فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)7%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 362366 / ڈاؤنلوڈ: 6027
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

عثمان نے کہا:تم وہی ہو کہ جس کا یہ خیال ہے کہ ہم نے کہاہے:خدا کے ہاتھ بندھے ہیں اور خداوند فقیر ہے اور ہم مالدار ہیں؟

     ابوذر نے کہا:اگر تم لوگوں کا ایسا اعتقاد نہ ہوتا تو خدا کا مال خدا کے بندوں پر خرچ کرتے ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول خدا(ص) سے سنا تھاکہ آپ نے فرمایا:

     جب ابوالعاص کے بیٹوں کی تعدا د تیس تک پہنچ جائے تو وہ خدا کے مال کو اپنا مال،خدا کے بندوں کو اپنا غلام اور خدا کے دین کو تباہی کا وسیلہ قرار دیں گے۔(1)

     عثمان نے حاضرین سے کہا:کیا تم نے یہ بات رسول خدا(ص) سے سنی ہے؟

     انہوں نے کہا: نہیں

     عثمان نے کہا:ابوذر ؛وای ہو تم پر!تم رسول خدا(ص)کی طرف جھوٹ کی نسبت دے رہے ہو؟

     ابوذر نے لوگوں کی طرف رخ کر کے کہا:کیا تم نہیں جانتے کہ میں سچ بولتا ہوں؟!

     انہوں  نے کہا:خدا کی قسم!نہیں۔

     عثمان نے کہا:علی(علیہ السلام)کو میرے پاس بلاؤ اور جیسے ہی امیرالمؤمنین علی علیہ السلام آئے تو عثمان نے ابوذر سے کہا:ابوالعاص کے بیٹوں کے بارے میں اپنی حدیث علی (علیہ السلام) سے بیان کرو۔

     ابوذر نے وہ حدیث دوبارہ بیان کی۔

     عثمان نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے کہا:کیا آپ نے یہ حدیث رسول خدا(ص) سے سنی ہے؟

     فرمایا:نہیں؛لیکن اس میں شک نہیں ہے کہ ابوذر سچ بول رہے ہیں۔

     عثمان نے کہا: تم اس کی سچائی سے کیسے آگاہ ہو؟فرمایا:

--------------

[1]۔ یہ حدیث''النہایة ابن اثیر:ج۲ص۸۸اور 140''میں بھی ذکر ہوئی ہے۔

۲۲۱

     میں نے خود رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: آسمان نے ابوذر سے زیادہ کسی سچے انسان پرسایہ نہیں کیا اور زمین نے اس سے زیادہ کسی سچے انسان کو خود پر حمل نہیں کیا۔(1)

     وہاں پر موجود لوگوں نے کہا:ہم سب نے یہ حدیث رسول خدا(ص) سے سنی ہے۔

     ابوذر نے کہا:میں تمہارے لئے حدیث بیان کرتا ہوںجو کہ میں نے پیغمبراکرم(ص) سےسنی ہے لیکن تم مجھ پرتہمت  لگاتے ہو، میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں ایسی زندگی گذاروں گا کہ مجھے اصحاب محمد(ص) سے ایسا سننے کو ملے گا!

     واقدی نے ایک دوسری روایت میں اپنی سند سے صہبان (اسلمیوں سے وابستہ)سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا ہے:جس دن ابوذر کو عثمان کے پاس لائے تومیں

نے دیکھا کہ عثمان نے ابوذر سے کہا:تم وہی ہو کہ جس نے ایسا ویساکیا ہے؟

ابوزر نے کہا:میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں اور تم سوچ رہے ہوکہ میں خیانت کر رہا ہوں، میں تمہارے دوستوں کو نصیحت کر رہا ہوں جیسا کہ وہ سوچتے ہیں۔

     عثمان نے کہا:تم جھوٹ بول رہے ہو،تم فتنہ برپا کرنا چاہتے ہو اور فتنہ طلب ہو اور تم نے ہمارے لئے شام کو تباہ کر دیاہے!

     ابوذر نے کہا:اپنے وو دوستوں کی روش کی پیروی کرو تا کہ کوئی بھی تم پر بات نہ کرے۔

     عثمان نے کہا:اے بے مادر!تمہارا اس بات سے کیا سرو کارہے؟

     ابوذر نے کہا:خدا کی قسم!میرے پاس امربہ معروف اور نہی ازمنکر کے علاوہ کوئی دلیل نہیں ہے۔

--------------

[1] ۔ یہ حدیث شیعہ اور سنیوں کی مختلف کتابوں میں آئی ہے ۔ بحار الانوار مرحوم علامہ مجلسی: ج22ص393، نئی چاپ کہ جس میں مختلف منابع بھی لائے گے ہیں اور النہایة ابن اثیر: ج2ص42۔

۲۲۲

     عثمان غصہ میں آگیا اور اس نے کہا:مجھے اس بوڑھے اور جھوٹے آدمی کے بارے میں میری رہنمائی کرو کہ میں اس کا کیا کروں؟اسے ماروں؛قید میں ڈال دوں، قتل کر دوں یا اسے اسلامی ممالک سے نکام دوں کہ اس نے مسلمانوں کی جماعت کو منتشرکر دیا ہے؟!

     امیرالمؤمنین علی علیہ السلام فرمایا کہ جو وہاںموجود تھے:

     میں  تمہاری اس طرح رہنمائی کرتا ہوں کہ جس طرح مؤمن آل فرعون نے کہا:''اور اگر جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا عذاب اس کے سر ہوگا اور اگر سچا نکل آیا تو جن باتوں سے ڈرا رہا ہے وہ مصیبتیں تم پر نازل بھی ہوسکتی ہیں ۔ بیشک اللہ کسی زیادتی کرنے والے اور جھوٹے کی رہنمائی نہیں کرتا ہے''۔(1)

     عثمان نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کوبہت تند جواب دیا اور آنحضرت نے بھی ویسا ہی جواب دیا اور ہم ان دونوں جوابوں کا تذکرہ نہیں کرتے کیونکہ ان میں مذمت کی گئی ہے۔

     واقدی کہتا ہے:اس کے بعد عثمان نے لوگوں کو ابوذر کے ساتھ اٹھنے بیٹھے اور گفتگو کرنے سے منع کر دیا اور انہوں  نے کچھ عرصہ اسی طرح گذارا۔پھر انہیں عثمان کے پاس لایا گیا اور جب وہ عثمان کے سامنے کھڑے ہوئے تو عثمان سے کہا:اے وای ہو تم پر! کیا تم نے رسول خدا(ص) ، ابوبکر اور عمر کو نہیں دیکھا ؛کیا تمہارا طریقۂ کار انہیں کے طریقۂ کار کی طرح ہے؟تم مجھ پر اس طرح ظلم و ستم کر رہے ہو جس طرح ظالم ظلم کرتے ہیں۔

     عثمان نے کہا:میرے سامنے اور میری ریاستوں سے دور چلے جاؤ۔

     ابوذر نے کہا:ہاں ؛ تمہاری ہمسائیگی  میرے لے کتنی ناخوشگوار ہے، بتاؤ میں کہاں چلاجاؤں؟

     کہا:جہاں چاہو چلے جاؤ۔

     ابوذر نے کہا:شام چلے جاؤں، جو جہاد کی سرزمین ہے؟

--------------

[1]۔ سورہ غافر، آیت:۲۸

۲۲۳

     عثمان نے کہا:میں نے تمہیں شام سے یہاں اسی لئے بلایا تھا کہ تم نے شام کو تباہ کر دیا تھااور اب میں تمہیں دوبارہ وہیں بھیج دوں؟ ابوذر نے کہا:عراق چلاجاؤں؟

     کہا:نہیں،اگر تم عراق چلے گے تو تم ایسی قوم کے پاس چلے جاؤ گے جو رہبروں اور حکمرانوں پر شک و شبہ کرتے ہیں اور انہیں طعنہ دیتے ہیں۔

     ابوذر نے کہا: کیا میں مصر کی طرف چلا جاؤں؟

     عثمان نے کہا:نہیں۔

     ابوزر نے کہا: تو پھر میں کہاں جاؤں؟

     کہا: صحرا کی طرف چلے جاؤ۔

     ابوذر نے کہا: تم کہتے ہو کہ ہجرت کے بعد پھرسے عرب صحرا نشین ہو جاؤں؟

     کہا:ہاں!

     ابوذر نے کہا:میں نجد کے بادیہ کی طرف جا سکتا ہوں؟

     عثمان نے کہا:نہیں؛مشرق سے دوچلے جاؤاور اس راستہ سے جاؤ اور ربذہ سے آگے مت جاؤ۔

     جناب ابوذر ربذہ کی طرف چلے گئے۔

     واقدی نے اسی طرح مالک بن ابی الرجال  اور موسی بن مسیرة سے نقل کیا ہے کہ ابوالأسود دئلی نے کہا ہے:

     میں ابوذر کو دیکھنا چاہتا تھا تا کہ میں ان سے ربذہ کی طرف جانے کا سبب پوچھوں؛ میں ان کے پاس گیا اور میں نے کہا:کیا آپ مجھے بتائیں گے کہ آپ مدینہ سے اپنی مرضی سے چلے آئے ہیں یا کسی نے آپ کو آنے پر مجبور کیا ہے؟

     کہا:میں مسلمانوں کی ایک سرحد کے کنارے پر تھا اور دفاع کر رہا تھا ، میں مدینہ واپس گیا اور میں نے کہا کہ یہ ہجرت اور میرے دوستوں کی جگہ ہے اور میں مدینہ سے بھی یہاں آ گیا کہ تم دیکھ رہے ہو۔

۲۲۴

     پھرکہا: پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے میں ایک رات میں مسجد میں سو رہا تھا کہ پیغمبر اکرم(ص) میرے پاس سے گذرے اور اپنے پاؤں سے مجھے مارا اور فرمایا:میں یہ نہ دیکھوں کہ مسجد میں ہی سو رہے ہو۔

     میں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں؛ مجھ پر نیند نے غلبہ کر دیا تھا اور آنکھ لگ گئی اور  میں مسجد میں ہی سو گیا۔

     فرمایا:تم اس وقت کیا کرو گے جب تمہیں اس مسجد سے نکال کر جلا وطن کر دیا جائے گا؟

     میں نے کہا:میں  اس صورت میں شام چلا جاؤں گا کہ جو مقدس سرزمین اور جہاد کی جگہ ہے۔

     فرمایا:اگر تمہیں شام سے بھی نکال دیں تو تم کیا کرو گے؟

     میں نے کہا:میں اسی مسجد میں واپس آجاؤں گا۔

     فرمایا:اگر پھر تمہیں اس مسجد سے نکال دیں تو کیا کرو گے؟

     میں نے کہا:میں اپنی تلوار نکال کر ان کے ساتھ لڑوں گا۔

     فرمایا:کیا اس کام میں تمہاری رہنمائی کروں؟وہ تمہیں جہاں کھینچیں ان کے ساتھ چلے جاؤ اور ان کے فرمانبردا بنو اور ان کی سنو۔

     میں نے سنا اور اطاعت کی اور اب بھی سن رہا ہوں اور اطاعت کر رہا ہوں اور خدا کی قسم؛عثمان اس حال میں خدا سے ملے گا جب کہ وہ میرامجرم ہوگا۔(1)

     اس گذشتہ واقعہ میں جناب ابوذر نے معاویہ کے مستقبل کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) سے تین روایات نقل کی ہیں جو معاویہ کے گمراہ ہونے،لعنت نفرین کے حقدارہونے اور عذاب جہنم کے مستحق ہونے کی واضح دلیل ہیں۔ان سب کے باوجود  رسول خدا(ص) کی سنت کی پیروی کرنے کا دعویٰ کرنے والوں میں سے کچھ لوگ معاویہ کو کیوں پسند کرتے ہیں ؟!

--------------

[1]۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج۴ص۲۰۴

۲۲۵

 کیاپیغمبر اکرم(ص) نے یہ نہیں فرمایا:''امت کو اس سے ہوشیار رہنا چاہئے''؟

کیا انہیں سب سے زیادہ سچے شخص یعنی جناب ابوذر کا بھی یقین نہیں ہے؟!

کیا عثمان نے رسول خدا (ص)کے محبوب ترین صحابی جناب ابوذر کو اس شہر سے اس دیار میں صرف اس لئیجلاوطن نہیں کر دیا تھا کہ وہ عثمان پر اعتراض کرتے تھے کہ عثمان اپنے داماد مروان اور اپنے دوسرے چہیتے لوگوں کو بیت المال سے مال عطا کرتا تھا؟!

کیا عثمان کا یہ فعل بھی سنت رسول خدا(ص) کی پیروی تھا؟!کیوں عثمان نے معاویہ کو شام کی حکمرانی پر باقی رکھا جب کہ رسول خدا(ص) نے بارہا س پر لعنت و نفرین کی ہے؟رسول خدا(ص) کے فرمان کی رو سے کیا عثمان کو اس کا پیٹ چیر دینا چاہئے تھا یا اسے گورنر بنانا چاہئے تھا؟

     ان سوالوں کے جواب کے لئے پیشنگوئیوں کے ان واقعات کی طرف توجہ کریں:

معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی ایک اور پیشنگوئی

     یونس بن خباب نے انس بن مالک سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا:میں رسول خدا(ص) کے ساتھ تھا، علی علیہ السلام بھی میرے ساتھ تھے ، ہم ایک باغ کیپاس سے گذرے تو علی علیہ السلام نے فرمایا:

     اے رسول خدا(ص): آپ دیکھ رہے ہیں کہ کتنا خوبصورت باغ ہے؟

     پیغمبر (ص) نے فرمایا: اے علی؛ جنت میں تمہارا باغ اس سے کہیں زیادہ آباد ہے۔

     ہم سات باغات کے پاس سے گذرے ، علی علیہ السلام نے ہر بار وہی بات کی اور رسول خدا(ص) نے بھی وہی جواب دیا۔پھر پیغمبر اکرم(ص) کھڑے ہو گئے ،ہم بھی کھڑے ہو گئے ،پیغمبر(ص) اپنا سر مبارک علی علیہ السلام کے کندھے پر رکھ کر رونے لگے۔علی علیہ السلام نے پوچھا:

     اے رسول خدا(ص)؛ آپ کو کس چیز نے رلایا ہے؟

۲۲۶

     فرمایا:ایک قوم کے دل میں اتنا بغض و کینہ ہے کہ وہ تمہارے لئے آشکار نہیں کرتے مگر میرے جانے کے بعد وہ اپنا کینہ آشکار کریں گے۔

     علی علیہ السلام نے کہا:اے رسول خدا(ص)؛کیا میں کندھے پر تلوار نہ رکھ لوں اور انہیں نیست و نابود نہ کردوں؟

     فرمایا: بہتر یہ ہے کہ صبر کرو۔

     کہا: اگر میں صبر کروں تو کیا ہو گا؟

     فرمایا: تمہیں مشکلات اور مشقّت وسامنا کرنا پڑے گا۔

     کتاب''الغارات''کے مؤلف نے اعمش سے اور انہوں نے انس بن مالک سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:میں نے پیغمبر اکرم(ص) سے سنا کہ آپ نے فرمایا:

     جلد ہی میری امت کاایک شخص حاکم بنے گاکہ جس کا گلا اور پیٹ موٹا ہو گا،وہ بہت زیادہ  کھائے گا لیکن اس کا پیٹ نہیں بھرے گا،اس کے کندھوں پر جن و انس کے گناہ ہوں گے،ایک دن وہ ریاست کی جستجو کرے گا  اور جب بھی اسے ریاست مل گئی تو اس کا پیٹ چیر دینا۔

     وہ کہتا ہے:اس وقت رسول خدا(ص) کے ہاتھ میں چھڑی تھی اور آپ اس کے ذریعہ معاویہ کے پیٹ کی طرف اشارہ کررہے تھے۔

     نیز ابوجعفراسکافی - صاحب کتاب''المعیار والموازنة''- کہتے ہیں:ایک دن پیغمبر اکرم(ص) حضرت فاطمۂ زہرا علیہا السلام کے گھر تشریف لائے،امیر المؤمنین علی علیہ السلام سو رہے تھے،حضرت فاطمۂ زہرا علیہا السلام نے آپ کو اٹھانا چاہاتو پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:

     انہیں سونے دو کیونکہ انہیں میرے بعد بہت طولانی راتیں جاگ کر گزارنی ہیں،اس سے بغض وکینہ رکھنے کی  وجہ سے میرے خاندان پر کیا کیا ظلم وستم کیا جائے گا۔

۲۲۷

     حضرت فاطمۂ زہرا علیہا السلام روئیں، پیغمبر خدا(ص) نے فرمایا:

     مت رو کہ تم دونوں میرے ساتھ ہوگے اور میرے نزدیک صاحب شرف و کرامت ہو۔

     ابوسعید خدری کہتے ہیں:ایک دن پیغمبر اکرم(ص) اپنے بعد علی علیہ السلام پر ٹوٹنے والی مشکلات اور مصیبتوں کو بیان کر رہے تھے اور اس بارے میں آپ نے بہت وضاحت فرمائی،امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے عرض کیا:

     اے رسول خدا(ص)؛ میں آپ کو آپ کے اہلبیت کے حق کی قسم دیتا ہوں تا کہ خدا کی بارگاہ میں دعا کریںاور یہ طلب کریں کہ آپ سے پہلے میری روح قبض کی جائے۔

     پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا: یہ کیسے ممکن ہے کہ میں تمہاری عمر کی مدت کے بارے میں سوال کروں کہ جو مقدر و مقرر ہو چکی ہے؟

     علی علیہ السلام نے فرمایا: اے رسول خدا؛ آپ نے مجھے جن سے جنگ کرنے کا حکم دیا ہے میں ان کے ساتھ کس سلسلہ میں جنگ کروں ؟

 فرمایا: جب وہ دین میں بدعتیں پیدا کریں۔(1)

  اس روایت کے مطابق معاویہ کے کندھوں پر جنّ و انس کے گناہوں کا بوجھ ہے اور لوگوں کی یہ ذمہ داری تھی کہ جب بھی وہ انہیں ملتا وہ اس کا پیٹ پھاڑ دیتے! روایت کے آخری حصہ سے یہ استفادہ کیا جاتا ہے کہ حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی معاویہ سے جنگ دین میں پیدا کی گئی اس کی بدعتوں کی وجہ سے تھی اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے رسول خدا(ص) کے حکم پر اس سے جنگ کی ہے۔امیرالمؤمنین علی علیہ السلام ( جنہیں اہلسنت چوتھا خلیفہ مانتے ہیں) نے معاویہ سے جنگ کی ، اہلسنت کے دوسرے تین خلفاء نے کیوں معاویہ سے دوستی رکھی  اور دو خلفاء نے تو اسے شام کے حکمرانی بھی دے دی؟!

     کیا ان کے اس کام نے اسے حجاز پر قبضہ کرنے اور رسول خدا(ص) کے منبر پر بیٹھے کاموقع فراہم نہیں کیا ہے؟

--------------

[1] ۔ اعجاز پیغمبر اعظم(ص) در پیشگوئی از حوادث آئندہ: 380

۲۲۸

  معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی ایک اور پیشنگوئی

نصر نے عبدالعزیزسے، حبیب بن ابی ثابت اور منذر بن ثوری سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا:

محمد بن حنفیہ کہتے تھے: فتح مکہ کے دن جب پیغمبر اکرم(ص) اپنی فوج کے ساتھ درّہ کے اوپر اور نیچے سے مکہ میں داخل ہو رہے تھے اور سپاہ اسلام نے پورے درہ کو گھیر لیا تھاتو یہ دونوں (ابوسفیان اور معاویہ) تسلیم ہوئے تا کہ اپنے لئے ساتھی  فراہم کر سکیں۔اسی طرح نصر نے حکم بن ظہیر ، اسماعیل ، حسن بصری اور نیز حکم کے قول سے، عاصم ابی النجود سے، زر بن جیش سے اور عبداللہ بن مسعود سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:

     جب بھی معاویہ بن ابی سفیان کو دیکھو کہ وہ  میرے منبر پر بیٹھ کر خطبہ دے رہا ہے تو اس کی گردن مار دو۔

     حسن بصری کہتا ہیں: خدا کی قسم؛ انہوں نے ایسا نہیں کیا اور کامیاب نہیں ہوئے۔(1)

     اسی طرح نصر بن مزاحم اپنی کتاب ''صفین'' میں کہتا ہے: جنگ صفین کے دوران ایک شخص نے عمار یاسر سے کہا: اے ابوالیقظان! کیا پیغمبر(ص) نے نہیں فرمایا تھا: لوگوں کے ساتھ جنگ کرو یہاں تک کہ وہ مسلمان ہو جائیں اور جب مسلمان ہو جائیں تو ان کا خون اور مال محفوظ ہے؟

     عمار نے کہا: ہاں؛ ایسا ہی ہے، لیکن خدا کی قسم! یہ مسلمان نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے ظاہری طور پر اسلام قبول کیا اور ان کے سینوں میں کفر پوشیدہ ہے تا کہ اسلام کا اظہارکر کے انہیں ساتھی مل جائیں۔(2)

--------------

[1] ۔ ابن ابی الحدید حسن بصری کے بارے میں کہتے ہیں: وہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے دشمنی رکھتا تھا اور لوگوں کو امام علیہ السلام کی مدد کرنے سے روکتا تھا۔وہ وسوسہ میں مبتلا تھا ۔ ایک دن وضو کرتے وقت اپنے ہاتھوں اورپاؤں پر بہت زیادہ پانی ڈال رہا تھاتو، امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے اسے دیکھا اور فرمایا: اے حسن؛ تم بہت زیادہ پانی گرا رہے ہو؟اس نے کہا:امیرالمؤمنین علیہ السلام نے مسلمانوں کا خون زمین پر بہا رہے ہیں،وہ اس سے کہیں زیادہ ہے!

امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے پوچھا: کیا اس کام نے تمہیں غمگین کیا ہے؟ اس نے کہا :ہاں

آپ نے فرمایا:ہمیشہ اسی طرح غمگین ہی رہو۔کہتے ہیں:اس کے بعد حسن بصری مرتے دم تک غمگین اوربد مزاج تھا۔

[2] ۔ اعجاز پیغمبر اعظم(ص) در پیشگوئی از حوادث آئندہ: ۳77

۲۲۹

     اس واقعہ میں رسول خدا(ص) نے مدینہ پر معاویہ کے تسلط اور اس کا آنحضرت کے منبر پربیٹھنے کی پیشنگوئی فرمائی اور لوگوں کو حکم دیا کہ جب بھی تم لوگ دیکھو کہ معاویہ میرے منبر پر بیٹھ کر خطبہ دے رہا ہے تو اسے مار دو۔لیکن افسوس پیغمبر(ص) کے اس حکم پر بھی عمل نہ ہو ا۔

     قابل توجہ یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان ہو جائے تو اس کا خون اور مال محفوظ ہے اورقابل احترام ہوتا ہے،اس بناء پر پیغمبر اکرم (ص) کا معاویہ کو قتل کرنے کا حکم دینا اس چیز کی دلیل ہے کہ معاویہ ایمان نہیں لایا تھا اور اسی طرح اپنے کفر پر باقی تھا۔     اب ہم جو واقعہ بیان کریں گے وہ اسی حقیقت کی دلیل ہے معاویہ و ابوسفیان کے ظاہری طور پر اسلام قبول کرنے کے بعد بھی  پیغمبر اسلام نے ان پر لعنت و نفرین کی ہے:

  معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی دوسری پیشنگوئی

 ابوعبداللہ بصری متکلّم معتزلی نے نصر بن عاصم لیثی اور اس کے باپ سے نقل کیاہے کہ وہ کہتے تھے:ہم رسول خدا(ص) کی مسجد میں داخل ہوئے ، ہم نے دیکھا کہ لوگ کہہ رہے ہیں: ہم خدا اور رسول خدا(ص) کے غضب سے پناہ مانگتے ہیں۔

     ہم نے کہا: کیا ہوا ہے؟

     انہوں نے کہا: ابھی  معاویہ اٹھا اور اس نے ابوسفیان کا ہاتھ پکڑا اور وہ دونوں مسجد سے باہر چلے گئے۔ اسی وقت رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

     خداوند تابع ومتبوع پر لعنت کرے!میری امت پر اس معاویہ کفل بزرگ کی طرف سے کتنے سخت دن آئیں گے!

     نیز علاء بن حریز قشیری نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص)نے معاویہ سے فرمایا:

     اے معاویہ؛ بیشک تم بدعت کو سنت اور برائیوں کو اچھائیوں میں بدلدوگے، تمہاری خوراک بہت زیادہ اور تمہارے ظلم بہت بڑے ہوں ہیں۔(1)

--------------

[1]۔ عجاز پیغمبر اعظم(ص) در پیشگوئی از حوادث آئندہ: ۳۷۹

۲۳۰

     پہلی پیشنگوئی میں رسول خدا(ص) نے ابوسفیان اور معاویہ و ابوسفیان پر اپنی لعنت کی ہے اور معاویہ کے ہاتھوں اپنی امت پر آنے والی سختیوں کے بارے میں پیشنگوئی کی ہے۔رسول خدا(ص)  نے لوگوں کے سامنے انتہائی  غصہ کے عالم میں یہ فرمان بیان فرمایا۔

 دوسری پیشنگوئی میں رسول خدا(ص) نے معاویہ کو نہ صرف بدعت گذار قرار دیابلکہ اس کے علاوہ فرمایا: تم اپنا برا کردار لوگوں کے سامنے اچھا کر کے پیش کرو گے اور لوگوں پر بہت ظلم و ستم کرو گے۔

ایک اور پیشنگوئی  میں رسول خدا(ص) نے عمروعاص کو معاویہ کا اہم یار و مددگار قرار دیا ہے کہ جب یہ اکٹھے ہو جائیں گے تو مکاری اور دھوکہ کے علاوہ ان کا کوئی کام نہیں ہوگا! اسی لئے فرمایا:جب بھی ان دونوں کو اکٹھا دیکھو تو ان دونوں میں جدائی پیدا کرو۔ایک دن یہ دونوں بلند آواز سے گانا گا رہے تھے اور اس وجہ سے بھی رسول خدا(ص) نے ان دونوں پر نفرین کی اور خدا سے دعا کی کہ ان دونوں کو اہل جہنم میں سے قرار دے۔

عبداللہ بن عمروعاص کی زبانی معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی

     یہ واقعہ قاضی ابوحنیفہ نعمان مغربی نے کتاب''المناقب والمثالب'' میں اس طرح بیان کیا ہے:

     عبداللہ بن عمروعاص کہتاہے: میں رسول خدا(ص) کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور کچھ اصحاب بھی آنحضرت کی خدمت میں تھے۔میں نے سنا کہ آپ نے فرمایا:

     اوّل طالع یطلع علیکم من هذا الفجّ،یموت علی غیر ملّت

     اس راستہ سے جو شخص سب سے پہلے داخل ہو گا ،وہ میری ملت پر نہیں مرے گا۔

عبداللہ بن عمرو عاص نے کہا:جب میں اپنے باپ سے مل کر آیا تھا تو وہ بھی رسول خدا(ص) کے پاس آنے کے لئے لباس پہن رہا تھا،اس وجہ سے مسلسل میری نگاہیں اس راستہ پر جمی ہوئیں تھیں اور خوف کے مارے میری ایسی حالت تھی جیسے کسی نے اپنا

۲۳۱

پیشاب روک رکھاہو کہ کہیں یہ نہ ہو کہ داخل ہونے والا میرا باپ ہو،یہاں تک کہ معاویہ داخل ہوا؛پس رسول خدا(ص) نے فرمایا: وہ یہی شخص ہے۔(1)

     پھر وہ لکھتے ہیں:ابن عباس نے عبداللہ بن عمرو عاص کی یہ بات سنی تو اس نے کہا:عبداللہ بن عمرو عاص نییہ حدیث نقل کرنے کے باوجود کس طرح معاویہ کے ساتھ مل کر علی علیہ السلام سے جنگ کی؟

     عبداللہ کے پاس اپنے لئے (نہ کہ دوسروں کے نزدیک) عذر تھا(!)جس سے ابن عباس بے خبر تھے اور وہ عذر یہ تھا : کہا گیا ہے کہ وہ ایک دن کسی گروہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں سے حسین بن علی علیہما السلام کا گذر ہوا۔ عبداللہ بن عمرو نے کہا:آگاہ ہو جاؤ؛خدا کی قسم؛ یہ اہل آسمان کے نزدیک اہل زمین میں سب سے زیادہ محبوب فرد ہے۔  انہوں  نے جنگ صفین میں میرے ساتھ کوئی بات نہیں کی اور اگر یہ میرے ساتھ بات کرتے اور مجھ سے راضی ہوتے تو یہ میرے لئے سرخ رنگ کے اونٹ سے  زیادہ محبوب تھا۔

     پھر عبداللہ بن عمرو نے کسی کو امام حسین علیہ السلام کے پاس بھیجا تا کہ آنحضرت کی رضائیت حاصل کر سکے اور اس نے امام حسین علیہ السلام کے بارے میں جو کچھ کہا ،اس کے بارے میں آپ کو بتائے اور آنحضرت کی حدمت میں شرفیاب ہونے کے لئے اجازت طلب کرے۔

     امام حسین علیہ السلام نے اجازت دی اور وہ امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔امام حسین علیہ السلام نے اس سے فرمایا:

     تم جانتے ہو کہ میں آسمان والوں کے نزدیک زمین والوں میں سب سے زیادہ محبوب ہوںاور تم نے رسول خدا(ص)سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا:حسن اور حسین جوانان جنت  کے سردار ہیں اور ان کے باباان دونوں سے بہتر ہیں، لیکن پھر بھی تم نے ان کے خلاف جنگ کی؟!

--------------

[1]۔ المناقب و المثالب:219

۲۳۲

عبداللہ بن عمرو نے کہا:خدا کی قسم؛اے فرزند رسول خدا(ص)؛ مجھے اس کام پر مجبور نہیں کیا مگر رسول خدا(ص) کے اس فرمان نے جو آپ نے مجھ سے فرمایا کہ جب عمرونے آنحضرت کے پاس آ کر میری شکایت کی اور کہا:وہ دن کو روزہ رکھتا ہے اور رات کو نمازیں پڑھتا ہے اور میں نے اسے حکم دیا ہے کہ یہ رواداری سے کام لے لیکن یہ نہیں مانتا۔

پیغمبر اکرم(ص) نے مجھ سے فرمایا: اپنے باپ کی اطاعت کرو ۔ پس وہ معاویہ  کے پاس گیااور اس نے مجھے بھی حکم دیا کہ میں بھی اس کے ساتھ جاؤں ۔ لہذا میں نے اس کی اطاعت کی جیسا کہ رسول  خدا(ص) نے حکم دیا تھا۔

 امام حسین علیہ السلام نے اس سے فرمایا:

أولم تسمع قول اللّٰه عزوجلّ ف کتابه و قد أمر ببرّ الوالدین ،ثمّ قال: ( وَِن جَاهَدَاکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْْسَ لَکَ بِهِ عِلْم فَلَا تُطِعْهُمَا) (1)  و قول رسول اللهّٰ: انّما  الطّاعة ف المعروف؟

     کیا تم نے خداوند کا کتاب خدا میں یہ قول نہیں سنا کہ جس میں ماں باپ سے نیکی کرنے کا حکم دیا گیا اور پھر فرمایا:''اور اگر وہ کسی ایسی شے کو میرا شریک بنانے پر مجبور کریں جس کا تمہیں علم نہیں ہے تو خبردار ان کی اطاعت نہ کرنا ''۔اور کیا تم نے رسول خدا(ص) کا یہ فرمان نہیں سنا کہ آپ نے فرمایا: اطاعت صرف اچھے اور نیک کاموں میں ہے (نہ کہ برے کاموں میں)؟

     عبداللہ بن عمرو نے کہا: میں نے یہ سنا تھا لیکن خدا کی قسم جیسے گویا اسے نہیں سنا تھا۔(2)

     جی ہاں؛ شیطان گمراہوں کو گمراہ کرنے کی اتنی کوشش کرتا ہے کہ انہوں نے جو چیز دیکھی یا سنی ہو گویا انہوں نے نہ تو دیکھی ہے اور نہ ہی سنی ہے۔ چونکہ وہ اہل غفلت ہیں اس لئے وہ انہیں غفلت و گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے۔

--------------

[2]۔ سورۂ عنکبوت، آیت: 8

[3]۔ المناقب والمثالب:220، مناقب آل ابی طالب: ج 3 ص228، مسند احمد میں کچھ اختصار کے ساتھ: ج 2ص164، تاریخ دمشق:27831

۲۳۳

معاویہ وعمروعاص کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی

     کتاب''معاویہ و تاریخ''میں لکھتے ہیں: طبرانی نے کبیرمیں اور ابن عساکر نے شدّاد بن اوس سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

     جب بھی معاویہ اور عمرو عاص کو اکٹھے دیکھوتو ان دونوں کے درمیان جدائی ڈالو؛خدا کی قسم؛یہ دونوں جب بھی اکٹھے ہوں تومکاری اور دھوکے کے علاوہ کچھ نہیں کریں گے۔

     احمد بن حنبل نے مسند میں، اور ابویعلی نے ابوبرزہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:ہم رسول خدا(ص) کی خدمت میں تھے کہ اچانک گانے کی آواز آئی ،آنحضرت نے فرمایا:

     دیکھو، یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے؟

     میں اوپر گیا اور میں نے دیکھا کہ معاویہ اور عمرو عاص گانا گا رہے تھے۔میں نے واپس آ کر سارا  واقعہ آنحضرت کی خدمت میں عرض کیا تو آپ نے فرمایا:

خداوندا! ان دونوں کو فتنہ میں داخل کر۔پروردگارا! انہیں آگ میں ڈال دے۔

طبرانی نے یہ حدیث مسند کبیر میں ابن عباس سے روایت کی ہے۔(1)

--------------

[1] ۔ معاویہ و تاریخ: 175

۲۳۴

  امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی معاویہ کے بارے میں پیشنگوئی

مرحوم سلطان الواعظین شیرازی لکھتے ہیں: اگر آپ  غور سے نہج البلاغہ (جو امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے خطبات وکلمات کا مجموعہ ہے) کا مطالعہ کریںتو آپ کو مختلف حوادث، بڑے بادشاہوں کے حالات،صاحب زنج کا خروج، مغلوں کا غالب آنا، چنگیز خان کی سلطنت، ظالم خلفاء کے حالات اور شیعوں کے ساتھ ان کے معاملات کے بارے میں آنحضرت کی بیان کی گئی غیب کی بہت سی خبریں ملیں گی۔خاص طور پر شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدکی پہلی جلد کے صفحہ 208 سے 211 تک یہ تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔

 خواجہ کلان بلخی حنفی نے بھی ''ینابیع المودّة''کے چودہویں باب کے آغاز میں  امام علی علیہ السلام کے کچھ خطبات اور پیشنگوئیاں بیان کی ہیں  جو آنحضرت کے کثرت علم پر دلالت کرتی ہیں۔انہیں پڑھیئے تا کہ حقیقت واضح ہوجائے۔

معاویہ کے غلبہ پانے اور اس ملعو ن کے مظالم کی پیشنگوئی کرنا:

 ان پیشنگوئیوں میں سے ایک آنحضرت کا کوفہ والوں کو معاویہ علیہ الھاویہ کے ان پر غلبہ پانے اور انہیں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام پر سبّ ولعن کرنے کے حکم کے بارے بتانا ہے۔چنانچہ جیسا آپ نے بتایا تھا ویسے ہی بعد میں رونما ہوا۔ ان میں سے آپ نے فرمایا:

 أما أنّه سیظهر علیکم بعد رجل رحب البلعوم مندحق البطن، یأکل ما یجد ویطلب مالایجد، فاقتلوه ولن تقتلوهألا؛ وَانّه سیأمرکم بسبّ والبرائة منّ ؛ فأماّالسبّ فسبّون،فانّه لی زکوة ولکم نجاة وأمّاالبرائة، فلا تتبرّؤا منّ، فانّ ولدت علی الفطرة و سبقت الی الایمان والهجرة

     جلدی ہی میرے بعد تم لوگوں پر موٹی گردن والا اور باہر نکلے ہوئے پیٹ والا آدمی غالب آئے گا،اسے جو ملے گا وہ کھالے گااور اسے جو چیز نہیں ملے گی وہ اسے طلب کرے گا؛ پس اسے قتل کر دینا  لیکن تم اسے ہرگز قتل نہیں کرو گے۔

     آگاہ ہو جاؤ؛ جلد ہی وہ شخص تمہیں مجھ پر سبّ و شتم کرنے اور مجھ سے سے بیزاری کا اظہار کرنے کا حکم دے گا۔میں

۲۳۵

تمہیں سبّ و شتم کرنے کی اجازت دیتا ہوں(چونکہ وہ زبانی ہے)کیونکہ یہ سبّ وشتم میرے لئے پاکیزگی اور تمہارے لئے (اس ملعون کے شر ّ سے) نجات ہے۔لیکن مجھ سے بیزاری کا ظہار نہ کرنا(چونکہ یہ ایک قلبی امر ہے) کیونکہ میں فطرت (توحید و اسلام) پر متولد ہوا ہوں ، (یہ جملہ اشارہ ہے کہ آنحضرت کے والدین مؤمن تھے)اور میں نے آنحضرت کے ساتھ ایمان اور ہجرت میں سبقت لی ہے۔(1)

--------------

[1] ۔ زیادہ کھانے والے شخص  سے حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی مراد معاویہ علیہ الھاویہ ہے کیونکہ ابن ابی الحدید ''شرح نہج البلاغہ (چاپ مصر):3351''میں کہتے ہیں: معاویہ زیادہ کھاتا تھا اور وہ تاریخ میں زیادہ کھانے والے کے نام سے مشہور ہے۔''وکان یأکل فی الیوم سبع أکلات'' (جیسا کہ زمخشری نے کتاب''ربیع الأبرار''میں کہاہے)وہ دن میں سات مرتبہ کھاناکھاتا تھااور ہر مرتبہ اتنا زیادہ کھاتا تھاکہ وہ دسترخوان کے ساتھ ہی لیٹ جاتا تھااور آواز دیتا تھا:''یا غلام ؛ارفع فواللّٰه ما شبعت ولکن مللت' 'اے غلام؛آؤ اور یہ دسترخوان لے جاؤ خدا کی قسم؛ میں  تھک گیا ہوں لیکن ابھی تک سیر نہیں ہوا۔

یہ ملعون ان لوگوں میں سے تھا کہ جسے ''جوع الکلاب''کی بیماری لاحق تھی۔(قدیم طب میں اس بیماری کے بارے میں لکھا ہے کہ اس بیماری کے دوران بیمار کے معدہ میں ایسی حرارت ہوتی ہے کہ چاہے جو غذا مری کے ذریعہ معدہ تک پہنچے لیکن پھر بھی وہ بحارات میں تبدیل ہو جائے گی اور اس کا نفع و نقصان معلوم نہیں ہوگا)۔

اس کا زیادہ کھانا ایک ضرب المثل بن گئی۔ہر زیادہ کھانے والے شخص کو اس سے تشبیہ دیتے تھے۔ ایک شاعر نے زیادہ کھانے والے  .1پنے ایک دوست کی خوبصورت انداز میں مذمت کی ہے اور کہا ہے:

و صاحب ل بطنه کالهاویة        کأنّ ف امعانه معاویة

 میراایک ایسا دوست ہے کہ جس کا پیٹ ہاویہ کی طرح ہے کہ جیسے اس کی انتڑیوںمیں معاویہ بیٹھا ہو۔

ہاویہ ،جہنم کے طبقوں میں سے ایک ہے، چونکہ جہنم کافروں کو قبول کرنے سے سیر نہیں ہو گی۔ جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا ہے:جہنم سے کہا جائے گا:( ه َلِ امْتَلَاْتِ وَتَقُولُ ه َلْ مِن مَّزِیْدٍ )(سور ه ٔ ق،آیت:٣٠) ''کہ کیا تو بھر گیا  ہے؟تو وہ کہے گا کہ کیا کچھ اور مل سکتا ہے؟ ''یہ اشارہ ہے کہ جہنم کبھی بھی کافروں کو قبول کرنے سے سیر نہیں ہو گا۔

۲۳۶

     ابن ابی الحدید نے ''شرح نہج البلاغہ(چاپ مصر):ج 1ص۳6۵'' اور دوسروں نے اہلسنت کے بزرگ علماء سے تصدیق کی ہے کہ وہ لعین، معاویہ بن ابی سفیان ہی تھاکہ جب وہ غالب ہوا تو اس کی خلافت محکم ہو گئی تو اس نے لوگوں کوامیر المؤمنین علی علیہ السلام پر سبّ و شتم کرنے اور آنحضرت سے بیزاری کا اظہار کرنے کا حکم دیا۔ آٹھ سال تک مسلمانوں میں یہ قبیح فعل رائج رہا اور وہ ظالمانہ طور پر عمر بن عبدالعزیز کی خلافت کے زمانے تکمحراب و منبر حتی کہ نماز جمعہ کے خطبوں میں بھی آنحضرت پر سبّ و شتم کرتے تھے۔ پھر اس وقت کے اس اموی خلیفہ نے صالحانہ سوجھ بوجھ سے سبّ و شتم کو ختم کیا اور لوگوں کو یہ قبیح کام کرنے سے منع کیا۔(1)

عمر بن عبدالعزیز کے کئی چہرے تھے اور اس نے صرف منبروں سے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام پر سبّ و شتم کرنے سے منع کیا اور منبروں کے علاوہ ہر کسی کو امیرالمؤمنین علی علیہ السلام پر سبّ و شتم کرنے کی کھلی چھوٹ تھی لیکن اگر کوئی معاویہ پر لعنت کرتا تھا تو وہ عمربن عبدالعزیز کے حکم پر تازیانہ کھاتا تھا!!

''الغارات'' کی روایت کے مطابق شامیوں کی فتح کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

     امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے اہل کوفہ سے فرمایا:

     تم لوگوں پر شامی غلبہ پا لیں گے۔

     انہوںنے کہا: آپ کو یہ کہاں سے معلوم ہوا؟

     فرمایا: میں دیکھ رہا ہوں کہ ان کا کام بڑھتا چلا گیا ہے لیکن تمہاری آگ بجھ چکی ہے ، وہ کوشش کر رہے ہیں اور تم لوگ مست ہو، وہ متحد ہیں لیکن تم لوگ بکھرے ہوئے ہو،وہ اپنے امیرکی اطاعت کرتے ہیں لیکن تم لوگ اپنے امیر کی ایک نہیں سنتے۔ خدا کی قسم! اگر وہ تم پر غلبہ پالیںتو میرے بعد وہ تمہارے ساتھ بہت براسلوک کریں گے۔

--------------

[1]۔ شب ہای پشاور:940

۲۳۷

     میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ تمہارے شہروں پر قبضہ کر لیں گے،تمہارا مال اور غنائم اپنی طرف لئے جائیں گے، گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگوں میں سے کچھ تو چھپکلی کی طرح زمین پرگھسیٹے جاؤ گے اور آرام سے ایک دوسرے کی طرف چلو گے، وہ تمہارا کوئی بھی حق ادا نہیں کریں گے اور خدا کے محترمات کا خیال نہیں کریں گے۔

     گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ تمہارے قاریوں کو قتل کردیں گے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ تمہیں محروم کر دیں گے اور تمہیں اپنے پاس نہیں آنے دیں گے، وہ لوگ شامیوں کو تو آنے دیں گے لیکن تمہیں مسترد کر دیں گے ۔ اس وقت کہ جب تم لوگوں نے محرومیت اور بدعتوں کودیکھا اور جب تم پر تلواریں چلائی گئیں تو تم لوگ پچھتاؤ گے  اور تم محزون ہو گے کہ کیوں ان سے جہاد نہیں کیا، لیکن اس وقت پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔(1)

  اس بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی

     ابن ابی الحدید نے''ولئن أمهل اللّٰه الظالم فلن یفوت أخذه وهو له بالمرصاد فرض کرو کہ اگر خداوند ظالم کو مہلت دے لیکن ان کا مؤاخذہ کرنے سے باز نہیں آئے گا اور خداوند اس کے لئے کمین میں ہے''سے شروع ہونے والے خطبہ میں کلمات کی تشریح کرنے کے بعد اس طرح سے بحث بیان کی ہے:

     امیر المؤمنین علی علیہ السلام  قسم کھاتے ہیں کہ شامی ضرور عراق کے لوگوں پر کامیاب ہو جائیں گے اور اس کی یہ وجہ نہیں ہے کہ وہ حق پر اور عراقی باطل پر ہیں ، بلکہ اس کا یہ سبب ہے کہ وہ اپنے امیر کے زیادہ مطیع و فرمانبردار ہیں۔

     جنگ میں فتح کا دارومدار فوج کی کمانڈ اور اس کے امور کو منظم رکھنے پر ہوتا ہے نہ کہ کامیابی کا دارومدار حق پر ہوتا ہے۔اگر عقیدے کے لحاظ سے کوئی لشکر حق پر ہو لیکن ان کی آراء مختلف ہوں اور وہ اپنے سپہ سالار کی فرمانبرداری نہ کریں تو اس جنگ میں ان سے کچھ نہیں ہو سکتا ۔کیونکہ اسی لئے ہم نے کئی باردیکھا ہے کہ مشرک ، اہل توحید پر فتح پا جاتے ہیں۔

     پھر امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے اس بارے میں ایک لطیف نکتہ نقل کیا ہے اور فرمایا ہے:

--------------

[1]۔ الغارات و شرح اعلام آن:277

۲۳۸

     عام طور پر عرف میں یہ ہوتا ہے کہ رعایا حاکم کے ظلم و ستم سے ڈرتی ہے جب کہ میں خود پراپنی رعایا کے ستم سے خوفزدہ ہوں۔

جو کوئی بھی امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے دورۂ حلافت کے حالات پر غور کرے تو وہ یہ سمجھ جائے گا کہ آنحضرت کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور آپ کے دل میں جو کچھ تھا آپ وہ نہیں کر سکے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ آنحضرت کو حق وحقیقت سمجھنے والے بہت کم تھے اور اکثر لوگوں کا آنحضرت کے بارے میں ویسا عقیدہ نہیں تھا کہ جیسا ہونا چاہئے تھااور وہ آپ سے پہلے خلفاء کو آپ سے افضل سمجھتے تھے اوران کا یہ خیال تھا کہ افضلیت بھی خلافت کی ترتیب کے لحاظ سے ہے۔ان کی نئی نسل بھی  اپنے آباء  و اجداد کی تقلید کرتی تھی اور ان کا یہ کہنا تھا: اگر ہمارے آباء و اجداد ان کی فضیلت سے آگاہ ہوتے تو انہیں دوسروں پر مقدم کرتے اور وہ لوگ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کوپہلے خلفاء کی رعایا اور پیروکار سمجھتے تھے! آنحضرت کے ساتھ جنگ کرنے والوں میں سے بھی اکثر کی بنیاد تعصب، جوش، تکبراورعربی گھمنڈتھا نہ کہ وہ عقیدے اور دین کی وجہ سے جنگ کر رہے تھے۔امیر المؤمنین علی علیہ السلام انہیں  مجبوراً برداشت کررہے تھے اور آپ جو کچھ چاہتے تھے اس کا اظہار نہیں کر سکتے تھے۔(1)

''الغارات ''سے منقول امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی

     کتاب''الغارات'' میں لکھتے ہیں: امیرالمؤمنین علی علیہ السلام ہر دن مسجد کوفہ میں ایک مقام پر تشریف فرما ہوتے تھے اور صبح کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک تسبیح و تہلیل میں مصروف رہتے تھے۔سورج طلوع ہونے کے بعد آپ منبر پر تشریف لے جاتے اور اپنی انگلیاں اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر مارتے تھے اور فرماتے تھے: صرف کوفہ باقی رہ گیا ہے کہ جس میں میرا حکم چلتا ہے ۔ اور فرمایا:

--------------

[1]۔ جلوۂ تاریخ ددر نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج3ص370

۲۳۹

لعمر أبیک الخیر یا عمرو انّن           علی وضر من ذا الاناء قلیل

     ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا:

     اے کوفہ؛ اب صرف تم ہی میرے پاس ہو ،کاش کہ تو بھی نہ ہوتا اور مجھے اپنے طوفانوں سے پریشان نہ کرتا ۔ اے کوفہ؛ تمہارا منہ کالا ہو۔

     نیز آپ نے فرمایا:اے لوگو؛بسر بن ارطاة یمن پر ظاہر ہوا اور اب عبیداللہ عباس اور سعید بن نمران آگئے ہیں ۔ میں دیکھ رہا کہ یہ قوم اپنے اتحاد و اتفاق کی وجہ سے کامیاب ہو جائے گی اور باطل غالب آجاے گا؛لیکن تم لوگ حقپر ہوتے ہوئے بھی بکھرے ہوئے ہو۔وہ لوگ اپنے رہبر کی اطاعت کرتے ہیں لیکن تم لوگ اپنے امام کی بات نہیں سنتے ۔وہ امانتوں کی حفاظت کرتے ہیں   لیکن تم لوگ امانت میں خیانت کرتے ہو۔

     میں نے فلاں شخص کو ولی بنایا اور اس نے خیانت کی،مسلمانوں کے مال اور غنائم لے کر معاویہ کی طرف چلا گیا۔دوسرے کو حاکم بنایا تو اس نے بھی اسی کی طرح خیانت کی۔اب مجھے اتنا بھی اعتماد نہیں ہے کہ میں ایک تازیانہ بھی تم لوگوں کے پاس بطور امانت رکھوں۔

     میں گرمیوں میں تم لوگوں سے کہوں کہ جہاد کے لئے جاؤ تو کہتے ہو:اب موسم گرم ہے ،کچھ تأخیر کر دیں تاکہ گرمیاں گذر جائیں۔اگر سردیوں میں جنگ پر جانے کا حکم دوں تو کہتے ہو کہ ابھی موسم سرد ہے ،کچھ مدت تک رک جائیں تا کہ سردیاں گذر جائیں۔

     خدایا:وہ مجھ سے تھک گئے ہیں اور میں ان سے تھک گیا ہوں، مجھے ان سے بہتر (امت) عطا کر اور ان پر مجھ سے برا (حاکم) مسلط کر۔ان کے دل کو پانی کر دے ؛جس طرح نمک پانی میں گھل ہو جاتا ہے۔

     حارث بن سلیمان کہتے ہیں: امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

     یہ قوم تم لوگوں پر غالب آ ئے گی؛کیونکہ تم لوگمتحد نہیں ہو اور حق کا دفاع نہیں کرتے ہو ، لیکن وہ لوگ اپنے باطل

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

جب بُسر اپنی خرابکاریوں کو مدینہ میں انجام دے چکا تو پھر مکہ کی طرف روانہ ہوا تعجب یہ ہے کہ ابوہریرہ کو مدینہ میں اپنا جانشین بنایا ، اس نے مدینہ سے مکہ جانے میں بہت سے گروہوں کوقتل کیا ان کے مال واسباب کو لوٹ لیا اور جب مکہ کے قریب پہونچا تو امام علیہ السلام کے سردار قُثم بن عباس مکہ سے باہر چلے گئے ، بُسر نے مکہ میں قدم رکھتے ہی اپنے پروگرام کو جاری رکھا اور لوگوں کو گالی اور فحش دینے لگا اور سب سے معاویہ کی بیعت لی اور ان لوگوں کو معاویہ کی مخالفت کرنے سے ڈرایاکیا اور کہا: اگر معاویہ سے تم لوگوں کی مخالفت کی خبر مجھ تک پہونچی تو تمہاری نسلوں کو ختم کردوں گا اور تمہارے مال کو برباد کردوں گا اور تمہارے گھروں کو ویران کردوں گا۔

بُسر کچھ دن مکہ میں رہنے کے بعد طائف چلا گیا اور اپنی طرف سے ایک شخص کو ''تبالہ '' روانہ کیا کیونکہ وہ جانتاتھا کہ وہاں حضرت علی علیہ السلام کے شیعہ رہتے ہیں اور حکم دیا کہ بغیر کسی بات اور سوال وجواب کے سب کو قتل کردینا۔

بُسر کا نمائندہ '' تبالہ '' پہونچا اور اس نے سب کو باندھ دیا ، منیع نے اس سے درخواست کی کہ بُسر سے اس کے لئے امان نامہ لے آئے ، اس نے منیع کی درخواست قبول کرلی، قاصد طائف روانہ ہوا اور بُسر سے ملاقات کی اور اس سے امان نامہ مانگالیکن بُسر نے امان نامہ دینے میں اس قدر وقت لگایا کہ جب تک امان نامہ سرزمین تبالہ پہونچے سب کے سب قتل ہوجائیں۔ بالآخر منیع امان نامہ لے کر اپنی سرزمین پر اس وقت پہونچا جب کہ تمام لوگوں کوقتل کرنے کے لئے شہر کے باہر لاچکے تھے ۔ایک شخص کو وہاں آگے بڑھائے ہوئے تھے کہ اس کو قتل کریں لیکن جلاد کی تلوار ٹوٹ گئی ، سپاہیوں نے ایک دوسرے سے کہا : اپنی تلواروں کو نیام سے نکالو تاکہ سورج کی گرمی سے نرم ہوجائے اور اسے ہوا میں لہراؤ ،قاصد نے دور سے تلواروں کو چمکتے ہوئے دیکھا اور اپنے لباس کو ہلا کر اشارہ کیا کہ اپنا ہاتھ روک لیں شامیوں نے کہا: یہ شخص اپنے ساتھ خوشخبری لے کر آرہا ہے لہٰذا اپنا ہاتھ روک لو، قاصد پہونچ گیا اور امان نامہ کو سردار کے حوالے کیا اور اس طرح سے سب کی جان بچائی سب سے عمدہ بات یہ ہے کہ جس شخص کو قتل کے لئے حاضر کیا تھا اور تلوار ٹوٹنے کی وجہ سے اس کے قتل میں تاخیر ہوئی وہ شخص اس کا بھائی تھا۔

بُسر نے اپنا کام انجام دینے کے بعد طائف کو چھوڑدیا او رعرب کے مشہور سیاست باز مغیرہ بن شعبہ نے اُسے کچھ دور آکر رخصت کیا ، وہ یمن جاتے ہوئے راستے میں سرزمین '' بنی کنانہ '' پہونچا ۔ اسے خبر ملی کہ ''صنعاء میں امام علیہ السلام کے والی عبیداللہ بن عباس نے اپنے دو چھوٹے بچوں کوان کی ماں کے ساتھ وہاں چھوڑدیا ہے ، عبیداللہ نے اپنے بچوں کو بنی کنانہ کے ایک شخص کے سپر د کیا تھا ۔

۷۴۱

وہ شخص ننگی تلوا رلے کر شامیوں کے پاس آیا ، بُسر نے اس سے کہا: تمہاری ماں تمہارے غم میں بیٹھے ، میں تمہیں قتل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا بلکہ میں عبیداللہ کے بچوں کو مانگ رہا ہوں ، اس نے بُسر کو جواب دیا: میں ان لوگوں کی راہ میں جو میری حمایت میںہیں قتل ہونے کے لئے تیار ہوں ، یہ جملہ کہنے کے بعد شامیوں پر حملہ کیا اور بالآخر قتل ہوگیا، عبیداللہ کے چھوٹے بچوں کو قتل کرنے کے لئے لائے اور بہت ہی قساوت قلبی سے دونوں کو قتل کردیا ۔ بنی کنانہ کی ایک عورت نے فریاد بلند کی ، تم لوگ مردوں کو قتل کررہے ہو ، بچوں نے کیا غلطی کی ہے؟ خدا کی قسم چھوٹے بچوں کو نہ جاہلیت اور نہ ہی اسلام کے زمانے میں قتل کیا گیا ، خدا کی قسم وہ حکومت جو اپنی طاقت وقدرت بوڑھوں اور بچوں کو قتل کرکے ثابت کرتی ہے اور ناکارہ حکو مت ہے ، بُسر نے کہا: خدا کی قسم ہمارا ارادہ تھا کہ عورتوں کو بھی قتل کریں۔ اس عورت نے کہا: میں خدا سے دعا کرتی ہوں تو اس کام کو ضرور انجام دے۔

بُسر سرزمین کنانہ سے اور اپنے سفر کے درمیان نجران میں عبیداللہ بن عباس کے داماد عبداللہ بن عبد المدان کو قتل کردیا اور کہا: اے نجران کے لوگو اے عیسائیو! ، خدا کی قسم اگر تم لوگوں نے ایسا کام کیا جس سے میں خوش نہ ہو تو میں واپس آجاؤں گااور ایسا کام کروں گا کہ تمہاری نسلیں ختم ہوجائیں گی، تمہاری کھیتیاں برباد اور تمہارے گھر ویران ہو جائیں گے۔

پھر اپنے سفر پر روانہ ہوگیا اور راستے میں ابوکرب جو امام علیہ السلام کے شیعوں اور ہمدان کے بزرگوں میں سے تھے ان کو قتل کردیا اور بالآخر سرزمین صنعاء پہونچا۔ امام علیہ السلام کے والی عبیداللہ بن عباس اور سعید بن نمران نے شہر کو چھوڑدیا اور عمر و ثقفی کو اپنا جانشین بنادیا تھا۔ عبیداللہ کے جانشین نے کچھ دیر تک مقابلہ کیالیکن آخر کارقتل ہوگیا خونریز بُسر شہر میں داخل ہوگیا اور بہت سے لوگوں کو قتل کرڈالا یہاں تک کہ وہ گروہ جو ''مآرب'' سے وہاں آیاتھا صر ف ایک آدمی کے علاوہ سب کو قتل کردیا۔ وہ نجات یافتہ شخص مآرب واپس چلا گیا اور کہا: میں ضعیفوں اور جوانوں کو باخبر کررہا ہوںکہ سرخ موت تمہارا تعاقب کررہی ہے۔

بُسر ،صنعاء سے ''جیشان '' نامی علاقے کی طرف گیا ۔اس علاقے کے سبھی لوگ امام علیہ السلام کے شیعہ تھے۔ بُسر اور ان کے درمیان جنگ شروع ہوئی اور بالآخر بہت زیادہ تلفات کے بعد مغلوب اور اسیر ہوگئے اور بہت ہی درد ناک طریقے سے شھید ہوئے ۔ وہ دوبارہ صنعاء واپس گیا اور سو آدمیوں کوپھر اس جرم میں قتل کیا کہ ان میں سے ایک عورت نے عبیداللہ بن عباس کے بچوں کو پناہ دی تھی ۔

۷۴۲

یہ بُسر بن ارطاة کے ظلم وستم کا بدترین سیاہ ورق تھا جسے تاریخ نے ضبط کیا ہے ۔

جب بُسر کے ظلم وستم کی خبر حضرت علی علیہ السلام کو ملی تو آپ نے اپنے عظیم سردار جاریہ بن قدامہ کو دو ہزار کا لشکر دے کر بُسر کے ظلم وستم سے مقابلہ کرنے کے لئے حجاز روانہ کیا، وہ بصرہ کی طرف سے حجاز گئے اور یمن پہونچے اور بُسر کا پیچھا کررہے تھے یہاں تک کہ خبر ملی کہ وہ سرزمین '' بنی تمیم'' پر ہے۔ جب بُسر جاریہ کی آمد سے باخبر ہوا تو وہ ثمامہ کی طرف چلا گیا۔ جب لوگوں کو جاریہ کی آمد کی خبرہوئی تو بُسر کے راستے میں مشکلات کھڑی کردیں۔ لیکن وہ کسی طرح سے اپنی جان بچا کر شام پہونچ گیا اور اپنے سفر کی مکمل روداد معاویہ سے بیان کی ۔ '' اس نے کہا: کہ میں نے سفر کی آمد ورفت میں تمہارے دشمنوں کو قتل کیا ہے ، معاویہ نے کہا: تونے یہ کام نہیں کیاہے بلکہ خدانے کیا ہے !۔

تاریخ نے لکھا ہے کہ بُسر نے اس سفر میں ۳۰ ہزار لوگوں کو قتل کیا اور کچھ لوگوں کو آگ میں جلا دیا ۔ امیرالمومنین علیہ السلام ہمیشہ اس پر لعنت، ملامت کرتے تھے اورکہتے تھے: خدایا! اُسے موت نہ دینا جب تک اس کی عقل اس سے چھین نہ لینا ، خدایا !بُسر ،عمروعاص اور معاویہ پر لعنت کر، اور اپنے غیض وغضب کو ان پر نازل کر۔ امام علیہ السلام کی بددعا قبول ہوئی اور زیادہ دن نہ گذرا تھا کہ بُسر دیوانہ ہوگیا اور ہمیشہ کہتاتھا: مجھے ایک تلوار دیدو تاکہ میں لوگوں کو قتل کروں ، اس کے محافظین کو کچھ سمجھ میں نہ آیا تولکڑی کی ایک تلوار اس کے ہاتھ میں دے دی اور وہ مسلسل اس تلوار سے در و دیوار پر مارتا تھا یہاں تک کہ ہلاک ہوگیا۔

بُسر کا کام مسلم بن عقبہ کی طرح تھا جو اس نے یزید کے حکم سے مدینہ میں حرّہ نامی جگہ پر انجام دیا تھا ، حقیقت میں یہ باپ بیٹے ( معاویہ اور یزید) نہ صرف مزاج و ذہنیت کے اعتبار سے ایک تھے بلکہ ان عاملین بھی قساوت قلبی ، سنگدلی میں انھیں جیسے تھے اور ابن ابی الحدید کی تعبیر کے مطابق ''وَمَن اَشبَهَ اَبَاهُ فَمَا ظَلَمَ ''(۱) ۔

اس حصّہ کے آخر میں امام علیہ السلام کاوہ خطبہ جو آپ نے بُسر کے بارے میں دیا، بیان کررہے ہیں '' بس کوفہ ہی میرے تصرف میں رہ گیا ہے اسی کے قبض وبسط کا اختیارمیرے ہاتھ میں ہے اور اے کوفہ !

_______________________________

(۱)الغارات: ج۲ص ۶۲۸تا۵۹۱، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج۲، ص۳۔۱۸، تاریخ طبری ج۳، ص ۱۰۶۔۱۰۸، تاریخ یعقوبی :ج۱، ص ۱۸۶۔۱۸۹، کامل ابن اثیر: ج۳، ص ۳۸۳۔ ۳۸۵

۷۴۳

اگر توایسا اور تجھ میں بھی مخالفت کی آندھیاں چلتی رہیں تو خدا تیرا برا کرے گا۔ مجھے خبر ملی ہے کہ بُسر یمن پہونچ گیا ہے اور مجھے خدا کی قسم یہ اندیشہ ہے کہ لوگ تم پر قابض ہوجائیں گے اور تم پر حکم چلائیں گے اس لئے کہ لوگ باطل پر ہوتے ہوئے بھی متحد ہیں اور تم اپنے حق پر منظم نہیں ہو(بلکہ ) تم حق باتوں میں اپنے امام کی مخالفت و نافرمانی کرتے ہو اور وہ باطل میں اپنے امیر کی اطاعت کرتے ہیں وہ اپنے ساتھی (معاویہ) کے ساتھ امانت داری کا حق ادا کرتے ہیں اور تم اپنے امام کی امانت میں خیانت کرتے ہو وہ اپنے شہروں میں امن وامان رکھتے ہیں اور تم شورش و فسادکرتے رہتے ہو ، اگر میں تم میں سے کسی کو لکڑی کے ایک پیالہ کا امین بنادوں تو ڈرتا ہوں کہ اسے دستہ سمیت لے کر بھاگ جائے گا، اے اللہ! کوفہ کے لوگوں سے میرا دل تنگ ہوگیا ہے اوران کا بھی دل مجھ سے تنگ ہو گیا ہوں۔ میں ان سے اُکتاگیا ہوں ،اور یہ مجھ سے اکتا چکے ہیں۔ تو اب ان کے بدلے میں ان سے بہتر لوگ مجھے عطا کردے اور میرے بدلے میں کوئی برا حاکم انہیں دیدے۔خدایا! ان کے دلوں کو ( اپنے غضب سے ) اس طرح پگھلادے جیسے پانی میں نمک گھولا جاتاہے ۔خدا کی قسم، میرا دل تو یہ چاہتاہے کہ کاش مجھے تمہارے عوض بنی فراس بنی غنم کے ایک ہزار سوار مل جائیں ''(۱) ۔

_______________________________

(۱) نہج البلاغہ: خطبہ ۲۵۔

۷۴۴

۳۔ سفیان بن عوف کی لوٹ مار

سفیان بن عوف غامدی کو معاویہ کی طرف سے حکم ملا کہ ایک لشکر کے ساتھ فرات کی طرف جائے تاکہ '' ہیت '' نامی شہر جائے جو '' انبار'' شہر کے پاس ہے اور پھر وہاں سے انبار جائے ۔ اگر راستے میں کوئی مقابلہ کرے تو اس پر حملہ کرے اور انہیں غارت کردے اور اگر راستے میں کسی نے مزاحمت نہ کی تولوٹ مار کرتا ہوا شہر انبار تک جاتے اور اگر وہاں پر بھی کوئی لشکر وغیرہ نہ ہو تو مدائن تک جاتے اور پھر وہاں سے شام واپس آجاتے اورہر گز ایک لمحہ کے لئے بھی کوفہ کے قریب نہ جاتے،پھر معاویہ نے اس سے کہا : اگر تم نے انبار اور مدائن کو برباد کردیا تو گویا تم نے کوفہ کوبرباد کردیا ہے اور تمہارا یہ عمل عراق کے لوگوں کو مرعوب کردے گا اور ہمارے چاہنے والوں کو خوش کردے گا اور جو لوگ ہماری مدد کرنے سے خوف زدہ ہیں وہ ہماری طرف آجائیں گے۔ سفر کے راستہ میں اگر تمہارا کوئی موافق نہ ہوتو اسے قتل کردینا اور دیہاتوں کو ویران کردینا

اور ان کے مال واسباب کو مال غنیمت سمجھنا کیونکہ ان لوگوں سے مال غنیمت لینا ان لوگوں کو قتل کرنے کی طرح ہے اور یہ کام دلوں کو جلا کر راکھ کردے گا ۔

سفیان کہتا ہے: میں شام کی چھاؤنی میں گیا ، معاویہ نے تقریر کی اور لوگوں کو میررے ساتھ جانے کے لئے دعوت دی کچھ ہی دیر میں چھ ہزار لوگ ہمارے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہوگئے میں فرات کی طرف روانہ ہوگیا اور ہیت نامی جگہ پر پہونچا ۔وہاں کے لوگ میری آمد سے باخبر ہوگئے اور فرات کو عبور کرگئے اور میں نے بھی فرات کو عبور کیا لیکن کسی سے ملاقات نہ ہوئی ۔پھر میں '' صندودائ'' پہونچا وہاں کے لوگ بھی مجھے دیکھ کر بھاگ گئے تو میں نے ارادہ کیا کہ انبار کی طرف جاؤں وہاں کے دوآدمیوں کو میں نے قید کرلیا اوران لوگوں سے پوچھا کہ علی کے لشکر میں کتنے فوجی ہیں؟انہوں نے جواب دیا: وہ لوگ پانچ سو آدمی تھے لیکن ان میں سے کچھ لوگ کوفہ گئے ہیں اور ہمیں نہیں معلوم کہ کتنے لوگ باقی بچے ہیں شاید تقریبادوسو لوگ باقی بچے ہوں۔ میں نے اپنے فوجیوں کوگروہ گروہ کیا اور انہیں تھوڑی تھوڑی دیر بعد انبار بھیجا تاکہ شہر میں ایک ایک آدمیوں سے جنگ کریں لیکن جب میں نے دیکھا کہ یہ کام زیادہ مؤثر نہیں ہے تو دوسو فوجیوں کو پیادہ روانہ کیا اور ان لوگوںسوار فوجیوںسے مدد کی ۔ اس طرح امام کی فوج کے تمام افراد منتشر ہوگئے اور اس کا سردار ۳۰ لوگوں کے ساتھ قتل ہوگیا ۔پھر میں نے جو کچھ انبار میں تھا اسے برباد کردیا اور شام واپس آگیا ۔ جب معاویہ کے پاس پہونچا تو پورا ماجرا بیان کیا ، اس نے کہا: میں نے تمہارے بارے میں یہی گمان کیا تھا ۔ زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ عراق کے لوگ خوفزدہ ہوگئے اور گروہ گروہ شام کی طرف

۷۴۵

ہجرت کرنے لگے۔(۱) علی علیہ السلام کو خبر ملی کہ سفیان انبار میں داخل ہو گیا ہے اور آپ کے والی حسان بن حسان کو قتل کردیا ہے ۔حضرت غصّے کے عالم میں گھر سے باہر آئے اور نخیلہ چھاؤنی گئے اور لوگ بھی آپ کے پیچھے پیچھے آئے، امام علیہ السلام ایک بلند جگہ پر گئے خدا کی حمدو ثناکی اور پیغمبر پر درود بھیجا پھر آپ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا:'' اے لوگو! جہاد جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جسے خدا نے اپنے خاص دوستوں کے لئے کھولا ہے اور یہ پرہیز گاری کا لباس اللہ کی مستحکم زرہ اور دشمنوں سے بچنے کے لئے مضبوط سپر ہے اور جو شخص متنفّر ہوکر اسے چھوڑدیتا ہے خدا اسے ذلت وخواری کا لباس پہنا دیتاہے اور امتحان کی ردا اُڑھا دیتاہے اور بدنامیوں اور رسوائیوں کے ساتھ اسے ٹھکرادیا جاتاہے اور اس کے دل پر بے عقلی کا پردہ ڈال دیا جاتاہے اور جہاد کے شرف وفضیلت کو ضائع کرنے کی وجہ سے اس کا حق اس سے پھیر لیا جاتاہے اُسے ذلت میں کر دیا کیا جاتا ہے اور انصاف سے محروم کردیا جاتاہے دیکھو !بنی غامد کے آدمی (سفیان بن عوف ) کی فوج انبار میں داخل ہو گئی ہے اور حسان بن حسان بکری کو قتل کر دیا ہے اور تمہارے فوجیوں چھاؤنی سے نکال دیاہے۔مجھے خبر ملی ہے کہ اس فوج کا کوئی شخص مسلمان اور ذمّی عورت کے گھر گھس گیا اور اس کی پازیب ، کنگن ، گلے کا ہار اور گوشوارے اتارلئے اور ان کے پاس اس سے حفاظت کا کوئی ذریعہ نہ تھا سوائے اس کے کہ وہ انا للہ پڑھیں اور رحم و کرم کی درخواست کریں ، پھر یہ لوگ لوٹ کا مال لے کر شام چلے گئے ان میں سے نہ تو کئی زخمی ہوا اور نہ کسی کا خون بہا۔ اب اگر اس کے بعد کوئی مسلمان اس غم میں مر جائے تو اسیکی ملامت نہیں کی جاسکتی ہے بلکہ میرے نزدیک وہ اس کا حقدار ہے پس کس قدر حیرت ہے کہ خدا کی قسم ان لوگوںکا اپنے باطل پر اتفاق کرلینا اور تمہارا حق سے منتشر ہوجانا ،یہ(تمہارا کرتوت) دل کو مردہ کر دیتا ہے اوررنج و غم کو بڑھادیتا ہے ، تمہارا برا ہو، اور حزن وغم میں مبتلا رہو جب میں گرمی کے موسم میں ان کی طرف بڑھنے کے لئے حکم دیتاہوں تو تم کہتے ہو بہت سخت گرمی ہے اتنی مہلت دیجئے کہ گرمی کی شدت کم ہوجائے اور جب میں سردی کے موسم میں ان کی طرف بڑھنے کے لئے کہتا ہوں تو تم کہتے ہو ابھی شدید ٹھنڈک پڑ رہی ہے اتنی مہلت دیجئے کہ سردی ختم ہو جائے یہ سب سردی اور گرمی (جنگ سے) بھاگنے کے بہانے ہیں جب تم سردی اور گرمی سے بھاگتے ہو تو تلوار کودیکھ کر پہلے ہی بھاگ کھڑے ہوگے، اے مردوں کی شکل وصورت والے نامردو، تمہاری فکریں بچوں جیسی اور عقلیں پردہ نشین دلہن کی طرح ہیں ، کاش میں نے نہ تمہیں دیکھا ہوتا اور نہ پہچانتا ہوتا''(۲)

_______________________________

(۱)الغارات: ج۲ ص ۴۶۴سے ۴۷۴تک ۔ تاریخ طبری: ج۴، ص ۱۰۳-------(۲)نہج البلاغہ جطبہ ۲۷

۷۴۶

عراق کے لوگوں کے دل میں خوف و وحشت پیدا کرنے کے لئے معاویہ نے صرف ان تینوں کو ہی نہیں بھیجا تھا بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی ایسی کارستانیوں کے لئے بھیجا تھا ، مثلاً نعمان بن بشیر انصاری کو حکم دیا

کہ '' عین التّمر'' پر ،جو شہر فرات کے غرب میں واقع ہے حملہ کرے اور اسے برباد کردے۔(۱) اور یزید بن شجرہ رہاوی کو حکم دیا کہ مکہ جائے اور وہاں کے لوگوں کے مال واسباب کو برباد کردے۔(۲) بالآخر یہ سازشیں اپنے نتیجہ پر پہونچ گئیں اور عراقیوں کے دل میں زبردست خوف وہراس بیٹھ گیا۔ البتہ یہ تمام غم انگیز واقعات جنگ نہروان کے بعد رونما ہوئے کہ ایک طرف سے داخلی مشکلات نے اور دوسری طرف سے خارجی مشکلات نے عراق کے لوگوںکو خصوصاً امام کے چاہنے والوں کو سخت مشکل میں ڈال دیا تھا۔ اے کاش یہ ناگوار حادثے یہیں ختم ہوجاتے لیکن دوسرے حادثوں نے بھی علی علیہ السلام کو سخت رنجیدہ کردیا اور آپ کے دل کو ملول کردیا۔اب انھیں واقعات کو تحریر کررہے ہیں ۔

_______________________________

(۱)الغارات ج۲، ص ۴۴۵

(۲)الغارات ج۲، ص۰۴ ۵

۷۴۷

دوسری فصل

مصر کی فتح اور محمد بن ابی بکر کی شہادت

عثمان کے قتل کے بعد شام کے علاوہ تمام اسلامی علاقے حضرت علی علیہ السلام کی حکومت میں شامل تھے ،امام علیہ السلام نے ۳۶ہجری اپنی حکومت کے پہلے سال قیس بن سعد بن عبادہ کو مصر کا حاکم مقرر کیا اور مصر روانہ کیا،(۱) لیکن کچھ دنوں بعد امام علیہ السلام نے کسی وجہ سے انھیں اس منصب سے معزول کر کے اسی سال جنگ جمل کے بعد محمد ابن ابی بکر کو مصر کا حاکم معین کیا، اس سلسلے میں تاریخ نے امام علیہ السلام کے دوخط کا تذکرہ کیا ہے ایک خط حکومتی اعلان کے طورپر لکھا اور اُسے محمد بن ابی بکر کے ہاتھ میں دیا اور دوسرا جب آپ مصر میںمستقر ہوگئے تب روانہ کیا۔ دونوں خط کو مولف''تحف العقول'' نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے(۲) اسی طرح ابو اسحاق نے اپنی کتاب ''الغارات'' میں ان دونوں خطوط کو نقل کیا ہے اور تحریر کیا ہے کہ پہلا خط یکم رمضان المبارک ۳۶ہجری کو لکھاگیاہے۔ دوسرا خط کتاب کے آخر میں تفصیل سے نقل ہوا ہے۔ امام علیہ السلام نے اس میں اسلام کے بہت سے احکام بیان کئے ہیں ۔ہم آئندہ دوسرے خط کے متعلق تفصیل سے بحث کریں گے اور یہ بھی بیان کرینگے کہ آخر کس طرح سے یہ خط معاویہ کے ہاتھ میں پہونچا اور پھر اس کے خاندان میں ہر شخص تک دست بہ دست یکے بعد دیگرے پھرتا رہا۔

امام علیہ السلام کے پہلے خط کا ترجمہ یہ ہے:

''خدا وند عالم کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے ،یہ فرمان خدا کے بندے علی امیر المومنین کی طرف سے محمد بن ابی بکر کے نام جب کہ انھیں مصر کی حکومت کی ذمہ داری سونپی ، میرا حکم ہے کہ تقوائے الھی اختیار کرو ، اس کی اطاعت خلوت و جلوت میںکرتے رہو،ظاہر و باطن میں اس سے ڈرو، مسلمانوں سے نرم مہربان اور بد کاروں سے سختی اور غصے سے پیش آئو ، اہل ذمہ کے ساتھ عدالت و مظلوموں کا حق دلواؤ اور ظالموں پر سختی کرو اور لوگوں کے ساتھ جتنا ممکن ہو عفو ودر گزر اور اچھائی سے پیش آئوکیونکہ خدا نیک لوگوں کو

_______________________________

( ۱)تاریخ طبری ج۳،ص۴۶۲۔

( ۲) تحف العقول ص۱۷۶،۱۷۷۔

۷۴۸

دوست رکھتا ہے اور برے لوگوں کو سزا دیتا ہے ۔

میں حکم دیتا ہو کہ محمد بن ابی بکر لوگوں کو مرکزی حکومت کی اطاعت و پیروی اور مسلمانوں اتحاد کی دعوت دیں کیو نکہ اس کام میں ان لوگوں کے لئے بہت زیادہ اجر و ثواب اور عافیت ہے جس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا اور نہ اسکی حقیقت و اصل کو پہچانا جاسکتا ہے۔

میں حکم دیتا ہوں کہ جس طرح سے زمین کا خراج (ٹیکس )پہلے لوگوں سے لیا جا تا تھا اسی طرح وصول کریں۔نہ اس میں کچھ کم کریں نہ اس میںکچھ زیادہ کریں اور پھر اسے مستحقین کے درمیان جیسے پہلے تقسیم ہوتا تھا تقسیم کریں ۔

میں حاکم کو حکم دیتا ہوں کہ لوگوں کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آؤ اور ان کے جلسوں میں سب کو ایک نظر سے دیکھو اور اپنوں اور پیرایوں میں حق کے لحاظ سے کوئی فرق نہ کرو ۔

میں اسے حکم دیتا ہو ں کہ لوگوں کے امور میں حق کے ساتھ فیصلہ کرو اور عدالت کوقائم کرو، خواہشات نفسانی کی پیروی نہ کرو اور خدا کی راہ میں ملامتگروں کی ملامت سے نہ ڈرو کیونکہ خدا ان لوگوںکے ساتھ ہے جو متقی ہیںاور تمام لوگوں کی اطاعت پر اس کی اطاعت کو مقدم کریں،والسلام۔

یہ خط عبید اللہ بن ابی رافع کے ہاتھوں، جسے رسول خدا (ص)نے آزاد کیا تھا ،۱رمضان المبارک ۳۶ ہجری کو لکھا گیا۔(۱)

اس خط کی تاریخ جو قیس بن عبادہ کی معزولی سے قریب ہے اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ قیس کی حکومت بہت کم دنوں تک تھی کیونکہ امیر المومنین علیہ السلام ۳۵ ہجری کے آخر میں خلیفة المسلمین کے عنوان سے منتخب ہوئے اور یہ خط آپ کی حکومت کے آٹھ مہینے گزر جانے کے بعد لکھا گیا،جب یہ خط محمد بن ابی بکر کے ہاتھ میں پہونچا تو وہ مصر کے لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور تقریر کی اور امام علیہ السلام کا خط پڑھ کر لوگوںکو سنایا۔

محمد بن ابی بکر نے مصر سے اما م علیہ السلام کو خط لکھااور اس میں حرا م و حلال اور اسلامی سنتوں کے بارے میں سوال کیا اور حضر ت سے رہنمائی کی درخواست کی ۔انہوں نے اپنے خط میں امام علیہ السلام کو لکھا :

_______________________________

(۱) الغارات ج ۱،ص۲۲۴۔

۷۴۹

''محمد بن ابی بکر کی طرف سے خدا کے بندے امیر المومنین علیہ السلام کے نام ،آپ پر درود و سلام ہو،وہ خدا کہ جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اس کا شکرگزار ہوں۔ اگر امیرالمومنین علیہ السلام مصلحت سمجھیں تو مجھے ایک ایسا خط لکھیں جس میں واجبات کا تذکرہ کریں اور اسلام کے قضاوتی احکام کو لکھیں کیونکہ کچھ جیسے میںلوگ اس مسئلے میں مبتلا ہیں ،خدا وند عالم امیر المومنین علیہ السلام کے اجر میں اضافہ کرے۔

امام علیہ السلام نے ان کے خط کے جواب میں قضاوت کے احکام ،احکام وضو، نماز کے(۱) اوقات،امربالمعروف و نہی عن المنکر ، روزہ ،اعتکاف کے مسائل کے متعلق بہت سے مطالب کو تحریر کیا اور پھر نصیحت کے طورپر موت ،حساب اور جنت و جہنم کی خصوصیات کے متعلق مسائل تحریر کئے۔

مولف ِکتاب''الغارت'' نے امام علیہ السلام کے خط کی مکمل عبارت کواپنی کتاب میں تحریر کیاہے(۲) ۔

ابواسحاق ثقفی لکھتے ہیں:

جب امام کا خط محمد بن ابی بکر کے پاس پہونچا تو ہمیشہ اس کو دیکھتے تھے اور اس کے مطابق فیصلہ کرتے تھے جس وقت عمر و عاص کے حملے میں محمد قتل ہوگئے تو وہتمامخطوط عمر وعاص کے ہاتھ میں پہ لگ گئے ، اس نے سب کو جمع کیا اور معاویہ کے پاس بھیج دیا۔ تمام خطوط کے درمیان اس خط نے معاویہ کو اپنی طرف زیادہ متوجہ کیا اور وہ اس میں بہت زیادہ غور و فکر کرنے لگا ،ولید بن عقبہ نے جب دیکھا کہ معاویہ بہت متعجب ہے تو اس نے کہا :حکم دو کہ اس خط کو جلا دیاجائے ،معاویہ نے کہا: خاموش رہ، اس کے بارے میں اپنا نظریہ پیش نہ کر، ولید نے معاویہ کے جواب میں کہا ،تو بھی اپنا نظریہ پیش کرنے کا حق نہیں رکھتا ،کیا یہ صحیح ہے کہ لوگ یہ سمجھ جائیں کہ ابوتراب کی حدیثیں تیرے پاس ہیں اور تو ان سیے درس حاصل کرتا ہے اور انھیں پڑھ کر فیصلہ کرتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر کیوں علی سے جنگ کر رہے ہو؟ معاویہ نے کہا: لعنت ہو تجھ ، پر مجھے حکم د ے رہا کہ ایسے علم کے خزانے کو جلا دوں ؟ خدا کی قسم اس سے زیادہ جامع، محکم ، واضح اور حقیقت پر مبنی علم میں نے آج تک نہیں سنا ہے۔ ولید نے اپنی بات دہرائی اور کہا:اگر علی کے علم اور قضاوت سے تجھے تعجب ہے تو کیوں اس سے جنگ کر رہے ہو؟ معاویہ نے کہا: اگر ابوتراب نے عثمان کو قتل نہ کیا ہوتا اور مسند

_______________________________

(ا)،(۲) الغارات ج ۱، ص۲۲۴تا۲۵۰

۷۵۰

علم پر بیٹھتے تو میں ان سے علم حاصل کرتا۔ پھر تھوڑی دیر خاموش رہا اور اپنے ساتھیوں پر نگاہ کی اور کہا: ہم ہرگز یہ نہیں کہیں گے کہ یہ خطوط علی کے ہیں، ہم تو یہ کہتے ہیں کہ یہ خطوط ابو بکر صدیق کے ہیں جو محمد کو وراثت میں ملے ہیں اور ہم اسی کے اعتبار سے فیصلہ کریں گے ۔اور فتوی دیں گے جی ہاں، امام علیہ السلام کے خطوط ہمیشہ بنو امیہ کے خزانوں میں تھے یہاں تک کہ حکومت عمر بن عبد العزیز کے ہاتھ میں آئی اور اس نے اعلان کیا کہ یہ خطوط علی ابن ابیطالب علیہ السلام کی حدیثیں ہیں ۔

جب علی علیہ السلام کو مصر کی فتح اور محمد کے قتل ہوجانے کے بعد خبر ملی کہ یہ خط معاویہ تک پہونچ گیا ہے تو بہت زیادہ افسوس کیا۔عبد اللہ بن سلمہ کہتا ہے :امام علیہ السلام نے ہم لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد ہم نے آپ کے چہرے پر افسردگی کے آثار دیکھے ۔آپ ایسا شعرپڑھ رہے تھے جس میںگزشتہ باتوں پر افسوس تھا۔ہم نے امام سے پوچھا: اس سے آپ کا کیا مقصد ہے؟ امام نے فرمایا :میں نے محمد بن ابی بکر کو مصر کے لئے حاکم بنایا، اس نے مجھے خط لکھا کہ میں پیغمبر کی سنت سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتا لہذامیں نے اسے ایک ایسا خط لکھا جس میں رسولِ خدا کی سنت کی تشریح و وضاحت کی ،مگر وہ شھید ہوگیا اور خط دشمن کے ہاتھ لگ گیا۔

امام ـ کا والی اوربے طرف لوگ

مصر کے معزول محمد بن قیس کے زمانے میں کچھ لوگوں نے ان کی حکومت سے کنارہ کشی اختیارکرلی اور اپنے کو بے طرف تعارف کرایا(یعنی کسی بھی گروہ کے ساتھ نہیں ہیں) ۔جب محمد بن ابی بکر کی حکومت کو امہینہ گزرگیا تو انہوں نے بے طرف لوگوں کو دوکاموں میں اختیار دیا کہ یا تو حکومت کے ساتھ رہیں اور اس کی پیروی کرنے کا اعلان کریں، یا مصر کو چھوڑ کرچلے جائیں، ان لوگوں نے حاکم مصر سے کہا کہ ہمیں مہلت دیجئے تاکہ ہم اس کے بارے میں فکر کریں، لیکن حاکم نے ان کی باتوں کو قبول نہیں کیا ،وہ لوگ بھی اپنی بات پر اڑے رہے اور اپنا دفاع کرنے کے لئے تیار ہوگئے۔

۷۵۱

حالات میں جنگ صفین شروع ہوگئی اور جب خبر ملی کہ امام علیہ السلام اور معاویہ کے درمیان حکمین قرار دئے گئے ہیں اور دونوں فوجوں نے جنگ روک دی ہے تو اس گروہ کی جرأت حاکم پر اور زیادہ ہوگئی اور بے طرفی کی حالت سے نکل کر کھلم کھلا حکومت کی مخالفت کرنے لگے ۔حاکم نے مجبورہو کر دوآدمیوں بنام حارث بن جمہان اور یزید بن حارث کنانی کو بھیجا تاکہ ان لوگوں کو موعظہ و نصیحت کریں، لیکن یہ دونوں اپنا وظیفہ انجام دیتے ہوئے مخالفین کے ہاتھوں قتل ہوگئے،محمد بن ابی بکر نے تیسرے آدمی کو بھیجا اور وہ بھی اس راہ میں قتل ہوگیا۔

ان لوگوں کے قتل ہونے کی وجہ سے بعض لوگ بہت جری ہوگئے اور ارادہ کیاکہ شامیوں کی طرح ہم بھی عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے لوگوں کو دعوت دیں اور چونکہ مخالفت کا ماحول پہلے سے بنا ہوا تھالہذا دوسرے افراد بھی ان کے ساتھ ہوگئے نتیجہ یہ ہوا کہ سرزمین مصر ظلم وفساد کا شکار ہوگئی اور جوان حاکم، مصر کی حکومت پر صحیح طور پر قابو نہ پاسکا۔ امیر المومنین علیہ السلام مصر کے حالات سے باخبر ہوئے اور فرمایا صرف دو آدمی ہیں جو مصر میں امن و امان بحال کرسکتے ہیں ایک قیس بن سعد جو اس سے پہلے مصر کے حاکم تھے اور دوسرے مالک اشتر آپ نے یہ بات اس وقت کہی جب مالک اشتر کو سرزمین ''جزیرہ'' کا حاکم مقرر کرچکے تھے، قیس بن سعد ہمیشہ امام علیہ السلام کے ساتھ ساتھ رہتے تھے اور لیکن عراق میں جو فوج موجود تھی اس فوج میں اس کا رہنا ضروری تھا، اس لئے امام علیہ السلام نے مالک اشترکو خط لکھا وہ اس وقت عراق کی وسیع ترین سر زمین''نصیبین'' میں موجود تھے جو عراق اور شام کے درمیان واقع ہے ۔اس خط میں امام علیہ السلام نے اپنے اور مصر کے حالات کے بارے میں لکھا :''امابعد،تم ان لوگوں میں سے ہو جن کی مددو نصرت سے ہم دین کو مستحکم کرتے ہیں اور نافرمانوں کے تکبرکا قلع و قمع کرتے ہیں اور وحشناک راستوں کو صحیح کرتے ہیں ، نے محمد ابن ابی بکر کا مصر کو حاکم مقرر کیا تھا ، مگر کچھ لوگوں نے اس کی پیروی کرنے کے بجائے مخالفت کی اور وہ جوانی اور تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے ان پر کامیاب نہ ہوسکا ، جتنی جلدی ہو میرے پاس پہونچ جاؤ تاکہ جو کچھ انجا م دینا ہے اس کے بارے میں تحقیق کریں، اور کسی معتبر اور قابل اعتماد شخص کو اپنا جانشین معین کردو''۔

جب امام علیہ السلام کا خط مالک اشتر کو ملا تو انھوں نے شبیب بن عامر کو اپنا جانشین مقر ر کرکے امام علیہ السلام کی خدمت میں آگئے اور مصر کے ناگوار حالات سے آگاہ ہوئے۔ امام نے ان سے فرما یا جتنی جلد ی ممکن ہومصر جاؤ کیونکہ تمھار ے علاو ہ کسی کو اس کام کا اہل نہیں سمجھتا ۔میں تمھارے اند ر جو عقل اور درایت دیکھ رہا ہوں اس کی وجہ سے مجھے کسی چیز کی تاکید کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

۷۵۲

اہم کاموں کی انجام دہی کے لئے خدا سے مدد طلب کرو اور سختی کو نرمی کے ساتھ استعمال کرو اور جتنا ممکن ہو خوش اخلاقی سے پیش آؤ اور جہاں پر صرف خشونت و سختی کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو وہاں اپنی طاقت کا استعمال کرو ۔

جب معاویہ کو خبر ملی کہ امام علیہ السلام نے مالک اشتر کو مصر کا حاکم بنایا ہے تو وہ گھبرا گیا کیونکہ وہ مصر کی حکومت پر قبضہ کرنا چاہتا تھا ۔ وہ جانتا تھا کہ اگر مصر کی حکومت مالک کے ہاتھوں میں آگئی تو وہاں کے حالات محمد بن ابی بکر کے زمانے سے اس کے لئے اور بھی بدتر ہوجائیں گے۔ اس وجہ سے اس نے ایک طریقہ اپنایا اور خراج دینے والوں میں سے ایک شخصسے خراج کو معاف کرنے کا وعدہ کیا اور اس کے ذریعے سے مالک اشترکے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔مصر کے لوگوں نے اما م علیہ السلام سے درخواست کی کہ جتنی جلدی ہوسکے ایک دوسرا حاکم معین فرمائیں ۔امام علیہ السلام نے ان کے جواب میں لکھا:''خدا کے بندے علی امیر المومنین کی طرف سے مصر کے مسلمانوں کے نام، تم لوگوں پر سلام ، اس خدا کی تعریف جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ۔ میں نے ایسے شخص کو تمھاری طرف بھیجاہے جس کی آنکھوں میں خوف و ہراس کے دن بھی نیند نہیں ، وحشت کے وقت ہرگز دشمن سے نہیں ڈر تا اور کفاروں کے لئے آگ سے زیادہ سخت ہے وہ مالک اشتر ،حارث کا بیٹا اور قبیلہ مذحج سے ہے، اس کی باتوں کو سنو اور اس کے فرمان کی جب تک حق باتیں کہے پیروی کرو، وہ خدا کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے جو کند نہیں ہوتی اور اس کی ضربت خطأ نہیں کرتی ،وہ اگر دشمن کی طرف جانے کا حکم دے تو فوراً روانہ ہوجاؤ اور اگر ٹھہرنے کا حکم دے تو ٹھہرجاؤ ، اس لئے کہ اس کا حکم میرا حکم ہے میں نے اسے تمھارے پاس بھیج کر تمھارے مفاد کو اپنے مفاد پر ترجیح دی ہے اس لئے کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں اور تمہارے دشمن کا سخت دشمن ہوں ۔(۱) امام علیہ السلام کا نیا نمائندہ اور حاکم لازمی ساز و سامان کے ساتھ مصر کے لئے روانہ ہوا اور جب ''قلزم''(۲) نامی علاقے میں پہونچے جو فسطاط'' کی دو منزل کے فاصلہ پر ہے(۳) وہاں ایک شخص کے گھر میں قیام کیا اس شخص نے ان کی بڑی آؤ بھکت اور خاطر مدارات کی جس کی وجہ اس نے مالک اشتر کو

_______________________________

(۱)نہج البلاغہ مکتوب نمبر ۳۸۔ الغارت ج۱ ص۲۶۰۔

(۲) مصر کی طرف سے دریائے یمن کے کنارے ایک شہر ہے، قافلے وہاں سے مصر تک تین دن میں مسافت طے کرتے ہیں۔ (مراصد الاطلاع)۔

(۳) اسکندر یہ کے پاس ایک شہر ہے،(مراصد الاطلاع)۔

۷۵۳

اپنے اعتماد میں لے لیا اور پھر شہد میں زہر ملا کر شربت بنایا اور مالک اشترکو پلادیا اسطرح سے خدا کی یہ تیز تلوار ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نیام میں چلی گئی اور اپنی جان کو خدا کے حوالے کردیا ۔وہ ۳۸ ہجری میں سرزمین قلزم پر شہید ہوئے اور وہیں پر دفن ہوئے۔

یہ بات مسلم ہے کہ یہ میزبان کوئی معمولی شخص نہ تھا بلکہ پہچانا ہوا شخص تھا اسی وجہ سے مالک اشتر نے اس کے گھر میں قیام کیا،اسے مالک کے دشمن معاویہ نے پہلے ہی خرید لیا تھا۔(۱)

بعض مؤرخین نے مالک اشتر کی شہادت کو تفصیل سے دوسرے طریقے سے لکھا ہے ،

جب معاو یہ کو یہ خبر ملی کہ امام نے مالک اشتر کو مصر کا حاکم معین کیا ہے تو اس نے ''قلزم'' کے ایک با رسوخ کسان سے کہا کہ جس طرح سے بھی ممکن ہو مالک کو قتل کردے اور جب مصر پر میرا قبضہ ہوجائیگا تو اس کے بدلے اسے مالیات (خراج)ادا کرنے سے معاف کردیگا معاویہ نے صرف اسی کام پر اکتفانہیں کیا بلکہ لوگوں کے جذبات کو قوت عطا کرنے اور یہ دکھانے کے لئے کہ وہ اور اس کے تمام پیر و خدا کی راہ میں قدم اٹھاتے ہیں شام کے لوگوں سے اس نے کہا کہ مسلسل مالک اشتر پر لعنت کریں اور خدا سے دعا کر یں کہ مالک کو نابود کردے کیونکہ اگر مالک قتل ہوگئے تو شام کے لوگوں کے لئے خوشی کا سبب ہوگا اور یہ سبب ہوگا کہ وہ لوگ اپنے رہبر پر زیاوہ اعتماد کریںگے۔

جب مالک اشتر ''قلزم'' پہونچے تو معاویہ کے خریدے ہوے خبیث نے مالک سے کہا کہ میرے گھر میں آرام کریں اور اپنے اعتماد کو مستحکم کرنے کے لئے کہا کہ تمام اخراجات کواپنے مالیات سے حساب کروں گا ،میزبان نے مالک کے گھر میں آنے کے بعد امام علیہ السلام سے اپنی دوستی و محبت کا اظہار کیا یہاں تک کہ اس نے مالک کے اعتماد کو حاصل کرلیا۔ اس نے مالک کے لئے دسترخوان بچھایا اور اس پر شہد کا شربت رکھا ۔ اس شربت میں اتنا زیادہ زہر ملا تھا کہ تھوڑی دیر بھی نہ گزری تھی کہ مالک اشتر شہید ہوگئے۔

بہر حال جب معاویہ کو مالک اشتر کے قتل کی خبر ملی تو وہ منبرپرگیا اور کہا: اے لوگو ابوطالب کے بیٹے کے پاس دو مضبوط ہاتھ تھے جن میں سے ایک ہاتھ(عمار یاسر) جنگ صفین میں کاٹ دیا گیا اور دوسرا ہاتھ (مالک اشتر)آج کاٹ دیا گیا(۲) ۔

_______________________________

(۱)تاریخ ابن کثیر ج۷،ص۳۱۳ (۲)۔ الغارت ج۱، ص ۲۶۴ ، تاریخ طبری ج۷۲،۔ کامل ابن اثیرج ۳،ص۳۵۲۔

۷۵۴

وہ موت جس نے بعض کو ہنسایا اور بعض کو رلایا

مالک اشتر کی شہادت پر شامیوں نے خوشی منائی کیونکہ وہ لوگ جنگ صفین کے سے ہی مالک اشتر سے کینہ رکھتے تھے لیکن جب انکی شہادت کی خبر امام علیہ السلام کو ملی تو آپ بے ساختہ بلند آواز سے رونے لگے اور فرمایا:''علیٰ مثلِکَ فَلْیَبْکِیْنَّ الْبَوا کِیْ یاٰ مالِکُ'' یعنی تمھارے جیسوں کے لئے عورتوں کو نوحہ و بکا کرنا چاہیئے ۔پھر فرمایا:''أین مثلُ مالک؟ یعنی مالک جیسا کوئی کہا ں ہے؟

پھر آپ منبر پر تشریف لے گئے اور تقریر فرمائی:

''ہم خدا کی طرف سے آئے ہیں اور اسی کی بارگاہ میں واپس جائیں گے تمام حمدو ثناخدا ہی کے لئے ہے کہ وہ اس دنیا کا پروردگار ہے۔ خدا یا! میں مالک کی مصیبت کا اجر تجھی سے چاہتا ہوں کیونکہ اس کی موت زمانہ کی سب سے بڑی مصیبت ہے ۔مالک پر خدا کی رحمتیں ہوں، اس نے اپنے عہدکو وفا کیا اور اپنی عمر کو ختم کیا اور اپنے رب سے ملاقات کی، ہم نے پیغمبر کے بعد باوجودیکہ اپنے کو آمادہ کر لیا تھا کہ ہر مصیبت پر صبر کریں گے ، اس حالت میں بھی یہی کہتے ہیں کہ مالک کی شہادت ایک بہت بڑی مصیبت ہے،(۱)

فضیل کہتے ہیں:''جب مالک کی خبر شہادت حضرت علی علیہ السلام کو ملی تو میں آپ کی خدمت میں گیا ، دیکھا کہ بے حد اظہار افسوس کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں: خدایا! مالک کو بہترین درجہ عطا کر، واقعاً مالک کتنی اچھی شخصیت کے مالک تھے، اگر وہ پہاڑ تھے تو ایسا پہاڑ جس کی مثال نہیں اور اگر پتھر تھے تو بہت سخت پتھر ، خدا کی قسم ،اے مالک تمھاری موت نے ایک دنیا کو لرزہ براندام کردیا اور دوسری دنیا کو شاد و مسرور کردیا۔ مالک جیسوں کی شہادت پر عورتوں کونوحہ و بکا کرنا پڑھنا چاہیے، کیا کوئی مالک جیسا ہے؟پھر آگے کہتے ہیں: علی علیہ السلام مسلسل اظہار افسوس کررہے تھے اور بہت دنوں تک آپ کے چہرۂ انور پر غم کے اثرات نمایاں تھے۔

_______________________________

(۱) الغارت: ج۱ ص ۲۶۴۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج۶،ص۷۷۔

۷۵۵

امام علیہ السلام کا خط محمد بن ابی بکر کے نام

امام علیہ السلام نے جب مصر کی حکومت کی ذمہ داری محمد بن ابی بکر سے لیکر مالک اشتر کو سونپی تو محمد

کچھ ملول تھے جب محمد کے ملال کی خبر امام علیہ السلام کو ملی تو آپ نے محمد کو خط لکھا جس میں مالک اشتر کی شہادت کی خبر کے بعد ان کی دلجوئی فرمائی اورلکھا:''مجھے خبر ملی ہے کہ مالک اشتر کو مصر اعزام کرنے کی وجہ سے تم رنجیدہ ہوگئے ہو لیکن میں نے اس کام کو اس لئے انجام نہیں دیا تھا کہ تم نے اپنی ذمہ داریوں میں غفلت یا کوتاہی کی ہے اور اگر میں نے تمھیں مصر کی حکومت سے معزول کیا ہے تو اسکے بدلے میں تمھیں کسی دوسری جگہ کا والی و حاکم قرار دوںگا جس کا چلانا کچھ مشکل اور سخت نہ ہوگا اور وہاں کی حکومت تمھارے لئے بہتر ہوگی،جس شخص کو میں نے مصر کی سرداری کیلئے چنا تھا وہ ہم لوگوں کے لئے خیر خواہ اور دشمنوں کے لئے بہت سخت تھا، خدا اس پر رحم کرے کہ اس نے اپنی زندگی بڑے آرام سے گذاری اور موت سے ملاقات کی جب کہ ہم اس سے راضی تھے، خدا بھی اس سے راضی ہواور اسے دوہرا ثواب عطا کرے ۔ اب اس وقت تم پر لازم ہے کہ دشمن سے جنگ کرنے کے لئے اپنی فوج کو شہر سے باہر بھیج دو اور وہیں پر پڑاؤ ڈال دواور عقل و خرد سے امور انجام دو اور جنگ کے لئے آمادہ ہوجاؤ، لوگوں کو خدا کی طرف آنے کی دعوت دو اور خدا سے مدد طلب کرو کہ وہ تمھارے اہم کاموں میں کافی ہے اور مصیبت کے وقت تمھارا مددگار ہے''۔(۱)

محمد بن ابی بکر کا خط امام علیہ السلام کے نام

جب امام علیہ السلام کا خط محمد کو ملا تو انہوں نے امام علیہ السلام کو یہ خط لکھا:

''امیر المومنین علیہ السلام کاخط مجھے ملا اور اس کے مضمون سے آگاہ ہوا کوئی بھی شخص امیر المومنین کے دشمن پر مجھ سے زیادہ سخت اور ان کے دوستوں پر مجھ سے زیادہ مہربان نہیں ہے۔ میں نے شہر کے باہر پڑاؤ ڈالا ہے اور تمام لوگوں کو امان دیا ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ہم سے جنگ کرنے پر آمادہ ہیں اور ہم سے دشمنی کو ظاہر کررہے ہیں ۔ہر حال میں ،میں امیرالمومنین علیہ السلام کامطیع و فرماں بردار ہوں۔(۲)

_______________________________

( ا) الغارات ج۱، ص۲۶۸۔----(۲)الغارات ج۱، ص ۲۶۹۔

۷۵۶

عمر و عاص کو مصر بھیجنا

معاویہ نے جنگ صفین ختم ہونے اور امیر المومنین علیہ السلام کی فوج میںخوارج کے ذریعہ اختلاف و تفرقہ ڈالنے کے بعد موقع غنیمت دیکھا کہ عمر وعاص کی سرداری میں اپنی فوج کو مصر روانہ کرے تاکہ مصر کو امیر المومنین علیہ السلام کے قبضے سے چھین لے ، اس نے یہ پُر خطر کا م انجام دینے کے لئے اپنی فوج کے بہت سے سرداروں کو دعوت دی اور ان میں عمروعاص ، حبیب بن مسلمہ فہری،بُسربن ارطاة عامری، ضحاک بن قیس اور عبد الرحمان بن خالد وغیرہ شامل تھے اور قریش کے علاوہ دوسرے افراد کو بھی مشورے کے لئے بلایا اور پھر اس نے مجمع کی طرف مخاطب ہوکر کہا :کیا تم جانتے ہو کہ میں نے تمھیں کیوں یہاں جمع کیا ہے؟

عمر و عاص نے اس کے راز کا پردہ فاش کرتے ہوئے کہا: تونے ہم لوگوں کو مصر فتح کرنے کے لئے بلایا ہے کیونکہ دہاں کی سرزمین بہت زرخیز ہے اور وہاں پر مالیات (خراج)بہت زیادہ ہے اور مصر کے فتح ہونے میں تمھاری اور تمھارے دوستوں کی عزت ہے۔

معاویہ، عمرو عاص کی تصدیق کرنے کے لئے اٹھا اور یاد دلایا کہ اس نے ابتدا میں عمر و عاص سے وعدہ کیا تھا کہ اگر علی پر میں نے فتح حاصل کر لی تو مصر کی حکومت اسے بخش دے گا، اس جلسہ میں بہت زیادہ گفتگو ہوئی اور بالآخر یہ طے پایا کہ مصر کے لوگوں کو، چاہے دوست ہوںیا دشمن بہت زیادہ خطوط لکھے جائیں دوستوں کو ثابت قدم رہنے اور مقابلے کا حکم دیا جائے اور دشمنوں کو صلح وخاموشی کا حکم دیا جائے یاجنگ کی دھمکی دی جائے، اس لئے معاویہ نے علی علیہ السلام کے دومخالفوں ، مسلمہ اور معاویہ کِندی کے نام خط لکھااور پھر عمروعاص کو ایک بڑی فوج کے ہمراہ مصر روانہ کیا۔ جب عمر و عاص مصرکی سرحد پر پہونچا تو عثمان کے چاہنے والوں نے اس کا استقبال کیا اور اس سے ملحق ہوگئے عمر وعاص نے وہیں سے مصر کے حاکم کے نام خط لکھا ''میں نہیں چاہتا کہ تم سے جنگ کروںاور تمھار ا خون بہاؤں،مصر کے لوگ تمھاری مخالفت پر متفق ہیں اور تمھاری پیروی کرنے سے پشیمان ہیں''۔

عمر و عاص نے اپنے اور معاویہ کے خط کو محمد کے پاس بھیجا ۔مصر کے حاکم نے دونوں خط پڑھنے کے بعد امام علیہ السلام کے پاس بھیج دیا اپنے خط میں شام کی فوج کے مصر کی سرحد پر پہونچنے کی خبر دی اور لکھا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ مصر کی حکومت آپ کے ہاتھ میں رہے تو میری مالی اور فوجی مدد کیجیے۔

امام علیہ السلام نے مصر کے حاکم کو مقابلہ کرنے کی تاکید کی

۷۵۷

پھر محمد بن ابی بکر نے عمر و عاص اور معاویہ کے خط کا جواب دیا اور بالآخر مجبور ہوئے کہ لوگوں کو اکٹھا کر کے لشکر ترتیب دیں اور عمرو عاص کی فوج کے مقابلہ کے لئے جائیں۔

ان کی فوج کے اگلے دستہ میں دو ہزار آدمی تھے جس کی سرداری کنانہ بن بُشر کر رہے تھے اور خود بھی اس کے بعد دوہزار کی فوج لے کر اس کے پیچھے پیچھے روانہ ہوئے۔ جب مصر کی فوج کے اگلے دستہ نے شام کی فوج کا سامنا کیا شام کی فوج کو درہم برہم کردیا لیکن فوج کی کمی کی وجہ سے کمزور پڑگیا، کنانہ اپنے گھوڑے سے اترآئے اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک ایک کر کے دشمنوں سے جنگ کرنے لگے اور اس آیت کی تلاوت کرتے شہید ہوگئے:

( وما کان لنفسٍ أن تموت الاّٰ بِاذنِ اللّٰه کتاباً مؤ جَّلاً ومَنْ یردْ ثوابَ الدُّ نیا نُؤ تِهِ منها ومنْ یُردْ ثواب الا خِرة نُؤتِهِ مِنها و سَنجِزی الشا کرِین ) (آل عمران :۱۴۵)

''اور بغیر حکم خدا کے تو کوئی شخص مرہی نہیں سکتا وقت معین ہر ایک کی موت لکھی ہوئی ہے اور جو شخص (اپنے کئے کا) بد لہ دنیا میں چاہے تو ہم اس کو اس میں سے دیدیتے ہیں اور جو شخص آخرت میںبد لہ چاہے اسے اسی میں سے دینگے اور (نعمت ایمان کے) شکر کرنے والوں کو بہت جلد ہم جزائے خیر دیں گے''۔

محمد بن ابی بکر کی شہادت

کنانہ بن بشر کی شہادت کی وجہ سے شام کی فوج میں جرأت پید ا ہوگئی اور سب نے یہ طے کیا کہ آگے بڑھتے رہیں اور محمد بن ابی بکر کی چھائونی کی طرف جائیں ،جب ان کی چھائونی پر پہونچے تو دیکھا کہ محمد کے ساتھی مختلف جگہوں پر منتشر ہو گئے ہیں ، محمد خود مضطرت اور سرگرداںہیں یہاں تک کہ ایک کھنڈر میں پناہ حاصل کی، معاویہ بن حدیج محمد کی جگہ سے با خبر ہوا اور انہیں گرفتار کر لیا وہاں سے باہر لایا اور ''فسطاط'' نامی جگہ پر جہاں عمر و عاص کے فوجی تھے پہونچا دیا جب کہ عنقریب تھا کہ پیاس کی شدت سے مرجائیں۔

عبد الرحمن بن ابی بکر، محمد کا بھائی عمرو کی فوج میں تھا، اس نے فریاد بلند کی میں اس بات سے راضی نہیں ہوں کہ میر ے بھائی کو اس طرح قتل کرو اور عمر وعاص سے کہا کہ اپنی فوج کے سردارمعاویہ بن حدیج کو حکم دو کہ اس کے قتل کرنے سے باز آجائے، عمروعاص نے اپنے نمائندے

۷۵۸

کو ابن حدیج کی طرف بھیجا کہ محمد کو زندہ حوالے کرے لیکن معاویہ بن حدیج نے کہا: کنانہ بن بشر جو میرا چچا زاد بھائی تھا قتل ہوگیا محمد کو بھی ، زندہ نہیں رہنا چاہیے ،محمد جو اپنی قسمت دیکھ رہے تھے ،درخواست کی کہ مجھے پانی پلادو لیکن معاویہ بن حدیج نے بہانہ بنایا کہ عثمان بھی پیاسے قتل ہوئے تھے لہذا پانی نہیں دیا۔

اس وقت ابن حدیج نے محمد کو بہت برُی باتیں کہیں جنھیں تحریر کرنے سے پرہیز کررہے ہیں اور آخرمیں اس نے کہا: میں تمھاری لاش کو اس مردہ گدھے کی کھال میں رکھوں گا اور پھر جلادوں گا۔محمد نے جواب دیا :تم خدا کے دشمنوں نے اولیاء خدا کے ساتھ بار ہا ایسا معاملہ انجام دیا ہے، مجھے امید ہے کہ خدا ا س آگ کو میر ے لئے ایسے ویسی ہی اور باعافیت کردے گا جیسے ابراہیم کے لئے کیا تھا، اور اسے تمھارے اور تمھارے دوستوں کے لئے وبال بنادے گا اورخدا تجھے اور تیرے پیشوا معاویہ بن ابو سفیان اور عمر وعاص کو ایسی آگ میں جلائے گاکہ جب بھی چاہیں کہ خاموش ہو وہ اورشعلہ ور ہوجائے گا، بالآخر معاویہ بن حدیج کو غصّہ آیا اور اس نے محمد کی گردن اڑا دی اور ان کے جسم کو مردہ گدھے کے پیٹ میں ڈالدیا اور جلادیا۔

محمد بن ابی بکر کی شہادت نے دوآمیوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا، ایک ان کی بہن عائشہ تھیں جو ان کے حالات پر بہت روئیں، وہ ہر نماز کے آخر میں معاویہ ابن سفیان ،عمر و عاص اور معاویہ بن حدیج پربد دعا کرتی تھیں، عائشہ نے اپنے بھائی کے اہل و عیال کی کفالت کی ذمہ داری خود لے لی۔ اور محمد ابن ابی بکر کے بیٹے قاسم انہیں کی پرورش و کفالت میں پروان چڑھے اور دوسرے اسمأ بنت عمیس جو بہت دنوں تک جعفر ابن ابی طالب کی زوجہ تھیں اور جعفر کی شہادت کے بعد ابوبکر سے شادی ہوگئی اور انہیں سے محمد بن ابی بکر پیدا ہوئے اور ابو بکر کے انتقال کے بعد علی علیہ السلام سے شادی کی اور ان سے ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام یحییٰ تھا،یہ ماں جب اپنے بیٹے کی قسمت و شہادت سے باخبر ہوئی تو بہت زیادہ متاثر ہوئی لیکن اپنے غیظ و غضب کو قابو میں رکھا اور مصلائے نماز پر گئیں اور ان کے قاتلوں پر لعنت و ملامت کی ۔

عمر وعاص نے معاویہ کو خط کے ذریعے ان دونوں آدمیوں کی شہادت کے بارے میںخبر دی اور دوسرے سیاست بازوں کی طرح جھوٹ بولا اور اپنے کو بر حق ظاہر کیا اور کہا :ہم نے ان لوگوں کو کتاب و سنت کی طرف بلایا مگر ان لوگوں نے حق کی مخالفت کی اور اپنی گمراہی پر باقی رہے۔ با لآخر ان کے اور ہمارے درمیان جنگ ہوئی۔ ہم نے خدا سے مدد طلب کی اور خدا نے ان کے چہروں اور پشتوں پر ضرب لگائی اور ان سب لوگوں کو ہمارے سپرد کر دیا۔

۷۵۹

حضرت علی علیہ السلام اور خبر شہادت محمد بن ابی بکر

عبد اللہ بن قعید روتا ہوا کوفہ میں داخل ہوا اور حضرت علی علیہ السلام کو محمد کی دردناک شہادت سے آگاہ کیا ۔امام نے حکم دیا کہ تمام لوگ اس کی بات سننے کے لئے جمع ہوں، اس وقت لوگوں سے فرمایا:''یہ نالہ و فریاد محمد اور تمھارے بھائیوں کا جو مصر میں تھے ۔ خدا کااور تمھارا دشمن عمر و عاص ان لوگوں کی طرف گیا اور ان پر غالب ہوگیا اور میں ہرگز یہ امید نہیں رکھتاکہ گمراہوں کا تعلق باطل سے اور ان کاسرکش حاکموں پر اس سے زیادہ ہو جتنا اعتماد تم لوگوں کا اعتقاد حق پر ہے ، گویا ان لوگوں نے مصر پر حملہ کرکے تم لوگوں کو پر حملہ کیاہے جتنی جلدی ممکن ہو ان کی مدد کے لئے جاؤ، اے خدا کے بندو! مصر خیر و برکت کے اعتبار سے شام سے بہتر اور مصر کے لوگ شام کے افراد سے بہتر ہیں ، مصر کو اپنے قبضے سے نہ جانے دو، اگر مصرتم لوگوں کے ہاتھ میں ہوگا تو تم لوگوں کے لئے عزت کا سبب ہوگا، اور دشمنوں کے لئے ذلت کا سبب ہوگا،جتنی جلدی ممکن ہو'' جرعہ''کی چھاؤنی پہونچ جاؤ تاکہ کل ایک دوسرے تک پہونچ جائیں۔

کچھ دن گزرنے کے بعد اور عراق کے سرداروں کے اما م علیہ السلام کے پاس آنے جانے کے بعد بالآخر مالک بن کعب کی سرداری میں دو ہزار فوج مصر کے لئے روانہ ہوئی۔(۱)

امام علیہ السلام نے ابن عباس کو اپنے خط میں اس واقعہ کی خبر ان الفاظ میں دی:

''اما بعد، مصر پر دشمن کا قبضہ ہوگیا ہے اور محمد بن ابی بکر''(خدا ان پر رحمت کرے) شہید ہوگئے ،اس مصیبت کا اجر ہم اللہ سے مانگتے ہیں کتنا خیر خواہ فرزند،اور محنت کش عامل تھا (جونہ رہا)کیاسیف قاطع ، اور کیسا دفاعی ستون تھا(جوچل بسا) میں نے لوگوں کی بہت تشویق کی تھی کہ اس کی مدد کے لئے جائیں ، میں نے لوگوں کو در پردہ اور بر ملا ایک بار نہیں ،بلکہ بار بار حکم دیا کہ جنگ سے پہلے ان سے مدد کو پہنچ جائیں لیکن اکچھ لوگوں نے با دل نخواستہ آماد گی ظاہر کی اور کچھ لوگ جھوٹے بہانے بنانے لگے اور کچھ لوگ تو چپ چاپ بیٹھے ہی رہے اور مدد کے لئے نہ اٹھے، چنانچہ میں خدا سے یہی دعا کرتا ہوں کہ اے خدا!مجھے جلد از جلد ان

_______________________________

(۱) الغارات ج ۱، ص۲۸۲تا ۲۹۴۔

۷۶۰

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809