فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)0%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیة اللہ جعفر سبحانی
زمرہ جات: صفحے: 809
مشاہدے: 307360
ڈاؤنلوڈ: 4239

تبصرے:

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 307360 / ڈاؤنلوڈ: 4239
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

لوگوں سے نجات دیدے۔(۱)

محمد بن ابی بکر کی شہادت حضرت علی علیہ السلام کے لئے بہت بڑا غم تھا، حضرت نے باچشم گریہ فرمایا:

''وہ میر ا بیٹا اور میرے بیٹوں اور میرے بھتیجوں کے لئے بھائی تھا۔(۲)

اور یہ بھی فرما یا:'' وہ مجھے عزیز و پسند تھا اور خود میں نے اپنی آغوش میں اس کی پرورش کی تھی''(۳)

جنگ صفین کے بعد اس طرح کے حادثات پے در پے ہوتے رہے اور عقلمند اور دور اندیش لوگ امام علی ـ کی حکومت کے زوال کی ،ان کے نادان ساتھیوں کی وجہ سے پیشین گوئی کرسکتے تھے۔اس وقت اما م علیہ السلام ایسے حالات سے گزررہے تھے کہ معاویہ کا شام پر قبضہ تھا اور مصر پر عمر وعاص نے قبضہ کر لیا تھا اور معاویہ کی طرف سے مرکزی حکومت کو ضعیف و کمزور کرنے کے لئے قاتل اور فسادی گروہ طرف سے قتل و غارت گری کررہے تھے ، تاکہ امن و سکون کو جڑ سے ختم کردیں، لیکن امام علیہ السلام کی تدبیر ایسے افسوسناک حالات پر قابو پانے کے لئے کیاتھی؟ اور آپ نے کس طرح سے مردہ دل عراقیوں سے فسادات کو ختم کرنے کے لئے مدد طلب کی؟ تاریخ کا کہنا ہے کہ امام علیہ السلام نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میںبہت ہی ولولہ انگیز تقریرفرمائی ، جس نے عراقیوں کے مردہ دلوں کو زندہ کردیا۔

_______________________________

(۱) نہج البلاغہ مکتوب ۳۵۔

(۲) تاریخ یعقوبی ج۲، ص۱۹۴۔

(۳) نہج البلاغہ مکتوب ۶۵ (مطبوعہ عبدہ)۔

۷۶۱

امام علیہ السلام کا آخری خطبہ

نوفل بن فضالہ کہتے ہیں :امام علیہ السلام کی زندگی کے آخری دنوں میں ، جعدہ مخزومی نے پتھر کا ایک بلند چبوترہ امام علیہ السلام کے لئے بنایا، اور امام علیہ السلام اس پر تشریف لائے، آپ کا پیراہن اون کا بنا ہواتھا، اور نیام اورنعلین کجھور کی چھال کی بنی تھی اور کثرت ِ سجود کی وجہ سے پیشانی کا نشان یوں معلوم ہوتا تھا کہ جیسے اونٹ کے گھٹنے کا گھٹا، اور پھر آپ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا :'' الحمدُ لِلّٰه الذّی اِلیهِ مَصَائر الخلقِ و عواقِبُ الْامْرِ ، نَحمدُهُ عَلیٰ عِظیم اِحْسٰانِه ونیِّربُرهٰا نِهِ و نَوامِیْ فَضْلِهِ وا مْتِنٰا نِهِ

اَیّها النّاسُ: اِنّی قد بثثتُ لکم الموا عِظَ الّتی وَعَظَ الا نبیائُ بها أ مَمَهُمْ وَادّیتُ اِلَیْکم ادت الا و صیائُ اِلیٰ مَنْ بعدَهُمْ وَ اَ دَّ بْتُکمْ بِسَوطِیْ فلَمْ تَسْتَقیمواوَحَدوتکم، بالزّ واجِرِ فلمْ تَسْتَو سِقُوْا. للّٰه أ نتُمْ! اَتتَوقّعُونَ اماماً غَیْرِیْ یطأُ بِکم الطّرِیقَ و یرُشِدُ کُمُ السّبیل؟

… مٰا ضرّ اِخوانُنا الَّذینَ سُفِکت دِمائُ هُم وَهُمْ بصفیّنَ الاّٰ یکونواُ الیومَ أحیائً ؟ یُسیغون الغصَصَ ویَشربونَ الرَّ نقَ ! قد.واللّٰه .لقو ا اللّٰه فَوَفَا هُمْ اجورَهُمْ وَاَحَلَّهم دَارَ الْاَ من بَعْد خو فهِمْ.أین اخوانی الّذِینَ رَکبوُا الطریقَ و مَضَوا عَلیَ الحقَّ؟ اَینَ عمّار وایْنَ ابْنُ التیهان؟ واَینَ ذو الشّهادتین؟ واین نْظَر ائُ هُمْ من اِخوا نِهِمُ الَّذِ یْنَ تَعاقَدواعَلیَ المَنِیَّةِ؟''

''تمام حمد اس خدا کے لئے ہے جس کی طرف تمام مخلوق کی باز گشت ہے اور ہر امر کی انتہا ہے، ہم اس کے عظیم احسان اور روشن برہان اور بڑھتے ہوئے فضل وکرم پر اس کی حمد کرتے ہیں۔

اے لوگو ، میں نے تمھیں اس طرح نصیحتیں کی ہیں جیسی انبیا اپنی امتوں کو کرتے رہے ہیں اور وہی باتیں تم تک پہونچائی ہیں جو اوصیا بعد والوں تک پہونچاتے رہے ہیں، میں نے اپنے تازیانہ سے تمہاری تادیب کی مگر تم سیدھے نہ ہوئے اور زجر و توبیخ سے تمھیں ہنکایا مگر تم لوگ یکجااور متحد نہ ہوئے ،خدا ہی تمہیں سمجھے، کیا تم میرے بعد کسی اور امام کے امیدوار ہو جو تمھیں سیدھی راہ پر چلائے اور صحیح راستہ دکھائے؟

ہمارے جن ساتھیوں کا خون جنگ صفین میں بہایا گیا انہیں کیا نقصان پہونچا وہ اگر آج زندہ نہیں ہیں کہ دنیا کے مصائب کے تلخ گھونٹ نوش کریں اور اس طرح کی ناگوار زندگی کا گندہ پانی پیئیخدا کی قسم انہوں نے اللہ سے ملاقات کی تواس نے انہیں پوری جزادی اور خوف و ہراس کے بعد انہیں امن و سلامتی کے گھر میں اتاردیا۔

۷۶۲

میرے وہ بھائی کہاں ہیں جو سیدھی راہ پر چلتے رہے (اور اس دنیا سے )حق پر گزر گئے ، کہاں ہیں عمار؟ کہاں ہیں ابن تیہان ؟ کہاں ہیں ذوالشہادتین؟ اور کہاں ہیں ان کے ایسے دوسرے بھائی جو مرنے کا عہد کرچکے تھے؟

نوفل کہتے ہیں: اس کے بعد حضرت نے اپنا ہاتھ داڑھی پر پھیرااور بہت دیر تک زارو قطار روتے رہے اور پھر فرمایا:

''أوّهِ عَلیٰ اِخْوانِی الّذِین تَلو ا القرآنَ فاحکُموهُ وتَدَبِّروا الفَرضَ فا قٰا مُوُه ،اَحْیُوا السُنَّةَ و أ ما تو البد عة. دُعُواْ لِلْجِهادِ فَا جَابُوْاوَ وثَقُوْا بالقَائِدِ فاتبعُوْهُ''

''آہ! میرے وہ بھائی جنہوں نے قرآن پڑھا (تو اپنے عمل سے) اسے مضبوط کیا ،اپنے فرض کو سوچا سمجھا اور اسے ادا کیا ، سنت کو زندہ کیا اور بدعت کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ جب انہیں بلایا گیاتو انہوں نے لبیک کہی ،اپنے رہبر پر اعتماد رکھا تو اس کی پیروی کی۔

پھر آپ نے بلند آواز سے پکار کر فرمایا:''اَلْجهادَالجهادَ عبادَ اللّٰه! ألاَ وَ اِ نّی مُعَسِْکر فِیْ یومی هٰذا فَمَنْ أ رَادَ الرّ واحَ الیَ اللَّه فَلیخْرُجْ'' جہاد جہاد، اے خد ا کے بندو! آگاہ رہو کہ میں آج لشکر کو ترتیب دے رہا ہوں جو خدا کی طرف جانا چاہتا ہے وہ نکل کھڑا ہو۔(ا)

امام علیہ السلام کے اس ہیجان انگیز اور پر جوش کلام نے عراقیوں کے مردہ دلوں کو اس طرح زندہ کر دیا کہ تھوڑی ہی دیر میں چالیس ہزار (۰۰۰،۴۰) لوگ خدا کی راہ میں جہاد کرنے اور میدان ِ صفین میں جنگ کرنے کے لئے تیار ہوگئے ،امام علیہ السلام نے اپنے بیٹے امام حسین علیہ السلام اور قیس بن سعد اور ابو ایوب انصاری کے لئے پرچم تیار کیا اور ہر ایک کو دس دس ہزار کی فوج دے کر تیار ہونے کے لئے کہا اور دوسرے لوگو ں کو بھی مختلف تعدا د کے دستوں پر امیر مقرر فرما کر پرچم کے ساتھ تیار کیا لیکن افسو س کہ ایک ہفتہ نہ گزرنے پایا تھا کہ عبد الرحمن بن ملجم کی تلوار سے آپ شہید ہو گئے ۔

جب کوفہ کے باہر رہنے والے سپاہیوں کو اما م کی شہاد ت کی خبر ملی تو سب کے سب کوفہ واپس آگئے اور سب ہی کی حالت ان بھیڑ بکریوںکی طرح ہوگئی،جو اپنے محافظ سے محروم ہوگئی ہوں اور بھیڑئیے انہیں ہر طرف سے اچک لے جارہے ہوں۔

اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہم امام علیہ السلام کی زندگی کے آخر ی ورق یعنی شہادت کا ماجرا بیان کریں۔

_______________________________

(۱) نہج البلاغہ خطبہ ۱۷۷ (مطبوعہ عبدہ)۔

۷۶۳

تیسری فصل

امام علیہ السلام کی زندگی کا آخری ورق محرابِ عبادت میں آپ کی شہادت

جنگ نہروان ختم ہوگئی اور علی علیہ السلام کوفہ واپس آگئے مگر خوارج میں سے کچھ لوگ جنہوں نے نہروان میںتوبہ کیا تھا دوبارہ مخالفت کرنے لگے اور فتنا و فساد بر پا کرنے لگے۔

علی علیہ السلام نے ان کے پاس پیغام بھیجااور ان لوگوں کو صلح و خاموشی رہنے کی دعوت دی اور حکومت کی مخالفت کرنے سے منع کیا لیکن جب ان کے راہ راست پر آنے سے مایوس ہوگئے تو اپنی قدرت و طاقت سے اس سر کش، نافرمان اور فتنہ پرداز گروہ پر حملہ کرکے اسے نابود کردیا ،اس میں سے کچھ لوگ قتل ہوئے تو کچھ لوگ زخمی ہوگئے اور کچھ فرار کرگئے اور انھیں بھاگنے والوں میں سے عبد الرحمن بن ملجم تھا جو قبیلہ مراد کا رہنے والا تھا یہ مکہ بھاگ گیاتھا۔

بھاگے ہوئے خوارج نے مکہ کومرکز بنایا اور ان میں سے تین لوگ عبد الرحمن ابن ملجم مرادی، برک بن عبد اللہ تمیمی(۱) اور عمرو بن بکر تمیمی(۲) ایک رات جمع ہوئے اوروقت کے حالات اور داخلی جنگ اور خون ریزیوں پر بحث کی اور نہروان اور اپنے مقتولین کویاد کیا اور یہ نتیجہ نکالا کہ اس خون ریزی اور آپسی جنگ کا سبب علی علیہ السلام،معاویہ اور عمر وعاص ہیں اور اگر یہ تینوں آدمی ختم ہوجائیں تو مسلمان اپنی اپنی ذمہ داریوں کو خود جان لینگے اور اپنی خواہش اورمن پسند خلیفہ چن لینگے ۔پھر ان تینوں نے آپس میں عہد کیا اور اسے قسم کے ذریعے مزید مستحکم کیا کہ ان میں سے ہر ایک، ان تینو ں میں سے ایک ایک کو قتل کرے گا ۔

ابن ملجم نے علی علیہ السلام کو قتل کرنے کا عہد کیا، عمر وبن بکر نے عمرو عاص کو مارنے کا ذمہ لیا اور

_______________________________

(۱) ،( ۲) دینوری نے الاخبار الطوال میں ص۲۱۳ پر برک بن عبد اللہ کا نام نزال بن عامر اور عمرو بن بکر کو عبد اللہ بن مالک صیداوی لکھا ہے اور مسعودی نے مروج الذہب (ج۲،ص۴۲۳) میں برک بن عبد اللہ کو حجاج بن عبد اللہ صریمی ملقب بہ برک اور عمرو بن بکر کو زادیہ لکھا ہے۔

۷۶۴

برک بن عبد اللہ نے معاویہ کو قتل کرنے کا عہد کیا۔(۱) اس سازش کا نقشہ خفیہ طور پر مکہ میں بنا یا گیا اور تینوں آدمی اپنے مقصد کو ایک ہی دن انجام دیں اس لئے رمضان المبا رک کی انیسویں رات معین ہوئی ہر شخص اپنا کام انجام دینے کے لئے اپنے اپنے مورد نظر شہر چلا گیا عمرو بن بکر ،عمرو عاص کو قتل کرنے کے لئے مصر گیا اور برک بن عبد اللہ معاویہ کو قتل کرنے کے لئے شام گیا اور ابن ملجم بھی کوفہ کی طرف روانہ ہوا۔(۲) برک بن عبد اللہ شام پہونچا ، اور معین شدہ رات میں مسجد گیا اور پہلی صف میں نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا ، اور جب معاویہ سجدے میں گیا تو اس نے تلوار سے حملہ کیا لیکن خوف و ہراس کی وجہ سے نشانہ چوک گیااور تلوار خطا کرگئی، اور سر کے بجائے معاویہ کی ران پر لگی اور معاویہ شدید زخمی ہوگیا ،اسے فوراً گھر میں لائے اور بستر پر لٹایا،جب حملہ کرنے والے کو اس کے سامنے حاضر کیا تو معاویہ نے اس سے پوچھا : تمھیں اس کا م کے انجام دینے کی جرأت کیسے ہوئی ؟ اس نے کہا: اگر امیر مجھے معاف کریں تو ایک خوشخبری دوں ، معاویہ نے کہا :تیری خوشخبری کیا ہے؟ برک نے کہا: علی کو آج ہی ہمارے ایک ساتھی نے قتل کیا ہے اور اگر یقین نہ ہوتو مجھے قید کردیں یہاں تک کہ صحیح خبر آپ تک پہونچ جائے، اگر علی قتل نہ ہوئے تو میں عہد کرتاہوں کہ میں وہاں جا کر انھیں قتل کروںگا اور پھرآپ کے پاس واپس آجاؤںگا، معا ویہ نے اسے علی کے قتل کی خبر آنے تک اپنے پاس روکے رکھا اور جب خبر کی تصدیق ہوگئی تو اسے آزاد کردیا او ر ایک دوسرے قول کے مطابق اسی وقت اسے قتل کرادیا۔(۳) جب طبیبوں نے معاویہ کے زخم کا معاینہ کیا تو کہا کہ اگر امیر اولاد کی خواہش نہ رکھتے ہوں تو دواکے ذریعے علاج ہوسکتا ہے ورنہ پھر زخم کو آگ داغنا پڑے گا۔ معاویہ داغنے سے ڈرااور نسل کے منقطع ہونے پر راضی ہوگیا اور کہا: یزید اور عبد اللہ میر ے لئے کافی ہیں۔(۴) عمر وبن بکر بھی اسی رات مصر کی مسجد میں گیا، اور پہلی صف میں نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا مگر اس دن عمرو عاص کو زبر دست بخار آگیا اور کمزوری اور سستی کی وجہ سے مسجد میں نہیں آسکالہذا

_______________________________

(۱) مقاتل الطابینص ۲۹۔ الامامة و السیاسة ج۱،ص۱۳۷۔

(۲) تاریخ طبری ج ۶،ص ۳۸ کامل ابن اثیرج ۳، ص ۱۹۵۔ روضة الواغطین ج۱،ص۱۶۱۔

(۳) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۶،ص۱۱۴ (۴) مقاتل االطالبین ص ۳۰ ۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۶ص۱۱۳۔

۷۶۵

خارجہ بنحنیفہ(حذافہ)(۱) کو نماز پڑھانے کے لئے مسجد بھیجا اور عمرو بن بکر نے عمر وعاص کے بجائے اسے قتل کردیا اور جب حقیقت معلوم ہوئی تو کہا:أردتُ عمراً واَرادَ الله خاَرِجَة ''(۲)

یعنی میں نے عمر وعاص کو قتل کرنا چاہا اور خدا نے خارجہ کو قتل کرانا چاہا۔

لیکن عبد الرحمن بن ملجم مرادی ۲۰ شعبان ۴۰ہجری کوکو فہ آیا اور جب علی علیہ السلام کو اس کے آنے کی خبر ملی تو آپ نے فرمایا: ''وہ آگیا؟'' اب اس چیز کے علاوہ مجھ پر کوئی چیز باقی نہیں ہے اور اب اس کا وقت بھی آگیا ہے۔

ابن ملجم اشعث بن قیس کے گھر میں اترا ہو اور ایک مہینہ اس کے گھر میں رہا اور روزانہ اپنی تلوار کو تیز کر کے اپنے کو آمادہ کرتا تھا۔(۳) اور وہاں ایک لڑکی قطامہ جو خود خوارج میں سے تھی اس سے ملا اور اس کا عاشق ہوگیامسعودی کے نقل کرنے کے مطابق قطامہ ،ابن ملجم کی چچازاد بہن تھی اور اس کے باپ اور بھائی جنگ نہروان میں قتل ہوئے تھے۔ قطامہ کوفہ کی ایک خوبصورت ترین لڑکی تھی ، جب ابن ملجم نے اسے دیکھا تو تمام چیزوں کو بھول گیا اور اس سے شادی کی خواہش ظاہر کی(۴) قطامہ نے کہا: میں پوری رغبت و خواہش سے تمھیں اپنا شوہر قبول کروں گی مگر شرط یہ ہے کہ میر ا مہر میری خواہش کے اعتبار سے قراردو۔ عبدالرحمن نے کہا : بتاؤ تمھارا مقصد کیا ہے؟

قطامہ نے جب عاشق کو سراپا تسلیم دیکھا تو مہر کو اور بھی سنگین کر دیا اور کہا: تین ہزار درہم ، ایک غلام، ایک کنیز اور علی ابن ابیطالب کا قتل۔ابن ملجم :میں تصور نہیں کرسکتا کہ تم مجھے چاہو اور پھر مجھ سے علی کے قتل کرنے کی درخواست کرو۔

قطام:تم ان پر اچانک غافلانہ حملہ کرنے کی کوشش کرو اس صورت میں اگر تم نے انہیں قتل کردیا تو ہم دونوں ان سے اپنا بد لہ لے لیں گے اور پھر ہنسی خوشی زندگی بسر کریںگے اور اگر اس راہ میں تو مارا گیا تو خدا نے آخرت کے لئے جو ثواب تیرے لئے ذخیرہ کیا ہے وہ اس دنیا کی نعمتوں سے بہت زیادہ بہتر اور پایدار ہے۔

_______________________________

(۱)، تاریخ یعقوبی ج ۲،ص ۲۱۲۔

(۲)،(۳) تاریخ یعقوبی ج ۲،ص ۳۱۲۔

(۴) مروج الذہب ج ۲، ص ۴۲۳

۷۶۶

ابن ملجم: تمھیں معلوم ہو کہ میں صرف اسی کام کے لئے کوفہ آیا ہوں۔(۱)

کسی شاعر نے قطامہ کے مہر کے سلسلے میں اشعار کہے ہیں:

فَلَمْ أرَ مَهْراً سا قه ذُوْ سَما حَة

کَمَهْرِ قطام من فصیح و أعْجَم

ثلاثة ألا فٍ وعبد وقِیْنةً

وقَتْلُ عَلِیٍّ بالِحسٰام المصَمَّم

فَلاَ مَهْرَ اَ عْلیٰ منْ علی واِن عَلاٰ

ولاٰ قَتْلَ اِلاّٰ دُوْنَ قَتْلِ ابن مُلْجَم(۲)

میں نے آج ایسا مہر تک نہیں دیکھا جسے کوئی اہل کرم ادا کرے چاہے وہ عرب ہو یا عجم مثل مہرقطام کے تین ہزار درہم ،ایک غلام ، ایک کنیز اور تیز تلوار سے علی بن ابی طالب کا قتل اور کوئی بھی مہر علی علیہ السلام سے زیادہ قیمتی نہیں ہے اگرچہ کتنا ہی قیمتی کیوں نہ ہو اور کوئی بھی جرم ابن ملجم کے جرم سے زیادہ بدتر نہ ہوگا۔ قطامہ نے کہا: میں اپنے قبیلے سے کچھ لوگوں کو تیر ے ہمراہ کروں گی تاکہ اس کام میں تیری مدد کریں اور پھر اس نے یہی کا م کیا اور کوفہ کے خارجیوں میں ایک شخص کو جس کا نام وردان بن مجالد تھا اسی ''تیم الرباب'' قبیلے کا رہنے والا تھا اس کے ہمراہ کردیا۔ابن ملجم جس کا ارادہ حضر ت علی علیہ السلام کو قتل کرنے کا تھا اس نے خوارج میں شبیب بن بجرہ سے جو اشبحع قبیلہ کا تھا ملاقات کی اور اس سے کہا کہ کیا دنیا اور آخرت کا شرف چاہتے ہو؟ اس نے پوچھا :تمھارا مقصد کیا ہے؟ اس نے کہا: علی بن ابیطالب کے قتل کرنے میں میر ی مدد کرو۔ شبیب نے کہا: تیری ماںتیرے غم میں بیٹھے، کیا تو پیغمبر کے زمانے میں علی کی خدمتوں اور ان کی فداکاریوں سے بے خبر ہے؟ابن ملجم نے کہا: تجھ پر وائے ہو ، کیا تو نہیں جانتا کہ علی ـخدا کے کلام میں لوگوں کی حکمیت کے قائل ہوئے ہیں اور ہمارے نمازی بھائیوں کو قتل کردیاہے؟ اس لئے اپنے دینی بھائیوں کا انتقام لینے کے لئے ہم انہیں ضرور قتل کریں گے(۳) ۔شبیب نے قبول کر لیا اور ابن ملجم نے تلوار آمادہ کی اور اسے مہلک زہر میں بجھایا اور پھر وعدہ کے مطابق وقت معین پر مسجد کو فہ آیا۔ان دونوں نے ۱۳رمضان جمعہ کے دن قطام

_______________________________

(۱)الاخبار الطوال ص۲۱۴۔----(۲)کشف الغمہ ج۱،ص۵۸۲۔ مقاتل الطالبین ص۳۷، مسعودی نے مروج الذہب(ج۲،ص۴۲۴ ) میں آخری دوشعر کو ابن ملجم سے نسبت دیا ہے۔-----(۳) کشف الغمہ ج۱، ص ۵۷۱۔

۷۶۷

سے ملاقات کی جب کہ وہ حالت اعتکاف میں تھی اس نے دونوں سے کہا کہ مجاشع بن وردان بن علقمہ بھی چاہتا ہے کہ تم لوگوں کی مدد کرے ۔ جب کام کے انجام دینے کا وقت آیا تو قطامہ نے ان کے سروں کو ریشمی رومال سے باندھا اور تینوں نے اپنی اپنی تلواریں ہاتھ میں لیں اور رات کو جو لوگ مسجد میں تھے انہیں کے ساتھ بسر کی اور مسجد کے ایک دروازے کے سامنے بیٹھ گئے جو باب السدہ کے نام سے مشہور ہے۔(۱)

شب شہادت امام علیہ السلام

امام علیہ السلام اس سا ل ماہ رمضان میں مسلسل اپنی شہادت کی خبر دے رہے تھے۔ یہاں تک کہ ماہ رمضان کے وسط میں جب آپ منبر پر تشریف فرما تھے تو آپ نے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا: شقی ترین شخص ان بالوں کو میر ے سر کے خون سے رنگین کرے گا ۔اسی طرح آپ نے فرمایا:

ماہ رمضا ن آگیا ہے ، یہ تمام مہینوں کا سردار ہے۔ اس مہینے میں حکومت کے حالات بد ل جائیں گے،آگا ہ ہوجاؤ کہ تم اس سال ایک ہی صف میں (بغیرامیرکے) حج کروگے اور اس کی علامت یہ ہے کہ میں تم لوگوں کے درمیان نہیں رہوں گا(۲) ۔

آپ کے اصحاب کہہ رہے تھے: وہ اس کلام کے ذریعے اپنی موت کی خبر دے رہے ہیں لیکن ہم نہیں سمجھ پا رہے ہیں(۳)

اسی وجہ سے حضرت اپنی عمر کے آخر ی دنوں میں روزانہ رات کو اپنی اولاد میں سے کسی ایک کے گھر جاتے تھے،کسی رات امام حسن علیہ السلام کے پاس تو کسی رات امام حسین علیہ السلا م کے گھر اور کسی رات اپنے داماد عبد اللہ بن جعفر ،جناب ِ زینب کے شوہرکے گھر افطار کرتے تھے اورتین لقموں سے زیادہ کھانا نہیں کھاتے تھے۔ آپ کے بیٹوں میں سے ایک بیٹے نے کم کھانے کا سبب پوچھا تو امام نے فرمایا: خدا کا

_______________________________

(۱) مروج الذہب ج ۲، ص ۴۲۴۔ تاریخ طبری ۶، ص۸۳ ۔ شرح نہج البلا غہ ابن ابی لحدید ج۶،ص۱۱۵ ۔ کامل ابن اثیرج ۳،ص۱۹۵۔ مقا تل اطالبین ص۲۳۔ البدایة والنھایةج۷،ص۳۲۵۔ الا ستیعاب ج ۲،ص۲۸۲۔ روضة الواعظین ج۱، ص۱۶۱۔

(۲)،(۳) ارشاد مفید ص۱۵۱ (مطبوعہ اسلامیہ)۔ روضة الواعظین ج۱،ص۱۶۳۔

۷۶۸

فرمان آرہا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ میر ا پیٹ خالی، ہوایک یاد و رات سے زیادہ باقی نہیں اسی رات آپ کے سر پر ضربت لگی۔(۱) شہادت کی رات آپ افطار کے لیے اپنی بیٹی ام ِ کلثوم کے مہمان تھے ،افطار کے وقت آپ نے تین لقمہ غذا تناول فرمائی اور پھر عباد ت میں مشغول ہوگئے اور شا م سے صبح تک بہت ہی مضطرب اور بے چین تھے ۔کبھی آسمان کی طرف دیکھتے اور ستاروں کی گردش کو دیکھتے ،اور طلوع فجر جتنا نزدیک ہوتا اضطراب اور بے چینی میں اتنا ہی اضافہ ہوتا تھا اور فرماتے تھے: خدا کی قسم ، نہ میں جھوٹ بول رہا ہوں اور نہ جس نے مجھے خبر دی ہے اس نے جھوٹ کہا ہے یہی وہ رات ہے کہ جس میں مجھے شہادت کا وعدہ دیا گیا ہے۔(۲)

یہ وعدہ پیغمبر نے آپ کو دیا تھا۔ علی علیہ السلام خود نقل کرتے ہیں کہ پیغمبرنے رمضان المبارک کی اہمیت و فضلیت کے بارے میں جوخطبہ ارشاد فرمایا اور پھر آخر ی خطبہ میںرونے لگے میں نے عرض کیا یا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !آپ کیوں رو رہے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: اس مہینے میں جو تمھارے ساتھ پیش آئے گااسی کے بارے میں رو رہا ہوں :

''کأنِّیِ بِکَ وأنتَ تُصَلّی لرَ بَّکَ وَقد انبَعثَ اَشقَی الاولین والا خرِینَ شقیقُ عٰاقِرناقَةِ ثَموُدَفَضَربَکَ ضَربَةً عَلیٰ فَرْ قِکَ فَخضَّبَ منِه ا لْحیتَکَ (۳)

یعنی گویامیں دیکھ رہا ہوں کہ تم نماز میںمشغو ل ہو اور دنیا کا سب سے شقی اور بد بخت ترین آدمی ناقہ ٔ ثمود کے مارنے کی طرح کھڑا ہوگا اور تمہارے سر پر ضربت مارے گا اور تمھاری داڑھی کو خون سے رنگین کرے گا ۔

بالآخر کرب اور بے چینی کی رات ختم ہوئی اور علی علیہ السلام سحر کی تاریکی میں نماز صبح ادا کرنے کے لئے مسجد کی طرف گئے چلے ،گھر میں جو مرغابیاں پلی تھیں انہوں نے راستہ روکا اور لبا س سے لپٹ گئیں۔

_______________________________

(۱) ارشاد: ص ۱۵۱۔ روضة الواعظین: ج۱ ص۱۶۴۔ کشف لغم:ہ ج ۱، ص۵۸۱۔

(۲) روضہ الواغطین: ج۱، ص۱۶۴۔

(۳) عیون اخبار الرضا: ج۱ص۲۹۷(مطبوعہ قم)۔

۷۶۹

بعض لوگوں نے چاہا کہ ان سب کو دور کر دیں مگر آ پ نے فرمایا:''دَعُوْ هُنَّ فَاِ نَّهُنَّ صَوایحُٔ ا تَتْبَعُهٰا نَوایِحُ '' یعنی انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو کہ وہ فریا د کر رہی ہیں اور اس کے بعد مسلسل نوحہ و بکا کریں گی۔(۱) امام حسن علیہ السلام نے کہا: بابا: یہ کیسا فال ِ بد بیان کر رہے ہیں؟ فرما یا: اے بیٹا! یہ فالِ بد نہیں کہہ رہا ہوں میرا دل کہہ رہا ہے کہ میں قتل کیا جاؤںگا(۲) ام کلثوم امام علیہ السلام کی گفتگو سن کر مضطرب ہوگئیں اور عرض کیا کہ حکم دے دیجیۓ کہ جعدہ مسجد میں جائیں اور نماز جماعت پڑھا ئیں ۔

حضرت نے فرمایا: قضائے الہی سے بھاگا نہیں جاسکتا پھر آپ نے کمر کے پٹکے کو مضبوطی سے باندھا، اور یہ دو شعر پڑھتے ہوئے مسجد کی طرف روانہ ہوگئے:

اُشْدُدْ حَیازِ یْمِکَ لِلْموَتِ

فَانَّ الْموَتَ لاٰ قِیْکاٰ

وَ لاٰ تَجزَع مِن َ الموتِ

اذِاَ حَلَّ بِوَادِیْکاٰ(۳)

اپنی کمر کو مو ت کے لئے محکم باندھ لو کیو نکہ موت تم سے ضرور ملاقات کرے گی اور جب موت تمھار ے قریب آئے تو اس سے فریاد و چیخ و پکار نہ کرو۔امام علیہ السلام مسجدمیں داخل ہوئے اور نماز کے لئے کھڑے ہوئے اور تکبیر ة الاحرام اور پھر قرأت کے بعد سجدے میں گئے ۔اس وقت ابن ملجم نے زہر میں بجھی ہوئی تلوار آپ کے سرِ مبارک پر ماری اس حال میں کہ بلند آواز سے کہہ رہا تھا:''للّٰهِ الحکم لاٰ لَکَ یا علی'' ۔ اتفاق سے یہ ضربت بھی اسی جگہ لگی جہاں پہلے عمر وبن عبدود نے تلوار ماری تھی،(۴) آ پ کا سرِمبارک پیشانی تک پارہ ہوگیا ۔مرحوم شیخ طوسی نے اپنی کتاب امالی میں ایک حدیث امام رضا علیہ السلام سے اور آپ نے اپنے

_______________________________

(۱) تاریخ یعقوبی: ج ۲، ص۲۱۲۔ ارشاد: ص ۶۵۲ ۔ روضة الوعظین: ج۱، ص۱۶۵۔ مروج الذہب ج۲، ص۴۲۵۔

(۲) کشف الغمہ: ج۱،ص۵۸۴۔-----(۳)۔ مروج الذہب: ج۲،ص۴۲۹۔ مقاتل الطالبین ص۳۱۔

(۴) کشف الغمہ ج۱، ص ۵۸۴۔

۷۷۰

والد گرامی سے انہوں نے اپنے آباء طاہرین سے اورانہوں نے امام زین العابدین ـ سے نقل کیا ہے:

جب امام علیہ السلام سجدے میں تھے تو ابن ملجم نے آپ کے سرا قدس پر تلوار سے ضربت لگائی(۱) شیعوں کے مشہور و معروف مفسر ابو الفتوح رازی اپنی تفسیر میں نقل کرتے ہیں کہ جب ابن ملجم نے ضربت ماری اس وقت حضرت علی علیہ السلام پہلی رکعت میں تھے اور آپ نے سورہ انبیاء کی ۱۱ آیتیں تلاوت کی تھیں۔(۲)

اہل سنت کے مشہور عالم سبط ابن جوزی لکھتے ہیں جس وقت اما م علیہ السلام محراب ِعبادت میں آئے تو چندلوگوں نے ان پر حملہ کیا اور ابن ملجم نے آپ کے سر پر ضربت ماری(۳) فوراً اپنے ساتھیوں کے ساتھ بھاگ گیا۔

علی علیہ السلام کے سر سے محراب میں خون جاری ہوگیا اورآپ کی داڑھی کو رنگین کر دیا۔ اس وقت حضرت نے فرمایا:''فُزتُ وربِّ الکعبةَ'' رب ِ کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔ پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی۔''مِنْهٰا خَلَقْنٰاکُم و فِیهٰا نُعِیْدُ کمْ و مِنْهٰا نُخْرِجُکُمْ تَارَةً اُخْری ''۔(۴)

جب علی علیہ السلام کے سر پر ضربت لگی توفریاد بلند کی: اسے پکڑ لو ،لوگ ابن ملجم کو پکڑنے کے لئے دوڑے اور کوئی بھی اس کے قریب نہیں جاتا تھا مگر یہ کہ اس کو اپنی تلوار سے مارتاتھا پھرقثم بن عباس آگے بڑھے اور اسے اپنی اٹھاکر زمین پر پٹخ دیا

جب اسے علی علیہ السلام کے پا س لے کر آئے تو حضرت نے کہا ابن ملجم ؟ اس نے کہا ،ہاں۔ جب حضرت نے اپنے قاتل کوپہچانا اپنے فرزند وقت امام حسن علیہ السلام سے فرمایا :

''اپنے دشمن کا خیا ل رکھے، اس کاشکم سیر کرو اور اسکی رسیوںکو مضبوط باند ھ دو، اگر میں مر گیا تو

_______________________________

(۱) بحار الانوارج۹ص۶۵۰بحوالہ امالی(مطبوعہ قدیم)

(۲) تفسیر ابو الفتوح رازی ج۴، ص۴۲۵۔

(۳) تذکرة الخواص: ص۱۷۷(مطبوعہ نجف)۔

(۴) سورة طٰہٰ آیت ۵۵۔ہم نے تم لوگوں کو مٹی سے پیدا کیا اور پھر اسی میں واپس کردیں گے اور پھر دوبارہ اسی میں سے تم کو اٹھائیں گے۔

۷۷۱

اسے میرے پاس بھیج دینا تاکہ خدا کے پاس اس سے احتجاج کروں اور اگر زندہ بچ گیا تو اسے بخش دونگا یااپنا قصاص لوںگا۔(۱)

حسنین نے بنی ہاشم کے ہمراہ علی علیہ السلام کوکمبل میں رکھا اور گھر لے گئے ۔پھر دوبارہ ابن ملجم کو آپ کے پاس لائے، اما م علیہ السلام نے اسے دیکھا اور فرمایا: اگر میں مر گیا تو اسے قتل کردینا جس طرح اس نے مجھے قتل کیا ہے اور اگر میں بچ گیا تو پھر میں دیکھوں گا کہ اس کے بارے میں میرا کیا نظریہ ہے، ابن ملجم نے کہا: میں نے اس تلوار کو ایک ہزار درہم میں خریدا ہے اور ایک ہزار درہم کے زہر میں اسے بجھایا ہے اس نے میرے ساتھ خیانت کی تو خدا اسے نابود کر دے۔(۲)

ام کلثوم نے اس سے کہا: اے دشمنِ خدا تونے امیر المومنین کو قتل کردیا؟ اس ملعون نے کہا :امیر المومنین کو قتل نہیں کیاہے بلکہ تمھارے باپ کو قتل کیا ہے ۔

امِ کلثوم نے کہا: امید ہے کہ انشاء اللہ حضرت کو اس زخم سے شفا ملے گی ۔ابن ملجم نے بے حیائی سے کہا: میں دیکھ رہا ہوں کہ تم ان پر رؤگی واللہ میں نے ایسی ضربت ماری ہے کہ اگر اسے اہل زمین پر تقسیم کریں تو سب ہلاک ہوجائیں گے ۔(۳) ۔

حضرت کے لئے تھوڑا سا دودھ لایا گیا آپ نے تھوڑا سا دودھ پیا اور فرمایا اپنے قیدی کو بھی اس دودھ سے تھوڑا سا دے دواور اسے اذیت نہ دو۔

جس وقت امام علیہ السلام کو ضربت لگی اس وقت کوفہ کے تمام طبیب آپ کے پاس جمع ہوگئے ۔ ان لوگوں کے درمیان سب سے ماہر اثیر بن عمرو تھا جو زخموں کا علاج کرتا تھا۔ جب اس نے زخم دیکھا تو حکم دیا کہ گوسفند کا پھیپھڑا جو ابھی گرم ہو (تازہ ہو) لایا جائے اور پھر اس نے پھیپھڑے میں سے ایک رگ نکالی اور زخم پر رکھا اور جب اسے باہر نکالا تو کہا :یا علی! اپنی وصیتیں بیان کیجیۓ ،کیونکہ ضربت کا زخم دماغ تک

_______________________________

(۱) تاریخ یعقوبی ج۲،ص۲۱۲۔

(۲) کشف الغمہ ج۱،ص۵۸۶۔ تاریخ یعقوبی :ج۶، ص۱۸۵۔

(۴) مقاتل الطالبین :ص ۳۶۔ الاخبارالطوال :ص ۲۱۴۔ طبقات ابن سعد: ج۲، ص۲۴۔ کامل ابن اثیر:ج ۳، ص۱۶۹ تاریخ طبری: ج،۶ص۸۵ ۔ عقد الفرید: ج۴، ص ۳۵۹۔ کشف الغمہ: ج۱، ص۵۸۶۔

۷۷۲

پہونچ گیا ہے علاج سے کوئی فائدہ نہیں ہے اس وقت اما م علیہ السلام نے کاغذ اور دوات منگایا اور اپنی وصیت میں اپنے دونوں بیٹوں حسن و حسین کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا یہ وصیت اگرچہ حسنین سے کی ہے مگر حقیقت میں یہ تمام انسانو ں کے لئے رہتی دنیا تک ہے۔ اس وصیت کو بعض محدثین اور مورخین نے جو سید رضی سے پہلے اور ان کے بعد میں گزرے ہیں سند کے ساتھ نقل کیاہے۔(۱) لیکن اصل وصیت اس سے زیادہ ہے جسے مرحوم سید رضی نے نہج البلاغہ میںتحریر کیا ہے۔ اس میں سے کچھ حصہ تحریر کررہے ہیں:

''اُو صیکما بتقوی َ الله واَن لاٰ تبغیا الدُّنْیٰا وانِ بَغتْکَمٰا ولاٰ تأ سفا عَلیٰ شیئٍ مِنْهاَ زُویَ عَنْکُماٰ و قُوْلاٰ بِا لحقِّ وَاعْملاٰ للأجرِ وکُو نٰا لِلظَّا لم خَصْما و للمظلومِ عَوْناً ۔''

'' میں تم دونوں کو وصیت کرتا ہوں کہ تقوائے الہی اختیار کئے رہنا اور دنیا تمھاری کتنی ہی طلب گار ہو تم دنیا کے طلب گار نہ بننا اور دنیا کی جس چیز سے تمھیں محروم کردیا جائے اس کا غم نہ کھانا،جو کہو حق کی حمایت میں کہواور جوعمل کرو اجر الہی کیلئے کرو ،ظالم کے مخالف او ر مظلوم کے مدد گار رہو''۔

اُ وْصیکمٰا و جَمیعَ وَلَدِیْ وَ اهْلِی وَمَنْ بلغه کتا بی بتقویَ اللّٰهِ ونَظْمِ اَمْرِ کُمْ وَ صَلاحِ ذاتِ بَیْنِکُمْ، فاِنّی سَمِعْتُ جَدَّ کُمْ صلی اللّٰه علیه وآله وسلم یَقَوْلَ'' صَلاحُ ذاتِ البَین اَفْضلُ مِنْ عَا مَّةِ الصَّلاة و الصِّیام'' ۔

''میں تم دونوں کو اور اپنی تمام اولاد کو اور اپنے کنبہ کواور جس کے پاس بھی یہ میری تحریر پہونچے وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کا تقوی اختیار کریں ، اپنے ہر کام میں نظم (وضبط) کا خیال رکھیں اور باہمی تعلقات درست رکھیںکیونکہ میں نے تمھارے نانا حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ لوگوں کے درمیان اصلاح کرنا ایک سال نماز روزے سے افضل ہے''۔

''اللّٰه اللّٰه فیِ الا یتَام فَلاَ تَغِبُّواأفواهَهُمْ ولاٰ یضیْعوُا بحَضْرَ تِکُم.ْ واللّٰه اللّٰه فِیْ جِیْرانِکُمْ فَانِّهم وَصِیَّةُ نَبِیِّکُمْ. مَا زَاَل َیوصِیْ بِهِمْ حَتّٰی ظَنَنّٰا أ نَّه سَیُوَرِّ ثُهُمْ''

_______________________________

(۱)ابو حاتم سجستانی ،المعمرون و الوصایا : ص۱۴۹ ۔تاریخ طبری :ج۶ ص۸۵ ۔تحف العقول:ص۱۹۷۔من لا یحضرہ الفقیہ :ج۴ ص۱۴۱۔کافی :ج۷ :۵۱۔مروج الذھب (ج۲ ص۴۲۵ میں اس کا کچھ حصہ نقل کیا گیا ہے ۔مقابل الطالبین :ص۳۸

۷۷۳

''دیکھو !یتیموں کے بارے میں اللہ کو یاد رکھو ایسا نہ ہو کہ انہیں فاقہ کرنا پڑیاور نہ ایسا ہونے پائے کہ وہ تمھارے سامنے (کسمپری کی حالت میں ) ضا ئع ہوجائیں اور خدا سے ڈرتے ہوئے اپنے پڑوسیوں (کے حقوق)کا خیال رکھنا،کیونکہ وہ تمھارے نبی کی وصیت (کے مصداق) ہیں ،آپ برابر ان کے بارے میں وصیت و نصیحت فرماتے رہے یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوا کہ آپ انھیں حق وراثت بھی عطا کرنے والے ہیں''۔

''وَاللّٰه اللّٰه فِیْ الْقُرانِ لاٰ یَسبقُکُمْ با لْعَمَل به غَیْرُ کُمْ.وَاللّٰه اللّٰه فِیْ الصَّلاةِ فَانَّها عَمُوْدُ دِیْنِکُمْوَاللّٰه اللّٰه فِیْ بیْتِ رَبِّکُمْ لاٰ تَخَلُّوْهُ مٰا بَقیِتُمْ فَاِنَّه اِن تُرِکَ لَمْ تُناظَرُوْا'' ۔

''اور دیکھو قرآن کے بارے میں خدا کو نہ بھولنا ،ایسا نہ ہوکہ اور لوگ اس (کے احکام) پر عمل کرنے میں تم سے آگے نکل جائیں۔ نماز کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو کیو نکہ یہ تمھارے دین کا ستون ہے ۔ اور خدا را اپنے پرودگار کے گھر کو جب تک جیتے رہو خالی نہ چھوڑنا کیو نکہ اگر اسے چھوڑ دیا گیا توتمہیں مھلت نہیں ملے گی اور بلا میں گرفتار ہو جائو گے''۔

''وَاللّٰه اللّٰه فِی الجهادِ بأ مْوَ الکُم وَانفسِکُم وَالسنتکم فی سَبیلِ اللّٰه وعَلَیکُم بالتّواصُل والتبٰاذُلِ وَایّاکُم وَالتّدابُرو التَّقاطُع، لاٰ تَتْرُکُوا الأمْرَ بِالمعُروفِ والنِّهی عَنِ المنکر فَیُوَ لیّٰ عَلَیْکُمْ شِرَارُ کُمْ ثمَّ تَدْعُوْنَ فَلاٰیُستجٰابُ لَکُمْ''

''اور خدا کی راہ میں مال، جان اور زبان سے جہاد کرنے کے بارے میں خدا کو یاد رکھنا۔ باہمی تعلقات کو استوار رکھنا اور آپس کی داد و دہش میں فرق نہ آنے دینا اور خبر دار نہ ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرنا، نہ ایک دوسرے سے الگ رہنا ۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک نہ کرنا ورنہ بد کردار لوگ تم پر مسلط کر دئیے جائیںگے پھر دعائیں بھی مانگو گے تو قبول نہ ہونگی۔

پھر ارشاد فرمایا:

اے اولادِعبد المطلب! خبردار ایسا ہرگز نہ ہونے پائے کہ(میر ے قتل کا بدلہ لینے کے لئے )تم مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے لگو '' امیر المومنین قتل کر دئے گئے ''

۷۷۴

''ألاٰ لاٰ تَقتُلُنَّ بَیْ اِ لا قَا تِلیْ، اُنْظُرُوْ اِذَا أنَامِتُّ مِنْ ضَربَتِهِ هٰذهِ فَا ضْرِبُوْهُ ضَرْبَةً بِضَرْبة، وَلاٰ تُمَثّلُوْا بِالرّجُلٍ فَاِنِّی سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰه صلی اللّٰه علیه وآله وسلم ، یَقْولُ''اِیاکُمْ و المُثلَةَ وَ لَوْ بِالْکلْبِ الْعَقُوْرِ'' ۔(۱)

''یاد رہے کہ میرے قصاص کے طور پر صرف میرے قاتل کو ہی قتل کرنا ، اس کی ضربت سے اگر میری موت واقع ہوجائے تو قاتل کو ایک ضربت کے بدلے ایک ہی ضربت لگانا اور (دیکھو) اس شخص کی لاش مثلہ نہ کی جائے(ناک ،کان اور اس کے دوسرے اعضاء نہ کاٹے جائیں) کیونکہ میں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوفرماتے ہوئے سنا ہے کہ ''خبردار کسی کی لاش کو مثلہ نہ کرنا اگر چہ کاٹنے والا کتا ہی کیوں نہ ہو''

امام علیہ السلام کے بیٹے خاموش بیٹھے ہوئے تھے ، اس حال میں بابا کا غم ان کے پورے وجود پر چھایا ہوا اور حضرت کی دلکش اور روح پرور گفتگو کو سن رہے تھے،امام علیہ السلام پروصیت کرتے کرتے غشی طاری ہو گئی اور جب دوبارہ آنکھ کھولی تو فرمایا: اے حسن!میں تم سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں، آج کی رات میری عمر کی آخری رات ہے، جب میرا انتقال ہوجائے تو مجھے اپنے ہاتھوں سے غسل دینا او ر کفن پہنانا اور تم خود میرے کفن و دفن کا انتظام کرنا اور میری نماز جنازہ پڑھانا اور رات کی تاریکی میں شہر کو فہ سے دور پوشیدہ طور پرمجھے دفن کرنا تا کہ کسی کو اس کی خبر نہ ہونے پائے۔

علی علیہ السلام دو دن زندہ تھے اور۲۱ رمضان شب جمعہ کو ( ۴۰ ہجری کے ماہ رمضان کی اکیسویں تاریخ کی شب میں)۶۳ سال کی عمر میں شہید ہوگئے۔ آپ کے فرزند امام حسن علیہ السلام نے آپ کو اپنے ہاتھ سے غسل دیااور نماز جنازہ پڑھائی اور نماز میں سات تکبیریں کہیں او ر پھر فرمایا''اماانّها لاٰ تُکَبّرُ علیٰ احدٍ بعده'' یعنی جان لو کہ علی علیہ السلام کے جنازہ کے بعد کسی بھی شخص کے جنازے پر سات تکبیریں نہیں کہی جائیں گی، علی علیہ السلام کو فہ میں ''غری'' (موجودہ نجف اشرف) نامی جگہ دفن ہوئے، آپ کی خلافت کا زمانہ چار سال اور دس مہینے تھا۔(۲)

_______________________________

(۱) نہج البلاغہ مکتوب نمبر ۴۷۔

(۲) مناقب آل ابی طالب :ج۳، ص۳۱۳۔ تذکرة الخواص: ص۱۱۲ ۔ تاریخ یعقوبی: ج ۲،ص۲۱۳۔

۷۷۵

حضرت علی علیہ السلام کا غم

امام علیہ السلام کی شہادت کے بعد حسن بن علی علیہ السلام نے خطبہ ارشاد فرمایا اورخدا کی حمد و ثنا اورپیغمبر خدا (ص)پر دورد بھیجنے کے بعد فرمایا:''ألاٰ انّه قد مضیٰ فی هٰذهِ اللیلة رجل لم یدرکْه الأولون ولن یری مثله الآ خرون. من کان یقاتل وجبرئیل عن یمینه و میکائیل عن شمٰاله والله لقد تُو فّی فی اللیله الّتی قبض فیها موسی بن عمران و رفع فیها عیسی بن مریم وانزل القرآن. الا وانّه مٰا خلف صفراء ولاٰ بیضاء الاسبعما ئة درهمٍ فضّلت من عطائه أراد ان یبتاع بهٰا خادماً لا هله'' (۱)

آج کی رات وہ شخص (اس دنیا سے)گزر گیا جس کی حقیقت تک پہلے والے بھی نہ پہونچے تھے اور آئندہ آنے والے بھی ہرگز اس کے جیسا نہیں دیکھ پائیں گے ، یہ وہ شخص تھا کہ جب بھی جنگ کرتاتھا تو اس کے داہنی طرف جبرئیل اور بائیں طرف میکائیل رہتے تھے ۔خدا کی قسم''اسی رات آپ کی شہادت ہوئی جس رات میں موسیٰ بن عمران کی وفات ہوئی تھی اور عیسیٰ بن مریم آسمان پر اٹھائے گئے تھے اور قرآن نازل ہوا تھا اور جان لو کہ اس نے زر و سیم(مال) نہیں چھوڑے ہیں مگر سات سودرہم جو ان کے حساب میں بچا ہواتھا اور اس سے آپ اپنے گھر کے لئے ایک خادم خریدنا چاہے تھے۔پھر قعقاع بن زرارہ اٹھے اور کہا:''رضوانُ اللّه ِعلیک یا امیر المومنین. فوالله لقد کانت حیاتُک مفتاح خیر، ولو انَّ الناس قبلوک لا کلو امن فِو قهم و من تحت ارجلهم وَلکِنَّهُم غمطوا النّعمةو آثروا الد نیا علی الآخرة'' ۔(۲)

''اے میر المومنین آپ پر خدا کی رحمتیں اور برکتیں ہوں، خدا کی قسم آپ کی زندگی ہر اچھا ئی کی کنجی تھی اگر لوگ آپ کو مانتے تو اپنے سروں کے اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے کھاتے اور خدا کی نعمتیں ان کے شامل حال ہوتیں ، لیکن ان لوگوں نے نعمت کی ناشکری کی اوردنیا کو آخرت پر ترجیح دی۔ابو الاسود دوئلی نے حضرت علی علیہ السلام کی شہادت یہ مرثیہ کہا ہے:

ألا ابلغ معاویة بن حربٍ

فلا قرّت عیون الشامتیٰنا

أفی شهر الصّیامِ فجعتمونا

بخیرٍ الناس طرّا اجمعینٰا؟

_______________________________

(۱) تاریخ یعقوبی ج ۲، ص۲۱۳۔-----(۲) تاریخ یعقوبی: ج۲،ص۲۱۳۔

۷۷۶

قتلتم خیر من رکب المطایا

وذلّلهٰا ومن رکب السّفینٰا

ومن لبس النّعال من حذاها

ومن قرء المثانی و المبینٰا

اذاستقبلت وجه ابی حسین

رایت النّور فوق النّاظرینا

لقد علمت قریش حیث کانت

بانّک خیر هم حسباًو دیناً(۱)

معاویہ بن حرب سے کہوکہ شماتت کرنے والوں کی آنکھیں روشن نہ ہوں ، تم نے رمضان کے مقدس مہینے میں ہمیں تمام لوگوں سے افضل شخص کے سوگ میں بٹھا دیا؟ تم ایسے بہترین انسان کو قتل کردیا، توجو سواریوں پر سوار ہوا اور انہیں مسخر کیا،وہ بہترین شخص جس نے پیر میں نعلین پہنی اور بہترین شخص جس نے آیات مثانیٰ اور قرآن کو پڑھا، اگر تم حسین کے بابا کے چہرے کو دیکھو تو اس کی روشنی و نورانیت کا مشاہدہ کرو گے جو تما م دیکھنے والوں کے اوپر پرتوا فگن ہے، اے علی! قریش جہاں بھی ہوں انہیں اس بات کا علم ہے کہ آپ حسب و نسب اور دین میں ان لوگوں سے بہتر ہیں۔جن جن لوگوں نے اما م کی شان میں مرثیہ کہا انھیں میں سے صعصعہ بن صوحان بھی ہیں جو بلاغت اور حاضر جوابی میں مشہور تھے۔ انہوں نے امیر المومنین علیہ السلام کے غم میں کہا :اے امیر المومنین میر ے ماں باپ آپ پر قربان اور آپ کو مبارک ہوں (الہی کرامتیں)طاہر الولادة ، صابراور مجاہد تھے ، جوتمنا رکھتے تھے آپ نے اسے حاصل کرلیا اور خدا سے بہترین معاملہ کیا اور اس کی بارگاہ میں چلے گئے اور اس نے آپ کو خوشی سے قبول کیا اور آپ پر ملائکہ نازل ہوئے اورحضرت پیغمبر (ص) کے جوار میں سکونت اختیار کی اور خدا وند عالم نے آپ کو ان کا جوار عطا کیا اور آپ کو اس منزل پر فائز کیا جس پر پیغمبر(ص) فائز تھے اور اپنے جام سے سیراب کیا۔اپنے خدا سے (کہ جس نے آپ کی پیروی کرنے کا ہم پر احسان کیا او ر توفیق عطا کی کہ آپ کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کریں اورآپ کے دوستوں کے دوست رہیں اور آپ کے دشمنوں کے دشمن رہیں) دعا کرتے ہیں

_______________________________

(۱) مروج الذہب: ج۲، ص۴۲۸۔ تاریخ طبری: ج ۴، ص۱۱۶۔ کامل ابن اثیر:ج ۳، ص۳۹۴۔ اغانی :ج ۱۱،ص۱۲۲۔

۷۷۷

کہ ہم لوگوں کو آپ کے ساتھ محشور کرے کیونکہ آپ اس منزل پر پہونچے ہیں کہ آپ مقاتل الطالبین :ص۴۳۔ میں ابولفرج اصفہانی نے ان اشعار کی جو ۲۱ بیت کا مرثیہ ہے الھیثم بنت الاسود کی طرف نسبت دی ہے۔

سے پہلے کوئی اس منزل پر نہیں پہونچا اور ایسا مرتبہ آپ کو ملا ہے کہ آپ سے پہلے یہ مرتبہ کسی کو نہیں ملا ،آپ نے خدا کی راہ میں پیغمبر( ص) کے ہمراہ بہترین صورت سے جہادکیا اور دین خدا کو مستحکم کیا اور سنت پیغمبر کو استحکام بخشا اور فتنہ و فسا د کو ختم کر دیا اور آپ کی وجہ سے اسلام پایدار (ذی مرتبہ) ہوگیا اور دین آپ کی وجہ سے منظم ہوگیا اور ایسے فضائل آپ کو ملے جو آپ کے علاوہ کسی کو نہ ملے، سب سے پہلے پیغمبر( ص) کی دعوت کو قبو ل کیا اور ان کی اطاعت و پیروی کو ہر چیز پر مقدم کیا اور ان کی مدد کرنے میں سب سے آگے رہے اور اپنی جان پر کھیل کر خدا کی راہ میں جہاد کیااور اپنی تلوار کو انکی مدد کرنے کے لئے نیام سے باہر نکالا اور بڑے سے بڑے ستمگر کو آپ نے شکست دیدی اور ہر کافر آپ کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہوا، کفر و شرک اور ظلم کو آپ نے جڑ سے اُکھاڑ دیا اور گمراہوں اور نافرمانوں کوہلاک کر دیا۔ پس مبارک ہو آپ کو اے امیر المومنین کہ خدا نے آپ کو ایسے فضائل و کمالات نصیب کئے۔ آپ پیغمبر( ص) کے سب سے زیادہ قریب تھے اور سب سے پہلے ایمان لائے اور علم و فہم میں سب سے اعلیٰ اور یقین میں کامل تر اور تمام لوگوں سے زیادہ بہادر اور دلیر اور اسلام میں اپ کے کارنامے تمام لوگوں سے زیادہ ہیں۔

۷۷۸

خدا وند عالم ہم لوگوںکو آپ کے اجر سے محروم نہ کرے، کیونکہ آپ خیر و خیرات کی کنجی تھے برائیوں لیکن آپ کی شہادت کی وجہ سے برائیوں کے دروازے ہماری طرف کھل گئے اور نیکیوں کے دورازے بند ہوگئے ۔اگر لوگ آپکی باتوں کو سنتے تو نیکیاں ان کے سروں کے اوپر سے اور ان کے پاؤوں کے نیچے سے جاری ہوتیں لیکن افسو س کہ لوگوں نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی ۔

خوارج اوردوسرے دشمنان اسلام، ابن ملجم کے اس ہولناک ستم پر بہت خوش ہوئے اور اس کے کام کی تعریف و تمجید کی۔ خوارج میں سے ایک شخص عمران بن حطان و قاشی نے ابن قثم کے بارے میں کہا:

یا ضربة من تقی ما اردَ بها

الا لیبلغ من ذی العرش رضوانا

انی لاذکره یوماً فأحسبه

اوفی البریة عنداللّٰه میزاناً

ایک پرہیزگار کی کتنی بہترین ضربت ہے کہ جس کا مقصد رضوان الہی تک پہونچنے کے علاوہ کچھ نہ تھا، میں جب اس کو یاد کر تا ہوں توخیال کرتا ہو ںکہ خدا کے نزدیک اس کے ترازو کا پلہ تمام چیزوں سے زیادہ بھاری ہے ۔

قاضی ابو طیب طاہر بن عبداللہ شافعی نے اس کے جواب میں یہ اشعار کہے:

۷۷۹

یا ضربة من شقی ما آرادبها

انی لا ذکره یوماً فالعنه

علیه ثم علیه الدّهر متصلاً

فانتما من کلاب النّار جاء به

الا لیهدم للاسلام ارکانا

والعن عمراناوحطانا

لعائن اللّٰه اسراراً واعلاناً

نص الشّریعة برهانا وتبیانا(۱)

''اس شقی کی کیسی تباہ کن ضربت تھی کہ جس کا دین کے ستونوں کو ڈھا نے کے علاوہ کوئی مقصد نہ تھا ، میںجس دن اس کو یاد کرتا ہوں تواس پر اور عمران و حطان پر ایک دنیا لعنت بھیجتا ہوں۔اس پر خدا وند عالم کی پوشید ہ اور ظاہری طور پربے شمار لعنتیں ہوں اور تم دونو دوزخ کے کتے ہوکہ اس پر شریعت کی نص شاہد و گواہ''۔

اس طرح سے ایک عظیم المرتبت انسان کی نوارنی اور معنوی زندگی جس کی ولادت کعبہ میں اور شہادت مسجد میں ہوئی،ختم ہوگئی۔ وہ انسان کہ پیغمبراسلام( ص) کے بعد جس کی مثال نہ دنیا نے دیکھی اور نہ دیکھ پائے گی۔ نہ جہاد اور ایثار میں اس کا کوئی نظیر تھا نہ اس کائنات کے اسرار و رموز اور علم میں اس کی کوئی مثال تھی اور نہ دوسرے ہی فضائل میں کوئی آپ جیسا تھا یہاں تک کہ آپ کا وجود شریف ،ایسے متضاد فضائل کا مجموعہ تھا کہ کسی بھی شخص کے اند روہ تمام تمام فضائل جمع نہیں ہو سکتے:

جمعت فی صفاتک الاضداد

فلهذا عزت لک الانداد

زاهد حاکم حلیم شجاع

فاتک ناسک فقیر جواد

_______________________________

(۱)مروج الذھب : ج۲ ص۴۲۷ ۔ عمران بن حطان کے ان دونوں شعروں کے جواب میں بہت سے دوسرے اشعار بھی کہے گئے ہیں ،مسعودی نے اپنی کتاب میں جن کا ذکر کیا ہے ۔

۷۸۰