فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)7%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 361588 / ڈاؤنلوڈ: 6010
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

بعض بلاؤں کی حکمت

مذکورہ بالا باتوں کے علاوہ، کبھی کبھی خداوند متعال کی حکمت اور حق کی رحمانیت اس بات کا موجب ہوتی ہے کہ غیر طبیعی راستوں سے اپنے بندوں پر لطف کرے اور اپنی نعمت ان پر نازل کرے۔

اس مقصد کے لئے خداوند متعال مادی اسباب و علل کے علاوہ دوسرے اسباب و علل قرار دیتا ہے اور لوگوں سے چاہتا ہے کہ ان کے وسیلے سے لوگ اپنے کو الٰہی رحمت و نعمت کا مستحق بنائیں، یہ معنی بھی خداوند متعال کے لطف اور اس کی رحمت کا مقتضی ہے، خلقت کا نظام، حکمت کی بنیاد پر ہے اور انسان کی تخلیق کا مقصد ہدایت اور تکامل ہے، اور ہدایت و تکامل، اس وقت حاصل ہوتا ہے جبکہ لوگ آیات الٰہی کی معرفت اور ان میں تدبر، بندگی، دین حق نیز انبیاء الٰہی کے احکام پر عمل کرتے ہوں، لیکن کبھی کبھی لوگ گناہ اور معصیت کے نتیجہ میں راہ حق سے منحرف ہو جاتے ہیں، عام طور سے لوگ جس وقت مادی عیش و آرام میں ہوتے ہیں اور اقتصادی اور مادی لذتوں سے بہرہ مند ہونے کے اعتبار سے کوئی مشکل نہیں رکھتے اور ان کی ہر من پسند چیز فراہم ہوتی ہے تو اس وقت خدا اور معنویات کی طرف بہت کم توجہ دیتے ہیں۔ ایسے وقت میں، انسانی اور الٰہی خصلتیں ان کے اندر دھیرے دھیرے کمزور ہونے لگتی ہیں اور آخر کار فراموشی کی نذر ہو جاتی ہیں، نتیجہ میں ان کے اندر کفر و ضلالت اور سرکشی و گمراہی پیدا ہو جاتی ہے۔

۴۱

قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے:(کَلاَّ ِنَّ الِنسَانَ لَیَطْغیٰ٭ أَن رَّئٰ اهُ اسْتَغنیٰ) 1 جس وقت انسان اپنے کو بے نیاز خیال کرلیتا ہے تو سرکشی کرنے لگتا ہے۔ اگر ایک معاشرہ اور امت کی اکثریت پر سرکش اور استکباری فکر حاکم ہو تو خداوندمتعال کا لطف اور اس کی عنایت اس بات کا سبب بنتی ہے کہ کسی بھی طرح سے انسانوں کو ہوشیار کرے، ان کو خواب غفلت سے بیدار کرے اور راہ حق اور طرز بندگی کی طرف واپس لے آئے۔

اس مقصد کے تحقق کے لئے کبھی کبھی بلائیں، جیسے فقر اور قحط نازل کرتا ہے اور دوسری طرف ان بلاؤں کے رفع کرنے او ران کے علاج کے لئے گناہوں سے توبہ واستغفار، خدا کی طرف توجہ اور نماز کو بتاتا ہے تاکہ نتیجہ میں خلقت کا مقصد پورا ہوسکے اور یہی انسان کی اختیاری ہدایت اور تکامل ہے۔یہ بات بھی تعجب خیز الٰہی سنتوں میں سے ایک رہی ہے کہ کبھی کسی نبی کو مبعوث کرتا تھا اور اس کی امت کو سختیوں میں مبتلا کرتا تھا تاکہ وہ خدا اور راہ حق سے غافل نہ ہوں، نیز مادی لذتوں میں غرق ہونا ان کو سعادت سے باز نہ رکھے۔

بہرحال بعض بلاؤں کا نزول، غافل انسانوں کی توجہ اور بیداری کا سبب ہوتا ہے اس لئے کہ سخت حالات میں انسان بہتر طور پر خدا سے اپنی احتیاج کو درک کرتا ہے اور عیش و آرام کی زندگی سے بہتر بلاؤں کی زندگی میں وہ انبیاء کی تعلیمات کو سمجھتا اور قبول کرتا ہے ، قرآن کریم فرماتا ہے:(وَ مَا أَرْسَلنَا فِی قَریَةٍ مِن نَّبِیٍّ ِلاَّ أَخَذنَا أَهْلَهَا بِاْلبَأسآئِ وَ الضَّرَّآئِ لَعَلَّهُمْ یَضَّرَّعُونَ )2 اور ہم نے جب بھی کسی قریہ یا شہر

(1)سورۂ علق، آیت 7،6۔

(2)سورۂ اعراف، آیت 94۔

۴۲

میں کوئی نبی بھیجا تو اہل قریہ یا اہل شہر کو نافرمانی پر سختی اور پریشانی میں ضرور مبتلا کیا کہ شاید وہ لوگ ہماری بارگاہ میں تضرع و زاری کریں۔

سورۂ مومنون کی آیت اور بھی اسی مطلب کی وضاحت کرتی ہے:

(وَ لَو رَحِمنَاهُم وَ کَشَفْنَا مَابِهِم مِن ضُرٍّ لَلَجُّوا فِی طُغیَانِهِم یَعمَهُونَ٭ وَ لَقَد أَخَذنَاهُم بِالعَذَابِ فَمَا اسْتَکَانُوا لِرَبِّهِم وَ مَایَتَضَرَّعُونَ)

اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور ان کی تکلیف اور سختی کو دور کردیں تو بھی یہ اپنی سرکشی پر اڑے رہیں گے اور گمراہ ہی ہوتے جائیں گے، اور ہم نے انھیں عذاب کے ذریعہ پکڑا بھی مگر یہ نہ اپنے پروردگار کے سامنے جھکے اور نہ ہی گڑگڑاتے ہیں۔

اس بنا پر امتوں کے بعض عذابوں اور ان کی سختیوں کا فلسفہ لوگوں کی بیداری اور راہ ہدایت کی طرف ان کا واپس آنا ہے، اگرچہ ممکن ہے کہ یہ سختیاں، پریشانیاں اور بلائیں بعض امتوں کو بیدار نہ کریں اور وہ لوگ اسی طرح ضلالت و گمراہی پر اڑے رہیں، کہ اس صورت میں حجت ان پر تمام ہو جاتی ہے اور انھیں چاہئے کہ ان بلاؤں کے نزول کے منتظر رہیں جو کہ ان کی حیات اور زندگی کا خاتمہ کردیں گی۔

۴۳

قرآن سورۂ انعام کی آیات سے تک، حضرت پیغمبر اسلام کو خطاب کر کے فرماتا ہے:

(وَ لَقَد أَرسَلنَااِلیٰ أُمَمٍ مِن قَبلِکَ فَأََخَذنَاهُم بِالبَاسآئِ وَ الضَّرَّآئِ لَعَلَّهُم یَتَضَرَّعُونَ ٭ فَلَو لا ِذْجآئَ هُم بَاسُنَا تَضَرَّعُوا وَ لٰکِن قَسَتْ قُلُوبُهُم وَ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیطٰنُ مَا کَانُوا یَعمَلُونَ ٭ فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُکِّرُوا بِهِ فَتَحنَا عَلَیهِم أَبوَابَ کُلِّ شَیئٍ حَتَّیٰ ِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذنَاهُم بَغتَةً فَاِذَاهُم مُبْلِسُونَ)

یعنی ''ہم نے تم سے پہلے والی امتوں کی طرف بھی رسول بھیجے ہیں اس کے بعد انھیں سختی اور تکلیف میں مبتلا کیا کہ شاید ہم سے گڑگڑائیں، پھر ان سختیوں کے بعد انھوں نے کیوں فریاد نہیں کی، بات یہ ہے کہ ان کے دل سخت ہوگئے ہیں اور شیطان نے ان کے اعمال کوان کے لئے آراستہ کردیا ہے، پھر جب ان نصیحتوں کو بھول گئے جو انھیں یاد دلائی گئی تھیں تو ہم نے امتحان کے طور پر ان کے لئے ہر چیز کے دروازے کھول دیئے، یہاں تک کہ جب وہ ان نعمتوں سے خوش ہوگئے تو ہم نے اچانک انھیں اپنی گرفت میں لے لیا اور وہ مایوس ہوکر رہ گئے'' ۔

ہمیں جاننا اور سمجھنا چاہئے کہ یہ سنت الٰہی ہے جو کہ پہلے والی امتوں میں جاری رہی ہے اور نبی آخرالزمان کی امت بھی اس سے مستثنیٰ نہیںہے۔

بہرحال صاحبان بصیرت اور ان لوگوں کے لئے جو کہ اپنی سعادت اور سرنوشت کی فکر رکھتے ہیں، بعض مشکلات و مصائب اور بلاؤں کا وجود، عبرت و ہدایت کا ذریعہ ہے۔ اسی کے برعکس جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے کہ ایسے انسان بھی ہیں جو ایسے خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں کہ کسی بھی ٹہوکے اور نصیحت سے نصیحت حاصل نہیں کرتے اور ہوش میں نہیں آتے۔

۴۴

لہٰذا وہ بلائیں اور سختیاں جو معاشروںاور قوموں کے لئے لوگوں کو بیدار کرنے اور ہوش میں لانے کی خاطر پیش آتی ہیں وہ سابق انبیاء کی امتوں سے مخصوص نہیںہیں، بلکہ یہ مسئلہ الطاف الٰہی میں سے ہے جو کہ امتوں کی بیداری اور خدا کی طرف توجہ کے لئے واقع ہوتا ہے، جو بات اہم ہے وہ ایسے حوادث کے فلسفہ او رراز کو سمجھنا، گزشتہ سے عبرت حاصل کرنا، خدا کی طرف بازگشت اور توبہ ہے۔ نہایت افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے میں بہت کم لوگ اس مسئلہ کی طرف توجہ کرتے ہیںاور اسی غفلت کی بنا پر اقتصادی بحرانوں سے نجات کے لئے (کہ انھیں میں سے قحط اور پانی کی کمی کا بحران ہے)، بعض عہدہ دار افراد غفلت و بے توجہی کی بنا پر یا ایمانی اور اعتقادی کمزوری کی بنا پر غیر خدا کا دامن تھام لیتے ہیں اور مسلمانوں کے بیت المال سے زیادہ پیسے خرچ کر کے اسکیمیں تیار کرتے ہیں تاکہ شیمیائی مادوں کے ذریعے بادلوں میں پانی بھر کر بارش ایجاد کریں، کتنا باطل خیال ہے! کیا بارش کی علت تامہ یہی بادل کا وجود اور ہوا کے ذریعے اس کا منتقل ہونا اور دوسرے چند محدود اسباب ہیں کہ انسان مکڑی کی طرح اپنے ہی بنے ہوئے جالوں میں پھنس کر مغرور ہو جائے نیز بندگان خدا اور مسلمان عوام کو بجائے اس کے کہ خدا او راس کے احسان و عنایت کے دامن سے متوسل ہونے کی طرف متوجہ کرے، پہاڑوں کی چوٹیوں پر بادلوں کے ٹکڑے تلاش کرے او ران کا شکار کرنے کے بعد پھر ان میں پانی بھر کر بارش برسائے؟

۴۵

واقعاً یہ بات حضرت نوح ـ اور ان کے فرزند کے واقعہ کو یاد دلاتی ہے کہ حضرت نوح ـ سال تبلیغ کے بعد خدا پر اپنی قوم کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے، ان کی ہدایت سے ناامیدی اور عذاب کی علامتیں ظاہر ہونے کے بعد انھوں نے اپنے بیٹے سے چاہا کہ ایمان لے آئے اور کشتی پر سوار ہو جائے تاکہ اس قطعی و یقینی عذاب سے نجات حاصل کرلے۔ اس نے اپنے باپ کے جواب میں اپنے شرک آلود خیال کو اس طرح بیان کیا کہ:(سَاٰوِ اِلٰی جَبَلٍ یَعْصِمُنِْ مِنَ الْمَائِ) 1 میں پہاڑ کی چوٹی پر پناہ لے لوں گا تاکہ وہ مجھے غرق ہونے سے بچالے، جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ آخر کار وہ ایمان نہ لایا اور ہلاک ہوگیا، خداوند متعال اس واقعہ کا ذکر کرکے شرک آلود فکر کی اصل کو بیان کر رہا ہے اور لوگوں کو اس سے ڈرا رہا ہے۔

اب بھی یہ شرک آلود فکر بعض لوگوں کے درمیان خصوصاً مغرب زدہ روشن فکر افراد میں رائج ہے۔ وہ لوگ بجائے اس کے کہ خدا پر ایمان رکھیں اور قلم و بیان سے لوگوں کو خدا کی طرف بلائیں، مشکلات کو دور کرنے کے لئے اسلام و مسلمین کے دشمنوں کے ہاتھوں کی طرف نگاہیں جمائے ہوئے ہیں اور انھیں سے مدد کی امید رکھتے ہیں۔

صاحبان علم و فہم پر پوشیدہ نہیں ہے کہ ہم علمی ترقی اور انسانی علوم کی ایجادات کے مخالف نہیں ہیں کیونکہ دین و قرآن اور توحیدی مکتب فکر، ہر مکتب فکر سے زیادہ انسانوں کو علم و دانش کے حصول اور انسانی افکار و خیالات سے حاصل شدہ چیزوں سے استفادہ کی طرف دعوت دیتا ہے۔ جس بات کی نفی پر یہاں تاکید کی جارہی ہے اور جس کے سخت اور سنگین نتائج سے خبردار کیا جارہا ہے، یہ شرک آلود فکر ہے کہ نہایت افسوس ہے کہ اس میں مبتلا افراد ہمارے معاشرے میں کم نہیں ہیں۔

(1)سورۂ ہود، آیت 43۔

۴۶

بہرحال سب سے زیادہ بہتر، نزدیک اور اطمینان بخش راستہ فردی و اجتماعی مشکلات کو دور کرنے کے لئے خانۂ خدا کے درپر واپس آنا ہے اس لئے کہ راہ خدا کا انتخاب اس بات کے علاوہ کہ ہماری ابدی و اخروی سعادت کا ضامن ہے، دنیوی زندگی کے مشکلات اور بحرانوں کو بھی دور کرتا ہے،(فَقُلتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ إنّهُ کَانَ غَفَّاراً یُرسِلُ السَّمَائَ عَلَیکُم مِدرَاراً) 1

پس میںنے لوگوں سے کہا کہ اپنے پروردگار سے استغفار کرو بے شک وہ بہت زیادہ بخشنے والا ہے وہ آسمان سے تم پر موسلا دھار پانی برسائے گا، نتیجہ میں باغ وجود میں آئیں گے اور نہریں جاری ہوں گی۔

اس بنا پر قرآن، نقائص اور کمیوں کو دور کرنے اور مسلمانوں کے امور میں کشائش کے لئے اپنے پیرؤوں کے لئے راہ حل پیش کرتا ہے اور ان راستوں کی افادیت کی ضمانت لیتا ہے۔ اس کے علاوہ، مسلمان جیسا کہ بارہا آزما چکا ہے دوبارہ پھر آزما سکتا ہے۔

بے شک ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی ہمارے اسلامی معاشرہ پر نصرت الٰہی اور خدا کی غیبی امدادوں کے معجزنما نمونوں میں سے ایک ہے۔ جس وقت کہ تمام لوگ خدا پر توکل اور اس کے غیر سے امید قطع کر کے اسلامی حکومت کے خواہاں ہوئے، خدا نے اپنے وعدہ کی بنا پر کہ قرآن میں فرماتا ہے:(ِإنْ تَنصُرُوْا اللّٰهَ یَنصُرْکُمْ وَ یُثَبِّتْ

(1) سورۂ نوح، آیت 10، 11۔

۴۷

أَقدَامَکُمْ) 1 (اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمھاری مدد کرے گا اور تمھیں ثابت قدم بنا دے گا)، دشمن اسلام کی تمام حمایتوں کے ساتھ ڈھائی ہزار () سالہ شہنشاہی حکومت کی تمام قوتوں کے برخلاف، لوگوں کو ان کے دشمنوں پر فتحیاب کیا، اور یہ سنت الٰہی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک لوگ خدا کی طرف متوجہ رہیں گے خدا بھی ان کی مدد فرمائے گا اور جب وہ خدا کو بھول جائیں گے، غیر خدا سے مدد کی امید رکھنے لگیں گے اور خدا سے منھ موڑ لیں گے تو عذاب و ذلت سے دوچار ہو جائیں گے۔

بہرصورت، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن کریم علم الٰہی کا نسخۂ شافیہ ہے اور دنیا و آخرت میں انسان کی سعادت و نجات، اس کے حیات بخش احکام کی پیروی میں پوشیدہ ہے، اور فردی و اجتماعی مشکلات کا راہ حل اسی میں تلاش کرنا چاہئے۔ ہمیں چاہئے کہ قرآن یعنی انسان کی سعادت کے اس ضامن کو پہچانیں، اس کی تعظیم و تکریم کریں اور اس پر عمل کریں۔ البتہ قرآن کے متعلق دو طرح کی تعظیم و تکریم پائی جاتی ہے کہ ذیل میں ہم اس کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

قرآن کریم کی ظاہری اور حقیقی تعظیم

قرآن کریم کے احترام کے متعلق زیادہ تر جو کچھ آج اسلامی معاشروں میں موجود ہے ان کو قرآن کا ظاہری احترام کہا جاسکتا ہے، جبکہ قرآن کریم ہرگز اس لئے نازل نہیں ہوا ہے کہ اس کے ساتھ ایک خاص (ظاہری) آداب و رسوم اور احترام

(1) سورۂ محمد، آیت 7۔

۴۸

بجالائیں، قرآن فقط حفظ کرنے اور بہترین دھن اور آواز کے ساتھ تلاوت کرنے کے لئے نہیں ہے۔ قرآن زندگی اور الٰہی پیغامات کی کتاب ہے کہ سب کا فریضہ ہے کہ اپنی دنیوی زندگی میں اس پر عمل کریں تاکہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہوں، خصوصاً اسلامی معاشروں میں حکومت کے عہدہ دار افراد کا فریضہ ہے کہ نظام کی کلی سیاستوں کو اس کتاب الٰہی کی ہدایات کی بنیاد پر تنظیم کر کے ان کا اجرا کریں، تاکہ قرآن کے مکتب فکر کے پھلنے پھولنے کا مقدمہ معاشرہ کے افراد کے لئے بہتر طور سے مہیا ہواور نتیجہ میں نزول قرآن کا مقصد پورا ہو جائے کہ اس کا مقصد یہی ہے کہ روئے زمین پر عدل و انصاف کے زیر سایہ انسان کا تکامل اور اس کی سعادت ممکن ہے۔

افسوس ہے کہ اس امید کے برخلاف، جو کچھ آج ہم قرآن کریم کی تعظیم و تکریم کے عنوان سے مشاہدہ کر رہے ہیں وہ ظاہری احترام کی حد سے آگے نہیں بڑھتا اور قرآن کی مرکزیت کا لازمہ مسلمانوں کی سیاسی و اجتماعی زندگی میں بھلا دیا گیا ہے۔

آج بہت سے اسلامی ممالک میں بہت سے ادارے، ابتدائی کلاسوں سے کالج اور یونیورسٹی کی سطح تک قرآن کریم کی تعلیم و تعلم کا انتظام کرتے ہیں اور مختلف طریقوں سے قرآن کے ناظرے، حفظ اور قرائت کا اہتمام کرتے ہیں اور ہر سال ہم عالمی پیمانے پر قرآن کریم کے حفظ و قرائت کے مقابلوں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ مختلف قرآنی علوم جیسے تجوید و ترتیل وغیرہ قرآن کے عقیدتمندوں کے درمیان ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ ان امور کے علاوہ قرآن عام مسلمانوں کے درمیان ایک خاص احترام کا حامل ہے مثلاً اس کے الفاظ و آیات کو بغیر وضو کے مس نہیں کرتے اور قرائت کے وقت ادب کے ساتھ بیٹھتے ہیں، زیادہ تر افراد قرآن کے مقابل اپنا پاؤں نہیں پھیلاتے، اس کو سب سے زیادہ بہتر جلد میں اور سب سے زیادہ مناسب جگہ پر رکھتے ہیں، خلاصہ یہ کہ اس طرح کے ظاہری احترام عام مسلمانوں کے درمیان رائج ہیں۔

۴۹

واضح ہے کہ مذکورہ امور کی رعایت اس آسمانی کتاب کے احترام کے عنوان سے ایک بڑی فضیلت ہے کہ جس قدر بھی ہم ان کے پابند ہوں بہتر ہے لیکن ہم نے اس آسمانی کتاب کے احترام کا حق کماحقہ ادا نہیں کیا ہے اور خداوند متعال کی اس عظیم نعمت کا شکر جو کہ نعمت ہدایت ہے، بجا نہیں لائے ہیں ، لیکن ہر نعمت کا سب سے زیادہ احترام اور شکر اس کی حقیقت کی شناخت او راس کا اس جگہ استعمال ہے کہ خدا نے جس کے لئے خلق کیا ہے۔

چنانچہ اگر ہم اس نظریہ کے ساتھ چاہیں کہ قرآن کو دیکھیں اور اس کا احترام و اکرام کریں تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ قرآن کریم اسلامی معاشروں کے کلچر میں ایک مطلوب منزلت نہیں رکھتا اور اس کا حقیقی طور پر احترام نہیں کیا جاتا۔

قرآن کریم کے احترام و اکرام سے متعلق مسلمانوں کا جو عمل بیان کیا گیا ہے، وہ اگرچہ ضروری اور لازم ہے، لیکن ان امور کی انجام دہی سے خداوند متعال کے قرآن نازل کرنے کا مقصد پورا نہیں ہوتا اور اس آسمانی کتاب کے بارے میں مسلمانوں کا جو فریضہ ہے وہ بھی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتا۔ ظواہر قرآن کی معرفت، آیات الٰہی کی قرائت اور اس نسخۂ شافیہ کی ظاہری تعظیم و تکریم، اس کے مطالب اور احکام پر عمل کرنے کا مقدمہ ہیں۔ قرآن کا واقعی حق، مسلمانوں کی سیاسی و اجتماعی زندگی میں اس کو محور قرار دیئے بغیر ادا نہیں ہوسکتا۔

۵۰

واضح سی بات ہے کہ ڈاکٹر کے نسخے کو چومنا، اس کا احترام کرنا اور اس کو بہترین دھن اور میٹھی آواز کے ساتھ پڑھنا، بغیر اس کے کہ ڈاکٹر کی ہدایات اور اس کے احکام کو سمجھیں اور ان پر عمل کریں، بیمار کے کسی بھی درد کا مداوا نہیں کرتا۔ ہر عقلمند یقین رکھتا ہے کہ شفا کے لئے ماہر ڈاکٹر کے احکام پر عمل کرنا لازم ہے۔ ڈاکٹر کے نسخہ کا حقیقی احترام اس پر عمل کرنا ہے نہ کہ ڈاکٹر اور اس کے نسخہ کی تعظیم و تکریم کرنا ہے۔

قرآن کے متعلق بھی کہنا چاہئے کہ اگرچہ قرآن کریم کا ظاہری احترام کرنا، پسندیدہ امور اور ہر ایک مسلمان کے فرائض میں سے ہے، لیکن یہ اس آسمانی کتاب کے بارے میں مسلمانوں کا سب سے معمولی فریضہ ہے، اس لئے کہ مسلمانوں پر فرض ہے کہ قرآن کریم کو سمجھنے اور اس کے حیات بخش احکام پر عمل کرنے کے ذریعے اس ہدایت الٰہی کی نعمت کا شکر او رواقعی احترام بجالائیں اور اپنے کو اس پُرفیض امانت سے محروم نہ کریں تاکہ نتیجہ میں ا س نور الٰہی کے ذریعے اپنی اندھیری دنیا کو روشنی بخشیں۔

قرآن، حقیقی نور

خداوند متعال کی تجلی کا ایک مظہر نور ہے۔ خداوند تعالی اپنے کو نور سے تشبیہ دیتا ہے اور فرماتا ہے:(أَللّٰهُ نُورُ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرْضِ) 1 خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ یہ خداوند متعال کے نور وجود کی تجلی اور چھوٹ ہے کہ جس سے زمین و آسمان اور

(1)سورۂ نور، آیت 35۔

۵۱

مخلوقات کی خلقت ہوئی ہے۔ عنایت خدا کی برکت ہے کہ عالم وجود قائم و ثابت ہے اور فیض وجود، ہمیشہ اور مسلسل منبع جود کی جانب سے موجودات پر جاری و ساری ہے نتیجہ میں موجودات و مخلوقات اپنی زندگی کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

کبھی کبھی کلام خدا کو بھی نور سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس لئے کہ نور ہی کے پرتو میں انسان راستے کو پیدا کرتا ہے، سرگردانی اور بھول بھلیوں میں بھٹکنے سے نجات حاصل کرتا ہے۔ چونکہ سب سے زیادہ بری اور نقصان دہ گمراہی، راہ زندگی کی ضلالت و گمراہی اور انسان کی سعادت کا خطرے میں پڑنا ہے، اس لئے حقیقی اور واقعی نور وہ ہے جو کہ انسانوں کو اور انسانی معاشروں کو ضلالت و گمراہی سے نجات دے اور انسانی کمال کے صحیح راستے کو ان کے لئے روشن کرے تاکہ سعادت و تکامل کے راستے کو سقوط و ضلالت کے راستوں سے تمیز دے سکیں۔ اسی بنیاد پر خداوند متعال نے قرآن کو نور سے تعبیر کیا ہے اور فرمایا ہے: (قَدجَائَکُم مِنَ اللّٰہِ نُور وَّ کِتَاب مُبِین) یقینا تمھارے پاس خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آئی ہے تاکہ تم اس سے استفادہ کر کے راہ سعادت کو شقاوت سے جدا کرسکو۔ اب چونکہ بحث کا موضوع ''قرآن، نہج البلاغہ کے آئینہ میں'' ہے، اس لئے ہم اس سلسلہ میں وارد شدہ آیات کی تفسیر و توضیح سے چشم پوشی کرتے ہیں اور اس بارے میں حضرت علی کے بیان کی توضیح کرتے ہیں۔

(1)سورۂ مائدہ، آیت 15۔ اس آیۂ کریمہ میں نور سے مراد در حقیقت حضرات محمد و آل محمد (ع) ہیں اس لئے کہ قرآن کا ذکر یہاں ''کتاب مبین'' کے ذریعہ کیا گیا ہے، اگرچہ قرآن کریم کا بھی نور ہونا اس ''کتاب مبین'' (روشن کتاب) کی تعبیر سے نیز دوسری آیات و روایات سے ثابت ہے (مترجم)۔

۵۲

امیر المومنین حضرت علی ـ خطبہ میں اسلام اور پیغمبر اسلام کی توصیف کے بعد قرآن کریم کا وصف بیان فرماتے ہیں:''ثُمَّ أَنزَلَ عَلَیهِ الْکِتَابَ نُوراً لاتُطْفَأُ مَصَابِیْحُهَ وَ سِرَاجاً لایَخْبُو تَوَقُّدُهُ وَ بَحْراً لایُدْرَکُ قَعْرُهُ'' پھر خداوند متعال نے اپنے پیغمبر پر قرآن کو ایک نور کی صورت میں نازل فرمایا کہ جس کی قندیلیں کبھی بجھ نہیں سکتیں، اور ایسے چراغ کے مانند کہ جس کی لو کبھی مدھم نہیں پڑسکتی اور ایسے سمندر کے مانند جس کی تھاہ مل نہیں سکتی۔

حضرت علی ـ اس خطبہ میں وصف قرآن کے متعلق پہلے تین نہایت خوبصورت تشبیہوں کے ذریعے چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے دلوں کو قرآن کی عظمت سے آشنا کریں اور ان کی توجہ اس عظیم الٰہی سرمایہ کی طرف جو کہ ان کے ہاتھوں میں موجود ہے، زیادہ سے زیادہ مبذول فرمائیں۔

پہلے حضرت علی ـ قرآن کی توصیف نور کے ذریعہ فرماتے ہیں:''أَنْزَلَ عَلَیهِ الْکِتَابَ نُوراً لاتُطْفَأُ مَصَابِیحُهُ'' خداوند تعالی نے قرآن کو اس حال میں کہ نور ہے، پیغمبر پر نازل فرمایا، لیکن یہ نور تمام نوروں سے مختلف ہے۔

یہ حقیقت (قرآن کریم) ایک ایسا نور ہے کہ جس کی قندیلیں ہرگز خاموش نہیں ہوسکتیں اور ان کی لو کبھی مدھم نہیں پڑسکتی۔

۵۳

معقول کی محسوس سے تشبیہ کے عنوان سے قرآن کریم اس برقی انرجی کے عظیم منبع کے مانند ہے جو کہ اندھیری راتوں میں بجلی کے مرکز کے ذریعے قوی اور بڑی بڑی مرکریوں کے وسیلے سے ان راستوں کو روشن کرتا ہے جو کہ منزل مقصود تک منتہی ہوتے ہیں اور ان لوگوں کے لئے جو سلامتی کے ساتھ مقصد تک پہنچنا چاہتے ہیں، دو راہوں، چوراہوں یا چند راہوں پر راہنما چراغوں کو نصب کر کے اس شاہراہ کو روشن کرتا ہے جو کہ منزل مقصود تک پہنچتا ہے اور ان دوسرے راستوں سے تمیز دیتا ہے جو کہ سرگردانی اور ہولناک گھاٹیوں میں گرنے کا باعث ہوتے ہیں۔

قرآن بھی دینی اور اسلامی معاشرہ میں اور سعادت و کامیابی تلاش کرنے والوں کی زندگی میں ایسا ہی اثر رکھتا ہے، اس فرق کے ساتھ کہ جو چراغ اس نور کے منبع سے روشنی کسب کرتے ہیں اور راہ سعادت کو روشن کرتے ہیں وہ کبھی بجھ نہیں سکتے نتیجہ میں راہ حق، ہمیشہ مستقیم اور روشن ہے، قرآن کریم اور اس کے روشن چراغ ہمیشہ قرآن کے پیرؤوں کو نصیحت کرتے رہتے ہیں کہ ہوشیار رہو کہیں راہ حق سے منحرف نہ ہو جاؤ۔

اسی خطبہ میں آگے بڑھ کر حضرت علی ـ ارشاد فرماتے ہیں:''نُوْ راً لَیسَ مَعَهُ ظُلْمَة'' قرآن وہ نور ہے جس کے ہوتے ہوئے ظلمت و تاریکی کا امکان نہیں ہے، اس لئے کہ یہ آسمانی کتاب ایسے چراغ اور قندیلیں رکھتی ہے جو اس سے نور حاصل کرتی ہیں اور ہمیشہ ہدایت و سعادت کی راہوں کو روشن رکھتی ہیں۔

اس کے علاوہ، حضرات ائمۂ معصومین (ع) کہ وہی وحی الٰہی کے مفسر ہیں ان چراغوں اور قندیلوں کے مانند ہیں جو کہ قرآن کے معارف کو لوگوں سے بیان کرتے ہیں اور اپنے خداداد علم کے ذریعے مسلمانوں کو قرآن کی حقیقت سے آشنا کرتے ہیں۔

۵۴

قرآنی چراغ اور آئینے

جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ حدیث ثقلین کے مطابق، قرآن و عترت (اہلبیت) یہ دونوں الٰہی امانتیں موحدین کی ہدایت کے راستے میں ایک دوسرے کی تکمیل کا ذریعہ ہیں کہ ایک سے تمسک کرنے اور دوسرے کو چھوڑنے سے نزول قرآن کا مقصد، جو کہ انسانوں کی ہدایت ہے، پورا نہیں ہوتا۔

حضرات ائمۂ معصومین (ع) وہ چراغ ہیں جو اس الٰہی منبع سے نور اخذ کرتے ہیں اور سعادت کے طلبگار افراد کی راہ زندگی کو روشن کرتے ہیں کیونکہ قرآن اور اس کی حقیقت آپ حضرات ہی کے پاس ہے۔ یہی ذوات مقدسہ ہیں جو متشابہات کو محکمات کی طرف واپس لے آتے ہیں، راہ کو بیراہی و سرگردانی سے جدا کرتے ہیں اور لوگوں کو کمال و سعادت کے راستے کی رہنمائی کرتے ہیں۔ لوگوں کو بھی چاہئے کہ قرآن کے معارف کو فقط آپ ہی حضرات سے حاصل کریں اور ان پر عمل کریں۔

حکمت الٰہی اسی بات کی مقتضی ہے اور سنت الٰہی اسی بات پر قائم ہے کہ لوگ اہلبیت (ع) کے وسیلے سے قرآن کے معارف و علوم حاصل کریں اور ان پر عمل کر کے اپنی دنیوی اور اخروی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ لہٰذا اس مقصد کے تحقق کے لئے خداوند متعال نے امامت کا ایک سلسلہ قائم کرکے معارف قرآن سے استفادہ کا راستہ سعادت کے طلبگاروں کے لئے کھلا رکھا ہے۔ اگر چہ دشمن اور دنیا پرست افراد پوری تاریخ میں اس بات کے درپے رہے ہیں کہ لوگوں کے لئے ہدایت الٰہی کے نور کو جو کہ مکتب اہلبیت (ع) میںمجسم نظر آتا ہے، خاموش کردیں۔

۵۵

لیکن قرآن فرماتا ہے کہ ہرگز اس کام میں کامیاب نہ ہوں گے:(یُرِیدُونَ لِیُطْفِئُوا نُورَ اللّٰهِ بِأَفوَاهِهِمْ وَ اللّٰهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَ لَو کَرِهَ الْکافِرُونَ) 1 وہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنی پھونکوں سے بجھادیں اور اللہ اپنے نور کو کامل کرنے والا ہے اگرچہ کافروں کو ناگوار ہی کیوں نہ ہو۔

نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائیگا

اسی وجہ سے حضرت علی ـ قرآن کو اس چراغ سے تشبیہ دیتے ہیں جس کی لَو کبھی مدھم نہیں پڑسکتی اور جو کبھی بجھ نہیں سکتا۔

قرآن کے معارف اتنے گہرے اور وسیع ہیں کہ جس قدر علوم اہلبیت (ع) سے آشنا لوگ اس کے اندر غور و فکر کرتے ہیں ہر قدم پر ایک نیا نکتہ او رایک نئی معرفت حاصل کرتے ہیں اور چونکہ یہ آسمانی کتاب، علم الٰہی کا ایک نسخہ ہے جس قدر تشنگان حقیقت اس کی حقیقت کے آب زلال کو نوش کرتے ہیں وہ نہ صرف سیراب نہیں ہوتے بلکہ ان کی تشنگی اور بڑھ جاتی ہے اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ اولیاء خدا اور حقیقت قرآن کی معرفت رکھنے والے کوشش کرتے ہیں کہ نماز میں آیات الٰہی کی تلاوت اور ان میں تدبر و تفکر کے ذریعے اپنی روح کو لطیف و پاکیزہ بنائیں اور زیادہ سے زیادہ اپنے کو الہامات خداوندی اور بیکراں معارف الٰہی کی بارش کا مرکز قرار دیں۔

قرآن ایک ایسا دمکتا آفتاب ہے جس کے معارف بے کراں اور جس کی روشنی ابدی ہے، اس لئے کہ یہ آسمانی کتاب اس گہرے سمندر کے مانند ہے جس کی تھاہ تک

(1)سورۂ صف، آیت 8۔

۵۶

پہنچنا پیغمبر اور ائمۂ معصومین ـ کے علاوہ کہ جن کے پاس ''علم کتاب'' ہے، کسی اور کے لئے ممکن نہیں ہے اور جو شخص اور جو معاشرہ بھی چاہے کہ قرآن اور کلام الٰہی سے آشنا ہو اور اپنی فردی و اجتماعی زندگی کو اس آسمانی کتاب کی ہدایات کی بنیاد پر قائم اور منظم کرے، اس کے لئے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے کہ پیغمبر اور ائمہ معصومین (ع) کی تفسیر و توضیح کی بنیاد پر قرآن سے تمسک کرے اور ان حضرات کی سیرت و سنت کو نمونۂ عمل قرار دے۔ اس بات کی تائید کے لئے ہم صرف دو روایتوں کے کچھ حصوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

حضرت امام جعفر صادق ـ ارشاد فرماتے ہیں:

''وَ نَحْنُ قَنَادِیْلُ النُّبُوَّةِ وَ مَصَابِیحُ الرِّسَالَةِ وَ نَحْنُ نُورُ الاَنوَارِ وَ کَلِمَةُ الْجَبَّارِ وَ نَحْنُ رَایَةُ الْحَقِّ الَّتِی مَن تَبِعَهَا نَجَیٰ وَ مَن تَأَخَّرَ عَنْهَا هَوَیٰ وَ نَحنُ مَصَابِیْحُ الْمِشْکَاةِ الَّتِی فِیهَا نُورُ النُّورِ''

ہم (اہلبیت) نبوت کی قندیلیں اور رسالت کے چراغ ہیں، یعنی لوگوں کو چاہئے کہ ائمۂ معصومین (ع) کی راہنمائی کے ساتھ نبوت و رسالت کی منزل مقصود کی طرف، کہ وہی حق کی طرف ہدایت ہے، راستہ طے کریں۔ ہم تمام نوروں کے نور ہیں، خدا کی حاکمیت ہماری ولایت کے ذریعے تحقق حاصل کرتی ہے اور ہم ہی وہ حق کا علَم ہیں کہ جو بھی اس کی پیروی کرے گا نجات حاصل کرے گا اور جو اس سے دو رہوا وہ ہلاک ہوجائے

گا اور ہم وہ چراغ ہیں کہ جن میں نور در نور ہے۔

(1)بحار الانوار، ج26، ص 259۔

۵۷

ایسا ہی بیان حضرت امام زین العابدین ـ سے بھی نقل ہوا ہے، چنانچہ ارشاد فرماتے ہیں:

''إنّ مَثَلَنَا فِی کِتَابِ اللّٰهِ کَمَثَلِ الْمِشْکَاةِ والْمِشْکَاةُ فِی الْقَنْدِیْلِ فَنَحْنُ الْمِشْکَاةُ فِیهَا مِصْبَاح وَ الْمِصْبَاحُ هُوَ مُحَمَّد ۖ اَلْمِصْبَاحُ فِی زُجَاجَةٍ نَحنُ الزُّجَاجَةُ کَأََنَّهَا کَوْکَب دُرِّی یُوقَدُ مِن شَجَرِةٍ مُبَارَکَةٍ زَیتُونَةٍ لاشَرقِیَّةٍ وَ لاغَربِیَّةٍ لامُنکَرَةٍ وَ لادَعْیَةٍ یَکَادُ زَیتُهَا نُوْر یُضِیئُ وَ لَو لَم تَمْسَسْهُ نَارُ نُورُالفُرْقَانِ عَلٰی نُورٍ یَهْدِْ اللّٰهُ لِنُورِهِ مَن یَّشآئُ لِوِلَایَتِنَا وَ اللّٰهُ بِکُلِّ شَیئٍ عَلِیم بِأَن یَّهْدِْ مَن أَحَبَّ لِوِلایَتِنَا حَقّاً''1

حضرت نے اس بیان میں سورۂ نور کی پینتیسویں آیت کی تفسیر پیغمبر اور اہلبیت اور ائمۂ معصومین (ع) سے کی ہے۔

حضرت ارشاد فرماتے ہیں کہ قرآن میں ہم اہلبیت کی مثل اس منبع کے مانند ہے جس کے ذریعے ہدایت الٰہی کا نور بندوں کے لئے راستے کو روشن کرتا ہے، ہم اہلبیت اس شفاف آئینے کے مانند ہیں جو چراغ ہدایت کے نور کو کہ وہی نبوت کا نور ہے، بندوں کے سامنے منعکس کرتے ہیں، اس نور کا سرچشمہ نور الٰہی کا وہ شجرہ طیبہ ہے جس کی روشنی نہایت وسیع اور ناقابل انکار ہے حقیقت میں یہ نہ شرقی ہے نہ غربی، نہ تو غیر معروف ہے اور نہ متروک۔

حضرت امام زین العابدین ـ ارشاد فرماتے ہیں کہ پیغمبر اور اہلبیت طاہرین (ع) کی حقیقت اس نہایت شفاف چراغ کے مثل ہے جو شعلہ کے بغیر، نور دیتا ہے، نور قرآن اس نور پر مبتنی ہے کہ خدا جس کو ہدایت دینا چاہتا ہے اسے اس نور (ولایت اہلبیت (ع)) کی ہدایت دیتا ہے۔

(1)بحارالانوار، ج23، ص314۔

۵۸

قیامت کے دن پیروان قرآن کی کامیابی

جیسا کہ اس کے قبل اشارہ کیا گیا جو بات انسان کے لئے سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے اور عقل لازم قرار دیتی ہے کہ تن من دھن سے بہتر سے بہتر طور پر اس کو حاصل کرے، وہ اخروی سعادت و کامیابی ہے، اس لئے کہ اس دنیا کی زندگی، آخرت کی ابدی زندگی کا مقدمہ ہے۔ انسان کی مثل اس دنیا میں عالم آخرت کی نسبت اس مسافر کے مانند ہے کہ جو پردیس میں رات دن محنت و کوشش کرتا ہے، قناعت کر کے اپنی پونجی جمع کرتا ہے اور اسے اپنے اصلی وطن، اپنے گھر بھیج کر تمنا رکھتا ہے کہ اپنے لئے ایک گھر، ٹھکانہ اور سرمایہ فراہم کرے تاکہ اپنے وطن پلٹ کر پہلے سے بھیجے ہوئے ساز و سامان اور وسائل سے بہرہ مند ہو اور اپنی زندگی کے ان باقی ماندہ چند دنوں کو آرام، عزت اور سربلندی کے ساتھ گزارے، بس فرق یہ ہے کہ یہ دنیوی زندگی محدود اور فنا پذیر ہے لیکن اخروی زندگی ابدی اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔

انسان کے عقائد و اعمال وہ بیج ہیں جواس دنیا میںانسان کے ہاتھ سے بوئے جاتے ہیں اور عالم آخرت میں اس کا نتیجہ اور محصول ظاہر ہوگا۔ اس دنیا میں اگر کوئی کسان علم زراعت کے ماہر عالم کی ہدایات کی بنیاد پر بیج بوئے تو کاٹنے کے وقت بہترین کیفیت کے ساتھ اپنی زحمتوں کا زیادہ سے زیادہ نتیجہ و محصول حاصل کرے گا۔

۵۹

اسی طرح اگر لوگ اپنے عقائد و اعمال کو قرآن کریم کی ہدایات اوراہلبیت طاہرین (ع) کے علوم و معارف کی بنیاد پر قائم رکھیں اور اپنے فردی، اجتماعی اور سیاسی امور کو قرآن کریم کی ہدایات کی بنیاد پر منظم کریں، تو دنیا کی عزت و سربلندی کے علاوہ، عالم آخرت میں بھی اپنے نیک اعمال کے نتائج سے بہرہ مند ہوں گے اور اس بات سے خوش ہوں گے کہ اپنے اعمال صالحہ سے رحمت خدا کے جوار میںایک سعادتمند تقدیر و سرنوشت کے حامل ہوگئے ہیں۔

امیر المومنین حضرت علی ـ مذکورہ بالا مضمون کوایک نہایت خوبصورت مثال کے ساتھ بیان فرماتے ہیں اور لوگوں کو قرآن پر عمل کرنے اور اس کے حیات بخش احکام کی پابندی کرنے کی طرف دعوت دیتے ہیں:

''فَاسْئَلُوا اللّٰهَ بِهِ وَ تَوَجَّهُوالیهِ بِحُبِّهِ وَ لاتَسْئَلُُوْا بِهِ خَلْقَهُ إنّهُ مَا تَوَجَّهَ العِبَادُ اِلٰی اللّٰهِ بِمِثْلِهِ وَ اعْلَمُوْا إنّهُ شَافِع وَ مُشَفَّع وَ قَائِل مُصَدِّق وَ أَنَّهُ مَن شَفَعَ لَهُ الْقُرآنُ یَومَ الْقِیَامَةِ شُفِّعَ فِیهِ وَ مَن مَّحَلَ بِهِ الْقُرآنُ یَومَ الْقِیَامَةِ صُدِّقَ عَلَیهِ''1

حضرت علی ان گزشتہ مطالب کو بیان کرنے کے بعد کہ قرآن معاشرہ کے سب سے بڑے درد و مرض کا علاج ہے، لوگوں کو نصیحت فرماتے ہیں کہ: ''اس کے ذریعہ اللہ

(1)نہج البلاغہ، خطبہ 175۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

کاندھے سے ردا اٹھایا اور آپ کے پیر سے جوتے اتارے اور پائے اقدس کودھلایا پھر وضو کر کے آپ کے پاس بیٹھ گئیں. پیغمبر نے اپنی بیٹی سے اس طرح گفتگو شروع کی:

چچاابوطالب کا نور نظر علی وہ ہے جس کی فضیلت ومرتبہ اسلام کی نظر میں ہم پر واضح وروشن ہے. میں نے خدا سے دعا کی تھی کہ خدا کی بہترین مخلوق سے تمہارا عقد کروں اور اس و قت وہ تم سے شادی کی درخواست لے کر آیا ہے اس بارے میں تمہاری کیارائے ہے؟ جناب فاطمہ زہرا نے مکمل خاموشی اختیار کرلی، لیکن اپنے چہرے کو پیغمبر کے سامنے سے نہیں ہٹایااور ہلکی سی ناراضگی کے آثار بھی چہرے پر رونما نہ ہوئے .رسول اسلام اپنی جگہ سے اٹھے اور فرمایا:''اَللّٰهُ اَکْبَرُ سُکُوْتُهٰا اِقْرَارُهٰا'' یعنی خدا بہت بڑا ہے میری بیٹی کی خاموشی اس کی رضایت کی دلیل ہے۔(۱)

______________________

(۱) کشف الغمہ ج۱ ص ۵۰

۸۱

روحی ، فکری اوراخلاقی اعتبار سے برابر ہونا

یہ حقیقت ہے کہ اسلام کے آئین میںہر مردمسلمان ایک دوسرے مسلمان کا کفو اورہم پلہ ہے. اور ہر مسلمان عورت جو ایک مسلمان مرد کے عقد میں آتی ہے اپنے برابر وکفوسے عقد باندھتی ہے لیکن اگر روحی و فکری اعتبار سے دیکھا جائے تو بہت سی عورتیںبعض مردوں کے ہم شان وہم رتبہ نہیں ہیںیا اس کے برعکس بعض مرد بعض عورتوں کے برابر وہم رتبہ نہیں ہیں۔

شریف و مومن او ر متدین مسلمان جوانسانیت کے بلند و بالا مراتب اوراخلاق وعلم ودانش کے وسیع مراتب پر فائز ہیں انھیں چاہئے کہ ایسی عورتوں کواپنی شریک حیات بنائیںجو روحی واخلاقی اعتبار سے ان کے ہم مرتبہ اوران سے مشابہ ہوں۔

یہ امر پاکدامن اور پرہیزگار عورتوں،جوفضائل اخلاقی اوراعلی ترین علم واندیشہ سے مالا مال ہیں ،کے لئے بھی ہے۔ شادی کا سب سے اہم مقصد، پوری زندگی میں سکون واطمینان کا ہونا ہے اوریہ چیز بغیر اس کے ممکن نہیں ہے اور جب تک اخلاقی مشابہت اور روحی ہم آہنگی پوری زندگی پر سایہ فگن نہیں ہوتیں شادی عبث اور بیکار ہوجاتی ہے۔

اس حقیت کے بیان کرنے کے بعد خدا کے اس کلام کی حقیقت روشن ہو جاتی ہے جواس نے اپنے

پیغمبر سے فرمایا تھا :

''لَوْ لَمْ اخْلقُ عَلِیّاً لَمٰا کَانَ لِفٰاطِمَةَ اِبْنَتِک کُفْو عَلٰی وَجْهِ الْاَرْضِ'' (۱)

اگر میں نے علی کو پیدا نہ کیا ہوتا توروئے زمین پر ہرگز تمہاری بیٹی فاطمہ کا کفو نہ ہوتا۔

بطور مسلم اس برابری اور کفوسے مراد مقام ومرتبے میں برابری ہے۔

______________________

(۱) بحار الانوار، ج۴۳، ص ۹ ۔

۸۲

شادی کے اخراجات :

حضرت علی کے پاس مال دنیا میں صرف تلوار اور زرہ تھی جس کے ذریعے آپ راہ خدا میں جہاد کرتے تھے اور ایک اونٹ تھا کہ جس کے ذریعہ سے مدینہ کے باغوں میں کام کرکے خود کوانصار کی مہمانی سے بے نیاز کرتے تھے۔

منگنی اورعقد وغیرہ کے بعد وہ وقت بھی آ پہونچا کہ حضرت علی اپنی شریک زندگی کے لئے کچھ سامان آمادہ کریںاور اپنی نئی زندگی کو پیغمبر کی بیٹی کے ساتھ شروع کریں. پیغمبر نے قبول کرلیا کہ حضرت علی اپنی زرہ کو بیچ دیں اور اس کی قیمت سے فاطمہ کی مہر کے عنوان سے پیغمبر کوکچھ ادا کریں. زرہ چار سودرہم میں فروخت ہوئی .پیغمبر نے اس میں کچھ درہم بلال کو دیا تاکہ زہرا کے لئے عطر خریدیں اور اس میں سے کچھ درہم عمار یاسر اور اپنے کچھ دوستوں کودیا تاکہ علی و فاطمہ کے گھر کے لئے کچھ ضروری سامان خریدیں. حضرت زہرا کے جہیز کودیکھ کر اسلام کی عظیم خاتون کی زندگی کے حالات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے. پیغمبر کے بھیجے ہوئے افراد بازار سے واپس آگئے اور جو کچھ بھی سامان انھوںنے حضرت زہرا کے لئے آمادہ کیاتھا وہ یہ ہیں:

حضرت زہرا کا جہیز :

۱۔ پیراہن ۷ درہم کا۔

۲۔ روسری ۱ درہم کا۔

۳۔ کالی چادر،جو پورے بدن کوچھپا نہیں سکتی تھی۔

۴۔ ایک عربی تخت، جو لکڑی اور کھجور کی چھال سے بنا تھا۔

۵۔ دو مصری کتان سے بنی ہوئی توشک جس میں ایک ریشمی اوردوسری کھجور کی چھال سے بنی تھی۔

۶۔ چار مسندیں، دو ریشم اور دو کھجور کی چھال سے بنی ہوئیں۔

۷۔ پردہ۔

۸۔ ہجری چٹائی ۔

۹۔ چکی۔

۸۳

۱۰۔ بڑا طشت۔

۱۱۔ چمڑے کی مشک۔

۱۲۔ دودھ کے لئے لکڑی کا پیالہ۔

۱۳۔ پانی کے لئے چمڑے کے کچھ برتن۔

۱۴۔ لوٹا۔

۱۵۔ پیتل کا بڑا برتن (لگن)

۱۶۔ چند پیالے۔

۱۷۔ چاندی کے بازو بند۔

پیغمبر کے دوستوں نے جو کچھ بھی بازار سے خریدا تھا پیغمبر کے حوالے کیااور پیغمبر اسلام نے اپنی بیٹی کے گھر کا سامان دیکھ کر فرمایا:''اَلّٰلهُمَّ بَارِکْ لِقَوْمٍ جُلَّ آنِیَتِهُمُ الْخَزْفَ'' یعنی خداوندا جولوگ زیادہ تر مٹی کے برتن استعمال کرتے ہیں ان کی زندگی کو مبارک قرار دے۔(۱)

______________________

(۱) بحار الانوار ج۴۳ ص ۹۴، کشف الغمہ، ج۱، ص ۳۵۹، کشف الغمہ کے مطابق حضرت زہرا کے گھر کے تمام سامان کل ۶۳ درہم میں خریدے گئے تھے۔

۸۴

حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کا مہر :

پیغمبر اسلام(ص) کابیٹی کی مہر پانچ سودرہم تھا اور ہر درہم ایک مثقال چاندی کے برابر تھا(ہر مثقال ۱۸ چنے کے برابر ہوتاہے)۔پیغمبر اسلام کی عظیم المرتبت بیٹی کا عقد بہت زیادہ سادگی اور بغیر کسی کمی کے ہوا عقدہوئے ایک مہینہ سے زیادہ گزر گیا پیغمبر کی عورتوں نے حضرت علی سے کہا: اپنی بیوی کواپنے گھرکیوں نہیں لے جاتے؟ حضرت علی نے ان لوگوں کو جواب دیا: لے جاؤں گا. ام ایمن پیغمبر کی خدمت حاضر ہوئیں اور کہا اگر خدیجہ زندہ ہوتیںتووہ فاطمہ کے مراسم ازدواج کو دیکھ کرخوش ہوجاتیں۔

پیغمبر نے جب خدیجہ کا نام سنا تو آنکھیں آنسوؤ ں سے تر ہوگئیں اور کہا:اس نے میری اس وقت تصدیق کی تھی جب سب نے مجھے جھٹلا دیا تھا. اور خدا کے دین کودوام بخشنے کے لئے میری مدد کی اور اپنے مال کے ذریعے اسلام کے پھیلانے میں مدد کی۔(۱)

ام ایمن نے کہا: فاطمہ کوان کے شوہر کے گھر بھیج کر ہم سب کو خوشحال کیجئے۔رسول اکرم نے حکم دیا کہ ایک کمرہ کو زہرا کے زفاف کے لئے آمادہ کرو اورانھیں آج کی رات اچھے لباس سے آراستہ کرو۔(۲) جب دلہن کی رخصتی کا وقت قریب آیاتو پیغمبر نے حضرت زہرا کو اپنے پاس بلایا. زہرا پیغمبر کے پاس آئیں، جب کہ ان کے چہرے پر شرم و حیا کا پسینہ تھا اور بہت زیادہ شرم کی وجہ سے پیر لڑکھڑا رہے تھے اور ممکن تھا کہ زمین پر گرجائیں. اس موقع پر پیغمبر نے ان کے حق میں دعا کی اور فرمایا:

''اَقَالَکَ اللّٰهُ الْعَثْرَةَ فِی الدُّنْیٰا وَ الآْخِرَةِ ''

خدا تمہیںدونوںجہان کی لغزش سے محفوظ رکھے، پھر زہرا کے چہرے سے حجاب ہٹایا اور ان کے ہاتھ کوعلی ـکے ہاتھ میں دیا اور مبارکباد پیش کر کے فرمایا:

''بٰارِکْ لَکَ فِی اِبْنَةِ رَسُوْلِ اللّٰهِ یَا عَلِیُّ نِعْمَتِ الزُّوْجَةُ فَاطِمَةُ''

پھر فاطمہ کی طرف رخ کر کے کہا:''نِعْمَ الْبَعْلُ عَلِیُّ '' ۔پھر دونوں کو اپنے گھر جانے کے لئے کہااور بزرگ شخصیت مثلاً سلمان کو حکم دیا کہ جناب زہرا کے اونٹ کی مہار پکڑیں اور اس طرح اپنی باعظمت بیٹی کی جلالت کا اعلان کیا۔

______________________

(۱) بحار الانوار ج۴۳ ص ۱۳۰

(۲) بحار الانوار ج۴۳ ص ۵۹

۸۵

جس وقت دولہا ودولہن حجلہ عروسی میں گئے تودونوں شرم وحیا سے زمین کی طرف نگاہ کئے ہوئے تھے، پیغمبر ان کے کمرے میں داخل ہوئے اور ایک برتن میں پانی لیا اور تبرک کے طور پر اپنی بیٹی کے سر اور بدن پر چھڑکا، پھر دونوںکے حق میں اس طرح سے دعا کی:

''اَلّٰلهُمَّ هٰذِهِ اِبْنَتِیْ وَ اَحَبُّ الْخَلْقِ اِلیَّ اَلّٰلهُمَّ وَ هٰذَا اَخِیْ وَ اَحَبُّ الْخَلْقِ اِلَیَّ اَلّٰلهُمَّ اجْعَلْهُ وَ لِیّاً وَ (۱)

______________________

(۱) بحار الانوار ج۴۳ ص ۹۶

۸۶

پانچویں فصل

جنگ احد میں امیر المومنین ـ کی جاں نثاری

جنگ بدر میںشکست کی وجہ سے قریش کے دل بہت زیادہ افسردہ اور مرجھائے ہوئے تھے .ان لوگوںنے اس مادی اور معنوی شکست کی تلافی کے لئے ارادہ کیا کہ اپنے قتل ہونے والوں کا انتقام لیں. اور اکثر عرب کے قبیلوں کے بہادر وجانباز اور جنگجو قسم کے افراد کاایک منظم لشکر تیار کرکے مدینہ کی طرف روانہ کریں۔

لہٰذا عمرو عاص او ربعض دوسرے افرادکومامورکیاگیاکہ کنانہ او رثقیف قبیلے کے افراد کو اپنا بنائیں اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے میں ان سے مدد طلب کریں .ان لوگوںنے کافی محنت و مشقت کر کے تین ہزار جنگ جو افراد کو مسلمانوںسے مقابلے کے لئے آمادہ کرلیا۔

اسلام کے اطلاعاتی دستہ نے پیغمبر اسلام کو قریش کے ارادے اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے وہاں سے روانہ ہونے سے آگاہ کردیا. پیغمبر اسلام نے دشمنوں سے مقابلے کے لئے جانبازوں کی ایک کمیٹی بنائی جس میں سے اکثریت کا کہنا یہ تھا کہ اسلام کا لشکر مدینے سے نکل جائے اور شہر کے باہر جاکر دشمنوں سے مقابلہ کرے. پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد ایک ہزار کا لشکر لے کر مدینہ سے کوہ احد کی طرف نکل پڑے۔

۷ شوال ۳ھ کی صبح کودونوں لشکر صف بستہ ایک دوسرے کے روبرو کھڑے ہوگئے ،اسلام کی فوج نے ایسی جگہ کومورچہ بنایاکہ ایک طرف یعنی پیچھے سے طبیعی طورپر ایک محافظ کوہ احد تھا لیکن کوہ احد کے بیچ میں اچھی خاصی جگہ کٹی ہوئی تھی اور احتمال یہ تھا کہ دشمن کی فوج کوہ کو چھوڑ کر اسی کٹی ہوئی جگہ اور مسلمانوں کے لشکر کے پیچھے کی طرف سے حملہ کرے، لہٰذا پیغمبر نے اس خطرے کو ختم کرنے کے لئے عبداللہ جبیر کو پچاس تیر اندازوں کے ساتھ اسی پہاڑی پر بھیج دیا تاکہ اگر دشمن اس راستے سے داخل ہو تواس کا مقابلہ کریں. اور حکم دیاکہ ایک لمحہ کے لئے بھی اپنی جگہ سے نہ ہٹیں، یہاں تک کہ اگر مسلمانوں کو فتح نصیب ہو جائے اوردشمن بھاگنے بھی لگیںجب بھی ا پنی جگہ چھوڑ کر نہ جائیں۔

۸۷

پیغمبر نے علم کو مصعب کے حوالے کیا کیونکہ وہ قبیلۂ بنی عبد الدار کے تھے اور قریش کے پرچمدار بھی اسی قبیلے کے رہنے والے تھے۔

جنگ شروع ہوگئی اور مسلمانوں کے جانباز اور بہادروں کی وجہ سے قریش کی فوج بہت زیادہ نقصان اٹھانے کے بعد بھاگنے لگی، پہاڑی پر بیٹھے ہوئے تیر اندازوں نے یہ خیال کیا کہ اب اس پہاڑی پر رکنا ضروری نہیں ہے. لہٰذا پیغمبر کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مال غنیمت لوٹنے کے لئے مورچہ کو چھوڑ کر میدان میں اگئے، خالد بن ولید جوجنگ کرنے میں بہت ماہر وبہادر تھا جنگ کے پہلے ہی سے وہ جانتاتھا کہ اس پہاڑی کا دہانہ کامیابی کی کلید ہے، اس نے کئی مرتبہ کوشش کی تھی کہ اس کے پشت پر جائے اور وہاں سے اسلام کے لشکر پر حملہ کرے، مگر محافظت کرنے والے تیر اندازوںنے اسے روکا اور یہ پیچھے ہٹ گیا، اس مرتبہ جب خالدنے اس جگہ کومحافظوں سے خالی پایا توایک زبردست اور غافل گیرحملہ کرتے ہوتے فوج اسلام کی پشت سے ظاہر ہوا ،اور غیر مسلح اور غفلت زدہ مسلمانوں پر پیچھے کی جانب سے حملہ کردیا، مسلمانوں کے درمیان عجیب کھلبلی مچ گئی اور قریش کی بھاگتی ہوئی فوج اسی راستے سے دوبارہ میدان جنگ میں اتر آئی، اور اسی دور ان اسلامی فوج کے پرچم دار مصعب بن عمیر دشمن کے ایک سپاہی کے ہاتھوں قتل کردیئے گئے اور چونکہ مصعب کا چہرا چھپا ہوا تھا ،ان کے قاتل نے یہ سوچا کہ یہ پیغمبر ہیں لہٰذا چیخنے لگا''اَلٰا قَدْ قُتِلَ مُحَمَّداً'' (اے لوگو! آگاہ ہوجاؤ محمد قتل ہوگئے) پیغمبر کے قتل کی خبر مسلمانوں کے درمیان پھیل گئی. اور ان کی اکثریت میدان چھوڑ کر بھاگنے لگی اور میدان میں چند لوگوںکے علاوہ کوئی باقی نہ بچا۔

اسلام کا بزرگ سیرت نگار ،ابن ہشام اس طرح رقمطراز ہے:

انس بن مالک کا چچا انس بن نضرکہتاہے : جس وقت اسلام کی فوج ذہنی دباؤ کا شکار ہوئی اور پیغمبر کے قتل کی خبر چاروں طرف پھیل گئی توا کثر مسلمان اپنی جان بچانے کی فکر کرنے لگے اور ہر شخص ادھر ادھر چھپنے لگا.انس کہتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ انصار و مہاجر کا ایک گروہ جس میں عمر بن خطاب، طلحہ اور عبیداللہ بھی تھے ایک کنارے پر بیٹھا اپنی نجات کی فکر کر رہا ہے.میں نے اعتراض کے انداز میں ان سے کہا: کیوںیہاں بیٹھے ہو؟

۸۸

ان لوگوںنے مجھے جواب دیا: پیغمبر قتل ہوگئے ہیں او راب جنگ کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے.میں نے ان لوگوں سے کہا کہ اگر پیغمبر قتل ہوگئے تو کیا زندگی کا کوئی فائدہ نہیں ہے تم لوگ اٹھو او ر جس راہ میں وہ قتل ہوئے ہیں تم بھی شہیدہو جاؤ اور اگر محمد قتل کردیئے گئے تومحمد کا خدا زندہ ہے وہ کہتاہے کہ میں نے دیکھاکہ میری باتوں کا ان پر ذرہ برابر بھی اثر نہ ہوا، میں نے اسلحہ اٹھایا اور جنگ میں مشغول ہوگیا۔(۱)

ابن ہشام کہتے ہیں:

انس کواس جنگ میں ستر زخم لگے اور اس کی لاش کواس کی بہن کے علاوہ کوئی پہچان نہ سکا، مسلمانوں کے بعض گروہ اس قدر افسردہ تھے کہ انہوں نے خود ایک بہانہ تلاش کیا کہ عبد اللہ بن ابی منافق کا ساتھ کس طرح سے دیں تاکہ ابوسفیان سے ان کے لئے امان نامہ لیں.اور مسلمانوں کے بعض گروہ نے پہاڑی پر پناہ لی۔(۲)

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں:

بغداد میں ۶۰۸ھ میں ایک شخص واقدی کی کتاب ''مغازی'' کوایک بزرگ دانشمند محمد بن معد علوی سے پڑھتا تھا.ایک دن میں نے بھی اس درس میں شرکت کی.او رجس وقت گفتگو یہاں پہونچی کہ محمد بن مسلمہ جوصریحاً نقل کرتاہے کہ احد کے دن خود میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ مسلمان پہاڑی کے اوپر چڑھ رہے تھے اور پیغمبر ان کا نام لے کر پکار رہے تھے کہ ''اِلَیَّ یا فلان'' (اے فلاں میری طرف آؤ) لیکن کسی نے بھی پیغمبر کی آواز پر لبیک نہ کہا .استادنے مجھ سے کہا فلاں سے مراد وہی لوگ ہیں جنھوں نے پیغمبر کے بعد مقام ومنصب کو حاصل کیا.اور راوی نے خوف وڈر کی وجہ سے ان کا نام لکھنے سے پرہیز کیا ہے اوروہ نہیں چاہتا تھا کہ صریحی طور پر ان سب کا نام لکھے۔(۳)

______________________

(۱)،(۲) سیرۂ ابن ہشام ج۳ ص ۸۴۔ ۸۳

(۳) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۵ ص ۲۳

۸۹

جانثاری مقصد وہدف پر ایمان کی علامت ہے

جانثاری اور جانبازی ،مقصدوہدف پر ایمان کی علامت و نشانی ہے اور اس کے ذریعے سے انسان کی جانثاری کا اندازہ اس کے ہدف پر ایمان واعتقاد کے ذریعے لگایا جاسکتا ہے ،اور حقیقت میںبلندترین اور صحیح کسوٹی ایک شخص کے عقیدے کا اندازہ کرنے کے لئے ، اس کے گزرے ہوئے حالات کودیکھ کر لگایاجاسکتاہے قرآن کریم نے اس حقیقت کو اپنی آیتوں میں اس طرح سے بیان کیا ہے:

( انَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ آمَنُوا بِاﷲِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِامْوَالِهِمْ وَانفُسِهِمْ فِی سَبِیلِ اﷲِ ُوْلَئِکَ هُمْ الصَّادِقُونَ ) (۱)

(سچے مومن) تو بس وہی ہیں جو خدا اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر انھوں نے اس میں کسی طرح کا شک و شبہ نہ کیا اوراپنے مال سے اور اپنی جانوں سے خدا کی راہ میں جہاد کیا، یہی لوگ (دعوائے ایمان میں) سچے ہیں۔

جنگ احد ،مومن اور غیر مومن کی پہچان کے لئے بہترین کسوٹی تھی اورایک عمدہ پیمانہ تھا بہت سے ان افراد کے لئے جوایمان کا دعوی کرتے تھے. مسلمانوں کے بعض گروہ کا اس جنگ سے بھاگنا اتنا پر اثر تھا کہ مسلمانوں کی عورتیںجواپنے بیٹوں کے ساتھ میدان جنگ میں آئی تھیں اور کبھی کبھی زخمیوں کی خبر گیری کرتی تھیں اور پیاسے جانبازوں کو پانی سے سیراب کرتی تھیں اس بات پر مجبور ہوگئیں کہ پیغمبر کا دفاع کریں۔جب نسیبہ نامی عورت نے ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کوبھاگتے ہوئے دیکھا تو ہاتھ میں تلوار لے کر رسول اسلام(ص) کا دشمنوں سے دفاع کیا .جس وقت پیغمبر نے اس عورت کی جانثاری کو بھاگنے والوں کے مقابلے میں مشاہدہ کیا تو آپ نے اس بہادر عورت کے بارے میں ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا:''مَقٰاُم نَسِیْبَةِ بِنْتِ کَعْبٍ خَیْر مِنْ مَقٰامِ فُلٰانِ وَ فُلٰانِ'' (کعب کی بیٹی نسیبہ کا مقام و مرتبہ فلاں فلاں سے بہتر ہے)ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ راوی نے پیغمبر کے ساتھ خیانت کی ہے کیونکہ جن لوگوں کا نام پیغمبر نے صریحی طور پر ذکر کیا تھا اسے بیان نہیں کیا۔(۲) انہی افرادکے مقابلے میں تاریخ ایک ایسے جانباز کااعتراف کرتی ہے جواسلام کی پوری تاریخ میں فداکاری اور جانثاری کا نمونہ ہے، اور جنگ احد میں مسلمانوں کی دوبارہ کامیابی اسی جانثار کی قربانیوں کا

______________________

(۱) سورۂ حجرات آیت ۱۵

(۲) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۴ ص ۲۶۶

۹۰

نتیجہ تھی. یہ عظیم المرتبت جانثار، یہ حقیقی فداکار مولائے متقیان حضرت امیر المومنین کی ذات گرامی ہے.جنگ کی ابتدا میں قریش کے بھاگنے کی وجہ یہ تھی کہ ان کے پرچم اٹھانے والے ۹ افراد ایک کے بعد ایک مولائے کائنات کے رعب و دبدبہ کی وجہ سے اپنی جگہ سے ہٹ گئے اور نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے دلوں میںشدید رعب بیٹھ گیا اور ان کے اندر ٹھہر نے اور مقابلے کرنے کی صلاحیت باقی نہ رہی۔(۱)

امام ـ کی جانثاری پر ایک نظر:

معاصر مصری مؤرخین مجنھوں نے اسلامی واقعات کا تجزیہ کیا ہے حضرت علی کے حق کو جیسا کہ آپ کے شایان شان تھا یا کم از کم جیساکہ تاریخ نے لکھا ہے ادانہیں کیا ہے، اور امیر المومنین کی جانثاری کو دوسرے کے حق میں قرار دیا ہے اس بنا پر ضروری ہے کہ مختصر طور پر حضرت امیر کی جانثاریوں کوانہی کے مأخذ سے بیان کروں۔

۱۔ ابن اثیر نے اپنی تاریخ(۲) میں لکھا ہے:پیغمبر چاروں طرف سے قریش کے لشکر میں گھر گئے تھے ،ہر گروہ جب بھی پیغمبر پر حملہ کرتا توحضرت علی پیغمبر کے حکم سے جب کچھ قتل ہوجاتے تھے تو باقی راہ فرار اختیار کرتے تھے .ایسا جنگ احد میں کئی مرتبہ ہوا. اس جانثاری کی بنیاد پر جبرئیل امین نازل ہوئے اور حضرت علی کے ایثار کوپیغمبر کے سامنے سراہا اور کہا:یہ ایک بلند ترین جانثاری ہے جس کوانھوں نے کر دکھایا ہے. رسول خدا نے جبرئیل امین کی تصدیق کی اور کہا:''میں علی سے ہوں اور علی مجھ سے ہیں''کچھ ہی دیر کے بعد میدان میں ایک آواز سنائی دی جس کا مفہوم یہ تھا:

لَاسَیْفَ اِلاّٰ ذُوْ الْفِقٰارِ

وَلَا فَتٰی اِلاّٰ عَلی

ذو الفقار جیسی کوئی تلوار نہیں اور علی ـ کے جیسا کوئی جوان نہیں ۔

ابن ابی الحدید اس واقعہ کی مزید شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وہ گروہ جس نے پیغمبر پر حملہ کیا تاکہ ان کو قتل کردیں اس میں پچاس آدمی تھے اور علی ـنے جوکہ باپیادہ

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۴ ص ۲۵۰

(۲)تاریخ کامل جلد ۲ ص ۱۰۷

۹۱

جنگ کر رہے تھے ان لوگوں کومتفرق کردیا۔

پھر جبرئیل امین کے نازل ہونے کے بارے میں کہتے ہیں:اس مطلب کے علاوہ جو کہ تاریخ کے اعتبار سے مسلم ہے میں نے محمد بن اسحاق کی کتاب ''غزوات'' کے بعض نسخوں میں جبرئیل امین کے نزول کے متعلق دیکھا ہے کہ یہاں تک ایک دن اپنے استاد عبدالوہاب سکینہ سے اس واقعہ کی صحت کے متعلق پوچھاتوانھوں نے کہا صحیح ہے، میں نے ان سے کہا پھر کیوں اس صحیح روایت کوصحاح ستہ کے مؤلفین نے نہیں لکھا؟ انھوں نے جواب میں کہا : بہت سی صحیح روایتیں موجود ہیں جس کے لکھنے میں صحاح ستہ کے مؤلفین سے غفلت ہوئی ہے۔(۱)

۲۔ حضرت امیر المومنین نے ''رأس الیہود'' کے متعلق اپنے اصحاب کے بعض گروہ کے سامنے جو تفصیلی تقریر فرمائی اس میں اپنی جانثاری کے بارے میں اس طرح اشارہ کیا ہے :

جس وقت قریش کے لشکر نے طوفان کی طرح ہم پر حملہ کیا توانصار اور مہاجرین اپنے گھروں کی طرف روانہ ہوگئے، لیکن میں نے ستر زخم کھانے کے باوجود بھی حضرت کا دفاع کیا۔

پھر آپ نے قبا کواتارا اور زخم کے نشانات جوباقی تھے اس پر ہاتھ لگا کر دکھایا، یہاں تک کہ بنا بر نقل ، ''خصال شیخ صدوق'' حضرت علی نے پیغمبر کے دفاع کرنے میں اتنی جانفشانی و جانثاری کی کہ آپ کی تلوار ٹوٹ گئی اور پیغمبر نے اپنی تلوار، ذو الفقار کو حضرت علی کے حوالے کیا تاکہ اس کے ذریعے سے راہ خدا میں جہاد کرتے رہیں۔(۲)

۳۔ ابن ابی الحدید لکھتے ہیں:جب پیغمبر کے اکثر صحابی وسپاہی میدان سے بھاگ گئے تو دشمنوں نے پیغمبر پر اور بڑھ چڑھ کر حملہ کرنا شروع کردیا. بنی کنانہ قبیلہ کا ایک گروہ اور بنی عبد مناف قبیلے کا گروہ جن کے درمیان چار نامی پہلوان موجود تھے پیغمبر کی طرف حملہ آور ہوئے.اس وقت علی ـ پیغمبر کی چاروں طرف سے پروانہ کی طرح حفاظت کر رہے تھے ، اور دشمن کونزدیک آنے سے روک رہے تھے ،ایک گروہ جس کی تعداد پچاس آدمیوں سے بھی

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۴ ص ۲۱۵

(۲) خصال شیخ صدوق ج۲ ص ۱۵

۹۲

زیادہ تھی انھوں نے پیغمبر کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا اور صرف حضرت علی کا شعلہ ور حملہ تھا جس نے اس گروہ کومنتشر کردیا، لیکن وہ پھر دوبارہ آگئے اور پھر سے حملہ شروع کردیا اور اس حملے میں وہ چار نامی پہلوان اوردس دوسرے افراد جن کا نام تاریخ نے بیان نہیں کیا ہے قتل ہوگئے جبرئیل نے حضرت علی کی اس جانثاری پر پیغمبر کو مبارک باد دی اور پیغمبر نے فرمایا: علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں۔

۴۔ اس پہلے کی جنگوںمیں لشکر کی علمبرداری کے سلسلے میں بہت زیادہ احتیاط رکھی گئی اور پرچم کو بہادر اور دلیر افراد کے ہاتھ میں دیا گیا. علمبردار کے بہادر ہونے کی وجہ سے جنگجووں میں بہادری و شجاعت بڑھ گئی اور سپاہیوں کوذہنی خلفشار سے بچانے کے لئے کچھ لوگوں کو لشکر کاعلمبردار معین کیا گیا تاکہ اگر ایک ماراجائے تودوسرااس کی جگہ پر پرچم کو اپنے ہاتھ میں لے لے۔

قریش، مسلمانوں کی بہادری اورجانثاریوں سے جنگ بدر میں باخبر تھے، اسی وجہ سے اپنے بہت زیادہ سپاہیوں کولشکر کا علمبردار بنایاتھا.قریش کا سب سے پہلا علمبردار طلحہ بن طلیحہ تھا وہ پہلا شخص تھا جو حضرت علی کے ہاتھوں مارا گیا.اس کے قتل کے بعد قریش کے پرچم کوافراد درج ذیل نے سنبھالا اور تمام کے تمام حضرت علی ـ کے ہاتھوںمارے گئے. سعید بن طلحہ ، عثمان بنم طلحہ ، شافع بن طلحہ، حارث بن ابی طلحہ، عزیز بن عثمان، عبد اللہ بن جمیلہ، ارطاة بن شراحبیل، صوأب۔

ان لوگوں کے مارے جانے کی وجہ سے قریش کی فوج میدان چھوڑ کر بھاگ گئی، اس طرح سے مسلمانوں نے حضرت علی کی جانثاری کی وجہ سے جنگ فتح کرلی۔(۱)

علامہ شیخ مفید اپنی کتاب ''ارشاد'' میں امام جعفر صادق ـ سے نقل کرتے ہیں کہ قریش کے علمبرداروں کی تعداد ۹ آدمیوں پر مشتمل تھی اورتمام کے تمام یکے بعد دیگرے حضرت علی کے ہاتھوںمارے گئے۔

ابن ہشام نے اپنی کتاب ''سیرئہ'' میں ان افراد کے علاوہ اور بھی نام ذکر کئے ہیں جو حضرت علی کے پہلے ہی حملہ میں قتل ہوگئے تھے۔(۲)

______________________

(۱) تفسیر قمی ص ۱۰۳، ارشاد مفید ۱۱۵، بحار الانوار ج۲۰ ص ۱۵

(۲) سیرئہ ابن ہشام ج۱ ص ۸۴، ۸۱

۹۳

چھٹیں فصل

اسلام کی شرک پر کامیابی

عرب کے بت پرستوں کی فوج چیونٹی اور ٹڈی کی طرح ایک گہرے خندق کے کنارے آکر رک گئی جسے مسلمانوںنے چھ دن میں کھودی تھی. ان لوگوں نے سوچا پچھلی مرتبہ کی طرح اس مرتبہ بھی احد کے جنگل میں مسلمانوں سے مقابلہ کریں گے لیکن اس مرتبہ وہاں کوئی موجود نہ تھا. بہرحال وہ لوگ آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ شہر مدینہ کے دروازے تک پہونچ گئے. مدینے کے نزدیک ایک گہری اور خطرناک خندق دیکھ کر وہ لوگ حیران و پریشان ہوگئے ،دشمن کی فوج کے سپاہیوں کی تعداد دس ہزار سے زیادہ تھی جب کہ اسلام کے مجاہدوں کی تعداد تین ہزار سے زیادہ نہ تھی۔(۱)

تقریباً ایک مہینے تک مدینہ کا محاصرہ کئے رہے اور قریش کے سپاہی ہر لمحہ اس فکر میں تھے کہ کسی طرح سے خندق کو پار کر جائیں. دشمن کے سپاہی خندق کے سپاہیوں سے مقابلے کے لئے جنہوںنے تھوڑے سے فاصلے پر اپنے دفاع کے لئے مورچہ بنایاتھا روبرو ہوئے اور دونوں طرف سے تیر چلنے کا سلسلہ شب و روز جاری رہا اور کسی نے بھی ایک دوسرے پر کامیابی حاصل نہ کی۔

دشمن کی فوج کا اس حالت پر باقی رہنا بہت دشوار اور مشکل تھا، چونکہ ٹھنڈی ہوا اور غذا کی کمی انھیں موت کی دعوت دے رہی تھی اورعنقریب تھا کہ جنگ کا خیال ان کے دماغوں سے نکل جائے اور سستی اور تھکن ان کی روح میں رخنہ پیدا کردے. اس وجہ سے فوج کے بزرگوں کے پاس کوئی اور چارہ نہ تھا مگر یہ کہ کسی بھی صورت سے ان کے بہادرو دلیر سپاہی خندق کو پار کر جائیں. فوج قریش کے چھ پہلوان و بہادر اپنے گھوڑے کودوڑاتے ہوئے خندق کے پاس گئے اوردھاوابول دیا اور بہت ہی احتیاط سے خندق پار کرکے میدان میں داخل ہوگئے ،ان چھ پہلوانوں میں عرب کا نامی گرامی پہلوان عمرو بن عبدود بھی تھا جو شبہ جزیرہ کا قوی اور بہادر جنگجو مشہور تھا،لوگ اسے ایک ہزار بہادروں پر بھاری سمجھتے تھے اور وہ اندر سے لوہے کی زرہ پہنے ہوئے تھا اور مسلمانوں کی صفوں کے سامنے شیر کی طرح غرایااور تیز تیز چلا کر کہا کہ بہشت کا

______________________

(۱) امتاع الاسماع، مقریزی،منقول از سیرۂ ہشام ج۲ ص ۲۳۸

۹۴

دعوی کرنے والے کہاںہیں؟کیاتمہارے درمیان کوئی ایسا نہیں ہے جومجھے جہنم واصل کردے یامیں اس کو جنت میں بھیج دوں؟

اس کے کلمات موت کی آواز تھے اور اس کے مسلسل نعروں کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں اس طرح ڈر بیٹھ گیا تھاایسا معلوم ہوتا تھا کہ سب کے کان بند ہوگئے ہوں اور زبانیں گنگ ہو گئی ہوں۔(۱)

ایک مرتبہ پھر عرب کے بوڑھے پہلوان نے اپنے گھوڑے کی لگام کو چھوڑ دیا اور مسلمانوں کی صفوں کے درمیان پہونچ گیا اور ٹہلنے لگااور پھر اپنا مقابل مانگنے لگا۔

جتنی مرتبہ بھی اس عرب کے نامی پہلوان کی آواز جنگ کے لئے بلند ہوتی تھی فقط ایک ہی جوان اٹھتاتھا اور پیغمبر سے میدان جنگ میں جانے کی اجازت مانگتا،. مگر ہر بار پیغمبر اسے منع کردیتے تھے اوروہ جوان حضرت علی تھے. پیغمبر ان کی درخواست پر فرماتے تم بیٹھ جاؤ یہ عمرو ہے۔عمرو نے تیسری مرتبہ پھر آواز دی اور کہا میری آواز چیختے چیختے بیٹھ گئی، کیا تمہارے درمیان کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو میدان جنگ میں قدم رکھے؟ اس مرتبہ بھی حضرت علی نے پیغمبر سے بہت اصرار کیا کہ جنگ میں جانے کی اجازت دیدیں. پیغمبر نے فرمایا: یہ لڑنے والا عمرو ہے ، حضرت علی خاموش ہوگئے بالآخر پیغمبر نے حضرت علی کی درخواست کو قبول کرلیا. پھر اپنی تلوار انھیں عطا کی اوراپنا عمامہ ان کے سر پر باندھااور ان کے حق میں دعا کی(۲) اور کہا: خداوندا! علی ـ کودشمن کے شر سے محفوظ رکھ. پروردگارا: جنگ بدر میں عبیدہ اور جنگ احد میں شیر خدا حمزہ کو تو نے مجھ سے لے لیا، خدایا! علی ـکو مشکلات سے دور رکھ. پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی:( رب لاتذرنی فرداً و انتَ خیرُ الوارثین ) (۳) پھر اس تاریخی جملے کو بیان فرمایا:''برزَ الایمانُ کلّهُ الی الشرک کلِّه'' یعنی ایمان و شرک کے دو مظہر ایک دوسرے کے روبرو ہوئے ہیں۔(۴)

______________________

(۱) واقدی نے اپنی کتاب مغازی میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے وہ کہتا ہے کہ ''کان علی رؤوسہم الطیر'' گویاان کے سروں پر پرندے بیٹھے تھے. مغازی ج۲ ص ۴۸

(۲) تاریخ الخمیس ج۱ ص ۴۸۶

(۳) سورۂ انبیاء آیت ۸۹

(۴) کنز الفوائد ص ۱۳۷

۹۵

حضرت علی مکمل ایمان کے مظہر اورعمرو شرک وکفر کا کا مل مظہر تھا. شاید پیغمبر کے اس جملے سے مقصد یہ ہو کہ ایمان اور شرک کا فاصلہ کم ہوگیاہے اور اس جنگ میں ایمان کی شکست شرک کی موقعیت کو پوری دنیا میں اجاگر کردے گی۔

امام ـ تاخیرکے جبران کے لئے بہت تیزی سے میدان کی طرف روانہ ہوئے اور عمرو کے پڑھے ہوئے رجز کے وزن اور قافیہ پر رجز پڑھنا شروع کیا جس کا مفہوم یہ تھا: جلدی نہ کر اے بہادر میں تجھے جواب دینے کے لئے آیا ہوں۔

حضرت علی لوہے کی زرہ پہنے ہوئے تھے اور ان کی آنکھیں مغفر (لوہے کی ٹوپی) کے درمیان چمک رہی تھیں، عمرو حضرت علی کو پہچاننے کے بعد ان سے مقابلہ کرنے سے کترانے لگا اور کہا تمہارے باپ ہمارے دوستوں میں سے تھے اور میں نہیں چاہتا کہ ان کے بیٹے کے خون کو بہاؤ ں۔

ابن ابی الحدید کہتے ہیں :جب میرے استاد ابو الخیر نے تاریخ کے اس حصے کا درس دیا تو اس طرح بیان کیا : عمرو نے جنگ بدر میں شرکت کی تھی اور بہت ہی قریب سے حضرت علی کی شجاعت و بہادری کو دیکھا تھا اسی وجہ اس نے بہانہ بنایا او ربہت خوفزدہ تھا کہ کس طرح سے ایسے بہادر سے مقابلہ کرے۔

حضرت علی نے اس سے کہا: تومیری فکر نہ کر. میں چاہے قتل ہو جاؤں چاہے فتح حاصل کرلوں، خوش نصیب رہوں گا اور میری جگہ جنت میں ہے لیکن ہر حالت میں جہنم تیرا انتظار کر رہا ہے اس وقت عمرونے ہنس کر کہا:اے میرے بھتیجے یہ تقسیم عادلانہ نہیں ہے جنت اور جہنم دونوں تمہارا مال ہے۔(۱)

اس وقت حضرت علی نے اسے وہ نذر یاد دلائی جس کو جو اس نے خدا سے کیا تھا کہ اگر قریش کا کوئی شخص اس سے دو چیزوں کا تقاضا کرے تو وہ ایک چیز کو قبول کرلے گا. عمرو نے کہا:بالکل ایسا ہی ہے حضرت علی نے کہا:میری پہلی درخواست یہ ہے کہ اسلام قبول کرلے عرب کے نامی پہلوان نے کہا: یہ درخواست مجھ سے نہ کرو مجھے تمہارے دین کی ضرورت نہیں ہے ،. پھر علی ـنے کہا:جا اور جنگ کرنے کا خیال اپنے دل سے نکال دے اور اپنے گھر کی طرف چلاجا. اور پیغمبر کے قتل کودوسروں کے حوالہ کردے کیونکہ اگروہ کامیاب ہوگیا تو قریش کے لئے باعث افتخار ہو گا اور اگر قتل ہوگیا تو تیری آرزو بغیر جنگ کے پوری ہوجائے گی ۔

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ ص ۱۴۸

۹۶

عمرو نے جواب میں کہا: قریش کی عورتیں اس طرح گفتگو نہیں کرتیں، کس طرح واپس جاؤں، جب کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میرے قبضے میں ہیں اور اب وہ وقت پہونچ چکا ہے کہ جو میں نے نذر کی تھی اس پر عمل کروں؟ کیونکہ میں نے جنگ بدر کے بعد نذر کی تھی کہ اپنے سر پر تیل اس وقت تک نہیں رکھوں گا جب تک محمد سے اپنے بزرگوں کاانتقام نہ لے لوں گا۔حضرت علی نے اس سے کہا: اب تو جنگ کے لئے آمادہ ہوجا! تاکہ پڑی ہوئی گتھی کو شمشیر کے ذریعے سلجھائیں. اس وقت بوڑھا پہلوان سخت غصے کی وجہ سے جلتے ہوئے لوہے کی طرح سرخ ہوگیا اور جب حضرت علی کو پیادہ دیکھا تو خود گھوڑے سے اتر آیا گھوڑے کو ایک ہی وار میں قتل کر دیااور ان کی طرف بڑھا اور اپنی تلوار سے حضرت علی پر حملہ کردیا اور پوری قوت سے حضرت کے سر پر مارا، حضرت علی نے اس کی ضربت کو اپنی سپر کے ذریعے روکا لیکن سپر دو ٹکڑے ہوگئی اورخود بھی ٹوٹ گئی اور آپ کا سر زخمی ہوگیا اسی لمحے امام نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور ایک کاری ضرب لگائی اور اسے زمین پر گرادیا تلوار کے چلنے کی آواز اور میدان میں گردو غبار کی وجہ سے دونوں طرف کے سپاہی اس منظر کونزدیک سے نہیں دیکھ پا رہے تھے، لیکن اچانک جب حضرت علی کی تکبیر کی آواز بلند ہوئی تومسلمان خوش ہوکر چیخنے لگے اور ان کو یقین ہوگیا کہ حضرت علی نے عرب کے پہلوان پر غلبہ پالیا ہے اور مسلمانوں کو اس کے شر سے محفوظ کردیاہے۔اس نامی و مشہور پہلوان کے قتل ہونے کی وجہ سے، پانچ اور نامی پہلوان، عکرمہ ، ہبیرہ، نوفل، ضرار اور مرد اس، جنھوں نے عمرو کے ساتھ خندق پار کیا تھا اور حضرت علی اورعمرو کی جنگ کے نتیجے کے منتظر تھے ، وہاں سے بھاگ گئے .ان میں سے چار پہلوان خندق سے پار ہوگئے تاکہ قریش کو عمروکے مرنے کی خبر سنائیں ،مگر نوفل بھاگتے وقت اپنے گھوڑے سے خندق میں گرگیا اور حضرت علی جوان سب کا پیچھا کر رہے تھے خندق میں گئے اور اس کو ایک ہی حملے میں موت کے گھاٹ اتار دیا۔(۱) اس نامی پہلوان کی موت کی وجہ سے شعلۂ جنگ ہوگیااور عرب کے ہر قبیلے والے اپنے ا پنےقبیلے کی طرف واپس جانے لگے .زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ دس ہزار کا لشکر ٹھنڈک اور بھوک کی وجہ سے اپنے گھروں کی طرف چلا گیا اور ا سلام کی اساس و بنیاد جسے عرب کے نامی اور قوی دشمن نے دھمکی دی تھی حضرت کی جانثاری کی وجہ سے محفوظ ہوگئی۔

______________________

(۱) تاریخ الخمیس ج۱ ص ۴۸۷

۹۷

اس جانثاری کی اہمیت

جو لوگ اس جنگ کے جزئیات اور مسلمانوں کی ابتر حالت اور قریش کے نامی پہلوان کی دھمکیوں کے خوف و ہراس سے مکمل باخبر نہیں ہیں وہ اس جانثاری اور قربانی کی واقعی حقیقت کو کبھی بھی سمجھ نہیں سکتے لیکن ایک محقق جس نے تاریخ اسلام کے اس باب کا دقیق مطالعہ کیا ہے اور بہترین روش اور طریقے سے اس کا تجزیہ و تحلیل کیا ہے پر اس واقعے کی اہمیت پوشیدہ نہیں ہے۔

اس حقیقت کا جاننا بھی ضروری ہے کہ اگر حضرت علی میدان جنگ میں دشمن سے مقابلے کے لئے نہ جاتے تو پھر کسی بھی مسلمان میں اتنی جرأت نہ تھی کہ وہ عمروکے مقابلے میں جاتا، اور ایک فوج کے لئے سب سے بڑی ذلت و رسوائی کی بات یہ ہے کہ دشمن مقابلے کے لئے بلائے اور کوئی نہ جائے اور سپاہیوں پر خوف چھا جائے. حتی اگر دشمن جنگ کرنے سے باز آجاتا اور محاصرہ کوختم کر کے اپنے گھر واپس چلا جاتا. تب بھی اس ذلت کا داغ تاریخ اسلام کی پیشانی پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے باقی رہتا۔

اگر حضرت علی اس جنگ میں شرکت نہ کرتے یا شہید ہو جاتے تو قریب تھا کہ کوہ ''سلع'' میں پیغمبر کے پاس رہنے والے سپاہی جو عمرو کی للکار سے بید کے درختوں کی طرح لرز رہے تھے، میدان چھوڑ کر چلے جاتے اور کوہ سلع سے اوپر جاتے اور پھر وہاں سے بھاگ جاتے، جیسا کہ جنگ احد اور حنین میں ہوااور تاریخ کے صفحات پر آج بھی درج ہے کہ سب کے سب فرار ہوگئے علاوہ چند افراد کے، جنھوں نے پیغمبر کی جان بچائی اور سب کے سب جان بچا کر بھاگ گئے اور پیغمبر کو میدان میں تنہا چھوڑ دیا۔

اگر امام علیہ السلام اس مقابلے میں(معاذ اللہ) ہارجا تے تو نہ صرف یہ کہ جتنے بھی سپاہی کوہ ''سلع'' کے دامن میں اسلام کے زیر پرچم اور پیغمبر کے پاس کھڑے تھے بھاگ جاتے بلکہ وہ تمام سپاہی جو پوری خندق کے کنارے حفاظت اور مورچہ سنبھالنے کے لئے کھڑے تھے وہ مورچے کو چھوڑ دیتے اور ادھراُدھر بھاگ جاتے۔

۹۸

اگر حضرت علی علیہ السلام نے قریش کے پہلوانوں کا مقابلہ کر کے ان کو بڑھنے سے روکا نہ ہوتا یااس راہ میں قتل ہو جاتے تودشمن بڑی آسانی سے خندق کو پار کر جاتا اور پھر دشمن کی فوج اسلام کی فوج کی طرف بڑھتی اور پورے میدان میں بڑھ بڑھ کر حملہ کرتی جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ آئین توحیدی پر شرک کامیاب ہوجاتااور اسلام خطرے میں پڑ جاتا، ان تمام چیزوں کودیکھنے کے بعد پیغمبر اسلام نے، الہام اور وحی الہی سے حضرت علی کی جانثاری کو اس طرح سراہتے ہیں:

''ضَرْبَةُ عَلِیٍّ یَوْمَ الْخَنْدَقِ اَفْضَلُ مِنْ عِبَادَةِ الثَّقَلَیْنِ'' (۱)

اس ضربت کی عظمت و رفعت جو علی ـنے خندق میں دشمن پر ماری تھی دونوںجہان کی عبادتوں سے بہتر ہے۔

اس بیان کا فلسفہ یہ ہے کہ اگر یہ جانثاری واقع نہ ہوتی توقانون شرک پوری دنیا پر چھا جاتااور پھر کوئی بھی ایسی شمع باقی نہ رہتی جس کے اردگرد ثقلین طواف کرتا. اور اس کی نورانیت کے زیر سایہ خدا کی عبادت و پرستش کرتا۔

ہم یہاں پر بڑے فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ امام نے اپنی بے نظیر اور عظیم فداکاری کی وجہ سے اس دنیاکے مسلمانوں اور توحید کے متوالوںکورہین منت قرار دیاہے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ اتنا زمانہ گزر جانے کے بعد بھی اسلام و ایمان، امام کی فداکاری وجانثاری کے صدقے میں آج تک باقی ہے۔

جی ہاں، حضرت علی کی فداکاری وجانثاری کے علاوہ آپ کی سخاوت و فیاضی کایہ عالم تھا کہ عمروبن عبدود کوقتل کرنے کے بعداس کی قیمتی زرہ اور لباس کواس کی لاش کے پاس چھوڑ کر میدان سے واپس آگئے، جب کہ عمرو نے اس کام کی وجہ سے آپ کی ملامت و سرزنش کی، لیکن امام علیہ السلام نے اس کی ملامت و سرزنش پر کوئی توجہ نہ دی. اور جب اس کی بہن اس کی لاش کے سراہنے پہونچی تو اس نے کہا کہ ہرگز میں تم پر گریہ نہ کروںگی کیونکہ تو کسی کریم و شریف کے ہاتھوں قتل ہوا ہے(۲) جس نے تیرے قیمتی لباس اور قیمتی اسلحوں تک کوہاتھ نہیں لگایاہے۔

______________________

(۱) مستدرک حاکم ج۳ ص ۳۲، بحار الانوار ج۲۰ ص ۲۱۶

(۲) مستدرک حاکم ج۳ ص۳۲، بحار الانوار ج۲۰ ص ۳۳

۹۹

ساتویں فصل

جنگ خیبر اوراس کے تین اہم امتیازات

کس طرح سے دشمن کی زبان حضرت علی کی عظمت وافتخار کوبیان کرنے لگی اور وہ نشست جو آپ کو برا وناسزا کہنے کے لئے تیار کی گئی تھی مدح و ستائش میں تبدیل ہوگئی؟

امام حسن مجتبیٰ ـ کی شہادت کے بعد معاویہ کو فرصت ملی کہ خود اپنی زندگی میں اپنے بیٹے یزید کی خلافت کے لئے زمین ہموار کرے اور بزرگ صحابیوں اور رسول کے دوستوں سے جو مکہ اور مدینہ میں زندگی بسر کر رہے تھے ، یزید کی بیعت لے، تاکہ اس کا بیٹا خلیفة المسلمین اور پیغمبر کا جانشین معین ہوجائے۔

اسی مقصد کے لئے معاویہ سرزمین شام سے خدا کے گھر کی زیارت کے لئے روانہ ہوا اور اپنے قیام کے دوران حجاز کے دینی مراکز اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوستوں سے ملاقاتیں کیں اورجب کعبہ کے طواف سے فارغ ہوا تو ''دار الندوہ'' جس میں جاہلیت کے زمانے میں قریش کے بزرگ افراد جمع ہوتے تھے، میں تھوڑی دیر آرام کیا اور سعد وقاص اور دوسری اسلامی شخصیتوں سے ملاقات کی جن کی مرضی کے بغیر اس زمانے میں یزید کی خلافت وجانشینی ممکن نہ تھی.

وہ اس تخت پر بیٹھا جو دار الندوہ میں اسی کے لئے رکھا گیا تھا اور سعد وقاص کو بھی اپنے ساتھ بیٹھایا اس نے جلسہ کے ماحول کو دیکھا اور امیر المومنین کو برااورناسزا کہنے لگا یہ برا کام، اور وہ بھی خدا کے گھر کے پاس، اوروہ بھی اس صحابی پیغمبر کے سامنے جس نے حضرت امیر کی جانثاریوںاور قربانیوں کوبہت نزدیک سے دیکھا تھا اور جس کے فضائل و کمالات سے مکمل آگاہ تھا ایسی حرکت کرنا آسان کام نہ تھا، کیونکہ وہ جانتا تھاکہ کچھ ہی دنوں پہلے کعبہ کے سامنے کعبے کے اندر اور باہر بہت سے باطل خدا پناہ لئے ہوئے تھے اور حضرت علی کے ہاتھوں ہی وہ ہمیشہ کے لئے سرنگوں ہوئے تھے اور اس نے پیغمبر کے حکم سے پیغمبر کے کاندھوں پر قدم رکھا تھااوران بتوںکوجس کی خود معاویہ اور اس کے باپ دادا بہت زمانے تک عبادت کیا کرتے تھے اسے عزت کے منارے سے ذلت کے گڑھے میںگرایا اور سب کو توڑ ڈالاتھا۔(۱)

______________________

(۱) مستدرک حاکم ج۲ ص ۳۶۷، تاریخ الخمیس ج۲ ص ۹۵

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809