فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)4%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 361626 / ڈاؤنلوڈ: 6012
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

۳۔معاویہ کی برباد ہوتی ہوئی فوج دوبارہ زندہ ہوگئی ،اور وہ پھر سے جوان ہوگئی اور عراق کے لوگوں کی روح کو کمزور کرنے کے لئے اس نے لوٹ مار اور غارت گری شروع کردی تاکہ اس علاقے کا امن وچین ختم ہوجائے اور مرکزی حکومت کو کمزور اعلان کردے،

۴۔ ان تمام چیزوں سے بدتریہ کہ عراق کے لوگ دو گروہ میں بٹ گئے ایک گروہ نے حکمیت کو قبول کیااور دوسرے نے اسے کفر اور گناہ سے تعبیر کیا اور امام علیہ السلام کے لئے ضروری سمجھا کہ وہ اس کام سے توبہ کریں ورنہ اطاعت کی ریسمان گردن سے کھول دیں گے اور ان سے معاویہ کی طرح جنگ کے لئے آمادہ ہوجائیں گے۔

۵۔ایسی فکر رکھنے کے باوجود ، حکمیت کے مخالفین جو ایک وقت امام کے طرفدار اورچاہنے والے تھے اور امام علیہ السلام نے اس گروہ کے دباؤ کی وجہ سے اپنی مرضی اور اپنے نظریے کے برخلاف حکمیت کو قبول کیا تھا حضرت کے کوفہ میں آنے کے بعدہی ان لوگوں نے حکومت وقت کی مخالفت کرنے والوں کے عنوان سے شہر چھوڑدیا اور کوفہ سے دومیل کی دوری پر پڑاؤ ڈالا، ابھی جنگ صفین کے برے اثرات ختم نہ ہوئے تھے کہ ایک بدترین جنگ بنام '' نہروان'' رونما ہوگئی اور یہ سرکش گروہ اگرچہ ظاہری طور پر نابود ہو گیا لیکن اس گروہ کے باقی لوگ اطراف وجوانب میں لوگوں کو آمادہ کرنے لگے جس کی وجہ سے ۱۹ رمضان ۴۰ ہجری کو علی علیہ السلام خوارج کی اسی سازش کی بنا پر اور محراب عبادت میں شہید ہوگئے۔

۶۸۱

جی ہاں ، امام علیہ السلام نے اپنی حکومت کے زمانے میں تین بہت سخت جنگوں کا سامنا کیا جو تاریخ اسلام میں بے مثال ہیں:

پہلی جنگ میں عہد وپیمان توڑنے والے طلحہ وزبیر نے ام المومنین کی شخصیت سے جو کہ رسول اسلام کی شخصیت کی طرح تھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خونین جنگ کھڑی کی مگر شکست کھانی پڑی.

دوسری جنگ میں مد مقابل ابوسفیان کا بیٹا معاویہ تھا جس نے عثمان کے خون کا بدلہ لینے کا بہانہ بنایا اور سرکشی کے ذریعے مرکزی حکومت اور امام منصوص اور مہاجرین و انصار کے ذریعے چنے گئے خلیفہ کی مخالفت کی اور حق وعدالت کے راستے سے منحرف ہوگیا۔

تیسری جنگ میں جنگ کرنے والے امام علیہ السلام کے قدیمی ساتھی تھے جن کی پیشانیوں پر عبادتوں کی کثرت سے سجدوں کے نشان تھے اور ان کی تلاوتوں کی آواز ہر طرف گونج رہی تھی اس گروہ سے جنگ پہلی دوجنگوں سے زیادہ مشکل تھی ،مگر امام علیہ السلام نے کئی مہینہ صبر تحمل ، تقریروں اور بااثر شخصیتوں کے بھیجنے کے بعد بھی جب ان کی اصلاح سے مایوس ہوگئے اور جب وہ لوگ اسلحوں کے ساتھ میدان جنگ میں آئے تو ان کے ساتھ جنگ کی اور خود آپ کی تعبیر کے مطابق '' فتنہ کی آنکھ کو جڑ سے نکال دیا'' امام علیہ السلام کے علاوہ کسی کے اندر اتنی ہمت نہ تھی کہ ان مقدس نما افراد کے ساتھ جنگ کرتا لیکن حضرت علی علیہ السلام کا اسلام کے ساتھ سابقہ اور پیغمبر اسلام (ص) کے زمانے میں جنگ کے میدان میں آپ کی ہجرت اور ایثار اور پوری زندگی میں زہد و تقویٰ اور مناظرہ کے میدان میں علم ودانش سے سرشار اور بہترین منطقی دلیل وغیرہ جیسی صلاحیتوں نے آپ کو وہ قدرت عطا کی تھی کہ جس کے ذریعے آپ نے فساد کو جڑ سے اکھاڑدیا۔

تاریخ اسلام میں یہ تینوں گروہ ناکثین ( عہد وپیمان توڑنے والے ) اور قاسطین ( ظالم و ستمگر اور حق سے دور ہونے والے ) اور مارقین ( گمراہ اور دین سے خارج ہونے والے افراد) کے نام سے مشہور ہیں ۔یہ تینوں نام پیغمبر کے زمانے میں رکھے گئے تھے خود رسول اسلام (ص) نے ان تینوں گروہوں کے اس طرح سے صفات بیان کئے تھے اور علی علیہ السلام اور دوسرے لوگوں سے کہا تھا کہ علی ان تینوں گروہ سے جنگ کریں گے ، پیغمبر اسلام (ص) کا یہ کام خونی جنگ اور غیب کی خبر دیتاہے جسے اسلامی محدثین نے حدیث کی کتابوں میں مختلف مناسبتوں سے یاد کیا ہے نمونہ کے طورپر یہاں ان میں سے ایک کو ذکر کررہے ہیں علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

۶۸۲

'' أمرنی رسول اللّٰه (ص) بقتال الناکثین والقاسطین و المارقین'' (۱)

پیغمبر اسلام (ص) نے مجھے حکم دیا کہ ناکثین ، قاسطین اور مارقین کے ساتھ جنگ کروں۔

ابن کثیر متوفی ۷۷۴ ہجری نے اپنی تاریخ میں اس حدیث کے کچھ حصے کو نقل کیا ہے وہ لکھتاہے کہ پیغمبر اسلام (ص) ام سلمہ کے گھر میں داخل ہوئے اور کچھ دیر بعد علی ـ بھی آگئے پیغمبر (ص)نے اپنی بیوی کی طرف رخ کرکے کہا:

'' یا امَّة َ سلمة هذا واللّٰه قاتلُ النّاکثین والقاسطین والمارقین من بعدی '' (۲) یعنی ،اے ام سلمہ، یہ علی ، ناکثین ، قاسطین اور مارقین سے میرے بعد جنگ کرے گا۔

تاریخ اور حدیث کی کتابوں سے رجوع کرنے پر یہ حدیث صحیح اور محکم ثابت ہوئی ہے اسی وجہ سے یہاں پر مختصر کررہے ہیں اور یاد دلاتے ہیں کہ محقق بزرگوار علامہ امینی نے اپنی کتاب '' الغدیر'' میں اس حدیث کے متعلق بیان کیا ہے اور اس کی سند اور حوالے وغیرہ کو جمع کیا ہے(۳) ۔

مارقین کی تاریخ شاہد ہے کہ یہ لوگ ہمیشہ اپنے زمانے کی حکومتوں سے لڑتے تھے اور کسی کی حکومت کو قبول نہیں کیانہ حاکم کو رسمی طور پر پہچانتے تھے اور نہ حکومت ہی سے کوئی واسطہ رکھتے تھے حاکم عادل اور

حاکم منحرف، مثل علی علیہ السلام اور معاویہ ان کی نظروں میں برابر تھے اور ان لوگوں کا یزید ومروان کے ساتھ رویہ اور عمربن عبد العزیز کے ساتھ رویہ برابر تھا۔

______________________

(۱) تاریخ بغدادی ج۸، ص ۳۴۰

(۲) البدایہ والنھایہ جزئ۷، ج ۴، ص ۳۰۵

(۳) الغدیر ج۳، ص ۱۹۵۔ ۱۸۸، نقد کتاب منہاج السنة

۶۸۳

خوارج کی بنیاد

خوارج کا وجود پیغمبر اسلام (ص) کے زمانے سے مرتبط ہے یہ گروہ پیغمبر کے زمانے میں اپنی فکر اور نظریہ پیش کرتا تھا اور ایسی باتیں کرتا تھا کہ وجدان اسے تسلیم نہیں کرسکتا اور لڑائی جھگڑا ان سے ظاہر ہوتاتھا درج ذیل موارد اسی موضوع سے متعلق ہیں :

پیغمبر اسلام (ص) نے جنگ '' حنین '' سے حاصل ہوئے مال غنیمت کو مصلحت کی بنا پر تقسیم کردیا اور مشرکوں میں سے جو نئے مسلمان ہوئے تھے ان کے دلوں کو اسلام کی طرف کرنے کے لئے جو بہت سالوں سے اسلام سے جنگ کررہے تھے زیادہ مال غنیمت دیا،اس وقت حرقوص بن زہیر نے اعتراض کیااور غیر مہذب طور سے پیغمبر سے کہا، عدالت سے کام لیجیئے۔

اس کی غیر مہذب گفتگو نے پیغمبر اسلام (ص) کو ناراض کردیا اور اس کا جواب دیا ، لعنت ہو تجھ پر اگر عدالت ہمارے پاس نہ ہوگی تو پھر کہاں ہوگی ؟ عمر نے اس وقت درخواست کی کہ اسے قتل کردیں ، لیکن پیغمبر نے اس کی درخواست قبول نہیں کی اور ان کے بھیانک نتیجے کے بارے میں کہا ، اسے چھوڑدو کیونکہ اس کی پیروی کرنے والے ایسے ہوں گے جو دینی امور میں حد سے زیادہ تحقیق وجستجو کرنے والے ہوں گے اور بالکل اسی طرح کہ جس طرح سے تیر کمان سے خارج ہوتا ہے وہ دین سے خارج ہوجائیں گے۔(۱)

بخاری نے اپنی کتاب '' مولفة القلوب''میں اس واقعہ کو تفصیل سے لکھا ہے وہ لکھتے ہیں :

پیغمبر نے اس کے اور اس کے دوستوں کے بارے میں یہ کہا ہے ''یمرقون من الدین ما یمرقُ السَّهمُ من الرّمیَّةِ ''(۲)

پیغمبر نے لفظ '' مرق'' استعمال کیا ہے جس کے معنی پھینکنے کے ہیں کیونکہ یہ گروہ دین کے سمجھنے میں اس قدر ٹیڑھی راہوں پر چلے گئے کہ دین کی حقیقت سے دور ہوگئے اور مسلمانوں کے درمیان

______________________

(۱) سیرہ ابن ہشام ج۲، ص ۴۹۷

(۲) صحیح بخاری

۶۸۴

مارقین '' کے نام سے مشہور ہوگئے۔(۱)

اعتراض کرنے والاحرقوص کے لئے سزاوار یہ تھا کہ شیخین کی خلافت کے زمانے میں خاموشی کو ختم کردیتا اور ان دونوں خلیفہ کے چنے جانے اور ان کی سیرت پر اعتراض کرتا، لیکن تاریخ نے اس سلسلے میں اس کا کوئی رد عمل نقل نہیں کیا ہے ،صرف ابن اثیر نے '' کامل '' میں تحریر کیاہے کہ اہواز کی فتح کے بعد حرقوص خلیفہ کی طرف سے اسلامی فوج کا سردار معین تھا اور عمر نے اہواز اورورق کے بعد جو اسے خط لکھا اس کی عبارت بھی ذکر کی ہے(۲) طبری نقل کرتے ہیں کہ ۳۵ ہجری میں حرقوص بصریوں پر حملہ کرکے ، عثمان کی حکومت میں مدینہ آگیا اور مصر اور کوفہ کے لوگوں کے ساتھ خلیفہ کے خلاف سازشیں کرنے لگا۔(۳)

اس کے بعد سے تاریخ میں اس کے نام ونشان کا پتہ نہیں ملتا اور اس وقت جب حضرت علی ـ نے چاہا کہ ابوموسیٰ کو فیصلہ کرنے کے لئے بھیجیں ،تو اس وقت اچانک حرقوص زرعہ بن نوح طائی کے ساتھ امام کے پاس آیا اور دونوں کے درمیان سخت بحث ومباحثہ ہوا جسے ہم ذکر کررہے ہیں ۔قوص:وہ غلطیاں جو تم نے انجام دی ہیں اس کے لئے توبہ کرو اور حکمین کو قبول نہ کرو اور ہمیں دشمن سے جنگ کرنے کے لئے میدان میں روانہ کرو تاکہ ان کے ساتھ جنگ کریں اور شہید ہوجائیں ۔

امام علیہ السلام: جب حکمین کا مسئلہ طے ہورہا تھا اس وقت میں نے اس کے بارے میں تم کو بتایا تھا لیکن تم نے میری مخالفت کی اور اب جب کہ ہم نے عہد وپیمان کرلیا ہے تو مجھ سے واپس جانے کی درخواست کررہے ہو؟ خداوند عالم فرماتاہے( وَأوفو بعهد اللّٰه اذاعا هدتم ولا تنقضوا الایمان بعد توکیدها وقد جعلتم الله علیکم کفیلاً انّ اللّٰه یعلم ماتفعلون ) (نحل ۹۱) یعنی خدا کے عہدوپیمان ، جب تم نے وعدہ کرلیا ہے تو اس کو وفا کرو اور جو تم نے قسمیں کھائی ہیں ان کو نہ توڑو،جب کہ تم نے اپنی قسموں پر خدا کو ضامن قراردیا ہے اور جوکچھ بھی تم کرتے ہو خدا اس سے باخبرہے۔

______________________

(۱) التنبیہ والرد۔ ملطی ص ۵۰

(۲) کامل ج۲، ص ۵۴۵۔ مطبوعہ دارصادر

(۳)تاریخ طبری ج۳، ص ۳۸۶ مطبوعہ الاعلمی

۶۸۵

حرقوص: یہ ایسا گناہ ہے کہ ضروری ہے کہ اس سے توبہ کرو۔

امام علیہ السلام : یہ گناہ نہیں ہے بلکہ فکروعمل میں ایک قسم کی سستی ہے کہ تم لوگوں کی وجہ سے مجھ پر آپڑی ہے اور میں نے اسی وقت تم کو اس کی طرف متوجہ کیا تھا اور اس سے روکا تھا۔

زرعہ بن نوح طائی : اگر حکمیت سے باز نہیں آئے تو خد ااور اس کی مرضی حاصل کرنے کیلئے تم سے جنگ کریں گے!

علی علیہ السلام : بے چارہ بدبخت، تمہارے مردہ جسم کو میدان جنگ میں دیکھ رہا ہوں گا کہ ہوا اس پر مٹی ڈال رہی ہے،

زرعہ : میں چاہتا ہوں کہ ایسا ہی ہو۔

علی علیہ السلام :شیطان نے تم دونوں کو گمراہ کردیا ہے ۔

پیغمبر اسلام (ص) اور امیر المومنین علیہ السلام سے حرقوص کی غیر مہذب اور احمقانہ باتیں اس کے برخلاف ہیں کہ اسے ایک معمولی مسلمان سمجھیں ، جب کہ وہ مفسرین اسلامی(۱) کی نظر میں منافقوں میں سے ہے اور یہ آیت اس کی شان میں نازل ہوئی ہے :

( ومنهم من لم یلمزْکَ فی الصّدقاتِ فان أعطوامنهارضواوان لم یعطوا منهااذاهم یسخطون ) ( توبہ ۵۸)، منافقون میں سے بعض غنیمت تقسیم کرنے کے بارے میں تم پر اعتراض کرتے ہیں اگر ان کو کچھ حصہ دیدیا جائے تو وہ راضی ہوجائیں گے اور اگر محروم ہوجائیں تو اچانک غصہ ہوجائیں گے۔

______________________

(۱)مجمع البیان ج۳، ص ۴۰

۶۸۶

خوارج کی دوسری اہم فرد

خوارج کی ایک ذوالثدیہ کی ہے اور رجال کی کتابوں میں اس کا نام '' نافع'' ذکر ہوا ہے اکثر محدثین کا خیال یہ ہے کہ حرقوص جو ذوالخویصرہ کے نام سے مشہور ہے وہی ذوالثدیہ ہے لیکن شہرستانی نے اپنی کتاب ملل ونحل میں اس کے برخلاف نظریہ پیش کیا ہے وہ کہتے ہیںاَوَّلُهم ذوالخویصره وآخرُهم ذوالثدیه (۱) جب کے پیغمبر پر دونوں کے اعتراض کا طریقہ ایک ہی تھا اور دونوں نے مال غنیمت بانٹنے پر پیغمبر سے کہا تھا '' عدالت کرو'' اور آپ نے دونوں کو ایک جواب دیا تھا(۲) غالباً تصور یہ ہے کہ یہ دونام ایک ہی شخص کے ہیں لیکن تاریخ میں ذوالثدیہ کی جو صفت بیان کی گئی ہے اور جو پیغمبر کی زبان پر آیا ہے ہرگز اس طرح ذوالخویصرہ کے بارے میں وارد نہیں ہو اہے ۔

ابن کثیر جس نے مارقین سے متعلق تمام آیتوں اور روایتوں کو جمع کیا ہے اس کے بارے میں کہتاہے ،پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:

کچھ گروہ دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح تیر کمان سے نکلتا ہے اور دوبارہ واپس نہیں آتے اور اس گروہ کی نشانی یہ ہے کہ ان لوگوں کے درمیان کالے رنگ کے آدمی جس کے ہاتھ ناقص ہوں گے اس کے آخر میں گوشت کا ٹکڑا عورت کے پستان کی طرح اور جاذب ہوگا پرکشش(۳) ۔امام ـ نے جنگ نہروان سے فارغ ہونے کے بعد حکم دیا کہ ذوالثدیہ کی لاش کو قتل ہوئے لوگوں میں تلاش کریں اور اس کے کٹے ہوئے ہاتھ کے بارے میں تحقیق کریں جس وقت اس کی لاش لے کر آئے تو اس کا ہاتھ اسی طرح تھا جیسا کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا تھا۔

______________________

(۱) الملل والنحل ج۱، ص ۱۱۶ ۔ لیکن اس نے اسی کتاب کے ص ۱۱۵ پر دونوں کو ایک شمار کیا ہے اور کہتاہے کہ حرقوص بن زہیر مشہور ''به بذی الثدیه ''

(۲) کامل مبرد ج۳، ص ۹۱۹مطبوعہ حلبی ۔

(۳) سیرت ابن ہشام ج۲، ص ۴۹۶

۶۸۷

خوارج کے درمیان مختلف اعتقادی فرقے

خوارج نے سب سے پہلے حکمیت کے مسئلہ پر امام علیہ السلام کی مخالفت کی اور اسے قرآن مجید کے خلاف شمار کیا اس سلسلے میں کوئی دوسری علت نہ تھی لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہی واقعہ ایک عقیدتی مذہب کی صورت میں ابھر کر سامنے آگیا اور اس کے اندر مختلف شعبے اور فرقے وجود میں آگئے اور ''محکّمہ'' کے علاوہ بہت سے دوسرے فرقے وجود میں آگئے مثلاً ، ازارقہ ، نجدات ، بیہسیہ ، عجاردہ، ثعالبہ ، اباضیّہ اور صفریّہ .یہ تمام گروہ زمانے کے ساتھ ختم ہوگئے لیکن صرف فرقہ اباضیّہ ( عبداللہ بن اباض کا پیرو جس نے

مروانیوں کی حکومت کے آخر میں خروج کیا)باقی بچا ہے جو خوارج کے معتدل لوگوں میں شمار ہوتا ہے اور عمّان ، خلیج فارس اور مغرب مثلاً الجزایر وغیرہ میں منتشر ہوہے ۔

خوارج کی تاریخ، جنگ نہروان کے علاوہ بھی تمام اسلامی مؤرخین کے نزدیک قابل توجہ رہی ہے اور اس سلسلے میں طبری نے اپنی ''تاریخ ''میں مبرد نے '' کامل ''میں اور بلاذری نے '' انساب'' میں اور. . خوارج کے سلسلے میں تمام واقعات کو نقل کیاہے اور ان واقعات نقلی تاریخ کی صورت میں ذکر کیاہے۔ آخری زمانے کے مورخین نے چاہے وہ اسلامی ہوں یا غیر اسلامی ، اس سلسلے میں متعدد تنقیدی و تجزیاتی کتابیں لکھی ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں:

۱۔ تلخیص تاریخ الخوارج : مؤلف محمد شریف سلیم ، ۱۳۴۲ ہجری ، قاہرہ سے شائع ہوئی ۔

۲۔ الخوارج فی الاسلام : مؤلف عمر ابو النصر ، ۱۹۴۹ عیسوی ، بیروت سے شائع ہوئی ۔

۳۔وقعۂ النہروان : مؤلف خطیب ہاشمی ، ۱۳۷۲ ہجری ، تہران سے شائع ہوئی ۔

۴۔ الخوارج فی العصر الاموی : مؤلف ڈاکٹر نایف محمود جو دو مرتبہ بیروت سے شائع ہوئی ۔دوسری مرتبہ کی تاریخ ۱۴۰۱ ہجری ہے ۔

مستشرقین میں سے بھی کچھ لوگوں نے اس موضوع کی طرف توجہ دی ہے اور مختصر کتابیں تحریر کی ہیں .مثلاً:

۶۸۸

۵۔ الخوارج والشیعہ :جرمنی مؤلف فلوزن نے ۱۹۰۲ء میں جرمنی زبان میں لکھا ہے عبدالرحمٰن بدوی نے اس کا عربی میں ترجمہ کیا ہے ۔

۶۔ ادب الخوارج: یہ زہیر قلماوی کے ۱۹۳۰ ء سے ۱۹۴۰ئ ایم اے کی تحقیق (تھیسیس) تک ہے قلماوی نے اس تحقیق میں خوارج کے بہت سے شاعروں کا تذکرہ کیا ہے مثلاً عمران بن حطان یہ کتاب ۱۹۴۰ ء میں شائع ہوئی ہے ۔

میں نے( اس کتاب کے مؤلف نے) خوارج کے واقعات کی تحقیق و تنقید میں اسلام کی اصل کتابوں سے رجوع کیاہے اور ایک خاص طریقے سے جیسا کہ اسلامی تاریخ میں تحقیق و تنقید کا رواج ہے موضوعات کو تحریر کیا ہے خود کو ان کتابوں کی طرف رجوع کرنے سے بے نیاز نہیں سمجھتا.

خوارج کا بدترین مظاہرہ

لفظ خوارج بہت زیادہ استعمال ہونے والے لفظوں میں سے ہے اور علم تاریخ اور علم کلام کی بحثوں میں بہت زیادہ استعمال ہوا ہے اور عربی لغت میں یہ لفظ حکومت پر شورش وحملہ کرنے والوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اور خوارج ایسے گروہ کو کہتے ہیں جو حکومت وقت پر کے خلاف ھنگامہ کھڑا کرے اور اسے قانونی نہ جانے ، لیکن علم کلام اور تاریخ کے علماء کی اصطلاح میں امام علیہ السلام کے سپاہیوں میں سے نکلے ہوئے گروہ کو کہتے ہیں جنہوں نے ابوموسیٰ اشعری اور عمرو عاص کی حکمیت کو قبول کرنے کی وجہ سے اپنے کو امام علیہ السلام سے جدا کرلیا اور اس جملے سے اپنا نعرہ قرار دیا ''ان الحکم الا للّٰه ''اوریہ نعرہ ان کے درمیان باقی رہا اور اسی نعرہ کی وجہ سے علم ملل ونحل میں انہیں '' محکمہ '' کے نام سے یاد کیا گیاہے۔

امام علیہ السلام نے حکمیت قبول کرنے کے بعد مصلحت سمجھی کہ میدان صفین کو چھوڑدیں اور کوفہ واپس چلے جائیں اور ابوموسیٰ اور عمروعاص کے فیصلے کا انتظار کریں ، حضرت جس وقت کوفہ پہونچے تو اپنی فوج کے کئی باغی گروہ سے روبرو ہوئے ، آپ اور آپ کے جانبازوں نے مشاہدہ کیا کہ بہت سے سپاہیوں نے جن کی تعداد بارہ ہزار لوگوں پر مشتمل تھی کوفہ میں آنے سے پرہیز کیا اور حکمیت کے قبول کرنے کی وجہ سے بعنوان اعتراض کوفہ میں آنے کے بجائے '' حرورائ'' نامی دیہات کی طرف چلے گئے اور ان میں سے بعض لوگوں نے'' نخیلہ '' کی چھاؤنی میں پڑاؤ ڈالا۔

۶۸۹

حکمیت ، جسے خوارج نے عثمان کا پیراہن بنا کر امام علیہ السلام کے سامنے لٹکایا تھا ، وہی موضوع تھا کہ ان لوگوں نے خود اس دن ، جس دن قرآن کو نیزہ پر بلند کیا گیا تھا ، امام علیہ السلام پر اسے قبول کرنے کے لئے بہت زیادہ دباؤ ڈالا تھا یہاں تک کہ قبول نہ کرنے کی صورت میں آپ کو قتل کرنے کی دھمکی دی تھی لیکن پھر کچھ دنوں کے بعد اپنی شیطانی فکروں اور اعتراضی مزاج کی وجہ سے اپنے عقیدے سے پلٹ گئے اور اسے گناہ اور خلاف شرع بلکہ شرک اور دین سے خارج جانا اور خود توبہ کیا اور امام علیہ السلام سے کہا کہ وہ بھی اپنے گناہ کا اقرار کرکے توبہ کریں اور حکمیت کے نتیجے کے اعلان سے پہلے فوج کو تیار کریں اور معاویہ کے ساتھ جنگ کو جاری رکھیں ۔

لیکن علی علیہ السلام ایسے نہ تھے کہ جو گناہ انجام دیتے اور غیر شرعی چیزوں کو قبول کرتے اور جو عہد وپیمان باندھا ہے اسے نظر انداز کردیتے امام علیہ السلام نے اس گروہ پر کوئی توجہ نہیں دی اور کوفہ پہونچنے کے بعد پھر اپنی زندگی بسر کرنے لگے ، لیکن شرپسند خوارج نے اپنے برے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے مختلف کام کیے جن میں بعض یہ ہیں :

۱۔ امام علیہ السلام سے خصوصی ملاقاتیں کرنا تاکہ انہیں عہد وپیمان توڑنے پر آمادہ کریں ۔

۲ ۔ نمازجماعت میں حاضر نہ ہونا۔

۳۔ مسجد میں علی علیہ السلام کے خلاف اشتعال انگیز نعرے لگانا۔

۴۔ علی علیہ السلام اور جو لوگ صفین کے عہد وپیمان کو مانتے تھے انہیں کافر کہنا۔

۵۔ عظیم شخصیتوں کو قتل کرکے عراق میں بد امنی پیدا کرنا۔

۶۔ امام علیہ السلام کی حکومت کے مقابلے میں مسلّحانہ قیام۔

اس کے مقابلے میں امام علیہ السلام نے جو کام خوارج کے فتنے کو ختم کرنے کے لئے انجام دیا ان امور کو بطور خلاصہ پیش کررہے ہیں :

۱۔صفین میں حکمیت کے مسئلہ پر اپنے مؤقف کو واضح کرنا اور یہ بتانا کہ آپ نے ابتداء سے ہی اس چیز کی مخالفت کی اوراس پر دستخط کرانے کے لئے زوروزبردستی اور دباؤ سے کام لیا گیا ہے۔

۲۔ خوارج کے تمام سوالوں اور اعتراضوں کا جواب اپنی گفتگو اور تقریروں میں بڑی متانت و خوش اسلوبی سے دینا۔

۶۹۰

۳۔اچھی شخصیتوں کو مثلاً ابن عباس کو ان لوگوں کے ذہنوں کی اصلاح اور ہدایت کے لئے بھیجنا۔

۴۔ تمام خوارج کو خوشخبری دینا کہ خاموشی اختیار کریں اگرچہ ان کی فکر ونظر تبدیل نہ ہوںتو دوسرے مسلمانوں اور ان میں کوئی فرق نہیں ہوگا اور اسی وجہ سے بیت المال سے ان کا حصہ دیا گیا اور ان کے وظیفوں کو ختم نہیں کیا۔

۵۔ مجرم خوارج جنہوں نے خباب اور ان کی حاملہ بیوی کو قتل کیا تھا ، ان کا تعاقب کرنا۔

۶۔ ان کے مسلّحانہ قیام کا مقابلہ کرکے فتنہ وفساد کو جڑ سے ختم کرنا۔

یہ تمام عنوان اس حصے میں ہماری بحث کا موضوع ہیں اور خوش بختی یہ ہے کہ تاریخ نے ان تمام واقعوںکے وقوع کے وقت کو دقیق طور پر نقل کیا ہے اور ہم تمام واقعات کو طبیعی محاسبہ کے اعتبار سے بیان کریں گے۔

۱۔ خصوصی ملاقاتیں

ایک دن خوارج کے دو سردار زرعہ طائی اور حرقوص امام علیہ السلام کی خدمت میں پہونچے اور بہت سخت تکرارو گفتگو جسے ہم نقل کررہے ہیں ۔

زرعہ وحرقوص:''لا حُکْمَ اِلاّٰ لِلّٰهِ''

امام علیہ السلام :میں بھی کہتا ہوں :''لا حُکْمَ اِلاّٰ لِلّٰهِ''

حرقوص: اپنی غلطی کی توبہ کرو اور حکمیت کے مسئلے سے بازآجاؤ اور ہم لوگوں کو معاویہ کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے روانہ کرو، تاکہ اس کے ساتھ جنگ کریں اور خدا کی بارگاہ میں شہادت پاجائیں ۔

۶۹۱

امام علیہ السلام : میں نے یہی کام کرنا چاہا تھا لیکن تم لوگوں نے صفین میں مجھ سے زورو زبردستی کی اور حکمیت کے مسئلہ کو مجھ پر تحمیل کردیا اور اس وقت ہمارے اور ان کے درمیان عہدوپیمان ہوا ہے اور ہم نے اس پر دستخط بھی کئے ہیں اور کچھ شرائط کو قبول کیا ہے اور ان لوگوں کو وعدہ دیا ہے اور خدا وند عالم فرماتاہے :

( وَاوْفُوا بِعَهْدِ اﷲِ ِذَا عَاهَدْتُمْ وَلاَتَنقُضُوا الْایْمَانَ بَعْدَ تَوْکِیدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمْ اﷲَ عَلَیْکُمْ کَفِیلاً انَّ اﷲَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ ) (نحل ۹۱)

اور جب کوئی عہد کرو تو اللہ کے عہد کو پورا کرو اور اپنی قسموں کو ان کے استحکام کے بعد ہر گز نہ توڑو جب کہ تم اللہ کو کفیل اور نگراں بنا چکے ہو کہ یقینا اللہ تمہارے افعال کو خوب جانتا ہے ۔

حرقوص: یہ کام گناہ ہے اور ضروری ہے کہ آپ توبہ کریں ۔

امام علیہ السلام : یہ کام گناہ نہیں ہے بلکہ میںتم کمزور فکر و رائے تھے ( جس کا باعث خود تم لوگ تھے) اور میں نے تم لوگوں کو اس سلسلے میں پہلے ہی بتایا تھا اور اس کے انجام سے منع کیاتھا ۔

زرعہ : خدا کی قسم اگر مردوں کی حاکمیت کو خدا کی کتاب(۱) میں (قرآن کے مطابق )ترک نہیں کیا تو خدا کی مرضی کے لئے ہم تم سے جنگ کریں گے۔

______________________

(۱) تاریخ طبری میں عبارت '' کتاب اللہ '' ہے لیکن ظاہراً دین اللہ صحیح ہے۔

۶۹۲

امام علیہ السلام(غیظ وغضب کے عالم میں ): اے بدبخت تو کتنا برا آدمی ہے بہت ہی جلد تجھے ہلاک شدہ دیکھوں گااور ہوائیں تیرے لاشے پر چل رہی ہوں گی۔

زرعہ : میری آرزو ہے کہ ایسا ہی ہو۔

امام علیہ السلام : شیطان نے تم دونوں کی عقل چھین لیا ہے خدا کے عذاب سے ڈرو، اس دنیامیں جس چیز کے لئے جنگ کرنا چاہتے ہو اس میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔

اس وقت دونوںلَا حُکْمَ الِّٰا للّٰهِ کا نعرہ لگاتے ہوئے امام کے پاس سے اٹھ کرچلے گئے(۱) ۔

۲۔ حکومت کی مخالفت میں نمازجماعت سے دوری

جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا ایک مستحب عمل ہے اور اس کی مخالفت گناہ نہیں ہے لیکن اسلام کے آغاز میں دوسرے حالات تھے اور جماعت میں مسلسل شرکت نہ کرنے کی صورت میں لوگ یہ سمجھتے تھے کہ یہ حکومت وقت پر معترض اور منافق ہے ، اسی وجہ سے اسلامی روایتوں میں نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کی بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے کہ فی الحال یہاں پر بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے(۲) ۔

خوارج نے مسجد میں حاضری نہ دے کر اور نماز جماعت میں شریک نہ ہوکراپنی مخالفت کو ظاہر کردیا بلکہ جب نماز جماعت ہوتی تھی تو اشتعال انگیز نعرے لگاتے تھے۔

ایک دن امام علیہ السلام نماز پڑھ رہے تھے کہ خوارج کے ایک سردار '' ابن کوّائ'' نے اعتراض کے طور پر یہ آیت پڑھی :( ولقد أوحِیَ الیک والی الّذین من قبلک لئن اشرکت لیحبطَنَّ عملک ولتکوننَّ من الخاسرین ) (سورہ زمر ۶۵)

اور (اے رسول )تمہاری طرف اور ان (پیغمبروں ) کی طرف جو تم سے پہلے ہوچکے ہیں یقینا یہ وحی بھیجی جاچکی ہے کہ اگر ( کہیں ) شرک کیا تو یقینا تمہارے سارے اعمال برباد ہوجائیں گے اور تم ضرور گھاٹے میں ہوگے.

______________________

(۱) تاریخ طبری: ج۴ ص۵۳

(۲) رجوع کیجئے ، وسائل الشیعہ: ج۵، باب نماز جماعت ، باب ۱ ،ص۳۷۰.

۶۹۳

امام علیہ السلام نے پوری سنجیدگی اور قرآن کے حکم کے مطابق( وَاذَاقُرِیَ القرآنُ فَاستَمِعُو اله وأنصِتُوا لعلّکم تُرحَمون ) (۱) (سورہ اعراف ،۲۰۴) ، خاموش رہے تاکہ ابن کوّاء آیت کو تمام کردے ، پھر آپ نے نماز پڑھی لیکن اس نے پھر آیت پڑھی اور امام پھر خاموش رہے، ابن کوّاء نے کئی مرتبہ یہی کام کیا اور امام علیہ السلام صبروضبط کے ساتھ خاموش رہے ، بالآخر امام علیہ السلام نے درج ذیل آیت کی تلاوت فرماکر اس کا جواب اس طرح دیا کہ نماز پر بھی کوئی اثرنہ پڑا اور اسے خاموش و سرکوب کردیا، آیت یہ ہے:( فَا صبِر اِنَّ وَعَد اللّٰه حقّ ولا یَستَخِفَّنَّکَ الّذین لایُومنون ) (روم، ۶۰)، ( اے رسول )تم صبر کرو بے شک خدا کا وعدہ سچا ہے اور (کہیں ) ایسا نہ ہوکہ جو لوگ ایمان نہیں رکھتے تمہیں ہلکا بنادیں۔(۲)

ابن کوّاء نے اس آیت کی تلاوت کرکے بڑی بے حیائی و بے شرمی سے پیغمبر اسلام کے بعد سب سے پہلے مومن کومشرک قرار دیا تھاکیونکہ غیر خدا کو حکمیت کے مسئلہ میں شریک قراردیا تھا .ہم بعد میں الہی حاکمیت کے بارے میں تفصیل سے بحث کریں گے۔

______________________

(۱)ترجمہ:(لوگوں)جب قرآن پڑھا جائے تو غورسے سنو اور خاموش رہو تاکہ ( اسی بہانے) تم پر رحم کیا جائے۔

(۲) تاریخ طبری: ج۴، ص۵۴۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج۲، ص ۲۲۹۔

۶۹۴

۳۔ لاحکمَ الا للّٰہ کا نعرہ لگانا

خوارج اپنی موجودگی کا اعلان اور امام علیہ السلام کی حکومت سے مخالفت ظاہر کرنے کے لئے مسلسل مسجد اور غیر مسجد میں لاحکم الا للّٰہ کا نعرہ لگاتے تھے اور یہ نعرہ قرآن سے لیا تھا اور یہ درج ذیل جگہوں پر استعمال ہوا ہے :

۱۔( انْ الْحُکْمُ ِلاَّ لِلَّهِ یَقُصُّ الْحَقَّ وَهُوَ خَیْرُ الْفَاصِلِینَ ) (سورہ انعام :۵۷)

حکم خدا سے مخصوص ہے اور وہ حق کا حکم دیتا ہے اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

۲۔( الاَلَهُ الْحُکْمُ وَهُوَ َاسْرَعُ الْحَاسِبِینَ ) (سورہ انعام :۶۲)

آگاہ ہوجاؤ کہ حکم صرف اسی کے لئے ہے اور وہ بہت جلد حساب کرنے والا ہے۔

۳۔( اِن الْحُکْمُ الا للّٰه اَمَرَ ألَّا تَعْبُدُوا اِلَّا ایّٰاهُ ) (سورہ یوسف: ۴۰)

حکم صرف خدا سے مخصو ص ہے اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو۔

۴۔( انْ الْحُکْمُ ِلاَّ لِلَّهِ عَلَیْهِ تَوَکَّلْتُ وَعَلَیْهِ فَلْیَتَوَکَّلْ الْمُتَوَکِّلُونَ ) سورہ یوسف:۶۸)

حکم خدا سے مخصوص ہے اسی پر بھروسہ کرو اور بھروسہ کرنے والے بھی اسی پر بھروسہ کئے ہیں ۔

۵۔( لَهُ الْحَمْدُ فِی الْاولَی وَالْآخِرَةِ وَلَهُ الْحُکْمُ وَالَیْهِ تُرْجَعُونَ ) (سورہ قصص: ۷۰)

دنیا وآخرت میں تعریف اسی سے مخصوص ہے اور حکم بھی اسی کا ہے اور اسی کی بارگاہ میں واپس جاناہے۔

۶۔( انْ یُشْرَکْ بِهِ تُؤْمِنُوا فَالْحُکْمُ لِلَّهِ الْعَلِیِّ الْکَبِیر ) (سورہ غافر :۱۲)

اگر اس کے لئے شریک قرار دیا تو تم فورا مان لیتے ہو تو اب حکم بھی اسی بزرگ واعلیٰ خدا سے مخصوص ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان تمام آیتوں میں '' حکم '' خدا سے مخصوص ہے اور حکم کو خدا کے علاوہ کسی دوسرے سے منسوب کرنا شرک ہے لیکن دوسری آیت میں بیان ہوا ہے کہ بنی اسرائیل کو کتاب ، حکم اور نبوت دیا ہے:( وَلَقَدْ آتَیْنَا بَنِی ِسْرَائِیلَ الْکِتَابَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّةَ ) (سورہ جاثیہ: ۱۶)

ایک دوسری جگہ خدا وند عالم نے پیغمبر (ص) کو حکم دیا کہ حق کا حکم کریں۔

۶۹۵

( فَاحْکُمْ بَیْنَهُمْ بِمَا َنزَلَ اﷲُ وَلاَتَتَّبِعْ اهْوَائَهُمْ ) (سورہ مائدہ: ۴۸)

آپ ان لوگوں کے درمیان تنزیل خدا کے مطابق فیصلہ کریں اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔

ایک جگہ پر حضرت داؤد کو حکم دیا کہ لوگوں کے درمیان کے ساتھ فیصلہ کریں ۔

( فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلاَتَتَّبِعْ الْهَوَی ) (سورہ ص: ۲۶)

کتنے رنج وافسوس کی بات ہے کہ امام علیہ السلام ایسے مٹھی بھر جاہل اور نادان گروہ سے دوچارہوئے جو ظاہر آیات کو اپنی دستاویز قرار دیتے تھے اور معاشرے کو گمراہ اور برباد کرتے تھے۔

گروہ خوارج قرآن کا حافظ وقاری تھالیکن پیغمبر کے فرمان کے مطابق ، قرآن ان کے حلق اور سینہ سے نیچے نہیں اترا تھا ، اور ان کی فکر اور سمجھ سے بہت دور تھا۔

وہ سب اس فکر میں نہ تھے کہ امام علیہ السلام اور قرآن کے واقعی مفسر یا ان کے تربیت یافتہ حضرات کی خدمت میں پہونچیں ، تاکہ ان لوگوں کو قرآن کی آیتوں کے معانی و مفاہیم کے مطابق ان کی رہبری کریں اور ان لوگوں کو سمجھائیں کہ حکم کس معنی میں خدا سے مخصوص ہے کیونکہ جیسا گذر چکا ہے ، حکم کے کئی معنی ہیں یا اصطلاحاً یہ کہیں کہ اس کے بہت سے ایسے موارد ہیں بطور خلاصہ ہم تحریر کررہے ہیں :

۱۔عالم خلقت کی تدبیر اور خدا کے ارادے کا نفوذ،( یوسف: ۶۰)

۲۔ قانون سازی اور تشریع ( انعام: ۵۷)

۳۔ لوگوں پر حکومت اور تسلط ایک اصل حق کے طور پر ( یوسف :۴۰)

۴۔ الٰہی اصول وقوانین کے اعتبار سے لوگوںکے درمیان ہوئے اختلاف کا فیصلہ وانصاف (مائدہ:۴۹ )

۵۔ لوگوں کی سرپرستی،رہبری اور پیشوائی، الٰہی امانت دارکے عنوان سے ( جاثیہ ۱۶)

۶۹۶

اب جبکہ ہمیں معلوم ہوا کہ حکم کے بہت سے مفاہیم ہیں یا بہ عبارت صحیح، مختلف مواردمقامات ہیں تو کس طرح ممکن ہے کہ ایک آیت کے ظاہری معنی پر عمل کیا جائے اور صفین میں حکمین کا کی طرف رجوع کرنے اس کے مخالف قرار دیا جائے ؟

اب اس وقت یہ دیکھنا ہے کہ کون سا حکم خدا سے مخصوص ہے پھر امام علیہ السلام کے عمل کی تحقیق ہو اور اس کی موافقت یا مخالفت کو دیکھا جائے اور یہ ایسا کام ہے جس میں صبر ، ضبط ، تدبیر اور فکر کا ہونا ضروری ہے اور یہ کبھی بھی نعروں اور شوروغوغا سے حل نہیں ہوسکتا۔

امام علیہ السلام نے اپنے مخصوص صبروضبط کے ساتھ اپنے بعض احتجاجات میں ان لوگوں کو آیتوں کے مقصد اورمفہوم سے روشناس کرایا ، اسی وجہ سے ان لوگوں کو تسلیم ہونا پڑا لیکن ضد ، ہٹ دھرمی اور دشمنی کا کوئی علاج نہیں ہے اور تمام انبیاء اور مصلحین اس کے علاج سے عاجز وناتواں رہے ہیں ۔

ہم گذشتہ آیتوں کے معانی و مفاہیم تحقیق کرنے سے پہلے خوارج کی بعض اشتعال انگیز اور تندسخت مقابلوں کو یہاں نقل کررہے ہیں تاکہ اس گروہ کی سرکشی اور ہٹ دھرمی بخوبی واضح ہوجائے۔

امام ـکی بلند ہمتی اور خوش اخلاقی

ہرصاحب قدرت ایسے بے ادب اور بے غیرت جسورلوگوں کو جو ملک کے حاکم کو کافر اور مشرک کہتے تھے، ضرور سزا دیتا لیکن امام علیہ السلام نے تمام حاکموں کے طریقے کے برخلاف بڑی ہی بلند ہمتی اور کشادہ دلی کے ساتھ ان سب کے ساتھ روبرو ہوئے۔

ایک دن امام علیہ السلام خطبہ دے رہے تھے اور لوگوں کو موعظہ ونصیحت کرنے میں مصروف تھے کہ اچانک خوارج میں سے ایک شخص مسجد کے گوشہ سے اٹھا اور بلند آواز سے کہا :لَاحُکْمَ اِلّٰا لِلّٰهِ جب وہ نعرہ لگا چکا تو دوسرا شخص اٹھا اوروہی نعرہ لگایا اس کے بعد ایک گروہ اٹھا اور وہی نعرہ لگا نا شرو ع کردیا۔

۶۹۷

امام علیہ السلام نے ان کے جواب میں فرمایا : ان لوگوں کا کلام ظاہر میںتو حق ہے لیکن وہ لوگ باطل کو مراد لے رہے ہیں پھر فرمایا ''أما انَّ لکم عندنا ثلاثاً فَا صبَحتمو نا ''یعنی جب تک تم لوگ ہمارے ساتھ ہو تین حق سے بہرہ مند رہو گے ( اور تمہاری جسارتیں اور بے ادبیاں اس سے مانع نہیں ہوں گی کہ ہم تمہیں ان حقوق سے محروم کردیں۔)

۱۔''لٰا نَمْنَعُکُمُ مَسٰاجِدَ اللّٰهِ أنْ تَذْکُروْا فِیْهٰا اِ سْمَهُ '' تم کو مسجد میں داخل ہونے سے محروم نہیں کریں گے تاکہ تم وہاں نماز پڑھو۔

۲۔''لٰا نَمْنَعُکُمْ مِنَ الْفَئِی مَادَامَتْ اَیْدِیْکُمْ مَعَ أَیْدِیْنٰا ''تم کو بیت المال سے محروم نہیں کریں گے جب تک کہ تم ہماری مصاحبت میں ہو ( اور دشمن سے نہیں ملے ہو)۔

۳۔''لا نُقٰاتِلُکُم حَتّٰی تَبْدَ ؤُوْنا '' جب تک تم جنگ نہیں کرو گے ہم بھی تمہارے ساتھ جنگ نہیں کریں گے(۱) ۔

ایک دوسرے دن بھی جب امام علیہ السلام مسجد میں تقریر فرمارہے تھے کہ خوارج میں سے ایک شخص نے نعرہ لگایا اور لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف کرلیا۔

امام علیہ السلام نے فرمایا:''اَللّهُ اَکْبَرُ، کَلِمةُ حَقًّ یُرادُ بِها الْبَاطِلِ '' یعنی بات تو حق ہے لیکن اس سے باطل معنی مراد لیا جا رہا ہے ۔پھر فرمایا:اگر یہ لوگ خاموش رہیں تو دوسروں کی طرح ان سے بھی پیش

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۴، ص۵۳۔

۶۹۸

آؤں گا اور اگر بات کریں تو جواب دوں گا اور اگر فتنہ وفساد برپا کریں گے تو ان سے جنگ کروں گا ۔ اس وقت خوارج میں سے ایک دوسرا شخص یزید بن عاصم محاربی اٹھا اور خدا کی حمدوثناء کے بعد کہا : خدا کے دین میں ذلت قبول کرنے سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں ، خدا کے کام میں یہ ایک ایسا دھوکہ اور ذلت ہے کہ اس کا انجام دینے والا خدا کے غضب کا شکار ہوتا ہے ، علی مجھے قتل سے ڈراتے ہو؟امام علیہ السلام نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا (اس لئے کہ جواب جاہلان باشد خموشی)اور آئندہ کے حادثوں کا انتظار کرنے لگے ۔(۱)

امام ـ کی ہدایت

امام علیہ السلام کی فوج کا ایک حصہ جو آپ کا مستحکم بازو شمارہوتا تھا اس کے فتنہ وفساد نے امام کے لئے مشکلات کھڑی کردیں اور یہ فتنہ دوبار اٹھا ایک مرتبہ صفین میں ، فتنہ وفساد کرنے والوں کی وہاں مانگ یہ تھی کہ جنگ روک دیں اور حکمین کے فیصلے کو قبول کریں ورنہ آپ کو قتل کردیں گے۔ دوسری مرتبہ یہ فتنہ اس وقت اٹھا کہ جب عہد وپیمان ہوگیا اور حکمیت کو اسی گروہ کی وجہ سے مان لیاجو کہ اس مرتبہ پہلے مطالبہ سے بالکل برعکس مطالبہ کر رہے تھے اور عہد وپیمان کو توڑنے اور اسے نظر انداز کرنے کے خواہاں تھے۔ان کی پہلی خواہش نے اگرچہ امام علیہ السلام کی جیت اورفتح کو ختم کر دیالیکن صلح کرنا ایسے حالات میں کہ امام علیہ السلام کے سادہ لوح سپاہی نہ صرف جنگ کرنے کے لئے حاضر نہ تھے بلکہ یہاںتک آمادہ تھے کہ حضرت کو قتل کردیں ، غیر شرعی کام اور عقل کے اصول وقوانین کے خلاف نہ تھا؟ اور خود امام علیہ السلام کی تعبیر کے مطابق ،(جیسا کہ) آپ نے خوارج کے سرداروں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: '' حکمین کے فیصلے کا قبول کرنا اپنے فوجیوں کے دباؤ کی وجہ سے تھا جو تدبیر میں ناتوان اور انجام کارمیں کمزور تھے انہیں لوگوں کی وجہ سے مجھے قبول کرنا پڑا ''(۲) جب کہ ان کی دوسری خواہش قرآن کے صریحاً برخلاف تھی کیونکہ قرآن تمام لوگوں کو اپنے عہدو میثاق اور پیمان کو پورا کرنے کی دعوت دیتاہے۔اس صورت میں امام علیہ السلام کے پاس صرف ایک ہی راستہ تھا کہ آپ ثابت واستوار رہیں اور

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۴، ص۵۳۔

(۲)''ما هو ذنب لکنّه' عَجز فی الرّأی وضعف فی الفِعل''ِ ، تاریخ طبری ج۴ ص۵۳۔

۶۹۹

فریب خوردہ افراد کو ہدایت ونصیحت کریں اور ان کو منتشر اور متفرق کرنے کی کوشش کریں، اسی وجہ سے آپ نے پہلے ہدایت کرناشروع کیا اور جب یہ چیز مؤثر ثابت نہ ہوئی تو حالات کے مطابق دوسرے طریقے استعمال کئے مثلاً آپ نے اپنے فاضل وعالم اصحاب جوکہ مسلمانوں کے درمیان کتاب وسنت کی تعلیم کی آگاہی میں مشہور ومعروف تھے اور انہیں خوارج کی قیام گاہ بھیجا۔

ابن عباس کی دلیل اور خوارج

ابن عباس امام علیہ السلام کے حکم سے خوارج کی قیام گاہ( چھاؤنی ) گئے اور ان سے گفتگو کی جسے ہم نقل کررہے ہیں :

ابن عباس: تمہاراکیا کہناہے اورا میر المومنین علیہ السلام پر تمہارا کیا اعتراض ہے؟

خوارج: وہ امیر المومنین تھے لیکن جب حکمیت قبول کی تو کافر ہوگئے ،انہیں چاہیے کہ اپنے کفر کا اعتراف کرکے توبہ کریں تاکہ ہم لوگ ان کے پاس واپس چلے جائیں ۔

ابن عباس: ہرگز مومن کے شایان شان نہیں ہے کہ جب تک اس کا یقین اصول اسلامی میں شک سے آلودہ نہ ہو اپنے کفر کا اقرار کرے۔

خوارج : ان کے کفر کی علت یہ ہے کہ انہوں نے حکمیت کو قبول کیا۔

ابن عباس : حکمیت قبول کرنا ایک قرآنی مسئلہ ہے کہ خدا نے کئی جگہ پر اس کا تذکرہ کیا ہے، خدا فرماتاہے :( وَمَنْ قَتَلَهُ مِنْکُمْ مُتَعَمِّدًا فَجَزَائ مِثْلُ مَا قَتَلَ مِنْ النَّعَمِ یَحْکُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْکُمْ' ) (سورہ مائدہ: ۹۵)

( اے ایمان لانے والو شکار کو حالت احرام میں قتل نہ کرو) اور تم میں سے جو بھی اسے عمداً قتل کرے تو اسے چاہیے کہ اسی طرح کا کفارہ چوپایوںسے دے ، ایسا کفارہ کہ تم میں سے دو عادل شخص اسی جانور کی طرح کے کفارے کی تصدیق کریں۔

اگرخداوند عالم حالت احرام میں شکار کرنے کے مسئلہ میں کہ جس میں کم مشکلات ہیں ،تحکیم کا حکم دے تو وہ امامت کے مسئلہ میں کیوں نہ حکم دے اور وہ بھی اس وقت جب مسلمانوں کے لئے مشکل پیش آئے اس وقت یہ حکم قابل اجراء نہ ہو؟

خوارج: فیصلہ کرنے والوں نے ان کے نظریہ کے خلاف فیصلہ کیا ہے لیکن انہوں نے قبول نہیں کیا ہے۔

۷۰۰

ابن عباس : فیصلہ کرنے والوںکا مرتبہ امام علیہ السلام کے مرتبہ وعظمت سے بلند نہیں ہے۔ جب بھی مسلمانوں کا امام غیر شرعی کام کرے تو امت کو چاہیے کہ اس کی مخالفت کرے ، تو پھر اس قاضی کی کیا حیثیت جو حق کے خلاف حکم کرے؟

اس وقت خوارج لاجواب ہوگئے اور انہوں نے شکست تو کوردل کافروں کی طرح دشمنی اور ہٹ دھرمی پر اتر آئے اور ابن عباس پر اعتراض کیا اور کہا: تم اسی قریش کے قبیلے سے ہو جس کے بارے میں خدا نے کہا ہے: ''بَل هُم قوم خصِمُون '' (زخرف: ۵۸) یعنی قریش جھگڑالوگروہ ہے۔ اورنیز خدا نے کہا ہے: ''وتُنذر به قوماً لدّاً '' (مریم :۹۷) قرآن کے ذریعے جھگڑالوگروہ کو ڈراؤ۔(۱)

اگر وہ لوگ حق کے طلبگار ہوتے اورکوردلی ، اکٹر اور ہٹ دھرمی ان پر مسلط نہ ہو تو ابن عباس کی محکم و مدلل معقول باتوں کو ضرور قبول کرلیتے اور اسلحہ زمین پر رکھ کر امام علیہ السلام سے مل جاتے اور اپنے حقیقی دشمن سے جنگ کرتے ، لیکن نہایت ہی افسوس ہے کہ امام علیہ السلام کے ابن عم کے جواب میں ایسی آیتوں کی تلاوت کی جو مشرکین قریش سے مربوط ہیں نہ کہ قریش کے مومنین سے۔

حَکَم کی طرف رجوع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن نے ان لوگوں کو چھوٹے چھوٹے جھگڑوں میں بھی مثلاً گھریلو اختلاف کو حل کرنے کے لئے جائز قرار دیا ہے اور اس کے نتیجے کو دونوں طر ف کے حسن نیت کو نیک شمار کیا ہے ،جیسا کہ ارشادہواہے :( وان خِفتُم شقاق بینهما فابعثوا حکماً من اهله و حکماً من أهلِها ان یریدا اصلاحاً یوفِقُ اللّٰهُ بینهما ان اللّٰه کان علیماً خبیراً ) (سورہ نساء : ۳۵)'' اور اگر تمہیں میاں بیوی کی نااتفاقی کا خوف ہو تو مرد کے کنبہ سے ایک حکم اور زوجہ کے کنبہ سے ایک حکم بھیجواگر یہ دونوں میں میل کرانا چاہیں گے تو خدا ان کے درمیان اس کا موافقت پیدا کردے گا، خدا تو بے شک واقف وبا خبر ہے''۔

______________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲، ص ۲۷۳۔بحوالہ کامل مبرد ( ص ۵۸۲ مطبوعہ یورپ)۔

۷۰۱

یہ ہر گز نہیں کہا جا سکتا کہ امت کا اختلاف تین مہینے کی شدید جنگ کے بعد میاں اور بیوی کے اختلاف سے کم ہے لہذا یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ اگر امت دونوں طرف سے دو آدمیوں کے فیصلے کو قرآن وسنت کی روشنی میں چاہے تو کام انجام دیا ہے اور کفر اختیار کیا ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ توبہ کرے(۱)

ان آیتوں پر توجہ کرنے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خوارج کا مسئلۂ حکمین کو غلط کہنا سوائے ہٹ دھرمی ، دشمنی اور انانیت کے کچھ نہ تھا۔ ابن عباس نے صرف ایک ہی مرتبہ احتجاج نہیں کیا بلکہ دوسری مرتبہ بھی امام علی السلام نے ان لوگوں کی ہدایت کے لئے ابن عباس کو بھیجا اور اس پر گواہ یہ ہے کہ انہوں نے پچھلے مناظرہ میں قرآنی آیتوں سے دلیلیں پیش کی تھیں، جب کہ امام علیہ السلام نے اپنی ایک گفتگو میں انہیں حکم دیا تھا کہ خوارج کے ساتھ پیغمبر کی سنت سے مناظرہ کریں ، کیونکہ قرآن کی آیتوں میں بہت زیادہ احتمال اور مختلف توجیہیں کی جا سکتی ہیں اور ممکن ہے خوارج ایسے احتمال کو لیں جو ان کے لئے مفید ہو، جیسا کہ حضرت فرماتے ہیں: ''لا تخاصِمهم بالقرآن ، فان القرآن حمّال ذو وجوهٍ تقول ویقولون ولکن حاججهُم بالسُّنة فانّهُم لن یجدوا عنها محیصاً ''(۲) خوارج کے ساتھ قرآن کی آیتوں سے مناظرہ نہ کرو کیونکہ قرآن کی آیتوں میں بہت سے وجوہ و احتمالات پائے جاتے ہیں اس صورت میں تم کچھ کہو گے اور وہ کچھ کہیں گے ( اور کوئی فائدہ نہ ہوگا) لیکن سنت کے ذریعے ان پر دلیل قائم کرو تو قبول کرنے کے علاوہ کوئی راستہ ان کے پاس نہ ہوگا۔

خود امام علیہ السلام کا خوارج کی چھاؤنی پر جانا

جب امام علیہ السلام عظیم اور بزرگ شخصیتوں مثلاً صعصعہ بن صوحان عبدی ، زیاد بن النضر اور ابن عباس وغیرہ کو ان کے پاس ہدایت وراہنمائی کے لئے بھیجا مگر مایوس ہوئے تو خود آپ نے ارادہ کیا ان کے پاس جائیں تاکہ پوری تشریح ، وضاحت کے ساتھ حکمین کے قبول کرنے کے مقدمات اورعوامل و اسباب کو ان کے سامنے بیان کریں اور یہ بتائیں کہوہ لوگ خود اس کام کے باعث بنے ہیں( مجبور کیا تھا)، شاید اس کے ذریعے تمام خوارج یا ان میں سے کچھ لوگوں کو فتنہ وفساد سے روک دیں ۔

______________________

(۱) میاں اور بیوی کے اختلاف سے مربوط یہ آیت امام علیہ السلام کی دلیلوں میں بیان کی جائے گی ۔

(۲)شرح نہج البلاغہ مکتوب نمبر ۷۷۔

۷۰۲

امام نے روانہ ہوتے وقت صعصعہ سے پوچھا: فتنہ وفساد کرنے والے خوارج کون سے سردار کے زیر نظر ہیں؟ انہوں نے کہا: یزید بن قیس ارحبی(۱) لہذا امام علیہ السلام اپنے مرکب پر سوار ہوئے اور اپنی چھاؤنی سے نکل گئے اور یزید بن قیس ارحبی کے خیمے کے سامنے پہونچے اور دورکعت نماز پڑھی پھر اپنی کمان پر ٹیک لگائی اور خوارج کی طرف رخ کر کے اپنی گفتگو کا آغاز کیا:

کیا تم سب لوگ صفین میں حاضر تھے؟ انہوں نے کہا :نہیں ۔آپ نے فرمایا: تم لوگ دوگروہوں میں تقسیم ہوجاؤ تاکہ ہر گروہ سے اس کے مطابق گفتگو کروں ۔ پھر آپ نے بلند آواز سے فرمایا: ''خاموش رہو شور وغل نہ کرو اور میری باتوں کو غور سے سنو، اپنے دل کو میری طرف متوجہ کرو اور جس سے بھی میں گواہی طلب کروں وہ اپنے علم وآگاہی کے اعتبار سے گواہی دے '' اس وقت اس سے پہلے کہ آپ ان لوگوں سے گفتگو کرتے اپنے دل کو پروردگارکی طرف متوجہ کیا اور پھر تمام لوگوں کو خدا کی طرف متوجہ کیا اور کہا:'' خدایا یہ ایسی جگہ ہے کہ جو بھی اس میں کامیاب ہوا وہ قیامت کے دن بھی کامیاب ہوگا اور جو بھی اس میں محکوم مذموم ہوگا وہ اس دوسری دنیا میں بھی نابینا اور گمراہ ہوگا''۔

''کیا تم لوگوں نے قرآن کودھوکہ اور فریب کے ساتھ نیزہ پر بلند کرتے وقت یہ نہیں کہا تھا کہ وہ لوگ ہمارے بھائی اور ہمارے ساتھ کے مسلمان ہیں اور اپنے گزشتہ کاموں کوچھوڑدیا ہے اور پشیمان ہوگئے ہیں اور خدا کی کتاب کے سایہ میں پناہ لئے ہوئے ہیں ہمارے لئے ضروری ہے کہ ان کی بات کو قبول کریں اور ان کے غم واندوہ کو دور کردیں ؟اور میں نے تمہارے جواب میں کہاتھا: یہ ایک ایسی درخواست ہے کہ جس کا ظاہر ایمان اورباطن دشمنی ،بغض وحسداورکینہ ہے اس کی ابتدا رحمت اور راحت اور اس کا انجام پشیمانی اور ندامت ہے۔لہذا اپنے کام پر باقی رہو اپنے راستہ سے نہ ہٹو، اور دشمن سے جہاد کرنے پر دانتوں کو بھینچے رہو اور کسی بھی نعرہ باز کی طرف توجہ نہ دو ، کیونکہ اگر اس سے موافقت کروگے تو گمراہ ہوجائوگے اور اگر اسے اس کے حال پر چھوڑ دوگے تو وہ ذلیل وخوار ہوجائے گا۔بہرحال یہ کام (مسئلۂ تحکیم) میری تاکید کے برخلاف انجام پایا اور میں نے دیکھا کہ ایسا موقع تم نے دشمن کو دیدیا ہے(۲) ۔

______________________

(۱) خوارج کا ایک سردار ، قبیلہ یشکر بن بکر بن وائل سے۔

(۲)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ ص ۲۸۰۔

۷۰۳

ابن ابی الحدید ۳۶ ویں خطبہ کی شرح میں کہتا ہے :خوارج نے کہا: جو کچھ بھی تم نے کہا ہے وہ سب حق ہے اور بجا ہے لیکن ہم کیا کریں ہم سے تو بہت بڑا گناہ ہوگیا ہے اور ہم نے توبہ کرلیا ہے اور تم بھی توبہ کرو ، امام علیہ السلام نے بغیر اس کے کہ کسی خاص گناہ کی طرف اشارہ کریں، بطور کلی کہا: ''اَستغفِر اللّٰه من کلّ ذنبٍ '' اس وقت چھ ہزار لوگ خوارج کی چھاؤنی سے نکل آئے اور امام علیہ السلام کے انصار میں شامل ہوگئے اور ان پر ایمان لے آئے ۔

ابن ابی الحدید اس استغفار کی توضیح میں کہتا ہے : امام علیہ السلام کی توبہ ایک قسم کا توریہ اور ''الحرب خُد عة '' کے مصادیق میں سے ہے۔آپ نے ایک ایسی مجمل بات کہی جو تمام پیغمبرکہتے ہیں اور دشمن بھی اس پر راضی ہوگئے ، اس کے بغیرکہ امام علیہ السلام نے گناہ کا اقرار کیا ہو۔(۱)

______________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ ص ۲۸۰۔

۷۰۴

دوست نما دشمن کی شرارت

جب خوارج اپنی چھاؤنی سے کوفہ واپس آئے تو انہوں نے لوگوں کے درمیان یہ خبر پھیلادی کہ امام نے حکمیت قبول کرنے سے انکار کردیا ہے، اسے ضلالت وگمراہی سمجھا ہے اور ایسے وسائل آمادہ کررہے ہیں کہ لوگوں کو حکمین کی رائے کے اعلان سے پہلے معاویہ کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے روانہ کریں ۔

اسی دوران اشعث بن قیس جس کی زندگی اور امام علیہ السلام کے ساتھ رہنے کی روش مکمل طور پر نفاق آمیز تھی، ظاہرمیں دوستانہ طور پر لیکن باطن میں معاویہ کے نفع کے لئے اس نے کام کرنا شروع کیا اور کہا : لوگ کہتے ہیں کہ امیر المومنین نے اپنے عہد وپیمان کو توڑدیا ہے اور مسئلہ حکمیت کو کفر و گمراہی سے تعبیر کیا ہے اور مدت ختم ہونے کے انتظار کو خلاف جاناہے۔

اشعث کی گفتگو نے امام علیہ السلام کوایسی مصیبت میں قرار دیا کہ ناچار امام علیہ السلام نے حقیقت بیان کردی اور کہا: جو شخص یہ فکر کررہا ہے کہ میں نے تحکیم کے عہد وپیمان کو توڑ دیا ہے وہ جھوٹ بول رہاہے اور جو شخص بھی اس کو گمراہی وضلالت سے تعبیر کررہا ہے وہ خود گمراہ ہے۔

حقیقت بیان کرنا خوارج کے لئے اتنا سخت ہوا کہ لاحکم الاّ للّٰہ کا نعرہ لگاتے ہوئے مسجد سے

باہر چلے گئے اور دوبارہ اپنی چھاؤنی میں واپس چلے گئے۔

ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ امام علیہ السلام کی حکومت میں ہر طرح کا رخنہ وفساد اشعث کی وجہ سے تھا کیونکہ اگر وہ اس مسئلہ کو نہ چھیڑتا تو امام علیہ السلام حقیقت کو بیان نہ کرتے ، اور خوارج جو استغفار کلی پر قناعت کئے ہوئے تھے امام علیہ السلام کی خدمت میں رہ کر معاویہ سے جنگ کرتے،لیکن وہی (اشعث) سبب بنا کہ امام علیہ السلام توریہ کے پردہ کو چاک کرکے حقیقت کو واضح وآشکار کردیں۔

۷۰۵

خوارج کی ہدایت کی دوبارہ کوشش

مبرّد اپنی کتاب '' کامل '' میں امام علیہ السلام کا دوسرا مناظرہ نقل کرتے ہیں جو پہلے والے مناظرہ سے بالکل الگ ہے اور احتمال یہ ہے کہ یہ دوسرا مناظرہ ہے جو امام علیہ السلام نے خوارج سے کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے:

امام علیہ السلام : کیا تمہیں یاد ہے جس وقت لوگوں نے قرآن کو نیزے پر بلند کیا اس وقت میں نے کہا تھا کہ یہ کام دھوکہ اورفریب ہے ، اگر وہ لوگ قرآن سے فیصلہ چاہتے تو میرے پاس آتے اور مجھ سے فیصلے کے لئے کہتے ؟ کیا تمہاری نگاہ میں کوئی ایسا ہے جو ان دونوں آدمیوں کے مسئلۂ حکمیت کو میرے اتنا برا اور خراب کہتا؟

خوارج : نہیں ۔

امام علیہ السلام : کیا تم لوگ اس بات کی تصدیق کرتے ہو کہ تم لوگوں نے مجھے اس کام مجبور کیا جبکہ میں اسے ہر گز نہیں چاہ رہا تھا اور میں نے مجبور ہوکر تمہاری درخواست کو قبول کیا اور یہ شرط رکھی کہ قاضیوں کا حکم اس وقت قابل قبول ہوگا جب خدا کے حکم کے مطابق فیصلہ کریں ؟ اور تم سب جانتے ہو کہ خدا کا حکم مجھ سے تجاوز نہیں کرے گا ( اور میں امام برحق اور مہاجرین و انصار کا چنا ہوا خلیفہ ہوں )۔

عبداللہ بن کوّائ: یہ بات صحیح ہے کہ ہم لوگوں کے اصرار پرآپ نے ان دونوں آدمیوں کو دین خدا کے لئے َحکمَ قرار دیا لیکن ہم اقرار کرتے ہیں کہ اس عمل کی وجہ سے ہم کافر ہوگئے اور اب اس سے توبہ کررہے ہیں اورآپ بھی ہم لوگوں کی طرح اپنے کفرکا اقرار کیجئے اور اس سے توبہ کیجئے اور پھر ہم سب کو معاویہ سے جنگ کرنے کے لئے روانہ کیجئے۔

امام علیہ السلام : کیا تم جانتے ہو کہ خدا نے میاں بیوی کے اختلاف کے بارے میں حکم دیا ہے کہ دو آدمیوں کی طرف رجوع کریں ، جیسا کہ فرمایا ہے:کہ ''فابعثوا حکماً من أهلهِ وحکماً من اَهلِها ؟ ''اور اسی طرح حالت احرام میں شکار کے قتل کا کفارہ معین کرنے کے بارے میں حکم دیا ہے کہ حَکَم (فیصلہ کرنے والے) کے عنوان سے دد عادلوں کی طرف رجوع کریں جیسا کہ فرمایا ہے: ''یحکم بهِ ذوا عَدل ٍ مِنکُم ؟ ''

۷۰۶

ابن کوّائ:آپ نے اپنے نام سے '' امیر المومنین '' کا لقب مٹاکر اپنے کو حکومت سے خلع اور برکنار کر دیا۔

امام علیہ السلام : پیغمبرا سلام (ص) ہمارے لئے نمونہ ہیں۔ جنگ حدیبیہ میں جس وقت پیغمبر اور قریش کے درمیان صلح نامہ اس طریقے سے لکھا گیا :''هذا کتاب کتبه محمّد رسولُ اللّٰه وسُهیلُ بن عَمر '' اس وقت قریش کے نمائندے نے اعتراض کیا اور کہا: ، اگر آپ کی رسالت کا مجھے اقرار ہوتا تو آپ کی مخالفت نہ کرتا، لہٰذا اپنے نام سے ''رسول اللہ ''کا لقب مٹادیجیے، اور پیغمبر نے مجھ سے فرمایا: اے علی! میرے نام کے آگے سے '' رسول اللہ '' کا لقب مٹادو، میں نے کہا: اے پیغمبر خدا(ص)! میرا دل راضی نہیں ہے کہ میں یہ کام کروں ، اس وقت پیغمبر نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنا لقب مٹادیا اور مجھ سے مسکرا کر فرمایا: اے علی !تم بھی میری ہی طرح ایسی سرنوشت سے دوچار ہو گے۔

جب اما م علیہ السلام کی گفتگو ختم ہوئی اس وقت دو ہزار آدمی جو '' حروراء '' میں جمع ہوئے تھے وہ حضرت کی طرف واپس آگئے ۔اور چونکہ وہ لوگ(خوارج) اس جگہ پر جمع ہوئے تھے اس لئے انہیں '' حروریّہ '' کہتے ہیں(۱) ۔

______________________

(۱)کامل مبرّد: ص ۴۵۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲، ص ۲۷۵،۲۷۴۔

۷۰۷

دوسرا مناظرہ

خوارج کے سلسلے میں امام علیہ السلام کی سیاست یہ تھی کہ جب تک خون ریزی نہ کریں اور لوگوں کے مال کو برباد نہ کریں اس وقت تک کوفہ اور اس کے اطراف میں آزاد زندگی بسر کرسکتے ہیں ، اگرچہ روزانہ رات دن ان کے انکار کے نعرے مسجد میں گونجتے رہیں اور امام کے خلاف نعرے لگاتے ہیںاس وجہ سے امام علیہ السلام نے ابن عباس کو دوبارہ '' حروراء '' دیہات روانہ کیا ، انہوں نے ان لوگوں سے کہا: تم لوگ کیا

چاہتے ہو ؟ ان لوگوں نے کہا : جتنے لوگ صفین میں موجود تھے اور حکمیت کی موافقت کی ہے وہ کوفہ سے نکل جائیں اور سب لوگ صفین چلیں اور وہاں تین دن ٹھہریں اور جو کچھ انجام دیا ہے اس کے لئے توبہ کریں اور پھر معاویہ سے جنگ کرنے کے لئے شام روانہ ہوں۔

اس درخواست میں ضد، ہٹ دھرمی اور بیوقوفی صاف واضح ہے کیونکہ اگر حکمیت کا مسئلہ برا اور گناہ ہو تو ضروری نہیں ہے کہ توبہ اسی جگہ کی جائے جہاں گناہ کیا ہے اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ وہاں تین دن تک قیام کیا جائے ! بلکہ توبہ تو صرف ایک لمحہ بھر ہی واقعی شرمندگی اور کلمہ استغفار کے ذریعہ ہوجاتی ہے ۔

امام علیہ السلام نے ان کے جواب میں فرمایا : کیوں اس وقت ایسی باتیں کررہے ہو جب کہ دو حَکَم معین کر کے بھیج دیئے گئے ہیں اور دونوں طرف کے لوگوں نے ایک دوسرے سے عہد وپیمان کرلیا ہے ؟

ان لوگوں نے کہا: اس وقت جنگ طولانی ہوگئی تھی ، بہت زیادہ سختی و شدت بڑھ گئی تھی ، بہت زیادہ زخمی ہوگئے تھے اور ہم نے بہت زیادہ اسلحے اور سواریاں گنوادی تھیں ، اس لئے حکمیت کو قبول کیا تھا۔

امام علیہ السلام نے فرمایا : کیا جس د ن شدت اور سختی بہت زیادہ بڑھ گئی تھی اس دن تم نے قبول کیا ہے ؟ پیغمبراسلام (ص) نے مشرکوں کے ساتھ عہد وپیمان کیا تھا ، اس کا احترام کیا لیکن تم لوگ مجھ سے کہتے ہو کہ اپنے عہدوپیمان کو ختم توڑ دو!

۷۰۸

خوارج نے اپنے اندر احساس ندامت کیا لیکن اپنے عقیدہ کے تعصب کی بنا پرایک کے بعد ایک وارد ہوتے گئے اور نعرہ لگاتے رہے :''لاحکم الّا للّٰه ولو کَرِه المشرکون ''۔

ایک دن خوارج کا ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور وہی نعرہ لگایا (جسے ابھی ہم نے ذکر کیا ہے) ، لوگ اس کے پاس جمع ہوگئے اور اس نے پھر وہی نعرہ لگایا اور ا س مرتبہ کہا: ''لاٰ حُکمَ الّا للّٰه وَ لوکرِه ابوالحسنِ ''۔امام علیہ السلام نے اس کا جواب دیا: ، میں ہرگز خدا کی حکومت (اور اس کے حکم )کو مکروہ تصور نہیں کرتا، لیکن تمہارے بارے میں خدا کے حکم کا منتظر ہوں ۔ لوگوں نے امام علیہ السلام سے کہا: کیوں آپ نے ان لوگوں کو اتنی مہلت اور آزادی دی ہے ؟ کیوں ان کو جڑ سے ختم نہیں کردیتے ؟ آپ نے فرمایا:

''لاٰ یفنُون انّهُم لفِی اصلاب ِ الرّجال وأرحام ِ النّساء الیٰ یومِ القیامةِ '' (ا) وہ لوگ ختم نہیں ہوں گے ان لوگوں کا ایک گروہ ان کے باپوں کے صلب اور ماؤں کے رحم میں باقی ہے اوریہ اسی طرح قیامت کے دن تک رہیں گے۔

______________________

(۱) شرح حدیدی ج۲، ص ۳۱۱،۳۱۰۔

۷۰۹

تیئیسویں فصل

خوارج کی مخالفت کی وجہ اور اس کی وضاحت

امام علیہ السلام سے خوارج کی مخالفت کی وجہ اور معاویہ کی مخالفت کی وجہ میں بہت فرق تھا، معاویہ نے عمر کی خلافت کے وقت سے ہی شام کی حکومت کی خود مختاری کے لئے مقدمات فراہم کرتے تھے اور خودکوشام کامطلق العنان حاکم (ڈکیٹیٹر) سمجھتا تھا۔ عثمان کے قتل کے بعد جب اسے خبر ملی کہ امام علیہ السلام شام کی حکومت سے اس کو بر طرف کرنا چاہتے ہیں تو وہ مخالفت کرنے کے لئے اٹھ گیا پہلے تو طلحہ وزبیر کو ورغلایا پھر جنگ صفین برپاکر کے امام علیہ السلام کے مقابلے میں آگیا اور پھرمنحوس سیاست کے ذریعہ قرآن کو نیزہ پر بلند کر کے امام علیہ السلام کے لشکر میں اختلاف وتفرقہ پیدا کر دیا اور بالآخر امام علیہ السلام اسی اختلاف کی وجہ سے قربان ہوگئے۔

لیکن خوارج ظاہر بین تھے اور آج کی اصطلاح میں خشک مقدس تھے اور اپنی جہالت ونادانی اور سطحی فکر ونظر اور اسلام کے اصول و مبانی سے واقفیت نہ رکھنے کی وجہ سے امام علیہ السلام کی مخالفت کرنے لگے، اورکھوکھلے اور بے بنیاد علل و اسباب گڑھ کر خدا کے چراغ ہدایت کے مقابلہ میں آگئے اور اس الٰہی چراغ کوخاموش کرنے کے لئے ہزاروں پاپڑ بیلے یہاں تک کہ خود کو ہلاک کرنے کے لئے بھی تیار ہو گئے۔

۷۱۰

معاویہ اور خوارج کے درمیان اسی فرق کی وجہ سے امام علیہ السلام نے ان پرفتح وکامیابی حاصل کرنے کے بعد فرمایا: ''لاٰ تقاتلوا الخوارجَ بعدی، فلیسَ مَن طَلبَ الحقَّ فأخطاٰ ه کَمَن طلب الباطل فادرکَه ''' (ا)، خبردار میرے بعد خوارج کو قتل نہ کرنا کیونکہ جو حق کا طالب ہے اور اسے حاصل کرنے میں کسی وجہ سے اس سے غلطی ہوجائے وہ اس شخص کے مثل نہیں ہے جس نے باطل کو چاہا اور اسے پابھی لیا۔( یعنی معاویہ اور اس کے اصحاب)

خوارج کی مخالفت کے تمام عوامل و اسباب کی تحقیق اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ یہ لوگ ، شامیوں کے برخلاف ہرگز جاہ ومنصب اور حکومت کے طلبگار نہ تھے بلکہ ایک خاص کج فکری اور ذہنی پستی

______________________

نہج البلاغہ خطبہ ۵۸ (عبدہ)۔

۷۱۱

ان پرمسلط تھی ۔ یہاں ہم خوارج کے اہم ترین اعتراضات نقل کررہے ہیں۔

۱۔دین پر لوگوں کی حکومت

وہ لوگ ہمیشہ یہ اعتراض کررہے تھے کہ کس طرح سے ممکن ہے کہ دومخالف گروہ کے دو آدمی اپنے اپنے سلیقے کے اعتبار سے مسلمانوں کی تقدیر کو اپنے ہاتھ میں لیں اور اپنی رائے کو مسلمانوں کے معین شدہ رہبر کی رائے پر مقدم کریں ، دین اور مسلمانوں کا مقدر اس سے بلند وبرتر ہے کہ لوگ اپنی ناقص عقلوں سے ان کے اوپر حکومت کریں ۔وہ لوگ مستقل کہہ رہے تھے: '' حکم الرجال فی دین اللّٰہ '' یعنی علی نے لوگوں کو دین خدا پر حاکم قرار دیاہے۔

یہ اعتراض اس بات کی حکایت کرتاہے کہ وہ لوگ حکمین کے فیصلے کے قبول کرنے کے شرائط سے باخبر نہ تھے اور ان لوگوں نے خیال کیا کہ امام علیہ السلام نے ان دونوں کو مسلمانوں کی قسمت معین کرنے کے لئے آزاد چھوڑدیا ہے کہ جس طرح چاہیں ان کے لئے حکم معین کریں۔ امام علیہ السلام نے اس اعتراض کے جواب میں فرمایا:''اِنا لم نحکّم الرجالُ وانّما حکّمنٰا القرآنَ، هذا القرآن انّما هو خطّ مستور بین الدَّفتین لا ینطقُ بلسانٍ ولابدَّله من ترجمان ، وانما ینطق عنه الرجالُ ، ولمّٰا دَعانَا القَومُ اِلیٰ ان نُحکَّم بیننَا القرآن لم نَکُنِ الفریقَ المتولّ عن کتاب اللّٰه سبحانه وتعالیٰ ، وقد قال اللّٰه سبحانه: '' فان تنازعتم فی شیئٍ فَردَّ وهُ اِلَی اللّٰه والرّسول ِ ''فرُدُّهُ اِ لٰی اللّٰه أن نَحکُمَ بکتابِهِ ، وردّهُ اِلَی الرّسول اَن ناخذ بسنّتِهِ ، فاذا حُکِمَ بالصّدق فی کتابِ اللّٰه فنحن أحقُّ الناس بهِ وان ُحکِمَ بسنةِ رسول اللّٰه (ص) فنحن أحقُّ الناس وَ اَولاَ هُم بِها ۔(۱)

ہم نے لوگوں کو نہیں بلکہ قرآن کو حَکَم مقرر کیا ہیاور یہ قرآن دودفتیوں کے درمیان لکھی ہوئی کتاب ہے جو زبان سے نہیں بولتی اس کے لئے ترجمان ضروری ہے اور وہ ترجمان آدمی ہی ہوتے ہیں جو قرآن کی روشنی میں کلام کرتے ہیں جب قوم (اہل شام ) نے ہم سے خواہش کی کہ ہم اپنے اور ان کے درمیان قرآن مجید کو حکم قرار دیں تو ہم ایسے لوگ نہ تھے کہ اللہ کی کتاب سے منحرف ہوں حالانکہ خداوند عالم فرماتا ہے: ''اگر

______________________

(۱)نہج البلاغہ: خطبہ ۱۲۱.

۷۱۲

تم کسی بات میں اختلاف کرو تو خدااور رسول کی طرف اسے پھیر دو'' ۔خدا کی طرف رجوع کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ہم اس کی کتاب کو حَکَم مانیں اور رسول کی طرف رجوع کرنے کے یہ معنی ہیں کہ ہم ان کی سنت کو اختیار کریں ، پس اگر سچائی کے ساتھ کتاب خدا سے حکم حاصل کیا جائے تو اس کی رو سے لوگوں میں سب سے زیادہ ہم اس کے حق دار ہیں اور اگر سنت رسول کے مطابق فیصلہ کیا جائے تو ہم سب سے زیادہ اس کے اہل ہیں ۔

امام علیہ السلام ایک دوسرے خطبہ میں اسی جواب کو دوسری عبارت میں بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں : '' دونوں حَکم کو اس لئے مقرر کیا گیا تھا کہ وہ انہیں چیزوں کو زندہ کریں جنہیں قرآن نے زندہ کیا ہے اور جن چیزوں کو قرآن نے ختم کیا ہے انہیں یہ بھی ختم کر دیں (حق کو زندہ اور باطل کو نابود کردیں) اور قرآن کا زندہ کرنا اس پر اتفاق کرناہے اور اسے ہلاک کرنا اس سے دوری اختیار کرنا ہے پس قرآن اگر ہمیں ان (شامیوں )کی طرف کھینچ لے جائے تو ہم ان کی پیروی کریں گے اور اگر وہ انہیں ہماری طرف کھینچ لائے تو انہیں ہماری پیروی کرنی چاہیے ، تمہارا برا ہو، میں نے اس بات میں کوئی غلط کام تو نہیں کیا نہ تمہیں دھوکہ دیا ہے اور نہ کسی بات کو شبہہ میں رکھا ہے ۔(۱)

______________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۱۲۳،۱۷.

۷۱۳

۲۔ وقت کا تعیین

خوارج کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ کیوں فیصلہ کرنے والوں کے لئے وقت معین ہوا ہے اور یہ طے پایا ہے کہ دونوں (عمروعاص اورابوموسیٰ )غیر جانب دار علاقہ (دومة الجندل) میں ماہ رمضان ختم ہونے تک اختلاف کے بارے میں اپنی اپنی رائے پیش کردیں اور یہ کام میدان صفین ہی میں اس دن کیوں نہیں انجام دیا گیا جس دن قرآن کو نیزہ بر بلند کیا گیا تھا؟!

حقیقتاً اس طرح کے اعتراضات کیا ان کی جہالت پر دلالت نہیں کرتے ؟ کیا ایسا عظیم فیصلہ ، اوروہ بھی اس وقت دونوں گروہ کا ہاتھ کہنی تک ایک دوسرے کے خون میں ڈوبا ہواتھا، کوئی آسان کام تھا کہ ایک دو دن کے اندر فیصلہ ہوجاتا اور دونوں گروہ اُسے قبول کرلیتے؟ یا اس کے لئے صبر وضبط کی ضرورت تھی تاکہ جاہل کی بیداری اور عالم کے استحکام کا امکان زیادہ پیدا ہو جائے اور امت کے درمیان صلح کا ذریعہ اور زیادہ فراہم ہوجائے۔

امام علیہ السلام اس جواب کے اعتراض میں فرماتے ہیں : ''وَاماقَو لکم:لم جعلت بینکم و بهینم أجلاً فی التحیکم؟فانما فَعَلتُ ذالک لِیتبیّنَ الجَاهِلُ ویتثبّتَ العالم ولَعلَّ اللّٰه اَن یصلحَ فی هذهِ الهُدنَةِ أمرهذه الامةِ ''(۱) اب تمہارا یہ کہنا کہ آپ نے اپنے اور ان کے درمیان تحکیم کی مہلت کیوں دی تو میں نے یہ موقع اس لئے دیا کہ جاہل تحقیق کرے اور عالم ثابت قدم ہوجائے ، اور شاید خداوند عالم اس مہلت کے ذریعے اس امت کے حالات کی اصلاح فرمادے۔

______________________

(۱) نہج البلاغہ خطبہ ۱۲۱

۷۱۴

۳۔ حاکمیت انسان اور حاکمیت خدا کے انحصار سے تارض

خوارج نے امام علیہ السلام سے مخالفت کے زمانے میں ایة ''لاحکم الّا لِلّٰه '' کا سہارا لیا اورحضرت کے کام کو نص قرآن کے خلاف شمار کیا اور یہ نعرہ لگایا:''لاحکم الّا لِلّٰه لا لَکَ و لا لِاَصحابک یا علُّ ''یعنی حاکمیت خدا سے مخصوص ہے نہ کہ تم سے اور نہ تمہارے ساتھیوں سے اور یہ نعرہ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے قرآن سے اقتباس ہے جو سورہ یوسف آیت نمبر ۴۰ اور ۶۷ میں وارد ہوا ہے اور اس کا مفہوم توحید کے اصول میں شمار ہوتاہے اور اس بات کی حکایت کرتاہے کہ حاکمیت اور فرمانروائی ایک حقیقی اور اصل حق ہے جو خدا سے مخصوص ہے اور کوئی بھی انسان اس طرح کا حق دوسرے انسان پر نہیں رکھتا۔ لیکن خدا میں حاکمیت کا منحصر ہونا اس چیز کے منافی نہیں کہ کوئی گروہ ایک خاص ضوابط کے ساتھ جن میں سب سے اہم خداکی اجازت ہے دنیا پر حکومت کرے ، اورخدا کی حاکمیت کی تجلی گاہ ہوجائے اور کوئی بھی عقلمند انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ اجتماعی زندگی، بغیر حکومت کے ممکن ہے ، کیونکہ وظائف و فرائض کاانجام دینا، اختلافات کا حل ہونا اور لڑائی جھگڑے کا ختم ہوناوغیرہ یہ تمام چیزیں ایک حکومت کے سایہ میں انجام پاسکتی ہیں ۔

اما م علیہ السلام نے جب ان کے نعرہ کو سنا تو فرمایا ، ہاں یہ بات صحیح ہے کہ حکومت کاحق صرف خدا کو ہے لیکن اس حق کی بات سے باطل مراد لیا جا رہا ہے: ''کلمة حقٍ یراد بها الباطل، نعم انّه' لاحکم الّٰا لِلّٰه ولکن هولائِ یقولون لا امراة الا لِلّٰه وانَّه لابُدَّ لِلنَّاسِ مِن اَمیرٍ بّرٍ او فاجر یعمل فی

۷۱۵

امرته المومن ویستمتع فیها الکافر '' (۱)

''بات حق ہے مگر اس سے مراد باطل لیا جارہاہے ہاں بے شک حکم خدا ہی کے لئے ہے لیکن یہ لوگ تو کہتے ہیں کہ امیر (حاکم) بھی اس کے سوا کوئی نہیں ہے حالانکہ لوگوں کے لئے ایک نہ ایک امیر (حاکم ) کا ہونا لازم ہے نیکو کار ہویا فاسق وفاجر ، تاکہ اس حکومت میں مومن عمل (خیر ) کرے اور کافر اس میں اپنے پورے پورے حقوق حاصل کرے ''۔

اگر حکومت نہ ہوتو امن اور چین نہیں ہوگا اور ایسی صورت میں نہ مومن اپنے کار خیر میں کامیاب ہوسکے گا اور نہ کافر دنیاکی زندگی سے فیضیاب ہوسکے گا اور اگر حقیقت میں مقصد، حکومت کا تشکیل نہیں دینا ہے تو اس صورت میں پیغمبراسلام(ص) اور شیخین کی حکومت کی کس طرح توجیہ کریں گے؟

خوارج اپنے عقیدہ و عمل میں ہمیشہ کشمکش میں مبتلا تھے ، ایک طرف سمجھتے تھے کہ اجتماعی زندگی ایک با اثر مدیر اور رہبر کے بغیر ممن نہیں ہے اور دوسری طرف اپنی کج فہمی کے زیر اثر ہر طرح کی حکومت کی تشکیل کو حاکمیت خدا کے انحصار کے خلاف سمجھتے تھے ۔اس سے بھی تعجب خیز بات یہ ہے کہ یہ کہ خوارج نے خود اپنے کام کے آغاز میں اپنے گروہ کے لئے حاکم کا انتخاب کیا ! طبری لکھتاہے : ماہ شوال ۳۸ ہجری میں خوارج کے کچھ گروہ عبداللہ بن وہب راسبی کے گھر جمع ہوئے اور عبداللہ نے اپنی تقریر میں کہا: یہ بات شائستہ نہیں ہے کہ لوگ خدا پر ایمان لائیں اور حکم قرآن کو تسلیم کریں اور دنیا کی زندگی ان لوگوں کی نظر میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے زیادہ باعث مشقت ہو ، پھر اس کے بعدحرقوص بن زہیر اور حمزہ بن سنان نے بھی گفتگو کی، اور تیسرے نے اپنے کلام کے آخر میں کہا :فولوا أمرکم رجلاً فانه لابد لکم من عمادٍ وسنادٍ ورایة تحفون بها وترجعون الیها ۔(۲)

تم کسی شخص کو اپنا امیر اور حاکم بنائو اس لئے کہ تمہارے لئے ایک ستون ، معتمد اور جھنڈا ضروری ہے جس کے پاس آئو اور رجوع کرو۔

______________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۴۰

(۲) تاریخ طبری ج۶، ص ۵۵

۷۱۶

حکمیت، آخری امید

مسلمانوںکے درمیان ،جنگ صفین سے پہلے اور اس کے بعد بہت سے ایسے بنیادی مسائل تھے کہ جن کے حل کا ایک طریقہ ایسے فیصلہ کرنے والوں کا انتخاب کرنا تھا جوحقیقت بینی کے ساتھ مسائل کی دقیق اور بہترین تحقیق کریں اور پھر ان کے بارے میں اپنا نظریہ پیش کریں۔ وہ مسائل یہ تھے:

۱۔ عثمان کا قتل ۔

۲۔ امام کے دوستوں پر خلیفہ کے قتل کا الزام ۔

۳۔ معاویہ کا دعویٰ کہ وہ عثمان کے خون کا ولی ہے ۔

بنیادی طور پر یہی مسائل تھے جس کی بنا پرجنگ صفین ہوئی اور ان مشکلوں کے حل کے لئے دو راستے تھے: پہلاراستہ یہ کہ دونوں فریق اپنے اختلافی مسائل کو مہاجرین اور انصار کے ذریعہ چنے ہوئے امام کے پاس پیش کریں اور وہ ایک آزاد شرعی عدالت میں خداکے حکم کو ان کے بارے میں جاری کریں اور یہ وہی راہ تھی جس کے بارے میں امام علیہ السلام نے صفین سے پہلے تاکید کی تھی اور اپنے خط میں معاویہ کو لکھا تھا: ''قد اکثرت فی قتلة عثمان فادخل فیمادخلَ فیه النّاسُ ثمّ حاکمَ القومَ الیّ أن احملک وایّا هم علی کتابِ اللّٰه ''(۱) اور تم نے عثمان کے قاتلوں کا باربار ذکر کیا ہے اور جس دائرہ اطاعت میں لوگ داخل ہوچکے ہیں تم بھی (بیعت کرکے) داخل ہوجاؤ پھر میری عدالت میں ان لوگوں کا مقدمہ پیش کرو تاکہ میں کتاب خدا کے مطابق تمہارے اور ان کے درمیان فیصلہ کروں۔دوسراراستہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو ایک صلح پسند عدالت میں بھیج دیا جائے تاکہ وہاں منصف مزاج اورحقیقت پسند قاضی مشکل کا حل تلاش کریں اور فیصلہ کرتے وقت اسلام اور مسلمانوں کی حقیقی اور واقعی مصلحتوں سے چشم پوشی نہ کریں اور عمروعاص جیسے لوگوں کی ہر طرح کی بن الوقتی اور مفاد پرستی سیاور ابو موسیٰ جیسے لوگوں کے کینہ وبغض سے دو رہوں ، ایسی عدالت میں امام علیہ السلام اپنے حقیقی مقصد تک پہونچ سکتے تھے اور مشکلات کا حل وفیصلہ کرسکتے تھے۔خلیفہ کا قتل بہت پیچیدہ مسئلہ نہ تھا ۔ اس کے عوامل و اسباب کئی سالوں پہلے سے وجود میں آ چکے تھے

______________________

(۱)نہج البلاغہ مکتوب نمبر۶۴

۷۱۷

اور روز بروز بڑھتے ہی جا رہے تھے یہاں تک کہ دبائو اور گھٹن کی شدت صالحین پر ظلم وستم اورمصلحین پر سختی و شکنجہ دھماکے (قت ) کا سبب بن گیا یہ ایسا دھماکاتھا جسے علی علیہ السلام بھی روک نہیں سکے اور خلیفہ کو قتل سے بچانہیں سکے۔

معاویہ اورمقتول خلیفہ کے ہواخواہوں کے دعوے کے لئے ضروری تھا کہ اُسے شرعی عدالت میں

پیش کیا جاتا اورحق وباطل میں تمیز پیدا کی جاتی ۔ دنیا کی کسی بھی جگہ مقتول کے خون کا بدلہ لینے کے لئے لشکر کشی جائز نہیں سمجھی جاتی،تو پھر تقریباً ۶۵ ہزار انسانوں کے قتل کا جواز کیے ہو سکتا ہے ؟

'' دومة الجندل '' کی عدالت میں اگرصحیح طریقہ سے فیصلہ ہوتا تو ان تمام مسائل کی صحیح چھان بین ہوتی اور مسلمانوں کا وظیفہ ان واقعات کے بارے میں واضح ہوجاتا. مگر افسوس ، اس عدالت میں جس چیز کے بارے میں بحث نہیں ہوئی وہ اختلاف کی جڑیں اور بنیادیں تھیں۔ عمروعاص اپنے رقیب ( ابوموسیٰ) کی عقل و رائے کو سلب کرنے کی فکر میں تھا تاکہ امام علیہ السلام کو خلافت سے معزول کرنے کے لئے اس کو راضی کرلے اورمعاویہ کی خلافت نافذ کر دے اور ابوموسیٰ اس فکر میں تھا کہ اپنے ہمفکروہم خیال عبداللہ بن عمر کو خلافت تک پہونچادے کیونکہ اس کا ہاتھ دونوں طرف میں سے کسی ایک کے خون سے آلودہ نہ ہوا تھا ۔ جب عدالت کے نظریہ کا اعلان ہوا تو علی علیہ السلام نے اسے قانونی و اصولی طور پر قبول نہ کیا اورفرمایا: فیصلہ کرنے والوں نے اپنے عہد وپیمان کے خلاف عمل کیا ہے اور ارادہ کیا کہ اپنی فوج کو منظم کر کے معاویہ سے جنگ کنے کو روانہ ہوںلیکن خوارج کے حادثہ نے معاویہ کا پیچھا کرنے سے روک دیا۔

فساد کو جڑ سے ختم کرنا

خوارج کے ساتھ امام علیہ السلام کا برتائو بہت ہی نرم اورلطف و مہربانی سے پُر تھا اور آپ جب بھی ان کو خطاب کرتے تھے تو صرف محبت ، نصیحت اور ہدایت وراہنمائی کرتے تھے اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز آپ سے نہیں سنی گئی ، حضرت نے بالکل اس باپ کے مثل جو چاہتا ہے کہ اپنے عاق اور سرکش بیٹے کوصحیح راستے پر لائے ان لوگوں سے برتائو کرتے تھے،ان کے حقوق کوبیت المال سے ادا کرتے تھے ، مسجد اور اس کے اطراف میں ان کے ظلم وستم اورشوروغل کرتے تھے،

۷۱۸

پرواہ نہ کی اور آپ کی پوری کوشش یہ تھی کہ اس گروہ کو مسخّر اور قابو میں کر کے معاشرے میں اتحاد کوواپس لے آئیں اور شام کے سرطانی غدّہ کو جڑ سے ختم کردیںکیونکہ خوارج بھی اسی کی پیداوار تھے ، اور صفین کا عہد وپیمان بھی امام علیہ السلام کو یہ حق دے رہا تھا کیونکہ عہدنامہ کی عبارت میں یہ بات لکھی گئی تھی کہ اگر حکمین نے قرآن وسنت کے برخلاف فیصلہ کیا تو امام علیہ السلام اپنے پہلے اصل منصب پر باقی رہیں گے(۱) ۔

اما م علیہ السلام نے لوگوں کو یہ بات واضح کرنے کے لئے بہت سی تقریر یں کیں کہ معاویہ سے دوبارہ جنگ صفین کے عہد نامہ کی خلاف ورزی نہیں ہے بلکہ اس کے مطابق تو جنگ دوبارہ ہونا چاہیے تاکہ دشمن کا خاتمہ ہوجائے ۔ آپ اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہیں :''وقد سبق استثناؤنا علیهما فی الحکم بالعدل والعمل بالحقّ سوء رأیهماوجور حکمهما ، والثّقةُ فی ایدینا بانفسنا حین خالفا سبیل الحق وآتیٰا بما لایعرف من معکوس الحکمِ ''(۲) ،ہم نے تو ان کی غلط رائے اور ناروا فیصلوں سے پہلے ہی ان سے شرط کرلی تھی کہ وہ عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے اور حق پر قائم رہنے میں بدنیتی اور ناانصافی کو دخل نہ دیں گے ، اب جب کہ انہوں نے راہ حق سے انحراف کیاہے اور طے شدہ قرار داد کے برعکس حکم لگایا ہے تو ہمارے ہاتھ میں ان کا فیصلہ ٹھکرادینے کے لئے ایک مستحکم دلیل اور معقول وجہ موجود ہے۔

امام علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں کی نظر میں شجرہ خبیثہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور فساد کے غدہ کو نکال باہر کرنے کے علاوہ کچھ نہ تھا او ر ان لوگوں کی پوری سعی وکوشش یہی تھی لیکن اچانک تاریخ نے ورق پلٹا اور یہ واقعہ اس فکرونظر کے برخلاف ہوگیا اور معاویہ سے جنگ کے بجائے، خوارج سے جنگ ایک قطعی مسئلہ کی صورت میں چھڑ گئی، اب اس وقت دیکھنا یہ ہے کہ آخر کون سی چیز سبب بنی کہ امام علیہالسلام کے صبروتحمل کا جام لبریز ہوگیا اورآپ کو ان لوگوں سے جنگ کرنے پر مجبور کردیا۔ اس مسئلہ کی علت کو دومندرجہ ذیل باتوں سے معلوم کرسکتے ہیں :

______________________

(۱)عہد نامہ کی عبارت یہ تھی :وان کتاب اللّٰه سبحانه وتعالیٰ بیننا عن فاتحته الیٰ خاتمته ، نحیی ما احیی القرآن ونمیت ماأمات القرآن فان وجد الحکمان ذالک فی کتاب اللّٰه اتبعناه وان لم یجداه اخذا بالسنة العادلة وغیر المفرقة ۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ص۲۳۴

(۲)نہج البلاغہ (عبدہ) خطبہ ۱۷۲

۷۱۹

۱۔ خبر ملی کی خوارج عبداللہ بن وہب راسبی کے گھر جمع ہوئے ہیں اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے عنوان سے جنگ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اسی مقصد کے لئے بصرہ میں موجود اپنے ہمفکروں کو خط لکھا ہے اور ان لوگوں کو دعوت دی ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو خوارج کی چھاؤنی '' خیبر'' کے پاس نہروان پہونچ جائیں ، بصرہ کے خوارج نے بھی اپنی آمادگی کا اعلان کردیاہے۔(۱)

۲۔دومة الجندل کے قاضیوں کے فیصلے نے ، کہ جس میںنہایت بے حیائی سے امام علیہ السلام کو ان کے منصب سے معزول اور معاویہ کو ان کی جگہ پر منصوب کیا گیا تھا، امام علیہ السلام کوعمومی افکار کے واضح کرنے پر مجبورکیا۔ یہی وجہ ہے کہ امام علیہ السلام کوفہ کے منبر پر تشریف لائے اور خدا کی حمدو ثنا کے بعد فرمایا:'' نیک، خیرخواہ اورصاحب علم وبصیرت شخص کی مخالفت حسرت وشرمندگی کاسبب ہے ، میں مسئلہ حکمیت اور ان دونوں آدمیوں کی قضاوت کے بارے میں منفی نظریہ رکھتا تھا لیکن تم لوگوں نے میرے نظریہ کو قبول نہیں کیا اور ان دونوں کو حاکمیت کے لئے معین کر دیا اور ان لوگوں نے اپنے عہد وپیمان کے برخلاف جس چیز کو قرآن نے مردہ کیا تھا اسے زندہ کردیا اور جس چیز کو قرآن نے زندہ کیا تھا اسے مردہ کردیا اور اپنے خواہشات نفس کی پیروی کی اور بغیر دلیل اور حجت کے حکم جاری کردیا ، اسی وجہ سے خدا وپیغمبر اور مومنین ان دونوں قاضیوں سے بری ء الذمہ ہیں ،جہاد کے لئے آمادہ اور شام چلنے کے لئے تیار ہوجاؤ ، اور دوشنبہ کے دن نخیلہ کی چھاؤنی کے پاس جمع ہوجاؤ، خدا کی قسم ! میں اس گروہ (شامیوں ) سے جنگ کروں گا ، اگرچہ ہمارے لشکر میں میرے علاوہ کوئی بھی باقی نہ رہے''۔

۳۔ امام علیہ السلام نے سوچا کہ جتنی جلدی ممکن ہو کوفہ چھوڑ کر صفین پہونچ جائیں ، آپ کے بعض دوستوں نے آپ سے کہا کہ بہتر ہے کہ خوارج جو ہمارے راستے سے دور ہوگئے ہیں انہیں بھی جنگ میں شریک ہونے کے لئے دعوت دیں ، اس وجہ سے امام علیہ السلام نے خوارج کے سرداروں کے پاس خط لکھا اور یاد دہانی کی کہ عمروعاص اورابوموسیٰ نے گناہ کیا ہے اور کتاب خدا کی مخالفت کی ہے اور اپنے خواہشات کی پیروی کی ہے نہ سنت پر عمل کیا ہے اور نہ ہی قرآن پر ، خدا اور اس کا رسول اور مومنین ان کے کرتوت سے بری ء الذمہ ہیں ، جب میرا خط تمہارے پاس پہونچے تو میری طرف آنے میں جلدی کرو تاکہ مشترک دشمن

سے جنگ کرنے کے لئے ایک ساتھ چلیں ۔

_______________________________

(۱) الامامة والسیاسة ج۱، ص ۱۳۲

۷۲۰

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809