فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)7%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 362058 / ڈاؤنلوڈ: 6018
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

کاندھے سے ردا اٹھایا اور آپ کے پیر سے جوتے اتارے اور پائے اقدس کودھلایا پھر وضو کر کے آپ کے پاس بیٹھ گئیں. پیغمبر نے اپنی بیٹی سے اس طرح گفتگو شروع کی:

چچاابوطالب کا نور نظر علی وہ ہے جس کی فضیلت ومرتبہ اسلام کی نظر میں ہم پر واضح وروشن ہے. میں نے خدا سے دعا کی تھی کہ خدا کی بہترین مخلوق سے تمہارا عقد کروں اور اس و قت وہ تم سے شادی کی درخواست لے کر آیا ہے اس بارے میں تمہاری کیارائے ہے؟ جناب فاطمہ زہرا نے مکمل خاموشی اختیار کرلی، لیکن اپنے چہرے کو پیغمبر کے سامنے سے نہیں ہٹایااور ہلکی سی ناراضگی کے آثار بھی چہرے پر رونما نہ ہوئے .رسول اسلام اپنی جگہ سے اٹھے اور فرمایا:''اَللّٰهُ اَکْبَرُ سُکُوْتُهٰا اِقْرَارُهٰا'' یعنی خدا بہت بڑا ہے میری بیٹی کی خاموشی اس کی رضایت کی دلیل ہے۔(۱)

______________________

(۱) کشف الغمہ ج۱ ص ۵۰

۸۱

روحی ، فکری اوراخلاقی اعتبار سے برابر ہونا

یہ حقیقت ہے کہ اسلام کے آئین میںہر مردمسلمان ایک دوسرے مسلمان کا کفو اورہم پلہ ہے. اور ہر مسلمان عورت جو ایک مسلمان مرد کے عقد میں آتی ہے اپنے برابر وکفوسے عقد باندھتی ہے لیکن اگر روحی و فکری اعتبار سے دیکھا جائے تو بہت سی عورتیںبعض مردوں کے ہم شان وہم رتبہ نہیں ہیںیا اس کے برعکس بعض مرد بعض عورتوں کے برابر وہم رتبہ نہیں ہیں۔

شریف و مومن او ر متدین مسلمان جوانسانیت کے بلند و بالا مراتب اوراخلاق وعلم ودانش کے وسیع مراتب پر فائز ہیں انھیں چاہئے کہ ایسی عورتوں کواپنی شریک حیات بنائیںجو روحی واخلاقی اعتبار سے ان کے ہم مرتبہ اوران سے مشابہ ہوں۔

یہ امر پاکدامن اور پرہیزگار عورتوں،جوفضائل اخلاقی اوراعلی ترین علم واندیشہ سے مالا مال ہیں ،کے لئے بھی ہے۔ شادی کا سب سے اہم مقصد، پوری زندگی میں سکون واطمینان کا ہونا ہے اوریہ چیز بغیر اس کے ممکن نہیں ہے اور جب تک اخلاقی مشابہت اور روحی ہم آہنگی پوری زندگی پر سایہ فگن نہیں ہوتیں شادی عبث اور بیکار ہوجاتی ہے۔

اس حقیت کے بیان کرنے کے بعد خدا کے اس کلام کی حقیقت روشن ہو جاتی ہے جواس نے اپنے

پیغمبر سے فرمایا تھا :

''لَوْ لَمْ اخْلقُ عَلِیّاً لَمٰا کَانَ لِفٰاطِمَةَ اِبْنَتِک کُفْو عَلٰی وَجْهِ الْاَرْضِ'' (۱)

اگر میں نے علی کو پیدا نہ کیا ہوتا توروئے زمین پر ہرگز تمہاری بیٹی فاطمہ کا کفو نہ ہوتا۔

بطور مسلم اس برابری اور کفوسے مراد مقام ومرتبے میں برابری ہے۔

______________________

(۱) بحار الانوار، ج۴۳، ص ۹ ۔

۸۲

شادی کے اخراجات :

حضرت علی کے پاس مال دنیا میں صرف تلوار اور زرہ تھی جس کے ذریعے آپ راہ خدا میں جہاد کرتے تھے اور ایک اونٹ تھا کہ جس کے ذریعہ سے مدینہ کے باغوں میں کام کرکے خود کوانصار کی مہمانی سے بے نیاز کرتے تھے۔

منگنی اورعقد وغیرہ کے بعد وہ وقت بھی آ پہونچا کہ حضرت علی اپنی شریک زندگی کے لئے کچھ سامان آمادہ کریںاور اپنی نئی زندگی کو پیغمبر کی بیٹی کے ساتھ شروع کریں. پیغمبر نے قبول کرلیا کہ حضرت علی اپنی زرہ کو بیچ دیں اور اس کی قیمت سے فاطمہ کی مہر کے عنوان سے پیغمبر کوکچھ ادا کریں. زرہ چار سودرہم میں فروخت ہوئی .پیغمبر نے اس میں کچھ درہم بلال کو دیا تاکہ زہرا کے لئے عطر خریدیں اور اس میں سے کچھ درہم عمار یاسر اور اپنے کچھ دوستوں کودیا تاکہ علی و فاطمہ کے گھر کے لئے کچھ ضروری سامان خریدیں. حضرت زہرا کے جہیز کودیکھ کر اسلام کی عظیم خاتون کی زندگی کے حالات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے. پیغمبر کے بھیجے ہوئے افراد بازار سے واپس آگئے اور جو کچھ بھی سامان انھوںنے حضرت زہرا کے لئے آمادہ کیاتھا وہ یہ ہیں:

حضرت زہرا کا جہیز :

۱۔ پیراہن ۷ درہم کا۔

۲۔ روسری ۱ درہم کا۔

۳۔ کالی چادر،جو پورے بدن کوچھپا نہیں سکتی تھی۔

۴۔ ایک عربی تخت، جو لکڑی اور کھجور کی چھال سے بنا تھا۔

۵۔ دو مصری کتان سے بنی ہوئی توشک جس میں ایک ریشمی اوردوسری کھجور کی چھال سے بنی تھی۔

۶۔ چار مسندیں، دو ریشم اور دو کھجور کی چھال سے بنی ہوئیں۔

۷۔ پردہ۔

۸۔ ہجری چٹائی ۔

۹۔ چکی۔

۸۳

۱۰۔ بڑا طشت۔

۱۱۔ چمڑے کی مشک۔

۱۲۔ دودھ کے لئے لکڑی کا پیالہ۔

۱۳۔ پانی کے لئے چمڑے کے کچھ برتن۔

۱۴۔ لوٹا۔

۱۵۔ پیتل کا بڑا برتن (لگن)

۱۶۔ چند پیالے۔

۱۷۔ چاندی کے بازو بند۔

پیغمبر کے دوستوں نے جو کچھ بھی بازار سے خریدا تھا پیغمبر کے حوالے کیااور پیغمبر اسلام نے اپنی بیٹی کے گھر کا سامان دیکھ کر فرمایا:''اَلّٰلهُمَّ بَارِکْ لِقَوْمٍ جُلَّ آنِیَتِهُمُ الْخَزْفَ'' یعنی خداوندا جولوگ زیادہ تر مٹی کے برتن استعمال کرتے ہیں ان کی زندگی کو مبارک قرار دے۔(۱)

______________________

(۱) بحار الانوار ج۴۳ ص ۹۴، کشف الغمہ، ج۱، ص ۳۵۹، کشف الغمہ کے مطابق حضرت زہرا کے گھر کے تمام سامان کل ۶۳ درہم میں خریدے گئے تھے۔

۸۴

حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کا مہر :

پیغمبر اسلام(ص) کابیٹی کی مہر پانچ سودرہم تھا اور ہر درہم ایک مثقال چاندی کے برابر تھا(ہر مثقال ۱۸ چنے کے برابر ہوتاہے)۔پیغمبر اسلام کی عظیم المرتبت بیٹی کا عقد بہت زیادہ سادگی اور بغیر کسی کمی کے ہوا عقدہوئے ایک مہینہ سے زیادہ گزر گیا پیغمبر کی عورتوں نے حضرت علی سے کہا: اپنی بیوی کواپنے گھرکیوں نہیں لے جاتے؟ حضرت علی نے ان لوگوں کو جواب دیا: لے جاؤں گا. ام ایمن پیغمبر کی خدمت حاضر ہوئیں اور کہا اگر خدیجہ زندہ ہوتیںتووہ فاطمہ کے مراسم ازدواج کو دیکھ کرخوش ہوجاتیں۔

پیغمبر نے جب خدیجہ کا نام سنا تو آنکھیں آنسوؤ ں سے تر ہوگئیں اور کہا:اس نے میری اس وقت تصدیق کی تھی جب سب نے مجھے جھٹلا دیا تھا. اور خدا کے دین کودوام بخشنے کے لئے میری مدد کی اور اپنے مال کے ذریعے اسلام کے پھیلانے میں مدد کی۔(۱)

ام ایمن نے کہا: فاطمہ کوان کے شوہر کے گھر بھیج کر ہم سب کو خوشحال کیجئے۔رسول اکرم نے حکم دیا کہ ایک کمرہ کو زہرا کے زفاف کے لئے آمادہ کرو اورانھیں آج کی رات اچھے لباس سے آراستہ کرو۔(۲) جب دلہن کی رخصتی کا وقت قریب آیاتو پیغمبر نے حضرت زہرا کو اپنے پاس بلایا. زہرا پیغمبر کے پاس آئیں، جب کہ ان کے چہرے پر شرم و حیا کا پسینہ تھا اور بہت زیادہ شرم کی وجہ سے پیر لڑکھڑا رہے تھے اور ممکن تھا کہ زمین پر گرجائیں. اس موقع پر پیغمبر نے ان کے حق میں دعا کی اور فرمایا:

''اَقَالَکَ اللّٰهُ الْعَثْرَةَ فِی الدُّنْیٰا وَ الآْخِرَةِ ''

خدا تمہیںدونوںجہان کی لغزش سے محفوظ رکھے، پھر زہرا کے چہرے سے حجاب ہٹایا اور ان کے ہاتھ کوعلی ـکے ہاتھ میں دیا اور مبارکباد پیش کر کے فرمایا:

''بٰارِکْ لَکَ فِی اِبْنَةِ رَسُوْلِ اللّٰهِ یَا عَلِیُّ نِعْمَتِ الزُّوْجَةُ فَاطِمَةُ''

پھر فاطمہ کی طرف رخ کر کے کہا:''نِعْمَ الْبَعْلُ عَلِیُّ '' ۔پھر دونوں کو اپنے گھر جانے کے لئے کہااور بزرگ شخصیت مثلاً سلمان کو حکم دیا کہ جناب زہرا کے اونٹ کی مہار پکڑیں اور اس طرح اپنی باعظمت بیٹی کی جلالت کا اعلان کیا۔

______________________

(۱) بحار الانوار ج۴۳ ص ۱۳۰

(۲) بحار الانوار ج۴۳ ص ۵۹

۸۵

جس وقت دولہا ودولہن حجلہ عروسی میں گئے تودونوں شرم وحیا سے زمین کی طرف نگاہ کئے ہوئے تھے، پیغمبر ان کے کمرے میں داخل ہوئے اور ایک برتن میں پانی لیا اور تبرک کے طور پر اپنی بیٹی کے سر اور بدن پر چھڑکا، پھر دونوںکے حق میں اس طرح سے دعا کی:

''اَلّٰلهُمَّ هٰذِهِ اِبْنَتِیْ وَ اَحَبُّ الْخَلْقِ اِلیَّ اَلّٰلهُمَّ وَ هٰذَا اَخِیْ وَ اَحَبُّ الْخَلْقِ اِلَیَّ اَلّٰلهُمَّ اجْعَلْهُ وَ لِیّاً وَ (۱)

______________________

(۱) بحار الانوار ج۴۳ ص ۹۶

۸۶

پانچویں فصل

جنگ احد میں امیر المومنین ـ کی جاں نثاری

جنگ بدر میںشکست کی وجہ سے قریش کے دل بہت زیادہ افسردہ اور مرجھائے ہوئے تھے .ان لوگوںنے اس مادی اور معنوی شکست کی تلافی کے لئے ارادہ کیا کہ اپنے قتل ہونے والوں کا انتقام لیں. اور اکثر عرب کے قبیلوں کے بہادر وجانباز اور جنگجو قسم کے افراد کاایک منظم لشکر تیار کرکے مدینہ کی طرف روانہ کریں۔

لہٰذا عمرو عاص او ربعض دوسرے افرادکومامورکیاگیاکہ کنانہ او رثقیف قبیلے کے افراد کو اپنا بنائیں اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے میں ان سے مدد طلب کریں .ان لوگوںنے کافی محنت و مشقت کر کے تین ہزار جنگ جو افراد کو مسلمانوںسے مقابلے کے لئے آمادہ کرلیا۔

اسلام کے اطلاعاتی دستہ نے پیغمبر اسلام کو قریش کے ارادے اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے وہاں سے روانہ ہونے سے آگاہ کردیا. پیغمبر اسلام نے دشمنوں سے مقابلے کے لئے جانبازوں کی ایک کمیٹی بنائی جس میں سے اکثریت کا کہنا یہ تھا کہ اسلام کا لشکر مدینے سے نکل جائے اور شہر کے باہر جاکر دشمنوں سے مقابلہ کرے. پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد ایک ہزار کا لشکر لے کر مدینہ سے کوہ احد کی طرف نکل پڑے۔

۷ شوال ۳ھ کی صبح کودونوں لشکر صف بستہ ایک دوسرے کے روبرو کھڑے ہوگئے ،اسلام کی فوج نے ایسی جگہ کومورچہ بنایاکہ ایک طرف یعنی پیچھے سے طبیعی طورپر ایک محافظ کوہ احد تھا لیکن کوہ احد کے بیچ میں اچھی خاصی جگہ کٹی ہوئی تھی اور احتمال یہ تھا کہ دشمن کی فوج کوہ کو چھوڑ کر اسی کٹی ہوئی جگہ اور مسلمانوں کے لشکر کے پیچھے کی طرف سے حملہ کرے، لہٰذا پیغمبر نے اس خطرے کو ختم کرنے کے لئے عبداللہ جبیر کو پچاس تیر اندازوں کے ساتھ اسی پہاڑی پر بھیج دیا تاکہ اگر دشمن اس راستے سے داخل ہو تواس کا مقابلہ کریں. اور حکم دیاکہ ایک لمحہ کے لئے بھی اپنی جگہ سے نہ ہٹیں، یہاں تک کہ اگر مسلمانوں کو فتح نصیب ہو جائے اوردشمن بھاگنے بھی لگیںجب بھی ا پنی جگہ چھوڑ کر نہ جائیں۔

۸۷

پیغمبر نے علم کو مصعب کے حوالے کیا کیونکہ وہ قبیلۂ بنی عبد الدار کے تھے اور قریش کے پرچمدار بھی اسی قبیلے کے رہنے والے تھے۔

جنگ شروع ہوگئی اور مسلمانوں کے جانباز اور بہادروں کی وجہ سے قریش کی فوج بہت زیادہ نقصان اٹھانے کے بعد بھاگنے لگی، پہاڑی پر بیٹھے ہوئے تیر اندازوں نے یہ خیال کیا کہ اب اس پہاڑی پر رکنا ضروری نہیں ہے. لہٰذا پیغمبر کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مال غنیمت لوٹنے کے لئے مورچہ کو چھوڑ کر میدان میں اگئے، خالد بن ولید جوجنگ کرنے میں بہت ماہر وبہادر تھا جنگ کے پہلے ہی سے وہ جانتاتھا کہ اس پہاڑی کا دہانہ کامیابی کی کلید ہے، اس نے کئی مرتبہ کوشش کی تھی کہ اس کے پشت پر جائے اور وہاں سے اسلام کے لشکر پر حملہ کرے، مگر محافظت کرنے والے تیر اندازوںنے اسے روکا اور یہ پیچھے ہٹ گیا، اس مرتبہ جب خالدنے اس جگہ کومحافظوں سے خالی پایا توایک زبردست اور غافل گیرحملہ کرتے ہوتے فوج اسلام کی پشت سے ظاہر ہوا ،اور غیر مسلح اور غفلت زدہ مسلمانوں پر پیچھے کی جانب سے حملہ کردیا، مسلمانوں کے درمیان عجیب کھلبلی مچ گئی اور قریش کی بھاگتی ہوئی فوج اسی راستے سے دوبارہ میدان جنگ میں اتر آئی، اور اسی دور ان اسلامی فوج کے پرچم دار مصعب بن عمیر دشمن کے ایک سپاہی کے ہاتھوں قتل کردیئے گئے اور چونکہ مصعب کا چہرا چھپا ہوا تھا ،ان کے قاتل نے یہ سوچا کہ یہ پیغمبر ہیں لہٰذا چیخنے لگا''اَلٰا قَدْ قُتِلَ مُحَمَّداً'' (اے لوگو! آگاہ ہوجاؤ محمد قتل ہوگئے) پیغمبر کے قتل کی خبر مسلمانوں کے درمیان پھیل گئی. اور ان کی اکثریت میدان چھوڑ کر بھاگنے لگی اور میدان میں چند لوگوںکے علاوہ کوئی باقی نہ بچا۔

اسلام کا بزرگ سیرت نگار ،ابن ہشام اس طرح رقمطراز ہے:

انس بن مالک کا چچا انس بن نضرکہتاہے : جس وقت اسلام کی فوج ذہنی دباؤ کا شکار ہوئی اور پیغمبر کے قتل کی خبر چاروں طرف پھیل گئی توا کثر مسلمان اپنی جان بچانے کی فکر کرنے لگے اور ہر شخص ادھر ادھر چھپنے لگا.انس کہتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ انصار و مہاجر کا ایک گروہ جس میں عمر بن خطاب، طلحہ اور عبیداللہ بھی تھے ایک کنارے پر بیٹھا اپنی نجات کی فکر کر رہا ہے.میں نے اعتراض کے انداز میں ان سے کہا: کیوںیہاں بیٹھے ہو؟

۸۸

ان لوگوںنے مجھے جواب دیا: پیغمبر قتل ہوگئے ہیں او راب جنگ کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے.میں نے ان لوگوں سے کہا کہ اگر پیغمبر قتل ہوگئے تو کیا زندگی کا کوئی فائدہ نہیں ہے تم لوگ اٹھو او ر جس راہ میں وہ قتل ہوئے ہیں تم بھی شہیدہو جاؤ اور اگر محمد قتل کردیئے گئے تومحمد کا خدا زندہ ہے وہ کہتاہے کہ میں نے دیکھاکہ میری باتوں کا ان پر ذرہ برابر بھی اثر نہ ہوا، میں نے اسلحہ اٹھایا اور جنگ میں مشغول ہوگیا۔(۱)

ابن ہشام کہتے ہیں:

انس کواس جنگ میں ستر زخم لگے اور اس کی لاش کواس کی بہن کے علاوہ کوئی پہچان نہ سکا، مسلمانوں کے بعض گروہ اس قدر افسردہ تھے کہ انہوں نے خود ایک بہانہ تلاش کیا کہ عبد اللہ بن ابی منافق کا ساتھ کس طرح سے دیں تاکہ ابوسفیان سے ان کے لئے امان نامہ لیں.اور مسلمانوں کے بعض گروہ نے پہاڑی پر پناہ لی۔(۲)

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں:

بغداد میں ۶۰۸ھ میں ایک شخص واقدی کی کتاب ''مغازی'' کوایک بزرگ دانشمند محمد بن معد علوی سے پڑھتا تھا.ایک دن میں نے بھی اس درس میں شرکت کی.او رجس وقت گفتگو یہاں پہونچی کہ محمد بن مسلمہ جوصریحاً نقل کرتاہے کہ احد کے دن خود میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ مسلمان پہاڑی کے اوپر چڑھ رہے تھے اور پیغمبر ان کا نام لے کر پکار رہے تھے کہ ''اِلَیَّ یا فلان'' (اے فلاں میری طرف آؤ) لیکن کسی نے بھی پیغمبر کی آواز پر لبیک نہ کہا .استادنے مجھ سے کہا فلاں سے مراد وہی لوگ ہیں جنھوں نے پیغمبر کے بعد مقام ومنصب کو حاصل کیا.اور راوی نے خوف وڈر کی وجہ سے ان کا نام لکھنے سے پرہیز کیا ہے اوروہ نہیں چاہتا تھا کہ صریحی طور پر ان سب کا نام لکھے۔(۳)

______________________

(۱)،(۲) سیرۂ ابن ہشام ج۳ ص ۸۴۔ ۸۳

(۳) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۵ ص ۲۳

۸۹

جانثاری مقصد وہدف پر ایمان کی علامت ہے

جانثاری اور جانبازی ،مقصدوہدف پر ایمان کی علامت و نشانی ہے اور اس کے ذریعے سے انسان کی جانثاری کا اندازہ اس کے ہدف پر ایمان واعتقاد کے ذریعے لگایا جاسکتا ہے ،اور حقیقت میںبلندترین اور صحیح کسوٹی ایک شخص کے عقیدے کا اندازہ کرنے کے لئے ، اس کے گزرے ہوئے حالات کودیکھ کر لگایاجاسکتاہے قرآن کریم نے اس حقیقت کو اپنی آیتوں میں اس طرح سے بیان کیا ہے:

( انَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ آمَنُوا بِاﷲِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِامْوَالِهِمْ وَانفُسِهِمْ فِی سَبِیلِ اﷲِ ُوْلَئِکَ هُمْ الصَّادِقُونَ ) (۱)

(سچے مومن) تو بس وہی ہیں جو خدا اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر انھوں نے اس میں کسی طرح کا شک و شبہ نہ کیا اوراپنے مال سے اور اپنی جانوں سے خدا کی راہ میں جہاد کیا، یہی لوگ (دعوائے ایمان میں) سچے ہیں۔

جنگ احد ،مومن اور غیر مومن کی پہچان کے لئے بہترین کسوٹی تھی اورایک عمدہ پیمانہ تھا بہت سے ان افراد کے لئے جوایمان کا دعوی کرتے تھے. مسلمانوں کے بعض گروہ کا اس جنگ سے بھاگنا اتنا پر اثر تھا کہ مسلمانوں کی عورتیںجواپنے بیٹوں کے ساتھ میدان جنگ میں آئی تھیں اور کبھی کبھی زخمیوں کی خبر گیری کرتی تھیں اور پیاسے جانبازوں کو پانی سے سیراب کرتی تھیں اس بات پر مجبور ہوگئیں کہ پیغمبر کا دفاع کریں۔جب نسیبہ نامی عورت نے ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کوبھاگتے ہوئے دیکھا تو ہاتھ میں تلوار لے کر رسول اسلام(ص) کا دشمنوں سے دفاع کیا .جس وقت پیغمبر نے اس عورت کی جانثاری کو بھاگنے والوں کے مقابلے میں مشاہدہ کیا تو آپ نے اس بہادر عورت کے بارے میں ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا:''مَقٰاُم نَسِیْبَةِ بِنْتِ کَعْبٍ خَیْر مِنْ مَقٰامِ فُلٰانِ وَ فُلٰانِ'' (کعب کی بیٹی نسیبہ کا مقام و مرتبہ فلاں فلاں سے بہتر ہے)ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ راوی نے پیغمبر کے ساتھ خیانت کی ہے کیونکہ جن لوگوں کا نام پیغمبر نے صریحی طور پر ذکر کیا تھا اسے بیان نہیں کیا۔(۲) انہی افرادکے مقابلے میں تاریخ ایک ایسے جانباز کااعتراف کرتی ہے جواسلام کی پوری تاریخ میں فداکاری اور جانثاری کا نمونہ ہے، اور جنگ احد میں مسلمانوں کی دوبارہ کامیابی اسی جانثار کی قربانیوں کا

______________________

(۱) سورۂ حجرات آیت ۱۵

(۲) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۴ ص ۲۶۶

۹۰

نتیجہ تھی. یہ عظیم المرتبت جانثار، یہ حقیقی فداکار مولائے متقیان حضرت امیر المومنین کی ذات گرامی ہے.جنگ کی ابتدا میں قریش کے بھاگنے کی وجہ یہ تھی کہ ان کے پرچم اٹھانے والے ۹ افراد ایک کے بعد ایک مولائے کائنات کے رعب و دبدبہ کی وجہ سے اپنی جگہ سے ہٹ گئے اور نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے دلوں میںشدید رعب بیٹھ گیا اور ان کے اندر ٹھہر نے اور مقابلے کرنے کی صلاحیت باقی نہ رہی۔(۱)

امام ـ کی جانثاری پر ایک نظر:

معاصر مصری مؤرخین مجنھوں نے اسلامی واقعات کا تجزیہ کیا ہے حضرت علی کے حق کو جیسا کہ آپ کے شایان شان تھا یا کم از کم جیساکہ تاریخ نے لکھا ہے ادانہیں کیا ہے، اور امیر المومنین کی جانثاری کو دوسرے کے حق میں قرار دیا ہے اس بنا پر ضروری ہے کہ مختصر طور پر حضرت امیر کی جانثاریوں کوانہی کے مأخذ سے بیان کروں۔

۱۔ ابن اثیر نے اپنی تاریخ(۲) میں لکھا ہے:پیغمبر چاروں طرف سے قریش کے لشکر میں گھر گئے تھے ،ہر گروہ جب بھی پیغمبر پر حملہ کرتا توحضرت علی پیغمبر کے حکم سے جب کچھ قتل ہوجاتے تھے تو باقی راہ فرار اختیار کرتے تھے .ایسا جنگ احد میں کئی مرتبہ ہوا. اس جانثاری کی بنیاد پر جبرئیل امین نازل ہوئے اور حضرت علی کے ایثار کوپیغمبر کے سامنے سراہا اور کہا:یہ ایک بلند ترین جانثاری ہے جس کوانھوں نے کر دکھایا ہے. رسول خدا نے جبرئیل امین کی تصدیق کی اور کہا:''میں علی سے ہوں اور علی مجھ سے ہیں''کچھ ہی دیر کے بعد میدان میں ایک آواز سنائی دی جس کا مفہوم یہ تھا:

لَاسَیْفَ اِلاّٰ ذُوْ الْفِقٰارِ

وَلَا فَتٰی اِلاّٰ عَلی

ذو الفقار جیسی کوئی تلوار نہیں اور علی ـ کے جیسا کوئی جوان نہیں ۔

ابن ابی الحدید اس واقعہ کی مزید شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وہ گروہ جس نے پیغمبر پر حملہ کیا تاکہ ان کو قتل کردیں اس میں پچاس آدمی تھے اور علی ـنے جوکہ باپیادہ

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۴ ص ۲۵۰

(۲)تاریخ کامل جلد ۲ ص ۱۰۷

۹۱

جنگ کر رہے تھے ان لوگوں کومتفرق کردیا۔

پھر جبرئیل امین کے نازل ہونے کے بارے میں کہتے ہیں:اس مطلب کے علاوہ جو کہ تاریخ کے اعتبار سے مسلم ہے میں نے محمد بن اسحاق کی کتاب ''غزوات'' کے بعض نسخوں میں جبرئیل امین کے نزول کے متعلق دیکھا ہے کہ یہاں تک ایک دن اپنے استاد عبدالوہاب سکینہ سے اس واقعہ کی صحت کے متعلق پوچھاتوانھوں نے کہا صحیح ہے، میں نے ان سے کہا پھر کیوں اس صحیح روایت کوصحاح ستہ کے مؤلفین نے نہیں لکھا؟ انھوں نے جواب میں کہا : بہت سی صحیح روایتیں موجود ہیں جس کے لکھنے میں صحاح ستہ کے مؤلفین سے غفلت ہوئی ہے۔(۱)

۲۔ حضرت امیر المومنین نے ''رأس الیہود'' کے متعلق اپنے اصحاب کے بعض گروہ کے سامنے جو تفصیلی تقریر فرمائی اس میں اپنی جانثاری کے بارے میں اس طرح اشارہ کیا ہے :

جس وقت قریش کے لشکر نے طوفان کی طرح ہم پر حملہ کیا توانصار اور مہاجرین اپنے گھروں کی طرف روانہ ہوگئے، لیکن میں نے ستر زخم کھانے کے باوجود بھی حضرت کا دفاع کیا۔

پھر آپ نے قبا کواتارا اور زخم کے نشانات جوباقی تھے اس پر ہاتھ لگا کر دکھایا، یہاں تک کہ بنا بر نقل ، ''خصال شیخ صدوق'' حضرت علی نے پیغمبر کے دفاع کرنے میں اتنی جانفشانی و جانثاری کی کہ آپ کی تلوار ٹوٹ گئی اور پیغمبر نے اپنی تلوار، ذو الفقار کو حضرت علی کے حوالے کیا تاکہ اس کے ذریعے سے راہ خدا میں جہاد کرتے رہیں۔(۲)

۳۔ ابن ابی الحدید لکھتے ہیں:جب پیغمبر کے اکثر صحابی وسپاہی میدان سے بھاگ گئے تو دشمنوں نے پیغمبر پر اور بڑھ چڑھ کر حملہ کرنا شروع کردیا. بنی کنانہ قبیلہ کا ایک گروہ اور بنی عبد مناف قبیلے کا گروہ جن کے درمیان چار نامی پہلوان موجود تھے پیغمبر کی طرف حملہ آور ہوئے.اس وقت علی ـ پیغمبر کی چاروں طرف سے پروانہ کی طرح حفاظت کر رہے تھے ، اور دشمن کونزدیک آنے سے روک رہے تھے ،ایک گروہ جس کی تعداد پچاس آدمیوں سے بھی

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۴ ص ۲۱۵

(۲) خصال شیخ صدوق ج۲ ص ۱۵

۹۲

زیادہ تھی انھوں نے پیغمبر کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا اور صرف حضرت علی کا شعلہ ور حملہ تھا جس نے اس گروہ کومنتشر کردیا، لیکن وہ پھر دوبارہ آگئے اور پھر سے حملہ شروع کردیا اور اس حملے میں وہ چار نامی پہلوان اوردس دوسرے افراد جن کا نام تاریخ نے بیان نہیں کیا ہے قتل ہوگئے جبرئیل نے حضرت علی کی اس جانثاری پر پیغمبر کو مبارک باد دی اور پیغمبر نے فرمایا: علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں۔

۴۔ اس پہلے کی جنگوںمیں لشکر کی علمبرداری کے سلسلے میں بہت زیادہ احتیاط رکھی گئی اور پرچم کو بہادر اور دلیر افراد کے ہاتھ میں دیا گیا. علمبردار کے بہادر ہونے کی وجہ سے جنگجووں میں بہادری و شجاعت بڑھ گئی اور سپاہیوں کوذہنی خلفشار سے بچانے کے لئے کچھ لوگوں کو لشکر کاعلمبردار معین کیا گیا تاکہ اگر ایک ماراجائے تودوسرااس کی جگہ پر پرچم کو اپنے ہاتھ میں لے لے۔

قریش، مسلمانوں کی بہادری اورجانثاریوں سے جنگ بدر میں باخبر تھے، اسی وجہ سے اپنے بہت زیادہ سپاہیوں کولشکر کا علمبردار بنایاتھا.قریش کا سب سے پہلا علمبردار طلحہ بن طلیحہ تھا وہ پہلا شخص تھا جو حضرت علی کے ہاتھوں مارا گیا.اس کے قتل کے بعد قریش کے پرچم کوافراد درج ذیل نے سنبھالا اور تمام کے تمام حضرت علی ـ کے ہاتھوںمارے گئے. سعید بن طلحہ ، عثمان بنم طلحہ ، شافع بن طلحہ، حارث بن ابی طلحہ، عزیز بن عثمان، عبد اللہ بن جمیلہ، ارطاة بن شراحبیل، صوأب۔

ان لوگوں کے مارے جانے کی وجہ سے قریش کی فوج میدان چھوڑ کر بھاگ گئی، اس طرح سے مسلمانوں نے حضرت علی کی جانثاری کی وجہ سے جنگ فتح کرلی۔(۱)

علامہ شیخ مفید اپنی کتاب ''ارشاد'' میں امام جعفر صادق ـ سے نقل کرتے ہیں کہ قریش کے علمبرداروں کی تعداد ۹ آدمیوں پر مشتمل تھی اورتمام کے تمام یکے بعد دیگرے حضرت علی کے ہاتھوںمارے گئے۔

ابن ہشام نے اپنی کتاب ''سیرئہ'' میں ان افراد کے علاوہ اور بھی نام ذکر کئے ہیں جو حضرت علی کے پہلے ہی حملہ میں قتل ہوگئے تھے۔(۲)

______________________

(۱) تفسیر قمی ص ۱۰۳، ارشاد مفید ۱۱۵، بحار الانوار ج۲۰ ص ۱۵

(۲) سیرئہ ابن ہشام ج۱ ص ۸۴، ۸۱

۹۳

چھٹیں فصل

اسلام کی شرک پر کامیابی

عرب کے بت پرستوں کی فوج چیونٹی اور ٹڈی کی طرح ایک گہرے خندق کے کنارے آکر رک گئی جسے مسلمانوںنے چھ دن میں کھودی تھی. ان لوگوں نے سوچا پچھلی مرتبہ کی طرح اس مرتبہ بھی احد کے جنگل میں مسلمانوں سے مقابلہ کریں گے لیکن اس مرتبہ وہاں کوئی موجود نہ تھا. بہرحال وہ لوگ آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ شہر مدینہ کے دروازے تک پہونچ گئے. مدینے کے نزدیک ایک گہری اور خطرناک خندق دیکھ کر وہ لوگ حیران و پریشان ہوگئے ،دشمن کی فوج کے سپاہیوں کی تعداد دس ہزار سے زیادہ تھی جب کہ اسلام کے مجاہدوں کی تعداد تین ہزار سے زیادہ نہ تھی۔(۱)

تقریباً ایک مہینے تک مدینہ کا محاصرہ کئے رہے اور قریش کے سپاہی ہر لمحہ اس فکر میں تھے کہ کسی طرح سے خندق کو پار کر جائیں. دشمن کے سپاہی خندق کے سپاہیوں سے مقابلے کے لئے جنہوںنے تھوڑے سے فاصلے پر اپنے دفاع کے لئے مورچہ بنایاتھا روبرو ہوئے اور دونوں طرف سے تیر چلنے کا سلسلہ شب و روز جاری رہا اور کسی نے بھی ایک دوسرے پر کامیابی حاصل نہ کی۔

دشمن کی فوج کا اس حالت پر باقی رہنا بہت دشوار اور مشکل تھا، چونکہ ٹھنڈی ہوا اور غذا کی کمی انھیں موت کی دعوت دے رہی تھی اورعنقریب تھا کہ جنگ کا خیال ان کے دماغوں سے نکل جائے اور سستی اور تھکن ان کی روح میں رخنہ پیدا کردے. اس وجہ سے فوج کے بزرگوں کے پاس کوئی اور چارہ نہ تھا مگر یہ کہ کسی بھی صورت سے ان کے بہادرو دلیر سپاہی خندق کو پار کر جائیں. فوج قریش کے چھ پہلوان و بہادر اپنے گھوڑے کودوڑاتے ہوئے خندق کے پاس گئے اوردھاوابول دیا اور بہت ہی احتیاط سے خندق پار کرکے میدان میں داخل ہوگئے ،ان چھ پہلوانوں میں عرب کا نامی گرامی پہلوان عمرو بن عبدود بھی تھا جو شبہ جزیرہ کا قوی اور بہادر جنگجو مشہور تھا،لوگ اسے ایک ہزار بہادروں پر بھاری سمجھتے تھے اور وہ اندر سے لوہے کی زرہ پہنے ہوئے تھا اور مسلمانوں کی صفوں کے سامنے شیر کی طرح غرایااور تیز تیز چلا کر کہا کہ بہشت کا

______________________

(۱) امتاع الاسماع، مقریزی،منقول از سیرۂ ہشام ج۲ ص ۲۳۸

۹۴

دعوی کرنے والے کہاںہیں؟کیاتمہارے درمیان کوئی ایسا نہیں ہے جومجھے جہنم واصل کردے یامیں اس کو جنت میں بھیج دوں؟

اس کے کلمات موت کی آواز تھے اور اس کے مسلسل نعروں کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں اس طرح ڈر بیٹھ گیا تھاایسا معلوم ہوتا تھا کہ سب کے کان بند ہوگئے ہوں اور زبانیں گنگ ہو گئی ہوں۔(۱)

ایک مرتبہ پھر عرب کے بوڑھے پہلوان نے اپنے گھوڑے کی لگام کو چھوڑ دیا اور مسلمانوں کی صفوں کے درمیان پہونچ گیا اور ٹہلنے لگااور پھر اپنا مقابل مانگنے لگا۔

جتنی مرتبہ بھی اس عرب کے نامی پہلوان کی آواز جنگ کے لئے بلند ہوتی تھی فقط ایک ہی جوان اٹھتاتھا اور پیغمبر سے میدان جنگ میں جانے کی اجازت مانگتا،. مگر ہر بار پیغمبر اسے منع کردیتے تھے اوروہ جوان حضرت علی تھے. پیغمبر ان کی درخواست پر فرماتے تم بیٹھ جاؤ یہ عمرو ہے۔عمرو نے تیسری مرتبہ پھر آواز دی اور کہا میری آواز چیختے چیختے بیٹھ گئی، کیا تمہارے درمیان کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو میدان جنگ میں قدم رکھے؟ اس مرتبہ بھی حضرت علی نے پیغمبر سے بہت اصرار کیا کہ جنگ میں جانے کی اجازت دیدیں. پیغمبر نے فرمایا: یہ لڑنے والا عمرو ہے ، حضرت علی خاموش ہوگئے بالآخر پیغمبر نے حضرت علی کی درخواست کو قبول کرلیا. پھر اپنی تلوار انھیں عطا کی اوراپنا عمامہ ان کے سر پر باندھااور ان کے حق میں دعا کی(۲) اور کہا: خداوندا! علی ـ کودشمن کے شر سے محفوظ رکھ. پروردگارا: جنگ بدر میں عبیدہ اور جنگ احد میں شیر خدا حمزہ کو تو نے مجھ سے لے لیا، خدایا! علی ـکو مشکلات سے دور رکھ. پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی:( رب لاتذرنی فرداً و انتَ خیرُ الوارثین ) (۳) پھر اس تاریخی جملے کو بیان فرمایا:''برزَ الایمانُ کلّهُ الی الشرک کلِّه'' یعنی ایمان و شرک کے دو مظہر ایک دوسرے کے روبرو ہوئے ہیں۔(۴)

______________________

(۱) واقدی نے اپنی کتاب مغازی میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے وہ کہتا ہے کہ ''کان علی رؤوسہم الطیر'' گویاان کے سروں پر پرندے بیٹھے تھے. مغازی ج۲ ص ۴۸

(۲) تاریخ الخمیس ج۱ ص ۴۸۶

(۳) سورۂ انبیاء آیت ۸۹

(۴) کنز الفوائد ص ۱۳۷

۹۵

حضرت علی مکمل ایمان کے مظہر اورعمرو شرک وکفر کا کا مل مظہر تھا. شاید پیغمبر کے اس جملے سے مقصد یہ ہو کہ ایمان اور شرک کا فاصلہ کم ہوگیاہے اور اس جنگ میں ایمان کی شکست شرک کی موقعیت کو پوری دنیا میں اجاگر کردے گی۔

امام ـ تاخیرکے جبران کے لئے بہت تیزی سے میدان کی طرف روانہ ہوئے اور عمرو کے پڑھے ہوئے رجز کے وزن اور قافیہ پر رجز پڑھنا شروع کیا جس کا مفہوم یہ تھا: جلدی نہ کر اے بہادر میں تجھے جواب دینے کے لئے آیا ہوں۔

حضرت علی لوہے کی زرہ پہنے ہوئے تھے اور ان کی آنکھیں مغفر (لوہے کی ٹوپی) کے درمیان چمک رہی تھیں، عمرو حضرت علی کو پہچاننے کے بعد ان سے مقابلہ کرنے سے کترانے لگا اور کہا تمہارے باپ ہمارے دوستوں میں سے تھے اور میں نہیں چاہتا کہ ان کے بیٹے کے خون کو بہاؤ ں۔

ابن ابی الحدید کہتے ہیں :جب میرے استاد ابو الخیر نے تاریخ کے اس حصے کا درس دیا تو اس طرح بیان کیا : عمرو نے جنگ بدر میں شرکت کی تھی اور بہت ہی قریب سے حضرت علی کی شجاعت و بہادری کو دیکھا تھا اسی وجہ اس نے بہانہ بنایا او ربہت خوفزدہ تھا کہ کس طرح سے ایسے بہادر سے مقابلہ کرے۔

حضرت علی نے اس سے کہا: تومیری فکر نہ کر. میں چاہے قتل ہو جاؤں چاہے فتح حاصل کرلوں، خوش نصیب رہوں گا اور میری جگہ جنت میں ہے لیکن ہر حالت میں جہنم تیرا انتظار کر رہا ہے اس وقت عمرونے ہنس کر کہا:اے میرے بھتیجے یہ تقسیم عادلانہ نہیں ہے جنت اور جہنم دونوں تمہارا مال ہے۔(۱)

اس وقت حضرت علی نے اسے وہ نذر یاد دلائی جس کو جو اس نے خدا سے کیا تھا کہ اگر قریش کا کوئی شخص اس سے دو چیزوں کا تقاضا کرے تو وہ ایک چیز کو قبول کرلے گا. عمرو نے کہا:بالکل ایسا ہی ہے حضرت علی نے کہا:میری پہلی درخواست یہ ہے کہ اسلام قبول کرلے عرب کے نامی پہلوان نے کہا: یہ درخواست مجھ سے نہ کرو مجھے تمہارے دین کی ضرورت نہیں ہے ،. پھر علی ـنے کہا:جا اور جنگ کرنے کا خیال اپنے دل سے نکال دے اور اپنے گھر کی طرف چلاجا. اور پیغمبر کے قتل کودوسروں کے حوالہ کردے کیونکہ اگروہ کامیاب ہوگیا تو قریش کے لئے باعث افتخار ہو گا اور اگر قتل ہوگیا تو تیری آرزو بغیر جنگ کے پوری ہوجائے گی ۔

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ ص ۱۴۸

۹۶

عمرو نے جواب میں کہا: قریش کی عورتیں اس طرح گفتگو نہیں کرتیں، کس طرح واپس جاؤں، جب کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میرے قبضے میں ہیں اور اب وہ وقت پہونچ چکا ہے کہ جو میں نے نذر کی تھی اس پر عمل کروں؟ کیونکہ میں نے جنگ بدر کے بعد نذر کی تھی کہ اپنے سر پر تیل اس وقت تک نہیں رکھوں گا جب تک محمد سے اپنے بزرگوں کاانتقام نہ لے لوں گا۔حضرت علی نے اس سے کہا: اب تو جنگ کے لئے آمادہ ہوجا! تاکہ پڑی ہوئی گتھی کو شمشیر کے ذریعے سلجھائیں. اس وقت بوڑھا پہلوان سخت غصے کی وجہ سے جلتے ہوئے لوہے کی طرح سرخ ہوگیا اور جب حضرت علی کو پیادہ دیکھا تو خود گھوڑے سے اتر آیا گھوڑے کو ایک ہی وار میں قتل کر دیااور ان کی طرف بڑھا اور اپنی تلوار سے حضرت علی پر حملہ کردیا اور پوری قوت سے حضرت کے سر پر مارا، حضرت علی نے اس کی ضربت کو اپنی سپر کے ذریعے روکا لیکن سپر دو ٹکڑے ہوگئی اورخود بھی ٹوٹ گئی اور آپ کا سر زخمی ہوگیا اسی لمحے امام نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور ایک کاری ضرب لگائی اور اسے زمین پر گرادیا تلوار کے چلنے کی آواز اور میدان میں گردو غبار کی وجہ سے دونوں طرف کے سپاہی اس منظر کونزدیک سے نہیں دیکھ پا رہے تھے، لیکن اچانک جب حضرت علی کی تکبیر کی آواز بلند ہوئی تومسلمان خوش ہوکر چیخنے لگے اور ان کو یقین ہوگیا کہ حضرت علی نے عرب کے پہلوان پر غلبہ پالیا ہے اور مسلمانوں کو اس کے شر سے محفوظ کردیاہے۔اس نامی و مشہور پہلوان کے قتل ہونے کی وجہ سے، پانچ اور نامی پہلوان، عکرمہ ، ہبیرہ، نوفل، ضرار اور مرد اس، جنھوں نے عمرو کے ساتھ خندق پار کیا تھا اور حضرت علی اورعمرو کی جنگ کے نتیجے کے منتظر تھے ، وہاں سے بھاگ گئے .ان میں سے چار پہلوان خندق سے پار ہوگئے تاکہ قریش کو عمروکے مرنے کی خبر سنائیں ،مگر نوفل بھاگتے وقت اپنے گھوڑے سے خندق میں گرگیا اور حضرت علی جوان سب کا پیچھا کر رہے تھے خندق میں گئے اور اس کو ایک ہی حملے میں موت کے گھاٹ اتار دیا۔(۱) اس نامی پہلوان کی موت کی وجہ سے شعلۂ جنگ ہوگیااور عرب کے ہر قبیلے والے اپنے ا پنےقبیلے کی طرف واپس جانے لگے .زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ دس ہزار کا لشکر ٹھنڈک اور بھوک کی وجہ سے اپنے گھروں کی طرف چلا گیا اور ا سلام کی اساس و بنیاد جسے عرب کے نامی اور قوی دشمن نے دھمکی دی تھی حضرت کی جانثاری کی وجہ سے محفوظ ہوگئی۔

______________________

(۱) تاریخ الخمیس ج۱ ص ۴۸۷

۹۷

اس جانثاری کی اہمیت

جو لوگ اس جنگ کے جزئیات اور مسلمانوں کی ابتر حالت اور قریش کے نامی پہلوان کی دھمکیوں کے خوف و ہراس سے مکمل باخبر نہیں ہیں وہ اس جانثاری اور قربانی کی واقعی حقیقت کو کبھی بھی سمجھ نہیں سکتے لیکن ایک محقق جس نے تاریخ اسلام کے اس باب کا دقیق مطالعہ کیا ہے اور بہترین روش اور طریقے سے اس کا تجزیہ و تحلیل کیا ہے پر اس واقعے کی اہمیت پوشیدہ نہیں ہے۔

اس حقیقت کا جاننا بھی ضروری ہے کہ اگر حضرت علی میدان جنگ میں دشمن سے مقابلے کے لئے نہ جاتے تو پھر کسی بھی مسلمان میں اتنی جرأت نہ تھی کہ وہ عمروکے مقابلے میں جاتا، اور ایک فوج کے لئے سب سے بڑی ذلت و رسوائی کی بات یہ ہے کہ دشمن مقابلے کے لئے بلائے اور کوئی نہ جائے اور سپاہیوں پر خوف چھا جائے. حتی اگر دشمن جنگ کرنے سے باز آجاتا اور محاصرہ کوختم کر کے اپنے گھر واپس چلا جاتا. تب بھی اس ذلت کا داغ تاریخ اسلام کی پیشانی پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے باقی رہتا۔

اگر حضرت علی اس جنگ میں شرکت نہ کرتے یا شہید ہو جاتے تو قریب تھا کہ کوہ ''سلع'' میں پیغمبر کے پاس رہنے والے سپاہی جو عمرو کی للکار سے بید کے درختوں کی طرح لرز رہے تھے، میدان چھوڑ کر چلے جاتے اور کوہ سلع سے اوپر جاتے اور پھر وہاں سے بھاگ جاتے، جیسا کہ جنگ احد اور حنین میں ہوااور تاریخ کے صفحات پر آج بھی درج ہے کہ سب کے سب فرار ہوگئے علاوہ چند افراد کے، جنھوں نے پیغمبر کی جان بچائی اور سب کے سب جان بچا کر بھاگ گئے اور پیغمبر کو میدان میں تنہا چھوڑ دیا۔

اگر امام علیہ السلام اس مقابلے میں(معاذ اللہ) ہارجا تے تو نہ صرف یہ کہ جتنے بھی سپاہی کوہ ''سلع'' کے دامن میں اسلام کے زیر پرچم اور پیغمبر کے پاس کھڑے تھے بھاگ جاتے بلکہ وہ تمام سپاہی جو پوری خندق کے کنارے حفاظت اور مورچہ سنبھالنے کے لئے کھڑے تھے وہ مورچے کو چھوڑ دیتے اور ادھراُدھر بھاگ جاتے۔

۹۸

اگر حضرت علی علیہ السلام نے قریش کے پہلوانوں کا مقابلہ کر کے ان کو بڑھنے سے روکا نہ ہوتا یااس راہ میں قتل ہو جاتے تودشمن بڑی آسانی سے خندق کو پار کر جاتا اور پھر دشمن کی فوج اسلام کی فوج کی طرف بڑھتی اور پورے میدان میں بڑھ بڑھ کر حملہ کرتی جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ آئین توحیدی پر شرک کامیاب ہوجاتااور اسلام خطرے میں پڑ جاتا، ان تمام چیزوں کودیکھنے کے بعد پیغمبر اسلام نے، الہام اور وحی الہی سے حضرت علی کی جانثاری کو اس طرح سراہتے ہیں:

''ضَرْبَةُ عَلِیٍّ یَوْمَ الْخَنْدَقِ اَفْضَلُ مِنْ عِبَادَةِ الثَّقَلَیْنِ'' (۱)

اس ضربت کی عظمت و رفعت جو علی ـنے خندق میں دشمن پر ماری تھی دونوںجہان کی عبادتوں سے بہتر ہے۔

اس بیان کا فلسفہ یہ ہے کہ اگر یہ جانثاری واقع نہ ہوتی توقانون شرک پوری دنیا پر چھا جاتااور پھر کوئی بھی ایسی شمع باقی نہ رہتی جس کے اردگرد ثقلین طواف کرتا. اور اس کی نورانیت کے زیر سایہ خدا کی عبادت و پرستش کرتا۔

ہم یہاں پر بڑے فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ امام نے اپنی بے نظیر اور عظیم فداکاری کی وجہ سے اس دنیاکے مسلمانوں اور توحید کے متوالوںکورہین منت قرار دیاہے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ اتنا زمانہ گزر جانے کے بعد بھی اسلام و ایمان، امام کی فداکاری وجانثاری کے صدقے میں آج تک باقی ہے۔

جی ہاں، حضرت علی کی فداکاری وجانثاری کے علاوہ آپ کی سخاوت و فیاضی کایہ عالم تھا کہ عمروبن عبدود کوقتل کرنے کے بعداس کی قیمتی زرہ اور لباس کواس کی لاش کے پاس چھوڑ کر میدان سے واپس آگئے، جب کہ عمرو نے اس کام کی وجہ سے آپ کی ملامت و سرزنش کی، لیکن امام علیہ السلام نے اس کی ملامت و سرزنش پر کوئی توجہ نہ دی. اور جب اس کی بہن اس کی لاش کے سراہنے پہونچی تو اس نے کہا کہ ہرگز میں تم پر گریہ نہ کروںگی کیونکہ تو کسی کریم و شریف کے ہاتھوں قتل ہوا ہے(۲) جس نے تیرے قیمتی لباس اور قیمتی اسلحوں تک کوہاتھ نہیں لگایاہے۔

______________________

(۱) مستدرک حاکم ج۳ ص ۳۲، بحار الانوار ج۲۰ ص ۲۱۶

(۲) مستدرک حاکم ج۳ ص۳۲، بحار الانوار ج۲۰ ص ۳۳

۹۹

ساتویں فصل

جنگ خیبر اوراس کے تین اہم امتیازات

کس طرح سے دشمن کی زبان حضرت علی کی عظمت وافتخار کوبیان کرنے لگی اور وہ نشست جو آپ کو برا وناسزا کہنے کے لئے تیار کی گئی تھی مدح و ستائش میں تبدیل ہوگئی؟

امام حسن مجتبیٰ ـ کی شہادت کے بعد معاویہ کو فرصت ملی کہ خود اپنی زندگی میں اپنے بیٹے یزید کی خلافت کے لئے زمین ہموار کرے اور بزرگ صحابیوں اور رسول کے دوستوں سے جو مکہ اور مدینہ میں زندگی بسر کر رہے تھے ، یزید کی بیعت لے، تاکہ اس کا بیٹا خلیفة المسلمین اور پیغمبر کا جانشین معین ہوجائے۔

اسی مقصد کے لئے معاویہ سرزمین شام سے خدا کے گھر کی زیارت کے لئے روانہ ہوا اور اپنے قیام کے دوران حجاز کے دینی مراکز اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوستوں سے ملاقاتیں کیں اورجب کعبہ کے طواف سے فارغ ہوا تو ''دار الندوہ'' جس میں جاہلیت کے زمانے میں قریش کے بزرگ افراد جمع ہوتے تھے، میں تھوڑی دیر آرام کیا اور سعد وقاص اور دوسری اسلامی شخصیتوں سے ملاقات کی جن کی مرضی کے بغیر اس زمانے میں یزید کی خلافت وجانشینی ممکن نہ تھی.

وہ اس تخت پر بیٹھا جو دار الندوہ میں اسی کے لئے رکھا گیا تھا اور سعد وقاص کو بھی اپنے ساتھ بیٹھایا اس نے جلسہ کے ماحول کو دیکھا اور امیر المومنین کو برااورناسزا کہنے لگا یہ برا کام، اور وہ بھی خدا کے گھر کے پاس، اوروہ بھی اس صحابی پیغمبر کے سامنے جس نے حضرت امیر کی جانثاریوںاور قربانیوں کوبہت نزدیک سے دیکھا تھا اور جس کے فضائل و کمالات سے مکمل آگاہ تھا ایسی حرکت کرنا آسان کام نہ تھا، کیونکہ وہ جانتا تھاکہ کچھ ہی دنوں پہلے کعبہ کے سامنے کعبے کے اندر اور باہر بہت سے باطل خدا پناہ لئے ہوئے تھے اور حضرت علی کے ہاتھوں ہی وہ ہمیشہ کے لئے سرنگوں ہوئے تھے اور اس نے پیغمبر کے حکم سے پیغمبر کے کاندھوں پر قدم رکھا تھااوران بتوںکوجس کی خود معاویہ اور اس کے باپ دادا بہت زمانے تک عبادت کیا کرتے تھے اسے عزت کے منارے سے ذلت کے گڑھے میںگرایا اور سب کو توڑ ڈالاتھا۔(۱)

______________________

(۱) مستدرک حاکم ج۲ ص ۳۶۷، تاریخ الخمیس ج۲ ص ۹۵

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

تکرار وسوسہ شیطانوں کا اہم اسلحہ

شیطانوں کا ایک اسلحہ انسانوں کو گمراہ کرنے کے لئے ان کے اندر مسلسل وسوسہ ڈالنا اوران کے ذہن وعقل میں نفوذ پیدا کرنا ہے۔ اسی وجہ سے قرآن ان کو وسواس اور خناس کے لقب سے یاد کرتا ہے اورانسانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ جنّ و انس کے شیاطین کے شر سے خدا کی پناہ مانگیں، اس لئے کہ شیاطین، انسان کے دل پر مسلسل وسوسہ اندازی سے چاہتے ہیں کہ انسانوں کے ذہن و عقل کو اپنے تسلط میں لے لیں اور ان کے افکار کو ہلاکت و گمراہی کے گڑھے کی طرف موڑ دیں۔

شیطان اور شیطان صفت انسان خود جانتے ہیں کہ خدا پرست لوگوں کے اذہان میں شیطانی تخیلات کو جگہ دینے کے لئے ضروری ہے کہ اتنا بولیں، لکھیں اور تکرار کریں کہ اذہان کو اپنے باطل تخیلات سے مانوس کر کے دھیرے دھیرے ان کی فکر و عقل میں نفوذ کر جائیں۔ خود وہ لوگ کہتے ہیں کہ اس قدر بولنا، لکھنا اور تکرار کرنا چاہئے کہ لوگوں کو شک و شبہہ میں مبتلا کردیں۔

وہ لوگ ابلیس کی وسوسہ اندازی سے سب سے پہلے طالب علموں اور تعلیم یافتہ طبقہ کو منحرف اور گمراہ کرنا چاہتے ہیں، کیوں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو فریب دیکر عام لوگوں کواور زیادہ گمراہ کرسکیں گے۔ لیکن وہ اس بات سے غافل ہیں کہ خداوند متعال نے مسلمانوں اور شیعوں کی ہدایت کے لئے روشن مشعلیں قرار دی ہیں اور مسلمان لطف الٰہی اوردینی علوم و معارف سے الہام کے ذریعہ دشمنوں کی شیطانی سازشوں کو بھانپ لیں گے اور روز بروز قرآن کی پیروی میں پہلے سے زیادہ محکم و پائدار ہوتے جائیں گے۔

۱۲۱

متشابہات سے استناد، قرآن کے مقابلہ میںایک دوسری سازش

اس کے پہلے اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا کہ پیغمبر اور ائمۂ معصومین (ع) کا ایک عہدہ وحی الٰہی کی تفسیر و توضیح ہے، چونکہ قرآن میں محکمات و متشابہات ہیں اور جیسا کہ اس کے پہلے اشارہ کیا گیا کہ اس میں ظاہر و باطن بھی ہیں کہ اس کے معارف کی گہرائیوں کا حصول پیغمبر اور ائمۂ معصومین اور علوم الٰہی سے واقف حضرات کے علاوہ کسی کے لئے ممکن نہیں ہے اور اس کی تفسیر و توضیح مکتب اہلبیت کے تعلیم یافتہ افراد کے علاوہ کوئی اور نہیں کرسکتا۔

چونکہ حکم عقل اور سیرۂ عقلاء کے مطابق جاہل کا عالم کی طرف رجوع کرنا لازم ہے، لہٰذا قرآن اور دین کے معارف سمجھنے کے لئے اس کتاب الٰہی کے لانے والے اور ائمۂ معصومین (ع) اور ان حضرات کے مکتب کے تعلیم یافتہ افراد کی طرف رجوع کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ تمام انسان عقلائی سیرت و روش کی پیروی کریں یا اپنے کو عقل و فہم اور سمجھنے اور سمجھانے کے منطقی اصول کا پابند سمجھیں۔

ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو لوگوں کو صرف گمراہ کرنا چاہتے ہیں اور ان کا مقصد معاشرہ میں شبہہ اور فتنہ پیدا کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ قرآن نے بھی اس بات کی پیشین گوئی کی ہے:

۱۲۲

(وَ هُوَ الَّذِی أَنزَلَ عَلَیکَ الکِتَابَ مِنهُ آیَات مُحکَمَات هُنَّ أُمُّ الکِتَابِ وَ أُخَرُ مُتَشَابِهَات فَأَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِم زَیغ فَیَتَّبِعُونَ مَاتَشَابَهَ مِنهُ ابْتِغَائَ الْفِتنَةِ وَ ابْتِغَائَ تَأوِیْلِهِ وَ مَا یَعلَمُ تَأوِیلَهُ اِلاَّ اللّٰهُ وَ الرَّاسِخُونَ فِی العِلمِ یَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ کُلّ مِن عِندِ رَبِّنَا وَ مَایَذَّکَّرُ اِلاَّ أُولُوا الأَلبَابِ)1

یعنی ''اس (خدا) نے آپ (پیغمبر) پر وہ کتاب نازل کی ہے جس میں سے کچھ آیتیںمحکم اور واضح ہیں جو اصل کتاب ہیں اور کچھ متشابہ ہیں، اب جن کے دلوں میں کجی ہے وہ انہیں متشابہات کے پیچھے لگ جاتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور من مانی تاویلیں کریں حالانکہ اس کی تاویل کا علم صرف خدا کو ہے ا ور انھیں ہے جو علم میں رسوخ رکھنے والے ہیں، جن کا کہنا یہ ہے کہ ہم اس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ سب کی سب محکم و متشابہ آیات ہمارے پروردگار ہی کی طرف سے ہیں اور یہ بات سوائے صاحبان عقل کے کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے''۔

اس آیۂ کریمہ نے قرآن کریم کو دو حصوں میں یعنی محکمات و متشابہات میں تقسیم کیا ہے اور محکمات کو ''ام الکتاب'' (اصل کتاب) کے نام سے یاد کیا ہے ۔ قرآن کا ایک حصہ آیات محکمات ہیں جو دوسرے حصہ یعنی متشابہات کی نسبت جڑ اوراصل ہیں۔

محکمات قرآن سے مراد وہ آیات ہیں کہ جن کے معانی واضح و روشن ہیں اور ان کے معارف قابل شک و شبہہ نہیںہیں۔ یہ آیات، معارف قرآن کے اصول و امہات پر مشتمل ہیں۔ انھیں کے مقابل وہ آیات ہیں جو محکمات کا سہارا لئے بغیر قابل فہم نہیںہیں اور ایسا نہیں ہے کہ تمام لوگ ان کے معنی کی گہرائی تک پہنچ جائیں۔ آیات قرآن کے اس حصہ کو متشابہات کہا جاتا ہے۔

قرآن نے لوگوں کو متشابہات کی پیروی سے، محکمات نیز پیغمبر اور ائمۂ معصومین (ع) کی تفسیر و توضیح کی طرف توجہ کئے بغیر منع کیا ہے۔ قرآن کریم متشابہات کی پیروی کودل کے انحراف و کجی کی نشانی سمجھتا ہے اور فرماتا ہے کہ جو لوگ قرآن کے متشابہات کو اپنی فکر و فہم اوراپنے اعتقادات کا معیار قرار دیتے ہیں وہ قرآن کی من مانی تاویل و تحریف اور فتنہ برپا کرنا چاہتے ہیں۔ قرآن کے بقول، آیات متشابہات کی تاویل و تفسیر خدا، راسخون فی العلم اور ائمۂ معصومین (ع) کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا۔ علم میں راسخ وہ لوگ ہیں جنھوںنے دل و جان سے خدا کی بندگی کو قبول کیا ہے اور کہتے ہیں کہ ہم قرآن پر ایمان لائے ہیں، خواہ وہ قرآن کے محکمات ہوں یا متشابہات، سب پروردگار کی طرف سے ہیں۔

(1) سورۂ آل عمران، آیت 7 ۔

۱۲۳

قرآن میں متشابہات کی حکمت

یہاں پر ممکن ہے یہ سوال کیا جائے کہ کیوں قرآن اس طرح نازل نہیںہوا ہے کہ اس کی تمام آیتیں واضح و محکم اور بغیر کسی ابہام و اجمال کے ہوں تاکہ سب کے لئے یکساں طور پر قابل فہم و استفادہ ہوں؟

اس سوال کے جواب کے لئے پہلے ایک مختصر سا مقدمہ بیان کرتے ہیں: ہم عام انسانوں کا ذہن فطری عوامل کا تابع ہے۔ عام انسان جب پیدا ہوتا ہے تو حواس کے ذریعہ پہلے محسوسات سے آشنا ہوتا ہے اور شروع میں اس کا ادراک و فہم محسوسات و مادیات کے حدود میں محدود ہوتا ہے، لیکن دھیرے دھیرے انسان کی فکری قوتیںبڑھتی ہیں اور وہ تجرید و تعقل کی قدرت پیدا کر لیتا ہے، نتیجہ میںاس کو مادیات سے مافوق مطالب کے درک کرنے کی صلاحیت حاصل ہو جاتی ہے۔

انسان کی عقل جس قدر تجرید و تعقل کی قدرت کی حامل ہوگی اور مادہ و مادیات کے حدود سے آگے بڑھے گی اتنا ہی وہ طبیعت سے ماوراء حقائق کو بہتر طور پر درک کرے گی اور چونکہ تمام انسان عقلی نشو و نما کے اعتبار سے مساوی نہیں ہیں لہٰذا غیر محسوس امور کے ادراک کے اعتبار سے بھی برابر نہیں ہیں۔

ایسے انسانوں کی کمی نہیں ہے کہ جن کی عمر کے دسیوں سال گزر جاتے ہیں، لیکن ان کی عقل و فہم سات، آٹھ سال کے بچوں کی سی ہوتی ہے او رایک عمر گزر جانے کے بعد بھی ممکن ہے کہ وہ خدا اور مجرد چیزوں کو زمان و مکان کی حدوں میں محدود تصور کریں، جبکہ دین کی بنیاد، غیب پر ایمان رکھنا ہے، یعنی مجرد اور غیر مادی حقائق پر ایمان رکھنا، جیسا کہ قرآن فرماتا ہے:

(ذٰلِکَ الکِتَابُ لارَیبَ فِیهِ هُدیً لِلمُتَّقِینَ الَّذِینَ یُؤمِنُونَ بِالغَیبِ)1

یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے یہ متقین کے لئے مجسم ہدایت ہے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس بنا پر ایمان کی بنیاد یہ ہے کہ انسان محسوسات سے مافوق حقائق پر ایمان لائے اور ان پر اعتقاد رکھے۔ لیکن ان حقائق کی کنہ و حقیقت کیا ہے؟ ایک ایسا مطلب ہے کہ جس کا سمجھنا الٰہی الہامات کے علاوہ ممکن نہیںہے جو کہ انبیاء اور ائمۂ معصومین (ع) کے دل پروارد ہوتے ہیں۔

(1) سورۂ بقرہ، آیت 2 ۔

۱۲۴

ہم عام انسان طبیعت سے ماوراء تھوڑے سے امور و حقائق کو درک کرنے کے لئے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رکھتے کہ اپنی عقلی قوتوں کو تقویت دیںاوردھیرے دھیرے محسوسات سے مجردات کی طرف اور مافوق طبیعت امور کی طرف آگے بڑھیں۔

دوسری طرف جوالفاظ مجردات کے متعلق استعمال ہوتے ہیں وہ اکثر ابتدا میں محسوس معانی کے لئے وضع کئے گئے ہیں:''یَدُ اللّٰهِ فَوقَ أَیدِیهِمْ'' 1 خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے۔ یا''وَ هُوَ العَلِیُّ العَظِیمُ'' 2 خدا بلند و بالا او رعظمت والا ہے۔ مذکورہ الفاظ، علی، عالی، علو سب بلند و بالا کے معنی میں ہیں جو کہ سافل اور نیچے کے مقابل ہیں۔

واضح ہے کہ انسان ابتدا میں ان الفاظ سے صرف حسی معنی سمجھتا ہے اور بس، مثلاً انسان اپنے سر کو اونچا اور اوپر ہونے کا معیار قرار دیتا ہے اور جو کچھ سر کے اوپر آسمان کی طرف پایا جاتا ہے اس کو ''اونچا'' سمجھتا ہے اور ''نیچے'' کے معنی کے لئے اپنے پاؤں کو معیار قرار دیتا ہے اور جو کچھ اس سے نیچے ہوتا ہے اسے نیچا سمجھتا ہے۔ اسی لئے کہتا ہے کہ آسمان اوپر اور زمین نیچے ہے۔ لیکن اجتماعی زندگی میں داخل ہونے کی صورت میں دھیرے دھیرے ان حسی معانی سے قدم آگے بڑھا کر ا ن کے انتزاعی اور غیر حسی معنی کو درک کرتا ہے، یعنی جس وقت کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص کا مرتبہ بلند ہے یا اور بلند ہوگیا ہے تو پھر انسان اس لفظ سے سر سے اوپر ہونے کے اس حسی معنی کو نہیں سمجھتا اور مرتبہ نیچے آنے

سے وہ حسی معنی اس کے ذہن میں نہیں آتے۔

(1) سورۂ شوریٰ، آیت 11 ۔

(2)سورۂ شوریٰ، آیت 4 ۔

۱۲۵

سامنے کی بات ہے کہ ایسے استعمالات میں جو معنی مقصود ہوتے ہیں وہ مادی اور محسوس لوازم سے منزہ ہوتے ہیں۔

جب یہ کہا جاتا ہے کہ: ''جو (خدا) تمام وجود کو ایک ارادہ سے پیدا کرتا ہے اس کا مرتبہ بہت بلند ہے'' جس علو اور بلندی کی نسبت پروردگار کی طرف دی جاتی ہے وہ اس علو اور بلندی سے بہت اونچی ہے کہ جس کا اطلاق ایک رئیس پر اس کے نوکروں کی بہ نسبت ہوتا ہے۔ اور ان دونوں کے درمیان کا فاصلہ، صفر اور لامتناہی اور حقیقت و مجاز کا ہے، اس لئے کہ ہر فرضی علواور مرتبہ، عاریتی اور فنا پذیر ہے، سوائے اس حقیقی علو اور بلندی کے جو کہ خداوند خالق کائنات کے شایان شان اور اسی سے مخصوص ہے۔ وہی ہے کہ''إنَّمَاأَمرُهُ اِذَا اَرَادَ شَیئاً اَن یَّقُولَ لَهُ کُن فَیَکُونُ'' 1 یعنی اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کے بارے میں یہ کہنے کا ارادہ کر لے کہ ہو جا تو وہ شے فوراً ہو جاتی ہے۔

اس بنا پر جس وقت قرآن کہتا ہے:''هُوَ الْعَلُِّ العَظِیمُ'' 2 خداوند متعال کا علو نہ تو مادی اور محسوس علو ہے، نہ اس کے عظیم و بزرگ ہونے سے مادی اور محسوس معنی مراد ہے۔ لیکن یہ کہ خدا کے علو اور اس کی عظمت کی حقیقت کیا ہے؟ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ انسان کی عقل جس تک نہیں پہنچ سکتی۔ البتہ بہت سے مقامات پر کوئی دوسری لفظ بھی ان الفاظ کے علاوہ جو کہ محسوس معانی کے لئے استعمال ہوتے ہیں، نہیں ہے اور مجبوراً یہی

(1) سورۂ یٰس ، آیت 82 ۔

(2) سورۂ بقرہ، آیت 255 ۔

۱۲۶

الفاظ مجرد معانی کی طرف اشارہ کے لئے استعمال ہوتے ہیں، مثلاً ارشاد ہوتا ہے: ''خدا بلند اور بزرگ ہے'' بلند وہی لفظ ہے جو چھت کی بلندی کے لئے سطح زمین کی بہ نسبت استعمال کی جاتی ہے اور بزرگ بھی وہی لفظ ہے جو ہمالیہ پہاڑ کے متعلق استعمال کی جاتی ہے، لیکن جس وقت یہ الفاظ خدا کے لئے استعمال ہوتے ہیں تو وہ اپنے محسوس معانی سے الگ ہو جاتے ہیں، البتہ پھر بھی ایسا نہیں ہے کہ الگ ہونے کے ساتھ بھی اس کی حقیقت تک پہنچا جاسکے۔

کہا جاتا ہے کہ وہ الفاظ و معانی کہ جن کی حقیقت کو مذکورہ طریقہ سے پہچانا جاتا ہے وہ ایک قسم کے تشابہ کے حامل ہیں کہ ابہام او رمغالطہ کا باعث ہوسکتے ہیں۔ جو شخص ابھی مذکورہ معانی کو حسی شوائب و لوازم سے مجرد اور منزہ نہیں کرسکا ہے جب اس کے سامنے کہا جاتاہے خدا بلند اور اُوپر ہے تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ خدا آسمانوں کے اوپر ہے جبکہ خدا جسم نہیںہے کہ اس کے لئے مکان کا تصور کیا جائے:''أَینَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجهُ اللّٰهِ'' 1 (تم جس جگہ بھی رخ کرو گے سمجھو وہیں خدا موجود ہے)، لیکن وہ اس سے زیادہ نہیں سمجھتا، البتہ جتنا سمجھتا ہے اتنی ہی اس کی ذمہ داری ہے چونکہ اس سے زیادہ قدرت نہیں رکھتا۔

جو شخص اس مرحلہ سے آگے ہوتا ہے اور کچھ زیادہ قدرت فہم کا حامل ہوتا ہے نیز اعتباری معانی کو بھی درک کرتا ہے، جب اس کے سامنے کہا جاتا ہے:''إنّ اللّٰهَ عَلِیّ عَظِیم'' (بے شک اللہ بلند او رصاحب عظمت ہے) تو وہ فکر کرتا ہے کہ خدا بھی ایسا ہی

(1) سورۂ بقرہ، آیت 115 ۔

۱۲۷

بلند ہے جیسے نوکروں کی بہ نسبت ان کا مالک، لیکن یہ معنی کہاں اور خدا کی بلندی کہاں؟

جو شخص اپنی عمر علم و دانش اور حکمت کی تحصیل اور مجرد معانی کودرک کرنے میں گزارتا ہے وہ مذکورہ معانی سے بہت بلند اور بہتر علو اور بلندی کا معنی درک کرتا ہے اور کہتا ہے کہ خدا اپنے ماسوا تمام عالمین کی نسبت وجودی علو اور بلندی رکھتا ہے۔

تمام مخلوقات وجود رکھتی ہیں او رخدا بھی وجود رکھتا ہے، لیکن خداوند تبارک و تعالی کا وجود، وجودی مرتبہ کی بلندی کے اعتبار سے دوسری موجودات کے ساتھ قابل مقائسہ نہیں ہے، لیکن پھر یہ کہ اس وجودی مرتبہ کے علو اور بلندی کی حقیقت کیا ہے؟ یہ ایسی بات ہے کہ ہر شخص اپنی فہم اور سمجھ کے مطابق اس سے نزدیک ہوسکتا ہے، اگر چہ اس کی کنہ و حقیقت کا درک ہر شخص کے لئے ممکن نہیں ہے۔ اب ہم مذکورہ توضیح کے پیش نظر کہتے ہیں کہ جس وقت خدا ہم انسانوں کے لئے ان امور کے متعلق جو کہ ہماری عام اور عادی فہم سے بالاتر ہیں بیان کرنا چاہے تواسے ایسے الفاظ استعمال کرنا چاہئے کہ جن میں غور و فکر کر کے ہر انسان اپنی فہم کے مطابق ان کو درک کرے، اگر چہ ان معانی کی حقیقت کا ادراک ہماری فہم سے بالاتر ہے۔ ایسے مقامات پر الفاظ ''متشابہ'' کے استعمال کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔

اس بنا پر جو آیات طبیعت سے مافوق اور عام انسانوں کی سمجھ سے بالا تر امور کو بیان کرتی ہیں لامحالہ اس میں تشابہ کا ایک پہلو رہے گا۔ ان کی حقیقت تک محکمات کی مدد سے پہنچنا چاہئے۔ مثلاً جس وقت قرآن کہتا ہے :''هُوَ الْعَلُِّ العَظِیمُ'' 1 اور ہم خدا

(1) سورۂ شوریٰ، آیت 4 ۔

۱۲۸

کے وجودی مرتبہ کی بلندی اور عظمت کی کنہ و حقیقت کو نہیں سمجھتے تو اس کو محکمات قرآن جیسے''لَیسَ کَمِثلِهِ شَٔ'' 1 کے وسیلے سے تفسیر کرنا چاہئے تاکہ غلط فہمی اور غلط تفسیر سے دو چار نہ ہوں۔

پہلی آیت کہتی ہے کہ خدا بلند اور عظمت والا ہے اور دوسری آیت کہتی ہے کہ خدا کے مثل اور مانند کوئی چیز نہیں ہے، یعنی جس طرح کی بھی مرتبہ کی بلندی اور عظمت خدا کے لئے تصور کرو گے خدا کی بلندی اور عظمت کودرک نہ کر پاؤ گے، اس لئے کہ خدا اس سے بالاتر ہے۔

صفات خدا کے متعلق ایسا ہی ہے جب کہا جاتا ہے خدا عالم ہے، خدا قدرت رکھتا ہے، واضح ہے کہ علم کی حقیقت خدا کے متعلق اس معنی کے علاوہ اور اس سے بالاتر ہے جو انسان کے متعلق ذہن میں ذہنی صورتوں کے ادراک سے حاصل ہوتی ہے، لیکن خدا کے علم اور اس کی قدرت کی حقیقت کیا ہے؟ اور کلی طور سے خدا کے اوصاف کی حقیقت کیا ہے؟ ایسا مطلب ہے جو خدا کے علاوہ کہ جس کی ذات عین علم و عین حیات و قدرت ہے، کسی اور کے لئے قابل فہم نہیں ہے۔

خداوند متعال نے بھی اپنی طرف اور اپنے الٰہی اوصاف کی طرف انسان کی راہنمائی کے لئے و ہی الفاظ استعمال کئے ہیں کہ انسان پہلے جن سے محسوس معانی کو درک کرتا ہے تاکہ انسان ان بلند معارف سے بالکل بے بہرہ نہ رہے۔

(1) سورۂ شوریٰ، آیت 7 ۔

۱۲۹

اس بنا پر قرآن کریم میں آیات متشابہ کا وجود الٰہی حکمتوں میں سے ہے کہ جن کے بغیر انسان کا راستہ مجرد اور غیر محسوس معانی و معارف کے ادراک کے لئے بند ہو جاتا ہے، لیکن متشابہات سے استفادہ اور ان کی تفسیر و توضیح جیسا کہ اس کے پہلے اشارہ کیا گیا ایک ایسا مطلب ہے جو محکمات کی مدد سے واقع ہونا چاہئے، مگر ایسا نہیں ہے کہ وہ تمام افراد جو قرآن اور اس کے معارف کو سمجھنا چاہتے ہیں مذکورہ طبیعی، منطقی اور عقلائی طریقہ الٰہی معارف کو سمجھنے کے لئے انتخاب کریں۔

زیر بحث آیۂ کریمہ میں خداوند تعالیٰ قرآن میں متشابہ اور محکم آیات کے وجود کی طرف اشارہ کرتا ہے اور فرماتا ہے: وہ لوگ کہ''فِی قُلُوبِهِم زَیغ'' 1 جن کے دلوں میں کجی ہے، روحی اعتبار سے پستی اور تیرگی کے حامل ہیں اور کج فکری و کج اندیشی میں مبتلا ہیں اور دوسری لفظوں میں''فِی قُلُوبِهِم مَرَض'' 2 ان کا قلب اور ان کی روح بیمار ہے، ایسے لوگ آیات متشابہ کو اپنی فکر و عمل کا معیار قرار دیتے ہیں اور قرآن کی محکم آیات کی طرف توجہ کئے بغیر متشابہات کو محسوس معانی پر حمل کرتے ہیںاور اپنی اور دوسروں کی گمراہی کے لئے زمین ہموار کرتے ہیں ۔

(1)سورۂ آل عمران، آیت 7 ۔

(2) سورۂ بقرہ ، آیت 10 ۔

۱۳۰

حق و باطل کو مخلوط کرنا، گمراہوں کا دوسرا اسلحہ

واضح بات ہے کہ جو لوگ اسلامی معاشرہ میں دین، قرآن اور دینی اقدار و

معارف کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں، وہ اپنے مقاصد تک پہنچنے کے لئے کبھی براہ راست مقابلہ نہیں کرتے، کیونکہ بخوبی جانتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا اور پہلے ہی قدم پر شکست کھا جائیں گے۔ وہ لوگ نفسیاتی نکات سے استفادہ کر کے مناسب طریقے اور ہتھکنڈے اپنے شیطانی مقاصد حاصل کرنے کے لئے انتخاب کرتے ہیں۔

ان کے ان ہی ہتھکنڈوں میں سے ایک ہتھکنڈا حق و باطل کو مخلوط کرنا ہے۔ وہ لوگ حق و باطل کو آپس میں ملا دیتے ہیں اور حق و باطل کے ایک مجموعہ کی تبلیغ خوبصورت انداز میں کرتے ہیں تاکہ ان کے مخاطب افراد جو کہ اتفاقاً ضروری علم و آگاہی، باطل سے حق بات کی تشخیص کے متعلق نہیں رکھتے ان کی تمام بات کو قبول کرلیں اور نتیجہ میں وہ باطل مطلب جو کہ حق کی آرائش سے آراستہ کیا گیا ہے اور خوبصورت ادبی بیان کی نقاب کے پیچھے مخفی ہے، لاشعوری طور پر سننے والے کے ذہن و فکر میں جاگزیں ہو جائے۔

امیر المومنین حضرت علی ـ ارشاد فرماتے ہیں:

''فَلَو إنّ البَاطِلَ خَلَصَ مِن مِزَاجِ الحَقِّ لَم یَخْفَ عَلٰی الْمُرتَادِینَ وَ لَو إنّ الْحَقَّ خَلَصَ مِن لَبْسِ الْبَاطِلِ انْقَطَعَتْ عَنْهُ أََلسُنُ المُعَانِدِینَ وَ لَکِن یُؤخَذُ مِن هٰذا ضِغث وَ مِن هٰذَا ضِغث فَیُمْزَجَانِ فَهُنَالِکَ یَسْتَولِی الشَّیطَانُ عَلٰی أَولِیَائِهِ وَ یَنْجُوْ الَّذِینَ سَبَقَتْ لَهُم مِنَ اللّٰهِ الْحُسْنیٰ''1

(1)نہج البلاغہ، خطبہ 50 ۔

۱۳۱

یعنی ''اگر باطل حق کی آمیزش سے الگ رہتا تو حق کے طلبگاروں پر مخفی نہ ہوسکتا اور اگر حق باطل کی ملاوٹ سے الگ رہتا تودشمنوں کی زبانیں نہ کھل سکتیں، لیکن ایک حصہ اس میں سے لے لیا جاتا ہے اور ایک اس میں سے، اور پھر دونوں کو ملادیا جاتا ہے پس ایسے ہی مواقع پر شیطان اپنے ساتھیوں پر مسلط ہو جاتا ہے اور صرف وہ لوگ نجات حاصل کر پاتے ہیں جن کے لئے پروردگار کی طرف سے نیکی پہلے ہی پہنچ جاتی ہے''۔

واضح بات ہے کہ گمراہ کن افراد اور جن کے قلب و روح میں قرآن کے بقول کجی اور تاریکی ہے اور خدا کے سامنے سراپا تسلیم نہیں ہیں وہ لوگ متشابہ آیات اور ان روایات کو جو کہ سند کے اعتبار سے مخدوش یا دلالت کے اعتبار سے متشابہ ہیں، اسلام کے خلاف اپنی تبلیغ اور فعالیت میں سرفہرست قرار دیتے ہیں اور قرآن کے محکمات، حق بات اور ان الٰہی معارف کے سننے سے بھاگتے ہیں جو کہ اہلبیت اورائمۂ معصومین (ع) کی زبان سے معتبر اسناد کے ساتھ وارد ہوئے ہیں۔

یہ لوگ جو کہ اپنے کو مسلمان سمجھتے ہیں، شعوری یا لاشعوری طور پر دشمنان اسلام کے ساتھ ہم آواز ہو جاتے ہیں، اس لئے کہ وہ لوگ بھی یہی چاہتے ہیں کہ جھوٹی باتوں کی اسلام کی طرف نسبت دیں اور ان کو بڑھا چڑھا کر ان حق طلب انسانوں کی رغبت کو کم کردیں جو اب تک مسلمان نہیں ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں مخاطب، ملحدین اور غیر مسلمان دشمن نہیں ہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جو اپنے کو مسلمان سمجھتے ہیں۔

البتہ ممکن ہے وہ لوگ حق بات کو نہ سننے، اور عقل و منطق کے سامنے سراپا تسلیم ہونے سے روکنے کے لئے توجیہیں کریں، جیسا کہ'' دین کی مختلف قرائتوں'' کی بحث میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اور اپنی باتوں کے نتائج پر توجہ کئے بغیر اپنے نظریہ پر اڑے رہیں۔ ہم بھی اس حصہ میں فیصلہ مذکورہ نظریہ کی توجیہات اور اس کے انجام کے متعلق محترم قارئین کے ذمہ چھوڑتے ہیں، لیکن دلسوزی اور خیر خواہی کی بنا پرہم ان کو عقائد، افکار اور ایمان پر نظر ثانی اور ان کی اصلاح کی دعوت دیتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن بھی مومنین سے چاہتا ہے کہ ایک دوسرے کو تفکر، تعقل، اصلاح اور ہدایت کی دعوت دیں اور ایک دوسرے کو حق یاد دلاتے رہیں۔

۱۳۲

مختلف قرائتیں، قرآن سے مقابلہ کا ایک حربہ

کتاب کے پہلے حصوں میں کچھ باتیں مختصر طور سے بندوں پر سب سے بڑی الٰہی نعمت یعنی قرآن کریم کی عظمت اور خصوصیات کے متعلق بیان کی گئیں۔ یہ بھی بیان کیا جاچکا ہے کہ خداوند متعال نے قرآن کریم کو سب سے عظیم فرشتے حضرت جبرئیل امین کے ذریعہ اپنے بندوں میں سب سے زیادہ عزیز بندے حضرت محمد مصطفی پر نازل فرمایا تاکہ اسے انسان کے اختیار میں قرار دے اور انسان فردی و اجتماعی زندگی میں اس آسمانی کتاب کی تعلیمات، ہدایات اور احکام سے آشنا ہو کر اور ان پر عمل کر کے اپنی دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرے۔

نہج البلاغہ میں مذکور حضرت علی ـ کے بعض بیانات ذکر کئے گئے کہ قرآن سے تمسک، فتنوں اور گمراہیوں کو رفع کرنے کے لئے اور فردی و اجتماعی مشکلات اور بیماریوں کے علاج کے لئے لازم ہے۔ یہ بھی ذکر کیا گیا کہ قرآن کی تفسیر و توضیح کی صلاحیت دینی وظائف و مسائل کے جزئیات کی تفصیل اور احکام کی توضیح کے معنی میں، صرف پیغمبر اور ائمۂ معصومین (ع) کو حاصل ہے۔ اس بات کی بھی وضاحت کی گئی کہ قرآن کی تفسیر کی صلاحیت، دینی احکام و وظائف کے دائرہ کے علاوہ نیز اس کے معارف کے بیان کی صلاحیت، صرف دینی علماء و ماہرین اور قرآن و اہلبیت کے علوم سے آشنا افراد کو حاصل ہے، ہم نے ذکر کیا کہ صرف وہ علماء جنھوں نے اپنی عمر معارف دین اور علوم اہلبیت کے سمجھنے میں گزاری ہے وہی قرآن کے متشابہات اور محکمات کو پہچان سکتے ہیں، اور محکمات اور روایات اہلبیت (ع) کی مدد سے قرآن کے متشابہات کی بھی تفسیر کرسکتے ہیں اور قرآن کے معارف کو لوگوں سے بیان کرسکتے ہیں تاکہ لوگ اسے اپنی فکری حرکت کی بنیاد اور عملی نیز فردی و اجتماعی تکامل کا نمونہ قرار دیں اور خدا کی اس دعوت:(یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اسْتَجِیبُوا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُولِ اِذَا دَعَاکُم لِمَایُحیِیکُم) 1 پر لبیک کہیں اور اپنی کامیابی کا میدان ہموار کریں۔

اس کے مقابل ہم نے اشارہ کیا کہ جو لوگ زمانۂ دراز سے شیطانی وسوسوں کے ذریعہ لوگوں کو قرآن سے جدا کرنا چاہتے ہیں، وہ لوگ اپنے شیطانی مقاصد تک پہنچنے کے لئے کوشش کرتے ہیں کہ اپنی خیال آرائی سے اس طرح ظاہر کریں کہ قرآن قابل فہم نہیں ہے اور نتیجہ میں اس بات کی امید نہ رکھنی چاہئے کہ قرآن ہماری زندگی میں ہدایت و رہنمائی کرے گا۔

(1)سورۂ انفال، آیت 24۔ ترجمۂ آیت: اے ایمان لانے والو! چونکہ خدا اور رسول نے اس چیز کی طرف دعوت دی ہے جو تمھیں زندگی بخشتی ہے، ان کی دعوت پر لبیک کہو اور اسے قبول کرو۔

۱۳۳

ہم نے ذکر کیا کہ یہ شیطانی شبہہ جو پوری تاریخ میں مختلف شکلوں کے ساتھ پایا جاتا رہا ہے، آج اپنی تکامل یافتہ شکل میں اپنے نقطۂ عروج پر پہنچا ہوا ہے اور نت نئی صورتوں میں پیش کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ آج بھی قرآن اور دینی مکتب فکر کے مخالفین اپنے نظریات و افکار کو اس تھیوری کی شکل میں کہ ''دین کی زبان ایک مخصوص زبان ہے'' بیان کرتے ہیں تاکہ جو لوگ دینی علوم و معارف سے کافی آگاہی نہیں رکھتے ان کو فریب دیں۔

جب ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ اس قول سے کہ ''دین کی زبان، مخصوص زبان ہے'' ان کا مقصود کیا ہے؟ تو وہ لوگ جواب میں ''دین کی زبان کے، خاص ہونے'' کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ دینی تعلیمات اور قرآن ایسے الفاظ اور قالب ہیں کہ جن کے مطالب کو خود انسانوں کی فکریں اور ذہنیتیں تشکیل دیتی ہیں۔ البتہ یہ افراد عام طور سے ادبی عبارتوں کے انتخاب، اور جذبات انگیز اشعار پڑھنے کے ساتھ اپنے نظریہ کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ آپ حضرات آسانی سے ان کے مقصد کو بھانپ نہیں سکتے، کیونکہ اس صورت میں ان کی بات کے بے بنیاد ہونے کو سمجھ جائیں گے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ مذکورہ نظریہ جو کہ کبھی ''صراط ہائے مستقیم'' (بہت سے سیدھے راستے) کے نام سے اور کبھی ''دین کی مختلف قرائتوں، فکروں یا تفسیروں'' کی تعبیر کے ساتھ اور کبھی ''دین کی زبان'' یا ''اقلیتی اور اکثریتی دین'' کی تھیوریوں کی شکل میں بیان کیا جاتا ہے، دینی اعتقادات اور توحیدی مکتب فکر سے مقابلہ کے علاوہ کوئی مقصد نہیں رکھتا۔

واقف کار لوگوں پر پوشیدہ نہیں ہے کہ دیندار افراد خصوصاً ذہین و زیرک مسلمان صاحبان علم و دانش اس سے زیادہ ہوشیار ہیں کہ ان کی باتوں کے عقل و منطق سے دور ہونے کو بھانپ نہ لیں یا ان بے بنیاد شبہوں کے پیش کرنے والوں کے مخفی مقاصد سے غافل رہیں۔

۱۳۴

دینی ثقافت کے مخالفین کا مقصد قرآن کی روشنی میں

مذکورہ مطالب کے پیش نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن اور دینی ثقافت کے مقابلہ میں ان شیطنتوں سے مخالفین کا مقصد کیا ہے؟ اس کے جواب کے لئے پہلے ہم قرآن کے نظریہ کی تحقیق پیش کرتے ہیںپھر اس کے متعلق نہج البلاغہ میں حضرت علی ـ کے بیان کی توضیح پیش کریں گے۔

قرآن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نزول قرآن کے آغاز ہی سے شیطان اس بات پر تل گیا اور اس نے اپنی تمام کوششیں صرف کردیں کہ دنیا پرست انسانوں اور انسان نما شیطانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھائے اور لوگوں کو قرآن سے جدا کردے۔

شیطان سے اس کے علاوہ کوئی امید بھی نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس نے قسم کھائی تھی کہ:

(قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَأُغوِیَنَّهُم أَجمَعِینَ اِلاَّ عِبَادَکَ مِنهُمُ المُخْلَصِینَ) 1 ''تو پھر تیری عزت کی قسم میں سب کو گمراہ کروں گا، علاوہ تیرے ان بندوں کے جنھیں تونے خالص بنا لیا ہے''۔ شیطان نے لوگوں کو گمراہ کرنے اور ان کو معارف قرآن سے محروم کرنے کے لئے اپنے بنائے ہوئے منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر، قرآن کریم کی

(1) سورۂ ص، آیت 82 ، 83 ۔

۱۳۵

آیات متشابہ کو اپنا حربہ قرار دیا ہے۔ اپنے دوستوں اور دنیا پرستوں کو محکمات کی طرف متوجہ کئے بغیر، متشابہات قرآن کی پیروی کی تشویق و ترغیب کرتا ہے تاکہ ان کے ذریعہ دوسرے لوگوں کو بھی شک و تردد اور گمراہی کی طرف کھینچ لائے۔

خداوند متعال محکمات و متشابہات سے آیات قرآن کی تقسیم کے بعد فرماتا ہے:(فَأَََمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِم زَیغ فَیَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنهُ ابْتِغَائَ الفِتْنَةِ وَ ابْتِغَائَ تَاوِیلِهِ) 1 جن لوگوں کا وجود سر سے پاؤں تک انحراف، گمراہی، پلیدی اور خود پرستی ہے، جن کے دل بیمار ہیں اور شیطانی وسوسوں سے متاثر ہیں وہ قرآن کے محکمات اور دین کے بدیہی اور واضح و روشن عقائد کو چھوڑ دیتے ہیں اور آیات متشابہ کے ظاہر سے سہارا لیکر کوشش کرتے ہیں کہ معارف قرآن میں تحریف اور غلط تفسیر کر کے لوگوں کو گمراہ کریں۔ ایسے انسان شیطان کے پالے ہوئے چیلے ہیںکہ اس کا مقصد پورا کرنے میں اس کی مدد کرتے ہیں۔

قرآن ایسے لوگوں کو مختلف عنوانوں جیسے''فِی قُلُوبِهِم زَیغ'' یا''فِی قُلُوبِهِم مَرَض'' سے یاد کرتا ہے اور لوگوں کو ان کی پیروی کرنے سے ڈراتا ہے۔

جس بات کی تحقیق یہاں پر کی جارہی ہے، وہ قرآن کی روشنی میں دینی ثقافت اور مکتب فکر کی مخالفت کرنے والوں کے مقصد کو واضح کرنا ہے ۔

قرآن کریم فرماتا ہے کہ بہت سے لوگ''اِبتِغَائَ الفِتنَةِ'' (فتنہ جوئی) کے مقصد کے تحت، قرآن کے متشابہات کو اپنی فکر و عمل کا معیار قرار دیتے ہیں اور متشابہات کو

(1) سورۂ آل عمران ، آیت 7 ۔

۱۳۶

ہتھکنڈا بنا کر ظاہر قرآن کو چھوڑ کر آیات کی من مانی تاویل اور غلط تفسیر کر کے فتنے پھیلاتے ہیں۔

یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ فتنہ کیا ہے؟ اور فتنہ پرور کون ہے؟ علم لغت کے ماہرین خصوصاً جو لوگ کوشش کرتے ہیں کہ لغت کو اپنے اصلی اور حقیقی معنی پر واپس لے جائیں اور لغت کے اصلی معنی کے پیش نظر الفاظ کے معنی کریں، انھوں نے کہا ہے کہ: ''فتنہ'' در اصل کسی چیز کو آگ کے اوپر گرم کرنے کے معنی میں ہے۔

جس وقت کسی شی کو گرم کرنے یا جلانے یا پگھلانے کے لئے آگ کے اوپر رکھتے ہیں تو عرب اس معنی کو ''فَتَنَہُ'' سے تعبیر کرتے ہیں یعنی اس نے اس چیز کو گرم کیا۔

قرآن میں بھی مادۂ ''فتنہ'' اسی لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے، جیسا کہ فرماتا ہے:''یَومَ هُم عَلٰی النَّارِ یُفتَنُونَ'' 1 یعنی جس دن انھیں جہنم کی آگ پر تپایا جائے گا۔

اس بنا پر ''فتنہ'' کے اصل لغوی معنی جلانے اور پگھلانے کے ہیں، لیکن جیسا کہ اہل لغت کہتے ہیں کبھی کبھی ایک لغوی معنی کے لوازم کے پیش نظر، وہ معنی اس کے لوازم یا ملزومات میں بھی سرایت کر جاتا ہے اور لازمۂ معنی کے غلبہ نیز لازمۂ معنی میں اس لغت کے استعمال کے سبب دھیرے دھیرے وہ لازم لغت کے لئے دوسرے اور تیسرے معنی کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔

(1) سورۂ ذاریات، آیت 13 ۔

۱۳۷

لفظ ''فتنہ'' کی بھی یہی صورت ہے، جیسا کہ کہا گیا ''فتنہ'' در اصل گرم ہونے کے معنی میں ہے، لیکن ''گرم ہونے'' کا بھی ایک لازمہ ہے وہ یہ کہ اگر یہ گرم ہونا اور آگ میں قرار پانا انسان کے متعلق واقع ہو (جیسے آیۂ''یَومَ هُم عَلی النَّارِ یُفتَنُونَ'' 1 ) تو انسان اضطراب کی حالت پیدا کرتا ہے۔ اضطراب بھی کبھی ظاہری اور بدنی ہوتا ہے جیسے یہ کہ جسم کے جلنے اور گرم ہونے سے متعلق ہو اور کبھی باطنی اور روحی امور سے پیدا ہوتا ہے۔ لہذا اضطراب حقیقت میں ''فتنہ'' اور گرم ہونے کے معنی میں ہے، پھر لفظ کے معنی میں توسیع کے پیش نظر ان چیزوں پر بھی ''فتنہ'' کا اطلاق کیا جاتا ہے جو معنوی اور باطنی اضطراب کا باعث ہوتی ہیں۔ چونکہ روحی اور باطنی اضطراب کی ایک قسم، وہ اضطراب و تشویش ہے جو کہ اعتقادات کے سلسلہ میں پیش آتی ہے، لہذا وہ چیز جو ایسے اضطرابوں کا باعث ہوتی ہے اسے بھی ''فتنہ'' کہا گیا ہے۔

جس وقت ''دین میں فتنہ'' کہا جاتا ہے، وہ اس لحاظ سے کہا جاتا ہے کہ بہت سے لوگ کوشش کرتے ہیں کہ وہمی اور باطل خیالات اور وسوسوں سے دیندار افراد کو ان کے ایمان و اعتقادات میں اضطراب و تزلزل سے دوچار کردیں اور انھیں دین حق اور دینی اعتقادات سے پھیر دیں۔

امتحان کو بھی ''فتنہ'' کہا گیا ہے، اس لئے کہ وہ بھی اضطراب اور تشویش کا باعث ہوتا ہے۔ چونکہ انسان امتحان کے وقت نتیجہ کے لئے مضطرب اور پریشان ہوتا ہے، وہ

(1) سورۂ ذاریات، آیت 13 ۔

۱۳۸

روحی آرام اور قلبی سکون نہیں رکھتا۔ لفظ ''فتنہ'' قرآن میں بھی کئی آیتوں میں امتحان سے پیدا شدہ اسی اضطراب کے معنی میں آیا ہے۔

قرآن فرماتا ہے:(إنّمَا أَموَالُکُم وَ أَولادُکُم فِتنَة) 1 تمھارے اموال اور اولاد تمھارے امتحان اور آزمائش کا وسیلہ ہیں۔ یا فرماتا ہے:(وَ نَبلُوکُم بِالشَّرِّ وَ الخَیرِ فِتنَةً) 2 ہم تمھیں خیر و شر اور نعمت و نقمت سے آزماتے ہیں۔ نیز کبھی خود عذاب اور تکلیف پر ''فتنہ'' کا اطلاق ہوا ہے۔

واضح ہے کہ زیر بحث آیۂ کریمہ(هُوَ الَّذِی أَنزَلَ عَلَیکَ الکِتَابَ مِنهُ آیَات مُحکَمَات هُنَّ أُمُّ الکِتَابِ وَ أُخَرُ مُتَشَابِهَات فَأََمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِم زَیغ فَیَتَّبِعُونَ مَاتَشَابَهَ مِنهُ ابْتِغَائَ الْفِتنَةِ ...) میں فتنہ سے مراد ''دین میں فتنہ'' پیدا کرنا ہے، اس لئے کہ متشابہات کی پیروی، امتحان و آزمائش سے کوئی تناسب نہیں رکھتی اور جو لوگ متشابہات کی پیروی کرتے ہیں وہ دوسروں کو شکنجہ اور عذاب دینے کی کوشش نہیں کرتے نیز گرم کرنے اور جلانے کے معنی میں بھی نہیں ہے، بلکہ ان کی فتنہ پروری اس سبب سے ہے کہ وہ اس بات کے درپے ہوتے ہیں کہ آیات متشابہ کو ہتھکنڈا بنا کر لوگوں کے دینی عقائد و افکار میں اضطراب و تزلزل پیدا کریں اور انھیں گمراہ کریں۔

(1)سورۂ انفال، آیت 28 ۔

(2)سورۂ انبیائ، آیت 35 ۔

۱۳۹

''دین میں فتنہ'' کے مقابلہ میں قرآن کا موقف

''دین میں فتنہ'' اس معنی میں کہ جس کی توضیح دی گئی، پوشیدہ مقابلہ اور فریب و حیلہ کی قسم سے سمجھا جاتا ہے۔ یہ کام ظاہری ایمان کے لباس میں اصل دین کو ختم کرنے کے مقصد سے کیا جاتا ہے۔ ایسے فتنہ گر افراد نفاق کا چہرہ اختیار کر کے اپنی شیطانی فکروں کواس طرح پوشیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے مخالف دین مقاصد کی تشخیص عام لوگوں کے لئے کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اسی وجہ سے قرآن نے اسے سب سے بڑا گناہ شمار کیا ہے اور لوگوں کو دنیا و آخرت کے اس سب سے بڑے خطرے کی طرف توجہ دلاکر ان سے مطالبہ کیا ہے کہ اس کے مقابلہ کے لئے اٹھ کھڑے ہوںاور اپنے مادی و معنوی وجود کا دفاع کریں۔

دشمن، اسلام او رمسلمین سے مقابلہ کے لئے عام طور سے دو اہم حربے استعمال کرتا ہے۔ یہاں پر ہم قرآن اوردینی ثقافت کے دشمنوں کے حربوں اور ہتھکنڈوں کی توضیح کے ضمن میں، دشمنوں کی سازشوں کے مقابلہ میں قرآن کے موقف سے واقف ہوں گے۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809