فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)9%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 362302 / ڈاؤنلوڈ: 6025
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

امام رضاعلیہ السلام کیا کر رہے ہیں؟

مجبوراً  میں نے بھی (جیسے کہ میں مامون کو صاحب عزا اور مصیبت زدا سمجھ رہا تھا)مامون کو ان الفاظ میں تسلی دی:  عظم اللہ اجرک

مامون یہ غمگین خبر سنتے ہی اپنے گھوڑے سے نیچے اتر گیا ،گریبان کوچاک کر لیا، سر پر مٹی ڈالی اور بہت دیر تک بلند آواز سے روتا رہا، پھر اپنے دربار یوں کو حکم دیا: امام رضاعلیہ السلامکے جنازہ کو اچھی طرح تجہیز و تکفین کرو!

میں نے کہا: یہ کام پہلے ہی ہوچکا ہے۔

مامون کو کسی بھی ضرورت میں یہ امید نہ تھی کہ وہ یہ الفاظ،سنے گا اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ کوئی یہ جرات بھی کرسکتا ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر اس کے ولیعہد کو غسل و حنوط و کفن دے سکتا ہے اور اس کی نماز جنازہ پڑھا سکتا ہے، لہذا اس نے غصے کے ساتھ اعراض کیا:

یہ کام کس نے انجام دیا ہے؟!

میں نے مِن مِن کرتے ہوئے جواب دیا:

ایک لڑکا آیا تھا اس نے آپ کی تجہیز و تکفین کی یقینی طور پر میں اس کو نہیں جانتا لیکن میرا خیال ہے کہ وہ امام رضاعلیہ السلامکے بیٹے ہونگے۔(1)

جب میں نے یہ جملہ کہا تو میری جان ہونٹوں پر آگئی مجھے امید تھی کہ اس جملے کا ردّ عمل مامون کی طرف سے بہت سخت ہوگا لیکن مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہوا پھر مامون نے کوئی اعتراض نہ کیا فقط اتنا کہا کہ:

امام رضاعلیہ السلام کے لئے اس گنبد میں ایک قبر بنائیے جس میں میرا باپ دفن ہے۔میں پھر بولا اور کہا کہ: امام رضا علیہ السلام کی یہ خواہش تھی کہ آپ ان کے مراسم تدفین میں شروع سے آخر تک شریک رہیں۔

--------------

(1):-  امام جواد علیہ السلام کو ابن الرضا (یعنی فرزند امام رضاعلیہ السلام) کہا جاتا ہے.

۱۰۱

مامون نے جواب دیا: ٹھیک ہے انشااللہ میں شرکت کرونگا ۔

جس گنبد میں مامون دفن تھا اس کے نیچے ایک کرسی بچھائی گئی اور مامون اس پر بیٹھ گیا ۔ سب لوگ کھڑے ہوئے تھے ، کچھ مضبوط و ماہر قبر کھودنے والے ہاتھ میں کدالیں لئے ہوئے مامون کے حکم کے منتظر کھڑے ہوئے تھے کہ مامون نے اپنے باپ کی قبر کے پیروں کی زمین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس جگہ کو کھو دو!

وہ یہ چاہتا تھا کہ امام رضا علیہ السلام کو اپنے باپ کے پیروں کی طرف دفن کرکے آپ کی بے احترامی کرے اور لوگوں کی نظروں میں اپنے باپ کے مقام کو امام کے مقام سے بڑھادے۔

قبر کھودنے والوں نے زمین کو کھودنا شروع کیا لیکن بہت جلد ایک ایسے پتھر سے ٹکراگئے کہ جس کو کاٹنانا ممکن تھا، مجبور ہو کر انھوں نے کہا:

اگراس شہر کی تمام کدالیں لائی جائیں تب بھی کوئی فائدہ نہ ہوگا:

مجبوراً مامون نے اپنے نظریہ کو بدل دیا اور اپنے باپ کی قبر کے بائیں جانب کو کھودنے کے لئے کہا جب وہاں کوئی  مثبت نتیجہ نہ نکلا تو داہنی جانب قبر کھودنے کا حکم دیا لیکن یہاں پر بھی بائیں جانب کی طرح ایک نوک دار پتھر کا ٹیلا نکلا جس کو وہ کاٹ نہ سکے، جب مامون نے یہ دیکھ لیا کہ دائیں ، بائیں جانب قبر کھودنے میں بھی کامیابی حاصل نہ ہوئی تو وہ اس بات پر راضی ہو گیا کہ امام رضا علیہ السلامکی قبر مامون کی قبر کے سرہانے بنائی جائے۔

اس طرف کی زمین بہت آسانی سے کھدی گئی تا کہ مامون کی خواہش کے برخلاف اس کا باپ ہمیشہ امام رضا علیہ السلامکے قدموں کے نیچے رہے۔

امام رضاعلیہ السلامکی قبر کے سب سے آخری حصے کو میں نے کھودا، قبر کھودنے میں جو حادثات اور زحمات پیش آئے ان کی وجہ سے مامون بہت غصہ تھا لیکن اپنے غصہ کو چھپائے ہوئے تھا، اس کی پیشانی سے پسینہ ٹپک رہا تھا اور وہ بہت غور سے تمام مراسم کو دیکھ رہا تھا میں نے اپنی ہتھیلی کو قبر کی سطح پر رکھا اور جو کلمات مجھ کو امام رضا(ع) نے سکھائے تھے ان کو پڑھا ،

۱۰۲

اچانک قبر کے اندر سے پانی ابل پڑا یہاں تک کہ قبر پانی سے بھر گئی اس کے بعد (جیسا کہ پہلے امام رضاعلیہ السلامفرما چکے تھے)بہت ساری چھوٹی چھوٹی مچھلیاں پانی میں ظاہرہوئیں میں نےروٹی کے ٹکڑے کو چور کر پانی میں ڈال دیا ، چھوٹی مچھلیاں اس روٹی کو کھاگئیں پھر وہ بڑی مچھلی ظاہر ہوئی اور تمام چھوٹی مچھلیوں کو نگل گئی اس کے بعد وہ بڑی مچھلی بھی غائب ہوگئی، میں نے اپنے ہاتھ کو پانی پر رکھ کروہی کلمات دہرائے تو زمین پانی پی گئی اور قبر خکن ہوگئی!عجیب بات یہ اس وقت میں ان کلمات کو اس طرح بھول گیا کہ بہت کوشش کے بعد بھی ایک کلمہ تک نہ یاد کرسکا!

مامون اس منظر کو دیکھ کر حیرت زدہ اور شکستہ ہوگیا تھا اس نے میری طرف رخ کیا اور پوچھا:

کیا امام رضاعلیہ السلامنے تم کو حکم دیا تھا کہ یہ کام انجام دو؟

میں نے جواب دیا : ہاں!

جب مامون نے یہ جواب سنا تو کہا:

امام رضاعلیہ السلام ہمیشہ زندگی میں ہم کو عجیب و غریب  واقعات دکھاتے رہتے تھے اور انھوں نے اپنے انتقال کے بعد بھی یہی کام کردیا!

پھر مامون نے اپنے وزیر کی طرف رخ کیا اور پوچھا:

ان چیزوں (حادثات )کے کیا معنی ہیں؟!

وزیر نے بہت اچھا جواب دیا: میرا دل چاہ رہا تھا کہ یہ وہ کہہ دے جو میں چاہتا ہوں، ایسا ہی ہوا اور اس نے وہی کہا جو میں چاہتا تھا!

۱۰۳

وزیر:تم ان چھوٹی مچھلیوں کی طرح بہت زیادہ ہو لیکن تم لوگ صرف ایک مختصر سی مدت اس دنیا سے فائدہ اٹھا سکو گے اس کے بعد ایک شخص ان کے خاندان (خاندان امام رضا(ع)، خاندا ن اہل بیت)سے آئیگا اور تم سب کو ہلاک کردے گا!

اباصلت:جب تک امام رضاعلیہ السلام زندہ تھے اس وقت تک میں بھی آپ کی نوکری کے لباس میں رہ کر آقائی کرتا تھا اور کوئی بھی یہاں تک کہ خود مامون بھی مجھ کو کچھ بھی نہ کہہ سکتا تھا، لیکن جیسے ہی امام رضاعلیہ السلامکی وفات ہوئی میری بدبختی کا آغاز ہو گیا!

ابھی صحیح سے میرے قدم گھر تک نہ پھونچے تھے اور امام رضاعلیہ السلام کے دفن کی غبارمیرے کپڑوں سے صاف نہ ہوئی تھی کہ مامون کا قاصد میرے پاس آیا اور مجھے مامون کے دربار میں لے گیا۔

مامون نے مجھ سے کہا:

تم نے کہا تھا کہ جو کلمات تم نے قبر کے اندر پڑھے تھے وہ تم کو امام رضاعلیہ السلامنے سکھائے تھے اور  یہ بھی کہا تھا کہ تم ان کو پڑھنا تا کہ پانی آئے اور چلا جائے؟

جب مامون نے مجھ سے یہ سوال کیاتو میں جھوٹ بولنے والوں میں تو تھا نہیں، اگر میں جھوٹ بولنا بھی چاہتا تو مامون جیسے بے رحم و طاقتور انسان کے سامنے جھوٹ بولنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا چونکہ وہ کچھ بھی کرسکتاہے۔

آپ دیکھ ہی چکے ہیں کہ اس نے ہمارے امام(ع) کے ساتھ کیا کیاپھر میری کیا حیثیت ہے اور پھر یہ بھی ہے کہ میں اس بات کو پہلے بھی اس سے کہہ چکا تھا( کہ یہ کلمات مجھ کو امام(ع) نے سکھائے ہیں )

ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے جواب دیا:

جی ہاں ، اے امیر المؤ¶منین (مجھے یہ کلمات امام رضاعلیہ السلامنے سکھائے تھے اور ان کو پڑھنے کا حکم بھی دیا تھا)

مامون نے کہا: ٹھیک ہے اب وہ کلمات تم مجھ کو سکھاؤ¶: 

۱۰۴

یہ تو آپ لوگ جانتے ہی ہیں کہ ان کلمات میں سے ایک لفظ بھی مجھے یاد نہ رہا تھا اگر مجھے یاد ہوتے تو شاید میں اس وقت مامون کے ڈرسے ان کلمات کو سنادیتا!لہذا میرے پاس کوئی چارہ نہ تھا سوائے اس کے کہ میں حقیقت کو بیان کردوں اور حقیقت بھی ایسی کہ جو مامون کو اصلاً پسند نہ آئے ،میں نے کہا: اے امیر المؤ¶منین بڑے افسوس کی بات ہے کہ مجھے کچھ یاد نہیں آرہا ہے میں سب کچھ بھول گیا ہوں!

مامون کو یہ امید نہ تھی کہ میں اس کو منفی (نہیں میں )جواب دونگالہذا اس نے  چلاکر کہا:

اے ہرات کےبیہودہ انسان آدمی!امام رضاعلیہ السلامکہ جو تمہارے آقا تھے وہ بھی مجھ کو منفی جواب نہیں دیتے تھے، اب تم اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو؟! خدا کی قسم اگر تم نے وہ کلمات مجھے نہ سکھائے تو میں تم کو بھی اسی جگہ پہونچادونگا جہاں تمہارے مولاکو۔

قریب تھا کہ مامون نا چاہتے ہوئے بھی غصے کے عالم میں اپنے گناہ (قتل امام رضاعلیہ السلام) کا سب کے سامنے اعتراف کرلے لیکن اس نے خود کو کنٹرول کیا اور اپنے الفاظ کو بدلتے ہوئے کہا:

اگر تم نے مجھے وہ کلمات نہ سکھائے تو میں تمھیں اسی جگہ پر پہونجا دونگا جہاں تمہارے آقا چلے گئے ہیں!

میں کچھ نہیں کر سکتا تھا سوائے اس کے کہ قسم کھا کر حقیقت کی تکرا ر کروں، لہذا میں نے کہا: خدا کی قسم مجھے کچھ یاد نہیں آرہا ہے! خود امام رضاعلیہ السلامکی قسم ان کلمات میں سے ایک لفظ بھی میرے ذہن میں باقی نہیں ہے! بزرگوں کی قسم پیغمبرﷺکی قسم!

میرا یہ جواب سن کر مامون نے کہا: اس کو قید کرلو اور اس پر سختی کرو شاید اس کا حافظہ پلٹ آئے ورنہ وہ اپنی جان کھو بیٹھے گا۔

۱۰۵

جیسے ہی بے رحم مامون نے یہ بات کہی جلّادوں نے میری گریہ و زاری پر توجہ کئے بغیر مجھ کو کھینچتے ہوئے لے جا کر ایک اندھیرے اور ڈراؤ¶نے قید خانے میں ڈال دیا۔

اس وقت میری خوش نصیبی یہ تھی کہ مامون یہ چاہتا تھا کہ ان کلمات کو کسی بھی قیمت پر مجھ سے معلوم کرلے،اسی لئے وہ میرے قتل میں جلدی نہیں کر رہا تھا لیکن ذہنی طور پر مجھ پر دباؤ ڈالتا تھا اور روزانہ مجھے موت کی دھمکی دیتاتھا۔

میں  نہیں چاہتا کہ بات کو طول دے کر آپ کے سروں میں درد کروں لہذا مختصر یہ ہے کہ ایک سال اسی طرح گزر گیا اور اب میرے صبر کی انتہا ہوچکی تھی اور میرے سینے میں گھٹن ہونے لگی تھی، یہاں تک کہ میں نے شب جمعہ کو غسل کیا اور طلوع فجر تک جاگ کر اس رات کو رکوع، سجدہ اور تصرع و زاری میں گزار دیا، جیسے ہی میں نے نماز صبح پڑھی اچانک امام  جوادعلیہ السلامکو دیکھا کہ آپ میرے پاس آئے ! مجھ کو یقین نہ آیا میں نے سوچا کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں روتے ہوئے ڈور کر امام (ع)کےپیروں میں جا پڑا اور آپ کے قدم مبارک کو بوسہ دیا آپ نے میرے ہاتھوں کو پکڑا اور مجھ کو زمین سے اٹھاتے ہوئے فرمایا:(1) اےاباصلت تمہارا سینہ تنگ ہوگیاہے؟

میں نے ہچکچاتے ہوئے جواب دیا: جی ہاں،اے میرے  آقا، خدا کی قسم (میرا سینہ تنگ ہو گیا) امام(ع) نے مہربانی سے فرمایا: جو کام تم نے آج کیا ہے کاش کہ یہی پہلے کرلیا ہوتا تا کہ خدا تم کو جلدی نجات دیدتا جیسے کہ قیامت کے دن تم کو نجات دیگا!

میں نے خود سے کہا کہ امام(ع) درست فرمارہے ہیں، جیسے کہ ایرانیوں کے یہاں کہا وت ہے :

“گر گدا سستی کند ، تقصیر صاحب خانہ چیست؟”” اگر فقیر ہی سست ہو تو مکان مالک کی کیا خطا؟!“پھر آپ نے فرمایا: چلو زندان سے باہر چلیں۔اباصلت :کیا میں زندان سے باہر نکلوں ؟!

---------------

(1):- “مجھے یقین نہ آیا (کہ امام جواد علیہ السلام آئے ہیں) ایسا لگا کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں میں دوڑپڑا اور روتے ہوئے آپکے قدموں میں جا گرا، آپ(ع)پیروں کا بوسہ لیا امام (ع)نے میرے ہاتھوں کو پکڑ کر مجھکو کھڑا کیا “ یہ عبارت اباصلت کی روایت میں موجود نہیں ہے ہم نے اس کو حالات کے تقاضاے کی بنا پر اضافہ کیا ہے.

۱۰۶

کاا آپ نے نہیں دیکھا کہ نگباون باہر کھڑے ہوئے ہیں اور ان کے سامنے چند چراغ ہیں جنہوں نے ہر جگہ کو دن کی طرح روشن کر رکھا ہے۔امام جوادعلیہ السلام : فکر نہ کرو، وہ تم کو نہیں دیکھیں گے!

اباصلت : میں اس فکر میں ہوں کہ اگر اب وہ مجھےنہ بھی دیکھیں اور میں زندان سے نکلنے میں کامیاب ہو جاؤ پھر بھی کل وہ لوگ مجھے اسی اطراف میں گرفتار کرلیں گے اور پھر میری حالت اس وقت سے بھی بدتر ہو جائیگی۔

باوجود اس کے کہ امام(ع)  کا مقام بہت بزرگ ہوتا ہے پھر بھی امام (ع) نے اس بات کو نظر انداز کردیا کہ میں کئی سال امام (ع) کی خدمت میں رہ کر بھی ان کی معرفت حاصل نہ کرسکا (آپ نے مجھے کوئی توبیخ و تنبیہ نہ کی)آپ (ع)نے فرمایا:میں کہہ چکا ہوں کہ تم فکر نہ کرو اب تمہارا آخر عمر تک ان لوگوں سے کوئی واسطہ نہ پڑیگا ۔ (کبھی سامنا نہ ہوگا!)

اس کے بعد آپ نے میرا ہاتھ پکڑا جب کہ نگبانن بیٹھے ہوئے آپس میں باتیں کررہے تھے، چراغ روشن تھے امام نے مجھے ان لوگوں کے سامنے سے گزارا اور بغیر اس کے کہ وہ لوگ مجھے دیکھیں آپ نے مجھے زندان سے  نکال دیا۔

قید خانہ سے باہر آزاد ہوا  میں نے ابھی صرف ایک گہری سانس ہی لی تھی کہ امام(ع)نے میری طرف رخ کرکے پوچھا:

 اب تم کونسی سرزمین پر جانا چاہتے ہو؟

میرے لئے یہ بات بری نہیں تھی سالوں بعد اپنے آباءواجداد کی سرزمین پر واپس چلا جاؤ¶ں،میں نے فوراً جواب دیا:

میں اپنے گھر ہرات جانا چاہتا ہوں!امام(ع) نے فرمایا : اپنی عبا کو اپنے چھرے پر ڈالو اور میرا ہاتھ پکڑلو!

میں نے ایسا ہی کیا مجھے احساس ہوا کہ امام جوادعلیہ السلام نے مجھ کو اپنی داہنی جانب سے بائیں جانب کھینچا ہے ، پھر آپ نے مجھ سے فرمایا: اب عبا کو چہرے سے ہٹالو۔جیسے ہی میں نے آنکھوں سے عبا کو ہٹایا دیکھا کہ امام جوادعلیہ السلام کی کوئی خبر نہیں ہے اور میں ہرات میں اپنے گھر کے دروازے کے باہر کھڑا ہوں میں گھر میں داخل ہوا!اس کے بعد سے اب تک نہ میں نے مامون کو دیکھا اور نہ ہی اس کے کسی آدمی کو!(1)

--------------

(1):-  بحارالانوار ، ج 50 ، ص 49-52 و ج 49 ، ص 300-303، بہ نقل از عیون اخبار الرضا ، ص 242-245.

۱۰۷

شہادت کے بعد امام رضا علیہ السلام کا کلام کرنا !

شاید آپ کو یہ بات نہ معلوم ہو کہ مامون کس قدر مکار (لومڑی صفت انسان)تھا!میرے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ خود اسی نے امام رضاعلیہ السلامکو شہید کیا ہے لیکن وہ امام رضاعلیہ السلام کے جنازے اور تشییع و تدفین میں اس طرح مگر مچھ کے آنسو رورہا تھا کہ جو بھی اس کو دیکھتا تھا سوچتا تھا کہ وہ معاذ اللہ وہ امام جواد علیہ السلام سے بھی زیادہ سوگوار و غمگین ہے! مثال کے طور پر ، وہ امام رضا(ع)کے تشییع جنازہ کے مراسم میں مصیبت زدہ کی طرح کھلے سر ، ننگے پیر ، اور بٹن (پیراہن کے بند)و غیرہ کھولے ہوئے جنازے کے پیچھے چل رہا تھا اور موسم بہار کے بادلوں کی طرح آنسو بہا رہا تھا اور کہہ رہا تھا:

اے بھائی!آپ کی موت سے بنائے اسلام میں ایک عظیم شگاف پیدا ہواگیا ہے ، میری تمنائیں آپ کے بارے میں پوری نہ ہوسکیں ، میری تدبیر پر خدا کی تقدیر غالب آگئی میں یہ چاہتا تھا کہ آپ تخت خلافت پر بیٹھیں لیکن خدا نے آپ کے لئے کچھ اور مقدر کیا تھا۔(کچھ اور ارادہ کر لیا تھا)لیکن بہتر ہوگا کہ آپ جان لیں کہ، جس طریقے سے امام رضاعلیہ السلامنے اپنی شہادت سے پہلے مامون کے فریب اور مکاریوں سے پردہ اٹھادیا تھا اور خبر دیدی تھی کہ آپ(ع) اس ملعون کے ہاتھوں شہید ہونگے اسی طریقے سے آپ نے اپنی شہادت کے بعد بھی اعجاز الہی کے ذریعے ایک مرتبہ پھر (مختصر طور پر ہی سہی لیکن)ان گناہگاروں، خونخواروں اور قدرت پر ستوں کے چہرے سے نقاب ہٹادیا۔آپ کو معلوم ہوگا کہ بظاہر میرے بعد سب سے پہلے امام رضاعلیہ السلام کے جنازے پر  مامون کے حاضر ہونے کے بعد مجھے اس بات کی اجازت نہ تھی کہ میں امام رضاعلیہ السلام کے بدن مطہر کے قریب رہوں لیکن جیسے ہی مامون، امام رضاعلیہ السلامکے جنازے سے گدور ہوا میں فوراً  آپ کے قریب آگیا اچانک میں نے دیکھا کہ امام رضاعلیہ السلام نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور فرمایا:اے اباصلت یہ جو کچھ چاہتے تھے وہ انھوں نے کردیا ہے!

پھر آپ خدا وند عالم کے ذکر اور حمد و ثنا میں مشغول ہوگئے اس کے بعد آپ نے آنکھیں بند کیں اور ہمیشہ کے لئے خاموشی اختیار کرلی!(1)

---------------

(1):-  عجایب و معجزات شگفت انگیزی از امام رضا (ع)، ص 124 ، بہ نقل از کتاب جلاء العیون.

۱۰۸

زبان حال امام رضا علیہ السلام اباصلت سے

ای اباصلت بیا ساعتی اندر بر من                 

از رہ مہر و وفا باش دمی یاور من

(اے اباصلت میرے قریب آؤ اور محبت و وفاداری کے ساتھ کچھ دیر میرے پاس بیٹھے رہو)

زہر ہارون لعین ، کار مرا کردہ تمام              

آتش انداختہ اندر دل پر آذر من

(ہارون ملعون کے زہر نے میرا کام تمام کردیا ہےاور میرے مضطرب دل کو جلا دیا ہے)

کاش می بود طبیبی دم مردن بہ سرم              

تا کند چارہ ی درد دل پر آذر من

(اے کاش وقت مرگ (موت) میرے پاس کوئی طبیب ہوتا جو میرے پریشان دل کا علاج کر سکتا)

ای اباصلت برو زود در خانہ ببند          

کہ مرا نیست انیسی بہ جز از داور من

(اے اباصلت جلدی جاؤ دروازہ بند کرو ، چونکہ خدا کے علاوہ یہاں میرا کوئی مونس و یاور نہیں ہے)

تا غریبانہ بمیرچو شہ  کرب و بلا         

فرش بر چین و بیا جمع کن این بستر من

(میں شہ مظلوم کربلا امام حسین(ع) کی طرح غریب الوطن اس دنیا سے چلا جاؤں گا، اب یہ فرش سمیٹ لو اور میرا بستر جمع کرلو)

۱۰۹

جان بہ لب آمدہ و ماندہ مرا چشم بہ راہ          

تا بیاید تقی آن روح و دل و پیکر من

(میری جان ہونٹوں پر آگئی ہے اور میری آنکھیں راہ پر لگی ہوئی ہے، کہ میرا بیٹا میری روح، میرا دل،میرا پیکر محمد تقی(ع) آجائے)

چون در این شہر کسی نیست مرا محرم راز         

تا پیامی برد از من بہ سوی خواہر من

(چونکہ اس شہر میں میرا کوئی ہمراز نہیں ہے جو میری بہن کے پاس میرا پیغام پہونچا سکے)

نامہ ای بہر خدا سوی مدینہ بفرست              

گو بہ آن خواہر معصومہ ی غم پرور من

(اس لئے خدا کے واسطے ایک خط مدینہ کی طرف بھیجنا اور میری جانب سے میری سوگوار ، غمزدہ اور معصومہ بہن سے کہنا)

خواہرا، جای تو خالی است کہ از راہ وفا            

در دم مرگ، بہ زانو بگذاری سر من

(اے بہن، آپ کی جگہ خالی ہے کاش کے آپ ہوتیں تو محبت اور وفاداری کے ساتھ وقت مرگ میرے سر کو اپنے زانو پر رکھ لیتیں)

۱۱۰

آرزو بود سوی قبلہ کشی پای مرا         

یا ببندی ز رہ مہر، دو چشم تر من

(میری آرزو تھی کہ آپ میرے پیروں کو قبلہ کی طرف کرتیں یا محبت سے میری آنسؤں سے بھیگی ہوئی دونوں آنکھوں کو بند کردیتیں)

وعدہ ی ما و تو دیگر بہ قیامت افتاد               

در جنان ، خدمت جد و پدر و مادر من

(اب ہمار ا وعدہ(ملاقات) قیامت کے دن جنت میں اپنے اجداد اور پدر و مادر کے خدمت میں پہونچ کر پورا ہوگا)

امشب از بہر من ای ذاکر اگر کریہ کنی           

در صف حشر بود اجر تو با داور من

(ذاکر اگر آج رات تم میرے غم میں روؤگے تو روز قیامت تمھارا اجر و ثواب میرے پروردگار کے پاس موجود ہوگا)

۱۱۱

تیسری فصل:

ابا صلت کے سوالات

     اس فصل میں ہم نے کچھ ایسی روایات بیان کی ہیں کہ جن میں اباصلت نے امام رضا علیہ السلام سے سوالات کئے ہے اور آپ نے ان سوالوں کے جواب دیئے ہںس۔

شا دت امام حسین علیہ السلام

میں(ابا صلت)نے امام رضاعلیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا:

فرزند رسول ﷺکوفہ کے اطراف میں ایک گروہ ہے جن کا نظریہ ہے کہ ”حسین بن علی علیہ السلامقتل نہیں ہوئے بلکہ جناب عیسیٰ کی طرح وہ بھی آسمان پر چلے گئے ہںن “۔

یہ عقیدہ اسعد بن شامی کے بیٹے نے لوگوں میں پھیلا دیا ہے وہ اس عقیدے پر اس آیت کو دلیل بناتا ہے :

﴿وَلَن يَجْعَلَ اللّهُ لِلْكَافِرِینَ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ سَبِیلًا﴾ (1)

خدا وند عالم نے ہرگز کافروں کو مومنین پر مسلط ہونے کا اختایر نہیں دیا ہے۔

امام رضاعلیہ السلامنے جواب دیا:

وہ لوگ جھوٹ کہتے ہںہ ان پر خدا کی لعنت اور عذاب نازل ہو!

پیغمبرﷺ  کا فرمان ہے کہ حسین علیہ السلامقتل کیا جائے گا، اور یہ لوگ فرمان رسول ﷺکو جھوٹلاتے ہیں لذیا یہ لوگ کافر ہو گئے ہے۔

----------------

(1):-  سورہ نساء (4)، آیت 141.

۱۱۲

خداکی قسم!امام حسین علیہ السلامقتل ہو گئے،امیرالمؤمنین علی علیہ السلام اور امام حسن مجتبےٰعلیہ السلامبھی قتل ہو گئے ہیں، ہم اماموں میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جسے قتل نہ کیا جائےگا ۔

خدا کی قسم میں بھی دشمن کے زہر سے شہید ہو جاؤنگا، یہ بات مجھ کو رسول خداﷺ سے معلوم ہوئی ہےاور آپ کے پاس جبرئیل یہ خبر خدا کی طرف سے لائےتھے۔

خدا وند عالم کا یہ فرمان کہ :

﴿وَلَن يَجْعَلَ اللّهُ لِلْكَافِرِینَ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ سَبِیلًا﴾ (1)

اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا وند عالم نے کافروں میں مؤمنوں کے لئے کوئی حجت نہیں رکھی ہےدلیل یہ ہے کہ خدا وند عالم نے قران کریم میں ایےر کافروں کا بھی ذکر کیا ہے کہ جنہوں نے پیغمبروںﷺکو نا حق قتل کیا ہے اور باوجود اس کے کہ ان کافروں نے پیغمبروں کا قتل کیا ہے کافرین قتل اور ظلم و ستم کے اعتبار سے تو انبیاء پر مسلط ہوئے ہیں لیکن خدا وند عالم نے ہدایت و حجت کے اعتبار سے کافروں کو انبیاعلیہم السلام پر کوئی تسلط و اختیار نہیں دیاہے۔(2)

--------------

(1):-  سورہ ی نساء (4)، آیت 141.

(2):-  مسند الرضا، ج1، ص 86 و ج 2، ص 504 ، عیون اخبار الرضا ، ج 2 ، ص 203.

۱۱۳

امام زمانہ علیہ السلام  کا انتقام

(اباصلت:)میں نے ایک روز امام رضاعلیہ السلامسے سوال کیا:  

فرزند رسول !امام صادقعلیہ السلامسے روایت ہے کہ جب امام زمانہ(عج) خروج کریں گے تو امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں کی اولاد کو انکے اجداد کے کرتوت کی بنا پر قتل کریں گے؟ اس سلسلے میں آپ کا کیا نظریہ ہے ؟

امام رضاعلیہ السلامنے فرمایا:

ہاں ایسا ہی ہے۔

میں نے تعجب کے ساتھ پوچھا:

قرآن کریم کی اس آیت کے کیا معنی ہے ؟     

﴿وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى﴾ (1)

کسی کے گناہ کا بوجھ کسی دوسرے کے کاندھوں پر نہیں ہے۔

امام رضاعلیہ السلامنے اس طریقے سے وضاحت فرمائی کہ:خدا وند عالم نے اپنے تمام اقوال میں سچائی سے کام لیاہے،لیکن بات یہ ہے کہ قاتلان امام حسین علیہ السلامکے اولاد ہے اپنے باپ،داداؤں کےکام سے راضی اور خوشنود ہے اور انکے کام پر فخر کرتی ہے اور جو انسان جس کام سے راضی ہو ایسا ہے کہ گویا اس نے وہ کام خود انجام دیا ہے ۔یعنی اگر کوئی انسان مشرق میں قتل کیا جائے اور مغرب میں کوئی شخص اسکے قتل سے راضی ہو تو راضی ہونے والا شخص خدا کی بارگاہ میں قاتل کا شریک مانا جاتاہے ۔اور جب امام زمانہ(عج) خروج کریں گے تو اسی وجہ سے (راضی ہونے کی وجہ سے)قاتلین امام حسین علیہ السلام کی اولاد نامراد کو قتل کریں گے۔(2)

--------------

(1):-  سورہ انعام(6)، آیت 164.

(2):- بحارالانوار، ج 45 ، ص 295 ، مسند الرضا، ج 1 ص 146، عیون اخبار الرضا، ج1، ص 173، علل الشرایع، باب 164 ، ص 226.

۱۱۴

امام زمانہ علیہ السلام کی ظاہری علامات

میں (اباصلت)نے امام رضاعلیہ السلام سے عرض کیا :

جب قائم آل محمد ﷺ ظہور فرمائیں گے تو آپ کی کیا نشانیاں ہونگی؟

امام رضا علیہ السلامنے ارشاد فرمایا:

وہ عمر کے اعتبار سے بزرگ لیکن صورت کے اعتبار سے جوان ہونگے یہاں تک کہ دیکھنے والے یہ گمان کریں گے کہ آپ چالیس یا اس سے بھی کم سال کے ہیں ۔

آپ کی ایک علامت یہ ہے کہ دن و رات گزرنے کے باوجود آپ (ع)بوڑھے نہیں ہوتے اور آپ کے جسم میں سستی نںی  آتی، یہاں تک کہ اسی طرح آپ کی عمر تمام ہو جا ئےگی اور آپ رحلت کر جائیں گے۔(1)

--------------

(1):- بحارالانوار، ج 52، 285- منتخب الاثر، ص 284-اکمال الدین، ص652-الخرائج و الجرائح، ج 30 ، ص 1170-اعلام الوری، ص 465.

۱۱۵

زیارت خدا کا مطلب

ایک مسئلہ مدتوں سے میرے (اباصلت) ذہن کو مشغول کئے ہوئے تھا میں نے اس کے بارے میں امام رضا علیہ السلامسے سوال کیا:(1) اے فرزند رسولعلیہ السلام!آپ  کا نظریہ اس حدیث کے بارے میں کیا ہے کہ ”قیامت کے دن مؤمنین جنت میں اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے اپنے پروردگار کی زیارت کریں گے؟ “

امام رضاعلیہ السلام نے ارشاد فرمایا :اے ابا صلت !خدا وند تبارک و تعالیٰ نے اپنے پیغمبر محمدﷺکو پیغمبروںﷺ، فرشتوں گویا کہ تمام مخلوقات پر برتری عطاکی ہے اور انکی اطاعت کو اپنی اطاعت، انکی بیعت کو اپنی بیعت اور انکی زیارت کو اپنی زیارت جانا ہے (کہا ہے)اور فرمایا ہے :

﴿مَّنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّهَ﴾ (2)

جس نے رسول کی اطاعت کی گویا اس نے میری اطاعت کی ہے۔ اور پھر یہ بھی فرمایا ہے :    

﴿إِنَّ الَّذِینَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِیهِمْ﴾ (3)

اے پیغمبرﷺ! جو لوگ تمہاری بیعت کر رہے ہںد انہوں نے خدا کی بیعت کی ہے(یعنی خدا کو بیعت کے لئے ہاتھ دیا ہے)اور خدا کا ہاتھ انکے ہاتھوں کے اوپر ہے۔ اور پیامبر گرامیﷺ نے بھی ارشاد فرمایا ہے :

مَن زارَنی فی حَیاتی اَو بَعدَ مَوتی فَقَد زاراللهَ

جو شخص میری زندگی میں یامیرے مرنے کے بعد میری زیارت کرے گا ایسا ہے کہ اس نے خدا کی زیارت کی ہے۔(4)

-------------

(1):-  اباصلت نے جو سوالات امام رضا(ع)سے کئے ہیں ہو سب صرف ایک بیٹھک میں نہیں کئے ہیں ہم نے ان سب کو اس کتاب میں الگ فصل میں جمع کردیا ہے.

(2):-  سورہ ی نساء (4)، آیت 80.

(3):-  سورہ ی فتح(48)، آیت 10.

(4):-  بحار الانوار ، ج 4، ص 3 و ج 8، ص 119.

۱۱۶

چہرہ خدا کو دیکھنے کا مطلب

میں (اباصلت)نے امام رضاعلیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا :

اے فرزند رسول ﷺ!اس روایت کا کیا مطلب ہے کہ ”لا ا لهٰ الا اللہ“ کا ثواب خدا کا دیدار ہے“؟

امام نے فرمایا :        اے ابا صلت!اگر کوئی یہ کہے کہ تمام چہروں کی طرح اللہ کا بھی ایک چہرہ ہے تو وہ کافر ہے۔

خدا کے چہرے (وجہ اللہ)سے مراد خدا کے انبیا(ع) اور مرسلین اور اسکی حجت ہں  ، ان ہی کے ذریعہ لوگوں نے خدا ،دین خدا اور اسکی معرفت کی طرف رخ کیا ہے اور خدا کی طرف متوجہ ہوئے ہںد۔خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے :

﴿كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ(26) وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ(27)﴾ (1)

جو کچھ بھی زمین پر ہے، سب کا سب فنا ہونے والا ہے اور صرف تمہارے پروردگار کا چہرہ (وجہ)باقی رہے گا۔

نیز خداکا فرمان ہے:

﴿كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ﴾ (2)

تمام چیزیں ہلاک ہونے والی ہیں سوائے چہرہ خدا کے۔

پس انبیا (ع)و مرسلین اور خدا کی حجتوں کو جنت میں انکے مقامات و درجات پر دیکھنا مؤمنین کے لئے قیامت کے دن بہت زیادہ ثواب رکھتا ہے۔چنانچہ پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایا: جو شخص میرے خاندان و اہل بیتعلیہم السلامکو دشمن رکھتا ہوگا وہ کسی بھی صورت میں مجھے نہ دیکھ سکے گا ۔اور یہ بھی فرمایا:تم لوگوں میں سے کچھ ایسے ہے جو میرے گزرنے کے بعد ہرگز مجھ کو نہیں دیکھ پائںا گے۔اے اباصلت !مکان کے ذریعہ خدا وند عالم کی توصیف نہیں کی جا سکتی ، آنکھوں اور عقلوں کے ذریعہ اس کو درک نہیں کیا جا سکتا۔

--------------

(1):- سورہ الرحمن (55)، آیات 26و27.

(2):- سورہ ی قصص(28)، آیت آخر 88.

۱۱۷

جنت اور جہنم خلق ہو چکی ہیں اور موجود میں

میں (اباصلت)نے امام رضاعلیہ السلام سے عرض کیا :اے فرزند رسولعلیہ السلام!یہ بتائںل کہ کیا  جنت اور جہنم خلق ہو چکی ہیں اور اس وقت موجود ہیں ؟امام رضاعلیہ السلام نے یقین کے ساتھ جواب دیا:بے شک موجودہیں کیونکہ جب رسول اکرم ﷺ کو معراج پر لے جایا گات تو آپ جنت میں داخل ہوئے تھے اور آپ نے دوزخ کو بھی دیکھا تھا ۔اباصلت کہتے ہںل کہ میں نے اپنے سوال کو آگے بڑھایا اور کہا: بعض لوگ کہتے ہیں کہ اللہ نے جنت اور جہنم بنانے کا ارادہ کر لیا ہے لیکن ابھی انکو پیدا نہیں کیا ؟امام رضا علیہ السلام اس عقیدے پر غصہ ہوئے اور فرمایا:نہ وہ گروہ ہم سے ہے اور نہ ہم ان سے ہیں !جو شخص جنت و جہنم کا انکار کرے اس نے رسول خدا ﷺ اور ہم کو جھوٹا کہا ہے، اس نے ہماری ولایت سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا وہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں رہےگا۔چونکہ خدا وند عزو جل فرماتا ہے:

﴿هَذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِی يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ(43) يَطُوفُونَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ حَمِیمٍ آنٍ (44)﴾ (1)

یہ وہی جہنم ہے کہ جسکو گناہگار لوگ جھٹلاتے ہیں(انکار کرتے ہیں) جب کہ یہ لوگ اسی جہنم اور کھولتے ہوئے پانی میں رہیں گے۔پیغمبر اسلامﷺ ارشاد فرماتے ہےکہ :جب مجھ کو آسمان پر لے جایا گا  جبرئلی نے ہاتھ پکڑ کر مجھے جنت میں داخل کر دیااور جنت کے خرمے سے میری مہمان نوازی کی جب میں نے اسے کھایا تو وہ خرما میرے صلب میں نطفہ سے  تبدیل ہو گیا ،جب مجھے زمین پر واپس لایا گاا تو میں نے خدیجہ کے ساتھ مجامعت کی اور وہ اس نطفہ سے (فاطمہ سلام اللہ علیھا کی) حاملہ ہوگئیں ،فاطمہ سلام اللہ علیھا انسان کی شکل میں ایک فرشتہ ہے جب میں جنت کی خوشبو سونگھنا چاہتا ہوں تو اپنی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیھا کو سونگھ لیتا ہوں۔(2)

--------------

(1):-  سورہ ی الرحمن(55)، آیات 43و44.

(2):- بحارالانوار، ج4، ص3و4و ج8، ص119. عیون اخبار الرضا، ج1 ص 115، توحید صدوق، ص 117، امالی الصدوق ، ص 372.

۱۱۸

قوم نوح علیہ السلام کے بچوں اور بے گناہوں کی ہلاکت کاسبب

میں (اباصلت)نے امام رضا علیہ السلامسے سوال کیا : کیا وجہ ہے کہ جناب نوح علیہ السلام کے زمانے کے تمام لوگ ہلاک ہو گئے، جب کہ ان میں کچھ بے گناہ انسان اور بچے بھی تھے؟

امام رضاعلیہ السلام نے بڑا دلچسپ جواب دیا آپ  نے فرمایا: غرق ہونے والوں میں ایک بھی بچہ نہ تھاکیوں کہ اللہ تعالیٰ نے طوفان نوح علیہ السلامسے چالیس سال پہلے جناب نوح علیہ السلام کی قوم کے مردوں اور عورتوں کو بانجھ کر دیا تھاپس غرق ہونے کے وقت سب کے سب بڑے اور بزرگ تھے، کوئی بھی بچہ ان کے درمیان میں نہ تھا۔

خدا وند عالم ہرگز کسی بے گناہ کو اپنے عذاب سے ہلاک نہیں کرتا۔

لیکن قوم نوح علیہ السلام کے جو افراد غرق ہوئے انکے دو گروہ تھے یا تو ایسے لوگ تھے جو پیغمبرﷺ خدا یعنی حضرت نوح علیہ السلام کا انکار کرتے تھے یا پھر وہ افراد تھے کہ جو انکار کرنے والوں کے انکار پر راضی تھے اور جو شخص کسی کام میں حاضر نہ ہولیکن اس کام (جو لوگوں نے کیا ہے) سے راضی ہو تو وہ اس کی طرح ہے کہ جو حاضر رہا ہواور اس نے کام کو انجام دیا ہو۔(1)

--------------

(1):- بحارالانوار، ج5، ص283، مسند الامام الرضا، ج1، ص54، عیون اخبار الرضا، ج2، ص75، توحید صدوق، ص 392، علل الشرایع، ج1، ص30.

۱۱۹

چوتھی فصل:

روایات اباصلت

مخالفین شیعہ کا جواب دینے کے لئے جو روایات اباصلت نے نقل کی  ہںن (اور ان کی سند کو رسول اکرم ﷺ تک پہونچایا ہے)وہ بہت زیادہ ہیں ہم اس کتاب میں ان تمام کو نقل نہیں کرنا چاہتے لیکن برکت کے لئے ان میں سے چند روایات کتاب کے اس حصہ میں ذکر کر رہے ہیں۔

ایمان کی حقیقت

پیامبر اکرم ﷺ نے فرمایا:

الایمانُ قولٌ و عَمَلٌ (1)

ایمان قول اور عمل کا نام ہے۔

الایمانُ قولٌ بِاللِسانِ وَ مَعرِفَةٌ بِالقَلبِ وَ عَمَلً بِالارکانِ (2)

ایمان، زبان سے اقرار، دل سے معرفت ، اور ارکان (بدن)سے عمل کرنے کا نام ہے۔

--------------

(1):-  خصال الصدوق، ص 53و 179، مسند الامام الکاظم،ج1، ص 259.

(2):-  امالی شیخ طوسی، ج2، ص63. (بعض روایات میں “عمل بالارکان” کے بدلے “عمل باالجوارح” آیا ہے)

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

ابن عباس : فیصلہ کرنے والوںکا مرتبہ امام علیہ السلام کے مرتبہ وعظمت سے بلند نہیں ہے۔ جب بھی مسلمانوں کا امام غیر شرعی کام کرے تو امت کو چاہیے کہ اس کی مخالفت کرے ، تو پھر اس قاضی کی کیا حیثیت جو حق کے خلاف حکم کرے؟

اس وقت خوارج لاجواب ہوگئے اور انہوں نے شکست تو کوردل کافروں کی طرح دشمنی اور ہٹ دھرمی پر اتر آئے اور ابن عباس پر اعتراض کیا اور کہا: تم اسی قریش کے قبیلے سے ہو جس کے بارے میں خدا نے کہا ہے: ''بَل هُم قوم خصِمُون '' (زخرف: ۵۸) یعنی قریش جھگڑالوگروہ ہے۔ اورنیز خدا نے کہا ہے: ''وتُنذر به قوماً لدّاً '' (مریم :۹۷) قرآن کے ذریعے جھگڑالوگروہ کو ڈراؤ۔(۱)

اگر وہ لوگ حق کے طلبگار ہوتے اورکوردلی ، اکٹر اور ہٹ دھرمی ان پر مسلط نہ ہو تو ابن عباس کی محکم و مدلل معقول باتوں کو ضرور قبول کرلیتے اور اسلحہ زمین پر رکھ کر امام علیہ السلام سے مل جاتے اور اپنے حقیقی دشمن سے جنگ کرتے ، لیکن نہایت ہی افسوس ہے کہ امام علیہ السلام کے ابن عم کے جواب میں ایسی آیتوں کی تلاوت کی جو مشرکین قریش سے مربوط ہیں نہ کہ قریش کے مومنین سے۔

حَکَم کی طرف رجوع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن نے ان لوگوں کو چھوٹے چھوٹے جھگڑوں میں بھی مثلاً گھریلو اختلاف کو حل کرنے کے لئے جائز قرار دیا ہے اور اس کے نتیجے کو دونوں طر ف کے حسن نیت کو نیک شمار کیا ہے ،جیسا کہ ارشادہواہے :( وان خِفتُم شقاق بینهما فابعثوا حکماً من اهله و حکماً من أهلِها ان یریدا اصلاحاً یوفِقُ اللّٰهُ بینهما ان اللّٰه کان علیماً خبیراً ) (سورہ نساء : ۳۵)'' اور اگر تمہیں میاں بیوی کی نااتفاقی کا خوف ہو تو مرد کے کنبہ سے ایک حکم اور زوجہ کے کنبہ سے ایک حکم بھیجواگر یہ دونوں میں میل کرانا چاہیں گے تو خدا ان کے درمیان اس کا موافقت پیدا کردے گا، خدا تو بے شک واقف وبا خبر ہے''۔

______________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲، ص ۲۷۳۔بحوالہ کامل مبرد ( ص ۵۸۲ مطبوعہ یورپ)۔

۷۰۱

یہ ہر گز نہیں کہا جا سکتا کہ امت کا اختلاف تین مہینے کی شدید جنگ کے بعد میاں اور بیوی کے اختلاف سے کم ہے لہذا یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ اگر امت دونوں طرف سے دو آدمیوں کے فیصلے کو قرآن وسنت کی روشنی میں چاہے تو کام انجام دیا ہے اور کفر اختیار کیا ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ توبہ کرے(۱)

ان آیتوں پر توجہ کرنے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خوارج کا مسئلۂ حکمین کو غلط کہنا سوائے ہٹ دھرمی ، دشمنی اور انانیت کے کچھ نہ تھا۔ ابن عباس نے صرف ایک ہی مرتبہ احتجاج نہیں کیا بلکہ دوسری مرتبہ بھی امام علی السلام نے ان لوگوں کی ہدایت کے لئے ابن عباس کو بھیجا اور اس پر گواہ یہ ہے کہ انہوں نے پچھلے مناظرہ میں قرآنی آیتوں سے دلیلیں پیش کی تھیں، جب کہ امام علیہ السلام نے اپنی ایک گفتگو میں انہیں حکم دیا تھا کہ خوارج کے ساتھ پیغمبر کی سنت سے مناظرہ کریں ، کیونکہ قرآن کی آیتوں میں بہت زیادہ احتمال اور مختلف توجیہیں کی جا سکتی ہیں اور ممکن ہے خوارج ایسے احتمال کو لیں جو ان کے لئے مفید ہو، جیسا کہ حضرت فرماتے ہیں: ''لا تخاصِمهم بالقرآن ، فان القرآن حمّال ذو وجوهٍ تقول ویقولون ولکن حاججهُم بالسُّنة فانّهُم لن یجدوا عنها محیصاً ''(۲) خوارج کے ساتھ قرآن کی آیتوں سے مناظرہ نہ کرو کیونکہ قرآن کی آیتوں میں بہت سے وجوہ و احتمالات پائے جاتے ہیں اس صورت میں تم کچھ کہو گے اور وہ کچھ کہیں گے ( اور کوئی فائدہ نہ ہوگا) لیکن سنت کے ذریعے ان پر دلیل قائم کرو تو قبول کرنے کے علاوہ کوئی راستہ ان کے پاس نہ ہوگا۔

خود امام علیہ السلام کا خوارج کی چھاؤنی پر جانا

جب امام علیہ السلام عظیم اور بزرگ شخصیتوں مثلاً صعصعہ بن صوحان عبدی ، زیاد بن النضر اور ابن عباس وغیرہ کو ان کے پاس ہدایت وراہنمائی کے لئے بھیجا مگر مایوس ہوئے تو خود آپ نے ارادہ کیا ان کے پاس جائیں تاکہ پوری تشریح ، وضاحت کے ساتھ حکمین کے قبول کرنے کے مقدمات اورعوامل و اسباب کو ان کے سامنے بیان کریں اور یہ بتائیں کہوہ لوگ خود اس کام کے باعث بنے ہیں( مجبور کیا تھا)، شاید اس کے ذریعے تمام خوارج یا ان میں سے کچھ لوگوں کو فتنہ وفساد سے روک دیں ۔

______________________

(۱) میاں اور بیوی کے اختلاف سے مربوط یہ آیت امام علیہ السلام کی دلیلوں میں بیان کی جائے گی ۔

(۲)شرح نہج البلاغہ مکتوب نمبر ۷۷۔

۷۰۲

امام نے روانہ ہوتے وقت صعصعہ سے پوچھا: فتنہ وفساد کرنے والے خوارج کون سے سردار کے زیر نظر ہیں؟ انہوں نے کہا: یزید بن قیس ارحبی(۱) لہذا امام علیہ السلام اپنے مرکب پر سوار ہوئے اور اپنی چھاؤنی سے نکل گئے اور یزید بن قیس ارحبی کے خیمے کے سامنے پہونچے اور دورکعت نماز پڑھی پھر اپنی کمان پر ٹیک لگائی اور خوارج کی طرف رخ کر کے اپنی گفتگو کا آغاز کیا:

کیا تم سب لوگ صفین میں حاضر تھے؟ انہوں نے کہا :نہیں ۔آپ نے فرمایا: تم لوگ دوگروہوں میں تقسیم ہوجاؤ تاکہ ہر گروہ سے اس کے مطابق گفتگو کروں ۔ پھر آپ نے بلند آواز سے فرمایا: ''خاموش رہو شور وغل نہ کرو اور میری باتوں کو غور سے سنو، اپنے دل کو میری طرف متوجہ کرو اور جس سے بھی میں گواہی طلب کروں وہ اپنے علم وآگاہی کے اعتبار سے گواہی دے '' اس وقت اس سے پہلے کہ آپ ان لوگوں سے گفتگو کرتے اپنے دل کو پروردگارکی طرف متوجہ کیا اور پھر تمام لوگوں کو خدا کی طرف متوجہ کیا اور کہا:'' خدایا یہ ایسی جگہ ہے کہ جو بھی اس میں کامیاب ہوا وہ قیامت کے دن بھی کامیاب ہوگا اور جو بھی اس میں محکوم مذموم ہوگا وہ اس دوسری دنیا میں بھی نابینا اور گمراہ ہوگا''۔

''کیا تم لوگوں نے قرآن کودھوکہ اور فریب کے ساتھ نیزہ پر بلند کرتے وقت یہ نہیں کہا تھا کہ وہ لوگ ہمارے بھائی اور ہمارے ساتھ کے مسلمان ہیں اور اپنے گزشتہ کاموں کوچھوڑدیا ہے اور پشیمان ہوگئے ہیں اور خدا کی کتاب کے سایہ میں پناہ لئے ہوئے ہیں ہمارے لئے ضروری ہے کہ ان کی بات کو قبول کریں اور ان کے غم واندوہ کو دور کردیں ؟اور میں نے تمہارے جواب میں کہاتھا: یہ ایک ایسی درخواست ہے کہ جس کا ظاہر ایمان اورباطن دشمنی ،بغض وحسداورکینہ ہے اس کی ابتدا رحمت اور راحت اور اس کا انجام پشیمانی اور ندامت ہے۔لہذا اپنے کام پر باقی رہو اپنے راستہ سے نہ ہٹو، اور دشمن سے جہاد کرنے پر دانتوں کو بھینچے رہو اور کسی بھی نعرہ باز کی طرف توجہ نہ دو ، کیونکہ اگر اس سے موافقت کروگے تو گمراہ ہوجائوگے اور اگر اسے اس کے حال پر چھوڑ دوگے تو وہ ذلیل وخوار ہوجائے گا۔بہرحال یہ کام (مسئلۂ تحکیم) میری تاکید کے برخلاف انجام پایا اور میں نے دیکھا کہ ایسا موقع تم نے دشمن کو دیدیا ہے(۲) ۔

______________________

(۱) خوارج کا ایک سردار ، قبیلہ یشکر بن بکر بن وائل سے۔

(۲)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ ص ۲۸۰۔

۷۰۳

ابن ابی الحدید ۳۶ ویں خطبہ کی شرح میں کہتا ہے :خوارج نے کہا: جو کچھ بھی تم نے کہا ہے وہ سب حق ہے اور بجا ہے لیکن ہم کیا کریں ہم سے تو بہت بڑا گناہ ہوگیا ہے اور ہم نے توبہ کرلیا ہے اور تم بھی توبہ کرو ، امام علیہ السلام نے بغیر اس کے کہ کسی خاص گناہ کی طرف اشارہ کریں، بطور کلی کہا: ''اَستغفِر اللّٰه من کلّ ذنبٍ '' اس وقت چھ ہزار لوگ خوارج کی چھاؤنی سے نکل آئے اور امام علیہ السلام کے انصار میں شامل ہوگئے اور ان پر ایمان لے آئے ۔

ابن ابی الحدید اس استغفار کی توضیح میں کہتا ہے : امام علیہ السلام کی توبہ ایک قسم کا توریہ اور ''الحرب خُد عة '' کے مصادیق میں سے ہے۔آپ نے ایک ایسی مجمل بات کہی جو تمام پیغمبرکہتے ہیں اور دشمن بھی اس پر راضی ہوگئے ، اس کے بغیرکہ امام علیہ السلام نے گناہ کا اقرار کیا ہو۔(۱)

______________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ ص ۲۸۰۔

۷۰۴

دوست نما دشمن کی شرارت

جب خوارج اپنی چھاؤنی سے کوفہ واپس آئے تو انہوں نے لوگوں کے درمیان یہ خبر پھیلادی کہ امام نے حکمیت قبول کرنے سے انکار کردیا ہے، اسے ضلالت وگمراہی سمجھا ہے اور ایسے وسائل آمادہ کررہے ہیں کہ لوگوں کو حکمین کی رائے کے اعلان سے پہلے معاویہ کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے روانہ کریں ۔

اسی دوران اشعث بن قیس جس کی زندگی اور امام علیہ السلام کے ساتھ رہنے کی روش مکمل طور پر نفاق آمیز تھی، ظاہرمیں دوستانہ طور پر لیکن باطن میں معاویہ کے نفع کے لئے اس نے کام کرنا شروع کیا اور کہا : لوگ کہتے ہیں کہ امیر المومنین نے اپنے عہد وپیمان کو توڑدیا ہے اور مسئلہ حکمیت کو کفر و گمراہی سے تعبیر کیا ہے اور مدت ختم ہونے کے انتظار کو خلاف جاناہے۔

اشعث کی گفتگو نے امام علیہ السلام کوایسی مصیبت میں قرار دیا کہ ناچار امام علیہ السلام نے حقیقت بیان کردی اور کہا: جو شخص یہ فکر کررہا ہے کہ میں نے تحکیم کے عہد وپیمان کو توڑ دیا ہے وہ جھوٹ بول رہاہے اور جو شخص بھی اس کو گمراہی وضلالت سے تعبیر کررہا ہے وہ خود گمراہ ہے۔

حقیقت بیان کرنا خوارج کے لئے اتنا سخت ہوا کہ لاحکم الاّ للّٰہ کا نعرہ لگاتے ہوئے مسجد سے

باہر چلے گئے اور دوبارہ اپنی چھاؤنی میں واپس چلے گئے۔

ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ امام علیہ السلام کی حکومت میں ہر طرح کا رخنہ وفساد اشعث کی وجہ سے تھا کیونکہ اگر وہ اس مسئلہ کو نہ چھیڑتا تو امام علیہ السلام حقیقت کو بیان نہ کرتے ، اور خوارج جو استغفار کلی پر قناعت کئے ہوئے تھے امام علیہ السلام کی خدمت میں رہ کر معاویہ سے جنگ کرتے،لیکن وہی (اشعث) سبب بنا کہ امام علیہ السلام توریہ کے پردہ کو چاک کرکے حقیقت کو واضح وآشکار کردیں۔

۷۰۵

خوارج کی ہدایت کی دوبارہ کوشش

مبرّد اپنی کتاب '' کامل '' میں امام علیہ السلام کا دوسرا مناظرہ نقل کرتے ہیں جو پہلے والے مناظرہ سے بالکل الگ ہے اور احتمال یہ ہے کہ یہ دوسرا مناظرہ ہے جو امام علیہ السلام نے خوارج سے کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے:

امام علیہ السلام : کیا تمہیں یاد ہے جس وقت لوگوں نے قرآن کو نیزے پر بلند کیا اس وقت میں نے کہا تھا کہ یہ کام دھوکہ اورفریب ہے ، اگر وہ لوگ قرآن سے فیصلہ چاہتے تو میرے پاس آتے اور مجھ سے فیصلے کے لئے کہتے ؟ کیا تمہاری نگاہ میں کوئی ایسا ہے جو ان دونوں آدمیوں کے مسئلۂ حکمیت کو میرے اتنا برا اور خراب کہتا؟

خوارج : نہیں ۔

امام علیہ السلام : کیا تم لوگ اس بات کی تصدیق کرتے ہو کہ تم لوگوں نے مجھے اس کام مجبور کیا جبکہ میں اسے ہر گز نہیں چاہ رہا تھا اور میں نے مجبور ہوکر تمہاری درخواست کو قبول کیا اور یہ شرط رکھی کہ قاضیوں کا حکم اس وقت قابل قبول ہوگا جب خدا کے حکم کے مطابق فیصلہ کریں ؟ اور تم سب جانتے ہو کہ خدا کا حکم مجھ سے تجاوز نہیں کرے گا ( اور میں امام برحق اور مہاجرین و انصار کا چنا ہوا خلیفہ ہوں )۔

عبداللہ بن کوّائ: یہ بات صحیح ہے کہ ہم لوگوں کے اصرار پرآپ نے ان دونوں آدمیوں کو دین خدا کے لئے َحکمَ قرار دیا لیکن ہم اقرار کرتے ہیں کہ اس عمل کی وجہ سے ہم کافر ہوگئے اور اب اس سے توبہ کررہے ہیں اورآپ بھی ہم لوگوں کی طرح اپنے کفرکا اقرار کیجئے اور اس سے توبہ کیجئے اور پھر ہم سب کو معاویہ سے جنگ کرنے کے لئے روانہ کیجئے۔

امام علیہ السلام : کیا تم جانتے ہو کہ خدا نے میاں بیوی کے اختلاف کے بارے میں حکم دیا ہے کہ دو آدمیوں کی طرف رجوع کریں ، جیسا کہ فرمایا ہے:کہ ''فابعثوا حکماً من أهلهِ وحکماً من اَهلِها ؟ ''اور اسی طرح حالت احرام میں شکار کے قتل کا کفارہ معین کرنے کے بارے میں حکم دیا ہے کہ حَکَم (فیصلہ کرنے والے) کے عنوان سے دد عادلوں کی طرف رجوع کریں جیسا کہ فرمایا ہے: ''یحکم بهِ ذوا عَدل ٍ مِنکُم ؟ ''

۷۰۶

ابن کوّائ:آپ نے اپنے نام سے '' امیر المومنین '' کا لقب مٹاکر اپنے کو حکومت سے خلع اور برکنار کر دیا۔

امام علیہ السلام : پیغمبرا سلام (ص) ہمارے لئے نمونہ ہیں۔ جنگ حدیبیہ میں جس وقت پیغمبر اور قریش کے درمیان صلح نامہ اس طریقے سے لکھا گیا :''هذا کتاب کتبه محمّد رسولُ اللّٰه وسُهیلُ بن عَمر '' اس وقت قریش کے نمائندے نے اعتراض کیا اور کہا: ، اگر آپ کی رسالت کا مجھے اقرار ہوتا تو آپ کی مخالفت نہ کرتا، لہٰذا اپنے نام سے ''رسول اللہ ''کا لقب مٹادیجیے، اور پیغمبر نے مجھ سے فرمایا: اے علی! میرے نام کے آگے سے '' رسول اللہ '' کا لقب مٹادو، میں نے کہا: اے پیغمبر خدا(ص)! میرا دل راضی نہیں ہے کہ میں یہ کام کروں ، اس وقت پیغمبر نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنا لقب مٹادیا اور مجھ سے مسکرا کر فرمایا: اے علی !تم بھی میری ہی طرح ایسی سرنوشت سے دوچار ہو گے۔

جب اما م علیہ السلام کی گفتگو ختم ہوئی اس وقت دو ہزار آدمی جو '' حروراء '' میں جمع ہوئے تھے وہ حضرت کی طرف واپس آگئے ۔اور چونکہ وہ لوگ(خوارج) اس جگہ پر جمع ہوئے تھے اس لئے انہیں '' حروریّہ '' کہتے ہیں(۱) ۔

______________________

(۱)کامل مبرّد: ص ۴۵۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲، ص ۲۷۵،۲۷۴۔

۷۰۷

دوسرا مناظرہ

خوارج کے سلسلے میں امام علیہ السلام کی سیاست یہ تھی کہ جب تک خون ریزی نہ کریں اور لوگوں کے مال کو برباد نہ کریں اس وقت تک کوفہ اور اس کے اطراف میں آزاد زندگی بسر کرسکتے ہیں ، اگرچہ روزانہ رات دن ان کے انکار کے نعرے مسجد میں گونجتے رہیں اور امام کے خلاف نعرے لگاتے ہیںاس وجہ سے امام علیہ السلام نے ابن عباس کو دوبارہ '' حروراء '' دیہات روانہ کیا ، انہوں نے ان لوگوں سے کہا: تم لوگ کیا

چاہتے ہو ؟ ان لوگوں نے کہا : جتنے لوگ صفین میں موجود تھے اور حکمیت کی موافقت کی ہے وہ کوفہ سے نکل جائیں اور سب لوگ صفین چلیں اور وہاں تین دن ٹھہریں اور جو کچھ انجام دیا ہے اس کے لئے توبہ کریں اور پھر معاویہ سے جنگ کرنے کے لئے شام روانہ ہوں۔

اس درخواست میں ضد، ہٹ دھرمی اور بیوقوفی صاف واضح ہے کیونکہ اگر حکمیت کا مسئلہ برا اور گناہ ہو تو ضروری نہیں ہے کہ توبہ اسی جگہ کی جائے جہاں گناہ کیا ہے اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ وہاں تین دن تک قیام کیا جائے ! بلکہ توبہ تو صرف ایک لمحہ بھر ہی واقعی شرمندگی اور کلمہ استغفار کے ذریعہ ہوجاتی ہے ۔

امام علیہ السلام نے ان کے جواب میں فرمایا : کیوں اس وقت ایسی باتیں کررہے ہو جب کہ دو حَکَم معین کر کے بھیج دیئے گئے ہیں اور دونوں طرف کے لوگوں نے ایک دوسرے سے عہد وپیمان کرلیا ہے ؟

ان لوگوں نے کہا: اس وقت جنگ طولانی ہوگئی تھی ، بہت زیادہ سختی و شدت بڑھ گئی تھی ، بہت زیادہ زخمی ہوگئے تھے اور ہم نے بہت زیادہ اسلحے اور سواریاں گنوادی تھیں ، اس لئے حکمیت کو قبول کیا تھا۔

امام علیہ السلام نے فرمایا : کیا جس د ن شدت اور سختی بہت زیادہ بڑھ گئی تھی اس دن تم نے قبول کیا ہے ؟ پیغمبراسلام (ص) نے مشرکوں کے ساتھ عہد وپیمان کیا تھا ، اس کا احترام کیا لیکن تم لوگ مجھ سے کہتے ہو کہ اپنے عہدوپیمان کو ختم توڑ دو!

۷۰۸

خوارج نے اپنے اندر احساس ندامت کیا لیکن اپنے عقیدہ کے تعصب کی بنا پرایک کے بعد ایک وارد ہوتے گئے اور نعرہ لگاتے رہے :''لاحکم الّا للّٰه ولو کَرِه المشرکون ''۔

ایک دن خوارج کا ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور وہی نعرہ لگایا (جسے ابھی ہم نے ذکر کیا ہے) ، لوگ اس کے پاس جمع ہوگئے اور اس نے پھر وہی نعرہ لگایا اور ا س مرتبہ کہا: ''لاٰ حُکمَ الّا للّٰه وَ لوکرِه ابوالحسنِ ''۔امام علیہ السلام نے اس کا جواب دیا: ، میں ہرگز خدا کی حکومت (اور اس کے حکم )کو مکروہ تصور نہیں کرتا، لیکن تمہارے بارے میں خدا کے حکم کا منتظر ہوں ۔ لوگوں نے امام علیہ السلام سے کہا: کیوں آپ نے ان لوگوں کو اتنی مہلت اور آزادی دی ہے ؟ کیوں ان کو جڑ سے ختم نہیں کردیتے ؟ آپ نے فرمایا:

''لاٰ یفنُون انّهُم لفِی اصلاب ِ الرّجال وأرحام ِ النّساء الیٰ یومِ القیامةِ '' (ا) وہ لوگ ختم نہیں ہوں گے ان لوگوں کا ایک گروہ ان کے باپوں کے صلب اور ماؤں کے رحم میں باقی ہے اوریہ اسی طرح قیامت کے دن تک رہیں گے۔

______________________

(۱) شرح حدیدی ج۲، ص ۳۱۱،۳۱۰۔

۷۰۹

تیئیسویں فصل

خوارج کی مخالفت کی وجہ اور اس کی وضاحت

امام علیہ السلام سے خوارج کی مخالفت کی وجہ اور معاویہ کی مخالفت کی وجہ میں بہت فرق تھا، معاویہ نے عمر کی خلافت کے وقت سے ہی شام کی حکومت کی خود مختاری کے لئے مقدمات فراہم کرتے تھے اور خودکوشام کامطلق العنان حاکم (ڈکیٹیٹر) سمجھتا تھا۔ عثمان کے قتل کے بعد جب اسے خبر ملی کہ امام علیہ السلام شام کی حکومت سے اس کو بر طرف کرنا چاہتے ہیں تو وہ مخالفت کرنے کے لئے اٹھ گیا پہلے تو طلحہ وزبیر کو ورغلایا پھر جنگ صفین برپاکر کے امام علیہ السلام کے مقابلے میں آگیا اور پھرمنحوس سیاست کے ذریعہ قرآن کو نیزہ پر بلند کر کے امام علیہ السلام کے لشکر میں اختلاف وتفرقہ پیدا کر دیا اور بالآخر امام علیہ السلام اسی اختلاف کی وجہ سے قربان ہوگئے۔

لیکن خوارج ظاہر بین تھے اور آج کی اصطلاح میں خشک مقدس تھے اور اپنی جہالت ونادانی اور سطحی فکر ونظر اور اسلام کے اصول و مبانی سے واقفیت نہ رکھنے کی وجہ سے امام علیہ السلام کی مخالفت کرنے لگے، اورکھوکھلے اور بے بنیاد علل و اسباب گڑھ کر خدا کے چراغ ہدایت کے مقابلہ میں آگئے اور اس الٰہی چراغ کوخاموش کرنے کے لئے ہزاروں پاپڑ بیلے یہاں تک کہ خود کو ہلاک کرنے کے لئے بھی تیار ہو گئے۔

۷۱۰

معاویہ اور خوارج کے درمیان اسی فرق کی وجہ سے امام علیہ السلام نے ان پرفتح وکامیابی حاصل کرنے کے بعد فرمایا: ''لاٰ تقاتلوا الخوارجَ بعدی، فلیسَ مَن طَلبَ الحقَّ فأخطاٰ ه کَمَن طلب الباطل فادرکَه ''' (ا)، خبردار میرے بعد خوارج کو قتل نہ کرنا کیونکہ جو حق کا طالب ہے اور اسے حاصل کرنے میں کسی وجہ سے اس سے غلطی ہوجائے وہ اس شخص کے مثل نہیں ہے جس نے باطل کو چاہا اور اسے پابھی لیا۔( یعنی معاویہ اور اس کے اصحاب)

خوارج کی مخالفت کے تمام عوامل و اسباب کی تحقیق اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ یہ لوگ ، شامیوں کے برخلاف ہرگز جاہ ومنصب اور حکومت کے طلبگار نہ تھے بلکہ ایک خاص کج فکری اور ذہنی پستی

______________________

نہج البلاغہ خطبہ ۵۸ (عبدہ)۔

۷۱۱

ان پرمسلط تھی ۔ یہاں ہم خوارج کے اہم ترین اعتراضات نقل کررہے ہیں۔

۱۔دین پر لوگوں کی حکومت

وہ لوگ ہمیشہ یہ اعتراض کررہے تھے کہ کس طرح سے ممکن ہے کہ دومخالف گروہ کے دو آدمی اپنے اپنے سلیقے کے اعتبار سے مسلمانوں کی تقدیر کو اپنے ہاتھ میں لیں اور اپنی رائے کو مسلمانوں کے معین شدہ رہبر کی رائے پر مقدم کریں ، دین اور مسلمانوں کا مقدر اس سے بلند وبرتر ہے کہ لوگ اپنی ناقص عقلوں سے ان کے اوپر حکومت کریں ۔وہ لوگ مستقل کہہ رہے تھے: '' حکم الرجال فی دین اللّٰہ '' یعنی علی نے لوگوں کو دین خدا پر حاکم قرار دیاہے۔

یہ اعتراض اس بات کی حکایت کرتاہے کہ وہ لوگ حکمین کے فیصلے کے قبول کرنے کے شرائط سے باخبر نہ تھے اور ان لوگوں نے خیال کیا کہ امام علیہ السلام نے ان دونوں کو مسلمانوں کی قسمت معین کرنے کے لئے آزاد چھوڑدیا ہے کہ جس طرح چاہیں ان کے لئے حکم معین کریں۔ امام علیہ السلام نے اس اعتراض کے جواب میں فرمایا:''اِنا لم نحکّم الرجالُ وانّما حکّمنٰا القرآنَ، هذا القرآن انّما هو خطّ مستور بین الدَّفتین لا ینطقُ بلسانٍ ولابدَّله من ترجمان ، وانما ینطق عنه الرجالُ ، ولمّٰا دَعانَا القَومُ اِلیٰ ان نُحکَّم بیننَا القرآن لم نَکُنِ الفریقَ المتولّ عن کتاب اللّٰه سبحانه وتعالیٰ ، وقد قال اللّٰه سبحانه: '' فان تنازعتم فی شیئٍ فَردَّ وهُ اِلَی اللّٰه والرّسول ِ ''فرُدُّهُ اِ لٰی اللّٰه أن نَحکُمَ بکتابِهِ ، وردّهُ اِلَی الرّسول اَن ناخذ بسنّتِهِ ، فاذا حُکِمَ بالصّدق فی کتابِ اللّٰه فنحن أحقُّ الناس بهِ وان ُحکِمَ بسنةِ رسول اللّٰه (ص) فنحن أحقُّ الناس وَ اَولاَ هُم بِها ۔(۱)

ہم نے لوگوں کو نہیں بلکہ قرآن کو حَکَم مقرر کیا ہیاور یہ قرآن دودفتیوں کے درمیان لکھی ہوئی کتاب ہے جو زبان سے نہیں بولتی اس کے لئے ترجمان ضروری ہے اور وہ ترجمان آدمی ہی ہوتے ہیں جو قرآن کی روشنی میں کلام کرتے ہیں جب قوم (اہل شام ) نے ہم سے خواہش کی کہ ہم اپنے اور ان کے درمیان قرآن مجید کو حکم قرار دیں تو ہم ایسے لوگ نہ تھے کہ اللہ کی کتاب سے منحرف ہوں حالانکہ خداوند عالم فرماتا ہے: ''اگر

______________________

(۱)نہج البلاغہ: خطبہ ۱۲۱.

۷۱۲

تم کسی بات میں اختلاف کرو تو خدااور رسول کی طرف اسے پھیر دو'' ۔خدا کی طرف رجوع کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ہم اس کی کتاب کو حَکَم مانیں اور رسول کی طرف رجوع کرنے کے یہ معنی ہیں کہ ہم ان کی سنت کو اختیار کریں ، پس اگر سچائی کے ساتھ کتاب خدا سے حکم حاصل کیا جائے تو اس کی رو سے لوگوں میں سب سے زیادہ ہم اس کے حق دار ہیں اور اگر سنت رسول کے مطابق فیصلہ کیا جائے تو ہم سب سے زیادہ اس کے اہل ہیں ۔

امام علیہ السلام ایک دوسرے خطبہ میں اسی جواب کو دوسری عبارت میں بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں : '' دونوں حَکم کو اس لئے مقرر کیا گیا تھا کہ وہ انہیں چیزوں کو زندہ کریں جنہیں قرآن نے زندہ کیا ہے اور جن چیزوں کو قرآن نے ختم کیا ہے انہیں یہ بھی ختم کر دیں (حق کو زندہ اور باطل کو نابود کردیں) اور قرآن کا زندہ کرنا اس پر اتفاق کرناہے اور اسے ہلاک کرنا اس سے دوری اختیار کرنا ہے پس قرآن اگر ہمیں ان (شامیوں )کی طرف کھینچ لے جائے تو ہم ان کی پیروی کریں گے اور اگر وہ انہیں ہماری طرف کھینچ لائے تو انہیں ہماری پیروی کرنی چاہیے ، تمہارا برا ہو، میں نے اس بات میں کوئی غلط کام تو نہیں کیا نہ تمہیں دھوکہ دیا ہے اور نہ کسی بات کو شبہہ میں رکھا ہے ۔(۱)

______________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۱۲۳،۱۷.

۷۱۳

۲۔ وقت کا تعیین

خوارج کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ کیوں فیصلہ کرنے والوں کے لئے وقت معین ہوا ہے اور یہ طے پایا ہے کہ دونوں (عمروعاص اورابوموسیٰ )غیر جانب دار علاقہ (دومة الجندل) میں ماہ رمضان ختم ہونے تک اختلاف کے بارے میں اپنی اپنی رائے پیش کردیں اور یہ کام میدان صفین ہی میں اس دن کیوں نہیں انجام دیا گیا جس دن قرآن کو نیزہ بر بلند کیا گیا تھا؟!

حقیقتاً اس طرح کے اعتراضات کیا ان کی جہالت پر دلالت نہیں کرتے ؟ کیا ایسا عظیم فیصلہ ، اوروہ بھی اس وقت دونوں گروہ کا ہاتھ کہنی تک ایک دوسرے کے خون میں ڈوبا ہواتھا، کوئی آسان کام تھا کہ ایک دو دن کے اندر فیصلہ ہوجاتا اور دونوں گروہ اُسے قبول کرلیتے؟ یا اس کے لئے صبر وضبط کی ضرورت تھی تاکہ جاہل کی بیداری اور عالم کے استحکام کا امکان زیادہ پیدا ہو جائے اور امت کے درمیان صلح کا ذریعہ اور زیادہ فراہم ہوجائے۔

امام علیہ السلام اس جواب کے اعتراض میں فرماتے ہیں : ''وَاماقَو لکم:لم جعلت بینکم و بهینم أجلاً فی التحیکم؟فانما فَعَلتُ ذالک لِیتبیّنَ الجَاهِلُ ویتثبّتَ العالم ولَعلَّ اللّٰه اَن یصلحَ فی هذهِ الهُدنَةِ أمرهذه الامةِ ''(۱) اب تمہارا یہ کہنا کہ آپ نے اپنے اور ان کے درمیان تحکیم کی مہلت کیوں دی تو میں نے یہ موقع اس لئے دیا کہ جاہل تحقیق کرے اور عالم ثابت قدم ہوجائے ، اور شاید خداوند عالم اس مہلت کے ذریعے اس امت کے حالات کی اصلاح فرمادے۔

______________________

(۱) نہج البلاغہ خطبہ ۱۲۱

۷۱۴

۳۔ حاکمیت انسان اور حاکمیت خدا کے انحصار سے تارض

خوارج نے امام علیہ السلام سے مخالفت کے زمانے میں ایة ''لاحکم الّا لِلّٰه '' کا سہارا لیا اورحضرت کے کام کو نص قرآن کے خلاف شمار کیا اور یہ نعرہ لگایا:''لاحکم الّا لِلّٰه لا لَکَ و لا لِاَصحابک یا علُّ ''یعنی حاکمیت خدا سے مخصوص ہے نہ کہ تم سے اور نہ تمہارے ساتھیوں سے اور یہ نعرہ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے قرآن سے اقتباس ہے جو سورہ یوسف آیت نمبر ۴۰ اور ۶۷ میں وارد ہوا ہے اور اس کا مفہوم توحید کے اصول میں شمار ہوتاہے اور اس بات کی حکایت کرتاہے کہ حاکمیت اور فرمانروائی ایک حقیقی اور اصل حق ہے جو خدا سے مخصوص ہے اور کوئی بھی انسان اس طرح کا حق دوسرے انسان پر نہیں رکھتا۔ لیکن خدا میں حاکمیت کا منحصر ہونا اس چیز کے منافی نہیں کہ کوئی گروہ ایک خاص ضوابط کے ساتھ جن میں سب سے اہم خداکی اجازت ہے دنیا پر حکومت کرے ، اورخدا کی حاکمیت کی تجلی گاہ ہوجائے اور کوئی بھی عقلمند انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ اجتماعی زندگی، بغیر حکومت کے ممکن ہے ، کیونکہ وظائف و فرائض کاانجام دینا، اختلافات کا حل ہونا اور لڑائی جھگڑے کا ختم ہوناوغیرہ یہ تمام چیزیں ایک حکومت کے سایہ میں انجام پاسکتی ہیں ۔

اما م علیہ السلام نے جب ان کے نعرہ کو سنا تو فرمایا ، ہاں یہ بات صحیح ہے کہ حکومت کاحق صرف خدا کو ہے لیکن اس حق کی بات سے باطل مراد لیا جا رہا ہے: ''کلمة حقٍ یراد بها الباطل، نعم انّه' لاحکم الّٰا لِلّٰه ولکن هولائِ یقولون لا امراة الا لِلّٰه وانَّه لابُدَّ لِلنَّاسِ مِن اَمیرٍ بّرٍ او فاجر یعمل فی

۷۱۵

امرته المومن ویستمتع فیها الکافر '' (۱)

''بات حق ہے مگر اس سے مراد باطل لیا جارہاہے ہاں بے شک حکم خدا ہی کے لئے ہے لیکن یہ لوگ تو کہتے ہیں کہ امیر (حاکم) بھی اس کے سوا کوئی نہیں ہے حالانکہ لوگوں کے لئے ایک نہ ایک امیر (حاکم ) کا ہونا لازم ہے نیکو کار ہویا فاسق وفاجر ، تاکہ اس حکومت میں مومن عمل (خیر ) کرے اور کافر اس میں اپنے پورے پورے حقوق حاصل کرے ''۔

اگر حکومت نہ ہوتو امن اور چین نہیں ہوگا اور ایسی صورت میں نہ مومن اپنے کار خیر میں کامیاب ہوسکے گا اور نہ کافر دنیاکی زندگی سے فیضیاب ہوسکے گا اور اگر حقیقت میں مقصد، حکومت کا تشکیل نہیں دینا ہے تو اس صورت میں پیغمبراسلام(ص) اور شیخین کی حکومت کی کس طرح توجیہ کریں گے؟

خوارج اپنے عقیدہ و عمل میں ہمیشہ کشمکش میں مبتلا تھے ، ایک طرف سمجھتے تھے کہ اجتماعی زندگی ایک با اثر مدیر اور رہبر کے بغیر ممن نہیں ہے اور دوسری طرف اپنی کج فہمی کے زیر اثر ہر طرح کی حکومت کی تشکیل کو حاکمیت خدا کے انحصار کے خلاف سمجھتے تھے ۔اس سے بھی تعجب خیز بات یہ ہے کہ یہ کہ خوارج نے خود اپنے کام کے آغاز میں اپنے گروہ کے لئے حاکم کا انتخاب کیا ! طبری لکھتاہے : ماہ شوال ۳۸ ہجری میں خوارج کے کچھ گروہ عبداللہ بن وہب راسبی کے گھر جمع ہوئے اور عبداللہ نے اپنی تقریر میں کہا: یہ بات شائستہ نہیں ہے کہ لوگ خدا پر ایمان لائیں اور حکم قرآن کو تسلیم کریں اور دنیا کی زندگی ان لوگوں کی نظر میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے زیادہ باعث مشقت ہو ، پھر اس کے بعدحرقوص بن زہیر اور حمزہ بن سنان نے بھی گفتگو کی، اور تیسرے نے اپنے کلام کے آخر میں کہا :فولوا أمرکم رجلاً فانه لابد لکم من عمادٍ وسنادٍ ورایة تحفون بها وترجعون الیها ۔(۲)

تم کسی شخص کو اپنا امیر اور حاکم بنائو اس لئے کہ تمہارے لئے ایک ستون ، معتمد اور جھنڈا ضروری ہے جس کے پاس آئو اور رجوع کرو۔

______________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۴۰

(۲) تاریخ طبری ج۶، ص ۵۵

۷۱۶

حکمیت، آخری امید

مسلمانوںکے درمیان ،جنگ صفین سے پہلے اور اس کے بعد بہت سے ایسے بنیادی مسائل تھے کہ جن کے حل کا ایک طریقہ ایسے فیصلہ کرنے والوں کا انتخاب کرنا تھا جوحقیقت بینی کے ساتھ مسائل کی دقیق اور بہترین تحقیق کریں اور پھر ان کے بارے میں اپنا نظریہ پیش کریں۔ وہ مسائل یہ تھے:

۱۔ عثمان کا قتل ۔

۲۔ امام کے دوستوں پر خلیفہ کے قتل کا الزام ۔

۳۔ معاویہ کا دعویٰ کہ وہ عثمان کے خون کا ولی ہے ۔

بنیادی طور پر یہی مسائل تھے جس کی بنا پرجنگ صفین ہوئی اور ان مشکلوں کے حل کے لئے دو راستے تھے: پہلاراستہ یہ کہ دونوں فریق اپنے اختلافی مسائل کو مہاجرین اور انصار کے ذریعہ چنے ہوئے امام کے پاس پیش کریں اور وہ ایک آزاد شرعی عدالت میں خداکے حکم کو ان کے بارے میں جاری کریں اور یہ وہی راہ تھی جس کے بارے میں امام علیہ السلام نے صفین سے پہلے تاکید کی تھی اور اپنے خط میں معاویہ کو لکھا تھا: ''قد اکثرت فی قتلة عثمان فادخل فیمادخلَ فیه النّاسُ ثمّ حاکمَ القومَ الیّ أن احملک وایّا هم علی کتابِ اللّٰه ''(۱) اور تم نے عثمان کے قاتلوں کا باربار ذکر کیا ہے اور جس دائرہ اطاعت میں لوگ داخل ہوچکے ہیں تم بھی (بیعت کرکے) داخل ہوجاؤ پھر میری عدالت میں ان لوگوں کا مقدمہ پیش کرو تاکہ میں کتاب خدا کے مطابق تمہارے اور ان کے درمیان فیصلہ کروں۔دوسراراستہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو ایک صلح پسند عدالت میں بھیج دیا جائے تاکہ وہاں منصف مزاج اورحقیقت پسند قاضی مشکل کا حل تلاش کریں اور فیصلہ کرتے وقت اسلام اور مسلمانوں کی حقیقی اور واقعی مصلحتوں سے چشم پوشی نہ کریں اور عمروعاص جیسے لوگوں کی ہر طرح کی بن الوقتی اور مفاد پرستی سیاور ابو موسیٰ جیسے لوگوں کے کینہ وبغض سے دو رہوں ، ایسی عدالت میں امام علیہ السلام اپنے حقیقی مقصد تک پہونچ سکتے تھے اور مشکلات کا حل وفیصلہ کرسکتے تھے۔خلیفہ کا قتل بہت پیچیدہ مسئلہ نہ تھا ۔ اس کے عوامل و اسباب کئی سالوں پہلے سے وجود میں آ چکے تھے

______________________

(۱)نہج البلاغہ مکتوب نمبر۶۴

۷۱۷

اور روز بروز بڑھتے ہی جا رہے تھے یہاں تک کہ دبائو اور گھٹن کی شدت صالحین پر ظلم وستم اورمصلحین پر سختی و شکنجہ دھماکے (قت ) کا سبب بن گیا یہ ایسا دھماکاتھا جسے علی علیہ السلام بھی روک نہیں سکے اور خلیفہ کو قتل سے بچانہیں سکے۔

معاویہ اورمقتول خلیفہ کے ہواخواہوں کے دعوے کے لئے ضروری تھا کہ اُسے شرعی عدالت میں

پیش کیا جاتا اورحق وباطل میں تمیز پیدا کی جاتی ۔ دنیا کی کسی بھی جگہ مقتول کے خون کا بدلہ لینے کے لئے لشکر کشی جائز نہیں سمجھی جاتی،تو پھر تقریباً ۶۵ ہزار انسانوں کے قتل کا جواز کیے ہو سکتا ہے ؟

'' دومة الجندل '' کی عدالت میں اگرصحیح طریقہ سے فیصلہ ہوتا تو ان تمام مسائل کی صحیح چھان بین ہوتی اور مسلمانوں کا وظیفہ ان واقعات کے بارے میں واضح ہوجاتا. مگر افسوس ، اس عدالت میں جس چیز کے بارے میں بحث نہیں ہوئی وہ اختلاف کی جڑیں اور بنیادیں تھیں۔ عمروعاص اپنے رقیب ( ابوموسیٰ) کی عقل و رائے کو سلب کرنے کی فکر میں تھا تاکہ امام علیہ السلام کو خلافت سے معزول کرنے کے لئے اس کو راضی کرلے اورمعاویہ کی خلافت نافذ کر دے اور ابوموسیٰ اس فکر میں تھا کہ اپنے ہمفکروہم خیال عبداللہ بن عمر کو خلافت تک پہونچادے کیونکہ اس کا ہاتھ دونوں طرف میں سے کسی ایک کے خون سے آلودہ نہ ہوا تھا ۔ جب عدالت کے نظریہ کا اعلان ہوا تو علی علیہ السلام نے اسے قانونی و اصولی طور پر قبول نہ کیا اورفرمایا: فیصلہ کرنے والوں نے اپنے عہد وپیمان کے خلاف عمل کیا ہے اور ارادہ کیا کہ اپنی فوج کو منظم کر کے معاویہ سے جنگ کنے کو روانہ ہوںلیکن خوارج کے حادثہ نے معاویہ کا پیچھا کرنے سے روک دیا۔

فساد کو جڑ سے ختم کرنا

خوارج کے ساتھ امام علیہ السلام کا برتائو بہت ہی نرم اورلطف و مہربانی سے پُر تھا اور آپ جب بھی ان کو خطاب کرتے تھے تو صرف محبت ، نصیحت اور ہدایت وراہنمائی کرتے تھے اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز آپ سے نہیں سنی گئی ، حضرت نے بالکل اس باپ کے مثل جو چاہتا ہے کہ اپنے عاق اور سرکش بیٹے کوصحیح راستے پر لائے ان لوگوں سے برتائو کرتے تھے،ان کے حقوق کوبیت المال سے ادا کرتے تھے ، مسجد اور اس کے اطراف میں ان کے ظلم وستم اورشوروغل کرتے تھے،

۷۱۸

پرواہ نہ کی اور آپ کی پوری کوشش یہ تھی کہ اس گروہ کو مسخّر اور قابو میں کر کے معاشرے میں اتحاد کوواپس لے آئیں اور شام کے سرطانی غدّہ کو جڑ سے ختم کردیںکیونکہ خوارج بھی اسی کی پیداوار تھے ، اور صفین کا عہد وپیمان بھی امام علیہ السلام کو یہ حق دے رہا تھا کیونکہ عہدنامہ کی عبارت میں یہ بات لکھی گئی تھی کہ اگر حکمین نے قرآن وسنت کے برخلاف فیصلہ کیا تو امام علیہ السلام اپنے پہلے اصل منصب پر باقی رہیں گے(۱) ۔

اما م علیہ السلام نے لوگوں کو یہ بات واضح کرنے کے لئے بہت سی تقریر یں کیں کہ معاویہ سے دوبارہ جنگ صفین کے عہد نامہ کی خلاف ورزی نہیں ہے بلکہ اس کے مطابق تو جنگ دوبارہ ہونا چاہیے تاکہ دشمن کا خاتمہ ہوجائے ۔ آپ اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہیں :''وقد سبق استثناؤنا علیهما فی الحکم بالعدل والعمل بالحقّ سوء رأیهماوجور حکمهما ، والثّقةُ فی ایدینا بانفسنا حین خالفا سبیل الحق وآتیٰا بما لایعرف من معکوس الحکمِ ''(۲) ،ہم نے تو ان کی غلط رائے اور ناروا فیصلوں سے پہلے ہی ان سے شرط کرلی تھی کہ وہ عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے اور حق پر قائم رہنے میں بدنیتی اور ناانصافی کو دخل نہ دیں گے ، اب جب کہ انہوں نے راہ حق سے انحراف کیاہے اور طے شدہ قرار داد کے برعکس حکم لگایا ہے تو ہمارے ہاتھ میں ان کا فیصلہ ٹھکرادینے کے لئے ایک مستحکم دلیل اور معقول وجہ موجود ہے۔

امام علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں کی نظر میں شجرہ خبیثہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور فساد کے غدہ کو نکال باہر کرنے کے علاوہ کچھ نہ تھا او ر ان لوگوں کی پوری سعی وکوشش یہی تھی لیکن اچانک تاریخ نے ورق پلٹا اور یہ واقعہ اس فکرونظر کے برخلاف ہوگیا اور معاویہ سے جنگ کے بجائے، خوارج سے جنگ ایک قطعی مسئلہ کی صورت میں چھڑ گئی، اب اس وقت دیکھنا یہ ہے کہ آخر کون سی چیز سبب بنی کہ امام علیہالسلام کے صبروتحمل کا جام لبریز ہوگیا اورآپ کو ان لوگوں سے جنگ کرنے پر مجبور کردیا۔ اس مسئلہ کی علت کو دومندرجہ ذیل باتوں سے معلوم کرسکتے ہیں :

______________________

(۱)عہد نامہ کی عبارت یہ تھی :وان کتاب اللّٰه سبحانه وتعالیٰ بیننا عن فاتحته الیٰ خاتمته ، نحیی ما احیی القرآن ونمیت ماأمات القرآن فان وجد الحکمان ذالک فی کتاب اللّٰه اتبعناه وان لم یجداه اخذا بالسنة العادلة وغیر المفرقة ۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ص۲۳۴

(۲)نہج البلاغہ (عبدہ) خطبہ ۱۷۲

۷۱۹

۱۔ خبر ملی کی خوارج عبداللہ بن وہب راسبی کے گھر جمع ہوئے ہیں اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے عنوان سے جنگ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اسی مقصد کے لئے بصرہ میں موجود اپنے ہمفکروں کو خط لکھا ہے اور ان لوگوں کو دعوت دی ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو خوارج کی چھاؤنی '' خیبر'' کے پاس نہروان پہونچ جائیں ، بصرہ کے خوارج نے بھی اپنی آمادگی کا اعلان کردیاہے۔(۱)

۲۔دومة الجندل کے قاضیوں کے فیصلے نے ، کہ جس میںنہایت بے حیائی سے امام علیہ السلام کو ان کے منصب سے معزول اور معاویہ کو ان کی جگہ پر منصوب کیا گیا تھا، امام علیہ السلام کوعمومی افکار کے واضح کرنے پر مجبورکیا۔ یہی وجہ ہے کہ امام علیہ السلام کوفہ کے منبر پر تشریف لائے اور خدا کی حمدو ثنا کے بعد فرمایا:'' نیک، خیرخواہ اورصاحب علم وبصیرت شخص کی مخالفت حسرت وشرمندگی کاسبب ہے ، میں مسئلہ حکمیت اور ان دونوں آدمیوں کی قضاوت کے بارے میں منفی نظریہ رکھتا تھا لیکن تم لوگوں نے میرے نظریہ کو قبول نہیں کیا اور ان دونوں کو حاکمیت کے لئے معین کر دیا اور ان لوگوں نے اپنے عہد وپیمان کے برخلاف جس چیز کو قرآن نے مردہ کیا تھا اسے زندہ کردیا اور جس چیز کو قرآن نے زندہ کیا تھا اسے مردہ کردیا اور اپنے خواہشات نفس کی پیروی کی اور بغیر دلیل اور حجت کے حکم جاری کردیا ، اسی وجہ سے خدا وپیغمبر اور مومنین ان دونوں قاضیوں سے بری ء الذمہ ہیں ،جہاد کے لئے آمادہ اور شام چلنے کے لئے تیار ہوجاؤ ، اور دوشنبہ کے دن نخیلہ کی چھاؤنی کے پاس جمع ہوجاؤ، خدا کی قسم ! میں اس گروہ (شامیوں ) سے جنگ کروں گا ، اگرچہ ہمارے لشکر میں میرے علاوہ کوئی بھی باقی نہ رہے''۔

۳۔ امام علیہ السلام نے سوچا کہ جتنی جلدی ممکن ہو کوفہ چھوڑ کر صفین پہونچ جائیں ، آپ کے بعض دوستوں نے آپ سے کہا کہ بہتر ہے کہ خوارج جو ہمارے راستے سے دور ہوگئے ہیں انہیں بھی جنگ میں شریک ہونے کے لئے دعوت دیں ، اس وجہ سے امام علیہ السلام نے خوارج کے سرداروں کے پاس خط لکھا اور یاد دہانی کی کہ عمروعاص اورابوموسیٰ نے گناہ کیا ہے اور کتاب خدا کی مخالفت کی ہے اور اپنے خواہشات کی پیروی کی ہے نہ سنت پر عمل کیا ہے اور نہ ہی قرآن پر ، خدا اور اس کا رسول اور مومنین ان کے کرتوت سے بری ء الذمہ ہیں ، جب میرا خط تمہارے پاس پہونچے تو میری طرف آنے میں جلدی کرو تاکہ مشترک دشمن

سے جنگ کرنے کے لئے ایک ساتھ چلیں ۔

_______________________________

(۱) الامامة والسیاسة ج۱، ص ۱۳۲

۷۲۰

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809