واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا13%

واقعۂ کربلا مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 438

واقعۂ کربلا
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 438 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 192956 / ڈاؤنلوڈ: 5407
سائز سائز سائز
واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

جس نے ھی دیکھا ہے جلوہ آپ کا

اس کو ہی چپ لگ گئی خاموش رہ

٭

نعت لکھواتی ہے کوئی اور ہی ذات

ورنہ جرأت آس کی خاموش رہ

٭٭٭

۸۱

ہر طرف لب پہ صل علیٰ ہے ہر طرف روشنی روشنی ہے

ہر طرف ل پہ صل علیٰ ہے ہر طرف روشنی روشنی ہے

جشنِ میلاد ہے مصطفےٰ کا کیا معطر معطر گھڑی ہے

٭

آج سن لی ہے س کی خدا نے کھل گئے رحمتوں کے خزانے

جتنا دامن میں آئے سمیٹو ہر طرف رحمتوں کی جھڑی ہے

٭

چھٹ گئیں ظلمتوں کی گھٹائیں کیسے دن آج کا ھول جائیں

عید میلاد آؤ منائیں کون سی عید اس سے ڑی ہے

٭

ہم سے کہتا ہے خود ر اکر میں ثنا خوان ہوں مصطفےٰ کا

تم ھی ھیجو درود ان پہ ہر دم ان کی مدحت مری ندگی ہے

٭

اک خدا اک رسول ایک قرآں ایک کیوں کر نہیں پھر مسلماں

چھوڑ دو فرقہ ندی خدارا اس نے جاں کتنے ندوں کی لی ہے

٭

ہر مسلمان ماتم کناں ہے گنگ انسانیت کی زاں ہے

آپ محسن ہیں انسانیت کے آپ کے در سے ہی لو لگی ہے

٭

اپنے در پر ہی رکھنا خدارا غیر کا در نہیں ہے گوارا

آس مانا کہ عاصی ہت ہے پر حضور آپ کا امتی ہے

٭٭٭

۸۲

ذکرِ نبی(ص) اسرارِ محبت صلی اللہ علیہ وسلم

ذکرِ نی(ص) اسرارِ محت صلی اللہ علیہ و سلم

حق کا پیمر ختم رسالت صلی اللہ علیہ و سلم

٭

صح ازل کی جان ھی ہے و ہ شام اد کی شان ھی ہے وہ

اس کی ثنا گو ہر اک ساعت صلی اللہ علیہ و سلم

٭

ذکر نی میں دل کی طر ہے دل کی طر خوشنودی ر ہے

ر کی رضا سرکار کی مدحت صلی اللہ علیہ و سلم

٭

کس کے تصدق چمکا ستارا چاند زمیں پر ر نے اتارا

ہم آزاد ہیں کس کی دولت صلی اللہ علیہ و سلم

٭

وحدت کی پہچان اسی میں خشش کا سامان اسی میں

کرتے رہو یہ ذکر سعادت صلی اللہ علیہ و سلم

٭

پاکستان کا پیارا خطہ آپ کی ہے نعلین کا صدقہ

آپ کے صدقے پائی یہ جنت صلی اللہ علیہ و سلم

٭

قرآں ہو دستور ہمارا چمکے آس نصی کا تارا

رہر ہو ج آپ کی سیرت صلی اللہ علیہ و سلم

٭٭٭

۸۳

میں مریضِ عشقِ رسول ہوں مجھے اور کوئی دوا نہ دو

میں مریضِ عشقِ رسول ہوں مجھے اور کوئی دوا نہ دو

یہی نام میرا علاج ہے یہی نام لیتے رہا کرو

٭

مرے ہم سخن مرے ساتھیو مرے مونسو مرے وارثو

تمہیں مجھ سے اتنا ہی پیار ہے مرے ساتھ صلِ علیٰ پڑھو

٭

کوئی چھیڑو قصے حضور کے گریں ت زمیں پہ غرور کے

کھلیں ا عقل و شعور کے دل مضطر کو قرار ہو

٭

مری زندگی ھی ہو زندگی مری شاعری ھی ہو شاعری

کھلے دل کے شہر میں چاندنی درِ مصطفےٰ پہ چلیں چلو

٭

مری چشمِ ناز کا نور وہ مری نضِ جاں کا سرور وہ

نہیں پل ھی مجھ سے ہیں دور و ہ مری دھڑکنوں کی صدا سنو

٭

وہ خدا کا عکسِ جمال ہیں وہی رشکِ او ج کمال ہیں

وہ تو آپ اپنی مثال ہیں کوئی تم نہ ان کی مثال دو

٭

جسے ان کی ایک جھلک ملی وہ ہر ایک غم سے ہوا ری

اسے آس اس طرح چپ لگی کہ نہ جیسے منہ میں زان ہو

٭٭٭

۸۴

ہر اک لب پہ نعت نبی کے ترانے ہر اک لب پہ صلِ علیٰ کی صدا ہے

ہر اک ل پہ نعت نی کے ترانے ہر اک ل پہ صلِ علیٰ کی صدا ہے

ہمارے نی جس میں تشریف لائے وہ رحمت کا پر نور دن آگیا ہے

٭

درودوں کے تحفے سلاموں کے ہدیے دعاؤں کے منظر عقیدت کے نعرے

مقدس مقدس ہر اک سمت جلوے معطر معطر ہر اک سو فضا ہے

٭

عطاؤں کی ارش دعا کی گھڑی ہے ہر اک شخص کی آپ سے لو لگی ہے

ہر اک آنکھ میں آنسوؤں کے سمندر ہر اک دل میں تعظیم کا در کھلا ہے

٭

خدا کی خدائی کے مختار ہیں وہ تمام انیاء کے ھی سردار ہیں وہ

خدا کی خدائی طلگار ان کی مقام ان کو ر نے عطا وہ کیا ہے

٭

اٹھے گی وہ چشمِ کرم غم کے مارو انہیں دل کی گہرائیوں سے پکارو

نچھاور کرو پھول ان پہ ثنا کے اسی میں ہی آس اپنے ر کی رضا ہے

٭٭٭

۸۵

تری یاد کا سدا گلستاں مری نبضِ جاں میںکھلا رہے

تری یاد کا سدا گلستاں مری نضِ جاں میں کھلا رہے

مری سانس جس سے مہک اٹھے وہ قرار دل میں سا رہے

٭

میں پڑا رہوں تری راہ میں تری چاہتوں کی پناہ میں

مجھے ٹھوکروں کی نہ فکر ہو مرا زخم زخم ہرا رہے

٭

مری زندگی کا ہر ایک پل ترے پیار سے نے ا عمل

تری چاہتوں پہ جیوں مروں ترے غم کی دل میں جلا رہے

٭

رہے تیری یاد سے واسطہ کوئی اور نہ ہو مرا راستہ

مرے شعر میری قا نیں مرا رنگ س سے جدا رہے

٭

یہی آس ہے یہی آرزو تیری ہر گھڑی کروں گفتگو

مری آنکھ ہو سدا ا وضو یونہی مجھ پہ فضلِ خدا رہے

٭٭٭

۸۶

نور سے اپنے ہی اک نور سجایا رب نے

نور سے اپنے ہی اک نور سجایا ر نے

پھر اسی نور کو محو نایا ر نے

٭

ان کی ہر ات میں رکھ رکھ کے محت کی مٹھاس

پیکرِ خُلق کا دیدار کرایا ر نے

٭

انیا ج تیرے دیدار کو ے تا ہوئے

پھر امامت کو سرِ عرش لایا ر نے

٭

پیکر حسن میں س خویاں اپنی ھر کر

تجھ کو قرآن کی صورت میں نایا ر نے

٭

تیری سیرت کی زمانے سے گواہی لینے

دیکھنے والی نگاہوں کو دکھایا ر نے

٭

اپنی قدرت کو دو عالم پہ اجاگر کرنے

ناز تخلیق کو پھر پاس لایا ر نے

٭

۸۷

اور ھی یش ہا نعمتیں دی ہیں لیکن

دے کے محو یہ احسان جتایا ر نے

٭

شکر اس ذات کا جتنا ھی کروں کم ہے آس

مجھ کو ھی نعت کا انداز سکھایا ر نے

٭٭٭

۸۸

بڑھتی ہی جارہی ہے آنکھوں کی بے قراری

بڑھتی ہی جا رہی ہے آنکھوں کی ے قراری

یا ر دکھا دے پھر سے صورت نی کی پیاری

٭

پھر دل کی انجمن میں جھنے لگی ہیں شمعیں

پھر ہجر کی تڑپ میں گزرے گی رات ساری

٭

جس میں کھلیں تمہاری الفت کے پھول آقا

اس دن کے میں تصدق اس رات کے میں واری

٭

ان راستوں کے ذرے نتے گئے ستارے

جن راستوں سے گزری سرکار کی سواری

٭

ہم کو ھی اس نظر میں رہنے کی آرزو ہے

جس کی ضیاء سے جگمگ ہے کائنات ساری

٭

مہکار يٹ رہی ہے جس میں محيتوں کی

وہ ہے نگر تمہارا وہ ہے گلی تمہاری

٭

جینے کی آس دل میں کچھ اور ڑھ گئی ہے

جب سے ہوئی ہیں نعتیں میرے لوں پہ جاری

٭٭٭

۸۹

دیکھنے والی ہے اس وقت قلم کی صورت

دیکھنے والی ہے اس وقت قلم کی صورت

چومتا جاتا ہے کاغذ کو حرم کی صورت

٭

اس پہ تحریر ہوئی جاتی ہے آقا کی ثناء

ن رہی ہے مرے عصیاں پہ کرم کی صورت

٭

آپ کا پیار سنھالا جو نہ دیتا مجھ کو

اور ہی ہوتی مرے رنج و الم کی صورت

٭

شہر تو شہر ہے شیدائی مرے آقا کے

"دشت میں جائیں تو ہو دشت ارم کی صورت"

٭

مدح سرکار میں آنکھوں کا وضو لازم ہے

خود خود نتی ہے پھر نعت رقم کی صورت

٭

ہر کوئی اپنی نگاہوں پہ ٹھاتا ہے مجھے

اور کیا ہوتی ہے الطاف و کرم کی صورت

٭

آس سرکار کا دامان شفاعت ہو نصی

ت ہی محشر میں نے میرے ھرم کی صورت

٭٭٭

۹۰

وہ جدا ہے راز و نیاز سے کہ نہیں نہیں بخدا نہیں

وہ جدا ہے راز و نیاز سے کہ نہیں نہیں خدا نہیں

وہ الگ ہے ذات نماز سے کہ نہیں نہیں خدا نہیں

٭

یہ کہا زمیں سے حسیں کوئی مرے مصطفےٰ سے ھی ڑھ کے ہے

تو کہا یہ عجز و نیاز سے کہ نہیں نہیں خدا نہیں

٭

یہ کہا فلک سے کہ اور کوئی تیری رفعتوں سے ہے آشنا

تو کہا یہ اس نے ھی راز سے کہ نہیں نہیں خدا نہیں

٭

یہ کہا زمیں سے کہ معتر درِ مصطفےٰ سی کوئی جگہ

تو کہا یہ اس نے ھی ناز سے کہ نہیں نہیں خدا نہیں

٭

یہ کہا فلک سے کہ رفعتیں کسی اور نی کو ھی یوں ملیں

تو کہا یہ صیغۂ راز سے کہ نہیں نہیں خدا نہیں

٭

یہ کہا زمیں سے صعوتیں کسی اور کی آل کو یوں ملیں

تو کہا یہ سوز و گداز سے کہ نہیں نہیں خدا نہیں

٭

یہ کہا فلک سے کہ کہکشاں کسی اور کی گردِ سفر ھی ہے

تو کہا یہ آس کو ناز سے کہ نہیں نہیں خدا نہیں

٭٭٭

۹۱

صبح بھی آپ(ص) سے شام بھی آپ (ص)سے

صح ھی آپ(ص) سے شام ھی آپ (ص)سے

میری منسو ہر اک گھڑی آپ (ص)سے

٭

میرے آقا میرا تو یہ ایمان ہے

دونوں عالم کی رونق ہوئی آپ (ص)سے

٭

آپ میرے تصور کی معراج ہیں

میرے کردار میں روشنی آپ (ص)سے

٭

گر گیا تھا خود اپنی نظر سے شر

آج اس کو ملی رتری آپ(ص) سے

٭

آپ(ص) خالق کی ے مثل تخلیق ہیں

کیسے لیتا کوئی رتری آپ(ص) سے

٭

کہکشاں ہی نہیں ان کی گردِ سفر

چاند کو ھی ملی چاندنی آپ(ص) سے

٭

قر میں آس عشق نی ساتھ ہو

اے خدا ا لتجا ہے یہی آپ (ص)سے

٭٭٭

۹۲

ثناء خدا کی درود و سلام ہے تیرا

ثناء خدا کی درود و سلام ہے تیرا

لوں پہ ذکر مرے صح و شام ہے تیرا

٭

جو تم نہ ہوتے تو ستی نہ عالم ہستی

وجود کون و مکاں اہتمام ہے تیرا

٭

کوئی نہیں تیرا ہمسر نہ کوئی سایہ ہے

سروں پہ سایہ ہمارے دوام ہے تیرا

٭

دلوں میں عشق نی کا نہ دیپ جلتا ہو

تو پھر فضول سجود و قیام ہے تیرا

٭

تمہارے در کا ہے دران جرائیل امیں

"مسیح و خضر سے اونچا مقام ہے تیرا"

٭

قلم دیا مجھے اپنے نی کی مدحت کا

مرے کریم یہ کیا کم انعام ہے تیرا

٭

اسے ھی خسرو و محو سا ثناء گو کر

یہ امتی ھی تو آقا غلام ہے تیرا

۹۳

٭

وہ ایک نقطہ جسے خود خدا ہی جانتا ہے

خدا کے عد جدا سا مقام ہے تیرا

٭

ملی ہے آس کو جس نام سے پذیرائی

وہ نام نامی تو خیر الانام ہے تیرا

٭٭٭

۹۴

ان کی دہلیز کے قابل میرا سر ہو جاتا

ان کی دہلیز کے قال میرا سر ہو جاتا

کاش منظور مدینے کا سفر ہو جاتا

٭

لوگ مجھ کو ھی ڑے چاؤ سے ملنے آتے

محترم س کی نظر میں میرا گھر ہو جاتا

٭

میں ھی چل پڑتا دل و جاں کو نچھاور کرنے

پورا مقصد مرے جینے کا اگر ہو جاتا

٭

لیلۃ القدر ہر اک رات مری ہو جاتی

عید جیسا میرا ہر روز سر ہو جاتا

٭

مسجد نوی میں دل کھول کے لکھتا نعتیں

میرا ہر شعر وہاں جا کے امر ہو جاتا

٭

میرا ظاہر ھی عقیدت سے منور ہوتا

میرا اطن ھی محت کا نگر ہو جاتا

۹۵

٭

مہک اٹھتے مرے ہونٹوں پہ درودوں کے گلا

میرا دامانِ طل اشکوں سے تر ہو جاتا

٭

زندگی میں نیا اک موڑ اجاگر ہوتا

میری آنکھیں مرا دل آپ کا گھر ہو جاتا

٭

اتنا مشکل تو نہ تھا ر کو منا لینا آس

حوصلہ سامنا کرنے کا اگر ہو جاتا

٭٭٭

۹۶

آپ سے مہکا تخیل آپ پر نازاں قلم۔ ا ے رسول محترم

آپ سے مہکا تخیل آپ پر نازاں قلم۔ ا ے رسول محترم

میری ہر اک سوچ پر ہے آپ کا لطف و کرم۔ اے رسول محترم

٭

آپکا ذکر مقدس ہر دعا کا تاج ہے۔ غمزدوں کی لاج ہے

اسکے ن یکار ہر اک ندگی ر کی قسم۔ اے رسول محترم

٭

آپ آئے کائنات حسن پر چھایا نکھار۔ اے حی کردگار

زم ہستی کے ہیں محسن آپکے نقش قدم۔ اے رسول محترم

٭

آپ کے اعث جہاں میں آدمی مسرور ہے۔ زندگی پر نور ہے

آپ کی ذاتِ مقدس آدمیت کا ھرم۔ اے رسولِ محترم

٭

آپکی توصیف میں اترا ہے قرآن میں۔رحمت اللعالمین

آپ کا شیدا ہے شرق و غر اور عر و عجم۔! اے رسول محترم

٭

آپ کا دامانِ رحمت جس کو ہو جائے نصی۔کتنا وہ ر کے قری

پھر اسے خدشہ جہنم کا نہ ہو محشر کا غم۔ اے رسول محترم

٭

آس جگ میں اسکو پھر پرواہ نہیں انجام کی۔ صح کی نہ شام کی

جس کی جان آپ کا ہو جائے الطاف و کرم۔ اے رسول محترم

٭٭٭

۹۷

سکون دل کے لیے جاوداں خوشی کے لیے

سکون دل کے لیے جاوداں خوشی کے لیے

نی کا ذکر ضروری ہے زندگی کے لیے

٭

مقام فیض کی تم کو اگر تمنا ہے

درود پڑھتے رہو اپنی ہتری کے لیے

٭

اسے ھی اذن حضوری کا شرف مل جاتا

تڑپ رہا ہے جو سرکار حاضری کے لیے

٭

خدائے پاک نے کیا کیا نہ اہتمام کیا

حی پاک(ص) سے ملنے کی اک گھڑی کے لیے

٭

حضور آپ ہی تخلیقِ وجہہ کون و مکاں

نی ہے عالم ہستی ھی آپ ہی کے لیے

٭

حضور(ص) عر و عجم آپ کے تمنائی

حضور شرق و غر ھی ہیں آپ ہی کے لیے

٭

۹۸

نثار ان پہ کروں اپنی سانس سانس کا لمس

مرے وجود کی تاندگی انہی کے لیے

٭

تمام ساعتیں خشیں جو زندگی نے تمہیں

انہی کو وقف کرو آ س آج انہی کے لیے

٭

نی ہمارا نی وہ ہے انیاء جس کی

کریں خدا سے دعا انکے امتی کے لیے

٭

اگر حضور(ص) کی سچی لگن خدا دے دے

میں سر اٹھاؤں نہ سجدے سے اک گھڑی کے لیے

٭

حضور(ص) عد ولادت کے کر رہے تھے دعا

خدائے پاک سے امت کی خششی کے لیے

٭

حضور(ص) آس کو وہ اذنِ نعت مل جائے

نے وسیلہ جو خشش کا اخروی کے لیے

٭٭٭

۹۹

اے شہ انبیاء سرورِ سروراں تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

اے شہ انیاء سرورِ سروراں تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

ر ملا کہہ رہے ہیں زمیں و زماں تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

٭

نور تو س گھرانہ تیرا نور کا تو سہارا ہے لاچار و مجور کا

ہادی اِنس و جاں حامی یکساں تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

٭

تو چلے تو فضائیں تیرے ساتھ ہوں ادلو ں کی گھٹائیں تیرے ساتھ ہوں

مٹھیوں سے ملے کنکروں کو زاں تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

٭

کوئی سمجھے گا کیا تیرے اسرار کو آئینے ھی ترستے ہیں دیدار کو

تیرے قدموں میں رکھتی ہے سر کہکشاں تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

٭

ذکر تیرا دعاؤں کا سرتاج ہے غمزدوں ے سہاروں کی معراج ہے

ہر فنا شے تیرا ذکر ہے جاوداں تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

٭

تیری انگلی کا جس سمت اِشارہ گیا چاند کو ھی اسی سو اتارا گیا

تاجور دیکھتے رہ گئے یہ سماں تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

٭

آس آنکھوں میں جگمگ ہے تیری ضیاء اے حی خدا خاتم الانیاء

اے شفیع الامم مرسلِ مرسلاں تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

٭٭٭

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

امام حسین علیہ السلام مکہ میں

امام حسین علیہ السلام مکہ کے را ستے میں : عقبہ بن سمعان کا بیا ن ہے کہ ہم مدینہ سے باہم نکلے اور اصلی راستے سے مکہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ راستے میں کسی نے امام حسین علیہ السلام سے کہا : اگر ہم بھی ابن زبیر کی طرح کسی نامعلوم راستے سے نکل جائیں تو کیا ایسا نہیں ہوگا کہ وہ ہم کو پکڑنہیں پائیں ؟

امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا :''لاواللّه لا أفارقه حتی یقضی اللّه ما احب الیه'' (١) نہیں خدا کی قسم ایسا نہیں ہو سکتا میں سید ھے راستے کو نہیں چھوڑ سکتا یہاں تک کہ خدا میرے حق میں وہ فیصلہ کرے جو اس کو سب سے زیاد ہ پسندہے۔

عبد اللہ بن مطیع عدوی(٢)

اسی وقت عبداللہ بن مطیع حضر ت امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوا اور امام

____________________

١۔طبری ج ٥، ص٣٥١، طبری کا بیان ہے کہ میں نے یہ حدیث ہشام بن محمد سے اور انھو ں نے ابی مخنف سے نقل کی ہے ، ابو مخنف کابیان ہے کہ مجھ سے عبدالرحمن بن جندب نے اور عبد الرحمن بن جندب کا بیان ہے کہ مجھ سے عقبہ بن سمعان نے بیان کیا ہے جو امام حسین علیہ السلام کی زوجہ جناب رباب بنت امرء القیس کلبیہ کا غلام تھا۔ اس کے حالات پہلے بیان ہو چکے ہیں ۔

٢۔ عبد اللہ بن مطیع قر شی کی ولادت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ہوئی ۔ جب اہل مدینہ نے یزید کے لشکر پر حملہ کیا تو یہ قریش کے ہمراہ تھا (طبری، ج ٥،ص ٤٨١) پھر یہ ابن زبیر سے مکہ میں ملحق ہو گیا اور اس کے ہمراہ جنگ میں شرکت کی پھر ابن زبیر ہی کی جانب سے والی کوفہ مقرر ہوا ۔طبری، ج٥، ص٦٢٢، تاریخ یعقوبی ج٣،ص ٣و٥ ،تاریخ مسعودی ج ٣،ص ٨٣ ،مقتل خوارزمی ج ٢،ص ٢٠٢، یہ پورا واقعہ محمد بن اسحاق سے منقول ہے۔کوفہ میں مختار سے اس کا جھگڑا ہو گیا تو مختار نے اسے کوفہ سے نکال دیا۔ طبری ،ج٥، ص٣١،عنقرب طبری کی یہ روایت بھی نظرسے گذرے گی کہ ہشام ، ابو مخنف سے اور وہ محمد بن قیس سے نقل کرتے ہیں کہ ایک دوسری مرتبہ بھی ابن مطیع نے امام علیہ السلام سے مقام ''حاجر ''کے بعد اور مقام ''زرود'' سے قبل پانی کے کسی چشمہ پر ملاقات کی ہے ۔طبری، ج ٥ ، ص ٣٩٥ ۔

۱۲۱

سے کہنے لگا : میری جان آپ پر قربان ہو ، آپ کہاں جانے کا ارادہ رکھتے ہیں ؟امام علیہ السلام نے جواب دیا : ابھی تو میں مکہ جا نا چاہتا ہوں بعد میں اللہ جدھر چاہے گااس ی مرضی کے مطابق اسی طرف چلاجائوں گا ۔

عبداللہ بن مطیع نے کہا:خدا وندعالم آپ پر رحمت نازل کرے اور ہمیں آپ پر قربان کرے! آپ اگر مکہ جارہے ہیں تو دیکھئے کوفہ سے کبھی نزدیک نہ ہوئیے گا؛ یہ بڑی بری جگہ ہے، اسی جگہ آپ کے بابا کو قتل کیا گیا ، یہیں آپ کے بھائی کوزخمی کیا گیا اور ظلم و ستم کے مقابلہ میں وہ تنہا پڑگئے اوردھوکہ سے ان کی جان لے لی گئی۔ آپ حرم ہی میں رہیے ؛کیونکہ آپ سید و سردار عرب ہیں ۔ خدا کی قسم اہل حجاز میں کوئی بھی آپ کا ہم نظیر نہیں ہے۔اگر آپ یہاں رہ گئے تو لوگ ہر چہار جانب سے آپ کی طرف آئیں گے لہٰذا آپ حرم نہ چھوڑئیے ۔ میرے چچا ،ماموں اور میرا سارا خاندان آپ پر قربان ہوجائے اے میر ے مولا! اگر آپ شہید کر دئیے گئے تو ہم سب کے سب غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کردئیے جائیں گے۔(١)

امام حسین علیہ السلام کامکہ میں ورود

اپنے سفر کو جاری رکھتے ہوئے امام علیہ السلام ٣شعبان(٢) شب جمعہ کو وارد مکہ ہوئے۔(٣) اس کے بعد آپ نے شعبان المعظم، رمضان المباک ، شوال المکرم ، ذی قعدہ اور ٨ذی الحجہ تک مکہ میں قیام فرمایا ۔(٤) مکہ پہنچتے ہی ہر چہار جانب سے لوگوں کی رفت و آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا۔عالم اسلام سے جتنے عمرہ کرنے والے آتے تھے موقع ملتے ہی آپ کی خدمت میں شرفیاب ہوتے تھے ۔

____________________

١۔ص٢٤٣ پر سبط بن جوزی نے اس کی روایت کی ہے۔ راوی ہشام اور محمد بن اسحاق ہیں ۔ خوارزمی نے ص١٨٩ پر اعثم کوفی سے روایت کی ہے ۔

٢۔طبری ،ج٥،ص٣٨٧،ابومخنف کا بیان ہے کہ اس روایت کو ہم سے صقعب بن زہیر نے اوران سے عون بن ابی جحیفہ نے نقل کیا ہے۔گذشتہ سطرو ں سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ امام علیہ السلام ٢٨ رجب کو مدینہ سے نکلے ،اس بنا پر٣ شعبان کومکہ پہنچنے کا مطلب یہ ہے کہ فقط پانچ دنو ں میں یہ مسافت طے ہوئی ہے اورمکہ سے مدینہ کی مسا فت ٥٠٠کیلو میٹر ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ امام علیہ السلام نے روزانہ ١٠٠کلیومیٹرکی مسافت کو طے کیا اور یہ عام کاروا ں کی سفری مسافت سے بہت زیادہ ہے کیونکہ عام طور سے قافلو ں کی ایک روزہ مسافت ٨فرسخ ہواکرتی تھی جبکہ امام علیہ السلام کی ایک دن کی مسافت تقریبا ١٨فرسخ ہوتی ہے ، اسکا مطلب یہ ہوا کہ امام علیہ السلام نے اگر چہ راستہ کو تبدیل نہیں فرمایاکیونکہ اس میں خوف فرار تھا اور امام علیہ ا لسلام کی توہین تھی لیکن آپ نے اپنی جان کی حفاظت کے لئے کہ جس کے ہمراہ مقصد عجین تھا راستہ کو جلدی جلدی طے کیا ۔

٣۔طبری ، ج ٥ ، ص ٣٥١ ،عقبہ بن سمعان کی خبر۔

٤۔طبری ، ج٥، ص ٣٨١،عون بن جحیفہ کی خبر ، سبط بن جوزی نے ہشام سے بھی روایت نقل کی ہے۔ تذکرة الخواص ، ص٢٤٥۔

۱۲۲

ابن زبیر جو خوف و ہراس کی وجہ سے کعبہ کے اندر محصور تھے اور ان کا کام فقط نماز و طواف رہ گیا تھا۔وہ بھی آنے والوں کے ہمراہ امام علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوئے۔ کبھی تو وہ روزانہ آتے بلکہ ایک دن میں دو بار آتے تھے اور کبھی کبھی دودنوں میں ایک بار حاضر ہوتے تھے ۔اس ملاقات میں وہ ہمیشہ امام علیہ السلام سے رائے اور مشورہ کیا کرتے تھے ، لیکن اس کے باوجودمکہ میں امام علیہ السلام کا وجود ابن زبیر کے لئے سب سے زیادہ گراں تھا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ امام حسین علیہ السلام کے رہتے ہوئے کوئی بھی ان کی بیعت اور پیروی نہیں کرے گا ، اس لئے کہ امام حسین علیہ السلام لوگوں کی نگاہوں میں صاحب شان و شوکت تھے۔ آپ کی حکمرانی لوگوں کے دلوں پرتھی اورلوگ آپ کے فرمانبردار تھے۔(١)

____________________

١۔ طبری ، ج٥ ،ص٣٥١، یہ عقبہ بن سمعان کی روایت ہے ۔ ارشاد ، شیخ مفید ،ص ٢٠٢ ۔

۱۲۳

کوفیوں کے خطوط(٢)

جب اہل کوفہ کومعاویہ کی ہلاکت کی خبر ملی تو وہ لوگ عراقیوں کو یزید کے خلاف شعلہ ور کرنے لگے اور کہنے لگے : اے لوگو!حسین علیہ السلام اور ابن زبیرنے یزید کی بیعت سے انکار کردیاہے اور یہ لوگ مکہ پہنچ چکے ہیں ۔(٣) محمدبن بشیر اسدی ہمدانی(٤) کابیان ہے کہ ہم لوگ سلیمان بن صرد خزاعی(٥) کے گھر جمع ہوئے ۔ سلیمان تقریر کے لئے اٹھے اور بولے : معاویہ ہلاک ہوچکا ہے اور حسین علیہ السلام نے

____________________

٢۔کوفہ میں ٣٠ہزار افراد تھے جو جنگ قادسیہ میں موجود تھے، (طبری، ج ٤، ص ٧٥) ١٨ھ میں عمر نے شریح بن حارث کندی کو کوفہ کا قاضی بنایا۔(طبری ،ج ٤، ص١٠١) ٢٠ھ میں عمرنے سعد بن ابی وقاص کو لوگو ں کی شکایت کی بنیادپر کوفہ کی گورنری سے معزول کردیا۔ ان لوگو ں کا کہنا تھا کہ سعد کو اچھی طرح نماز پڑھانا نہیں آتی ، پھر عمر نے نجران کے یہودی کو کوفہ کی طرف روانہ کیا۔ (ج ٤،ص١١٢) ٢١ھ میں عمار یاسر کو کوفہ کا گورنر ، ابن مسعود کو بیت المال کا حاکم اور عثمان بن حنیف کو زمین کی مساحت اور ٹیکس کا عہدیدار بنایا۔ اہل کوفہ نے عمار کی شکایت کی توعمار نے استعفیٰ دے دیا ۔(ج٤،ص١٤٤)عمار کے بعد عمر نے ابو موسی اشعری کو کوفہ کا امیر بنا دیا۔ ایک سال تک وہ وہا ں قیام پذیر رہالیکن کوفیو ں نے اس کی بھی شکایت کی تو اس کو بھی عزل کرکے مغیرہ بن شعبہ کو وہا ں کا حاکم بنا دیا گیا۔کوفہ میں ایک لاکھ جنگجو موجود تھے (طبری ،ج ٤، ص ١٦٥)اور اس وقت وہا ں پر چالیس ہزار جنگجو تھے جن میں سے ہر سال ١٠ ہزار سپاہی سرحدو ں کی حفاظت پر مامور ہوتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر چار سال پر ایک سپاہی کوسرحدی

۱۲۴

علاقو ں میں جنگ پر جانا ہوتا تھا۔(طبری، ج ٤ ، ص ٦٤٦) ٣٧ھ میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے حکم دیا کہ ہر قبیلہ کا رئیس اپنے قبیلے کے جنگجو افراداور ان کے فرزند جو قتال میں شرکت کر چکے ہیں ، نیزاپنے قبیلے کے غلامو ں کا نام لکھ کر امام علیہ السلام تک پہونچا ئے ۔انہو ں نے نام لکھ کر دیا تو ان میں چالیس ہزار جنگجو ١٧ہزاروہ افراد جو جنگجوؤ ں کے فرزند تھے، نیز٨ہزار موالی اور غلام تھے ۔ اس طرح کل ٦٥ ہزار جنگجو ہوئے (طبری، ج ٥، ص٧٩) ان میں سے آٹھ سو مدینہ کے رہنے والے تھے (طبری ،ج٤، ص ٨٥) سعد نے ان افراد کو سات سات قبیلو ں کے گروہ میں تقسیم کردیا ،اس طرح کنانہ اور ان کے ہم پیمان جو احابیش سے متعلق تھے اور'' جدیلہ ''کا گروہ سات قبیلو ں پر مشتمل ہوگیا۔ '' قضاعہ'' ، '' بجیلہ''،'' خثعم'' ،'' کندہ ،'' ''حضر موت'' اور'' ازد''بھی ساتھ ہوگئے۔'' مذحج'' ، حمیر'' ،''ہمدان'' اور ان کے ہم پیمان بھی سات کے ایک گروہ میں چلے گئے۔'' تمیم'' ،'' ھوازن ''اور'' رباب'' سات کی ایک ٹکڑی میں منتقل ہوگئے ۔''اسد''،'' غطفان'' ،'' محارب'' ،'' نمر''،'' ضبیعہ ''، اور''تغلب'' سات ایک گروہ میں آگئے اسی طرح ''اہل حجر'' اور''حمراء ''اور''دیلم'' بھی سات کی ایک ٹکڑی میں پہنچ گئے۔ یہ سلسلہ عمر ، عثمان اور علی علیہ السلام کے زمانے تک بر قرار رہا لیکن زیادنے آکر ان کو چار چار میں تقسیم کردیا (طبری، ج ٤، ص ٤٨) اس طرح عمر بن حریث مدینہ کے چار گروہ کا سربراہ قرار پایا خالد بن عرفطہ ، تمیم اور ہمدان کے چار گروہ کا حاکم بنا، قیس بن ولید بن عبد الشمس ، ربیعہ اور کندہ پر حاکم ہوااور ابو بردہ بن ابو موسیٰ اشعری ،مذحج اور اسد پر حاکم ہوا ۔ یہ سب کے سب حجر اور ان کے ساتھیو ں پر ظلم کے گواہ ہیں ۔(طبری ،ج ٥، ص٢٦٨)

٣۔طبری، ج٥ ، ص ٣٥١ ، یہ بھی عقبہ کی خبر ہے ۔

٤۔طبری ،ج ٥،ص٣٥٢،ابومخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے حجاج بن علی نے محمد بن بشیر ہمدانی کے حوالے سے نقل کیا ہے ۔

٥۔ کشی نے اپنے رجال کے ص ٦٩، حدیث ١٢٤پر فضل بن شاذان کے حوالے سے اس عنوان کے تحت نقل کیا ہے کہ آپ کا شمار تابعین کی ایک بزرگ اور زاہد شخصیت میں ہوتا ہے۔شیخ طوسی نے رجال کے ص ٤٣پرآپ کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امیر المومنین علیہ السلام کے اصحاب میں ذکر کیا ہے۔آپ کی شخصیت کامنفی رخ یہ ہے کہ جنگ جمل سے منہ موڑ لیا اور بے جا عذر پیش کیا ۔اس تخلف اور عذر کو نصربن مزاحم نے اپنی کتاب کے ص ٦ پر ذکر کیا ہے۔ سلیمان بن صرد کی یہ حالت دیکھ کر امیر المومنین نے فرمایا: جب کہ میں تم پر سب سے زیادہ اعتماد رکھتا تھا اوریہ امید رکھتا تھا کہ سب سے پہلے تم میری مدد کے لئے آگے بڑھوگے لیکن تم ہی شک و تردید میں مبتلا ہو کر جنگ کے خاتمہ کا انتظار کرنے لگے ؟اس پر سلیمان بن صرد نے جواب دیا : میرے مولا آپ لطف و محبت میں اسی طرح پیش گام رہیں اور اسی طرح میری خیر خواہی اور محبت کو خالص سمجھی ں !ابھی بہت مراحل باقی ہیں جہا ں آپ کے دوست آپ کے دشمنو ں کے سامنے پہچان لئے جائی ں گے۔ اس پر حضرت نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن جنگ صفین میں میمنہ کی سربراہی ان کے سپرد کردی۔(صفین، ص ٢٠٥) سلیمان نے حوشب سید الیمن شامی سے مبارزہ کیا اور اسے قتل کردیا۔اس وقت سلیمان اس شعر کو پڑھ رہے تھے:امسی عل عند نامحبباً ۔نفدیہ بالام ولا نبغی اباً (صفین، ص ٤٠١) جنگ صفین میں کسی نے ان کے چہرے پر تلوار سے زخم لگایا تھا (صفین، ص٥١٩)ابومخنف نے ان کو صحابہ اوربزرگان شیعہ میں شمار کیا ہے۔ (طبری، ج٥، ص ٥٥٢) ٦٤ھ میں تو ابین کے قائد یہی سلیمان بن صرد تھے۔(طبری، ج ٥، ص٥٥٥) ان کا عذر یہ تھا کہ ہم لوگ خود کو آمادہ کررہے تھے اور انتظا رکررہے تھے کہ دیکھی ں کیا ہوتا ہے کہ اسی دوران حسین علیہ السلام شہیدکردیئے گئے۔ (طبری ، ج٥،ص٥٥٤)

۱۲۵

یزید کی بیعت سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ وہ مکہ کی طرف آچکے ہیں ۔ تم ان کے اور ان کے بابا کے پیرو ہو۔ اب اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ تم لوگ ان کے مدد گار اور ان کے دشمنوں سے جہاد کرنے والے ہو تو ان کو فوراًخط لکھولیکن اگرتم کوخوف و ہراس یا سستی ہے تو دیکھو اس پیکر حق و عدالت کو نصرت و مدد کا وعدہ دے کردھوکہ نہ دو ! اس پر وہ سب کے سب بول پڑے : ''نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ ہم ان کے دشمن سے جنگ کریں گے اور ان کی راہ میں اپنی جان نچھاور کردیں گے ''اس پر سلیمان نے کہا کہ اگر تم لوگ سچے ہوتو بس فوراًخط لکھ کر انہیں بلاؤ ۔(١) اس پر ان لوگوں نے فوراً خط لکھا :

'' بسم اللّه الرّحمن الرّحیم، للحسین بن علی علیه السلام ، من سلیمان بن صرد ، والمسیب بن نجبة(٢) ورفاعه بن شداد(٣) وحبیب بن مظاهر(٤) وشیعته من المؤمنین والمسلمین من اهل الکوفة سلام علیک ، فانا نحمد الیک اللّه الذی لااله الا هو ، امّا بعد : فالحمد للّه الذی قصم عدوّک الجبّار العنید ، الذی انتزی علی هٰذه الأ مة فابتزّها ،و غصبها فیئها ، وتأ مَّر علیها بغیررضیٰ منها ثم قتل خیار ها، و استبقی شرارها ،و جعل مال الله دولة بین جبابر تها و اغنیائها، فبعداًله کما بعدت ثمود

انه لیس علینا امام ؛لعل اللّٰه أن یجمعنا بک علی الحق والنعمان بن بشیر فی (قصرالامارة) لسنا نجتمع معه فی جمعة ولا نخرج معه الی عید ، ولو قد بلغنا انک قد اقبلت الینا أخر جناه حتی نلحقه بالشام ، ان شاء الله، والسلام علیک و رحمةالله و برکاته ''(٥)

____________________

١۔خوارزمی نے اسے تفصیل سے بیان کیا ہے، ملاحظہ ہو ص ١٩٧

٢۔کشی نے اپنے رجال کے ص٦٩، حدیث ١٢٤میں اس عنوان کے تحت اس طرح ذکر کیا ہے : آپ کا شمار تابعین کے بزرگ سربراہ اور زاہدو ں میں ہوتا ہے۔ شیخ طوسی نے اپنے رجال میں ان کو اصحاب امیر المومنین میں ذکر کیا ہے۔ ص ٥٨، رقم ٨،اور ص٧٠، رقم ٤، میں ان کو اصحاب امام حسن میں ذکر کیا ہے۔ وہا ں اس بات کا اضافہ کیا ہے کہ یہ وہ ذات ہے جس نے امیر المومنین کی مددکے لئے جلداز جلد خود کو کوفہ سے بصرہ پہنچایا، جیسا کہ طبری نے جلد ٤،ص ٤٤٨ پر لکھا ہے۔ آپ کی فدا کاری کا دوسرا رخ یہ ہے کہ عبداللہ بن مسعدہ فزاری کو قتل و غارت سے روکنے اور اس سے مقاومت کے لئے حضرت نے ا ن کو خود ان کی قوم کے جوانو ں

۱۲۶

کے ہمراہ روانہ کیا ۔(طبری ، ج٥، ص١٣٥)وہ سلیمان بن صرد کی وفات کے بعد توابین کے دوسرے قائد تھے ٦٥ھ میں توابین کے ہمراہ جنگ میں ان کو قتل کردیاگیا۔ (طبری، ج٥، ص ٥٩٩) ۔

٣۔کشی نے اپنے رجال کے ص٦٥، حدیث ١١٨میں لکھا ہے : ان کا شمار ان صالحین میں ہوتا ہے جنہو ں نے ابوذر کو دفن کیا ہے۔ شیخ نے اپنے رجال کے ص ٤١ پرانہیں اصحاب امیر المومنین اور ص ٦٨ پر اصحاب امام حسن علیہ السلام میں ذکر کیا ہے ،البتہ وہا ں ''البجلی'' کا اضافہ ہے۔ جنگ صفین میں قبیلہ بجیلہ یا بجلہ کی سر براہی آپ کے ہاتھو ں میں تھی۔ (صفین، ص ٢٠٥) حجر بن عدی اور عمر و بن حمق کے ساتھیو ں کے ہمراہ انہو ں نے اموی ظلم وستم کے خلاف اپنے مبارزہ کوجاری رکھا اور ان دونو ں بزرگوار کی شہادت کے بعد زیاد بن ابیہ کے ہاتھو ں سے نکل بھاگے۔(طبری ،ج٥، ص ٢٦٥)آپ وہ دوسری شخصیت ہیں جنہو ں نے توابین کے لئے تقریر کی(طبری ،ج ٥، ص ٥٥٣) توابین کی فوجی تنظیم کی ذمہ داری آپ ہی کے سرتھی۔ (طبری، ج ٥ ،ص ٥٨٧) توابین کے آخری امیر آپ ہی تھے۔(طبری، ج٥،ص ٥٩٦) آپ میمنہ والو ں کے درمیان تقریر کرکے جنگ کے لئے ان کے حوصلو ں کو بلند کیا کرتے تھے(طبری ،ج ٥،ص ٥٩٨) آپ مسلسل اسی طرح مصروف جنگ رہے(طبری ،ج ٥،ص ٦٠١) لیکن رات کے وقت لوٹ کر کوفہ آگئے(طبری ،ج ٥،ص ٦٠٥) پھر مختار نے ان کو پیغا م بھیج کر بلوایا (طبری ، ج ٦ ، ص ٨) اور اپنے لئے بیعت لی لیکن انہو ں نے اہل یمن کے ہمراہ کوفہ میں مختار کے خلاف خروج کیا اور انہی کے ہمراہ نماز پڑھنے لگے۔(طبری، ج٦ ،ص ٤٧) پھر جب انھو ں نے سنا کہ ہمدان کا ایک شخص مختار کے نعرہ '' یا لثارات الحسین علیہ السلام ''کے جواب میں ''یا لثارات عثمان'' کا نعرہ لگا رہاہے تو رفاعہ نے کہا : ہم کو عثمان سے کیا مطلب ، ہم ان لوگو ں کے ہمراہ نہیں لڑی ں گے جو عثمان کے خون کا بدلہ چاہتے ہیں ے،ہ کہہ کر ان لوگو ں سے جدا ہوگئے اور یہ شعر پڑھنے لگے:''اناابن شدّاد اعلی دین علی لست لعثمان بن اروی بولی ''میں شدّاد کا فرزند علی کے دین پر ہو ں عثمان بن ارویٰ میرا سر پر ست نہیں ہے ۔

آپ مقام ''سبخہ'' پر'' مھبذان'' کے حمام کے پاس عبادت کی حالت میں قتل کئے گئے ۔(طبری ،ج٦، ص ٤٠٠)

٤۔ آپ امام حسین علیہ السلام کے لشکرمیں میسرہ کے سردار تھے۔ (طبری، ج ٥،ص ٤٢٢)اموی لشکر کے ایک حصّے کا سربراہ حصین بن تمیم آپ کو قتل کر کے بہت بالیدہ تھا ۔ قتل کرنے کے بعد اس نے آپ کے سر کو اپنے گھوڑے کی گردن میں لٹکا دیا ۔ آپ کے بیٹے قاسم بن حبیب نے اپنے باپ کے خون کا بدلہ لینے کے لئے بدیل بن صریم تمیمی کو قتل کر دیا۔ باجمیرا کی جنگ میں یہ دونو ں مصعب بن زبیر کی فوج میں تھے۔(طبری، ج٥،ص ٤٤٠)

٥۔مقتل خوارزمی ،ص ١٩٤

۱۲۷

بسم اللہ الرحمن الرحیم : سلیمان بن صرد ، مسیب بن نجبہ ، رفاعہ بن شداد ، حبیب بن مظاہر اور کوفہ کے مومنین و مسلمین کی جانب سے حسین بن علی کے نام۔ آپ پر سلام ہو !ہم آپ کی خدمت میں اس خدا کی حمد و ستائش کرتے ہیں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ۔ اما بعد : حمد اس خدا کی جس نے آپ کے بدترین اور کینہ توز دشمن کو درہم و برہم کردیا، وہ دشمن جس نے خدا کی ذرہ برابر پرواہ کئے بغیر اس امت پر حملہ کردیا ،ظلم و ستم کے ساتھ اس امت کی حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں سنبھال لی اور قوم کی ساری ثروت کو غصب کرلیا ۔ ظلم وستم کی بنیادوں پر حکمرانی کی ، نیک خو اور شائستہ سرپرست افراد کو نابود کردیا، شر پسند عناصر اور تباہی مچانے والوں کو محفوظ رکھا، قومی سرمایہ اور خدا ئی اموال کو ظالموں اور دولت کے پجاریوں کے ہاتھوں میں تقسیم کردیا۔ خدا ان لوگوں پر اسی طرح لعنت و نفرین کرے جس طرح قوم ثمود کو اپنی رحمتوں سے دور کیا !

ہم لوگ ان حالات میں خط لکھ رہے ہیں کہ اموی حاکم نعمان بن بشیر قصر دار الامارہ میں موجود ہے لیکن ہم نہ تو نماز جمعہ میں جاتے ہیں اورنہ ہی نماز عید اس کے ہمراہ انجام دیتے ہیں ، ہم اگر آگاہ ہوگئے کہ آپ کا گرانمایہ وجود ہمارے شہر اور دیار کی طرف روانہ ہے تو اسے اپنے شہر سے نکال کر شام کی طرف روانہ کردیں گے۔ آپ پرخدا کا درود و سلام ہو۔

پھر ہم لوگوں نے عبد اللہ سبع ہمدانی(١) اور عبداللہ بن وال تمیمی(٢) کے ہاتھوں اس خط کو روانہ کیا۔ یہ دونوں افراد تیزی کے ساتھ نکلے اور ١٠ رمضان المبارک تک امام علیہ السلام کی خدمت میں پہنچ گئے(٣) پھر دو دن صبر کر کے ہم لوگوں نے قیس بن مسہر صید اوی(٤) عبد الر حمن بن عبداللہ بن الکدن ارجی(٥)

____________________

١۔شیخ مفید نے اس شخص کا نام عبداللہ مسمع ذکر کیا ہے ۔ (الا رشاد، ص ٢٠٣) خوارزمی نے عبداللہ بن سبیع ذکر کیا۔(ص ١٩٤) آپ امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ شہید ہوئے ۔

٢۔ سبط بن جوزی نے عبداللہ بن مسمع البکری لکھا ہے۔(ص١٩٤) شیخ طوسی نے فقط دونو ں کے نامو ں پر اکتفا کیا ہے۔ایک کا نام عبداللہ اور دوسر ے کا نام عبیداللہ لکھ کر کہا کہ یہ دونو ں معروف ہیں ۔ (رجال شیخ، ص٧٧) عبد اللہ بن وال تمیمی توابین کے تیسرے سردار تھے اور وہیں قتل کردئے گئے۔(طبری ،ج٥،ص ٦٠٢)

٣۔الارشاد،ص ٢٠٣، تذکرة خواص ،ص ٢٤٤

٤۔یہ قبیلہ اسد سے تعلق رکھتے تھے۔یہ مسلم بن عقیل کے ہمراہ عراق کی طرف لوٹے لیکن جب راستہ میں مشکل پیش آئی تو جناب مسلم نے خط لکھ کر ان کے ہاتھو ں انھی ں امام حسین علیہ السلام کے پاس روانہ کیا۔ (طبری ،ج ٥، ص ٣٥٤) اس کے بعد یہ امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ آرہے تھے لیکن جب یہ قافلہ مقام '' بطن الحاجر '' تک پہنچا تو ایک خط لکھ کر امام حسین علیہ السلام نے ان کو کوفہ روانہ کیا۔ جب یہ خط لیکر مقام قادسیہ تک پہنچے تو حصین بن تمیم تمیمی نے ان کو پکڑ لیا اور ابن زیاد کے پاس بھیج دیا۔ ابن زیاد نے

۱۲۸

حکم دیا کہ ان کو چھت سے نیچے پھینک دیا جا ئے۔ حکم پر عمل کیا گیا اور قیس بن مسہر صیداوی کو قصر سے نیچے پھینک دیا گیا ، جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور یہ شہید ہو گئے ۔(طبری ،ج،٥،ص ٣٩٥) جب امام حسین علیہ السلام مقام '' عذیب الہجانات '' تک پہنچے تو آپ کو جناب قیس کی شہادت کی خبر موصول ہوئی۔ یہ خبر ایسی روح فرساتھی کہ امام علیہ السلام کی آنکھی ں پْر نم ہو گئی ں ؛ آپ کے آنسو تھم نہ سکے اور بے ساختہ بول اٹھے:''منهم من قضی نحبه اللهم اجعل لنا ولهم الجنة نزلا واجمع بینناوبینهم فی مستقرّرحمتک ورغائب مذ خورثوابک'' (ج ٥، ص ٤٠٥)

ان میں سے کچھ وہ ہیں جنہو ں نے اپنا عہد وفا کیا اور کچھ منتظر ہیں خدا یا اپنی جنت کوہمارے اور ان کے لئے منزل گاہ قرار دے اور اپنی رحمت کی قرار گاہ اور اپنے گنجینہء ثواب میں ہم کو اور ان لوگو ں کو آپس میں جمع کردے!

(٥) شیخ مفید نے ارشاد کے ص٢٠٣پر ان کا نام عبداللہ و عبد الرحمن شدادی ارجی لکھا ہے۔ سبط بن جوزی نے اپنی کتاب کے ص ١٩٤ پر عبداللہ بن عبدالرحمن لکھا ہے ۔یہ جناب مسلم کے ساتھ عراق آئے تھے۔(طبری ،ج٥،ص٣٥٤)

۱۲۹

اور عمارہ بن عبید سلولی(١) کو پھر روانہ کیا یہ افراد ١٥٠ خطوط لیکر روانہ ہوئے ۔(٢) قابل ذکر ہے کہ ان میں سے ہر ایک خط دو یا تین یا چند افراد کی طرف سے لکھا گیاتھا ۔محمدبن بشر ہمدانی کہتا ہے کہ دودن گذرنے کے بعد ہم نے پھر ہانی بن ہانی سبیعی اور سعید بن عبداللہ حنفی کے ہاتھوں اس طرح خط لکھ کر روانہ کیا:

''بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم : للحسین بن علی ، من شیعتہ من المومنین والمسلمین اما بعد: فحّ ھلا ،فان الناس ینتظرونک ولا رأ لھم فی غیرک فا لعجل العجل والسلام علیک''(٣)

حسین بن علی کے نام یہ خط ان کے شیعوں کی جانب سے ہے جو مومن ومسلم ہیں ۔اما بعد : اے فرزند پیغمبر! جلد ازجلد ہماری طرف آجائیے کیونکہ سب لوگ آپ کے انتظار میں ہیں اور آپ کے علاوہ ان کا دل کسی دوسرے کے لئے نہیں تڑپ رہا ہے لہٰذا جلدی کیجئے جلدی۔والسلام

____________________

١۔ خوارزمی نے اپنے مقتل کے ص ١٩٥ پر ان کا نام عامر بن عبید لکھا ہے۔شیخ مفید نے ارشاد کے ص ٢٠٣،اور سبط ابن جوزی نے ص ٢٤٤ پر عمارہ بن عبداللہ سلولی لکھا ہے۔یہ بھی حضرت مسلم کے ہمراہ عراق آئے تھے۔ (طبری ،ج٥،ص ٣٥٤) یہ ہانی کے گھر میں بھی تھے (طبری ،ج٥،ص ٣٦٣) لیکن اس کے بعد ان کا کو ئی پتہ نہیں ملتا۔

٢۔طبری نے ٥٣ خطوط کا تذکرہ کیا ہے لیکن شیخ مفید نے ص ٢٠٣ پر ١٥٠ خطوط مرقوم فرمائے ہیں ۔یہی تعداد سبط ابن جوزی نے ص ٢٤٤ پر ہشام اور محمد بن اسحاق کے حوالے سے ذکر کی ہے۔ اسی طرح خوارزمی نے بھی اپنے مقتل ص ١٩٥، پر'' اعثم کوفی'' کے حوالے سے اتنی ہی تعداد کا تذکرہ کیا ہے۔ .ایسا محسوس ہوتا ہے کہ طبری کے یہا ں '' ثلا ثہ '' اور ''مأئة '' کے درمیان تصحیف ہو گئی ہے۔

٣۔ الارشاد ،ص٢٠٣، تذکرةالخوص ،ص٢٤٤

۱۳۰

اب چوتھا خط شبث بن ربعی(١) حجار بن ابجر ،(٢) یزید بن حارث بن یزید بن رویم(٣) عزرہ بن قیس(٤) عمروبن حجاج زبیدی(٥) اور محمدبن عمر تمیمی(٦) نے روانہ کیا جس کا مضمون یہ ہے : اما بعد فقد اخضرّ الجنان ، و أینعت الثمار ، و طمت الجمام فاذاشئت فاقدم علی جندلک مجنَّدَ ہ؛ والسلام علیک(٧)

اے پسر پیغمبر !ہمارے سارے باغ و بوستان سرسبزو شاداب ہیں ، تمام کے تمام پھل پک چکے ہیں اور ساری نہریں اور کنویں جل تھل ہیں ۔ اگر آپ آنا چاہتے ہیں تو تشریف لے آئیے! سپاہ حق آپ کے ہمراہ آمادہ نبرد ہے ۔ والسلام علیک

____________________

١۔ یہ شخص قبیلۂ ''تمیم ''کے خاندان یر بوع سے تعلق رکھتا ہے لہٰذ یربوعی تمیمی کہا جا تا ہے۔ (طبری ،ج ٥،ص ٣٦٩) یہ شخص پہلے جھوٹے مدعی نبوت سجاح کا موذن تھا (طبری ،ج ٣،ص ٢٧٣) پھر بعد میں مسلمان ہو گیا اور عثمان کا معین ومددگار ہو گیا۔ بعدہ علی علیہ السلام کی مصاحبت اختیار کرلی۔ یہ جنگ صفین میں حضرت کے لشکر میں تھا اور بنی عمروبن حنظلہ کا سر براہ تھا ۔(صفین ، ص ٢٠٥) جنگ نہروان میں بھی حضرت علی علیہ السلام کے لشکر میں میسر ہ کا سر دار تھا (طبری ،ج ٥،ص٨٥) ایک جماعت کے ہمراہ حضرت علی علیہ السلام اور معاویہ کے درمیان پیغام رسانی بھی کرتا رہا (صفین، ص ٩٧) لیکن بعد میں اس نے جناب حجر بن عدی اور ان کے ساتھیو ں کے خلاف ابن زیاد کے سامنے گواہی دی (طبر،ی ج ٥،ص ٢٦٩) اور روز عاشورا اموی لشکر میں پیدلو ں کا سردار تھا (طبری، ج ٥،ص ٤٦٦) اس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے یہ امام حسین علیہ السلام سے لڑنا پسند نہیں کرتا تھا اسی لئے جب اس سے عمر سعد نے کہا : کیا تم آگے بڑھ کر ان تیراندازو ں کے ساتھ ہونا پسند نہیں کروگے جو حسین پر تیرو ں کی بارش کرنے والے ہیں ؟ اس پر شبث نے کہا : سبحان اللہ تو خاندان مضر کے بزرگ اور کوفہ کے تیراندازو ں کے گروہ میں مجھے بھیج رہا ہے، کیا تجھے کوئی اور نہ ملا جسے میرے بدلے میں وہا ں بھیج دے ؟ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد یہ کہا کر تا تھا ؟ خدا اس شہر (کوفہ)کے لوگو ں کو کبھی بھی اچھائی عطا نہیں کرے گا اور کبھی بھی عقل ورشد کی راہ کو نہیں کھولے ، کیا تم لوگو ں کو اس پر تعجب نہیں ہو تا کہ ہم نے علی بن ابی طالب اور ان کے فرزند کے ہمراہ پانچ سال تک آل ابو سفیان کے خلا ف لڑائی لڑی ہے لیکن اس کے بعد ہم ان کے فرزند کے دشمن ہو گئے جو زمین پر سب سے بہترتھے۔ ہم آل معاویہ اور زناکار سمیہ کے بیٹے کے ہمراہ ان سے مقابلہ پر آمادہ ہو گئے۔ ہا ئے رے گمراہی ؛وائے رے گمراہی ! (طبری، ج ٥ ،ص ٤٣٢ ۔ ٤٣٧) یہی وہ شخص ہے جس نے جناب مسلم بن عوسجہ کی شہادت پراہل کوفہ کے خوش ہونے پر ان کی ملا مت کی ہے ۔(طبری ،ج٥،ص ٤٣٦)

لیکن اس کے بعد ابن زیادکے سخت موقف سے ہرا سا ں ہو گیا اور امام حسین علیہ السلام کے قتل پر اپنی خوشی کا اظہار

۱۳۱

کرنے کے لئے ایک مسجد بنوادی (طبری ،ج٦، ص ٢٢) پھر ابن زبیر کی طرف سے ابن مطیع کے تین ہزار کے لشکر کے ساتھ اس نے جناب مختارسے پیکار کی ہے ۔(طبری ،ج ٦، ص٢٣)

٢۔یہ شخص قبیلۂ عجل سے متعلق ہے لہٰذ العجلی کہا جا تا ہے۔ (طبری، ج ٥،ص٣٦٩) اس کا باپ نصرانی تھا اور ان کے درمیان ایک خاص مقام و منزلت کا حامل تھا۔(طبری ،ج٥،ص ٤٢٥) اس کا شمار ان لوگو ں میں ہو تا جنہو ں نے حجربن عدی کے خلاف ابن زیاد کے سامنے گواہی دی۔ (طبری ،ج٥ ،ص ٢٧٠) جس دن جناب مسلم نے خروج کیا اس دن یہ حجر بن عدی کے بیٹے کے لئے پر چم امان لہراتا ہوا آیا ۔(طبری ،ج٥ ،ص٣٦٩) اسی شخص نے کربلا میں روز عاشوراس سے انکار کر دیا کہ اس نے امام علیہ السلام کو خط لکھا تھا (طبری ،ج ٥ ،ص ٤٢٥) پھر اس نے مختار سے محاربہ کیا (طبری ،ج ٦،ص ٢٢) اس کے بعد مصعب کے لئے عبد اللہ بن حر سے جنگ کی اور وہا ں سے بھا گ کھڑا ہوا ۔اس پر مصعب نے اس کی سرزنش کی پھر چھوڑ دیا۔(طبری، ج ٦، ص ١٣٦) یہ کو فہ کے ان لوگو ں میں سے ہے جن کو عبد الملک بن مروان نے خط لکھا تو ان لوگو ں نے اصفہان کی حکومت کی شرط لگائی اور اس نے انہیں وہ سب کچھ دیدیا (طبری، ج ٦،ص ٩٥٦) لیکن یہ شخص مصعب کے ہمراہ دکھا وے کے لئے عبد الملک سے جنگ کے لئے نکلا لیکن جب مصعب نے جنگ کے لئے بلا یا تو کہنے لگا میں اس سے معذرت چاہتا ہو ں ۔(طبری، ج ٦، ص ١٥٨) یہ ٧١ ھ تک زندہ رہا اس کے بعد اس کاکو ئی پتہ نہیں ۔

٣۔ اس کی کنیت ابو حوشب شیبانی ہے۔ اس شخص نے روز عاشورہ اس بات سے انکار کردیا کہ اس نے امام حسین علیہ السلام کو خط لکھا تھا۔ (طبری، ج ٥،ص ٤٢٥) جب یزید قتل ہو گیا اور عبید اللہ بن زیاد کوفہ کا حاکم ہوا تو عمر وبن حریث نے لوگو ں کو ابن زیاد کی بیعت کے لئے بلا یا ۔ اس وقت یہی یزید بن حارث اٹھا اور بولا : خدا کی حمد وثنا کہ اس نے ہمیں ابن سمیہ سے نجات دی؛ جس میں کوئی کرامت ہی نہیں تھی ، اس پر عمر وبن حریث نے حکم دیا کہ اس کو پکڑکے قید کر دیا جائے لیکن بنی بکر بن وائل نے بیچ بچاؤ کرا کے اس کو نجات دلائی ۔(طبری، ج ٥،ص ٥٢٤) اس کے بعد یہ عبد اللہ بن یزید خطمی انصاری کے ساتھیو ں میں ہو گیا جو ابن زبیر کی جانب سے ابن مطیع سے قبل کوفہ کا والی تھا اور اس کو سلیمان بن صرد اور ان کے ساتھیو ں کے خروج سے پہلے ان سے جنگ کرنے پر اکسایا کرتا تھا۔ (طبری ،ج ٥،ص ٥٦١ ۔ ٥٦٣) پھر یہ عبداللہ بن یزید کو مختار کے قید کرنے پر اکسایاکر تا تھا (طبری، ج٥،ص٥٨)پھر ابن مطیع نے اسے مختار سے جنگ کرنے کے لئے ''جبانةمراد''کی طرف بھیجا (طبری ،ج ٦،ص ١٨) لیکن مختار نے اس کو کوفہ میں داخل ہونے سے روک دیا (طبری ،ج٦،ص ١٢٤) پھر مختار کی حکومت کے زمانے میں بنی ربیعہ کے ساتھ اس نے مختار کے خلاف پرچم بغاوت بلند کردیا(طبری، ج ٦، ص ٤٥) لیکن مقابلہ میں اپنے ساتھیو ں کے ساتھ بھاگ کھڑاہوا (طبری ،ج٦،ص ٥٢) پھر ابن ز بیرکی جانب سے مقرر والی کوفہ حارث بن ابی ربیعہ کے ہمراہ ٦٨ھ میں اس جنگ میں شرکت کی جو''ازارقہ'' کے خوارج سے ہوئی تھی (طبری،ج ٦،ص ١٢٤) پھر مصعب نے اسے مدائن کا امیر بنا دیا۔ (طبری ،ج ٦،ص١٢٤) بعدہ عبد الملک بن مروان کی جانب سے ٧٠ ھ میں شہر

۱۳۲

ری کا والی مقرر ہوا ۔(طبری ،ج ٦،ص ٤ ١٦) آخر کار خوارج نے اسے قتل کردیا۔ (ابصار العین، ص ١٥) اس کے دادا یزید بن رویم شیبانی بزرگان کوفہ میں شمار ہوتے تھے جو جنگ صفین میں حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ تھے ۔(صفین، ص ٢٠٥)

٤۔اسے احمسی کہتے ہیں ا سکا شمار بھی انہی لوگو ں میں ہوتا ہے جنہو ں نے جناب حجر بن عدی کے خلاف گواہی دی تھی۔(طبری، ج٥،ص ٢٧٠) اسی لئے اس نے امام علیہ السلام کو خط لکھا تاکہ اپنی جنایتو ں کو اس تحریر کے ذریعے چھپاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ جب پسر سعد نے امام حسین علیہ السلام کے پاس جاکر یہ پوچھنے کو کہا کہ آپ کو یہا ں کون لایا ہے ؟تو شرم سے یہ مولاکے پاس نہ گیا اور یہی وجہ تھی کہ جب نوی ں محرم کی شب کو یہ شخص جناب زہیر سے روبرو ہوا تو جناب زہیر قین نے اس کی بے حیائی پر کہہ دیا کہ خدا کی قسم کیا تو ہی نہ تھا کہ جس نے خط لکھاتھا ؟ کیا تو نے پیغام رسا ں کو نہیں بھیجاتھا اور کیا تو نے ہماری مدد و نصرت کا وعدہ نہیں کیا تھا ؟ یہ چونکہ عثمانی مذہب تھا لہٰذا جناب زہیر سے کہنے لگا : تیرا تعلق بھی تو اس گھرانے سے نہ تھا، توبھی تو عثمانی مذہب تھا ۔(طبری، ج٥،ص ٤١٧) عمر سعد نے اسے سوارو ں کی نگہداری پر مقرر کیا تھا ۔اوریہ رات میں ان سب کی نگہداشت کرتا تھا (طبری ،ج ٥،ص ٥٢٢) لیکن اصحاب امام حسین علیہ السلام اسے گھوڑو ں کو چھپانے نہیں دیتے تھے بلکہ اسے آشکار کردیتے تھے۔ اس پر اس نے پسر سعد سے شکایت کی اور درخواست کی کہ ا سے اس امر سے باز رکھا جائے اور پیدلو ں کی سر براہی دیدی جائے اور پسر سعد نے ایسا ہی کیا۔ (طبری ،ج ٥ ،ص ٤٣٦) اس ملعون کا شمار انہی لوگو ں میں ہوتاہے جنہو ں نے امام علیہ السلام اوران کے اصحاب کے مقدس سرو ں کو ابن زیاد کے سامنے پیش کیا تھا۔(طبری ،ج ٥،ص ٤٥٦) اس کے بعد اس کی کوئی خبر نہیں ملتی ۔

٥۔اس کا شمار بھی ان ہی لوگو ں میں ہوتا ہے جنہو ں نے جنا ب حجر بن عدی کے خلاف گواہی دی تھی۔ (طبری ، ج ٥،ص ٢٧٠) اس کی بہن روعہ بنت حجاج، ہانی بن عروہ کی بیوی اور یحٰی بن ہانی کی ما ں تھی۔ (طبری، ج٥،ص ٣٦٤) جب ہانی شہید ہوگئے تو یہ قبیلہ'' مذحج ''کے جم غفیر کو لیکر ابن زیاد کے محل کے پاس پہنچا۔ جب دربار میں خبر پہنچی تو ابن زیاد نے قاضی شریح کو بھیج کر یہ کہلوادیا کہ وہ زندہ ہیں ؛اس پر سارا مجمع متفرق ہوگیا۔ (طبری، ج٥ ،ص ٣٦٧) پھر یہ شخص کربلا پہنچاتوپسر سعد نے اسے ٥٠٠ سوارو ں کے ہمراہ روانہ کیا۔ یہ سب کے سب فرات کے کنارے گھاٹ پر کھڑے ہوگئے کہ امام علیہ السلام اور ان کے اصحاب تک پانی نہ پہنچنے پائے۔ یہ واقعہ شہادت سے تین دن پہلے کا ہے (طبری ،ج٥،ص ٤١٢) ٩ محرم کو جب امام علیہ السلام نے ایک شب کی مہلت مانگی اور پسر سعد لوگو ں سے مشورت کرنے لگا تو اس شخص نے پسر سعد سے مہلت نہ دینے کے سلسلہ میں ملامت کی۔ (طبری، ج٥،ص ٤١٧) روز عاشورہ یہ شخص فرات کی طرف پسر سعد کے لشکر میں میمنہ کا سردار تھا ۔(طبری، ج٥،ص ٤٢٢) اسی فرات کی طرف سے امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب پر یہ حملہ آور ہوتا اور سپاہیو ں کو ان کے قتل پر اکساتاتھا۔ (طبری، ج٥،ص ٤٣٥) یہ انھی ں لوگو ں میں ہے جو شہداء کے سر کو کوفہ لے گئے تھے۔ (طبری، ج٥ ،ص ٤٥٦) بعدہ ابن مطیع کے ہمراہ مختار کے خلاف جنگ پرآمادہ ہوگیا (طبری ، ج٦،ص ٢٨) اور ''سکہّ الثوریین''سے ٢ ہزار لوگو ں کے ہمراہ جنگ کے لئے نکلا(طبری ،ج٦ ،ص ١٩٠) پھر

۱۳۳

''جبانہ مراد'' میں قبیلہ مذحج کے پیر و ں میں ہوگیا۔(طبری ،ج٦، ص ٤٥) جب مختار فتح یاب ہوگئے تو اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر یہ'' شراف اور واقصہ'' کے راستہ پر نکل گیا ۔اس کے بعد یہ شخص کہیں نہیں دیکھاگیا ۔(طبری، ج٦، ص ٥٢)

٦۔اس کو ابن عطارد بھی کہتے ہیں اور یہ بھی جناب حجربن عدی کے خلاف گواہی دینے والو ں میں شمار ہوتا ہے۔ (طبری، ج٦،ص ٢٧٠) مختار سے جنگ کے وقت یہ مضر کا ہم پیمان تھا۔(طبری ، ج٦،ص ٤٧) اس کے بعداس نے مختار کی بیعت کر لی تو مختار نے اسے آذر بایجان کا گورنر بنا کر بھیج دیا۔ (طبری ، ج٦، ص ٣٣٤) خوارج ازارقہ سے جنگ کے موقع پر یہ شخص حارث بن ابی ربیعہ کے ہمراہ تھا جو کوفہ میں ابن زبیر کی طرف سے حاکم مقرر ہواتھا ۔(طبری، ج٦ ، ص ١٢٤) اس کا شمار ان لوگو ں میں ہوتا جس کابنی مروان کے حاکم عبدالملک بن مروان سے مکاتبہ ہواکرتاتھا۔ (طبری ، ج٦، ص ١٥٦) اس کے بعد عبدالملک نے اس کو ہمدان کا گورنر بنادیا۔ (طبری ،ج٦، ص١٦٤) جب یہ دوبارہ لوٹا تو اس وقت ٧٥ھ میں حجاج بن یوسف کی حکمرانی کا زمانہ تھا۔(طبری ، ج٦، ص ٢٠٤) اس کے بعد اس کا سراغ نہیں ملتا ۔

اس کا باپ عمیر بن عطار د کوفہ کے قبیلہ تمیم کا ہم پیمان تھا جو صفین میں حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ تھا۔ (صفین، ص ٢٠٥) یہی وہ شخص ہے جس نے زیاد کے سامنے عمرو بن حمق خزاعی کے خون کے سلسلے میں سفارش کی حتی کہ عمرو بن حریث اور زیاد نے اس کی ملامت کی ۔ (طبری ، ج٥، ص ٢٣٦)

٧۔الارشاد، شیخ مفید، ص ٢٠٣ وتذکرة الخواص ، سبط بن جوزی، ص ٢٤٤ ، ذرا غور تو کیجئے کہ دنیا کے متوالے یہ سمجھ رہے تھے کہ امام علیہ السلام کو اپنی طرف بلانے کا طریقہ یہ ہے کہ ان کو دنیاوی چیزو ں سے لبھایا جائے ، ہائے رے عقل کا دیوالیہ پن ۔

۱۳۴

امام حسین علیہ السلام کا جواب

تمام پیغام رساں مولا کے حضور میں حاضر ہوئے امام علیہ السلام نے ان سب کے خطوط پڑھ کر وہاں کے لوگوں کی احوال پرسی کی ؛پھر ہانی بن ہانی السبیعی اور سعید بن عبداللہ حنفی (جو نامہ بروں کے سلسلے کے آخری رکن تھے) کے ہمراہ خط کا جواب اس طرح لکھا:

بسم اللّه الرحمن الرحیم : من الحسین بن علی، الی الملأ من المومنین والمسلمین ،اما بعد : فان هانئاًو سعیداًقَدِ ما علیّ بِکُتُبِکُم

وکانا آ خر من قَدِم علیّ من رسلکم وقد فهمت کل الذی اقتصصتم و ذکر تم ، ومقالةجلّکم : اِنه لیس علینا اِمام فاقبل ، لعل اللّٰه ان یجمعنا بک علی الهدی والحق

و قد بَعَثْتُ الیکم اخی وابن عمی و ثقتی من اهل بیتی (مسلم بن عقیل) وأمرته ان یکتب الیّ بحالکم وأمرکم و رأیکم

فان کتب الیّ : انه قد أجمع رأی ملئکم ، وذوی الفضل و الحجی منکم ، علی مثل ما قد مت علی به رسلکم ، وقرأت فی کتبکم ، أقدم علیکم وشیکاً، ان شاء اللّه ، فلعمری ما الامام الاالعامل بالکتاب ، والآخذبالقسط ، والدائن بالحق ، والحابس نفسه علی ذات الله ، والسلام(١)

بسم اللہ الرحمن الرحیم : یہ خط حسین بن علی کی طرف سے مومنین و مسلمین کے ایک گروہ کے نام بعد از حمد خدا،ہانی اورسعید تمہارے خطوط لے کر ہمارے پاس پہنچ چکے ہیں ۔

یہ دونوں ان نامہ رسانوں میں سے آخری نامہ رساں ہیں جو اب تک میرے پاس آچکے ہیں میں نے تمام ان چیزوں کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے جس کا قصہ تم لوگوں نے بیان کیا اور جن باتوں کا تم لوگوں

____________________

١۔طبری ج ٥، ص٣٥٣، ابومخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے حجاج بن علی نے محمد بن بشر ہمدانی کے حوالے سے روایت نقل کی ہے ، شیخ مفید نے بھی اس روایت کو ذکر کیا ''الارشاد'' ،ص٢٠٤، تذکرةالخواص ، ص ١٩٦

۱۳۵

نے ذکر کیا ہے۔ تم میں اکثر و بیشتر لوگوں کی گفتگوکا خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے پاس کوئی امام نہیں ہے لہٰذا آجائیے ، شاید خدا وند عالم آپ کے وسیلہ سے ہم لوگوں کو ہدایت و حق پر جمع کردے۔

میں تمہاری طرف اپنے بھائی ، اپنے چچا کے بیٹے (مسلم بن عقیل) اور اپنے خاندان کی اس فرد کو بھیج رہا ہوں جس پر مجھے اعتماد ہے ۔میں نے ان سے کہا ہے کہ وہ وہاں جا کر تمہارے آراء و خیالات سے مجھ کو مطلع کریں ، اب اگر انھوں نے مجھکو مطلع کردیا کہ تمہارے خیالات وہی ہیں جو تم نے اپنے خطوط میں تحریر کئے ہیں ؛ جسے میں نے دقت سے پڑھا ہے اور صرف عوام نہیں بلکہ تم میں کے ذمہ دار اور صاحبان فضل و شرف افرادبھی اس پر متفق ہیں تو انشاء اللہ بہت جلد میں تم لوگوں کے پاس آجا وں گا ۔

قسم ہے میری جان کی !امام تو بس وہی ہے جو کتاب خدا پر عمل کرنے والا ہو ، عدل و انصاف قائم کرنے والا ، حق پر قائم، اس کو اجراء کرنے والا اور اللہ کی راہ میں خود کووقف کردینے والا ہو ۔ والسلام

حضرت مسلم علیہ السلام کا سفر

امام علیہ السلام نے جناب مسلم کو بلایا اور قیس بن مسہر صیداوی(١) عمارہ بن عبید السلولی(٢) اور عبد الرحمن عبداللہ بن الکدن ارجی(٣) کے ہمراہ آپ کو روانہ کیا ۔مسافرت کے وقت آپ نے ان کو تقویٰ کی سفارش کی، باتوں کو صیغہ راز میں رکھنے کو کہااور لوگوں کے ساتھ عطوفت و مہربانی سے پیش آنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اگرتم نے محسوس کیا کہ لوگ اپنے کئے ہوئے وعدہ پر برقرار ہیں تو مجھے فوراً اس سے مطلع کرنا ۔

مسلم بن عقیل وداع ہو کر کوفہ کے لئے روانہ ہوئے ،راستے میں مدینہ آئے، مسجد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں نماز اداکی، اس کے بعد اپنے نزدیکی رشتہ داروں سے رخصت ہو کر راہی کوفہ ہوئے۔ قیس نے راستے کی شناخت کے لئے دو ایسے لوگوں کو ہمراہ رکھا جو راستے سے آگاہ تھے لیکن وہ دونوں راستہ بھول گئے۔ ادھر ادھر بھٹکنے کی وجہ سے ان لوگوں پر پیاس کا غلبہ ہوا ۔اس پر دونوں راستہ شناس افراد نے کہا : آپ لوگ اس

____________________

١۔٢۔٣۔ یہی وہ افراد ہیں جو کوفیو ں کے ١٥٠ خطوط لے کر امام علیہ السلام کی خدمت میں حا ضر ہوئے تھے ان سب کے احوال بیان ہوچکے ہیں ۔ عمارہ بن عبید کو شیخ مفیدرہ اور سبط بن جوزی نے عمارہ بن عبداللہ لکھا ہے اور اسی طرح عبد الرحمن کو شیخ مفید نے عبدالرحمن بن عبداللہ تحریر کیا ہے اورعبد اللہ اور عبدالرحمن کو راشد ارجی کا فرزند تحریر فرمایا ہے۔ ص ٢٠٤۔

۱۳۶

راستے کو پکڑ لیں اس کے انتہا پر پانی موجود ہے لیکن ان لوگوں کو وہاں بھی پانی میسر نہ ہو ا۔نوبت یہاں تک پہنچی کہ یہ افراد موت کے دھانے پر پہو نچ گئے۔ آخر کار چاروناچار یہ لوگ مدینہ پلٹ گئے۔

راستہ سے جناب مسلم کا امام علیہ السلام کے نام خط

درہ خبیت کے ایک تنگ گوشہ سے جناب مسلم نے امام حسین علیہ السلام کو خط لکھا اور قیس بن مسہر کے ہا تھوں اسے امام علیہ السلا م کی خدمت میں روانہ کیا۔ خط کا مضمون یہ تھا

''اما بعد : فانّی اقبلت من المدینة معی دلیلان لی ، فجارا عن الطریق وضلّا ، واشتدّ علینا العطش، فلم یلبثا أن ماتا ، وأقبلنا حتی انتهیناالی ٰالماء ، فلم ننج الا بحشا شة أنفسنا ، وذلک الماء بمکان یدعی المضیق من بطن الخُبیت،(١) قد تطیرّت من وجهی هٰذا ، فان رأیت اعفیتنی منه وبعثت غیری والسلام'' (٢)

اما بعد : میں مدینہ سے دو ایسے افراد کے ساتھ نکلا جو راستہ سے آشنا تھے لیکن وہ دونوں راستہ بھول گئے۔ اسی حالت میں ہم پر پیاس کا غلبہ ہوا اور تھوڑی ہی دیر میں وہ دونوں جان بحق ہو گئے۔ ہم لوگ چلتے چلتے پانی تک پہنچ گئے ،اس طرح ہم لوگ موت کے منہ سے نکل آئے۔ یہ پانی درہ خبیت کے ایک تنگ گوشہ میں ہے ۔میرے مولا میں نے اس سفر کو فال بد سمجھا ہے لہٰذا اگر آپ بہتر سمجھیں تو مجھے اس سے معاف فرمادیں اور کسی دوسرے کو اس کام کی انجام دہی کے لئے بھیج دیں ۔ والسلام

____________________

١۔خبیت مدینہ کے اطراف میں مکہ کے راستہ کی طرف ایک جگہ ہے جہا ں یہ دونو ں راہنما گم ہو کر مکہ کی طرف نکل پڑے تھے۔ جیساکہ ابصار العین میں موجود ہے۔ ص١٦

٢۔ارشاد، ص ٢٠٤و خوارزمی ص ١٩٧پر تھوڑے سے فرق کے ساتھ۔ طبری نے بھی معاویہ بن عمار کے واسطہ سے اسے امام باقرعلیہ السلام سے نقل کیا ہے۔ ج ٥،ص ٣٤٧

۱۳۷

مسلم کواما م علیہ السلام کا جواب

خط ملتے ہی امام علیہ السلام نے جناب مسلم کو جواب دیا :

''اما بعد : فقد خشیت ان لا یکون حمَلَکَ علی الکتاب الیّ فی الا ستعفا ء من الو جہ الّذی وجّھتک لہ الا الجبن ، فامض لو جھک الذی وجھتک لہ، والسلام علیک''

امابعد :مجھے اس کا خوف ہے کہ تم نے اس عظیم سفر سے جسے میں نے تمہارے سپرد کیا ہے معافیت طلبی کا خط فقط خوف و ہر اس کی بنیاد پر لکھا ہے لہٰذا میری رای یہ ہے کہ فوراً اس کام پر نکل پڑوجسے میں نے تمہارے سپرد کیا ہے ۔ والسلام علیک

جناب مسلم نے خط کے جواب کو پڑھ کر کہا : میں اس سفر میں اور اس کام کی انجام دہی میں اپنی جان سے ہر گز خوف زدہ نہیں ہوں ۔ یہ کہہ کر مسلم وہاں سے نکل پڑے۔ چلتے چلتے ایک منزل گاہ اور چشمہ آب تک پہنچے جو قبیلہ ٔ '' طئی '' کا تھا۔ آپ نے اس چشمہ کے پاس پڑاؤڈالااور کچھ دیر آرام کیا ۔ آرام کے بعد پھر وہاں سے سفر پر نکل پڑے۔کچھ دیر چلنے کے بعد راستے میں جناب مسلم نے ایک شکاری کو ہرن کا شکار کرتے ہوئے دیکھا ۔جب اس شخص نے ہرن پر تیر مارا تو وہ بری طرح تڑپ رہا تھا۔حضرت مسلم نے اسے دیکھ کر کہا : اگر خدا چاہے گا تو ہمارا دشمن بھی اسی طرح نابود ہو جائے گا۔

۱۳۸

کوفہ میں جناب مسلم کا داخلہ

* اہل بصرہ کے نام امام علیہ السلام کا خط

* مسلم کی تنہائی کے بعدابن زیاد کا خطبہ

* بصرہ میں ابن زیاد کا خطبہ * مسلم کی تلاش میں ابن زیاد

* کوفہ میں داخلہ کے بعد ابن زیاد کا خطبہ * مختار کا نظریہ

* مسلم،ہانی کے گھر * دوسری صبح

* معقل شامی کی جاسوسی * جناب مسلم سے جنگ کے لئے محمد بن اشعث کی روانگی

* ابن زیاد کے قتل کا پلان *آگ اور پتھر کی بارش

* معقل ،جناب مسلم کے گھر میں * فریب امان اور گرفتاری

* دربار میں ہانی کا احضار *حضرت مسلم بن عقیل کی محمد بن اشعث سے وصیت

*ہانی، ابن زیاد کے روبرو * مسلم،محل کے دروازہ پر

* موت کی دھمکی * مسلم، ابن زیاد کے روبرو

*ہانی کے قید کے بعد ابن زیاد کا خطبہ *حضرت مسلم علیہ السلام کی شہادت

*جناب مسلم علیہ السلام کا قیام * جناب ہانی کی شہادت

* اشراف کوفہ کی خیانت * تیسرا شہید

* پرچم امان کے ساتھ اشراف کوفہ * چوتھا شہید

* جناب مسلم علیہ السلام کی غربت و تنہائی * مختار قید خانہ میں

* ابن زیاد کا موقف * یزید کے پاس سروں کی روانگی

* یزید کا جواب * امام علیہ السلام کا مکہ سے سفر

۱۳۹

کو فہ میں جناب مسلم علیہ السلام کا داخلہ

وہاں سے مسلم علیہ السلام پھر آگے بڑھے یہاں تک کہ اپنے تینوں ساتھیوں قیس بن مسہر صیداوی ، عمارہ بن عبیدالسلولی اور عبد الرحمن بن عبداللہ بن الکدن ارجی کے ہمراہ کوفہ میں داخل ہو ئے(١) اور مختار بن ابو عبیدثقفی ) کے گھر میں مہمان ہوئے ۔وہاں پہنچتے ہی شیعہ ہر چہار جانب سے آپ کی خدمت میں شرفیاب ہونے لگے اور رفت و آمد کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔جب سب شیعہ جمع ہوگئے تو جناب مسلم نے ان کو امام علیہ السلام کا خط پڑھ کر سنا یا۔ خط کے مضمون کو سنتے ہی وہ سب کے سب رونے لگے ۔

____________________

١۔طبری ،ج٥، ص ٣٥٥ ، مروج الذہب ،ج ٢ ،ص ٨٦ ،کے بیان کے مطا بق کو فہ میں وارد ہونے کی تاریخ ٥ شوال ہے۔

٢۔ پہلی ہجری میں مختار نے اس دنیا میں آنکھ کھولی۔ (طبری، ج ٢،ص ٤٠٢) ٣٧ ھ میں اپنے چچا سعد بن مسعود ثقفی کی جانب سے ان کی جانشینی میں مدائن کے گور نر ہوئے۔ (طبری ،ج ٥،ص ٧٦) عام الجماعتہ کے بعد ٤٠ھ تک اپنے چچا ہی کے پاس رہے۔ (طبری ،ج ٥ ،ص١٥٩) طبری نے مختار کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ مختار نے اپنے چچا سے بتایا کہ حسن بن علی (علیہماالسلام) نے حکومت معاویہ کے سپرد کر دی ہے۔ (ج ٥، ص ٥٦٩) زیاد کے زمانے میں مختار سے چا ہا گیا کہ وہ حجربن عدی کے خلاف گواہی دی ں لیکن مختار نے اسے قبول نہ کیا۔ (طبری ،ج ٥، ص ٢٧٠) جناب مسلم کے قیام کے دوران آپ کا شمارپر چمدارو ں میں ہوتا تھا (ج٥،ص٣٨١) لیکن جب جناب ہانی کے قید ہونے کی خبر سے مطلع ہوئے تو اپنے پر چم اور اپنے ساتھیو ں کے ساتھ جناب مسلم کے خروج سے پہلے ہی کسی وعدہ کے بغیر قیام کردیا ،پھر جب عمروبن حریث نے مختارکو دعوت دی کہ ابن زیاد کے پر چم امن تلے آجاؤ اور صلح کر لو تو دھوکہ میں آکر مختار نے صلح قبول کرلی۔ابن زیاد کے دربار میں داخل ہوئے تو چھڑی سے آپ کے چہرے پر حملہ کیا گیا۔جس کی وجہ سے آنکھ میں کافی چوٹ آئی اور ٹیڑھی ہو گئی۔ اس کے بعد آپ کو قید کر دیا گیا؛ یہا ں تک کہ امام حسین علیہ السلام شہید ہو گئے۔ آپ کی بہن صفیہ، عبد اللہ بن عمر کی زوجہ تھی ں لہٰذ امسلم نے اپنے چچا کے بیٹے زائد ہ بن قدامہ ثقفی کو ابن عمر کے پاس بھیجا تاکہ وہ مختار کی آزادی کے لئے یزید کو خط لکھے۔اس نے خط لکھ کر یزید سے مختار کی آزادی کی درخواست کی تو اس نے خط لکھ کر ابن زیاد کو حکم دیا کہ مختار کو آزاد کر د یا جائے لہٰذا اس نے ایسا ہی کیا لیکن انھی ں کو فہ سے نکال دیا ۔مختار وہا ں سے راہی حجاز ہو گئے اور وہا ں

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438