فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)7%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 362270 / ڈاؤنلوڈ: 6023
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

 کی اس نے ایک واجب ترک کردیا اور اپنی نماز کو باطل کردیا۔کیوں کہ سنت کی مخالفت وضلالت و گمراہی ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: رسول(ص) جو تمہارے پاس لائیں اسے لے لو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو۔

اس کے علاوہ ہمارے پاس چند ایسے ماخذ موجود ہیں جن سے صحابہ کی روایات کا سنت نبی(ص) کے خلاف ہونا آشکار ہےان میں سے چند مثالیں ہم گذشتہ بحثوں میں بیان کرچکے ہیں اور بعض کو آنے والی بحثوں میں ذکر کریں گے۔ ان تمام  چیزوں میں اہم بات یہ ہے کہ: اہل سنت والجماعت  صحابہ کے اقوال و افعال کا اتباع کرتے ہیں۔

             اولا :ان کا عقیدہ یہ ہے کہ صحابہ کے اقوال و افعال لازمی طور پر سنت ہیں۔

             ثاینا : وہ اس شبہ میں مبتلا ہیں کہ جو کچھ صحابہ نے کہا ہے وہ سنت نبی(ص) کے خلاف نہیں ہے ۔ جبکہ صحابہ اپنی رائے سے فیصلہ کرتے تھے اور اسے نبی(ص) کی طرف منسوب کردیتے تھے۔ یہاں تک کہ لوگوں میں ان کا اثر ورسوخ ہوگیا اور اعتراض کرنے والوں سے محفوظ ہوگئے۔

پھر علی(ع) ابن ابی طالب ہی ایک مخالف تھے کہ جنہوں نے اپنی خلافت کے زمانہ میں اپنے اقوال و افعال اور قضاوت کے ذریعہ لوگوں کو سنت نبوی(ص) کی طرف پلٹانے کی پوری کوشش کی لیکن آپ اس میں کامیاب نہ ہوسکے کیوں کہ مخالفین نے آپ(ع) کوجنگوں میں مشغول کردیا، ایک جنگ ختم نہیں ہوئی تھی کہ وہ دوسری جب کی آگ بھڑکادیتے تھے۔ جنگِ جمل ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ انہوں نے جنگِ صفیں کی آگ بھڑکادی اور ابھی جنگ صفین تمام نہیں ہوئی تھی کہ انہوں نے جنگِ نہروان کے شعلوں کو  ہوا دی۔ ابھی وہ ختم نہیں ہوئی تھی کہ آپ(ع) کو محراب عبادت میں شہید کردیا۔

جب معاویہ تخت خلافت پر متمکن ہوا تو اس کی پوری کوشش نور خدا کو بجھانے میں صرف ہوتی چنانچہ وہ پوری طاقت و توان کے ساتھ اس سنت نبوی(ص) کو برباد کرنے میں مشغول ہوگیا کہ جس کو امام علی(ع)  زندہ رکھے ہوئے تھے اور لوگوں کو خلفائے ثلاثہ کی اس طاعت کی طرف پلٹانے کی تگ و دو کرنے لگا کہ جس کو لوگوں کے لئے دستور العمل بنا چکا تھا اور دوسری طرف حضرت علی(ع) پر لعنت

۳۴۱

 کا آغاز کیا اور اس  فعل شنیع کو اس قدر اہمیت دی کہ ہر ایک ذاکر برائی  ہی سے آپ(ع) کا ذکر کرتا تھا ۔ اور تمام برائیاں آپ کی طرف منسوب کرتا تھا۔

مدائنی کہتے ہیں کہ کچھ صحابہ کے پاس گئے اور کہا: اے امیرالمؤمنین ! علی(ع) مرگئے اور اب تمہارے لئے کوئی خوف نہیں ہے بس اب یہ لعنت کا سلسلہ بند کرو، معاویہ نے کہا: قسم خدا کی یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب بوڑھا بالکل ضعیف اور بچہ جوان ہوجائے گا۔

مدائنی کہتے  ہیں: ایک زمانہ تک بنی امیہ اسی نہج پر باقی رہے اور یہی چیز انہوں نے اپنے بچوں ، عورتوں، خدمت گاروں اور غلاموں کو سکھائی چنانچہ معاویہ کو  اپنے مقصد میں بڑی کامیابی ملی کیوںکہ اس نے پوری ملت اسلامیہ کو ( چند کو چھوڑ کر ) اس کے حقیقی قائد و ولی سے  دور کردیا تھا اور اسے اپنے قائد کی دشمنی اور اس سے بیزاری پر پوری طرح تیار کردیا تھا اور ملت اسلامیہ کے سامنے باطل کو حق کے لباس میں پیش کیا تھا اور اسے اس بات کامعتقد بنا دیا تھا کہ وہی ( اہل سنت ہیں  اور جو علی(ع) سے دوستی رکھتا ہے اور ان کا اتباع کرتا ہے وہ بدعتی اور خارجی ہے۔

اور جب  امیر المؤمنین امام علی(ع)  پر منبروں سے لعنت کی جاتی تھی اور فآپ پر لعنت کر کے خدا کا تقرب ڈھوںڈا جاتا تھا۔ آپ کا اتباع کرنے والے شیعوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا گیا ہوگا۔ان کے عطا کو روک دیا گیا تھا، ان کے شہر و دیار کو جلادیا گیا تھا اور انھیں کھجور کی شاخوں پر سولی دی جاتی تھی، زندہ دفنا دیا جاتا تھا، لاحول و لاقوّۃ الا باللہ العلی العظیم۔

میری نظر میں معاویہ ایک عظیم سازش کے سلسلہ کی کڑی ہے لیکن حقائق کو چھپانے اور انھیں الٹ کر پیش کرنے اور امت کو اسلام کے لباس میں ملبوس جاہلیت کی طرف لوٹانے  میں اس کو دوسروں سے زیادہ کامیابی ملی۔

اس بات کی طرف اشارہ کردینا بھی مناسب ہے کہ معاویہ گذشتہ خلفا سے زیادہ زیرک تھا ۔ بہر و پیہ موقع و محل کے لحاظ سے روپ دھار لیتا تھا، کبھی اتنا روتا تھا کہ حاضرین متاثر ہوجاتے

۳۴۲

 تھا اور وہ معاویہ کو مخلص بندوں  میں سے بہت بڑا زاہد سمجھنے  لگتے تھا اور کبھی قساوت قلبی اور جبر کا اظہار کرتا تھا ، یہاں تک کہ حاضرین یہ سمجھنے لگتے تھے کہ وہ ملحد ہے  اور بدو تو اسے رسول اللہ(ص) سمجھتے تھے۔

بحث کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ محمد ابن ابی بکر اور معاویہ کے درمیان ہونے والی  خط وکتابت کو پیش کیا جائے ۔ ان دونوں کے خطوط میں ایسے حقائق موجود ہیں جن سے محققین کا آگاہ ہونا ضروری ہے۔

۳۴۳

محمّد بن ابی بکر کا خط معاویہ کے نام

محمد بن ابی بکر کاخط گمراہ معاویہ بن صخر کے نام

خدا کے طاعت گذاروں پر سلام ہو کہ جنہوں نے ولیّ خدا کے سامنے سر تسلیم خم کردیا ہے۔

اما بعد۔

بے شک خدا نے اپنی عظمت و جلالت اور قدرت وتسلط سے اپنی مخلوق کو عبث پیدا نہیں کیا ہے اور نہ اسکی قوت میں ضعف ہے اور نہ ہی ان کی خلقت میں وہ محتاج ہے۔ لیکن خدا نے مخلوق کو مطیع و فرمانبردار پیدا کیا ہے اوران میں بعض کو ہدایت یافتہ اور بعض کو گمراہ اور بعض شقی اور بعض  کوسعید قرار دیا۔ پھر ان پر نظر ڈالی اوران میں سے محمّد (ص) کو منتخب کیا اور اپنی رسالت سے  مخصوص کیا اور اپنی وحی اور اپنے امر کی امانت کے لئے چنا ۔ انھیںرسول (ص) بنا کر

بھیجا ۔ پس وہ بشارت دینے والے اور ڈرانے والے بن گئے اور آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والے اور شریعتوں پر دلیل ہیں ۔ انھوں نے حکمت اور موعظہ حسنہ کے ذریعہ لوگوں کو راہ خدا کی طرف دعوت دی تو سب سے پہلے علی(ع) نے قبول کیا اور رغبت کی اور ایمان لائے ، تصدیق کی، اسلام

۳۴۴

قبول کیا اور خضوع اختیار کیا ۔ غیب کےسلسلہ میں ان کی تصدیق کی اور ہر سختی مٰں آپ(ص) کے ساتھ رہے۔ اور ہر خوف کے وقت بنفس نفیس ان  کی حمایت کی اور ہر مشکل و خوفناک وقت میں آپ کے شریک کاررہے ۔ آپ(ص) سے جنگ کرنے والوں سے جنگ کی اور جس سے آپ(ص) نے صلح کی اس  سے صلح کی۔ علی(ع) اس وقت بھی قائم رہےجب لوگوں کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں اور دل دہل جاتے  ہیں ، یہاں تک کہ اپنے جہاد میں وہ مقام حاصل کیا جس کی نظیر نہیں ملتی اور وہ کارنامے انجام دیئے جس میں کوئی آپ(ع) کے قریب تک نہ پہنچ سکا۔

میں تمھیں دیکھتا ہوں کہ تم خوبیوں میں ان سے مقابلہ کرنا چاہتے ہو، تم ، تم ہو ، وہ ، وہ ہیں وہ ہر ایک نیکی میں سب سے آگے ہیں ۔ سب لوگوں سے پہلے انھوں نے اپنےاسلام  کا اظہار کیا ۔ نیت کے لحاظ سے سب سے سچے ہیں ان کی ذریت بہترین ذریت ہے۔ ان کی زوجہ سب سے نیک و افضل و اعلیٰ ہیں۔ ان کے ابن عم سب سے افضل ہیں ، انکے بھائی نے جنگ موتہ میں اپنا نفس ( خدا کے ہاتھ) بیچ دیا تاھ، سید الشہداء جناب حمزہ ان کے چچا ہیں ، ان کے والد نے ( تا حیات) رسول(ص) اور آپ(ص) کے مقصد سے دفاع کیا۔ تم لعین ابن لعین ہو اور تمھارے باپ نے ہمیشہ دینِ خدا میں فریب کاری سے کام لیا ہے اور نور خدا کو بجھانے کی کوسشش میں لگے رہے۔( اسلام پر) لشکر کشی کرتے رہے، اس سلسلہ میں مال خرچ کیا، قبائل کو دین خدا کے خلاف اکسایا۔

اس حالت میں تمھارے باپ کو موت آئی تو اپنے مقصد کے لئے تمھیں اپناخلیفہ چھوڑ گیا۔ اس کی گواہی تو تمھارے حاشیہ نشین دیں گے۔ رسول(ص) سے نفاق و دشمنی رکھنے والوں کے سرداروں نے تمھارے دامن میں پناہ لی ہے اور علی(ع) کی آشکار فضیلت اور ابتدا ہی سے تمام کاموں میں سبقت کے ساتھ ساتھ ان کے انصار گواہ ہیںجن کا خدا نے قرآن میں ذکر کیا ہے اور انصار و  مہاجرین میں سے جو ان کے ساتھ ہیں ان کی فضیلت بیانکی ہے ۔ پس انصار و مہاجرین ان(عل(ع)) کے ساتھ ایک فوجی دستہ اور بٹالین کی صورت میں ان سے دفاع کے لئے جہاد کرتے ہیں اور ان کی حفاظت و زندگی کے لئے خون بہاتے ہیں، ان کا اتباع کرنے والوں کو حق پر ان کی مخالفت

۳۴۵

 کرنے والوں شقاوت پر سمجھتے ہیں۔

خدا تمھیں سمجھے ان تمام باتوں کے باوجود تم کیسے خود کو علی(ع) کے برابر قرار دیتے ہو جبکہ علی(ع) وارثِ رسول(ص) اور آپ(ص)  کے وصی ہیں اور نبی(ص) کے بیٹوں کے باپ ہیں، سب سے پہلے انھوں نے آپ(ص) کا تباع کیا اور سب سے زیادہ آپ(ص) سے نزدیک ہیں۔ رسول(ص) نے علی(ع) کو اپنا راز دار بنایا۔ اپنے امر سے خبردار کیا اور تم ان کے دشمن اور ان کے دشمن کی اولاد ہو؟!

پس تم اپنے باطل کے ذریعہ اپنی دنیا سے جتنا چاہو فائدہ اٹھالو، تمھارے مقصد کے حصول میں عمرو بن عاص لازمی تمھاری مدد کرے گا، گویا تمھارا وقت آ پہنچا ہے اور تمھارے مکرو فریب کے بند ڈھیلے ہورہے ہیں۔ عنقریب تمھیں معلوم ہوجائے گا کہ عاقبت کس کی بلند و بہتر ہے۔

یہ جان لو کہ تم نے خدا سے مکر کیا کہ جس کی تدبیر نے تمھیں محفوظ رکھا، اس کی رحمت سے تم مایوس ہوچکے ہو اور خدا تمھاری گھات میں ہے اور تم اس سے بے خبر ہو۔

والسلام علی من اتبع الھدیٰ ۔ ( جمھرہ رسائل العرب جلد۱ ص۴۷۵) مروج الذہب مسعودی جلد۲ ص۵۹، شرح ابن ابی الحدید جلد۱،ص۲۸۳)

اس خط میں محمد ابن ابی بکر نے حقیقت کے متلاشی افراد کے لئے ٹھوس حقائق قلم بند کئے ہیں۔ وہ معاویہ کو ضال و مضل اور لعین ابن لعین قرار دیتے ہیں اور یہ واضح کرتے ہیں کہ معاویہ نورِ خدا کو بجھانے کے لئے پوری کوشش کرتا ہے اور دین میں تحریف کرنے کے لئے اموال خرچ کرتا ہے اور دینِ خدا میں شر پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اور یہ کہ معاویہ دشمنِ خدا اور عدوئے رسول(ص) ہے ۔ اور عمرو بن عاص کی مدد سے باطل امور کا ارتکاب کرتا ہے۔اسی طرح یہ خط حضرت علی ابنابی طالب(ع) کے ان فضائل و مناقب کا بھی انکشاف کرتا ہے کہ جو نہ کسی کو ںصیب ہوئے ہیں اور نہ ہوں گے اور حق یہ ہے کہ جو فضائل و مناقب محمد بن ابی بکر نے شمار کرائے ہیں ان سے کہیں زیادہ آپ(ع) کے فضائل و مناقب ہیں۔ فی الحال اہم بات یہ ہے

۳۴۶

کہ معاویہ ابن ابی سفیان نے بھی اس خط کا جواب دیا ہے اسے بھی پیش کررہے ہیں تاکہ آپ محققین ، پوشیدہ حقیقت اور تاریخ مخفی سازش سے آگاہ ہوجائیں اور اس سازش کے وہ تارو پود بھی آشکار ہوجائیں کہ جس نے خلافت سے اس کے شرعی حقدار کو الگ کیا تھا اورپھر امت کی گمراہی کا  سبب بنی  معاویہ کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

۳۴۷

معاویہ کا جواب

یہ خط معاویہ ابن صخر کی طرف سے محمد ابن ابی بکر کے نام ہے۔

                                             سلام ہو اللہ کے طاعت گزار پر

اما بعد :

تمہارا وہ خط ملا جس میں تم نے خدا کی قدرت  و عظمت اوراس کی بادشاہت بیان کی ہے، اسی طرح رسول(ص) کے اوصاف بھی کثرت سے بیان کئے ہیں لیکن اس میں تمہاری رائے ضعیف اور تمھارے والد کی سرزنش ہے۔

اس خط میں تم نے علی ابن ابی طالب(ع) کے فضائل اور ان کا تمام چیزوں میں سابق ہونا اور آپ کی رسول(ص) سے قرابت ، انکی مدد اور ہر خوف وہراس کے موقع پر علی(ع)  کا رسول(ص) کے ساتھ رہنا بیان کیا ہے گویا تم نے مجھ پر حجت قائم کی ہے اور اپنے غیر کے فضل و کمال پر تم فخر کررہے ہو۔ میں خدا کی حمد کرتا ہوں کہ جس نے یہ فضل و کمال تجھ سے ہٹا کر غیر کو عطا کیا۔

حیاتِ نبی(ص) میں ہم اور تمھارے باپ دونوں ہی علی ابن ابی طالب(ع) کے حق کو  اچھی طرح سمجھتے

۳۴۸

 اور جانتے تھے، ان کے فضائل و کمالات  عیاں تھے پس جب خدا نے نبی(ص) کو منتخب کیا اور ان کے لئے اپنا وعدہ پورا کیا، ان کی دعوت  کو آشکار کردیا اوران کی حجت کو  قائم کردیا تو خدا نے انھیں (نبی(ص) کو) اٹھا لیا تو تمھارے اور ان کے دوست نےسب سے پہلے علی(ع) کی مخالفت کی اور زبردستی ان کا حق چھین لیا، اس میں وہ ( ابوبکر اور عمر) دونوں ہی شریک تھے اور دونوں  نے اس (خلافت) سے فائدہ اٹھایا، پھر تمھارے باپ اور ان کے دوست (عمر) نے علی(ع) سے بیعت کا مطالبہ کیا تو انھوں نے تامل کیا اور عذر کیا تو انھوں نے علی(ع) پر حملہ کیا اور ورپئے آزار ہوئے پھر حضرت علی(ع) نے ان ہی سے مصالحت کر لی لیکن تمھارے باپ اور ان کے دوست (عمر) نے یہ طے کیا کہ علی(ع) کو اپنے کسی کام میں شریک نہ کریں گے اور نہ اپنا راز بتائیں گے چنانچہ دونوں (ابوبکر و عمر) کو اسی حالت میں موت آئی اور قصہ ختم ہوا، پھر ان کا تیسرا ،" عثمان" کھڑا ہوا اور اس نے بھی انہی دونوں کا راستہ اختیار کیا اور انہی کیسیرت کو اپنایا تو اس پر تم نے اور تمھارے آقا(علی(ع))  نے حسد کیا یہاں تک کہ دور دراز کے معصیت کار بھی خلافت کی طمع کرنے لگے پس تم نے اس کے لئے چال چلی اور وہ چیز حاصل کر لی جس کا خواب دیکھا تھا۔

 ابوبکر کے بیٹے اپنے لئے اسباب فراہم کرلو، عنقریب تم اپنے ئے چکھو گے۔ اب تمجاپنے پیمانے اور تخمینہ سے اچھی طرح اندازہ کر کے دیکھو تو اس شخص سے کسی طرح بھی برابری نہیں کر سکو گے جو اپنی عقل سے پہاڑوں کو تول لیتا ہے اور وہ اپنے نیزے کی  گرفت میں نرم نہیں ہے اور کوئی اس کے صبر کا اندازہ نہیںلگا سکتا۔

تمہارے باپ نے اس کے لئے راستہ ہموار کیا اور اس کی بادشاہت  کی بنیاد کرکھی پس اگ ہم صحیح راستہ پر گامزن ہیں تو تمہارے والد اس کے پہلے سالک ہیں اور اگر ہم ظالم ہیں تو  تمہارے باپ نے ظلم کیا اورہم ان کے شریک کار ہیں ، ہم نے انکے راستہ کو اختیار کیا اور ان کے افعال کی اقتداء کی ، اگر تمہارے والد نے پہلے یہ نہ کیا ہوتا تو ہم ابن ابی طالب(ع) کی کبھی مخالفت نہ کرتے اور خلافت ان ہی پر چھوڑ دیتے لیکن ہم نے دیکھا کہ یہی کام پہلے تمہارے باپ انجام دے چکے ہیں تو ہم نے ان کی پیری کی اور ان کے افعال میں ان کی اقتداء کی پس اب تم اپنے باپ کو برا بھلا کہو یا چشم

۳۴۹

پوشی کرلو!

                                                     والسلام علی من اناب ورجع من غوايته و تاب

( جمہرۃ رسائل العرب ج۱ ص ۴۷۷، مروج الذہب ج۲ ص ۶۰، شرحِ ابن ابی الحدید ج۱ ص۲۸۶)

معاویہ کے اس جواب سے ہم یہ نتیجہ نکالتے  ہیںکہ وہ حضرت علی ابن ابی طالب(ع) کے فضائل اور کمالات کا منکر نہیں تھا لیکن اس سلسلہ میں اس نے ابوبکر و عمر کے راستہ کو اختیار کیا ، اگر یہ دونوں نہ ہوتے وہ ( معاویہ) کبھی علی(ع) کو حقیر نہ سمجھتا اور نہ کوئی شخص آپ پر سبقت کرتا جیسا کہ معاویہ نے اعتراف کیا ہے کہ بنی امیہ کی بادشاہت اور خلافت کے لئے تو ابوبکر نے راستہ ہموار کیا ہے اور انہوںنے( ابوبکر نے) ہی انکی بادشاہت کی بنیاد رکھی ہے۔

اور معاویہ کے س خط سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ معاویہ نے رسول(ص) کی اقتداء نہیں کی اور نہ آپ کے راست پر چلا جیسا کہ جیساکہ اس نے اس بات  کا اعتراف بھی کیا ہے کہ میں نے عثمان نے ابوبکر اور عمر کی سیرت پر عمل کیا۔

اس خط سے یہ بات بھی آشکار ہوجاتی ہےکہ ان سب ( ابوبکر و عمر و عثمان اور معاریہ ) نے رسول(ص) کی سنت کو چھوڑ دیا تھا اور ایک دوسرے کی بدعت کی پیروی کرتے تھے جیسا کہ معاویہ کو اس بات  کا اعتراف ہے کہ وہ ان  گمراہ لوگوں میں سے ایک تھا جو کہ باطل امور انجام دیتے تھے اور انھیں نبی(ص) نے لعین ابن لعین کہا ہے۔

عام قائدہ کے مطابق اس خط کا تذکرہ کردینا بھی مناسب سمجھتا ہوں جو یزید(لع) ابن معاویہ نے ابنِ عمر کے جواب میں لکھا تھا۔ اگر چہ اس کا جواب بھی لب لباب وہی ہے جو اس کے باپ کے خط کا ہے ۔

             بلاذری نے اپنی تاریخ میںلکھا ہے کہ:

جب حسین ابن علی ابن ابی طالب(ع)  شہید کردیئے گئے تو عبداللہ ابن عمر نے یزید (لع) کودرج ذیل مضمون پر مشتمل ایک خط لکھا:

۳۵۰

             امّا بعد :

غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے اور مصیبتیں عیاں ہوگئیں اور اسلام میں عظیم رخنہ پڑگیا اور قتلِ حسین(ع) جیسا کوئی دن نہ ہوگا۔

یزید (لع) نے جواب لکھا :

اما بعد :

اے بیوقوف ہم تو اس نئے گھر میں ، کہ جس میں فرش بچھا ہوا ہے ، تکئے لگے ہوئے ہیں ، اب آئے ہیں۔ انہوں ( حسین ابن علی(ع)) نے اس سلسلہ میں ہم سے جنگ کی۔

پس اگر یہ ہمارا حق ہے تو ہم نے اپنے حق سے دفاع کے لئے جنگ کی اور اگر یہ ہمارے غیر ( علی اور اولادِ علی(ع)) کا حق ہے تو سب سے پہلے تمہارے باپ نے یہ ریت قائم کی اور حقدار کے ہاتھ سے چھین لیا۔

اور معاویہ نے جو ابوبکر کے بیٹے کی تردید کی ہے اور یزید(لع) نے جو ابن عمر کو جواب دیا ہے اس میں ہمیں وہی منطق اور احتجاج ملتا ہے ، قسم اپنی جا ن کی یہی لازمی امر تھاکہ جس کو ضمیر کہتا ہے اور عقلمند محسوس کرتا ہے اس سلسلہ میں معاویہ اور اس کے بیٹے یزید(لع) کی گواہی بھی ضروری نہیں ہے۔

اگر حضرت علی(ع) پر ابوبکر او عمر استبداد نہ کرتے تو ملتِ اسلامیہ پر جو کچھ گذر گئی وہ نہ گذرتی اور اگر نبی(ص) کے بعد علی(ع) کو خلافت مل گئی ہوتی اور آپ مسلمانوں کے حاکم بن گئے ہوتے تو ان کی خلافت چالیس (۴۰) سال تک یعنی نبی(ص) کے بعد تیس (۳۰) سال تک باقی رہتی اور اسلام کے قوانین اور اصول و فروع کو مضبوط کرنے کے لئے یہ مدت کافی تھی اور آپ(ع) بغیر کسی تحریف و تاویل کے کتابِ خدا اور سنتِ رسول(ص) کے مطابق عمل کراتے ۔

اور جب آپ کی وفات کے بعد جوانانِ جنت کے سردار امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) اور ان کی معصوم اولاد کو خلافت ملتی تو پھر تین سو سال تک خلافتِ راشدہ کا دور رہتا کہ جس کے بعد کافروں، منافقوںاور ملحدوں کا نہوجود رہتا اور نہ اثر رہتا ظاہر ہے اس زمین کا کچھ اور ہی رنگ ہوتا اور آج

۳۵۱

کے لوگوں کی کیتیت ہی کچھ اور ہوتی

                     لاحول ولا قوّة الا بالله العلی العظيم

اس احتمال پر بعض اہل سنت والجماعت ہمیشہ اعتارض کرتے ہیں کہ جسکی دو وجہیں ہیں۔

۱۔۔۔۔وہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ہوا ہے وہ بھی خدا چاہتا تھا اور اس نے ایسے ہی مقدر کیا تھا ، اگر خدا علی(ع) اور ان کی اولاد کو مسلمانوں کا خلیفہ بنانا چاہتا تو ضرور ایسا ہی ہوتا، اہل سنت ہمیشہ اسی میں پڑے رہتے  ہیں کہ خدا کی اختیار کردہ چیز میں خیر ہے۔

۲۔۔۔۔وہ کہتے ہیں کہ : اگر نبی(ص) کی وفات کے فورا علی(ع) خلیفہ بن گئے ہوتے اور ان کے بعد تختِ خلافت پر حسن و حسین علیہما السلام متمکنہوئے ہوتے تو خلافت ایک میراث بن جاتی جو کہ باپ سے بیٹوں کی طرف منتقل ہوتی ہے اور اسے اسلام پسند نہیں کرتا ہے بلکہ اس نے خلافت کا مسئلہ شورای پر چھوڑا ہے۔

             اس کا جواب میں ہم کہتے ہیں :

اولا ۔۔۔ اس بات پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ جو کچھ ہوا ہے وہ خدا کا ارادہ تھا اور یہی مقدر تھا بلکہ قرآن اور حدیث میں اس کے برعکس دلیلیں موجود ہیں  چنانچہ قرآن میں ارشاد ہے:

اگر دیہاتوں کے رہنے والے ایمان لاتے اور تقوا اختیار کرتے تو ہم ان پر  زمین اور آسمان کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوں نے ہمارے پیغمبر(ص) کے جھٹلایا تو ہم نے بھی ان کے کرتوتوں کی بدولت انھیں عذاب میں مبتلا کردیا۔ ( سورۃ اعراف، آیت۹۶)

اور سی طرح ارشاد ہے:

اور اگر یہ لوگ توریت او انجیل اور جو کچھ ان پر ان کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اس کے مطابق احکام قائم رکھتے تو ضرور ان پر آسمان و زمین کے دروازے کھل جاتے اور وہ اچھی طرح کھاتے ان میں کچھ لوگ اعتدال پسند ہیں اور بہت سے ہیں کہ برائی کرتے ہیں(مائدہ ۶۶)

۳۵۲

 نیز ارشاد ہے :

اگر تم خدا کا شکر کرتے اور اس پر ایمان  لاتے تو خدا تم پر کیون عذاب کرتااور خدا تو قدر دان اور واقف کا ر ہے۔(نساء ۱۴۷)

دوسری جگہ ارشاد ہے :

بے شک خدا  اس وقت تک کسی قوم ی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلیں۔ ( رعد ۱۱)

ان واضح اور روشن آیتوں سے یہ بات آشکار ہے کہ جو کچھ اںحرافات ہیں وہ فردی ہوں یا اجتماعی وہ سب انہی کی طرف سے ہیں۔

حدیثِ رسول(ص) ہے:

میں نے تمہارے درمیان کتابِ خدا اور اپنی عترت چھوڑی ہے، اگر تم ان دونوں سے وابستہ رہوگے تو میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔

نیز فرمایا :

لاؤ تمہارے لئے نوشتہ لکھ دوں کہ جس سے تم  میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔

آپ(ص) نے ہی فرمایا : عبقریب میری امت (۷۳) فرقوں میں بٹ جائے گی اور ان میں سے ایک جنتی ہے اور باقی جہنمی ہیں۔

ان تمام حدیثوں سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ امت اس لئے گمراہ ہوئی کہ اس نے خدا کی اختیار کی ہوئی چیز سے منہ موڑ لیا تھا۔

ثانیا :         فرض کیجئے کہ اسلامی خلافت وراثت بن جاتی تو کوئی ( حرج نہیں تھا) کیونکہ یہ اپنی میراث نہ بنتی جیسا کہ ان کا خیال ہے کہ حاکم اپنی رعیت پر استبداد کر کے اپنیوفات سے قبل اپنے بیٹے کو اس کا حاکم بنا دیتا ہےجس کو ولی عہد کہا جاتا ہے چاہے دونوں باپ بیٹے فاسق ہوں۔ بلکہ یہ

۳۵۳

( خلافت) خدائی میراث ہوتی، جس کو اس خدا نے اختیار کیا ہے کہ جس کے علم سے رائی کے دانے کا بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ اس کے لئے ایسے چنیدہ افراد کو مخصوص کیا ہے جن کو اس نے منتخب کیا ہے اور انھیں کتاب و حکمت کا وارث بنایا ہے  تاکہ وہ لوگوں کے امام بن جائیں۔ چنانچہ ارشاد ہے:

اور ہم نے انھیں امام بنایا وہ ہمارے حکم سے ان کی ہدایت کرتے ہیں اور ہم نے نیک کام نماز قائم کرنے اور زکواۃ دینے کے لئے ان پر وحی نازل کی ہے اور وہ ہمارے عبادت گزار ہیں۔( انبیاء ۷۳)

باوجود یکہ اہل سنت والجماعت یہ کہتے ہیں کہ  اسلام خلافت کے میراث قرار نہیں دیتا ہے اور اس کا فیصلہ شوری پر چھوڑتا ہے۔ لیکن مغالطہ ہے، تاریخ اور واقعات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ در حقیقت خود وراثت والے منفور نظام میں مبتلا ہیں ۔ حضرت علی(ع) کے بعد ظالم و غاصب لوگ امت کے حاکم بنے کہ جنہوں نے امت کی ناراضگی کے باوجود اپنے فسق بیٹوں کو امت کا حاکم بنادیا۔

پس ان می سے کون سا افضل ہے ، فاسق اپنی خواہش نفس سے میراث کے طور پر اپنے بیٹوں کو خلیفہ بنائیں؟ یا ائمہ طاہرین(ع) کہ جنہوں نے منتخب کیا اور جن سے رجس کو دور رکھا ہے، علم کتاب کا وارث بنیا تا کہوہ لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکومت کریں اور انھیں سیدھے راستہ کی ہدایت کریں اور انھیں نعمتوں  والی جنت میں داخل کریں۔ پھر ارشاد ہے:

             داؤد (ع) نے  سلیمان(ع) کو وارث بنایا۔ ( نحل ۱۶)

میں تو سمجھتا ہوں کہ عقلمند مسلمان دوسری ہی شق کو اختیار کرےگا! گذشتہ باتوں پر افسوس کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے اس لئے ہم اپنے موضوع  کی طرف پلٹتے ہیں۔جب ابوبکر و عمر نے امری المؤمنین علی(ع۹) کو تختِ خلافت سے الگ رکھا اور دونوں خلافت کی قمیص کو زبردستی پہن لیا اور اس کی آڑ میں علی(ع) فاطمہ(س) اور اہل بیت (ع) کی توہین کی تو اب معاویہ، یزید(لع) اور عبدالملک ابن مروان جیسوں کے لئے ان افعال کا انجام دینا آسان ہوگیا جن کا گذشتہ حاکم ارتکاب  کرچکے تھے اور پھر ابوبکر و عمر نے معاویہ کے لئے راہ ہموار کی اور اسے شہروں پر تسلط دیا یہاں

۳۵۴

تک کہ وہ بیس(۲۰) سال سے زیادہ شامکا حاکم رہا اور اسے قطعی معزول کرنے کے بارے میں نہ سوچا چنانچہ لوگوں پر معاویہ کا خوف و ہراس طاری ہوگیا اور پھر اس کی خواہش کے مقابل میں طاقت دم زدن نہ رہی ۔ اپنے بعد اس نے یزید(لع) کو خلیفہ بنادیا جیساکہ یزید(لع) نے صریح طور پر  کہا ہے، ہمیں تو نئے گھر ، بچھے ہوئے فرش اورلگے ہوئے تکئے ملے ہیں، ان چیزوں کےلئے جنگ کرنا فطری بات تھی چنانچہ اس نے نواسہ رسول(ص)  کو قتل کرنے میں کوئی پرواہ نہ کی کیوں کہ اس نے اپنی ماں میسون کے پستانوں سے بغض اہل بیت(ع) کا دودھ پیا تھا اور اپنے اس باپ کی گود میں پلا بڑھا تھا جو اہل بیت(ع) پر  سبّ و شتم کرتا تھا۔ ظاہرا ایسے شخص سے ایسی چیزوں کا ارتکاب کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔

                     بعض شعراء نے اپنے کلام میں اس حقیقت کا اعتراف کی اہے ۔ کہتے ہیں:

                             لو لاَ حدودَ صوارم             امضیٰ مضاربَها الخلیفه !

                             لنثرت من اسرار آلِ !          محمّد جملا ظریفه !!

                             و اریتکم ان الحسین(ع)!!     اصیب یوم السقیفه !!

اگر  دار و رسن کا خوف نہ ہوتا جو کہ خلیفہ نے معین کر رکھی ہیںتومیں ضرور ظریف جملوں میں آل محمد(ص) کے اسرار کو بیان کرتا ااور آپ کو  یہ دکھا دیتا کہ حسین(ع) تو سقیفہ کے روز ہی قتل ہوچکے تھے۔

بال کی کھال نکالنے والا محقق اس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ بنی امیہ اور بنی عباس کو ابوبکر و عمر کے طفیل میں حکومت ملی تھی۔

اس لئے دوںوں حکومتوں نے ابوبکر وعمر کے ذکر کو خوب بلند کیا اوران کے اخلاقی فضائل کو ثابت کرنے کے سلسلہ می ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے اور خلافت کےلئے انھیں زیادہ حقدار ثابت کیا ہے کیوںکہ وہ ( بنی امیہ اور بنی عباس) اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ ان کی خلافت اسی صورت میں کامل ہوسکتی ہے کہ جب وہ ابوبکر و عمر کی خلافت کو صحیح تسلیم کریں ۔

اور دوسری طرف ہم ان سب کو اہل بیت(ع) پر انسانیت سوز مظالم کے پہاڑ توڑتے ہوئے

۳۵۵

دیکھتے  ہیں صرف اس قصور پر کہ وہ (اہل بیت(ع))  شرعی طور پر خلافت کے وارث تھے اور ان لوگوں کی خلافت اور حکومت کے لئے چیلنج بنے ہوئے تھے۔

اور یہ بات تو حق پہچاننے والے اشخاص کے نزدیک بدیہی ہے اور اس زمانہ میں آپ بھی بعض اسلامی ممالک میں اس چیز  کو مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ چند ممالک پر ان لوگوں کی بادشاہت ہے کہ جن کا کوئی ذاتی فضل و شرف نہیں ہے مگر یہ کہ وہ بادشاہوں اور حکام کے بیٹے ہیں ، بالکل اسی طرح جیسے یزید(لع) بادشاہ بن گیا تھا کیونکہ اس کا باپ معاویہ بادشاہ تھا جوکہ قہر و غلبہ سے امت کا حاکم بنا تھا۔

پس یہ بات معقول نہیں ہے کہ سعودی عرب کے امراء اور بادشاہ اہل بیت(ع) اور ان کے شیعوں سے محبت کریں۔

اسی طرح سعودی عرب کے حکام اور ملوک کے لئے معاویہ اور یزید(لع) اور جنہوں نے ان کے لئے ولیعہدی کا دستور ایجاد کیا ، اور بنی امیہ و بنی عباس کہ جن سے آج بادشاہ مدد حاصل کرتے ہیں انھیں برا بھلا کہنا بھی معقول نہیں ہے۔

یہیں سے خلفاء کی تعظیم و تقدیس اور ان کی فضلیت و عدالت کا بھی سوتا پھوٹتا ہے اور یہی ان پر تنقید نہ کرنے اور ان کے متعلق جرح سے روکنے کا راز ہے اس لئے کہ سقیفنہ کے دن سے آج تک جتنی حکومتیں وجود میں آئی ہیں یا خدا کی زمین اور اس کی چیزوں کا وارث بنانے تک جتنی حکومتیں وجود میں آئیں گی ان سب کی بنیاد وہی لوگ ہیں۔

اس بنیاد پر یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ ان لوگوں نے اپنے لئے اہل سنت والجماعت کا نام کیوں  منتخب کیا ہے اور اپنے غیر زندیق و رافضی کیوں کہتے ہیں! اس لئے کہ علی(ع) اہلبیت(ع) اور شیعوں نے اہل سنت کے خلفاء کی خلافت کا انکار کردیا تھا اور ان کی بیعت کے مطالبہ کو ٹھکرا دیا تھا  اور ہر مناسب موقع پر ان کے خلاف احتجاج کرتے تھے نتیجہ میں حکام نے بھی انھیں ذلیل و رسوا کرنے ، ان پر لعنت کرنے، جلاوطن کرنے اور قتل کرنے پر کرنے پر کمر باندھ لی تھی۔

۳۵۶

اور جب ان اہلبیت(ع) کو قتل کیا گیا کہ جن کی محبت کو قرآن میں اجر رسالت قرار دیا گیا ہے تو پھر ان کے شیعوں اور دوستداروں کا اذیت ناک سزاؤں ، انسانیت سوز مظالم اور ذلت ورسوائی سے دوچار ہونا کوئی نئی بات نہیں تھی چنانچہ حق گمنام اور مردود بن گیا اور باطل قائد و رہبر اور واجب الطاعت بن گیا۔

پس جس نے علی(ع) سے محبت کی اور اس کا اعلان کیا وہ بدعتی اور فتنہ انگیز ہے اور معاویہ کو دوست رکھنے والا اہل سنت والجماعت ہے۔

تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں کہ جس نے ہمیں عقل عطا کی ، جس کے ذریعہ ہم حق کو باطل سے ،نور کو تاریکی سے اور سفیدی کو سیاہی سے جدا کرتے ہیں۔ بے شک میرے آقا کا سیدھا راستہ ہے اور اندھے اور دیکھنے والے برابر نہیں ہوسکتے اور نہ ہی نور  و تاریکی  برابر ہوسکتے ہیں اورسایہ اور دھوپ بھی یکساں نہیں ہوسکتے اور زندہ و مردے برابر  نہیں ہوسکتے، بے شک خدا جس کو چاہتا ہے اپنی بات سنا دیتا ہے اور آپ انھیں نہیں سنا سکتے جو قبروں کو اندر رہنے والے ہیں۔( سورہ فاطر ، آیت ۱۹، ۲۲)

۳۵۷

صحابہ شیعوں کی نظر میں

جب ہم غیر جانب دار ہوکر صحابہ کے موضوع پر بحث کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ انھیں وہی حیثیت دیتے ہیں جو قرآن و حدیث اور عقل دیتی ہے وہ سب کا کافر نہیں کہتے ہیں جیسا کہ غالی کہتے ہیں اور نہ ہی تمام صحابہ کو عادل تسلیم جیسا کہ اہل سنت والجماعت  کا مسلک ہے۔

اس سلسلہ میں امام شرف الدین موسوی فرماتے ہیں۔ جس نے صحابہ کے متعلق سنجیدگی سے ہمارے نظر یہ کا مطالعہ کیا وہ اس بات کو سمجھ گیا کہ یہی معتدل راستہ ہے۔ کیونکہ ہم اس سلسلہ میں نہ تو غالیوں کی طرح تفریط کے شکار ہیں کیوں کہ وہ تمام صحابہ کو کافر کہتے ہیں اور نہ ہی جمہوری(سنیوں) کی طر ح افراط کا شکار ہیں جو کہ تمام صحابہ کو معتبر وموثق کہتے ہیں، بے شک کاملیہ اور غلو میں  ان کا شریک تمام صحابہ کو  کافر کہتا ہے اہل سنت ہر اس مسلمان کو عادل کہتے ہیں جس نے نبی(ص) کو دیکھا یا ان سے کچھ سنا ہے۔

اگر چہ صرف صحبت ہمارے نزدیک بہت بڑی فضیلت ہے لیکن صحبت بغیر کسی قید و

۳۵۸

 شرط کے معصوم عن الخطا نہیں ہے۔ اس اعتبار سے صحابہ بھی ایسے ہی ہیں جیسے دیگر افراد، ان میں عادل بھی ہیں۔ سربرآوردہ بھی ہیں اورعلما بھی ہیں چنانچہ ان ہی میں باغی بھی ہیں، جرائم پیشہ بھی ہیں، منافقین بھی ہیں اور جاہل بھی ہیں پس ہم ان میں سے عادلوں کو تسلیم کرتے ہیں اور دنیا و آخرت میں ان سے محبت کرتے ہیں۔

لیکن نبی(ص) کے وصی اور علی(ع)  سے بغاوت کرنے والے اور دیگر جرائم پیشہ کی جیسے ہند کے بیٹے ابن زرقا، ابن عقبہ اور ارطاہ کے خلف نا سلف ہیں۔ پس ان کی کوئی عزت نہیں ہے اور نہ ان کی حدیث کا کوئی و زن ہے اور  جن کے حالات معلوم نہیں ہیں ان کے سلسلہ میں حالات معلوم ہونے تک توقف کریں گے۔

صحابہ کے سلسلہ میں یہ ہے ہمارا نظریہ اور قرآن و حدیث بھی ہمارے اس نظریہ کی تائید کررہی ہیں جیسا کہ اصول فقہ میں مفصل طور پر یہ بحث موجود ہے لیکن جمہور نے صحابہ کی تقدیس میں اتنا مبالغہ سے کام لیا کہ میانہ روی سے نکل گئے اور اس سلسلہ میں ہر ضعیف و جعلی حدیث سے استدلال کرنے لگے اور ہر اس مسلمان شخص کی اقتداء کرنے لگے جس نے نبی(ص)  سنا ہو یا آپ(ص)  کو دیکھا ہو۔ بالکل اندھی تقلید اور جن لوگوں نے اس غلو کی مخالفت کی اس پر  انھوں نے سبّ وشتم کی بوجھار کی ۔

وہ ہمیں اس وقت بہت برا بھلا کہتے ہیں جب ہم دینی حقائق کی تحقیق اور بنی(ص) کے صحیح آثار کی تلاش میں واجب شرعی پر عمل کرتے ہوئے مجہول الحال صحابہ کی بیان کردہ حدیث کو  رد کردیتے ہیں۔

ان ہی باتوں کی بنا پر وہ ہم سے بدگمان ہیں چنانچہ جہالت و نادانی کی بنا پر وہ ہم پر رکیک قسم کی تہمتیں لگاتے ہیں، اگر وہ عقل سے کام لیتے اور قواعد علم کی طرف رجوع کرتے تو انھیں معلوم ہوجاتا کہ صحابہ کی عدالت والے مقولہ پر کوئی دلیل نہیں ہے اگر وہ (اہل سنت) قرآن میں غور و فکر کریں گے تو  معلوم ہوگا کہ منافق صحابہ کے ذکر سے قرآن بھرا پڑا ہے۔ اس کے لئے

۳۵۹

سورہ احزاب و توبہ کا مطالعہ کافی ہے۔۔۔۔

جامعہ عین الشمس " قاہرہ" کے شعبہ عربی ادب کے پروفیسر ڈاکٹر  حامد حنفی داؤد کہتے ہیں، لیکن شیعہ صحابہ کو بھی ایسا سمجھتے ہیں جیسے عام افراد ہیں ، ان ( صحابہ) کے اور قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کے درمیان کسی فرق و فضیلت کے قائل نہیں ہیں۔

اصل میں وہ (شیعہ) صرف عدل کو پیمانہ سمجھتے ہیں چنانچہ اسی صحابہ کے افعال کو ناپنے ہیں اور اسی طرح صحابہ کے بعد آنے والوں کے افعال کو بھی اسی کسوٹی پر کستے ہیں اور پھر صحبت، کوئی فضیلت نہیں ہے مگر  یہ کہ کوئی یہ کہ انسان فضلیت کا اہل ہو اور  اس کے اندر رسالتمآب(ص)  کے پاس ٹھہرنے کی استعداد ہو ، صحابہ میں سے معصوم بھی ہیں جیسے وہ ائمہ ہیں جو کہ رسول(ص) کی صحبت سے فیضیاب ہونے ہوئے ہیں مثلا علی(ع)  اور  ان کے فرزند، ان میں ایسے عادل بھی ہیں جنہوں نے رسول(ص) کی وفات کے بعد علی(ع) کی صحبت اختیار کی۔

ان میں ، ایسے مجتہد بھی ہیں جو مصیبت ہیں۔ ان میں ایسے بھی ہیں جن کا اجتہاد غلط ہے ان میں فاسق بھی ہیں، زندیق بھی ہیں جو کہ فاسقوں سے بھی گئے گزرے ہیں اور زندیق ہی لے دائرہ میں منافق اور وہ لوگ داخل ہیں، جو کہ صرف ظاہری طہور پر خدا کی عبادت کرتے تھے۔ جیسا کہ ان میں و ہ کفار بھی ہیں جنھوں نے نفاق کے بعد توبہ نہیں کی ہے اور وہ بھی ہیں جو اسلام لانے کے بعد  مرتد ہوگئے تھے۔

شیعہ ۔جو کہ اہل قبلہ میں سے بڑا گروہ ہے ۔ تمام مسلمانوں کو ایک ترازو میں تو لتے ہیں اس سلسلہ میں ان کے یہاں صحابی ، تابعین اور متاخرین کا امتیاز نہیں ہے پھر صحبت انھیں معصوم نہیں بناسکتی ہے اور نہ اعتقادی مسائل انھیں کجی سے بچاسکتے ہیں اور اسی مستحکم  بنیاد کی وجہ انھوں نے اپنے کے لئے ۔ اجتہاد  سے ۔ صحابہ پر تنقید کرنا اور ان کی عدالت کی تحقیق کی مباح سمجھ لیا ہے۔ جیسا کہ وہ ان صحابہ پر سب و شتم کرنے کو بھی سمجھتے ہیں۔ جنھوں نے صحبت کے شرائط کو پس پشت ڈالدیا تھا اور آلِ محمد(ص) محبت کو چھوڑا دیا تھا۔

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

۳۔معاویہ کی برباد ہوتی ہوئی فوج دوبارہ زندہ ہوگئی ،اور وہ پھر سے جوان ہوگئی اور عراق کے لوگوں کی روح کو کمزور کرنے کے لئے اس نے لوٹ مار اور غارت گری شروع کردی تاکہ اس علاقے کا امن وچین ختم ہوجائے اور مرکزی حکومت کو کمزور اعلان کردے،

۴۔ ان تمام چیزوں سے بدتریہ کہ عراق کے لوگ دو گروہ میں بٹ گئے ایک گروہ نے حکمیت کو قبول کیااور دوسرے نے اسے کفر اور گناہ سے تعبیر کیا اور امام علیہ السلام کے لئے ضروری سمجھا کہ وہ اس کام سے توبہ کریں ورنہ اطاعت کی ریسمان گردن سے کھول دیں گے اور ان سے معاویہ کی طرح جنگ کے لئے آمادہ ہوجائیں گے۔

۵۔ایسی فکر رکھنے کے باوجود ، حکمیت کے مخالفین جو ایک وقت امام کے طرفدار اورچاہنے والے تھے اور امام علیہ السلام نے اس گروہ کے دباؤ کی وجہ سے اپنی مرضی اور اپنے نظریے کے برخلاف حکمیت کو قبول کیا تھا حضرت کے کوفہ میں آنے کے بعدہی ان لوگوں نے حکومت وقت کی مخالفت کرنے والوں کے عنوان سے شہر چھوڑدیا اور کوفہ سے دومیل کی دوری پر پڑاؤ ڈالا، ابھی جنگ صفین کے برے اثرات ختم نہ ہوئے تھے کہ ایک بدترین جنگ بنام '' نہروان'' رونما ہوگئی اور یہ سرکش گروہ اگرچہ ظاہری طور پر نابود ہو گیا لیکن اس گروہ کے باقی لوگ اطراف وجوانب میں لوگوں کو آمادہ کرنے لگے جس کی وجہ سے ۱۹ رمضان ۴۰ ہجری کو علی علیہ السلام خوارج کی اسی سازش کی بنا پر اور محراب عبادت میں شہید ہوگئے۔

۶۸۱

جی ہاں ، امام علیہ السلام نے اپنی حکومت کے زمانے میں تین بہت سخت جنگوں کا سامنا کیا جو تاریخ اسلام میں بے مثال ہیں:

پہلی جنگ میں عہد وپیمان توڑنے والے طلحہ وزبیر نے ام المومنین کی شخصیت سے جو کہ رسول اسلام کی شخصیت کی طرح تھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خونین جنگ کھڑی کی مگر شکست کھانی پڑی.

دوسری جنگ میں مد مقابل ابوسفیان کا بیٹا معاویہ تھا جس نے عثمان کے خون کا بدلہ لینے کا بہانہ بنایا اور سرکشی کے ذریعے مرکزی حکومت اور امام منصوص اور مہاجرین و انصار کے ذریعے چنے گئے خلیفہ کی مخالفت کی اور حق وعدالت کے راستے سے منحرف ہوگیا۔

تیسری جنگ میں جنگ کرنے والے امام علیہ السلام کے قدیمی ساتھی تھے جن کی پیشانیوں پر عبادتوں کی کثرت سے سجدوں کے نشان تھے اور ان کی تلاوتوں کی آواز ہر طرف گونج رہی تھی اس گروہ سے جنگ پہلی دوجنگوں سے زیادہ مشکل تھی ،مگر امام علیہ السلام نے کئی مہینہ صبر تحمل ، تقریروں اور بااثر شخصیتوں کے بھیجنے کے بعد بھی جب ان کی اصلاح سے مایوس ہوگئے اور جب وہ لوگ اسلحوں کے ساتھ میدان جنگ میں آئے تو ان کے ساتھ جنگ کی اور خود آپ کی تعبیر کے مطابق '' فتنہ کی آنکھ کو جڑ سے نکال دیا'' امام علیہ السلام کے علاوہ کسی کے اندر اتنی ہمت نہ تھی کہ ان مقدس نما افراد کے ساتھ جنگ کرتا لیکن حضرت علی علیہ السلام کا اسلام کے ساتھ سابقہ اور پیغمبر اسلام (ص) کے زمانے میں جنگ کے میدان میں آپ کی ہجرت اور ایثار اور پوری زندگی میں زہد و تقویٰ اور مناظرہ کے میدان میں علم ودانش سے سرشار اور بہترین منطقی دلیل وغیرہ جیسی صلاحیتوں نے آپ کو وہ قدرت عطا کی تھی کہ جس کے ذریعے آپ نے فساد کو جڑ سے اکھاڑدیا۔

تاریخ اسلام میں یہ تینوں گروہ ناکثین ( عہد وپیمان توڑنے والے ) اور قاسطین ( ظالم و ستمگر اور حق سے دور ہونے والے ) اور مارقین ( گمراہ اور دین سے خارج ہونے والے افراد) کے نام سے مشہور ہیں ۔یہ تینوں نام پیغمبر کے زمانے میں رکھے گئے تھے خود رسول اسلام (ص) نے ان تینوں گروہوں کے اس طرح سے صفات بیان کئے تھے اور علی علیہ السلام اور دوسرے لوگوں سے کہا تھا کہ علی ان تینوں گروہ سے جنگ کریں گے ، پیغمبر اسلام (ص) کا یہ کام خونی جنگ اور غیب کی خبر دیتاہے جسے اسلامی محدثین نے حدیث کی کتابوں میں مختلف مناسبتوں سے یاد کیا ہے نمونہ کے طورپر یہاں ان میں سے ایک کو ذکر کررہے ہیں علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

۶۸۲

'' أمرنی رسول اللّٰه (ص) بقتال الناکثین والقاسطین و المارقین'' (۱)

پیغمبر اسلام (ص) نے مجھے حکم دیا کہ ناکثین ، قاسطین اور مارقین کے ساتھ جنگ کروں۔

ابن کثیر متوفی ۷۷۴ ہجری نے اپنی تاریخ میں اس حدیث کے کچھ حصے کو نقل کیا ہے وہ لکھتاہے کہ پیغمبر اسلام (ص) ام سلمہ کے گھر میں داخل ہوئے اور کچھ دیر بعد علی ـ بھی آگئے پیغمبر (ص)نے اپنی بیوی کی طرف رخ کرکے کہا:

'' یا امَّة َ سلمة هذا واللّٰه قاتلُ النّاکثین والقاسطین والمارقین من بعدی '' (۲) یعنی ،اے ام سلمہ، یہ علی ، ناکثین ، قاسطین اور مارقین سے میرے بعد جنگ کرے گا۔

تاریخ اور حدیث کی کتابوں سے رجوع کرنے پر یہ حدیث صحیح اور محکم ثابت ہوئی ہے اسی وجہ سے یہاں پر مختصر کررہے ہیں اور یاد دلاتے ہیں کہ محقق بزرگوار علامہ امینی نے اپنی کتاب '' الغدیر'' میں اس حدیث کے متعلق بیان کیا ہے اور اس کی سند اور حوالے وغیرہ کو جمع کیا ہے(۳) ۔

مارقین کی تاریخ شاہد ہے کہ یہ لوگ ہمیشہ اپنے زمانے کی حکومتوں سے لڑتے تھے اور کسی کی حکومت کو قبول نہیں کیانہ حاکم کو رسمی طور پر پہچانتے تھے اور نہ حکومت ہی سے کوئی واسطہ رکھتے تھے حاکم عادل اور

حاکم منحرف، مثل علی علیہ السلام اور معاویہ ان کی نظروں میں برابر تھے اور ان لوگوں کا یزید ومروان کے ساتھ رویہ اور عمربن عبد العزیز کے ساتھ رویہ برابر تھا۔

______________________

(۱) تاریخ بغدادی ج۸، ص ۳۴۰

(۲) البدایہ والنھایہ جزئ۷، ج ۴، ص ۳۰۵

(۳) الغدیر ج۳، ص ۱۹۵۔ ۱۸۸، نقد کتاب منہاج السنة

۶۸۳

خوارج کی بنیاد

خوارج کا وجود پیغمبر اسلام (ص) کے زمانے سے مرتبط ہے یہ گروہ پیغمبر کے زمانے میں اپنی فکر اور نظریہ پیش کرتا تھا اور ایسی باتیں کرتا تھا کہ وجدان اسے تسلیم نہیں کرسکتا اور لڑائی جھگڑا ان سے ظاہر ہوتاتھا درج ذیل موارد اسی موضوع سے متعلق ہیں :

پیغمبر اسلام (ص) نے جنگ '' حنین '' سے حاصل ہوئے مال غنیمت کو مصلحت کی بنا پر تقسیم کردیا اور مشرکوں میں سے جو نئے مسلمان ہوئے تھے ان کے دلوں کو اسلام کی طرف کرنے کے لئے جو بہت سالوں سے اسلام سے جنگ کررہے تھے زیادہ مال غنیمت دیا،اس وقت حرقوص بن زہیر نے اعتراض کیااور غیر مہذب طور سے پیغمبر سے کہا، عدالت سے کام لیجیئے۔

اس کی غیر مہذب گفتگو نے پیغمبر اسلام (ص) کو ناراض کردیا اور اس کا جواب دیا ، لعنت ہو تجھ پر اگر عدالت ہمارے پاس نہ ہوگی تو پھر کہاں ہوگی ؟ عمر نے اس وقت درخواست کی کہ اسے قتل کردیں ، لیکن پیغمبر نے اس کی درخواست قبول نہیں کی اور ان کے بھیانک نتیجے کے بارے میں کہا ، اسے چھوڑدو کیونکہ اس کی پیروی کرنے والے ایسے ہوں گے جو دینی امور میں حد سے زیادہ تحقیق وجستجو کرنے والے ہوں گے اور بالکل اسی طرح کہ جس طرح سے تیر کمان سے خارج ہوتا ہے وہ دین سے خارج ہوجائیں گے۔(۱)

بخاری نے اپنی کتاب '' مولفة القلوب''میں اس واقعہ کو تفصیل سے لکھا ہے وہ لکھتے ہیں :

پیغمبر نے اس کے اور اس کے دوستوں کے بارے میں یہ کہا ہے ''یمرقون من الدین ما یمرقُ السَّهمُ من الرّمیَّةِ ''(۲)

پیغمبر نے لفظ '' مرق'' استعمال کیا ہے جس کے معنی پھینکنے کے ہیں کیونکہ یہ گروہ دین کے سمجھنے میں اس قدر ٹیڑھی راہوں پر چلے گئے کہ دین کی حقیقت سے دور ہوگئے اور مسلمانوں کے درمیان

______________________

(۱) سیرہ ابن ہشام ج۲، ص ۴۹۷

(۲) صحیح بخاری

۶۸۴

مارقین '' کے نام سے مشہور ہوگئے۔(۱)

اعتراض کرنے والاحرقوص کے لئے سزاوار یہ تھا کہ شیخین کی خلافت کے زمانے میں خاموشی کو ختم کردیتا اور ان دونوں خلیفہ کے چنے جانے اور ان کی سیرت پر اعتراض کرتا، لیکن تاریخ نے اس سلسلے میں اس کا کوئی رد عمل نقل نہیں کیا ہے ،صرف ابن اثیر نے '' کامل '' میں تحریر کیاہے کہ اہواز کی فتح کے بعد حرقوص خلیفہ کی طرف سے اسلامی فوج کا سردار معین تھا اور عمر نے اہواز اورورق کے بعد جو اسے خط لکھا اس کی عبارت بھی ذکر کی ہے(۲) طبری نقل کرتے ہیں کہ ۳۵ ہجری میں حرقوص بصریوں پر حملہ کرکے ، عثمان کی حکومت میں مدینہ آگیا اور مصر اور کوفہ کے لوگوں کے ساتھ خلیفہ کے خلاف سازشیں کرنے لگا۔(۳)

اس کے بعد سے تاریخ میں اس کے نام ونشان کا پتہ نہیں ملتا اور اس وقت جب حضرت علی ـ نے چاہا کہ ابوموسیٰ کو فیصلہ کرنے کے لئے بھیجیں ،تو اس وقت اچانک حرقوص زرعہ بن نوح طائی کے ساتھ امام کے پاس آیا اور دونوں کے درمیان سخت بحث ومباحثہ ہوا جسے ہم ذکر کررہے ہیں ۔قوص:وہ غلطیاں جو تم نے انجام دی ہیں اس کے لئے توبہ کرو اور حکمین کو قبول نہ کرو اور ہمیں دشمن سے جنگ کرنے کے لئے میدان میں روانہ کرو تاکہ ان کے ساتھ جنگ کریں اور شہید ہوجائیں ۔

امام علیہ السلام: جب حکمین کا مسئلہ طے ہورہا تھا اس وقت میں نے اس کے بارے میں تم کو بتایا تھا لیکن تم نے میری مخالفت کی اور اب جب کہ ہم نے عہد وپیمان کرلیا ہے تو مجھ سے واپس جانے کی درخواست کررہے ہو؟ خداوند عالم فرماتاہے( وَأوفو بعهد اللّٰه اذاعا هدتم ولا تنقضوا الایمان بعد توکیدها وقد جعلتم الله علیکم کفیلاً انّ اللّٰه یعلم ماتفعلون ) (نحل ۹۱) یعنی خدا کے عہدوپیمان ، جب تم نے وعدہ کرلیا ہے تو اس کو وفا کرو اور جو تم نے قسمیں کھائی ہیں ان کو نہ توڑو،جب کہ تم نے اپنی قسموں پر خدا کو ضامن قراردیا ہے اور جوکچھ بھی تم کرتے ہو خدا اس سے باخبرہے۔

______________________

(۱) التنبیہ والرد۔ ملطی ص ۵۰

(۲) کامل ج۲، ص ۵۴۵۔ مطبوعہ دارصادر

(۳)تاریخ طبری ج۳، ص ۳۸۶ مطبوعہ الاعلمی

۶۸۵

حرقوص: یہ ایسا گناہ ہے کہ ضروری ہے کہ اس سے توبہ کرو۔

امام علیہ السلام : یہ گناہ نہیں ہے بلکہ فکروعمل میں ایک قسم کی سستی ہے کہ تم لوگوں کی وجہ سے مجھ پر آپڑی ہے اور میں نے اسی وقت تم کو اس کی طرف متوجہ کیا تھا اور اس سے روکا تھا۔

زرعہ بن نوح طائی : اگر حکمیت سے باز نہیں آئے تو خد ااور اس کی مرضی حاصل کرنے کیلئے تم سے جنگ کریں گے!

علی علیہ السلام : بے چارہ بدبخت، تمہارے مردہ جسم کو میدان جنگ میں دیکھ رہا ہوں گا کہ ہوا اس پر مٹی ڈال رہی ہے،

زرعہ : میں چاہتا ہوں کہ ایسا ہی ہو۔

علی علیہ السلام :شیطان نے تم دونوں کو گمراہ کردیا ہے ۔

پیغمبر اسلام (ص) اور امیر المومنین علیہ السلام سے حرقوص کی غیر مہذب اور احمقانہ باتیں اس کے برخلاف ہیں کہ اسے ایک معمولی مسلمان سمجھیں ، جب کہ وہ مفسرین اسلامی(۱) کی نظر میں منافقوں میں سے ہے اور یہ آیت اس کی شان میں نازل ہوئی ہے :

( ومنهم من لم یلمزْکَ فی الصّدقاتِ فان أعطوامنهارضواوان لم یعطوا منهااذاهم یسخطون ) ( توبہ ۵۸)، منافقون میں سے بعض غنیمت تقسیم کرنے کے بارے میں تم پر اعتراض کرتے ہیں اگر ان کو کچھ حصہ دیدیا جائے تو وہ راضی ہوجائیں گے اور اگر محروم ہوجائیں تو اچانک غصہ ہوجائیں گے۔

______________________

(۱)مجمع البیان ج۳، ص ۴۰

۶۸۶

خوارج کی دوسری اہم فرد

خوارج کی ایک ذوالثدیہ کی ہے اور رجال کی کتابوں میں اس کا نام '' نافع'' ذکر ہوا ہے اکثر محدثین کا خیال یہ ہے کہ حرقوص جو ذوالخویصرہ کے نام سے مشہور ہے وہی ذوالثدیہ ہے لیکن شہرستانی نے اپنی کتاب ملل ونحل میں اس کے برخلاف نظریہ پیش کیا ہے وہ کہتے ہیںاَوَّلُهم ذوالخویصره وآخرُهم ذوالثدیه (۱) جب کے پیغمبر پر دونوں کے اعتراض کا طریقہ ایک ہی تھا اور دونوں نے مال غنیمت بانٹنے پر پیغمبر سے کہا تھا '' عدالت کرو'' اور آپ نے دونوں کو ایک جواب دیا تھا(۲) غالباً تصور یہ ہے کہ یہ دونام ایک ہی شخص کے ہیں لیکن تاریخ میں ذوالثدیہ کی جو صفت بیان کی گئی ہے اور جو پیغمبر کی زبان پر آیا ہے ہرگز اس طرح ذوالخویصرہ کے بارے میں وارد نہیں ہو اہے ۔

ابن کثیر جس نے مارقین سے متعلق تمام آیتوں اور روایتوں کو جمع کیا ہے اس کے بارے میں کہتاہے ،پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:

کچھ گروہ دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح تیر کمان سے نکلتا ہے اور دوبارہ واپس نہیں آتے اور اس گروہ کی نشانی یہ ہے کہ ان لوگوں کے درمیان کالے رنگ کے آدمی جس کے ہاتھ ناقص ہوں گے اس کے آخر میں گوشت کا ٹکڑا عورت کے پستان کی طرح اور جاذب ہوگا پرکشش(۳) ۔امام ـ نے جنگ نہروان سے فارغ ہونے کے بعد حکم دیا کہ ذوالثدیہ کی لاش کو قتل ہوئے لوگوں میں تلاش کریں اور اس کے کٹے ہوئے ہاتھ کے بارے میں تحقیق کریں جس وقت اس کی لاش لے کر آئے تو اس کا ہاتھ اسی طرح تھا جیسا کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا تھا۔

______________________

(۱) الملل والنحل ج۱، ص ۱۱۶ ۔ لیکن اس نے اسی کتاب کے ص ۱۱۵ پر دونوں کو ایک شمار کیا ہے اور کہتاہے کہ حرقوص بن زہیر مشہور ''به بذی الثدیه ''

(۲) کامل مبرد ج۳، ص ۹۱۹مطبوعہ حلبی ۔

(۳) سیرت ابن ہشام ج۲، ص ۴۹۶

۶۸۷

خوارج کے درمیان مختلف اعتقادی فرقے

خوارج نے سب سے پہلے حکمیت کے مسئلہ پر امام علیہ السلام کی مخالفت کی اور اسے قرآن مجید کے خلاف شمار کیا اس سلسلے میں کوئی دوسری علت نہ تھی لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہی واقعہ ایک عقیدتی مذہب کی صورت میں ابھر کر سامنے آگیا اور اس کے اندر مختلف شعبے اور فرقے وجود میں آگئے اور ''محکّمہ'' کے علاوہ بہت سے دوسرے فرقے وجود میں آگئے مثلاً ، ازارقہ ، نجدات ، بیہسیہ ، عجاردہ، ثعالبہ ، اباضیّہ اور صفریّہ .یہ تمام گروہ زمانے کے ساتھ ختم ہوگئے لیکن صرف فرقہ اباضیّہ ( عبداللہ بن اباض کا پیرو جس نے

مروانیوں کی حکومت کے آخر میں خروج کیا)باقی بچا ہے جو خوارج کے معتدل لوگوں میں شمار ہوتا ہے اور عمّان ، خلیج فارس اور مغرب مثلاً الجزایر وغیرہ میں منتشر ہوہے ۔

خوارج کی تاریخ، جنگ نہروان کے علاوہ بھی تمام اسلامی مؤرخین کے نزدیک قابل توجہ رہی ہے اور اس سلسلے میں طبری نے اپنی ''تاریخ ''میں مبرد نے '' کامل ''میں اور بلاذری نے '' انساب'' میں اور. . خوارج کے سلسلے میں تمام واقعات کو نقل کیاہے اور ان واقعات نقلی تاریخ کی صورت میں ذکر کیاہے۔ آخری زمانے کے مورخین نے چاہے وہ اسلامی ہوں یا غیر اسلامی ، اس سلسلے میں متعدد تنقیدی و تجزیاتی کتابیں لکھی ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں:

۱۔ تلخیص تاریخ الخوارج : مؤلف محمد شریف سلیم ، ۱۳۴۲ ہجری ، قاہرہ سے شائع ہوئی ۔

۲۔ الخوارج فی الاسلام : مؤلف عمر ابو النصر ، ۱۹۴۹ عیسوی ، بیروت سے شائع ہوئی ۔

۳۔وقعۂ النہروان : مؤلف خطیب ہاشمی ، ۱۳۷۲ ہجری ، تہران سے شائع ہوئی ۔

۴۔ الخوارج فی العصر الاموی : مؤلف ڈاکٹر نایف محمود جو دو مرتبہ بیروت سے شائع ہوئی ۔دوسری مرتبہ کی تاریخ ۱۴۰۱ ہجری ہے ۔

مستشرقین میں سے بھی کچھ لوگوں نے اس موضوع کی طرف توجہ دی ہے اور مختصر کتابیں تحریر کی ہیں .مثلاً:

۶۸۸

۵۔ الخوارج والشیعہ :جرمنی مؤلف فلوزن نے ۱۹۰۲ء میں جرمنی زبان میں لکھا ہے عبدالرحمٰن بدوی نے اس کا عربی میں ترجمہ کیا ہے ۔

۶۔ ادب الخوارج: یہ زہیر قلماوی کے ۱۹۳۰ ء سے ۱۹۴۰ئ ایم اے کی تحقیق (تھیسیس) تک ہے قلماوی نے اس تحقیق میں خوارج کے بہت سے شاعروں کا تذکرہ کیا ہے مثلاً عمران بن حطان یہ کتاب ۱۹۴۰ ء میں شائع ہوئی ہے ۔

میں نے( اس کتاب کے مؤلف نے) خوارج کے واقعات کی تحقیق و تنقید میں اسلام کی اصل کتابوں سے رجوع کیاہے اور ایک خاص طریقے سے جیسا کہ اسلامی تاریخ میں تحقیق و تنقید کا رواج ہے موضوعات کو تحریر کیا ہے خود کو ان کتابوں کی طرف رجوع کرنے سے بے نیاز نہیں سمجھتا.

خوارج کا بدترین مظاہرہ

لفظ خوارج بہت زیادہ استعمال ہونے والے لفظوں میں سے ہے اور علم تاریخ اور علم کلام کی بحثوں میں بہت زیادہ استعمال ہوا ہے اور عربی لغت میں یہ لفظ حکومت پر شورش وحملہ کرنے والوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اور خوارج ایسے گروہ کو کہتے ہیں جو حکومت وقت پر کے خلاف ھنگامہ کھڑا کرے اور اسے قانونی نہ جانے ، لیکن علم کلام اور تاریخ کے علماء کی اصطلاح میں امام علیہ السلام کے سپاہیوں میں سے نکلے ہوئے گروہ کو کہتے ہیں جنہوں نے ابوموسیٰ اشعری اور عمرو عاص کی حکمیت کو قبول کرنے کی وجہ سے اپنے کو امام علیہ السلام سے جدا کرلیا اور اس جملے سے اپنا نعرہ قرار دیا ''ان الحکم الا للّٰه ''اوریہ نعرہ ان کے درمیان باقی رہا اور اسی نعرہ کی وجہ سے علم ملل ونحل میں انہیں '' محکمہ '' کے نام سے یاد کیا گیاہے۔

امام علیہ السلام نے حکمیت قبول کرنے کے بعد مصلحت سمجھی کہ میدان صفین کو چھوڑدیں اور کوفہ واپس چلے جائیں اور ابوموسیٰ اور عمروعاص کے فیصلے کا انتظار کریں ، حضرت جس وقت کوفہ پہونچے تو اپنی فوج کے کئی باغی گروہ سے روبرو ہوئے ، آپ اور آپ کے جانبازوں نے مشاہدہ کیا کہ بہت سے سپاہیوں نے جن کی تعداد بارہ ہزار لوگوں پر مشتمل تھی کوفہ میں آنے سے پرہیز کیا اور حکمیت کے قبول کرنے کی وجہ سے بعنوان اعتراض کوفہ میں آنے کے بجائے '' حرورائ'' نامی دیہات کی طرف چلے گئے اور ان میں سے بعض لوگوں نے'' نخیلہ '' کی چھاؤنی میں پڑاؤ ڈالا۔

۶۸۹

حکمیت ، جسے خوارج نے عثمان کا پیراہن بنا کر امام علیہ السلام کے سامنے لٹکایا تھا ، وہی موضوع تھا کہ ان لوگوں نے خود اس دن ، جس دن قرآن کو نیزہ پر بلند کیا گیا تھا ، امام علیہ السلام پر اسے قبول کرنے کے لئے بہت زیادہ دباؤ ڈالا تھا یہاں تک کہ قبول نہ کرنے کی صورت میں آپ کو قتل کرنے کی دھمکی دی تھی لیکن پھر کچھ دنوں کے بعد اپنی شیطانی فکروں اور اعتراضی مزاج کی وجہ سے اپنے عقیدے سے پلٹ گئے اور اسے گناہ اور خلاف شرع بلکہ شرک اور دین سے خارج جانا اور خود توبہ کیا اور امام علیہ السلام سے کہا کہ وہ بھی اپنے گناہ کا اقرار کرکے توبہ کریں اور حکمیت کے نتیجے کے اعلان سے پہلے فوج کو تیار کریں اور معاویہ کے ساتھ جنگ کو جاری رکھیں ۔

لیکن علی علیہ السلام ایسے نہ تھے کہ جو گناہ انجام دیتے اور غیر شرعی چیزوں کو قبول کرتے اور جو عہد وپیمان باندھا ہے اسے نظر انداز کردیتے امام علیہ السلام نے اس گروہ پر کوئی توجہ نہیں دی اور کوفہ پہونچنے کے بعد پھر اپنی زندگی بسر کرنے لگے ، لیکن شرپسند خوارج نے اپنے برے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے مختلف کام کیے جن میں بعض یہ ہیں :

۱۔ امام علیہ السلام سے خصوصی ملاقاتیں کرنا تاکہ انہیں عہد وپیمان توڑنے پر آمادہ کریں ۔

۲ ۔ نمازجماعت میں حاضر نہ ہونا۔

۳۔ مسجد میں علی علیہ السلام کے خلاف اشتعال انگیز نعرے لگانا۔

۴۔ علی علیہ السلام اور جو لوگ صفین کے عہد وپیمان کو مانتے تھے انہیں کافر کہنا۔

۵۔ عظیم شخصیتوں کو قتل کرکے عراق میں بد امنی پیدا کرنا۔

۶۔ امام علیہ السلام کی حکومت کے مقابلے میں مسلّحانہ قیام۔

اس کے مقابلے میں امام علیہ السلام نے جو کام خوارج کے فتنے کو ختم کرنے کے لئے انجام دیا ان امور کو بطور خلاصہ پیش کررہے ہیں :

۱۔صفین میں حکمیت کے مسئلہ پر اپنے مؤقف کو واضح کرنا اور یہ بتانا کہ آپ نے ابتداء سے ہی اس چیز کی مخالفت کی اوراس پر دستخط کرانے کے لئے زوروزبردستی اور دباؤ سے کام لیا گیا ہے۔

۲۔ خوارج کے تمام سوالوں اور اعتراضوں کا جواب اپنی گفتگو اور تقریروں میں بڑی متانت و خوش اسلوبی سے دینا۔

۶۹۰

۳۔اچھی شخصیتوں کو مثلاً ابن عباس کو ان لوگوں کے ذہنوں کی اصلاح اور ہدایت کے لئے بھیجنا۔

۴۔ تمام خوارج کو خوشخبری دینا کہ خاموشی اختیار کریں اگرچہ ان کی فکر ونظر تبدیل نہ ہوںتو دوسرے مسلمانوں اور ان میں کوئی فرق نہیں ہوگا اور اسی وجہ سے بیت المال سے ان کا حصہ دیا گیا اور ان کے وظیفوں کو ختم نہیں کیا۔

۵۔ مجرم خوارج جنہوں نے خباب اور ان کی حاملہ بیوی کو قتل کیا تھا ، ان کا تعاقب کرنا۔

۶۔ ان کے مسلّحانہ قیام کا مقابلہ کرکے فتنہ وفساد کو جڑ سے ختم کرنا۔

یہ تمام عنوان اس حصے میں ہماری بحث کا موضوع ہیں اور خوش بختی یہ ہے کہ تاریخ نے ان تمام واقعوںکے وقوع کے وقت کو دقیق طور پر نقل کیا ہے اور ہم تمام واقعات کو طبیعی محاسبہ کے اعتبار سے بیان کریں گے۔

۱۔ خصوصی ملاقاتیں

ایک دن خوارج کے دو سردار زرعہ طائی اور حرقوص امام علیہ السلام کی خدمت میں پہونچے اور بہت سخت تکرارو گفتگو جسے ہم نقل کررہے ہیں ۔

زرعہ وحرقوص:''لا حُکْمَ اِلاّٰ لِلّٰهِ''

امام علیہ السلام :میں بھی کہتا ہوں :''لا حُکْمَ اِلاّٰ لِلّٰهِ''

حرقوص: اپنی غلطی کی توبہ کرو اور حکمیت کے مسئلے سے بازآجاؤ اور ہم لوگوں کو معاویہ کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے روانہ کرو، تاکہ اس کے ساتھ جنگ کریں اور خدا کی بارگاہ میں شہادت پاجائیں ۔

۶۹۱

امام علیہ السلام : میں نے یہی کام کرنا چاہا تھا لیکن تم لوگوں نے صفین میں مجھ سے زورو زبردستی کی اور حکمیت کے مسئلہ کو مجھ پر تحمیل کردیا اور اس وقت ہمارے اور ان کے درمیان عہدوپیمان ہوا ہے اور ہم نے اس پر دستخط بھی کئے ہیں اور کچھ شرائط کو قبول کیا ہے اور ان لوگوں کو وعدہ دیا ہے اور خدا وند عالم فرماتاہے :

( وَاوْفُوا بِعَهْدِ اﷲِ ِذَا عَاهَدْتُمْ وَلاَتَنقُضُوا الْایْمَانَ بَعْدَ تَوْکِیدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمْ اﷲَ عَلَیْکُمْ کَفِیلاً انَّ اﷲَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ ) (نحل ۹۱)

اور جب کوئی عہد کرو تو اللہ کے عہد کو پورا کرو اور اپنی قسموں کو ان کے استحکام کے بعد ہر گز نہ توڑو جب کہ تم اللہ کو کفیل اور نگراں بنا چکے ہو کہ یقینا اللہ تمہارے افعال کو خوب جانتا ہے ۔

حرقوص: یہ کام گناہ ہے اور ضروری ہے کہ آپ توبہ کریں ۔

امام علیہ السلام : یہ کام گناہ نہیں ہے بلکہ میںتم کمزور فکر و رائے تھے ( جس کا باعث خود تم لوگ تھے) اور میں نے تم لوگوں کو اس سلسلے میں پہلے ہی بتایا تھا اور اس کے انجام سے منع کیاتھا ۔

زرعہ : خدا کی قسم اگر مردوں کی حاکمیت کو خدا کی کتاب(۱) میں (قرآن کے مطابق )ترک نہیں کیا تو خدا کی مرضی کے لئے ہم تم سے جنگ کریں گے۔

______________________

(۱) تاریخ طبری میں عبارت '' کتاب اللہ '' ہے لیکن ظاہراً دین اللہ صحیح ہے۔

۶۹۲

امام علیہ السلام(غیظ وغضب کے عالم میں ): اے بدبخت تو کتنا برا آدمی ہے بہت ہی جلد تجھے ہلاک شدہ دیکھوں گااور ہوائیں تیرے لاشے پر چل رہی ہوں گی۔

زرعہ : میری آرزو ہے کہ ایسا ہی ہو۔

امام علیہ السلام : شیطان نے تم دونوں کی عقل چھین لیا ہے خدا کے عذاب سے ڈرو، اس دنیامیں جس چیز کے لئے جنگ کرنا چاہتے ہو اس میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔

اس وقت دونوںلَا حُکْمَ الِّٰا للّٰهِ کا نعرہ لگاتے ہوئے امام کے پاس سے اٹھ کرچلے گئے(۱) ۔

۲۔ حکومت کی مخالفت میں نمازجماعت سے دوری

جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا ایک مستحب عمل ہے اور اس کی مخالفت گناہ نہیں ہے لیکن اسلام کے آغاز میں دوسرے حالات تھے اور جماعت میں مسلسل شرکت نہ کرنے کی صورت میں لوگ یہ سمجھتے تھے کہ یہ حکومت وقت پر معترض اور منافق ہے ، اسی وجہ سے اسلامی روایتوں میں نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کی بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے کہ فی الحال یہاں پر بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے(۲) ۔

خوارج نے مسجد میں حاضری نہ دے کر اور نماز جماعت میں شریک نہ ہوکراپنی مخالفت کو ظاہر کردیا بلکہ جب نماز جماعت ہوتی تھی تو اشتعال انگیز نعرے لگاتے تھے۔

ایک دن امام علیہ السلام نماز پڑھ رہے تھے کہ خوارج کے ایک سردار '' ابن کوّائ'' نے اعتراض کے طور پر یہ آیت پڑھی :( ولقد أوحِیَ الیک والی الّذین من قبلک لئن اشرکت لیحبطَنَّ عملک ولتکوننَّ من الخاسرین ) (سورہ زمر ۶۵)

اور (اے رسول )تمہاری طرف اور ان (پیغمبروں ) کی طرف جو تم سے پہلے ہوچکے ہیں یقینا یہ وحی بھیجی جاچکی ہے کہ اگر ( کہیں ) شرک کیا تو یقینا تمہارے سارے اعمال برباد ہوجائیں گے اور تم ضرور گھاٹے میں ہوگے.

______________________

(۱) تاریخ طبری: ج۴ ص۵۳

(۲) رجوع کیجئے ، وسائل الشیعہ: ج۵، باب نماز جماعت ، باب ۱ ،ص۳۷۰.

۶۹۳

امام علیہ السلام نے پوری سنجیدگی اور قرآن کے حکم کے مطابق( وَاذَاقُرِیَ القرآنُ فَاستَمِعُو اله وأنصِتُوا لعلّکم تُرحَمون ) (۱) (سورہ اعراف ،۲۰۴) ، خاموش رہے تاکہ ابن کوّاء آیت کو تمام کردے ، پھر آپ نے نماز پڑھی لیکن اس نے پھر آیت پڑھی اور امام پھر خاموش رہے، ابن کوّاء نے کئی مرتبہ یہی کام کیا اور امام علیہ السلام صبروضبط کے ساتھ خاموش رہے ، بالآخر امام علیہ السلام نے درج ذیل آیت کی تلاوت فرماکر اس کا جواب اس طرح دیا کہ نماز پر بھی کوئی اثرنہ پڑا اور اسے خاموش و سرکوب کردیا، آیت یہ ہے:( فَا صبِر اِنَّ وَعَد اللّٰه حقّ ولا یَستَخِفَّنَّکَ الّذین لایُومنون ) (روم، ۶۰)، ( اے رسول )تم صبر کرو بے شک خدا کا وعدہ سچا ہے اور (کہیں ) ایسا نہ ہوکہ جو لوگ ایمان نہیں رکھتے تمہیں ہلکا بنادیں۔(۲)

ابن کوّاء نے اس آیت کی تلاوت کرکے بڑی بے حیائی و بے شرمی سے پیغمبر اسلام کے بعد سب سے پہلے مومن کومشرک قرار دیا تھاکیونکہ غیر خدا کو حکمیت کے مسئلہ میں شریک قراردیا تھا .ہم بعد میں الہی حاکمیت کے بارے میں تفصیل سے بحث کریں گے۔

______________________

(۱)ترجمہ:(لوگوں)جب قرآن پڑھا جائے تو غورسے سنو اور خاموش رہو تاکہ ( اسی بہانے) تم پر رحم کیا جائے۔

(۲) تاریخ طبری: ج۴، ص۵۴۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج۲، ص ۲۲۹۔

۶۹۴

۳۔ لاحکمَ الا للّٰہ کا نعرہ لگانا

خوارج اپنی موجودگی کا اعلان اور امام علیہ السلام کی حکومت سے مخالفت ظاہر کرنے کے لئے مسلسل مسجد اور غیر مسجد میں لاحکم الا للّٰہ کا نعرہ لگاتے تھے اور یہ نعرہ قرآن سے لیا تھا اور یہ درج ذیل جگہوں پر استعمال ہوا ہے :

۱۔( انْ الْحُکْمُ ِلاَّ لِلَّهِ یَقُصُّ الْحَقَّ وَهُوَ خَیْرُ الْفَاصِلِینَ ) (سورہ انعام :۵۷)

حکم خدا سے مخصوص ہے اور وہ حق کا حکم دیتا ہے اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

۲۔( الاَلَهُ الْحُکْمُ وَهُوَ َاسْرَعُ الْحَاسِبِینَ ) (سورہ انعام :۶۲)

آگاہ ہوجاؤ کہ حکم صرف اسی کے لئے ہے اور وہ بہت جلد حساب کرنے والا ہے۔

۳۔( اِن الْحُکْمُ الا للّٰه اَمَرَ ألَّا تَعْبُدُوا اِلَّا ایّٰاهُ ) (سورہ یوسف: ۴۰)

حکم صرف خدا سے مخصو ص ہے اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو۔

۴۔( انْ الْحُکْمُ ِلاَّ لِلَّهِ عَلَیْهِ تَوَکَّلْتُ وَعَلَیْهِ فَلْیَتَوَکَّلْ الْمُتَوَکِّلُونَ ) سورہ یوسف:۶۸)

حکم خدا سے مخصوص ہے اسی پر بھروسہ کرو اور بھروسہ کرنے والے بھی اسی پر بھروسہ کئے ہیں ۔

۵۔( لَهُ الْحَمْدُ فِی الْاولَی وَالْآخِرَةِ وَلَهُ الْحُکْمُ وَالَیْهِ تُرْجَعُونَ ) (سورہ قصص: ۷۰)

دنیا وآخرت میں تعریف اسی سے مخصوص ہے اور حکم بھی اسی کا ہے اور اسی کی بارگاہ میں واپس جاناہے۔

۶۔( انْ یُشْرَکْ بِهِ تُؤْمِنُوا فَالْحُکْمُ لِلَّهِ الْعَلِیِّ الْکَبِیر ) (سورہ غافر :۱۲)

اگر اس کے لئے شریک قرار دیا تو تم فورا مان لیتے ہو تو اب حکم بھی اسی بزرگ واعلیٰ خدا سے مخصوص ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان تمام آیتوں میں '' حکم '' خدا سے مخصوص ہے اور حکم کو خدا کے علاوہ کسی دوسرے سے منسوب کرنا شرک ہے لیکن دوسری آیت میں بیان ہوا ہے کہ بنی اسرائیل کو کتاب ، حکم اور نبوت دیا ہے:( وَلَقَدْ آتَیْنَا بَنِی ِسْرَائِیلَ الْکِتَابَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّةَ ) (سورہ جاثیہ: ۱۶)

ایک دوسری جگہ خدا وند عالم نے پیغمبر (ص) کو حکم دیا کہ حق کا حکم کریں۔

۶۹۵

( فَاحْکُمْ بَیْنَهُمْ بِمَا َنزَلَ اﷲُ وَلاَتَتَّبِعْ اهْوَائَهُمْ ) (سورہ مائدہ: ۴۸)

آپ ان لوگوں کے درمیان تنزیل خدا کے مطابق فیصلہ کریں اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔

ایک جگہ پر حضرت داؤد کو حکم دیا کہ لوگوں کے درمیان کے ساتھ فیصلہ کریں ۔

( فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلاَتَتَّبِعْ الْهَوَی ) (سورہ ص: ۲۶)

کتنے رنج وافسوس کی بات ہے کہ امام علیہ السلام ایسے مٹھی بھر جاہل اور نادان گروہ سے دوچارہوئے جو ظاہر آیات کو اپنی دستاویز قرار دیتے تھے اور معاشرے کو گمراہ اور برباد کرتے تھے۔

گروہ خوارج قرآن کا حافظ وقاری تھالیکن پیغمبر کے فرمان کے مطابق ، قرآن ان کے حلق اور سینہ سے نیچے نہیں اترا تھا ، اور ان کی فکر اور سمجھ سے بہت دور تھا۔

وہ سب اس فکر میں نہ تھے کہ امام علیہ السلام اور قرآن کے واقعی مفسر یا ان کے تربیت یافتہ حضرات کی خدمت میں پہونچیں ، تاکہ ان لوگوں کو قرآن کی آیتوں کے معانی و مفاہیم کے مطابق ان کی رہبری کریں اور ان لوگوں کو سمجھائیں کہ حکم کس معنی میں خدا سے مخصوص ہے کیونکہ جیسا گذر چکا ہے ، حکم کے کئی معنی ہیں یا اصطلاحاً یہ کہیں کہ اس کے بہت سے ایسے موارد ہیں بطور خلاصہ ہم تحریر کررہے ہیں :

۱۔عالم خلقت کی تدبیر اور خدا کے ارادے کا نفوذ،( یوسف: ۶۰)

۲۔ قانون سازی اور تشریع ( انعام: ۵۷)

۳۔ لوگوں پر حکومت اور تسلط ایک اصل حق کے طور پر ( یوسف :۴۰)

۴۔ الٰہی اصول وقوانین کے اعتبار سے لوگوںکے درمیان ہوئے اختلاف کا فیصلہ وانصاف (مائدہ:۴۹ )

۵۔ لوگوں کی سرپرستی،رہبری اور پیشوائی، الٰہی امانت دارکے عنوان سے ( جاثیہ ۱۶)

۶۹۶

اب جبکہ ہمیں معلوم ہوا کہ حکم کے بہت سے مفاہیم ہیں یا بہ عبارت صحیح، مختلف مواردمقامات ہیں تو کس طرح ممکن ہے کہ ایک آیت کے ظاہری معنی پر عمل کیا جائے اور صفین میں حکمین کا کی طرف رجوع کرنے اس کے مخالف قرار دیا جائے ؟

اب اس وقت یہ دیکھنا ہے کہ کون سا حکم خدا سے مخصوص ہے پھر امام علیہ السلام کے عمل کی تحقیق ہو اور اس کی موافقت یا مخالفت کو دیکھا جائے اور یہ ایسا کام ہے جس میں صبر ، ضبط ، تدبیر اور فکر کا ہونا ضروری ہے اور یہ کبھی بھی نعروں اور شوروغوغا سے حل نہیں ہوسکتا۔

امام علیہ السلام نے اپنے مخصوص صبروضبط کے ساتھ اپنے بعض احتجاجات میں ان لوگوں کو آیتوں کے مقصد اورمفہوم سے روشناس کرایا ، اسی وجہ سے ان لوگوں کو تسلیم ہونا پڑا لیکن ضد ، ہٹ دھرمی اور دشمنی کا کوئی علاج نہیں ہے اور تمام انبیاء اور مصلحین اس کے علاج سے عاجز وناتواں رہے ہیں ۔

ہم گذشتہ آیتوں کے معانی و مفاہیم تحقیق کرنے سے پہلے خوارج کی بعض اشتعال انگیز اور تندسخت مقابلوں کو یہاں نقل کررہے ہیں تاکہ اس گروہ کی سرکشی اور ہٹ دھرمی بخوبی واضح ہوجائے۔

امام ـکی بلند ہمتی اور خوش اخلاقی

ہرصاحب قدرت ایسے بے ادب اور بے غیرت جسورلوگوں کو جو ملک کے حاکم کو کافر اور مشرک کہتے تھے، ضرور سزا دیتا لیکن امام علیہ السلام نے تمام حاکموں کے طریقے کے برخلاف بڑی ہی بلند ہمتی اور کشادہ دلی کے ساتھ ان سب کے ساتھ روبرو ہوئے۔

ایک دن امام علیہ السلام خطبہ دے رہے تھے اور لوگوں کو موعظہ ونصیحت کرنے میں مصروف تھے کہ اچانک خوارج میں سے ایک شخص مسجد کے گوشہ سے اٹھا اور بلند آواز سے کہا :لَاحُکْمَ اِلّٰا لِلّٰهِ جب وہ نعرہ لگا چکا تو دوسرا شخص اٹھا اوروہی نعرہ لگایا اس کے بعد ایک گروہ اٹھا اور وہی نعرہ لگا نا شرو ع کردیا۔

۶۹۷

امام علیہ السلام نے ان کے جواب میں فرمایا : ان لوگوں کا کلام ظاہر میںتو حق ہے لیکن وہ لوگ باطل کو مراد لے رہے ہیں پھر فرمایا ''أما انَّ لکم عندنا ثلاثاً فَا صبَحتمو نا ''یعنی جب تک تم لوگ ہمارے ساتھ ہو تین حق سے بہرہ مند رہو گے ( اور تمہاری جسارتیں اور بے ادبیاں اس سے مانع نہیں ہوں گی کہ ہم تمہیں ان حقوق سے محروم کردیں۔)

۱۔''لٰا نَمْنَعُکُمُ مَسٰاجِدَ اللّٰهِ أنْ تَذْکُروْا فِیْهٰا اِ سْمَهُ '' تم کو مسجد میں داخل ہونے سے محروم نہیں کریں گے تاکہ تم وہاں نماز پڑھو۔

۲۔''لٰا نَمْنَعُکُمْ مِنَ الْفَئِی مَادَامَتْ اَیْدِیْکُمْ مَعَ أَیْدِیْنٰا ''تم کو بیت المال سے محروم نہیں کریں گے جب تک کہ تم ہماری مصاحبت میں ہو ( اور دشمن سے نہیں ملے ہو)۔

۳۔''لا نُقٰاتِلُکُم حَتّٰی تَبْدَ ؤُوْنا '' جب تک تم جنگ نہیں کرو گے ہم بھی تمہارے ساتھ جنگ نہیں کریں گے(۱) ۔

ایک دوسرے دن بھی جب امام علیہ السلام مسجد میں تقریر فرمارہے تھے کہ خوارج میں سے ایک شخص نے نعرہ لگایا اور لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف کرلیا۔

امام علیہ السلام نے فرمایا:''اَللّهُ اَکْبَرُ، کَلِمةُ حَقًّ یُرادُ بِها الْبَاطِلِ '' یعنی بات تو حق ہے لیکن اس سے باطل معنی مراد لیا جا رہا ہے ۔پھر فرمایا:اگر یہ لوگ خاموش رہیں تو دوسروں کی طرح ان سے بھی پیش

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۴، ص۵۳۔

۶۹۸

آؤں گا اور اگر بات کریں تو جواب دوں گا اور اگر فتنہ وفساد برپا کریں گے تو ان سے جنگ کروں گا ۔ اس وقت خوارج میں سے ایک دوسرا شخص یزید بن عاصم محاربی اٹھا اور خدا کی حمدوثناء کے بعد کہا : خدا کے دین میں ذلت قبول کرنے سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں ، خدا کے کام میں یہ ایک ایسا دھوکہ اور ذلت ہے کہ اس کا انجام دینے والا خدا کے غضب کا شکار ہوتا ہے ، علی مجھے قتل سے ڈراتے ہو؟امام علیہ السلام نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا (اس لئے کہ جواب جاہلان باشد خموشی)اور آئندہ کے حادثوں کا انتظار کرنے لگے ۔(۱)

امام ـ کی ہدایت

امام علیہ السلام کی فوج کا ایک حصہ جو آپ کا مستحکم بازو شمارہوتا تھا اس کے فتنہ وفساد نے امام کے لئے مشکلات کھڑی کردیں اور یہ فتنہ دوبار اٹھا ایک مرتبہ صفین میں ، فتنہ وفساد کرنے والوں کی وہاں مانگ یہ تھی کہ جنگ روک دیں اور حکمین کے فیصلے کو قبول کریں ورنہ آپ کو قتل کردیں گے۔ دوسری مرتبہ یہ فتنہ اس وقت اٹھا کہ جب عہد وپیمان ہوگیا اور حکمیت کو اسی گروہ کی وجہ سے مان لیاجو کہ اس مرتبہ پہلے مطالبہ سے بالکل برعکس مطالبہ کر رہے تھے اور عہد وپیمان کو توڑنے اور اسے نظر انداز کرنے کے خواہاں تھے۔ان کی پہلی خواہش نے اگرچہ امام علیہ السلام کی جیت اورفتح کو ختم کر دیالیکن صلح کرنا ایسے حالات میں کہ امام علیہ السلام کے سادہ لوح سپاہی نہ صرف جنگ کرنے کے لئے حاضر نہ تھے بلکہ یہاںتک آمادہ تھے کہ حضرت کو قتل کردیں ، غیر شرعی کام اور عقل کے اصول وقوانین کے خلاف نہ تھا؟ اور خود امام علیہ السلام کی تعبیر کے مطابق ،(جیسا کہ) آپ نے خوارج کے سرداروں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: '' حکمین کے فیصلے کا قبول کرنا اپنے فوجیوں کے دباؤ کی وجہ سے تھا جو تدبیر میں ناتوان اور انجام کارمیں کمزور تھے انہیں لوگوں کی وجہ سے مجھے قبول کرنا پڑا ''(۲) جب کہ ان کی دوسری خواہش قرآن کے صریحاً برخلاف تھی کیونکہ قرآن تمام لوگوں کو اپنے عہدو میثاق اور پیمان کو پورا کرنے کی دعوت دیتاہے۔اس صورت میں امام علیہ السلام کے پاس صرف ایک ہی راستہ تھا کہ آپ ثابت واستوار رہیں اور

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۴، ص۵۳۔

(۲)''ما هو ذنب لکنّه' عَجز فی الرّأی وضعف فی الفِعل''ِ ، تاریخ طبری ج۴ ص۵۳۔

۶۹۹

فریب خوردہ افراد کو ہدایت ونصیحت کریں اور ان کو منتشر اور متفرق کرنے کی کوشش کریں، اسی وجہ سے آپ نے پہلے ہدایت کرناشروع کیا اور جب یہ چیز مؤثر ثابت نہ ہوئی تو حالات کے مطابق دوسرے طریقے استعمال کئے مثلاً آپ نے اپنے فاضل وعالم اصحاب جوکہ مسلمانوں کے درمیان کتاب وسنت کی تعلیم کی آگاہی میں مشہور ومعروف تھے اور انہیں خوارج کی قیام گاہ بھیجا۔

ابن عباس کی دلیل اور خوارج

ابن عباس امام علیہ السلام کے حکم سے خوارج کی قیام گاہ( چھاؤنی ) گئے اور ان سے گفتگو کی جسے ہم نقل کررہے ہیں :

ابن عباس: تمہاراکیا کہناہے اورا میر المومنین علیہ السلام پر تمہارا کیا اعتراض ہے؟

خوارج: وہ امیر المومنین تھے لیکن جب حکمیت قبول کی تو کافر ہوگئے ،انہیں چاہیے کہ اپنے کفر کا اعتراف کرکے توبہ کریں تاکہ ہم لوگ ان کے پاس واپس چلے جائیں ۔

ابن عباس: ہرگز مومن کے شایان شان نہیں ہے کہ جب تک اس کا یقین اصول اسلامی میں شک سے آلودہ نہ ہو اپنے کفر کا اقرار کرے۔

خوارج : ان کے کفر کی علت یہ ہے کہ انہوں نے حکمیت کو قبول کیا۔

ابن عباس : حکمیت قبول کرنا ایک قرآنی مسئلہ ہے کہ خدا نے کئی جگہ پر اس کا تذکرہ کیا ہے، خدا فرماتاہے :( وَمَنْ قَتَلَهُ مِنْکُمْ مُتَعَمِّدًا فَجَزَائ مِثْلُ مَا قَتَلَ مِنْ النَّعَمِ یَحْکُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْکُمْ' ) (سورہ مائدہ: ۹۵)

( اے ایمان لانے والو شکار کو حالت احرام میں قتل نہ کرو) اور تم میں سے جو بھی اسے عمداً قتل کرے تو اسے چاہیے کہ اسی طرح کا کفارہ چوپایوںسے دے ، ایسا کفارہ کہ تم میں سے دو عادل شخص اسی جانور کی طرح کے کفارے کی تصدیق کریں۔

اگرخداوند عالم حالت احرام میں شکار کرنے کے مسئلہ میں کہ جس میں کم مشکلات ہیں ،تحکیم کا حکم دے تو وہ امامت کے مسئلہ میں کیوں نہ حکم دے اور وہ بھی اس وقت جب مسلمانوں کے لئے مشکل پیش آئے اس وقت یہ حکم قابل اجراء نہ ہو؟

خوارج: فیصلہ کرنے والوں نے ان کے نظریہ کے خلاف فیصلہ کیا ہے لیکن انہوں نے قبول نہیں کیا ہے۔

۷۰۰

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809