فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)7%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 361696 / ڈاؤنلوڈ: 6016
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

اللہ تعالیٰ کے انتقام کی کوئی مثال دیکھنی ہو تو وہ انتقام ہے جس کا ارادہ تو خدا کی ذات نے کیااور اُسے انجام علی علیہ السلام نے دیا۔ تمام علماء اور مفسرین اہل سنت اور شیعہ نے اپنی کتابوں میں روایات نقل کی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آیت مذکورسے مراد وجود پاک حضرت علی علیہ السلام ہے کیونکہ آپ نے تمام کفار و منافقین سے اُن مظالم اور زیادتیوں کا جو انہوں نے پیغمبر اسلام پر کی تھیں، کا بدلہ لیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تمام مسلمان اور دانشمند حضرات حتیٰ کہ غیر مسلم بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے اپنے اعمال سے رسول اللہ کی زندگی میں اور اُن کی ظاہری زندگی کے بعد کفار کی کمر توڑ کے رکھ دی تھی اور منافقین کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مایوس کردیا تھا۔حق اور صراط مستقیم کو عیاں کردیا۔ اس ضمن میں چند روایات نیچے درج کی جارہی ہیں جو آپ کی توجہ کی طالب ہیں:

(ا)۔عَنْ جَابِرقٰالَ:لَمَّا نَزَلَتْ عَلٰی رَسُوْلِاللّٰه”فَاِمَّانَذْهَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْهُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ“قٰالَ بِعَلیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب عَلَیْهِ السَّلَام ۔

”جابر ابن عبداللہ سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ جب یہ آیت

( فَاِمَّانَذْهَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْهُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ )

رسول خدا پر نازل ہوئی توآپ نے آیت کو مد نظر رکھتے ہوئے فرمایا کہ علی علیہ السلام کے وسیلہ سے انتقام الٰہی لیا جائے گا“۔

(ب)۔ عَنْ حُذَ یْ فَة بن الیَمٰان قٰالَ فی قولہ تعالٰی”فَامَّانَذْهَبَنَّ بکَ فَانَّا منْهُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ“ یَعْنِ ی بعَلی بن ابی طالب علیہ السلام۔

”حذیفہ بن یمان سے روایت کی گئی ہے ، انہوں نے اس آیت

( فَاِمَّانَذْهَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْهُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ )

کی تفسیر میں فرمایا کہ علی علیہ السلام کے وسیلہ سے انتقام لیا جائے گا“۔

۶۱

(ج)۔عَنْ جابربن عبداللّٰه عَنِ النَّبی فی قوله’فَاِمَّانَذْهَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْهُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ‘نَزَلَتْ فِی عَلِیٍّ اِنَّه یَنْتَقِمُ مِنَ النَّاکِثِیْنَ وَالقَاسِطِینَ بَعْدِی ۔

”جابر ابن عبداللہ انصاری سے روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر اکرم نے اس آیت

( فَاِمَّانَذْهَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْهُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ )

کے بارے میں فرمایا کہ یہ آیت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ علی میرے بعد ناکثین(بیعت توڑنے والے اصحاب جنگ جمل) اور قاسطین(جنگ صفین میں لشکر معاویہ) سے انتقام لیں گے“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ سیوطی ،تفسیر الدرالمنثور میں، جلد۶،صفحہ۲۰،آیت مذکور کے ضمن میں۔

۲۔ ابن مغازلی شافعی، حدیث۳۶۶کتاب ”مناقب امیر المومنین “، ص۲۷۵اور۳۲۰

۳۔ حافظ الحسکانی، شواہد التنزیل، حدیث۸۵۱، جلد۲،صفحہ۱۵۲، اشاعت اوّل۔

۴۔ شیخ سلیمان قندوزی ، کتاب ینابیع المودة میں، باب۲۶،صفحہ۱۱۴اور اسی کتاب میں

باب(مناقب)۷۰،صفحہ۲۸۷،حدیث۲۴۔

۵۔ طبرانی، کتاب معجم الکبیر میں، جلد۳،صفحہ۱۱۱۔

پچیسویں آیت

علی نے اپنی جان مبارک کامعاملہ اللہ تعالیٰ سے طے کرلیا

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ )

”اور آدمیوں میں سے ایسابھی ہے جو رضائے خدا حاصل کرنے کیلئے اپنے نفس کو فروخت کرتا ہے“۔(سورئہ بقرہ: آیت۲۰۷)۔

۶۲

تشریح

پیغمبر اسلام کا مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنا اور اُس سے ہی متعلق دوسرے اُمور ایسے موضوع ہیں جن پر تقریباً تمام تاریخ دانوں نے اپنی اپنی تواریخ میں لکھا ہے اور اس واقعہ میں پیغمبر اسلام کی بردباری ،صبروتحمل اور اُن کے وفادار اصحاب کی شان بیان کی ہے۔

ہجرت پیغمبر میں سب سے اہم واقعہ ہجرت کی رات کا ہے جب پیغمبر اکرم کے حکم کے مطابق حضرت علی علیہ السلام آپ کے بستر پر سوئے اور کفار مکہ جو جنگی ہتھیاروں سے لیس تھے ، کی طرف سے کسی بھی وقت حملہ کے منتظر رہے۔ نصف شب کے قریب مسلح کفار جنہوں نے نبی اکرم کے گھر کا محاصرہ کیا ہوا تھا، داخل منزل ہوئے۔ حضرت علی علیہ السلام بستر سے اُٹھے اور مقابلہ کیلئے تیار ہوئے۔ کفار مکہ نے جب حضرت علی علیہ السلام کو دیکھا تو مایوس ہوکر واپس لوٹ گئے۔ اس طرح کفار مکہ کے تمام ارادے خاک میں مل گئے اور پیغمبر خدا کچھ دنوں بعد صحیح و سلامت مدینہ پہنچ گئے۔

بہت سے شیعہ اور اہل سنت علماء نے آیت مذکور کو علی علیہ السلام کی فداکاری سے منسوب کیا ہے اور اس کی تائید میں بہت سی روایات نقل کی ہیں جن میں سے چند ایک بطور نمونہ درج کی جارہی ہیں، ملاحظہ ہوں:

(ا)۔عَنْ علی بن الحسین فی قوله تعالٰی’وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ‘قال نَزَلَتْ فِیْ عَلِیٍّ عَلَیْهِ السَّلَام حینَ بٰاتَ عَلٰی فِراشِ رَسُولِ اللّٰهِ ۔ (المیزان)

”علی ابن الحسین امام زین العابدین علیہما السلام سے روایت ہے کہ انہوں نے آیت

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰه )

کے بارے میں فرمایا کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے جب وہ شب ہجرت پیغمبر خدا کے بستر پر سوئے تھے“۔

۶۳

(ب)۔رَوَی السُّدیُّ عَنْ اِبْنِ عَبَّاس قٰالَ نَزَلَتْ هٰذِهِ الآیةُ فِی عَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب عَلَیْهَ السَّلَام حِینَ هَرَبَ النَّبِیعَنِ الْمُشْرِکِیْنَ اِلَی الْغٰارِ ونٰام علی عَلٰی فِراشِ النَّبی ۔(مجمع البیان)

”سدی ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ یہ آیت

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰه )

حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی جب پیغمبر اسلام کفار کے شر سے بچنے کیلئے مدینہ کیلئے ہجرت کرتے ہوئے غار ثور کی طرف چلے اور علی علیہ السلام آپ کے بستر پر سوئے۔

اسی طرح بہت سے علماء نے من جملہ صاحب مجمع البیان نے اس آیت کے بارے میں درج ذیل روایت بیان فرمائی ہے جو بہت زیادہ اہمیت کی حامل اور قابل توجہ ہے۔ روایت اس طرح ہے:

لَمَّانَامَ عَلِیٌّ فِراشَه قَامَ جِبْرَائِیلُ عِنْدَ رَاسِهِ وَمِیْکَائِیلُ عِنْدَ رِجْلَیْهِ وَجِبْرَائِیلُ یُنٰادِی بَخٌ بَخٌ مَنْ مِثْلُکَ یابْنَ اَبِیْ طَالِب؟ یُبٰاهِی اللّٰهُ بِکَ الْمَلٰائِکَةُ

”جب حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام کے بستر پر(شب ہجرت)سوئے تو جبرئیل سرہانے کی طرف اور میکائیل پاؤں کی طرف کھڑے ہوگئے اور جبرئیل نے بہ آواز بلند کہا:’مبارک ہو،مبارک ہو، تم جیسا(باایمان اور فداکار) کون ہے؟ خداوند پاک فرشتوں کو مخاطب کرکے تم پر فخر کررہا ہے‘۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ فخرالدین رازی تفسیر کبیر میں، جلد۵،صفحہ۲۰۴،اشاعت دوم،تہران۔ آیت مذکور کے بارے میں۔

۲۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۳۹۔

۳۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، صفحہ۱۰۵،باب۲۱۔

۴۔ ثعلبی، کتاب احیاء العلوم، جلد۳،صفحہ۲۳۸۔

۵۔ شبلنجی، کتاب نورالابصار میں، صفحہ۸۶۔

۶۴

فضائل علی علیہ السلام قرآن کی نظر میں ۔۴

(چند دوسری مثالیں)

حضرت علی علیہ السلام سورہ والعصر میں

( وَالْعَصْرِاِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍاِلَّاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَعَمِلُوْاالصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْابِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْبِالصَّبْرِ )

”وقت عصر کی قسم! انسان ضرور گھاٹے میں ہے۔ سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے اور ایک دوسرے کو حق کی پیروی کی تاکید کرتے رہے اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کرتے رہے“۔

روایت

عَنْ اِبْنِ عباس فِی قوله تعالٰی:”وَالْعَصْرِ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ اِلَّاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْابِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْبِالصَّبْرِ“قٰالَ: هُوَ عَلِی علیه السلام ۔

اس روایت کو علامہ سیوطی نے تفسیر الدرالمنثور جلد۶،صفحہ۴۳۹(آخری روایت تفسیر سورئہ عصر) پر درج کیا ہے۔ اسی روایت کو حافظ الحسکانی نے کتاب شواہد التنزیل، حدیث۱۱۵۶

جلد۲،صفحہ۳۷۳، اشاعت اوّل اور حافظ ابی نعیم اصفہانی نے کتاب”ما نزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں بیان کیا ہے اور بہت سے دوسروں نے اسی روایت کو نقل کیا ہے۔

ترجمہ

”ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ اس کلام الٰہی

”وَالْعَصْرِاِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ“ کی تفسیر میں کہا کہ اس سے مراد ابوجہل لعنة اللّٰہ علیہ ہے اور”اِلَّاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْابِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْبِالصَّبْر“ کی تفسیر میں کہا گیاکہ اس سے مراد حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔

۶۵

علی علم الٰہی کا خزینہ ہیں

( قُلْ کَفٰی بِاللّٰهِ شَهِیْدًام بَیْنِیْ وَبَیْنَکُمْ وَمَنْ عِنْدَه عِلْمُ الْکِتٰبِ )

”آپ کہہ دیجئے کہ میرے اور تمہارے درمیان گواہی دینے کو (ایک تو) اللہ کافی ہے(دوسرے)وہ جن کے پاس اس کتاب کا پورا علم ہے“۔(سورئہ رعد:آیت۴۳)۔

روایت

عَنْ عَبْدِاللّٰهِ ابْنِ سَلٰام رضی اللّٰه عَنْهُ فِی قَولِه تَعٰالٰی”وَمَنْ عِنْدَه عِلْمُ الْکِتٰبِ“قَالَ سَئَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ قَالَ اِنَّمَا ذٰلِکَ عَلِیُّ بْنُ اَبِی طَالِب ۔

اس روایت کو شیخ سلیمان قندوزی حنفی نے کتاب ”ینابیع المودة“، باب مناقب، صفحہ۲۸۴،حدیث۶۰میں بیان کیا ہے اور ابن عباس سے نقل کرتے ہوئے اسی کتاب میں باب۳۰،صفحہ۱۲۱پر بھی درج کیا ہے۔اسی طرح حافظ الحسکانی نے کتاب ”شواہد التنزیل“،

،جلد۱،صفحہ۳۰۸،اشاعت اوّل، حدیث دوم میں بیان کیا ہے اور حافظ ابی نعیم اصفہانی نے کتاب ”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں اس آیت کی تفصیل میں بیان کیا ہے۔

ترجمہ

”عبداللہ بن سلام نے کلام الٰہی”وَمَنْ عِنْدَه عِلْمُ الْکِتٰبِ“ کے بارے میں روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ اس سے مراد کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ ا س سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں“۔

علی اور آپ کے اصحاب سچائی کا نمونہ ہیں

( یٰٓاَ یُّهَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوااتَّقُوااللّٰهَ وَکُوْنُوْامَعَ الصّٰدِقِیْنَ )

”اے ایمان لانے والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ“۔(سورئہ توبہ:آیت۱۱۹)۔

۶۶

روایت

عَنْ اِبْنِ عباس رضی اللّٰهُ عنهُ فِی هٰذِهِ الآیَةِ”یٰٓاَ یُّهَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوااتَّقُوااللّٰهَ وَکُوْنُوْامَعَ الصّٰدِقِیْنَ“قَالَ مَعَ علی واصحابه ۔

اس روایت کو ثعلبی نے اپنی تفسیر(تفسیر ثعلبی) جلد۱اور سیوطی نے تفسیر الدرالمنثور میں اس آیت کے سلسلہ میں بیان کیا ہے۔ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں باب شرح حال امیر المومنین میں حدیث۹۳۰،جلد۲،صفحہ۴۲۱میں بیان کیا ہے اور اسی طرح حافظ الحسکانی نے کتاب”شواہد التنزیل“،جلد۱،صفحہ۲۵۹،حدیث اوّل کے تحت بیان کیا ہے۔

ترجمہ

”ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ اس آیت

( یٰٓاَ یُّهَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوااتَّقُوااللّٰهَ وَکُوْنُوْامَعَ الصّٰدِقِیْنَ )

کے بارے میں انہوں نے کہاکہ” کُوْنُوْامَعَ الصّٰدِقِ یْ ن “سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام اور آپ کے اصحاب ہیں“۔

ولایت علی و اہل بیت پر اعتقاد رکھنے کا نتیجہ قبولیت توبہ،ایمان، عمل صالح اور ہدایت ہے

وَاِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدٰی ۔

”اور میں اُس کو جو توبہ کرے ، ایمان لائے اور نیک عمل کرے اورپھر ہدایت یافتہ بھی ہو، ضرور بخشنے والا ہوں“۔(سورئہ طٰہ:آیت۸۲)۔

روایت

عَنْ علی علیه السلام فِی قولِه تعٰالٰی”وَاِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدٰی“ قَالَ اِلٰی وِلٰایَتِنَا ۔

اس روایت کو حافظ ابونعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیه السلام“ میں نقل کیا ہے اور حافظ الحسکانی نے کتاب ”شواہد التنزیل“،جلد۱،صفحہ۳۷۵،

اشاعت اوّل میں امام محمدباقر علیہ السلام اور حضرت ابوذرغفاری کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔

۶۷

ترجمہ

”حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے اس کلام الٰہی

”وَاِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهتَدٰی“

کے بارے میں فرمایا:’یعنی وہ جس نے ہماری ولایت کو تسلیم کیا اور اُس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک عمل کئے اور پھر ہدایت یافتہ بھی ہوا، اللہ اُس کو ضرور بخشنے والا ہے‘۔“

امت اور ولایت علی پر ایمان اصل میں ایک ہیں

( وَاِنَّ الَّذِیْنَ لَایُومِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ عَنِ الصِّرَاطِ لَٰنکِبُوْنَ )

”اور ضروروہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، راہ راست سے ہٹ جانے والے ہیں“۔(سورئہ مومنون:آیت۷۴)۔

روایت

عَنْ علی ابنِ ابی طالب فی قوله تعٰالٰی”وَاِنَّ الَّذِیْنَ لَایُومِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ عَنِ الصِّرَاطِ لَٰنکِبُوْنَ“قَالَ عَنْ وَلٰایَتِنَا ۔

اس روایت کو حافظ ابونعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں ،حموینی نے کتاب”فرائد السمطین“، باب۶۱،جلد۲،صفحہ۳۰۰اور حافظ الحسکانی نے کتاب”شواہد التنزیل“ حدیث۵۵۷جلد۱،صفحہ۴۰۲پر نقل کیا ہے۔

ترجمہ

”علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے اس آیت خداوندی

( وَاِنَّ الَّذِیْنَ لَایُومِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ عَنِ الصِّرَاطِ لَٰنکِبُوْنَ )

کے بارے میں فرمایا کہ صراط سے یہاں مراد ہماری ولایت ہے(ولایت علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور ولایت اہل بیت )“۔

۶۸

علی کواذیت پہنچانابہت بڑ اصریح گناہ ہے

( وَالَّذِیْنَ یُوذُوْنَ الْمُومِنِیْنَ وَالْمُومِنٰتِ بِغَیْرٍمَااکْتَسَبُوْافَقَدِ احْتَمَلُوْابُهْتَانًاوَّاِ ثْمًامُّبِیْنًا )

”اور جو لوگ ایماندار مردوں اور ایماندار عورتوں کو بلاقصور ایذا پہنچاتے ہیں، وہ بہتان اور صریح گناہ کا وبال اپنے ذمے لیتے ہیں“۔(سورئہ احزاب:آیت۵۸)۔

روایت

عَنْ مقاتِلَ بن سلیمان فِی قولِه عَزَّوَجَل”وَالَّذِیْنَ یُوذُوْنَ الْمُومِنِیْنَ وَالْمُومِنٰتِ بِغَیْرِمَااکْتَسَبُوْافَقَدِاحْتَمَلُوْابُهْتَانًاوَّاِ ثْمًامُّبِیْنًا“

قَالَتْ نَزَلَتْ فِی علی ابن ابی طالب وَذٰلِکَ اَنَّ نَفَراً مِنَ الْمُنٰافِقِیْنَ کَانُوْایُوْذُوْنَه وَیَکْذِبُوْنَ عَلَیْهِ

اس روایت کو ابی نعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں درج کیا ہے۔ اس کے علاوہ واحدی نے کتاب ”اسباب النزول“،صفحہ۲۷۳اور حافظ الحسکانی نے کتاب”شواہد التنزیل“،جلد۲،صفحہ۹۳،اشاعت اوّل،حدیث۷۷۵میں نقل کیا ہے۔

ترجمہ

”مقاتل بن سلیمان روایت کرتے ہیں ،انہوں نے کہا کہ یہ آیت

وَالَّذِیْنَ یُوذُوْنَ الْمُومِنِیْنَ وَالْمُومِنٰتِ بِغَیْرِ مَااکْتَسَبُوْافَقَدِاحْتَمَلُوْابُهْتَانًاوَّاِ ثْمًامُّبِیْنًا

حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس کے نازل ہونے کی وجہ یہ تھی کہ کچھ منافقین آپ کو اذیت پہنچاتے تھے اور اُن کو جھٹلاتے تھے“۔

۶۹

اللہ تعالیٰ آل محمدپر سلام بھیجتا ہے

( سَلٰمٌ عَلٰی آلِ یَاسِیْنَ )

”آل یاسین تم پر سلام ہو“۔(سورئہ الصّٰٓفّٰت:آیت۱۳۰)۔

روایت

عَنْ اِبْنِ عباس رضی اللّٰه عنهُ فِی قوله تعٰالٰی”سَلٰمٌ عَلٰٓی اِلْ یَاسِیْنَ“قَالَ آلِ محمد صلَّی اللّٰهُ علیه وآله وسلَّم ۔

اس روایت کو حافظ ابی نعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“میں، ابن حجر ہیشمی نے ”صواعق المحرقہ“ میں صفحہ۷۶پر اور حافظ الحسکانی نے کتاب”شواہد التنزیل“،جلد۲،صفحہ۱۱۰،اشاعت اوّل میں نقل کیا ہے۔

ترجمہ

”ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ خدا کے اس کلام( سَلٰمٌ عَلٰٓی آلِ یَاسِیْنَ ) سے مراد آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں“۔

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ معتبر روایات کے مطابق آل محمد سے مراد حضرت علی علیہ السلام،جناب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا، امام حسن علیہ السلام ،امام حسین علیہ السلام اور اُن کی پاک

اولاد ہیں“۔

علی اور تصدیق نبوت پیغمبر اکرم

( وَالَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهٓ اُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ )

”اور وہ جو سچ کو لے کر آیا اوروہ جس نے اُس کی تصدیق کی(خدا سے) ڈرنے والے وہی تو ہیں“۔(سورئہ زمر:آیت۳۳)۔

۷۰

روایت

عَنْ مُجٰاهِدٍ فِی قوله تعالٰی”وَالَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهٓ اُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ“قَالَ جٰاءَ بِاالصِّدْقِ محمدصلَّی اللّٰه علیه وآله وسلَّم صَدَّقَ بِهِ علی ابنِ ابی طالب ۔

اس روایت کو ابن مغازلی شافعی نے کتاب”مناقب“،صفحہ۲۶۹،حدیث۳۱۷،

اشاعت اوّل میں، حافظ الحسکانی نے کتاب ”شواہد التنزیل“،جلد۲،صفحہ۱۲۱،حدیث۸۱۲،

اشاعت بیروت اور حافظ ابی نعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“میں آیت مذکور کی تشریح کے سلسلہ میں بیان کیا ہے۔

ترجمہ

”مجاہد سے روایت کی گئی ہے کہ اس کلام الٰہی

( وَالَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهٓ اُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ )

کے بارے میں انہوں نے کہاکہ”جَآءَ بالصدْق“سي مراد پ یغمبر اسلام ہیں اور”صَدَّقَ بہٓ“سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں(یعنی جو کوئی صداقت اور حق کے ساتھ آیاوہ پیغمبر اسلام ہیں اور جس نے اُن کی تصدیق کی، وہ علی علیہ السلام ہیں)“۔

علی اور آپ کے ماننے والے حزب اللہ ہیں اور وہی کامیاب ہیں

( اَ لَآاِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ )

”آگاہ رہو کہ خدائی گروہ کے لوگ(پوری پوری) فلاح پانے والے ہیں“۔

(سورئہ مجادلہ:آیت۲۲)

۷۱

روایت

عَنْ علی عَلَیْهِ السَّلام قَال سَلْمَانُ:فَلَمَّااِطَّلَعْتُ عَلٰی رسولِ اللّٰه یٰا اَبَاالْحَسَنْ اِلَّا ضَرَبَ بَیْنَ کِتْفِیْ وَقٰالَ:یَاسَلْمَانُ هَذَاوَحِزْبُهُ هُمُ الْمُفْلِحُوْن

اس روایت کو گنجی شافعی نے کتاب”کفایة الطالب“ باب۶۲،صفحہ۲۵۰میں، حافظ ابن عساکر نے کتاب”تاریخ دمشق“،باب شرح حال امیرالمومنین علیہ السلام،جلد۲،صفحہ۳۴۶

حدیث۸۵۴،اشاعت دوم میں، ابو نعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں اس آیت کی تشریح میں اور حافظ الحسکانی نے ”شواہد التنزیل“،جلد۱،صفحہ۶۸،اشاعت اوّل میں سورئہ بقرہ کی آیت۴کی تفسیر کرتے ہوئے نقل کیا ہے۔

ترجمہ

”حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ سلمان نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا:’یا اباالحسن !میں جب بھی رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر آپ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ اے سلمان! یہ شخص اور اس کی جماعت فلاح(کامیابی) پانے والے ہیں“۔

قیامت کے دن اللہ تعالیٰ رسول اکرم اور علی کے ماننے والوں کو رسوا نہیں کرے گا

( یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰهُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَه )

”جس دن خدا تعالیٰ نبی کو اور اُن لوگوں کو جو اُن کے ساتھ ایمان لائے ہیں، رسوا نہ کرے گا“۔(سورئہ تحریم:آیت۸)۔

روایت

قَرَأَ بْنُ عَبَّاس(یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰهُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَه)قَالَ عَلِیٌ وَاَصْحٰابُهُ

اس روایت کو حافظ ابی نعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں اس آیت کے ضمن میں اور علامہ سیوطی نے کتاب”جمع الجوامع“میں جلد۲،صفحہ۱۵۵پر نقل کیا ہے۔

۷۲

ترجمہ

”روایت کی گئی ہے کہ ابن عباس یہ آیت

”یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰهُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَه“

تلاوت فرمارہے تھے،اُس وقت انہوں نے کہا کہ ”وہ لوگ جو ایمان لائے“سے مراد علی علیہ السلام اور اُن کے ماننے والے ہیں“۔

روزقیامت ولایت علی کے بارے میں سوال کیا جائے گا

( ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ )

”پھر تم سے اُس دن نعمتوں کی بابت ضرور بازپرس کی جائے گی“۔(سورئہ تکاثر:آیت۸)۔

روایت

عَنْ جَعْفَرِابْنِ محمد علیه السلام فِی قولِهِ عَزَّوَجَلَّ”ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ“قَالَ:عَنْ وِلَایَةِ عَلِیّ ۔

اس روایت کو حافظ ابی نعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں اس آیت کے بارے میں بیان کرتے ہوئے اور حافظ الحسکانی نے کتاب ”شواہد التنزیل،جلد۲،صفحہ۳۶۸،اشاعت اوّل میں نقل کیا ہے۔

ترجمہ

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے اس آیت

( ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ )

کے بارے میں فرمایا کہ وہ نعمت جس کے بارے میں روز قیامت سوال کیا جائے گا وہ ولایت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہے“۔

۷۳

فضائل امام علی علیہ السلام احادیث کی نظر میں۔ ۱

(حصہ اول)

پچھلے ابواب میں ہم نے مولائے متقیان امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کا تعارف قرآن کریم کی وساطت سے کروایا اور اس طرح آپ کی عظمت اور بلند مرتبہ شخصیت سے کسی حد تک آشناہوئے۔ اس سے پہلے بھی ہم اشارہ کرچکے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کی شان میں جوا ٓیات قرآن کریم میں موجود ہیں، اُن کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ہم تو صرف چند آیات کو بیان کرسکے ہیں۔

اس باب میں انشاء اللہ روایات کی مدد سے ہم آپ کی شخصیت بزرگ اور نورانی چہرے کو اُجاگر کریں گے۔ یہاں جتنی بھی روایات نقل کی جائیں گی، وہ سب حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہیں۔ یہ وہ پیغمبر ہیں جو شریف ترین انسان اور عظیم ترین نبی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ سے دیکھیں اور اُن کے بلند ترین مقام کو پہچانیں۔

ان مختصر سے ابتدائی کلمات میں یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ جیسے پچھلے ابواب میں اہل سنت کی کتب سے اسناد پیش کی گئیں، اس باب میں بھی اُسی طرح اہل سنت کی کتب سے اسناد پیش کی جائیں گی۔ یہاں یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ برادران اہل سنت کی کتب سے حوالہ جات لکھنے کا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ شیعہ علماء نے ان روایات کے بارے میں کچھ نہیں لکھا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان تمام روایات کو شیعہ علماء نے اپنی کتب میں واضح طور پر بیان کیا ہے اور اُن کی نظر میں یہ سب معتبر اور تسلیم شدہ ہیں۔ ان کے بارے میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔لہٰذا ان وجوہات کے پیش نظر شیعہ علماء اور کتب شیعہ سے کوئی حوالہ نہیں لکھا جارہا۔ صرف چند ایک جگہوں پر اشارتاً ذکر کیا گیا ہے۔

اصل مدعا یہ ہے کہ وہ لوگ جو آپ کو صرف مسلمانوں کا چوتھا خلیفہ مانتے ہیں اور اُن کو رسول اللہ کا خلیفہ بلافصل نہیں مانتے، آپ کے فضائل اُن کی زبانی سنے جائیں۔ اس طرح ایک تو مسلمانان عالم کو صحیح راستہ دکھا سکیں گے اور دوسرے اہل تشیع کے ایمان نسبت بہ محمد و آل محمدکومزید تقویت پہنچاسکیں گے،انشاء اللہ۔

۷۴

پہلی روایت

علی سب سے پہلے نبوت اورکلمہٴ توحید کی گواہی دینے والے ہیں

عَنْ انس ابن مالک قَالَ: قَالَ رَسُوْل اللّٰهِ:صَلّٰی عَلیَّ الْمَلٰا ئِکَةُ وَعَلٰی عَلِیِّ سَبْعَ سِنِیْنَ وَلَمْ یَصْعُدْ اَوْلَمْ یَرْتَفِعْبِشَهٰادَةِ اَنْ لَااِلٰهَ اِلَّااللّٰهُ مِنَ الْاَرْضِ اِلَی السَّمَاءِ اِلَّا مِنِّی وَمِنْ علی ابنِ ابی طالب ۔

”انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتے سات سال تک مجھ پر اور علی علیہ السلام پر درود بھیجتے رہے(یہ اس واسطے کہ ان سات سالوں میں) خدا کی وحدانیت کی گواہی زمین سے آسمان کی طرف سوائے میرے اور علی کے علاوہ کسی نے نہ دی“۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے اسلام لانے کے بارے میں اہل سنت اور شیعہ کتب سے کافی روایات ملتی ہیں۔ جیسے زید بن ارقم کہتے ہیں”اَوَّلُ مَنْ اَسْلَمَ عَلِی ۱“سب سے پہلے جو اسلام لائے وہ علی تھے۔ اس کے کچھ حوالہ جات نیچے بھی درج کئے گئے ہیں۔ اسی طرح انس بن مالک کہتے ہیں: ۲

”بُعِثَ النَّبِیُّ یَوْمَ الْاِثْنَیْنِ وَاَسْلَمَ عَلِیٌّ یَوْمَ الثلا ثا“

یعنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیر کے روز مبعوث برسالت ہوئے اور علی علیہ السلام نے منگل کے روز اسلام قبول کیا۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر تاریخ دمشق ،باب شرح حال امام علی ،جلد۱،ص۷۰،حدیث۱۱۶۔

۲۔ ابن مغازلی کتاب مناقب امیرالمومنین ،حدیث ۱۹،ص۸،اشاعت اوّل،ص۱۴پر

۳۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۱۲،صفحہ۶۸۔

۴۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل میں، حدیث ۷۸۶اور ۸۱۹۔

۵۔ سیوطی، کتاب اللئالی المصنوعہ،ج۱،ص۱۶۹و(صفحہ۱۶۶اشاعت بولاق)

۶۔ متقی ہندی، کنزالعمال،ج۱۱،ص۶۱۶(موسسة الرسالہ بیروت،اشاعت پنجم)۔

۷۵

حوالہ جات روایت زید بن ارقم ۱

۱۔ ابن کثیر کتاب البدایہ والنہایہ،جلد۷،صفحہ۳۳۵(باب فضائل علی علیہ السلام)۔

۲۔ گنجی شافعی کتاب کفایة الطالب،باب۲۵،صفحہ۱۲۵۔

۳۔ سیوطی ،کتاب تاریخ الخلفاء، صفحہ۱۶۶(باب ذکر علی ابن ابی طالب علیہ السلام)۔

حوالہ جات روایت انس بن مالک ۲

۱۔ خطیب،تاریخ بغداد میں،جلد۱،صفحہ۱۳۴(حال علی علیہ السلام،شمارہ۱)۔

۲۔ حاکم ،المستدرک میں، جلد۳،صفحہ۱۱۲(باب فضائل علی علیہ السلام)۔

۳۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ،جلد۳،صفحہ۲۶۔

۴۔ سیوطی، کتاب تاریخ الخلفاء،صفحہ۱۶۶(باب ذکر علی ابن ابی طالب علیہ السلام)۔

۵۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، باب۱۲،صفحہ۶۸اورباب۵۹،ص۳۳۵۔

۶۔ ابن عساکر تاریخ دمشق ، حال امیر المومنین امام علی ،جلد۱،ص۴۱،حدیث۷۶۔

دوسری روایت

علی پیغمبر کے ساتھ اورپیغمبرعلی کے ساتھ ہیں

عَنْ علی ابنِ ابی طالب قَالَ: قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلَّی اللّٰهُ علیه وآله وسلَّمْ:یَا عَلِیُّ اَنْتَ مِنِّی وَاَنَامِنْکَ

”علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے روایت ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا:یا علی ! تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حاکم، کتاب المستدرک میں جلد۳،صفحہ۱۲۰۔

۲۔ ذہبی، میزان الاعتدال،جلد۱،صفحہ۴۱۰،شمارہ ۱۵۰۵،ج۳،ص۳۲۴،شمارہ۶۶۱۳

۳۔ ابن ماجہ سنن میں، جلد۱،صفحہ۴۴،حدیث۱۱۹۔

۷۶

۴۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ،جلد۷،صفحہ۳۴۴(باب فضائل علی علیہ السلام)۔

۵۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں، باب حال امیر المومنین ،ج۱،ص۱۲۴،حدیث۱۸۳

۶۔ سیوطی،تاریخ الخلفاء،صفحہ۱۶۹۔

۷۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب میں، حدیث۲۷۵،صفحہ۲۲۸،اشاعت اوّل۔

۸۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب ۶۷،صفحہ۲۸۴۔

۹۔ شیخ سلیمان قندوزہ حنفی ،کتاب ینابیع المودة، صفحہ۲۷۷،باب۷،صفحہ۶۰۔

۱۰۔ بخاری، کتاب صحیح بخاری میں، جلد۵،صفحہ۱۴۱(عن البراء بن عازب)۔

۱۱۔ نسائی الخصائص میں، صفحہ۱۹اور۵۱اور حدیث۱۳۳،صفحہ۳۶۔

۱۲۔ ترمذی اپنی کتاب میں، جلد۱۳،صفحہ۱۶۷(عن البراء بن عازب)۔

۱۳۔ متقی ہندی، کتاب کنزل العمال ،جلد۱۱،صفحہ۵۹۹،اشاعت پنجم بیروت۔

تیسری روایت

پیغمبر اور علی کی خلقت ایک ہی نور سے ہے

عَنْ جٰابِرِبْنِ عَبْدُاللّٰهِ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِی(رسول اللّٰه) یَقُوْلُ لِعَلیٍّ:النّاسُ مِنْ شَجَرٍ شَتّیٰ وَاَنَاوَاَنْتَ مِنْ شَجَرَةٍ وٰاحِدَةٍ ثُمَّ قَرَأَالنَّبِی”وَجَنٰاتٌ مِنْ اَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِیْلٌ صِنْوٰانٌ وَغَیْرُ صِنْوٰانٍ یُسْقٰی بِمٰاءٍ وٰاحِدٍ“

”جابرابن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول خدا سے سنا کہ وہ حضرت علی علیہ السلام سے مخاطب تھے اور فرمارہے تھے ”سب لوگ سلسلہ ہائے مختلف(مختلف اشجار)سے پیدا کئے گئے ہیں لیکن میں اور تو(علی ) ایک ہی سلسلہ(شجرئہ طیبہ) سے خلق کئے گئے ہیں اور پھر آپ نے یہ آیت پڑھی:

۷۷

( ثُمَّ قَرَأَالنَّبِی”وَجَنٰاتٌ مِنْ اَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِیْلٌ صِنْوٰانٌ وَغَیْرُ صِنْوٰانٍ یُسْقٰی بِمٰاءٍ وٰاحِدٍ ) ۔(سورئہ رعد:آیت:۱۳)

”اور انگوروں کے باغ اور کھیتیاں اور کھجور کے درخت ایک ہی جڑ میں سے کئی اُگے ہوئے اور علیحدہ علیحدہ اُگے ہوئے کہ یہ سب ایک ہی پانی سے سینچے جاتے ہیں“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب، حدیث ۴۰۰اور حدیث۹۰،۲۹۷میں۔

۲۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین،باب۴،حدیث۱۷۔

۳۔ حاکم، کتاب المستدرک،جلد۲،صفحہ۲۴۱۔

۴۔ ابن عساکر،تاریخ دمشق ،شرح حال علی ،ج۱،ص۱۲۶،حدیث۱۷۸،شرح محمودی۔

۵۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں،جلد۴،صفحہ۵۱اور تاریخ الخلفاء،صفحہ۱۷۱۔

۶۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، باب مناقب۷۰،حدیث۳۷،صفحہ۲۸۰۔

۷۔ حافظ الحسکانی،کتاب شواہد التنزیل میں، حدیث۳۹۵۔

۸۔ متقی ہندی، کنزالعمال،جلد۶،صفحہ۱۵۴،اشاعت اوّل ،جلد۲،ص۶۰۸(موسسة

الرسالہ بیروت، اشاعت پنجم)۔

چوتھی روایت

علی ہی دنیا وآخرت میں نبی کے علم بردار ہیں

عن جابر ابنِ سَمْرَةَ قَالَ: قِیْلَ یَارَسُوْلَ اللّٰهِ مَنْ یَحْمِلُ ٰرایَتَکَ یَوْمَ القِیٰامَةِ؟ قٰالَ: مَنْ کَانَ یَحْمِلُهَا فِی الدُّ نْیٰاعلی ۔

”جابر ابن سمرہ سے روایت ہے کہ رسول خدا کی خدمت میں عرض کیا گیا:’یا رسول اللہ! قیامت کے روز آپ کاعَلَم کون اٹھائے گا؟‘آپ نے فرمایا جو دنیا میں میرا علمبردارہے یعنی علی “۔

۷۸

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ، جلد۷،صفحہ۳۳۶(باب فضائل حضرت علی )۔

۲۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، شرح حال علی ، ج۱،ص۱۴۵،حدیث۲۰۹،شرح محمودی۔

۳۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب امیر المومنین علیہ السلام میں، حدیث۲۳۷،صفحہ۲۰۰۔

۴۔ علامہ اخطب خوارزمی، کتاب مناقب،صفحہ۲۵۰۔

۵۔ علامہ عینی، کتاب عمدة القاری،۱۶۔۲۱۶۔

۶۔ متقی ہندی، کتاب کنزالعمال میں، جلد۱۳،صفحہ۱۳۶۔

انچویں روایت

پیغمبر اکرم اور علی ایک ہی شجرئہ طیبہ سے ہیں

عَنْ ابنعباس قٰالَ: قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ حُبُّ عَلِیٍّ یَأ کُلُ السِّیِّاتِ کَمٰا تَاکُلُ النَّارُالخَطَبَ ۔

”ابن عباس کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’علی کی محبت گناہوں کو ایسے کھاجاتی ہے جیسے خشک لکڑی کو آگ‘ ۔“

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر ،تاریخ دمشق ،باب شرح حال امیر المومنین ، ج۲،ص۱۰۳حدیث۶۰۷

۲۔ خطیب ،تاریخ بغداد شرح حال احمد بن شبویة بن معین موصلی، ج۴،ص۱۹۴،شمارہ۱۸۸۵۔

۳۔ متقی ہندی، کنزل العمال، ج۱۵،ص۲۱۸،اشاعت دوم، شمارہ۱۲۶۱(باب فضائل

علی ) اور دوسری اشاعت ج۱۱،ص۴۲۱(موسسة الرسالة بیروت، اشاعت۵)

۴۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب مناقب سبعون، صفحہ۲۷۹،حدیث۳۳اور باب۵۶صفحہ۲۱۱اور ۲۵۲۔

۵۔ سیوطی دراللئالی المصنوعہ، جلد۱،صفحہ۱۸۴،اشاعت اوّل۔

۷۹

چھٹی روایت

در علی کے علاوہ تمام در مسجد بند کرنے کا حکم

عَنْ زَیْداِبْنِ اَرْقَم قالَ: کَانَ لِنَفَرٍ مِنْ اَصْحٰابِ رَسُولِ اللّٰهِ اَبْوابٍ شَارِعَةٍ فِی الْمَسْجِدِ قَالَ: فَقٰالَ(النَّبِیُّ) یَوْمًا: سُدُّ وا هٰذِهِ الاَ بْوَابَ اِلَّا بَابَ عَلیقٰالَ: فَتَکَلَّمَ فِیْ ذٰالِکَ اُنَاسٍ قٰالَ: فَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰهِ فَحَمَدَ اللّٰهَ وَأَ ثْنٰی عَلَیْهِ ثُمَّ قٰالَ أَمَّا بَعْدُ فَاِنِّی اُمِرْتُ بِسَدِّ هٰذِهِ الْاَبْوَابِ غَیْرَ بَابِ عَلِیٍّ فَقٰالَ فیهِ قَاعِلُکُمْ،وَاِنِّی وَاللّٰهِ مَاسَدَدْتُ شَیْئًا وَلَا فَتَحْتُه وَلَکِنِّی اُمِرْتُ بِشَیءٍ فَاتَّبِعُه ۔

”زید بن ارقم کہتے ہیں کہ چند اصحاب رسول خدا کے گھروں کے دروازے مسجد کی طرف کھلتے تھے۔ ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ تمام دروازوں کو (سوائے حضرت علی علیہ السلام کے دروازے کے) بند کردیاجائے۔ چند لوگوں نے اس پر چہ میگوئیاں کرنا شروع کردیں۔ پس رسول خدا کھڑے ہوگئے اور اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا شروع کردی اور فرمایا کہ جب سے میں نے دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا ہے ،اُس کے بعد سے کچھ لوگوں نے باتیں کی ہیں(اس کے بارے میں صحیح رائے نہیں رکھتے)۔ خدا کی قسم! میں نے کسی دروازے کو اپنی طرف سے بند کرنے کا حکم نہیں دیا اور نہ ہی کسی کے کھلنے کا حکم اپنی طرف سے دیا ہے، لیکن خدا کی طرف سے مجھے حکم ملا اور میں نے حکم خدا کو جاری کردیا ہے“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکرتاریخ دمشق ، باب شرح حال امام علی ، ج۱،احادیث۳۲۳تا۳۳۵۔

۲۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب، حدیث۳۰۲،صفحہ۲۵۳۔

۳۔ ابونعیم ، کتاب حلیة الاولیاء، باب شرح حال عمروبن میمون۔

۴۔ حاکم، کتاب المستدرک، جلد۳،صفحہ۱۲۵،حدیث۶۳،باب مناقب علی علیہ السلام۔

۵۔ ابن کثیر کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد۷،صفحہ۳۴۳،اشاعت بیروت۔

۶۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۵۰،صفحہ۲۰۱۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

۴۔ امام علیہ السلام کا خط خوارج کے لئے ذرہ برابر بھی مؤثر ثابت نہ ہواان لوگوں نے حضرت کی درخواست کو رد کردیا۔ اس وجہ سے امام علیہ السلام ان لوگوں سے مایوس ہوگئے اور ارادہ کیا کہ ان لوگوں کا انتظار نہ کریں اور جتنے سپاہی موجود ہیں یا آنے والے ہیں ان کے ساتھ صفین کی طرف جائیں، پھر آپ نے بصرہ کے حاکم ابن عباس کے پاس خط لکھا اور ان سے مدد طلب کی، جب امام علیہ السلام کا خط بصرہ کے حاکم کے پاس پہونچا تو انہوں نے لوگوں کے درمیان اس خط کو پڑھ کر سنایا مگر افسوس کہ صرف پندرہ سو آدمیوں نے اخنف بن قیس کی سرداری میں امام علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہی۔ ابن عباس فوج کی اقلیت پر بہت رنجیدہ ہوئے اور لوگوں کے مجمع میں بہترین تقریر کی اور کہا: '' امیر المومنین علیہ السلام کا خط میرے پاس آیا ہے اور اس میں مجھے حکم دیا ہے کہ لوگوں کو میرے پاس جنگ میں شرکت کرنے کے لئے روانہ کرو لیکن صرف پندرہ سو (۱۵۰۰) لوگ جہاد کے لئے آمادہ ہیں جب کہ سرکاری رجسٹر میں ساٹھ ہزار آدمی کا نام درج ہے ۔جلدسے جلد روانہ ہوجاؤ اور عذر اور بہانہ سے پرہیز کرو اور جو شخص بھی اپنے امام کی دعوت کی مخالفت کرے گا بہت زیادہ شرمندہ ہوگا ۔ میں نے ابوالاسود کو حکم دیا ہے کہ تم لوگوں کی روانگی کا پروگرام ترتیب دیں۔

ابوالاسود اور دوسرے افراد کی تمام تر کوششوں کے باوجود صرف اٹھارہ سو (۱۸۰۰) لوگ پہلے گروہ سے ملحق ہوئے اور بالآخر تین ہزار دوسو (۳۳۰۰) افراد پر مشتمل ایک لشکر کوفہ کے لئے روانہ ہوا ، امام علیہ السلام بصرہ کی فوج کی کمی پر بے حد رنجیدہ ہوئے اور کوفہ کے لوگوں کے درمیان آپ تقریر کرنے کے لئے اٹھے اور ان لوگوں کو مخاطب کرکے کہا:اے کوفہ کے لوگو! تم لوگ حق کے امور میں میرے بھائی اور میرے دوست ہو میں تم لوگوں کی مدد سے ،جوحق سے منھ موڑے گا اسے سرنگوں کردوں گا۔ مجھے امید ہے کہ تم لوگ اس راہ میں حق کے پاسدار اور ثابت قدم رہو گے ، تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ بصرہ سے صرف تین ہزار دوسو لوگ ہمارے پاس آئے ہیں۔ تم لوگوں پر لازم ہے کہ خلوص کے ساتھ اوردھوکہ ، فریب و خیانت سے دور رہ کر میری مدد کرو، اور قبیلے کے بزرگ اور سردار اپنے رشتہ داروں اور خاندان والوں کو خط لکھیںاور ان سے کہیں کہ جو لوگ جنگ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں وہ اس جنگ میں شرکت کریں ۔

۷۲۱

بڑی شخصیتیں مثلاً سعد بن قیس ہمدانی ، عدی بن حاتم ، حجر بن عدی اور قبیلوں کے بزرگ افراد نے امام کے فرمان کو دل وجان سے قبول کیا اور اپنے اپنے قبیلوں کو خط لکھا ، اور اس طرح چالیس ہزار (۰۰۰،۴۰) بہادر جنگجو اور سترہ ہزار (۱۷۰۰۰) نوجوان اور آٹھ ہزار (۸۰۰۰) غلام کوفہ میں داخل ہوئے اور بصرہ کا لشکر بھی اسی میں شامل ہوگیا اور ایک قابل دید اور دشمن شکن لشکر امام علیہ السلام کے پرچم تلے جمع ہوگیا۔

کچھ لوگوں نے امام علیہ السلام سے بہت زیادہ اصرار کیا کہ معاویہ سے جنگ کرنے سے پہلے خوارج کے معاملے کو ختم کردیں ، لیکن امام علیہ السلام نے ان کی درخواست پر توجہ نہ دی اور فرمایا: ان لوگوں کو چھوڑ دو اورایسے گروہ کی طرف چلو جو چاہتے ہیں کہ زمین پر ستمگروں کے بادشاہ رہیں ، اور مومنین کو اپنا غلام بنائیں ، اس وقت فوج کے ہر گوشہ سے آواز بلند ہوئی اور لوگوں نے امام سے کہا :آپ جہاں بھی مصلحت سمجھیں ہمیں بھیج دیں کیونکہ ہم سب کا دل ایک آدمی کے دل کی طرح ہے اور آپ کی نصرت و مدد کے لئے تڑپ رہا ہے۔

۵۔ایسے حساس حالات میں خبر پہونچی کہ خوارج نے عبداللہ بن خباب کو نہر کے کنارے بھیڑ کی طرح ذبح کردیا ہے اور صرف اتنے ہی پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ ان کی بیوی کوبھی قتل کردیا ہے اور ان کے شکم سے بچہ نکال کر اسے بھی ذبح کردیا ہے۔

ابن قتیبہ '' الامامة والسیاسة '' میں اس بارے میں لکھتے ہیں :جب خوارج عبداللہ کے سامنے آئے تو ان سے کہا: تم کون ہو؟ انہوں نے کہا خدا کا مومن بندہ ہوں۔ ان لوگوں نے کہا: علی کے بارے میں تمہارا کیا نظریہ ہے ؟ انہوں نے کہا: وہ امیرالمومنین اور خدا اوراس کے رسول پر سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں ۔ ان لوگوں نے کہا: تمہارا نام کیا ہے ؟ انہوں نے کہا ، عبداللہ بن خباب بن الارّت ۔ ان لوگوں نے کہا: تمہارا باپ پیغمبر کا صحابی ہے ؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ ان لوگوں نے کہا: ہم نے تمہیں ناراض کیا ہے ؟ کہا : ہاں ان لوگوں نے کہا۔ وہ حدیث جو کہ تم نے اپنے باپ سے اور انہوں نے پیغمبر سے سنی ہے ہمارے لئے نقل کرو ۔ انہوں نے کہا: میرے باپ نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایاہے:'' میرے بعد ایسا فتنہ برپا ہوگا کہ مومن کا دل اس میں مرجائے گا ، رات کو باایمان سوئے گا اور دن میں کافر ہوجائے گا ''۔

۷۲۲

ان لوگوں نے کہا :ہم لوگوں کا مقصد یہ تھا کہ یہ حدیث تم سے سنیں قسم ہے تمہیں اس طرح قتل کریں گے کہ آج تک اس طرح کسی کو قتل نہیں کیا ہے اور پھر فوراً ہی ان کے ہاتھ پیر باندھ دیئے اورانہیں ان کی حاملہ بیوی کے ساتھ کھجور کے درخت کے پاس لائے ۔اس وقت ایک کھجور پیڑ سے گری اور خوارج میں سے ایک شخص نے اُسے منھ میں رکھ لیا فوراً ہی اس کے ہم خیالوں نے اعتراض کیاکہ لوگوں کے مال کو بغیر اجازت یا بغیر قیمت دیئے ہوئے کھارہے ہو؟ اس نے فوراً کھجور منھ سے نکال دی اور پھینک دیا! اور اسی طرح ایک عیسائی کا سور وہاں سے گزررہا تھا جو کسی خوارج کے تیر سے اس وقت دوسروں نے اعتراض کیا کہ تمہار ایہ کام زمین پر فساد کرنا ہے لہٰذا اس کے مالک سے لوگوںنے رضایت طلب کی ۔پھر عبداللہ کو جنہیں باندھ رکھا تھا نہر کے کنارے لائے اور بھیڑ کی طرح ذبح کردیا اور صرف اسی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ ان کی بیوی کوبھی قتل کردیا اور ان کے شکم کو چاک کرکے بچے کے سر کو بھی کاٹ دیا ، اور پھر بھی اتنے ہی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ تین اور دوسری عورتوں کو بھی قتل کردیا جن میں سے ایک صحابیہ تھیں جن کا نام ام ّ سنان تھا(۱) ۔

خباب بن الارّت ، عبداللہ کے والد ، اسلام کے سابقین میں سے تھے اور قریش کے شکنجوں کے نشانات ان کے بدن پرآخر وقت تک موجودتھے۔ وہ امام علیہ السلام کے صفین سے کوفہ پہونچنے سے پہلے ہی انتقال کرگئے اورامام علیہ السلام صفین سے آنے کے بعد ان کی قبر پر گئے اور ان کے رحمت کی اور تعریف کی۔

مبرّدنے اپنی کتاب '' کامل '' میں عبداللہ کے دردناک قتل کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب قاتل نے انہیں پکڑا تو عبداللہ نے کہا : میں تم سے درخواست کرتاہوں کہ جس چیز کو قرآن نے زندہ کیا ہے اسے زندہ کرو اور جس چیز کو مردہ کیاہے اسے ماردو، پھر عبداللہ کی روایت ان کے والد کے واسطے پیغمبر سے نقل کرنے کے بعدمبرد لکھتے ہیں:خوارج نے کھجور کے مالک سے درخواست کی کہ اس کی قیمت لے لے، اس نے کہا کہ میں نے اس پیڑ کی کھجور کے استعمال کو تم لوگوں کے لئے بخش دیاہے لیکن ان لوگوں نے قبول نہیں کیا اورکہا کہ تم کو اس کی قیمت لینا پڑے گی ، اس وقت ایک عیسائی نے فریاد بلند کی کہ تم لوگ ایک مسلمان کا خون بہانے سے نہیں ڈرتے لیکن ایک پھل کھانے سے پرہیز کرتے ہو جب کہ اس کے مالک

______________________

(۱) الامامة والسیاسة: ص۱۳۶۔

۷۲۳

نے رضایت بھی دیدی ہے ؟!(۱)

۶۔ امیرالمومنین علیہ السلام جب عبداللہ کے قتل سے باخبر ہوئے تو حارث بن مرّہ کو خوارج کی چھاؤنی بھیجا تاکہ واقعہ کی حقیقت معلوم کریں جب حارث ان کے پاس پہونچے تاکہ واقعہ کا صحیح پتہ لگائیں تو ان لوگوں نے تمام اسلامی اورانسانی اصولوں کے برخلاف انہیں قتل کردیا۔ امام علیہ السلام پر سفیر کے قتل ہونے کی وجہ سے بہت اثرہوا ۔اس موقع پر کچھ لوگ امام علیہ السلام کے پاس پہونچے اور کہا : کیا یہ صحیح ہے کہ ایسے خطروں کے باوجود ہم شام جائیں اور اپنے بچوں اور عورتوں کو ان کے پاس چھوڑدیں؟

______________________

(۱) الکامل: ص ۵۶۰، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج۲، ص۲۸۲۔

۷۲۴

عبداللہ کے قاتلوں کی تنبیہ

عبداللہ کے قتل سے جو وحشت اور رعب پیدا ہوا اس نے امام علیہ السلام کو آمادہ کیا کہ جہالت اور بدبختی کو جڑ سے ختم کردیں ، اسی وجہ سے آپ نے ارادہ کیا کہ حروراء یا نہروان جائیں جب امام روانہ ہونے لگے تو اس وقت آپ کے دوستوں میں سے ایک شخص نے جو علم نجوم میں ماہر تھا ، علی علیہ السلام کو اس وقت سفر کرنے سے منع کیا اور کہا: اگر اس وقت آپ نے سفر کیا تو بہت سخت مشکل میں گرفتار ہوں گے امام علیہ السلام نے اس کی بات پر توجہ نہیں دی اور ان مسائل میں علم نجوم سے استفادہ کرنے کے سلسلہ میں تنقید کرتے ہوئے فرمایا: نجوم کو جنگل کی تاریکیوں اور دریاؤں میں راہنمائی کے لئے استعمال کرو ، قضاء الہی سے امام علیہ السلام کو عظیم کامیابی ملی۔ امام علیہ السلام کوفہ سے کچھ ہی دور ہوئے تھے کہ آپ کے ساتھیوں میں سے ایک شخص دوڑا دوڑا آیا اور کہااے امیرالمومنین !بشارت دیجئے کہ خوارج کا گروہ آپ کے سفر سے آگاہ ہوگیا اور بھاگ گیا اور نہر عبور کرچکا ہے ۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: کیا تم نے اپنی آنکھوں سے لوگوں کو نہر عبور کرتے دیکھا ہے ؟ اس نے کہا: ہاں ، امام نے اُسے تین مرتبہ قسم دی اور اس نے تینوں مرتبہ قسم کھا کر کہا: میں نے خوارج کو پانی اور پل پر سے گزرتے ہوئے دیکھا ہے ۔ امام علیہ السلام نے فرمایا:

۷۲۵

''واللّٰه ما عبروه ولن یعبروه وانّ مصارِعَهم دون النّطفة والذی خلق الحبّة وبرئَ النسمة لن یبلغوا الا ثلاث ولا قصربوازِن ''(۱) خدا کی قسم ان لوگوں نے دریا کو عبور نہیں کیا ہے اور عبور کربھی نہیں کرسکتے ، ان کا مقتل دریا کے کنارے ہے۔ اس خدا کی قسم جس نے دانوں کو چاک کیا اور انسانوں کو پیدا کیا وہ لوگ '' اثلاث '' اور'' قصربوازن'' بھی نہیں پہونچ پائیں گے۔

اس شخص کی دو آدمیوں نے اور بھی تائید کی لیکن امام علیہ السلام نے ان کی باتوں کو قبول نہیں کیا اور امام کس طرح سے قبول کرتے کیونکہ پیغمبر معصوم (ص) نے آپ کو خبر دی تھی کہ تین گروہ سے تمہاری جنگ ہوگی ؟ دوگروہوں سے جنگ ہوچکی تھی اور تیسرا گروہ پیغمبر کے قول میں ذکر شدہ نشانیوں کے مطابق یہی گروہ تھا ۔ اس وقت ایک جوان شک وشبہ میں پڑ گیا اور سوچنے لگاکہ عینی شاہدوں کی بات مانے یا امام علیہ السلام کی غیبی باتوں کو صحیح مانے ، آخر اس نے فیصلہ کیا کہ اگر امام علیہ السلام کی بات کے برخلاف ثابت ہوا تو ان کے دشمن سے مل جائے گا۔

امام علیہ السلام گھوڑے پر سوار ہوئے اور آپ کی فوج بھی پیچھے پیچھے چلی، جب خوارج کی چھاؤنی پر پہونچے تو پتہ چلا کہ ان لوگوں نے نیام کو توڑ ڈالا ہے اور گھوڑوں کو چھوڑدیا ہیاور جنگ کے لئے تیار ہیں اس وقت وہ سادہ لوح نوجوان امام علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور اپنے برے خیال کے متعلق امام سے معافی مانگی۔

تاریخ بیان کرتی ہے کہ امام علیہ السلام مدائن سے گزر کر نہروان پہونچے اور انہیں پیغام دیا کہ عبداللہ اور اس کی بیوی بچے کے قاتل کو ہمارے حوالے کریں تاکہ ان کا قصاص لیں۔ خوارج نے جواب دیا ہم سب نے مل کر انہیں قتل کیا ہے اور ان کے خون کو حلال سمجھا ہے۔ امام علیہ السلام ان کے نزدیک پہونچے اور فرمایا:

'' اے (سرکش)گروہ میں تم کو متنبّہ کررہا ہوں کہ ایسا نہ ہوکہ کل امت اسلامی تم کو لعنت کامستحق قراردے اور بغیر کسی واضح دلیل کے دریا کے کنارے قتل کردیئے جاؤ۔

میں نے تم لوگوں کو مسئلہ حکمیت قبول کرنے سے منع کیا اور میں نے کہا تھا کہ بنی امیہ کو نہ دین

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۲، ص۲۷۲''مضارعهم دون النطفةواللّٰه لایفلت منهم عشرةولا یهلک منکم عشرة'' خطبہ ،۵۸

۷۲۶

سے محبت ہے اور نہ قرآن ہی چاہتے ہیں۔ میں ان لوگوں کو بچپن سے لے کر اس وقت تک کہ وہ بڑے ہوئے ہیں خوب پہچانتاہوں ، وہ لوگ بد ترین بچے اور بدترین لوگ ہیں ۔لیکن تم لوگوں نے میری بات غور سے نہیں سنی اور میری مخالفت کی اور میں نے ایسے ہی دن کے لئے دونوں قاضیوں سے عہد وپیمان لیا کہ جو کچھ قرآن نے زندہ کیاہے اُسے زندہ کریں اور جس چیز کو ختم کیا ہے اسے ختم کر دیں اب جبکہ دونوں نے قرآن و سنت کے برخلاف حکم کر دیا ہے ہم اپنے پہلے ہی قول اور طریقے پر باقی ہیں(۱)

'' خوارج کے پاس امام علیہ السلام کی معقول اور محکم گفتگو کے جواب میں بے ہودہ باتوں کی تکرار کے علاوہ کچھ نہیں تھااور اصرار کررہے تھے کہ مسئلہ حکمیت قبول کرنے کی وجہ سے ہم سب کافر ہوگئے ہیں اور ہم نے توبہ کی ہے آپ بھی اپنے کفر کا اعتراف کیجیے اور توبہ کیجئے، اس صورت میں ہم آپ کے ہمراہ ہیں اور اگر ایسا نہیں کیا تو ہم کوچھوڑ دیجیے اور اگر جنگ کرنا چاہتے ہیں تو ہم جنگ کے لئے تیار ہیں ''۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: کیا رسول اسلام پر ایمان اور ان کی رکاب میںجہاد کرنے کے بعد اپنے کفر پر گواہی دوں ؟ کیا مسئلہ حکمیت قبول کرنے کی وجہ سے تم لوگوں نے اپنی تلواروں کو کاندھوں پر رکھا ہے اور انھیں لوگوں کے سروں پر مارنا چاہتے ہو اور لوگوں کا خون بہانا چاہتے ہو ؟یہ تو کھلا ہوا گھاٹاہے۔

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ خطبہ نمر ۳۶ کی طرف رجوع کریں

۷۲۷

آخری اتمام حجت

امام علیہ السلام ان کے ساتھ گفتگو کرنے سے مایوس ہوگئے اور اپنی فوج منظم کرنے لگے فوج کے میمنہ کا سردار حجر بن عدی کواور میسرہ کا سردار شبث بن ربعی کو بنایا اور ابو ایوب انصاری کوسواروں کاسردار اور ابو قتادہ کو پیادہ چلنے والوں کا سردار بنایا ۔اس جنگ میں امام علیہ السلام کے ساتھ آٹھ سو صحابی شریک تھے اسی وجہ سے آپ نے ان لوگوں کا سردار قیس بن سعد بن عبادہ کو بنایا اور خود میںتھے پھر سوار لوچگوں میں ایک پرچم بلند کیا اور ابو ایوب انصاری کو حکم دیا کہ بلند آواز سے کہیں کہ واپسی کا راستہ کھلا ہواہے اور جو لوگ اس پرچم کے سایہ میں آجائیں گے ان کی توبہ قبول ہوجائے گی اور جو شخص بھی کوفہ چلا جائے یا اس گروہ سے الگ ہوجائے وہ امن وامان میں رہے گا ، ہم تم لوگوں کا خون بہانا نہیں چاہتے اس وقت ایک گروہ پرچم کے نیچے

۷۲۸

آگیا اور امام علیہ السلام نے ان کی توبہ قبول کرلی ۔(ا) بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ خوارج میں سے ایک ہزار لوگوں نے واپسی کا راستہ اختیار کر لیا اور پرچم کے سایہ میں آگئے ۔خوارج کے بعض سردار جو امام علیہ السلام کی طرف آگئے ان کے نام یہ ہیں ، مسعر بن فدکی ، عبداللہ طائی ، ابومریم سعدی، اشرس بن عوف اور سالم بن ربیعہ۔ حقیقت میں صرف عبداللہ بن وہب راسبی کے علاوہ ان کے ساتھ کوئی بھی سردار نہ بچا(۲) ۔

طبری لکھتے ہیں کہ امام علیہ السلام کی فوج میں اس گروہ کے شامل ہونے کے بعد خوارج کی فوج میں کل دو ہزار آٹھ سو (۲۸۰۰) سپاہی بچے،(۳) اور ابن اثیر نے ان کی تعداد ایک ہزار آٹھ سو (۱۸۰۰)لکھی ہے ۔

امام علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ جب تک دشمن جنگ شروع نہ کرے تم لوگ جنگ شروع نہ کرنا۔ اسی وقت خوارج میں سے ایک شخص بڑھا اور امام علیہ السلام کے ساتھیوں پر حملہ کیا اور تین آدمیوں کو قتل کردیا ، اب امام علیہ السلام نے اپنے حملہ سے جنگ شروع کی اور اپنے پہلے ہی حملے میں اس شخص کو قتل کردیا اور پھر اپنے فوجیوں کو حملہ کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: خدا کی قسم تم لوگوں میں دس آدمی کے علاوہ کوئی قتل نہیں ہوگا اور ان میں سے صرف دس آدمی کے علاوہ کوئی زندہ نہیں رہے گا(۴) ۔اس وقت عبداللہ بن وہب راسبی میدان میں آیا اور کہا : اے ابوطالب کے بیٹے !تم سے اس وقت تک جنگ کروں گا جب تک تمہیں قتل نہیں کردو یا تم مجھے قتل کر دو ۔ امام علیہ السلام نے اس کا جواب دیا: خدا اسے قتل کرے کتنا بے حیا شخص ہے وہ جانتاہے کہ میں تلوار اور نیزہ کا دوست ہوں۔ اور فرمایا کہ وہ اپنی زندگی سے مایوس ہوگیا ہے اور جھوٹی امید میرے خلاف باندھے ہے۔ پھر ایک ہی حملہ میں اسے قتل کرکے اس کے دوستوں سے ملحق کردیا(۵) ۔اس جنگ میں بہت کم وقت میں امام علیہ السلام کو کامیابی مل گئی، امام علیہ السلام کے بہادر سپاہیوں

______________________

(۱)الاخبار الطوال ص۲۱۰۔----(۲)مقالات اسلامیین ج۱، ص ۲۱۰۔----(۳)کامل ابن اثیر ج۳،ص ۳۴۶۔ تاریخ طبری ج۴،ص ۶۴ ۔

(۴) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۲، ص۲۷۳،۲۸۲

(۵)الامامة والسیاسة ص۱۳۸

۷۲۹

نے داہنے بائیں سے اور خود امام علیہ السلام نے قلب لشکر سے اپنے بدترین وذلیل دشمن پر حملہ کیااورکچھ ہی دیر میں خوارج کے بے جان جسم زمین پر پڑئے ہوئے نظر آئے ۔اس جنگ میں تمام خوارج قتل ہوگئے ، صرف نو آدمی باقی بچے تھے جن میں دو شخص خراسان میں، دو شخص عمّان میں، دو شخص یمن میں، دو شخص جزیرہ عراق میں اورایک شخص نے '' تلّ موزن '' میں پناہ لی ، اور وہیں زندگی بسر کرنے لگے اور خوارج کی نسل کو باقی رکھا(۱) ۔

امام علیہ السلام جنگ کے بعد ان کے مردہ جسموں کے درمیان کھڑے ہوئے اور بہت ہی افسوس کرتے ہوئے فرمایا:''بؤساً لکم ، لقد ضرَّ کم من غرَّکم ، فقیل له' من غرّهم یا امیرالمومنین ؟ فقال: الشیطانُ المضلُّ والا نفسُ الامّارة بالسُّوئِ غرّتهم بالامانیّ وفسحت لهم بالمعاصی ووعدتهم الا ظهار فأ فتحمت بهم النّار ''(۲) تمہارے لئے بدبختی ہو ، جس نے تم لوگوں کو دھوکہ دیا اس نے تمہیں بہت بڑا نقصان پہونچایا۔ لوگوں نے پوچھا :کس نے انہیں دھوکہ دیاہے ؟ آپ نے فرمایا:گمراہ کن شیطان اور سر کش نفسوں نے ان لوگوں کو لالچ دے کر دھوکہ دیا اور نافرمانی کی راہوں کو ان کے لئے کھول فیا اور انہیں کامیابی کا وعدہ دیا اور بالآخر ان لوگوں کو جہنم کی آگ میں جھونک دیا۔

امام علیہ السلام کے دوستوں نے سمجھا کہ خوارج کی نسل ختم ہوگئی ہے لیکن امام علیہ السلام نے ان کے جواب میں فرمایا:''کلّا ، واللّٰه انّهم نطففی اصلاب الرجال وقرارات النساء ، کلّما نَجَمَ منهم قرن قُطِعَ حتٰی یکون آخرهم لصوصاً سلّابین ''(۳) نہیں ایسا ہرگزنہیں ہے ، خدا واہ ہے کہ وہ لوگ بصورت نطفہ مردوں کے صلب میں اور عورتوں کے رحم میں موجود ہیں اور جب بھی ان میں سے کوئی سرنکالے گا (حکومتوں کی طرف سے اسے) کاٹ دیا جائے گا ( اور دوسرا سروہیں پر نکل آئے گا) یہاں تک کہ آخر میں صرف چور اور لٹیرے ہو کر رہ جائیں گے ۔

______________________

(۱) کلمات قصار نمبر ۳۱۵۔

(۲) کشف الغمہ ج۱، ص ۲۶۷۔

(۳) نہج البلاغہ خطبہ نمبر ۵۹۔

۷۳۰

پھر آپ نے فرمایا: میرے بعد تم لوگ خوارج سے جنگ نہ کرنا کیونکہ تمہارا اصلی دشمن معاویہ ہے اور میں نے امن وامان کی حفاظت کے لئے ان لوگوں سے جنگ کی ہے ان میں سے بہت کم لوگ بچے ہیں اوروہ جنگ کرنے کے لائق نہیں ہیں ۔

امام علیہ السلام نے جنگی غنائم میں سے اسلحہ اور چوپایوں کو اپنے فوجیوں کے درمیان تقسیم کردیا اور ان کے سامان زندگی، کنیزوں اور غلاموں کو ان کے وارثوں کو واپس کردیا ۔ پھر اپنی ہماری تلواریں ٹوٹ گئی ہیں اور تیر ختم ہوگئے ہیں ، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ کوفہ واپس چلیں اپنی قوت میں اضافہ کریں پھر آگے بڑھیںفو ج میں آئے اور فوجیوں کی جواں مردی کی تعریفیں کیں اور فرمایا اسی وقت صفین کی طرف بڑھنا ہے تاکہ فتنہ کو جڑ سے ختم کر دیا جائے مگر فوجیوں نے کہا ہم تھک گئے ہیں ان لوگوں نے واپس جانے پر اتنا زیادہ اصرار کیاکہ امام علیہ السلام کو افسوس ہوا اور مجبوراً آپ ان لوگوں کے ساتھ نخیلہ کوفہ کی چھاؤنی پر واپس آگئے ۔ وہ لوگ دھیرے دھیرے کوفہ چلے جاتے تھے اور اپنی بیوی بچوں سے ملتے تھے اور زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ چھاؤنی پر کچھ ہی لوگ باقی بچے ۔ اتنے کم سپاہیوں کے ساتھ شامیوں سے جنگ کرنا ممکن نہ تھا۔

فتنۂ خوارج کے خاتمہ کی تاریخ

سرزمین صفین پر امام علیہ السلام کے اوپر خروج کرنے کی فکر ماہ صفر ۳۸ ہجری میں پیدا ہوئی اور زمانے کے ساتھ ساتھ کتاب خدا کے حکم کی مخالفت شدید ہوتی گئی ، کوفہ کے خوارج ماہ شوال ۳۸ کو عبداللہ بن وہب راسبی کے گھر جمع ہوئے اور اس کے ہاتھ پر بیعت کی اورکوفہ چھوڑنے کا ارادہ کیا اوروہاں سے'' حروراء ''اور پھر '' نہروان '' چلے گئے ۔ امام علیہ السلام نے اپنے شام کے پروگرام کو مجبوراً بدل کر خوارج سے جنگ کرنے کا ارادہ کیا اور مؤرخین کے نقل کرنے کے مطابق ۹ صفر ۳۸ ہجری کو فساد کو جڑ سے اکھاڑ دیا۔(۱)

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۳، س۹۸ ۔والخوارج

۷۳۱

چھٹاباب

جنگ نہروان کے بعد کے واقعات اورحضرت علی علیہ السلام کی شہادت

پہلی فصل

لوٹ مار، بدامنی اور دردناک قتل عام

جنگ نہروان کی ناگہانی آفت وبلا امام علیہ السلام کے استقلال اور آپ کے باوفا ساتھیوں کی ہمت سے ختم ہوئی اور اب وہ وقت آگیا کہ امام علیہ السلام سرکشوں سے اپنی فوج کی پاکسازی کے لئے دوسری مرتبہ اسلامی سرزمین پرامن اورراحت کوزندہ کریں ، اور معاویہ اورفریب خوردہ شامیوں کی خود غرضی کو ختم کردیں کیونکہ تمام فتنہ وفساد کی جڑ ابوسفیان کا بیٹا تھا۔

معاویہ نے عراق میں اپنے جاسوس معین کئے تھے تاکہ مسلسل ساتھ تمام واقعوں کی خبر اسے دیتے رہیں ، ان میں سے بعض جاسوس علی علیہ السلام سے پرانا کینہ اور بغض وحسد رکھتے تھے مثلاً ولید بن عقبہ بھائی عمارة بن عقبہ ، یہ دونوں بھائی جو بنی امیہ کے شجرۂ خبیثہ کی شاخوں میں سے تھے، ، چونکہ امام علیہ السلام نے اس خبیث خاندان کے بہت سے افراد پر زبردست اور کاری ضربیں لگائی تھیں اس لئے یہ لوگ امام علیہ السلام کی دشمنی کو اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھے خصوصاً ولید کا باپ جنگ بدر میں علی علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہوا تھا ، ولید وہی شخص ہے جس کو قرآن نے سورہ حجرات کی چھٹی آیت میں فاسق کہا ہے اورعثمان کی حکومت کے زمانے میں امام علیہ السلام نے اسے تازیانہ مارا اور شراب پینے کی وجہ سے اس پر حد جاری کی ، اس بنا پر کوئی تعجب نہیں ہے کہ اس کابھائی عمارہ کوفہ میں معاویہ کا جاسوس ہواور خود ولیدامام علیہ السلام کی تمام جنگوں میں معاویہ کو تشویق اور ترغیب دلانے والاہو۔عمارہ نے معاویہ کو خط لکھا جس میں علی ـ کے ساتھیوں کے درمیان تفرقہ واختلاف اور نہروان کے واقعہ کو تحریر کیا اور لکھا کہ بہت سے قاریان قرآن اس جنگ میں علی اور ان کے دوستوں کے ہاتھوں قتل ہوئے ہیں، اس وجہ سے ان کے درمیان اختلاف اور نااتفاقی بڑھ گئی ہے۔ اس نے ایک مسافر کے ذریعہ خط کو شام روانہ کیا۔ معاویہ نے خط پڑھا اور دونوں بھائیوں کا شکریہ ادا کیا جن میں ایک موجود تھا اور دوسرا غائب تھا(۱) ۔

_______________________________

(۱)شرح نہج البلاغۂ ابن ابی الحدید :ج۲ ص۱۱۴،۱۱۵ بحوالہ تاریخ۔

۷۳۲

معاویہ نے بدامنی پھیلانے ، لوٹ مار کرنے اور امام علیہ السلام کے شیعوں کے قتل کے لئے مناسب موقع دیکھا ،اسی وجہ سے اس نے چند گروہ حجاز، یمن اور عراق کے علاقوں میں بھیج کر ذہنی و نفسیاتی جنگ کا آغاز کردیا وہ دھوکہ ،فریب ، بے گناہ افراد کا قتل ، عورتوں اور محتاجوں کا مال غارت وبرباد کرکے نہ صرف امام علیہ السلام کے ذہن سے شام کو شکست دینے کا خیال نکالنا چاہ رہا تھا دیا بلکہ عملی طور پر یہ ثابت کرنا چاہ رہا تھا کہ مرکزی حکومت اپنی سرحدوں کی حفاظت نہیں کرسکتی ہے۔

یہ سیاست جو حقیقت میں شیطانی سیاست تھی اس نے اپنا اثر دکھایا، معاویہ نے حضرت علی ـ حکومت کے حدود میں بہت سے سنگدلوں کو بھیج کر امام علی علیہ السلام کی حکومت کے ایک ہزار آدمیوں کو قتل کرادیااور ان سرکش و نافرمان حملہ کرنے والوں نے بچوں اور عورتوں پر بھی رحم نہیں کیا اور جیسا کہ آئندہ بیان ہوگا ان لوگوں نے عبیداللہ بن عباس کے دو بچوں کا سر لوگوں کے سامنے قلم کردیا۔

امام علیہ السلام کی حکومت کا یہ دورتاریخ کا بہت غمگین اور درد ناک دور تھا البتہ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ امام علیہ السلام کے پاس دشمن کو نابود وبرباد کرنے کے لئے کوئی سیاسی تدبیر یا دوسرا طریقہ نہ تھا بلکہ جو چیز مشکل تھی وہ صرف مٹھی بھر فضول اور بہانے باز ، آرام طلب اور اس سے بھی بدتر وہ لوگ تھے ایسے سادہ لوح تھے کہ ہر کسی کی بات سن کر مان لیتے تھے، یہی وجہ تھی کہ امام علیہ السلام اپنے بلند وعالی ترین مقصد تک نہیں پہونچ سکے، تاریخ نے ان وحشیانہ حملوں کو بہت ہی دقیق ذکر کیاہے اورہم یہاں پر اسین حملوں کی ایک واضح تصویر پیش کررہے ہیں تاکہ معاویہ کا عہد وپیمان ،اسلامی اور انسانی اصولوں کی نسبت سے واضح ہوجائے۔

۷۳۳

۱۔ضحّاک بن قیس کی لوٹ مار

معاویہ کو خبر ملی کہ امیر المومنین شام کی طرف روانہ ہونے والے ہیں تاکہ دوبارہ جنگ کا آغاز کریں ، معاویہ نے اس سلسلے میں خطوط لکھے اور اپنے نمائندوں کو شام کے تمام علاقوں میں بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو خط کے مضمون سے آگاہ کریں، شام کا ایک گروہ عراق کی طرف جانے کے لئے تیار ہوگیا۔ حبیب بن مسلمہ نے ان لوگوں سے کہا : صفین سے آگے نہ بڑھنا کیونکہ ہم نے اسی جگہ پر دشمن غلبہ حاصل کیا تھا اور کامیاب ہوئے تھے لیکن عمروعاص نے رائے دی کہ معاویہ اپنی فوج کے ساتھ عراق کی سرزمین کے اندر تک گھس جائے کیونکہ یہ کام شام کے فوجیوں کو حوصلہ اور قوت عطا کرے گا اور اہل عراق کے لئے ذلت کا باعث ہو گا معاویہ نے اس کی بات مان لی مگر کہا: شام کے لوگ صفین سے آگے بڑھنا نہیں چاہتے ۔ ابھی اس موضوع پر گفتگو ہورہی تھی کہ فوج کہاں قیام کرے کہ اچانک خبر ملی کہ امام علیہ السلام اور خوارج کے درمیان بہت زبردست جنگ ہوئی ہے اور وہ اپنی فوج کے سرکشوں پر کامیاب ہوگئے ہیں اور لوگوں سے کہا ہے کہ شام کی طرف روانہ ہوں لیکن ان لوگوں نے مہلت طلب کی ہے ۔ پھر عمارة بن عقبہ بن ابی معیط کا خط پہونچا جس میں اس نے لکھا کہ علی علیہ السلام کے دوستوں میں تفرقہ واختلاف اور فوج کے قاریوں اور عابدوں نے ان کے خلاف فساد برپا کر رکھا ہے اور ان کے درمیان شدید جنگ اور ان کی سرکوبی کے باوجود اختلاف ابھی بھی باقی ہے۔

ایسے حالات میں معاویہ نے ضحّاک بن قیس فہری کی سرداری میں تین سے چار ہزار لوگوںکو چنا اور حکم دیا کہ کوفہ جائیں اور جن قبیلوں کے لوگ امام کے مطیع وفرماں بردار ہیں انہیں غارت و برباد کردیں اور یہ کام بہت تیزی کے ساتھ انجام دیں اس طرح سے کہ اگر کسی شہر میں بالکل صبح سویرے داخل ہوں تو اسی دن شام کو دوسرے شہر میں رہیں اور کہیں پر بھی قیام نہ کریں کہ اپنے مقابلے والوں سے جنگ کرنی پڑے بلکہ جنگ و گریز اور لوٹ مارکرتے ہوئے اپنے کام کو جاری رکھیں۔

۷۳۴

ضحّاک چلتے چلتے '' ثعلبیہ '' دیہات پہونچا جو عراقیوں کے مکہ جانے کا راستہ تھا اس نے حاجیوں کے مال و سامان کو لوٹا اور پھر اپنا سفر جاری رکھا اور پھر عمروبن عمیس عبداللہ بن مسعود کے بھتیجے کے روبرو ہوا اور انہیں اور ان کے ساتھ بہت سے لوگوں کو قتل کردیا۔جب حضرت علی علیہ السلام کو ضحّاک کی لوٹ مار اور قتل وغارت گری کی خبر ملی تو امام علیہ السلام منبر پر گئے اور کہا: ''اے لوگو! ، بندہ صالح عمرو بن عمیس کی طرف جلدی جاؤ، اپنے دوستوں کی مدد کے لئے اٹھو جو دشمن کے حملے سے زخمی ہوئے ہیں ، روانہ ہو جائواور اپنے دشمن سے جنگ کرو اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کرو تاکہ دشمن اسے عبور نہ کرسکے ، ان لوگوں نے امام علیہ السلام کی تقریر کے مقابلے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی ،جب امام نے ان کی سستی اور ناتوانی کو مشاہدہ کیا تو فرمایا: ''خدا کی قسم !میں حاضر ہوں کہ تم لوگوں میں سے دس آدمیوں کو معاویہ کے ایک آدمی سے بدل لوں ، لعنت ہو تم پر کہ میرے ساتھ میدان میں آؤ اور مجھے بیچ میدان میں چھوڑدو اور بھاگ جاؤ ، خدا کی قسم میں بابصیرت موت سے ناخوش نہیں ہوں اور اس میں میرے لئے بہت بڑی آسائش ہے کہ تم سے

۷۳۵

اور تمہاری سختیوں سے نجات پاجائوں گا'' ۔(۱)

امام علیہ السلام منبر سے اترے اور روانہ ہوگئے یہاں تک کہ آپ سرزمین '' غریبین'' پہونچے اور پھر حجر بن عدی کو چار ہزار فوج کا سردار بنایا اور ان کے لئے علم باندھا ، حجر روانہ ہوئے اور سرزمین '' سماوہ'' پہونچے اور مستقل ضحاک کی تلاش میں تھے یہاں تک کہ '' تدمر'' کے علاقہ میں اس کو پالیا۔ دونوں گروہوں کے درمیان جنگ شروع ہوگئی اور دشمن کی فوج کے ۱۹ آدمی اور علی علیہ السلام کے دو آدمی مارے گئے ، ضحاک نے رات کے اندھیرے کا فائدہ اٹھایا اور بھاگ گیا اور صبح تک اس کا کوئی پتہ نہ تھا۔ ضحاک عراق سے بھاگنے کے بعد پیاس کی شدت سے جاں بلب ہوا ، کیونکہ جس اونٹ پر اس نے پانی رکھا تھا وہ راستے میں غائب ہوگیا لیکن بالآخر اس نے اطراف میں رہنے والوں سے پانی طلب کیا اور اپنی پیاس بجھائی ۔

امام علیہ السلام نے ضحاک کی لوٹ مار اورغارتگری پر ایک خطبہ دیا جس کا خلاصہ یہاں تحریر کررہے ہیں:''ایها الناس، المجتمعةُ أبد انُهُم المختلفةُ أهوا ؤهُم کلَا مُکم یوهِی الصُّمَّ الصِّلابَ وفِعلکم یُطمِعُ فیکُم الاعداء َ تقولونَ فی المجالسِ: کَیتَ وکَیتَ فاذا جَائَ القتالُ قُلتُم حیدِی حیادٍ '' ،اے وہ لوگو! جن کے جسم یکجا اور خواہشیں مختلف ہیں تمہاری باتیں سخت پتھروں کو نرم کردیتی ہیں مگر تمہارا عمل تمہارے بارے میں دشمنوں کو لالچ دلاتا ہے اپنی مجلس میں بیٹھ کر کہتے ہو کہ یہ کرینگے وہ کرینگے اور جب جنگ کا وقت آجائے تو کہتے ہو ائے جنگ دور ہو، دور ہو ۔

''۔۔۔أیّ دارٍ بعد دارِکم تمنعون؟ ومع ای اِمام بعدِی تقاتلون؟ المغرور واللّٰه من أ غررتموه و من فاز بکم فقد فاز واللّٰه بالسَّهم الاخیبِ ومن رمیٰ بکم فقد رمیٰ بأفوق ناصِل '' ، '' اپنا گھر چھن جانے کے بعد کس کے گھر کی حفاظت کروگے؟ اور میرے بعد کس امام کے ساتھ رہ کرجہاد کروگے؟، خدا کی قسم جسے تم اپنے فریب میں مبتلا کرلو وہ دھوکہ میں ہے اور جو تمہارے ذریعہ کامیاب ہونا چاہے اس کے حصّے میں ناکام تیر آئے گا ( جس کا کوئی انعام نہ ہو) اور جس نے تمہارے ذریعہ تیر چلایا گا اس نے (گویا) شکستہ پیکان سے نشانہ لگایا''۔

_______________________________

(۱) نہج البلاغہ خطبہ نمبر۷ ۹

۷۳۶

خطبہ کے آخر میں فرماتے ہیں : ''القوم رجال أمثالُکم، أقولاً بغیرعلم ٍ ؟وغفلَة ً من غیرورعٍ ؟ وطمعاً فی غیرحقٍّ ''؟(۱) '' (دشمن )لوگ (شامی) بھی تمہارے ہی جیسے مرد ہیں ، کیا عقیدہ کے بغیر باتیں صحیح ہیں ؟تقوی کے بغیر غفلت صحیح ہے؟ کیا نا حق چیز میں طمع صحیح ہے ؟

امام علیہ السلام کے بھائی عقیل کو ضحاک کے حملہ کی خبر ملی اور مکہ سے آپ کے پاس ہمدردی کے طور پر خط لکھا اور خط کے آخر میں لکھا کہ اگر اجازت دیں تو اپنے بچوں کے ساتھ عراق آجاؤں اور اپنے بھائی کی خوشی اور غم میں شریک رہوں کیونکہ میں اس بات پر راضی نہیں ہوں کہ حضرت کے بعد زندہ رہوں ، امام علیہ السلام نے اپنے بھائی کو جواب لکھا جوکہ آپ کا تاریخی خط ہے اور اس میں قریش کے حالات اور ان کے ظلم وستم کو اس انداز سے لکھا:

''الا وان العرب قد اجمعت علیٰ حربِ اخیک الیوم اجماعَها عَلیٰ حربِ رسول اللّٰه قبل الیوم فاصبحوا قد جهِلوا حقّه' وجَحدوا فضله وبادروه العداوةونصبوا له الحرب وجهدو ا علیه کلَّ الجحد وجرّوا اِلیه جیش الاحزاب ''(۲) ، '' آج عرب نے تمہارے بھائی کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے عہد کر لیا ہے جیسا کہ اس سے پہلے پیغمبر سے جنگ کرنے کے لئے عہد وپیمان باندھا تھا۔ ان لوگوں نے تمہارے بھائی کے حق سے انکار کردیا ہے اور اس کی فضیلت کو نظر انداز کردیاہے اور دشمنی کرنے میں بہت جلدی کی اور پیغمبر کے زمانے میں اس کی سخت ترین محنت وں وکوششوں سے چشم پوشی کرلی ہے اور بالآخر احزاب کی فوج لے کر اس کے سامنے آگئے ہیں''۔امام ـ کایہ کلام اس بات کی حکایت کرتاہے کہ آپ معاویہ کے ساتھ جنگ کو پیغمبر کی ابوسفیان کے ساتھ جنگ کا سلسلہ سمجھتے ہیں۔ حقیقتاً جنگ احزاب عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے بہانے سے صفین میں دوبارہ برپا کی گئی۔

_______________________________

(۱) نہج البلاغہ خطبہ نمبر ۲۹۔ الغارات ثقفی: ج۲، ص ۴۱۶۔ تاریخ طبری: ج۴، ص ۱۰۴۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج۲ ص ۱۱۱تا۱۲۵

(۲)الغارات ج۲، ص ۴۳۱

۷۳۷

۲۔ بُسر کو حجاز ویمن بھیجنا

امام علیہ السلام نے یمن کے ایک حصے کا والی عبیداللہ بن عباس کو بنایا تھا اور ایک دوسرے حصّے جند(۱) کا والی سعید بن نمران کو بنایا تھا۔ یمن کے مرکزی علاقہ میں کچھ ایسے گروہ تھے جو عثمان اور عثمانیوں پیروی کرتے تھے اور حضرت علی علیہ السلام کی حکومت سے کوئی رغبت نہیں رکھتے تھے بلکہ ہمیشہ دھوکہ ،فریب اور فتنہ وفساد کی فکر میںرہتے تھے جب ان لوگوں کو خوارج کے حادثہ اور امام کی فوج میں اختلاف کی خبر ملی تو مخالفت کرنے لگے یہاں تک کہ سعید بن نمران کو جند کے علاقہ سے باہر نکال دیا، ایک گروہ جو فکر کے اعتبار سے عثمانی نہ تھا وہ بھی مالیات (ٹیکس) ادا نہ کرنے کی وجہ سے فسادیوں کے ساتھ مل گیا ۔

سعید بن نمران اور عبیداللہ ابن عباس نے مخالفین کے تما م حالات امام علیہ السلام کو دی۔ امام علیہ السلام نے کوفہ میں یمن کی ایک عظیم شخصیت یزید بن قیس ارحبی سے مشورہ کیا اور آخر میں یہ طے ہوا کہ فتنہ وفساد برپاکرنے والوں کو خط لکھیں اور ان لوگوں کو نصیحت کریں اور پھر دوبارہ مرکزی حکومت کی اطاعت وپیروی کے لئے دعوت دیں۔

امام علیہ السلام نے خط کو یمن کے ایک آدمی کے ہمراہ جو قبیلہ ہمدان سے تھا ان لوگوں کے پاس بھیجا، امام علیہ السلام کے قاصد نے آپ کا خط ایک بہت بڑے اجتماع میں لوگوں کو سنایا، خط کامضمون بہت تربیتی اور مؤثر تھا، لیکن مخالفین نے اطاعت وپیروی کو اس شرط پر قبول کرنے کا وعدہ کیا کہ امام عبیداللہ اور سعید کوبر طرف کر دیں۔

ادھر فساد کرنے والوں نے فرصت کو غنیمت جانا اور معاویہ کوچند اشعار پر مشتمل ایک خط لکھا اور اس سے درخواست کی کہ اپنا نمائندہ صنعاء اور جند روانہ کرے تاکہ اس کے ہاتھ پر بیعت کریں اور اگر اس کام میں تاخیر کی تو ہم لوگ علی علیہ السلام اور ان کے مشاور یزید ارحبی کی بیعت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

جب فتنہ وفساد کرنے والوں کا خط معاویہ کو ملا تو اس نے طے کہ یمن اور حجاز میں قتل وغارت گری،

_______________________________

(۱) یمن اس وقت تین حصوں میں تھا ایک حصّہ حجاز پڑوس'' حضرموت'' اور مرکزی حصہ''، صنعاء '' اور سب سے دور کا علاقہ ''

۷۳۸

جندَ '' کے نام سے مشہور تھا ۔ مراصد الاطلاع، مادہ جند۔

بدامنی اور فساد کامزید ماحول پیدا کرے، اسی وجہ سے اپنی فوج کے سب سے سنگدل سردار بُسربن ارطاة کو اپنے پاس بلایا اور اس سے کہا کہ تین ہزار کا لشکر لے کر حجاز اور مدینہ جاؤ اور راستے میں جہاں بھی پہونچنا وہ اگر علی کے ماننے والے ہوں تو اانہیں خوب گالی گلوج دینا،سب کو میری بیعت کے لئے دعوت دینا ، بیعت کرنے والوں کو آزاد چھوڑدینا اور جو لوگ بیعت نہ کریں انہیں قتل کردینا اور جہاں بھی علی کے چاہنے والے ملیں انہیں قتل کردینا۔

معاویہ نے یہ خاص طریقہ استعمال کیا جب کہ وہ خود شام میں تھا اور علی علیہ السلام سے روبرو ہوکر جنگ نہیں کی لیکن اسی مقابلے کی جنگ کا نتیجہ حاصل کیا اور ولید بن عقبہ جیسے لوگ کہ جنہوں نے معاویہ کو امام علیہ السلام سے روبرو ہوکر جنگ کرنے کے لئے کہا تھا اسے بیوقوف اور احمق کہا اور وہ جانتا تھا کہ یہ لوگ سیاسی تجربہ میں ماہر نہیں ہیں ۔

ابن ابی الحدید نے اس سلسلے میں بہت عمدہ تبصرہ کیا ہے، وہ لکھتاہے :ولید امام علیہ السلام پر بہت غضبناک تھا کیونکہ جنگ بدر میں اس کے باپ کو مولائے کائنات نے قتل کیا تھا اور عثمان کی حکومت کے زمانے میں خود وہ امام کا تازیانہ کھا چکا تھا چونکہ اس نے بہت دنوں تک کوفہ پر حکومت کی تھی ، اورآمنے سامنے ہو کر اس وقت اپنی میراث کو حضرت علی کے ہاتھوں میں دیکھ رہا تھا لہذا علی علیہ السلام سے مقابلہ کرنے کے علاوہ کسی اور فکر میں نہ تھا۔ لیکن معاویہ ولید کے برخلاف دوراندیش تھا کیونکہ اس نے صفین میں امام علیہ السلام سے جنگ کرکے تجربہ کرلیا تھااور سمجھ گیا تھا کہ اگر اس جنگ میں قرآن کو نیزے پر بلند کرنے کا فریب نہ کیا ہوتا توعلی علیہ السلام کے ہاتھوں اپنی جان نہیں بچا سکتاتھا اور اگر دوبارہ ان سے جنگ کرتا تو ممکن تھا جنگ کے شعلوں میں جل کر راکھ ہوجائے ، اسی وجہ سے اس نے مصلحت سمجھی کہ بدامنی ، خوف و وحشت اور فساد بر پا کرکے حضرت علی کی حکومت کو کمزور کرے اور امام علیہ السلام کو مجبور اور ناتواں اسلامی ملک کی رہبری کے لئے ثابت کرے(ا)۔

_______________________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج۲ ص۸

۷۳۹

بُسر کا سفر

بُسر تین ہزار لوگوں کے ساتھ شام سے روانہ ہوا اور جب دیر مردو کے پاس پہونچا تو اس میں سے چار سو لوگ بیماری کی وجہ سے مر گئے اور وہ ۲۶۰۰ آدمیوں کے ساتھ حجاز کی طرف روانہ ہوگیا۔ وہ جس آبادی سے بھی گزرتا لوگوں کے اونٹ کو زبردستی ان سے چھین لیتا ، اور خود اور اس کے فوجی اس پر سوار ہوتے تاکہ دوسری آبادی میں پہونچ جائیں پھر وہاں ان اونٹوں کو چھوڑ دیتے تھے اور اس دوسری آبادی کے اونٹوں کو لے لیتے تھے ۔ اسی طرح سے اپنا طولانی سفر طے کیا یہاں تک کہ مدینہ پہونچابُسر نے مدینے میں قدم رکھتے ہی وہاں کے لوگوں کو برا بھلا کہنا شروع کردیا اور عثمان کے قتل کا واقعہ چھیڑدیا اور کہا: تم سب عثمان کے قتل میں شریک ہو یا ان کی طرف سے بے توجہی اختیار کرکے انھیں ذلیل و خوار کئے ہو۔ خدا کی قسم ایسا کام کروں گا کہ عثمان کا پورا خاندان قلبی سکون محسوس کرے گا۔

پھر دھمکیاں دینا شروع کردیں اور لوگوں نے اس کے خوف کی وجہ سے حویطب بن عبد العزّی کے گھر میں پناہ لی جوکہ اس کی ماں کے شوہر(سوتیلے باپ) کا گھر تھا اور اس کے سمجھانے کی وجہ سے بُسر کا غصہ ٹھنڈا ہوا ۔ اس وقت سب کو معاویہ کی بیعت کی دعوت دی کچھ لوگوں نے اس کی بیعت کی لیکن اس نے صرف اس گروہ کی بیعت پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مدینہ کے اہم افراد کو جو فکری اعتبار سے معاویہ کے مخالف تھے یا عراق میں علی علیہ السلام کے بہت زیادہ نزدیک تھے ان کے گھروں میں آگ لگادی زرارہ بن حرون، رفاعہ بن رافع اور ابو ایوب انصاری کا گھر جل کر راکھ ہوگیا ۔ پھر بنی مسلمہ کے سرداروں کو بلایا اور ان سے پوچھا : جابر بن عبداللہ کہاں ہے ؟ یااسے حاضر کرو یا قتل ہونے کے لئے تیار ہوجاؤ،اس وقت جابر نے پیغمبرا سلام (ص)کی بیوی ام سلمہ کے گھر میں پناہ لی تھی اور جب ام سلمہ نے پوچھا کہ کیا سوچ رہے ہو تو انھوں نے جواب دیا کہ اگر بیعت نہیں کروں گا تو قتل ہوجاؤں گا اور اگر بیعت کروں تو ضلالت وگمراہی میں مبتلا ہو جاؤں گا لیکن '' الغارات'' کے نقل کرنے کے مطابق جابر نے ام سلمہ کے مشورہ کے مطابق بیعت کرلی ۔

۷۴۰

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809