واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا18%

واقعۂ کربلا مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 438

واقعۂ کربلا
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 438 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 192973 / ڈاؤنلوڈ: 5407
سائز سائز سائز
واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

جوں جوں انسان کی آگاہی کا درجہ بڑھتا جاتا ہے‘ اس کی حیات اور جانداری کا درجہ بھی بڑھتا جاتا ہے۔

ظاہر ہے کہ زیربحث ”خود شناسی“، ”شناختی کارڈ“ والی خود شناسی نہیں ہے‘ جس میں لکھا ہوتا ہے کہ میرا نام کیا ہے؟ میرے ماں باپ کا نام کیا ہے؟ میری جائے پیدائش کون سی ہے؟ اور میری سکونت کہاں ہے؟ اور اسی طرح سے زیربحث ”خود شناسی“ حیاتیات کی شناخت بھی نہیں ہے جو حیوانات کی شناخت میں انسان کو ریچھ یا بندر سے بالاتر درجے کا ایک حیوان قرار دے۔

اس مقصد کی مزید وضاحت کے لئے ہم یہاں ”حقیقی خود شناسی“ کی اقسام مختصراً بیان کرتے ہیں‘ مجازی خود آگاہی سے قطع نظر خود شناسی کی چند اقسام ہیں:

1 ۔ فطری خود شناسی

انسان ذاتاً خود شناس ہے‘ یعنی اس کی ذات کا جوہر ہی آگاہی ہے‘ لیکن ایسا نہیں ہے کہ پہلے انسان کا جوہر ذات وجود میں آئے اور اس کے بعد انسان اس سے آگاہ ہو‘ بلکہ اس کے جوہر ذات کی پیدائش ہی اس کی خود آگاہی کی پیدائش ہے اور اس مرحلے میں آگاہ ”آگاہی“ اور درجہ آگاہی میں آیا ہوا‘ تینوں ایک ہی چیز ہیں۔ جوہر ذات وہ حقیقت ہے جو عین خود آگاہی ہے۔

دوسری چیزوں سے کم و بیش آگاہی کے بعد والے مراحل میں اپنے بارے میں بھی اسے اسی طرح سے آگاہی حاصل ہوتی ہے یعنی اپنے بارے میں انسان ذہن میں ایک تصور قائم کر لیتا ہے اور اصطلاحی الفاظ میں علم حصولی کے ذریعے خود سے آگاہ ہوتا ہے‘ لیکن اس طرح کی آگاہی سے قبل بلکہ ہر طرح کی دوسری چیزوں کی شناخت سے قبل اپنے بارے میں وہ علم حضوری رکھتا ہے جیسا کہ پہلے بیان ہوا۔

۸۱

ماہرین نفسیات عموماً خود شناسی کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں‘ ان کے پیش نظر دوسرا مرحلہ ہوتا ہے یعنی علم حصولی اور ذہنی کے ذریعے خود شناسی لیکن فلاسفہ کی نظر زیادہ تر علم حضوری کے مرحلے پر ہوتی ہے نہ علم ذہنی پر۔ شناخت کی یہ قسم وہی ہے جو فلسفہ میں تجردد نفس کی مضبوط ترین دلیل کے طور بیان کی جاتی ہے۔

اس قسم کی خود شناسی میں اس طرح کے شک و تردد کی گنجائش نہیں ہوتی کہ میں موجود ہوں یا نہیں؟ اور اگر موجود ہوں تو کون ہوں؟ شک و تردید کی گنجائش وہاں ہوتی ہے‘ جہاں شناخت علم حصولی کا نتیجہ ہو یعنی شناخت شدہ شے کا عینی وجود اور شناخت کا عینی وجود دو مختلف چیزیں ہوں۔

لیکن جہاں شناخت‘ شناخت کنندہ اور شناخت شدہ تینوں ایک ہی چیز ہوں تو یہ شناخت حضوری ہو گی جس میں شک و تردد کو فرض نہیں کیا جا سکتا یعنی شک کا واقع ہونا وہاں وہاں محال ہے۔

ڈیکارٹ کی بنیادی غلطی ہی یہی ہے کہ اس نے اس بات پر توجہ ہی نہیں کی کہ ”میں ہوں“ شک و تردد سے مبرا ہے جو ہم ”شک“ کو ”میں سوچتا ہوں“ سے دور کریں۔

فطری خود شناسی اگرچہ ایک واقعیت ہے لیکن اکتسابی اور حصولی نہیں ہے بلکہ وجود انسان کی ذات کا ایک پرتو اور عکس ہے۔ اسی لئے وہ خود شناسی جس کی دعوت دی گئی ہے‘ خود شناسی کا ایسا درجہ نہیں جو فطرت کی حرکت جوہری کے نتیجے میں تکوینی اور قہری طور پر وجود میں آتی ہے۔ جہاں پر قرآن حکیم نے رحم مادر میں بچے کی خلقت کے تین مراحل بیان کرتے ہوئے آخری مرحلے کے بارے میں فرمایا:

۸۲

ثم انشاء ناه خلقاً آخر (سورئہ مومنون‘ آیت 14)

”پھر ہم نے اسے ایک اور چیز سے اور ایک اور خلقت سے کر دیا۔“

اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ مادہ انجانے طور پر خود شناس روحی جوہر میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

2 ۔ فلسفی خود شناسی

فلسفی کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ ”ذات خود شناس“ کی حقیقت کو پہچانے کہ وہ کیا ہے؟ آیا وہ ”جوہر“ ہے یا ”عرض“؟ وہ مجرد ہے یا مادی؟ اس کا جسم سے کیا تعلق ہے؟ کیا وہ جسم سے پہلے موجود تھا‘ یا جسم کے ساتھ وجود میں آیا؟ یا خود جسم سے نکلا ہے؟ کیا وہ فنائے جسم کے بعد بھی باقی رہتا ہے یا نہیں؟ اور اس طرح کے اور سوالات۔

خود شناسی کی اس سطح پر جو سوال پیش آتا ہے وہ یہ ہے کہ خود اور ذات کی ماہیت اور حقیقت کیا ہے؟ وہ کیا ہے اور کس جنگ سے ہے؟ اگر فلسفی ”خود شناسی“ کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ذات کی ماہیت‘ جوہر اور جنس کو پہچانتا ہے۔

۸۳

3 ۔ دنیوی خود شناسی

یعنی انسان کے دنیا سے تعلق کی شناخت کہ میں کہاں سے آیا ہوں؟ کہاں ہوں؟ اور کہاں جا رہا ہوں؟ اس ”خود شناسی“ سے اس پر یہ انکشاف ہوتا ہے کہ وہ اس ”کل“ کا ایک ”جزو“ ہے جس کا نام ”دنیا“ ہے وہ جانتا ہے کہ وہ خود کسی مستقل حیثیت کا ملک نہیں بلکہ وہ کسی دوسری چیز سے ملحق ہے۔ وہ اپنی مرضی سے نہ خود وجود میں آیا ہے اور نہ ہی زندگی بسر کر رہا ہے البتہ وہ یہ چاہتا ہے کہ اپنے اس ”جزو“ کو اس ”کل“ میں معین کر دے۔

حضرت علی 1  کے اس پرمغز کلام سے اس قسم کی خود شناسی کی عکاسی ہوتی ہے:

رحم الله امرء علم من این؟ وفی این؟ والی این؟

”خدا اس پر رحمت کرے جو یہ جان لے کہ وہ کہاں سے آیا ہے؟ وہ کہاں ہے؟ اور کہاں جا رہا ہے؟“

اس طرح کی ”خود شناسی“ انسان میں ایک لطیف ترین اور باعظمت ترین درد پیدا کرتی ہے‘ جو اس کائنات کی دوسری ذی روح چیزوں میں نہیں پایا جاتا اور وہ درد ہے ”حقیقت رکھنے“ کا درد اور یہی وہ خود شناسی ہے جو ان کو حقیقت کا پیاسا اور یقین کا متلاشی بناتی ہے‘ شک و تردد کی آگ اس کی روح میں روشن کرتی ہے‘ اس کو ادھر سے ادھر کھینچتی ہے اور یہ وہی آگ ہے جو امام غزالی(سچی کہانیاں) جیسے انسان کی روح میں روشن ہوتی ہے‘ جس سے ان کی بھوک اور نیند اڑ جاتی ہے‘ ان کو نظامیہ کی مسند سے نیچے کھینچ لاتی اور بیابانوں میں آوارہ کرتی ہے اور سالہا سال تک عالم غربت اور بے وطنی میں تدبر اور تفکر میں مصروف رکھتی ہے۔

یہ وہی آگ ہے جو ”عنوان بصری“(سچی کہانیاں) جیسے انسانوں کو حقیقت کی تلاش میں شہر شہر اور کوچہ کوچہ گھومنے پر مجبور کر دیتی ہے اس طرح کی خود شناسی انسان میں تقدیر کا خیال پیدا کرتی ہے۔

۸۴

4 ۔ طبقاتی خود شناسی

یہ خود شناسی ”اجتماعی خود شناسی“ کی مختلف صورتوں میں سے ایک ہے۔ طبقاتی خود شناسی یعنی معاشرے کے مختلف طبقات سے اپنے تعلق کی شناخت جن کے ساتھ وہ زندگی بسر کرتا ہے‘ طبقاتی معاشروں میں ہر فرد کی ایک خاص ٹولی ہے اور ایک خاص طبقہ میں کامیاب یا ناکام زندگی بسر کرتا ہے‘ طبقاتی مقام اور طبقاتی ذمہ داریوں کی پہچان طبقاتی ”خود شناسی“ ہے۔

بعض نظریات کی رو سے انسان کا اس طبقے سے باہر کوئی ”خود“ موجود نہیں جس میں وہ ہے‘ ہر شخص کی ذات‘ اس کا ضمیر ہے اور اس کے احساسات‘ افکار‘ آلام اور میلانات کا مجموعہ ہیں اور یہ سب طبقاتی زندگی میں پیدا ہوتے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ اس گروہ کے نزدیک نوع انسان کی کوئی ذات نہیں ہوتی وہ ایک انتزاع شدہ انسان ہے نہ عینی انسان‘ کیوں کہ عینی انسان تو طبقے میں معین ہو جاتا ہے‘ انسان موجود نہیں ہوتا بلکہ یا اشراف ہوتے ہیں یا عوام‘ لہٰذا ایک غیر طبقاتی معاشرے میں اجتماعی خود شناسی‘ طبقاتی خود شناسی پر منحصر ہے۔

اس نظریے کے مطابق ”طبقاتی خود شناسی“، ”نفع شناسی“ کے مساوی ہے‘ کیوں کہ اس کی بنیاد یہ فلسفہ ہے کہ ”فرد“ پر اصل حاکم اور فرد کی شخصیت کی بنیاد ”مادی منافع“ ہے جس طرح سے معاشرے کی عمارت میں اس کی بنیاد اقتصاد ہے اور جو چیز ایک طبقے کے افراد کو مشترک ضمیر‘ مشترک ذوق اور مشترک فیصلہ دیتی ہے وہ مشترک مادی زندگی اور مشترک منافع ہیں‘ طبقاتی زندگی انسان کو طبقاتی نقطہ نظر عطا کرتی ہے اور طبقاتی نقطہ نظر اس چیز کا باعث ہوتاہے کہ انسان دنیا اور معاشرے کو خاص زاویے اور خاص عینک سے دیکھے اور اسے طبقاتی نظر سے پیش کرے۔ اس کے اندر درد بھی طبقاتی ہوتا ہے اور اس کی کوششیں اور طرز تفکر بھی طبقاتی ہوتا ہے۔

مارکسزم اس طرح کی خود شناسی کا قائل ہے اس طرح کی خود شناسی کو مارکسزم کی خود شناسی کہا جا سکتا ہے۔

۸۵

5 ۔ قومی خود شناسی

قومی خود شناسی سے مراد اپنے بارے میں ایسی خود شناسی ہے جو انسان اور اس کی اپنی قوم کے دیگر افراد سے تعلق اور ربط کے سلسلے میں ہو‘ ایک طبقے کے افراد کے آداب‘ قوانین‘ تاریخ‘ تاریخی فتوحات اور شکستیں‘ زبان‘ ادبیات اور تہذیب مشترک ہو تو ان کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے نتیجے میں انسان میں ان لوگوں کے ساتھ ایک طرح کی یگانگت اور ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے‘ بلکہ جس طرح ایک فرد ایک شخصیت کا مالک ہوتا ہے۔ ایک قوم بھی ایک تہذیب کی حامل ہونے کی بناء پر ایک ملی شخصیت پیدا کر لیتی ہے۔ مشترک تہذیب سے افراد کے درمیان مشترک قومیت کی نسبت زیادہ شباہت اور وحدت پیدا ہوتی ہے‘ ایسی قومیت جس کی بنیاد تہذیب اور ثقافت پر ہو‘ افراد کو اجتماع اور وحدت میں بدل دیتی ہے اور اسی اجتماع اور وحدت کی خاطر قربانی دیتی ہے‘ اجتماع کی کامیابی سے اس میں فخر اور شکست سے شرمندگی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

”ملی خود شناسی“ یعنی قومی ثقافت سے آگاہی‘ ملی شخصیت کی شناخت قومیت کے اجتماعی احساس کی شناخت ہے‘ بنیادی طور پر دنیا میں ”ایک ثقافت“ نہیں بلکہ ”ثقافتیں“ موجود ہیں اور ہر ثقافت کی ایک خاص ماہیت‘ خصوصیت اور پہچان ہوتی ہے لہٰذا صرف ایک ثقافت کا نعرہ کھوکھلا اور بے معنی ہے۔ نیشنلزم (قومیت) جس نے بالخصوص انیسویں صدی عیسوی میں بہت رواج پایا ہے اور اب بھی کم و بیش اس کی ترویج کا سلسلہ جاری ہے‘ اسی فلسفے پر مبنی ہے اس طرح کی ”خود شناسی“ میں ”طبقاتی خود شناسی“ کے برعکس‘ جس میں ہر قسم کے اندازے‘ جذبات‘ فیصلے اور طرف داریوں کا رجحان طبقاتی ہوتا ہے‘ قومی جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔

”ملی خود شناسی“ اگرچہ ”منافع خود شناسی“ نہیں ہے تاہم یہ ”خود خواہی“ کے جذبے سے خالی نہیں ہوتی‘ اس میں ”خود خواہی“ کے تمام عیب جیسے تعصب‘ جانبداری کا احساس‘ اپنے عیوب نہ دیکھنا‘ اپنے آپ پر اترانا اور خود پسندی وغیرہ پائے جاتے ہیں‘ اس لئے یہ بھی ”طبقاتی خود شناسی“ کی مانند اخلاقی صفات سے عاری ہوتی ہے۔

۸۶

6 ۔ انسانی خود شناسی

یعنی دوسرے انسانوں کے لحاظ سے انسان کی اپنے بارے میں شناخت‘ اس خود شناسی کا انحصار اس فلسفے پر ہے کہ تمام انسان مجموعی طور پر ایک اکائی ہیں اور ایک مشترک انسانی ضمیر رکھتے ہیں‘ اس لئے انسان دوستی اور اس کی طرف میلان کا احساس ہر انسان میں پایا جاتا ہے۔

سعدی شیرازی کے بقول:

بنی آدم اعضای یک پیکر اند

کہ در آفرینش زیک گوہر اند

چو عضوی بدرد آورد روزگار

عضوھا را نماند قرار

تو کز محنت دیگران بی غمی

نشاید کہ نامت نھند آدمی

بنی آدم 1  ایک ہی جسم کے اعضاء ہیں‘ اس لئے کہ وہ خلقت میں ایک ہی جوہر سے ہیں۔

جب زمانہ ایک حصے کو درد میں مبتلا کرتا ہے‘ تو دوسرے اعضاء بھی بے چین اور بے قرار ہو جاتے ہیں تو جو کہ دوسروں کی مصیبت سے بے غم ہے‘ تجھے انسان کہنا نامناسب ہے‘ وہ لوگ جو کانٹ کی مانند ”دین انسانیت“ کی تلاش میں تھے اور اب بھی ہیں‘ اسی طرز فکر کے حامل ہیں۔ ہیومانزم ( Humanism ) کا فلسفہ جو ہمارے زمانے میں بھی کم و بیش رائج ہے اور بہت سے روشن فکر اشخاص جس کے مدعی ہیں‘ یہی ہے۔ یہ فلسفہ انسان کو گروہوں‘ قومیتوں‘ تہذیبوں‘ مذہبوں‘ رنگوں اور نسلوں سے بالاتر ہو کر انسانوں کو ایک ”اکائی“ کی صورت میں دیکھتا ہے اور ان کے درمیان ہر قسم کی تفریق اور امتیازات کی نفی کرتا ہے‘ وہ منشور جو ”حقوق انسانی“ کے نام سے شائع ہوئے ہیں‘ اسی فلسفہ پر مبنی ہیں اور دنیا میں اسی طرح کی خود شناسی کی ترویج کرتے ہیں۔

۸۷

اگر اس طرح کی ”انسانی خود شناسی“ ایک فرد میں پیدا ہو جائے تو اس کا درد انسانیت کا درد اور اس کی آرزوئیں انسانیت کی آرزوئیں بن جاتی ہیں۔ اس کا میلان انسانی میلانات کی صورت اختیار کرتا ہے۔ اس کی دوستی اور دشمنی بھی انسانی رنگ اختیار کرتی ہے۔ وہ انسان کے دوستوں یعنی علم‘ تہذیب‘ رفاہ‘ آزادی‘ انصاف اور محبت کا دوست اور اس کے دشمنوں یعنی جہالت‘ افلاس‘ ظلم‘ بیماری‘ گھٹن اور تفریق کا دشمن بن جاتا ہے اور اس طرح کی خود شناسی ”ملی خود شناسی“ اور ”طبقاتی خود شناسی“ کے برعکس اخلاقی صفات کی حامل ہوتی ہے۔

لیکن ایسی خود شناسی باوجودیکہ سب سے زیادہ منطقی اور شہرت یافتہ ہے۔ دوسری خود شناسیوں کی نسبت کم پائی جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟

اس کا راز انسان کے وجود اور اس کی اصلیت میں پوشیدہ ہے۔ انسان اپنے وجود اور اپنی اصلیت کے اعتبار سے تمام دوسری موجودات سے‘ جمادات ہوں‘ نبادات ہوں یا حیوانات‘ مختلف ہے۔ اس لئے انسان کے علاوہ ہر دوسرا وجود جو اس دنیا میں آتا ہے‘ وہی ہوتا ہے جس حالت میں وہ پیدا کیا گیا ہے یعنی اس کی اصلیت اور کیفیت وہی ہوتی ہے جو پیدائش کے وقت اس کو دی گئی ہے‘ لیکن اس حالت کے برعکس انسان کو پیدائش کے بعد ایک نیا مرحلہ پیش آتا ہے کہ وہ کیا ہے؟ اور اسے کیسے ہونا چاہئے؟ انسان ویسا نہیں رہتا جیسا پیدائش کے وقت ہوتا ہے بلکہ وہ جیسا چاہتا ہے بنتا ہے‘ یعنی وہ تمام وسائل‘ جن میں اس کا ارادہ اور انتخاب بھی شامل ہوتا ہے‘ اس کی پرورش اور تربیت کرتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر انسان کے علاوہ ہر چیز اپنی ماہیت کے لحاظ سے کہ وہ کیا ہے؟ اور کیفیت کے اعتبار سے کہ اسے کیسے ہونا چاہئے؟

۸۸

حقیقی طور پر مکمل پیدا کی گئی ہے‘ لیکن اس لحاظ سے انسان ایک ممکنہ قوت اور استعداد کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے‘ یعنی انسانیت کا بیج اس کے اندر استعدادی قوت کے ساتھ موجود ہوتا ہے اور اگر اس بیج پر کوئی آفت نہ پڑے تو وہ آہستہ آہستہ وجود انسان کی زمین سے باہر نکل آتا ہے اور یہی وہ انسانی فطریات ہیں جو بعد میں اس کے فطری اور انسانی ضمیر کی تعمیر کرتی ہیں۔ انسان جمادات‘ نباتات اور حیوانات کے برعکس ایک ظاہری بدن اور شخصیت کا حامل ہوتا ہے‘ اس کا بدن یعنی جسمانی اعضاء کا مجموعہ جو مکمل طور پر دنیا میں آتا ہے اس لحاظ سے پیدائش کے وقت حیوانات کی مانند ہوتا ہے‘ لیکن روحانی پہلوؤں سے وہ ایک استعدادی قوت رکھتا ہے جو اس کی انسانی شخصیت کو بناتی ہے‘ انسانی اقدار اس کے وجود میں استعدادی قوت کے ساتھ موجود ہوتی ہیں جو پیدا ہونے اور بڑھنے پر آمادہ ہوتی ہیں۔

انسان روحانی اور باطنی اعتبار سے جسم سے ایک مرحلہ پیچھے ہوتا ہے اس کے جسمانی اعضاء پہلے مرحلے میں رحم مادر میں دست قدرت کے وسائل سے تکمیل پاتے ہیں لیکن اس کی روحانی اور باطنی حیثیت اور اس کی شخصیت کے حصے اس کی پیدائش کے بعد والے مرحلے میں مکمل ہوتے ہیں‘ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ ہر شخص خود اپنی شخصیت کا معمار ہے۔ انسان کی تصویر بنانے والا قلم خود اس کے ہاتھ میں دیا گیا ہے اور (اپنی جسمانی ساخت کے برعکس) اپنی شخصیت کو بنانے والا نقاش وہ خود ہے۔

انسان کے علاوہ دوسرے تمام موجودات میں ان کی ذات اور ماہیت کے درمیان جدائی کا تصور ناممکن ہے مثلاً پتھر اور اس کی خصوصیات جیسے مختلف درخت اور اس کی خصوصیات‘ کتا اور اس کی خصوصیات‘ بلی اور اس کی خصوصیات کے مابین جدائی ناممکن ہے‘ اگر بلی‘ بلی ہے تو اپنی خصوصیات کی بنیاد پر ہے اگر اس کی خصوصیات اس سے چھین لی جائیں تو بلی‘ بلی نہیں رہتی۔

۸۹

لیکن انسان ایک ایسا وجود ہے جس کی ذات اور اس کی ماہیت کے درمیان جدائی اور دوری ممکن ہے یعنی انسان اور انسانیت کے درمیان جدائی ممکن ہے۔ بہت سے انسان ایسے ہوتے ہیں جو ابھی انسانیت کے مرحلے پر نہیں ہوتے اور ابھی تک حیوانیت ہی کے مرحلے پر باقی ہوتے ہیں‘ جیسے ابتدائی انسان تھے یا جنگلی انسان ہوتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ بہت سے انسان ایسے بھی ہوتے ہیں جو مسخ ہو جاتے ہیں اور انسان کے دشمن بن جاتے ہیں جیسے وجود اور اس کی ماہیت میں جدائی پیدا ہو جائے۔ ظاہر ہے کہ ماہیت وجود کا لازمہ ہے اگر ایک وجود موجود ہو تو اس کی ماہیت بھی وجود کے ساتھ ساتھ موجود ہو گی۔ ہاں‘ استعدادی وجود کی ماہیت نہیں ہوتی۔

اگزیسٹینشالیزم ( Existentialism ) کے اصالت وجود کا نظریہ مدعی ہے کہ ”انسان بغیر ماہیت کے ایک وجود ہے اور اپنے ہی انتخاب سے راستہ طے کرتا ہے اور ماہیت پیدا کر لیتا ہے۔“

اس کی صحیح فلسفیانہ توجیہ یہی ہے۔ اسلامی فلاسفہ خصوصاً ملاصدرا کا انحصار اسی نظریے پر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ

”انسان ایک نوع نہیں بلکہ انواع ہے‘ بلکہ ہر فرد ایک دن اس طرح ہوتا ہے جس طرح دوسرے دن نہیں ہوتا۔“

اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ علم حیاتیات ( Biology ) کا انسان انسانیت کا معیار نہیں ہے بلکہ وہ صرف انسان کا ڈھانچہ ہے اور فلاسفہ کی تفسیر کے مطابق ”استعداد انسانیت“ کا حامل ہے نہ کہ خود ”انسانیت“ کا اور یہ بھی واضح ہے کہ واقعیت روح کے بغیر ”انسانیت“ کا دعویٰ بے معنی ہے۔

مذکورہ مقدمہ کے جاننے کے بعد ہم ”انسانی خود شناسی“ کا مفہوم زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ ”انسانی خود شناسی“ کی بنیاد یہ ہے کہ تمام انسان مجموعی طور پر ایک حقیقی اکائی کے طور پر شمار کئے جاتے ہیں اور ایک مشترک انسانی ضمیر سے بہرہ مند ہیں‘ جو طبقاتی‘ مذہبی اور قومی ضمیر سے بالاتر ہے۔

۹۰

البتہ یہ بیان توضیح طلب ہے کہ کون سے انسان مجموعی طور پر ایک ”شخصیت“ کے حامل ہیں اور واحد روح ان پر حاکم ہے؟ ”انسانی خود شناسی“ کون سے انسانوں کے درمیان بڑھتی ہے اور ان میں ہمدردی اور جسد واحد ہونے کا تصور پیدا کرتی ہے؟ آیا ”انسانی خود شناسی“ صرف انہی انسانوں کے درمیان بڑھتی ہے‘ جو انسانیت کے مرحلے پر پہنچ چکے ہیں اور جن میں انسانی اقدار اور انسان کی حقیقی ماہیت‘ حقیقت بن چکی ہوتی ہے؟ یا ان انسانوں کے درمیان جو انسانیت نہیں پا سکے لیکن استعداد رکھتے ہیں؟ یا ان انسانوں کے درمیان جو مسخ ہو کر بدترین جانور بن گئے ہیں؟ یا ان سب کے درمیان یہ خود شناسی پائی جاتی ہے؟ جہاں تک باہمی احساس درد کا تعلق ہے سب کو اس درد کا احساس ہونا چاہئے لیکن سوال یہ ہے کہ بظاہر تو تمام انسان ایک ہی جسم کے اعضاء ہیں اور ایک دوسرے کے درد سے بے چین ہو جاتے ہیں‘ لیکن یہ سب گروہ تو ایسے نہیں ہو سکتے‘ جنگلی اور ابتدائی انسان جو اپنے بچپن پر باقی رہے اور ان کی انسانی فطرت ابھی بیدار اور متحرک نہیں ہوئی‘ کب باہمی احساس درد کے حامل ہوتے ہیں؟ اور ایک مشترک روح ان پر کیسے حکومت کر سکتی ہے؟ البتہ جن انسانوں کی ہیئت ہی مسخ ہو چکی ہو‘ ان کا معاملہ تو بالکل واضح ہے پس صرف وہی انسان جو انسانیت کے درجے پر پہنچ چکے ہیں۔ جو انسانی ماہیت کے حامل ہیں اور جو انسانی فطرت کے لحاظ سے تکمیل پائے ہوئے ہیں‘ حقیقت میں ایک جسم کے اعضاء ہیں اور ایک واحد روح پر حکم فرما ہے اور بقول سعدی شیرازی 111#

چو عضوی بدرد آورد روزگار

دیگر عضوھارا نماند قرار

”جب زمانہ ایک حصے کو درد میں مبتلا کرتا ہے تو دوسرے اعضاء بھی بے چین ہو جاتے ہیں۔“

۹۱

ایسے انسان جن میں تمام فطری اقدار پیدا ہو چکی ہیں ”مومن انسان“ ہیں کیوں کہ ایمان انسان کی فطریات اور حقیقی انسانی اقدار میں سرفہرست ہے‘ چنانچہ جو چیز انسانوں کو حقیقی طور پر سماجی وحدت کی صورت دیتی ہے‘ ان میں واحد روح پھونکتی ہے اور اس طرح کے اخلاقی اور انسانی معجزے کو ظہور میں لاتی ہے‘ وہ صرف ”مشترک ایمان“ ہے‘ نہ کہ مشترک جوہر‘ نسب اور وطنیت جیسا کہ سعدی شیرازی کے کلام میں آیا ہے۔

جو کچھ سعدی نے کہا ہے وہ ایک ”آئیڈیل“ ہے نہ کہ حقیقت بلکہ ”آئیڈیل“ بھی نہیں ہے۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ موسیٰ 1  فرعون کے جسم کا حصہ ہوں‘ ابوذر معاویہ کے ہمدرد ہوں‘علیٰ هذا القیاس…؟

جو چیز حقیقت بھی ہے اور ”آئیڈیل“ بھی وہ ایسے انسانوں کی وحدت ہے‘ جو انسانیت کے درجے اور اقدار تک پہنچے ہوئے ہیں‘ یہ وہ حقیقی بیان ہے جو رسول اکرم نے فرمایا تھا اور شیخ سعدی نے اسے عمومیت دے کر اس کا حلیہ بگاڑ دیا‘ پیغمبر اسلام نے بجائے اس کے کہ کہا جائے بنی آدم ایک ہی جسم کے حصے ہیں‘ فرمایا:

مثل المومنین فی توا ددهم و تراحمهم کمثل الجسد اذا شتکی بعضی تداعی له سائر اعضائه بالحمی والسهر

”مومنین ایک ہی جسم کے حصے ہیں‘ جب ایک حصے میں درد اٹھتا ہے تو دوسرے حصے بخار اور بے خوابی میں اس کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔“

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسانیت کے درجے پر پہنچا ہوا انسان تمام انسانوں بلکہ تمام موجودات سے محبت کرتا ہے‘ حتیٰ کہ انسان انسانوں سے بھی‘ جن کی ہیئت مسخ ہو چکی ہے اور جنہوں نے اپنی اصل تبدیل کر لی ہے‘ اسی لئے خداوند تعالیٰ نے حضرت رسول اکرم 1 کو رحمتہ للعالمین قرار دیا ہے۔

۹۲

ایسے انسان اپنے دشمنوں سے بھی محبت کرتے ہیں۔ حضرت علی 1  نے ابن ملجم کے بارے میں فرمایا تھا کہ

”میں اس کی زندگی چاہتا ہوں اور وہ میرا قتل۔“

لیکن معاملہ برابر کی محبت اور برابر کی دردمندی کا ہے اور برابری کی محبت صرف اور صرف معاشرے کے اہل ایمان افراد کے درمیان ہی وجود پا سکتی ہے۔

ظاہر ہے تمام انسانوں سے محبت یعنی ”صلح کلی“ کا تقاضا یہ نہیں کہ کوئی ذمہ داری قبول نہ کی جائے اور کسی گمراہی اور ظالم سے لاتعلق رہا جائے‘ بلکہ اس کے برعکس انسانوں سے حقیقی محبت کا تقاضا اس ضمن میں سخت ترین ذمہ داریاں قبول کرنا ہے۔

ہمارے زمانے میں مشہور انگریز فلسفی اور ریاضی دان برٹرینڈرسل اور فرانس کے ایگزیسٹینشل فلسفی ”جان پال سارتر“ انسانی مسلک کے دو مشہور انسان دوست چہرے ہیں‘ البتہ رسل کے فلسفہ اخلاق کی بنیاد اس کے نظریہ ”انسان دوستی“ کی دو طرح سے مخالف ہے‘ رسل کا فلسفہ اخلاق شخصی منافع کی سوچ پر مبنی ہے‘ یعنی اس کے اخلاق کی بنیاد اصول اخلاق کی روشنی میں زیادہ اور بہتر منافع کے تحفظ پر ہے اور وہ اخلاق کے کسی دوسرے فلسفہ کا قائل نہیں ہے‘ اس بناء پر رسل کی ”انسان دوستی“ ایک اہل قلم کے قول کے مطابق مغربی دنیا کے اس اضطراب کی مظہر ہے‘ جس کی بنیاد ختم ہو چکی ہے‘ یہ اہل قلم ”آج کے مغربی نیھیلزم کے دو چہرے“ کے عنوان سے لکھتا ہے:

”وہ جوشیلا برژوازی جس نے قومیت کا پرچم لہرایا تھا‘ آج اس کے پاس سوچنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ یورپی جوان نسل ایک کھوکھلے نقطے پر کھڑی ہے۔ آج مغرب اور برآمدات کو جو اجتماعی شورش‘ ناامیدی‘ پریشانی‘ احساس حقارت اور افکار مذہب و اخلاق کے جذبات پر مشتمل ہیں اور جو اس نے دوسری قوموں اور تہذیبوں پر مسلط کیا تھا‘ واپس لے رہا ہے۔ منکر مذہب و اخلاق تو یہ سوچتا ہے کہ جب میرے لئے کچھ نہیں تو دوسرے کے لئے بھی کچھ نہ ہو اور اس طرح وہ خود اپنی ہی خرابی کی طرف رواں دواں ہے۔

۹۳

لیکن ایک اور ردعمل ایک طرح کے روحانی انسان دوستی کے فلسفے کے ظہور میں آنے سے ہوا ہے‘ جو مختلف سطحوں پر مغربی روشن فکر افراد کو اپنی طرف متوجہ کئے ہوئے ہے۔ اس کے ایک طرف رسل کا سادہ عملی نظریہ ہے اور دوسری جانب سارتر کا پیچیدہ اور شدید نظریہ اور درمیان میں ٹیبو رمنڈر جیسے سیاست دان کا اور اقتصادیات کے حامی روشن فکر افراد اپنی اور دوسروں کی مشکلات کے حل کے لئے عملی طریقے سوچ رہے ہیں۔

لیکن سارتر اپنے عارفانہ اور آزادانہ مشرب اور ذمہ داری کے اس پیچیدہ اور شدت آمیز نظریے کے باوجود مغربی روح کا ایک اور مظہر ہے‘ جو احساس گناہ کی بناء پر تلافی مکافات کرنا چاہتا ہے۔ وہ رواقی فلاسفہ کی مانند انسانوں میں برادری‘ برابری‘ آزادی‘ خود مختاری‘ پرہیزگاری اور پارسائی سے دنیا میں حکومت کرنے کا معتقد ہے۔ موجودہ دور میں وہ ایسی روشن خیالی کا مظہر ہے جو یہ چاہتا ہے کہ ”انسانیت کامل“ کا حامی بن کر اپنے آپ کو مغرب کے اس اضطراب سے نکال لے‘ جس کی بنیاد کھوکھلی ہو چکی ہے۔ وہ نظریہ ”انسان دوستی“ کو مذہب کا بدل بنا کر پرانے خدا کے بدلے پوری انسانیت کے لئے نئے خدا سے اپنے اور پورے مغرب کے لئے معافی کا خواستگار ہے۔“

سارتر کی واضح انسان دوستی کا نتیجہ یہی ہے کہ کبھی تو وہ اسرائیل کی مظلومیت پر مگرمچھ کے آنسو بہاتا ہے اور کبھی عربوں اور بالخصوص فلسطینی مہاجرین کے مظالم پر فریاد کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

دنیا نے مغرب کے تمام انسان دوستوں کو جنہوں نے ”حقوق انسانی“ کے منشور پر دستخط کئے ہیں۔ مسلسل دیکھا ہے اور دیکھ رہی ہے اور یہ امر کسی وضاحت کا محتاج نہیں۔

”اجتماعی خود شناسی“ ملی ہو یا طبقاتی یا انسانی ہمارے دور میں ”روشن خیال خود شناسی“ کہلاتی ہے۔ روشن خیال شخص وہ ہے جسے ان اقسام خود شناسی میں سے کوئی ایک حاصل ہو جس کے دل میں قوم یا طبقے یا انسان کے درد کا احساس ہو‘ جو انہیں اس درد سے رہائی دلانے میں کوشاں ہو‘ وہ چاہتا ہو کہ اپنی ”خود شناسی“ کو ان میں منتقل کر دے اور اجتماع کی قیود سے رہائی کے لئے ان کو کوشش اور حرکت کی ترغیب دلائے۔

۹۴

7 ۔ عارفانہ خود شناسی

عارفانہ خود شناسی ذات حق سے اپنے رابطے کے سلسلے میں خود شناسی ہے‘ عرفا کے نقطہ نظر سے یہ رابطہ ایسا نہیں ہے جو دو انسانوں کا آپس میں یا معاشرے کے کسی دوسرے افراد سے ہوتا ہے‘ بلکہ یہ رابطہ ”شاخ کا جڑ“ سے ”مجاز کا حقیقت“ سے اور عرفا کی اصطلاح میں مقید کا مطلق سے رابطہ ہے۔

ایک روشن فکر کے درد کے برعکس عارف کا درد انسان کی ”خود شناسی“ میں کسی بیرونی درد کا انعکاس نہیں ہے‘ بلکہ یہ ایک ایسا باطنی درد ہے‘ جو فطری اور اجتماعی درد ہوتا ہے‘ لہٰذا وہ پہلے اس سے آگاہ ہوتا ہے پھر یہ آگاہی اس کو درد مندبناتی ہے۔

لیکن ایک عارف کا درد چونکہ ایک باطنی درد ہوتا ہے‘ خود درد ہی اس کے لئے آگاہی ہے بالکل بیماریوں کے درد ہی کی طرح‘ جو طبیعت کی طرف سے کسی حاجت اور ضرورت کا اعلان ہے۔

حسرت و زاری کہ درد بیماری است

وقت بیماری ھمہ بیداری است

ہر کہ او بیدار تر پر درد تر

ہر کہ او آگاہ تر رخ زرد تر

پس بدان این اصل را ای اصلجو

ہر کہ را درد است او بردہ است بو

۹۵

”بیماری میں جو حسرت اور گریہ زاری ہے‘ بیماری کے وقت سب کی بیداری کی علامت ہے۔

جو جتنا زیادہ بیدار ہے وہ اتنا ہی زیادہ دردمند ہے اور جو جتنا زیادہ خود شناس ہے اس کا چہرہ اتنا ہی زیادہ زرد ہے‘ پس اے حقیقت کے متلاشی! اس حقیقت کو جان لے کہ جو شخص درد میں مبتلا ہے اسی نے حقیقت کا پتہ لگا لیا ہے۔“

عارف کا درد فلسفی کے درد جیسا بھی نہیں‘ دونوں ہی حقیقت کے درد مند ہیں لیکن فلسفی کا درد حقیقت کے جاننے اور شناخت کرنے کا درد ہے اور عارف کا درد پہنچنے‘ ایک ہو جانے اور محو ہو جانے کا درد۔ فلسفی کا درد اسے فطرت کے دیگر فرزندوں یعنی تمام جمادات‘ نباتات اور حیوانات سے ممتاز کر دیتا ہے۔ عالم طبیعت کے کسی وجود میں ماننے اور شناخت کرنے کا درد موجود نہیں‘ لیکن عارف کا درد عشق اور جذبے کا درد ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو نہ صرف حیوان میں نہیں بلکہ فرشتوں میں بھی موجود نہیں‘ جن کی ذات کا جوہر ہی خود شناسی اور جاننا ہے۔

فرشتہ عشق نداانست چیست قصہ مخوان

بخواہ جام و گلابی بہ خاک آدم ریز

”فرشتے نے عشق کو نہ جانا کہ وہ کیا چیز ہے قصہ نہ سنا‘ جام طلب کر اور گلاب کا پانی آدم کی خاک پر ڈال دے۔“

جلوہ ای کرد رخش دید ملک‘ عشق نداشت

خیمہ در مزرعہ آب و گل آدم زد

”جب اس کے رخ کا ایک جلوہ نظر آیا تو فرشتے نے دیکھا کہ اس میں عشق نہیں تو اس نے آدم کی خاک پر اپنے خیمے گاڑ دیئے۔“

۹۶

فلسفی کا درد فطرت کی حاجتوں کے جاننے کا اعلان ہے جسے فطری طور پر انسان جاننا چاہتا ہے اور عارف کا درد فطرت عشق کی حاجتوں کا اعلان ہے جو پرواز کرنا چاہتا ہے اور جب تک پوری طرح سے حقیقت کا ادراک نہیں کرتا‘ سکون نہیں پاتا۔ عارف کامل خود شناسی کو ”خداشناسی“ میں منحصر سمجھتا ہے۔ عارف کی نظر میں جسے فلسفی انسان کا حقیقی ”من“ سمجھتا ہے‘ حقیقی ”من“ نہیں ہے بلکہ روح ہے۔ ”جان“ ہے‘ ایک تعین ہے‘ حقیقی ”من“ خدا ہے اور اس تعین کے ٹوٹنے کے بعد انسان اپنے حقیقی ”من“ کو پا لیتا ہے۔

محی الدین ابن عربی فصول الحکم‘ فص شعیبی میں فرماتے ہیں‘ حکماء اور متکلمین نے خود شناسی کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے۔ لیکن ان راہوں سے ”معرفت النفس“ حاصل نہیں ہو سکتی‘ جس کا خیال یہ ہو کہ ”خود شناسی“ کے بارے میں حکماء نے جو کچھ سمجھا ہے‘ وہ حقیقت ہے‘ تو اس نے پھولی ہوئی چیز کو موٹا سمجھ رکھا ہے۔

شیخ محمود شبستری سے عرفانی مسائل کے بارے میں پوچھے جانے والے سوالات ”جن کے جواب میں کم نظیر عرفانی کلام‘ ”گلشن راز“ وجود میں آیا ہے۔“ میں سے ایک ”خود“ ذات اور ”من“ کے بارے میں سوال تھا کہ یہ کیا ہے؟

۹۷

دگر کردی سوال ازمن کہ ”من“ چیست

مرا از من خبر کن تاکہ ”من“ کیست

چو ہست مطلق آمد در اسارت

بہ لفظ ”من“ کنند از وی عبارت

حقیقت کز تعین شد معین

تو او را در عبارت گفتہ ای من

من و تو عارض ذات وجودیم

مشبکہای مشکوة وجودیم

ھمہ یک نور دان اشباح و ارواح

گہ از آئینہ پیدا گہ ز مصباح

”تو نے پھر مجھ سے پوچھا کہ یہ ”من“ کیا ہے‘ ”من“ کے بارے میں پوچھنے سے پہلے مجھے میرے بارے میں خبر تو دو!

مطلق ہستی کو جب اسیر اور مقید کر دیا جاتا ہے تو اسے ”من“ سے تعبیر کیا جاتا ہے‘ جب تعین اور حدود و قیود کی وجہ سے حقیقت کو متعین کیا جاتا ہے اسے سادہ عبارت میں ”من“ کہا جاتا ہے‘ میں اور تم دونوں ذات وجود کے عارض ہیں اور ہم وجود (روح) کے فانوس کے گرد لگی ہوئی جالیاں ہیں (جن سے روشنی چھن چھن کر باہر آتی ہے) ہیولا اور روح کو ایک نور ہی سمجھ لو‘ کیوں کہ نور کبھی تو آئینہ سے منعکس ہو کر تم تک پہنچ جاتا ہے اور کبھی فانوس سے سیدھا تم تک پہنچ جاتا ہے۔“

پھر ”روح“ اور ”من“ کے بارے میں فلاسفہ کی خود شناسی پر اس طرح سے اعتراض کرتے ہیں۔

۹۸

تو گوی لفظ ”من“ در ہر عبارت

بسوی روح می باشد اشارت

چو کردی پیشوائے خود خرد را

نمی دانی ز جزء خویش خودرا

برو ای خواجہ خود را نیک بشناس

کہ نبود فربہی مانند آماس( 1)

من و تو بر تر از جان و تن آمد

کہ این ہر دو ز اجزای من آمد

بہ لفظ من نہ انسان است مخصوص

کہ تا گوی بدان جان است مخصوص

یکی راہ برتر از کون و مکان شو

جہاں بگذار و خود در خود جہان شو

”تم چاہے کسی بھی عبارت میں لفظ ”من استعمال کرو اشارہ تمہاری روح ہی کی طرف ہے‘ جب تم عقل کو اپنا رہبر اور رہنما بناؤ گے‘ تو اپنے آپ کو اپنے اعضاء سے نہیں سمجھو گے۔ اے خواجہ جا اور اپنے آپ کو اچھی طرح پہچان لے کیوں کہ پھول جانا موٹاپا نہیں ہوتا‘ ”من“ اور ”تو“ جگہ اور بدن سے برتر ہیں کیوں کہ یہ دونوں مرے اجزاء اور حصے ہیں لفظ ”من“ کسی خاص انسان سے مخصوص نہیں جو تم اس سے کسی خصوصی روح کو مراد لو‘ ایک راستے پر چلو اور کون و مکان سے برتر ہو جاؤ‘ دنیا کو چھوڑ دو اور اپنے اندر ایک دنیا بن جاؤ۔“

۹۹

مولانا کہتے ہیں:

ای کہ در پیکار ”خود“ را باختہ

دیگران را تو ز خود نشاختہ

تو بہ ہر صورت کہ آئی بیستی

کہ منم این واللہ آن تو نیستی

یک زمان تنہا بمانی تو زخلق

در غم و اندیشہ مانی تا بحلق

این تو کی باشی؟ کہ تو آن اوحدی

کہ خوش و زیبا و سرمست خودی

مرغ خویشی‘ صید خویشی‘ دام خویش

صدر خویشی‘ فرش خویشی‘ بام خویش

گر تو آدم زادہ ای چون اونشین

جملہ ذرات را در خود ببین

”اے وہ شخص جو جنگ میں اپنے آپ کو ہار چکا ہے اور اپنے اور دوسروں کے فرق کو نہ جان سکا‘ تم چاہے کسی بھی صورت میں آ جاؤ تم نہیں ہو‘ بلکہ اللہ کی قسم وہ میں ہوں‘ ایک وقت ایسا آئے گا جب تم مخلوقات سے الگ تھلگ اکیلے رہ جاؤ گے اور گردن تک غم و اندوہ میں مبتلا رہو گے۔ یہ تم کب ہو؟‘ تم تو وہ فرد ہو جو اپنا مرکز‘ اپنا فرش اور اپنا چھت ہے اور جو اپنے آپ میں سرمست‘ خوش اور مگن ہے‘ تم خود ہی پرندہ ہو‘ خود شکار ہو اور خود ہی جال بھی‘ بلندی بھی تم خود ہو‘ پستی بھی خود ہی اور چھت بھی تم ہی ہو‘ اگر تم آدم کی اولاد ہو تو اس کی طرح رہو اور تمام ذرات کا اپنے اندر مشاہدہ کرو۔“

۱۰۰

اس کی عمارت کو قصر کی اینٹو ں کو توڑ کر بنایا گیا جو مقام ''حیرة ''میں کسری کی طرح تھا اور قصر کے آخر میں قبلہ کی طرف بیت المال قرار دیا گیا۔ اس طرح مسجد کا قبلہ قصر کے داہنی طرف تھا اور اسکی عمارت مرمری تھی جس کے پتھر کسری سے لائے گئے تھے۔(طبری ،ج٤ ، ص٦٤)مسجد کے قبلہ کی طرف ٤راستے بنائے گئے اور اس کے پچھم ، پورب٣٣سڑکی ں بنائی گئی ں ۔مسجد اور بازار سے ملی ہوئی جگہ پر ٥سڑکی ں بنائی گئی ں ۔ قبلہ کی سڑک کی طرف بنی اسد نے مکان بنانے کے لئے انتخاب کیا۔ اسد اور نخع کے درمیا ن ایک راستہ تھا ، نخع اور کندہ کے درمیان ایک راستہ تھا ۔کندہ اور ازد کے درمیان ایک راستہ تھا۔صحن کے شرقی حصہ میں انصار اور مزینہ ر ہنے لگے، اس طرح تمیم اور محارب کے درمیان ایک راستہ تھا ۔ اسد اور عامر کے درمیان ایک راستہ تھا ۔ صحن کے غر بی حصہ میں بجلہ اور بجیلہ نے منزل کے لئے انتخاب کیا۔ اسی طرح جد یلہ اور اخلا ط کے درمیان ایک راستہ اور سلیمان و ثقیف کے درمیان دو راستے تھے جو مسجد سے ملے ہوئے تھے۔ہمدان ایک راستہ پر اور بجیلہ ایک راستہ پر تھے ، اسی طرح تمیم اور تغلب کا ایک راستہ تھا۔یہ وہ سڑکی ں تھی ں جو بڑی سڑکی ں کہی جاتی تھی ں ۔ ان سڑ کو ں کے برابر کچھ اور سڑکی ں بنائی گئی ں پھر ان کو ان شاہراہو ں سے ملا دیا گیا۔ یہ دوسری سڑکی ں ایک ذراع سے کم کے فا صلہ پر تھی ں ۔اسی طرح اس کے اطراف میں مسافرین کے ٹھہرنے کے لئے مکانات بنائے گئے تھے ۔وہا ں کے بازارمسجدو ں کی روش پر تھے جو پہلے آ کر بیٹھ جاتاتھا وہ جگہ اسی کی ہوجاتی تھی یہا ں تک کہ وہا ں سے اٹھ جائے یا چیزو ں کے بیچنے سے فارغ ہوجائے(طبری ،ج٤، ص ٤٥ ۔ ٤٦) اور تمام دفاعی نظام بھی بر قرار کئے گئے، منجملہ ٤ ہزار تیز رفتار گھوڑے بھی رکھے گئے۔ اس طرح شہر کو فہ مسلمانو ں کے ہا تھو ں تعمیر ہو ا۔

٥۔ نعمان مدینہ میں قبیلہ ء خزرج کی ایک فرد تھا ۔شیخ طوسی نے'' رجال'' میں ص٣٠ پر اسے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے اصحاب میں شمار کیا ہے اور طبری نے ج ٤،ص ٤٣٠ پر اسے ان لوگو ں میں شمار کیا ہے جنہو ں نے عثمان کے قتل کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی بیعت سے سر پیچی کی ہے۔اس کے بعد یہ معاویہ سے ملحق ہو گیا اور جنگ صفین میں اسی کے ہمراہ تھا۔ اس کے بعد معاویہ نے ایک فوج کے ساتھ اسے'' عین التمر''شب خون کے لئے بھیجا۔ اس مطلب کو طبری نے ٣٩ ھکے واقعات ج ٥، ص ١٣٣ پر لکھا ہے پھر ٥٨ھ میں معاویہ نے اسے کوفہ کا والی بنادیا ۔ یہ اس عہدہ پر باقی رہا یہا ں تک کہ معاویہ کیفر کر دار تک پہنچ گیا اور یزید نے مسند سنبھالی ۔ آخر کا ر اس کی جگہ پر یزید کی جانب سے ٦٠ ھمیں عبید اللہ بن زیاد نے گورنر ی کی با گ ڈور سنبھا لی۔اب نعما ن نے یزید کی راہ لی اور امام حسین علیہ السلام کے قتل ہو نے تک اسی کے پاس رہا ۔ پھر یزیدکے حکم پر اہل حرم کے ہمراہ مدینہ گیا (طبری ،ج٥،ص٤١٢) وہا ں سے شام لو ٹ کر یزید کے پاس رہنے لگا یہا ں تک کہ یزید نے اسے پھر مدینہ بھیجاتاکہ وہ انصار کو عبداللہ بن حنظلہ سے دور رہنے کا مشورہ دے اور یزیدکی مخالفت سے ا نہیں ڈرائے دھمکائے لیکن انصار نے ایک نہ سنی۔ (طبری ،ج٥،ص٤٨١ا)

۱۰۱

٦۔ ٢٠ھ میں عبیداللہ بن زیاد پیدا ہوا ۔(طبری، ج٥، ص ٢٩٧) ٤١ھ میں بسربن ارطاة نے بصرہ میں اسے اس کے دو بھائیو ں عباد اور عبدالرحمن کے ہمراہ قید کرلیا اور زیاد کے نام ایک خط لکھاکہ یا تم فورا ً تم معاویہ کے پاس جائویا میں تمہارے بیٹو ں کو قتل کردو ں گا۔(طبری ،ج٥ ،ص ١٦٨)٥٣ھ میں زیاد مر گیا ۔(طبری، ج٥،ص٢٨) اس کے بعد اس کا بیٹا عبید اللہ معاویہ کے پاس گیا ۔ معاویہ نے ٥٤ھ میں اسے خراسان کا گورنر بنادیا۔ (طبری ،ج ٥،ص٢٩٧) اس کے بعد ٥٥ھ میں بصرہ کا والی مقررکردیا ۔ خراسان سے نکل کر بصرہ جاتے وقت اس نے اسلم بن زرعہ کلابی کواپنا جا نشین بنا یا۔(طبری ،ج٥ ،ص٣٠٦) جس زمانے میں خراسان میں اس نے کوہ نجاری پر حملہ کیا اور اس کے دو شہر رامیشتہ اوربیر جند کو فتح کرلیا اسی وقت اپنے سپاہیو ں میں سے دوہزارتیر اندازو ں کو اس نے لیا اور ان کی تربیت کے بعد انہیں اپنے ساتھ لیکر بصرہ روانہ ہوگیا۔ (طبری، ج ٥،ص ٢٩٨) اس کا ایک بھائی عباد بن زیاد، سجستان کا گورنر تھا اوردوسرابھائی عبدالرحمن بن زیاد اپنے بھائی عبیداللہ ہی کے ہمراہ خراسان کی حکمرانی میں تھا ،وہ اس عہدہ پر دو سال تک رہا (طبری ،ج٥ ،ص٢٩٨) پھر کرمان کی حکومت کو بھی عبیداللہ بن زیاد نے ہی سنبھال لیا اور وہا ں اس نے شریک بن اعورحارثی ہمدانی کو بھیج دیا۔ (طبری، ج٥ ،ص٣٢١) یزید نے عباد کو سجستان سے اور عبدالرحمن کو خراسان سے معزول کرکے ان کے بھائی سلم بن زیاد کو گورنربنادیااورسجستان اس کے بھائی یزید بن زیاد کو بھیج دیا (طبری، ج٥ ،ص٤٧١)پھر اسے کو فہ کی گورنری بھی ٦٠ھ میں دیدی او بصرہ میں اس کے بھائی عثمان بن زیاد کو حاکم بنادیا۔ (طبری ،ج٥،ص٣٥٨) جب امام حسین کی شہادت ہوئی تو یہ ملعون ٤٠سال کا تھا اور اس عظیم واقعہ کے بعد یہ ١ ٦ھمیں پھر کوفہ سے بصرہ لوٹ گیا۔ جب یزید اوراس کا بیٹا معاویہ ہلاک ہوگیا تو بصرہ والو ں نے اس کی بیعت کرلی اور اسکو خلیفہ کہنے لگے لیکن پھر اس کی مخالفت کرنے لگے تویہ شام چلاگیا (طبری ،ج ٥،ص٥٠٣) اس سفر میں اس کے ساتھ اس کا بھائی عبداللہ بھی تھا۔ یہ ٦٤ھکا واقعہ ہے۔ (طبری ،ج ٥،ص ٥١٣) وہا ں اس نے مروان کی بیعت کی ور اس کو اہل عراق کے خلاف جنگ کے لئے اکسایا تو مروان نے اسے ایک فوج کے ساتھ عراقیو ں کے خلاف جنگ کے لئے بھیجا۔ (طبری ،ج٥،ص٥٣) وہا ں اس نے تو ابین سے جنگ کی اور ان کو ہرادیا یہ واقعہ ٦٥ھ کا ہے۔ (طبری، ج٥،ص ٥٩٨)پھر ٦٦ھ میں جناب مختار سے نبرد آزما ہوا (طبری ،ج٦، ص٨١) اور اسی میں اپنے شامی ہمراہیو ں کے ساتھ ٦٧ ھمیں قتل کردیا گیا۔ (طبری، ج ٦، ص ٨٧)

۱۰۲

لیکن یزید نے جب زمام حکومت سنبھالی تو اس کا سارا ہم و غم یہ تھا کہ ان لوگوں سے بیعت حاصل کرے جنہوں نے اس کے باپ معاویہ کی درخواست کو یزید کی بیعت کے سلسلے میں ٹھکرادیا تھا اور کسی طرح بھی یزید کی بیعت کے سلسلہ میں اپناہاتھ دینا نہیں چاہتے تھے ،لہٰذاآسودہ خاطرہونے کے لئے اس نے مدینہ کے گورنر ولید کو ایک خط اس طرح لکھا :'' بسم اللّه الرحمن الرحیم ، من یزید امیر المؤمنین الی الولید بن عتبه ...اما بعد: فان معاوية کان عبدامن عباداللّه ، اکرمه اللّه و استخلفه، و خوله و مکن له فعاش بقدر ومات باجل،فرحمه اللّه !فقد عاش محموداً! ومات برّاً تقیا! والسلام ''

یزید امیر المومنین کی طرف سے ولید بن عتبہ کے نام، امابعد ...حقیقت یہ ہے کہ معاویہ خدا کے بندوں میں سے ایک بندہ تھا جس کو خدا نے مورد احترام و اکرام قرار دیا اور خلافت و اقتدار عطا فرمایا اور بہت سارے امکانات دئیے ۔ان کی زندگی کی جتنی مد ت تھی انھوں نے اچھی زندگی بسر کی اور جب وقت آگیاتو دنیا چھوڑ کر چلے گئے۔ خدا ان کو اپنی رحمت سے قریب کرے ۔انھوں نے بڑی اچھی زندگی بسر کی اورنیکی اور شائستگی کے ساتھ دنیا سے گزر گئے۔ والسلام

پھر ایک دوسر ے کا غذ پر جو چوہے کے کان کی طرح تھا یہ جملے لکھے :

'' اما بعد فخذ حسینا و عبد اللّه بن عمر و عبداللّه بن زبیر با لبیعة اخذا شدیدًالیست فیه رخصة حتی یبا یعوا، والسلام'' ( ١)

اما بعد ، حسین بن علی ، عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر سے سختی کے ساتھ مہلت دیئے بغیر فوراً بیعت حاصل کرو ۔ والسلام

معاویہ کی خبر مرگ پاتے ہی(٢) ولید نے فوراً مروان بن حکم(٣) کو بلوا یا تا کہ اس سلسلے میں اس سے مشورہ کر سکے ۔(٤)

____________________

١۔ طبری، ج٥،ص ٣٣٨ ، اس خبر کو طبری نے ہشام کے حوالے سے اور ہشام نے ابو مخنف کی زبانی نقل کیا ہے۔یہ ان متعدد روایتو ں میں سے پہلی روایت ہے جنہیں طبری نے آپس میں ملادیا ہے اور ہر روایت کے شروع میں ''قال '' کہا ہے۔ یہ تمام روایتی ں ابو مخنف کی طرف مستند ہیں ۔

طبری کی روایت میں ہشام کے حوالے سے ابو مخنف سے یہی جملہ نقل ہوا ہے جس میں فقط شدت اور سختی کا تذکر ہ ہے ، قتل کا ذکر نہیں ہے۔ہشام کے حوالے سے سبط بن جوزی کی روایت میں بھی یہی الفاظ نقل ہوئے ہیں ۔ (ص ٢٣٥) ارشاد کے ص ٢٠٠ پر شیخ مفید نے بھی اسی جملہ کا تذکرہ کیا ہے جس میں ہشام اور مداینی کا حوالہ موجود ہے لیکن یعقوبی نے اپنی تا ریخ میں ج ٢،ص ٢٢٩پر خط کا مضمون اس طرح نقل کیا ہے:

''اذ اتاک کتابی هذا فأ حضر الحسین بن علی ، وعبدالله بن زبیر فخذهما با لبیعة ، فان امتنعا فا ضرب أعنا قهماوابعث الیّ برؤوسهما،وخذ الناس بالبیعة ، فمن امتنع فأ نفذ فیه الحکم، وفی الحسین بن علی و عبدالله بن زبیر، والسلام''

۱۰۳

جیسے ہی تم کو میرا خط ملے ویسے ہی حسین بن علی اور عبداللہ بن زبیر کو حاضر کرو اور ان دونو ں سے بیعت حاصل کر! اگر انکار کری ں تو ان کی گر دن اڑادواور ان کے سر ہمارے پاس بھیج دو! لوگو ں سے بھی بیعت لو اور انکا ر کرنے پر ان کے ساتھ بتائے ہوئے حکم پر عمل کرو! وہی جو حسین بن علی اور عبداللہ بن زبیر کے بارے میں بتایا ہے ۔ والسلام

خوا رزمی نے اپنے مقتل کے ص١٨٠ پر ابن اعثم کے حوالے سے خط کو نقل کیا ہے ۔ یہ خط بعینہ طبری کی ہشام کے حوالے سے منقول روایت کی طرح ہے فقط اس جملہ کا اضافہ کیاہے : ...ومن ابی علیک منہم فاضرب عنقہ و ابعث الیّ براسہ ، ان میں سے جو انکا ر کرے اس کا سر کاٹ کر فوراً میرے پاس روانہ کرو !یزید کا یہ خط ولید کو ٢٦ جب شب جمعہ کو موصول ہوا تھا جیسا کہ امام حسین علیہ السلام کے مدینہ کو الوادع کہنے کی تا ریخ سے یہی اندازہ ہوتا ہے ۔

٢۔ مورخین نے اس بات کی صراحت نہیں فرمائی ہے کہ یزید نے یہ خط کب لکھا اور کب قاصد کو مدینہ کے لئے روانہ کیا تا کہ اس بات کا اندازہ ہو سکے کہ شام سے مدینہ کی مسافت میں کتنا وقت لگا۔ ہا ں طبری نے (ج٥، ص، ٤٨٢)پر ہشا م کے حوالے سے ابو مخنف سے جو روایت نقل کی اس سے ہم کچھ اندازہ لگا سکتے ہیں ، کیو نکہ عبد الملک بن مروان نے یزید کو جو خط لکھا تھا کہ ہم لوگ مدینہ میں محصورہیں لہٰذ ا فوج بھیجو جس کے نتیجے میں واقعہ حرہ سامنے آیا اس میں یہ ملتا ہے کہ قاصد کو آمدورفت میں ٢٤ دن لگے؛ بارہ دن جانے میں اور ١٢ دن واپس لوٹنے میں ۔ اس وقت یہ قاصد کہتا ہے کہ اتنے دنو ں کے بعد میں فلا ں وقت عبد الملک بن مروان کے پاس پہنچا، اس کے علاوہ طبری کے دوسرے بیان سے بھی کچھ اندازہ لگتا ہے کیو نکہ طبری نے ج ٥،ص ٤٩٨ پر واقدی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ یزید ١٤ ربیع الاول ٦٤ ھ کوواصل جہنم ہوا اور مدینہ میں اس کی خبر مرگ ربیع الآ خر کے شروع میں موصول ہوئی۔ اس کا مطلب ہوا کہ یزید کی ہلاکت کی خبر ١٦ دنو ں بعد ملی ۔

٣۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اس کے باپ حکم بن عاص کے ہمراہ مدینہ سے باہر نکال دیاتھا ،کیو نکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مذاق اڑایاکرتا تھا ، لیکن عثمان نے اسے اپنی حکومت میں جگہ دی اور اپنی بیٹی نائلہ کی اس سے شادی کردی اور افریقا سے مصالحت کے بعد جو ایک خطیر رقم آئی تھی جس کا ایک حصہ ٣٠٠ قنطار سو نا تھاوہ اسے دیدیا (طبری، ج٤،ص ٢٥٦) اور اسنے ان اموال کی مددسے نہر مروان کی خریداری کی جو تمام عراق میں پھیلی ہوئی تھی (طبری ،ج٤،ص٢٨٠) اس کے علا وہ مروان کو ١٥ ہزار دینار کی ایک رقم اور دی (طبری، ج٤، ص ٣٤٥) سب سے بری بات جو ہوئی وہ یہ کہ عثمان ، مروان کے ہاتھو ں کی کٹھ پتلی بن گئے۔ وہ جو چاہتا تھا یہ وہی کرتے تھے۔ اسی مسئلہ میں امیر المو منین علی علیہ السلام نے عثمان کوخیر خواہی میں سمجھا یا تھا ۔جب عثمان کا محا صرہ ہوا تو عثمان کی طرف سے اس نے لڑنا شروع کیا جس کے نتیجے میں خود اس پر حملہ ہوا پھر لوگو ں نے اس کے قتل کا ارادہ کیالیکن ایک بوڑھی دایہ جس نے اسے دودھ پلا یا تھا مانع ہو گئی اور بولی : اگر تم اس آدمی کو مارنا چاہتے ہو تو یہ مر چکا ہے اور اگر تم اس کے گوشت سے کھیلنا چاہتے ہو تو بری بات ہے (طبری ،ج٤ ،ص ٣٦٤) وہا ں سے اس کا غلام ابو حفصہ یمانی اسے اٹھا کر اپنے گھر لے گیا۔ (طبری، ج٤،ص ٣٨٠) اسی واقعہ کے بعد مروان کی گردن ٹیڑھی ہو گئی تھی اور آخر وقت تک ایسی ہی رہی۔ (طبری، ج٤،ص٣٩٤)

۱۰۴

یہ شخص جنگ جمل میں شریک تھا اور دونو ں نمازو ں کے وقت اذان دیا کر تاتھا۔ اسی نے طلحہ پر ایسا تیر چلا یا کہ وہ وہیں ڈھیر ہو گئے ۔خود بھی یہ جنگ میں زخمی ہوگیا تھا لہٰذا وہا ں سے بھاگ کر مالک بن مسمع غزاری کے یہا ں پہنچااور اس سے پناہ کی درخواست کی اور اس نے درخواست کوقبول کر لیا ۔(طبری ،ج ٤، ص ٥٣٦) جب وہا ں سے پلٹا تو معاویہ سے جاملا۔ (طبری ،ج ٤، ص ٥٤١) معاویہ نے بھی عام الجماعةکے بعد اسے مدینہ کا گورنر بنادیا ۔ ٤٤ھ میں اس نے مسجد میں پیش نماز کی خاص جگہ بنانے کی بدعت رائج کی۔ (طبری ،ج٥،ص٢١٥) اس کے بعد معاویہ نے فدک اس کے سپرد کر دیالیکن پھر واپس لے لیا (ج ٥،ص ٥٣١) ٤٩ھمیں معاویہ نے اسے معزول کر دیا ۔(طبری ،ج٥،ص ٢٣٢) ٥٤ھ میں ایک بار پھر مدینہ کی گو رنری اس کے سپرد کردی۔ ٥٦ھ میں معاویہ نے حج انجام دیا تو وہا ں اس نے چاہا کہ مروان یزید کی بیعت کی تو ثیق کردے (طبری، ج٥،ص٣٠٤) لیکن پھر معاویہ ٥٨ ھ تک اپنے اس ارادے سے منصرف ہو گیا ۔ ٥٦ھ میں ولید بن عتبہ بن ابو سفیان کو مدینہ کا گو رنر بنادیا۔یہی وجہ ہے کہ مروان اس سے ہمیشہ منہ پھلا ئے رکھتا تھا۔(طبری، ج ٥، ص ٣٠٩) جب اہل حرم شام وارد ہو رہے تھے تو یہ ملعون دمشق میں موجود تھا ۔(طبری، ج٥ ،ص ٤٦٥) ٦٢ھ میں واقعہ حرہ کے موقع پر یہ مدینہ ہی میں تھا۔ یہی وہ ملعون ہے جس نے حکو مت سے مدد مانگی تھی تو مدد کے طور پر یزید نے مسلم بن عقبہ المری کو روانہ کیا۔ (طبری، ج٥،ص ٤٨٢) جب اہل مدینہ مسلم بن عقبہ کے سامنے پہنچے تو بنی امیہ نے انہیں مروان کے گھر میں قید کر دیا جبکہ وہ ہزار آدمی تھے پھر ان کو مدینہ سے باہرنکال دیا اور اس نے اپنے اہل وعیال کو چو تھے امام حضرت زین العابدین علیہ السلام کے پاس مقام ینبع میں چھوڑ دیا امام علیہ السلام نے ان کی پر ورش و حمایت کی ذمہ داری لے لی ۔ امام علیہ السلام نے اس زمانے میں مدینہ کو چھو ڑدیا تھا تا کہ ان کے کسی جرم کے گواہ نہ بن سکی ں (طبری ،ج٥،ص ٤٨٥) پھر جب ٦٤ھمیں عبید اللہ بن زبیر اپنے بھائی عبداللہ بن زبیر کی حکو مت میں مدینہ کا گورنر بن گیا تو بنی امیہ مدینہ سے نکل بھاگے اور شام پہنچ کر مروان کے ہاتھو ں پر بیعت کرلی۔ (طبری ،ج٥، ص ٥٣٠) ٦٥ھ میں اس کو موت آگئی۔

٤۔ جب ولید گورنر کے عہدہ پر فائز ہونے کے بعد مدینہ پہنچا تو مروان ناراضگی کے اظہار کے ساتھ اس سے ملنے آیا۔جب ولید نے اسے اس حالت میں دیکھا تو اس نے اپنے افراد کے درمیان مروان کی بڑی ملامت کی؛ جب یہ خبر مروان تک پہنچی تو ان دونو ں کے آپسی رشتے اور رابطے تیرو تار ہو گئے۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا یہا ں تک کہ معاویہ کی موت کی خبر لے کر نامہ بر آیا۔ چونکہ یہ موت ولید کے لئے بڑی صبرآزماتھی اور دوسری اہم مشکل جو اس کے سر پر تھی وہ یہ کہ اس خط میں حکم دیا گیا تھا کہ امام حسین علیہ السلام اور دیگر لوگو ں سے بیعت لی جائے لہذاایسی صورت میں اس نے مروان جیسے گھا گ آدمی کا سہارا لیا اور اسے بلوا بھیجا ۔(. طبری، ج٥،ص ٣٢٥)

۱۰۵

مروان سے مشورہ

مروان نے جب یزید کا خط پڑھا تو''انّا للّه وانّا الیه راجعون ''کہا اور اس کے لئے دعا ئے رحمت کی۔ ولید نے اس سے اس سلسلے میں مشورہ لیتے ہو ئے پو چھا : ''کیف تری ان نصنع'' تم کیا کہتے ہو ہمیں کیا کر نا چاہیے؟ اس پر مروان نے کہا : میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اسی وقت تم ایک آدمی کو ان لوگوں کے پاس بھیجو اور ان لوگوں سے بیعت طلب کرو اور کہو کہ فوراً مطیع ہو جائیں ؛ اگر وہ اس پر راضی ہو جائیں تو ان سے اسے قبول کرلو اور ان سے دست بر دارہو جاؤ لیکن اگر وہ انکار کریں تو قبل اس کے کہ انہیں معاویہ کی موت کی خبر ملے ان کے سرقلم کردو؛کیو نکہ اگر ان لوگوں کو معاویہ کی موت کی خبر ہو گئی تو ان میں سے ہر ایک ملک کے گو شہ و کنار میں شورش بر پا کر کے قیام کردے گا اور مخالفت کا بازار گرم ہو جا ے گا اور یہ لوگ عوام کو اپنی طرف بلا نے لگیں گے ۔(١)

قاصد بیعت

یہ سنتے ہی ولید نے عبداللہ بن عمرو بن عثمان کو جو ایک نو جوان تھا(٢) امام حسین علیہ السلام اور عبداللہ بن زبیر کی طرف روانہ کیا ۔ اس نے تلاش کرنے کے بعد دونوں لوگوں کو مسجد میں بیٹھا ہواپایا۔ وہ ان دونوں کے پاس گیا اور ان کو ایسے وقت میں ولید کے دربار میں بلایا کہ نہ تو وہ و قت ولید کے عام جلسے کا تھا اورنہ ہی ولید کے پاس اس وقت جایاجاتاتھا۔(٣)

____________________

١۔طبری، ج ٥،ص ٣٩٩ ، اسی روایت کو ہشام نے ابو مخنف سے نقل کیا ہے۔ خوارزمی نے بھی ص١٨١ پر اس کی روایت کی ہے۔

٢۔ یہ شخص٩١ھ تک زندہ رہا ، کیونکہ ولید بن عبد الملک نے جب مدینہ میں بعض قریشیو ں کا استقبال کیا تو یہ موجود تھا (طبری ،ج٦ ، ص٥٦٥) ''القمقام ''کے بیان کے مطابق اس کی وفات ٩٦ھ میں ہوئی اور اس کالقب مطرف تھا ۔(القمقام، ص ٢٧٠)عبدا للہ کا باپ عمرو جوخلیفہ سوم عثمان کا بیٹا ہے یعنی یہ قاصد عثمان کا پوتا تھا ۔اس کی ما ں کا نام ام عمرو بنت جندب ازدی تھا۔ (طبری ،ج٤،ص٤٢٠) طبری نے جلد ٥، ص ٤٩٤ پر لکھا ہے کہ اس کی ما ں قبیلۂ''دو س'' سے تھی ۔مسلم بن عقبہ نے واقعہ حرہ میں اسے بنی امیہ سے بے وفائی میں متہم کیا۔ جب اسے مسلم بن عقبہ کے پاس لایاگیاتو اس نے عبداللہ بن عمرو کی بڑی مذمت کی اور حکم دیا کہ اس کی داڑھی کو نوچ ڈالا جائے ۔

٣۔وقت کے سلسلے میں ابو مخنف کی خبر اس حد تک ہے کہ ''لم یکن الولید یجلس فیھا للناس'' ایسے وقت میں

۱۰۶

بلایا کہ جب کوئی عمومی جلسے کا وقت نہ تھا ، لیکن یہ رات کا وقت تھا یا دن کا اس کی کوئی تصریح نہیں ہے؛ لیکن اس روایت میں کچھ ایسے قرائن موجود ہیں جس سے وقت کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ ٢٦ رجب جمعہ کے دن صبح کا واقعہ ہے۔

(الف)۔ روایت کا جملہ یہ ہے''فارسل ..الیهما یدعو هما فآتاهما فوجد هما فی المسجد فقال : اجیبا ا لأ میر یدعوکما فقالا له : انصرف ، الأن ناتیه'' ۔ ولید نے اسے ان دونو ں کی طرف بلانے کے لئے بھیجا۔ قاصد نے تلاش کرتے ہوئے ان دونو ں کو مسجدمیں پایا تو کہنے لگا:امیر نے تم دونو ں کو بلا یا ہے۔ اس پر ان دونو ں نے کہاکہ تم چلوہم ابھی آتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دونو ں کو ایک ہی وقت میں بلایا گیا تھا ۔ ابن زبیر سے ایک دوسری خبر میں یہ ہے کہ اس نے کہا : ہم ابھی آتے ہیں لیکن وہ وہا ں سے اٹھ کر اپنے گھر آیا اور چھپ گیا۔ ولید نے پھر دوبارہ قاصد کو بھیجا تو اسے اپنے ساتھیو ں کے درمیان پایا۔ اس نے مسلسل تین یا چار با قاصدو ں کو بھیج کر بے حد اصرار کیا تو اس پر ابن زبیر نے کہا : ''لاتعجلونی ، امھلونی فانی آتیکم'' ا تنی جلدی نہ کرو تھوڑی سی مہلت دو ،میں بس آہی رہا ہو ں ۔ اس پر ولید نے پانچوی ں مرتبہ اپنے گرگو ں کو بھیج کر اسے بلوایا ۔وہ سب آکر ابن زبیر کو برا بھلا کہنے لگے اور چیخ کر بولے :''یا بن الکاهلیه! واللّه لتاتینّ الامیر او لیقتلنّک' 'اے کاہلہ کے بیٹے تو فورا امیر کے پاس آجا ورنہ وہ تیرا سر کاٹ دے گا۔ اس کے بعد ابن زبیر نے وہ پورا دن اور رات کے پہلے حصے تک وہا ں جانے سے گریز کیا اور وہ ہر وقت یہی کہے جاتا تھا کہ ابھی آتا ہو ں ؛ لیکن جب لوگو ں نے اسے برانگیختہ کیا تو وہ بولا : خدا کی قسم میں اتنے قاصدو ں کی آمد سے پریشان ہوگیا ہو ں اور اس طرح پے در پے لوگو ں نے میرا جینا حرام کردیا ہے لہٰذاتم لوگ اتنی جلدی نہ کرو تاکہ میں امیر کے پاس ایک ایسے شخص کوبھیجو ں جو ان کا منشاء اور حکم معلوم کر آئے۔ اس کا م کے لئے اس نے اپنے بھائی جعفر بن زبیر کو روانہ کیا۔ جعفر بن زبیر نے وہا ں جا کر کہا : رحمک اللہ : اللہ آپ پر رحم کرے آپ عبداللہ سے دست بردار ہوجائیے ۔ آپ نے قاصدو ں کو بھیج بھیج کر ان کا کھانا پانی حرام کر دیا ہے،ان کا کلیجہ منہ کو آرہاہے، انشاء اللہ وہ کل خود آجائی ں گے۔ آپ اپنے قاصد کو لوٹالیجئے اور اس سے کہیے کہ ہم سے منصرف ہوجائے۔ اس پر حاکم نے شام کے وقت وہا ں سے لوگو ں کو ہٹالیا اور ابن زبیر راتو ں رات مدینے سے نکل گیا۔ گذشتہ سطرو ں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ولید کا قاصد صبح میں آیا تھا ، بلکہ واضح طور پر ذکر ہے کہ یہ سارے امور صبح میں انجام پائے کیونکہ عبارت کا جملہ یہ ہے : ''فلبث بذالک نھارہ و اول لیلہ '' اس کے بعد ابن زبیر دن بھر اور رات کے پہلے حصے تک تھما رہا چونکہ امام علیہ السلام اور ابن زبیر کو ایک ہی ساتھ بلایا گیا تھا لہٰذا امام علیہ السلام کو بلائے جانے کا وقت بھی وقت صبح ہی ہوگا ۔

(ب)روایت میں یہ جملہ موجود ہے ''فالحوا علیھما عشیتھما تلک و اول لیلھما '' ان لوگو ں کو شام کے وقت اور شب کے پہلے حصے میں پھر بلوایا گیا۔اس جملہ سے بعض لوگو ں نے یہ سمجھا کہ امام علیہ السلام کو عصر کے وقت بلایا گیا تھا؛ لیکن یہ ایک وہم ہے حقیقت تو یہ ہے کہ اس جملہ میں جو ایک کلمہ موجود ہے وہ اس کی نفی کرتا ہے کیونکہ ، فألحواعلیھما''میں الحاح اصرار کے معنی میں استعمال ہواہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پہلے صبح کے وقت بلا یا گیا پھر اصرار اور تکرار دعوت میں شام سے رات

۱۰۷

ہوگئی۔ خود یہ عبارت اس بات کوبیا ن کرتی ہے کہ یہ دعوت دن میں تھی، رات میں نہیں ۔

(ج) ابومخنف نے عبدالملک بن نوفل بن مساحق بن مخرمہ سے اور انھو ں نے ابو سعید مقبری سے نقل کیا ہے کہ ہم نے امام حسین علیہ السلام کو مسجد النبی میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا۔ ابھی دو دن بھی نہ گذرے تھے کہ معلوم ہوا کہ آپ مکہ روانہ ہوگئے(طبری ،ج٥،ص ٣٤٢) اس مطلب کی تائید ایک دوسری روایت بھی کرتی ہے کیونکہ اس روایت سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ ابن زبیر اپنے گھر میں چھپ کر اپنے چاہنے والو ں کے درمیان پناہ گزی ں ہوگیا تھا۔اس کے بعد پورے دن اور رات کے پہلے حصہ تک ٹھہرا رہا لیکن پچھلے پہر وہ مدینہ سے باہرنکل گیا ۔جب صبح ہوئی اور ولید نے پھر آدمی کو بھیجا تو معلوم ہوا کہ وہ نکل چکا ہے۔اس پر ولید نے ٨٠گھوڑ سوارو ں کو ابن زبیر کے پیچھے دوڑایا لیکن کوئی بھی اس کی گرد پا نہ پا سکا۔ سب کے سب لوٹ آئے اور ایک دوسرے کو سست کہنے لگے یہا ں تک کہ شام ہو گئی (یہ دوسرا دن تھا) پھر ان لوگو ں نے شام کے وقت قاصد کو امام حسین علیہ السلام کے پاس بھیجا توامام علیہ ا لسلام نے فرمایا :''اصبحواثم ترو ن و نری'' ذرا صبح تو ہولینے دو پھر تم بھی دیکھ لینا ہم بھی دیکھ لی ں گے۔ اس پر ان لوگو ں نے اس شب امام علیہ السلام سے کچھ نہ کہا اور اپنی بات پر اصرار نہ کیا پھر امام علیہ السلام اسی شب تڑکے نکل گئے ۔یہ یکشنبہ کی شب تھی اور رجب کے دو دن باقی تھے۔ (طبری، ج٥،ص ٣٤١)

نتیجہ ۔ان تمام باتو ں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ابن زبیر حاکم وقت کی طرف سے بلائے جانے کے بعددن بھر ہی مدینہ میں رہے اور راتو ں رات نکل بھاگے اور امام علیہ السلام دو دن رہے اور تیسرے دن تڑکے نکل گئے ۔ چونکہ امام علیہ السلام نے شب یکشنبہ مدینہ سے کوچ کیا،اس کا مطلب یہ ہو ا کہ روز جمعہ اور شب شنبہ اور روز شنبہ آپ مدینہ میں رہے اور یہ بلاوا جمعہ کے دن بالکل سویرے سویرے تھا۔ اس بنیاد پر روایت یہ کا جملہ کہ'' ساعة لم یکن الولید یجلس فیھا للناس'' (ایسے وقت میں بلا یا تھا جس وقت وہ عوام سے نہیں ملاکرتا تھا) قابل تفہیم ہوگا۔ ابن زبیر اور امام علیہ السلام جمعہ کے دن صبح صبح مسجد میں موجود تھے؛ شاید یہ نماز صبح کے بعد کاوقت تھا ۔مقبری کے حوالے سے ابو مخنف کی روایت کے مطابق امام حسین علیہ السلام ولید کے دربار سے لوٹنے کے بعد اپنے ان دو بھروسہ مند ساتھیو ں کے ساتھ مسجد میں داخل ہوئے جن کے ہمراہ آپ ولید کے دربار میں گئے تھے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جمعہ کے دن صبح ہی میں ولید کا قاصد آیا تھا اور وہ رجب کی ٢٦وی ں تاریخ تھی، اسی لئے ولید اس دن عوام کے لئے نہیں بیٹھتاتھا کیونکہ وہ جمعہ کا دن تھا اور جمعہ کے دن دربار نہیں لگتا تھا ۔

۱۰۸

پس قاصد نے کہا : '' آپ دونوں کو امیر نے بلا یا ہے '' اس پر ان دونوں نے جواب دیا تم جاؤ ہم ابھی آتے ہیں ۔(١) ولید کے قاصد کے جانے کے بعد دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھااور ابن زبیر نے امام حسین علیہ السلام سے کہا : اس بے وقت بلائے جانے کے سلسلے میں آپ کیا گمان کرتے ہیں ؟ امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا :'' قد ظننت ان طاغیتهم قد هلک فبعث الینا لیا خذنا با لبیعة قبل ان یفشوا فی الناس الخبر '' میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ ان کا سرکش حاکم ہلاک ہوچکا ہے لہٰذا ولید نے قاصد کو بھیجاتاکہ لوگوں کے درمیان خبر پھیلنے سے پہلے ہی ہم سے بیعت لے لی جا ئے ۔

____________________

١۔طبری ج ، ٤ص ٣٣٩ ہشام بن محمد نے ابو مخنف سے نقل کیا ہے۔ سبط ابن جوزی نے بھی ص ٢٠٣ پر اور خوارزمی نے ص ١٨١ پراس مطلب کو ذکر کیا ہے لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہا ں دو ہی افراد کا ذکر ہے جب کہ خط میں تین لوگو ں کا تذکرہ تھا۔

روایت کے آخری ٹکڑے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فقط امام علیہ السلام اور عبداللہ بن زبیر کا ذکرکرنا اور عبد الر حمن بن ابو بکراور عبداللہ بن عمر کا ذکر نہ آنا شاید اس لئے ہے کہ پہلا یعنی پسر ابو بکر تو واقعہ سے پہلے ہی مر چکا تھااور دوسرا یعنی عبداللہ بن عمر مدینہ ہی میں نہیں تھا، جیسا کہ طبری نے واقدی سے روایت کی ہے۔(طبری ،ج٥، ص٣٤٣)

۱۰۹

مقتل خوارزمی میں اعثم کوفی کے حوالے سے ص ١٨١ پراوراسی طرح سبط بن جوزی نے ص ٢٣٥ پر اس قاصد کا نام جو اُن دونوں کے پاس آیا تھا عمرو بن عثمان ذکر کیا ہے اور تاریخ ا بن عساکر،ج٤، ص٣٢پر اس کا نام عبدالرحمن بن عمروبن عثمان بن عفان ہے۔

اس پر ابن زبیر نے کہا:وما اظن غیرہ فما ترید ان تصنع ؟ میرا گمان بھی یہی ہے تو آپ اب کیا کرنا چاہتے ہیں ؟ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :'' اجمع فتیا نی الساعة ثم امشی الیہ فاذا ابلغت الباب احتبستھم علیہ ثم دخلت علیہ '' ، میں ابھی ابھی اپنے جوانوں کو جمع کرکے ان کے ہمراہ دربار کی طرف روانہ ہوجاؤں گا اور وہاں پہنچ کر ان کو دروازہ پر روک دوں گا اور تنہا دربار میں چلاجاؤں گا۔ابن زبیر : ''انی اخافہ علیک اذا دخلت'' جب آپ تنہا دربار میں جائیں گے تو مجھے ڈر ہے کہ آپ کے ساتھ کوئی برا سلوک نہ کیا جائے ۔

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :'' لاآتیہ الا وانا علی الا متناع قادر'' تم فکر مت کرو میں ان کے ہر حربہ سے بے خوف ہوکر ان سے مقاومت کی قدرت رکھتا ہوں ۔ اس گفتگو کے بعد امام علیہ السلام اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے چاہنے والوں اور گھر والوں کو اکھٹا کر کے روانہ ہوگئے۔ دربار ولید کے دروازہ تک پہنچ کر اپنے اصحاب سے اس طرح گویا ہوئے :'' انی داخل ، فان دعوتکم او سمعتم صوته قد علا فاقتحموا علیّ باجمعکم والا فلاتبرحوا حتی أخرج الیکم ''میں اندر جا رہا ہوں اگرمیں بلاؤں یا اس کی آواز بلند ہو تو تم سب کے سب ٹوٹ پڑنا ور نہ یہیں پر ٹھہرے رہنا یہاں تک کہ میں خود آجاؤں ۔(١)

____________________

١۔شیخ مفید نے اس واقعہ کو اختصار کے ساتھ ذکر کیا ہے، ص ٢٠٠؛سبط بن جوزی ،ص ٢٣٦، خوارزمی ، ص ١٨٣۔

۱۱۰

امام حسین علیہ السلام ولید کے پاس

اس کے بعد امام علیہ السلام دربار میں داخل ہوئے ۔اس کو سلام کیا اور وہاں پر مروان کو بیٹھاہوا پایا جبکہ اس سے پہلے دونوں کے رابطہ میں دراڑپڑ گئی تھی ۔ امام حسین علیہ السلام نے معاویہ کی موت سے انجان بنتے ہوئے فرمایا :''الصلة خیر من القطیعه'' رابطہ برقرار رکھنا توڑنے سے بہتر ہے۔

خدا تم دونوں کے درمیان صلح و آشتی برقرار فرمائے۔ ان دونوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ۔ امام علیہ السلام آکر اپنی جگہ پربیٹھ گئے۔ ولید نے معاویہ کی خبر مرگ دیتے ہی فوراًاس خط کو پڑھ دیا اور آپ سے بیعت طلب کرنے لگا تو آپ نے فرمایا :''انا للّه وانّا الیه راجعون أمّا ما سأ لتنی من البیعة فان مثلی لا یعطی بیعته سرا'' تم نے جو بیعت کے سلسلے میں سوال کیا ہے تو میرے جیسا آدمی تو خاموشی سے بیعت نہیں کرسکتا'' ولا أراک تجتزی بها منی سرّاً دون ان تظهرها علی رؤوس الناس علانية'' ؟ میں نہیں سمجھتا کہ تم لوگوں میں اعلان عام کئے بغیر مجھ سے خاموشی سے بیعت لینا چاہوگے۔ولید نے کہا : ہاں یہ صحیح ہے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا :'' فاذاخرجت الی الناس فدعوتهم الی البیعةدعوتنا مع الناس فکان امراً واحداً'' (١) توٹھیک ہے جب باہر نکل کر لوگوں کو بیعت کے لئے بلاؤگے تو ہمیں بھی دعوت دینا تاکہ کام ایک بار ہوجائے۔امام علیہ السلام کے سلسلے میں ولید عافیت کو پسند کررہاتھا لہٰذا کہنے لگا : ٹھیک ہے اللہ کا نام لے کر آپ چلے جائیے جب ہم لوگوں کو بلائیں گے تو آپ کو بھی دعوت دیں گے ، لیکن مروان ولید سے فوراً بول پڑا :ّواللّه لئن فارقک الساعة ولم یبایع ؛لاقدرت منه علی مثلها أبداً ، حتی تکثر القتلی بینکم وبینه ! احبس الرجل ولا یخرج من عندک حتی یبایع أو تضرب عنقه! ''(٢)

____________________

١۔خوارزمی نے اس مطلب کو دوسرے لفظو ں میں ذکر کیا ہے ،ص١٨٣۔

٢۔خوارزمی نے اس مطلب کو ص١٨٤پر ذکر کیا ہے۔

۱۱۱

خدا کی قسم اگر یہ ابھی چلے گئے اور بیعت نہ کی تو پھر ایسا موقع کبھی بھی نہیں ملے گا یہاں تک کہ دونوں گروہ کے درمیان زبر دست جنگ ہو تم اسی وقت اس مرد کو قید کرلو اور بیعت کئے بغیر جا نے نہ دو یا گردن اڑادو ،یہ سنتے ہی امام حسین علیہ السلام غضبناک ہو کراٹھے اور فرمایا :''یابن الزرقاء (١) انت تقتلنی ام هو؟ کذبت والله واثمت'' (٢) اے زن نیلگوں چشم کے بیٹے تو مجھے قتل کرے گا یا وہ ؟ خدا کی قسم تو جھوٹا ہے اور بڑے دھوکے میں ہے۔ اس کے بعد امام علیہ السلام باہر نکل کر اپنے اصحاب کے پاس آئے اور ان کو لیکر گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔(٣)

____________________

١۔یہ زرقاء بنت موہب ہے۔ تاریخ کامل ،ج٤،ص ٧٥ کے مطابق یہ عورت برے کامو ں کی پرچمدار تھی ۔یہ امام علیہ السلام کی طرف سے قذف اور تہمت نہیں ہے کہ اسے برے لقب سے یاد کرنا کہاجائے بلکہ قرآن مجید کی تاسی ہے قرآن ولید بن مغیرہ مخزومی کی شان میں کہتا ہے:''عتل بعد ذالک زنیم'' زنیم کے معنی لغت میں غیر مشروع اولاد کے ہیں جس کو کوئی اپنے نسب میں شامل کرلے۔

٢۔مقتل خوارزمی، ص١٨٤ میں ان جملوں کا اضافہ ہے :''انا اهل بیت النبوه ومعدن الرسالة و مختلف الملائکةومهبط الرحمة، بنا فتح اللّه وبنا یختم، ویزید رجل فاسق ، شارب الخمر ، قاتل النفس، معلن بالفسق، فمثلی لا یبایع مثله ،ولکن نصبح و تصبحون وننظر و تنظرون أیناأحق بالخلافةو البیعة'' ہاں اے ولید !تو خوب جانتا ہے کہ ہم اہل بیت نبوت ، معدن رسالت ، ملائکہ کی آمد ورفت کی جگہ اور رحمت خدائی کے نزول و ھبوط کا مرکز ہیں ، اللہ نے ہمارے ہی وسیلہ سے تمام چیزوں کا آغاز کیااور ہمارے ہی ذریعہ انجام ہوگا ، جبکہ یزیدایک فاسق ، شراب خوار ، لوگوں کا قاتل اور کھلم کھلا فسق انجام دینے والا ہے،پس میرے جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا ؛لیکن صبح ہونے دو پھر تم بھی دیکھنا اور ہم بھی دیکھیں گے کہ ہم میں سے کون خلافت و بیعت کا زیادہ حقدار ہے۔ جیسے ہی امام علیہ السلام کی آواز بلند ہوئی تو جوانان بنی ہاشم برہنہ تلواروں کے ساتھ ٹوٹ پڑے؛ لیکن امام علیہ السلام نے ان لوگو ں کو روکا اور گھر کی طرف لے کر روانہ ہوگئے۔ مثیرالاحزان میں ابن نما(متوفیٰ٦٤٥ھ) نے اور لہوف میں سید ابن طائووس (متوفیٰ ٦١٣ھ) نے روایت کا تذکرہ کیاہے ۔

٣۔طبری نے اس روایت کو ہشام بن محمد کے حوالے سے ابی مخنف سے نقل کیا ہے۔ خوارزمی نے ص١٨٤پر خبر کا تتمہ بھی لکھا ہے کہ ولید سے مروان بولا :''عصیتنی لاوالله لا یمکنک من مثلها من نفسه ابداً'' تم نے میری مخالفت کی ہے تو خدا کی قسم تم اب کبھی بھی ان پر اس طرح قدرت نہیں پاؤگے ۔ولیدنے کہا:'' ویح غیرک یا مروان ..''اے مروان! یہ سرزنش کسی اور کو کر تو نے تو میرے لئے ایسا راستہ چنا ہے کہ جس سے میرا دین برباد ہوجائے گا ، خدا کی قسم اگر میرے پاس مال دنیا میں سے ہرو ہ چیز ہو جس پر خورشید کی روشنی پڑتی ہے اور دوسری طرف حسین کا قتل ہوتوحسین کا قتل مجھے محبوب نہیں ہے۔(سبط بن جوزی، ص٢٢٦)

سبحان اللہ ! کیا میں حسین کو فقط اس بات پر قتل کردوں کہ انھوں نے یہ کہا ہے کہ میں بیعت نہیں کروں گا ؟ خدا کی قسم میں گمان کرتا ہوں کہ جو قتل حسین کا مرتکب ہو گا وہ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک خفیف المیزان ہوگا۔ (ارشاد ،ص ٢٠١)

مروان نے اس سے کہا : اگر تمہاری رائے یہی ہے تو پھر تم نے جو کیا وہ پالیا۔

۱۱۲

ابن زبیر کا موقف

ابن زبیر نے یہ کہا: میں ابھی آتا ہوں لیکن اپنے گھر آکر چھپ گئے ۔ ولید نے قاصد کودوبارہ اس کی طرف روانہ کیا ۔ اس نے ابن زبیر کو اپنے چاہنے والوں کی جھر مٹ میں پا یا جہاں وہ پناہ گزیں تھا۔ اس پر ولید نے مسلسل بلا نے والوں کے ذریعہ آنے پرتاکید کی ...آخر کا ر ابن زبیر نے کہا :''لا تعجلو نی فانی آتیکم امهلونی'' جلد ی نہ کرو میں ابھی آرہا ہوں ؛ مجھ کو تھوڑی سی مہلت دو ۔ اسکے بعد وہ دن اور رات کے پہلے پہر تک مدینہ میں رہا اور یہی کہتا رہا کہ میں ابھی آرہا ہوں ؛یہا ں تک کہ ولیدنے پھر اپنے گر گوں کو ابن زبیر کے پاس روانہ کیا ۔ وہ سب وہاں پہنچ کر اسے برا بھلا کہنے لگے اور چیخ کر بولے : ائے کا ہلہ کے بیٹے ! خدا کی قسم تو فوراً آجا ورنہ امیر تجھ کو قتل کر دے گا۔ لوگوں نے زبر دستی کی تو ابن زبیر نے کہا :خدا کی قسم ان مسلسل پیغام لانے والوں کی وجہ سے میں بے چین ہوں ؛ پس تم لوگ جلدی نہ کرومیں ابھی امیر کے پاس کسی ایسے شخص کو بھیجتا ہوں جو ان کی رائے معلوم کر کے آئے ، اس کے بعد فوراًاس نے اپنے بھائی جعفر بن زبیر کو روانہ کیا ۔ اس نے جا کر کہا : اللہ آپ کو سلامت رکھے ، عبداللہ سے دست بردار ہوجایئے، لوگوں کو بھیج بھیج کر آپ نے ان کو خوف زدہ کر رکھا ہے، وہ انشا ء اللہ کل آپ کی خدمت میں حاضر ہو جائیں گے۔ اب آپ اپنے پیغام رساں سے کہئے کہ وہ ہمارا پیچھا چھوڑ دے، اس پر ولید نے آدمی بھیج کر قاصد کو جانے سے روک دیا ۔

ادھر ابن زبیر ٢٧ رجب کو شب شنبہ امام حسین علیہ السلام کے نکلنے سے پہلے ہی راتوں رات مدینے سے نکل گئے اور سفر کے لئے نا معلوم راستہ اختیار کیا۔سفر کا ساتھی فقط انکا بھائی جعفر تھا اور کوئی تیسرا نہیں تھا ۔ ان دونوں بھائیوں نے پکڑے جانے کے خوف سے عام راستے پر چلنے سے گریز کیا اور ناہموار راستے سے ہو تے ہوئے مکہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ (تذکرةالخواص ، ابن جوزی ،ص ٢٣٦)

جب صبح ہوئی تو ولید نے اپنے آدمیوں کو پھر بھیجا لیکن ابن زبیر نکل چکے تھے۔ اس پر مروان نے کہا : خدا کی قسم وہ مکہ روانہ ہواہے اس پر ولید نے فوراً لوگوں کو اس کے پیچھے دوڑایا؛ اس کے بعد بنی ا میہ کے ٨٠ گھوڑ سواروں کو ابن زبیرکی تلاش کے لئے بھیجا لیکن وہ سب کے سب خالی ہاتھ لو ٹے ۔

ادھر عبداللہ بن زبیر اپنے بھائی کے ہمراہ مشغول سفر ہیں ۔ چلتے چلتے جعفر بن زبیر نے'' صبرةالحنظلی'' کے شعر سے تمثیل کی:

وکل بنی أم سیمسون لیلة

ولم یبق من أعقابهم غیر واحد

اس پر عبداللہ نے کہا :سبحان اللہ !بھائی اس شعر سے کیا کہنا چاہتے ہو ؟جعفر نے جواب دیا : بھائی ! میں نے کوئی ایسا

۱۱۳

ارادہ نہیں کیا ہے جو آپ کے لئے رنجش خاطرکاباعث ہو ۔ اس پر عبداللہ نے کہا : خدا کی قسم مجھے یہ نا پسند ہے کہ تمہاری زبان سے کوئی ایسی بات نکلے جس کا تم نے ارادہ نہ کیا ہو۔ اس طرح ابن زبیر سفر کرتے رہے یہاں تک کہ مکہ پہنچ گئے۔ اس وقت مکہ کا حاکم عمرو بن سعید تھا۔ جب ابن زبیر وارد مکہ ہوئے تو عمرو بن سعیدسے کہا : میں نے آپ کے پا س پناہ لی ہے لیکن ابن زبیر نے کبھی ان لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی اور نہ ہی کوئی افاضہ کیا بلکہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک کنارے رہنے لگے اور نماز بھی تنہا پڑھنے لگے اور افاضہ بھی تنہا ہی رہا ۔(طبری ، ج٥،ص٣٤٣) اس واقعہ کو ہشام بن محمد نے ابی مخنف سے نقل کیا ہے۔ شیخ مفید نے ارشاد ،ص٢٠١، اور سبط ابن جوزی نے تذکرة الخواص ،ص٢٣٦پر بھی اس واقعہ کا تذکرہ کیا ہے۔ وہاں یہ ملتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام آئندہ شب میں اپنے بچوں ، جوانوں اور گھر االوں کے ہمراہ مدینہ سے باہرنکل گئے اور ابن زبیر سے دور ہی رہے اور سبط ابن جوزی ص ٢٤٥ پر ہشام اور محمد بن اسحاق سے رویت نقل کرتے ہیں کہ دو شنبہ کے دن ٢٨ رجب کو امام علیہ السلام نکلے اورخوارزمی نے ص١٨٦پر لکھا ہے کہ آپ ٣ شعبان کومکہ پہنچے ۔

امام حسین علیہ السلام مسجد مدینہ میں

دوسرے دن سب کے سب عبداللہ بن زبیر کی تلاش میں لگ گئے اور امام حسین علیہ السلام کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں گیا یہا ں تک کہ شام ہو گئی۔ شام کے وقت ولید نے کچھ لوگوں کو امام حسین کے پاس بھیجا ۔یہ٢٨ رجب سنییجر کا دن تھا۔ امام حسین نے ان سے فرما یا : صبح ہونے دو تم لوگ بھی کچھ سوچ لواور میں بھی سوچتا ہوں ۔ یہ سن کر وہ لوگ اس شب یعنی شب ٢٩ رجب امام حسین علیہ السلام سے دست بردار ہوگئے اور اصرار نہیں کیا ۔(١) ابو سعید مقبری کا بیا ن ہے کہ میں نے امام حسین علیہ السلام کو مسجد میں وارد ہوتے ہوئے دیکھا۔ آپ دولوگوں پر تکیہ کئے ہوئے چل رہے تھے، کبھی ایک شخص پر تکیہ کرتے تھے اور کبھی دوسرے پر؛اسی حال میں یزید بن مفرغ حمیری کے شعر کو پڑھ رہے تھے :

لاذعرت السوام فی فلق الصبح

مغیراً،و لا د عیت یزیداً

یوم اْعطی من المهابه ضیماً

والمنایا یرصدننی أن أحیدا(٢)

____________________

١۔طبری، ج٥ ، ص٣٣٨، ٣٤١، ہشام بن محمد نے ابو مخنف سے روایت نقل کی ہے اور شیخ مفید نے بھی اس کو ذکر کیا ہے۔(ارشاد، ص ٢٠١)

٢۔خوارزمی ،ص١٨٦

۱۱۴

میں سپیدہ سحری میں حشرات الارض سے نہیں ڈرتا نہ ہی متغیر ہوتاہوں اور نہ ہی اپنی مدد کے لئے یزید کو پکاروں گا ۔سختیوں کے دنوں میں خوف نہیں کھاتا جبکہ موت میری کمین میں ہے کہ مجھے شکارکرے ۔

راوی کہتا ہے کہ میں نے جب یہ اشعار سنے تواپنے دل میں کہا : خدا کی قسم ان اشعار کے پیچھے کوئی ارادہ چھپاہواہے۔ابھی دو دن نہ گذرے تھے کہ خبر ملی کہ امام حسین علیہ السلام نے مکہ کا سفر اختیار کرکیا ہے۔(١)

محمدبن حنفیہ کا موقف(٢)

محمد حنفیہ کو جب اس سفر کی اطلاع ملی تو اپنے بھا ئی حسین علیہ السلام کے پاس آئے اور فر مایا بھائی جان ! آپ میرے لئے دنیا میں سب سے زیاد ہ محبوب اور سب سے زیادہ عزیز ہیں میں اپنی نصیحت اور خیر خواہی کا ذخیرہ آپ کے علاوہ کسی دوسرے تک پہنچانا بہتر نہیں سمجھتا آپ یزید بن معاویہ کی بیعت نہ کیجئے اور کسی دور دراز علاقہ میں جاکر پناہ گزین ہو جائیے پھر اپنے نمائندوں کو لوگوں کے پاس بھیج کر اپنی طرف دعوت دیجئے اب اگر ان لوگوں نے آپ کی بیعت کر لی تو اس پر آپ خدا کی حمد وثنا کیجئے اور اگر لوگ آپ کے علاوہ کسی اور کی بیعت کر لیتے ہیں تو اس سے نہ آپ کے دین میں کمی آئے گی نہ عقل میں ، اس سے نہ آپ کی مروت میں کوئی کمی آئے گی اور نہ فضل وبخشش میں ۔مجھے اس بات کاخوف ہے کہ آپ ان شہروں میں سے کسی ایک شہر میں چلے جائیں اور کچھ لوگ وہا ں آکر آپ سے ملیں پھر آپس میں اختلاف کرنے لگیں ۔کچھ گروہ آپ کے ساتھ ہو جائیں اور کچھ آپ کے مخالف ۔اس طرح جنگ کا شعلہ بھڑک اٹھے اور آپ سب سے پہلے نیزوں کی باڑھ پر آجائیں ۔اس صورت میں وہ ذات جو ذاتی طور پر اور اپنے آبا ء واجد اد کی طرف سے اس امت کی باوقار ترین فرد ہے اس کا خون ضائع ہوگا اور ان کے اہل بیت ذلیل ہوں گے۔ امام علیہ السلام نے جواب دیا :بھائی میں جارہا ہوں !

____________________

١۔طبری، ج ٥،ص٣٤٢، ابومخنف کا بیان ہے کہ یہ واقعہ مجھ سے عبدالملک بن نوفل بن مساحق نے ابوسعید مقبری کے حوالے سے نقل کیا ہے ، جن کازندگی نامہ پہلے بیان ہوچکاہے۔تذکرةالخواص ،ص٢٣٧

٢۔ محمد حنفیہ کی ما ں خولہ بنت جعفر بن قیس ہیں جو قبیلہ ء بنی بکر بن وائل سے تعلق رکھتی ہیں ۔(طبری ،ج، ٥، ص ١٥٤)

۱۱۵

آپ جنگ جمل میں اپنے بابا علی مرتضیٰ علیہ السلام کے ہمراہ تھے۔ امام علی السلام نے آپ کے ہاتھوں میں علم دیا تھا (طبری ،ج ٥، ص ٤٤٥)آپ نے وہاں بہت دلیری کے ساتھ جنگ لڑی اور قبیلۂ ''ازد''کے ایک شخص کا ایک ہاتھ کاٹ دیا جو لوگوں کو جنگ پر اکسارہا تھا ۔(طبری، ج ٤،ص ٤١٢) آپ جنگ صفین میں بھی موجودتھے اور وہاں عبید اللہ بن عمر نے ان کو مبارزہ کے لئے طلب کیا تو حضرت علی علیہ السلام نے شفقت میں روکا کہ کہیں قتل نہ ہو جا ئیں ۔ (طبری ،ج٥، ص١٣) امام حسین علیہ السلام جب مکہ سے عراق جارہے تھے تو آپ مدینہ میں مقیم تھے۔ (طبری ،ج٥،ص٣٩٤) مختار آپ ہی کی نمائند گی کا دعویٰ کر تے ہوئے کوفہ میں وارد ہوئے تھے۔ (طبری ،ج ٥،ص ٥٦١) ابن حنفیہ کو اس کی خبر دی گئی اور ان سے اس سلسلے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا : میں اس بات کو محبوب رکھتا ہوں کہ خدا ئے متعال اپنے جس بندے کے ذریعہ چاہے ہمارے دشمن سے بد لہ لے۔جب مختار کو ابن حنفیہ کے اس جملہ کی اطلاع ملی تو انھوں نے جناب محمد حنفیہ کو امام مہدی کا لقب دیدیا ۔(طبری ،ج٦، ص ١٤) مختار ایک خط لیکرابراہیم بن مالک اشتر کے پا س گئے جو ابن حنفیہ سے منسوب تھا ۔(طبری ،ج ٦،ص ٤٦) اس کا تذکرہ ابن حنفیہ کے پاس کیا گیا تو انھوں نے کہا : وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ ہمارا چاہنے والا ہے اور قاتلین حسین علیہ السلام تخت حکومت پر بیٹھ کر حکم نا فذ کر رہے ہیں ۔مختار نے یہ سنا تو عمر بن سعداور اس کے بیٹے کو قتل کر کے ان دو نوں کا سر ابن حنفیہ کے پاس روانہ کر دیا۔ (طبری، ج ٦،ص ٦٢) مختار نے ایک فوج بھیج کر ابن حنفیہ کو برانگیختہ کرنا چاہا کہ وہ ابن زبیر سے مقابلہ کریں لیکن محمد حنفیہ نے روک دیا اور خون بہا نے سے منع کر دیا۔ (طبری،ج٦،ص٧٤) جب یہ خبر ابن زبیر کو ملی تو اس نے ابن حنفیہ اور ان کے ١٧رشتہ داروں کو کچھ کو فیوں کے ہمراہ زمزم کے پاس قید کردیا اور یہ دھمکی دی کہ بیعت کریں ورنہ سب کوجلادیں گے۔ اس حالت کو دیکھ کر محمد حنفیہ نے کو فہ کے تین آدمیوں کو مختار کے پاس روانہ کیا اور نجات کی درخواست کی ۔ خبر ملتے ہی مختار نے چار ہزار کا لشکرجو مال واسباب سے لیث تھا فوراً روانہ کیا ۔وہ لوگ پہنچتے ہی مکہ میں داخل ہوئے اور مسجدالحرام میں پہنچ کر فوراً ان لوگوں کو قید سے آزاد کیا ۔ آزاد کر نے کے بعد ان لوگوں نے محمدحنفیہ سے ابن زبیر کے مقابلہ میں جنگ کی اجازت مانگی تو محمد حنفیہ نے روک دیا اور اموال کو ان کے درمیان تقسیم کردیا ۔(طبری ،ج ٦،ص ٦٧) آپ شیعوں کو زیادہ روی سے روکا کرتے تھے۔ (طبری ،ج ٦،ص ١٠٦) ٦٨ ھ میں حج کے موقع پر آپ کے پاس ایک مستقل پر چم تھا اور آپ فرمایا کر تے تھے: میں ایسا شخص ہوں جو خود کو ابن زبیر سے دور رکھتا ہو ں اور جو میرے ساتھ ہے اس کو بھی یہی کہتا ہوں کیو نکہ میں نہیں چاہتا کہ میرے سلسلے میں دو لوگ بھی اختلاف کریں ۔(طبری ،ج٦،ص١٣٨) آپ جحاف کے سال تک زندہ رہے اور ٦٥سال کی عمر میں طائف میں اس دنیا سے جاں بحق ہو گئے۔ ابن عباس نے آپ کی نماز پڑھائی ۔(طبری ،ج ٥،ص ١٥٤)

۱۱۶

محمد حنفیہ نے کہا :اگرآپ جا ہی رہے ہیں تو مکہ میں قیام کیجئے گا۔اگروہ جگہ آپ کے لئے جا ئے امن ہو تو کیا بہتر اور اگرامن وسلامتی کو وہاں پر بھی خطرہ لاحق ہو تو ریگستانو ں ، پہاڑوں اوردرّہ کو ہ میں پناہ لیجئے گا او رایک شہر سے دوسرے شہر جاتے رہیئے گا تاکہ روشن ہو جائے کہ لوگ کس طرف ہیں ۔ ایسی

صورت میں آپ حالات کو اچھی طرح سمجھ کر فیصلہ کر سکیں گے ۔ میرے نزدیک آپ کے لئے بہترین راستہ یہی ہے۔اس صورت میں تمام امور آپ کا استقبال کریں گے اوراگر آپ نے اس سے منھ موڑ اتو تما م امور آپ کے لئے مشکل سے مشکل تر ہوجائیں گے ۔

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :بھائی جان !آپ نے خیر خواہی کی ہے اور شفقت فرمائی ہے، امید ہے کہ آپ کی رائے محکم اور استوار ہو۔(١)

امام حسین علیہ السلام کا مدینہ سے سفر

امام حسین علیہ السلام نے ولید سے کہا ٹھہرجاؤتاکہ تم بھی غور کرلو اور ہم بھی غور کرلیں ، تم بھی دیکھ لواور ہم بھی دیکھ لیں ، ادھر وہ لوگ عبداللہ بن زبیر کی تلاش میں امام حسین علیہ السلام کو با لکل بھول گئے یہاں تک کہ شام ہوگئی۔ اسی شام ولید نے کچھ لوگوں کو امام حسین علیہ السلام کے پاس بھیجا۔ یہ ٢٧ رجب شنبہ کا دن تھا۔ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : صبح ہونے دو پھر تم بھی دیکھ لینا اور ہم بھی دیکھ لیں گے، اس پر وہ لوگ اس شب جو شب یکشنبہ یعنی شب ٢٨ رجب تھی رک گئے اور کسی نے اصرار بھی نہیں کیا۔ اسی رات امام حسین مدینہ سے خارج ہوئے جب کہ رجب کے فقط دو دن باقی تھے۔ آپ کے ہمراہ آپ کے فرزند اور بھائی وبھتیجے موجود تھے بلکہ اہل بیت کے اکثر افراد موجود تھے،البتہ محمد حنفیہ اس کاروان کے ہمراہ نہیں تھے۔(٢)

____________________

١۔طبری ،ج ٥ ، ص٣٤١، ہشام بن محمد نے ابو مخنف سے یہ روایت کی ہے اور شیخ مفید نے بھی اس کا تذکرہ کیا ہے۔ (ارشاد،ص٢٠٢، خوارزمی ، ص١٨٨،اور خوارزمی نے اعثم کوفی کے حوالے سے امام علیہ السلام کی وصیت ''امّا بعد فانّی لم اخرج ...''کا اضافہ کیا ہے ۔اور وصیت میں ''سیرة خلفاء الراشدین '' کا اضافہ کیا ہے ۔

٢۔طبری ، ج ٥،ص٢٤٠، ٢٤١و ٣٨١ پر بھی کوچ کرنے کی تاریخ یہی بیان کرتے ہیں جسے ابو مخنف نے صقعب بن زہیر کے حوالے سے اورانھو ں نے عون بن ابی حجیفہ کے توسط سے نقل کیا ہے۔'' ارشاد'' ، ص٢٠٩پر شیخ مفید اور تذکرة الخواص، ص٢٣٦پر سبط بن جوزی بیان کرتے ہیں : آئندہ شب امام حسین علیہ السلام اپنے جوانو ں اور اہل بیت کے ہمراہ مدینہ سے سفر اختیار کیا در حالیکہ لوگ ابن زبیر کی وجہ سے آپ سے دست بردار ہوگئے تھے، پھرص٢٤٥ پر محمدبن اسحاق اور ہشام سے روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ نے یکشنبہ کو جبکہ رجب کے تمام ہونے میں دو دن بچے تھے مدینے سے سفر اختیار کیا ،البتہ خوارزمی نے اپنے مقتل کے ص١٨٩ پر لکھا ہے کہ رجب کے تین دن باقی تھے ۔

۱۱۷

مدینہ سے سفر اختیار کرتے وقت امام حسین علیہ السلام اس آیت کی تلاوت فرما رہے تھے:( ''فَخَرَجَ مِنْهَا خَائِفاً يَتَرَقَّبُ قَالَ رَبِّ نَجِّنِی مِنَ الْقَوْمِ الْظَّالِمِيْنَ'' ) (١) اور جب مکہ پہنچے تویہ آیت تلا وت فر ما ئی( ''وَلَمَّاتَوَجَّهَ تِلْقَآ ئَ مَدْيَنَ قَالَ عَسَٰی رَبِّی أَنْ يَهْدِيَنِی سَوَائَ السَّبِيْلِ'' ) (٢)

____________________

١۔ قصص ، آیت٢١

٢۔ قصص ، آیت ٢٢، طبری ج٥،ص، ٣٤٣ پرہشام بن محمد ابو مخنف سے نقل کر تے ہیں ۔

۱۱۸

عبد اللہ بن عمر کا موقف :(۱) پھر ولید نے ایک شخص کو عبد اللہ بن عمر کے پاس بھیجا تو آنے والے نے ا بن عمر سے کہا : یزید کی بیعت کرو ! عبد اللہ بن عمر نے کہا : جب سب بیعت کرلیں گے تو میں بھی کرلوں گا۔(۲) اس پر ایک شخص نے کہا : بیعت کرنے سے تم کو کونسی چیز روک رہی ہے ؟ کیاتم یہ چاہتے ہو کہ لوگ اختلاف کریں اورآپس میں لڑبھڑکر فنا ہوجائیں اور جب کوئی نہ بچے تو لوگ یہ کہیں کہ اب تو عبداللہ بن عمر کے علاو ہ کو ئی بچانہیں ہے لہذا اسی کی بیعت کرلو ، عبداللہ بن عمر نے جواب دیا : میں نہیں چاہتاکہ وہ لوگ قتل ہوں ، اختلاف کریں اور فناہوجائیں لیکن جب سب بیعت کرلیں گے اور میرے علاو ہ کوئی نہیں بچے گا تو میں بھی بیعت کرلوں گا اس پر ان لوگوں نے ابن عمر کو چھوڑدیا کیونکہ کسی کو ان سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔

____________________

(١) طبری ، ج ٥، ص٣٤٢ میں یہ لفظ موجود ہے کہ ہشام بن محمد ابو مخنف سے نقل کرتے ہیں ...، پھر طبری کہتے ہیں کہ واقدی (متوفی ٢٠٧) کا گمان ہے کہ جب قاصد ،معاویہ کی موت کی خبر لے کر ولید کے پاس آیا تھا اس وقت ابن عمر مدینہ میں موجود ہی نہیں تھے اور یہی مطلب سبط بن جوزی نے بھی اپنی کتاب کے صفحہ ٢٣٧ پر لکھاہے۔ ہا ں ابن زبیر اور امام حسین علیہ السلام کو بیعت یزید کے لئے بلایا تو یہ دونو ں اسی رات مکہ کو روانہ ہوگئے ؛ا ن دونو ں سے ابن عباس اور ابن عمر کی ملاقات ہوئی،جو مکہ سے آرہے تھے تو ان دونو ں نے ان دونو ں سے پوچھا : آپ کے پیچھے کیا ہے ؟ تو ان دونو ں نے کہا : معاویہ کی موت اور یزید کی بیعت ، اس پر ابن عمر نے کہا : آپ دونو ں تقوائے الٰہی اختیار کیجئے اور مسلمین کی جماعت کو متفرق نہ کیجئے ! اس کے بعد وہ آگے بڑھ گیا اور وہیں چند دنو ں اقامت کی یہا ں تک کہ مختلف شہرو ں سے بیعت آنے لگی تو وہ اور ابن عباس نے پیش قدمی کی اور دونو ں نے یزید کی بیعت کر لی''۔

(٢) جیسا کہ معاویہ نے اپنی وصیت میں اور مروان نے ولید کو مشورہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ ایسا ہوگا اورویسا ہی ہوا ۔

۱۱۹

امام حسین علیہ السلام مکہ میں

* عبد اللہ بن مطیع عدوی

* امام حسین علیہ السلام کا مکہ میں ورود

* کوفیوں کے خطوط

* امام حسین علیہ السلام کا جواب

* حضرت مسلم علیہ السلام کا سفر

* راستے سے جناب مسلم کا امام علیہ السلام کے نا م خط

* مسلم کو امام علیہ السلام کا جواب

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438