واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا0%

واقعۂ کربلا مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 438

واقعۂ کربلا

مؤلف: لوط بن یحییٰ بن سعید ( ابومخنف)
زمرہ جات:

صفحے: 438
مشاہدے: 168107
ڈاؤنلوڈ: 4275

تبصرے:

واقعۂ کربلا
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 438 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 168107 / ڈاؤنلوڈ: 4275
سائز سائز سائز
واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا

مؤلف:
اردو

ابن زبیر کے ہاتھو ں پر بیعت کر لی اور ابن زبیر کے ہمراہ اہل شام سے بڑی شدید جنگ لڑی۔ یزید کی موت کے پانچ مہینہ بعد ابن زبیر کو چھو ڑ دیا اور کوفہ کی طرف روانہ ہو گئے۔(طبری ،ج٥،ص٥٧٠ ۔ ٥٧٨) جب کوفہ میں وارد ہوئے تو سلیمان بن صرد خزاعی شیعو ں کو تو بہ اور امام حسین علیہ السلام کے خون کے قصاص کی دعوت دے رہے تھے۔ مختار نے آ کر دعویٰ کیا کہ وہ محمد حنفیہ کے پاس سے آرہے ہیں اور سلیمان فنون جنگ سے نا بلدہیں لہٰذا خود کی جان بھی گنوائی ں گے اور اپنے سپاہیو ں کا بھی بے جاخون بہا ئی ں گے۔ (طبری، ج٥،ص ٥٦٠و ٥٨٠)جب تو ابین نے خروج کیا تو ابن زبیر کے کا رگزار ابن مطیع نے مختار کو قید کرلیا (ج٥،ص ٦٠٥) ایسی صورت میں مختار نے اپنے غلام زربی کو ابن عمر کے پا س روانہ کیا تاکہ وہ ابن زبیر کے کار گزار سے مختار کی رہائی کی درخواست کرے۔ ابن عمر نے خط لکھ کر درخواست کی تو اس نے عہدو پیمان کے ساتھ آزاد کر دیا۔(طبری ،ج٦،ص ٨) آزاد ہو نے کے بعدمختار نے خروج کیا اور تمام امور پر غلبہ پا کرجنگ شروع کی۔ابن زیاد سے گھمسان کی جنگ کی اور اسی جنگ میں اس کو قتل کر دیا۔ اس کے بعد قاتلین امام حسین علیہ السلام کو قتل کرنا شروع کیا۔ آخر کار ٦٧ھ میں مصعب بن زبیر نے مختار کو قتل کر ڈالا۔ (ج٦ ،ص ٦٧) قتل کرنے کے بعد مصعب بن زبیر نے حکم دیا کہ مختار کے ہاتھو ں میں کیلی ں ٹھوک دی جائی ں ۔حکم کی تعمیل ہوئی اور مسجد کے پاس مختار کو آویزا ں کر دیا گیا۔وہ اسی طرح لٹکے رہے یہا ں تک کہ حجاج ثقفی نے اسے ہٹایا۔ (طبری، ج ٦،ص ١١٠) مصعب نے مختار کی پہلی بیوی عمرة بنت نعمان بن بشیرکو قتل کردیا اور دوسری بیوی ام ثابت بنت سمرہ بن جندب کو چھوڑ دیا۔(ج٦،ص١١٢) ٧١ھ میں مصعب نے عبد الملک سے جنگ کی ۔اس جنگ میں زائدہ بن قدامہ ثقفی بھی حاضر تھا؛ پس اس نے مصعب کو قتل کر دیا اور آوازدی'' یا لثارات المختار'' یہ مختار کے خون کا بدلہ ہے۔(طبری ،ج٦،ص ١٥٩) مختار کا گھر مسجد کے پاس تھا تو عیسی بن موسی عباسی نے ١٥٩ ھ میں اسے مختار کے وارثو ں کے ہاتھ بیچ دیا۔(طبری، ج٨، ص٢٢)بادی النظرمیں یہی سمجھ میں آتا ہے کہ مختار نے مسلم علیہ السلام کو جو اپنے گھر میں روکا اس کا سبب یہی تھا کہ وہ امیر کوفہ نعمان بن بشیر کے نسبتی رشتہ دار تھے اور اس پر طبری کی روایت کو اگر اضافہ کر دیا جائے کہ شیعہ مختار کی مذمت اس لئے کیا کر تے تھے کہ انھو ں نے امام حسن علیہ السلام کے ساتھ اچھاسلوک نہیں کیا اور ساباط میں ان پر حملہ کردیا ۔(طبری، ج ٥،ص ٣٧٥)

مختار کے سلسلے میں روایتو ں کی زبان مختلف ہے اور سندکے اعتبار سے کوئی بھی روایت محکم نہیں ہے لہٰذا قابل اعتبار صاحبان رجال کا تحقیقی نظر یہ یہی ہے کہ اگر کو ئی روایت فقہی مسئلہ میں تنہا مختار سے نقل ہو ئی ہو تو اس پر توقف کیا جائے گا۔مختار کے سلسلے میں طبری کی روایت معتبر نہیں ہے اور مختار کی شخصیت کو اس طرح گرانا اور بے حیثیت کرنا صحیح نہیں ہے۔ (مترجم)

۱۴۱

اس کے بعد عابس بن ابی شبیب شاکری(١) اٹھے اور حمد و ثنا ئے الہٰی کے بعد فرمایا : ''اما بعد فانی لا أخبر ک عن الناس ولا أعلم ما فی أنفسهم وما أغرّک منهم ، واللّه لاحدّثنک عمّا أنا موطّن نفسی علیه واللّٰه لاُ جیبنّکم اذادعوتم ولاُ قاتلنّ معکم عدوّکم ،ولاُ ضربنّ بسیفی دونکم حتی ألقی اللّه، لا ارید بذالک الا ماعنداللّه''

____________________

١۔ اس کے بعدعابس جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام کا خط لے کر امام علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوئے ۔(طبری، ج٥، ص ٣٧٥)اس کے بعد یہ امام علیہ السلام کے ہی ساتھ رہے یہا ں تک کہ شہید ہوگئے۔(طبری ،ج٥،ص ٤٤٤) یہ قبیلہ ہمدان سے منسوب تھے۔

۱۴۲

اما بعد : اے مسلم !میں آپ کو لوگوں کی خبر نہیں دے رہا ہوں نہ ہی مجھے یہ معلوم ہے کہ ان کے دلوں میں کیا ہے اور نہ ہی میں ان کے سلسلہ میں آپ کو دھوکہ دوں گا؛ خدا کی قسم میں وہی بولوں گا جو میرے دل میں پوشیدہ ہے۔ خدا کی قسم جب بھی آپ مجھ کو بلائیں گے میں حتماً لبیک کہوں گا ، میں آپ کے ہمراہ آپ کے دشمنوں سے ضرور بالضرور قتال کروں گا، آپ کے سامنے اپنی شمشیر سے لقاء الہٰی تک لڑتا رہوں گا۔ اس سلسلہ میں خدا کے نزدیک میرے لئے جو چیز ہے اس کے علاوہ میرا کوئی بھی منشاء نہیں ہے۔

پھر حبیب بن مظاہر فقعسی اسدی کھڑے ہوئے اور فرمایا :'' رحمک اللّه؛ قد قضیت ما فی نفسک بواجز من قولک '' اللہ تم پر رحم کرے (اے عابس) جو تمہارے دل میں تھا اور جو کچھ کہنا چاہئے تھا اسے تم نے بڑے مختصر جملوں میں بیان کردیا ۔اس کے بعد پھر فرمایا :

'' وانا واللّه الذی لا اله الا هو علی مثل ما هو هذا علیه''اس خدا کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ؛ میں نے بھی اس مرد کی راہ کو اپنی راہ قرار دیا پھر حنفی(١) نے بھی اسی طرح اپنا ارادہ ظاہر کیا، پھر ایک کے بعد ایک سب نے اپنے اپنے تاثرات کا اظہار کیا، اس کے بعد جناب مسلم کے پاس شیعوں کی رفت و آمد کا سلسلہ جاری ہوگیا؛ یہاں تک کہ جناب مسلم کی منزل گا ہ لوگوں کے لئے جانی پہچانی ہوگئی یہاں تک کہ اس کی خبر نعمان بن بشیر(٢) کے کانوں تک پہنچ گئی۔اس خبر کے شائع ہونے کے بعد وہ منبر پرآیا حمد و ثنائے الہی کے بعداس نے کہا :

اما بعد : اے بندگان خد ا ! تقوائے الہی اختیار کرو اور فتنہ و پراکندگی کی طرف جلدی جلدی آگے نہ بڑھو کیونکہ ان دو نوں صورتوں میں لوگ ہلاک ہوں گے ، خون بہیں گے اور اموال غصب ہوں گے میں کسی ایسے شخص سے جنگ نہیں کرسکتا جو مجھ سے جنگ کے لئے نہ آئے ؛اسی طرح میں کسی ایسے پر حملہ آور نہیں ہوسکتا جو مجھ پر یورش نہ کرے ، نہ ہی میں تم کو سب و شتم کرو ں گا نہ ہی تحریک، نہ ہی بری باتوں کی

____________________

١۔ یہ وہی سعید بن عبداللہ حنفی ہیں جو اہل کوفہ کا خط لے کر امام علیہ السلام کے پاس گئے تھے اور امام علیہ السلام کا جواب لیکر کوفہ پہنچے تھے ۔

٢۔ طبری ، ج ٥ ، ص ٣٥٥ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے نمیر بن وعلہ نے ابو ودّاک کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ابو ودّاک کہتے ہیں کہ نعمان بن بشیر ہم لوگو ں کے پاس آیا اور منبر پر گیا ۔

۱۴۳

نسبت دوں گا نہ ہی بد گمانی و تہمت لگاؤں گا ، لیکن اگر تم نے اپنے اندر کے کینہ کوصفحہ دل سے باہر آشکار کردیا اور بیعت توڑ کر اپنے حاکم کے خلاف مخالفت کے لئے علم بلندکیا تو یا د رہے کہ قسم ہے اس خدا کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ؛ میں اپنی تلوار سے تمہاری گردنوں کو اس وقت تک تہہ تیغ کرتا رہوں گا جب تک میرے ہاتھ میں قبضہ شمشیر ہے ،خواہ تم میں سے کوئی میرا ناصر و مدد گا نہ ہو ، لیکن مجھے اس کی امید ہے کہ تم میں سے جو حق کو پہچانتے ہیں وہ ان لوگوں سے زیادہ ہیں جو باطل کی طرف پلٹتے ہیں ۔

نعمان بن بشیر کی تقریر کے بعدعبداللہ بن مسلم بن سعید حضرمی(١) اٹھا (جو بنی امیہ کا ہم پیمان تھا) اور بولا : اس وقت تم جو سمجھ رہے ہو وہ مناسب نہیں ہے اس وقت تو سخت گیری کے علاوہ کوئی راستہ ہی نہیں ہے اپنے دشمنوں کے ساتھ تمہاری سیاست ناتواں اور ضعیف لوگوں کی سیاست ہے۔ اس پر نعمان نے کہا :'' أن أکون من المستضعفین فی طاعة اللّه احبّ الی من أن أکون من الا عزین فی معصية اللّه'' خدا کی اطاعت میں میرا شمار مستضعفین و ناتوانوں میں ہو یہ مجھے اس سے زیاد ہ پسند ہے کہ خدا کی معصیت میں میرا شمار صاحبان عزت میں ہو ، یہ کہہ کر نعمان منبر سے اتر آیا ۔

عبداللہ بن مسلم وہاں سے نکلا اور یزید بن معاویہ کے نام ایک خط لکھا :

امابعد : فان مسلم بن عقیل قد قدم الکوفه ، فبایعته الشیعة للحسین بن علی ، فان کان لک بالکوفة حاجة فابعث الیها رجلاقويّاًینفذ أمرک ، و یعمل مثل عملک فی عدوک ، فان النعمان بن بشیر رجل ضعیف ، او هو یتضعّف.

امابعد: مسلم بن عقیل کوفہ پہنچ چکے ہیں اورحسین بن علی کے چاہنے والوں نے ان کی بیعت کر لی ہے۔ اب اگر تم کوفہ کو اپنی قدرت میں رکھنا چاہتے ہو تو کسی ایسے قوی انسان کو بھیجو جو تمہارے حکم کو نافذ کر سکے اور اپنے دشمن کے سلسلہ میں تمہارے ہی جیسا اقدام پیش کرسکے کیونکہ نعمان بن بشیر ایک ناتوان انسان ہے یا شاید خود کو ضعیف دکھانا چاہ رہاہے۔

____________________

١۔اس کا نام ان لوگو ں میں آتا ہے جنہو ں نے جناب حجربن عدی کے خلاف گواہی دی ۔اس کا پورا نام عبداللہ بن مسلم بن شعبة الحضرمی ہے۔(طبری ، ج٥ ، ص ٢٦٩)

۱۴۴

پھر عمارہ بن عقبہ(١) اور عمر بن سعد بن ابی وقاص(٢) نے ایسے ہی خطوط(٣) لکھ کریزیدکوحالات سے آشناکرایا۔

____________________

١۔یہ ولید بن عقبہ بن ابی معیط کا بھائی ہے۔یہ اور اس کا بھائی مکہ سے مدینہ کی طرف رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پوچھتا ہوا نکلا تاکہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان دونو ں کی بہن ام کلثوم کو جو حدیبیہ کے بعد ہجرت کر کے مدینہ چلی آئی تھی ں انہیں لوٹا دی ں لیکن پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انکار کردیا ۔(طبری ، ج٢،ص ٦٤٠) اسکا مکان اپنے بھائی کے ہمراہ کوفہ کے میدانی علاقہ میں تھا۔ (طبری ، ج٤، ص ٢٧٤) اس کی بیٹی ام ایوب، مغیرہ بن شعبہ کی بیوی تھی۔ جب مغیرہ مر گیا تو زیاد بن ابیہ نے اس سے شادی کرلی۔ (طبری ،ج٥، ص ١٨٠) اسی نے زیاد کے سامنے عمروبن حمق خزاعی کے خلاف گواہی دی۔(طبری ،ج٥،ص ٢٣٦) یہ اپنے باپ عقبہ بن ابی معیط کے ہمراہ کفر کی حالت میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو پیغمبر اسلام نے اس کی گردن کاٹنے کا حکم صادر فرمایا، اس پر اس نے کہا : اے محمداس بچی کا کیا ہوگا ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جہنم کی آگ (طبری ،ج٥،ص ٣٤٩) یہ جناب مسلم کی شہادت کے وقت محل میں تھا (طبری، ج ٥، ص ٣٧٦)اور حاکم کوفہ کے سامنے مختار کے خلاف بھی سازشی ں رچتارہا۔ (طبری، ج٥،ص ٣٤٩) اس کے بعد اس کے سلسلہ میں خبری ں مخفی ہیں اور کچھ پتہ نہیں ہے ۔

٢۔اسکی ما ں بشری بنت قیس بن ابی کیسم تھی جو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد مرتدلوگو ں میں شمار ہوتی ہے۔(طبری، ج٣، ص ٣٤١) اس کی ولادت ہجرت کی دوسری دھائی کے اوائل میں ہوئی ہے اور کربلا میں یہ ٥٠ سال کے آس پاس کا تھا۔١٧ یا ١٩ ہجری میں اس کے باپ سعد نے اسے عیاض بن غنم کے ہمراہ ارض جزیرہ یعنی شمال عراق اور شام کو فتح کرنے کے لئے روانہ کیا۔ اس زمانے وہ بالکل نو جوان تھا۔ (طبری، ج ٤، ص ٥٣) ٣٧ ھ میں عمر نے اپنے باپ کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک اس نے حکمیت کے مسئلہ میں حاضر ہونے کی لا لچ نہ دلادی۔اس کے بعد وہ'' دومة الجندل'' میں اپنے باپ کو لیکر حاضر ہو گیا ۔ اس کا باپ بادیہ نشین بنی سلیم کے پانی کے پاس تھا جب اس نے اپنے باپ سے کہا: بابا آپ وہا ں گواہی دیجئے گا کہ آپ صحابی رسول اور شوریٰ کی ایک فرد ہیں ؛ اس لئے خلا فت کے آپ زیاد ہ سزاوار ہیں ۔ (ج ٥،ص ٧۔ ٦٦) اس کا شمار ان لوگو ں میں ہو تا ہے جنھو ں نے جناب حجر بن عدی کے خلاف گواہی دی اور کوفہ کو سنبھالنے کے لئے یزید کو خط لکھا۔(طبری ، ج ٥، ص٣٠٦) مسلم بن عقیل کے سلسلہ میں اس نے مکر سے کام لیا اور جناب مسلم کی وصیتو ں کو ابن زیاد کے لئے فاش کردیا۔اس پر ابن زیاد نے کہا امین خیانت نہیں کرتا لیکن کبھی کبھی خائن پر امین کا دھوکہ ہوتاہے۔ (طبری ، ج ٥، ص٣٧٧) محمدبن اشعث کندی نے چاہاتھاکہ ابن زیاد کے قتل کے بعدیہ کوفہ کاامیربن جائے لیکن بنی ہمدان کے مرد شمشیرو ں کے ہمراہ اور عورتی ں امام حسین علیہ السلام پر گریہ کنا ں گھرو ں سے باہر نکل آئی ں (طبری ، ج٥، ص٥٢٤)مختار نے اس کی طرف ابو عمرہ کو روانہ کیا ۔ اس نے عمر سعد کو قتل کر دیا اور اس کا سر لے کر آگیا۔ اس کے بعد اس کے بیٹے حفص بن عمر کو بھی قتل کردیااور کہا:خدا کی قسم اگر قریش کو٤حصو ں میں تقسیم کیا جائے اور اس کے ٣ حصہ کو بھی میں قتل کردو ں تب بھی حسین علیہ السلام کی انگلیو ں کے پور کا بدلہ بھی نہ ہوگا۔یہ کہہ کر ان دونو ں کے سرو ں کو مدینہ محمدحنفیہ کے پاس بھیج دیا۔(طبری ج ٦ ،ص ٢۔ ٦١)

۱۴۵

٣۔ہشام کا بیان ہے کہ عوانہ نے کہا : جب فقط دودنو ں کے اندر یزید کے پاس خطوط کا انبار لگ گیا تو یزید بن معاویہ نے معاویہ کے غلام سرجون(١) کو بلایا اور اس سے پوچھا : تمہاری رائے کیا ہے ؟ کیونکہ حسین نے کوفہ کی راہ اختیار کر لی ہے اور مسلم بن عقیل کوفہ میں حسین کی طرف سے بیعت لے رہے ہیں ۔دوسری طرف نعمان کے ضعف و ناتوانی اور اس کے برے بیا ن کے سلسلہ میں مسلسل خبری ں آرہی ہیں تو اب تم کیا کہتے ہو ؟ کوفہ کا عامل کس کو بناؤ ں ؟واضح رہے کہ یزید کو عبیدا للہ بن زیاد بے انتہا نا پسند تھا ۔

سر جون نے جواب دیا : تم یہ بتاؤ کہ اگر معاویہ زندہ ہوتا اور تم کو رائے دیتا تو کیا تم اس کی رائے کو قبول کرتے ؟ یزید نے جواب دیا: ہا ں ۔یہ سنتے ہی سرجون نے وہ وصیت نامہ نکالا جو ایسے ماحول کے لئے معاویہ نے لکھ کر مخفیانہ طور پر سرجون کے حوالے کیا تھا جس میں ایسی صورت حال میں کوفہ کو عبیداللہ بن زیاد کے سپرد کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ یہ وصیت نامہ دے کر سرجون نے کہا : یہ معاویہ کی رائے ہے جسے لکھ کر کے وہ مر گیا ۔ یزید نے ناپسندیدگی کے باوجوداس رائے کو فوراً قبول کر لیا پھر مسلم بن عمرو باہلی(٢) کو بلایا اور خط لکھ کر فوراً اسے بصرہ روانہ کیا ۔خط میں اس نے یہ لکھا : امابعد : کوفہ سے میرے پیروئو ں نے خط لکھ کر مجھ کو خبر دی ہے کہ ابن عقیل کوفہ میں جمع ہوکر مسلمانو ں کے اجتماع کو درہم و برہم کررہاہے تو تم میرا خط پڑھتے ہی رخت سفر باندھ کر کوفہ پہنچ جاؤ اور ابن عقیل کی جستجومیں اس طرح لگ جائو جیسے کوئی اپنے گم شدہ گوہر کو تلاش کرتا ہے یہا ں تک کہ اسے اپنی گرفت میں قید کرلویا قتل کردو یا پھانسی پر چڑھادو ۔والسلام

۱۴۶

مسلم بن عمر و وہا ں سے فوراًنکلا اور بصرہ جاکر ہی دم لیا ۔وہا ں جا کر یہ خط عبیداللہ کے حوالے کیا ۔اس نے فوراًسامان سفر آمادہ کرنے کے لئے کہا اور دوسرے دن راہی کوفہ ہوگیا۔(طبری، ج٥،ص ٣٥٧)

اس واقعہ کی روایت امام محمد باقر علیہ السلام سے عمار دہنی (ابو معاویہ بن عمار امام صادق اور امام موسی کاظم علیہما السلام کے اصحاب میں شمار ہوتے ہیں ۔ ان کے باپ عمار علماء اھلسنت کے درمیان ثقہ اور صاحب جاہ و منزلت شمار ہوتے ہیں ۔ ان کی کنیت ابو معاویہ ہے۔کبھی کبھی امام محمد باقر علیہ السلام سے بھی روایت کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ (رجال علامہ ،ص ١٦٦)ابن ندیم کی کتاب'' الفہرست'' ص ٢٣٥ ، طبع یورپ کے مطابق عمارکی ایک کتاب بھی ہے۔) نے اس طرح نقل کی ہے : یزید نے اپنے غلام سر جون (جس سے وہ ہمیشہ مشورہ کیا کرتا تھا) کوبلایا اور تمام اخبار سے آگاہ کیا۔ سرجون نے کہا : اگر معاویہ زندہ ہوتا تو کیا تم اس کی باتو ں کو قبول کرتے ؟ یزیدنے کہا : ہا ں ! سرجون نے کہا:تواب میری بات کو قبول کروکیونکہ کوفہ کے لئے عبیداللہ بن زیاد سے بہتر کوئی نہیں ہوسکتا ۔اس کو فوراً وہا ں کا والی بناؤ۔ یہ سنتے ہی یزید نے ناپسندیدگی کے باوجود جبکہ اسے بصرہ سے بھی ہٹانا چاہتا تھا فوراً رضاو رغبت کے ساتھ ابن زیاد کو خط لکھا اور اس کو بصرہ کے ساتھ سا تھ کو فہ کا بھی گورنر بنادیا اور اسے لکھا کہ مسلم بن عقیل کو تلاش کرے اور اگر مل جائی ں تو انہیں قتل کردے (ج٥ ،ص ٣٤٨)

____________________

(١)سرجون بن منصور رومی معاویہ کا کاتب اور اس کے دفتر کا منشی تھا۔(ج ٥،ص ٢٣٠ ج٦ ،ص ١٨٠)

(٢)مسلم بن عمروباہلی بصرہ میں زیاد بن ابیہ کے ہمراہ تھا اور'' باہلہ ''میں صاحب عزو شرف تھا ۔ ٤٦ھ تک اس کے ساتھ رہا۔(طبری ٥ ص ٢٢٨) اس کے بعد شام میں سکونت اختیار کی لہٰذا یہ بصری شامی ہوگیا ۔ اس نے دوبارہ شام سے بصرہ کا سفر یزید کا خط ابن زیاد تک پہنچانے کی غرض سے کیا پھر ابن زیاد ہی کے ساتھ کوفہ آگیا ۔ جب ہانی بن عروہ ابن زیاد کے دربار میں لائے گئے تو اس نے ان سے کہاکہ مسلم بن عقیل علیہ السلام کو حاکم کے سامنے پیش کرو۔(ج٥ ،ص ٣٦٦) جب جناب مسلم دارالامارہ کے دروازہ پر پہنچے اور پانی مانگا تو اس نے آپ کو برابھلاکہا (ج٥، ص ٣٧٦) پھر یہ مصعب بن زبیر کا حامی ہوگیا تو مصعب نے اسے ابن حر جعفی سے جنگ کے لئے بھیجا لیکن ٦٨ھ میں یہ وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ (ج٦، ص١٣٢) یہ مصعب کے وزیر کی طرح تھا ۔(ج٦ ، ص١٣٦) یہ مصعب کے ساتھ دیر جاثلیق میں اس جنگ میں مار ڈالاگیا جو ٧١ھ میں مروان کے ساتھ ہوئی تھی۔ (ج٦،ص ١٥٨) یہ دولت کا بڑا لالچی تھا (ج٥، ص ٤٣٢) اس کے ٧ بیٹے تھے ١۔ قتیبہ٢۔ عبدالرحمن ٣۔ عبداللہ ٤۔ عبیداللہ ٥ ۔ صالح ٦۔ بشار ٧۔ محمد(ج٦، ص ٥١٦) باپ کے بعد سب کے سب حجاج بن یوسف کے طرفدار ہوگئے تواس نے ٨٦ھ میں قتیبہ کو خراسان کا حاکم بنا دیا۔ (ج٦،ص ٤٢٤) اس نے جنگ کر کے بیرجند ما نوشکث ، وارمین ، بخارا ،شومان ، کش ، نسف ، خام جز ، سمر قند ، شوش ، فرگانہ ، کاشمر ، صا لح نیزک ، سغد ، اور خوارزم شاہ کو فتح کر لیااور ٩٦ھ میں اپنے بھائی کے ہمراہ قتل کر دیا گیا۔(ج٦ ،ص ٤٢٩ ۔ ٥٠٦)

۱۴۷

اہل بصرہ کے نام امام علیہ السلام کا خط

امام حسین علیہ السلام نے اہل بصرہ کے نام ایک خط لکھا جسے سلیمان(١) نامی اپنے ایک غلام کے ہاتھوں بصر ہ کے پانچ علاقوں(٢) کے رئیس اور اسی طرح اشراف بصرہ مالک بن مسمع بکری(٣) اخنف بن قیس(٤) منذر بن جارود(٥) مسعود بن عمرو(٦) قیس بن ہیثم(٧) او ر عمرو بن عبید اللہ بن معمر کے پاس روانہ کیا۔

____________________

١۔ امام حسین علیہ السلام نے جس قاصد کو خط بصرہ کی طرف روانہ کیاتھااس کے نام میں اختلاف ہے۔یہا ں اس روایت میں اس کانام سلیمان ہے۔ اسی طرح مقتل خوارزمی کی(ج١،ص١٩٩)میں اعثم کوفی کے حوالے سے بھی یہی نام مذکور ہے ۔لہوف میں بھی یہی نام ہے لیکن کنیت ابورزین ہے جو اس کے باپ کا نام ہے۔ اس کی ما ں کانام کبشہ ہے جوامام حسین علیہ السلام کی کنیز تھی یہ خاتون امام حسین علیہ السلام کی ایک زوجہ ام اسحاق تمیمہ کی خدمت گذار تھی۔ ابورزین نے اسی خاتون سے شادی کی تو سلیمان دنیا میں آئے۔ابن نما نے مثیر الاحزان میں لکھا ہے کہ امام نے یہ خط ذریعے بسد وسی کے ہاتھ روانہ کیا۔ ابن امین نے لواعج الاشجان، ص٣٦پر لکھا ہے کہ امام نے ان دونو ں کے ہمراہ خط روانہ کیاتھا۔

٢۔بصرہ پانچ قبیلو ں پرمنقسم تھا اور ہر قبیلہ کا ایک رئیس تھا۔

٣۔ مالک بن مسمع البکری جحدری : یہ بصرہ میں قبیلہ بنی بکر بن وائل سے متعلق تھے(طبری، ج٤،ص٥٠٥)شکست کے دن مروان بن حکم کے یہا ں پناہ لی۔ اس کے بعد بنی مروان اس کی حفاظت کرتے رہے اور اپنے درمیان اس کے ذریعہ سے فائدہ حاصل کرتے رہے اور خود کو صاحب شرف سمجھتے رہے (طبری، ج٤،ص٥٣٦) اسکی رائے بنی امیہ کی طرف مائل تھی لہذاابن حضرمی کے خلاف جسے معاویہ نے بصرہ روانہ کیاتھااس نے ابن زیاد کی اس وقت مدد نہ کی جب وہ اپنی طرف دعوت دے رہاتھا۔(طبری، ج٥،ص١١٠)یہ وہی ہے جس نے یزید کی ہلاکت کے بعدابن مرجانہ کی بیعت کرلی لیکن پھر اس نے اس کی بیعت کو توڑ دیا۔ اس کے بعد ایک جماعت کے ہمراہ بیت المال پر قبضہ کر کے اسے غارت کر دیا(طبری، ج ٥،ص٥٠٥) پھر یہ اس بات پر متہم ہو گیا کہ یہ چاہتا ہے کہ ابن زیاد کو دوبارہ بصرہ کے دارالامارہ کی طرف لوٹادے۔ (طبری ،ج٥، ص٥١٢)مالک بن مسمع ، بکربن وائل جو ربیعہ یمن سے متعلق تھے کا مملوک تھا اور یہ سب کے سب ہم پیمان تھے ۔یہ بنو قیس اور انکے حلیفو ں کے ہم پیمان تھے۔ اسی طرح غزہ ، شیع اللات اور ان کے حلیفو ں کے ہم پیمان تھے۔عجل ، آ ل؛ ذھل بن ثعلبہ اور ان کے ہم پیمان تھے۔ یشکر ، وضیعہ بن ربیعہ بن نزار یہ سب کے سب خانہ بدوش تھے اور حنیفہ شہر نشین تھے (طبری، ج٥ ،ص ٥١٥) پھر جب معاویہ کی خلافت کے آخری ایام اور یزید بن معاویہ کی حکومت کے ابتدائی دنو ں میں قبیلہ'' ازد'' کے افراد بصرہ میں آکر ان سے ملحق ہوگئے تو مالک بن مسمع بھی ان کے ہمراہ آیا

۱۴۸

اور ان کے ہمراہ تجدید پیمان کیا۔ (طبری ،ج٥، ص ٥١٦) ٦٤ھ میں ایک بار پھر تجدید پیمان کیا۔ان کے مقابلہ میں مسعود بن عمر و المعنی تھا ۔وہ سب کے سب عبداللہ بن حارث بن نوفل بن عبد المطلب قرشی ہاشمی سے مقابلہ کے لئے نکلے تاکہ ابن زیاد کو دارالامارہ کی طرف لوٹاسکی ں ۔ اس میں ان کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑااور مالک بن مسمع کا گھر جلادیا گیا۔ (طبری، ج٥، ص ٥٢١) اس نے غیرت میں آکربصرہ میں مختار کے ساتھیو ں سے دفاع کیا اور اس کی کچھ پرواہ نہ کی کہ مخالفین کاہم پیمان ہے۔(طبری، ج٦، ص ٦٨) پھر مصعب اور مختار کی جنگ میں قبیلہ بکربن وائل کا مخالف ہوگیا (طبری ،ج٦،ص ٩٥) پھر خالد بن عبداللہ بن خالد بن اسید نے اس کی مدد کی۔ یہ خالد وہی ہے جسے عبدالملک بن مروان نے بصرہ بلایا تھا ، بعد میں اس نے خالد کے ساتھ جنگ کی یہا ں تک کہ اس کی آنکھو ں پر چوٹ آگئی تو جنگ سے گھبراگیا پھر اس نے عبیداللہ بن عبیداللہ بن معمرجانشین مصعب سے امن کی درخواست کی تو اس نے امان دے دیالیکن یہ مصعب سے خوف زدہ ہوگیا اوراپنی قوم کے ساتھ ''قبیلۂ ثاج'' میں ملحق ہوگیا۔ (طبری، ج٦ ،ص ١٥٥) اس کے بعد اس کاکوئی پتہ نہیں ملتا ۔

٤۔اخنف کا نام صخرہ بن قیس ابو بحر سعدی ہے۔یہ عباس بن عبد المطلب سے روایت نقل کرتاہے(طبری ج١،ص٢٦٣)١٧ھمیں عتبہ بن غزوان نے اہل بصرہ کے ایک وفد کے ہمراہ اسے عمر کے پاس بھیجا(طبری ،ج٤،ص٨١)اور اہل بصرہ نے اہل فارس میں سے جن لوگو ں سے ١٧ھ میں جنگ کی اس نے بھی انہی کے ہمراہ جنگ کی عمر نے اسے خراسان کی پرچم داری دے کے فتح کے لئے بھیجا جو خود اسی کی رائے تھی (طبری، ج ٤ ، ص ٩٤)،پھر اس نے یزد جرد پر حملہ کرکے اسے قتل کردیا۔ (طبری، ج٤،ص ١٧١) ہرات کو ٣١ھ میں فتح کرلیا (طبری ،ج٤،ص ٣٠١)اور'' مرودود'' اہل بلخ سے صلح کرلی۔ (طبری ،ج٤،ص ٣١٠ ۔ ٣١٣) یہ بصرہ کے ان لوگو ں میں سے ہے جنہیں عایشہ نے خط لکھا تھا (طبری، ج٤،ص ٤٦١)بصرہ کے فتنہ میں اس نے حضرت علی علیہ السلام کے خلاف خروج کیا حضرت نے اسے اس کی قوم کے ہمراہ جنگ سے الگ رہنے کی دعوت دی تو اس نے اپنی قوم کو بلایا اور قوم نے بھی لبیک کہا پھر وہ ان کے ہمراہ کنارہ کش ہوگیا۔ جب جنگ میں حضرت امیرامومنین علیہ السلام کو کامیابی حاصل ہوئی تو یہ ١٠ہزار یا ٦ہزار لوگو ں کے ساتھ حضرت کے پاس آگیا۔(طبری ،ج ٤،ص ٤٩٧۔ ٤٦٨) بعض روایتو ں میں ٤ہزار بھی ہے۔ (طبری، ج ٤،ص ٥٠١) وہا ں پہنچ کر رات میں حضرت کے ہاتھو ں پر بیعت کی(طبری، ج ٤،ص٥٤١) پھر علی علیہ السلام کے پاس کوفہ آیا اور بصرہ میں اپنے قبیلہ والو ں کو لکھاکہ فوراًکوفہ آجائی ں تاکہ صفین کی جنگ میں پہنچ سکی ں پس وہ سب کے سب وہا ں سے سامان سفر باندھ کر عازم ہوگئے۔ (واقعہ صفین، ص ٢٤)جنگ صفین میں یہ قبیلہ تمیم ، ضبہ اور رباب کی سربراہی کر رہاتھا (صفین، ص ١١٧) لیکن اسے خوف تھا کہ عرب اس کے ہاتھ سے نکل جائی ں گے۔(صفین، ص ٣٨٧)

حَکَمیت کے سلسلہ میں اس نے حضرت پر بہت زور ڈالا کہ اسے حَکَم بنایاجائے کیونکہ ابوموسیٰ ایک سست اور نرم خو آدمی ہے لیکن اس پر اشعث بن قیس بھڑک اٹھااوراس کی حمیت کا انکار کردیا ۔(صفین، ٥٠١) جنگ صفین میں اس نے مولائے کائنات سے اس بات پر پرخاش کی کہ اس کا نا م مومنین کی امارت سے کیو ں حذف ہوا ۔(صفین ،٥٠٨) جب حکمیت کی قرارداد پڑھ کر

۱۴۹

سنانے کے لئے اشعث آیا تو اس نے اسے رد کردیا اور بنی تمیم کے ایک شخص نے اس پر حملہ کردیا تویمن والے قبیلۂ بنی تمیم سے انتقام لینے کے لئے آگئے ؛اس پر احنف نے بات کو ٹالا (صفین، ص٥١٣) اور اس نے ابو موسیٰ کو نصیحت کی تھی کہ دیکھو تم دھوکہ کھانے سے بچنا۔ (صفین ،ص٥٣٦) یہ بنی ہاشم کے ہمراہ حضرت علی علیہ السلام کی مشاورتی کمیٹی میں تھا۔ (طبری، ج٥،ص ٥٣) بنی تمیم کے ١٥٠٠جوانو ں کے ساتھ دوبارہ اس نے صفین کی طرف خروج کیا۔ (طبری ،ج٥،ص ٧٨) ٥٠ ھمیں یہ معاویہ کے پاس پہنچااور اس سے ایک لاکھ کی اجازت لی۔ (طبری ،ج ٥،ص ٢٤٢) ٥٩ھ میں ابن زیاد نے اسے معاویہ کے پاس روانہ کیا تواسے معاویہ کے پاس سب سے آخر میں پہنچایا گیا۔(طبری ،ج ٥،ص ٣١٧) یزید کے بعد اس نے عبیداللہ بن زیاد کی بیعت کر لی تاکہ وہ بصرہ کا امیر ہوجائے۔ (طبری ،ج ٥،ص ٥٠٧) اور اس سے عہد وپیمان لیا کہ وہ ابن زبیر کے بلانے پر آیا ہے لہٰذاجب اس نے دیکھاکہ اس کی ممانعت ہورہی ہے تو خود ہی الگ ہوگیا ۔(طبری ،ج٥،ص٥٠٨)

جب قبیلہ ''ازد ''نے جنگ کے بعد چاہا کہ ابن زیاد کو دارالامارہ کی طرف لوٹائی ں تو بنوتمیم احنف کے پاس جمع ہوئے اور ابن زیاد کے دوبارہ حکومت میں لوٹنے کے سلسلہ میں شکایت کی اور یہ بھی شکوہ کیا کہ بنی تمیم کا ایک شخص قبیلہ ازد کے ہاتھو ں قتل ہوا ہے تو احنف نے بنی تمیم کے ہمراہ خون خواہی اور انتقام میں ان پر حملہ کردیایہا ں تک کہ ان لوگو ں نے مسعود بن عمر ،زعیم ازد اور مجیر بن زیاد کو قتل کردیا۔ یہ صورت حال دیکھ کر ابن زیاد وہا ں سے شام بھاگ نکلا (طبری ،ج٥،ص ٥١٩) پھراس نے ابن زبیرکے ہاتھو ں پر بیعت کرلی۔ (طبری، ج٥،ص ٦١٥) پھر اس نے مصعب بن زبیر کے ہمراہ ٦٧ھ میں مختار سے جنگ کی۔ (طبری، ج٦،ص ٩٥) اسی نے مصعب کو اشارہ کیا تھا کہ مختار کے ان ساتھیو ں کو بھی قتل کر دو جنہو ں نے ہتھیار ڈال دیا ہے۔ (طبری ،ج٦،ص ١١٦) ٧١ھمیں احنف کی آنکھی ں بند ہوگئی ں (طبری ،ج٦،ص ٥٧ ا)

٥۔ منذر ابن جارودجنگ جمل میں حضرت علی علیہ السلام کے لشکر میں قبیلہ جذعہ اور قبیلہ عبد قیس کے خاندان بکر کا سربراہ تھا ۔(طبری، ج٥،ص٥٠٥) اس کی بیٹی ''بحریہ ''ابن زیاد کی بیوی تھی۔ جب یزید بن مفرغ حمیری نے آل زیاد کو پریشان کیا تو انھی ں منذرہی نے پناہ دی تھی اور ابن زیاد نے اسے پناہ نہیں دی ہے (طبری، ج ٥،ص ٣١٨) بعدمیں ابن زیاد نے اسے ہندوستان میں سندھ کے علاقہ کا والی بنادیا ۔ اصابة، ج٣،ص ٤٨٠ کے بیان کے مطابق ٦٢ھ میں اس کی وفات ہوئی۔

٦۔ مسعود بن عمرو بن عدی ازدی یہ بصرہ کی جنگ میں قبیلہ ازد کا قائد تھا۔ (طبری ،ج٤،ص ٥٠٥) اسی نے ابن مرجانہ کو اس وقت پناہ دی تھی جب لوگو ں نے اسے برابھلا کہاتھا اور اسکا بائیکاٹ کردیا تھا ۔یہ یزید کی موت کے بعد وہا ں ٩٠دنو ں تک ٹھہرارہا پھروہا ں سے شام نکل گیا۔ (طبری ،ج٥،ص ٥٢٢)مسعود نے ابن زیاد کے ہمراہ قبلیہ ''ازد ''کے ١٠٠افراد بھیجے جن پر قرہ بن عروہ بن قیس کو سربراہ بنایا یہا ں تک کہ یہ سب ابن زیاد کے ساتھ شام پہنچے۔(طبری ،ج٥،ص ٥٢٢)جب وہ شام کی طرف جارہاتھا۔ مسعود بن عمرو نے بصرہ کی حکومت کی درخواست کی اوروہ اپنی قوم سے نکلا یہا ں تک کہ بصرہ پہنچا۔ (طبری، ج٥،ص ٥٢٥)

۱۵۰

داخلہ کے بعد خوارج کا ایک گروہ آیا اور مسجد میں داخل ہوا ۔اس وقت مسعود منبر پر بیٹھاہر اس شخص سے بیعت لے رہاتھا جو وہا ں آرہاتھا۔ اس پر مسلم جو فارس کا رہنے والا تھا اور ابھی بصرہ میں آیا تھا اعتراض کیا پھر مسلمان ہوکر گروہ خوارج میں داخل ہوگیا۔ (طبری ،ج٥،ص ٥٢٥) یہ سب کے سب ٤٠٠ افراد تھے جن کاتعلق بصرہ کی'' اساورْ''قوم سے تھا جنہیں آشوریین بھی کہاجاتاہے۔ یہ بصرہ کی قدیم ترین قوم ہے (طبری ،ج٥،ص ٥١٩) یا''ماہ آفریدون'' کے ہمراہ ٥٠٠ افراد تھے جو بنی تمیم کی نمایندگی کررہے تھے اس پر سلمہ نے اس سے کہا : تم لوگ کا کہا ں کا ارادہ ہے ؟ تو ان لوگو ں نے کہا : تمہاری ہی طرف !تو اس نے کہا : تو آجاؤ!یہ سب کے سب آگئے۔ (طبری، ج٥،ص ٥١٨) پس ان لوگو ں نے اس کے قلب کو نشانہ بنایااور اس کو قتل کرکے نکل گئے ۔اس پر قبیلہ'' ازد ''نے ان کی طرف خروج کیا اور ان میں سے بعض کو قتل اور بعض کو مجروح کردیایہا ں تک کہ ان کو بصرہ سے نکال دیا۔ اور بنی تمیم کے کچھ لوگو ں نے تصدیق کی کہ یہ وہی لوگ ہیں جو ان کی طرف بھیجے گئے تھے اور انہیں بصرہ لے کر آئے تھے ، پھر بنی تمیم اور ازد کی مڈ بھیڑمیں دونو ں طرف سے اچھے خاصے لوگ مار ے گئے ،آخر کار ایک لاکھ درھم دیت پر ان لوگو ں کے درمیان صلح ہوئی۔(طبری ،ج٥،ص ٥٢٦)

٧۔ قیس بن ھیثم سلمی: ٣٢ھ میں عبداللہ بن عامر نے مذکورہ شخص کو اس کے چچا عبداللہ بن خازم کے ہمراہ خراسان کا حاکم بنا دیا ۔ جب عبدللہ بن عامر وہا ں سے نکلنے لگا تو اس نے ہرات ، قھستان ؛طبس اور بادغیس سے ٤٠ہزار تیر اندازو ں کوجمع کیا؛پس ابن عامر سے جو عہد تھا کہ ابن خازم خراسان کا امیررہے گااس سے صرف نظر کرتے ہوئے اسے نکال دیا۔اس نے ایسا کام جان بوجھ کرکیا تھاپھراسے اس شہر سے نکال دیا۔(طبری ،ج ٤،ص٣١٤)وہ وہا ں سے بصرہ آیاتو یہ عثمان کے خلاف شورش کازمانہ تھا۔ عبداللہ بن عامرکے حوالے سے عثمان نے اہل بصرہ سے مدد مانگی تھی۔ عبداللہ بن عامر نے لوگو ں سے مدد کی درخواست کی اس پر قیس بن ھیثم کھڑاہوااور تقریرکرتے ہوئے اس نے لوگو ں کو عثمان کی مددکے لئے اکسایا،جس پر سب کے سب جلدی جلدی اس کے پاس آگئے اور وہا ں آئے جہا ں عثمان کا قتل ہواتھا؛پھر واپس پلٹ گئے۔ (طبری، ج٥،ص٣٦٩)ایک قول یہ ہے کہ یہ معاویہ کے عہد میں ٤١ھ میں عبداللہ بن عامرکی گورنری میں بصرہ کی پولس کا سربراہ تھا (طبری ،ج٥،ص ١٧٠) پھر ٢سال کے بعد ابن عامرنے اسے خراسان کا والی بنا کر بھیجا۔(طبری ،ج٥،ص١٧٢) وہا ں اس نے خراج لینے میں سستی دکھائی تو عبداللہ بن عامر نے اسے معزول کرنا چاہا ۔عبداللہ خازم نے چاہا کہ اس کو وہا ں کی ولایت دے دی جائے۔ جب وہ یہ لکھنا چاہ رہا تھا وہا ں قیس پہنچ گیا اور یہ د یکھ کر اس نے خراسان چھوڑدیا اور آگے بڑھ گیا، اس پر ابن عامر نے اسے ١٠٠کوڑے لگاکر ہتھکڑی بیڑ ی ڈال کر قید کردیا۔ (طبری، ج٥،ص ٢٠٩) یہ قیس اسی ابن عامر کے ماموؤ ں میں شمار ہوتا تھا۔اس واقعہ کو سن کر اس کی ما ں نے اسے بلایا اس پر اس نے قیس کو وہا ں سے نکال دیا (طبری ،ج٥،ص ٢١٠) اور ٤٤ھ میں قبیلہ بنی لشکر کی ایک فرد جس کا نام طفیل بن عوف یشکری یا عبداللہ بنابی شیخ یشکری تھا خراسان روانہ کردیا (طبری ،ج٥،ص ٢٠٩۔ ٢١٣) پھرقیس بن ھیثم پر اسے ترس آگیا اور اسکی حالت دیکھ کر پریشان ہوگیا لہٰذا اسے بصرہ کا حاکم بنادیا ۔یہ اس وقت کی بات ہے جب معاویہ بصرہ آرہا تھا(طبری ،ج ٥،ص ٢١٣) بصرہ پہنچ کر معاویہ نے اپنی بیٹی ہند

۱۵۱

سے اس کی شادی کر دی پھر ٤٤ ھ میں اسے بصرہ سے معزول کردیا۔ ٤٥ھ میں معاویہ نے زیاد بن سمیہ کو بصرہ کا والی بنا دیا پس اس نے قیس بن ھیثم کو ''مرود الروز'' ، ''فاریاب '' اور ''طالقان''بھیجا (طبری، ج٥،ص ٢٢٤) پھر ٦١ھمیں امام حسین علیہ السلام کے قتل کے بعد یزید بن معاویہ کی طرف سے عبد الرحمن بن زیاد کے بدلے خراسان کا حاکم بنا یا گیا ۔یہ اس وقت کی بات ہے جب عبد الرحمن نے یزید کے پاس آنا چاہا تو یزید نے اسے معزول کر دیا پس قیس بن ھیثم بھی معزول ہو گیا (طبری ،ج٥،ص ٣١٦) جب یزید ہلاک ہوا تو قیس بصرہ میں تھا ۔ضحاک بن قیس نے اسے خط لکھ کر اپنی طرف بلایا (طبری ،ج ٥ ،ص ٥٠٤) قیس بن ھیثم اس وقت نعمان بن صھبان راسبی کا ہمراہی تھا جب یہ فیصلہ ہورہا تھا کہ ابن زیاد کے بعد بنی امیہ میں ولایت کا حق کس کو دیا جا ئے توان دونو ں کی اتفاق رائے مضرّی ہاشمی پر ہوئی۔ (طبری، ج٥،ص ٥١٣) مثنی بن مخربہ عبدی بصری جو ٦٦ ھ میں لوگو ں کو مختار کی طرف بلا رہاتھا اس کے مقابلہ میں جنگ کے لئے آیا۔یہ بصرہ میں ابن زبیر کے ہمراہ ہم شرطا ورہم ،قتال تھا ۔(طبری، ج ٦،ص ٦٧) ٦٧ھ میں مصعب بن زبیر کے ہمراہ مختار سے جنگ کے لئے آیا تھااور لشکر ابن زبیر کی ٥ اہم شخصیتو ں میں شمار ہوتا ہے۔(طبری، ج٦ ،ص ٩٥) ٧١ھمیں یہ لوگو ں کو پیسہ دے کر لارہاتھا تا کہ وہ ابن زبیر کے حق میں اس کے ساتھ خالد بن عبداللہ کے مقابلہ میں لڑی ں جو عبد الملک بن مروان کا بیٹا بنا ہوا تھا (طبری ،ج ٦، ص ٧١) اور وہ اہل عراق کو مصعب کے ساتھ لڑانے سے بر حذر کرتا تھا (طبری ،ج ٦، ص ١٥٧) اس کے سلسلہ میں آخری تحقیق یہی ہے۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ٧١ھمیں مصعب کے سپاہیو ں کے ساتھ عبد الملک بن مروان کے ہاتھو ں قتل ہوگیا ہو۔

۱۵۲

اس خط کا مضمون یہ تھا :''اما بعد : فان الله اصطفیٰ محمد صلی اللّٰه علیه (وآله) وسلم علی خلقه، أکرمه بنبوّته،واختاره لرسالته ، ثم قبضه اللّٰه الیه و قد نصح لعباده وبلغ ما أرسل به صلیّ اللّٰه علیه (وآله) وسلّم و کنّاأهله وأولیاء ه و أوصیائه و ورثته وأحق الناس بمقامه فی الناس ، فاستأثر علینا قومنا بذالک ، فرضینا و کرهنا الفرقة واحببنا العافية ، نحن نعلم انّا أحقّ بذالک الحق المستحق علینا ممن تولاّه ''(١)

و قد أحسنو ا و أصلحوا و تحروا الحق قد بعثت رسول ألیکم بهذاالکتاب وأنا أدعوکم الی کتاب اللّٰه و سنّة نبيّه صلّی اللّٰه علیه(و آله) وسلّم فانّ السنّة قد اُمیتت وأن البدعةقد اُحییت و أن تسمعو ا قول و تطیعوا أمر أهدکم سبیل الر شاد،والسلام علیکم و رحمة اللّٰه''

____________________

١۔ اس سے یہ بات ثابت ہو تی ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کا اپنی حق تلفی کو برداشت کرنا فقط افتراق کے خوف اور شر سے بچنے کے لئے تھا، نہ کہ وہ لوگ رضاورغبت سے اس زندگی کو گذاررہے تھے ۔یہی اس خاندان کی فضیلت ہے کہ اپنے فائدہ کو امت کے فائدہ پر قربان کرتے ہیں ۔

۱۵۳

امابعد : خدا وندعالم نے محمد صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم کو اپنی مخلو قات میں چن لیا اور اپنی نبوت کے ذریعہ انھیں با کرامت بنایا،اور اپنی رسالت کے لئے انھیں منتخب کر لیا، پھرخدا وند عالم نے ان کی روح کو قبض کرلیا ۔حقیقت یہی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بندگا ن خدا کی خیر خواہی فرمائی ہے اور وہ سب کچھ پہنچا یا جس چیز کے ہمراہ ان کو بھیجا گیا تھا۔ جان لو کہ ہم ان کے اہل ، اولیائ، اوصیاء اور وارث ہیں جو دنیا کے تمام لوگوں میں ان کے مقام و منزلت کے سب سے زیادہ مستحق ہیں لیکن ہماری ہی قوم نے ظلم وستم کر کے ہمارا حق چھین لیا ۔ ہم اس پر راضی ہو گئے، افتراق کو بُرا سمجھا اور امت کی عافیت کو پسند کیا جبکہ یہ بات ہم کو بخوبی معلوم ہے کہ اس حق کے سب سے زیادہ مستحق ہم ہی ہیں اور اب تک جن لوگوں نے حکومت کی ہے ان میں نیکی ، صلح اورحق کی آزادی میں ہم ہی اولی ہیں ۔ اب میں نے تمہارے پاس اپنا یہ خط روانہ کیا ہے اور میں تم کو کتاب خدا اور اس کے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت کی طرف دعوت دے رہا ہوں ؛ کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ سنت کو مردہ اور بدعت کو زندہ کیا گیا ہے۔ اب اگر تم میری بات سنتے ہواورمیرے کہے پر عمل کرتے ہو تومیں تم کو رشد و ہدایت کے راستے کی ہدایت کروں گا ۔ والسلام علیکم و رحمة اللہ

بصرہ کے اشراف میں سے جس کسی نے بھی اس خط کو پڑھا اس کو راز میں رکھا لیکن منذر بن جارود نے خوف و ہراس میں آکر یہ سمجھاکہ سلیمان، عبید اللہ بن زیاد کا جاسوس ہے اور یہ خط اسی کا ہے۔ اسی پندار باطل کے نتیجے میں وہ سلیمان کواسی رات ابن زیاد کے پاس لے کر آیا جس کی صبح کووہ کوفہ کے لئے عازم تھا اور اس کا خط اس کے سامنے پڑھ کر سنادیا۔اس جلاد صفت آدمی نے اس نامہ بر کوبلا کر اس کی گردن کاٹ دی اور بصرہ کے منبر پر براجمان ہوکر خطبہ دیا ۔

۱۵۴

بصرہ میں ابن زیاد کا خطبہ

حمد و ثنائے الہٰی کے بعد اس نے کہا: ''اے بصرہ والو ! میں یہاں کا حکمراں اور فرمانرواہوں ۔ میں کسی کو اس کی اجازت نہیں دوں گا کہ کوئی میری اجازت کے بغیر اپنی زبان پر کوئی حکم جاری کرے اور میرے لئے مشکل ایجاد کرے۔ مجھے مشکلات سے کوئی ڈر نہیں ہے، نہ ہی میں بید ہوں کہ ہواؤں سے لرزجاؤں ؛جو بھی مجھ سے مبارزہ کرے گا اس کے ساتھ سختی سے پیش آکر اسے درہم و برہم کردوں گا اور جو مجھ سے جنگ کرے گا میں اسے ذلیل کر کے نابود کردوں گا ۔(أنصف القارّة من راماها )(١)

اے بصرہ والو! امیر المومنین نے مجھے کوفہ کا والی بنایا ہے اور کل صبح میں وہاں جارہاہوں یہاں میں نے تمہارے لئے عثمان بن زیاد بن ابو سفیان کو حاکم بنایا ہے۔ آگاہ ہوجاؤکہ ان کی مخالفت اور ان کے خلاف سازش سے پرہیز کرو!اس خدا کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اگر مجھے کسی طرف سے ذرہ برابر بھی مخالفت کی خبر مل گئی تو اسے اور اس کے سربراہ اور دوستوں کو قتل کردوں گا اوریہ سلسلہ جاری رہے گا یہاں تک کہ تم لوگ میرے فرمانبردار ہوجاؤ اور تم میں کوئی مخالف اور جدائی پیدا کرنے والا نہ رہے ۔

میں ابن زیاد ہوں اور میں اپنے باپ سے بہت زیادہ شباہت رکھتاہوں ۔ماموں اور چچا کے بیٹوں کی شباہت مجھے اس سے جدانہیں کرسکتی۔(٢)

____________________

١۔ طبری میں اسی طرح موجود ہے۔ یہ جملہ در واقع قبیلہ ''قارّہ '' کے ایک جنگجو کے رجز کا ایک ٹکڑا ہے۔ زمان جاہلیت میں یہ قبیلہ تیر اندازی میں بہت معروف تھا ۔اس قبیلہ کا ایک جوان جب دوسرے گروہ سے مقابلہ پر آیا تو '' قارّی'' نے اس سے کہا : اگر تم چاہو تو میں سبقت کرو ں اور اگر چاہو تو میں سرعت دکھاو ں یا میں تیراندازی کرو ں تو اس نے کہا : میں نے تیر اندازی کو اختیار کیا ہے اس پر مرد قارّی نے کہا

قد انصف القارّ ةمن راماها

اِنّا اذاما فئةنلقاها

نردّ أولاها علی أُخراها

یہ کہہ کر اس نے تیر اس کی طرف چلایا جو اس کے سینہ کو چھید گیا۔ شاید یہ جملہ کہہ کر ابن زیاد نے اسی شعر کی طرف اشارہ کیا ہو کیونکہ بنی امیہ بھی اس قبیلہ کی طرح اسی فن تیر اندازی میں ماہر تھے۔

٢۔اپنے باپ کی شباہت کا تذکرہ کرکے یہ بیان کرنا چاہتاہے کہ میں بھی اپنے باپ کی طرح ظلم و جور و تشدد و انتقام کا پیکر ہو ں ۔ اپنے مامو ں کا حوالہ نہیں دیتا کیونکہ وہ عجمی ہے اور نہ ہی چچا زاد بھائی یزید کا جو رنگینیو ں ، مستیو ں ، کھیل ، کود ، عیش و نوش ، گانے بجانے کی محفلو ں اور شکار میں معروف ہے لہٰذا اس کی شباہت سے بھی انکار کردیا ۔سبط بن جوزی نے اس خبر کو تذکرة الخواص میں ذکر کیا ہے۔(ص ١٩٩)

۱۵۵

کوفہ میں ابن زیاد کا داخلہ

یہ خطبہ دے کر ابن زیاد دوسرے دن صبح کوفہ کی طرف روانہ ہوگیا اس کے ہمراہ مسلم بن عمرو باھلی (جس کاتذکر ہ گذرچکاہے) شریک بن اعور حارثی(١) اور اس کے نوکر چاکر نیز خاندان کے تقریباً١٠ افراد تھے(٢) ۔ جب وہ کوفہ میں وارد ہوا تو اس کے سر پر سیاہ عمامہ تھااورایک خاص انداز سے اپنے چہرے کو چھپارکھا تھاجس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کوفہ والے جن کو امام حسین علیہ السلام کی آمد کی خبر ملی تھی اوروہ امام علیہ السلام کے انتظار میں تھے،ابن زیاد کو اس طرح دیکھ کر یہ سمجھے کہ یہ امام علیہ السلام ہیں لہذا وہ جس طرف سے گذر رہاتھا لوگ اسے سلام کررہے تھے اور کہہ رہے تھے ''مرحباًبک یابن رسول اللّہ'' فرزند رسول خداآپ کا آنا مبارک ہو! آپ کا قدم مبارک! خیر مقدم ہے ، جب اس نے دیکھا کہ یہ ساری مبارکبادی امام حسین علیہ السلام کی خوشی میں ہے تو اسے برالگا اور اسے غصہ آگیا اور اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا : کیا تم لوگ بھی وہی دیکھ رہے ہو جو میں دیکھ رہاہوں ؟یہ لوگ کیا سمجھ رہے ہیں اور کس کا استقبال کررہے ہیں ؟جب فرزند رسول کی آمد کے تصور پر بھیڑ کنٹرول سے باہر ہوگئی تو ابن زیاد کے ہمراہیوں میں سے مسلم بن عمرو باھلی نے کہا : رک جاؤ تم لوگ کس دھوکہ میں ہو ،یہ امیر عبید اللہ بن زیاد ہے،نہ کہ حسین بن علی ، جب وہ محل میں داخل ہوگیا اور لوگوں نے سمجھ لیا کہ یہ عبیداللہ بن زیاد ہے تو اہل کوفہ شدید غمگین و محزون ہوئے ۔(٣)

____________________

١۔فارس کے حوض پر یہ شخص کا رگزار ہوا تو ٣١ھ میں وہا ں مسجد بنوادی۔ (طبری، ج ١،ص ٣٠)جنگ صفین میں حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ تھا۔ (طبری، ج٥ ،ص ٣٦١) حضرت علی علیہ السلام نے جاریہ بن قدامہ جو بنی تمیم کے رجال میں شمار ہوتا تھا ،کے ہمراہ اسے ابن حضرمی اور اس کے ان ساتھیو ں سے لڑنے کے لئے ٣٨ھمیں بصرہ روانہ کیا جنہو ں نے معاویہ کی دعوت کو لبیک کہاتھا ۔(طبری، ج٥ ،ص ١١٢) عبداللہ بن عامر نے قبیلہ ربیعہ کے٣٠٠جنگجو جوانو ں کے ساتھ اسے مستور بن علّفہ خارجی سے جنگ کے لئے بصرہ روانہ کیا ۔(طبری ،ج٥،ص ١٩٣) ٥٩ھ میں عبداللہ بن زیاد کی طرف سے کرمان کا والی بنایا گیا۔ (طبری ،ج٥،ص ٣٢١) کوفہ پہنچنے کے بعد یہ کچھ دنو ں زندہ رہا پھر مر گیا اور ابن زیاد نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ (طبری، ج ٥ ،ص ٣٦٤)

٢۔طبری نے عیسیٰ بن یزید کنانی سے روایت کی ہے کہ وہ کہتاہے : جب یزید کا خط عبیداللہ بن زیاد کو ملا تو اس نے بصرہ سے ٥٠٠ لوگو ں کو منتخب کیا جس میں عبداللہ بن حارث بن نوفل اور شریک بن اعور بھی تھا۔ (طبری ،ج٥،ص ٣٥٩)

٣۔ طبری ،ج ٥،ص ٣٥٧ ، ابو مخنف کا بیان ہے کہ اس مطلب کو مجھ سے صقعب بن زہیر نے ابو عثمان ہندی کے حوالے سے نقل کیا ہے۔یہ واقعہ شیخ مفید نے ارشاد کے ص٢٠٦ پر اور خوارزمی نے اپنے مقتل میں بھی ذکر کیا ہے۔(ص ٢٠٠)

۱۵۶

کوفہ میں داخلہ کے بعد ابن زیاد کا خطبہ

جب ابن زیاد قصر میں واردہواتودوسرے دن صبح کی نماز جماعت کا اعلان ہوا ۔اعلان ہوتے ہی لوگوں کی بھیڑ جمع ہوگئی ۔ ابن زیاد محل سے نکلا اورحمد و ثنائے الہٰی کے بعد بولا : اما بعد : امیرالمومنین(اللہ ان کو صحیح و سالم رکھے)نے مجھے تمہارے شہر اور اس کی سرحدوں کاامیر بنایاہے اور مجھے حکم دیاہے کہ تمہارے د رمیان مظلوموں کو انصاف اور محروموں کو ان کا حق دوں ،تمہارے درمیان جو میری باتیں سنے اور میرا مطیع ہو اس کے ساتھ نیکی کروں اورشک و تردید کرنے والوں اور معصیت کاروں کے ساتھ شدت سے پیش آؤں ۔یہ جان لو کہ میں تمہارے سلسلے میں اپنے امیر کے حرف حرف کاپابند ہوں اور میں ان کے عہدوپیمان کوتمہارے سلسلے میں نافذکرکے رہوں گا۔ میں تمہارے درمیان نیک کر دار اور فر مانبر دار لوگوں کے لئے باپ کی طرح ہوں ۔میراتازیانہ اور میری تلوار ہراس شخص کے لئے ہے جو میرے حکم اور میرے امر کی مخالفت کر ے گا ،پس جس کواپنی زندگی کاپاس ہوگا وہ میرے لئے نیک کردار اور راست بازہوگا ۔وعدوعید کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہ کہکر وہ منبر سے نیچے اترا اور شہر کے سر برآوردہ افرادسے بڑی سختی سے پیش آتے ہوئے کہنے لگا: تم لوگ ناشناس اور بیگانہ افراد کے سلسلے میں لکھ کرمجھے دواور وہ لوگ جن کی امیر المومنین کو تلاش ہے اور'' حروریہ''(١) والوں کے بارے میں بھی لکھ کرمجھے بتاؤ، اسی طرح وہ افراد جو شک و تردید کے ذریعہ اختلاف اور پھوٹ ڈالتے ہیں ان کے سلسلے میں بھی مجھے تحریر کرو ،یہ جان لو کہ جو بھی مجھے ان لوگوں کے سلسلے میں لکھ کر دے گاوہ آزاد ہے اورجو لکھ کر کسی ایک کے بارے میں بھی نہ دے گاوہ اپنی عرافت(٢) کے دائرہ میں ضامن ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ہماری مخالفت نہ کرے اور ان

____________________

١۔حروریہ سے مرادخوارج ہیں ۔یہ علاقہ، کوفہ کے قرب و نواح میں ہے چونکہ صفین سے پلٹتے وقت کوفہ پہنچنے سے پہلے یہ لوگ اس علاقہ میں جمع ہوئے اسی لئے انہیں حروریہ کہا جاتاہے ۔

٢۔ اس زمانے میں اشراف قبیلہ اور سر برآوردہ ا فراد جو مورد اعتماد حکومت ہوا کرتے تھے انہیں ''عرافة''کہا جاتاتھا۔ان کا کام یہ تھاکہ وہ حکومت کورعیت سے آشناکرائی ں اور بیت المال سے ان کے حقوق کو منظم کرائی ں ۔ کوفہ میں ١٠٠عریف تھے اہل کوفہ والو ں کے حقوق و بخشش وہا ں کے چار امراء کو دیئے جاتے تھے اور وہ اسے عرافہ، نقباء اور اْمناء کو دیا کرتے تھے اور یہ سربر آوردہ

اشراف،عرافہ اور نقباء اپنے قبیلہ والو ں میں اسے تقسیم کرتے تھے۔ (طبر،ی ج٤، ص ٤٩) ہر سال محرم میں یہ حقوق دیئے جاتے تھے۔ یہ حقوق ستارہ شعریٰ (جسکے طلوع ہونے سے گرمی بڑھ جا تی ہے) کے طلوع ہونے کے وقت تقسیم ہوتے تھے جو غلو ں کی حصو لیابی کا وقت ہے۔ (طبری ،ج ٤،ص ٤٣) یہ عرافة حتی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں بھی تھے ۔(ج٣،ص٤٤٨)

۱۵۷

میں سے کوئی بھی ہم سے بغاوت نہ کرے ، اور اگر کسی نے ایسا نہیں کیا تو میں اس سے بری الذمہ ہوں اور اس کا مال اور اس کی خون ریزی میرے لئے حلال ہے۔اگر کسی عریف کے دائرہ عرافت میں کوئی امیر المومنین کا باغی پیدا ہو اجس کی گرفتاری سے پہلے اس قبیلہ کے امیرنے ہمیں خبر نہ دی تو اس کے دروازے پر اسے تختہ دار پر لٹکادیا جا ئے گا اور اس قبیلے کے تمام لوگوں کے ماہانہ حقوق قطع کر دئے جائیں گے اورانھیں ''عمان زارہ''(١) کے علاقہ میں شہر بدر کر دیا جائے گا۔(٢)

مسلم ، ہانی کے گھر(٣)

مسلم بن عقیل، عبیداللہ کی آمد ،اس کا خطبہ اور عرافہ کے ساتھ اس کی رفتارکی خبر سننے کے بعد مختار کے گھر سے (یہ کام مختار کے علم میں ڈالکر انجام دیا تھا) نکل کر ہانی بن عروہ مرادی کے گھر پہنچے۔ ہانی کے دروازہ کے پاس آکر کسی کو بھیج کر ہانی کو بلوایا۔ ہانی فوراًنکلے لیکن مسلم کو یہاں دیکھ کر ان کا چہرہ اتر گیا تو

____________________

١۔ عمان زارہ وہی مشہورعمان ہے جو خلیج کے ساحل پر بحر عمان کے نزدیک ہے ۔یہ بہت گرم علاقہ اسی وجہ سے ابن زیاد نے وہا ں شہر بدر کرنے کا خوف دلایا تھاکیونکہ وہا ں زندگی بہت سخت ہے۔

٢۔طبری ،ج٥،ص ٣٥٨، ابو مخنف کا بیا ن ہے کہ اس مطلب کو مجھ سے معلی بن کلیب نے ابو وداک کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ (الارشاد ،ص ٢٠٢و تذکرة الخواص ،ص ٢٠٠)

٣۔ مسعودی کا بیان ہے : یہ قبیلہ مراد کے بزرگ و زعیم تھے۔ اس زمانے میں جب وہ سوار ہوتے تھے تو ٤ہزار زرہ پوش اور ٨ہزار پیدل سپاہی آپ کے ساتھ ہوتے تھے اور اگر وہ اپنے تمام ہم پیمانو ں کو پکار لیتے تو کندہ اور غیر کندہ ملاکر ٣٠ہزار زرہ پوش ان کے ساتھ ہوتے ۔(مروج الذہب، ج ٣،ص ٦٩) یہا ں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم بن عقیل مختار کے گھر سے نکل کر ہا نی بن عروہ کی پناہ میں کیو ں آئے ؟لیکن جیساکہ مسعودی نے کہا کہ جب ہانی ان قبیلو ں کے زعیم اور بزرگ تنہا رہ گئے توکوئی بھی دکھائی نہ دیا اور سب کے سب ابن زیادکے دھوکہ میں آکر سست ہوگئے اور ہانی کو چھوڑ دیا ۔طبقات بن سعد کے بیان کے مطابق ہانی اور ان کے باپ عروہ کا شمار صحابہ میں ہوتا ہے۔شہادت کے وقت انکا سن شریف ٨٠ یا ٩٠ سال تھا۔مبرد نے ''کامل'' میں کہا ہے کہ ہانی کے والد ، حجر بن عدی کے ساتھ خروج کرنے والو ں میں سے تھے لیکن زیاد بن ا بیہ نے ان کی سفارش کی تھی، یہی وجہ ہے کہ طبری کے بیان کے مطابق ابن زیاد نے ہانی سے کہا تھا : اے ہانی !کیاتم کو معلوم نہیں ہے کہ جب میرا باپ یہا ں آیا تھا تو اس نے اس شہر کے کسی شیعہ کو نہیں چھوڑا تھا مگر یہ کہ اسے قتل کر دیا تھا، فقط تمہارے باپ اور حجر کو رہنے دیا تھا اور حجر کے ساتھ کیا ہوایہ تم کو معلوم ہے۔ اس کے بعد تمہاری رفتار ہمیشہ اچھی رہی پھر تمہارے باپ نے امیر کوفہ کو لکھا کہ میری درخواست تم سے ہانی کے سلسلے میں ہے۔ ہانی نے جواب دیا:ہا ں مجھ کو معلوم ہے !اس پر ابن زیاد نے کہا : کیا اس کی جزا یہی تھی کہ تم اپنے گھر میں ایسے مرد کو چھپا کر رکھو جومجھ کو قتل کرنا چا ہتا ہے۔ (طبری، ج ٥ ، ص ٣٦١)

۱۵۸

مسلم نے کہا : ''آتیتک لتجیرنی و تضیفنی'' میں اسی لئے آیا ہوں کہ آپ مجھ کو پناہ دے کر اپنا مہمان بنالیں ۔اس پر ہانی نے کہا : اللہ آپ پر رحمتوں کی بارش کرے ؛آپ نے تو مجھے سخت تکلیف میں ڈال دیا؛ اگر آپ میرے گھر میں داخل نہ ہوچکے ہوتے اور میرے مورد اعتماد نہ ہوتے تو مجھے یہی پسند تھا اور میں آپ سے یہی درخواست کرتا کہ آپ میرے پاس سے چلے جائیں لیکن کیا کروں کہ میری گردن پر آپ کا بڑا حق ہے اور میں نے آپ سے عہد و پیمان باندھاہے۔میرے جیسا انسان آپ جیسے (صاحب عز و شرف) کو نا دانی میں یا حکومت کی شرارت کے خوف سے اپنے گھر سے نہیں نکال سکتا لہٰذا آپ قدم رنجہ فر ما ئیں ۔ یہ کہہ کر ہانی نے مسلم کو پناہ دیدی۔پناہ دینے کے بعد ہانی بن عروہ کے گھر شیعوں کی رفت و آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔(١) ہانی بن عرو ہ کے گھر میں آنے کے بعددرحالیکہ ١٨ ہزار لوگو ں نے مسلم بن عقیل کے ہاتھوں پر بیعت کی جناب مسلم بن عقیل نے امام حسین علیہ السلام کے نام ایک خط لکھ کر اسے عابس بن شبیب شاکری کے ہاتھوں روانہ کردیا۔(٢)

____________________

١۔ ابو مخنف نے معلی بن کلیب سے اور اس نے ابو وداک سے نقل کیا ہے۔ (طبری ،ج٥، ص ٣٦١)

٢۔ ابو مخنف کہتے ہیں کہ جعفر بن حذیفہ طا ئی نے مجھ سے اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔ (طبری، ج٥،ص ٣٦١)

۱۵۹

خط کا مضمون یہ تھا:

اما بعد : فان الرَائد لا یکذب أهله وقد بایعن من أهل الکوفة ثما نية عشر ألفا ، فعجّل الا قبال حین یاتیک کتاب ، فان الناس کلهم معک لیس ؛لهم فی آل معاوية رأی ولا هوی ، والسلام

اما بعد : ایلچی اپنے گھر والوں سے جھوٹ نہیں بولتا ہے۔ واقعیت یہ ہے کہ کوفہ کے ١٨ ہزار لوگوں نے میر ی بیعت کر لی ہے۔ اب میرا خط ملتے ہی آپ فوراً تشریف لایئے کیونکہ یہاں کے سارے لوگ آپ کے ساتھ ہیں ۔ خاندان معاویہ سے انکا کوئی قلبی تعلق نہیں ہے۔

قابل ذکر ہے کہ جناب مسلم نے یہ خط اپنی شہادت سے ٢٧ دن قبل لکھا تھا۔(١)

معقل شامی کی جاسوسی

ابن زیاد نے اپنے غلام کو بلا یا جس کا نام معقل تھا(٢) اور اس سے کہا : یہ ٣ ہزار درہم لو اور مسلم بن عقیل کی تلاش شرو ع کر دو اور ان کے یا رو مددگا ر اور ساتھیوں کی بھی تلاش شروع کردو پھر یہ ٣ہزار درہم ان لوگو ں کے ہاتھ میں دے کر یہ کہو کہ ان پیسوں سے اپنے دشمنوں سے جنگ کے لئے سامان مہیا کرو اور اس طرح یہ کام کرو کہ گویا تم انھیں کی ایک فرد ہو کیونکہ اتنی خطیر رقم جب تم ان لوگوں کو دوگے تو وہ لوگ تم پر اطمینان حاصل کرلیں گے اور تم پر اعتماد کر نے لگیں گے اور اپنی خبر یں تم سے نہیں چھپا ئیں گے اور صبح وشام رفت وآمد کا سلسلہ جاری رکھو ۔

معقل مسجد اعظم میں آیا تو مسلم بن عوسجہ اسدی کو پایا(٣) جو وہاں نماز پڑھ رہے تھے۔ یہ

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے محمد بن قیس نے یہ روایت نقل کی ہے (طبری، ج٥، ص ٣٩٥)

٢۔طبری نے عیسیٰ بن قیس کنانی سے روایت کی ہے کہ مسلم بن عقیل (علیہ السلام) کوفہ میں ابن زیاد سے ایک شب قبل پہنچے تھے اس کی خبر ابن زیاد کو کوفہ پہنچنے سے پہلے ہی دیدی گئی تھی تو اس نے بنی تمیم کے ایک غلام کو بلا یا اور اسے مال دے کر یہ کہا کہ اس کام کو انجام دو اور مال سے ان کو لبھاؤ واور ہانی و مسلم کو تلاش کر کے میرے پاس لے آؤ ۔(طبری ،ج ٥، ٣٦٠)

٣۔ شبث بن ربیع کا اپنے ساتھیو ں کے ساتھ یہ بیان ہے کہ جب مسلم بن عوسجہ کی شہادت پر دشمن کی فوج میں خوشیا ں منائی جانے لگی ں تو اس نے لوگو ں سے کہا :تمہاری مائی ں تمہارے غمو ں میں بیٹھی ں تم لوگ خودکو قتل کر کے دوسرو ں کو ذلیل کرنے کی کوشش کررہے ہو ۔تم کو اس کی خوشی ہے کہ مسلم بن عوسجہ جیسے انسان کو قتل کردیاگیا۔قسم ہے اس کی جس کے لئے میں مسلمان ہوا ،وہ مسلمانو ں کے درمیان ایک خاص مقام ومنزلت کے حامل تھے۔خدا کی قسم میں نے آذر بایجان کی جنگ میں ان کو ٦ آدمیو ں کو قتل کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ایسی ذات کے قتل پر تم خوشیا ں منا رہے ہو۔ (طبری ،ج٥، ص ٤٣٦)

۱۶۰