت ہی نہ آنے دی اور اللہ صاحب قوت اور صاحب غلبہ ہے“۔(سورئہ احزاب: آیت۲۵)۔

تشریح

یہ آیت سورئہ احزاب سے ہے جس کی کچھ دوسری آیتیں جنگ خندق(جنگ احزاب) کے متعلق ہیں۔ جنگ خندق ایسی جنگ ہوئی ہے جس میں مسلمانوں کو کامیابی معجزانہ طور پر نصیب ہوئی اور بغیر کسی وسیع قتل و غارت کے کفار شکست خوردہ اور مایوس ہوکر مدینہ کے محاصرے کو توڑ کر ناکام واپس اپنے علاقوں کی طرف چلے گئے۔اس میں مدد غیبی کی ایک شکل تو قدرت کی طرف سے زبردست طوفان اور سخت ترین سرد ہوائیں چلیں جس نے کفار کے حوصلے پست کردئیے ۔ اُن کے دلوں میں خدائی طاقت کا رعب اور ڈر بیٹھ گیا اور دوسری طرف حضرت علی علیہ السلام نے اُن کے طاقتور ترین پہلوان اور جنگجو یعنی عمر بن عبدود پر وہ کاری ضرب لگائی کہ وہ نیست و نابود ہوگیا۔ اس سے کفار کی اُمیدوں پر پانی پھر گیا اور وہ مایوسی میں تبدیل ہوگئیں۔ کفارکے بڑے بڑے سرداروں کے حوصلے پست ہوگئے۔

اس جنگ میں حضرت علی علیہ السلام کی فداکاری اور کارکردگی اتنی اہمیت کی حامل تھی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ:

”لَمُبارِزَةُ عَلِی ابنِ ابی طالب لِعُمروبنِ عَبدُوَدیَومَ الْخَنْدَقِاَفْضَلُ مِنْ اَعْمٰالِ اُمَّتِیْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰامَةِ“

”حضرت علی علیہ السلام کی جنگ خندق میں ایک ضربت میری تمام اُمت کی قیامت تک کی عبادت سے افضل ہے“۔

حاکم، کتاب المستدرک میں، جلد۳،صفحہ۳۲۔

شیخ سلیمان قندوزی، ینابیع المودة، باب۲۳،صفحہ۱۰۹اور باب۴۶،ص۱۶۱اوربہت سے دوسرے۔

۵۴

اب اس آیت کی تفسیر میں چند ایک روایات بیان کی جارہی ہیں جو توجہ طلب ہیں:

(ا)۔عَنْ عَبْدِاللّٰهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ اِنّه کَانَ یَقْرَاُ هٰذِهِ الآیة”وَکَفَی اللّٰهُ الْمُومِنِیْنَ الْقِتَالَ“ بِعَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب عَلَیْهِ السَّلَام ۔

”عبداللہ بن مسعود سے روایت کی گئی ہے کہ وہ یہ آیت

( وَکَفَی اللّٰهُ الْمُومِنِیْنَ الْقِتَال )

تلاوت فرمارہے تھے اور اس سے مراد حضرت علی علیہ السلام کی ذات مقدس کو لے رہے تھے“۔

(ب)۔عَنْ عبداللّٰهِ بن مسعود قَالَ: لَمَّا قَتَلَ عَلِیٌّ عمروبن عَبْدُوَدْ یَوْمَ الْخَنْدَقِ، اَنْزَلَ اللّٰهُ تعالٰی:”وَکَفَی اللّٰهُ الْمُومِنِیْنَ الْقِتَال“بِعَلِیٌّ ۔

”عبداللہ بن مسعود سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ جب حضرت علی علیہ السلام نے جنگ خندق میں عمربن عبدود کو ہلاک کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت

( وَکَفَی اللّٰهُ الْمُومِنِیْنَ الْقِتَال )

حضرت علی علیہ السلام (کے عمل) کی خاطر نازل فرمائی“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حافظ الحسکانی کتاب شواہد التنزیل میں، شمارہ۶۲۹،جلد۲،صفحہ۳۔

۲۔ ابن عساکر تاریخ دمشق میں، باب حال امیرالمومنین ، شمارہ۹۲۷،جلد۲،صفحہ۴۲۰،

اشاعت دوم(شرح محمودی)۔

۳ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال میں، شمارہ۴۱۴۹،جلد۲،صفحہ۳۸۰۔

۴۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۳۴۔

۵۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، باب۲۳،صفحہ۱۰۸اور باب۴۶،ص۱۶۱۔

۶۔ سیوطی تفسیر الدالمنثور میں، جلد۵،صفحہ۲۰۹۔

۵۵

بائیسویں آیت

علی اورفاطمہ علم و معرفت کے دریائے بیکراں ہیںاور حسن و حسین اُن کے انتہائی قیمتی موتی ہیں

( مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِبَیْنَهُمَابَرْزَخٌ لَّایَبْغِیٰنِفَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَآ تُکَذِّبٰنِیَخْرُجُ مِنْهُمَاالُّلو وَالْمَرْجَانُ )

”اُس نے دودریا بہادئیے، وہ باہم ملتے ہیں اور اُن دونوں کے مابین پردہ ہے کہ ایک دوسرے پر زیادتی نہیں کرسکتا۔پھر تم اپنے پروردگار کی کون کونسی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ اُن دونوں سے موتی اور مونگا برآمد ہوتے ہیں“۔(سورئہ رحمٰن:آیات۱۹تا۲۱)۔

تشریح

وہ افراد جو قرآن اور علوم قرآن سے واقف ہیں، اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ کتاب آسمانی اپنے اندر معنی کا سمندر رکھتی ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ ایک آیت بعض اوقات چند معنی رکھتی ہو اور بعض اوقات بیسیوں معنی رکھتی ہو جبکہ اُن کا ہر معنی اپنی جگہ قابل توجہ اور اہمیت کا حامل ہو اور وہ ایک دوسرے سے ٹکراؤ بھی نہ رکھتے ہوں۔مثال کے طور پر یہ چند آیات جو سورئہ رحمٰن سے ہیں اوراوپر بیان کی گئی ہیں، اس طرح کی آیات ہیں جن کے مختلف معنی نکل سکتے ہیں۔

وہ لوگ جو ان آیات کو ظاہری اعتبار سے دیکھتے ہیں تو اُن کے اذہان میں یہی معنی آتے ہیں کہ کرئہ ارض کے بڑے بڑے دریا اور سمندر جو اس کے تین چوتھائی حصے پر پھیلے ہوئے ہیں اور اُن کے اندر بڑے بڑے قیمتی گوہر اور معدنیات موجود ہیں، یہ خدائے بزرگ کی طرف سے عظیم نعمتیں ہیں۔ یہ سب ،انسان کو غوروفکر کرنے پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ دیکھیں کہ خدا نے انسان کیلئے کس طرح یہ دریااور سمندر پھیلائے اور اُن میں بیش بہا نعمتیں پیدا کیں۔ لیکن ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ ان آیات کے دوسرے مطالب ہیں جو مقصود خالق ہیں۔

۵۶

روایات اور اطلاعات جو اسلامی تاریخ میں موجود ہیں، اُن کو بغور دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ ان آیات سے دو عظیم ہستیوں کا تعارف کروانا مقصود ہے۔ وہ ہستیاں جو علم و معرفت اور کمال کے دریائے بیکراں ہیں اور ان سے ملنے والے دو قیمتی موتی حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام ہیں۔توضیح کیلئے درج ذیل روایات پر توجہ فرمائیں:

عَنْ اِبْنِ عباس رضی اللّٰه عنه فی قوله تعالٰی ( مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰن ) قال:علی و فاطمه ،( بَیْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّایَبْغِیٰنِ ) اَلنّبی،( یَخْرُجُ مِنْهُمَاالُّلو وَالْمَرْجَانُ ) قال:اَلْحَسَنُ وَالْحُسَیْن علیهماالسلام ۔

”ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ تفسیر( مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰن ) سے مراد علی علیہ السلام اور فاطمہ سلام اللہ علیہا ہیں۔”بَیْ نَھُمَابَرْزَخٌ لَّایَبْغِ یٰن“ سے مراد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے(پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات جناب علی علیہ السلام اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے درمیان وہ واسطہ ہے جس سے یہ صحیح بندگی خدا اور اُس کی عبودیت کے لئے روشنی حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح اُن کی ذات گرامی سے خود بھی فیض یاب ہوتے ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کیلئے بطور نمونہ اُن کی رہنمائی اور ہدایت کا باعث بنتے ہیں)۔( یَخْرُجُ مِنْهُمَاالُّلووَالْمَرْجَانُ ) سے مراد امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام ہیں۔

یہ قابل توجہ بات ہے کہ درج بالا روایت کو علمائے اہل سنت نے دوسرے صحابہ سے بھی نقل کیا ہے اور شیعہ علماء نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کیا ہے اور یہ روایت بجائے خود بہت اہمیت کی حامل ہے۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ سیوطی تفسیر الدرالمنثور میں، جلد۶،صفحہ۱۵۸اور دوسری اشاعت میں ج۶،ص۱۴۲

۲۔ حافظ الحسکانی، شواہد التنزیل ، حدیث۹۱۹،ج۲،ص۲۰۹،اشاعت اوّل،ج۲،

صفحہ۲۱۲،اشاعت دوم۔

۳۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب امیر المومنین ، صفحہ۳۳۹،حدیث ۳۹۰۔

۴۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۳۹،صفحہ۱۳۸۔

۵۷

۵۔ ثعلبی، تفسیر ثعلبی میں جلد۴،صفحہ۲۸۹۔

۶۔ حافظ ابونعیم اصفہانی، کتاب ”مانزل من القرآن فی علی “،اس آیت کی تشریح میں۔

۷۔ شبلنجی، کتاب نورابصار میں، صفحہ۱۰۱۔

۸۔ خوارزمی، کتاب مقتل الحسین ، صفحہ۱۱۲۔

۹۔ کراجکی، کتاب کنزالفوائد میں، صفحہ۳۶۶۔

تئیسویں آیت

علی اور اہل بیت سے محبت نیکی ہے اور ان سے بغض گناہ ہے

( مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَه خَیْرٌ مِّنْهَا وَهُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَئِذٍاٰمِنُوْنَ وَمَنْ جَآءَ بِالسَّيِّئَةِ فَکُبَّتْ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِ هَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَاکُنْتُمْ تَعَْمَلُوْنَ )

”جو شخص کوئی نیکی لے کر آئے گا پس اُس کیلئے اس کا عوض اس سے بہتر موجود ہے اور وہ اُس دن خوف سے امن میں ہوں گے اور جو بدی لے کر آئے گا وہ اوندھے منہ دوزخ میں ڈال دئیے جائیں گے، جو کچھ تم کرتے تھے، اُسی کا بدلہ تمہیں ملے گا“(سورئہ نمل:آیت۸۹اور۹۰)

تشریح

اس آیت میں دو الفاظ یعنی”حَسَنَةِ“ اور”سَيِّئَةِ“ استعمال ہوئے ہیں۔آیت کا اصلی مقصد بھی انہی کو سمجھانا ہے کہ نیکی اور بدی اصل میں کہتے کسے ہیں کیونکہ اس کا انسان کی مادّی اور روحانی زندگی پر گہرا اثر پڑتا ہے۔

”حَسَنَةِ“ اور”سَيِّئَةِ“ ، یہ دوالفاظ اس آیت میں اور قرآن کی دیگر آیات میں استعمال ہوئے ہیں۔ان الفاظ کے مفہوم اور معنی نہایت وسیع ہیں مثلاً”حَسَنَةِ“ میں تمام نیک اور پسندیدہ اعمال شامل ہیں اور ان میں سرفہرست خدا پر ایمان، اُس کے پیغمبر پر ایمان اور حضرت علی علیہ السلام اور آئمہ علیہم السلام کی ولایت پر ایمان ہے اور”سَيِّئَةِ“ میں تمام قبیح اور ناپسندیدہ اعمال شامل ہیں جو انسان کو خدا اور اُس کے رسول

۵۸

اور اُس کے اولیائے حق کے خلاف سرکشی پر ابھارتے ہیں اور یہ ”حَسَنَة“کی مکمل ضد ہے۔ لیکن ان کلمات کی تفاسیر اور تعابیر جو ہم تک آئمہ معصومین کے ذریعے سے پہنچی ہیں اور جسے بہت سے علمائے اہل سنت اور شیعہ نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے، کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ”حَسَنَة“ سے مراد قبول ولایت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور اُن کی اولاد ہیں اور ”سَےئَة“ سے مرادعدم قبول ولایت علی اور اولاد علی ہے۔درج ذیل روایت میں اسی بات کی تفسیر ہے:

عَنْ ابی عبدِاللّٰهِ الجَدَلِی قال: قٰال لی علی علیه السلام:اَلٰا اُنَبِّئُکَ بِالْحَسَنَةِ الَّتِی مَنْ جٰاءَ بِهٰااَدْخَلَهُ اللّٰهُ الجَنَّةَ وَبِالسَّيّئَةِ الَّتِی مَنْ جٰاءَ بِهٰااَکَبَّهُ اللّٰهُ فِی النّٰارِوَلَمْ یُقْبَلُ لَه عَمَلاً؟ قُلْتُ بلٰی ثُمَّ قَرَأَ(امیرالمومنین) مَنْ جٰاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَه خَیْرُ مِنْهٰاوَهُمْ مِنْ فَزَعِ یَومَئِذٍآمِنُوْنَ وَمَنْ جٰاءَ بالسَّيّئَةِ فَکُبَّتْ وَجُوْهَهُمْ فِی النَّارِهَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَاکُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ثُمَّ قٰالَ: یٰا أَبٰاعَبْدِاللّٰهِ، اَلْحَسَنَةُ حُبُّنٰاوَالسَّيِّئَةُ بُغْضُنَا

”ابو عبداللہ جدلی سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ امیر المومنین علی علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا:’کیا میں تجھے اُس نیک عمل کی خبر نہ دوں کہ جو کوئی اُس کو انجام دے گا، پروردگار اُس کو بہشت میں داخل کرے گا اور کیا تجھے اُس بدعمل کی خبر نہ دوں کہ اُسے جو کوئی انجام دے گا، پروردگار اُسے جہنم میں پھینکے گااور اُس کاکوئی دوسراعمل بھی قبول نہ ہوگا‘۔

میں نے عرض کی:’ہاں مولا! میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے اس سے باخبرکریں‘۔ حضرت علی علیہ السلام نے پھر یہ آیت پڑھی:

مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَه خَیْرٌ مِّنْهَا وَهُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَئِذٍاٰمِنُوْنَوَمَنْ جَآءَ بِالسَّيِّئَةِ فَکُبَّتْ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِهَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَاکُنْتُمْ تَعْمَلَُوْنَ

پھر فرمایاحَسَنَةہم اہل بیت سے محبت ہے اورسَےئَة اہل بیت سے بغض و دشمنی ہے۔اسی طرح بعض دوسری روایات میں آیاہے کہ آپ نے اس بارے میں فرمایا:

”اَلْحَسَنَةُ مَعْرِفَةُ الْوِلَایَةِ وَحُبُّنٰا اَهْلِ الْبَیْتِ وَالسِّيِّئَةُ اِنْکَارُ الْوِلَایَةِ وَبُغْضُنَا اَهْلَ الْبَیْتِ“ ۔

”حَسَنَة یعنی معرفت ولایت علی علیہ السلام اورہم اہل بیت سے محبت ہے اور سَّےئَة یعنی انکار ولایت علی علیہ السلام اور ہم اہل بیت سے بغض و دشمنی ہے“۔

۵۹

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، باب۶۱،جلد۲،صفحہ۲۹۹۔

۲۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل میں، حدیث۵۸۲،۵۸۷،ج۱،ص۴۲۶،۴۲۸

۳۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۲۴،صفحہ۱۱۳۔

۴۔ ثعلبی اپنی تفسیر میں، جلد۲۔

۵۔ الحنینی کتاب خصائص الوحی المبین، صفحہ۱۲۸۔

۶۔ رشید الدین، مناقب آل علی ، جلد۲،صفحہ۲۲۵،عنوان درجات علی عند قیام الساعة۔

چوبیسویں آیت

اللہ تعالیٰ علی کے وسیلہ سے کفارو مشرکین سے انتقام لیتا ہے

( فَاِمَّانَذْهَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْهُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ )

”پس اگر تم کو ہم لے جائیں گے تو ہم اُن سے بھی ضرور ہی بدلہ لینے والے ہیں“۔

(سورئہ زخرف:آیت۴۱)۔

تشریح

سورئہ مبارکہ زخرف میں اللہ تعالیٰ کفار کی حرکتوں کو نظر میں رکھتے ہوئے اپنے پیغمبر کی تسلی اور سکون کی خاطر فرمارہا ہے کہ کفار کی چالوں کی وجہ سے اسلام کے مستقبل کے بارے میں بالکل پریشان نہ ہوں کیونکہ اگر وہ کفر، ظلم اور انتقام جوئی کو ترک نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ بھی یقینا اُن سے انتقام لے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ بشری زندگی کے مختلف زمانوں میں اپنے قابل دید اور ناقابل دید لشکروں سے کفار، منافق اور مشرکوں سے انتقام لیتا رہا ہے اور اُن کوسزائیں دیتا رہا ہے اور یہ عمل اُس کیلئے کوئی مشکل نہیں کیونکہ اُس کی ذات

( فَعَّالٌ لِمٰا یُرِیْد )

”وہ جو چاہتا ہے ، کرتا ہے“۔

۶۰

امام ـ نے کس طرح ہجرت کی

پیغمبر(ص) کی ہجرت کے بعد امام علیہ السلام پیغمبر کے خط کے منتظر تھے .کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ابو واقد لیثی حضرت کا خط لیکر مکہ پہونچا اور حضرت علی علیہ السلام کے سپرد کیا. پیغمبر نے جو کچھ بھی ہجرت کی تیسری شب غار ثور میں زبانی حضرت علی سے کہا تھا اس خط میں ان چیزوں کی تاکید کی اور حکم دیا کہ خاندان رسالت کی عورتوں کولے کر روانہ ہو جائیں اور غریب و ناتوان افراد جو ہجرت کی طرف مائل ہیں ان کی مدد کریں۔

امام علیہ السلام لوگوں کی امانت ادا کرنے کے سلسلے میں پیغمبر کے حکم پرپورے طور پر عمل کرچکے تھے اور اب صرف ایک کام باقی تھا اور وہ یہ کہ خود اور خاندان رسالت کی عورتوں کو مدینہ لے جانے کا اسباب فراہم کریں. لہٰذا مومنین کا وہ گروہ جو ہجرت کے لئے آمادہ تھا اسے حکم دیاکہ خاموشی سے مکہ سے باہر نکل جائیں اور چند کیلو میٹر دور ''ذو طویٰ'' مقام پر قیام کریں تاکہ امام کا قافلہ وہاں پہونچ جائے، حضرت علی ـ نے مومنین کو خاموشی سے جانے کا حکم دیا تھا مگر خود دن کے اجالے میں سفر کے لئے آمادہ ہوئے اورعورتوں کو ام ایمن کی بیٹی ایمن کے ذریعے عماریوں پر سوار کرایا اور ابوواقد سے کہا اونٹوں کو آہستہ آہستہ لے جاؤ کیونکہ عورتیں تیز تیز جانے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔

ابن شہر آشوب لکھتے ہیں :

جب عباس حضرت علی کے اس ارادے سے باخبر ہوئے کہ وہ دن کے اجالے میں دشمنوں کے سامنے سے مکہ سے ہجرت کر رہے ہیں اور عورتوں کو بھی اپنے ساتھ لے جارہے ہیں تو فوراً حضرت علی کی خدمت میں آئے اور کہا کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پوشیدہ طور سے مکہ سے گئے تو قریش ان کو تلاش کرنے کے لئے پورے مکہ اور اطراف مکہ میں ڈھونڈتے رہے تو تم کس طرح سے دشمنوں کے سامنے عورتوں کے ہمراہ مکہ سے باہر نکلو گے؟ کیاتم نہیں جانتے کہ دشمن تمھیں مکہ سے باہر نہیں جانے دیں گے؟

علی علیہ السلام نے اپنے چچا کو جواب دیتے ہوئے فرمایا: کل رات جب میں نے غار ثور میں پیغمبر سے ملاقات کی اور پیغمبر نے حکم دیاکہ ہاشمی عورتوں کے ساتھ مکہ سے ہجرت کرنا تو اسی وقت مجھے خوشخبری بھی دی کہ اب مجھے کوئی بھی تکلیف نہیں پہونچے گی، میں اپنے پروردگار پر اعتماداور احمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قول پر ایمان رکھتا ہوں اور ان کا اور میرا راستہ ایک ہی ہے اسی لئے میں دن کے اجالے اور دشمنوں کی آنکھوں کے سامنے سے مکہ سے ہجرت کروں گا۔

۶۱

پھر، امام علیہ السلام نے کچھ اشعار پڑھے جن کا مفہوم وہی ہے جو ہم بیان کرچکے ہیں۔(۱)

امام نے نہ صرف اپنے چچا کو ایسا جواب دیا، بلکہ جب لیثی نے اونٹوں کی ذمہ داری اپنے سر لی اورقافلے کو جلدی جلدی لے جانے لگا تاکہ دشمنوں کے سامنے سے جلدی سے دور ہو جائے تو امام نے اُسے اونٹوں کو تیز تیز لے جانے سے منع کیا اور فرمایا: پیغمبر نے مجھ سے فرمایا ہے کہ اس سفر میں تمھیں کوئی تکلیف واذیت نہیں پہونچے گی پھر اونٹوں کو لے جانے کی ذمہ داری خود لے لی اور یہ رجز پڑھا۔

تمام امور کی باگ ڈور خدا کے ہاتھ میں ہے لہٰذا ہر طرح کی بدگمانی کو اپنے سے دور کرو کیونکہ اس جہان کا پیداکرنے والا ہر اہم حاجت کے لئے کافی ہے۔(۲)

______________________

(۱) امام علیہ السلام کے اشعار یہ ہیں:

ان ابن آمنة النبی محمداً

رجل صدوق قال عن جبرئیل

ارخ الزمام و لاتخف عن عائق

فالله یردیهم عن التنکیل

انی بربی واثق و باحمد

و سبیله متلا حق بسبیلی

(۲) امالی شیخ طوسی ص۲۹۹، بحار الانوار ج۱۹ ص ۶۵ اور رجز کی عبارت یہ ہے:

لیس الا الله فارفع ظنکا یکفیک رب الناس ما اهمّکا

۶۲

قریش نے حضرت علی ـ کا تعاقب کیا

امام کا قافلہ سرزمین ''ضجنان'' پہونچنے والا تھا کہ سات نقاب پوش سوار سامنے سے آتے ہوئے دکھائی دیئے جو اپنے گھوڑوں کو بہت تیزی کے ساتھ قافلے کی طرف دوڑائے ہوئے تھے. امام نے عورتوںکو ہر طرح کی مشکلات سے بچانے اور ان کی حفاظت کے لئے واقد اور ایمن کوحکم دیا کہ فوراً اونٹوں کو بٹھادواوران کے پیروں کو باندھ دو. پھر عورتوں کواونٹوں سے اتارنے میں مدد فرمائی، جیسے ہی یہ کام ختم ہوا تمام نقاب پوش سوار برہنہ تلواریں لئے ہوئے قافلے کے قریب آگئے اور چونکہ وہ غصے سے بھرے ہوئے تھے اس لئے اس طرح برا و ناسزا کہنا شروع کردیا : کیاتم یہ سوچتے ہو کہ ان عورتوں کے ساتھ ہمارے سامنے فرار کرسکتے ہو؟ بس اس سفر سے باز آجاؤ!

حضرت علی علیہ السلام نے کہا: اگر واپس نہ گیاتو کیا کرو گے؟

انھوں نے کہا: زبردستی تم کو اس سفر سے روکیں گے یا تمہارے سر قلم کردیںگے۔

اتنا کہنے کے بعد وہ لوگ اونٹوں کی طرف بڑھے تاکہ ان کو واپس لے جائیں اس وقت حضرت علی نے اپنی تلوار نکال کر ان کو اس کام سے روکا. ان میں سے ایک شخص نے اپنی برہنہ تلوار حضرت علی کی طرف بڑھائی. ابوطالب کے لال نے اس کی تلوار کے وار کو روکا اور غصے کی حالت میں تھے ان پر حملہ کیا اور اپنی تلوار سے ''جناح'' نامی شخص پر وار کیا. قریب تھا کہ تلوار اس کے شانے کو کاٹتی کہ اچانک اس کا گھوڑا پیچھے کی طرف ہٹا اورامام کی تلوار گھوڑے کی پشت پر جالگی، اس وقت حضرت علی نے ان سب کو متوجہ کرتے ہوئے بآواز بلندکہا:

''میں عازم مدینہ ہوں اور رسول خدا کی ملاقات کے علاوہ میراکوئی اور مقصد نہیں ہے ،جو شخص بھی یہ ارادہ رکھتا ہے کہ انھیں ٹکڑے ٹکڑے کرے اور ان کا خون بہائے وہ میرے ساتھ یامیرے نزدیک آئے۔''

۶۳

اتنا کہنے کے بعد آپ نے ایمن او رابوواقد کو حکم دیاکہ فوراً اٹھ کر اونٹوں کے پیر کھول دیںاور چلنے کے لئے آمادہ ہوجائیں۔

دشمنوں نے یہ احساس کرلیا کہ حضرت علی جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہیں او رانھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ان کے ساتھیوں میں سے ایک شخص عنقریب مرنے ہی والا تھا، لہٰذا اپنے ارادے سے باز آگئے او رمکہ کے راستے کی طرف چل پڑے. امام نے بھی اپنے سفر کو مدینے کی طرف جاری رکھا آپ نے کوہ ضجنان کے نزدیک ایک دن او رایک رات قیام کیا تاکہ وہ لوگ جوہجرت کے لئے آمادہ تھے وہ بھی آجائیں تمام افراد میں سے جو حضرت علی اور ان کے ہمراہیوں سے ملحق ہوئے ان میں ایک ام ایمن تھیں جوایک پاکدامن عورت تھیں جنھوں نے آخر عمر تک خاندان رسالت کو نہیں چھوڑا۔

تاریخ کا بیان ہے کہ حضرت علی نے یہ پورا راستہ پیدل چل کر تمام کیا،اور ہر ہر منزل پر خدا کا ذکر کرتے رہے اور پورے سفر میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ نماز پڑھی۔

بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ درج ذیل آیت ان افراد کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔(۱)

( الَّذِینَ یَذْکُرُونَ اﷲَ قِیَامًا وَقُعُودًا وَعَلَی جُنُوبِهِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْارْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا ً ) (۲)

جو لوگ اٹھتے، بیٹھتے ، کروٹ لیتے (الغرض ہر حال میں) خدا کا ذکر کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی بناوٹ میںغور و فکر کرتے ہیں اور (بے ساختہ) کہہ اٹھتے ہیں کہ خداوندا تونے اس کو بیکار پیدا نہیں کیا ہے۔

جب حضرت علی ، اور ان کے ہمراہی مدینہء منورہ پہونچے تو رسول اکرم(ص) ان کے دیدار کے لئے فوراً گئے جس وقت پیغمبر اسلام کی نگاہ حضرت علی پر پڑی تو آپ نے دیکھا کہ ان کے پیر ورم کر گئے ہیںاوران سے خون کے قطرے گر رہے ہیں.آپ نے فوراً حضرت علی کو گلے سے لگایا اورفرط محبت سے آپ کی چشم مبارک سے آنسووؤں کے قطرات جاری ہوگئے۔(۳)

______________________

(۱) امالی شیخ طوسی ص ۳۰۳۔ ۳۰۱

(۲) سورۂ آل عمران، آیت ۱۹۱

(۳) اعلام الوریٰ ص ۱۹۲، تاریخ کامل ج۲ ص ۷۵

۶۴

دوسری فصل

دو بڑی فضیلتیں

اگر اجتماعی مسئلوں کے ہر مسئلے پر شک کریں یا ان کو ثابت کرنے کے لئے تحقیق ،دلیل اور برہان کے محتاج رہیں توایسی صورت میں اجتماعی اتحاد و ہمبستگی اور منافع وغیرہ کے سلسلے میں شک و تردید میں نہیں الجھیں گے .اور کوئی شخص بھی ایسا نہیں ملے گا جویہ کہے کہ نااتفاقی اوراختلاف مفید چیزہے اور اتحاد واتفاق برا اور نقصان دہ ہے. کیونکہ اتفاق کی وجہ سے سب سے کم فائدہ جومعاشرے کو پہونچے گا وہ یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی اور بکھری ہوئی فوجیں آپس میں مل جائیں گی ،اور عظیم فوج کے سائے میں معاشرے میں مختلف طریقوں سے بڑے بڑے تحولات پیدا ہوںگے۔

وہ پانی جو بڑی بڑی ندیوں کے کنارے چھوٹی چھوٹی نہروں کی طرح بہتا ہوا نظر آتا ہے وہ چھوٹے دریاؤں سے ملنے کی وجہ سے وجود میں آیا ہے جس کے اندر نہ اتنی صلاحیت ہے کہ بجلی پیدا کرسکے اور نہ اتنی مقدار ہی میں ہے کہ اس سے کھیتی کی جاسکے ،لیکن جب یہ چھوٹی چھوٹی نہریں ایک جگہ جاکر مل جاتی ہیں تو ایک دریا کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور اب یہ دریاہزاروں کیلو واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا کرلیتا ہے اور اس کے پانی سے ہزاروں ایکٹر زمین سیراب کر کے کھیتی کی جاتی ہے۔

غرض ز انجمن واجتماع وجمع قواست

چرا کہ قطرہ چوشدمتصل بہ ہم دریا است

اجتماع اور انجمن اور جمع ہونے کا مقصد طاقت ہے ،کیونکہ اگر پانی کا ایک قطرہ دریاسے مل جائے تو وہ بھی دریا بن جاتا ہے۔

ز قطرہ ہیچ نیایدولی چو دریا گشت

ہر آنچہ نفع تصور کنی در آن آنجا است

قطرہ سے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا ،لیکن اگر یہی قطرہ دریابن گیا تو تم جتنا بھی فائدہ سوچ سکتے ہو تمہیں ملے گا۔

۶۵

ز قطرہ ماہی پیدا نمی شود ہرگز

محیط گشت ، از آن نہنگ خواہد خاست

قطرہ میں کبھی بھی مچھلی زندہ نہیں رہ سکتی، مگر جب یہی قطرہ دریا بن گیا تواس میں نہنگ مچھلی زندہ رہ سکتی ہے ۔

ز گند می نتوان پخت نان وقوت نمود

چو گشت خرمن وخروار وقت برگ ونواست

ایک گیہوں سے روٹی نہیں پکائی جاسکتی اور زندگی بسر نہیں ہو سکتی جب وہ کھلیہان میں گیاتو ایک ذخیرہ بن گیا ہے

ز فرد فرد محال است کارہای بزرگ

ولی ز جمع توان خواستہ ہرچہ خواہی خواست

ایک بڑا کام الگ الگ مردوں سے انجام پانابہت محال ہے، لیکن اگر یہی تمام لوگ ایک ساتھ جمع ہو جائیں تو جو بھی کرناچاہیں انجام دے سکتے ہیں۔

۶۶

بلی چو مورچگان را وفاق دست دہد

بہ قول شیخ، ہژ بر ژیان اسیر و فنا است

اگر چیونٹیوں کی طرح اتحاد و اتفاق کا دامن ہاتھ میں رہے تو شیخ کے بقول زندگی فنا و برباد ہے ۔

اپنے مقصد میں کامیابی کے لئے نہ صرف مادی چیزوں کو طلب کرے بلکہ ضروری ہے کہ لوگوں کی فکری اور معنوی قدرت وطاقت سے اجتماعی مشکلوں کا حل تلاش کرے ،اور صحیح لائحہ عمل بنانے میں مددطلب کرے، اور ایک دوسرے سے مشورہ اور تبادلۂ نظر کے نئے نئے راستے ہموار کرے اور بزرگ و سنگین پہاڑ جیسی مشکلوں سے ہوشیار رہے۔

یہی وجہ ہے کہ آئین اسلام کے اصلی اور بیش قیمتی برناموںمیں تبادلہ خیالات اور مشورے کی اجتماعی امور میں بہت زیادہ اہمیت بیان کی گئی ہے، اور قرآن مجید نے جن لوگوں کوحق پسند اور حق شناس جیسے ناموں سے تعبیر کیا ہے ان کے تمام کام مشورے اور تبادلہ خیالات سے انجام پاتے ہیں۔

( وَالَّذِینَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَاقَامُوا الصَّلاَةَ وََمْرُهُمْ شُورَی بَیْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ یُنْفِقُونَ ) (۱)

اور جو اپنے پروردگار کا حکم مانتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیںاور ان کے کل کام آپس کے مشورے سے ہوتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیں عطا کیاہے اس میں سے (راہ خدا میں) خرچ کرتے ہیں۔

______________________

(۱) سورۂ شوریٰ آیت ۳۸

۶۷

اتحاد اور اخوت

آئین اسلام کاایک اہم اور اجتماعی اصول ''اخوت و برادری'' ہے .پیغمبر اسلام(ص) مختلف صورتوں سے اخوت و برادری کو عام کرنے میں بہت زیادہ کوشاں رہے ہیں۔مہاجرین کے مدینہ پہونچنے کے بعد پہلی مرتبہ اخوت وبرادری کا رشتہ انصار کے دو گروہ یعنی اوس و خزرج کے درمیان پیغمبر اسلام کے ذریعے قائم ہوا۔

یہ دو قبیلے جومدینہ ہی کے رہنے والے تھے اور عرصۂ دراز سے آپس میں جنگ وجدال کرتیتھے ، رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی کوششوں کے نتیجے میں ایک دوسرے کے بھائی بن گئے اورارادہ کرلیاکہ ہم لوگ پرانی باتوں کو کبھی نہیں دہرائیں گے.اس اخوت و برادری کاہدف و مقصد یہ تھاکہ اوس و خزرج جو اسلام کے دواہم گروہ مشرکوںکے مقابلے میںتھے وہ آپس میں ظلم و بربریت، لڑائی جھگڑا او رایک دوسرے پر زیادتی کرنے سے باز آجائیں اور پرانی دشمنی کی جگہ صلح و صفا کویاد رکھیں۔

دوسری مرتبہ پیغمبر نے اپنے صحابیوں اوردوستوں کوچاہے مہاجرین سے ہوںیاانصار میں سے ، حکم دیا کہ آپس میں ایک دوسرے کواپنا بھائی بنالیں اوردوسرے کے بھائی بن جائیں ،کتنی عمدہ بات ہے کہ دومہاجر ایک دوسرے کے بھائی یا ایک مہاجر میں سے اور ایک انصار میں سے ایک دوسرے کے بھائی بن گئے اور بھائی چارگی کے عنوان سے ایک دوسرے کے ہاتھ میں اپناہاتھ دیااوراس طرح سے ایک سیاسی اور معنوی قدرت و طاقت ابھر کر ان کے سامنے آگئی۔

اسلامی مؤرخین ومحدثین لکھتے ہیں:

ایک دن پیغمبر اپنی جگہ سے اٹھے اوراپنے دوستوں سے فرمایا: ''تآٔخوا فی الله اخوین اخوین''

یعنی خدا کی راہ میں آپس میں دودوآدمی بھائی بن جاؤ۔

تاریخ نے اس موقع پر ان افراد کا نام ذکر کیا ہے جن لوگوں نے اس دن پیغمبر کے حکم سے ایک دوسرے کے ساتھ رشتۂ اخوت کو قائم کیا مثلاً ابوبکر اور عمر ،عثمان اور عبدالرحمن بن عوف، طلحہ او ر زبیر، ابی ابن کعب اور ابن مسعود، عمار اور ابو حذیفہ، سلمان اور ابو الدرداء وغیرہ آپس میں ایک دوسرے کے بھائی بنے اور ان افراد کی بھائی چارگی کو پیغمبر نے تائید کیا .یہ برادری اوربھائی چارگی جو چند افراد کے درمیان قائم ہوئی اس برادری اور اسلامی برادری کے علاوہ ہے جسے قرآن کریم نے اسلامی معاشرے میں معیار ومیزان قرار دیا ہے اور تمام مومنین کوایک دوسرے کا بھائی کہا ہے۔

۶۸

حضرت علی ـ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بھائی تھے :

رسول اسلام(ص) نے جتنے افراد بھی مسجد نبوی میں حاضر تھے انھیںایک دوسرے کا بھائی بنایا، صرف علی ـان کے درمیان تنہا بچے جن کے لئے بھائی کانتخاب نہیں کیا، اس وقت حضرت علی آنکھوں میں آنسوؤوں کا سوغات لئے ہوئے پیغمبر اسلام کی خدمت میں پہونچے اور کہا آپ نے اپنے تمام دوستوں کے لئے ایک ایک بھائی کا انتخاب کردیا لیکن میرے لئے کسی کو بھائی نہیں بنایا۔

اس وقت پیغمبر اکرم نے اپنا تاریخی کلام جوحضرت علی کی پیغمبر سے قربت و منزلت اور نسبت اور آپ کی شخصیت کو اجاگر کرتا ہے انھیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

''اَنْتَ اَخِیْ فِی الدُّنْیٰا وَ الْآخِرَةِ وَالَّذِیْ بَعَثَنِیْ بِالْحَقِّ مٰا اَخَّرتُکَ الاّٰ لِنَفْسِیْ اَنْتَ اَخِیْ فِی الدُّنْیٰاوَ الْآخِرَةِ'' (۱)

تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو .وہ خدا جس نے ہمیںحق پر مبعوث کیا ہے میں نے تمہاری برادری کے سلسلے میں خود تاخیر سے کام لیا ہے تاکہ تمہیںاپنابھائی قرار دوں، ایسی بھائی چارگی جو دونوں جہان (دنیا و آخرت) میں باقی رہے۔

رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ کلام حضرت علی ـ کی عظمت اور پیغمبر اسلام سے نسبت کو معنوی و پاکیزگی اور دین کے اہداف میں خلوص کو بخوبی واضح ورو شن کرتا ہے. خود اہلسنت کے دانشمندوں میں سے

______________________

(۱) مستدرک حاکم، ج۳، ص ۱۴، استیعاب ، ج۳، ص ۳۵

۶۹

الریاض النضرة کے مؤلف نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔(۱)

یہاں پر آیت مباہلہ(۲) کی تفسیر کا مبنٰی سمجھ میں اتا ہے تمام علمائے تفسیر کا اتفاق ہے کہ( اَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ ) سے مراد علی بن ابی طالب ہیںجسے قرآن نے ''نفس پیامبر'' کے خطاب سے یاد کیا ہے. اس لئے کہ فکری اور روحی جاذبیت نہ یہ کہ صرف دو فکروں کواپنی طرف کھینچتی ہے بلکہ کبھی کبھی دو انسان کو ایک ہی شخص بتاتی ہے۔

اس لئے کہ ہر موجود اپنے ہم جنس کو جذب اور اپنے مخالف کو دفع کرتی ہے، اور یہ عالم اجسام اور اجرام زمین و آسمان سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ عظیم وبزرگ شخصیتیں جذب اوردفع کا مظہر ہیں.ایک گروہ کو جذب اور دوسرے گروہ کو دفع کرتی ہیں. اس طریقے کی کشش اور گریز سنخیت یا روح کے متضاد ہونے کی وجہ سے ہے اور یہی سنخیت اور تضاد ہے جوایک گروہ کواپنے قریب کرتی ہے اور دوسرے گروہ کواپنے سے دور کردیتی ہے۔ اس مسئلہ کو اسلامی فلسفۂ نے اس طرح تعبیر کیا ہے''السنخیة علة الانضمام'' یعنی سنخیت اور مشابہت اجتماع اورانضمام کا سرچشمہ ہے۔

امام ـ کی ایک اور فضیلت

جب مسجد نبوی کی تعمیر ہوچکی تو پیغمبر کے صحابیوں نے مسجد کے اطراف میں اپنے اپنے لئے گھر بنائے اور ہر گھر کا ایک دروازہ مسجد کی طرف کھلا رکھا پیغمبر اسلام نے بحکم خدا فرمایا: تمام دروازے جو مسجد کی طرف کھلتے ہیں اسے بند کردیا جائے سوائے علی بن ابی طالب کے دروازے کے ، یہ بات رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بہت سے صحابیوں پر ناگوار گذری لہٰذا پیغمبر اسلام منبر پر تشریف لائے اور فرمایا : خداوند عالم نے مجھے حکم دیاہے کہ تمام دروازے جو مسجد کی طرف کھلتے ہیںانھیں بند کردوں سوائے حضرت علی کے دروازے کے، اور خودمیں نے اپنی طرف سے دروازہ بند کرنے یا کھولنے کا حکم نہیں دیاہے بلکہ میں اس مسئلے میں خدا کے حکم کا پابند ہوں۔(۳)

______________________

(۱)الریاض النضرة ج۲ ص ۱۶ مؤلف محب الدین طبری

(۲)سورہ آل عمران ۶۱

(۳) مسند احمد ج۳ ص ۳۴۹، مستدرک حاکم ج۳ ص ۱۲۵ ،الریاض النضرة ج۳ ص ۱۹۲

۷۰

اس دن رسول خدا کے تمام صحابیوں نے اس واقعہ کو حضرت علی ـ کی ایک بہت بڑی فضیلت سمجھا یہاں تک کہ بہت زمانے کے بعد خلیفۂ دوم نے کہا کہ ، کاش وہ تین فضیلتیں جو علی کونصیب ہوئیں وہ مجھے بھی نصیب ہوتیں، اور وہ تین فضیلتیں یہ ہیں:

۱۔ پیغمبر نے اپنی بیٹی کا عقد علی ـ سے کیا۔

۲۔ تمام دروازے جو مسجد کی طرف کھلتے تھے وہ بند ہوگئے صرف علی ـکے گھر کا دروازہ کھلا رہا۔

۳۔ جنگ خیبر میں پیغمبر نے علم کوعلی ـ کے ہاتھوں میں دیا۔(۱)

حضرت علی ـاور لوگوں کے درمیان جو فرق ہے وہ اسی لئے کہ آپ کا مسجد سے کسی وقت بھی رابطہ منقطع نہیں ہوا ،وہ خدا کے گھر میں پیدا ہوئے اورکعبہ میں آنکھ کھولی اس بنا پر پہلے ہی دن سے مسجد آپ کا گھر تھا اور یہ تمام فضیلتیں کسی دوسرے کے لئے نہ تھیں اس کے علاوہ حضرت علی ہمیشہ اور ہر حالت میں مسجد کے احکام کی رعایت کرتے تھے لیکن دوسرے افرادبہت کم مسجدکے آداب و احکام کی رعایت کرتے تھے۔

______________________

(۱) مسند احمد، ج۲، ص ۲۶

۷۱

تیسری فصل

جنگ بدر کا بے نظیر بہادر

ضمضم نامی شخص کی دلسوز آواز، جس نے اپنے اونٹ کا کان کاٹ ڈالا ،اس کی ناک کو شگافتہ کر ڈالا،کوہان کو موڑے ، اونٹ کو الٹا کئے ہوئے تھا، نے قریش کو اپنی طرف متوجہ کیا .اس نے اپنے پیراہن کو آگے سے پیچھے تک پھاڑ دیا اور اونٹ کی پیٹھ پر سوار جس کے کان اور دماغ سے خون ٹپک رہا تھا ،کھڑا ہوا تھا اور چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ اے لوگو جس اونٹ کے ناف میں مشک ہے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے ساتھیوں کی وجہ سے خطرے میں ہے .وہ لوگ چاہتے ہیں کہ ان تمام اونٹوں کو سر زمین بدر کا تاوان قرار دیں، میری مدد کو پہونچو میری مدد کرو۔اس کے مسلسل چیخنے اوراستغاثہ کرنے کی وجہ سے قریش کے تمام بہادر اور نوجوان گھر، کارخانہ اور دوکانوں سے نکل کر اس کے پاس جمع ہوگئے .زخمی اونٹ کی حالت اور ضمضم کی آہ و بکا نے ان لوگوں کی عقلوں کو حیرت میں ڈال دیا اور لوگوں کواحساسکے حوالے کر دیا، اکثر لوگوں نے یہ ارادہ کرلیا کہ شہر مکہ کو کاروان قریش سے نجات دینے کے لئے ''بدر'' کی طرف چلے جائیں۔پیغمبر اسلام(ص) اس سے بلند و بالا تھے کہ کسی کے مال و دولت پر نگاہ کرتے اور کسی گروہ کے مال و متاع کو بغیر کسی سبب کے تاوان قرار دیتے، تو پھر کیاہوا کہ آپ نے اس طرح کا ارادہ بنالیا تھا؟

رسول اسلام (ص) کا مقصداس کام سے فقط دو چیز تھا۔

۱۔ قریش کواس بات کا علم ہو جائے کہ ان کے تجارت کرنے کا طریقہ ،اسلام کے ہاتھوں میں قرار دیا گیاہے اور اگر وہ لوگ اسلام کی نشر واشاعت اور تبلیغ کے لئے مانع ہوں اور بیان آزادی کو مسلمانوں سے چھین لیںتو ان کے حیات کی رگوں کواسلامی طاقتوں کے ذریعہ کاٹ دیا جائے گا. کیونکہ بولنے والا جتنا بھی قوی ہواور چاہے جتنا بھی خلوص واستقامت دکھائے لیکن اگر آزادیٔ بیان و تبلیغ سے استوار نہ ہو تو شائستہ طور پر اپنے وظیفے کو انجام نہیں دے سکتا۔

مکہ میں قریش، اسلام کی تبلیغ واشاعت اورآئین الہی کی طرف لوگوں کے متوجہ ہونے میں سب سے زیادہ مانع تھے. ان لوگوںنے تمام قبیلے والوں کواجازت دیدیا کہ حج کے زمانے میں مکہ آئیںلیکن اسلام اور مسلمانوں کے عظیم المرتبت رہبر کو مکہ اور اطراف مکہ میںداخلے پر پابندی عائد کردی ، یہاں تک کہ اگر ان کو پکڑ لیتے تو قتل کردیتے .اس وقت جب لوگ حج کے زمانے میں حجاز کے تمام شہروںسے خانہ کعبہ کے اطراف جمع ہو رہے تھے ، قوانین اسلام وتوحید کے پیغام کو پہونچا نے کا بہترین وقت تھا۔

۷۲

۲۔ مسلمانوں کے بعض گروہ جو کسی بھی وجہ سے مکہ سے مدینے کی طرف ہجرت نہیں کرسکے تھے وہ ہمیشہ قریش کے عذاب میں مبتلا تھے. وہ اپنا مال و متاع اور جولوگ ہجرت کر گئے تھے ان کے مال و متاع کوآج تک حاصل نہ کرسکے تھے اور قریش کی طرف سے ہمیشہ ڈرائے اور دھمکائے جاتے تھے۔

پیغمبر اسلام نے کاروان قریش سے تجارت کے سامانوں کا تاوان لینے کے لئے قدم اٹھایااور ارادہ کیا کہ سختی سے ان کی تنبیہ کی جائے جنھوں نے مسلمانوں سے ہر طرح کی آزادی کو چھین لیا تھا اور مسلسل انھیں اذیت وتکلیف دیتے رہتے تھے اور ان کے اسباب کی پرواہ تک نہ کرتے تھے۔

اسی وجہ سے پیغمبر ماہ رمضان ۲ھ میں۳۱۳/ آدمیوںکے ہمراہ کاروان قریش کے مال و سامان سے تاوان لینے کے لئے مدینہ سے باہر آئے اور بدر کے کنویں کے پاس ٹھہر گئے، قریش کا تجارتی لشکر شام سے مکہ کی طرف واپس جا رہا تھا اور راستے میں اسے ''بدر'' نامی دیہات سے ہوکر گذرنا تھا۔

ابو سفیان جواس قافلے کا سرپرست تھا، پیغمبر کے ارادے سے باخبر ہوگیا اوراس خبر کو قریش کے سرداروں کے پاس ضمضم کے ذریعے بھیج دیا اور اسے قریش کے سرداروں کے پاس اپنا پیغام بھیجوانے کے لئے اجیر کرلیا تاکہ لوگ قافلے کی مدد کرنے جلد سے جلد آجائیں. ضمضم نے جوماحول بنایا وہ باعث ہوا کہ قریش کے تمام بہادر نوجوان اور جنگجو،قافلے کی مدد کے لئے اٹھ کھڑے ہوں اور جنگ کے ذریعے اس کام کا خاتمہ کردیں۔

قریش نے ایسے نو سو سپاہیوں کا لشکر تیار کیا جوجنگ کے امور میں پختہ دلیری سے لڑنے والے بہترین اسلحوںکے ساتھ ''بدر'' کی طرف روانہ ہوئے لیکن مقصد پر پہونچنے سے پہلے ہی راستے میں ابوسفیان کے دوسرے ایلچی نے اس خبر سے آگاہ کیا کہ قافلے نے اپنا راستہ بدل دیا ہے اور ایک دوسرے راستے سے مسلمانوں سے بچ کر نکل گیا اوراپنے کو محفوظ کرلیا ہے، لیکن ان لوگوں نے اسلام کو، جوابھی شباب کی منزل پر پہونچا تھا سرکوبی کے لئے اپنے ہدف کی طرف سفر جاری رکھااور ۱۷ رمضان ۲ ھ کی صبح کوایک پہاڑ کے پیچھے سے بدر کے میدان میں وارد ہوئے۔

۷۳

مسلمان بدر کے شمالی طرف سے گذرنے والے درہ کی ڈھلان''العدوة الدنیا'' (۱) کوپناہ گاہ بنائے ہوئے قافلہ کے گذر نے کا انتظار کر رہے تھے. کہ اچانک یہ خبر پہونچی کہ قریش کا لشکر اپنے تجارتی سامان کی حفاظت کے لئے مکہ سے روانہ ہوچکا ہے اورالعدوة القصویٰ(۲) درہ کی بلندی سے نیچے اتر رہا ہے ۔

پیغمبر اسلام کا انصار سے عہد و پیمان، دفاعی تھانہ کہ جنگی، انھوں نے عقبہ میں پیغمبر کے ساتھ عہد کیا تھا کہ اگر دشمن نے مدینہ پر حملہ کیا تووہ پیغمبر اکرم (ص)کا دفاع کریں گے نہ یہ کہ ان کے ساتھ مدینہ کے باہر دشمنوں سے لڑیںگے لہٰذا پیغمبر اسلام نے سپاہیوںکی ایک میٹنگ جوکچھ جوانان انصار اور کچھ مہاجرین کے نوجوانوں پر مشتمل تھی بلائی اور اس میں لوگوں کا نظریہ جاننا چاہا. اس میٹنگ میں جونظریات وجود میں آئے وہ یہ تھے کہ کچھ لوگوںنے شجاعت و بہادری کی بات کی اور کچھ لوگوںنے بزدلی اور عاجزی وبے چارگی کی باتیں کیں۔

سب سے پہلے ابوبکر اٹھے اور کہا:

قریش کے بزرگان اورنوجوان نے اس قافلے سے مقابلے کے لئے شرکت کی ہے، اور قریش آج تک کسی بھی قانون پر ایمان نہیں لائے اورایک لمحہ کے لئے بھی ذلیل ور سوا نہیں ہوئے ہیں اور ہم لوگ مکمل تیاری کے ساتھ یہاں نہیں آئے ہیں(۳) یعنی مصلحت یہ ہے کہ یہاں سے مدینہ واپس چلے جائیں۔

عمربھی اپنی جگہ سے اٹھے اوراپنے دوست کی بات کی مزید وضاحت کی ۔

اسی وقت مقداد اٹھے اور انھوں نے کہا :

خدا کی قسم ہم بنی اسرائیل کی طرح نہیں ہیں جو موسیٰ سے کہیں : ''اے موسیٰ تم اپنے خدا کے ساتھ جاؤ جہاد کرواورہم لوگ یہاںبیٹھے ہیں'' بلکہ ہم اس کے برعکس کہتے ہیں کہ آپ پروردگار کے زیر سایہ جہاد کیجئے ہم بھی آپ کے ہمراہ جہاد کریںگے۔

______________________

(۱)،(۲) سورۂ انفال، آیت ۴۲

(۳)مغازی واقدی ج۱ ص ۴۸

۷۴

طبری لکھتا ہے کہ جس وقت مقداداٹھے اور چاہا کہ گفتگو کریں توپیغمبر اکرم کے چہرے سے غیض و غضب (جو عمر وابوبکر کی باتیں سن کر ہوا تھا) کے آثار نمودار تھے. لیکن جب مقداد کی گفتگواور مدد کرنے کی خوشخبری سنا تو آپ کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔(۱)

سعد معاذ بھی اٹھے اور کہا کہ جب بھی تم اس دریا (بحر احمر کی طرف اشارہ) کی طرف قدم بڑھاؤ گے ہم بھی تمہارے پیچھے پیچھے اپنے قدم بڑھائیں گے، اور جہاں پر بھی تم مصلحت سمجھناہمیں راستہ دیدینا، اس موقع پر خوشی اور مسرت کے آثار پیغمبر کے چہرۂ اقدس پر آشکار ہوئے اور خوشخبری کے طور پر ان سے کہا: میں قریش کے قتل عام کی وجہ سے مضطرب ہوں. پھر اسلام کی فوج پیغمبر کی سپہ سالاری میں وہاں سے روانہ ہوگئی اور دریائے بدر کے کنارے مستقر ہوئی۔

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۲ ص ۱۴۰، عبداللہ بن مسعود سے نقل ہوا ہے۔

۷۵

حقیقت کوچھپانا :

طبری اور مقریزی جیسے مؤرخین نے کوشش کی ہے کہ حقیقت کے چہرے کوتعصب کے پردے سے چھپادیں اور شیخین کی پیغمبر کے ساتھ ہوئی گفتگو کو جس طرح سے کہ واقدی نے مغازی میں نقل کیا ہے اس طرح نقل نہ کریں ،لہذاکہتے ہیں کہ ابوبکر نے اٹھ کر بہترین گفتگو کی اور اسی طرح سے عمر نے بھی اٹھ کر اچھی باتیں کیں۔

لیکن ضروری ہے کہ یہاں پران دو تاریخ لکھنے والوں سے سوال کیا جائے کہ جب ان دونوںنے اس میٹنگ میں اچھی اچھی باتیں کہی تھیں تو پھر تم لوگوںنے ان کی اصل گفتگوکو نقل کرنے سے کیوںگریز کیا؟ جب کہ تم لوگوں نے مقداد اور سعد کی گفتگو کو تمام جزئیات کے ساتھ نقل کیا ہے؟ تواگر ان لوگوںنے بھی اچھی گفتگواور عمدہ بات کہی تھی تو کیوں پیغمبر کا چہرہ ان کی باتیں سن کر رنجیدہ ہوگیا جیسا کہ خود طبری نے اس چیز کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے؟

لہذا ضروری ہے کہ حضرت علی ـ کی شخصیت و عظمت کے بارے میں اس جنگ کے حوالے سے تحقیق و جستجو کیا جائے۔

حق و باطل کا مقابلہ

مسلمان اور قریش دونوںگروہوں نے جنگ کے لئے صف بندی شروع کردی، اور چند چھوٹے چھوٹے حادثوں نے آتش جنگ کو شعلہ ور کردیا، ابتدا میں ایک ایک شخص لڑنے کوآمادہ ہوا تین افراد بنام عتبہ پدرہندہ (ابوسفیان کی بیوی کا باپ) اوراس کا بڑا بھائی شیبہ اور عتبہ کا بیٹا ولید میدان جنگ میں آکر کھڑے ہوگئے اور اپنا مقابل طلب کیا .سب سے پہلے انصار میں سے تین آدمی ان سے لڑنے کے لئے میدان جنگ میں آئے اور اپنا تعارف کرایا،لیکن مکہ کے بہادروں نے ان سے جنگ کرنے سے پرہیز کیا اور آواز دی''یٰا مُحَمَّدُ اُخْرُجْ اِلَیْنَا اِکْفَائَنٰا مِنْ قَوْمِنٰا'' یعنی اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! جو لوگ ہماری قوم اور ہمارے شایان شان ہیں انھیں ہمارے ساتھ جنگ کے لئے بھیجو۔

۷۶

رسول خدا نے عبیدہ بن حارث بن عبد المطلب اور حمزہ اور علی کوحکم دیا کہ اٹھ کر دشمن کا جواب دیں، اسلام کے تین عظیم سپہ سالار چہرے پر نقاب ڈالے ہوئے میدان جنگ کی طرف روانہ ہوئے. ہر ایک نے اپنا اپنا تعارف کرایااو رعتبہ تینوں افراد سے لڑنے کے لئے تیار ہوگیااورکہاکہ یہ سب کے سب ہمارے شایان شان ہیں۔

یہاں پر بعض مؤرخین مثلاً واقدی لکھتاہے :

جس وقت انصار کے تین بہادر میدان جنگ میںجانے کے لئے تیار ہوئے تو خود پیغمبر نے انھیں جنگ کرنے سے روکا، کیونکہ پیغمبر نہیں چاہتے تھے کہ اسلام کی سب سے پہلی جنگ میں انصار شرکت کریںاور اسی کے ساتھ ساتھ تمام افراد کواس بات سے بھی باخبر کردیاکہ آئین توحید میری نگاہ میں اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ آپ نے اپنے عزیز ترین اور نزدیک ترین افرادکو بھی اس جنگ میں شریک کیا اسی وجہ سے بنی ہاشم کی طرف رخ کر کے کہا کہ اٹھو اور باطل کے ساتھ جنگ کرو کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ نور خدا کوخاموش کردیں۔(۱)

بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ اس جنگ میں ہر سپاہی اپنے ہم سن و سال اوراپنے مقابل سے لڑنے گیااوراس میں سب سے جوان فرد حضرت علی ، ولید (جو معاویہ کا ماموں تھا) سے لڑے اور ان سے کچھ

______________________

(۱) مغازی واقدی ج۱ ص ۶۲

۷۷

بڑے حمزہ جنہوں نے عتبہ (معاویہ کا نانا) سے اور عبیدہ جو ان دونوں سے بوڑھے تھے شیبہ سے جنگ کرنا شروع کردی۔

ابن ہشام کہتے ہیں کہ شیبہ ، حمزہ کا مقابل اورعتبہ ، عبیدہ کا مقابل تھا.(۱) اب دیکھتے ہیں کہ ان دونوں نظریوں میں کونسا نظریہ صحیح ہے ان دونوں کی تحقیق و جستجوکے بعد حقیقت واضح ہوجائے گی۔

۱۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ علی ـ اور حمزہ نے اپنے حریف ومقابل کو فوراً ہی زمین پر گرادیا. لیکن عبیدہ اور ان کے مقابل کے درمیان بہت دیرتک زور آزمائی ہوتی رہی اور ان میں سے ہر ایک نے ایک دوسرے کومجروح کردیااور کسی نے بھی ایک دوسرے پرغلبہ حاصل نہیں کیا .علی ـاور حمزہ اپنے رقیبوں کو قتل کرنے کے بعد عبیدہ کی مدد کی لئے دوڑے اور ان کے مقابل کو قتل کردیا۔

۲۔ امیر المومنین علیہ السلام معاویہ کو خط لکھتے ہوئے اسے یاد دلاتے ہیںکه'' وَ عِنْدِیْ اَلْسَّیْفُ الَّذِیْ اَعْضَضْتُه بِجَدِّکَ وَ خَالِکَ وَاَخِیْکَ فِیْ مَقَامٍ وَاحِدٍ'' (۲) یعنی وہ تلوار جسے میں نے ایک دن تیرے نانا (عتبہ ، ہندہ کا باپ ہند معاویہ کی ماں) او رتیرے ماموں (ولید بن عتبہ) اور تیرے بھائی (حنظلہ) کے سر پر چلائی تھی اب بھی میرے پاس موجود ہے یعنی ابھی اسی قدرت پر باقی ہوں۔ایک اور مقام پر حضرت امیر فرماتے ہیں کہ''قَدْ عَرَفْتَ مَوَاقِعَ نصالِهٰا فِیْ اَخِیْکَ وَخَالِکَ وَجَدِّکَ وَمَا هِیَ مِنَ الظَّالِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ'' .(۳) یعنی تواے معاویہ! مجھے تلوار سے ڈراتا ہے ؟جب کہ میری تلوار جوتیرے بھائی ، ماموں، اور نانا کے سر پر پڑی تھی تواس سے خوب باخبر ہے اور تو یہ بھی جانتا کہ میں نے ان سب کوایک ہی دن میں قتل کردیا تھا۔

امام علیہ السلام کے ان دونوںخطووں سے بخوبی استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت علی نے معاویہ کے جد کو قتل کیا تھا اور دوسری طرف یہ بھی جانتے ہیں کہ حمزہ او رحضرت علی دونوںنے اپنے مد مقابل کو بغیر کسی تاخیر کے ہلاک کر ڈالا تھا ،لہٰذا اگر حمزہ کی جنگ عتبہ (معاویہ کا جد) سے ہوتی توحضرت امیر علیہ السلام یہ کبھی نہیں فرماتے کہ ''اے معاویہ تیرے جد میری ہی تلوار کے وار سے ہلاک ہوئے ہیں'' ایسی صورت میں یہ کہنا پڑے گا کہ شیبہ اور حمزہ ایک ساتھ لڑے اور عتبہ ، عبیدہ کے مقابلے میں تھا اور حضر ت علی اور حمزہ اپنے اپنے حریفوںکوقتل کرنے کے بعد اس کی طرف گئے اوراسے قتل کردیا۔

______________________

(۱) سیرۂ ابن ہشام ج۱ ص ۶۲۵------(۲) نہج البلاغہ نامہ ۶۴---(۳) نہج البلاغہ نامہ ۶۴

۷۸

چوتھی فصل

حضرت علی ـ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے داماد ہیں

حکم الہی اور سنت حسنہ پر عمل پیراہونے کے لئے حضرت علی کے لئے ضروری تھا کہ جوانی کے بحران سے نکلنے کے لئے اپنی زندگی کی کشتی کو سکون و آرام دیں، مگر حضرت علی جیسی شخصیت کے لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ کسی کو وقتی آرام وآسایش کے لئے اپنی شریک حیات بنائیں اور اپنی زندگی کے بقیہ ایام کو ایسے ہی چھوڑ دیں. لہٰذا ایسی شریک حیات چاہتے ہیں جو ایمان، تقویٰ، علم اور بصیرت، نجابت واصالت میں ان کی کفو اوران کی ہم پلہ ہو. اور ایسی شریک حیات سوائے پیغمبر کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا جن کی تمام خصوصیات سے بچپن سے لے کر اس وقت تک آپ واقف تھے، کے علاوہ کوئی اور نہ تھا۔

حضرت زہرا سے شادی کے خواہشمندافراد

حضرت علی سے پہلے بہت سے دوسرے افراد مثلاً ابوبکر، عمر نے حضرت زہرا کے ساتھ شادی کے لئے پیغمبر کو رشتہ دیا تھا اور دونوں نے پیغمبر سے ایک ہی جواب سنا تھا آپ نے فرمایا تھا کہ میں زہرا کی شادی کے سلسلے میں وحی کا منتظر ہوں۔

ان دونوں نے جو حضرت زہرا سے شادی کے سلسلے میں ناامید ہوچکے تھے رئیس قبیلہ اوس، سعد معاذ کے ساتھ گفتگو کی اور آپس میں سمجھ لیا کہ حضرت علی کے علاوہ کوئی بھی زہرا کا کفونہیں بن سکتا ،اور پیغمبر کی نظر انتخاب بھی علی ـکے علاوہ کسی پر نہیں ہے. اسی بنا پر یہ لوگ ایک ساتھ حضرت علی کی تلاش میں نکلے اور بالآخر انھیں انصار کے ایک باغ میں پایا .آپ اپنے اونٹ کے ساتھ کجھور کے درختوں کی سینچائی میں مصروف تھے ،ان لوگوں نے علی ـ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا : قریش کے شرفا نے پیغمبر کی بیٹی سے شادی کے لئے رشتہ دیا تو پیغمبر نے ان کے جواب میں کہا کہ زہرا کی شادی کے سلسلے میں میں حکم خدا کا منتظر ہوں ہمیں امید ہے کہ اگر تم نے (اپنے تمام فضائل کی وجہ سے) فاطمہ سے شادی کی درخواست کی تو تمہاری درخواست ضرور قبول ہوجائے گی اور اگر تمہاری مالی حالت اچھی نہیں ہے تو ہم سب تمہاری مدد کریں گے۔اس گفتگو کو سنتے ہی حضرت علی کی آنکھو میں خوشی کے آنسو آگئے اور کہا: میری بھی یہی آرزو ہے کہ میں پیغمبر کی بیٹی سے شادی کروں. اتنا کہنے کے بعد آپ کام چھوڑ کر پیغمبر کے گھر کی طرف روانہ ہوگئے ،اس وقت پیغمبر ام سلمہ کے پاس تھے. جس وقت آپ نے دروازے پر دستک دی. پیغمبر نے فوراً ام سلمہ سے کہا جاؤ اور دروازہ کھولو، کیونکہ یہ وہ شخص ہے جسے خدا اور اس کا رسول دوست رکھتا ہے۔

۷۹

ام سلمہ کہتی ہیں کہ اس شخص کودیکھنے کے لئے میرا دل بے چین ہوگیا کہ جس شخص کی پیغمبر نے ستائش کی ہے. میں اٹھی کہ دروازہ کھولوں.عنقریب تھا کہ میرے پیر لڑکھڑا جاتے. میں نے دروازہ کھولا حضرت علی داخل ہوئے اور پیغمبر کے پاس بیٹھ گئے ،لیکن پیغمبر کی عظمت و جلالت کی وجہ سے حیا مانع بن رہی تھی کہ پیغمبر سے گفتگو کریں،اس لئے سر کو جھکائے بیٹھے تھے یہاں تک کہ پیغمبر نے خاموشی کوختم کیا اور کہا:شاید کسی کام سے آئے ہو؟حضرت علی نے جواب دیا: ہماری رشتہ داری ومحبت خاندان رسالت سے ہمیشہ ثابت و پائدار رہی اور ہمیشہ دین و جہاد کے ذریعے اسلام کو ترقی کے راستے پر لگاتے رہے ہیں، یہ تمام چیزیںآپ کے لئے روشن و واضح ہیں. پیغمبر نے فرمایا:جوکچھ تم نے کہا تم اس سے بلند و بالا ہو۔ حضرت علی نے کہا:کیا آپ میری شادی فاطمہ سے کرسکتے ہیں۔(۱)

حضرت علی نے اپنا پیغام دیتے وقت تقویٰ اور اپنے گذرے ہوئے روشن سابقہ اوراسلام پر اعتماد کیا، اور اس طرح سے دنیا والوں کویہ پیغام دیا کہ معیار فضیلت یہ چیزیں ہیں نہ کہ خوبصورتی، دولت اور منصب وغیرہ۔

پیغمبر اسلام نے شوہر کے انتخاب میں عورت کو آزاد رکھا ہے اور حضرت علی کے جواب میں فرمایا:تم سے پہلے کچھ لوگ اور بھی میری بیٹی سے شادی کی درخواست لے کر آئے تھے ، میں نے ان کی درخواست کواپنی بیٹی کے سامنے پیش کیا لیکن اس کے چہرے پر ان لوگوں کے لئے عدم رضایت کوبہت شدت سے محسوس کیا ۔اب میں تمہاری درخواست کواس کے سامنے پیش کروں گا پھر جو بھی نتیجہ ہوگا تمہیں مطلع کروں گا۔

پیغمبر اسلام جناب فاطمہ زہرا کے گھر آئے آپ ان کی تعظیم کے لئے اٹھیں، آپ کے

______________________

(۱) حضرت علی، شادی کے پیغام کے وقت ایک سنت پر عمل کر رہے تھے ،جب کہ ان پر بہت زیادہ حیا طاری تھی .آپ بذات خود اور بغیر کسی واسطے کے پیغام دے رہے تھے ،اور یہ روحی شجاعت و بہادری ، عفاف کے ہمراہ لائق تقدیر ہے

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809