فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)4%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 361629 / ڈاؤنلوڈ: 6013
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

۴۔ امام علیہ السلام کا خط خوارج کے لئے ذرہ برابر بھی مؤثر ثابت نہ ہواان لوگوں نے حضرت کی درخواست کو رد کردیا۔ اس وجہ سے امام علیہ السلام ان لوگوں سے مایوس ہوگئے اور ارادہ کیا کہ ان لوگوں کا انتظار نہ کریں اور جتنے سپاہی موجود ہیں یا آنے والے ہیں ان کے ساتھ صفین کی طرف جائیں، پھر آپ نے بصرہ کے حاکم ابن عباس کے پاس خط لکھا اور ان سے مدد طلب کی، جب امام علیہ السلام کا خط بصرہ کے حاکم کے پاس پہونچا تو انہوں نے لوگوں کے درمیان اس خط کو پڑھ کر سنایا مگر افسوس کہ صرف پندرہ سو آدمیوں نے اخنف بن قیس کی سرداری میں امام علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہی۔ ابن عباس فوج کی اقلیت پر بہت رنجیدہ ہوئے اور لوگوں کے مجمع میں بہترین تقریر کی اور کہا: '' امیر المومنین علیہ السلام کا خط میرے پاس آیا ہے اور اس میں مجھے حکم دیا ہے کہ لوگوں کو میرے پاس جنگ میں شرکت کرنے کے لئے روانہ کرو لیکن صرف پندرہ سو (۱۵۰۰) لوگ جہاد کے لئے آمادہ ہیں جب کہ سرکاری رجسٹر میں ساٹھ ہزار آدمی کا نام درج ہے ۔جلدسے جلد روانہ ہوجاؤ اور عذر اور بہانہ سے پرہیز کرو اور جو شخص بھی اپنے امام کی دعوت کی مخالفت کرے گا بہت زیادہ شرمندہ ہوگا ۔ میں نے ابوالاسود کو حکم دیا ہے کہ تم لوگوں کی روانگی کا پروگرام ترتیب دیں۔

ابوالاسود اور دوسرے افراد کی تمام تر کوششوں کے باوجود صرف اٹھارہ سو (۱۸۰۰) لوگ پہلے گروہ سے ملحق ہوئے اور بالآخر تین ہزار دوسو (۳۳۰۰) افراد پر مشتمل ایک لشکر کوفہ کے لئے روانہ ہوا ، امام علیہ السلام بصرہ کی فوج کی کمی پر بے حد رنجیدہ ہوئے اور کوفہ کے لوگوں کے درمیان آپ تقریر کرنے کے لئے اٹھے اور ان لوگوں کو مخاطب کرکے کہا:اے کوفہ کے لوگو! تم لوگ حق کے امور میں میرے بھائی اور میرے دوست ہو میں تم لوگوں کی مدد سے ،جوحق سے منھ موڑے گا اسے سرنگوں کردوں گا۔ مجھے امید ہے کہ تم لوگ اس راہ میں حق کے پاسدار اور ثابت قدم رہو گے ، تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ بصرہ سے صرف تین ہزار دوسو لوگ ہمارے پاس آئے ہیں۔ تم لوگوں پر لازم ہے کہ خلوص کے ساتھ اوردھوکہ ، فریب و خیانت سے دور رہ کر میری مدد کرو، اور قبیلے کے بزرگ اور سردار اپنے رشتہ داروں اور خاندان والوں کو خط لکھیںاور ان سے کہیں کہ جو لوگ جنگ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں وہ اس جنگ میں شرکت کریں ۔

۷۲۱

بڑی شخصیتیں مثلاً سعد بن قیس ہمدانی ، عدی بن حاتم ، حجر بن عدی اور قبیلوں کے بزرگ افراد نے امام کے فرمان کو دل وجان سے قبول کیا اور اپنے اپنے قبیلوں کو خط لکھا ، اور اس طرح چالیس ہزار (۰۰۰،۴۰) بہادر جنگجو اور سترہ ہزار (۱۷۰۰۰) نوجوان اور آٹھ ہزار (۸۰۰۰) غلام کوفہ میں داخل ہوئے اور بصرہ کا لشکر بھی اسی میں شامل ہوگیا اور ایک قابل دید اور دشمن شکن لشکر امام علیہ السلام کے پرچم تلے جمع ہوگیا۔

کچھ لوگوں نے امام علیہ السلام سے بہت زیادہ اصرار کیا کہ معاویہ سے جنگ کرنے سے پہلے خوارج کے معاملے کو ختم کردیں ، لیکن امام علیہ السلام نے ان کی درخواست پر توجہ نہ دی اور فرمایا: ان لوگوں کو چھوڑ دو اورایسے گروہ کی طرف چلو جو چاہتے ہیں کہ زمین پر ستمگروں کے بادشاہ رہیں ، اور مومنین کو اپنا غلام بنائیں ، اس وقت فوج کے ہر گوشہ سے آواز بلند ہوئی اور لوگوں نے امام سے کہا :آپ جہاں بھی مصلحت سمجھیں ہمیں بھیج دیں کیونکہ ہم سب کا دل ایک آدمی کے دل کی طرح ہے اور آپ کی نصرت و مدد کے لئے تڑپ رہا ہے۔

۵۔ایسے حساس حالات میں خبر پہونچی کہ خوارج نے عبداللہ بن خباب کو نہر کے کنارے بھیڑ کی طرح ذبح کردیا ہے اور صرف اتنے ہی پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ ان کی بیوی کوبھی قتل کردیا ہے اور ان کے شکم سے بچہ نکال کر اسے بھی ذبح کردیا ہے۔

ابن قتیبہ '' الامامة والسیاسة '' میں اس بارے میں لکھتے ہیں :جب خوارج عبداللہ کے سامنے آئے تو ان سے کہا: تم کون ہو؟ انہوں نے کہا خدا کا مومن بندہ ہوں۔ ان لوگوں نے کہا: علی کے بارے میں تمہارا کیا نظریہ ہے ؟ انہوں نے کہا: وہ امیرالمومنین اور خدا اوراس کے رسول پر سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں ۔ ان لوگوں نے کہا: تمہارا نام کیا ہے ؟ انہوں نے کہا ، عبداللہ بن خباب بن الارّت ۔ ان لوگوں نے کہا: تمہارا باپ پیغمبر کا صحابی ہے ؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ ان لوگوں نے کہا: ہم نے تمہیں ناراض کیا ہے ؟ کہا : ہاں ان لوگوں نے کہا۔ وہ حدیث جو کہ تم نے اپنے باپ سے اور انہوں نے پیغمبر سے سنی ہے ہمارے لئے نقل کرو ۔ انہوں نے کہا: میرے باپ نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایاہے:'' میرے بعد ایسا فتنہ برپا ہوگا کہ مومن کا دل اس میں مرجائے گا ، رات کو باایمان سوئے گا اور دن میں کافر ہوجائے گا ''۔

۷۲۲

ان لوگوں نے کہا :ہم لوگوں کا مقصد یہ تھا کہ یہ حدیث تم سے سنیں قسم ہے تمہیں اس طرح قتل کریں گے کہ آج تک اس طرح کسی کو قتل نہیں کیا ہے اور پھر فوراً ہی ان کے ہاتھ پیر باندھ دیئے اورانہیں ان کی حاملہ بیوی کے ساتھ کھجور کے درخت کے پاس لائے ۔اس وقت ایک کھجور پیڑ سے گری اور خوارج میں سے ایک شخص نے اُسے منھ میں رکھ لیا فوراً ہی اس کے ہم خیالوں نے اعتراض کیاکہ لوگوں کے مال کو بغیر اجازت یا بغیر قیمت دیئے ہوئے کھارہے ہو؟ اس نے فوراً کھجور منھ سے نکال دی اور پھینک دیا! اور اسی طرح ایک عیسائی کا سور وہاں سے گزررہا تھا جو کسی خوارج کے تیر سے اس وقت دوسروں نے اعتراض کیا کہ تمہار ایہ کام زمین پر فساد کرنا ہے لہٰذا اس کے مالک سے لوگوںنے رضایت طلب کی ۔پھر عبداللہ کو جنہیں باندھ رکھا تھا نہر کے کنارے لائے اور بھیڑ کی طرح ذبح کردیا اور صرف اسی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ ان کی بیوی کوبھی قتل کردیا اور ان کے شکم کو چاک کرکے بچے کے سر کو بھی کاٹ دیا ، اور پھر بھی اتنے ہی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ تین اور دوسری عورتوں کو بھی قتل کردیا جن میں سے ایک صحابیہ تھیں جن کا نام ام ّ سنان تھا(۱) ۔

خباب بن الارّت ، عبداللہ کے والد ، اسلام کے سابقین میں سے تھے اور قریش کے شکنجوں کے نشانات ان کے بدن پرآخر وقت تک موجودتھے۔ وہ امام علیہ السلام کے صفین سے کوفہ پہونچنے سے پہلے ہی انتقال کرگئے اورامام علیہ السلام صفین سے آنے کے بعد ان کی قبر پر گئے اور ان کے رحمت کی اور تعریف کی۔

مبرّدنے اپنی کتاب '' کامل '' میں عبداللہ کے دردناک قتل کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب قاتل نے انہیں پکڑا تو عبداللہ نے کہا : میں تم سے درخواست کرتاہوں کہ جس چیز کو قرآن نے زندہ کیا ہے اسے زندہ کرو اور جس چیز کو مردہ کیاہے اسے ماردو، پھر عبداللہ کی روایت ان کے والد کے واسطے پیغمبر سے نقل کرنے کے بعدمبرد لکھتے ہیں:خوارج نے کھجور کے مالک سے درخواست کی کہ اس کی قیمت لے لے، اس نے کہا کہ میں نے اس پیڑ کی کھجور کے استعمال کو تم لوگوں کے لئے بخش دیاہے لیکن ان لوگوں نے قبول نہیں کیا اورکہا کہ تم کو اس کی قیمت لینا پڑے گی ، اس وقت ایک عیسائی نے فریاد بلند کی کہ تم لوگ ایک مسلمان کا خون بہانے سے نہیں ڈرتے لیکن ایک پھل کھانے سے پرہیز کرتے ہو جب کہ اس کے مالک

______________________

(۱) الامامة والسیاسة: ص۱۳۶۔

۷۲۳

نے رضایت بھی دیدی ہے ؟!(۱)

۶۔ امیرالمومنین علیہ السلام جب عبداللہ کے قتل سے باخبر ہوئے تو حارث بن مرّہ کو خوارج کی چھاؤنی بھیجا تاکہ واقعہ کی حقیقت معلوم کریں جب حارث ان کے پاس پہونچے تاکہ واقعہ کا صحیح پتہ لگائیں تو ان لوگوں نے تمام اسلامی اورانسانی اصولوں کے برخلاف انہیں قتل کردیا۔ امام علیہ السلام پر سفیر کے قتل ہونے کی وجہ سے بہت اثرہوا ۔اس موقع پر کچھ لوگ امام علیہ السلام کے پاس پہونچے اور کہا : کیا یہ صحیح ہے کہ ایسے خطروں کے باوجود ہم شام جائیں اور اپنے بچوں اور عورتوں کو ان کے پاس چھوڑدیں؟

______________________

(۱) الکامل: ص ۵۶۰، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج۲، ص۲۸۲۔

۷۲۴

عبداللہ کے قاتلوں کی تنبیہ

عبداللہ کے قتل سے جو وحشت اور رعب پیدا ہوا اس نے امام علیہ السلام کو آمادہ کیا کہ جہالت اور بدبختی کو جڑ سے ختم کردیں ، اسی وجہ سے آپ نے ارادہ کیا کہ حروراء یا نہروان جائیں جب امام روانہ ہونے لگے تو اس وقت آپ کے دوستوں میں سے ایک شخص نے جو علم نجوم میں ماہر تھا ، علی علیہ السلام کو اس وقت سفر کرنے سے منع کیا اور کہا: اگر اس وقت آپ نے سفر کیا تو بہت سخت مشکل میں گرفتار ہوں گے امام علیہ السلام نے اس کی بات پر توجہ نہیں دی اور ان مسائل میں علم نجوم سے استفادہ کرنے کے سلسلہ میں تنقید کرتے ہوئے فرمایا: نجوم کو جنگل کی تاریکیوں اور دریاؤں میں راہنمائی کے لئے استعمال کرو ، قضاء الہی سے امام علیہ السلام کو عظیم کامیابی ملی۔ امام علیہ السلام کوفہ سے کچھ ہی دور ہوئے تھے کہ آپ کے ساتھیوں میں سے ایک شخص دوڑا دوڑا آیا اور کہااے امیرالمومنین !بشارت دیجئے کہ خوارج کا گروہ آپ کے سفر سے آگاہ ہوگیا اور بھاگ گیا اور نہر عبور کرچکا ہے ۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: کیا تم نے اپنی آنکھوں سے لوگوں کو نہر عبور کرتے دیکھا ہے ؟ اس نے کہا: ہاں ، امام نے اُسے تین مرتبہ قسم دی اور اس نے تینوں مرتبہ قسم کھا کر کہا: میں نے خوارج کو پانی اور پل پر سے گزرتے ہوئے دیکھا ہے ۔ امام علیہ السلام نے فرمایا:

۷۲۵

''واللّٰه ما عبروه ولن یعبروه وانّ مصارِعَهم دون النّطفة والذی خلق الحبّة وبرئَ النسمة لن یبلغوا الا ثلاث ولا قصربوازِن ''(۱) خدا کی قسم ان لوگوں نے دریا کو عبور نہیں کیا ہے اور عبور کربھی نہیں کرسکتے ، ان کا مقتل دریا کے کنارے ہے۔ اس خدا کی قسم جس نے دانوں کو چاک کیا اور انسانوں کو پیدا کیا وہ لوگ '' اثلاث '' اور'' قصربوازن'' بھی نہیں پہونچ پائیں گے۔

اس شخص کی دو آدمیوں نے اور بھی تائید کی لیکن امام علیہ السلام نے ان کی باتوں کو قبول نہیں کیا اور امام کس طرح سے قبول کرتے کیونکہ پیغمبر معصوم (ص) نے آپ کو خبر دی تھی کہ تین گروہ سے تمہاری جنگ ہوگی ؟ دوگروہوں سے جنگ ہوچکی تھی اور تیسرا گروہ پیغمبر کے قول میں ذکر شدہ نشانیوں کے مطابق یہی گروہ تھا ۔ اس وقت ایک جوان شک وشبہ میں پڑ گیا اور سوچنے لگاکہ عینی شاہدوں کی بات مانے یا امام علیہ السلام کی غیبی باتوں کو صحیح مانے ، آخر اس نے فیصلہ کیا کہ اگر امام علیہ السلام کی بات کے برخلاف ثابت ہوا تو ان کے دشمن سے مل جائے گا۔

امام علیہ السلام گھوڑے پر سوار ہوئے اور آپ کی فوج بھی پیچھے پیچھے چلی، جب خوارج کی چھاؤنی پر پہونچے تو پتہ چلا کہ ان لوگوں نے نیام کو توڑ ڈالا ہے اور گھوڑوں کو چھوڑدیا ہیاور جنگ کے لئے تیار ہیں اس وقت وہ سادہ لوح نوجوان امام علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور اپنے برے خیال کے متعلق امام سے معافی مانگی۔

تاریخ بیان کرتی ہے کہ امام علیہ السلام مدائن سے گزر کر نہروان پہونچے اور انہیں پیغام دیا کہ عبداللہ اور اس کی بیوی بچے کے قاتل کو ہمارے حوالے کریں تاکہ ان کا قصاص لیں۔ خوارج نے جواب دیا ہم سب نے مل کر انہیں قتل کیا ہے اور ان کے خون کو حلال سمجھا ہے۔ امام علیہ السلام ان کے نزدیک پہونچے اور فرمایا:

'' اے (سرکش)گروہ میں تم کو متنبّہ کررہا ہوں کہ ایسا نہ ہوکہ کل امت اسلامی تم کو لعنت کامستحق قراردے اور بغیر کسی واضح دلیل کے دریا کے کنارے قتل کردیئے جاؤ۔

میں نے تم لوگوں کو مسئلہ حکمیت قبول کرنے سے منع کیا اور میں نے کہا تھا کہ بنی امیہ کو نہ دین

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۲، ص۲۷۲''مضارعهم دون النطفةواللّٰه لایفلت منهم عشرةولا یهلک منکم عشرة'' خطبہ ،۵۸

۷۲۶

سے محبت ہے اور نہ قرآن ہی چاہتے ہیں۔ میں ان لوگوں کو بچپن سے لے کر اس وقت تک کہ وہ بڑے ہوئے ہیں خوب پہچانتاہوں ، وہ لوگ بد ترین بچے اور بدترین لوگ ہیں ۔لیکن تم لوگوں نے میری بات غور سے نہیں سنی اور میری مخالفت کی اور میں نے ایسے ہی دن کے لئے دونوں قاضیوں سے عہد وپیمان لیا کہ جو کچھ قرآن نے زندہ کیاہے اُسے زندہ کریں اور جس چیز کو ختم کیا ہے اسے ختم کر دیں اب جبکہ دونوں نے قرآن و سنت کے برخلاف حکم کر دیا ہے ہم اپنے پہلے ہی قول اور طریقے پر باقی ہیں(۱)

'' خوارج کے پاس امام علیہ السلام کی معقول اور محکم گفتگو کے جواب میں بے ہودہ باتوں کی تکرار کے علاوہ کچھ نہیں تھااور اصرار کررہے تھے کہ مسئلہ حکمیت قبول کرنے کی وجہ سے ہم سب کافر ہوگئے ہیں اور ہم نے توبہ کی ہے آپ بھی اپنے کفر کا اعتراف کیجیے اور توبہ کیجئے، اس صورت میں ہم آپ کے ہمراہ ہیں اور اگر ایسا نہیں کیا تو ہم کوچھوڑ دیجیے اور اگر جنگ کرنا چاہتے ہیں تو ہم جنگ کے لئے تیار ہیں ''۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: کیا رسول اسلام پر ایمان اور ان کی رکاب میںجہاد کرنے کے بعد اپنے کفر پر گواہی دوں ؟ کیا مسئلہ حکمیت قبول کرنے کی وجہ سے تم لوگوں نے اپنی تلواروں کو کاندھوں پر رکھا ہے اور انھیں لوگوں کے سروں پر مارنا چاہتے ہو اور لوگوں کا خون بہانا چاہتے ہو ؟یہ تو کھلا ہوا گھاٹاہے۔

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ خطبہ نمر ۳۶ کی طرف رجوع کریں

۷۲۷

آخری اتمام حجت

امام علیہ السلام ان کے ساتھ گفتگو کرنے سے مایوس ہوگئے اور اپنی فوج منظم کرنے لگے فوج کے میمنہ کا سردار حجر بن عدی کواور میسرہ کا سردار شبث بن ربعی کو بنایا اور ابو ایوب انصاری کوسواروں کاسردار اور ابو قتادہ کو پیادہ چلنے والوں کا سردار بنایا ۔اس جنگ میں امام علیہ السلام کے ساتھ آٹھ سو صحابی شریک تھے اسی وجہ سے آپ نے ان لوگوں کا سردار قیس بن سعد بن عبادہ کو بنایا اور خود میںتھے پھر سوار لوچگوں میں ایک پرچم بلند کیا اور ابو ایوب انصاری کو حکم دیا کہ بلند آواز سے کہیں کہ واپسی کا راستہ کھلا ہواہے اور جو لوگ اس پرچم کے سایہ میں آجائیں گے ان کی توبہ قبول ہوجائے گی اور جو شخص بھی کوفہ چلا جائے یا اس گروہ سے الگ ہوجائے وہ امن وامان میں رہے گا ، ہم تم لوگوں کا خون بہانا نہیں چاہتے اس وقت ایک گروہ پرچم کے نیچے

۷۲۸

آگیا اور امام علیہ السلام نے ان کی توبہ قبول کرلی ۔(ا) بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ خوارج میں سے ایک ہزار لوگوں نے واپسی کا راستہ اختیار کر لیا اور پرچم کے سایہ میں آگئے ۔خوارج کے بعض سردار جو امام علیہ السلام کی طرف آگئے ان کے نام یہ ہیں ، مسعر بن فدکی ، عبداللہ طائی ، ابومریم سعدی، اشرس بن عوف اور سالم بن ربیعہ۔ حقیقت میں صرف عبداللہ بن وہب راسبی کے علاوہ ان کے ساتھ کوئی بھی سردار نہ بچا(۲) ۔

طبری لکھتے ہیں کہ امام علیہ السلام کی فوج میں اس گروہ کے شامل ہونے کے بعد خوارج کی فوج میں کل دو ہزار آٹھ سو (۲۸۰۰) سپاہی بچے،(۳) اور ابن اثیر نے ان کی تعداد ایک ہزار آٹھ سو (۱۸۰۰)لکھی ہے ۔

امام علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ جب تک دشمن جنگ شروع نہ کرے تم لوگ جنگ شروع نہ کرنا۔ اسی وقت خوارج میں سے ایک شخص بڑھا اور امام علیہ السلام کے ساتھیوں پر حملہ کیا اور تین آدمیوں کو قتل کردیا ، اب امام علیہ السلام نے اپنے حملہ سے جنگ شروع کی اور اپنے پہلے ہی حملے میں اس شخص کو قتل کردیا اور پھر اپنے فوجیوں کو حملہ کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: خدا کی قسم تم لوگوں میں دس آدمی کے علاوہ کوئی قتل نہیں ہوگا اور ان میں سے صرف دس آدمی کے علاوہ کوئی زندہ نہیں رہے گا(۴) ۔اس وقت عبداللہ بن وہب راسبی میدان میں آیا اور کہا : اے ابوطالب کے بیٹے !تم سے اس وقت تک جنگ کروں گا جب تک تمہیں قتل نہیں کردو یا تم مجھے قتل کر دو ۔ امام علیہ السلام نے اس کا جواب دیا: خدا اسے قتل کرے کتنا بے حیا شخص ہے وہ جانتاہے کہ میں تلوار اور نیزہ کا دوست ہوں۔ اور فرمایا کہ وہ اپنی زندگی سے مایوس ہوگیا ہے اور جھوٹی امید میرے خلاف باندھے ہے۔ پھر ایک ہی حملہ میں اسے قتل کرکے اس کے دوستوں سے ملحق کردیا(۵) ۔اس جنگ میں بہت کم وقت میں امام علیہ السلام کو کامیابی مل گئی، امام علیہ السلام کے بہادر سپاہیوں

______________________

(۱)الاخبار الطوال ص۲۱۰۔----(۲)مقالات اسلامیین ج۱، ص ۲۱۰۔----(۳)کامل ابن اثیر ج۳،ص ۳۴۶۔ تاریخ طبری ج۴،ص ۶۴ ۔

(۴) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۲، ص۲۷۳،۲۸۲

(۵)الامامة والسیاسة ص۱۳۸

۷۲۹

نے داہنے بائیں سے اور خود امام علیہ السلام نے قلب لشکر سے اپنے بدترین وذلیل دشمن پر حملہ کیااورکچھ ہی دیر میں خوارج کے بے جان جسم زمین پر پڑئے ہوئے نظر آئے ۔اس جنگ میں تمام خوارج قتل ہوگئے ، صرف نو آدمی باقی بچے تھے جن میں دو شخص خراسان میں، دو شخص عمّان میں، دو شخص یمن میں، دو شخص جزیرہ عراق میں اورایک شخص نے '' تلّ موزن '' میں پناہ لی ، اور وہیں زندگی بسر کرنے لگے اور خوارج کی نسل کو باقی رکھا(۱) ۔

امام علیہ السلام جنگ کے بعد ان کے مردہ جسموں کے درمیان کھڑے ہوئے اور بہت ہی افسوس کرتے ہوئے فرمایا:''بؤساً لکم ، لقد ضرَّ کم من غرَّکم ، فقیل له' من غرّهم یا امیرالمومنین ؟ فقال: الشیطانُ المضلُّ والا نفسُ الامّارة بالسُّوئِ غرّتهم بالامانیّ وفسحت لهم بالمعاصی ووعدتهم الا ظهار فأ فتحمت بهم النّار ''(۲) تمہارے لئے بدبختی ہو ، جس نے تم لوگوں کو دھوکہ دیا اس نے تمہیں بہت بڑا نقصان پہونچایا۔ لوگوں نے پوچھا :کس نے انہیں دھوکہ دیاہے ؟ آپ نے فرمایا:گمراہ کن شیطان اور سر کش نفسوں نے ان لوگوں کو لالچ دے کر دھوکہ دیا اور نافرمانی کی راہوں کو ان کے لئے کھول فیا اور انہیں کامیابی کا وعدہ دیا اور بالآخر ان لوگوں کو جہنم کی آگ میں جھونک دیا۔

امام علیہ السلام کے دوستوں نے سمجھا کہ خوارج کی نسل ختم ہوگئی ہے لیکن امام علیہ السلام نے ان کے جواب میں فرمایا:''کلّا ، واللّٰه انّهم نطففی اصلاب الرجال وقرارات النساء ، کلّما نَجَمَ منهم قرن قُطِعَ حتٰی یکون آخرهم لصوصاً سلّابین ''(۳) نہیں ایسا ہرگزنہیں ہے ، خدا واہ ہے کہ وہ لوگ بصورت نطفہ مردوں کے صلب میں اور عورتوں کے رحم میں موجود ہیں اور جب بھی ان میں سے کوئی سرنکالے گا (حکومتوں کی طرف سے اسے) کاٹ دیا جائے گا ( اور دوسرا سروہیں پر نکل آئے گا) یہاں تک کہ آخر میں صرف چور اور لٹیرے ہو کر رہ جائیں گے ۔

______________________

(۱) کلمات قصار نمبر ۳۱۵۔

(۲) کشف الغمہ ج۱، ص ۲۶۷۔

(۳) نہج البلاغہ خطبہ نمبر ۵۹۔

۷۳۰

پھر آپ نے فرمایا: میرے بعد تم لوگ خوارج سے جنگ نہ کرنا کیونکہ تمہارا اصلی دشمن معاویہ ہے اور میں نے امن وامان کی حفاظت کے لئے ان لوگوں سے جنگ کی ہے ان میں سے بہت کم لوگ بچے ہیں اوروہ جنگ کرنے کے لائق نہیں ہیں ۔

امام علیہ السلام نے جنگی غنائم میں سے اسلحہ اور چوپایوں کو اپنے فوجیوں کے درمیان تقسیم کردیا اور ان کے سامان زندگی، کنیزوں اور غلاموں کو ان کے وارثوں کو واپس کردیا ۔ پھر اپنی ہماری تلواریں ٹوٹ گئی ہیں اور تیر ختم ہوگئے ہیں ، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ کوفہ واپس چلیں اپنی قوت میں اضافہ کریں پھر آگے بڑھیںفو ج میں آئے اور فوجیوں کی جواں مردی کی تعریفیں کیں اور فرمایا اسی وقت صفین کی طرف بڑھنا ہے تاکہ فتنہ کو جڑ سے ختم کر دیا جائے مگر فوجیوں نے کہا ہم تھک گئے ہیں ان لوگوں نے واپس جانے پر اتنا زیادہ اصرار کیاکہ امام علیہ السلام کو افسوس ہوا اور مجبوراً آپ ان لوگوں کے ساتھ نخیلہ کوفہ کی چھاؤنی پر واپس آگئے ۔ وہ لوگ دھیرے دھیرے کوفہ چلے جاتے تھے اور اپنی بیوی بچوں سے ملتے تھے اور زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ چھاؤنی پر کچھ ہی لوگ باقی بچے ۔ اتنے کم سپاہیوں کے ساتھ شامیوں سے جنگ کرنا ممکن نہ تھا۔

فتنۂ خوارج کے خاتمہ کی تاریخ

سرزمین صفین پر امام علیہ السلام کے اوپر خروج کرنے کی فکر ماہ صفر ۳۸ ہجری میں پیدا ہوئی اور زمانے کے ساتھ ساتھ کتاب خدا کے حکم کی مخالفت شدید ہوتی گئی ، کوفہ کے خوارج ماہ شوال ۳۸ کو عبداللہ بن وہب راسبی کے گھر جمع ہوئے اور اس کے ہاتھ پر بیعت کی اورکوفہ چھوڑنے کا ارادہ کیا اوروہاں سے'' حروراء ''اور پھر '' نہروان '' چلے گئے ۔ امام علیہ السلام نے اپنے شام کے پروگرام کو مجبوراً بدل کر خوارج سے جنگ کرنے کا ارادہ کیا اور مؤرخین کے نقل کرنے کے مطابق ۹ صفر ۳۸ ہجری کو فساد کو جڑ سے اکھاڑ دیا۔(۱)

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۳، س۹۸ ۔والخوارج

۷۳۱

چھٹاباب

جنگ نہروان کے بعد کے واقعات اورحضرت علی علیہ السلام کی شہادت

پہلی فصل

لوٹ مار، بدامنی اور دردناک قتل عام

جنگ نہروان کی ناگہانی آفت وبلا امام علیہ السلام کے استقلال اور آپ کے باوفا ساتھیوں کی ہمت سے ختم ہوئی اور اب وہ وقت آگیا کہ امام علیہ السلام سرکشوں سے اپنی فوج کی پاکسازی کے لئے دوسری مرتبہ اسلامی سرزمین پرامن اورراحت کوزندہ کریں ، اور معاویہ اورفریب خوردہ شامیوں کی خود غرضی کو ختم کردیں کیونکہ تمام فتنہ وفساد کی جڑ ابوسفیان کا بیٹا تھا۔

معاویہ نے عراق میں اپنے جاسوس معین کئے تھے تاکہ مسلسل ساتھ تمام واقعوں کی خبر اسے دیتے رہیں ، ان میں سے بعض جاسوس علی علیہ السلام سے پرانا کینہ اور بغض وحسد رکھتے تھے مثلاً ولید بن عقبہ بھائی عمارة بن عقبہ ، یہ دونوں بھائی جو بنی امیہ کے شجرۂ خبیثہ کی شاخوں میں سے تھے، ، چونکہ امام علیہ السلام نے اس خبیث خاندان کے بہت سے افراد پر زبردست اور کاری ضربیں لگائی تھیں اس لئے یہ لوگ امام علیہ السلام کی دشمنی کو اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھے خصوصاً ولید کا باپ جنگ بدر میں علی علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہوا تھا ، ولید وہی شخص ہے جس کو قرآن نے سورہ حجرات کی چھٹی آیت میں فاسق کہا ہے اورعثمان کی حکومت کے زمانے میں امام علیہ السلام نے اسے تازیانہ مارا اور شراب پینے کی وجہ سے اس پر حد جاری کی ، اس بنا پر کوئی تعجب نہیں ہے کہ اس کابھائی عمارہ کوفہ میں معاویہ کا جاسوس ہواور خود ولیدامام علیہ السلام کی تمام جنگوں میں معاویہ کو تشویق اور ترغیب دلانے والاہو۔عمارہ نے معاویہ کو خط لکھا جس میں علی ـ کے ساتھیوں کے درمیان تفرقہ واختلاف اور نہروان کے واقعہ کو تحریر کیا اور لکھا کہ بہت سے قاریان قرآن اس جنگ میں علی اور ان کے دوستوں کے ہاتھوں قتل ہوئے ہیں، اس وجہ سے ان کے درمیان اختلاف اور نااتفاقی بڑھ گئی ہے۔ اس نے ایک مسافر کے ذریعہ خط کو شام روانہ کیا۔ معاویہ نے خط پڑھا اور دونوں بھائیوں کا شکریہ ادا کیا جن میں ایک موجود تھا اور دوسرا غائب تھا(۱) ۔

_______________________________

(۱)شرح نہج البلاغۂ ابن ابی الحدید :ج۲ ص۱۱۴،۱۱۵ بحوالہ تاریخ۔

۷۳۲

معاویہ نے بدامنی پھیلانے ، لوٹ مار کرنے اور امام علیہ السلام کے شیعوں کے قتل کے لئے مناسب موقع دیکھا ،اسی وجہ سے اس نے چند گروہ حجاز، یمن اور عراق کے علاقوں میں بھیج کر ذہنی و نفسیاتی جنگ کا آغاز کردیا وہ دھوکہ ،فریب ، بے گناہ افراد کا قتل ، عورتوں اور محتاجوں کا مال غارت وبرباد کرکے نہ صرف امام علیہ السلام کے ذہن سے شام کو شکست دینے کا خیال نکالنا چاہ رہا تھا دیا بلکہ عملی طور پر یہ ثابت کرنا چاہ رہا تھا کہ مرکزی حکومت اپنی سرحدوں کی حفاظت نہیں کرسکتی ہے۔

یہ سیاست جو حقیقت میں شیطانی سیاست تھی اس نے اپنا اثر دکھایا، معاویہ نے حضرت علی ـ حکومت کے حدود میں بہت سے سنگدلوں کو بھیج کر امام علی علیہ السلام کی حکومت کے ایک ہزار آدمیوں کو قتل کرادیااور ان سرکش و نافرمان حملہ کرنے والوں نے بچوں اور عورتوں پر بھی رحم نہیں کیا اور جیسا کہ آئندہ بیان ہوگا ان لوگوں نے عبیداللہ بن عباس کے دو بچوں کا سر لوگوں کے سامنے قلم کردیا۔

امام علیہ السلام کی حکومت کا یہ دورتاریخ کا بہت غمگین اور درد ناک دور تھا البتہ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ امام علیہ السلام کے پاس دشمن کو نابود وبرباد کرنے کے لئے کوئی سیاسی تدبیر یا دوسرا طریقہ نہ تھا بلکہ جو چیز مشکل تھی وہ صرف مٹھی بھر فضول اور بہانے باز ، آرام طلب اور اس سے بھی بدتر وہ لوگ تھے ایسے سادہ لوح تھے کہ ہر کسی کی بات سن کر مان لیتے تھے، یہی وجہ تھی کہ امام علیہ السلام اپنے بلند وعالی ترین مقصد تک نہیں پہونچ سکے، تاریخ نے ان وحشیانہ حملوں کو بہت ہی دقیق ذکر کیاہے اورہم یہاں پر اسین حملوں کی ایک واضح تصویر پیش کررہے ہیں تاکہ معاویہ کا عہد وپیمان ،اسلامی اور انسانی اصولوں کی نسبت سے واضح ہوجائے۔

۷۳۳

۱۔ضحّاک بن قیس کی لوٹ مار

معاویہ کو خبر ملی کہ امیر المومنین شام کی طرف روانہ ہونے والے ہیں تاکہ دوبارہ جنگ کا آغاز کریں ، معاویہ نے اس سلسلے میں خطوط لکھے اور اپنے نمائندوں کو شام کے تمام علاقوں میں بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو خط کے مضمون سے آگاہ کریں، شام کا ایک گروہ عراق کی طرف جانے کے لئے تیار ہوگیا۔ حبیب بن مسلمہ نے ان لوگوں سے کہا : صفین سے آگے نہ بڑھنا کیونکہ ہم نے اسی جگہ پر دشمن غلبہ حاصل کیا تھا اور کامیاب ہوئے تھے لیکن عمروعاص نے رائے دی کہ معاویہ اپنی فوج کے ساتھ عراق کی سرزمین کے اندر تک گھس جائے کیونکہ یہ کام شام کے فوجیوں کو حوصلہ اور قوت عطا کرے گا اور اہل عراق کے لئے ذلت کا باعث ہو گا معاویہ نے اس کی بات مان لی مگر کہا: شام کے لوگ صفین سے آگے بڑھنا نہیں چاہتے ۔ ابھی اس موضوع پر گفتگو ہورہی تھی کہ فوج کہاں قیام کرے کہ اچانک خبر ملی کہ امام علیہ السلام اور خوارج کے درمیان بہت زبردست جنگ ہوئی ہے اور وہ اپنی فوج کے سرکشوں پر کامیاب ہوگئے ہیں اور لوگوں سے کہا ہے کہ شام کی طرف روانہ ہوں لیکن ان لوگوں نے مہلت طلب کی ہے ۔ پھر عمارة بن عقبہ بن ابی معیط کا خط پہونچا جس میں اس نے لکھا کہ علی علیہ السلام کے دوستوں میں تفرقہ واختلاف اور فوج کے قاریوں اور عابدوں نے ان کے خلاف فساد برپا کر رکھا ہے اور ان کے درمیان شدید جنگ اور ان کی سرکوبی کے باوجود اختلاف ابھی بھی باقی ہے۔

ایسے حالات میں معاویہ نے ضحّاک بن قیس فہری کی سرداری میں تین سے چار ہزار لوگوںکو چنا اور حکم دیا کہ کوفہ جائیں اور جن قبیلوں کے لوگ امام کے مطیع وفرماں بردار ہیں انہیں غارت و برباد کردیں اور یہ کام بہت تیزی کے ساتھ انجام دیں اس طرح سے کہ اگر کسی شہر میں بالکل صبح سویرے داخل ہوں تو اسی دن شام کو دوسرے شہر میں رہیں اور کہیں پر بھی قیام نہ کریں کہ اپنے مقابلے والوں سے جنگ کرنی پڑے بلکہ جنگ و گریز اور لوٹ مارکرتے ہوئے اپنے کام کو جاری رکھیں۔

۷۳۴

ضحّاک چلتے چلتے '' ثعلبیہ '' دیہات پہونچا جو عراقیوں کے مکہ جانے کا راستہ تھا اس نے حاجیوں کے مال و سامان کو لوٹا اور پھر اپنا سفر جاری رکھا اور پھر عمروبن عمیس عبداللہ بن مسعود کے بھتیجے کے روبرو ہوا اور انہیں اور ان کے ساتھ بہت سے لوگوں کو قتل کردیا۔جب حضرت علی علیہ السلام کو ضحّاک کی لوٹ مار اور قتل وغارت گری کی خبر ملی تو امام علیہ السلام منبر پر گئے اور کہا: ''اے لوگو! ، بندہ صالح عمرو بن عمیس کی طرف جلدی جاؤ، اپنے دوستوں کی مدد کے لئے اٹھو جو دشمن کے حملے سے زخمی ہوئے ہیں ، روانہ ہو جائواور اپنے دشمن سے جنگ کرو اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کرو تاکہ دشمن اسے عبور نہ کرسکے ، ان لوگوں نے امام علیہ السلام کی تقریر کے مقابلے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی ،جب امام نے ان کی سستی اور ناتوانی کو مشاہدہ کیا تو فرمایا: ''خدا کی قسم !میں حاضر ہوں کہ تم لوگوں میں سے دس آدمیوں کو معاویہ کے ایک آدمی سے بدل لوں ، لعنت ہو تم پر کہ میرے ساتھ میدان میں آؤ اور مجھے بیچ میدان میں چھوڑدو اور بھاگ جاؤ ، خدا کی قسم میں بابصیرت موت سے ناخوش نہیں ہوں اور اس میں میرے لئے بہت بڑی آسائش ہے کہ تم سے

۷۳۵

اور تمہاری سختیوں سے نجات پاجائوں گا'' ۔(۱)

امام علیہ السلام منبر سے اترے اور روانہ ہوگئے یہاں تک کہ آپ سرزمین '' غریبین'' پہونچے اور پھر حجر بن عدی کو چار ہزار فوج کا سردار بنایا اور ان کے لئے علم باندھا ، حجر روانہ ہوئے اور سرزمین '' سماوہ'' پہونچے اور مستقل ضحاک کی تلاش میں تھے یہاں تک کہ '' تدمر'' کے علاقہ میں اس کو پالیا۔ دونوں گروہوں کے درمیان جنگ شروع ہوگئی اور دشمن کی فوج کے ۱۹ آدمی اور علی علیہ السلام کے دو آدمی مارے گئے ، ضحاک نے رات کے اندھیرے کا فائدہ اٹھایا اور بھاگ گیا اور صبح تک اس کا کوئی پتہ نہ تھا۔ ضحاک عراق سے بھاگنے کے بعد پیاس کی شدت سے جاں بلب ہوا ، کیونکہ جس اونٹ پر اس نے پانی رکھا تھا وہ راستے میں غائب ہوگیا لیکن بالآخر اس نے اطراف میں رہنے والوں سے پانی طلب کیا اور اپنی پیاس بجھائی ۔

امام علیہ السلام نے ضحاک کی لوٹ مار اورغارتگری پر ایک خطبہ دیا جس کا خلاصہ یہاں تحریر کررہے ہیں:''ایها الناس، المجتمعةُ أبد انُهُم المختلفةُ أهوا ؤهُم کلَا مُکم یوهِی الصُّمَّ الصِّلابَ وفِعلکم یُطمِعُ فیکُم الاعداء َ تقولونَ فی المجالسِ: کَیتَ وکَیتَ فاذا جَائَ القتالُ قُلتُم حیدِی حیادٍ '' ،اے وہ لوگو! جن کے جسم یکجا اور خواہشیں مختلف ہیں تمہاری باتیں سخت پتھروں کو نرم کردیتی ہیں مگر تمہارا عمل تمہارے بارے میں دشمنوں کو لالچ دلاتا ہے اپنی مجلس میں بیٹھ کر کہتے ہو کہ یہ کرینگے وہ کرینگے اور جب جنگ کا وقت آجائے تو کہتے ہو ائے جنگ دور ہو، دور ہو ۔

''۔۔۔أیّ دارٍ بعد دارِکم تمنعون؟ ومع ای اِمام بعدِی تقاتلون؟ المغرور واللّٰه من أ غررتموه و من فاز بکم فقد فاز واللّٰه بالسَّهم الاخیبِ ومن رمیٰ بکم فقد رمیٰ بأفوق ناصِل '' ، '' اپنا گھر چھن جانے کے بعد کس کے گھر کی حفاظت کروگے؟ اور میرے بعد کس امام کے ساتھ رہ کرجہاد کروگے؟، خدا کی قسم جسے تم اپنے فریب میں مبتلا کرلو وہ دھوکہ میں ہے اور جو تمہارے ذریعہ کامیاب ہونا چاہے اس کے حصّے میں ناکام تیر آئے گا ( جس کا کوئی انعام نہ ہو) اور جس نے تمہارے ذریعہ تیر چلایا گا اس نے (گویا) شکستہ پیکان سے نشانہ لگایا''۔

_______________________________

(۱) نہج البلاغہ خطبہ نمبر۷ ۹

۷۳۶

خطبہ کے آخر میں فرماتے ہیں : ''القوم رجال أمثالُکم، أقولاً بغیرعلم ٍ ؟وغفلَة ً من غیرورعٍ ؟ وطمعاً فی غیرحقٍّ ''؟(۱) '' (دشمن )لوگ (شامی) بھی تمہارے ہی جیسے مرد ہیں ، کیا عقیدہ کے بغیر باتیں صحیح ہیں ؟تقوی کے بغیر غفلت صحیح ہے؟ کیا نا حق چیز میں طمع صحیح ہے ؟

امام علیہ السلام کے بھائی عقیل کو ضحاک کے حملہ کی خبر ملی اور مکہ سے آپ کے پاس ہمدردی کے طور پر خط لکھا اور خط کے آخر میں لکھا کہ اگر اجازت دیں تو اپنے بچوں کے ساتھ عراق آجاؤں اور اپنے بھائی کی خوشی اور غم میں شریک رہوں کیونکہ میں اس بات پر راضی نہیں ہوں کہ حضرت کے بعد زندہ رہوں ، امام علیہ السلام نے اپنے بھائی کو جواب لکھا جوکہ آپ کا تاریخی خط ہے اور اس میں قریش کے حالات اور ان کے ظلم وستم کو اس انداز سے لکھا:

''الا وان العرب قد اجمعت علیٰ حربِ اخیک الیوم اجماعَها عَلیٰ حربِ رسول اللّٰه قبل الیوم فاصبحوا قد جهِلوا حقّه' وجَحدوا فضله وبادروه العداوةونصبوا له الحرب وجهدو ا علیه کلَّ الجحد وجرّوا اِلیه جیش الاحزاب ''(۲) ، '' آج عرب نے تمہارے بھائی کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے عہد کر لیا ہے جیسا کہ اس سے پہلے پیغمبر سے جنگ کرنے کے لئے عہد وپیمان باندھا تھا۔ ان لوگوں نے تمہارے بھائی کے حق سے انکار کردیا ہے اور اس کی فضیلت کو نظر انداز کردیاہے اور دشمنی کرنے میں بہت جلدی کی اور پیغمبر کے زمانے میں اس کی سخت ترین محنت وں وکوششوں سے چشم پوشی کرلی ہے اور بالآخر احزاب کی فوج لے کر اس کے سامنے آگئے ہیں''۔امام ـ کایہ کلام اس بات کی حکایت کرتاہے کہ آپ معاویہ کے ساتھ جنگ کو پیغمبر کی ابوسفیان کے ساتھ جنگ کا سلسلہ سمجھتے ہیں۔ حقیقتاً جنگ احزاب عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے بہانے سے صفین میں دوبارہ برپا کی گئی۔

_______________________________

(۱) نہج البلاغہ خطبہ نمبر ۲۹۔ الغارات ثقفی: ج۲، ص ۴۱۶۔ تاریخ طبری: ج۴، ص ۱۰۴۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج۲ ص ۱۱۱تا۱۲۵

(۲)الغارات ج۲، ص ۴۳۱

۷۳۷

۲۔ بُسر کو حجاز ویمن بھیجنا

امام علیہ السلام نے یمن کے ایک حصے کا والی عبیداللہ بن عباس کو بنایا تھا اور ایک دوسرے حصّے جند(۱) کا والی سعید بن نمران کو بنایا تھا۔ یمن کے مرکزی علاقہ میں کچھ ایسے گروہ تھے جو عثمان اور عثمانیوں پیروی کرتے تھے اور حضرت علی علیہ السلام کی حکومت سے کوئی رغبت نہیں رکھتے تھے بلکہ ہمیشہ دھوکہ ،فریب اور فتنہ وفساد کی فکر میںرہتے تھے جب ان لوگوں کو خوارج کے حادثہ اور امام کی فوج میں اختلاف کی خبر ملی تو مخالفت کرنے لگے یہاں تک کہ سعید بن نمران کو جند کے علاقہ سے باہر نکال دیا، ایک گروہ جو فکر کے اعتبار سے عثمانی نہ تھا وہ بھی مالیات (ٹیکس) ادا نہ کرنے کی وجہ سے فسادیوں کے ساتھ مل گیا ۔

سعید بن نمران اور عبیداللہ ابن عباس نے مخالفین کے تما م حالات امام علیہ السلام کو دی۔ امام علیہ السلام نے کوفہ میں یمن کی ایک عظیم شخصیت یزید بن قیس ارحبی سے مشورہ کیا اور آخر میں یہ طے ہوا کہ فتنہ وفساد برپاکرنے والوں کو خط لکھیں اور ان لوگوں کو نصیحت کریں اور پھر دوبارہ مرکزی حکومت کی اطاعت وپیروی کے لئے دعوت دیں۔

امام علیہ السلام نے خط کو یمن کے ایک آدمی کے ہمراہ جو قبیلہ ہمدان سے تھا ان لوگوں کے پاس بھیجا، امام علیہ السلام کے قاصد نے آپ کا خط ایک بہت بڑے اجتماع میں لوگوں کو سنایا، خط کامضمون بہت تربیتی اور مؤثر تھا، لیکن مخالفین نے اطاعت وپیروی کو اس شرط پر قبول کرنے کا وعدہ کیا کہ امام عبیداللہ اور سعید کوبر طرف کر دیں۔

ادھر فساد کرنے والوں نے فرصت کو غنیمت جانا اور معاویہ کوچند اشعار پر مشتمل ایک خط لکھا اور اس سے درخواست کی کہ اپنا نمائندہ صنعاء اور جند روانہ کرے تاکہ اس کے ہاتھ پر بیعت کریں اور اگر اس کام میں تاخیر کی تو ہم لوگ علی علیہ السلام اور ان کے مشاور یزید ارحبی کی بیعت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

جب فتنہ وفساد کرنے والوں کا خط معاویہ کو ملا تو اس نے طے کہ یمن اور حجاز میں قتل وغارت گری،

_______________________________

(۱) یمن اس وقت تین حصوں میں تھا ایک حصّہ حجاز پڑوس'' حضرموت'' اور مرکزی حصہ''، صنعاء '' اور سب سے دور کا علاقہ ''

۷۳۸

جندَ '' کے نام سے مشہور تھا ۔ مراصد الاطلاع، مادہ جند۔

بدامنی اور فساد کامزید ماحول پیدا کرے، اسی وجہ سے اپنی فوج کے سب سے سنگدل سردار بُسربن ارطاة کو اپنے پاس بلایا اور اس سے کہا کہ تین ہزار کا لشکر لے کر حجاز اور مدینہ جاؤ اور راستے میں جہاں بھی پہونچنا وہ اگر علی کے ماننے والے ہوں تو اانہیں خوب گالی گلوج دینا،سب کو میری بیعت کے لئے دعوت دینا ، بیعت کرنے والوں کو آزاد چھوڑدینا اور جو لوگ بیعت نہ کریں انہیں قتل کردینا اور جہاں بھی علی کے چاہنے والے ملیں انہیں قتل کردینا۔

معاویہ نے یہ خاص طریقہ استعمال کیا جب کہ وہ خود شام میں تھا اور علی علیہ السلام سے روبرو ہوکر جنگ نہیں کی لیکن اسی مقابلے کی جنگ کا نتیجہ حاصل کیا اور ولید بن عقبہ جیسے لوگ کہ جنہوں نے معاویہ کو امام علیہ السلام سے روبرو ہوکر جنگ کرنے کے لئے کہا تھا اسے بیوقوف اور احمق کہا اور وہ جانتا تھا کہ یہ لوگ سیاسی تجربہ میں ماہر نہیں ہیں ۔

ابن ابی الحدید نے اس سلسلے میں بہت عمدہ تبصرہ کیا ہے، وہ لکھتاہے :ولید امام علیہ السلام پر بہت غضبناک تھا کیونکہ جنگ بدر میں اس کے باپ کو مولائے کائنات نے قتل کیا تھا اور عثمان کی حکومت کے زمانے میں خود وہ امام کا تازیانہ کھا چکا تھا چونکہ اس نے بہت دنوں تک کوفہ پر حکومت کی تھی ، اورآمنے سامنے ہو کر اس وقت اپنی میراث کو حضرت علی کے ہاتھوں میں دیکھ رہا تھا لہذا علی علیہ السلام سے مقابلہ کرنے کے علاوہ کسی اور فکر میں نہ تھا۔ لیکن معاویہ ولید کے برخلاف دوراندیش تھا کیونکہ اس نے صفین میں امام علیہ السلام سے جنگ کرکے تجربہ کرلیا تھااور سمجھ گیا تھا کہ اگر اس جنگ میں قرآن کو نیزے پر بلند کرنے کا فریب نہ کیا ہوتا توعلی علیہ السلام کے ہاتھوں اپنی جان نہیں بچا سکتاتھا اور اگر دوبارہ ان سے جنگ کرتا تو ممکن تھا جنگ کے شعلوں میں جل کر راکھ ہوجائے ، اسی وجہ سے اس نے مصلحت سمجھی کہ بدامنی ، خوف و وحشت اور فساد بر پا کرکے حضرت علی کی حکومت کو کمزور کرے اور امام علیہ السلام کو مجبور اور ناتواں اسلامی ملک کی رہبری کے لئے ثابت کرے(ا)۔

_______________________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج۲ ص۸

۷۳۹

بُسر کا سفر

بُسر تین ہزار لوگوں کے ساتھ شام سے روانہ ہوا اور جب دیر مردو کے پاس پہونچا تو اس میں سے چار سو لوگ بیماری کی وجہ سے مر گئے اور وہ ۲۶۰۰ آدمیوں کے ساتھ حجاز کی طرف روانہ ہوگیا۔ وہ جس آبادی سے بھی گزرتا لوگوں کے اونٹ کو زبردستی ان سے چھین لیتا ، اور خود اور اس کے فوجی اس پر سوار ہوتے تاکہ دوسری آبادی میں پہونچ جائیں پھر وہاں ان اونٹوں کو چھوڑ دیتے تھے اور اس دوسری آبادی کے اونٹوں کو لے لیتے تھے ۔ اسی طرح سے اپنا طولانی سفر طے کیا یہاں تک کہ مدینہ پہونچابُسر نے مدینے میں قدم رکھتے ہی وہاں کے لوگوں کو برا بھلا کہنا شروع کردیا اور عثمان کے قتل کا واقعہ چھیڑدیا اور کہا: تم سب عثمان کے قتل میں شریک ہو یا ان کی طرف سے بے توجہی اختیار کرکے انھیں ذلیل و خوار کئے ہو۔ خدا کی قسم ایسا کام کروں گا کہ عثمان کا پورا خاندان قلبی سکون محسوس کرے گا۔

پھر دھمکیاں دینا شروع کردیں اور لوگوں نے اس کے خوف کی وجہ سے حویطب بن عبد العزّی کے گھر میں پناہ لی جوکہ اس کی ماں کے شوہر(سوتیلے باپ) کا گھر تھا اور اس کے سمجھانے کی وجہ سے بُسر کا غصہ ٹھنڈا ہوا ۔ اس وقت سب کو معاویہ کی بیعت کی دعوت دی کچھ لوگوں نے اس کی بیعت کی لیکن اس نے صرف اس گروہ کی بیعت پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مدینہ کے اہم افراد کو جو فکری اعتبار سے معاویہ کے مخالف تھے یا عراق میں علی علیہ السلام کے بہت زیادہ نزدیک تھے ان کے گھروں میں آگ لگادی زرارہ بن حرون، رفاعہ بن رافع اور ابو ایوب انصاری کا گھر جل کر راکھ ہوگیا ۔ پھر بنی مسلمہ کے سرداروں کو بلایا اور ان سے پوچھا : جابر بن عبداللہ کہاں ہے ؟ یااسے حاضر کرو یا قتل ہونے کے لئے تیار ہوجاؤ،اس وقت جابر نے پیغمبرا سلام (ص)کی بیوی ام سلمہ کے گھر میں پناہ لی تھی اور جب ام سلمہ نے پوچھا کہ کیا سوچ رہے ہو تو انھوں نے جواب دیا کہ اگر بیعت نہیں کروں گا تو قتل ہوجاؤں گا اور اگر بیعت کروں تو ضلالت وگمراہی میں مبتلا ہو جاؤں گا لیکن '' الغارات'' کے نقل کرنے کے مطابق جابر نے ام سلمہ کے مشورہ کے مطابق بیعت کرلی ۔

۷۴۰

جب بُسر اپنی خرابکاریوں کو مدینہ میں انجام دے چکا تو پھر مکہ کی طرف روانہ ہوا تعجب یہ ہے کہ ابوہریرہ کو مدینہ میں اپنا جانشین بنایا ، اس نے مدینہ سے مکہ جانے میں بہت سے گروہوں کوقتل کیا ان کے مال واسباب کو لوٹ لیا اور جب مکہ کے قریب پہونچا تو امام علیہ السلام کے سردار قُثم بن عباس مکہ سے باہر چلے گئے ، بُسر نے مکہ میں قدم رکھتے ہی اپنے پروگرام کو جاری رکھا اور لوگوں کو گالی اور فحش دینے لگا اور سب سے معاویہ کی بیعت لی اور ان لوگوں کو معاویہ کی مخالفت کرنے سے ڈرایاکیا اور کہا: اگر معاویہ سے تم لوگوں کی مخالفت کی خبر مجھ تک پہونچی تو تمہاری نسلوں کو ختم کردوں گا اور تمہارے مال کو برباد کردوں گا اور تمہارے گھروں کو ویران کردوں گا۔

بُسر کچھ دن مکہ میں رہنے کے بعد طائف چلا گیا اور اپنی طرف سے ایک شخص کو ''تبالہ '' روانہ کیا کیونکہ وہ جانتاتھا کہ وہاں حضرت علی علیہ السلام کے شیعہ رہتے ہیں اور حکم دیا کہ بغیر کسی بات اور سوال وجواب کے سب کو قتل کردینا۔

بُسر کا نمائندہ '' تبالہ '' پہونچا اور اس نے سب کو باندھ دیا ، منیع نے اس سے درخواست کی کہ بُسر سے اس کے لئے امان نامہ لے آئے ، اس نے منیع کی درخواست قبول کرلی، قاصد طائف روانہ ہوا اور بُسر سے ملاقات کی اور اس سے امان نامہ مانگالیکن بُسر نے امان نامہ دینے میں اس قدر وقت لگایا کہ جب تک امان نامہ سرزمین تبالہ پہونچے سب کے سب قتل ہوجائیں۔ بالآخر منیع امان نامہ لے کر اپنی سرزمین پر اس وقت پہونچا جب کہ تمام لوگوں کوقتل کرنے کے لئے شہر کے باہر لاچکے تھے ۔ایک شخص کو وہاں آگے بڑھائے ہوئے تھے کہ اس کو قتل کریں لیکن جلاد کی تلوار ٹوٹ گئی ، سپاہیوں نے ایک دوسرے سے کہا : اپنی تلواروں کو نیام سے نکالو تاکہ سورج کی گرمی سے نرم ہوجائے اور اسے ہوا میں لہراؤ ،قاصد نے دور سے تلواروں کو چمکتے ہوئے دیکھا اور اپنے لباس کو ہلا کر اشارہ کیا کہ اپنا ہاتھ روک لیں شامیوں نے کہا: یہ شخص اپنے ساتھ خوشخبری لے کر آرہا ہے لہٰذا اپنا ہاتھ روک لو، قاصد پہونچ گیا اور امان نامہ کو سردار کے حوالے کیا اور اس طرح سے سب کی جان بچائی سب سے عمدہ بات یہ ہے کہ جس شخص کو قتل کے لئے حاضر کیا تھا اور تلوار ٹوٹنے کی وجہ سے اس کے قتل میں تاخیر ہوئی وہ شخص اس کا بھائی تھا۔

بُسر نے اپنا کام انجام دینے کے بعد طائف کو چھوڑدیا او رعرب کے مشہور سیاست باز مغیرہ بن شعبہ نے اُسے کچھ دور آکر رخصت کیا ، وہ یمن جاتے ہوئے راستے میں سرزمین '' بنی کنانہ '' پہونچا ۔ اسے خبر ملی کہ ''صنعاء میں امام علیہ السلام کے والی عبیداللہ بن عباس نے اپنے دو چھوٹے بچوں کوان کی ماں کے ساتھ وہاں چھوڑدیا ہے ، عبیداللہ نے اپنے بچوں کو بنی کنانہ کے ایک شخص کے سپر د کیا تھا ۔

۷۴۱

وہ شخص ننگی تلوا رلے کر شامیوں کے پاس آیا ، بُسر نے اس سے کہا: تمہاری ماں تمہارے غم میں بیٹھے ، میں تمہیں قتل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا بلکہ میں عبیداللہ کے بچوں کو مانگ رہا ہوں ، اس نے بُسر کو جواب دیا: میں ان لوگوں کی راہ میں جو میری حمایت میںہیں قتل ہونے کے لئے تیار ہوں ، یہ جملہ کہنے کے بعد شامیوں پر حملہ کیا اور بالآخر قتل ہوگیا، عبیداللہ کے چھوٹے بچوں کو قتل کرنے کے لئے لائے اور بہت ہی قساوت قلبی سے دونوں کو قتل کردیا ۔ بنی کنانہ کی ایک عورت نے فریاد بلند کی ، تم لوگ مردوں کو قتل کررہے ہو ، بچوں نے کیا غلطی کی ہے؟ خدا کی قسم چھوٹے بچوں کو نہ جاہلیت اور نہ ہی اسلام کے زمانے میں قتل کیا گیا ، خدا کی قسم وہ حکومت جو اپنی طاقت وقدرت بوڑھوں اور بچوں کو قتل کرکے ثابت کرتی ہے اور ناکارہ حکو مت ہے ، بُسر نے کہا: خدا کی قسم ہمارا ارادہ تھا کہ عورتوں کو بھی قتل کریں۔ اس عورت نے کہا: میں خدا سے دعا کرتی ہوں تو اس کام کو ضرور انجام دے۔

بُسر سرزمین کنانہ سے اور اپنے سفر کے درمیان نجران میں عبیداللہ بن عباس کے داماد عبداللہ بن عبد المدان کو قتل کردیا اور کہا: اے نجران کے لوگو اے عیسائیو! ، خدا کی قسم اگر تم لوگوں نے ایسا کام کیا جس سے میں خوش نہ ہو تو میں واپس آجاؤں گااور ایسا کام کروں گا کہ تمہاری نسلیں ختم ہوجائیں گی، تمہاری کھیتیاں برباد اور تمہارے گھر ویران ہو جائیں گے۔

پھر اپنے سفر پر روانہ ہوگیا اور راستے میں ابوکرب جو امام علیہ السلام کے شیعوں اور ہمدان کے بزرگوں میں سے تھے ان کو قتل کردیا اور بالآخر سرزمین صنعاء پہونچا۔ امام علیہ السلام کے والی عبیداللہ بن عباس اور سعید بن نمران نے شہر کو چھوڑدیا اور عمر و ثقفی کو اپنا جانشین بنادیا تھا۔ عبیداللہ کے جانشین نے کچھ دیر تک مقابلہ کیالیکن آخر کارقتل ہوگیا خونریز بُسر شہر میں داخل ہوگیا اور بہت سے لوگوں کو قتل کرڈالا یہاں تک کہ وہ گروہ جو ''مآرب'' سے وہاں آیاتھا صر ف ایک آدمی کے علاوہ سب کو قتل کردیا۔ وہ نجات یافتہ شخص مآرب واپس چلا گیا اور کہا: میں ضعیفوں اور جوانوں کو باخبر کررہا ہوںکہ سرخ موت تمہارا تعاقب کررہی ہے۔

بُسر ،صنعاء سے ''جیشان '' نامی علاقے کی طرف گیا ۔اس علاقے کے سبھی لوگ امام علیہ السلام کے شیعہ تھے۔ بُسر اور ان کے درمیان جنگ شروع ہوئی اور بالآخر بہت زیادہ تلفات کے بعد مغلوب اور اسیر ہوگئے اور بہت ہی درد ناک طریقے سے شھید ہوئے ۔ وہ دوبارہ صنعاء واپس گیا اور سو آدمیوں کوپھر اس جرم میں قتل کیا کہ ان میں سے ایک عورت نے عبیداللہ بن عباس کے بچوں کو پناہ دی تھی ۔

۷۴۲

یہ بُسر بن ارطاة کے ظلم وستم کا بدترین سیاہ ورق تھا جسے تاریخ نے ضبط کیا ہے ۔

جب بُسر کے ظلم وستم کی خبر حضرت علی علیہ السلام کو ملی تو آپ نے اپنے عظیم سردار جاریہ بن قدامہ کو دو ہزار کا لشکر دے کر بُسر کے ظلم وستم سے مقابلہ کرنے کے لئے حجاز روانہ کیا، وہ بصرہ کی طرف سے حجاز گئے اور یمن پہونچے اور بُسر کا پیچھا کررہے تھے یہاں تک کہ خبر ملی کہ وہ سرزمین '' بنی تمیم'' پر ہے۔ جب بُسر جاریہ کی آمد سے باخبر ہوا تو وہ ثمامہ کی طرف چلا گیا۔ جب لوگوں کو جاریہ کی آمد کی خبرہوئی تو بُسر کے راستے میں مشکلات کھڑی کردیں۔ لیکن وہ کسی طرح سے اپنی جان بچا کر شام پہونچ گیا اور اپنے سفر کی مکمل روداد معاویہ سے بیان کی ۔ '' اس نے کہا: کہ میں نے سفر کی آمد ورفت میں تمہارے دشمنوں کو قتل کیا ہے ، معاویہ نے کہا: تونے یہ کام نہیں کیاہے بلکہ خدانے کیا ہے !۔

تاریخ نے لکھا ہے کہ بُسر نے اس سفر میں ۳۰ ہزار لوگوں کو قتل کیا اور کچھ لوگوں کو آگ میں جلا دیا ۔ امیرالمومنین علیہ السلام ہمیشہ اس پر لعنت، ملامت کرتے تھے اورکہتے تھے: خدایا! اُسے موت نہ دینا جب تک اس کی عقل اس سے چھین نہ لینا ، خدایا !بُسر ،عمروعاص اور معاویہ پر لعنت کر، اور اپنے غیض وغضب کو ان پر نازل کر۔ امام علیہ السلام کی بددعا قبول ہوئی اور زیادہ دن نہ گذرا تھا کہ بُسر دیوانہ ہوگیا اور ہمیشہ کہتاتھا: مجھے ایک تلوار دیدو تاکہ میں لوگوں کو قتل کروں ، اس کے محافظین کو کچھ سمجھ میں نہ آیا تولکڑی کی ایک تلوار اس کے ہاتھ میں دے دی اور وہ مسلسل اس تلوار سے در و دیوار پر مارتا تھا یہاں تک کہ ہلاک ہوگیا۔

بُسر کا کام مسلم بن عقبہ کی طرح تھا جو اس نے یزید کے حکم سے مدینہ میں حرّہ نامی جگہ پر انجام دیا تھا ، حقیقت میں یہ باپ بیٹے ( معاویہ اور یزید) نہ صرف مزاج و ذہنیت کے اعتبار سے ایک تھے بلکہ ان عاملین بھی قساوت قلبی ، سنگدلی میں انھیں جیسے تھے اور ابن ابی الحدید کی تعبیر کے مطابق ''وَمَن اَشبَهَ اَبَاهُ فَمَا ظَلَمَ ''(۱) ۔

اس حصّہ کے آخر میں امام علیہ السلام کاوہ خطبہ جو آپ نے بُسر کے بارے میں دیا، بیان کررہے ہیں '' بس کوفہ ہی میرے تصرف میں رہ گیا ہے اسی کے قبض وبسط کا اختیارمیرے ہاتھ میں ہے اور اے کوفہ !

_______________________________

(۱)الغارات: ج۲ص ۶۲۸تا۵۹۱، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج۲، ص۳۔۱۸، تاریخ طبری ج۳، ص ۱۰۶۔۱۰۸، تاریخ یعقوبی :ج۱، ص ۱۸۶۔۱۸۹، کامل ابن اثیر: ج۳، ص ۳۸۳۔ ۳۸۵

۷۴۳

اگر توایسا اور تجھ میں بھی مخالفت کی آندھیاں چلتی رہیں تو خدا تیرا برا کرے گا۔ مجھے خبر ملی ہے کہ بُسر یمن پہونچ گیا ہے اور مجھے خدا کی قسم یہ اندیشہ ہے کہ لوگ تم پر قابض ہوجائیں گے اور تم پر حکم چلائیں گے اس لئے کہ لوگ باطل پر ہوتے ہوئے بھی متحد ہیں اور تم اپنے حق پر منظم نہیں ہو(بلکہ ) تم حق باتوں میں اپنے امام کی مخالفت و نافرمانی کرتے ہو اور وہ باطل میں اپنے امیر کی اطاعت کرتے ہیں وہ اپنے ساتھی (معاویہ) کے ساتھ امانت داری کا حق ادا کرتے ہیں اور تم اپنے امام کی امانت میں خیانت کرتے ہو وہ اپنے شہروں میں امن وامان رکھتے ہیں اور تم شورش و فسادکرتے رہتے ہو ، اگر میں تم میں سے کسی کو لکڑی کے ایک پیالہ کا امین بنادوں تو ڈرتا ہوں کہ اسے دستہ سمیت لے کر بھاگ جائے گا، اے اللہ! کوفہ کے لوگوں سے میرا دل تنگ ہوگیا ہے اوران کا بھی دل مجھ سے تنگ ہو گیا ہوں۔ میں ان سے اُکتاگیا ہوں ،اور یہ مجھ سے اکتا چکے ہیں۔ تو اب ان کے بدلے میں ان سے بہتر لوگ مجھے عطا کردے اور میرے بدلے میں کوئی برا حاکم انہیں دیدے۔خدایا! ان کے دلوں کو ( اپنے غضب سے ) اس طرح پگھلادے جیسے پانی میں نمک گھولا جاتاہے ۔خدا کی قسم، میرا دل تو یہ چاہتاہے کہ کاش مجھے تمہارے عوض بنی فراس بنی غنم کے ایک ہزار سوار مل جائیں ''(۱) ۔

_______________________________

(۱) نہج البلاغہ: خطبہ ۲۵۔

۷۴۴

۳۔ سفیان بن عوف کی لوٹ مار

سفیان بن عوف غامدی کو معاویہ کی طرف سے حکم ملا کہ ایک لشکر کے ساتھ فرات کی طرف جائے تاکہ '' ہیت '' نامی شہر جائے جو '' انبار'' شہر کے پاس ہے اور پھر وہاں سے انبار جائے ۔ اگر راستے میں کوئی مقابلہ کرے تو اس پر حملہ کرے اور انہیں غارت کردے اور اگر راستے میں کسی نے مزاحمت نہ کی تولوٹ مار کرتا ہوا شہر انبار تک جاتے اور اگر وہاں پر بھی کوئی لشکر وغیرہ نہ ہو تو مدائن تک جاتے اور پھر وہاں سے شام واپس آجاتے اورہر گز ایک لمحہ کے لئے بھی کوفہ کے قریب نہ جاتے،پھر معاویہ نے اس سے کہا : اگر تم نے انبار اور مدائن کو برباد کردیا تو گویا تم نے کوفہ کوبرباد کردیا ہے اور تمہارا یہ عمل عراق کے لوگوں کو مرعوب کردے گا اور ہمارے چاہنے والوں کو خوش کردے گا اور جو لوگ ہماری مدد کرنے سے خوف زدہ ہیں وہ ہماری طرف آجائیں گے۔ سفر کے راستہ میں اگر تمہارا کوئی موافق نہ ہوتو اسے قتل کردینا اور دیہاتوں کو ویران کردینا

اور ان کے مال واسباب کو مال غنیمت سمجھنا کیونکہ ان لوگوں سے مال غنیمت لینا ان لوگوں کو قتل کرنے کی طرح ہے اور یہ کام دلوں کو جلا کر راکھ کردے گا ۔

سفیان کہتا ہے: میں شام کی چھاؤنی میں گیا ، معاویہ نے تقریر کی اور لوگوں کو میررے ساتھ جانے کے لئے دعوت دی کچھ ہی دیر میں چھ ہزار لوگ ہمارے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہوگئے میں فرات کی طرف روانہ ہوگیا اور ہیت نامی جگہ پر پہونچا ۔وہاں کے لوگ میری آمد سے باخبر ہوگئے اور فرات کو عبور کرگئے اور میں نے بھی فرات کو عبور کیا لیکن کسی سے ملاقات نہ ہوئی ۔پھر میں '' صندودائ'' پہونچا وہاں کے لوگ بھی مجھے دیکھ کر بھاگ گئے تو میں نے ارادہ کیا کہ انبار کی طرف جاؤں وہاں کے دوآدمیوں کو میں نے قید کرلیا اوران لوگوں سے پوچھا کہ علی کے لشکر میں کتنے فوجی ہیں؟انہوں نے جواب دیا: وہ لوگ پانچ سو آدمی تھے لیکن ان میں سے کچھ لوگ کوفہ گئے ہیں اور ہمیں نہیں معلوم کہ کتنے لوگ باقی بچے ہیں شاید تقریبادوسو لوگ باقی بچے ہوں۔ میں نے اپنے فوجیوں کوگروہ گروہ کیا اور انہیں تھوڑی تھوڑی دیر بعد انبار بھیجا تاکہ شہر میں ایک ایک آدمیوں سے جنگ کریں لیکن جب میں نے دیکھا کہ یہ کام زیادہ مؤثر نہیں ہے تو دوسو فوجیوں کو پیادہ روانہ کیا اور ان لوگوںسوار فوجیوںسے مدد کی ۔ اس طرح امام کی فوج کے تمام افراد منتشر ہوگئے اور اس کا سردار ۳۰ لوگوں کے ساتھ قتل ہوگیا ۔پھر میں نے جو کچھ انبار میں تھا اسے برباد کردیا اور شام واپس آگیا ۔ جب معاویہ کے پاس پہونچا تو پورا ماجرا بیان کیا ، اس نے کہا: میں نے تمہارے بارے میں یہی گمان کیا تھا ۔ زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ عراق کے لوگ خوفزدہ ہوگئے اور گروہ گروہ شام کی طرف

۷۴۵

ہجرت کرنے لگے۔(۱) علی علیہ السلام کو خبر ملی کہ سفیان انبار میں داخل ہو گیا ہے اور آپ کے والی حسان بن حسان کو قتل کردیا ہے ۔حضرت غصّے کے عالم میں گھر سے باہر آئے اور نخیلہ چھاؤنی گئے اور لوگ بھی آپ کے پیچھے پیچھے آئے، امام علیہ السلام ایک بلند جگہ پر گئے خدا کی حمدو ثناکی اور پیغمبر پر درود بھیجا پھر آپ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا:'' اے لوگو! جہاد جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جسے خدا نے اپنے خاص دوستوں کے لئے کھولا ہے اور یہ پرہیز گاری کا لباس اللہ کی مستحکم زرہ اور دشمنوں سے بچنے کے لئے مضبوط سپر ہے اور جو شخص متنفّر ہوکر اسے چھوڑدیتا ہے خدا اسے ذلت وخواری کا لباس پہنا دیتاہے اور امتحان کی ردا اُڑھا دیتاہے اور بدنامیوں اور رسوائیوں کے ساتھ اسے ٹھکرادیا جاتاہے اور اس کے دل پر بے عقلی کا پردہ ڈال دیا جاتاہے اور جہاد کے شرف وفضیلت کو ضائع کرنے کی وجہ سے اس کا حق اس سے پھیر لیا جاتاہے اُسے ذلت میں کر دیا کیا جاتا ہے اور انصاف سے محروم کردیا جاتاہے دیکھو !بنی غامد کے آدمی (سفیان بن عوف ) کی فوج انبار میں داخل ہو گئی ہے اور حسان بن حسان بکری کو قتل کر دیا ہے اور تمہارے فوجیوں چھاؤنی سے نکال دیاہے۔مجھے خبر ملی ہے کہ اس فوج کا کوئی شخص مسلمان اور ذمّی عورت کے گھر گھس گیا اور اس کی پازیب ، کنگن ، گلے کا ہار اور گوشوارے اتارلئے اور ان کے پاس اس سے حفاظت کا کوئی ذریعہ نہ تھا سوائے اس کے کہ وہ انا للہ پڑھیں اور رحم و کرم کی درخواست کریں ، پھر یہ لوگ لوٹ کا مال لے کر شام چلے گئے ان میں سے نہ تو کئی زخمی ہوا اور نہ کسی کا خون بہا۔ اب اگر اس کے بعد کوئی مسلمان اس غم میں مر جائے تو اسیکی ملامت نہیں کی جاسکتی ہے بلکہ میرے نزدیک وہ اس کا حقدار ہے پس کس قدر حیرت ہے کہ خدا کی قسم ان لوگوںکا اپنے باطل پر اتفاق کرلینا اور تمہارا حق سے منتشر ہوجانا ،یہ(تمہارا کرتوت) دل کو مردہ کر دیتا ہے اوررنج و غم کو بڑھادیتا ہے ، تمہارا برا ہو، اور حزن وغم میں مبتلا رہو جب میں گرمی کے موسم میں ان کی طرف بڑھنے کے لئے حکم دیتاہوں تو تم کہتے ہو بہت سخت گرمی ہے اتنی مہلت دیجئے کہ گرمی کی شدت کم ہوجائے اور جب میں سردی کے موسم میں ان کی طرف بڑھنے کے لئے کہتا ہوں تو تم کہتے ہو ابھی شدید ٹھنڈک پڑ رہی ہے اتنی مہلت دیجئے کہ سردی ختم ہو جائے یہ سب سردی اور گرمی (جنگ سے) بھاگنے کے بہانے ہیں جب تم سردی اور گرمی سے بھاگتے ہو تو تلوار کودیکھ کر پہلے ہی بھاگ کھڑے ہوگے، اے مردوں کی شکل وصورت والے نامردو، تمہاری فکریں بچوں جیسی اور عقلیں پردہ نشین دلہن کی طرح ہیں ، کاش میں نے نہ تمہیں دیکھا ہوتا اور نہ پہچانتا ہوتا''(۲)

_______________________________

(۱)الغارات: ج۲ ص ۴۶۴سے ۴۷۴تک ۔ تاریخ طبری: ج۴، ص ۱۰۳-------(۲)نہج البلاغہ جطبہ ۲۷

۷۴۶

عراق کے لوگوں کے دل میں خوف و وحشت پیدا کرنے کے لئے معاویہ نے صرف ان تینوں کو ہی نہیں بھیجا تھا بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی ایسی کارستانیوں کے لئے بھیجا تھا ، مثلاً نعمان بن بشیر انصاری کو حکم دیا

کہ '' عین التّمر'' پر ،جو شہر فرات کے غرب میں واقع ہے حملہ کرے اور اسے برباد کردے۔(۱) اور یزید بن شجرہ رہاوی کو حکم دیا کہ مکہ جائے اور وہاں کے لوگوں کے مال واسباب کو برباد کردے۔(۲) بالآخر یہ سازشیں اپنے نتیجہ پر پہونچ گئیں اور عراقیوں کے دل میں زبردست خوف وہراس بیٹھ گیا۔ البتہ یہ تمام غم انگیز واقعات جنگ نہروان کے بعد رونما ہوئے کہ ایک طرف سے داخلی مشکلات نے اور دوسری طرف سے خارجی مشکلات نے عراق کے لوگوںکو خصوصاً امام کے چاہنے والوں کو سخت مشکل میں ڈال دیا تھا۔ اے کاش یہ ناگوار حادثے یہیں ختم ہوجاتے لیکن دوسرے حادثوں نے بھی علی علیہ السلام کو سخت رنجیدہ کردیا اور آپ کے دل کو ملول کردیا۔اب انھیں واقعات کو تحریر کررہے ہیں ۔

_______________________________

(۱)الغارات ج۲، ص ۴۴۵

(۲)الغارات ج۲، ص۰۴ ۵

۷۴۷

دوسری فصل

مصر کی فتح اور محمد بن ابی بکر کی شہادت

عثمان کے قتل کے بعد شام کے علاوہ تمام اسلامی علاقے حضرت علی علیہ السلام کی حکومت میں شامل تھے ،امام علیہ السلام نے ۳۶ہجری اپنی حکومت کے پہلے سال قیس بن سعد بن عبادہ کو مصر کا حاکم مقرر کیا اور مصر روانہ کیا،(۱) لیکن کچھ دنوں بعد امام علیہ السلام نے کسی وجہ سے انھیں اس منصب سے معزول کر کے اسی سال جنگ جمل کے بعد محمد ابن ابی بکر کو مصر کا حاکم معین کیا، اس سلسلے میں تاریخ نے امام علیہ السلام کے دوخط کا تذکرہ کیا ہے ایک خط حکومتی اعلان کے طورپر لکھا اور اُسے محمد بن ابی بکر کے ہاتھ میں دیا اور دوسرا جب آپ مصر میںمستقر ہوگئے تب روانہ کیا۔ دونوں خط کو مولف''تحف العقول'' نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے(۲) اسی طرح ابو اسحاق نے اپنی کتاب ''الغارات'' میں ان دونوں خطوط کو نقل کیا ہے اور تحریر کیا ہے کہ پہلا خط یکم رمضان المبارک ۳۶ہجری کو لکھاگیاہے۔ دوسرا خط کتاب کے آخر میں تفصیل سے نقل ہوا ہے۔ امام علیہ السلام نے اس میں اسلام کے بہت سے احکام بیان کئے ہیں ۔ہم آئندہ دوسرے خط کے متعلق تفصیل سے بحث کریں گے اور یہ بھی بیان کرینگے کہ آخر کس طرح سے یہ خط معاویہ کے ہاتھ میں پہونچا اور پھر اس کے خاندان میں ہر شخص تک دست بہ دست یکے بعد دیگرے پھرتا رہا۔

امام علیہ السلام کے پہلے خط کا ترجمہ یہ ہے:

''خدا وند عالم کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے ،یہ فرمان خدا کے بندے علی امیر المومنین کی طرف سے محمد بن ابی بکر کے نام جب کہ انھیں مصر کی حکومت کی ذمہ داری سونپی ، میرا حکم ہے کہ تقوائے الھی اختیار کرو ، اس کی اطاعت خلوت و جلوت میںکرتے رہو،ظاہر و باطن میں اس سے ڈرو، مسلمانوں سے نرم مہربان اور بد کاروں سے سختی اور غصے سے پیش آئو ، اہل ذمہ کے ساتھ عدالت و مظلوموں کا حق دلواؤ اور ظالموں پر سختی کرو اور لوگوں کے ساتھ جتنا ممکن ہو عفو ودر گزر اور اچھائی سے پیش آئوکیونکہ خدا نیک لوگوں کو

_______________________________

( ۱)تاریخ طبری ج۳،ص۴۶۲۔

( ۲) تحف العقول ص۱۷۶،۱۷۷۔

۷۴۸

دوست رکھتا ہے اور برے لوگوں کو سزا دیتا ہے ۔

میں حکم دیتا ہو کہ محمد بن ابی بکر لوگوں کو مرکزی حکومت کی اطاعت و پیروی اور مسلمانوں اتحاد کی دعوت دیں کیو نکہ اس کام میں ان لوگوں کے لئے بہت زیادہ اجر و ثواب اور عافیت ہے جس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا اور نہ اسکی حقیقت و اصل کو پہچانا جاسکتا ہے۔

میں حکم دیتا ہوں کہ جس طرح سے زمین کا خراج (ٹیکس )پہلے لوگوں سے لیا جا تا تھا اسی طرح وصول کریں۔نہ اس میں کچھ کم کریں نہ اس میںکچھ زیادہ کریں اور پھر اسے مستحقین کے درمیان جیسے پہلے تقسیم ہوتا تھا تقسیم کریں ۔

میں حاکم کو حکم دیتا ہوں کہ لوگوں کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آؤ اور ان کے جلسوں میں سب کو ایک نظر سے دیکھو اور اپنوں اور پیرایوں میں حق کے لحاظ سے کوئی فرق نہ کرو ۔

میں اسے حکم دیتا ہو ں کہ لوگوں کے امور میں حق کے ساتھ فیصلہ کرو اور عدالت کوقائم کرو، خواہشات نفسانی کی پیروی نہ کرو اور خدا کی راہ میں ملامتگروں کی ملامت سے نہ ڈرو کیونکہ خدا ان لوگوںکے ساتھ ہے جو متقی ہیںاور تمام لوگوں کی اطاعت پر اس کی اطاعت کو مقدم کریں،والسلام۔

یہ خط عبید اللہ بن ابی رافع کے ہاتھوں، جسے رسول خدا (ص)نے آزاد کیا تھا ،۱رمضان المبارک ۳۶ ہجری کو لکھا گیا۔(۱)

اس خط کی تاریخ جو قیس بن عبادہ کی معزولی سے قریب ہے اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ قیس کی حکومت بہت کم دنوں تک تھی کیونکہ امیر المومنین علیہ السلام ۳۵ ہجری کے آخر میں خلیفة المسلمین کے عنوان سے منتخب ہوئے اور یہ خط آپ کی حکومت کے آٹھ مہینے گزر جانے کے بعد لکھا گیا،جب یہ خط محمد بن ابی بکر کے ہاتھ میں پہونچا تو وہ مصر کے لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور تقریر کی اور امام علیہ السلام کا خط پڑھ کر لوگوںکو سنایا۔

محمد بن ابی بکر نے مصر سے اما م علیہ السلام کو خط لکھااور اس میں حرا م و حلال اور اسلامی سنتوں کے بارے میں سوال کیا اور حضر ت سے رہنمائی کی درخواست کی ۔انہوں نے اپنے خط میں امام علیہ السلام کو لکھا :

_______________________________

(۱) الغارات ج ۱،ص۲۲۴۔

۷۴۹

''محمد بن ابی بکر کی طرف سے خدا کے بندے امیر المومنین علیہ السلام کے نام ،آپ پر درود و سلام ہو،وہ خدا کہ جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اس کا شکرگزار ہوں۔ اگر امیرالمومنین علیہ السلام مصلحت سمجھیں تو مجھے ایک ایسا خط لکھیں جس میں واجبات کا تذکرہ کریں اور اسلام کے قضاوتی احکام کو لکھیں کیونکہ کچھ جیسے میںلوگ اس مسئلے میں مبتلا ہیں ،خدا وند عالم امیر المومنین علیہ السلام کے اجر میں اضافہ کرے۔

امام علیہ السلام نے ان کے خط کے جواب میں قضاوت کے احکام ،احکام وضو، نماز کے(۱) اوقات،امربالمعروف و نہی عن المنکر ، روزہ ،اعتکاف کے مسائل کے متعلق بہت سے مطالب کو تحریر کیا اور پھر نصیحت کے طورپر موت ،حساب اور جنت و جہنم کی خصوصیات کے متعلق مسائل تحریر کئے۔

مولف ِکتاب''الغارت'' نے امام علیہ السلام کے خط کی مکمل عبارت کواپنی کتاب میں تحریر کیاہے(۲) ۔

ابواسحاق ثقفی لکھتے ہیں:

جب امام کا خط محمد بن ابی بکر کے پاس پہونچا تو ہمیشہ اس کو دیکھتے تھے اور اس کے مطابق فیصلہ کرتے تھے جس وقت عمر و عاص کے حملے میں محمد قتل ہوگئے تو وہتمامخطوط عمر وعاص کے ہاتھ میں پہ لگ گئے ، اس نے سب کو جمع کیا اور معاویہ کے پاس بھیج دیا۔ تمام خطوط کے درمیان اس خط نے معاویہ کو اپنی طرف زیادہ متوجہ کیا اور وہ اس میں بہت زیادہ غور و فکر کرنے لگا ،ولید بن عقبہ نے جب دیکھا کہ معاویہ بہت متعجب ہے تو اس نے کہا :حکم دو کہ اس خط کو جلا دیاجائے ،معاویہ نے کہا: خاموش رہ، اس کے بارے میں اپنا نظریہ پیش نہ کر، ولید نے معاویہ کے جواب میں کہا ،تو بھی اپنا نظریہ پیش کرنے کا حق نہیں رکھتا ،کیا یہ صحیح ہے کہ لوگ یہ سمجھ جائیں کہ ابوتراب کی حدیثیں تیرے پاس ہیں اور تو ان سیے درس حاصل کرتا ہے اور انھیں پڑھ کر فیصلہ کرتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر کیوں علی سے جنگ کر رہے ہو؟ معاویہ نے کہا: لعنت ہو تجھ ، پر مجھے حکم د ے رہا کہ ایسے علم کے خزانے کو جلا دوں ؟ خدا کی قسم اس سے زیادہ جامع، محکم ، واضح اور حقیقت پر مبنی علم میں نے آج تک نہیں سنا ہے۔ ولید نے اپنی بات دہرائی اور کہا:اگر علی کے علم اور قضاوت سے تجھے تعجب ہے تو کیوں اس سے جنگ کر رہے ہو؟ معاویہ نے کہا: اگر ابوتراب نے عثمان کو قتل نہ کیا ہوتا اور مسند

_______________________________

(ا)،(۲) الغارات ج ۱، ص۲۲۴تا۲۵۰

۷۵۰

علم پر بیٹھتے تو میں ان سے علم حاصل کرتا۔ پھر تھوڑی دیر خاموش رہا اور اپنے ساتھیوں پر نگاہ کی اور کہا: ہم ہرگز یہ نہیں کہیں گے کہ یہ خطوط علی کے ہیں، ہم تو یہ کہتے ہیں کہ یہ خطوط ابو بکر صدیق کے ہیں جو محمد کو وراثت میں ملے ہیں اور ہم اسی کے اعتبار سے فیصلہ کریں گے ۔اور فتوی دیں گے جی ہاں، امام علیہ السلام کے خطوط ہمیشہ بنو امیہ کے خزانوں میں تھے یہاں تک کہ حکومت عمر بن عبد العزیز کے ہاتھ میں آئی اور اس نے اعلان کیا کہ یہ خطوط علی ابن ابیطالب علیہ السلام کی حدیثیں ہیں ۔

جب علی علیہ السلام کو مصر کی فتح اور محمد کے قتل ہوجانے کے بعد خبر ملی کہ یہ خط معاویہ تک پہونچ گیا ہے تو بہت زیادہ افسوس کیا۔عبد اللہ بن سلمہ کہتا ہے :امام علیہ السلام نے ہم لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد ہم نے آپ کے چہرے پر افسردگی کے آثار دیکھے ۔آپ ایسا شعرپڑھ رہے تھے جس میںگزشتہ باتوں پر افسوس تھا۔ہم نے امام سے پوچھا: اس سے آپ کا کیا مقصد ہے؟ امام نے فرمایا :میں نے محمد بن ابی بکر کو مصر کے لئے حاکم بنایا، اس نے مجھے خط لکھا کہ میں پیغمبر کی سنت سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتا لہذامیں نے اسے ایک ایسا خط لکھا جس میں رسولِ خدا کی سنت کی تشریح و وضاحت کی ،مگر وہ شھید ہوگیا اور خط دشمن کے ہاتھ لگ گیا۔

امام ـ کا والی اوربے طرف لوگ

مصر کے معزول محمد بن قیس کے زمانے میں کچھ لوگوں نے ان کی حکومت سے کنارہ کشی اختیارکرلی اور اپنے کو بے طرف تعارف کرایا(یعنی کسی بھی گروہ کے ساتھ نہیں ہیں) ۔جب محمد بن ابی بکر کی حکومت کو امہینہ گزرگیا تو انہوں نے بے طرف لوگوں کو دوکاموں میں اختیار دیا کہ یا تو حکومت کے ساتھ رہیں اور اس کی پیروی کرنے کا اعلان کریں، یا مصر کو چھوڑ کرچلے جائیں، ان لوگوں نے حاکم مصر سے کہا کہ ہمیں مہلت دیجئے تاکہ ہم اس کے بارے میں فکر کریں، لیکن حاکم نے ان کی باتوں کو قبول نہیں کیا ،وہ لوگ بھی اپنی بات پر اڑے رہے اور اپنا دفاع کرنے کے لئے تیار ہوگئے۔

۷۵۱

حالات میں جنگ صفین شروع ہوگئی اور جب خبر ملی کہ امام علیہ السلام اور معاویہ کے درمیان حکمین قرار دئے گئے ہیں اور دونوں فوجوں نے جنگ روک دی ہے تو اس گروہ کی جرأت حاکم پر اور زیادہ ہوگئی اور بے طرفی کی حالت سے نکل کر کھلم کھلا حکومت کی مخالفت کرنے لگے ۔حاکم نے مجبورہو کر دوآدمیوں بنام حارث بن جمہان اور یزید بن حارث کنانی کو بھیجا تاکہ ان لوگوں کو موعظہ و نصیحت کریں، لیکن یہ دونوں اپنا وظیفہ انجام دیتے ہوئے مخالفین کے ہاتھوں قتل ہوگئے،محمد بن ابی بکر نے تیسرے آدمی کو بھیجا اور وہ بھی اس راہ میں قتل ہوگیا۔

ان لوگوں کے قتل ہونے کی وجہ سے بعض لوگ بہت جری ہوگئے اور ارادہ کیاکہ شامیوں کی طرح ہم بھی عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے لوگوں کو دعوت دیں اور چونکہ مخالفت کا ماحول پہلے سے بنا ہوا تھالہذا دوسرے افراد بھی ان کے ساتھ ہوگئے نتیجہ یہ ہوا کہ سرزمین مصر ظلم وفساد کا شکار ہوگئی اور جوان حاکم، مصر کی حکومت پر صحیح طور پر قابو نہ پاسکا۔ امیر المومنین علیہ السلام مصر کے حالات سے باخبر ہوئے اور فرمایا صرف دو آدمی ہیں جو مصر میں امن و امان بحال کرسکتے ہیں ایک قیس بن سعد جو اس سے پہلے مصر کے حاکم تھے اور دوسرے مالک اشتر آپ نے یہ بات اس وقت کہی جب مالک اشتر کو سرزمین ''جزیرہ'' کا حاکم مقرر کرچکے تھے، قیس بن سعد ہمیشہ امام علیہ السلام کے ساتھ ساتھ رہتے تھے اور لیکن عراق میں جو فوج موجود تھی اس فوج میں اس کا رہنا ضروری تھا، اس لئے امام علیہ السلام نے مالک اشترکو خط لکھا وہ اس وقت عراق کی وسیع ترین سر زمین''نصیبین'' میں موجود تھے جو عراق اور شام کے درمیان واقع ہے ۔اس خط میں امام علیہ السلام نے اپنے اور مصر کے حالات کے بارے میں لکھا :''امابعد،تم ان لوگوں میں سے ہو جن کی مددو نصرت سے ہم دین کو مستحکم کرتے ہیں اور نافرمانوں کے تکبرکا قلع و قمع کرتے ہیں اور وحشناک راستوں کو صحیح کرتے ہیں ، نے محمد ابن ابی بکر کا مصر کو حاکم مقرر کیا تھا ، مگر کچھ لوگوں نے اس کی پیروی کرنے کے بجائے مخالفت کی اور وہ جوانی اور تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے ان پر کامیاب نہ ہوسکا ، جتنی جلدی ہو میرے پاس پہونچ جاؤ تاکہ جو کچھ انجا م دینا ہے اس کے بارے میں تحقیق کریں، اور کسی معتبر اور قابل اعتماد شخص کو اپنا جانشین معین کردو''۔

جب امام علیہ السلام کا خط مالک اشتر کو ملا تو انھوں نے شبیب بن عامر کو اپنا جانشین مقر ر کرکے امام علیہ السلام کی خدمت میں آگئے اور مصر کے ناگوار حالات سے آگاہ ہوئے۔ امام نے ان سے فرما یا جتنی جلد ی ممکن ہومصر جاؤ کیونکہ تمھار ے علاو ہ کسی کو اس کام کا اہل نہیں سمجھتا ۔میں تمھارے اند ر جو عقل اور درایت دیکھ رہا ہوں اس کی وجہ سے مجھے کسی چیز کی تاکید کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

۷۵۲

اہم کاموں کی انجام دہی کے لئے خدا سے مدد طلب کرو اور سختی کو نرمی کے ساتھ استعمال کرو اور جتنا ممکن ہو خوش اخلاقی سے پیش آؤ اور جہاں پر صرف خشونت و سختی کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو وہاں اپنی طاقت کا استعمال کرو ۔

جب معاویہ کو خبر ملی کہ امام علیہ السلام نے مالک اشتر کو مصر کا حاکم بنایا ہے تو وہ گھبرا گیا کیونکہ وہ مصر کی حکومت پر قبضہ کرنا چاہتا تھا ۔ وہ جانتا تھا کہ اگر مصر کی حکومت مالک کے ہاتھوں میں آگئی تو وہاں کے حالات محمد بن ابی بکر کے زمانے سے اس کے لئے اور بھی بدتر ہوجائیں گے۔ اس وجہ سے اس نے ایک طریقہ اپنایا اور خراج دینے والوں میں سے ایک شخصسے خراج کو معاف کرنے کا وعدہ کیا اور اس کے ذریعے سے مالک اشترکے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔مصر کے لوگوں نے اما م علیہ السلام سے درخواست کی کہ جتنی جلدی ہوسکے ایک دوسرا حاکم معین فرمائیں ۔امام علیہ السلام نے ان کے جواب میں لکھا:''خدا کے بندے علی امیر المومنین کی طرف سے مصر کے مسلمانوں کے نام، تم لوگوں پر سلام ، اس خدا کی تعریف جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ۔ میں نے ایسے شخص کو تمھاری طرف بھیجاہے جس کی آنکھوں میں خوف و ہراس کے دن بھی نیند نہیں ، وحشت کے وقت ہرگز دشمن سے نہیں ڈر تا اور کفاروں کے لئے آگ سے زیادہ سخت ہے وہ مالک اشتر ،حارث کا بیٹا اور قبیلہ مذحج سے ہے، اس کی باتوں کو سنو اور اس کے فرمان کی جب تک حق باتیں کہے پیروی کرو، وہ خدا کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے جو کند نہیں ہوتی اور اس کی ضربت خطأ نہیں کرتی ،وہ اگر دشمن کی طرف جانے کا حکم دے تو فوراً روانہ ہوجاؤ اور اگر ٹھہرنے کا حکم دے تو ٹھہرجاؤ ، اس لئے کہ اس کا حکم میرا حکم ہے میں نے اسے تمھارے پاس بھیج کر تمھارے مفاد کو اپنے مفاد پر ترجیح دی ہے اس لئے کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں اور تمہارے دشمن کا سخت دشمن ہوں ۔(۱) امام علیہ السلام کا نیا نمائندہ اور حاکم لازمی ساز و سامان کے ساتھ مصر کے لئے روانہ ہوا اور جب ''قلزم''(۲) نامی علاقے میں پہونچے جو فسطاط'' کی دو منزل کے فاصلہ پر ہے(۳) وہاں ایک شخص کے گھر میں قیام کیا اس شخص نے ان کی بڑی آؤ بھکت اور خاطر مدارات کی جس کی وجہ اس نے مالک اشتر کو

_______________________________

(۱)نہج البلاغہ مکتوب نمبر ۳۸۔ الغارت ج۱ ص۲۶۰۔

(۲) مصر کی طرف سے دریائے یمن کے کنارے ایک شہر ہے، قافلے وہاں سے مصر تک تین دن میں مسافت طے کرتے ہیں۔ (مراصد الاطلاع)۔

(۳) اسکندر یہ کے پاس ایک شہر ہے،(مراصد الاطلاع)۔

۷۵۳

اپنے اعتماد میں لے لیا اور پھر شہد میں زہر ملا کر شربت بنایا اور مالک اشترکو پلادیا اسطرح سے خدا کی یہ تیز تلوار ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نیام میں چلی گئی اور اپنی جان کو خدا کے حوالے کردیا ۔وہ ۳۸ ہجری میں سرزمین قلزم پر شہید ہوئے اور وہیں پر دفن ہوئے۔

یہ بات مسلم ہے کہ یہ میزبان کوئی معمولی شخص نہ تھا بلکہ پہچانا ہوا شخص تھا اسی وجہ سے مالک اشتر نے اس کے گھر میں قیام کیا،اسے مالک کے دشمن معاویہ نے پہلے ہی خرید لیا تھا۔(۱)

بعض مؤرخین نے مالک اشتر کی شہادت کو تفصیل سے دوسرے طریقے سے لکھا ہے ،

جب معاو یہ کو یہ خبر ملی کہ امام نے مالک اشتر کو مصر کا حاکم معین کیا ہے تو اس نے ''قلزم'' کے ایک با رسوخ کسان سے کہا کہ جس طرح سے بھی ممکن ہو مالک کو قتل کردے اور جب مصر پر میرا قبضہ ہوجائیگا تو اس کے بدلے اسے مالیات (خراج)ادا کرنے سے معاف کردیگا معاویہ نے صرف اسی کام پر اکتفانہیں کیا بلکہ لوگوں کے جذبات کو قوت عطا کرنے اور یہ دکھانے کے لئے کہ وہ اور اس کے تمام پیر و خدا کی راہ میں قدم اٹھاتے ہیں شام کے لوگوں سے اس نے کہا کہ مسلسل مالک اشتر پر لعنت کریں اور خدا سے دعا کر یں کہ مالک کو نابود کردے کیونکہ اگر مالک قتل ہوگئے تو شام کے لوگوں کے لئے خوشی کا سبب ہوگا اور یہ سبب ہوگا کہ وہ لوگ اپنے رہبر پر زیاوہ اعتماد کریںگے۔

جب مالک اشتر ''قلزم'' پہونچے تو معاویہ کے خریدے ہوے خبیث نے مالک سے کہا کہ میرے گھر میں آرام کریں اور اپنے اعتماد کو مستحکم کرنے کے لئے کہا کہ تمام اخراجات کواپنے مالیات سے حساب کروں گا ،میزبان نے مالک کے گھر میں آنے کے بعد امام علیہ السلام سے اپنی دوستی و محبت کا اظہار کیا یہاں تک کہ اس نے مالک کے اعتماد کو حاصل کرلیا۔ اس نے مالک کے لئے دسترخوان بچھایا اور اس پر شہد کا شربت رکھا ۔ اس شربت میں اتنا زیادہ زہر ملا تھا کہ تھوڑی دیر بھی نہ گزری تھی کہ مالک اشتر شہید ہوگئے۔

بہر حال جب معاویہ کو مالک اشتر کے قتل کی خبر ملی تو وہ منبرپرگیا اور کہا: اے لوگو ابوطالب کے بیٹے کے پاس دو مضبوط ہاتھ تھے جن میں سے ایک ہاتھ(عمار یاسر) جنگ صفین میں کاٹ دیا گیا اور دوسرا ہاتھ (مالک اشتر)آج کاٹ دیا گیا(۲) ۔

_______________________________

(۱)تاریخ ابن کثیر ج۷،ص۳۱۳ (۲)۔ الغارت ج۱، ص ۲۶۴ ، تاریخ طبری ج۷۲،۔ کامل ابن اثیرج ۳،ص۳۵۲۔

۷۵۴

وہ موت جس نے بعض کو ہنسایا اور بعض کو رلایا

مالک اشتر کی شہادت پر شامیوں نے خوشی منائی کیونکہ وہ لوگ جنگ صفین کے سے ہی مالک اشتر سے کینہ رکھتے تھے لیکن جب انکی شہادت کی خبر امام علیہ السلام کو ملی تو آپ بے ساختہ بلند آواز سے رونے لگے اور فرمایا:''علیٰ مثلِکَ فَلْیَبْکِیْنَّ الْبَوا کِیْ یاٰ مالِکُ'' یعنی تمھارے جیسوں کے لئے عورتوں کو نوحہ و بکا کرنا چاہیئے ۔پھر فرمایا:''أین مثلُ مالک؟ یعنی مالک جیسا کوئی کہا ں ہے؟

پھر آپ منبر پر تشریف لے گئے اور تقریر فرمائی:

''ہم خدا کی طرف سے آئے ہیں اور اسی کی بارگاہ میں واپس جائیں گے تمام حمدو ثناخدا ہی کے لئے ہے کہ وہ اس دنیا کا پروردگار ہے۔ خدا یا! میں مالک کی مصیبت کا اجر تجھی سے چاہتا ہوں کیونکہ اس کی موت زمانہ کی سب سے بڑی مصیبت ہے ۔مالک پر خدا کی رحمتیں ہوں، اس نے اپنے عہدکو وفا کیا اور اپنی عمر کو ختم کیا اور اپنے رب سے ملاقات کی، ہم نے پیغمبر کے بعد باوجودیکہ اپنے کو آمادہ کر لیا تھا کہ ہر مصیبت پر صبر کریں گے ، اس حالت میں بھی یہی کہتے ہیں کہ مالک کی شہادت ایک بہت بڑی مصیبت ہے،(۱)

فضیل کہتے ہیں:''جب مالک کی خبر شہادت حضرت علی علیہ السلام کو ملی تو میں آپ کی خدمت میں گیا ، دیکھا کہ بے حد اظہار افسوس کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں: خدایا! مالک کو بہترین درجہ عطا کر، واقعاً مالک کتنی اچھی شخصیت کے مالک تھے، اگر وہ پہاڑ تھے تو ایسا پہاڑ جس کی مثال نہیں اور اگر پتھر تھے تو بہت سخت پتھر ، خدا کی قسم ،اے مالک تمھاری موت نے ایک دنیا کو لرزہ براندام کردیا اور دوسری دنیا کو شاد و مسرور کردیا۔ مالک جیسوں کی شہادت پر عورتوں کونوحہ و بکا کرنا پڑھنا چاہیے، کیا کوئی مالک جیسا ہے؟پھر آگے کہتے ہیں: علی علیہ السلام مسلسل اظہار افسوس کررہے تھے اور بہت دنوں تک آپ کے چہرۂ انور پر غم کے اثرات نمایاں تھے۔

_______________________________

(۱) الغارت: ج۱ ص ۲۶۴۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج۶،ص۷۷۔

۷۵۵

امام علیہ السلام کا خط محمد بن ابی بکر کے نام

امام علیہ السلام نے جب مصر کی حکومت کی ذمہ داری محمد بن ابی بکر سے لیکر مالک اشتر کو سونپی تو محمد

کچھ ملول تھے جب محمد کے ملال کی خبر امام علیہ السلام کو ملی تو آپ نے محمد کو خط لکھا جس میں مالک اشتر کی شہادت کی خبر کے بعد ان کی دلجوئی فرمائی اورلکھا:''مجھے خبر ملی ہے کہ مالک اشتر کو مصر اعزام کرنے کی وجہ سے تم رنجیدہ ہوگئے ہو لیکن میں نے اس کام کو اس لئے انجام نہیں دیا تھا کہ تم نے اپنی ذمہ داریوں میں غفلت یا کوتاہی کی ہے اور اگر میں نے تمھیں مصر کی حکومت سے معزول کیا ہے تو اسکے بدلے میں تمھیں کسی دوسری جگہ کا والی و حاکم قرار دوںگا جس کا چلانا کچھ مشکل اور سخت نہ ہوگا اور وہاں کی حکومت تمھارے لئے بہتر ہوگی،جس شخص کو میں نے مصر کی سرداری کیلئے چنا تھا وہ ہم لوگوں کے لئے خیر خواہ اور دشمنوں کے لئے بہت سخت تھا، خدا اس پر رحم کرے کہ اس نے اپنی زندگی بڑے آرام سے گذاری اور موت سے ملاقات کی جب کہ ہم اس سے راضی تھے، خدا بھی اس سے راضی ہواور اسے دوہرا ثواب عطا کرے ۔ اب اس وقت تم پر لازم ہے کہ دشمن سے جنگ کرنے کے لئے اپنی فوج کو شہر سے باہر بھیج دو اور وہیں پر پڑاؤ ڈال دواور عقل و خرد سے امور انجام دو اور جنگ کے لئے آمادہ ہوجاؤ، لوگوں کو خدا کی طرف آنے کی دعوت دو اور خدا سے مدد طلب کرو کہ وہ تمھارے اہم کاموں میں کافی ہے اور مصیبت کے وقت تمھارا مددگار ہے''۔(۱)

محمد بن ابی بکر کا خط امام علیہ السلام کے نام

جب امام علیہ السلام کا خط محمد کو ملا تو انہوں نے امام علیہ السلام کو یہ خط لکھا:

''امیر المومنین علیہ السلام کاخط مجھے ملا اور اس کے مضمون سے آگاہ ہوا کوئی بھی شخص امیر المومنین کے دشمن پر مجھ سے زیادہ سخت اور ان کے دوستوں پر مجھ سے زیادہ مہربان نہیں ہے۔ میں نے شہر کے باہر پڑاؤ ڈالا ہے اور تمام لوگوں کو امان دیا ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ہم سے جنگ کرنے پر آمادہ ہیں اور ہم سے دشمنی کو ظاہر کررہے ہیں ۔ہر حال میں ،میں امیرالمومنین علیہ السلام کامطیع و فرماں بردار ہوں۔(۲)

_______________________________

( ا) الغارات ج۱، ص۲۶۸۔----(۲)الغارات ج۱، ص ۲۶۹۔

۷۵۶

عمر و عاص کو مصر بھیجنا

معاویہ نے جنگ صفین ختم ہونے اور امیر المومنین علیہ السلام کی فوج میںخوارج کے ذریعہ اختلاف و تفرقہ ڈالنے کے بعد موقع غنیمت دیکھا کہ عمر وعاص کی سرداری میں اپنی فوج کو مصر روانہ کرے تاکہ مصر کو امیر المومنین علیہ السلام کے قبضے سے چھین لے ، اس نے یہ پُر خطر کا م انجام دینے کے لئے اپنی فوج کے بہت سے سرداروں کو دعوت دی اور ان میں عمروعاص ، حبیب بن مسلمہ فہری،بُسربن ارطاة عامری، ضحاک بن قیس اور عبد الرحمان بن خالد وغیرہ شامل تھے اور قریش کے علاوہ دوسرے افراد کو بھی مشورے کے لئے بلایا اور پھر اس نے مجمع کی طرف مخاطب ہوکر کہا :کیا تم جانتے ہو کہ میں نے تمھیں کیوں یہاں جمع کیا ہے؟

عمر و عاص نے اس کے راز کا پردہ فاش کرتے ہوئے کہا: تونے ہم لوگوں کو مصر فتح کرنے کے لئے بلایا ہے کیونکہ دہاں کی سرزمین بہت زرخیز ہے اور وہاں پر مالیات (خراج)بہت زیادہ ہے اور مصر کے فتح ہونے میں تمھاری اور تمھارے دوستوں کی عزت ہے۔

معاویہ، عمرو عاص کی تصدیق کرنے کے لئے اٹھا اور یاد دلایا کہ اس نے ابتدا میں عمر و عاص سے وعدہ کیا تھا کہ اگر علی پر میں نے فتح حاصل کر لی تو مصر کی حکومت اسے بخش دے گا، اس جلسہ میں بہت زیادہ گفتگو ہوئی اور بالآخر یہ طے پایا کہ مصر کے لوگوں کو، چاہے دوست ہوںیا دشمن بہت زیادہ خطوط لکھے جائیں دوستوں کو ثابت قدم رہنے اور مقابلے کا حکم دیا جائے اور دشمنوں کو صلح وخاموشی کا حکم دیا جائے یاجنگ کی دھمکی دی جائے، اس لئے معاویہ نے علی علیہ السلام کے دومخالفوں ، مسلمہ اور معاویہ کِندی کے نام خط لکھااور پھر عمروعاص کو ایک بڑی فوج کے ہمراہ مصر روانہ کیا۔ جب عمر و عاص مصرکی سرحد پر پہونچا تو عثمان کے چاہنے والوں نے اس کا استقبال کیا اور اس سے ملحق ہوگئے عمر وعاص نے وہیں سے مصر کے حاکم کے نام خط لکھا ''میں نہیں چاہتا کہ تم سے جنگ کروںاور تمھار ا خون بہاؤں،مصر کے لوگ تمھاری مخالفت پر متفق ہیں اور تمھاری پیروی کرنے سے پشیمان ہیں''۔

عمر و عاص نے اپنے اور معاویہ کے خط کو محمد کے پاس بھیجا ۔مصر کے حاکم نے دونوں خط پڑھنے کے بعد امام علیہ السلام کے پاس بھیج دیا اپنے خط میں شام کی فوج کے مصر کی سرحد پر پہونچنے کی خبر دی اور لکھا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ مصر کی حکومت آپ کے ہاتھ میں رہے تو میری مالی اور فوجی مدد کیجیے۔

امام علیہ السلام نے مصر کے حاکم کو مقابلہ کرنے کی تاکید کی

۷۵۷

پھر محمد بن ابی بکر نے عمر و عاص اور معاویہ کے خط کا جواب دیا اور بالآخر مجبور ہوئے کہ لوگوں کو اکٹھا کر کے لشکر ترتیب دیں اور عمرو عاص کی فوج کے مقابلہ کے لئے جائیں۔

ان کی فوج کے اگلے دستہ میں دو ہزار آدمی تھے جس کی سرداری کنانہ بن بُشر کر رہے تھے اور خود بھی اس کے بعد دوہزار کی فوج لے کر اس کے پیچھے پیچھے روانہ ہوئے۔ جب مصر کی فوج کے اگلے دستہ نے شام کی فوج کا سامنا کیا شام کی فوج کو درہم برہم کردیا لیکن فوج کی کمی کی وجہ سے کمزور پڑگیا، کنانہ اپنے گھوڑے سے اترآئے اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک ایک کر کے دشمنوں سے جنگ کرنے لگے اور اس آیت کی تلاوت کرتے شہید ہوگئے:

( وما کان لنفسٍ أن تموت الاّٰ بِاذنِ اللّٰه کتاباً مؤ جَّلاً ومَنْ یردْ ثوابَ الدُّ نیا نُؤ تِهِ منها ومنْ یُردْ ثواب الا خِرة نُؤتِهِ مِنها و سَنجِزی الشا کرِین ) (آل عمران :۱۴۵)

''اور بغیر حکم خدا کے تو کوئی شخص مرہی نہیں سکتا وقت معین ہر ایک کی موت لکھی ہوئی ہے اور جو شخص (اپنے کئے کا) بد لہ دنیا میں چاہے تو ہم اس کو اس میں سے دیدیتے ہیں اور جو شخص آخرت میںبد لہ چاہے اسے اسی میں سے دینگے اور (نعمت ایمان کے) شکر کرنے والوں کو بہت جلد ہم جزائے خیر دیں گے''۔

محمد بن ابی بکر کی شہادت

کنانہ بن بشر کی شہادت کی وجہ سے شام کی فوج میں جرأت پید ا ہوگئی اور سب نے یہ طے کیا کہ آگے بڑھتے رہیں اور محمد بن ابی بکر کی چھائونی کی طرف جائیں ،جب ان کی چھائونی پر پہونچے تو دیکھا کہ محمد کے ساتھی مختلف جگہوں پر منتشر ہو گئے ہیں ، محمد خود مضطرت اور سرگرداںہیں یہاں تک کہ ایک کھنڈر میں پناہ حاصل کی، معاویہ بن حدیج محمد کی جگہ سے با خبر ہوا اور انہیں گرفتار کر لیا وہاں سے باہر لایا اور ''فسطاط'' نامی جگہ پر جہاں عمر و عاص کے فوجی تھے پہونچا دیا جب کہ عنقریب تھا کہ پیاس کی شدت سے مرجائیں۔

عبد الرحمن بن ابی بکر، محمد کا بھائی عمرو کی فوج میں تھا، اس نے فریاد بلند کی میں اس بات سے راضی نہیں ہوں کہ میر ے بھائی کو اس طرح قتل کرو اور عمر وعاص سے کہا کہ اپنی فوج کے سردارمعاویہ بن حدیج کو حکم دو کہ اس کے قتل کرنے سے باز آجائے، عمروعاص نے اپنے نمائندے

۷۵۸

کو ابن حدیج کی طرف بھیجا کہ محمد کو زندہ حوالے کرے لیکن معاویہ بن حدیج نے کہا: کنانہ بن بشر جو میرا چچا زاد بھائی تھا قتل ہوگیا محمد کو بھی ، زندہ نہیں رہنا چاہیے ،محمد جو اپنی قسمت دیکھ رہے تھے ،درخواست کی کہ مجھے پانی پلادو لیکن معاویہ بن حدیج نے بہانہ بنایا کہ عثمان بھی پیاسے قتل ہوئے تھے لہذا پانی نہیں دیا۔

اس وقت ابن حدیج نے محمد کو بہت برُی باتیں کہیں جنھیں تحریر کرنے سے پرہیز کررہے ہیں اور آخرمیں اس نے کہا: میں تمھاری لاش کو اس مردہ گدھے کی کھال میں رکھوں گا اور پھر جلادوں گا۔محمد نے جواب دیا :تم خدا کے دشمنوں نے اولیاء خدا کے ساتھ بار ہا ایسا معاملہ انجام دیا ہے، مجھے امید ہے کہ خدا ا س آگ کو میر ے لئے ایسے ویسی ہی اور باعافیت کردے گا جیسے ابراہیم کے لئے کیا تھا، اور اسے تمھارے اور تمھارے دوستوں کے لئے وبال بنادے گا اورخدا تجھے اور تیرے پیشوا معاویہ بن ابو سفیان اور عمر وعاص کو ایسی آگ میں جلائے گاکہ جب بھی چاہیں کہ خاموش ہو وہ اورشعلہ ور ہوجائے گا، بالآخر معاویہ بن حدیج کو غصّہ آیا اور اس نے محمد کی گردن اڑا دی اور ان کے جسم کو مردہ گدھے کے پیٹ میں ڈالدیا اور جلادیا۔

محمد بن ابی بکر کی شہادت نے دوآمیوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا، ایک ان کی بہن عائشہ تھیں جو ان کے حالات پر بہت روئیں، وہ ہر نماز کے آخر میں معاویہ ابن سفیان ،عمر و عاص اور معاویہ بن حدیج پربد دعا کرتی تھیں، عائشہ نے اپنے بھائی کے اہل و عیال کی کفالت کی ذمہ داری خود لے لی۔ اور محمد ابن ابی بکر کے بیٹے قاسم انہیں کی پرورش و کفالت میں پروان چڑھے اور دوسرے اسمأ بنت عمیس جو بہت دنوں تک جعفر ابن ابی طالب کی زوجہ تھیں اور جعفر کی شہادت کے بعد ابوبکر سے شادی ہوگئی اور انہیں سے محمد بن ابی بکر پیدا ہوئے اور ابو بکر کے انتقال کے بعد علی علیہ السلام سے شادی کی اور ان سے ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام یحییٰ تھا،یہ ماں جب اپنے بیٹے کی قسمت و شہادت سے باخبر ہوئی تو بہت زیادہ متاثر ہوئی لیکن اپنے غیظ و غضب کو قابو میں رکھا اور مصلائے نماز پر گئیں اور ان کے قاتلوں پر لعنت و ملامت کی ۔

عمر وعاص نے معاویہ کو خط کے ذریعے ان دونوں آدمیوں کی شہادت کے بارے میںخبر دی اور دوسرے سیاست بازوں کی طرح جھوٹ بولا اور اپنے کو بر حق ظاہر کیا اور کہا :ہم نے ان لوگوں کو کتاب و سنت کی طرف بلایا مگر ان لوگوں نے حق کی مخالفت کی اور اپنی گمراہی پر باقی رہے۔ با لآخر ان کے اور ہمارے درمیان جنگ ہوئی۔ ہم نے خدا سے مدد طلب کی اور خدا نے ان کے چہروں اور پشتوں پر ضرب لگائی اور ان سب لوگوں کو ہمارے سپرد کر دیا۔

۷۵۹

حضرت علی علیہ السلام اور خبر شہادت محمد بن ابی بکر

عبد اللہ بن قعید روتا ہوا کوفہ میں داخل ہوا اور حضرت علی علیہ السلام کو محمد کی دردناک شہادت سے آگاہ کیا ۔امام نے حکم دیا کہ تمام لوگ اس کی بات سننے کے لئے جمع ہوں، اس وقت لوگوں سے فرمایا:''یہ نالہ و فریاد محمد اور تمھارے بھائیوں کا جو مصر میں تھے ۔ خدا کااور تمھارا دشمن عمر و عاص ان لوگوں کی طرف گیا اور ان پر غالب ہوگیا اور میں ہرگز یہ امید نہیں رکھتاکہ گمراہوں کا تعلق باطل سے اور ان کاسرکش حاکموں پر اس سے زیادہ ہو جتنا اعتماد تم لوگوں کا اعتقاد حق پر ہے ، گویا ان لوگوں نے مصر پر حملہ کرکے تم لوگوں کو پر حملہ کیاہے جتنی جلدی ممکن ہو ان کی مدد کے لئے جاؤ، اے خدا کے بندو! مصر خیر و برکت کے اعتبار سے شام سے بہتر اور مصر کے لوگ شام کے افراد سے بہتر ہیں ، مصر کو اپنے قبضے سے نہ جانے دو، اگر مصرتم لوگوں کے ہاتھ میں ہوگا تو تم لوگوں کے لئے عزت کا سبب ہوگا، اور دشمنوں کے لئے ذلت کا سبب ہوگا،جتنی جلدی ممکن ہو'' جرعہ''کی چھاؤنی پہونچ جاؤ تاکہ کل ایک دوسرے تک پہونچ جائیں۔

کچھ دن گزرنے کے بعد اور عراق کے سرداروں کے اما م علیہ السلام کے پاس آنے جانے کے بعد بالآخر مالک بن کعب کی سرداری میں دو ہزار فوج مصر کے لئے روانہ ہوئی۔(۱)

امام علیہ السلام نے ابن عباس کو اپنے خط میں اس واقعہ کی خبر ان الفاظ میں دی:

''اما بعد، مصر پر دشمن کا قبضہ ہوگیا ہے اور محمد بن ابی بکر''(خدا ان پر رحمت کرے) شہید ہوگئے ،اس مصیبت کا اجر ہم اللہ سے مانگتے ہیں کتنا خیر خواہ فرزند،اور محنت کش عامل تھا (جونہ رہا)کیاسیف قاطع ، اور کیسا دفاعی ستون تھا(جوچل بسا) میں نے لوگوں کی بہت تشویق کی تھی کہ اس کی مدد کے لئے جائیں ، میں نے لوگوں کو در پردہ اور بر ملا ایک بار نہیں ،بلکہ بار بار حکم دیا کہ جنگ سے پہلے ان سے مدد کو پہنچ جائیں لیکن اکچھ لوگوں نے با دل نخواستہ آماد گی ظاہر کی اور کچھ لوگ جھوٹے بہانے بنانے لگے اور کچھ لوگ تو چپ چاپ بیٹھے ہی رہے اور مدد کے لئے نہ اٹھے، چنانچہ میں خدا سے یہی دعا کرتا ہوں کہ اے خدا!مجھے جلد از جلد ان

_______________________________

(۱) الغارات ج ۱، ص۲۸۲تا ۲۹۴۔

۷۶۰

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809