فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)4%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 368182 / ڈاؤنلوڈ: 6241
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۲

نام کتاب: فروغِ ولایت

(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

تالیف: آیة اللہ جعفر سبحانی

ترجمہ: سید حسین اختر رضوی اعظمی

تطبیق اورتصحیح : مسعود اختر رضوی اعظمی

نظر ثانی: سیدشجاعت حسین رضوی

پیشکش: معاونت فرہنگی ،مجمع جہانی اہل بیت،ادارۂ ترجمہ

ناشر: مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

طبع اول : ۱۴۲۹ھ ۲۰۰۸ ء

تعداد : ۳۰۰۰

مطبع : لیلا

۳

قال رسول اﷲ :

''انی تارک فیکم الثقلین، کتاب اﷲ، وعترتی اهل بیتی ما ان تمسکتم بهما لن تضلّوا ابدا وانهما لن یفترقا حتّیٰ یردا علیّ الحوض'' ۔

حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں:(ایک) کتاب خدا اور (دوسری) میری عترت اہل بیت (علیہم السلام)، اگر تم انھیں اختیار کئے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہوگے، یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں''۔

اس حدیث شریف کومتواتر اور اس سے مشابہ دوسری حدیثوں کو مختلف تعبیروں کے ساتھ شیعہ اور اہل سنت کے مختلف کتابوں میں ذکرکی گئی ہیں۔

(صحیح مسلم: ۱۲۲۷، سنن دارمی: ۴۳۲۲، مسند احمد: ج۳، ۱۴، ۱۷، ۲۶. ۳۶۶۴ و ۳۷۱. ۱۸۲۵اور ۱۸۹، مستدرک حاکم: ۱۰۹۳، ۱۴۸، ۵۳۳. و غیرہ.)

۴

پروردگار عالم کا ارشاد ہے:

( اِنَّمَا یُرِیدُ اللَّهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیْراً )

(سورۂ احزاب : آیت ۳۳)

شیعہ اور اہل سنت کی کتابوں میںرسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بہت سی احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ آیۂ مبارکہ پنجتن پاک کی شان میں نازل ہوئی ہے اور '' اہل بیت'' سے مرادیہی اصحاب کساء ہیں اور وہ : محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، علی ، فاطمہ، حسن و حسین علیہم السلام ہیں۔نمونہ کے طور پر ان کتابوں کی طرف رجوع کریں: مسند احمد بن حنبل(وفات ۲۴۱ھ): ج۱، ص۳۳۱،ج۴،ص۱۰۷، ج۶،ص۲۹۲ و ۴؛ صحیح مسلم (وفات۲۶۱ ھ) ج۷،ص۱۳۰؛ سنن ترمذی (وفات ۲۷۹ھ ):ج۵،ص۳۶۱ و...؛ الذریة الطاہرة النبویة دولابی (وفات: ۳۱۰ ھ ص۱۰۸؛ السنن الکبریٰ نسائی(وفات ۳۰۳ ھ ): ج۵ ،ص۱۰۸ و ۱۱۳؛ المستدرک علی الصحیحین حاکم نیشاپوری(وفات: ۴۰۵ ھ): ج۲، ص ۴۱۶، ج۳،ص۱۳۳و ۱۴۷ و ۱۱۳؛ البرہان زرکشی(وفات ۷۹۴ ھ ) ص۱۹۷؛ فتح الباری شرح صحیح البخاری ابن حجر عسقلانی(وفات ۸۵۲ ھ):ج۷،ص۱۰۴؛ اصول الکافی کلینی(وفات ۳۲۸ ھ ): ج۱،ص ۲۸۷ ؛ الامامة و التبصرة ابن بابویہ (وفات ۳۲۹ ھ): ص۴۷، ح۲۹؛ دعائم الاسلام مغربی(وفات ۳۶۳ ھ):ص۳۵ و ۳۷؛ الخصال شیخ صدوق(وفات ۳۸۱ ھ):ص۴۰۳ و ۵۵۰؛ الامالی شیخ طوسی(وفات ۴۶۰ ھ):ح ۴۳۸،۴۸۲ و ۷۸۳ نیز مندرجہ ذیل کتابوں میں اس آیت کی تفسیر کی طر ف مراجعہ کریں: جامع البیان طبری(وفات۳۱۰ھ) ؛ احکام القرآن جصاص(وفات ۳۷۰ ھ )؛ اسباب النزول واحدی(وفات ۴۶۸ ھ)؛ زاد المسیرابن جوزی(وفات۵۹۷ ھ)؛ الجامع لاحکام القرآن قرطبی(وفات ۶۷۱ ھ)؛ تفسیر ابن کثیر (وفات ۷۷۴ ھ)؛ تفسیر ثعالبی (وفات۸۲۵ ھ)؛ الدر المنثور سیوطی(وفات ۹۱۱ ھ)؛ فتح القدیر شوکانی(وفات ۱۲۵۰ ھ)؛ تفسیر عیاشی(وفات ۳۲۰ ھ)؛ تفسیر قمی(وفات:۳۲۹ ھ)؛ تفسیر فرات کوفی (وفات ۳۵۲ ھ) آیۂ اولوا الامر کے ذیل میں؛ مجمع البیان طبرسی(وفات ۵۶۰ ھ)ان کے علاوہ اور بھی بہت سی دوسری کتابیں ہیں۔

۵

بسم الله الرحمٰن الرحیم

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے منھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کر لیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پر نور ہو جاتے ہیں ، چنانچہ متمدن دنیا سے عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا ،دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و مؤسس سرور کائنات حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمئہ حق و حقیقت سے سیراب کر دیا ،آپ کے تمام الہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا ،اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑ گئیں ،وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ ،ولولہ اورشعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھو دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک چوتھائی صدی سے کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کر لیا۔

اگرچہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت (ع) اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے ،وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہو کر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کر دئی گئی تھی ،پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیرمکتب اہل بیت (ع) نے اپنا چشمئہ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنہوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشت پناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہرقسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے ،خاص طور پر عصر حاضر میں

۶

اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام وقرآن اور مکتب اہل بیت ٪ کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں ،دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت و اقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین و بے تاب ہیں ،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھا کر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا ،وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت (ع) کونسل)مجمع جہانی اہل بیت (ع) نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت (ع) و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہو سکے ،ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت٪ عصمت وطہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدوخال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن ،انانیت کے شکار ،سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن ونجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے لئے استقبال کے لئے تیار کیا جا سکتا ہے ۔

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کومؤلفین ومترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں ،زیر نظر کتاب ،مکتب اہل بیت (ع) کی ترویج و اشاعت کے سلسلے کی ایک کڑی ہے ، آیةاللہ جعفر سبحانی دام ظلہ کی گرانقدر کتاب فروغ ولایت کو فاضل جلیل مولانا سید حسین اختر رضوی اعظمی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ،اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنہوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے ،خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت ،مجمع جہانی اہل بیت (ع)

۷

بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم

مقدمہ

انسانی معاشرہ، تحقیق وجستجو کرنے والوں کی نظر میں ایک ایسے دریا کے مانند ہے جو خاموش اور بغیرآواز کے ہے اور زمانہ گزرنے کی وجہ سے اس کے بعض حصّے خشک ہوگئے ہیں اور اب جبکہ بہت زیادہ عرصہ گزر گیاہے تو ممکن ہے نابود وختم ہوجائے جس چیز نے اس کوخاموش اور بغیر آواز کا دریا باقی رکھا ہے وہ صرف ہوا کے تند اور تیز جھونکے اور تند وضعیف طوفان ہیں طوفان اورہوا کے جھونکے اٹھتے ہیں اور موج بنا کر کشتیوں کی قسمت وتقدیریں معین کرتے ہیں اور اس میں سے بعض موجیں ایسی بھی ہیں جو کشتی کو غرقاب کرکے لوگوں کو موت کی وادی تک پہونچا دیتی ہیں اور بعض موجیں ایسی ہیں جو نجات اور زندگی عطا کرتی ہیں ۔

جی ہاں، عظیم تاریخی شخصیتیں انسانی معاشرے کے لئے وہی بہترین موجیں ہیں جو کبھی کبھی لوگوں کو ہلاکت وبدبختی میں گرفتار کردیتی ہیں اور کبھی کبھی زندگی وسعادت کے لئے ہمیشہ راہنمائی کرتی ہیں ، حقیقتاً خدا وندعالم کی طرف سے معین کئے ہوئے الٰہی نمائندے اور پیغمبر اور پاک وپاکیزہ راہنما وہی بہترین موجیں ہیں جو اپنی بے مثال موج ہدایت کے ذریعے معاشرہ کی کشتی کو اپنی عاقلانہ اورمنطقی تربیت اور لوگوں کو آخرت کی طرف رغبت دلانے یا نجات تک پہونچانے اور ہمیشہ عمدہ زندگی کی طرف راہنمائی کرنے کے لئے انسانی اور الٰہی قوانین کی طرف راغب کرتی ہیں ۔

یہ صاحبان عظمت وشرافت برائیوں اور پلیدگیوں سے خدا کی دی ہوئی طاقت و ہدایت کے ذریعہ ہمیشہ جنگ کرتے رہے اور انسانی معاشرے کو عزت وکرامت جیسی نعمتوں سے نوازتے رہے تاریخ شاہد ہے کہ جہاں پر بھی وحی کا نور چمکا ہے وہاں کے افراد کی فکریں اور عقلیں کھل گئیں ہیں اور انسانیت اور معاشرے میں ترقی کا سبب بنا ہے ۔

۸

پیغمبر اسلام (ص) ایک نور تھے جو انسانوں کے تاریک قلب ودماغ میں چمکے اور اس زمانے کے بدبخت وخبیث معاشرے کو انسانی فرشتوں سے روشناس کرایا اور تہذیب وتمدن کا ایسا تحفہ پیش کیا جو آج تک تمام انسانی قوانین میں سب سے عمدہ اور قیمتی ہے اور ہر شخص اس بات کی تصدیق کرتاہے، اوراگر صرف اور صرف تمام مسلمان اس راستے پرچلتے جو پیغمبر نے اسلامی معاشرے کے لئے معین کیا تھا اور اختلاف وتفرقہ ، تعصب اور خود غرضی سے پرہیز کرتے تو یقین کامل ہے کہ چودہ سو سال گذرجانے کے بعد آج بھی اس تہذیب وتمدن کے مبارک درخت سے بہترین بہترین میوے تناول کرتے ، اور ایسی ظلم و ستم سے دنیا میں اپنی عظمت وبزرگی کے محافظ ہوتے لیکن افسوس اور ہزار افسوس کہ پیغمبر ختمی مرتبتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دردناک رحلت کے بعد جنگ وجدال، خود غرضی اور مقام طلبی نے بعض مسلمانوں پر قبضہ جمالیا تھا جس کی وجہ سے اسلامی اور الٰہی راستے میں زبردست اور خطرناک انحراف پیدا ہوگیا اور اسلام کے سیدھے راستے کو بہت زیادہ نقصان پہونچایا۔

حقیقتاً ، معاشرہ اُن دنوںکس چیز سے راضی نہ تھا ؟ اور کس وجہ سے لوگ ناشکری اور سرکشی اختیار کئے ہوئے تھے؟

جی ہاں ، ان لوگوں کی ناشکری اور ناراضگی ایسے امام کی مخالفت کی وجہ سے تھی کہ جنہیں پیغمبر اسلام (ص) نے مختلف طریقوں اور زاویوں اور مناسبتوں سے پہچنوایا تھا اور نتیجہ یہ ہوا کہ درد ناک اور غم انگیز مخالفتیں اور ناشکری جو تمام مومنوں، پرہیز گاروں ، عالموں ، دانشمندوں ، سیاستدانوں اور فکر وآگہی رکھنے والوں خلاصہ یہ کہ پیغمبر اسلام (ص) کے بعد سب سے بزرگ الٰہی نمائندے نے ۲۵ سال تک گوشہ نشینی اختیار کرلیا اور تنہا آپ ہی نے ان دنوں اسلامی معاشرے کو منتشر ہونے سے بچایا اور یہ بات یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اس زمانے کو لوگوں نے نہ یہ کہ صرف علی ـ کو نہیں پہچانا بلکہ اس امام برحق وعظیم الشان کے فضائل وکمالات کو ذرہ برابر بھی درک نہیں کیا۔

۹

لیکن اس ۲۵ سال کی گوشہ نشینی کے بعد جسے حضرت نے یوں تعبیر کیا ہے کہ جیسے میری آنکھ میں کانٹا اور گلے میں ہڈی ہو ، جس وقت اسلامی معاشرہ پیغمبر اسلام (ص) کے بتائے ہوئے سیدھے راستے سے بالکل منحرف ہوگیا اور مسلمانوں نے چاہا کہ پھر سے اسی راستے کو اپنائیں تو حقیقی رہنما اور عظیم وبزرگ الٰہی شخصیت اور اپنے بڑے مربی کو تلاش کرنے لگے ، تاکہ وہ معاشرے کو صحیح راستے پر لائیں اور جس طرح سے پیغمبر (ص)چاہتے تھے اسی طرح عدل وانصاف سے آراستہ حکومت قائم کریں، اور ان لوگوں نے اس مقدس مقصد کے لئے حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں پر بیعت کی اور آپ نے بھی خداوند عالم کے حکم کے مطابق '' جب عدل وانصاف کی حکومت قائم کرنے کے لئے زمینہ فراہم ہوجائے تو فوراً حکومت قائم کرو'' ان کی بیعت کو قبول کرلیا، لیکن معاشرے میں اس قدر اختلاف وانحراف پھیل چکا تھا کہ جس کے خاتمہ کے لئے سرکشوں اور مخالفوں سے جنگ وجدال کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔

یہی وجہ ہے کہ اس عظیم وکریم ، سخی اور بہادر اور کامل الایمان شخص کی خلافت کے زمانے میں صرف داخلی جنگیں ہوئیں، ناکثین (معاہدہ توڑنے والے) کے ساتھ جنگ شروع ہوگئی اور مارقین ( دین سے خارج ہونے والے) کو جڑ سے ختم کرنے کے بعد جنگ کا خاتمہ ہوا ،اور بالآخر کچھ اندرونی دشمنوں ( خوارج نہروان) کے بچ جانے کی وجہ سے تاریخ میں ہمیشہ باقی رہنے والے ظالم و بدبخت شخص کے ہاتھوں خدا کے گھر میں جام شہادت نوش فرمایا ، جس طرح سے خدا کے گھر میں آنکھیں کھولی تھیں ۔

اور اپنی بابرکت وباعظمت زندگی کو دو مقدس عبادت گاہوں ( کعبہ اور محراب کوفہ) کے درمیان بسر کیا۔

۱۰

اس کتاب کے بارے میں :

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی پوری زندگی کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جاسکتاہے۔

۱۔ ولادت سے بعثت تک،

۲۔ بعثت سے ہجرت تک،

۳۔ ہجرت سے پیغمبر اسلام (ص) کی رحلت تک،

۴۔ رحلت پیغمبر (ص)سے خلافت تک،

۵۔ خلافت سے شہادت تک،

کتاب کی تقسیم بندی اسی طریقہ پر ہوگی ان پانچ حصوں میں امام علیہ السلام کی عام زندگی ، مستند اور آسان طریقے سے بیان ہوئی ہے ہماری یہ کوشش ہے کہ اس کتاب میں مبالغہ گوئی اور بے جا ظن وگمان سے دور رہیں اور شروع سے ہی یہی کوشش تھی کہ اصل منابع کی طرف رجوع کریں نہ اتنا طولانی فاصلہ ہو کہ آدمی تھک جائے اور نہ اتنا زیادہ ہی مختصر ہو کہ مقصد ختم ہوجائے بلکہ اس کے منابع ومآخذ کو اس مقدار تک بیان کردیںکہ پڑھنے والوں کی زبان پر شکوہ نہ آئے اور ان کے لئے یہ کافی ہو۔

جب مؤلف ''فروغ ابدیت '' ( پیغمبر اسلام (ص) کی مکمل سوانح حیات)کی طباعت ونشر سے فارغ ہوا تو اس وقت ارادہ کیا کہ شیعوں کے پہلے رہبر وپیشوا حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی قابل افتخار زندگی کو اسی کتاب کے طرزپر تحریر کروں اور خداوند عالم کا شکرکہ اس نے اس کام کے لئے توفیق بھی دیدی اور حضرت کی زندگی کا چار حصہ کتاب کی شکل میں منظر عام پر آگیا، لیکن انقلاب اسلامی کی سیاسی فضا میں چند مذہبوں کے ایجاد نے مؤلف کی فکر کو اس آفت کے دفاع کی طرف متوجہ کردیا خصوصاً مارکسیزم سے دفاع کی طرف ،اور ان ہی چیزوں نے مؤلف کو متقیوں اور پرہیز گاروں کے رہبر علی بن ابی طالب علیہ السلام کے بارے میں کچھ لکھنے سے روک دیا لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد دوبارہ خدانے توفیق دی کہ امام علیہ السلام کی زندگی کے پانچویں اور چھٹے حصے کو تحریر کروں جو آپ کی زندگی کا سب سے زیادہ حساس اور پر آشوب دور تھا اور اس طرح سے مؤلف نے امام علیہ السلام کی پوری زندگی کو تحلیلی اور مستند اور بہترین اور اس زمانے کے طریقوں کے اعتبار سے مکمل کرکے حضرت کی خدمت میں پیش کیا۔

۱۱

دوباتیں :

یہاں پر دو باتوں کا تذکرہ ضروری ہے،

یہ کتاب، جیسا کہ بیان ہوا ہے امام علیہ السلام کی عام اور ذاتی زندگی کا مجموعہ ہے اور آپ کی زندگی کے دوسرے حصّے مثلاً علم وفضل، تقویٰ وپرہیز گاری، فضائل ومناقب ، خطبے اور تقریریں ، خطوط ونصیحتیں اور کلمات قصار (موعظہ) ، احتجاجات اور مناظرے ، آپ کے اصحاب اور ساتھی اور ان کے حالات ، معجزے اور کرامتیں ، فیصلے اور تعجب خیز قضاوتیں وغیرہ جیسی بحثوں کو اس کتاب میں ذکر نہیں کیا ہے کیونکہ یہ تمام عنوانات خود ایک الگ موضوع ہیں جس پر الگ الگ کتابیں درکار ہیں ۔

مؤلف کتاب '' فروغ ولایت '' اپنی تمام تر عاجزی کے ساتھ معترف ہے کہ وہ امام علیہ السلام کی نورانی زندگی کا ایک ادنیٰ سا پہلو بھی پیش کرنے سے قاصر رہا ہے لیکن اس بات پر مفتخر ہے کہ وہ حضرت یوسف کے خریداروں کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے اگرچہ اس مختصر سے بہانے ، کہ اس زمانے کے یوسف کی نظر رحمت کا بھی حقدار نہ ہوسکے ، لیکن کیا کرے :

ماکل مایتمنیٰ المرء یدرکه

تجری الریاح بما لا تشتهی السّفن

جعفر سبحانی

قم، مؤسئسہ امام صادق ـ

۱۵ رجب ۱۴۱۰ ھ

۲۲ بہمن ۱۳۶۸ ش

۱۲

پہلا باب

بعثت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پہلے حضرت علی ـ کی زندگی

عظیم افراد اوران کے دوست اور دشمن

کائنات کی اہم اور بزرگ شخصیتوں کے سلسلے میں کئی طرح کے پہلو نظر آتے ہیں کبھی بالکل مختلف اور کبھی بالکل برعکس، کبھی ان کے دوست ایسے ہوتے ہیں کہ دوستی کے آگے وہ کچھ نہیں دیکھتے اور پروانہ کے مانند اپنی ساری زندگی ان پر نثار و قربان کردیتے ہیں اور اس دوستی کی وجہ سے بدترین مصیبت اور مشکلات، سختی اور شکنجے کو بھی برداشت کرتے ہیں اور اسی کے برعکس ان کے دشمن بھی ایسے ہوتے ہیں جو شیطان صفت، کینہ و بغض اور حسد میں ہمیشہ جلتے رہتے ہیں اور کبھی بھی عداوت و دشمنی سے باز نہیں آتے کہ صلح و آشتی کی راہ ہموار ہوسکے، ان افراد کی دوستی اوردشمنی کبھی کبھی اس قدر حد سے تجاوز کرجاتی ہے جس کی انتہا نہیں ہوتی اور وقت اور مقام کا بھی خیال نہیں رکھتی اور پھر بہت دنوں تک اور مختلف جگہوں پر یہ سلسلہ قائم رہتا ہے اور یہ عداوت و دشمنی انسان کے باعظمت اور محترم و باکمال ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔

کائنات کی عظیم اور بزرگ شخصیتوں کے درمیان مولائے کائنات حضرت علی ـ کے علاوہ کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہے جس کے بارے میں نظرئیے قائم ہوئے ہوں۔

آپ سے محبت اور دشمنی کرنے میں بھی آپ جیسا کوئی نہیں ہے ، آپ کے چاہنے والوں کی بھی تعداد بہت ہے اور آپ کے دشمنوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے، عظیم شخصیتوں اور انسانوں کے درمیان فقط جناب حضرت عیسیٰ مسیح ـکی طرح ہیں جو مولائے کائنات حضرت علی ـ کی طرح ہیں. کیونکہ حضرت عیسیٰـ سے دوستی اور دشمنی کرنے والے دو متضاد دھڑے نظر آتے ہیں ، اس طرح دونوں آسمانوی پیشواؤوں میں مشابہت پائی جاتی ہے ۔

حضرت عیسیٰـ دنیا کے تمام عیسائیوں کے گمان وخیال میں وہی خدا ئے مجسم ہیں جس نے اپنے بندوں اور چاہنے والوں کو اپنے باپ حضرت آدم سے ورثہ میں ملے ہوئے گناہوں سے نجات دلانے کے لئے زمین پر آئے اور آخرکار سولی پر چڑھا دیئے گئے وہ عامعیسائیوں کی نگاہ میں الوہیت کے علاوہ کوئی اور شخصیت کے مالک نہ تھے۔

۱۳

ان کے مقابلے میں یہودی ان کے بالکل برخلاف ہیں انھوں نے حضرت پر الزام و اتہام لگایاہے اور جھوٹ کی نسبت دی ہے اور ایسی ناروا تہمتیں لگائیں کہ جس کا تذکرہ باعث شرم ہے اور آپ کی مقدس و پاکیزہ ماں کی طرف غلط نسبتیں دی ہیں۔

بالکل ایسے ہی اور بھی کچھ افراد ہیں جو مولائے کائنات حضرت علی ـ کے بارے میں متضاد فکر رکھتے ہیں ایک گروہ کم ظرف اور تنگ نظرہے اور دوسرا کچھ زیادہ ہی الفت و محبت کی وجہ سے خدا کے مطیع و فرماںبردار کو مقام الوہیت تک پہونچا دیا ہے اور جو کرامتیں اور معجزات حضرت کی پوری زندگی میں ظاہر ہوئے اس کی وجہ سے وہ خدا مان بیٹھے ہیں افسوس کہ اس گروہ نے اپنے کو اس مقدس نام ''علوی'' سے منسوب کر رکھا ہے اور آج بھی اس نظریہ پر چلنے والے اور ان کی پیروی کرنے والے افراد کثرت سے موجود ہیں. لیکن افسوس کا مقام ہے کہ شیعیت کی تبلیغ کرنے والوں نے آج تک اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا تاکہ حضرت علی ـ کے حقیقی چہرے کو ان کے سامنے ظاہر کریں اور ان لوگوں کی صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کریں جس راستے پر خود حضرت علی ـ افتخار کر رہے ہیں اس گروہ کے مقابلے میں، ایک اور گروہ جس نے خلافت ظاہری کے ابتدائی دنوں سے ہی امام ـ سے بغض و عداوت اپنے دل میں بٹھا رکھی اور پھر کچھ مدت کے بعد خوارج اور نواصب نامی گروہ کے شکل میں ابھر کر سامنے آگئے، پیغمبر اسلام(ص) حضرت علی ـ

۱۴

کے زمانہ حکومت میں ان دونوں گروہوں کے ظہور کے سلسلے میں بخوبی آگاہ تھے اسی وجہ سے آپ نے حضرت علی ـ سے ایک موقع پر فرمایا تھا:

''هَلَکَ فِیْکَ اِثْنٰانِ مُحِبّ غَالٍ وَ مُبْغِض قَالٍ'' (۱)

تمہارے ماننے والوں میں سے دوگروہ ہلاک ہوں گے ایک وہ گروہ جو تمہارے بارے میں غلو کرے گا اور دوسرا وہ گروہ جو تم سے دشمنی و عداوت رکھے گا۔

حضرت علی ـ اور حضرت عیسیٰ ـ کے درمیان ایک اور بھی مشابہت پائی جاتی ہے اوریہ وہ مقام ہے جہاں پران دو شخصیتوں کی ولادت ہوئی ہے۔

حضرت عیسیٰ ـ کی ولادت مقدس ،سرزمین بیت اللحم (بیت المقدس کے علاوہ ہے) پر ہوئی اور یہی وجہ ہے کہ بنی اسرائیل کے تمام پیغمبروں سے آپ ایک جہت سے برتر وافضل ہیں، اور مولائے کائنات حضرت علی ـ کی ولادت مکہء مکرمہ کی مقدس سرزمین خانہ کعبہ کے اندر معجزاتی طور پر ہوئی، اور آپ نے خدا کے گھر (مسجد کوفہ) میں جام شہادت نوش کیا اور حسن مطلع کے مقابلے میں حسن ختام سے بہرہ مند ہوئے جو حقیقت میں بے مثال ہے اور کتنی عمدہ بات ہے کہ آپ کے متعلق کہا جائے ''نازم بہ حسن مطلع و حسن ختام او'' (یعنی ہم اس حسن مطلع اور حسن ختام پر افتخار کرتے ہیں اور نازاں ہیں)

______________________________

(۱) نہج البلاغہ، کلمات قصار نمبر ۱۷۷، فیک کے بجائے فیّ ہے۔

۱۵

حضرت علی ـ کی شخصیت کے تین پہلو:

ماہرین نفسیات کی نظر میں ہر انسان کی شخصیت کے نکھار میں تین اہم عوامل ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک شخصیت سازی میں مؤثر ہوتا ہے گویا انسان کی روح اور صفات اور فکر کرنے کا طریقہ مثلث کی طرح ہے اور یہ تینوں پہلو ایک دوسرے سے ملنے کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں اور وہ تینوں عامل یہ ہیں۔

۱۔ وراثت ۔

۲۔ تعلیم و تربیت۔

۳۔ محیط زندگی۔

انسان کے اچھے اور برے صفات اور اس کی عظیم و پست خصلتیں ان تینوں عامل کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں اور رشد و نمو کرتی ہیں۔

وراثت کے عوامل کے سلسلے میں مختصروضاحت: ہماری اولادیں ہم سے صرف ظاہری صفات مثلاً شکل و صورت ہی بطور میراث نہیں لیتیں بلکہ ماں باپ کے باطنی صفات اور روحانی کیفیت بھی بطور میراث اولاد میں منتقل ہوتی ہیں۔

تعلیم و تربیت اور اور محیط زندگی، جو انسانی شخصیت پر اثر انداز ہوتی ہیں، بہترین تربیت جسے خداوند عالم نے انسان کے ہاتھوں میں دیا ہے یا مثالی تربیت جسے بچہ ماں باپ سے بطور میراث حاصل کرتا ہے اس کی بہت عظمت و منزلت ہے، ایک استاد بچے کی تقدیر یا اس کے درسی رجحان کو بدل سکتا ہے اور اسی طرح گناہوں سے آلودہ انسانوں کو پاک و پاکیزہ ،اور پاک و پاکیزہ افراد کو گناہوں کے دلدل میں ڈال سکتا ہے یہ دونوں صورتیں انسان کی شخصیت کو اتنا واضح و روشن کرتی ہیں کہ جس کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے ۔البتہ یہ بات فراموش نہیں کرنا چاہیئے کہ ان تینوں امور پر انسان کاارادہ غالب ہے ۔

۱۶

حضرت علی ـ کی خاندانی شخصیت :

حضرت علی ـ کی ولادت جناب ابوطالب کے صلب سے ہوئی... حضرت ابوطالب ـ بطحاء (مکہ) کے بزرگ اور بنی ہاشم کے رئیس تھے. آپ کا پورا وجود مہربانی و عطوفت، جانبازی اور فداکاری اور جود و سخا میں آئین توحیدکا آئینہ دار تھا .جس دن پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دادا حضرت عبد المطلب کا انتقال ہوا اس وقت آپ صرف آٹھ سال کے تھے اور اس دن سے ۴۲ سال تک آپ نے پیغمبر اسلام(ص) کی حفاظت، سفر ہو یا حضر، کی ذمہ داری اپنے ذمے لے لی تھی اور بے مثال عشق و محبت سے پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے مقدس ہدف، جو کہ وحدانیت پروردگار تھا ،میں جم کر فداکاری کی اور یہ حقیقت آپ کے بہت سے اشعار ''دیوان ابوطالب'' سے واضح ہوتی ہیں مثلاً:

''لِیَعْلَمُ خِیَارُ النَّاسِ اَنّ محمداً نَبِی کَمُوْسیٰ وَ الْمَسِیْحِ بنِ مَرْیَمِ'' (۱)

پاک و پاکیزہ اور نیک طینت والے یہ جان لیں کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، موسیٰ اور عیسیٰ ٪ کی طرح پیغمبر ہیںاور دوسری جگہ فرماتے ہیں:

''اَلَمْ تَعْلَمُوْا أَنَّا وَجَدْنَا مُحمداً رَسُولْاً کَمُوْسیٰ خُطَّ فِی اَوَّلِ الْکُتُبِ'' (۲)

کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم موسیٰ ـکی طرح آسمانی رہبر اور رسول ہیں، اور ان کی پیغمبری کا تذکرہ آسمانی کتابوں میں درج ہے۔ایک ایسی قربانی ، کہ جس میں تمام بنی ہاشم ایک سوکھی اور تپتی ہوئی غار میں قید ہوگئے اور یہ چیز مقصدسے عشق ومحبت کے علاوہ ممکن نہیں ہے کہ اتنا گہرا معنویت سے تعلق ہو، رشتہ کی الفت ومحبت اور تمام مادی عوامل اس طرح کی ایثار وقربانی کے روح انسان کے اندر پیدا نہیں کرسکتیں۔حضرت ابو طالب کے ایمان کی دلیل اپنے بھتیجے کے آئین وقوانین پر اس قدر زیادہ ہے جس نےمحققین کی نظروں کواپنی طرف جذب کر لیا ہے مگر افسوس کہ ایک گروہ نے تعصب کی بنیاد پر ابوطالب پرشک کیااور دوسرے گروہ نے تو بہت ہی زیادہ جسارت کی ہے اور آپ کوغیرمومن تک کہہ ڈالاہے .حالا نکہ وہ دلیلیں جوحضرت ابو طالب کے لئے تاریخ وحدیث کی کتابوں میں موجود ہیں اگراس میں سے تھوڑا بہت کسی اور کے متعلق تحریر ہوتا تو اس کے ایمان واسلام کے متعلق ذرہ برابر بھی شک و تردیدنہ کرتے۔مگر انسان نہیں جانتا کہ اتنی دلیلوں کے باوجود بعض انسانوں کا دل روشن نہ ہوسکا (اور وہ گمراہی کے دلدل میں پھنسے ہیں )

________________________

(۱)،(۲) مجمع البیان، ج۴، ص۳۷۔

۱۷

حضرت علی ـ کی ماں کی شخصیت :

آپ کی مادر گرامی فاطمہ بنت اسد،جناب ہاشم کی بیٹی ہیں .آپ وہ پہلی خاتون ہیں جو پیغمبر پر ایمان سے پہلے آئین ابراہیمی پر عمل پیرا ہوئیں وہ وہی پاکیزہ ومقدس خاتون ہیںجو دردزہ کی شدت کے وقت مسجداالحرام کی طرف آئیں اور دیوار کعبہ کے قریب جاکر کہا :

پروردگارا: ہم تجھ پر اورپیغمبروں پر اور آسما نی کتابوں پرجو تیری طرف سے نازل ہوئی ہیں اور اپنے جد ا براہیم کے آئین پر جنھوں نے اس گھر کو بنا یا ہے ایمان کامل رکھتی ہوں.

پرور دگارا: جس نے اس گھر کو تعمیر کیا اس کی عظمت اور اس مولود کے حق کا واسطہ جومیرے رحم میں ہے اس بچہ کی ولادت کو مجھ پر آسان کردے۔

ابھی کچھ دیر بھی نہ گزری تھی کہ فاطمہ بنت اسد معجزاتی طریقہ سے خدا کے گھر میں داخل ہوگئیں اور مولائے کائنات کی ولادت ہوئی۔(۱)

اس عظیم فضیلت کو مذہب شیعہ کے معتبرمحدثین اور مورخین اور علم انساب کے معتبر دانشوروںنے اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے .اہلسنت کے اکثر دانشوروں نے اس حقیقت کو صراحت سے بیان کیاہے اور اس کو ایک بے مثال فضیلت کے نام سے تعبیر کیا ہے۔(۲)

حاکم نیشاپوری کہتے ہیں :

خا نہ کعبہ میں علی ـکی ولادت کی خبر حدیث تواترکے ذریعہ ہم تک پہنچی ہے ۔(۳)

______________________

(۱) کشف الغمہ ، ج۱ ص ۹۰

(۲)جیسے مروج الذہب، ج۲ ص۳۴۹،بشرح الشفاء ، ج۱ ص ۱۵۱

(۳) مستدرک حاکم ، ج۳ ص ۴۸۳

۱۸

مشہور مفسرآلوسی بغدادی لکھتے ہیں :

کعبہ میں علی ـکی ولادت کی خبر دنیا کے تمام مذہبوں کے درمیان مشہور ومعروف ہے اور آج تک کسی کو بھی یہ فضیلت حاصل نہیں ہوئی ہے۔(۱)

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آغوش میں:

اگر امام علیہ السلام کی عمر کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جائے تو آپ کی زندگی کا ابتدائی دور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت سے پہلے کا دور ہوگا .اس وقت امام علیہ السلام کی عمر دس سال سے زیادہ نہیں تھی. کیونکہ جب علی علیہ السلام کی ولادت ہوئی تو پیغمبر اسلام کی عمر۳۰ سال سے زیادہ نہ تھی .اور پیغمبر اسلام چالیس سال کی عمر میں رسالت کے لئے مبعوث ہوئے۔(۲)

امام علیہ السلام کی زندگی کے حساس ترین واقعات اسی دور میںرونما ہو ئے یعنی حضرت علی ـ کی شخصیت پیغمبر کے توسط سے ابھری، عمر کایہ حصہ ہر انسان کے لئے اس کی زندگی کا سب سے حساس اور کامیاب واہم حصہ ہوتاہے ایک بچے کی شخصیت اس عمر میں ایک سفید کاغذ کے مانند ہوتی ہے اور وہ ہر شکل کو قبول کرنے اور اس پر نقش ہونے کے لئے آمادہ ہوتاہے. اس کی عمر کا یہ حصہ پرورش کرنے والوںاور تربیت کرنے والوں کے لئے سنہرا موقع ہوتا ہے تا کہ بچے کی روح کو فضائل اخلاقی سے مزین کریں کہ جس کی ذمہ داری خدا نے ان کے ہاتھوں میں دی ہے تاکہ ان کی بہترین تربیت کریں اور اسے انسانی اور اخلاقی اصولوں سے روشناس کرائیں اور بہترین اور کامیاب زندگی گذارنے کا طورطریقہ اسے سکھائیں۔پیغمبر عظیم الشان نے اسی عظیم مقصد کے لئے حضرت علی علیہ السلام کی ولا دت کے بعد ان کی تربیت کی ذمہ داری خود لے رکھی تھی، جس وقت حضرت علی ـ کی والدہ نو مولود بچے کولے کر پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوئیںتوپیغمبر اسلام نے والہانہ عشق ومحبت کے ساتھ اس بچے کودیکھا اور کہا اے چچی علی کیجھولے کو میرے بستر کے قریب رکھ دیجیئے ،اس جہت سے امام علی علیہ السلام کی زندگی کا آ غاز

___________________________

(۱) شرح قصیدہ عبدالباقی آفندی ص ۱۵

(۲) بعض لوگوں نے مثلاابن خشاب نے اپنی کتاب موالید الائمہ میں علی ـ کی کل عمر ۶۵ سال اور بعثت پیغمبر سے پہلے ۱۲

۱۹

سال لکھی ہے. تفصیل کے لئے کتاب کشف الغمہ تالیف مشہور مورخ علی بن عیسیٰ اربلی (متوفی ۶۹۳ھ) ص ۶۵ پر دیکھ سکتے ہیں۔

پیغمبر اکرم کے لطف خاص سے ہوا، پیغمبر صرف سوتے وقت حضرت علی ـ کے گہوارہ کو جھولا تے ہی نہیں تھے بلکہ آپ کے بدن کو دھوتے بھی تھے اور انھیں دودھ بھی پلاتے تھے ، اور جب علی علیہ السلام بیدار ہوتے تو خلوص والفت کے ساتھ ان سے بات کرتے تھے اور کبھی کبھی انھیں سینے سے لگا کر کہتے تھے ''یہ میرا بھائی ہے اور مستقبل میں میرا ولی وناصر اور میرا وصی اور میراداماد ہوگا''

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت علی کو اتنا عزیز رکھتے تھے کہ کبھی بھی ان سے جدا نہیں ہوتے تھے اور جب بھی مکہ سے باہر عبا دت خدا کے لئے جاتے تھے توحضرت علی علیہ السلام کو چھوٹے بھائی یا عزیز ترین فرزند کی طرح اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔(۱)

اس حفاظت و مراقبت کا مقصد یہ تھا کہ حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کا دوسرا پہلو جوکہ تربیت ہے آپ کے ذریعے ہو اور پیغمبر کے علاوہ کوئی شخص بھی ان کی تربیت میں شامل نہ ہو ۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام اپنے خطبے میں پیغمبر اسلام کی خدمات کو سراہتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

وَقَدْعَلِمْتُمْ مَوْضِعِیْ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰهِ ۖ بِالْقَرَا بَةِ الْقَرِ یْبَةِ وَالْمَنْزِلَةِ الْخَصِیْصَةِ وَضعْنِیْ فِیْ حجْرِهِ وَاَنَا وَلَدیَضُمُّنِي اِلَی صَدْرِهِ وَ یَکْنُفُنِي فِیْ فِرَاشِهِ وَ یَمَسَّنِیْ جَسَدَه وَ یُشِمُّنِي عَرْفَهُ وَ کَانَ یَمضُغُ الشَّیَٔ ثُمَّ یُلقمُنِیْهِ .(۲)

_________________________

(۱) کشف الغمہ، ج۱، ص ۹۰۔

(۲) نہج البلاغہ عبدہ، ج۲ ص ۱۸۲، خطبۂ قاصعۂ ۔

۲۰

پیغمبر ا سلام حضرت علی علیہ السلام کو اپنے گھر لے گئے

جب خدا نے چاہا کہ اس کے دین کا عظیم ولی سردار انبیاء پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر میں پرورش پائے اور رسول اسلام کے زیر نظر اس کی تربیت ہو تو پیغمبر اسلام کو اس کی طرف متوجہ کیا ۔

اسلام کے مشہور مورخین لکھتے ہیں :مکہ میں سخت قحط پڑا ،پیغمبرکے چچا ابو طالب اپنے اہل و عیال کے ساتھ اخراجات کے متعلق بہت پریشان ہوئے،پیغمبر اکرم(ص) اپنے دوسرے چچا عباس جو ابو طالب سے زیادہ امیر اوردولتمندتھے، سے گفتگو کی اور دونوں کے درمیان یہ طے پا یا کہ ہر ایک حضرت ابو طالب کے لڑکوں میں سے ایک ایک کو اپنے گھر لے جائے تا کہ اس قحط کے زمانے میں ابو طالب کی پریشا نیوں میں کچھ کمی واقع ہوچنانچہ جناب عباس ، جعفر کو اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت علی ـ کو اپنے گھر لے گئے ۔(۱)

اب جبکہ حضرت علی ـ مکمل طور پر پیغمبر کے اختیار میں تھے حضرت علی ـنے انسانی اور اخلاقی فضیلتوں کے گلستان سے بہت زیادہ فائدہ اٹھا یا اور پیغمبر اسلام کی سر پرستی میں کمال کے بلندترین درجے پر فائز ہوئے، امام علیہ السلام نے اپنے خطبے میں اس زمانے اور پیغمبر کی تربیت کی طرف اشارہ کیا ہے آپ فرماتے ہیں :

''وَلَقَدْکُنْتُ اتَّبِعُهُ الْفَصِیْلُ اُمِّهِ یِرْفَعُ لِیْ کُلَّ یَوْمٍ مِنْ اَخْلاٰقِهِ عَلَماً وَ یَأْمُرُنِیْ بِالْاِقْتِدائِ بِهِ'' (۲)

میں اونٹ کے اس بچہ کی طرح جو اپنی ماں کی طرف جاتاہے ، پیغمبر کی طرف گیا،آپ روزانہ مجھے اپنے اخلاق حسنہ کا ایک پہلو سکھاتے تھے اور حکم دیتے کہ ان کی پیروی کروں۔

حضرت علی علیہ السلام غار حرا میں

پیغمبر اسلام (ص)رسالت پرمبعوث ہونے سے پہلے تک سال میں ایک مہینہ غار حرا میں عبادت میں مصروف رہتے تھے اور جیسے ہی مہینہ ختم ہوتاتھا آپ پہاڑ سے نیچے اترتے تھے اور سیدھے

______________________

(۱) سیرۂ ابن ہشام، ج۱ ص ۲۳۶ ۔

(۲) نہج البلاغہ عبدہ، ج۲ ص ۱۸۲۔

۲۱

مسجدالحرام کی طرف جاتے تھے اور سات مرتبہ خانہ کعبہ کا طواف کرتے تھے پھراپنے گھرواپس آتے تھے ۔

یہاں پر سوال یہ ہے کہ جب پیغمبر اسلام حضرت علی ـ سے اس قدر محبت کر تے تھے تو کیا اس عجیب وغریب جگہ پر عبادت ودعا کے لئے حضرت علی ـ کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے یا انھیں اتنی مدت تک چھوڑ کر جاتے تھے ؟

تمام قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ جس دن سے پیغمبراسلام حضرت علی ـ کو اپنے گھرلے گئے اس دن سے ایک دن کے لئے بھی انھیں اپنے سے جدا نہیں کیا۔

مورخین لکھتے ہیں :حضرت علی ـ ہمیشہ پیغمبر کے ساتھ رہتے تھے اور جب بھی پیغمبرشہر سے باہر جاتے اور بیابان اور پہاڑ کی طرف جاتے تو حضرت علی ـ کو اپنے ساتھ لے جاتے۔(۱)

ابن ابی الحد یدکہتے ہیں :

حدیثوں سے پتہ چلتا ہے کہ جب جبرئیل پہلی مرتبہ پیغمبر اسلام پر نازل ہوئے اور انھیںرسالت کے عہدے پر فائز کیا اس وقت علی ـ پیغمبر (ص)کے ہمراہ تھے اوروہ دن انہی دنوں میں سے تھا جن دنوںپیغمبر اسلام غار حرا میں عبا دتوں کے لئے جایا کر تے تھے ۔

حضرت امیرالمٔومنین علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں :

وَلَقَدْکَانَ یُجَاوِزُ فِیْ کُلِّ سَنَةٍ بِحَرائِ فَأرَاهُ وَ لاٰیُرَاهُ غَیْرِیْ ...(۲)

''پیغمبر ہر سال غار حرا میں عبادت کے لئے جاتے تھے اور میرے علاوہ کسی نے انھیں نہیں دیکھا'' اس جملے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مولائے کائنات غار حرا میں پیغمبر اسلام کے ہمراہ ،رسالت کے بعدبھی تھے لیکن گذشتہ قرآئن سے مولائے کائنات کا پیغمبر اسلام کے ساتھ غار حرا میں ہونا غا لباً رسالت سے پہلے ہے اور خودیہ جملہ اس بات کی تائیدکرتا ہے کہ یہ واقعہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت سے پہلے کا ہے ۔

______________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱۳ ص ۲۰۸

(۲) نہج البلاغہ، خطبہ ۱۸۷ (قاصعہ)

۲۲

حضرت علی علیہ السلام کی طہارت وپاکیزگی اورپیغمبر اسلام کے ہاتھوں ان کی پرورش کاہونا اس بات کا سبب بنا کہ اسی بچپن کے زمانے میں حساس دل ا و ر چشم بصیرت اور اپنی بہترین سماعتوں کے ذریعے ایسی چیزیں دیکھیں اور ایسی آوازیں سنیں کہ جن کا سننا یا دیکھنا عام آدمی کے لئے ممکن نہیں ہے ۔چنانچہ ا مام علیہ السلام خوداس سلسلے میں فرماتے ہیں :

''أَرْیَ نُوْرَ الْوَحْیِ وَ الَّرَسٰالَةِ وَ أَشُمُّ رِیْحَ النُّبُوَةِ'' (۱)

ہم نے بچپن کے زمانے میں غار حرا میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ وحی اور رسالت کے نور کو دیکھا جو پیغمبر پر چمک رہا تھااور پاک وپاکیزہ نبوت کی خوشبو سے اپنے مشام کومعطر کیا ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :امیرالمو منین (ع)نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت سے پہلے نور رسالت اور وحی کے فرشتے کی آواز کو سنا تھا اس عظیم موقع پر جب کہ آپ پر وحی نا زل ہوئی. آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا : اگر میں خاتم الانبیاء نہ ہوتا تو تم میں پیغمبری کی تمام چیزیں بدرجہ اتم موجودتھیں اورتم میرے بعد پیغمبرہوتے لیکن تم میرے بعد میرے وصی اور وارث اور تمام وصیوں کے سردار اور متقیوں کے پیشوا ہو۔(۲)

امیرالمومنین علیہ السلام اس غیبی آواز کے متعلق جس کو آپ نے بچپن میں سنا تھا ارشاد فرماتے ہیں : جس وقت پیغمبر پر وحی نازل ہوئی اسی وقت میرے کانوں سے کسی کے نالہ وفریاد کی آواز ٹکرائی میں نے رسول خدا سے پوچھا یارسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ نالہ و فریاد کیسا ہے ؟آپ نے فرما یا: یہ شیطان کی نالہ وفریاد ہے اور اس کی علت یہ ہے کہ میری بعثت کے بعد زمین والوں کے درمیان جو اس کی اطا عت وپر ستش ہوتی اس سے یہ نا امید ہوگیا ہے پھر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علی ـ کی طرف مخاطب ہوکر کہتے ہیں:

''اِنَّکَ تَسْمَعُ مَا اسْمَعُ وَتَریٰ مٰا اَرَیٰ ، أَلٰا أَنَّکَ لَسْتَ بِنَبِیٍ وَلٰکِنَّکَ وَزِیْر''

اے علی! جس چیز کو میں نے سنا اور دیکھا تم نے بھی اسے دیکھا اور سنا مگر یہ کہ تم پیغمبر نہیں ہو بلکہ تم میرے وزیر اور مدد گار ہو ۔

______________________

(۱) قبل اس کے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی طرف سے رسالت کے منصب پر فائز ہوں وحی اور غیبی آوازوں کو سنا جیسا کہ روایات میں ذکر ہے شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ، ج۱۳ ص ۱۹۷

(۲) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱۳ ص ۳۱۰

۲۳

دوسرا باب

بعثت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد اور ہجرت سے پہلے حضرت علی ـ کی زندگی

پہلی فصل :

پہلا مسلمان

حضرت علی ـ کی زندگی کا دوسرا دوربعثت کے بعد اور ہجرت سے پہلے کا ہے اس وقت آپ کی عمر ۱۳ سال سے زیادہ نہیں تھی حضرت علی ـ اس پوری مدت میں پیغمبر اسلام کے ہمراہ تھے اور تمام ذمہ داریوںکو تحمل کئے ہوئے تھے، ا س زما نے کی بہترین اور حساس ترین چیز ایک ایسی قابل افتخارشئی ہے جو امام کونصیب ہوئی اور پوری تاریخ میں یہ سعادت و افتخار مولائے کائنات کے علاوہ کسی کو نصیب نہ ہوا ۔آپ کی زندگی کا پہلا افتخار اس عمرمیں سب سے پہلے اسلام کاقبول کرنا ہے ، بلکہ بہترین لفظوں میں یوں کہا جائے کہ اپنی دیرینہ آرزویعنی اسلام کا اظہار اور اعلان کرنا تھا ۔(۱) اسلام کے قبول کرنے میں سبقت کرنا اور قوانین توحید کا ماننا ان امور میں سے ہے جس پر قرآن نے بھروسہ کیا ہے، اور جن لوگوں نے اسلام کے قبول کرنے میں سبقت کی ہے صریحاًان کا اعلان کیا ہے ''اور وہ لوگ خدا کی مرضی اور اس کی رحمت قبول کر نے میں بھی سبقت کرتے ہیں''۔(۲) قرآن کریم نے اسلام قبول کرنے میں سبقت کرنے والوں پر اس حد تک خاص توجہ دی ہے کہ وہ لوگ جوفتح مکہ سے بھی پہلے ایمان لائے اور اپنے جان ومال کو خداکی راہ میںقربان کیا ہے ، ان لوگوں پر جو فتح مکہ کی کامیابی کے بعد ایمان لائے ہیںاورجہاد کیا برتری اور فضیلت دی ہے۔(۳)

یہ بات واضح ہے کہ آ ٹھویں ہجری میں مکہ فتح ہواہے ا ور پیغمبر نے بعثت کے اٹھارہ سال بعد بت پرستو ں کے مضبوط قلعے اور حصار کو بے نقاب کر دیا ،فتح مکہ سے پہلے مسلمانوںکے ایمان کی فضیلت وبرتری کی وجہ یہ تھی کہ وہ لو گ اس زمانے میں ایمان لائے جب کہ اسلام کی حکومت شبہ جزیرہ پر نہیں پہونچی

______________________

(۱) اس بات کی وضاحت آخر میں ہوگی۔

(۲) خدا فرماتا ہے:''والسابقون السابقون اولئک المقربون'' سورۂ واقعہ، آیت ۱۰ و ۱۱۔

(۳) ''لایستوی منکم ...'' سورۂ حدید، آیت ۱۰۔

۲۴

تھی ، اور ابھی بھی بت پرستوں کا مرکز ایک محکم قلعہ کی طرح باقی تھا اور مسلمانوں کی جان و مال کا بہت زیادہ خطرہ تھا، اگرچہ مسلمان، مکہ سے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کی وجہ سے، اور گروہ اوس و خزرج اور وہ قبیلے جو مدینے کے آس پاس تھے ایک طاقتور گروہ سمجھے جاتے تھے اور بہت سی لڑائیوں میں کامیاب بھی ہوئے تھے لیکن خطرات مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے تھے۔

اس وقت جب کہ اسلام کا قبول کرنا اور جان و مال کا خرچ کرنا اہمیت رکھتا ہو، قطعی طور پر ابتدائی زمانے میں ایمان کا ظاہر کرنا اور قبول اسلام کا اعلان کرنا جب صرف قریش اور دشمنوں کی ہی طاقت و قوت تھی ایسے مقام پر اس کی اہمیت و فضیلت اور بڑھ جاتی ہے اس بنا پر مکہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے درمیان اسلام قبول کرنے میں سبقت حاصل کرناایک ایسا افتخار ہے جس کے مقابلے میں کوئی فضیلت نہیں ہے۔عمر نے اپنی خلافت کے زمانے میں ایک دن خباب، جس نے اوا ئل اسلام میںبہت زیادہ زحمتیں برداشت کی تھیں ،سے پوچھا کہ مشرکین مکہ کا برتائو تمہارے ساتھ کیسا تھا ؟اس نے اپنے بدن سے پیراہن کو جدا کرکے اپنی جلی ہوئی پشت اور زخموں کے نشان خلیفہ کو دکھایا اور کہا .اکثر وبیشتر مجھے لوہے کی زرہ پہناکر گھنٹوں مکہ کے تیزاورجلانے والے سورج کے سامنے ڈال دیتے تھے اور کبھی کبھی آگ جلاتے تھے اور مجھے آگ پر لے جاکر بیٹھاتے تھے یہاں تک کہ آگ بجھ جا تی تھی۔(۱)

جی ہاں ۔مسلّم و عظیم فضیلت اور معنوی برتری ان افراد سے مخصوص ہے جن لوگوں نے اسلام کی راہ میں ہر طرح کے ظلم وستم کو برداشت اور صمیم قلب کے سا تھ اسے قبول کیا۔

علی ـ سے پہلے کسی نے اسلام قبول نہیں کیا

اکثر محدثین و مؤرخین بیان کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام دوشنبہ کو منصب رسالت پرفائز ہوئے اور اس کے دوسرے دن (سہ شنبہ )حضرت علی ـ ایمان لائے(۲) تمام لوگوں سے پہلے اسلام قبول کرنے میںحضرت علی ـ نے سبقت کی ،اور پیغمبرنے اس کی تصریح کرتے ہوئے صحابہ کے مجمع عام میں فرمایا:

______________________

(۱) اسد الغابہ، ج۲ ص ۹۹

(۲) ''بعث النبی یوم الاثنین و اسلم علی یوم الثلاثائ''، مستدرک حاکم، ج۲ ص۱۱۲، الاستیعاب، ج۳ ص ۳۲

۲۵

قیامت کے دن سب سے پہلے جو حوض کوثر پرمجھ سے ملاقات کرے گا جس نے اسلام لانے میں تم سب پرسبقت حاصل کی ہے وہ علی ابن ابی طالب ـ ہے ۔(۱) پیغمبر اسلام (ص)، حضرت امیر المو منین اور بزرگان دین سے منقول حدیثیں اور روایتیں مولائے کائنات کے اسلام قبول کرنے میں سبقت سے متعلق اس قدر زیادہ ہیں کہ سب کو اس کتاب میں نقل کرنا ممکن نہیں ہے۔(۲)

اس سلسلے میں امام ـ کا صرف ایک قول اور ایک واقعہ پیش کررہے ہیں امیر المومنین ـ فرماتے ہیں :

اَنٰا عَبْدُاللّٰهِ وَاَخُورَسُوْلِ اللّٰهِ وَاَنٰا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَر لاٰیَقُوْلُهٰابَعْدِیْ اِلَّاکَاذِب مُفْتَرِی وَلَقَدْ صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰه قَبْلَ النَّاسِ بِسْبَعِ سِنِیْنَ وَاَنَا اَوَّلُ مَنْ صَلَّی مَعَه ۔(۳)

میں خدا کا بندہ، پیغمبر کابھائی اور صدیق اکبر ہوں .میرے بعد یہ دعوی صرف جھوٹا شخص ہی کرے گا ، تمام لوگوں سے سات سال پہلے میں نے رسول خدا کے ساتھ نماز پڑ ھی اور میں ہی وہ پہلا شخص ہوں جس نے رسول خدا کے ساتھ نماز پڑھی

ا مام علی ـایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:

اس وقت اسلام صرف پیغمبر اور خدیجہ کے گھر میں تھا اورمیں اس گھر کا تیسرا فرد تھا۔(۴)

ایک اور مقام پر امام ـ سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

''اللُهَّم اِنِّی اَوَّلُ مَنْ اَنَابَ وَسَمِعَ وَأجاَبَ لَمْ یَسْبِقْنِیْ اِلاَّرَسُوْلُ اللّٰه ۖ بِالصَّلاَةِ'' (۵)

پر وردگارا ، میں پہلا وہ شخص ہوں جو تیری طرف آیا اور تیرے پیغام کو سنا اور تیرے پیغمبر کی دعوت پر

لبیک کہا اور مجھ سے پہلے پیغمبر کے علاوہ کسی نے نماز نہیں پڑھی۔

______________________

(۱) ''اولکم وارداً علی الحوض اولکم اسلاما علی بن ابیطالب'' ، مستدرک حاکم، ج۳، ص ۱۳۶

(۲) مرحوم علامہ امینی نے اس سلسلے کی تمام روایتوں اور حدیثوں کے متون اور مورخین کے اقوال کو الغدیر کی تیسری جلد ص ۱۹۱ سے ۲۱۳ پر نقل کیا ہے۔

(۳) تاریخ طبری، ج۲، ص ۲۱۳، سنن ابن ماجہ، ج۱، ص ۵۷ ۔

(۴) نہج البلاغہ عبدہ، خطبہ ۱۸۷۔

(۵) نہج البلاغہ، خطبہ ۱۲۷

۲۶

عفیف کندی کا بیان :

عفیف کندی کہتے ہیں :ایک دن میں کپڑااور عطر خریدنے کے لئے مکہ گیا اور مسجدالحرام میں عباس بن عبدالمطلب کے بغل میں جاکر بیٹھ گیا ،جب سورج اوج پر پہونچا تو اچانک میں نے دیکھا کہ ایک شخص آیا اور آسمان کی طرف دیکھا پھر کعبہ کی طرف رخ کرکے کھڑا ہوا، کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ایک نوجوان آیا اور اس کے داہنے طرف کھڑاہو گیا پھر ایک عورت آئی اور مسجد میں داخل ہوئی اور ان دونوں کے پیچھے آکر کھڑی ہوگئی پھر وہ تینوں نمازوعبادت میں مشغول ہوگئے ، میں اس منظر کو دیکھ کر بہت متعجب ہواکہ مکہ کے بت پرستوں سے ان لوگوں نے اپنے کو دور کر رکھا ہے اور مکہ کے خدائو ں کے علاوہ دوسرے خدا کی عبادت کررہے ہیں. میں حیرت میں تھا ، میں عباس کی طرف مخاطب ہوا اور ان سے کہا .''اَمرعَظِیم ''،عباس نے بھی اسی جملے کو دہرایا اور فرمایا .کیا تم ان تینوں کوپہچانتے ہو؟

میں نے کہا نہیں انہوں نے کہا سب سے پہلے جو مسجد میں داخل ہوا اور دونوں آدمیوں سے آگے کھڑا ہوا وہ میرا بھتیجا محمد بن عبداللہ ہے اور د وسراشخص جو مسجد میں داخل ہوا وہ میرا دوسرا بھتیجا علی ابن ابی طالب ہے اوروہ خاتون محمد کی بیوی ہے اور اس کا دعوی ہے کہ اس کے تمام قوانیں خدا وند عالم کی طرف سے اس پر نازل ہوئے ہیں ، اور اس وقت کائنات میں ان تینوں کے علاوہ کوئی بھی اس دین الہی کا پیرو نہیں ہے۔(۱) ممکن ہے یہاں پر سوال کیا جائے کہ اگر حضرت علی ـ پہلے وہ شخص ہیں جو بعثت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد ان پر ایمان لائے تو بعثت سے پہلے حضرت علی ـ کی وضعیت کیا تھی؟.

اس سوال کا جواب بحث کے شروع میں بیان کیا گیا ہے جس سے واضح اور روشن ہوتاہے کہ یہاں پر ایمان سے مراد، اپنے دیرینہ ایمان کا اظہار کر نا ہے جو بعثت سے پہلے حضرت علی کے دل میں موجزن تھا،اور ایک لمحہ کے لئے بھی حضرت علی ـ سے دور نہ ہوا ، کیونکہ پیغمبر کی مسلسل تربیت ومراقبت کی وجہ سے حضرت علی ـ کے روح ودل کی گہرائیوں میں ایمان رچ بس گیا تھااور ان کا مکمل وجودایمان واخلاص سے مملو تھا ۔

______________________

(۱)تاریخ طبری ج۲ص۲۱۲۔کامل ابن اثیر ج۲ ص۲۲. استیعاب ج۳۔ص۳۳۰و...

۲۷

ان دنوں جب کہ پیغمبر مقام رسالت پر فائز نہ ہوئے تھے ،حضرت علی ـ پر لازم تھا کہ رسول اسلام کے منصب رسالت پر فائز ہونے کے بعد پیغمبر سے اپنے رشتے کو اور مستحکم کرتے اور اپنے دیرینہ ایمان اور اقرار رسالت کو ظاہر اور اعلان کرتے، قرآن مجید میں ایمان و اسلام کا استعمال اپنے دیرینہ عقیدہ کے اظہار کے متعلق ہوا ہے .مثلاً خدا وند عالم نے جناب ابراہیم کو حکم دیا کہ ا سلام لائو جناب ا براہیم کہتے ہیں ،میں سارے جہان کے پروردگارپر ایمان لایا.

قرآن مجید نے پیغمبر کے جملے کو نقل کیا ہے، پیغمبر خود اپنے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:( وَاُمِرْتُ اَنْ اَسْلَمَ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ ) (مومن۶۶)اور مجھے تو یہ حکم ہوچکا ہے کہ اپنے بارے میں سارے جہان کے پالنے والے کا فر ماںبر دار بنوں ،حقیقتاًان موا رد اور ان سے مشابہت رکھنے والے تمام موارد میں اسلام سے مراد ، خدا کے سامنے اپنی سپردگی کا اظہار کرنا اور اپنے ایمان کوظاہر کرناہے ، جو انسان کے دل میں موجود تھا،اور اصلاً اسلام کے اظہار کا مطلب ایمان کا حاصل کرنا یا ایمان لانا نہیں ہے ،کیونکہ پیغمبر اسلام اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے بلکہ بعثت سے پہلے موحد اور خدا کی بارگاہ میں اپنے کو تسلیم کرنے والے تھے اس بنا بر ثابت ہے کہ ایمان کے دو معنی ہیں ،

۱۔اپنے باطنی ایمان کا اظہار کرنا جو پہلے سے ہی انسان کے قلب وروح میں موجود تھا، حضرت علی کا بعثت کے دوسرے دن ایمان لانے کا مقصد اور ہدف بھی یہی تھا اس کے علاوہ کچھ اور نہ تھا ۔

۲۔ایمان کا قبول کرنااور ابتدائی گروہ کااسلام لانا پیغمبر کے بہت سے صحابیوں اور دوستوں کا ایمان تھا (جو پہلے والے معنی کے بر عکس ہے )۔

اسحاق سے مامون کا مناظرہ :

مامون نے اپنی خلافت کے زمانے میں چاہے سیاسی مصلحت کی بنیاد پر یا اپنے عقید ے کی بنیاد پر،مولائے کائنات کی برتری کا اقرار کیا اور اپنے کو شیعہ ظاہر کیا ایک دن ایک علمی گروہ جس میں اس کے زمانے کے( ۴۰)چالیس دانشمند اور خود اسحاق بھی انھیں کے ہمراہ تھے ، کی طرف متوجہ ہوا اورکہا:

جس دن پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رسالت پر مبعوث ہوئے اس دن بہترین عمل کیا تھا؟۱

اسحاق نے جواب دیا ، خدا اور اس کے رسول کی رسالت پر ایمان لانا ۔

۲۸

مامون نے دوبا رہ پوچھا ، کیا اسلام قبول کرنے میں اپنے حریفوں کے درمیان سبقت حاصل کر نا بہترین عمل نہ تھا ؟

اسحاق نے کہا ، کیوںنہیں ہم قرآن مجید میں پڑھتے ہیں .والسا بقون السا بقون اولیک المقربون،اور اس آیت میں سبقت سے مراد وہی اسلام قبول کرنے میں سبقت کرنا ہے

مامون نے پھرسوال کیا ، کیا علی ـ سے پہلے کسی نے اسلام قبول کرنے میں سبقت حاصل کی ہے ؟یا علی ـ وہ پہلے شخص ہیںجو پیغمبر پر ایمان لائے ہیں ؟

اسحاق نے جواب دیا ،علی ہی وہ ہیں جو سب سے پہلے پیغمبر پر ایمان لائے لیکن جس دن وہ ایمان لائے ، بچے تھے اور بچے کے اسلام کی کوئی اہمیت نہیں ہے لیکن ابو بکر اگر چہ وہ بعدمیں ایمان لائے اور جس دن خدا پرستوں کی صف میں کھڑے ہوئے وہ بالغ وعاقل تھے لہٰذا اس عمرمیں ان کا ایمان اور عقیدہ قابل قبول ہے.

مامون نے پوچھا ، علی کس طرح ایمان لائے ؟کیا پیغمبر نے انھیں اسلام کی دعوت دی یا خدا کی طرف سے ان پر الہام ہوا کہ وہ آئیںاورتوحید اور اسلام کو قبول کریں؟

یہ بات کہنا بالکل صحیح نہیں ہے کہ حضرت علی کا اسلام لانا خدا وند عالم کی طرف سے الہا م کی وجہ سے تھا، کیونکہ اگر ہم یہ فرض کر لیں تو اس کا لازمہ یہ ہوگا کہ علی کا ایمان پیغمبر کے ایمان سے زیادہ افضل ہو جائے گا اس کی دلیل یہ ہے کہ علی کا پیغمبر سے وابستہ ہونا جبرئیل کے توسط اور ان کی رہنمائی سے تھا نہ یہ کہ خدا کی طرف سے ان پر الہام ہوا تھا ۔

بہرحال اگر حضرت علی کا ایمان لانا پیغمبر کی دعوت کی وجہ سے تھا تو کیا پیغمبر نے خود ایمان کی دعوت دی تھی یا خدا کا حکم تھا ؟۔یہ کہنا بالکل صحیح نہیں ہوگا کہ پیغمبر خدا نے حضرت علی کوبغیرخدا کی اجازت کے اسلام کی دعوت دی تھی بلکہ ضروری ہے کہ یہ کہا جائے کہ پیغمبر اسلام نے حضرت علی کو اسلام کی دعوت ،خدا کے حکم سے دی تھی ۔

۲۹

کیا خدا وند عالم اپنے پیغمبر کو حکم دے گا کہ وہ غیر مستعد(آمادہ ) بچے کو جس کا ایمان لانا اور نہ لانا برابرہو اسلام کی دعوت دے ؟(نہیں ) ۔بلکہ یہ ثابت ہے کہ امام ـ بچپن میں ہی شعوروادراک کی اس بلندی پر فائز تھے کہ ان کا ایمان بزرگوں کے ایمان کے برابر تھا۔(۱)

یہاں مناسب تھا کہ مامون اس کے متعلق دوسرا بھی جواب دیتا کیونکہ یہ جواب ان لوگوں کے لئے مناسب ہے جن کی معلومات بحث ولایت وامامت میں بہت زیادہ ہو اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اولیائے الہی کا کبھی بھی ایک عام آدمی سے مقابلہ نہیں کرناچاہئے اور نہ ان کے بچپن کے دورکو عام بچوں کے بچپن کی طرح سمجھنا چاہئے اور نہ ہی ان کے فہم وادراک کو عام بچوںکے فہم و ادراک کے برابرسمجھنا چاہیے ، پیغمبروں کے درمیان بعض ایسے بھی پیغمبرتھے جوبچپن میں ہی فہم وکمال اور حقایق کے درک کرنے میں منزل کمال پر پہونچے تھے ،اور اسی بچپن کے زمانے میں ان کے اندر یہ لیاقت موجود تھی کہ پروردگار عالم نے حکمت آمیز سخن اور بلند معارف الہیہ ان کو سکھایا، قرآن مجید میں جناب یحییٰ علیہ السلام کے متعلق بیان ہوا ہے :

( یَا یَحْییٰ خُذِالْکِتَابَ بِقُوَّةٍ وَآتَیْنٰاه الْحُکْمَ صَبِیّاً ) (مریم۱۲) اے یحییٰ کتاب (توریت) مضبوتی کے ساتھ لو اور ہم نے انھیں بچپن ہی میں اپنی بارگاہ سے حکمت عطا کی جب کہ وہ بچے تھے۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس آیت میں حکمت سے مرادنبوت ہے اور بعض لوگوں کا احتمال یہ ہے کہ حکمت سے مراد معارف الہی ہے .بہر حال جو بھی مراد ہو لیکن آیت کے مفہوم سے واضح ہے کہ انبیاء اور اولیاء الہی ایک خاص استعداد اور فوق العادہ قا بلیت کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں ،اور ان کا بچپن دوسروں کے بچپن سے الگ ہوتا ہے ،

حضرت عیسیٰ ـ اپنی ولادت کے دن ہی خدا کے حکم سے لوگوں سے گفتگو کی اور کہا : بے شک میں خدا کا بندہ ہوں ،مجھ کو اُسی نے کتاب عطا فرمائی ہے اور مجھ کونبی بنایا۔(۲)

معصومین علیہم السلام کے حالات زندگی میں بھی ہم پڑھتے ہیں کہ ان لو گوںنے بچپن کے زمانے

______________________

(۱) عقد الفرید، ج۳، ص ۴۳. اسحاق کے بعد جاحظ نے کتاب العثمانیہ میں اشکال کیاہے اور ابوجعفر اسکافی نے کتاب نقض العثمانیہ میں اس اعتراض کا تفصیلی جواب دیاہے اور ان تمام بحثوں کو ابن ابی الحدید نے نہج البلاغہ کی شرح ج۱۳ ص ۲۱۸ سے ص ۲۹۵ پر لکھا ہے۔

(۲) سورۂ مریم، آیت ۳۰

۳۰

میں عقلی ،فلسفی اور فقہی بحثوں کے مشکل سے مشکل مسئلوں کا جواب دیا ہے ۔(۱)

جی ہاں نیک لوگوں کے کاموں کو اپنے کاموں سے قیاس نہ کریں اور اپنے بچوں کے فہم و ادراک کو پیغمبروں اوراولیاء الہی کے بچپن کے زمانے سے قیاس نہ کریں۔(۲)

______________________

(۱) بطور مثال وہ مشکل سوالات جو ابوحنیفہ نے امام موسیٰ کاظم سے اور یحییٰ ابن اکثم نے امام جواد ـ سے کیے تھے. اور جوجوابات ان لوگوںنے سنا وہ آج بھی حدیث اور تاریخ کی کتابوںمیں محفوظ ہیں۔

(۲) امیر المومنین ـ فرماتے ہیں:لَایُقٰاسُ بِآلِ مُحَمَدٍ مِنْ هٰذِهِ الْاُمَّةِ اَحَد . اس امت کے کسی بھی فرد کو پیغمبر اسلام کے فرزندوں اور خاندان سے موازنہ نہ کرو۔ نہج البلاغہ، خطبہ دوم

۳۱

دوسری فصل

حضرت علی ـ کے فضائل و کمالات بیان کرنے پر پابندی

تاریخ انسانیت میں بہت ہی کم شخصیتیں مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام جیسی ہوںگی جن کے دوست اور دشمن دونوںنے مل کر ان کے فضائل وکمالات کو چھپائے ہوں گے اس کے باو جود ان کے فضائل وکمالات سے عالم پُر ہے۔

دشمن نے ان سے عداوت ودشمنی کو اپنے دل میں بٹھا رکھا ، اور حسد وکینہ کی وجہ سے ان کے بلند وبا فضیلت مقامات اور کمالات کو لوگوںسے چھپایا ،اور دوست نے جوانھیںدل وجان سے چاہتااور محبت کرتا ہے وہ دشمنوں کے شکنجے اورجان کے خوف کی وجہ سے ان کے فضائل وکمالات کو چھپایا، ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہ تھا کہ اپنے لبوں کو جنبش نہ دیں اور ان سے محبت والفت کا اظہار نہ کریں اور ان کے متعلق اصلاً گفتگو نہ کریں۔

خاندان بنی امیہ کے افرادہمیشہ اس بات پر کوشاں رہتے تھے کہ جس طرح سے بھی ممکن ہو علی ـ اوران کے خاندان کے فضائل کو مٹادیا جائے

بس اتنا کہناہی کافی تھا کہ یہ علی ـ کا چاہنے والا ہے بنی امیہ کے حکومتی سپاہیوں میں سے دو آادمی گواہی دیتے تھے کہ یہ علی ـ کا چاہنے وا لا ہے اور فوراً ہی اس کا نام حکو مت میں کام کرنے والوں کی فہرست سے حذف کر دیاجاتا تھا، اور بیت المال سے اس کا وظیفہ بند کر دیا جاتا تھا ، معاویہ اپنے گورنروں اورحاکموںکو خطاب کرتے ہوئے کہتاہے: اگر کسی شخص کے لئے معلوم ہو جائے کہ وہ علی ـ اور ان کے خاندان سے محبت رکھنے والاہے تو اس کا نام کام کرنے والوں کی فہرست سے خارج کر دو، اور اس کا وظیفہ ختم کردو اور اسے تمام سہو لتوں سے محروم کر دو ۔(۱)

پھر معاویہ اپنے دوسرے حکم نامہ میں سختی اور تاکید سے حکم دیتا ہے کہ: جوبھی علی ـ اور ان کے

______________________

(۱)اُنظروا ا لی من قامت علیه البینته انه یحب علیاً واهل بیته فا محو ه من الد یوان واسقطو اعطائه ورزقه،

۳۲

خاندان سے دوستی کا دم بھرتا ہے اس کے ناک اور کان کو کاٹ ڈالو اور ان کے گھر کو ویران کردو۔(۱)

اس فرمان کے نتیجے میں،عراق کی عوام خصوصاً اہل کوفہ اس قدر ڈرے اور سہمے کہ شیعوں میں سے کوئی بھی ایک شخص معاویہ کے جاسوسوں کی وجہ سے اپنے راز کو اپنے دوستوں تک سے بیان نہیں کر سکتا تھا مگر یہ کہ پہلے قسم لے لیتا تھا کہ اس کے راز کو فاش نہ کرنا ۔(۲)

اسکافی اپنی کتاب نقض عثمانیہ میں لکھتے ہیں :

بنی امیہ اور بنی عباس کی حکومت ،مولائے کائنات کے فضل وکمالات کے متعلق بہت زیادہ حساس تھی اور ان کے فضائل کو روکنے اورمشہورنہ ہونے کے لئے اس نے اپنے فقھا ء ومحدثین اور قاضیوں کو اپنے پاس بلایا اور بہت سختی سے منع کیا کہ اپنی اپنی کتابوں میں علی ـ کے فضائل و کمالات کو نقل نہ کریں ،اس وجہ سے بہت سے محدثین مجبور تھے کہ امام کے فضائل وکمالات کو اشارے اور کنایہ کے طور پر نقل کریں اور یہ کہیں کہ قریش کے فلاں آدمی نے ایسا کیا ہے۔

معاویہ نے تیسری مر تبہ سرزمین اسلامی پر پھیلے ہوئے اپنے سیاسی نمائندوںکو خط لکھا کہ علی کے شیعوں کی گواہی کسی بھی مسئلے میں قبول نہ کریں ۔لیکن اس کا یہ حکم بہت زیادہ مفید ثابت نہ ہوا جو علی و خاندان کے فضائل کو منتشر ہونے سے روک پاتا ، اس وجہ سے معاویہ نے چوتھی مرتبہ اپنے گورنر کو لکھاکہ جو لوگ عثمان کے فضائل ومناقب کو نقل کریں ان کا احترام کرو اور ان کا نام اور پتہ میرے پاس روانہ کرو تا کہ ان کی عظیم خدمات کا صلہ انھیںدیا جا سکے ۔یہ ایک ایسی خوشخبری تھی جو اس بات کاسبب بنی کہ تمام شہروں میں عثمان کے جعلی فضائل ومناقب گڑھے جانے لگے اور یہ فضائل نقل کرنے والے عثمان کے فضائل کے متعلق حدیثیں لکھ لکھ کر مالدار بننے لگے ،اور یہ سلسلہ بڑی تیزی سے چلتا رہا ۔ یہاں تک کہ خود معا ویہ اس بے اساس اور جھوٹے فضائل کے مشہور ہونے کی وجہ سے بہت ناراض ہوا اور اس مرتبہ حکم دیا کہ عثمان کے فضائل بیان نہ کیئے جائیں ۔ اور خلیفہ اول اور دوم اور دوسرے صحابہ کے فضائل بیان کئے جائیں اور اگر کوئی محدث ابو تراب کی

______________________

(۱)من اتهمتموه بموالات هولاء فنکلوابه واهد مواداره

(۲)شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحد ید ج۱۱ ۔ص۴۵۔۴۴

۳۳

فضیلت میں کوئی حدیث نقل کرے تو فوراً اسی سے مشابہ ایک فضیلت پیغمبر کے دوسرے صحابیوں کے بارے میں گڑھ دیا جائے اور اسے لوگوں کے درمیان بیان کیا جائے کیونکہ یہ کام شیعوں کی دلیلوں کوبے اثر کرنے کیلئے بہت مؤثر ہے(۱)

مروان بن حکم ان لوگوں میں سے تھا جس کا یہ کہنا تھا کہ علی نے عثمان کا جو د فاع کیا تھاایسا دفاع کسی نے نہیں کیا ۔اس کے باوجود ہمیشہ امام ـ پر لعنت و ملامت کرتا تھا جب اس پر اعتراض کیا گیاکہ تم علی کے بارے میں جب ایسا عقیدہ رکھتے ہو تو پھر کیوں انھیں برا بھلا کہتے ہوتو اس نے جواب دیا : میری حکومت صرف علی کو برا بھلا کہنے اور ان پر لعنت کر نے کی وجہ سے ہی محکم اور مستحکم ہوگی ، اور ان میں سے بعض لوگ ایسے بھی تھے جو حضرت علی کی پاکیزگی اور طہارت اور عظمت و جلا لت کے کے قائل تھے لیکن اپنے مقام ومنصب کی بقا کے لئے حضرت علی اور ان کے بچوں کو برا بھلا کہتے تھے ۔

عمر بن عبدالعزیز کہتے ہیں :

میرے باپ مدینہ کے حاکم اور مشہور خطیب اور بہت بہادر تھے، اور نما زجمعہ کا خطبہ بہت ہی فصیح وبلیغ انداز سے دیتے تھے، لیکن حکومت معاویہ کے فرمان کی وجہ سے مجبور تھے کہ خطبہء جمعہ کے درمیان علی ـ اور ان کے خاندان پر لعنت کریں ، لیکن جب گفتگو اس مرحلے تک پہونچی تو اچانک ان کی زبان لکنت کرنے لگتی اور ان کے چہرہ کارنگ تبدیل ہونے لگتا اور خطبہ سے فصاحت وبلاغت ختم ہو جاتی تھی. میں نے اپنے باپ سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے جواب دیا جو کچھ میں علی ـ کے بارے میں جانتا ہوں اگر دوسرے بھی وہی جانتے تو کوئی بھی میری پیروی نہیں کرتا اور میں علی ـکے تمام فضائل وکمالات اور معرفت کے بعد بھی انھیںبرابھلا کہتا ہوں ،کیو نکہ آل مروان کی حکومت کو بچانے کیلئے میں مجبور ہوں کہ ایسا کروں(۲) بنی امیہ کی اولاد کادل علی کی دشمنی سے لبریز تھا، جب کچھ حقیقت پسند افراد نے معاویہ کو نصیحت کی کہ اس کام سے باز آجائے تو معاویہ نے کہا کہ میں اس مشن کو اس حد تک جاری رکھوں گا کہ ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے یہ فکر لئے ہوئے بڑے ہو جائیں او رہمارے بزرگ اسی حالت میں بوڑھے ہو جا ئیں۔

______________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳۔ص۱۵

(۲)شرح نہج البلاغہ ج۱۳۔ص۲۲۱۔

۳۴

حضرت علی ـ کو ساٹھ سال تک منبروں ، نشستوںمیں وعظ و نصیحت اور خطباء کے ذریعے،اور درس وتدریس کے ذریعے، خطباء اور محدثین کے درمیان معاویہ کے حکم سے برا بھلا کہا جاتا رہا اور یہ سلسلہ اس قدر مفید و مؤثر ہوا کہ کہتے ہیں کہ ایک دن حجاج نے کسی مرد سے غصہ میں بات کی اور وہ شخص قبیلہ ''بنی ازد'' کا رہنے والا تھا،اس نے حجاج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: اے امیر! مجھ سے اس انداز سے بات نہ کرو، ہم بافضیلت لوگوں میں سے ہیں. حجاج نے اس کے فضائل کے متعلق سوال کیا اس نے جواب دیا کہ ہمارے فضائل میں سے ایک فضیلت یہ ہے کہ اگر کوئی چاہتا ہے کہ ہم سے تعلقات بڑھائے تو سب سے پہلے ہم اس سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا وہ ابوتراب کو دوست رکھتا ہے یا نہیں ؟!اگر وہ تھوڑا بہت بھی ان کا چاہنے والا ہوتا ہے تو ہرگز ہم اس سے تعلقات و رابطہ برقرار نہیں کرتے علی ـ اور ان کے خاندان سے ہماری دشمنی اس حد تک ہے کہ ہمارے قبیلے میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں ملے گا کہ جس کا نام حسن یا حسین ہو اور کوئی بھی لڑکی ایسی نہیں ملے گی جس کا نام فاطمہ ہو. اگر ہمارے قبیلے کے کسی بھی شخص سے یہ کہا جائے کہ علی ـسے کنارہ کشی اختیار کرو تو فوراً اس کے بچوں سے بھی دوری اختیار کرلیتا ہے۔(۱)

خاندان بنی امیہ کے لوگوں نے مولائے کائنات حضرت علی کے فضائل کو پوشیدہ رکھااور ان کے مناقب سے انکار کیا اور اتنا برا بھلا کہا کہ بزرگوں اور جوانوں کے دلوں میں رسوخ کر گیااور لوگ حضرت علی کو براکہنا ایک مستحب عمل سمجھنے لگے .اور بعض لوگوں نے اسے اپنا اخلاقی فریضہ سمجھا. جب عمر بن عبد العزیز نے چاہاکہاسلامی معاشرے کے دامن پر لگے اس بد نما داغ کو پاک کرے، تو بنی امیہ کی روٹیوں پر پلنے والے کچھ لوگوںنے نالہ و فریاد بلند کرنا شروع کردیاکہ خلیفہ ،اسلامی سنت کو ختم کرنا چاہتا ہے۔

ان تمام چیزوں کے باوجود اسلامی تاریخ کے اوراق آج بھی گواہی دے رہے ہیں کہ بنی امیہ کے بد خصالوں نے جو نقشہ کھینچا تھا ان کی آروزئیں خاک میں مل گئیں اوران کی مسلسل کوششوں نے توقع کے خلاف نتیجہ دیااور فضائل و مناقب امام (ع) اموی خطیبوں کے چھپانے کے باوجود سورج کی طرح چمکا، اور اس نے نہ صرف یہ کہ لوگوں کے دلوں میں حضرت علی کی محبت کو بیدار کیابلکہ یہ سبب بنا کہ لوگ

______________________

(۱) فرحة الغری، مولف؛ مرحوم سیدابن طاؤوس طبع نجف، ص ۱۴۔ ۱۳ ۔

۳۵

حضرت علی ـ کے بارے میں بہت زیادہ تلاش و جستجو کریں اور امام ـ کی شخصیت پر سیاست کی عینک اتار کر قضاوت کریں، یہاں تک کہ عبداللہ بن زبیر کا پوتا عامر جو خاندان علی کا دشمن تھا اپنے بیٹے کو وصیت کرتا ہے کہ علی کو برا کہنے سے باز آجائے کیونکہ بنی امیہ نے ساٹھ سال تک منبروں سے علی پر سب و شتم کیا لیکن نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا بلکہ حضرت علی کی شخصیت اور بھی اجاگر ہوتی گئی اور لوگوںکے دلوں میں ان کی محبت اور بھی بڑھتی گئی۔(۱)

پہلا مددگار

مولائے کائنات کے فضائل کا چھپانا اور ان کے مسلم حقائق کے بارے میں منصفانہ تحلیل تحلیل نہ کرنا صرف بنی امیہ کے زمانے سے مخصوص نہیں تھا بلکہ بشریت کے اس نمونہء کامل ہمیشہ ہتک کی متعصب مؤرخین نے مولائے کائنات حضرت علی کے خاندان اور ان کے حق پر حملہ کرنے سے گریز نہیں کیا ہے ۔اور آج بھی جب کہ اسلام آئے ہوئے چودہ صدیاں گزر گئیں وہ لوگ جو اپنے کو نئی نسل کا رہبر اور روشنفکر تصور کرتے ہیں اپنے زہریلے قلم کے ذریعے اموی مقاصد کی مدد کرتے ہیں اور مولائے کائنات کے فضائل و مناقب پر پردہ ڈالتے ہیں جس کی ایک واضح مثال یہ ہے:

غار حرا میں پہلی مرتبہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قلب پر وحی الہی کا نزول ہوا اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم منصب رسالت و نبوت پر فائز ہوئے، وحی کے فرشتے نے اگرچہ آپ کو مقام رسالت سے آگاہ کردیا لیکن اعلان رسالت کا وقت معین نہیں کیا ،لہٰذا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تین سال تک عمومی اعلان سے گریز کیا اور جب بھی راستے میں شائستہ اور معتبر افراد سے ملاقات ہوتی یا خصوصی ملاقات ہوتی تو ان کو اس نئے قوانین الہی سے روشناس کراتے اور چند گروہ کو اس نئے قانون الہی کی دعوت دیتے، یہاں تک کہ وحی کا فرشتہ نازل ہوا اور خداوند عالم کی طرف سے حکم دیا کہ اے پیغمبر اپنی رسالت کا اعلان اپنے رشتے داروںاوردوستوں کے ذریعے شروع کریں۔:

( وَانذِرْ عَشِیرَتَکَ الْاقْرَبِینَ وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنْ اتَّبَعَکَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ فَانْ عَصَوْکَ فَقُل ا ِنِّی بَرِیئ مِمَّا تَعْمَلُونَ ) (۲)

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱۳، ص ۳۲۱

(۲) سورۂ شعرائ، آیت ۲۱۶۔ ۲۱۴

۳۶

اور اے رسول! تم اپنے قریبی رشتہ داروں کو (عذاب خدا سے) ڈراؤ اور جو مومنین تمہارے پیرو ہوگئے ہیں ان کے سامنے اپنا بازو جھکاؤ (تواضع کرو) پس اگر لوگ تمہاری نافرمانی کریں تو تم (صاف صاف) کہہ دو کہ میں تمہارے کرتوتوں سے بری الذمہ ہوں۔

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عمومی دعوت کا اعلان رشتہ داروں سے شروع ہونے کی علت یہ ہے کہ جب تک نمائندئہ الہی کے قریبی اور نزدیکی رشتہ دار ایمان نہ لائیں اور اس کی پیروی نہ کریںاس وقت تک غیر افراد اس کی دعوت پر لبیک نہیں کہہ سکتے ،کیونکہ اس کے قریبی افراد اس کے تمام حالات و اسرار اور تمام کمالات و معایب سے آگاہ ہوتے ہیں، لہٰذا اعزہ و احباب کا ان کی رسالت پر ایمان لانا ان کی صداقت کی نشانی شمار ہوگا اور رشتہ داروںکا پیروی و اطاعت سے اعراض کرنا ان کی صداقت سے منہ پھیرنا ہے۔

اسی لئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام نے حضرت علی ـ کو حکم دیا کہ بنی ہاشم کے ۴۵ بزرگوں کو دعوت پر مدعو کریں اور ان کے کھانے کیلئے گوشت اور دودھ کا انتظام کریں،تمام مہمان اپنے معین وقت پرپیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور لوگوں نے کھانا کھایا ،پیغمبر کے چچا ابولہب نے ایک حقیر اور پست جملہ سے، بنے ہوئے ماحول کو خراب کر دیا اور لوگ منتشر ہوگئے اور بغیر کسی نتیجہ کے دعوت ختم ہوگئی اور لوگ کھانا کھا کر پیغمبر کے گھر سے نکل گئے ۔

پیغمبر نے پھر دوسرے دن اسی طرح کی دعوت کا اہتمام کرنے اور ابو لہب کے علاوہ تمام لوگوں کو دعوت دینے کا ارادہ کیا اور پھر حضرت علی ـنے پیغمبر کے حکم سے گوشت اور دودھ کھانے کے لئے آمادہ کیا اور بنی ہا شم کی مشہور ومعروف شخصیتوں کو کھانے اور پیغمبر کی گفتگوسننے کے لئے دعوت دی ،تمام مہمان اپنے معین وقت پر حاضر ہوئے اور کھانے وغیرہ کی فراغت کے بعد پیغمبر نے اپنی گفتگو کا آغازیوں کیا :

''خدا کی قسم میں لوگوںکو راہ راست پر لانے میں غلط بیانی سے کام نہ لو ںگا میں (بر فرض محال) اگر دوسروں سے غلط بیانی سے کام لوںتو بھی تم سے غلط نہیں کہوںگا اگر دوسروں کو دھوکہ دوں تو تمھیں دھوکا نہیں دوںگا ،خدا کی قسم کہ جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں میں تمہاری طرف اور تمام عالم کی ہدایت کے لئے اسی کی طرف سے بھیجا گیا ہوں ،ہاں ،آگاہ ہو جائو ،جس طرح تم سو جاتے ہو ویسے ہی مر جائو گے اور جس طرح سوکر اٹھتے ہو ویسے ہی زندہ کئے جائو گے، اچھے اعمال انجام دینے والوںکو ان کا اجر دیا جائے گا اور برے اعمال انجام دینے والے اپنے عمل کا نتیجہ پائیں گے ،اور نیک اعمال کرنے والوں کے لئے جنت ہمیشگی کاگھر ہے اور برے کام کرنے والوں کے لئے جہنم آمادہ ہے۔

۳۷

کوئی بھی شخص اپنے اہل وعیال کے لئے مجھ سے اچھی چیز نہیں لایا ہے میں تمہاری دنیا وآخرت کے لئے بھلائی لے کر آیا ہوں میرے خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ تم کو اس کی وحدانیت اور اپنی رسالت کی طرف دعوت دوں تم میں سے کون ہے جو اس راہ میں میری مدد کرے تا کہ وہ میرا بھائی ،وصی اور تمہارے درمیان میرا نما ئندہ ہو؟''

آپ نے یہ جملہ کہا اور تھوڑی دیر خاموش رہے تاکہ دیکھیں کہ حاضرین میں سے کون ہمیشہ نصرت و مدد کرنے کے لئے آمادہ ہوتا ہے مگر اس وقت خاموشی نے ان پر حکومت کررکھی تھی اور سب کے سب اپنے سروں کوجھکائے فکروں میں غرق تھے

یکایک حضرت علی ـجن کی عمر پندرہ سال سے زیادہ نہ تھی ، اس خاموشی کے ماحول کو شکست دے کر اٹھے اور پیغمبر سے مخاطب ہوکر کہا: اے پیغمبر خدا ، میں آپ کی اس راہ میں نصرت و مددکروں گا پھراپنے ہاتھوں کو پیغمبر اسلام کی طرف بڑھایا تاکہ اپنے عہدوپیمان کی وفاداری کا ثبوت پیش کریں

پیغمبر نے حکم دیا کہ اے علی بیٹھ جائو اور پھر اپنے سوال کو ان لوگوں کے سامنے دہرایا ،پھر علی ـ اٹھے اورنصرت پیغمبر کا اعلان کیا ، اس مرتبہ بھی پیغمبر نے حکم دیا کہ علی بیٹھ جائو،تیسری مرتبہ پھر مثل سابق علی کے علاوہ کوئی دوسرا نہ اٹھا اور صرف علی ـنے اٹھ کر پیغمبر کی نصرت اور محافظت کا اعلان کیا ۔ اس موقع پر پیغمبر نے اپنے ہاتھ کو علی کے ہاتھ میں دیا اور حضرت علی کے بارے میں بزرگان بنی ہاشم کی بزم میں اپنے تاریخی کلام کا آغاز اس طرح سے کیا۔

''اے میرے رشتہ دارو اور دوستو ،جان لو کہ علی میرا بھائی میرا وصی اور تمہارے درمیان میرا جانشین وخلیفہ ہے''

سیرہ حلبی کی نقل کی بنا پر ۔رسول اکرم نے اس جملے کے علاوہ دو اور باتیںاس کے ساتھ بیان کیںکہ :'' وہ میرا وزیر اور میرا بھائی ہے ''۔

اس طریقے سے پر خاتم النبیین کے توسط سے اسلام کے سب سے پہلے وصی کا تعیّن، اعلان رسالت کے آغاز پر اس وقت ہوا جب بہت ہی کم لوگ اس قانون الہی کے پیرو تھے،

پیغمبر اسلام نے ایک ہی موقع پر اپنی نبوت اور حضرت علی ـ کی امامت کا اعلان کرکے.یہ ثابت کر دیاکہ نبوت وامامت دو ایسے مقام ہیں جو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں اور امامت تکمیل نبوت ورسالت ہے ۔

۳۸

اس تاریخی واقعہ کے مدارک:

شیعہ اور غیر شیعہ محدثین اور مفسرین نے اس تاریخی واقع کو بغیر کسی کمی وزیادتی کے اپنی کتابوں میںنقل کیا ہے(۱) اور امام ـکے اہم فضائل ومناقب میں شمار کیا ہے اہلسنت کے صرف ایک مشہور مورخ ابن تیمیہ دمشقی نے جو اہلبیت علیھم السلام کے بارے میں ہر حدیث سے انکار کرنے میں مہارت رکھتے ہیں اس سند کو رد کیا ہے اور اس سند کوجعلی قراردیا ہے ۔

انہوں نے نہ صرف اس حدیث کو جعلی اور بے اساس قرار دیاہے بلکہ امام کے خاندان کے سلسلے میں خاص نظریہ رکھنے کی وجہ سے اکثر ان حدیثوں کو جو خاندان رسالت کے فضائل و مناقب میں بیان ہوئیں ہیں اگر چہ وہ حد تواتر تک پہونچ چکی ہوں جعلی اور بے اساس قراردیاہے

تاریخ ''الکامل'' پر حاشیہ لگانے والے نے اپنے استاد کہ جن کا نام پوشیدہ رکھاہے، سے نقل کیاہے کہ میرے استاد نے بھی اس حدیث کوجعلی قرار دیا ہے (شاید ان کا استادبھی ابن تیمیہ کی فکروں پر چلنے والا تھا، یا یہ کہ اس سند کو خلفاء ثلاثہ کی خدمت کے مخالف جانا ہے اس لئیجعلی قراردیاہے )،پھر وہ خود عجیب انداز سے اس حدیث کے مفہوم کی توجیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :اسلام میں امام ـ کا وصی ہونا ،بعد میں ابوبکر کی خلافت کے منافی نہیں ہے ،کیونکہ اس دن علی ـ کے علاوہ کوئی مسلمان نہ تھا جو پیغمبر کا وصی ہوتا۔

ایسے افرادسے بحث ومباحثہ کرنا فضول ہے. ہمارا اعتراض ان لوگوں ہے جنہوں نے اس حدیث کو اپنی بعض کتابوں میں تفصیل سے اور بعض کتابوں میںمختصر اور مجمل طریقے سے ذکر کیا ہے ،یعنی ایک طرح سے حقیقت بیان کرنے سے چشم پوشی کی ہے ،یا ہمارا اعتراض ان افراد پر ہے جن لوگوں نے اس حدیث کو اپنی کتاب کے پہلے ایڈ یشن میںتو شامل کیا لیکن اسکے بعد کے ایڈیشن میں کسی دبائو اور خوف وہراس سے

______________________

(۱) تفسیر سورہ شعراء آیت نمبر ۲۱۴ کی طرف رجوع کریں

۳۹

حذف کردیا ہے. یہاں پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے انتقال کے بعد امام کے حقوق وفضائل کو پوشیدہ اور چھپا یا گیا ہے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے ۔اب یہاں پرہم اس بات کی تشریح کررہے ہیں ۔

تاریخی حقایق کاکتمان:

محمد بن جریر طبری جوتاریخ اسلام کا ایک عظیم مؤرخ ہے ،اس نے اپنی تاریخ طبری میں اس تاریخی فضیلت کو معتبر سندوں کے ساتھ نقل کیاہے(۱) لیکن جب اپنی تفسیر(۲) میں اس آیت( وَانذِرْ عَشِیرَتَکَ الْاقْرَبِینَ ) پر پہونچتا ہے تو اس سند کو توڑ مروڑ کر مجمل اور مبہم نقل کرتا ہے جس کی وجہ تعصب کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔

اس کے پہلے ہم بیان کرچکے ہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دعوت ختم ہونے کے بعد حاضرین کو مخاطب کر کے پوچھا تھا:

''فأیکم یوازرنی علیٰ ان یکون أخی و وصیّی وخلیفتی''؟

لیکن طبری نے اس سوال کو اس طرح نقل کیا ہے۔

''فأیکم یوازرنی علی ان یکون أخی و کذا وکذا''؟!

تعجب کی بات نہیں ہے کہ دو کلمہ وصی و خلیفتی کو تبدیل کر کے مبہم اور مجمل الفاظ کو اس کی جگہ پر ذکر کرنا سوائے تعصب اور خلیفہ کے مقام و منزلت کو گھٹانے کے کچھ نہیں ہے۔

اس نے نہ صرف پیغمبر(ص) کے سوال میں تحریف کیا ہے، بلکہ حدیث کا دوسرا حصہ جو پیغمبر اسلام(ص) نے حضرت علی سے فرمایا تھا کہ''ان هذا اخی و وصیّی و خلیفتی'' بھی بدل ڈالا ہے، اور دو ایسے ا لفاظ جو مولائے کائنات امیر المومنین کی بلا فصل خلافت پر واضح دلیل تھے کو ایسے لفظوں یعنی

______________________

(۱) اس تاریخی فضیلت کو ان کتابوں نے نقل کیا ہے ، تاریخ طبری ج۲ ص ۲۱۶، تفسیر طبری ج۱۹ ص ۷۴، کامل ابن اثیر ج۲ ص ۲۴، شرح شفای قاضی عیاض ج۳ ص ۳۷، سیرۂ حلبی ج۱ ص ۳۲۱ و اس حدیث کو تاریخ و تفسیر لکھنے والوں نے دوسرے طریقے سے بھی نقل کیا ہے جن کو ہم یہاں نقل کرنے سے پرہیز کر رہے ہیں۔

(۲) تفسیر طبری، ج۱۹، ص ۷۴

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809