نسیم غدیر

نسیم غدیر مؤلف:
زمرہ جات: امامت

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 56 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 6179 / ڈاؤنلوڈ: 3326
سائز سائز سائز
نسیم غدیر

نسیم غدیر

مؤلف:
اردو

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی جَعَلَنَا مِنَ الْمُتَمَسِّکِینَ بِوِلاَیَهِ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ وَ الْأَئِمَّهِ عَلَیْهِمُ السَّلاَمُ

https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۲۶۱

چھٹی حدیث

( ۶) عن علی بن ابی طالب ( علیه السلام) قال:قال لی رسول اللّه (صلّی اللّه علیه وآله وسلّم)یوم فتحتُ خَیبرَیاعلیّ لولاان تقول فیک طوائف من اُمّتی ما قالت النّصاریٰ فی عیسیٰ بن مریم لقلتُ فیک الیوم مقٰالاً لاٰ تمرُّ بملاءٍ من المسلمین الاّ و أخذُوا تُراب نَعلَیک و فضلَ طهورک یستشفون به ولٰکن حسبُک اَن تکون منّی واَنا منک ترثنی واَرثک وانت منّی بمنزلة هٰارون من موسیٰ الاّ اَنّه لانبیّ بعدی واَنت تُؤَدّی دینی وتقٰاتل علیٰ سنّتی واَنت فی الاخرة اقرب النّاس منّی وانّک غداً علی الحوض خلیفتی تذوذ عنه المنافقین

وانّک اوّل مَن یردُ علیَّ الحوض وانّک اوّل داخلٍ یدخلُ الجنّة من امّتی وانّ شیعتک علیٰ منٰابر من نور رواء مرویّین مبیضّة وجوههم حولی اشفعُ لهم فیکونون غداً فی الجنّة جیرانی وانّ عدوّک غداًظماءً مظمَئین مسودّةً وجوههم مقمحین

یا علیّ حربک حربی و سلمک سلمی وعلانیتک علانیتی وسریرة صدرک کسریرة صدری وانت باب علمی وانّ ولدک ولدی ولحمک لحمی ودمُک دمی وانّ الحقّ معک والحقّ علیٰ لسانک مانطقت فهو الحقّ وفی قلبک وبین عینیک والایمان مخٰالط لحمک ودمک کمٰا خٰالط لحمی و دمی

وانّ اللّه عزّوجلّ امرنی ان اُبشّرک :اَنت و عترتک ومحبیک فی الجنّة وانّ عدوّک فی النّار یا علیّ لاٰ یردُ الحوض مبغض لک ولاٰ یغیب عنه محبّ لک قال: قال علیّ (علیه السلام)فخررت ساجداًللّه سبحانه وتعٰالیٰ و حمدته علیٰ ما انعم به علیّ من الاسلام والقران وحبّبنی الی خاتم النبیّین وسیّد المرسلین( صلّی اللّه علیه وآله وسلّم)

ترجمہ:

حضرت علی ( علیہ السلام ) فرماتے ہیں کہ جب میں نے خیبر فتح کیا تو اس دن رسول خدا (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ) نے فرمایا اے علی( علیہ السلام ) اگرمجھے اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ تیرے بارے میں امت میں سے بعض وہی کہیں گے جو نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ بن مریم کے بارے میں کہا تھا توآج میں آپ کے بارے میں کہتااور تو مسلمانوں کے کسی گروہ کے پاس سے نہ گزرتا مگر یہ کہ تیرے قدمو ں کی خاک اور تیرے وضو کے بچے ہوئے پانی کو اٹھا تے اوراسے اپنے لئے شفا سمجھتے لیکن تیرے لئے یہی کافی ہے کہ تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں تو مجھ سے ارث لے گا اور میں تجھ سے ارث لونگا اور تجھے مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئیگا تو میرے دین و قرض کو ادا کریگا ۔ اور میری سنت پر جہاد کریگا اور آخرت میں تو سب سے زیاد ہ نزدیک تر ہوگا مجھ سے اور حوض کو ثر پر میرا جانشین ہو گا اور منافقوں کو حوض کوثر سے دور کرے گا اور تو سب سے پہلے حوض کوثر پر میرے پاس آئے گا ۔

اور تو سب سے پہلے حوض کوثر پر میرے پاس آئے گا تو سب سے پہلے میری امت میں بہشت میں داخل ہو گا اور تیرے شیعہ قیامت کے دن نورکے ممبروں پر سیراب ا ورحشاش وبشاش نورانی چہرے کے ساتھ میرے گرد ہونگے میں ان کی شفاعت کرونگا اور جنت میں میرے پڑوسی ہونگے ۔ اور تیرے دشمن قیامت کے دن بھوکے وپیاسے اور تھکے ہوئے سیاہ چہرے کے ساتھ سر جھکائے ہوئے اور گردن میں طوق و زنجیر پہنے ہوئے ہونگے ۔ اے علی (علیہ السلام ) تیرے ساتھ جنگ کر نا میرے ساتھ جنگ کرنا ہے تیرے ساتھ صلح کرنا میرے ساتھ صلح کرنا ہے تیرا ظاہر میرا ظاہر ہے تیرا باطن میرا باطن ہے تو میرے علم کا باب ہے تیرے بیٹے میرے بیٹے ہیں تیرا گوشت میرا گوشت ہے تیرا خون میرا خون ہے حق تیرے ساتھ ہے اور جو بھی تو کہے گا حق ہوگا تیرے د ل میں حق ہے تیری دونوں آنکھوں کے درمیان میں حق ہے اور تیرے گوشت میں ایمان مخلوط ہو چکا ہے تیرے خون میں حق مخلوط ہو چکا ہے جس طرح میرے گوشت و خون میں ایمان مخلوط ہو چکا ہے خدا فرماتا ہے میں تمہیں خوشخبری دوں تو اور تیری رعیت اور تیرے شیعہ جنت میں ہونگے اور تیرے دشمن جہنم میں ہونگے اے علی (علیہ السلام ) جو بھی تجھ سے دشمنی کرتا ہے حوض کوثر پر حاضر ووارد نہیں ہو سکتا اور تیرا محب حوض کوثر سے غایب نہیں ہو سکتا حضرت علی (علیہ السلام ) نے خدا کا شکر کرتے ہوئے سجدہ کیا اور خدا کی حمد بجالائے کیونکہ خداوند عالم نے حضرت علی(علیہ السلام ) پر اسلام اور قرآن سے بہت زیادہ انعامات فرمائے اور مجھے حضرت خاتم النبین اور سیدالمرسلین سے محبت کرنے والا بنایا ہے(۱)

____________________

(۱) (شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۹ ص۱۶۸خطبہ ۱۵۴)

ساتھویں حدیث

( ۷) قال النبی( صلّی اللّه علیه وآله وسلّم)ّ : لواجتمع النّا س علیٰ حبّ علیّ لمٰا خلق اللّه النّار

ترجمہ:حضرت رسول گرامی اسلام نے فرمایا اگر تمام لوگ علی (علیہ السلام ) کی محبت پر جمع ہو جاتے تو خداوند عالم جہنم کو خلق نہ فرماتا ۔(۱)

____________________

(۱) ( احقا الحق سیوطی در ذیل اللئالی ص۶۲ )

آٹھویں حدیث

( ۸) حدّ ثنامحمد بن علیّ مٰا جیلویه ، قال حدّ ثنی عمی عن المعلیٰ بن خنیس قال سمعت ابٰا عبد اللّه (علیه السلام ) یقول: لیس النّاصب من نصب لنا اهل البیت لاَنّک لاٰ تجد احداً یقول انا ابغض محمداً وآل محمدٍ ولٰکن النّاصب من نصب لکم وهو یعلم اَنّکم تتوالونا وتتبرّوءُ ن من اعدائنا و قال (علیه السلام)من اَشبع عدوّاً لنا فقد قتل ولیّاً لنٰا

ترجمہ:

معلی بن خنیس کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر الصادق ( علیہ السلام) کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو ہم سے دشمنی رکھتا ہے اس کو ناصبی نہیں کہتے کیونکہ کوئی شخص اپنے آپ کو محمد ( صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ) وآل بیت محمد کا دشمن نہیں کہتا لیکن ناصبی وہ ہے کہ جو تم شیعوں سے دشمنی رکھتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ تم (شیعہ )ہم اھل بیت سے محبت کرتے ہوئے اور ہمارے دشمنوں سے بیزاری کا اظہار کرتے ہو،پھر حضرت نے فرمایا جو بھی کسی ہمارے دشمن کو کھانا کھلائے گا گو یا ہمارے کسی شیعہ کو اس نے قتل کیا ۔(۱)

____________________

(۱) ( صفات شیخ صدوق ص۹ ج۱۷) ترجمہ:

نویں حدیث

( ۹) عدّة من اصحٰابنا ، عن سهل بن زیٰاد ، عن محمّد بن الحسن بن شمّون عن عبد اللّه بن عبد الرّحمٰن ، عن عبد اللّه بن قاسم عن عمرو بن ابی المقدام ، عن ابی عبد اللّه ( علیه السلام) مثله وزٰاد فیه ألاٰ وانّ لکلّ شیءٍ جوهراً و جوهرُ ولدآدم محمد(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) ونحن و شیعتنا بعدنٰا ، حبّذا شیعتنٰا مٰا أقربهم من عرش اللّه عزّوجلّ وأحسن صنع اللّه الیهم یوم القیامة واللّه لولاٰ ان یتعٰاظم النّاس ذٰلک او یدخلهم زهو لسلّمت علیهم الملآئکة قبلاً واللّه مٰا من عبدٍ من شیعتنا یتلو القرآن فی صلاٰ ته الاّ وله بکلّ حرفٍ ماءة حسنة ولا قرأ فی صلاته جٰالساً قائماً الاّ وله بکلّ حرفٍ خمسون حسنة ولاٰ فی غیر صلٰاة الاّ وله بکلّ حرفٍ عشر حسنٰات وانّ للصّامت من شیعتنا لأجر من قرأ القرآن ممّن خٰالفه ، أنتم واللّه علیٰ فرشکم نیٰام ،لکم اجر المجٰاهدین

وانتم واللّه فی صلاٰ تکم لکم اجر الصّافین فی سبیله ، انتم واللّه الّذین قال اللّه عزّوجلّ،

،، ونزعنٰا مٰافی صدورهم من غلٍّ اخواناً علی سُرُرٍمتقٰابلین ،، انّمٰا شیعتنا أصحاب الاربعة الاَعین عینان فی الرّاس و عینان فی القلب اَلاٰ والخلٰائق کلّهم کذٰلک الاّ اأنَّ اللّه عزّوجلّ فتح ابصارکم واعمیٰ أبصٰارهم

ترجمہ:

عمر بن ابی المقداد امام صادق ( علیہ السلام ) سے روایت کرتا ہے کہ امام جعفر صادق( علیہ السلام) نے فرمایا جان کو ہر چیز کیلئے جوھر ہوتا ہے اور حضرت آدم کی اولاد کاگوہر حضرت محمد ہیں اور ان کے بعدہم اھل بیت اور ہمارے شیعہ ہیں اور خوش خبری ہو شیعوں کیلئے کہ کتنا خدا کے عرش کے نزدیک ہیں اور قیامت کے دن خدا ان سے بہت اچھا سلوک کریگا اور اگر ہمارے شیعہ کو تکبّر و فخر اورخود پسندی لاحق ہونے کا خطرہ نہ ہوتا تو خدا کی قسم اللہ کے پاک ملائکہ اس دنیا میں ان کے سامنے آکر سلام کرتے خدا کی قسم جب بھی ہمارے شیعوں میں سے کوئی بھی نماز کی حالت میں قرآن کی تلاوت کرتا ہے تو خدا ہر حرف کے بدلے اسے ایک سو نیکی عطا فر ماتا ہے اور اگر بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے تو ہر حرف کے بدلے پچاس نیکیا عطا کرتا ہے اور جو بھی نماز کے علاوہ باقی حالات میں قرآن کی تلاوت کرتا ہے تو خدا ہر حرف کے بدلے اسے دس نیکیاں عطا کرتا ہے اور اگر کوئی خاموش رہتا ہے تو بھی خدا اسے ہمارے مخالف کے قرآن پڑھنے کے برابر نیکیاں و اجر عطا کرتا ہے ، اور خدا کی قسم ہمارے شیعہ اپنے بستر پر سو رہے ہوتے ہیں خدا انکو مجاھدین فی سبیل اللہ کے برابر اجر عطا کرتا ہے۔

اور نماز کی صفوں میں تمہیں راہ خدا میں جہاد کرنے والوں کہ صفوں کے برابر ثواب عطا کرتا ہے تم لوگ خدا کی قسم وہ لوگ ہو کہ خدا تمہارے بارے میں فرماتا ہے

(ہم نے ان کے دلوں سے کینہ و نفرت کو نکا ل لیا ہے اور بھائیوں کی طرح تخت پر ایک دوسرے کے برابر بیٹھے ہیں )(۱)

خداکی قسم ہمارے شیعوں کی چار آنکھیں ہیں دو ظاہر ی آنکھیں ہیں اور دو دل کی آنکھیں ہیں اور جان لو ہمارے شیعہ سب کے سب ایسے ہیں اور خدا نے تمہاری آنکھوں کو دیکھنے والا او ر حق کو قبول کرنے والا بنایا ہے لیکن تمہارے دشمنوں کی آنکھوں کو اندھا کر دیا اور حق کو قبول کرنے سے انکار کرتی ہیں ۔(۲)

____________________

(۱)حجر آیت ۴۷

(۲) الروضہ من الکافی ج۲ ص ج ۲۶

دسویں حدیث

( ۱۰) عن ابی جعفر محمّد بن علیّ البٰاقر (علیہ السلام)عن ابیہ عن جدّہ (علیھم السلام) قال خرج رسول اللّہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) ذات یوم وھو راکب و خرج علیّ ( علیہ السلام) وھو یمشی فقٰال لہ یٰا ابا الحسن امّاان ترکب واما ان تنصرف، فانّ اللہ عزّوجلّ امرنی اَن ترکب اذٰا رکبت و تمشی اذٰا مشیت و تجلس اذٰا جلست الاّ اَن یکون حد من حدود اللّہ لابدّ لک من القیام والقعود فیہ ومٰا اکرمنی اللّہ بکٰرامۃ الاّ وقد اکرمک بمثلھا و خصّنی بالنّبوّۃ والرّسالۃ و جعلک ولیّ فی ذٰلک تقوم فی حدودہ و فی صعب اأمورہ والّذی بعث محمّداً بالحقّ نبیّاً مٰا آمن بی من انکرک ولاٰ أقرّبی من جحدک ولاٰ آمن باللّہ من کفر بک

وانّ فضلک لمن فضلی وان فضلی لک للفضل اللّہ وھو قول ربّی عزّوجلّ قل بفضل اللّہ وبرحمتہ فبذٰلک فلیفرحوا ھو خیر ممّٰایجمعون ففضل اللّہ نبوّۃنبیّکم ورحمتہ ولایۃ علی بن ابیطالب (علیہ السلام ) فبذٰلک قال بالنّبوّۃِ والولاٰیۃ فلیفرحوا یعنی الشیعۃ ھو خیر ممّٰا یجمعون یعنی مُخٰالفیھم من الا ھل والمٰال ولوالد فی دٰار دنیا واللّہ یا علیّ مٰا خُلقت الاّٰ لیعبد ( لتعبد) ربّک ولیعرف بک معٰالم الدّین ویصلح بک دارس السّبیل ولقد ضلّ من ضلّ عنک ولن یھدی الی اللّہ عزّوجلّ من لم یھتد الیک والیٰ ولاٰیتک وھو قول ربّی عزّوجلّ وانّی لغفّار لمن تاب وآمن وعمل صٰالحاً ثمّ اھتدیٰ یعنی الی ولاٰ یتک ولقد أمرنی ربّی تبٰارک وتعٰالیٰ أن افترض من حقّک مٰا افترضہ من حقّی وانّ حقّک لمفروض علیٰ من آمن و لولاٰک لم یعرف حزب اللّہ وبک یعرف عدوّ اللّہ ومن لم یلقہ بولاٰیتک لم یلقہ بشیءٍ ولقد أنزل اللّہ عزّوجلّ الیّ یا ایّھا الرّسول بلّغ مٰا انزل الیک من ربّک یعنی فی ولاٰیتک یا علیّ و ان لم تفعل فمٰابلّغت رسٰالتہ ولو لم ابلغ مٰا امرت بہ من ولاٰیتک لحبط عملی

ومن لقی اللّہ عزّ وجلّ بغیر ولاٰیتک فقد حبط عملہ وعد ینجز لی ومٰا أقول الاّ قول ربّی تبٰارک و تعالیٰ وانّ الّذی اقول لمن اللہ عزّوجلّ انزلہ فیک ۔

ترجمہ:

ایک دن حضرت رسولخدا (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم)گھوڑے پر سوار ہو کر گھر سے باہر نکلے اور حضرت علی ان کے ساتھ پیدل چل رہے تھے تو حضرت رسول خدا نے فرمایا اے ابا الحسن یا گھوڑے پر سوار ہو جاؤ یا واپس چلے جاؤ کیونکہ خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ تم گھوڑے پر سوار ہوجب میں سوار ہوں اور آپ پیدل چلیں اگر میں پیدل چلوں اور تم بیٹھوجب میں بیٹھا ہوں مگر یہ کہ خدا نے حدود بیان کی ہیں تو ضروری ہے کہ تمہارے لئے بھی قیام و قعود ہوخدانے مجھے کوئی کرامت نہیں دی مگر یہ کہ ویسی کرامت خدا نے تجھے بھی عطا کی ہے خدا نے مجھے نبی و رسول بنایا ہے اور تجھے میرا ولی بنایا ہے تو خدا کی حدود کو قائم کرے گا اور مشکلات کے وقت قیام کرے گا اور خدا کی قسم جس نے مجھ محمد کو حق کا نبی بنایا ہے کوئی شخص مجھ پر ایمان نہیں رکھتا جبکہ تیرا منکر ہے اور کوئی شخص میرا اقرار نہیں کرتا جبکہ تجھ سے انکار کرتا ہے اور کوئی شخص خدا پر ایمان نہیں رکھتا جبکہ تجھ سے کفر کر تا ہے۔

تیرا فضل میرے فضل سے ہے اور میرا فضل تیرے ساتھ خدا کے فضل سے ہے اور خداوند کا قول ہے

(کہ خدا کے فضل و رحمت سے ہے اور اسی لئے ان کوخوش ہونا چاہئے اور یہ بہتر ہے اس سے کہ جسکو جمع کرتے ہیں ) تمہارے نبی کی نبوت خدا کا فضل ہے اور خدا کی رحمت و ولایت حضرت علی بن ابی طالب (علیہ السلام)ہے اسی لئے رسول(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایامیری نبوت اور علی کی ولایت کی وجہ سے شیعوں کو ہمیشہ خوش رہنا چاہئے اور یہی انکے لئے بہتر ہے اس سے جسکو وہ جمع کرتے ہیں یعنی شیعوں کے مخالف جسکو جمع کرتے ہیں اولاد و مال کو یعنی اپنی آل و اولاد کو اس دنیا میں اکھٹا کرتے ہیں خدا کی قسم اے علی تجھے سوائے اسکے خلق نہیں کیا گیا مگر خدا کی عبادت و پرستش کی جائے اور تمہارے وسیلے سے معالم دین پہنچائے جائیں تاکہ گمراہ راستے سے ھدایت کے راستے کی پہچان ہو سکے تحقیق گمراہ ہوا وہ جس نے تجھے گم کر دیا اور خدا کی طرف ھدا یت نہیں پا سکتا جو تیرے راستے کا انتخاب نہیں کرتا اور تیری ولایت کے دامن سے تمسک نہیں کرتا اور یہی ہے خداوند کا فرما ن کہ میں بخشنے والا ہوں اسکو جو توبہ کرتا ہے اور ایمان لے آتاہے عمل صالح کرتا ہے اور پھر ھدایت پاتا ہے یعنی اے علی تیری ولایت سے ھدایت پاتا ہے اور مجھے خدا نے حکم دیا ہے کہ وہ حق جو خدا نے میرے لئے مقرر کیا ہے وہی تیرے لئے مقرر کروں اور تیرا حق واجب ہے اس پر جو مجھ پر ایمان لاتا ہے اور اگر تو نہ ہوتا تو حذب خداپہچانا نہ جاتا اور تیرے وجود ذی جود سے دشمن خدا کی پہچا ن نہ ہوتی ہے اور جو تیری ولایت و محبت کے بغیر خدا سے ملاقات کرے گا اس کے پاس کچھ نہیں اور خدا نے میری طرف نازل کیا یا ایّھا الرسول بلّغ ما انزل الیک من ربّک یعنی اے علی تیری ولایت وان لم تفعل فما بلّغت رسالتہ اور اگرمیں نہ پہنچاؤں اسکو جو نازل کیا ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے تیری ولایت کے بارے میں تو میرے تمام اعمال ضبط وبرباد ہو جائیں گے

اور جو بھی تیری ولایت و محبت کے بغیر خدا سے ملاقات کرے گا اس کے سب اعمال ضایع و برباد ہو جائیں گے اور یہ وعدہ ہے جو میرے لئے معین کیا گیا ہے میں کچھ نہیں کہتا مگر وہی جو خدا کا فرمان ہے اور جو بھی تیرے بارے میں کہتا ہوں وہ خدا کا فرمان ہے اور میری طرف نازل کیا گیا ہے ۔(۱)

____________________

(۱) (امالی شیخ صدوق مجلس۷۴ص۴۹۴ح۱۶)

گیارہویں حدیث

( ۱۱) قال امیر المومنین (علیہ السلام):نحن شجر ۃ النّبوّۃ ومحطُّ الرّسالۃومختلف الملائکۃ ومعادن العلم وینابیع الحکم ناصرنا و محبّناٰ ینتظر الرّحمۃ و عدُوُّناٰ و مبغضنا ینتظر السّطوۃ ۔

ترجمہ:

حضرت علی ( علیہ السلام ) نے فرمایا کہ ہم شجرہ نبوت اور مقام رسالت اور ملائکہ کے نازل اور آنے جانے کا مرکز اور علم کے خزانے ہیں اور حکمت کے چشمے ہیں ہماری مدد کرنے والا اور ہم سے محبت کرنے والا خدا کی رحمت کا منتظر رہے اور ہمارا دشمن اور ہمسے بغض رکھنے والا خدا کے قہر و عذاب کا منتظر رہے ۔(۱)

____________________

(۱) (سید رضی نہج البلا غہ قسمت اوّل ص ۱۶۳ خطبہ ۱۰۹)

بارویں حدیث

( ۱۲) حدّثنا محمّد بن موسیٰ المتوکّل عن الحسن بن علی الخزٰار قال: سمعت(علیہ السلام) یقول:انّ ممّن یتّخذُ مودّتناٰ اھل البیت لمن ھو اشدّ لعنتہ علیٰ شیعتناٰ من الدّجٰال فقلتُ لہ یابن رسول اللّہ بمٰاذا ؟ قال بمُوٰالاٰ ۃ اعدائنٰا ومعٰادٰاۃ اولیٰائنٰا انّہ کان کذٰ لک اختلط الحق بالبٰا طل واشتبہ الامر فلم یعرف مؤ من من منافقٍ۔

ترجمہ :

حسن بن خراز کہتا ہے کہ میں نے امام رضا ( علیہ السلام ) کو فرماتے ہوئے سناکہ جو ہم اھلبیت کی محبت کو شعار بناتا ہے اور اس کی خراب کاری ہمارے شیعوں کیلئے دجا ل سے زیادہ نقصان دہ ہے ، روای کہتاہے کہ میں نے عرض کی اے فرزند رسول خدا اس طرح کیوں ہے ؟ تو امام ( علیہ السلام ) نے فرمایا ہمارے دشمنوں سے محبت اور ہمارے محبوں سے دشمنی کرنے سے اور جو بھی اس طرح کرتا ہے حق و باطل آپس میں مخلوط ہو جاتے ہیں اور پھر معاملہ مشکل ہو جاتا ہے اور مؤ من کی منافق سے پہچان مشکل ہو جاتی ہے(۱)

____________________

(۱) (صفات شیعہ شیخ صدوق ص ۸ ح ۱۴)

تیرویں حدیث

( ۱۳) قال الرّسول ( صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)یا علیّ انت قسیم االجنّۃ والنّار ، تدخُل محبّیک الجنّۃ ومبغضک النّار

ترجمہ :

حضرت رسول گرامی اسلام نے فرمایا اے علی( علیہ السلام) تو جنت و جہنم کا تقسیم کرنے والا ہے اپنے محبوں کو جنت میں اور اپنے دشمنوں کو جہنم میں داخل کریگا ۔(۱)

____________________

(۱) ( احقاق الحق القندوزی الحنفی ینابیع المودّۃ ص۸۵)

چودہویں حدیث

( ۱۴) عن ابن عبّاس قال : قال رسول اللّہ( صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) من سرّہ ان یحیٰ حیٰاتی و یمُوت ممٰاتی و یسکن جنّۃ عدنٍ غرسھٰا ربّی فلیُوال علیّاً من بعدی و لیُوال ولیّہ و لیقتد بالائمّۃ من بعدی فانّھم عترتی خلقوا من طینتی و رزقوا فھماً و علماً ویل للمکذّبین بفضلھم من امّتی القاطعین فیھم صلتی لاٰ انٰا لھم اللّہ شفاعتی۔

ترجمہ:

عبد اللہ بن عبا س کہتا ہے کہ رسو ل خدا ( صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا جو چاہتا ہے کہ میری طرح زندہ رہے اور میری طرح سے اسے موت آئے اور جنت الفردوس میں اسکو جگہ ملے کہ جس میں باغات خدا نے لگائے ہیں تو اسے چاہئے کہ میرے بعد علی( علیہ السلام) سے محبت کرے اور علی( علیہ السلام) کے محبوں سے محبت کرے اور میرے بعد آنے والے آئمہ کی اقتداء کرے اور وہ میری عترت ہیں میری طینت سے خلق کئے گئے ہیں ان کا رزق علم و دانش ہے اور جہنم ہے ان کیلئے جو اھل بیت کی فضیلت کو جھٹلاتا ہے اور جو مجھ سے محبت رکھتا ہے اور ان سے محبت قطع کرتا ہے خدا میری شفاعت انکو نہیں پہنچنے دیگا ۔(۱)

____________________

(۱) ( شرح نہج البلاغۃ ابن ابی الحدید ج۹ ص ۱۷۰ خطبہ ۱۵۴)

پندرہویں حدیث

( ۱۵) قال علی(علیه السلام) لو ضربت خشیوم المؤمن بسیفی هٰذا علیٰ ان یبغضنی مٰا اابغضنی ولو صببت الدّنیا بجمّا تهٰا علی المنافق علیٰ ان یحبّنی مٰا احبّنی وذٰلک انّه قضی فانقضیٰ علیٰ لسان النبیّ الاُ مّی ( صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) انّه قال :

یا علیّ یبغضک مؤمن ولا یحبّک منافق

ترجمہ:

حضرت ( علیہ السلام) علی فرماتے ہیں کہ اگر میں مؤمن کی ناک پر تلواریں ماروں تاکہ وہ مجھ سے دشمنی کرے تو مجھ سے دشمنی نہیں کرے گا اور اگر منافق کو دنیا وما فیھا دے دوں تا کہ مجھ سے محبت کرے وہ میرا محب نہیں بنے گا کیونکہ خدا کا فیصلہ ہے اور نبی کی زبان سے جاری ہوا ہے کہ پیامبر نے فرمای

اے علی(علیہ السلام) تجھ سے مومن کبھی بغض نہیں رکھے گا اور منافق کبھی محبت نہیں کرے گ(۱)

____________________

(۱) (عقائد الانسان ج۳ ص۲۹۹ح۶)

سولہویں حدیث

(۱۶ ) حدّثنٰا الحسین بن ابراهیم قال حدّثنٰا علیُ بن ابراهیم عن جعفر بن سلمه الاصبهٰا نی عن ابراهیم بن محمّدٍ قال حدّثنٰا القتاد قال حدّثنٰا علیُّ بن هاٰ شم بن البرید عن ابیه قال سُئل زید بن علی(علیه السلام) عن قول رسول اللّه ( صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) من کنت مولاٰه فعلیّ مولاٰه قال نصبه علماً لیعلم به حزب اللّه عند الفرقة

ترجمہ:

امام زین العابدین (علیہ السلام) سے پوچھا گیا رسول خدا کے اس فرمان کے بارے ،،من کنت مولاہ فھذاعلی مولاہ،، تو امام نے فرمایا حضرت رسول نے اس کو ھدایت کا علم قرار دیا تاکہ اختلا ف کے وقت حزب خدا کو پہچانا جائے ۔(۱)

____________________

(۱) (امالی شیخ صدوق مجلس نمبر ۲۶ ص۱۲۳ ج۳)

ستارہویں حدیث

(۱۷ ) محمّد بن یحیٰ عن احمد بن محمّد ، عن ابن محبوبٍ ، عن ابن رئاٰبٍ، عن بکیر بن اعین قال :کان ابو جعفر(علیه السلام) یقول:انّ اللّه اخذ میثاق شیعتنٰا بالولاٰ یة لنا وهم ذرّ، یوم اخذ المیثاق علیٰ الذّ ر، بالاقرار له بالرّبوبیّة ولمحمدٍ ( صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) بالنبوّة وعرض اللّه جلّ وعزّعلیٰ محمد ( صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) امّته فی الطّین وهم أظلّه وخلقهم من الطّینة الّتی خُلق منها آدم وخلق اللّه أرواح شیعتنٰا قبل ابدٰانهم بأ لفی عٰامٍ وعرضهم علیه وعرّفهم رسو ل اللّه ( صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) وعرّفهم علیّاً ونحن نعرفهم فی لحن القول

ترجمہ :

امام محمد باقر (علیہ السلام ) نے فرمایا کہ خدانے عالم ذر میں ہمارے شیعوں سے میثاق و عہد لیا ہماری ولایت کے بارے میں جب عالم ذر میں اپنی ربوبیت اور رسول کی رسالت کے بارے عہد وپیمان لے رہاتھا خدا نے رسول کی امت کو حضرت رسول (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے سامنے پیش کیا جبکہ وہ مٹی و طین میں سایہ کی طرح تھے اور خدا نے انکو طینت سے خلق کیا جس طینت سے خدا نے حضرت آدم کو خلق فرمایا تھا اور خدا نے ہمارے شیعوں کی ارواح کو ان کے بدنوں کے خلق کرنے سے دہ ہزار سال قبل خلق فرمایا اور رسول کے سامنے ان کو پیش کیا اور خدا نے رسول کو ان کی پہچان کرائی اور علی(علیہ السلام) نے بھی اپنے شیعوں کو پہچانا اور ہم ان کو ان کی گفتار سے پہچانتے ہیں کہ ہماری محبت کی باتیں کرتے ہیں ۔(۱)

____________________

(۱) ( اصول کافی ج۲ کتاب الحجہ ص۳۲۱ح۹)

آٹھارہویں حدیث

(۱۸ ) قال الرّسول( صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) اللّه: من صافح محباً لعلی غفر الله له الذنوب، واَدخله الجنّة بغیر حساب

ترجمہ:

پیامبر اسلام نے فرمایا کہ جو علی(علیہ السلام ) کے محبوں سے مصافحہ کرتا ہے خدا اس کے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل کریگا ۔(۱)

____________________

(۱) (احقاق الحق ،اخطب خوارزمی درمناقب خوارزمی ص ۲۲۱)

انیسویں حدیث

(۱۹ ) عن ابن عبّاس قال: قال رسول اللّه( صلّی اللّه علیه وآله وسلّم)یا علیّ انا مدینة الحکمة و انت بابُهٰا ولن تؤتی المدینة الاّمن قِبل البٰاب وکذب من زعم انّه یحبّنی وهویبغضک لأنّک منّی وانا منک لحمک من لحمی ودُمک من دمی وروحک من روحی وسریرتک من سریرتی وعلاٰنیتک من علاٰنیتی وانت امام امّتی وخلیفتی علیهٰا بعدی سُعد من اطاعک وشقی من عصٰاک وربح من تولاّک وخسر من عاداک وفاز من لزمک وهلک من فٰارقک، مثلک ومثل الائمّةمن ولدک بعدی مثل سفینةنوحٍ من رکب فیهٰا نجٰا ومن تخلّف عنهٰا غرق ومثلکم مثل النّجوم کلّمٰا غٰاب نجم طلع نجم الیٰ یوم القیامة

ترجمہ :

عبد اللہ بن عبا س کہتا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا کہ اے علی(علیہ السلام) میں حکمت کا شہر ہوں اور آپ اسکا دروازہ ہیں جو بھی شہر میں آنا چاہے دروازے سے آئے اورجھوٹا ہے وہ شخص جو کہے میں رسول سے محبت کرتا ہوں جبکہ تجھ سے دشمنی رکھتا ہو، کیونکہ تو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں ، تیرا گوشت میرا گوشت ہے تیرا خون میرا خون ہے ، تیری روح میری روح ہے ، تیرا باطن (یعنی اسرار دل) میرا باطن ہے ، تیرا ظاہر میرا ظاہر ہے ۔تو میری امت کا امام ہے میرے بعد میری امت میں میرا خلیفہ ہے اور جس نے تیری اطاعت کی وہ خوشبخت ہے اور جس نے تجھے ٹھکرا دیا و شقی وبدبخت ہے ، فائدہ اٹھا یا اس نے جس نے تجھ سے محبت کی اور نقصان اٹھایا اس نے جس نے تجھ سے دشمنی کی اور کامیاب ہو ا جس نے تجھے پکڑ لیا یعنی دامن کو پکڑا اور جو تم سے جد اہوا وہ ھلاک ہوا تیری مثال اور تیرے بعد آئمہ کی مثال سفینہ نوح کی مثال ہے ، جو سوار ہوا نجات پا گیا اور جس نے تخلف کیا وہ غرق ہوا اور تمہاری مثال ستاروں کی طرح ہے جب ایک ستارہ غروب کرتا ہے تو دوسرا طلوع کرتا ہے اور قیامت کے دن تک یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔(۱)

____________________

(۱) (عقا ئدالانسان ج۳ ص ۱۲۳ ح۲۳)

بیسویں حدیث

(۲۰ ) عدّة من أصحٰابنٰا، عن أحمد بن محمدبن خٰالدٍ، عن محمّد بن الحسن بن شمّون ،عن عبد اللّه بن عمروبن الاشعث، عن عبد اللّه بن حمّادالانصٰاری، عن عمروبن أبی المقدٰام ، عن أبیه عن أبی جعفر (علیه السلام) قال: قال امیرالمؤمنین(علیه السلام):شیعتناالمتبٰاذلون فی ولایتنٰا، المتحابّون فی مودّ تنٰا ، المتزٰاورون فی اِحیٰاء امرنٰا الّذین ان غضبوا لم یظلموا وان رضوا لم یسرفوا برکة علیٰ من جٰاوروا، سلم لمن خٰالطوا

ترجمہ:

حضرت علی (علیہ السلام ) نے فرمایاہمارے شیعہ وہ ہیں جو ہماری ولایت و محبت کی وجہ سے ایک دوسرے سے درگزر کرتے ہیں ایک دوسرے کو تحائف دیتے ہیں ہماری محبت کی وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور ہمارے امر کو زندہ کرنے کیلئے ایک دوسرے کی زیارت کو جاتے ہیں ، اگر کسی پر ناراض ہوتے ہیں تو ظلم نہیں کرتے اور اگر راضی ہوں تو اسراف نہیں کرتے اور اپنے پڑوسیوں کیلئے برکت کا باعث ہوتے ہیں اور معاشرے میں سلامتی اور سلوک سے رہتے ہیں ۔(۱)

____________________

(۱) ( اصول کافی ج۳ کتاب الایمان والکفر ص۳۳۳ ح۲۴)

اکیسویں حدیث

(۲۱ ) قال النبیُّ (صلّی اللّه علیه وآله وسلّم): من سرّه ان یجوز علی الصراط کالرّیح العاصف و یلج الجنّة بغیر حساب فلیتولّ ولّی ووصیّ وصٰاحبی وخلیفتی علیٰ أهلی علیّ

ترجمہ:

حضرت رسول گرامی اسلام فرماتے ہیں جو اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ تیز ہوا کی طرح پل صراط سے گزر جائے گا اور بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہو گا اسے چاہئے کہ میرے ولی و وصی و خلیفہ اورمیرے بھائی علی بن ابی طالب ( علیہ السلام) سے محبت کرے ۔(۱)

____________________

(۱) (احقاق الحق الحسکانی شواھد التنزیل ج۱ص۵۸)

بائیسویں حدیث

(۲۲ ) عن علیّ بن ابیطالب ( علیه السلام) قال: قال رسول اللّه (صلّی اللّه علیه وآله وسلّم)لولاٰک مٰا عُرف المؤمنون من بعدی

ترجمہ:

حضرت علی ( علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ رسول خدا (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ) نے مجھ سے فرمایااے علی اگر تو نہ ہوتا تو میرے بعد مومن پہچانے نہ جاتے ۔(۱)

____________________

(۱) ( عقدئد الانسان ص۱۶۷ج۲،ابن المغازلی مناقب میں ص۷۰ح۱۰۱)

تیئسویں حدیث

(۲۳ ) عن ابی ذرّ قال : قال النبیّ(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) : علیّ بابُ علمی و مبیّن لاُمّتی ما ارسلت به من بعدی حبّه ایمٰان و بغضه نفاق والنظر الیه رأفة ومودّته عبادة

ترجمہ:

ابو ذر حضرت پیامبر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول خدا نے فرمایا یا علی میرے علم کا دروازہ ہے اور میرے بعد میری امت کیلئے اسکو بیان کریگا جو خدا کی طرف سے میں لایا ہوں ۔

علی (علیہ السلام)سے محبت ایمان اور علی(علیہ السلام) سے دشمنی نفاق ومنافقت ہے علی( علیہ السلام) کی طرف دیکھنا مہر ومحبت ہے اور علی ( علیہ السلام) سے دوستی عبادت ہے(۱)

____________________

(۱) (بوستان معرفت ص۳۳۷کشفی ترمذی درمناقب مرتضوی باب دوّم ص۹۳)

چوبیسویں حدیث

(۲۴ ) قال النبیّ(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) :لا یقبلُ اللّه ایمان عبدٍ الاّ بولاٰیة علیّ والبرء اة من اعدائه

ترجمہ:

حضرت رسول اسلام نے فرمایا خدا کسی بندے کے ایمان کو قبول نہیں کریگا مگر حضرت علی (علیہ السلام) کی محبت اور انکے دشمنوں سے بیزاری ونفرت کا اظہار کرنے سے۔(۱)

____________________

(۱) (احقاق الحق خطب خوارزمی در مناقب خوارزمی ص۲)

پچیسویں حدیث

(۲۵ ) حدّثنا محمد بن الحسن بن الولید عن محمد بن الحسن الصّفار عن محمد بن عیسیٰ بن عبیدٍ عن ابن فضٰال قال سمعتُ الرّضٰا ( علیه السلام) یقول :من وٰاصل لنا قاطعاً او قطع لنا وٰاصلاً او مدح لنا عایباً او اکرم لنا مخٰالفاًفلیس منّٰا ولسنٰا منه

ترجمہ:

ابن فضال کہتا ہے کہ میں نے حضرت رضا ( علیہ السلام ) سے سنا فرما رہے تھے ہمارے نزدیک ہو وہ جو ہم سے دور ہوچکا ہے یا قطع تعلقی کرتا ہے اس سے جو ہم سے محبت کرتا ہے یا مدح و ستائش کرتا ہے اسکی جو ہماری عیب جوئی کرتا ہے یا اکرام و بخشش کرتاہے اسکو جو ہمارا مخالف ہے وہ ہم سے نہیں اور نہ ہم اس سے ہیں ۔(۱)

____________________

(۱) (صفات شیعہ ص۷ ح۱۰)

چھبیسویں حدیث

(۲۶ ) الحسین بن محمد عن معلّی بن محمد عن محمد بن جمهور قال: حدّثنٰا یُونس عن حمّاد بن عثّمٰان عن الفضیل بن یسٰار عن أبی جعفر ( علیه السلام) قال انّ اللّه عزّوجلّ نصب علیا( علیه السلام ) علماً بینه و بین خلقه فمن عرفه کاٰن مؤمناً ومن انکره کاٰن کافراً و من جهله کاٰن ضٰالاً ومن نصب معه شیئاً کا ن مشرکاً و من جٰآء بولاٰ یته دخل الجنّة

ترجمہ:

امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ خدا وند عالم نے حضرت علی (علیہ السلام) کو اپنے اور اپنی مخلوق کے درمیان عَلَم اور علامت قرار دیا ہے جو بھی اس کی معرفت حاصل کریگا وہ مومن ہے اور جو انکار کرے گا وہ کافر ہے اور جو معرفت حاصل نہیں کرے گا وہ گمراہ ہے اور جو کسی دوسرے کو اس کیساتھ ملائے گا وہ مشرک ہے اور جو بھی قیامت کے دن حضر ت ( علیہ السلام) کی ولایت و محبت سے محشرکے میدان میں وارد ہوگا جنت میں داخل ہوجائے گا ۔(۱)

____________________

(۱) ( اصول کافی کتاب حجہ ج۲ص۳۲۰ ح۷)

ستائیسویں حدیث

(۲۷ ) عن سید الاوصیٰاء علی ابن ابی طالب( علیه السلام)قال:قال رسول اللّه (صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) :ستُدفن بضعةمنّی بارض خرٰاسٰان مٰا زٰارهٰا مکروب الاّ نفّس اللّه کربته و لاٰ مذنب الاّ غفر اللّه ذنوبه

ترجمہ:

سید الاوصیاء حضرت علی بن ابی طالب ( علیہ السلام ) فرماتے ہیں کہ حضرت رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا کہ خراسان کی سر زمین پر میرے بدن کا ٹکڑا دفن کیا جائے گا جو بھی پریشان حال اسکی زیار ت کریگا خدا اس کی پریشانی کو دور فرمائے گا ، اور جو بھی گنہگار اسکی زیارت کرے گا خدا اس کے تمام گناہ معاف کر دے گا ۔(۱)

____________________

(۱) ( عقائد الانسان ص۲۲۱ج۲)

آٹھائیسویں حدیث

(۲۸ ) قال النبی(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم)ّ : لو انّ عبداً عبدُاللّه الف عٰامٍ بعد الفَ عٰام بین الرّکن والمقام ثمّ لقی اللّه مبغضاً لعلیّ( علیه السلام) لاکبه اللّه یوم القیامة علیٰ مَنخَریه فی نٰار جهنّم

ترجمہ :

پیامبر گرامی(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) اسلام نے فرمایا اگر کوئی شخص ہزار سال کے بعد ہزار سال کعبہ اور مقام ابراھیم کے درمیان خدا کی عبادت کرے اور اسی حالت میں مر جائے اور اس کے دل میں علی(علیہ السلام) سے بغض ہوتو خداقیامت کے دن منہ کے بل اسے جہنم میں داخل کریگا۔(۱)

____________________

(۱) (احقاق الحق اخطب خوارزمی در مناقب خوارزمی ص۵۲)

مرتد کو جلانے کی روایتيں

انی اذا بصرت امراً منکراً اوقدت ناری ودعوت قنبر

جب ميں سماج ميں کسی برے کا م کا مشاہدہ کرتا ہوں تو اپنی آگ جلاتا ہوں اور اپنی نصرت کے لئے قنبر کو بلاتا ہوں ۔

ہم نے گزشتہ فصلوں ميں بتایا کہ کشی کی جن پانچ روایتوں ميں عبدا لله بن سبا کا نام آیا ہے وہ چند پہلو سے خدشہ دار اور ناقابل قبول ہيں ۔ ان کے ضعف کا ایک پہلو وہی تناقض ہے جو یہ روایتيں چند دوسری روایتوں کے ساتھ رکھتی ہيں ، کيونکہ کشی کی پنجگانہ روایتيں ،

علی عليہ السلام کے بارے ميں غلو کا موضوع ، انکی الوہيت کا اعتقاد ، اور داستان احراق اور ان پر عبد الله بن سبا کو جلانے کی نسبت دیتی ہيں ، ليکن روایتوں کا ایک دوسرا سلسلہ ان رودادوں کو دوسرے افراد کے بارے ميں نقل کرتی ہيں چنانچہ :

١۔ کشی مزید کہتا ہے:

جب امير المؤمنين عليہ السلام اپنی بيوی ( ام عمرو عنزیہ ) کے گھر ميں تھے ۔ حضرت کا غلام ، قنبر آیا اور عرض کيا یا امير المؤمنين عليہ السلام ! دس افراد گھر کے باہر کھڑے ہيں اور اعتقاد رکھتے ہيں کہ آپ ان کے خدا ہيں ۔

امام نے فرمایا: انہيں گھر ميں داخل ہونے کی اجازت دیدو ۔

کہتا ہے جب یہ دس آدمی داخل ہوئے تو حضرت نے سوال کيا : ميرے بارے ميں تمہارا عقيدہ کيا ہے ؟

انہوں نے کہا؛ “ ہم معتقد ہيں کہ آپ ہمارے پروردگار ہيں اور یہ آپ ہی ہيں جس نے ہميں خلق کيا ہے اور ہمارا رزق آپ کے ہاتھ ميں ہے“

امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: افسوس ہو تم پر ! اس عقيدہ کو نہ اپناؤ ، کيونکہ ميں بھی تمہاری طرح ایک مخلوق ہوں ۔ ليکن وہ اپنے عقيدہ سے باز نہيں آئے۔

امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: افسوس ہو تم پر ! ميرا اور تمہارا پروردگار الله ہے !

افسوس ہو تم پر توبہ کرو اور اس باطل عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤ!

انہوں نے کہا: ہم اپنے عقيدہ اور بيان سے دست بردار نہيں ہوں گے اور آپ ہمارے خدا ہيں ، ہميں خلق کيا ہے اور ہميں رزق دیتے ہيں ۔

اس وقت امام نے قنبر کو حکم دیا تا کہ چند مزدوروں کو لائے ، قنبر گئے اور امام کے حکم کے مطابق دو مزدوروں کو بيل و زنبيل کے ہمراہ لائے۔ امام نے حکم دیا کہ یہ دو مزدور زمين کھودیں ۔ جب ایک لمبا گڑها تيار ہوا تو حکم دیا کہ لکڑی اور آگ لائيں ۔ تمام لکڑیوں کو گڑهے ميں ڈال کر آگ لگادی گئی شعلے بهڑکنے لگے اس کے بعد علی عليہ السلام نے ان دس افراد سے جو ان کی الوہيت کے قائل تھے --دوسری بار فرمایا : افسوس ہو تم پر ! اپنی بات سے دست بردار ہوجاؤ ، اس کے بعد امير المؤمنين عليہ السلام نے ان ميں سے بعض کو آگ ميں ڈال دیا یہاں تک کہ دوسری بار باقی لوگوں کو بھی آگ ميں ڈال دیا ۔ اس کے بعد مندرجہ ذیل مضمون کا ایک شعر پڑها:

”جب ميں کسی گناہ یا برے کام کو دیکھتا ہوں ، آگ جلا کر قنبر کو بلاتا ہوں ”

کشی نے اس روایت کو “ مقلاص ” کی زندگی کے حالات ميں مفصل طور پر اور “ قنبر ”

کی زندگی کے حالات ميں خلاصہ کے طور پر نقل کيا ہے ۔ مجلسی نے بھی اسی روایت کو کشی سے نقل کرکے “بحار الانوار ” ميں درج کيا ہے ۔

٢۔دوبارہ کشی ، کلينی، صدوق ، فيض ، شيخ حر عاملی اور مجلسی نے نقل کيا ہے :

ایک شخص نے امام باقر اور امام صادق عليہما السلام سے نقل کيا ہے : جب امير المؤمنين عليہ السلام بصرہ کی جنگ سے فارغ ہوئے تو ستر افراد “ زط” سياہ فام حضرت کی خدمت ميں آئے اور انهيں سلام کيا ۔ اس کے بعد اپنی زبان ميں ان سے گفتگو کرنے لگے ۔

ا مير المؤمنين نے بھی ان کی ہی زبان ميں انهيں جواب دیا ۔ اس کے بعد فرمایا جو کچھ

تم ميرے بارے ميں تصور کرتے ہو ميں وہ نہيں ہوں بلکہ ميں بھی تمہاری طرح بندہ اور خدا کی مخلوق ہوں ۔ ليکن انہوں نے اس بات کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا: آپ خدا ہيں ۔

ا مير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: اگر اپنی باتوں سے پيچھے نہيں ہٹتے اور خدا کی بارگاہ ميں توبہ نہيں کرتے اور ميرے بارے ميں رکھنے والے عقيدہ سے دست بردار نہيں ہوتے ہو تو ميں تمہيں قتل کرڈالوں گا ، چونکہ انہوں نے تو بہ کرنے سے انکار کيا اور اپنے باطل عقيدہ سے دست بردار نہيں ہوئے ، لہذا امير المؤمنين علی عليہ السلام نے حکم دیا کہ کئی کنویں کھودے جائيں اور ان کنوؤں کو زمين کے نيچےسے سوراخ کرکے آپس ميں ملا دیا جائے اس کے بعد حکم دیا کہ ان افراد کو ان کنوؤں ميں ڈال کر اوپر سے انهيں بند کردو ۔ صرف ایک کنویں کا منہ کهلا ہوا تھااس ميں آگ جلادی گئی اور اس آگ ميں دهواں کنوؤں کے آپس ميں رابطہ دینے کے سوراخوں سے ہر کنویں ميں پہنچا اور اسی دهویں کی وجہ سے یہ سب لوگ مرگئے!

اس واقعہ کو بزرگ علماء نے ایک گمنام “ شخص” سے نقل کيا ہے کہ جس کاکوئی نام و نشان نہيں ہے اور ہم نہيں جانتے کہ یہ شخص جس نے امام باقر عليہ السلام اور امام صادق عليہ السلام سے یہ روایت نقل کی ہے ، کون ہے ؟ کہاں اور کب زندگی کرتا تھا ، اور کيا بنيادی طور پر اس قسم کا کوئی راوی حقيقت ميں وجود رکھتا ہے یا نہيں ؟!

اس داستان کو ابن شہر آشوب نے اپنی کتاب “ مناقب ” ميں اس طرح نقل کيا ہے کہ :

جنگ بصرہ کے بعد ستر افراد سياہ فام امير المؤمنين عليہ السلام کی خدمت ميں حاضر ہوئے اور اپنی زبان ميں بات کی اور ان کا سجدہ کيا۔

ا مير المؤمنين نے فرمایا: افسوس ہو تم پر ! یہ کام نہ کرو ، کيوں کہ ميں بھی تمہاری طرح ایک مخلوق کے علاوہ کچھ نہيں ہوں ۔ ليکن وہ اپنی بات پر مصر رہے ۔ امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: خدا کی قسم ! اگر ميرے بارے ميں اپنے اس عقيدہ سے دست بردار ہوکر خداکی طرف نہيں پلٹے تو ميں تمہيں قتل کرڈالوں گا ۔ راوی کہتا ہے : جب وہ اپنے عقيدہ سے دست بردار ہونے پر آمادہ نہ ہوئے تو امير المؤمنين عليہ السلام نے حکم دیا کہ زمين کی کهدائی کرکے چند گڑهے تيار کئے جائيں اور ان ميں آگ جلادی جائے ۔ حضرت عليہ السلام کے غلام قنبران کو ایک ایک کرکے آگ ميں ڈالتے تھے ۔ امير المؤمنين عليہ السلام اس وقت اس مضمون کے اشعار پڑه رہے تھے ۔

جب ميں گناہ اور کسی برے کام کو دیکھتا ہوں تو ایک آگ روشن کرتا ہوں اور قنبر کو بلاتا ہوں !

اس کے بعد گڑهوں پر گڑهے کھودتا ہوں اور قنبر ميرے حکم سے گنہگاروں کو ان ميں ڈالتا ہے اس روداد کو مرحوم مجلسی نے بھی “ بحار الانوار ” ميں اور نوری نے ‘ مستدرک ”

ميں کتاب “مناقب ” سے نقل کيا ہے ۔

٣۔ مرحوم کلينی اور شيخ طوسی درج ذیل روایت کو امام صادق عليہ السلام سے یوں نقل کيا ہے:

کچھ لوگ امير المؤمنين عليہ السلام کے پاس آئے اور اس طرح سلام کيا :“ السلام عليک یا ربنا” سلام ہو آپ پراے ہمارے پروردگار!!

امير المؤمنين عليہ السلام نے ان سے کہا : اس خطرناک عقيدہ سے دست بردار ہوکر توبہ کرو۔ ليکن انہوں نے اپنے عقيدہ پر اصرار کيا امير المؤمنين عليہ السلام نے حکم دیا کہ دو گڑهے ایک دوسرے سے متصل کھود کر ایک سوراخ کے ذریعہ ان دونوں گڑهوں کو آپس ميں ملایا جائے جب ان کے توبہ سے نااميد ہوئے تو انهيں ایک گڑهے ميں ڈال کر دوسرے ميں آگ لگادی یہاں تک کہ وہ مرگئے ۔

۴ ۔شيخ طوسی اور شيخ صدوق نے امام صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے : ایک شخص امير المؤمنين عليہ السلام کی خدمت ميں حاضر ہوا ور کوفہ ميں مقيم دو مسلمانوں کے بارے ميں شہادت دی کہ اس نے دیکھا ہے کہ یہ دوشخص بت کے سامنے کھڑے ہوتے ہيں ا ور ان کی پوجا کرتے ہيں ۔ حضرت عليہ السلام نے فرمایا: افسوس ہو تم پر ! شاید تم نے غلط فہمی کی ہو ۔ اس کے بعد کسی دوسرے کو بھيجا تا کہ ان دو افراد کے حالات کا اچھی طرح جائزہ لے اور نزدیک سے مشاہد ہ کرے ۔حضرت عليہ السلام کے ایلچی نے وہی رپورٹ دی جو پہلے شخص نے دی تھی ۔ امير المؤمنين عليہ السلام نے ا نهيں اپنے پاس بلایا اور کہا: اپنے اس عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤ ! ليکن انہو ں نے اپنی بت پرستی پر اصرار کيا لہذا حضرت عليہ السلام کے حکم سے ایک گڑها کھودا گيا اور اس ميں آگ لگادی گئی اور ان دوا فراد کو آگ ميں ڈالدیا گيا ۔

۵ ۔ذہبی نقل کرتا ہے کہ کچھ لوگ امير المؤمنين عليہ السلام کے پاس آکر کہنے لگے:

آپ وہ ہيں ۔ اميرالمؤمنين عليہ السلام نے فرمایا : افسوس ہو تم پر ! ميں کون ہوں ؟ انہوں نے کہا : آپ ہمارے پروردگار ہيں ! حضرت نے فرمایا : اپنے اس عقيدہ سے توبہ کرو ! ليکن انہوں نے توبہ نہيں کی اور اپنے باطل عقيدہ پر ہٹ دهرمی کرتے ہوئے باقی رہے۔ امير المؤمنين عليہ السلام نے ان کا سر قلم کيا ۔ اس کے بعد ایک گڑها کھودا گيا اور قنبر سے فرمایا: قنبر لکڑی کے چندگٹهر لے آؤ ، اس کے بعدان کے جسموں کو نذر آتش کيا ۔ پھر اس مضمون کا ایک شعر پڑها:

” جب بھی ميں کسی برے کام کو دیکھتا ہوں ، آگ کو شعلہ ور کرکے قنبر کو بلاتا ہوں “

۶ ۔ ابن ابی الحدید ابو العباس سے نقل کرتا ہے کہ علی ابن ابيطالب عليہ السلام مطلع ہوئے کہ کچھ لوگ شيطان کے دهوکہ ميں آکر “ حضرت کی محبت ميں غلو ” کرکے حد سے تجاوز کرتے ہيں ، خدا اور اس کے پيغمبر کے لائے ہوئے کے بارے ميں کفر کرتے ہوئے حضرت کو خدا جانتے اور ان کی پرستش کرتے ہيں اور ان کے بارے ميں ایسے اعتقادرکھتے ہيں کہ وہ ان کے خالق اور رزق دینے والے ہيں ۔

ا مير المؤمنين عليہ السلام نے انہيں کہا کہ اس خطرناک عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤاور توبہ کرو ليکن انہوں نے اپنے عقيدہ پر اصرار کيا ۔ حضرت عليہ السلام نے جب ان کی ہٹ دهرمی دیکھی تو ایک گڑها کھودا اور اس ميں ڈال کر آگ اور دهویں سے انهيں جسمانی اذیت پہنچائی اور ڈرایا دهمکایا ۔

ليکن جتنا ان پر زیادہ دباؤ ڈالا گيا ، ان کے باطل عقيدہ کے بارے ميں ان کی ہٹ دهرمی بھی تيز تر ہوگئی، جب ان کی ایسی حالت دیکھی تو ان سب کو آگ کے شعلوں ميں جلادیا گيا ۔ اس کے بعد یہ شعر پڑهے :

”دیکھا کس طرح ميں نے گڑهے کھودے ” اس کے بعد وہی شعر پڑهے جو گزشتہ صفحات ميں بيان کئے گئے ہيں ۔

اس داستا ن کو نقل کرنے کے بعد ابن ابی الحدید کہتا ہے ہمارے علما ء مکتب خلفاء کے پيرو--۔-۔ نے اپنی کتابوں ميں درج کيا ہے : جب اميرالمؤمنين نے اس گروہ کو نذر آتش کيا تو انہوں نے فریاد بلند کی : اب ہمارے لئے ثابت ہوا کہ آپ ہمارے خدا ہيں ، آپ کا چچيرا بھائی جوآپ کا فرستادہ تھاکہتا تھا: آگ کے خدا کے سوا کوئی بھی آگ کے ذریعہ عذاب نہيں کرتا

٧۔ احمد بن حنبل عکرمہ سے نقل کرتے ہيں کہ امير المؤمنين عليہ السلام نے اسلام سے منحرف کچھ لوگوں کو نذر آتش کرکے ہلاک کر دیا یہ روئداد جب ابن عباس نے سنی تو اس نے کہا: اگر ان کا اختيار ميرے ہاتھ ميں ہوتا تو ميں ان کو ہرگز نذر آتش نہ کرتا کيونکہ رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے فرمایاہے : “ کسی کو عذاب خدا سے عذاب نہ کرنا ” ميں انهيں قتل کر ڈالتا ۔

جب ابن عباس کی یہ باتيں امير المؤمنين عليہ السلام تک پہنچيں تو انہوں نے فرمایا:

وہ ، یعنی ابن عباس نقطہ چينی کرنے ميں ماہر ہے “ویح ابن عم ابن عباس انه لغواص علی الهنات ”۔

ایک دوسری روایت کے مطابق جب ابن عباس کا بيان امير المؤمنين عليہ السلام تک پہنچا تو انہوں نے فرمایا: ابن عباس نے صحيح کہا ہے ۔

اس داستان کو شيخ طوسی نے “ مبسوط ” ميں یوں درج کيا ہے کہ: نقل کيا گيا ہے کہ ایک گروہ نے امير المؤمنين عليہ السلام سے کہا: آپ خدا ہيں ۔ حضرت نے ایک آگ روشن کی اور ان سب کو نذر آتش کر دیا۔ ابن عباس نے کہا؛ اگر ميں علی عليہ السلام کی جگہ پر ہوتا تو انهيں تلوار سے قتل کرتا کيوں کہ ميں نے پيغمبر خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم سے سنا ہے وہ فرماتے تھے : “ کسی کو عذاب خدا سے عذاب نہ کرنا ” جو بھی اپنا دین بدلے اسے قتل کرنا !

امير المؤمنين عليہ السلام نے اس سلسلہ ميں اپنا مشہور شعر پڑها ہے ١شيخ طوسی نے یہاں پر روایت کی سندکا ذکر نہيں کيا ہے ليکن احمد بن حنبل کے ساتھ روایت ميں اس کی سند کو خارجی مذہب عکرمہ تک پہنچایا ہے!

مرحوم کلينی نے امام صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے کہ امير المؤمنين عليہ السلام مسجد کوفہ ميں بيٹھے تھے کہ چند افراد جو ماہ رمضان ميں روزہ نہيں رکھتے تھے،

حضرت عليہ السلام کے پاس لائے گئے حضرت نے ان سے پوچھا : کياتم لوگوں نے افطار کی نيت سے کهانا کهایا ہے ؟

-جی ہاں ۔

-کيا تم دین یہود کے پيرو ہو ؟

- نہيں ۔

- دین مسيح کے پيرو ہو؟

- نہيں ۔

- پس تم کس دین کے پيرو ہو کہ اسلام کے ساتھ مخالفت کرتے ہو اور روزہ کو علی الاعلان توڑتے ہو؟

- ہم مسلمان ہيں ۔

-یقيناً مسافر تھے ، اس لئے روزہ نہيں رکھا ہے؟

- نہيں ۔

- پس یقيناً کسی بيماری ميں مبتلا ہو جس سے ہم مطلع نہيں ہيں تم خود جانتے ہو کيونکہ انسان اپنے بارے ميں د وسروں سے آگاہ تر ہے کيونکہ خدا نے فرمایا: الانسان علی نفسہ بصيرة ۔

-ہم کسی بيماری یا تکليف ميں مبتلا نہيں ہيں ۔

اس کے بعد امام صادق عليہ السلام نے فرمایا: یہاں پر امير المؤمنين عليہ السلام نے ہنس کر فرمایا : پس تم لوگ خدا کی وحدانيت اور محمد صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی رسالت کا اعتراف کرتے ہو؟

-ہم خدا کی وحدانيت کا اعتراف کرتے ہيں او رشہادت دیتے ہيں ليکن محمد کو نہيں پہچانتے ۔

-وہ رسول اور خدا کے پيغمبرہيں ۔

- ہم انهيں نبی کی حيثيت سے نہيں پہچانتے بلکہ اسے ایک بيابانی عرب جانتے ہيں کہ جس نے لوگوں کو اپنی طرف دعوت دی ہے۔

-تمہيں محمد صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی نبوت کا اعتراف کرنا ہوگا ورنہميں تمہيں قتل کرڈالوں گا!

-ہم ہرگز اعتراف نہيں کریں گےخواہ ہميں قتل کر دیا جائے۔

اس کے بعد امير المؤمنين عليہ السلام نے مامورین کو حکم دے کر کہا انهيں شہر سے باہر لے جاؤ پھر وہاں پر دو گڑهے ایک دوسرے سے نزدیک کھودو۔

پھر ان لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا : ميں تمہيں ان گڑهوں ميں سے ایک ميں ڈال دوں گا اور دوسرے گڑهے ميں آگ جلادوں گا اور تمہيں اس کے دهویں کے ذریعہ مار ڈالوں گا ۔

انہوں نے علی عليہ السلام کے جواب ميں کہا: جو چاہتے ہو انجام دو ، اور ہمارے بار ے ميں جو بھی حکم دینا چاہتے ہو اسے جاری کرو ۔ اس کے علاوہ اس دنيا ميں آپ کے ہاتھوں اور کوئی کام انجام نہيں پا سکتا ہےفانما تقضی هذه الحياة الدنيا ۔ حضرت نے انهيں آرام سے ان دو گڑهوں ميں سے ایک ميں ڈالا، اسکے بعد حکم دیاکہ دوسرے کنویں ميں آگ جلادیں ۔

اس کے بعد مکرر انهيں اس سلسلے ميں آواز دی کہ کيا کہتے ہو ؟ وہ ہر بار جواب ميں کہتے تھے: جو چاہتے ہو انجام دو اور ان کا یہ جواب تکرار ہورہا تھا ، یہاں تک کہ سب مرگئے ۔

راوی کہتا ہے کہ اس داستان کی خبر کاروانوں نے مختلف شہروں ميں پہنچادی اور تمام جگہوں پر بہترین طریقے سے اہم حادثہ کی صورت ميں نقل کرتے تھے اور لوگ بھی اس موضوع کو ایک دوسرے سے بيان کرتے تھے ۔

امير المؤمنين عليہ السلام اس واقعہ کے بعد ایک دن مسجدکوفہ ميں بيٹھے تھے کہ مدینہ کے یہودیوں ميں سے ایک شخص (جس کے اسلاف اور خود اس یہودی کے علمی مقام اور حيثيت کا سارے یہودی اعتراف کرتے تھے) اپنے کاروان کے چند افراد کے ہمراہ حضرت عليہ السلام سے ملاقات کرنے کيلئے کوفہ ميں داخل ہوا اور مسجد کوفہ کے نزدیک پہنچا اور اپنے اونٹوں کو بٹھا دیا اور مسجد کے دروازے کے پاس کھڑا ہوگيا اور ایک شخص کو امير المؤمنين عليہ السلام کے پاس بھيج دیا کہ ہم یہودیوں کا ایک گروہ، حجاز سے آیا ہے او رآپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہے کيا آپ مسجد سے باہر آئيں گے یا ہم خودمسجد ميں داخل ہوجائيں ؟

امام صادق عليہ السلام نے فرمایا: حضرت عليہ السلام ان کی طرف یہ جملہ کہتے ہوئے آئے: جلدی ہی اسلام قبول کریں گے اور بيعت کریں گے ۔

اس کے بعد علی عليہ السلام ے فرمایا : کيا چاہتے ہو ؟

ان کے سردار نے کہا: اے فرزند ابوطالب ! یہ کون سی بدعت ہے کہ جو آپ نے دین محمد ميں ایجاد کی ہے؟

علی عليہ السلام نے کہا: کونسی بدعت ؟

رئيس نے کہا: حجاز کے لوگوں ميں يہ افواہ پهيلی ہے کہ آپ نے ان لوگوں کو کہ جو خدا کی وحدانيت کا اقرار کرتےہيں ليکن محمد صلى اله عليه وسلمکی نبوت کا اعتراف نہ کرتے دهویں کے ذریعہ مار ڈالا ہے!

علی عليہ السلام : تجھے قسم دیتا ہوں ان نو معجزات کی جو طور سينا پر موسیٰ کو دئے گئے ہيں اور پنجگانہ کنيتوں اور صاحب سرِ ادیان کيلئے ، کيا نہيں جانتے ہو کہ موسیٰ کی وفا ت کے بعد کچھ لوگوں کو یوشع بن نون کے پاس لایا گيا جو خدا کی وحدانيت کا اعتراف کرتے تھے ليکن موسیٰ کی نبوت کو قبول نہيں کرتے تھے۔ یوشع بن نون نے انهيں دهویں کے ذریعہ قتل کيا ؟!

سردار : جی ہاں ، ایسا ہی تھا اور ميں شہادت دیتا ہوں کہ آپ موسی کے محرم راز ہيں ا س کے بعد یہودی نے اپنے آستين سے ایک کتاب نکالی اور امير المؤمنين عليہ السلام کے ہاتھ ميں دی ۔

حضرت عليہ السلام نے کتاب کهولی اس پر ایک نظر ڈالنے کے بعد روئے یہودی نے کہا:

اے ابن ابيطالب آپ کے رونے کا سبب کيا ہے ؟آپ نے جو اس خط پر نظر ڈالی کيا آپ اس مطلب کو سمجھ گئے ؟ جبکہ یہ خط سریانی زبان ميں لکھا گيا ہے اور آپ کی زبان عربی ہے ؟

امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: جی ہاں ، اس خط ميں ميرا نام لکھا ہے ۔

یہودی نے کہا: ذرا بتایئے تا کہ ميں جان لوں کہ سریانی زبان ميں آپ کا نام کيا ہے ؟ اور اس خط ميں اس نام کو مجھے دکھایئے!

امير المؤمنين عليہ السلام نے کہا: سریانی زبان ميں ميرانام “اليا ” ہے اس کے بعد اس یہودی کو اس خط ميں لفظ دکھایا ۔

اس کے بعد یہودی نے اسلام قبول کيا اور شہادتين کو زبان پر جاری کيا اور علی عليہ السلام کی بيعت کی پھر مسلمانوں کی مسجد ميں داخل ہوا یہاں پر اميرالمؤمنين نے حمد و ثنا اور خد اکا شکر بجالانے کے بعد کہا:

” شکر خدا کا کہ اس کے نزدیک ميں فراموش نہيں ہوا تھا ، شکر اس خداکا جس نے اپنے نزدیک ميرا نام ابرار اور نيکوں کاروں کے صحيفہ ميں درج کيا ہے اور شکر اس خدا کا جو صاحب جلال و عظمت ہے “

ابن ابی الحدید نے اس روداد کو دوسری صورت ميں نقل کيا ہے کہ علم و تحقيق کے ۴ ٢ ۵ کی طرف رجوع کرسکتے ہيں : / دلدادہ حضرات شرح نہج البلا غہ ج ١

٩۔ ہم ان روایتوں کچھ دوسری روایت کے ساتھ ختم کرتے ہيں جسکا باطل اور خرافات پر مشتمل ہونا واضح اور عياں ہے:

اس روایت کو ابن شاذان نے کتاب “ فضائل ” ميں درج کيا ہے اور ان سے مجلسی نے نقل کرکے بحا الانوار ميں درج کيا ہے اس کے علاوہ اسے علامہ نوری نے بھی ‘ عيون المعجزات ” سے نقل کرکے “ مستدرک ” ميں درج کيا ہے:

امير المؤمنين عليہ السلام ، کسریٰ کے مخصوص منجم کے ہمراہ کسری کے محل ميں داخل ہوئے اميرالمؤمنين عليہ السلام کی نظر ایک کونے ميں ایک بوسيدہ کهوپڑی پر پڑی حکم دیا ایک طشت لایا جائے اس ميں پانی ڈال کر کهوپڑی کو اس ميں رکھا گيا پھر اس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے کهوپڑی تجھے خداکی قسم دیکر پوچهتا ہوں تو بتا کہ ميں کون ہوں ؟ اور تم کون ہو ؟ کهوپڑی گویا ہوئی اور فصيح زبان ميں جواب دیا : آپ امير المؤمنين عليہ السلام اور سيدا وصياء ہيں ! ليکن، ميں بندہ خدا اور کنيز خدا کا بيٹا نوشيروان ہوں ؟

” ساباط ” کے چند باشندے ، امير المؤمنين عليہ السلام کے پاس تھے اور انہوں نے اس روداد کا عينی مشاہدہ کيا وہ اپنی آبادی اور قبيلہ کی طرف روانہ ہوئے اور جو کچھ اس کهوپڑی کے بارے ميں دیکھا تھا لوگوں ميں بيان کيا یہ روداد ان کے درميان اختلاف کا سبب بنی اور ہر گروہ نے اميرالمؤمنين عليہ السلام کے بارے ميں ایک قسم کے عقيدہ کا اظہار کيا ۔ کچھ لوگ حضرت عليہ السلام کے بارے ميں اسی چيز کے معتقد ہوئے جس کے عيسائی حضرت عيسیٰ کے بارے ميں معتقد تھے اور عبدالله بن سبا اور اس کے پيرؤں کا جيسا عقيدہ اختيار کيا ۔

ا ميرالمؤمنين عليہ السلام کے اصحاب نے اس بارے ميں حضرت علی عليہ السلام سے عرض کی : اگر لوگوں کو اسی اختلاف و افتراق کی حالت ميں رکھو گے تو دوسرے لوگ بھی کفر و بے دینی ميں گرفتار ہوں گے جب امير المؤمنين عليہ السلام نے اپنے اصحاب سے یہ باتيں سنيں تو فرمایا: آپ کے خيال ميں ان لوگوں سے کيسا برتاؤ کيا جانا چاہئے ؟ عرض کيا مصلحت اس ميں ہے کہ جس طرح عبدا لله بن سبا اور اس کے پيرؤں کو جلادیا گيا ہے۔ان لوگوں کو بھی نذر آتش کيجئے ۔ اس کے بعدا مير المؤمنين عليہ السلام نے انهيں اپنے پاس بلایا اور ان سے سوال کيا کہ : تمہارے اس باطل عقيدہ کا محرک کيا تھا ؟ انہوں نے کہا :ہم نے اس بوسيدہ کهوپڑی کی آپ کے ساتھ گفتگو کو سنا ، چونکہ اس قسم کا غير معمولی کام خدا کے علاوہ اورکسی کيلئے ممکن نہيں ہے لہذا ہم آپ کے بارے ميں اس طرح معتقد ہوئے۔

اميرالمؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: اس باطل عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤ اور خدا کی طرف لوٹ کر توبہ کرو، انہوں نے کہا: ہم اپنے اعتقاد کو نہيں چھوڑیں گے آپ ہمارے بارے ميں جو چاہيں کریں ۔ علی عليہ السلام جب ان کے توبہ کے بارے ميں نااميد ہوئے تو حکم دیا تا کہ آگ کو آمادہ کریں اس کے بعد سب کو اس آگ ميں جلادیا ۔ اسکے بعد ان جلی ہوئی ہڈیوں کو ٹنے کے بعد ہوا ميں بکهيرنے کا حکم دیا۔ حضرت کے حکم کے مطابق جلی ہوئی تمام ہڈیوں کو چور کرنے کے بعد ہوا ميں بکهير دیا گيا۔ اس روداد کے تين دن بعد “ ساباط” کے باشندے حضرت علی عليہ السلام کی خدمت ميں آئے اور عرض کيا : اے اميرالمؤمنين عليہ السلام ! دین محمد صلی الله عليہ و آلہ وسلم کا خيال رکھو ، کيوں کہ جنہيں آ پ نے جلا دیا تھا وہ صحيح و سالم بدن کے ساتھ اپنے گھروں کو لوٹے ہيں ، کيا آپ نے ان لوگوں کو نذر آتش نہيں کيا تھا اور ان کی ہڈیاں ہوا ميں نہيں بکهيریں تھيں ؟ اميرالمؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: جی ہاں ، ميں نے ان افراد کو جلا کر نابود کردیا، ليکن خداوند عالم نے انهيں زندہ کيا۔

یہاں پر “ ساباط” کے باشندے حيرت و تعجب کے ساتھ اپنی آبادی کی طرف لوٹے ۔

ایک اور روایت کے مطابق اميرالمؤمنين عليہ السلام نے انهيں نذر آتش نہيں کيا ۔ ليکن ان ميں سے کچھ لوگ بهاگ گئے اور مختلف شہروں ميں منتشر ہوئے اور کہا: اگر علی ابن ابيطالب مقام ربوبيت کے مالک نہ ہوتے تو ہميں نہ جلاتے ۔

یہ مرتدین کے احراق سے مربوط روایتوں کا ایک حصہ تھا کہ ہم نے اسے یہاں پر در ج کيا ۔ گزشتہ فصلوں ميں بيان کی گئی عبد الله بن سبا کی روایتوں کی جانچ پڑتال، تطبيق اور تحقيق انشاء الله اگلی فصل ميں کریں گے۔

روایات احراق مرتد کی بحث و تحقيق ان احداً من فقهاء المسلمين لم یعتقد هذه الروایات

علمائے شيعہ و سنی ميں سے کسی ایک نے بھی احراق مرتد کی روایتوں پر عمل نہيں کيا ہے مؤلف جو کچھ گزشتہ فصلوں ميں بيان ہوا وہ عبدا لله بن سبا اس کے نذر آتش کرنے اور اس سلسلہ ميں حدیث و رجال کی شيعہ و سنی کتابوں سے نقل کی گئی مختلف اور متناقض روایتوں کا ایک خلاصہ تھا ۔

ليکن تعجب کی بات ہے کہ اسلامی دانشوروں اور فقہاء ، خواہ شيعہ ہوں یا سنی ان ميں سے کسی ایک نے بھی ان روایتوں کے مضمون پر اعتماد نہيں کيا ہے اور شخص مرتد کو جلانے کا فتوی نہيں دیا ہے بلکہ شيعہ و سنی تمام فقہاء نے ان روایتوں کے مقابلے ميں رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم اور ائمہ ہدی سے نقل کی گئی روایتوں پر استناد کرکے مرتد کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے نہ جلانے کا۔

اب ہم یہاں پر مرتدوں کے بارے ميں حکم کے سلسلے ميں شيعہ و سنی علماء کا نظریہ بيان کریں گے اور اس کے بعد ان روایات کے بارے ميں بحث وتحقيق کا نتيجہ پيش کریں گے ۔

اہل سنت علماء کی نظر ميں مرتد کا حکم ابو یوسف کتاب ‘ ‘ الخراج ” ميں مرتد کے حکم کے بارے ميں کہتا ہے:

اسلام سے کفر کی طرف ميلان پيدا کرنے والے اور کافر افراد جو ظاہراً اسلام لانے کے بعد پھر سے اپنے کفر کی طرف پلٹ گئے ہوں اور اسی طرح یہودی و عيسائی و زرتشتی اسلام قبول کرنے کے بعد دوبارہ اپنے پہلےمذہب اور آئين کی طرف پلٹ گئے ہوں ایسے افرا دکے حکم کے بارے ميں اسلامی علماء ميں اختلاف پایا جاتا ہے ۔

ان ميں سے بعض کہتے ہيں : اس قسم کے افراد کو توبہ کرکے دوبارہ اسلام ميں آنے کی دعوت دی جانی چاہئے اور اگر انہوں نے قبول نہ کيا توقتل کر دیا جائے بعض دوسرے کہتے ہيں : ایسے افراد کيلئے توبہ کی تجویز ضروری نہيں ہے بلکہ جو ں ہی مرتد ہوجائيں اور اسلام سے منہ موڑیں ، انہيں قتل کيا جائے ۔

اس کے بعد ابو یوسف طرفين کی دليل کو جو پيغمبر اکرم صلی الله عليہ و آلہ وسلم سے نقل کی گئی احادیث پر مبنی ہيں بيان کرتا ہے اور مرتد کو قابل توبہ جاننے والوں کے دلائل کے ضمن ميں عمر بن خطاب کا حکم نقل کرتا ہے کہ جب اسے فتح “ تستر” ميں خبر دی گئی کہ مسلمانوں ميں سے ایک شخص مشرک ہو گيا ہے اور اسے گرفتا رکيا گيا ہے عمر نے کہا ؛ تم لوگوں نے اسے کيا کيا ؟ انہوں نے کہا: ہم نے اسے قتل کردیا عمرنے مسلمانوں کے اس عمل پر اعتراض کيا اور کہا: اسے پہلے ایک گھر ميں قيدی بنانا چاہئے تھا اور تين دن تک اسے کهانا پانی دیتے ، اور اس مدت کے دوران اسے توبہ کرنے کی تجویز پيش کرتے اگر وہ اسے قبول کرکے دوبارہ اسلام کے دامن ميں آجاتا تو اسے معاف کرتے اور اگر قبول نہ کرتا تو اسے قتل کر ڈالتے ۔

ابو یوسف اس نظریہ کی تائيد ميں کہ پہلے مرتد سے توبہ کا مطالبہ کرنا چاہئے ایک داستان بيان کرتے ہوئے کہتا ہے : ایک دن “ معاذ” ، ابو موسی کے پاس آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کے سامنے کوئی بيٹها ہوا ہے اس سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہے ؟ ابو موسی نے کہا؛

یہ ایک یہودی ہے جس نے اسلام قبول کيا تھا ليکن دوبارہ یہودیت کی طرف پلٹے ہوئے ابھی دو مہينے گزررہے ہيں کہ ہم اسے توبہ کے ساتھ اسلام کو قبول کرنے کی پيش کش کررہے ہيں ليکن اس نے ابھی تک ہماری تجویز قبول نہيں کی ہے معاذ نے کہا: ميں اس وقت تک نہيں بيٹھوں گا جب تک کہ خدا اور پيغمبر خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے حکم سے اس کا سر قلم نہ کروں ۔

اس کے بعد ابویوسف کہتا ہے ؛ بہترین حکم اور نظریہ جو ہم نے اس بارے ميں سنا (بہترین حکم کو خدا جانتا ہے ) کہ مرتدوں سے ، پہلے تو بہ طلب کی جاتی ہے اگر قبول نہ کياتو پھر سر قلم کرتے ہيں ۔

یہ نظریہ مشہور احادیث اور بعض فقہاء کے عقيدہ کا مضمون ہے کہ ہم نے اپنی زندگی ميں دیکھا ہے ۔

ا بو یوسف اضافہ کرتا ہے :ليکن عورتيں جو اسلام سے منحرف ہوتی ہيں ، قتل نہيں کی جائيں گی، بلکہ انهيں جيل بھيجنا چاہئے اور انهيں اسلام کی دعوت دینی چاہئے اور قبول نہ کرنے کی صورت ميں مجبور کيا جانا چاہئے ۔

ا بو یوسف کے اس بيان سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام علمائے اہل سنت کا اس مطلب پر اتفاق ہے کہ شخص مرتد کی حد ، قتل ہے اس نے قتل کی کيفيت کو بھی بيان کيا ہے کہ اس کا سر قلم کيا جانا چاہئے اس سلسلہ ميں علماء کے درميان صرف اس بات پر اختلاف ہے کہ کيا یہ حد اور مرتد کا قتل کيا جانا تو بہ کا مطالبہ کرنے سے پہلے انجام دیا جائے یا توبہ کا مطالبہ کرنے کے بعداسے توبہ قبول نہ کرنے کی صورت ميں ۔

ابن رشد “ بدایة المجتہد ” ميں “ حکم مرتد” کے باب ميں کہتا ہے علمائے اسلام اس بات پر متفق ہيں کہ اگر مرتد کو جنگ سے پہلے پکڑ ليا جائے تو اسے رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے حکم کے مطابق قتل کيا جانا چاہئے فرمایا ہے : ہر وہ مسلمان جو اپنا دین بدلے اسے قتل کيا جانا چاہئے“

یہ تھا مرتد کے بارے ميں علمائے اہل سنت کا نظریہ

شيعہ علماء کی نظر ميں مرتد کا حکم

مرتد کے بارے ميں شيعہ علماء کا عقيدہ ایک حدیث کا مضمون ہے جسے مرحوم کلينی ، صدوق اور شيخ طوسی نے امام صادق عليہ السلام سے اور انہوں نے اميرالمؤمنين عليہ السلام سے نقل کيا ہے: مرتد کی بيوی کو اس سے جدا کرناچاہئے اس کے ہاتھ کا ذبيحہ بھی حرام ہے تين دن تک اس سے توبہ کی درخواست کی جائے گی اگر اس مدت ميں اس نے توبہ نہيں کی تو چوتھے دن قتل کيا جائے گا۔

” من لا یحضرہ الفقيہ ” ميں مذکورہ حدیث کے ضمن ميں یہ جملہ بھی آیا ہے اگر صحيح اور سالم عقل رکھتا ہو ۔

امام باقر عليہ السلام اور امام صادق عليہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ انہوں نے فرمایا:

مرتد سے توبہ کی درخواست کی جانی چاہئے اگر اس نے توبہ نہ کی تو اسے قتل کرناچاہئے ليکن اگر کوئی عورت مرتد ہوجائے تو اس سے بھی توبہ کی درخواست کی جاتی ہے اور اگر وہ توبہ نہ کرے اور اسلام کی طرف دوبارہ نہ پلٹے تو اسے عمر بھر قيد کی سزا دی جاتی ہے اور زندان ميں بھی اس سے سختی کی جاتی ہے ۔

حضرت امام رضا عليہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ کسی نے ان سے سوال کيا کہ ایک شخص مسلمان ماں باپ سے پيدا ہوا ہے ، اس کے بعد اسلام سے منحرف ہو کر کفر و الحاد کی طرف مائل ہوگيا تو کيا اس قسم کے شخص سے توبہ کی درخواست کی جائے گی؟ یا تو بہ کی درخواست کے بغير اسے قتل کيا جائے گا؟

ا مام نے جواب ميں لکھا “و یقتل ” یعنی توبہ کی درخواست کئے بغير قتل کيا جائے گا۔

امير المؤمنين عليہ السلام کے ایک گورنر نے ان سے سوال کيا کہ : ميں نے کئی مسلمانوں کو دیکھا کہ اسلام سے منحرف ہو کر کافر ہو گئے ہيں اور عيسائيوں کے ایک گروہ کو دیکھا کہ کافر ہو گيا ہے۔ اميرالمؤمنين عليہ السلام نے جواب ميں لکھا : ہر مسلمان مرتد جو فطرت اسلام ميں پيدا ہوا ہے، یعنی مسلمان ماں باپ سے پيدا ہوا ہے پھر اس کے بعد کافر ہو گيا تو توبہ کی درخواست کے بغير اس کا سر قلم کرنا چاہئے، ليکن جو مسلمان فطرت اسلام ميں پيدا نہيں ہوا ہے ( مسلمان ماں باپ سے پيدا نہيں ہوا ہے) اگر مرتد ہوا تو پہلے اس سے توبہ کی درخواست کرنا چاہئے، اگر اس نے توبہ نہ کی تو اس کا سر قلم کرنا ليکن، عيسائيوں کا عقيدہ کافروں سے بد تر ہے ان سے تمہيں کوئی سرو کار نہيں ہونا چاہئے۔

ا ميرالمؤمنين عليہ السلام نے محمد بن ابی بکر کے مصر سے سورج او ر چاند کو پوجا کرنے والے ملحدوں اور اسلام سے منحرف ہوئے لوگوں کے بارے ميں کئے گئے ایک سوال کے جواب ميں یوں لکھا : جو اسلام کا دعوی کرتے تھے پھر اسلام سے منحرف ہوئے ہيں ، انهيں قتل کرنا اور دوسرے عقاید کے ماننے والوں کو آزاد چھوڑ دینا وہ جس کی چاہيں پر ستش کریں ۔

گزشتہ روایتوں ميں ا ئمہ سے روایت ہوئی ہے کہ مرتد کی حد قتل ہے ۔

ا یک روایت ميں یہ بھی ملتا ہےکہ امير المومنين نے مرتد کے بارے ميں قتل کا نفاذ فرمایا ہے چنانچہ ، کلينی امام صادق عليہ السلام سے نقل کرتے ہيں : ایک مرتد کو اميرالمؤمنين عليہ السلام کی خدمت ميں لایا گيا ۔ حضرت عليہ السلام نے اس شخص کا سر قلم کيا عرض کيا گيا یا اميرالمؤمنين اس شخص کی بہت بڑی دولت و ثروت ہے یہ دولت کس کو دی جانی چاہئے ؟ حضرت عليہ السلام نے فرمایا: اس کی ثروت اس کی بيوی اور بچوں اور وارثوں ميں تقسيم ہوگی ۔

پھر نقل ہو ا ہے ایک بوڑها اسلام سے منحرف ہوکر عيسائی بنا امير المومنين عليہ السلام نے اس سے فرمایا: کيا اسلام سے منحرف ہوگئے ہو؟ اس نے جواب ميں کہا: ہاں ،

فرمایا شاید اس ارتداد ميں تمہارا کوئی مادی مقصد ہو اور بعد ميں پھر سے اسلام کی طرف چلے آؤ؟ اس نے کہا: نہيں ۔ فرمایا : شاید کسی لڑکی سے عشق و محبت کی وجہ سے اسلام سے منحرف ہوگئے ہو اور اس کے ساتھ شادی کرنے کے بعد پھر سے اسلام کی طرف واپس آجاؤ گے ؟ عرض کيا : نہيں امام نے فرمایا: بہر صورت اب توبہ کر کے اسلام کی طرف واپس آجا اس نے کہا: ميں اسلام کو قبول نہيں کرتا ہوں ۔ یہاں پر امام نے اسے قتل کر ڈالا ١

ی ہ ان روایتوں کا ایک حصہ تھا جو مرتد کی حد ومجازات کے بارے ميں نقل کی گئی ہيں اس کے علاوہ اس مضمون کی اور بھی بہت سے روایتيں موجو د ہيں ۔

بحث کا نتيجہ جو کچھ مرتد کی حد کے بارے ميں بيان ہوا اس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ مرتد کے حد کے بارے ميں تمام علمائے شيعہ و سنی کا عمل و بيان اور اس بارے ميں نقل کی گئی روایتيں احراق مرتد کی روایتوں کی بالکل برعکس تھيں اور ان ميں یہ بات واضح ہے کہ مرتد کی حد ،

قتل ہے نہ جلانا۔

اس کے علاوہ یہ روایتيں واضح طور پر دلالت کرتی ہيں کہ امام عليہ السلام نے مرتد کے بارے ميں قتل کو عملاً نافذ کيا ہے یہ بات بالکل واضح ہے کہ عربی لغت ميں “ قتل ” کسی شخص کو تلوار ، نيزہ ، پتهر ، لکڑی اور زہر جيسے کسی آلہ سے مارڈالنا ہے ۔ اس کے مقابلہ ميں “ حرق” آگ ميں جلانا ہے اور ” صلب” پهانسی کے پهندے پر لٹکانا ہے ۔

جو کچھ ہم نے اس فصل ميں کہا وہ احراق سے مربوط روایتوں کا ایک ضعف تھا انشاء الله اگلی فصل ميں مزید تحقيق کرکے دوسرے ضعيف نقطوں کی طرف اشارہ کيا جائے گا۔

مرتد کو جلانے کی روایتيں

انی اذا بصرت امراً منکراً اوقدت ناری ودعوت قنبر

جب ميں سماج ميں کسی برے کا م کا مشاہدہ کرتا ہوں تو اپنی آگ جلاتا ہوں اور اپنی نصرت کے لئے قنبر کو بلاتا ہوں ۔

ہم نے گزشتہ فصلوں ميں بتایا کہ کشی کی جن پانچ روایتوں ميں عبدا لله بن سبا کا نام آیا ہے وہ چند پہلو سے خدشہ دار اور ناقابل قبول ہيں ۔ ان کے ضعف کا ایک پہلو وہی تناقض ہے جو یہ روایتيں چند دوسری روایتوں کے ساتھ رکھتی ہيں ، کيونکہ کشی کی پنجگانہ روایتيں ،

علی عليہ السلام کے بارے ميں غلو کا موضوع ، انکی الوہيت کا اعتقاد ، اور داستان احراق اور ان پر عبد الله بن سبا کو جلانے کی نسبت دیتی ہيں ، ليکن روایتوں کا ایک دوسرا سلسلہ ان رودادوں کو دوسرے افراد کے بارے ميں نقل کرتی ہيں چنانچہ :

١۔ کشی مزید کہتا ہے:

جب امير المؤمنين عليہ السلام اپنی بيوی ( ام عمرو عنزیہ ) کے گھر ميں تھے ۔ حضرت کا غلام ، قنبر آیا اور عرض کيا یا امير المؤمنين عليہ السلام ! دس افراد گھر کے باہر کھڑے ہيں اور اعتقاد رکھتے ہيں کہ آپ ان کے خدا ہيں ۔

امام نے فرمایا: انہيں گھر ميں داخل ہونے کی اجازت دیدو ۔

کہتا ہے جب یہ دس آدمی داخل ہوئے تو حضرت نے سوال کيا : ميرے بارے ميں تمہارا عقيدہ کيا ہے ؟

انہوں نے کہا؛ “ ہم معتقد ہيں کہ آپ ہمارے پروردگار ہيں اور یہ آپ ہی ہيں جس نے ہميں خلق کيا ہے اور ہمارا رزق آپ کے ہاتھ ميں ہے“

امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: افسوس ہو تم پر ! اس عقيدہ کو نہ اپناؤ ، کيونکہ ميں بھی تمہاری طرح ایک مخلوق ہوں ۔ ليکن وہ اپنے عقيدہ سے باز نہيں آئے۔

امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: افسوس ہو تم پر ! ميرا اور تمہارا پروردگار الله ہے !

افسوس ہو تم پر توبہ کرو اور اس باطل عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤ!

انہوں نے کہا: ہم اپنے عقيدہ اور بيان سے دست بردار نہيں ہوں گے اور آپ ہمارے خدا ہيں ، ہميں خلق کيا ہے اور ہميں رزق دیتے ہيں ۔

اس وقت امام نے قنبر کو حکم دیا تا کہ چند مزدوروں کو لائے ، قنبر گئے اور امام کے حکم کے مطابق دو مزدوروں کو بيل و زنبيل کے ہمراہ لائے۔ امام نے حکم دیا کہ یہ دو مزدور زمين کھودیں ۔ جب ایک لمبا گڑها تيار ہوا تو حکم دیا کہ لکڑی اور آگ لائيں ۔ تمام لکڑیوں کو گڑهے ميں ڈال کر آگ لگادی گئی شعلے بهڑکنے لگے اس کے بعد علی عليہ السلام نے ان دس افراد سے جو ان کی الوہيت کے قائل تھے --دوسری بار فرمایا : افسوس ہو تم پر ! اپنی بات سے دست بردار ہوجاؤ ، اس کے بعد امير المؤمنين عليہ السلام نے ان ميں سے بعض کو آگ ميں ڈال دیا یہاں تک کہ دوسری بار باقی لوگوں کو بھی آگ ميں ڈال دیا ۔ اس کے بعد مندرجہ ذیل مضمون کا ایک شعر پڑها:

”جب ميں کسی گناہ یا برے کام کو دیکھتا ہوں ، آگ جلا کر قنبر کو بلاتا ہوں ”

کشی نے اس روایت کو “ مقلاص ” کی زندگی کے حالات ميں مفصل طور پر اور “ قنبر ”

کی زندگی کے حالات ميں خلاصہ کے طور پر نقل کيا ہے ۔ مجلسی نے بھی اسی روایت کو کشی سے نقل کرکے “بحار الانوار ” ميں درج کيا ہے ۔

٢۔دوبارہ کشی ، کلينی، صدوق ، فيض ، شيخ حر عاملی اور مجلسی نے نقل کيا ہے :

ایک شخص نے امام باقر اور امام صادق عليہما السلام سے نقل کيا ہے : جب امير المؤمنين عليہ السلام بصرہ کی جنگ سے فارغ ہوئے تو ستر افراد “ زط” سياہ فام حضرت کی خدمت ميں آئے اور انهيں سلام کيا ۔ اس کے بعد اپنی زبان ميں ان سے گفتگو کرنے لگے ۔

ا مير المؤمنين نے بھی ان کی ہی زبان ميں انهيں جواب دیا ۔ اس کے بعد فرمایا جو کچھ

تم ميرے بارے ميں تصور کرتے ہو ميں وہ نہيں ہوں بلکہ ميں بھی تمہاری طرح بندہ اور خدا کی مخلوق ہوں ۔ ليکن انہوں نے اس بات کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا: آپ خدا ہيں ۔

ا مير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: اگر اپنی باتوں سے پيچھے نہيں ہٹتے اور خدا کی بارگاہ ميں توبہ نہيں کرتے اور ميرے بارے ميں رکھنے والے عقيدہ سے دست بردار نہيں ہوتے ہو تو ميں تمہيں قتل کرڈالوں گا ، چونکہ انہوں نے تو بہ کرنے سے انکار کيا اور اپنے باطل عقيدہ سے دست بردار نہيں ہوئے ، لہذا امير المؤمنين علی عليہ السلام نے حکم دیا کہ کئی کنویں کھودے جائيں اور ان کنوؤں کو زمين کے نيچےسے سوراخ کرکے آپس ميں ملا دیا جائے اس کے بعد حکم دیا کہ ان افراد کو ان کنوؤں ميں ڈال کر اوپر سے انهيں بند کردو ۔ صرف ایک کنویں کا منہ کهلا ہوا تھااس ميں آگ جلادی گئی اور اس آگ ميں دهواں کنوؤں کے آپس ميں رابطہ دینے کے سوراخوں سے ہر کنویں ميں پہنچا اور اسی دهویں کی وجہ سے یہ سب لوگ مرگئے!

اس واقعہ کو بزرگ علماء نے ایک گمنام “ شخص” سے نقل کيا ہے کہ جس کاکوئی نام و نشان نہيں ہے اور ہم نہيں جانتے کہ یہ شخص جس نے امام باقر عليہ السلام اور امام صادق عليہ السلام سے یہ روایت نقل کی ہے ، کون ہے ؟ کہاں اور کب زندگی کرتا تھا ، اور کيا بنيادی طور پر اس قسم کا کوئی راوی حقيقت ميں وجود رکھتا ہے یا نہيں ؟!

اس داستان کو ابن شہر آشوب نے اپنی کتاب “ مناقب ” ميں اس طرح نقل کيا ہے کہ :

جنگ بصرہ کے بعد ستر افراد سياہ فام امير المؤمنين عليہ السلام کی خدمت ميں حاضر ہوئے اور اپنی زبان ميں بات کی اور ان کا سجدہ کيا۔

ا مير المؤمنين نے فرمایا: افسوس ہو تم پر ! یہ کام نہ کرو ، کيوں کہ ميں بھی تمہاری طرح ایک مخلوق کے علاوہ کچھ نہيں ہوں ۔ ليکن وہ اپنی بات پر مصر رہے ۔ امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: خدا کی قسم ! اگر ميرے بارے ميں اپنے اس عقيدہ سے دست بردار ہوکر خداکی طرف نہيں پلٹے تو ميں تمہيں قتل کرڈالوں گا ۔ راوی کہتا ہے : جب وہ اپنے عقيدہ سے دست بردار ہونے پر آمادہ نہ ہوئے تو امير المؤمنين عليہ السلام نے حکم دیا کہ زمين کی کهدائی کرکے چند گڑهے تيار کئے جائيں اور ان ميں آگ جلادی جائے ۔ حضرت عليہ السلام کے غلام قنبران کو ایک ایک کرکے آگ ميں ڈالتے تھے ۔ امير المؤمنين عليہ السلام اس وقت اس مضمون کے اشعار پڑه رہے تھے ۔

جب ميں گناہ اور کسی برے کام کو دیکھتا ہوں تو ایک آگ روشن کرتا ہوں اور قنبر کو بلاتا ہوں !

اس کے بعد گڑهوں پر گڑهے کھودتا ہوں اور قنبر ميرے حکم سے گنہگاروں کو ان ميں ڈالتا ہے اس روداد کو مرحوم مجلسی نے بھی “ بحار الانوار ” ميں اور نوری نے ‘ مستدرک ”

ميں کتاب “مناقب ” سے نقل کيا ہے ۔

٣۔ مرحوم کلينی اور شيخ طوسی درج ذیل روایت کو امام صادق عليہ السلام سے یوں نقل کيا ہے:

کچھ لوگ امير المؤمنين عليہ السلام کے پاس آئے اور اس طرح سلام کيا :“ السلام عليک یا ربنا” سلام ہو آپ پراے ہمارے پروردگار!!

امير المؤمنين عليہ السلام نے ان سے کہا : اس خطرناک عقيدہ سے دست بردار ہوکر توبہ کرو۔ ليکن انہوں نے اپنے عقيدہ پر اصرار کيا امير المؤمنين عليہ السلام نے حکم دیا کہ دو گڑهے ایک دوسرے سے متصل کھود کر ایک سوراخ کے ذریعہ ان دونوں گڑهوں کو آپس ميں ملایا جائے جب ان کے توبہ سے نااميد ہوئے تو انهيں ایک گڑهے ميں ڈال کر دوسرے ميں آگ لگادی یہاں تک کہ وہ مرگئے ۔

۴ ۔شيخ طوسی اور شيخ صدوق نے امام صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے : ایک شخص امير المؤمنين عليہ السلام کی خدمت ميں حاضر ہوا ور کوفہ ميں مقيم دو مسلمانوں کے بارے ميں شہادت دی کہ اس نے دیکھا ہے کہ یہ دوشخص بت کے سامنے کھڑے ہوتے ہيں ا ور ان کی پوجا کرتے ہيں ۔ حضرت عليہ السلام نے فرمایا: افسوس ہو تم پر ! شاید تم نے غلط فہمی کی ہو ۔ اس کے بعد کسی دوسرے کو بھيجا تا کہ ان دو افراد کے حالات کا اچھی طرح جائزہ لے اور نزدیک سے مشاہد ہ کرے ۔حضرت عليہ السلام کے ایلچی نے وہی رپورٹ دی جو پہلے شخص نے دی تھی ۔ امير المؤمنين عليہ السلام نے ا نهيں اپنے پاس بلایا اور کہا: اپنے اس عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤ ! ليکن انہو ں نے اپنی بت پرستی پر اصرار کيا لہذا حضرت عليہ السلام کے حکم سے ایک گڑها کھودا گيا اور اس ميں آگ لگادی گئی اور ان دوا فراد کو آگ ميں ڈالدیا گيا ۔

۵ ۔ذہبی نقل کرتا ہے کہ کچھ لوگ امير المؤمنين عليہ السلام کے پاس آکر کہنے لگے:

آپ وہ ہيں ۔ اميرالمؤمنين عليہ السلام نے فرمایا : افسوس ہو تم پر ! ميں کون ہوں ؟ انہوں نے کہا : آپ ہمارے پروردگار ہيں ! حضرت نے فرمایا : اپنے اس عقيدہ سے توبہ کرو ! ليکن انہوں نے توبہ نہيں کی اور اپنے باطل عقيدہ پر ہٹ دهرمی کرتے ہوئے باقی رہے۔ امير المؤمنين عليہ السلام نے ان کا سر قلم کيا ۔ اس کے بعد ایک گڑها کھودا گيا اور قنبر سے فرمایا: قنبر لکڑی کے چندگٹهر لے آؤ ، اس کے بعدان کے جسموں کو نذر آتش کيا ۔ پھر اس مضمون کا ایک شعر پڑها:

” جب بھی ميں کسی برے کام کو دیکھتا ہوں ، آگ کو شعلہ ور کرکے قنبر کو بلاتا ہوں “

۶ ۔ ابن ابی الحدید ابو العباس سے نقل کرتا ہے کہ علی ابن ابيطالب عليہ السلام مطلع ہوئے کہ کچھ لوگ شيطان کے دهوکہ ميں آکر “ حضرت کی محبت ميں غلو ” کرکے حد سے تجاوز کرتے ہيں ، خدا اور اس کے پيغمبر کے لائے ہوئے کے بارے ميں کفر کرتے ہوئے حضرت کو خدا جانتے اور ان کی پرستش کرتے ہيں اور ان کے بارے ميں ایسے اعتقادرکھتے ہيں کہ وہ ان کے خالق اور رزق دینے والے ہيں ۔

ا مير المؤمنين عليہ السلام نے انہيں کہا کہ اس خطرناک عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤاور توبہ کرو ليکن انہوں نے اپنے عقيدہ پر اصرار کيا ۔ حضرت عليہ السلام نے جب ان کی ہٹ دهرمی دیکھی تو ایک گڑها کھودا اور اس ميں ڈال کر آگ اور دهویں سے انهيں جسمانی اذیت پہنچائی اور ڈرایا دهمکایا ۔

ليکن جتنا ان پر زیادہ دباؤ ڈالا گيا ، ان کے باطل عقيدہ کے بارے ميں ان کی ہٹ دهرمی بھی تيز تر ہوگئی، جب ان کی ایسی حالت دیکھی تو ان سب کو آگ کے شعلوں ميں جلادیا گيا ۔ اس کے بعد یہ شعر پڑهے :

”دیکھا کس طرح ميں نے گڑهے کھودے ” اس کے بعد وہی شعر پڑهے جو گزشتہ صفحات ميں بيان کئے گئے ہيں ۔

اس داستا ن کو نقل کرنے کے بعد ابن ابی الحدید کہتا ہے ہمارے علما ء مکتب خلفاء کے پيرو--۔-۔ نے اپنی کتابوں ميں درج کيا ہے : جب اميرالمؤمنين نے اس گروہ کو نذر آتش کيا تو انہوں نے فریاد بلند کی : اب ہمارے لئے ثابت ہوا کہ آپ ہمارے خدا ہيں ، آپ کا چچيرا بھائی جوآپ کا فرستادہ تھاکہتا تھا: آگ کے خدا کے سوا کوئی بھی آگ کے ذریعہ عذاب نہيں کرتا

٧۔ احمد بن حنبل عکرمہ سے نقل کرتے ہيں کہ امير المؤمنين عليہ السلام نے اسلام سے منحرف کچھ لوگوں کو نذر آتش کرکے ہلاک کر دیا یہ روئداد جب ابن عباس نے سنی تو اس نے کہا: اگر ان کا اختيار ميرے ہاتھ ميں ہوتا تو ميں ان کو ہرگز نذر آتش نہ کرتا کيونکہ رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے فرمایاہے : “ کسی کو عذاب خدا سے عذاب نہ کرنا ” ميں انهيں قتل کر ڈالتا ۔

جب ابن عباس کی یہ باتيں امير المؤمنين عليہ السلام تک پہنچيں تو انہوں نے فرمایا:

وہ ، یعنی ابن عباس نقطہ چينی کرنے ميں ماہر ہے “ویح ابن عم ابن عباس انه لغواص علی الهنات ”۔

ایک دوسری روایت کے مطابق جب ابن عباس کا بيان امير المؤمنين عليہ السلام تک پہنچا تو انہوں نے فرمایا: ابن عباس نے صحيح کہا ہے ۔

اس داستان کو شيخ طوسی نے “ مبسوط ” ميں یوں درج کيا ہے کہ: نقل کيا گيا ہے کہ ایک گروہ نے امير المؤمنين عليہ السلام سے کہا: آپ خدا ہيں ۔ حضرت نے ایک آگ روشن کی اور ان سب کو نذر آتش کر دیا۔ ابن عباس نے کہا؛ اگر ميں علی عليہ السلام کی جگہ پر ہوتا تو انهيں تلوار سے قتل کرتا کيوں کہ ميں نے پيغمبر خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم سے سنا ہے وہ فرماتے تھے : “ کسی کو عذاب خدا سے عذاب نہ کرنا ” جو بھی اپنا دین بدلے اسے قتل کرنا !

امير المؤمنين عليہ السلام نے اس سلسلہ ميں اپنا مشہور شعر پڑها ہے ١شيخ طوسی نے یہاں پر روایت کی سندکا ذکر نہيں کيا ہے ليکن احمد بن حنبل کے ساتھ روایت ميں اس کی سند کو خارجی مذہب عکرمہ تک پہنچایا ہے!

مرحوم کلينی نے امام صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے کہ امير المؤمنين عليہ السلام مسجد کوفہ ميں بيٹھے تھے کہ چند افراد جو ماہ رمضان ميں روزہ نہيں رکھتے تھے،

حضرت عليہ السلام کے پاس لائے گئے حضرت نے ان سے پوچھا : کياتم لوگوں نے افطار کی نيت سے کهانا کهایا ہے ؟

-جی ہاں ۔

-کيا تم دین یہود کے پيرو ہو ؟

- نہيں ۔

- دین مسيح کے پيرو ہو؟

- نہيں ۔

- پس تم کس دین کے پيرو ہو کہ اسلام کے ساتھ مخالفت کرتے ہو اور روزہ کو علی الاعلان توڑتے ہو؟

- ہم مسلمان ہيں ۔

-یقيناً مسافر تھے ، اس لئے روزہ نہيں رکھا ہے؟

- نہيں ۔

- پس یقيناً کسی بيماری ميں مبتلا ہو جس سے ہم مطلع نہيں ہيں تم خود جانتے ہو کيونکہ انسان اپنے بارے ميں د وسروں سے آگاہ تر ہے کيونکہ خدا نے فرمایا: الانسان علی نفسہ بصيرة ۔

-ہم کسی بيماری یا تکليف ميں مبتلا نہيں ہيں ۔

اس کے بعد امام صادق عليہ السلام نے فرمایا: یہاں پر امير المؤمنين عليہ السلام نے ہنس کر فرمایا : پس تم لوگ خدا کی وحدانيت اور محمد صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی رسالت کا اعتراف کرتے ہو؟

-ہم خدا کی وحدانيت کا اعتراف کرتے ہيں او رشہادت دیتے ہيں ليکن محمد کو نہيں پہچانتے ۔

-وہ رسول اور خدا کے پيغمبرہيں ۔

- ہم انهيں نبی کی حيثيت سے نہيں پہچانتے بلکہ اسے ایک بيابانی عرب جانتے ہيں کہ جس نے لوگوں کو اپنی طرف دعوت دی ہے۔

-تمہيں محمد صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی نبوت کا اعتراف کرنا ہوگا ورنہميں تمہيں قتل کرڈالوں گا!

-ہم ہرگز اعتراف نہيں کریں گےخواہ ہميں قتل کر دیا جائے۔

اس کے بعد امير المؤمنين عليہ السلام نے مامورین کو حکم دے کر کہا انهيں شہر سے باہر لے جاؤ پھر وہاں پر دو گڑهے ایک دوسرے سے نزدیک کھودو۔

پھر ان لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا : ميں تمہيں ان گڑهوں ميں سے ایک ميں ڈال دوں گا اور دوسرے گڑهے ميں آگ جلادوں گا اور تمہيں اس کے دهویں کے ذریعہ مار ڈالوں گا ۔

انہوں نے علی عليہ السلام کے جواب ميں کہا: جو چاہتے ہو انجام دو ، اور ہمارے بار ے ميں جو بھی حکم دینا چاہتے ہو اسے جاری کرو ۔ اس کے علاوہ اس دنيا ميں آپ کے ہاتھوں اور کوئی کام انجام نہيں پا سکتا ہےفانما تقضی هذه الحياة الدنيا ۔ حضرت نے انهيں آرام سے ان دو گڑهوں ميں سے ایک ميں ڈالا، اسکے بعد حکم دیاکہ دوسرے کنویں ميں آگ جلادیں ۔

اس کے بعد مکرر انهيں اس سلسلے ميں آواز دی کہ کيا کہتے ہو ؟ وہ ہر بار جواب ميں کہتے تھے: جو چاہتے ہو انجام دو اور ان کا یہ جواب تکرار ہورہا تھا ، یہاں تک کہ سب مرگئے ۔

راوی کہتا ہے کہ اس داستان کی خبر کاروانوں نے مختلف شہروں ميں پہنچادی اور تمام جگہوں پر بہترین طریقے سے اہم حادثہ کی صورت ميں نقل کرتے تھے اور لوگ بھی اس موضوع کو ایک دوسرے سے بيان کرتے تھے ۔

امير المؤمنين عليہ السلام اس واقعہ کے بعد ایک دن مسجدکوفہ ميں بيٹھے تھے کہ مدینہ کے یہودیوں ميں سے ایک شخص (جس کے اسلاف اور خود اس یہودی کے علمی مقام اور حيثيت کا سارے یہودی اعتراف کرتے تھے) اپنے کاروان کے چند افراد کے ہمراہ حضرت عليہ السلام سے ملاقات کرنے کيلئے کوفہ ميں داخل ہوا اور مسجد کوفہ کے نزدیک پہنچا اور اپنے اونٹوں کو بٹھا دیا اور مسجد کے دروازے کے پاس کھڑا ہوگيا اور ایک شخص کو امير المؤمنين عليہ السلام کے پاس بھيج دیا کہ ہم یہودیوں کا ایک گروہ، حجاز سے آیا ہے او رآپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہے کيا آپ مسجد سے باہر آئيں گے یا ہم خودمسجد ميں داخل ہوجائيں ؟

امام صادق عليہ السلام نے فرمایا: حضرت عليہ السلام ان کی طرف یہ جملہ کہتے ہوئے آئے: جلدی ہی اسلام قبول کریں گے اور بيعت کریں گے ۔

اس کے بعد علی عليہ السلام ے فرمایا : کيا چاہتے ہو ؟

ان کے سردار نے کہا: اے فرزند ابوطالب ! یہ کون سی بدعت ہے کہ جو آپ نے دین محمد ميں ایجاد کی ہے؟

علی عليہ السلام نے کہا: کونسی بدعت ؟

رئيس نے کہا: حجاز کے لوگوں ميں يہ افواہ پهيلی ہے کہ آپ نے ان لوگوں کو کہ جو خدا کی وحدانيت کا اقرار کرتےہيں ليکن محمد صلى اله عليه وسلمکی نبوت کا اعتراف نہ کرتے دهویں کے ذریعہ مار ڈالا ہے!

علی عليہ السلام : تجھے قسم دیتا ہوں ان نو معجزات کی جو طور سينا پر موسیٰ کو دئے گئے ہيں اور پنجگانہ کنيتوں اور صاحب سرِ ادیان کيلئے ، کيا نہيں جانتے ہو کہ موسیٰ کی وفا ت کے بعد کچھ لوگوں کو یوشع بن نون کے پاس لایا گيا جو خدا کی وحدانيت کا اعتراف کرتے تھے ليکن موسیٰ کی نبوت کو قبول نہيں کرتے تھے۔ یوشع بن نون نے انهيں دهویں کے ذریعہ قتل کيا ؟!

سردار : جی ہاں ، ایسا ہی تھا اور ميں شہادت دیتا ہوں کہ آپ موسی کے محرم راز ہيں ا س کے بعد یہودی نے اپنے آستين سے ایک کتاب نکالی اور امير المؤمنين عليہ السلام کے ہاتھ ميں دی ۔

حضرت عليہ السلام نے کتاب کهولی اس پر ایک نظر ڈالنے کے بعد روئے یہودی نے کہا:

اے ابن ابيطالب آپ کے رونے کا سبب کيا ہے ؟آپ نے جو اس خط پر نظر ڈالی کيا آپ اس مطلب کو سمجھ گئے ؟ جبکہ یہ خط سریانی زبان ميں لکھا گيا ہے اور آپ کی زبان عربی ہے ؟

امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: جی ہاں ، اس خط ميں ميرا نام لکھا ہے ۔

یہودی نے کہا: ذرا بتایئے تا کہ ميں جان لوں کہ سریانی زبان ميں آپ کا نام کيا ہے ؟ اور اس خط ميں اس نام کو مجھے دکھایئے!

امير المؤمنين عليہ السلام نے کہا: سریانی زبان ميں ميرانام “اليا ” ہے اس کے بعد اس یہودی کو اس خط ميں لفظ دکھایا ۔

اس کے بعد یہودی نے اسلام قبول کيا اور شہادتين کو زبان پر جاری کيا اور علی عليہ السلام کی بيعت کی پھر مسلمانوں کی مسجد ميں داخل ہوا یہاں پر اميرالمؤمنين نے حمد و ثنا اور خد اکا شکر بجالانے کے بعد کہا:

” شکر خدا کا کہ اس کے نزدیک ميں فراموش نہيں ہوا تھا ، شکر اس خداکا جس نے اپنے نزدیک ميرا نام ابرار اور نيکوں کاروں کے صحيفہ ميں درج کيا ہے اور شکر اس خدا کا جو صاحب جلال و عظمت ہے “

ابن ابی الحدید نے اس روداد کو دوسری صورت ميں نقل کيا ہے کہ علم و تحقيق کے ۴ ٢ ۵ کی طرف رجوع کرسکتے ہيں : / دلدادہ حضرات شرح نہج البلا غہ ج ١

٩۔ ہم ان روایتوں کچھ دوسری روایت کے ساتھ ختم کرتے ہيں جسکا باطل اور خرافات پر مشتمل ہونا واضح اور عياں ہے:

اس روایت کو ابن شاذان نے کتاب “ فضائل ” ميں درج کيا ہے اور ان سے مجلسی نے نقل کرکے بحا الانوار ميں درج کيا ہے اس کے علاوہ اسے علامہ نوری نے بھی ‘ عيون المعجزات ” سے نقل کرکے “ مستدرک ” ميں درج کيا ہے:

امير المؤمنين عليہ السلام ، کسریٰ کے مخصوص منجم کے ہمراہ کسری کے محل ميں داخل ہوئے اميرالمؤمنين عليہ السلام کی نظر ایک کونے ميں ایک بوسيدہ کهوپڑی پر پڑی حکم دیا ایک طشت لایا جائے اس ميں پانی ڈال کر کهوپڑی کو اس ميں رکھا گيا پھر اس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے کهوپڑی تجھے خداکی قسم دیکر پوچهتا ہوں تو بتا کہ ميں کون ہوں ؟ اور تم کون ہو ؟ کهوپڑی گویا ہوئی اور فصيح زبان ميں جواب دیا : آپ امير المؤمنين عليہ السلام اور سيدا وصياء ہيں ! ليکن، ميں بندہ خدا اور کنيز خدا کا بيٹا نوشيروان ہوں ؟

” ساباط ” کے چند باشندے ، امير المؤمنين عليہ السلام کے پاس تھے اور انہوں نے اس روداد کا عينی مشاہدہ کيا وہ اپنی آبادی اور قبيلہ کی طرف روانہ ہوئے اور جو کچھ اس کهوپڑی کے بارے ميں دیکھا تھا لوگوں ميں بيان کيا یہ روداد ان کے درميان اختلاف کا سبب بنی اور ہر گروہ نے اميرالمؤمنين عليہ السلام کے بارے ميں ایک قسم کے عقيدہ کا اظہار کيا ۔ کچھ لوگ حضرت عليہ السلام کے بارے ميں اسی چيز کے معتقد ہوئے جس کے عيسائی حضرت عيسیٰ کے بارے ميں معتقد تھے اور عبدالله بن سبا اور اس کے پيرؤں کا جيسا عقيدہ اختيار کيا ۔

ا ميرالمؤمنين عليہ السلام کے اصحاب نے اس بارے ميں حضرت علی عليہ السلام سے عرض کی : اگر لوگوں کو اسی اختلاف و افتراق کی حالت ميں رکھو گے تو دوسرے لوگ بھی کفر و بے دینی ميں گرفتار ہوں گے جب امير المؤمنين عليہ السلام نے اپنے اصحاب سے یہ باتيں سنيں تو فرمایا: آپ کے خيال ميں ان لوگوں سے کيسا برتاؤ کيا جانا چاہئے ؟ عرض کيا مصلحت اس ميں ہے کہ جس طرح عبدا لله بن سبا اور اس کے پيرؤں کو جلادیا گيا ہے۔ان لوگوں کو بھی نذر آتش کيجئے ۔ اس کے بعدا مير المؤمنين عليہ السلام نے انهيں اپنے پاس بلایا اور ان سے سوال کيا کہ : تمہارے اس باطل عقيدہ کا محرک کيا تھا ؟ انہوں نے کہا :ہم نے اس بوسيدہ کهوپڑی کی آپ کے ساتھ گفتگو کو سنا ، چونکہ اس قسم کا غير معمولی کام خدا کے علاوہ اورکسی کيلئے ممکن نہيں ہے لہذا ہم آپ کے بارے ميں اس طرح معتقد ہوئے۔

اميرالمؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: اس باطل عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤ اور خدا کی طرف لوٹ کر توبہ کرو، انہوں نے کہا: ہم اپنے اعتقاد کو نہيں چھوڑیں گے آپ ہمارے بارے ميں جو چاہيں کریں ۔ علی عليہ السلام جب ان کے توبہ کے بارے ميں نااميد ہوئے تو حکم دیا تا کہ آگ کو آمادہ کریں اس کے بعد سب کو اس آگ ميں جلادیا ۔ اسکے بعد ان جلی ہوئی ہڈیوں کو ٹنے کے بعد ہوا ميں بکهيرنے کا حکم دیا۔ حضرت کے حکم کے مطابق جلی ہوئی تمام ہڈیوں کو چور کرنے کے بعد ہوا ميں بکهير دیا گيا۔ اس روداد کے تين دن بعد “ ساباط” کے باشندے حضرت علی عليہ السلام کی خدمت ميں آئے اور عرض کيا : اے اميرالمؤمنين عليہ السلام ! دین محمد صلی الله عليہ و آلہ وسلم کا خيال رکھو ، کيوں کہ جنہيں آ پ نے جلا دیا تھا وہ صحيح و سالم بدن کے ساتھ اپنے گھروں کو لوٹے ہيں ، کيا آپ نے ان لوگوں کو نذر آتش نہيں کيا تھا اور ان کی ہڈیاں ہوا ميں نہيں بکهيریں تھيں ؟ اميرالمؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: جی ہاں ، ميں نے ان افراد کو جلا کر نابود کردیا، ليکن خداوند عالم نے انهيں زندہ کيا۔

یہاں پر “ ساباط” کے باشندے حيرت و تعجب کے ساتھ اپنی آبادی کی طرف لوٹے ۔

ایک اور روایت کے مطابق اميرالمؤمنين عليہ السلام نے انهيں نذر آتش نہيں کيا ۔ ليکن ان ميں سے کچھ لوگ بهاگ گئے اور مختلف شہروں ميں منتشر ہوئے اور کہا: اگر علی ابن ابيطالب مقام ربوبيت کے مالک نہ ہوتے تو ہميں نہ جلاتے ۔

یہ مرتدین کے احراق سے مربوط روایتوں کا ایک حصہ تھا کہ ہم نے اسے یہاں پر در ج کيا ۔ گزشتہ فصلوں ميں بيان کی گئی عبد الله بن سبا کی روایتوں کی جانچ پڑتال، تطبيق اور تحقيق انشاء الله اگلی فصل ميں کریں گے۔

روایات احراق مرتد کی بحث و تحقيق ان احداً من فقهاء المسلمين لم یعتقد هذه الروایات

علمائے شيعہ و سنی ميں سے کسی ایک نے بھی احراق مرتد کی روایتوں پر عمل نہيں کيا ہے مؤلف جو کچھ گزشتہ فصلوں ميں بيان ہوا وہ عبدا لله بن سبا اس کے نذر آتش کرنے اور اس سلسلہ ميں حدیث و رجال کی شيعہ و سنی کتابوں سے نقل کی گئی مختلف اور متناقض روایتوں کا ایک خلاصہ تھا ۔

ليکن تعجب کی بات ہے کہ اسلامی دانشوروں اور فقہاء ، خواہ شيعہ ہوں یا سنی ان ميں سے کسی ایک نے بھی ان روایتوں کے مضمون پر اعتماد نہيں کيا ہے اور شخص مرتد کو جلانے کا فتوی نہيں دیا ہے بلکہ شيعہ و سنی تمام فقہاء نے ان روایتوں کے مقابلے ميں رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم اور ائمہ ہدی سے نقل کی گئی روایتوں پر استناد کرکے مرتد کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے نہ جلانے کا۔

اب ہم یہاں پر مرتدوں کے بارے ميں حکم کے سلسلے ميں شيعہ و سنی علماء کا نظریہ بيان کریں گے اور اس کے بعد ان روایات کے بارے ميں بحث وتحقيق کا نتيجہ پيش کریں گے ۔

اہل سنت علماء کی نظر ميں مرتد کا حکم ابو یوسف کتاب ‘ ‘ الخراج ” ميں مرتد کے حکم کے بارے ميں کہتا ہے:

اسلام سے کفر کی طرف ميلان پيدا کرنے والے اور کافر افراد جو ظاہراً اسلام لانے کے بعد پھر سے اپنے کفر کی طرف پلٹ گئے ہوں اور اسی طرح یہودی و عيسائی و زرتشتی اسلام قبول کرنے کے بعد دوبارہ اپنے پہلےمذہب اور آئين کی طرف پلٹ گئے ہوں ایسے افرا دکے حکم کے بارے ميں اسلامی علماء ميں اختلاف پایا جاتا ہے ۔

ان ميں سے بعض کہتے ہيں : اس قسم کے افراد کو توبہ کرکے دوبارہ اسلام ميں آنے کی دعوت دی جانی چاہئے اور اگر انہوں نے قبول نہ کيا توقتل کر دیا جائے بعض دوسرے کہتے ہيں : ایسے افراد کيلئے توبہ کی تجویز ضروری نہيں ہے بلکہ جو ں ہی مرتد ہوجائيں اور اسلام سے منہ موڑیں ، انہيں قتل کيا جائے ۔

اس کے بعد ابو یوسف طرفين کی دليل کو جو پيغمبر اکرم صلی الله عليہ و آلہ وسلم سے نقل کی گئی احادیث پر مبنی ہيں بيان کرتا ہے اور مرتد کو قابل توبہ جاننے والوں کے دلائل کے ضمن ميں عمر بن خطاب کا حکم نقل کرتا ہے کہ جب اسے فتح “ تستر” ميں خبر دی گئی کہ مسلمانوں ميں سے ایک شخص مشرک ہو گيا ہے اور اسے گرفتا رکيا گيا ہے عمر نے کہا ؛ تم لوگوں نے اسے کيا کيا ؟ انہوں نے کہا: ہم نے اسے قتل کردیا عمرنے مسلمانوں کے اس عمل پر اعتراض کيا اور کہا: اسے پہلے ایک گھر ميں قيدی بنانا چاہئے تھا اور تين دن تک اسے کهانا پانی دیتے ، اور اس مدت کے دوران اسے توبہ کرنے کی تجویز پيش کرتے اگر وہ اسے قبول کرکے دوبارہ اسلام کے دامن ميں آجاتا تو اسے معاف کرتے اور اگر قبول نہ کرتا تو اسے قتل کر ڈالتے ۔

ابو یوسف اس نظریہ کی تائيد ميں کہ پہلے مرتد سے توبہ کا مطالبہ کرنا چاہئے ایک داستان بيان کرتے ہوئے کہتا ہے : ایک دن “ معاذ” ، ابو موسی کے پاس آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کے سامنے کوئی بيٹها ہوا ہے اس سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہے ؟ ابو موسی نے کہا؛

یہ ایک یہودی ہے جس نے اسلام قبول کيا تھا ليکن دوبارہ یہودیت کی طرف پلٹے ہوئے ابھی دو مہينے گزررہے ہيں کہ ہم اسے توبہ کے ساتھ اسلام کو قبول کرنے کی پيش کش کررہے ہيں ليکن اس نے ابھی تک ہماری تجویز قبول نہيں کی ہے معاذ نے کہا: ميں اس وقت تک نہيں بيٹھوں گا جب تک کہ خدا اور پيغمبر خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے حکم سے اس کا سر قلم نہ کروں ۔

اس کے بعد ابویوسف کہتا ہے ؛ بہترین حکم اور نظریہ جو ہم نے اس بارے ميں سنا (بہترین حکم کو خدا جانتا ہے ) کہ مرتدوں سے ، پہلے تو بہ طلب کی جاتی ہے اگر قبول نہ کياتو پھر سر قلم کرتے ہيں ۔

یہ نظریہ مشہور احادیث اور بعض فقہاء کے عقيدہ کا مضمون ہے کہ ہم نے اپنی زندگی ميں دیکھا ہے ۔

ا بو یوسف اضافہ کرتا ہے :ليکن عورتيں جو اسلام سے منحرف ہوتی ہيں ، قتل نہيں کی جائيں گی، بلکہ انهيں جيل بھيجنا چاہئے اور انهيں اسلام کی دعوت دینی چاہئے اور قبول نہ کرنے کی صورت ميں مجبور کيا جانا چاہئے ۔

ا بو یوسف کے اس بيان سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام علمائے اہل سنت کا اس مطلب پر اتفاق ہے کہ شخص مرتد کی حد ، قتل ہے اس نے قتل کی کيفيت کو بھی بيان کيا ہے کہ اس کا سر قلم کيا جانا چاہئے اس سلسلہ ميں علماء کے درميان صرف اس بات پر اختلاف ہے کہ کيا یہ حد اور مرتد کا قتل کيا جانا تو بہ کا مطالبہ کرنے سے پہلے انجام دیا جائے یا توبہ کا مطالبہ کرنے کے بعداسے توبہ قبول نہ کرنے کی صورت ميں ۔

ابن رشد “ بدایة المجتہد ” ميں “ حکم مرتد” کے باب ميں کہتا ہے علمائے اسلام اس بات پر متفق ہيں کہ اگر مرتد کو جنگ سے پہلے پکڑ ليا جائے تو اسے رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے حکم کے مطابق قتل کيا جانا چاہئے فرمایا ہے : ہر وہ مسلمان جو اپنا دین بدلے اسے قتل کيا جانا چاہئے“

یہ تھا مرتد کے بارے ميں علمائے اہل سنت کا نظریہ

شيعہ علماء کی نظر ميں مرتد کا حکم

مرتد کے بارے ميں شيعہ علماء کا عقيدہ ایک حدیث کا مضمون ہے جسے مرحوم کلينی ، صدوق اور شيخ طوسی نے امام صادق عليہ السلام سے اور انہوں نے اميرالمؤمنين عليہ السلام سے نقل کيا ہے: مرتد کی بيوی کو اس سے جدا کرناچاہئے اس کے ہاتھ کا ذبيحہ بھی حرام ہے تين دن تک اس سے توبہ کی درخواست کی جائے گی اگر اس مدت ميں اس نے توبہ نہيں کی تو چوتھے دن قتل کيا جائے گا۔

” من لا یحضرہ الفقيہ ” ميں مذکورہ حدیث کے ضمن ميں یہ جملہ بھی آیا ہے اگر صحيح اور سالم عقل رکھتا ہو ۔

امام باقر عليہ السلام اور امام صادق عليہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ انہوں نے فرمایا:

مرتد سے توبہ کی درخواست کی جانی چاہئے اگر اس نے توبہ نہ کی تو اسے قتل کرناچاہئے ليکن اگر کوئی عورت مرتد ہوجائے تو اس سے بھی توبہ کی درخواست کی جاتی ہے اور اگر وہ توبہ نہ کرے اور اسلام کی طرف دوبارہ نہ پلٹے تو اسے عمر بھر قيد کی سزا دی جاتی ہے اور زندان ميں بھی اس سے سختی کی جاتی ہے ۔

حضرت امام رضا عليہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ کسی نے ان سے سوال کيا کہ ایک شخص مسلمان ماں باپ سے پيدا ہوا ہے ، اس کے بعد اسلام سے منحرف ہو کر کفر و الحاد کی طرف مائل ہوگيا تو کيا اس قسم کے شخص سے توبہ کی درخواست کی جائے گی؟ یا تو بہ کی درخواست کے بغير اسے قتل کيا جائے گا؟

ا مام نے جواب ميں لکھا “و یقتل ” یعنی توبہ کی درخواست کئے بغير قتل کيا جائے گا۔

امير المؤمنين عليہ السلام کے ایک گورنر نے ان سے سوال کيا کہ : ميں نے کئی مسلمانوں کو دیکھا کہ اسلام سے منحرف ہو کر کافر ہو گئے ہيں اور عيسائيوں کے ایک گروہ کو دیکھا کہ کافر ہو گيا ہے۔ اميرالمؤمنين عليہ السلام نے جواب ميں لکھا : ہر مسلمان مرتد جو فطرت اسلام ميں پيدا ہوا ہے، یعنی مسلمان ماں باپ سے پيدا ہوا ہے پھر اس کے بعد کافر ہو گيا تو توبہ کی درخواست کے بغير اس کا سر قلم کرنا چاہئے، ليکن جو مسلمان فطرت اسلام ميں پيدا نہيں ہوا ہے ( مسلمان ماں باپ سے پيدا نہيں ہوا ہے) اگر مرتد ہوا تو پہلے اس سے توبہ کی درخواست کرنا چاہئے، اگر اس نے توبہ نہ کی تو اس کا سر قلم کرنا ليکن، عيسائيوں کا عقيدہ کافروں سے بد تر ہے ان سے تمہيں کوئی سرو کار نہيں ہونا چاہئے۔

ا ميرالمؤمنين عليہ السلام نے محمد بن ابی بکر کے مصر سے سورج او ر چاند کو پوجا کرنے والے ملحدوں اور اسلام سے منحرف ہوئے لوگوں کے بارے ميں کئے گئے ایک سوال کے جواب ميں یوں لکھا : جو اسلام کا دعوی کرتے تھے پھر اسلام سے منحرف ہوئے ہيں ، انهيں قتل کرنا اور دوسرے عقاید کے ماننے والوں کو آزاد چھوڑ دینا وہ جس کی چاہيں پر ستش کریں ۔

گزشتہ روایتوں ميں ا ئمہ سے روایت ہوئی ہے کہ مرتد کی حد قتل ہے ۔

ا یک روایت ميں یہ بھی ملتا ہےکہ امير المومنين نے مرتد کے بارے ميں قتل کا نفاذ فرمایا ہے چنانچہ ، کلينی امام صادق عليہ السلام سے نقل کرتے ہيں : ایک مرتد کو اميرالمؤمنين عليہ السلام کی خدمت ميں لایا گيا ۔ حضرت عليہ السلام نے اس شخص کا سر قلم کيا عرض کيا گيا یا اميرالمؤمنين اس شخص کی بہت بڑی دولت و ثروت ہے یہ دولت کس کو دی جانی چاہئے ؟ حضرت عليہ السلام نے فرمایا: اس کی ثروت اس کی بيوی اور بچوں اور وارثوں ميں تقسيم ہوگی ۔

پھر نقل ہو ا ہے ایک بوڑها اسلام سے منحرف ہوکر عيسائی بنا امير المومنين عليہ السلام نے اس سے فرمایا: کيا اسلام سے منحرف ہوگئے ہو؟ اس نے جواب ميں کہا: ہاں ،

فرمایا شاید اس ارتداد ميں تمہارا کوئی مادی مقصد ہو اور بعد ميں پھر سے اسلام کی طرف چلے آؤ؟ اس نے کہا: نہيں ۔ فرمایا : شاید کسی لڑکی سے عشق و محبت کی وجہ سے اسلام سے منحرف ہوگئے ہو اور اس کے ساتھ شادی کرنے کے بعد پھر سے اسلام کی طرف واپس آجاؤ گے ؟ عرض کيا : نہيں امام نے فرمایا: بہر صورت اب توبہ کر کے اسلام کی طرف واپس آجا اس نے کہا: ميں اسلام کو قبول نہيں کرتا ہوں ۔ یہاں پر امام نے اسے قتل کر ڈالا ١

ی ہ ان روایتوں کا ایک حصہ تھا جو مرتد کی حد ومجازات کے بارے ميں نقل کی گئی ہيں اس کے علاوہ اس مضمون کی اور بھی بہت سے روایتيں موجو د ہيں ۔

بحث کا نتيجہ جو کچھ مرتد کی حد کے بارے ميں بيان ہوا اس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ مرتد کے حد کے بارے ميں تمام علمائے شيعہ و سنی کا عمل و بيان اور اس بارے ميں نقل کی گئی روایتيں احراق مرتد کی روایتوں کی بالکل برعکس تھيں اور ان ميں یہ بات واضح ہے کہ مرتد کی حد ،

قتل ہے نہ جلانا۔

اس کے علاوہ یہ روایتيں واضح طور پر دلالت کرتی ہيں کہ امام عليہ السلام نے مرتد کے بارے ميں قتل کو عملاً نافذ کيا ہے یہ بات بالکل واضح ہے کہ عربی لغت ميں “ قتل ” کسی شخص کو تلوار ، نيزہ ، پتهر ، لکڑی اور زہر جيسے کسی آلہ سے مارڈالنا ہے ۔ اس کے مقابلہ ميں “ حرق” آگ ميں جلانا ہے اور ” صلب” پهانسی کے پهندے پر لٹکانا ہے ۔

جو کچھ ہم نے اس فصل ميں کہا وہ احراق سے مربوط روایتوں کا ایک ضعف تھا انشاء الله اگلی فصل ميں مزید تحقيق کرکے دوسرے ضعيف نقطوں کی طرف اشارہ کيا جائے گا۔

مرتد کو جلانے کی روایتيں

انی اذا بصرت امراً منکراً اوقدت ناری ودعوت قنبر

جب ميں سماج ميں کسی برے کا م کا مشاہدہ کرتا ہوں تو اپنی آگ جلاتا ہوں اور اپنی نصرت کے لئے قنبر کو بلاتا ہوں ۔

ہم نے گزشتہ فصلوں ميں بتایا کہ کشی کی جن پانچ روایتوں ميں عبدا لله بن سبا کا نام آیا ہے وہ چند پہلو سے خدشہ دار اور ناقابل قبول ہيں ۔ ان کے ضعف کا ایک پہلو وہی تناقض ہے جو یہ روایتيں چند دوسری روایتوں کے ساتھ رکھتی ہيں ، کيونکہ کشی کی پنجگانہ روایتيں ،

علی عليہ السلام کے بارے ميں غلو کا موضوع ، انکی الوہيت کا اعتقاد ، اور داستان احراق اور ان پر عبد الله بن سبا کو جلانے کی نسبت دیتی ہيں ، ليکن روایتوں کا ایک دوسرا سلسلہ ان رودادوں کو دوسرے افراد کے بارے ميں نقل کرتی ہيں چنانچہ :

١۔ کشی مزید کہتا ہے:

جب امير المؤمنين عليہ السلام اپنی بيوی ( ام عمرو عنزیہ ) کے گھر ميں تھے ۔ حضرت کا غلام ، قنبر آیا اور عرض کيا یا امير المؤمنين عليہ السلام ! دس افراد گھر کے باہر کھڑے ہيں اور اعتقاد رکھتے ہيں کہ آپ ان کے خدا ہيں ۔

امام نے فرمایا: انہيں گھر ميں داخل ہونے کی اجازت دیدو ۔

کہتا ہے جب یہ دس آدمی داخل ہوئے تو حضرت نے سوال کيا : ميرے بارے ميں تمہارا عقيدہ کيا ہے ؟

انہوں نے کہا؛ “ ہم معتقد ہيں کہ آپ ہمارے پروردگار ہيں اور یہ آپ ہی ہيں جس نے ہميں خلق کيا ہے اور ہمارا رزق آپ کے ہاتھ ميں ہے“

امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: افسوس ہو تم پر ! اس عقيدہ کو نہ اپناؤ ، کيونکہ ميں بھی تمہاری طرح ایک مخلوق ہوں ۔ ليکن وہ اپنے عقيدہ سے باز نہيں آئے۔

امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: افسوس ہو تم پر ! ميرا اور تمہارا پروردگار الله ہے !

افسوس ہو تم پر توبہ کرو اور اس باطل عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤ!

انہوں نے کہا: ہم اپنے عقيدہ اور بيان سے دست بردار نہيں ہوں گے اور آپ ہمارے خدا ہيں ، ہميں خلق کيا ہے اور ہميں رزق دیتے ہيں ۔

اس وقت امام نے قنبر کو حکم دیا تا کہ چند مزدوروں کو لائے ، قنبر گئے اور امام کے حکم کے مطابق دو مزدوروں کو بيل و زنبيل کے ہمراہ لائے۔ امام نے حکم دیا کہ یہ دو مزدور زمين کھودیں ۔ جب ایک لمبا گڑها تيار ہوا تو حکم دیا کہ لکڑی اور آگ لائيں ۔ تمام لکڑیوں کو گڑهے ميں ڈال کر آگ لگادی گئی شعلے بهڑکنے لگے اس کے بعد علی عليہ السلام نے ان دس افراد سے جو ان کی الوہيت کے قائل تھے --دوسری بار فرمایا : افسوس ہو تم پر ! اپنی بات سے دست بردار ہوجاؤ ، اس کے بعد امير المؤمنين عليہ السلام نے ان ميں سے بعض کو آگ ميں ڈال دیا یہاں تک کہ دوسری بار باقی لوگوں کو بھی آگ ميں ڈال دیا ۔ اس کے بعد مندرجہ ذیل مضمون کا ایک شعر پڑها:

”جب ميں کسی گناہ یا برے کام کو دیکھتا ہوں ، آگ جلا کر قنبر کو بلاتا ہوں ”

کشی نے اس روایت کو “ مقلاص ” کی زندگی کے حالات ميں مفصل طور پر اور “ قنبر ”

کی زندگی کے حالات ميں خلاصہ کے طور پر نقل کيا ہے ۔ مجلسی نے بھی اسی روایت کو کشی سے نقل کرکے “بحار الانوار ” ميں درج کيا ہے ۔

٢۔دوبارہ کشی ، کلينی، صدوق ، فيض ، شيخ حر عاملی اور مجلسی نے نقل کيا ہے :

ایک شخص نے امام باقر اور امام صادق عليہما السلام سے نقل کيا ہے : جب امير المؤمنين عليہ السلام بصرہ کی جنگ سے فارغ ہوئے تو ستر افراد “ زط” سياہ فام حضرت کی خدمت ميں آئے اور انهيں سلام کيا ۔ اس کے بعد اپنی زبان ميں ان سے گفتگو کرنے لگے ۔

ا مير المؤمنين نے بھی ان کی ہی زبان ميں انهيں جواب دیا ۔ اس کے بعد فرمایا جو کچھ

تم ميرے بارے ميں تصور کرتے ہو ميں وہ نہيں ہوں بلکہ ميں بھی تمہاری طرح بندہ اور خدا کی مخلوق ہوں ۔ ليکن انہوں نے اس بات کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا: آپ خدا ہيں ۔

ا مير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: اگر اپنی باتوں سے پيچھے نہيں ہٹتے اور خدا کی بارگاہ ميں توبہ نہيں کرتے اور ميرے بارے ميں رکھنے والے عقيدہ سے دست بردار نہيں ہوتے ہو تو ميں تمہيں قتل کرڈالوں گا ، چونکہ انہوں نے تو بہ کرنے سے انکار کيا اور اپنے باطل عقيدہ سے دست بردار نہيں ہوئے ، لہذا امير المؤمنين علی عليہ السلام نے حکم دیا کہ کئی کنویں کھودے جائيں اور ان کنوؤں کو زمين کے نيچےسے سوراخ کرکے آپس ميں ملا دیا جائے اس کے بعد حکم دیا کہ ان افراد کو ان کنوؤں ميں ڈال کر اوپر سے انهيں بند کردو ۔ صرف ایک کنویں کا منہ کهلا ہوا تھااس ميں آگ جلادی گئی اور اس آگ ميں دهواں کنوؤں کے آپس ميں رابطہ دینے کے سوراخوں سے ہر کنویں ميں پہنچا اور اسی دهویں کی وجہ سے یہ سب لوگ مرگئے!

اس واقعہ کو بزرگ علماء نے ایک گمنام “ شخص” سے نقل کيا ہے کہ جس کاکوئی نام و نشان نہيں ہے اور ہم نہيں جانتے کہ یہ شخص جس نے امام باقر عليہ السلام اور امام صادق عليہ السلام سے یہ روایت نقل کی ہے ، کون ہے ؟ کہاں اور کب زندگی کرتا تھا ، اور کيا بنيادی طور پر اس قسم کا کوئی راوی حقيقت ميں وجود رکھتا ہے یا نہيں ؟!

اس داستان کو ابن شہر آشوب نے اپنی کتاب “ مناقب ” ميں اس طرح نقل کيا ہے کہ :

جنگ بصرہ کے بعد ستر افراد سياہ فام امير المؤمنين عليہ السلام کی خدمت ميں حاضر ہوئے اور اپنی زبان ميں بات کی اور ان کا سجدہ کيا۔

ا مير المؤمنين نے فرمایا: افسوس ہو تم پر ! یہ کام نہ کرو ، کيوں کہ ميں بھی تمہاری طرح ایک مخلوق کے علاوہ کچھ نہيں ہوں ۔ ليکن وہ اپنی بات پر مصر رہے ۔ امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: خدا کی قسم ! اگر ميرے بارے ميں اپنے اس عقيدہ سے دست بردار ہوکر خداکی طرف نہيں پلٹے تو ميں تمہيں قتل کرڈالوں گا ۔ راوی کہتا ہے : جب وہ اپنے عقيدہ سے دست بردار ہونے پر آمادہ نہ ہوئے تو امير المؤمنين عليہ السلام نے حکم دیا کہ زمين کی کهدائی کرکے چند گڑهے تيار کئے جائيں اور ان ميں آگ جلادی جائے ۔ حضرت عليہ السلام کے غلام قنبران کو ایک ایک کرکے آگ ميں ڈالتے تھے ۔ امير المؤمنين عليہ السلام اس وقت اس مضمون کے اشعار پڑه رہے تھے ۔

جب ميں گناہ اور کسی برے کام کو دیکھتا ہوں تو ایک آگ روشن کرتا ہوں اور قنبر کو بلاتا ہوں !

اس کے بعد گڑهوں پر گڑهے کھودتا ہوں اور قنبر ميرے حکم سے گنہگاروں کو ان ميں ڈالتا ہے اس روداد کو مرحوم مجلسی نے بھی “ بحار الانوار ” ميں اور نوری نے ‘ مستدرک ”

ميں کتاب “مناقب ” سے نقل کيا ہے ۔

٣۔ مرحوم کلينی اور شيخ طوسی درج ذیل روایت کو امام صادق عليہ السلام سے یوں نقل کيا ہے:

کچھ لوگ امير المؤمنين عليہ السلام کے پاس آئے اور اس طرح سلام کيا :“ السلام عليک یا ربنا” سلام ہو آپ پراے ہمارے پروردگار!!

امير المؤمنين عليہ السلام نے ان سے کہا : اس خطرناک عقيدہ سے دست بردار ہوکر توبہ کرو۔ ليکن انہوں نے اپنے عقيدہ پر اصرار کيا امير المؤمنين عليہ السلام نے حکم دیا کہ دو گڑهے ایک دوسرے سے متصل کھود کر ایک سوراخ کے ذریعہ ان دونوں گڑهوں کو آپس ميں ملایا جائے جب ان کے توبہ سے نااميد ہوئے تو انهيں ایک گڑهے ميں ڈال کر دوسرے ميں آگ لگادی یہاں تک کہ وہ مرگئے ۔

۴ ۔شيخ طوسی اور شيخ صدوق نے امام صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے : ایک شخص امير المؤمنين عليہ السلام کی خدمت ميں حاضر ہوا ور کوفہ ميں مقيم دو مسلمانوں کے بارے ميں شہادت دی کہ اس نے دیکھا ہے کہ یہ دوشخص بت کے سامنے کھڑے ہوتے ہيں ا ور ان کی پوجا کرتے ہيں ۔ حضرت عليہ السلام نے فرمایا: افسوس ہو تم پر ! شاید تم نے غلط فہمی کی ہو ۔ اس کے بعد کسی دوسرے کو بھيجا تا کہ ان دو افراد کے حالات کا اچھی طرح جائزہ لے اور نزدیک سے مشاہد ہ کرے ۔حضرت عليہ السلام کے ایلچی نے وہی رپورٹ دی جو پہلے شخص نے دی تھی ۔ امير المؤمنين عليہ السلام نے ا نهيں اپنے پاس بلایا اور کہا: اپنے اس عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤ ! ليکن انہو ں نے اپنی بت پرستی پر اصرار کيا لہذا حضرت عليہ السلام کے حکم سے ایک گڑها کھودا گيا اور اس ميں آگ لگادی گئی اور ان دوا فراد کو آگ ميں ڈالدیا گيا ۔

۵ ۔ذہبی نقل کرتا ہے کہ کچھ لوگ امير المؤمنين عليہ السلام کے پاس آکر کہنے لگے:

آپ وہ ہيں ۔ اميرالمؤمنين عليہ السلام نے فرمایا : افسوس ہو تم پر ! ميں کون ہوں ؟ انہوں نے کہا : آپ ہمارے پروردگار ہيں ! حضرت نے فرمایا : اپنے اس عقيدہ سے توبہ کرو ! ليکن انہوں نے توبہ نہيں کی اور اپنے باطل عقيدہ پر ہٹ دهرمی کرتے ہوئے باقی رہے۔ امير المؤمنين عليہ السلام نے ان کا سر قلم کيا ۔ اس کے بعد ایک گڑها کھودا گيا اور قنبر سے فرمایا: قنبر لکڑی کے چندگٹهر لے آؤ ، اس کے بعدان کے جسموں کو نذر آتش کيا ۔ پھر اس مضمون کا ایک شعر پڑها:

” جب بھی ميں کسی برے کام کو دیکھتا ہوں ، آگ کو شعلہ ور کرکے قنبر کو بلاتا ہوں “

۶ ۔ ابن ابی الحدید ابو العباس سے نقل کرتا ہے کہ علی ابن ابيطالب عليہ السلام مطلع ہوئے کہ کچھ لوگ شيطان کے دهوکہ ميں آکر “ حضرت کی محبت ميں غلو ” کرکے حد سے تجاوز کرتے ہيں ، خدا اور اس کے پيغمبر کے لائے ہوئے کے بارے ميں کفر کرتے ہوئے حضرت کو خدا جانتے اور ان کی پرستش کرتے ہيں اور ان کے بارے ميں ایسے اعتقادرکھتے ہيں کہ وہ ان کے خالق اور رزق دینے والے ہيں ۔

ا مير المؤمنين عليہ السلام نے انہيں کہا کہ اس خطرناک عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤاور توبہ کرو ليکن انہوں نے اپنے عقيدہ پر اصرار کيا ۔ حضرت عليہ السلام نے جب ان کی ہٹ دهرمی دیکھی تو ایک گڑها کھودا اور اس ميں ڈال کر آگ اور دهویں سے انهيں جسمانی اذیت پہنچائی اور ڈرایا دهمکایا ۔

ليکن جتنا ان پر زیادہ دباؤ ڈالا گيا ، ان کے باطل عقيدہ کے بارے ميں ان کی ہٹ دهرمی بھی تيز تر ہوگئی، جب ان کی ایسی حالت دیکھی تو ان سب کو آگ کے شعلوں ميں جلادیا گيا ۔ اس کے بعد یہ شعر پڑهے :

”دیکھا کس طرح ميں نے گڑهے کھودے ” اس کے بعد وہی شعر پڑهے جو گزشتہ صفحات ميں بيان کئے گئے ہيں ۔

اس داستا ن کو نقل کرنے کے بعد ابن ابی الحدید کہتا ہے ہمارے علما ء مکتب خلفاء کے پيرو--۔-۔ نے اپنی کتابوں ميں درج کيا ہے : جب اميرالمؤمنين نے اس گروہ کو نذر آتش کيا تو انہوں نے فریاد بلند کی : اب ہمارے لئے ثابت ہوا کہ آپ ہمارے خدا ہيں ، آپ کا چچيرا بھائی جوآپ کا فرستادہ تھاکہتا تھا: آگ کے خدا کے سوا کوئی بھی آگ کے ذریعہ عذاب نہيں کرتا

٧۔ احمد بن حنبل عکرمہ سے نقل کرتے ہيں کہ امير المؤمنين عليہ السلام نے اسلام سے منحرف کچھ لوگوں کو نذر آتش کرکے ہلاک کر دیا یہ روئداد جب ابن عباس نے سنی تو اس نے کہا: اگر ان کا اختيار ميرے ہاتھ ميں ہوتا تو ميں ان کو ہرگز نذر آتش نہ کرتا کيونکہ رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے فرمایاہے : “ کسی کو عذاب خدا سے عذاب نہ کرنا ” ميں انهيں قتل کر ڈالتا ۔

جب ابن عباس کی یہ باتيں امير المؤمنين عليہ السلام تک پہنچيں تو انہوں نے فرمایا:

وہ ، یعنی ابن عباس نقطہ چينی کرنے ميں ماہر ہے “ویح ابن عم ابن عباس انه لغواص علی الهنات ”۔

ایک دوسری روایت کے مطابق جب ابن عباس کا بيان امير المؤمنين عليہ السلام تک پہنچا تو انہوں نے فرمایا: ابن عباس نے صحيح کہا ہے ۔

اس داستان کو شيخ طوسی نے “ مبسوط ” ميں یوں درج کيا ہے کہ: نقل کيا گيا ہے کہ ایک گروہ نے امير المؤمنين عليہ السلام سے کہا: آپ خدا ہيں ۔ حضرت نے ایک آگ روشن کی اور ان سب کو نذر آتش کر دیا۔ ابن عباس نے کہا؛ اگر ميں علی عليہ السلام کی جگہ پر ہوتا تو انهيں تلوار سے قتل کرتا کيوں کہ ميں نے پيغمبر خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم سے سنا ہے وہ فرماتے تھے : “ کسی کو عذاب خدا سے عذاب نہ کرنا ” جو بھی اپنا دین بدلے اسے قتل کرنا !

امير المؤمنين عليہ السلام نے اس سلسلہ ميں اپنا مشہور شعر پڑها ہے ١شيخ طوسی نے یہاں پر روایت کی سندکا ذکر نہيں کيا ہے ليکن احمد بن حنبل کے ساتھ روایت ميں اس کی سند کو خارجی مذہب عکرمہ تک پہنچایا ہے!

مرحوم کلينی نے امام صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے کہ امير المؤمنين عليہ السلام مسجد کوفہ ميں بيٹھے تھے کہ چند افراد جو ماہ رمضان ميں روزہ نہيں رکھتے تھے،

حضرت عليہ السلام کے پاس لائے گئے حضرت نے ان سے پوچھا : کياتم لوگوں نے افطار کی نيت سے کهانا کهایا ہے ؟

-جی ہاں ۔

-کيا تم دین یہود کے پيرو ہو ؟

- نہيں ۔

- دین مسيح کے پيرو ہو؟

- نہيں ۔

- پس تم کس دین کے پيرو ہو کہ اسلام کے ساتھ مخالفت کرتے ہو اور روزہ کو علی الاعلان توڑتے ہو؟

- ہم مسلمان ہيں ۔

-یقيناً مسافر تھے ، اس لئے روزہ نہيں رکھا ہے؟

- نہيں ۔

- پس یقيناً کسی بيماری ميں مبتلا ہو جس سے ہم مطلع نہيں ہيں تم خود جانتے ہو کيونکہ انسان اپنے بارے ميں د وسروں سے آگاہ تر ہے کيونکہ خدا نے فرمایا: الانسان علی نفسہ بصيرة ۔

-ہم کسی بيماری یا تکليف ميں مبتلا نہيں ہيں ۔

اس کے بعد امام صادق عليہ السلام نے فرمایا: یہاں پر امير المؤمنين عليہ السلام نے ہنس کر فرمایا : پس تم لوگ خدا کی وحدانيت اور محمد صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی رسالت کا اعتراف کرتے ہو؟

-ہم خدا کی وحدانيت کا اعتراف کرتے ہيں او رشہادت دیتے ہيں ليکن محمد کو نہيں پہچانتے ۔

-وہ رسول اور خدا کے پيغمبرہيں ۔

- ہم انهيں نبی کی حيثيت سے نہيں پہچانتے بلکہ اسے ایک بيابانی عرب جانتے ہيں کہ جس نے لوگوں کو اپنی طرف دعوت دی ہے۔

-تمہيں محمد صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی نبوت کا اعتراف کرنا ہوگا ورنہميں تمہيں قتل کرڈالوں گا!

-ہم ہرگز اعتراف نہيں کریں گےخواہ ہميں قتل کر دیا جائے۔

اس کے بعد امير المؤمنين عليہ السلام نے مامورین کو حکم دے کر کہا انهيں شہر سے باہر لے جاؤ پھر وہاں پر دو گڑهے ایک دوسرے سے نزدیک کھودو۔

پھر ان لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا : ميں تمہيں ان گڑهوں ميں سے ایک ميں ڈال دوں گا اور دوسرے گڑهے ميں آگ جلادوں گا اور تمہيں اس کے دهویں کے ذریعہ مار ڈالوں گا ۔

انہوں نے علی عليہ السلام کے جواب ميں کہا: جو چاہتے ہو انجام دو ، اور ہمارے بار ے ميں جو بھی حکم دینا چاہتے ہو اسے جاری کرو ۔ اس کے علاوہ اس دنيا ميں آپ کے ہاتھوں اور کوئی کام انجام نہيں پا سکتا ہےفانما تقضی هذه الحياة الدنيا ۔ حضرت نے انهيں آرام سے ان دو گڑهوں ميں سے ایک ميں ڈالا، اسکے بعد حکم دیاکہ دوسرے کنویں ميں آگ جلادیں ۔

اس کے بعد مکرر انهيں اس سلسلے ميں آواز دی کہ کيا کہتے ہو ؟ وہ ہر بار جواب ميں کہتے تھے: جو چاہتے ہو انجام دو اور ان کا یہ جواب تکرار ہورہا تھا ، یہاں تک کہ سب مرگئے ۔

راوی کہتا ہے کہ اس داستان کی خبر کاروانوں نے مختلف شہروں ميں پہنچادی اور تمام جگہوں پر بہترین طریقے سے اہم حادثہ کی صورت ميں نقل کرتے تھے اور لوگ بھی اس موضوع کو ایک دوسرے سے بيان کرتے تھے ۔

امير المؤمنين عليہ السلام اس واقعہ کے بعد ایک دن مسجدکوفہ ميں بيٹھے تھے کہ مدینہ کے یہودیوں ميں سے ایک شخص (جس کے اسلاف اور خود اس یہودی کے علمی مقام اور حيثيت کا سارے یہودی اعتراف کرتے تھے) اپنے کاروان کے چند افراد کے ہمراہ حضرت عليہ السلام سے ملاقات کرنے کيلئے کوفہ ميں داخل ہوا اور مسجد کوفہ کے نزدیک پہنچا اور اپنے اونٹوں کو بٹھا دیا اور مسجد کے دروازے کے پاس کھڑا ہوگيا اور ایک شخص کو امير المؤمنين عليہ السلام کے پاس بھيج دیا کہ ہم یہودیوں کا ایک گروہ، حجاز سے آیا ہے او رآپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہے کيا آپ مسجد سے باہر آئيں گے یا ہم خودمسجد ميں داخل ہوجائيں ؟

امام صادق عليہ السلام نے فرمایا: حضرت عليہ السلام ان کی طرف یہ جملہ کہتے ہوئے آئے: جلدی ہی اسلام قبول کریں گے اور بيعت کریں گے ۔

اس کے بعد علی عليہ السلام ے فرمایا : کيا چاہتے ہو ؟

ان کے سردار نے کہا: اے فرزند ابوطالب ! یہ کون سی بدعت ہے کہ جو آپ نے دین محمد ميں ایجاد کی ہے؟

علی عليہ السلام نے کہا: کونسی بدعت ؟

رئيس نے کہا: حجاز کے لوگوں ميں يہ افواہ پهيلی ہے کہ آپ نے ان لوگوں کو کہ جو خدا کی وحدانيت کا اقرار کرتےہيں ليکن محمد صلى اله عليه وسلمکی نبوت کا اعتراف نہ کرتے دهویں کے ذریعہ مار ڈالا ہے!

علی عليہ السلام : تجھے قسم دیتا ہوں ان نو معجزات کی جو طور سينا پر موسیٰ کو دئے گئے ہيں اور پنجگانہ کنيتوں اور صاحب سرِ ادیان کيلئے ، کيا نہيں جانتے ہو کہ موسیٰ کی وفا ت کے بعد کچھ لوگوں کو یوشع بن نون کے پاس لایا گيا جو خدا کی وحدانيت کا اعتراف کرتے تھے ليکن موسیٰ کی نبوت کو قبول نہيں کرتے تھے۔ یوشع بن نون نے انهيں دهویں کے ذریعہ قتل کيا ؟!

سردار : جی ہاں ، ایسا ہی تھا اور ميں شہادت دیتا ہوں کہ آپ موسی کے محرم راز ہيں ا س کے بعد یہودی نے اپنے آستين سے ایک کتاب نکالی اور امير المؤمنين عليہ السلام کے ہاتھ ميں دی ۔

حضرت عليہ السلام نے کتاب کهولی اس پر ایک نظر ڈالنے کے بعد روئے یہودی نے کہا:

اے ابن ابيطالب آپ کے رونے کا سبب کيا ہے ؟آپ نے جو اس خط پر نظر ڈالی کيا آپ اس مطلب کو سمجھ گئے ؟ جبکہ یہ خط سریانی زبان ميں لکھا گيا ہے اور آپ کی زبان عربی ہے ؟

امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: جی ہاں ، اس خط ميں ميرا نام لکھا ہے ۔

یہودی نے کہا: ذرا بتایئے تا کہ ميں جان لوں کہ سریانی زبان ميں آپ کا نام کيا ہے ؟ اور اس خط ميں اس نام کو مجھے دکھایئے!

امير المؤمنين عليہ السلام نے کہا: سریانی زبان ميں ميرانام “اليا ” ہے اس کے بعد اس یہودی کو اس خط ميں لفظ دکھایا ۔

اس کے بعد یہودی نے اسلام قبول کيا اور شہادتين کو زبان پر جاری کيا اور علی عليہ السلام کی بيعت کی پھر مسلمانوں کی مسجد ميں داخل ہوا یہاں پر اميرالمؤمنين نے حمد و ثنا اور خد اکا شکر بجالانے کے بعد کہا:

” شکر خدا کا کہ اس کے نزدیک ميں فراموش نہيں ہوا تھا ، شکر اس خداکا جس نے اپنے نزدیک ميرا نام ابرار اور نيکوں کاروں کے صحيفہ ميں درج کيا ہے اور شکر اس خدا کا جو صاحب جلال و عظمت ہے “

ابن ابی الحدید نے اس روداد کو دوسری صورت ميں نقل کيا ہے کہ علم و تحقيق کے ۴ ٢ ۵ کی طرف رجوع کرسکتے ہيں : / دلدادہ حضرات شرح نہج البلا غہ ج ١

٩۔ ہم ان روایتوں کچھ دوسری روایت کے ساتھ ختم کرتے ہيں جسکا باطل اور خرافات پر مشتمل ہونا واضح اور عياں ہے:

اس روایت کو ابن شاذان نے کتاب “ فضائل ” ميں درج کيا ہے اور ان سے مجلسی نے نقل کرکے بحا الانوار ميں درج کيا ہے اس کے علاوہ اسے علامہ نوری نے بھی ‘ عيون المعجزات ” سے نقل کرکے “ مستدرک ” ميں درج کيا ہے:

امير المؤمنين عليہ السلام ، کسریٰ کے مخصوص منجم کے ہمراہ کسری کے محل ميں داخل ہوئے اميرالمؤمنين عليہ السلام کی نظر ایک کونے ميں ایک بوسيدہ کهوپڑی پر پڑی حکم دیا ایک طشت لایا جائے اس ميں پانی ڈال کر کهوپڑی کو اس ميں رکھا گيا پھر اس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے کهوپڑی تجھے خداکی قسم دیکر پوچهتا ہوں تو بتا کہ ميں کون ہوں ؟ اور تم کون ہو ؟ کهوپڑی گویا ہوئی اور فصيح زبان ميں جواب دیا : آپ امير المؤمنين عليہ السلام اور سيدا وصياء ہيں ! ليکن، ميں بندہ خدا اور کنيز خدا کا بيٹا نوشيروان ہوں ؟

” ساباط ” کے چند باشندے ، امير المؤمنين عليہ السلام کے پاس تھے اور انہوں نے اس روداد کا عينی مشاہدہ کيا وہ اپنی آبادی اور قبيلہ کی طرف روانہ ہوئے اور جو کچھ اس کهوپڑی کے بارے ميں دیکھا تھا لوگوں ميں بيان کيا یہ روداد ان کے درميان اختلاف کا سبب بنی اور ہر گروہ نے اميرالمؤمنين عليہ السلام کے بارے ميں ایک قسم کے عقيدہ کا اظہار کيا ۔ کچھ لوگ حضرت عليہ السلام کے بارے ميں اسی چيز کے معتقد ہوئے جس کے عيسائی حضرت عيسیٰ کے بارے ميں معتقد تھے اور عبدالله بن سبا اور اس کے پيرؤں کا جيسا عقيدہ اختيار کيا ۔

ا ميرالمؤمنين عليہ السلام کے اصحاب نے اس بارے ميں حضرت علی عليہ السلام سے عرض کی : اگر لوگوں کو اسی اختلاف و افتراق کی حالت ميں رکھو گے تو دوسرے لوگ بھی کفر و بے دینی ميں گرفتار ہوں گے جب امير المؤمنين عليہ السلام نے اپنے اصحاب سے یہ باتيں سنيں تو فرمایا: آپ کے خيال ميں ان لوگوں سے کيسا برتاؤ کيا جانا چاہئے ؟ عرض کيا مصلحت اس ميں ہے کہ جس طرح عبدا لله بن سبا اور اس کے پيرؤں کو جلادیا گيا ہے۔ان لوگوں کو بھی نذر آتش کيجئے ۔ اس کے بعدا مير المؤمنين عليہ السلام نے انهيں اپنے پاس بلایا اور ان سے سوال کيا کہ : تمہارے اس باطل عقيدہ کا محرک کيا تھا ؟ انہوں نے کہا :ہم نے اس بوسيدہ کهوپڑی کی آپ کے ساتھ گفتگو کو سنا ، چونکہ اس قسم کا غير معمولی کام خدا کے علاوہ اورکسی کيلئے ممکن نہيں ہے لہذا ہم آپ کے بارے ميں اس طرح معتقد ہوئے۔

اميرالمؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: اس باطل عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤ اور خدا کی طرف لوٹ کر توبہ کرو، انہوں نے کہا: ہم اپنے اعتقاد کو نہيں چھوڑیں گے آپ ہمارے بارے ميں جو چاہيں کریں ۔ علی عليہ السلام جب ان کے توبہ کے بارے ميں نااميد ہوئے تو حکم دیا تا کہ آگ کو آمادہ کریں اس کے بعد سب کو اس آگ ميں جلادیا ۔ اسکے بعد ان جلی ہوئی ہڈیوں کو ٹنے کے بعد ہوا ميں بکهيرنے کا حکم دیا۔ حضرت کے حکم کے مطابق جلی ہوئی تمام ہڈیوں کو چور کرنے کے بعد ہوا ميں بکهير دیا گيا۔ اس روداد کے تين دن بعد “ ساباط” کے باشندے حضرت علی عليہ السلام کی خدمت ميں آئے اور عرض کيا : اے اميرالمؤمنين عليہ السلام ! دین محمد صلی الله عليہ و آلہ وسلم کا خيال رکھو ، کيوں کہ جنہيں آ پ نے جلا دیا تھا وہ صحيح و سالم بدن کے ساتھ اپنے گھروں کو لوٹے ہيں ، کيا آپ نے ان لوگوں کو نذر آتش نہيں کيا تھا اور ان کی ہڈیاں ہوا ميں نہيں بکهيریں تھيں ؟ اميرالمؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: جی ہاں ، ميں نے ان افراد کو جلا کر نابود کردیا، ليکن خداوند عالم نے انهيں زندہ کيا۔

یہاں پر “ ساباط” کے باشندے حيرت و تعجب کے ساتھ اپنی آبادی کی طرف لوٹے ۔

ایک اور روایت کے مطابق اميرالمؤمنين عليہ السلام نے انهيں نذر آتش نہيں کيا ۔ ليکن ان ميں سے کچھ لوگ بهاگ گئے اور مختلف شہروں ميں منتشر ہوئے اور کہا: اگر علی ابن ابيطالب مقام ربوبيت کے مالک نہ ہوتے تو ہميں نہ جلاتے ۔

یہ مرتدین کے احراق سے مربوط روایتوں کا ایک حصہ تھا کہ ہم نے اسے یہاں پر در ج کيا ۔ گزشتہ فصلوں ميں بيان کی گئی عبد الله بن سبا کی روایتوں کی جانچ پڑتال، تطبيق اور تحقيق انشاء الله اگلی فصل ميں کریں گے۔

روایات احراق مرتد کی بحث و تحقيق ان احداً من فقهاء المسلمين لم یعتقد هذه الروایات

علمائے شيعہ و سنی ميں سے کسی ایک نے بھی احراق مرتد کی روایتوں پر عمل نہيں کيا ہے مؤلف جو کچھ گزشتہ فصلوں ميں بيان ہوا وہ عبدا لله بن سبا اس کے نذر آتش کرنے اور اس سلسلہ ميں حدیث و رجال کی شيعہ و سنی کتابوں سے نقل کی گئی مختلف اور متناقض روایتوں کا ایک خلاصہ تھا ۔

ليکن تعجب کی بات ہے کہ اسلامی دانشوروں اور فقہاء ، خواہ شيعہ ہوں یا سنی ان ميں سے کسی ایک نے بھی ان روایتوں کے مضمون پر اعتماد نہيں کيا ہے اور شخص مرتد کو جلانے کا فتوی نہيں دیا ہے بلکہ شيعہ و سنی تمام فقہاء نے ان روایتوں کے مقابلے ميں رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم اور ائمہ ہدی سے نقل کی گئی روایتوں پر استناد کرکے مرتد کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے نہ جلانے کا۔

اب ہم یہاں پر مرتدوں کے بارے ميں حکم کے سلسلے ميں شيعہ و سنی علماء کا نظریہ بيان کریں گے اور اس کے بعد ان روایات کے بارے ميں بحث وتحقيق کا نتيجہ پيش کریں گے ۔

اہل سنت علماء کی نظر ميں مرتد کا حکم ابو یوسف کتاب ‘ ‘ الخراج ” ميں مرتد کے حکم کے بارے ميں کہتا ہے:

اسلام سے کفر کی طرف ميلان پيدا کرنے والے اور کافر افراد جو ظاہراً اسلام لانے کے بعد پھر سے اپنے کفر کی طرف پلٹ گئے ہوں اور اسی طرح یہودی و عيسائی و زرتشتی اسلام قبول کرنے کے بعد دوبارہ اپنے پہلےمذہب اور آئين کی طرف پلٹ گئے ہوں ایسے افرا دکے حکم کے بارے ميں اسلامی علماء ميں اختلاف پایا جاتا ہے ۔

ان ميں سے بعض کہتے ہيں : اس قسم کے افراد کو توبہ کرکے دوبارہ اسلام ميں آنے کی دعوت دی جانی چاہئے اور اگر انہوں نے قبول نہ کيا توقتل کر دیا جائے بعض دوسرے کہتے ہيں : ایسے افراد کيلئے توبہ کی تجویز ضروری نہيں ہے بلکہ جو ں ہی مرتد ہوجائيں اور اسلام سے منہ موڑیں ، انہيں قتل کيا جائے ۔

اس کے بعد ابو یوسف طرفين کی دليل کو جو پيغمبر اکرم صلی الله عليہ و آلہ وسلم سے نقل کی گئی احادیث پر مبنی ہيں بيان کرتا ہے اور مرتد کو قابل توبہ جاننے والوں کے دلائل کے ضمن ميں عمر بن خطاب کا حکم نقل کرتا ہے کہ جب اسے فتح “ تستر” ميں خبر دی گئی کہ مسلمانوں ميں سے ایک شخص مشرک ہو گيا ہے اور اسے گرفتا رکيا گيا ہے عمر نے کہا ؛ تم لوگوں نے اسے کيا کيا ؟ انہوں نے کہا: ہم نے اسے قتل کردیا عمرنے مسلمانوں کے اس عمل پر اعتراض کيا اور کہا: اسے پہلے ایک گھر ميں قيدی بنانا چاہئے تھا اور تين دن تک اسے کهانا پانی دیتے ، اور اس مدت کے دوران اسے توبہ کرنے کی تجویز پيش کرتے اگر وہ اسے قبول کرکے دوبارہ اسلام کے دامن ميں آجاتا تو اسے معاف کرتے اور اگر قبول نہ کرتا تو اسے قتل کر ڈالتے ۔

ابو یوسف اس نظریہ کی تائيد ميں کہ پہلے مرتد سے توبہ کا مطالبہ کرنا چاہئے ایک داستان بيان کرتے ہوئے کہتا ہے : ایک دن “ معاذ” ، ابو موسی کے پاس آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کے سامنے کوئی بيٹها ہوا ہے اس سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہے ؟ ابو موسی نے کہا؛

یہ ایک یہودی ہے جس نے اسلام قبول کيا تھا ليکن دوبارہ یہودیت کی طرف پلٹے ہوئے ابھی دو مہينے گزررہے ہيں کہ ہم اسے توبہ کے ساتھ اسلام کو قبول کرنے کی پيش کش کررہے ہيں ليکن اس نے ابھی تک ہماری تجویز قبول نہيں کی ہے معاذ نے کہا: ميں اس وقت تک نہيں بيٹھوں گا جب تک کہ خدا اور پيغمبر خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے حکم سے اس کا سر قلم نہ کروں ۔

اس کے بعد ابویوسف کہتا ہے ؛ بہترین حکم اور نظریہ جو ہم نے اس بارے ميں سنا (بہترین حکم کو خدا جانتا ہے ) کہ مرتدوں سے ، پہلے تو بہ طلب کی جاتی ہے اگر قبول نہ کياتو پھر سر قلم کرتے ہيں ۔

یہ نظریہ مشہور احادیث اور بعض فقہاء کے عقيدہ کا مضمون ہے کہ ہم نے اپنی زندگی ميں دیکھا ہے ۔

ا بو یوسف اضافہ کرتا ہے :ليکن عورتيں جو اسلام سے منحرف ہوتی ہيں ، قتل نہيں کی جائيں گی، بلکہ انهيں جيل بھيجنا چاہئے اور انهيں اسلام کی دعوت دینی چاہئے اور قبول نہ کرنے کی صورت ميں مجبور کيا جانا چاہئے ۔

ا بو یوسف کے اس بيان سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام علمائے اہل سنت کا اس مطلب پر اتفاق ہے کہ شخص مرتد کی حد ، قتل ہے اس نے قتل کی کيفيت کو بھی بيان کيا ہے کہ اس کا سر قلم کيا جانا چاہئے اس سلسلہ ميں علماء کے درميان صرف اس بات پر اختلاف ہے کہ کيا یہ حد اور مرتد کا قتل کيا جانا تو بہ کا مطالبہ کرنے سے پہلے انجام دیا جائے یا توبہ کا مطالبہ کرنے کے بعداسے توبہ قبول نہ کرنے کی صورت ميں ۔

ابن رشد “ بدایة المجتہد ” ميں “ حکم مرتد” کے باب ميں کہتا ہے علمائے اسلام اس بات پر متفق ہيں کہ اگر مرتد کو جنگ سے پہلے پکڑ ليا جائے تو اسے رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے حکم کے مطابق قتل کيا جانا چاہئے فرمایا ہے : ہر وہ مسلمان جو اپنا دین بدلے اسے قتل کيا جانا چاہئے“

یہ تھا مرتد کے بارے ميں علمائے اہل سنت کا نظریہ

شيعہ علماء کی نظر ميں مرتد کا حکم

مرتد کے بارے ميں شيعہ علماء کا عقيدہ ایک حدیث کا مضمون ہے جسے مرحوم کلينی ، صدوق اور شيخ طوسی نے امام صادق عليہ السلام سے اور انہوں نے اميرالمؤمنين عليہ السلام سے نقل کيا ہے: مرتد کی بيوی کو اس سے جدا کرناچاہئے اس کے ہاتھ کا ذبيحہ بھی حرام ہے تين دن تک اس سے توبہ کی درخواست کی جائے گی اگر اس مدت ميں اس نے توبہ نہيں کی تو چوتھے دن قتل کيا جائے گا۔

” من لا یحضرہ الفقيہ ” ميں مذکورہ حدیث کے ضمن ميں یہ جملہ بھی آیا ہے اگر صحيح اور سالم عقل رکھتا ہو ۔

امام باقر عليہ السلام اور امام صادق عليہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ انہوں نے فرمایا:

مرتد سے توبہ کی درخواست کی جانی چاہئے اگر اس نے توبہ نہ کی تو اسے قتل کرناچاہئے ليکن اگر کوئی عورت مرتد ہوجائے تو اس سے بھی توبہ کی درخواست کی جاتی ہے اور اگر وہ توبہ نہ کرے اور اسلام کی طرف دوبارہ نہ پلٹے تو اسے عمر بھر قيد کی سزا دی جاتی ہے اور زندان ميں بھی اس سے سختی کی جاتی ہے ۔

حضرت امام رضا عليہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ کسی نے ان سے سوال کيا کہ ایک شخص مسلمان ماں باپ سے پيدا ہوا ہے ، اس کے بعد اسلام سے منحرف ہو کر کفر و الحاد کی طرف مائل ہوگيا تو کيا اس قسم کے شخص سے توبہ کی درخواست کی جائے گی؟ یا تو بہ کی درخواست کے بغير اسے قتل کيا جائے گا؟

ا مام نے جواب ميں لکھا “و یقتل ” یعنی توبہ کی درخواست کئے بغير قتل کيا جائے گا۔

امير المؤمنين عليہ السلام کے ایک گورنر نے ان سے سوال کيا کہ : ميں نے کئی مسلمانوں کو دیکھا کہ اسلام سے منحرف ہو کر کافر ہو گئے ہيں اور عيسائيوں کے ایک گروہ کو دیکھا کہ کافر ہو گيا ہے۔ اميرالمؤمنين عليہ السلام نے جواب ميں لکھا : ہر مسلمان مرتد جو فطرت اسلام ميں پيدا ہوا ہے، یعنی مسلمان ماں باپ سے پيدا ہوا ہے پھر اس کے بعد کافر ہو گيا تو توبہ کی درخواست کے بغير اس کا سر قلم کرنا چاہئے، ليکن جو مسلمان فطرت اسلام ميں پيدا نہيں ہوا ہے ( مسلمان ماں باپ سے پيدا نہيں ہوا ہے) اگر مرتد ہوا تو پہلے اس سے توبہ کی درخواست کرنا چاہئے، اگر اس نے توبہ نہ کی تو اس کا سر قلم کرنا ليکن، عيسائيوں کا عقيدہ کافروں سے بد تر ہے ان سے تمہيں کوئی سرو کار نہيں ہونا چاہئے۔

ا ميرالمؤمنين عليہ السلام نے محمد بن ابی بکر کے مصر سے سورج او ر چاند کو پوجا کرنے والے ملحدوں اور اسلام سے منحرف ہوئے لوگوں کے بارے ميں کئے گئے ایک سوال کے جواب ميں یوں لکھا : جو اسلام کا دعوی کرتے تھے پھر اسلام سے منحرف ہوئے ہيں ، انهيں قتل کرنا اور دوسرے عقاید کے ماننے والوں کو آزاد چھوڑ دینا وہ جس کی چاہيں پر ستش کریں ۔

گزشتہ روایتوں ميں ا ئمہ سے روایت ہوئی ہے کہ مرتد کی حد قتل ہے ۔

ا یک روایت ميں یہ بھی ملتا ہےکہ امير المومنين نے مرتد کے بارے ميں قتل کا نفاذ فرمایا ہے چنانچہ ، کلينی امام صادق عليہ السلام سے نقل کرتے ہيں : ایک مرتد کو اميرالمؤمنين عليہ السلام کی خدمت ميں لایا گيا ۔ حضرت عليہ السلام نے اس شخص کا سر قلم کيا عرض کيا گيا یا اميرالمؤمنين اس شخص کی بہت بڑی دولت و ثروت ہے یہ دولت کس کو دی جانی چاہئے ؟ حضرت عليہ السلام نے فرمایا: اس کی ثروت اس کی بيوی اور بچوں اور وارثوں ميں تقسيم ہوگی ۔

پھر نقل ہو ا ہے ایک بوڑها اسلام سے منحرف ہوکر عيسائی بنا امير المومنين عليہ السلام نے اس سے فرمایا: کيا اسلام سے منحرف ہوگئے ہو؟ اس نے جواب ميں کہا: ہاں ،

فرمایا شاید اس ارتداد ميں تمہارا کوئی مادی مقصد ہو اور بعد ميں پھر سے اسلام کی طرف چلے آؤ؟ اس نے کہا: نہيں ۔ فرمایا : شاید کسی لڑکی سے عشق و محبت کی وجہ سے اسلام سے منحرف ہوگئے ہو اور اس کے ساتھ شادی کرنے کے بعد پھر سے اسلام کی طرف واپس آجاؤ گے ؟ عرض کيا : نہيں امام نے فرمایا: بہر صورت اب توبہ کر کے اسلام کی طرف واپس آجا اس نے کہا: ميں اسلام کو قبول نہيں کرتا ہوں ۔ یہاں پر امام نے اسے قتل کر ڈالا ١

ی ہ ان روایتوں کا ایک حصہ تھا جو مرتد کی حد ومجازات کے بارے ميں نقل کی گئی ہيں اس کے علاوہ اس مضمون کی اور بھی بہت سے روایتيں موجو د ہيں ۔

بحث کا نتيجہ جو کچھ مرتد کی حد کے بارے ميں بيان ہوا اس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ مرتد کے حد کے بارے ميں تمام علمائے شيعہ و سنی کا عمل و بيان اور اس بارے ميں نقل کی گئی روایتيں احراق مرتد کی روایتوں کی بالکل برعکس تھيں اور ان ميں یہ بات واضح ہے کہ مرتد کی حد ،

قتل ہے نہ جلانا۔

اس کے علاوہ یہ روایتيں واضح طور پر دلالت کرتی ہيں کہ امام عليہ السلام نے مرتد کے بارے ميں قتل کو عملاً نافذ کيا ہے یہ بات بالکل واضح ہے کہ عربی لغت ميں “ قتل ” کسی شخص کو تلوار ، نيزہ ، پتهر ، لکڑی اور زہر جيسے کسی آلہ سے مارڈالنا ہے ۔ اس کے مقابلہ ميں “ حرق” آگ ميں جلانا ہے اور ” صلب” پهانسی کے پهندے پر لٹکانا ہے ۔

جو کچھ ہم نے اس فصل ميں کہا وہ احراق سے مربوط روایتوں کا ایک ضعف تھا انشاء الله اگلی فصل ميں مزید تحقيق کرکے دوسرے ضعيف نقطوں کی طرف اشارہ کيا جائے گا۔