واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا9%

واقعۂ کربلا مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 438

واقعۂ کربلا
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 438 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 201747 / ڈاؤنلوڈ: 5679
سائز سائز سائز

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام کتاب : واقعۂ کربلا

تالیف : لوط بن یحییٰ بن سعید (ابومخنف)

تحقیق: شیخ محمد ہادی یوسفی غروی

ترجمہ : سید مراد رضا رضوی

تصحیح: مرغوب عالم

نظر ثانی: اختر عباس جون

پیشکش: معاونت فرہنگی، ادارۂ ترجمہ

ناشر: مجمع جہانی اہل البیت

طبع اول : ١٤٢٩ھ ۔ ٢٠٠٨ئ

تعداد : ٣٠٠٠

۳

حرف آغاز

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے، حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے ہیں اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں ، تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں ، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے اپنی استعداد و قابلیت کے اعتبار سے اس کی کرنوں سے فیض حاصل کیا۔

اسلام کے مبلغ و موسّس سرورکائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا۔ آپ کے تمام الٰہی پیغامات نظریات اوراعمال فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھے، اس لئے ٢٣ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں ۔وہ تہذیبی اصنام جو ممکن ہے کج فکر افراد کو دیکھنے میں اچھے لگتے ہوں لیکن اگروہ حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

۴

اگرچہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ گراں بہا میراث کہ جس کی حفاظت و پاسپانی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر کی ہے، خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکروقت کے ہاتھوں اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں اسلامی دنیا کو خدمت میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشورپیش کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظریاتی موجوں کے مقابلے میں اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں کے ذریعے مکتب اسلام کی پشت پناہی کی اور ہرزمان و مکان میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام ، قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم ا لسلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں ۔ اسلامی دشمن اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوست اس مذہبی وثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں ۔یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

۵

مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام (عالمی اہل بیت کونسل)نے بھی مسلمانوں خاص طور پراہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر عقل و خرد پر استوار اہل بیت عصمت و طہارت کی تعلیمات و ثقافت کوماہرانہ انداز میں عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکارسامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے آمادہ کیا جاسکتا ہے۔

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں ۔زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔کتاب ''وقعة الطف''(جس کو جناب حجة الاسلام والمسلمین محمد ہادی یوسفی غروی زید عزہ نے طبری کی روایت کے مطابق ابو مخنف کی تاریخ کربلا کوتحقیق فرما کر یکجا کیا ہے) کو فاضل جلیل جناب مولانا سید مراد رضا رضوی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے ،جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ۔اسی مقام پر ہم اپنے ان تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے۔خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔ والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۶

گفتار مترجم

کربلا کی تاریخ وہ انقلاب آفرین تاریخ ہے جو اپنے بعدکے تمام حرّیت پسند انقلابوں کے لئے میر کارواں کا مقام رکھتی ہے۔وہ انقلاب قومی وملی ہوں یا ذ ہنی و فکری، ہر انقلاب کے سنگ میل اور رہنما کا نام کربلا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باطل پرست طاقتوں نے ہمیشہ اس کے انمٹ نقوش مٹانے کی بھر پور کوشش کی؛ کبھی خود کربلا اور اس کے آثار کو مٹانے کی کوشش کی تو کبھی اس حماسہ آفرین واقعہ پر لکھی جانے والی تاریخوں میں تحریف ایجاد کر کے اس زندگی ساز حسینی انقلاب کے رنگ کو ہلکا کرنا چاہا لیکن

فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے

وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے

بنی امیہ اور بنی عباس نے اپنی پوری طاقت صرف کردی؛ کبھی حسینی زائروں کو تہہ تیغ کیاتوکبھی کربلا کو ویران کیا لیکن اللہ رے آتش عشق حسین جو مزید شعلہ وری ہوتی گئی اور باطل کی آرزوئوں کے خرمن کو خاکستر کرتی گئی۔حکومتوں کے زر خریدغلاموں اور ان کی چشم و ابرو کی حرکت پر کام کرنے والے کارندوں نے بھی ان حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی لیکن حق کو کبھی کوئی مٹا نہیں سکتا۔

کربلا کی تاریخ پر سب سے پہلے قلم اٹھا نے والے مورخ کا نام ابو مخنف لوط بن یحییٰ ازدی غامدی کوفی ہے ؛ جنہوں نے بلا واسطہ یابالواسطہ (ایک یا دو واسطے سے) واقعہ کربلا کوزیور تحریر سے آراستہ کیااور اس کا کا نام مقتل الحسین رکھا ، لیکن یہ کتاب حکومت کی نگاہوں میں کھٹکنے لگی کیوں کہ اس کتاب سے حکومت کی کارستانیاں اور اس کی ظلم وستم کی پالسیاں کھل کر سامنے آرہی تھیں لہٰذا اس کتاب کا اپنی اصلی حالت پر باقی رہنا ایک مسئلہ ہو گیا تھا۔آخر کار ہوا بھی یہی کہ آج اصل کتاب ہماری دوسری میراثوں کی طرح ہمارے ہاتھوں میں نہیں ہے بلکہ ایک تحریف شدہ کتاب لوگوں کے درمیان موجود ہے جس کے بارے میں وثوق کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ وہی کتاب ہے جس کی تد وین ابو مخنف نے کی تھی۔

۷

اس کتاب کی قدیم ترین سند وہی ہے جسے طبری نے مختلف تاریخی مناسبتوں کے اعتبار سے اپنی تاریخ میں لکھا ہے ۔

خدا وند عالم، محقق محترم جناب حجة الاسلام والمسلمین محمد ہادی یوسفی غروی زید عزہ پر رحمتوں کی بارش کرے، جنہوں نے طبری کی روایت کے مطابق ابو مخنف کی تاریخ کربلا کو یکجا کیا اور اس پر تحقیق فرماکر اس کتاب کو ایک تحقیقی درجہ عطا کردیا ۔محترم محقق نے اس کتاب کا نام '' وقعة الطف '' رکھا، جس کا تر جمہ '' واقعۂ کربلا '' آپ کے سامنے موجود ہے ۔

واضح رہے کہ طبری شیعہ مورخ نہیں ہے لہٰذا قاتلان اور دشمنان امام حسین علیہ السلام کے لئے جو الفاظ استعمال کرنے چاہیئے وہ کہیں نہیں ملتے۔ اس کے علاوہ مجالس کے صدقہ میں جو باتیں محبّان اہل بیت کے ذہن میں موجود ہیں اس کتاب میں بہت سارے موارد ایسے ہیں جو ان افکار کے مخالف ہیں ۔اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ وہ باتیں غلط ہیں اورجو کچھ اس کتاب میں ذکر ہواوہی صحیح ہے، بلکہ مصائب کا تذکرہ کرنے والے افراد مثاب ہونے کے لئے مختلف مقاتل کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس کا نتیجہ عزاداروں کے سامنے پیش کرتے ہیں ، لہٰذا قارئین سے گزارش ہے کہ اس کتاب کو تحقیق کی نگاہ سے دیکھیں ، تاکہ واقعۂ کربلا کے تجزیہ میں انھیں آسانی ہو اور آنسو کے مقولہ سے ہٹ کرکہ جو واقعۂ کربلا کا ایک اساسی اور بنیادی رکن ہے، امام حسین علیہ السلام کی امن دوستی اور باطل ستیزی کا بغور مطالعہ کرکے مدعی امن وامان کے سامنے پیش کرسکیں ،تاکہ امن و امان کے نعرہ میں دھشت گردی پھیلا نے والوں کا چہرہ کھل کر سامنے آجائے اور کربلا کی آفا قیت کا آفتاب، امن وامان کی روشنی کے ذریعے دنیا کو خوف و ہراس اور دھشت گردی کی تاریکی سے نجات دے ۔

۸

یہاں پر یہ کہنا ضروری ہے کہ قلمی خدمت کرنے والے افراد تو بہت ہیں لیکن ان کی قلمی خدمات کی قدر نہیں ہوتی اور ان کو کوئی چھپوانے والا نہیں ملتا ۔

انقلاب اسلامی ایران جو حضرت امام خمینی رحمة اللہ علیہ کی رہبری میں برپا ہوا اور جس نے کربلا کے انقلاب کو پھر ایک نیا رخ دیا اور ساری انسانیت با لخصوص شیعیت کو افق کائنات کا آفتاب بنادیا؛ اسی انقلاب کا صدقہ ہے جو آج رہبر انقلاب حضرت آےة العظمی خامنہ ای مد ظلہ العالی کی رہبری میں شیعیت کا پیغام ساری دنیا تک پہنچ رہا ہے اور مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے دنیا کی تمام زبانوں میں پیغام اسلام با لخصوص پیغام تشیع کو پہنچانے کی بھر پور کوشش کی ہے جس میں وہ کامیاب ہیں اور قابل تبریک و تحسین ہیں ۔

یہ کتاب بھی اسی ادارہ سے شائع ہو کر آپ کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے ۔

خدا وند متعال اس ادارہ کے مسئولین اور دیگر مخلصین کی توفیقات میں اضافہ فرمائے اور حضرت آےة اللہ العظمیٰ خامنہ ای ، دیگر مراجع عظام اور نظام اسلامی کا سایہ تا ظہور حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے۔آمین

والسلام

سید مراد رضا رضوی

١٥ رجب١٤٢٦

۹

مقد مۂ مو لف

جب انسان نے لکھنا سیکھا تو اپنے اور دوسروں کے کارناموں کو زیو ر تحر یر سے آراستہ کیااوراس طرح آہستہ آ ہستہ تا ریخ وجود میں آئی ۔

ظہور اسلام کے وقت عرب میں تاریخ چند ایسے لو گوں پر منحصر تھی جو انساب عرب سے آگاہ اور انکے اہم دنوں سے واقف تھے۔ عرب ان کو کو علا مہ(١) کہا کر تے تھے۔ انہیں میں سے ایک نضر بن حارث بن کلدہ تھاجو ایران وروم کا سفر کیا کر تا تھا اور وہاں سے ایسی کتا بیں خریدکر لا تا تھا جس میں اہل فارس کی داستا نیں ہوا کر تی تھیں ؛ جیسے رستم واسفندیار وغیرہ کی کہا نیاں ۔یہ شخص انہیں کہا نیوں کے ذریعے لوگوں کو لہو ولعب میں مشغول رکھتا تھا تا کہ لو گ قرآن مجید نہ سن سکیں ۔ خدا وندعالم کی طرف سے اسکی مذمت میں آیت نازل ہو ئی :''( وَمِنَ النَّاسِ مَن يَّشْتَرِیْ لَهْوَالْحَدِ یْثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِ اللّهِ بِغَيْرِعِلْمٍٍِ ويَتَّخِذَهَا هُزُواًاُوْلٰئِکَ لَهْمْ عَذَا ب مُّهِيْن وَاِذَاتُتْلَٰی عَلَيْهِ آيَا تُنَا وَلَّیٰ مُسْتَکْبِرًا کَأَ ن لَّمْ يَسْمَعْهَاکَاَنَّ فِی اُذْنَيْهِ وَقْرًا فَبَشِّرْهُ بِعَذَاْبٍ اَلِيْمٍ ) ''(٢)

____________________

١ ۔کلینی علیہ الر حمہ نے کا فی میں اپنی سند سے امام مو سی کا ظم علیہ اسلام سے روایت بیان فرمائی ہے کہ آپ نے فرمایا :ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب مسجد میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ کچھ لوگ ایک آدمی کے چارو ں طرف بیٹھے ہوئے ہیں ۔ آپ نے سوال کیا : یہ کون ہے ؟جواب دیا گیا :علامہ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سوال کیا : علامہ سے مرادکیا ہے؟ لوگو ں نے جواب دیا : یہ عرب کا سب سے بڑا نسب شناس ، اہم واقعات اور تاریخو ں سے آگا ہ اور اشعار عرب کا بڑاواقف کار ہے ؛ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرما یا:یہ ایسا علم ہے کہ نہ تو اس سے جاہل رہنا ضرر رسا ں ہے اورنہ ہی اس کا جاننا مفید ہے۔ .پھر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: علم تین چیزو ں پر مشتمل ہے،آےة محکمہ، فریضةعادلہ اورسنة قائمہ،اس کے علاوہ سب بیکار ہے ۔(کافی، ج١،ص٣٢)

٢۔سور ہ ٔلقما ن آیہ٦۔٧۔تفسیر قمی، ج ٢ ،ص١٦١ ،مطبوعہ نجف وتفسیر ابن عباس ،ص٣٤٤ مطبوعہ مصر

۱۰

مد ینہ میں بھی اسی طرح کاایک شخص تھا جس کا نام سوید بن صامت تھا وہ انبیائے ما سلف کے قصّے کوجو یہود و نصاریٰ کی کتابوں میں موجود تھے لوگوں کو جمع کر کے سنایا کرتا تھا اور اس طرح سے لوگوں کو بیہودہ باتوں میں مصروف رکھتا تھا۔ جب اس نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کی خبر سنی تو مدینہ سے حج یا عمرہ کی غرض سے مکہ روانہ ہوا۔مکہ پہنچ کر اس نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ملاقات کی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے اسلام کی دعوت دی ۔سوید نے آپ سے کہا: ہمارے پاس لقمان کے حکمت آمیز کلمات موجود ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :ذرا مجھے بھی دکھاؤ ! اس نے ایک نوشتہ آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :''ان هٰذا لکلا م حسن والذ مع احسن منه ،قرآن انزله اللّه علّ هد ی و نوراً ''(١)

بیشک یہ کلام اچھا ہے لیکن میرے پاس اس سے بھی بہتر کلام قرآن ہے جسے اللہ نے مجھ پر نازل کیا ہے جو ہدایت اور نور ہے ۔

تاریخی دستاویزمیں گذشتہ انبیاء اور ان کی امتوں کی داستانیں بھی شمار ہو تی ہیں ، جسے طبری اور محمد بن اسحاق نے ذکر کیا ہے۔یہ وہی تاریخی شواہد ہیں جو اسلام سے قبل بعض اہل کتاب دانشوروں کے ذریعے سے ہم تک پہنچے ہیں ؛لہٰذاٰ ظہور اسلام اور قلب پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قرآن نازل ہونے سے پہلے کی تاریخ کے سلسلے میں ہماری معلو مات اسی حد تک محدود ہے۔ ایسے بد تر ین ما حول میں اسلام، قرآن مجیدکے ہمراہ آیا اور صبح وشام اس کی تلاوت ہو نے لگی۔ ا یسی صورت میں حفا ظ کرام کے حفظ کے باوجود ضرورت پیش آئی کہ اس مبارک کتا ب کوقلمبندکیا جا ئے۔ اسی ضرورت کے پیش نظرقرآن مجیدپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے دور میں صفحۂ دل پر نقش ہو نے کے ساتھ ساتھ صفحۂ قرطاس پر بھی محفوظ ہو نے لگا ،لیکن قرآن کی تفسیر ،گذشتہ شر یعتوں اورادیان کی خبر یں ، مسائل وا حکام شرعیہ کی تفصیلات کے سلسلے میں پیغمبراسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی احادیث ،آپ کی سیرت وسنت اور جنگ و غزوات کے حالات کی تفصیلات غیر مدوّن رہ

____________________

١۔طبری، ج٢، ص٣٥٣، مطبوعہ دارالمعارف ویعقو بی ،ج٢، ص٣٠ ،مطبوعہ نجف

۱۱

گئیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عالم فنا سے ملک بقا کی طرف کو چ کر گئے؛ اب آپ کے پیرومسلمان ان لوگوں سے حد یثیں کسب کر نے لگے جنہوں نے احادیث کو حفظ کر لیا تھا اورخود پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ان حدیثوں کو سناتھا یارسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عملی زندگی میں اس کو دیکھاتھا۔

ادھر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد ان لوگوں نے سراٹھا نا شروع کیا جو آپ کی حیات میں مسلمان ہونے کا دم بھر تے تھے ایسے لوگوں کے خلاف اصحاب رسول جنگوں میں شرکت کے لئے میدان میں اترآئے تو فقط یمامہ کی جنگ میں جو مدعی نبوت مسیلمہ کذ اب اور اس کے ساتھیوں کے خلاف لڑی گئی تھی تقریباً تین سو (٣٠٠)افراد سے زیادہ شہید ہو ئے(١) ایسی صورت حال میں اصحاب کواحادیث رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تدوین کی فکر لاحق ہو ئی،لیکن صحابہ اس پر متفق نہ ہو سکے؛ بعض نے اجازت دی تو بعض نے منع کیا لیکن افسوس اس کا ہے کہ ترجیح تدوین سے روکنے ہی والوں کو دی گئی کیوں کہ ادھر خلیفئہ اول(٢) و دوم(٣) و سوم(٤) تھے۔ منع حدیث کایہ سلسلہ دوسری صدی ہجری تک ان کے پیر ؤں کے درمیان باقی رہا آخر کار مسلمانوں نے مل جل کر خود کو اس مصیبت سے نجات دلائی اور تاریخ نویسی کا سلسلہ شروع کیا ۔

اسلام کا پہلا تاریخ نگار

١میر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجہیز و تکفین کے بعد تدوین و تحریر کے کام کو لازم و ضروری سمجھتے ہوئے قلم سنبھالا اورخودیہ عہد کیا کہ نماز کے علاو ہ اس وقت تک دوش پرردا نہیں ڈالوں گاجب تک کہ قرآن مجید کوترتیب نزولی کے مطابق مرتب نہ کر لوں ۔اس تدوین میں آپ نے عام و خاص، مطلق و مقید ،مجمل و مبین ، محکم و متشابہ ، ناسخ و منسوخ، رخصت وعزائم اور آداب وسنن کی طرف اشارہ کیا، اسی طرح آیات میں اسباب نزول کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی اور جہاں بعض پہلوئوں میں مشکل دکھائی دیتی تھی اس کو بھی واضح کیا ۔

____________________

١۔ طبری،ج ٣ ،ص٢٦٩،طبع دارالمعارف

٢۔تذکرةالحفاظ، ج١،ص٣و٥

٣۔گذشتہ حوالہ، ج١، ص٣،٤،٧؛بخاری ،ج٦،باب الاستیذان ؛طبقات بن سعد ،ج٢،ص٢٠٦

٤۔مسند احمد، ج١،ص٣٦٣ ، کتاب '' السنة قبل التد وین ''ملاحظہ ہو۔

۱۲

کتاب عزیزکی جمع بندی کے بعد آپ نے دیّات کے موضوع پربھی ایک کتاب تالیف فرمائی جسے اس زمانے میں ''صحیفہ''کہاجاتاتھا۔ابن سعید نے اپنی کتاب کے آخر میں جو''الجامع''کے نام سے معروف ہے ا س کاذکرکیا ہے اور بخاری نے بھی اپنی صحیح میں متعدد مقامات پر اس کا تذکرہ کیا ہے مثلاً جلد اول کی'' کتاب العلم'' ہی میں اس کاتذکرہ موجود ہے۔

اسی زمانے میں آپ کے چاہنے والوں کی ایک جماعت نے آپ کی اس رو ش کی بھر پور پیروی کی جن میں ابو رافع ابراہیم القبطی اور ا س کے فرزند علی بن ابی رافع اور عبید اللہ بن ابی رافع قابل ذکر ہیں ۔

عبید اللہ بن ابی رافع نے جمل ،صفین اور نہروان میں شرکت کرنے والے اصحاب کے سلسلہ میں ایک کتاب لکھی(١) جو تاریخ تشیع میں ، تاریخ کی سب سے پہلی کتاب مانی جاتی ہے۔ تاریخ نویسی میں شیعہ تمام مسلمانوں کے درمیان میر کارواں کی حیثیت رکھتے ہیں ۔دیگر مورخین جیسے محمد بن سائب کلبی متوفیٰ١٤٦ھ ،ابو مخنف لوط متوفیٰ١٥٨ھ اور ہشام کلبی٢٠٦ھوغیرہ کی تا ریخی کتابیں ، تاریخ اسلام کے اولین مصادر و منابع میں شمار ہوتی ہیں ۔(٢)

کربلا

دشت کربلا میں وہ غمناک اور جاں سوزواقعہ رونما ہواجسے تاریخ میں ہمیشہ کے لئے ایک نمایاں حیثیت حاصل رہی ہے۔اس سر زمین پرسبط رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سید ا لشہداء حضرت ابو عبداللہ امام حسین علیہ الصلوٰة والسلام کے اوپر وہ وہ مظالم ڈھائے گئے جس سے تاریخ کا سینہ آج بھی لہو لہان ہے۔

یہ درد ناک واقعہ جو٦١ھ میں پیش آیا، داستانوں کی صورت میں لوگوں کے درمیان سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا رہا اور ایک زبان سے دوسری زبان تک پہنچتارہا ۔یہ واقعات لوگوں نے ایسے افراد کی زبانی سنے

____________________

١۔رجال نجاشی، ج ١ ، ص٥، مطبوعہ ہند؛الفہرست،ص ١٢٢،مطبوعہ نجف

٢۔ مزید معلومات کے لئے مؤ لفوا الشیعہ فی الاسلام ، الشیعہ و فنون الاسلام ، تاسیس الشیعہ لعلوم الاسلام، ص٩١۔٢٨٧؛ اعیان الشیعہ، ج١ ، ص ٨ و٤٨،اور الغدیر، ج٦ ، ص٠ ٢٩۔٢٩٧ کا مطالعہ کیجئے۔

۱۳

جو وہاں موجود تھے اورجو اْن خونچکاں واقعات کے عینی شاہد تھے ،بالکل اسی طرح جس طرح دیگر اسلامی جنگوں کے واقعات سنے جاتے تھے ۔

لیکن کسی نے بھی ان واقعات کو صفحۂ قرطاس پر تحریر نہیں کیاتھا۔یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا؛یہاں تک کہ دوسری صدی ہجری کے اوائل میں ابومخنف لوط بن یحییٰ بن سعید بن مخنف بن سلیم ازدی غامدی کوفی متوفیٰ١٥٨ھ(١) نے اس واقعہ کو معتبر راویوں کی زبان سے یکجا کیا اور اس امانت کو کتابی شکل دیکر اس کا نام ''کتاب مقتل الحسین'' رکھا جیسا کہ آپ کی کتابوں کی فہرست میں یہی نام مرقوم ہے۔ یہی وہ سب سے پہلی کتاب ہے جو اس عظیم اورجانسوز واقعہ کے تاریخی حقائق کو بیان کرتی ہے ۔

دوسری تاریخ

ابو مخنف کی روشن بینی کے زیر سایہ تربیت پانے والے ان کے شاگرد نے تاریخ اسلام اور بالخصو ص کربلا کے جانسوزواقعات کاعلم اپنے استاد سے حاصل کیا۔آپ کانام ہشام بن محمد بن سائب کلبی تھا۔ نسب شناسی میں آپ کوید طولیٰ حاصل تھا۔ ٢٠٦ ھ میں آپ نے وفات پائی۔(٢) ہشام بن محمدبن سائب کلبی نے اسی سلسلہ کی دوسری کتاب تحریرفرمائی لیکن اس کی تنظیم و تالیف سے قبل وہ اسے اپنے استاد ابی مخنف کو فی کی خدمت میں لے گئے اور ان کے سامنے اس کی قرائت کی ؛پھر ان دلسوز واقعات کے تمام نشیب و فرازکواپنے استاد کے ہمراہ تکمیل کی منزلوں تک پہنچایا۔ اس کتاب میں حدثنی ابو مخنف یا عن ابی مخنف (ابو مخنف نے ہم سے بیان کیا ہے) بہت زیادہ موجود ہے۔ اپنے استاد کی کتابوں میں سے جس کتاب کو ہشام نے کتابی شکل دی اور ان کے سامنے قرا ئت کی نیز اس سے روایات کو نقل کیا، ابو مخنف کی وہی کتاب ''مقتل الحسین'' ہے جو ان کی کتابوں کی فہرست میں موجود ہے لیکن ہشام نے جو اہم کام انجام دیا وہ یہ ہے کہ انہوں نے مقتل الحسین میں فقط اپنے استاد ابو مخنف ہی کی حدیثوں پر اکتفا نہیں کیا

____________________

١۔فوات الوفیات، ج٢ ، ص١٤٠ ؛الاعلام للزرکلی ،ج٣ ،ص ٨٢١؛مروج الذہب، ج٤ ، ص٢٤ ،مطبوعہ مصر

٢۔مروج الذھب، ج٤ ، ص ٢٤، مطبوعہ مصر

۱۴

بلکہ اس میں تاریخ کے اپنے دوسرے استاد عوانةبن حکم متوفیٰ١٥٨ھ کی حدیثیں بھی بیان کیں ۔

صدر اسلام کی تاریخ پر نظر رکھنے وا لوں سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ تمام اسلامی مورخین انھیں د و عظیم علماء کی عیال شمار ہوتے ہیں اور وہ سب ابی مخنف کے دستر خوان کے نمک خوار ہیں ؛ اسکا سبب یہ ہے کہ وہ زمان واقعہ کے نزدیک ترین مورخوں میں شمار ہوتے ہیں لہٰذاوہ اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ جزئی مسائل کی گتھیوں کو سلجھاتے ہوئے نظر آتے ہیں اور واقعہ کو اسی طرح بیان کرتے ہیں جس طرح وہ واقع ہواہے ۔

اکثر مورخین نے تاریخ کے سلسلہ میں ابو مخنف کی کتابوں کو بطور خلاصہ اپنی تالیفات میں جگہ دی ہے؛ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کتابیں اس وقت مورخین کے پاس موجود تھیں ۔

جن مورخین نے ابو مخنف کی تحریر سے اپنی کتابوں میں استفادہ کیا ہے ان میں سے مندرجہ ذیل افراد کے نام قابل ذکر ہے ۔

١۔محمدبن عمر واقدی متو فی ٢٠٧ھ ۔

٢۔طبری،متوفیٰ ٣١٠ھ۔

٣۔ابن قتیبہ ،متو فی ٣٢٢ھالامامة والسیاسةمیں ۔

٤۔ ابن عبدربّہ اندلسی ،متوفیٰ٣٢٨ھ نے اپنی کتاب'' العقدالفرید''میں سقیفہ کی بحث کرتے ہوئے ۔

٥۔علی بن حسین مسعودی، متوفیٰ٣٤٥ھنے عروہ بن زبیر کی عذر خواہی کا قصہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ عروہ بن زبیر نے بنی ہاشم سے اپنے بھائی عبداللہ بن زبیر کے لئے بیعت کا مطالبہ کیا ۔ بنی ہاشم نے مخالفت کی ؛اس پر عروہ نے ان لوگوں کو دھمکی دی کہ تمہارے گھروں کو جلا دیں گے۔ا س کی اطلاع جب اس کے بھائی عبد اللہ کو ملی تو اس نے عروہ کی سر زنش کی اور عروہ نے اپنے بھائی سے عذرخواہی کی ۔

٦۔شیخ مفید ،متوفیٰ ٤١٣ھ نے'' الارشاد ''میں امام حسین کی شہادت کے ذیل میں اور ''النصر ہ فی حرب البصرہ'' میں ۔

٧۔شہرستانی،متوفیٰ٥٤٨ ھ نے فرقہ نظامیہ کا ذکر کرتے ہوئے اپنی کتاب'' ملل و نحل'' میں ۔

۱۵

٨۔خطیب خوارزمی، متوفیٰ٥٦٨ ھ نے اپنی کتاب'' مقتل الحسین'' میں ۔

٩۔ ابن اثیر جزری،متوفیٰ٦٣٠ ھ نے اپنی کتاب'' الکامل فی التاریخ ''میں ۔

١٠۔سبط بن جوزی،متوفیٰ٦٥٤ ھ نے اپنی کتاب'' تذکرہ خواص الامة''میں ۔

١١۔ آخری شخص جسے میں نے دیکھا ہے کہ کسی واسطہ کے بغیر ابو مخنف سے روایت نقل کرتا ہے ، ابو الفدا ،متوفیٰ٧٣٢ ھ ہیں جنہوں نے اپنی تاریخ میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔

اس وقت ابو مخنف کی کتابیں بالخصوص ''مقتل الحسین ''ہماری معلومات کے مطابق دسترس میں نہیں ہے بلکہ تمام کتابیں ضائع ہو چکی ہیں ،دوسری کتابوں سے جستہ و گریختہ جو معلومات فراہم ہوئی ہیں وہی اس وقت موجود ہیں ۔

قدیم ترین سند

١۔گذشتہ سطروں میں یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ ابو مخنف کی ساری کتابیں ضائع ہوچکی ہیں لہٰذا وہ قدیم نص اورسند جو اس کتاب سے متعلق ہمارے پاس موجود ہے تاریخ طبری ہے؛ جس میں محمدبن جریرطبری ،متوفیٰ٣١٠ ھ نے ہشام کلبی کی حدیثوں کو جو انہوں نے اپنے استاد ابو مخنف سے حاصل کی تھیں ذکر کیا ہے۔واضح رہے کہ طبری نے اس سلسلہ میں بطور مستقل کوئی کتاب نہیں لکھی ہے اورنہ ہی اپنی تاریخ میں کوئی الگ سے باب قائم کیا ہے بلکہ ٦٠ ھ اور ٦١ھکے حوادث کا ذکر کرتے ہوئے اس واقعہ کو ذکر کیا ہے۔(١)

قابل ذکر ہے کہ طبری بلا واسطہ ہشام کلبی سے ان احادیث کی روایت نہیں کرتے بلکہ ان کی کتابوں اور تحریروں سے حدیثوں کو بیان کرتے ہوئے یوں ناقل ہیں :حدثت عن ہشام بن محمد، ہشام بن محمد سے حدیث نقل کی گئی ہے ؛لیکن اس کی وضاحت نہیں کرتے کہ ان احادیث کو خود طبری سے کس نے بیان کیا ہے۔ہمارے اس قول کی دلیل کہ طبری نے ہشام کے زمانے کو درک نہیں کیا ہے اور بلا واسطہ حدیثوں کو ان سے نہیں سنا ہے، طبری کی تاریخ ولادت٢٢٤ھ اور ہشام کی تاریخ وفات٢٠٦ھ ہے ۔

____________________

١۔طبری ،ج٥،ص٣٣٨،٤٦٧ ،مطبوعہ دارالمعارف

۱۶

طبری نے سینۂ تاریخ کے ناسور،واقعۂ حرہ کا ذکر کرتے ہوئے خود اس بات کی تصریح کی ہے کہ انھوں نے ان مطالب کو ہشام کلبی کی کتابوں سے نقل کیا ہے طبری کا بیان اس طرح ہے:

ھکذاوجدتہ فی کتابی... میں نے اس واقعہ کو اسی طرح ان کی دونوں کتابوں میں دیکھا ہے۔(١)

٢۔ طبری کی نص و سند کے بعدہمارے پاس ابو مخنف سے منقول کربلا کے واقعات کی قدیم ترین سند شیخ مفید، متو فیٰ٤١٣ ھ کی کتاب ''الارشاد'' ہے جس میں انہوں نے بلا واسطہ ہشام کلبی کی کتاب سے روایتیں نقل کی ہیں کیونکہ شیخ مفید علیہ الرحمہ، اپنی کتاب میں واقعہ کربلا کو ذکر کرنے سے پہلے اس طرح بیان فرماتے ہیں :''فمن مختصرالاخبار...مارواہ ا لکلبی ...''ان خبروں کاخلاصہ ...جس کی روایت کلبی نے کی ہے ..۔(٢)

٣۔ اس کے بعد ''تذکرة الامةبخصائص الائمة'' میں سبط ابن جو زی ،متوفیٰ٦٥٤ھ بھی بہت سارے مقامات پر امام حسین علیہ السلام کی خبروں کے ذیل میں ہشام کلبی ہی سے تصریح کے ساتھ روایتیں نقل کرتے ہیں ۔

جب ہم طبری کی نقل کا شیخ مفیداورسبط ابن جوزی کی نقل سے موازنہ کرتے ہیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ ان نصوص کے درمیان کافی حد تک یکسانیت پائی جاتی ہے ،البتہ شاذو نادر اختلافات بھی دکھائی دیتے ہیں ، مثلاًواو کی جگہ پر فاء ہے یا اس کے بر عکس۔اسی قسم کے دوسرے اختلافات بھی آپ کو کتاب کے مطالعہ میں واضح طور پر دکھائی دیں گے ۔

____________________

١۔طبری ،ج٥،ص٤٨٧،اس مقام پرطبری کا بعض اسماء کو مختلف طریقو ں سے لکھنا بھی دلیل ہے کہ اس نے روایت سنی نہیں بلکہ دیکھی ہے، مثلاًمسلم بن مسیب کا نام دو جگہ آیاہے ، ایک جگہ صحیح لکھا ہے لیکن دوسری جگہ سلم بن مسیب کردیا ہے جبکہ یہ ایک ہی شخص ہے ،جیسا کہ مختار کے واقعہ میں ایسا ہی ہوا ہے۔

٢۔الاشاد ، ص٢٠٠،طبع نجف

۱۷

ابو مخنف

تا ریخ نے ہما رے لئے ابو مخنف کی تا ریخ ولادت کو ذکر نہیں کیا ہے۔فقط شیخ طو سی علیہ الرحمہ نے کشّی رحمة اللہ علیہ سے نقل کر تے ہو ئے ان کو اپنی کتاب'' الر جال ''میں راویوں کے اس گروہ میں شامل کیا ہے جو حضرت علی علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں ،پھر شیخ طوسی فر ما تے ہیں : ''وعندی ھذا غلط لان لو ط بن یحییٰ لم یلق امیر المو منین علیہ السلام بل کا ن ابو ہ یحیٰ من اصحابہ''(١) میر ی نظر میں کشی کی یہ بات غلط ہے کیو نکہ لوط بن یحٰی ابو مخنف نے امیر المومنین علیہ السلام کو دیکھا ہی نہیں ہے۔ ہاں ان کے والد یحٰ،امام علی علیہ السلام کے اصحاب میں شمار ہو تے تھے ۔لیکن شیخ کے علاوہ کسی اورنے امیر المو منین کے اصحاب میں ابو مخنف کے والد یحییٰ کا تذکرہ نہیں کیا ہے، البتہ انکے دادا مخنف بن سلیم ازدی کے بارے میں ملتا ہے کہ وہ اصحاب امیر المو منین میں شمار ہو تے تھے۔اس کے بعد شیخ فرماتے ہیں کہ مخنف بن سلیم ازدی عائشہ کے خالہ زاد بھائی، عر ب نژاداور کو فہ کے رہنے والے تھے۔(٢)

قابل ذکر ہے کہ شیخ طوسی نے اس بات کو شیخ کشی کی کتاب سے نقل کیا ہے،خود ان سے بلا واسطہ نقل نہیں کیا ہے، کیو نکہ کشی تیسری صدی ہجری میں تھے اور شیخ طو سی ٣٨٥ھکے متولد ہیں ، جیسا کہ ابن شہر آشوب نے اپنی کتاب ''معالم العلما ئ''(٣) میں ذکر کیا ہے ۔کشی کی اس کتاب کا نام''معر فہ النا قلین عن الا ئمہ الصادقین''ہے لیکن آج یہ کتاب نایاب ہے۔ ہماری دسترس میں فقط وہی سند ہے جسے سیدا بن طاؤوس نے فرج المہموم(٤) میں ذکر کیا ہے کہ شیخ طوسی نے ٤٦٥ہجری میں اس بات کو کشی کی کتاب سے نقل کیا ہے .خود شیخ طوسی کے مختار نظریہ کے مطا بق بھی کہیں یہ دیکھنے کو نہیں ملتا کہ انہوں نے ابو مخنف کو اصحاب امیر المو منین علیہ السلام میں شمار کیا ہو۔شیخ طوسی علیہ الرحمہ اپنی کتاب'' رجال'' میں

____________________

١۔رجال، شیخ، ص ٥٧،مطبو عہ نجف

٢۔ گذشتہ حوالہ٥٨

٣۔ معالم العلما ء ،ص ٢٠٢، ط نجف

٤۔فرج المہموم، ص ١٣٠ ،ط نجف

۱۸

ابو مخنف کو اصحاب امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام میں شمار کیا ہے،(١) جیسا کہ امام حسین علیہ السلام کے اصحاب میں بھی انکا ذکر کیا ہے،(٢) پھر اسکے بعد امام زین العابدین اور امام محمد با قر علیھماالسلام کے اصحاب میں ذکر نہیں کیا ہے۔

شیخ طوسی اپنی کتاب ''الفہر ست'' میں بھی کشی کے اس نظریہ کو پیش کرنے کے بعد اظہار نظر کر تے ہوئے فر ماتے ہیں :''والصحیح ان ابا ہ کان من اصحاب امیر المومنین علیہ السلام وہولم یلقہ ''(٣) صحیح تو یہ ہے کہ ابو مخنف کے والد اصحاب امیر المو منین میں شمار ہو تے تھے لیکن خودابو مخنف نے حضرت کو نہیں دیکھا ہے۔اسکے بعد شیخ ابو مخنف تک سند کے طریق میں ہشام بن محمد بن سا ئب کلبی اور نصر بن مزاحم منقری کا ذکر کر تے ہیں ۔

شیخ نجاشی نے بھی اپنی کتاب'' رجال'' میں انکا ذکر کیا ہے۔وہ فر ما تے ہیں : ''لوط بن یحٰبن سعید بن مخنف بن سالم(٤) ازدی غامدی ابو مخنف ،کو فہ میں اصحاب اخبار وا حادیث کے درمیان بزرگ اور جانی پہچانی شخصیتوں میں شمار ہوتے تھے ۔آپ اس قدر مورد اطمینان تھے کہ آپ کی بیان کی ہوئی باتوں کو لوگ بغیرچون وچرا قبول کر لیا کر تے تھے۔ آپ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایتیں نقل کیا کر تے تھے'' لیکن یہ صحیح نہیں ہے(رجال النجاشی، ص ٢٢٤،طبع حجرہند) اس کے بعد نجاشی نے ابو مخنف کی کتابوں کے تذکرہ میں '' کتاب مقتل الحسین ''کا بھی ذکر کیا ہے۔پھر ان روایتوں کے نقل کے لئے اپنے طریق میں ہشام بن محمد بن سائب کلبی کاذکر کیا ہے جو ابو مخنف کے شاگرد تھے ۔

اب تک ہم نے علم رجال کی چار اہم کتابوں میں سے تین کتابوں سے ابو مخنف کے سلسلہ میں علمائے رجال کے نظریات آپ کی خدمت میں پیش کئے لیکن ان تینوں منابع میں کہیں بھی ابو مخنف کی تاریخ ولادت و وفات کا تذکرہ نہیں ملتا ۔

____________________

١۔رجال، شیخ طوسی، ص٧٠

٢۔سابقہ حوالہ، ص ٧٩

٣۔ الفہرست، شیخ طوسی ،ص١٥٥،ط نجف

٤۔کتنے تعجب کی بات ہے کہ یہا ں پرشیخ نجاشی مخنف بن سالم کہہ رہے ہیں لیکن جب کتاب کا ذکر کر تے ہیں تو فر ما تے ہیں انکی کتاب بنام ''اخبار آل مخنف بن سلیم ''ہے ! بہتر یہی ہو گا کہ اسے نسخہ نویسو ں کی غلطی شمار کیا جائے۔

۱۹

طبری اور خاندان ابومخنف

طبری اپنی کتاب''ذیل المذیل'' میں ان صحابہ کا تذکرہ کرتے ہوئے جو ٨٠ ھ میں اس دنیا سے گذر گئے ، بیان کرتے ہیں :''مخنف بن سلیم بن حارث...بن غامدبن ازد'' ،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں مسلمان ہوئے ۔آپ کوفہ میں خاندان ازد سے تعلق رکھتے تھے اورآپ کے تین بھائی تھے۔

١ ۔ ''عبدشمس ''جنہوں نے جنگ نخیلہ میں جام شہاد ت نو ش فرمایا ۔

٢۔ ''الصقعب ''آپ جنگ جمل میں درجہ شہادت پرفائزہوئے۔

٣۔ ''عبداللہ'' آ پ بھی جنگ جمل ہی میں شہید ہوئے ۔

مخنف ہی کی اولاد اور نسل میں ابو مخنف لوط بن یحٰبن سعید بن مخنف ہیں جو تاریخ داں اور تاریخ نگار دونوں تھے۔ لوگوں کے تاریخی واقعات آپ ہی سے نقل کئے جاتے ہیں ۔''(١) پھر طبری بصرہ کے واقعات و احوال کے سلسلہ میں دوسرے مورخین کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ امیر المومنین نے ان ٧گروہوں بجیلہ ،انمار، خثعم ،ازد... مخنف بن سلیم بن ازدی کو سردار لشکر قراردیا ۔(٢) ان دونوں عبارتوں میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ ابو مخنف جنگ جمل میں شہید ہوئے ہیں ، لیکن طبری جنگ جمل کے سلسلہ میں ابو مخنف سے ایک دوسری روایت نقل کرتے ہیں کہ ابو مخنف نے اپنے چچا محمد بن مخنف سے اس طرح نقل کیا ہے :''کوفہ کے کچھ بزرگوں نے جو جنگ جمل میں موجود تھے، مجھ سے بیا ن کیا ہے کہ اہل کوفہ میں خاندان ازد کا پرچم مخنف بن سلیم کے ہاتھوں میں تھا۔ مخنف بن سلیم اسی جنگ میں جاں بحق ہوگئے ۔ان کے بعد ان کے دو بھائیوں صقعب اور عبداللہ کے ہاتھوں یہ پرچم لہرایا گیا اور وہ دونوں بھی اسی جنگ میں شہید ہوگئے ''۔

طبری کی یہ عبارت'' ذیل المذیل ''کی عبارت سے مشترک ہے جس میں مخنف کے دو بھائی

____________________

١۔المطبوع مع التاریخ،مطبو عہ دارالقاموس، ج ١٣،ص٣٦۔ اورمطبوعہ دار سویدان، ج١١، ص٥٤٧

٢۔طبری ،ج ٤،ص٥٠٠،مطبوعہ دارالمعارف

۲۰

صقعب اور عبداللہ کی شہادت کا تذکرہ ہے ممکن ہے کہ'' ذیل المذیل ''میں طبری نے اسے اپنی ہی تاریخ سے نقل کیا ہو، لیکن مخنف بن سلیم کی شہادت کے سلسلے میں یہ خبر دوسری روایتوں سے منافی اور متعارض ہے، کیونکہ اس عبارت میں طبری نے کہا کہ مخنف بن سلیم جنگ جمل میں شہید ہوگئے ۔طبری کی یہ بات اس روایت کے منافی ہے جسے انھوں نے کلبی کے حوالے سے ابومخنف سے جنگ صفین کے سلسلہ میں نقل کیا ہے :''حدثنی ابی ، یحٰبن سعید عن عمه محمد بن مخنف قال : کنت مع ابی (مخنف بن سلیم) یومئذ و انا ابن سبع عشره سنة'' (١) مجھ سے میرے والد یحٰی بن سعید نے اپنے چچا محمد بن مخنف کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ انھوں نے کہا :''میں جنگ صفین میں اپنے والد (مخنف بن سلیم) کے ہمراہ تھا اس وقت میری عمر سترہ سال تھی''۔ اسی طرح طبری نے ابو مخنف سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا :''مجھ سے حارث بن حصیرہ ازدی نے اپنے اساتید اور بزرگان کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ '' قبیلہ ازد'' جب ایک دوسرے کے آمنے سامنے آئے تو'' مخنف بن سلیم ''پر یہ بڑی سخت گھڑی تھی جس سے وہ کافی ناراض تھے''۔

ا سی طرح طبری نے مدائنی متوفیٰ٢٢٥ھ اور عوانہ بن حکم متوفیٰ ١٥٨ھ سے روایت کی ہے کہ ان لوگوں نے سلسلۂ سند کو قبیلہ بنی فزار کے ایک بزرگ تک پہنچاتے ہوئے کہا : ''معاویہ نے نعمان بن بشیر کو ٢ہزار سپاہیو ں کے ہمراہ امیر المومنین کی طرف روانہ کیا ۔وہ لوگ ایک مقا م تک پہنچے جس کا نام عین التمرتھا۔ وہاں سے ان لوگوں نے حضرت کے لشکر پرحملہ کیا ، اس مقام پر مالک بن کعب ارحبی جو لشکر امیر المومنین کے علمدار تھے ،اپنے تین سو افراد کے ساتھ ان حملہ آورں کے سامنے ڈٹے رہے اورحضرت علی کو خط لکھ کر فوج کی مدد طلب کی ۔مالک بن کعب نے ایک دوسرا خط مخنف بن سلیم کو لکھا کیو نکہ وہ وہاں سے نزدیک تھے اور ان سے مدد کی درخواست کی۔ مخنف نے فوراًاپنے فرزند عبد الرحمن کو پچاس آدمیوں کے ہمراہ ان تک روانہ کیا ؛یہ افراد بلا تاخیر وہاں پہنچ کر مالک کے لشکر سے ملحق ہوگئے ۔

____________________

١۔ طبری ،ج٤، ص٢٤٦

۲۱

جب اہل شام نے یہ منظر دیکھا اور سمجھ گئے کہ مالک بن کعب کی مدد کے لئے لشکر موجود ہے تو وہیں سے ان کے قدم اکھڑگئے اور وہ وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔''(١) ان تمام تاریخی شواہد سے یہ ثابت ہوتاہے کہ مخنف بن سلیم جنگ جمل کے بعد تک با حیات تھے اور نہ فقط بعد از جنگ جمل بلکہ جنگ صفین کے بعد بھی زندہ تھے، کیونکہ جنگ صفین ٣٧ھ میں ختم ہوگئی اور معاویہ کی طرف سے سرحدی علاقوں میں قتل و غارت گری کا سلسلہ ٣٩ ھ سے شروع ہوا ۔اس درمیان فقط وہی ایک روایت ہے جس میں جنگ جمل میں شہادت کا تذکرہ موجو دہے جیسا کہ گذشتہ سطروں میں اس کی وضاحت ہوگئی ہے ،لیکن طبری اس کی طرف با لکل متوجہ نہیں ہوئے، نہ ہی اس کے اوپر کوئی تعلیقہ لگایا، جبکہ انھوں نے''ذیل المذیل ''میں اس کی صراحت کی ہے کہ وہ ٨٠ ھ تک زندہ تھے۔(٢)

نصربن مزاحم اور خاندان ابومخنف

طبر ی کے علاوہ نصر بن مزاحم منقری، متوفیٰ ٢١٢ ھنے بھی اپنی کتاب'' وقعة صفین'' میں اس بات کی صراحت کی ہے کہ مخنف بن سلیم جنگ جمل کے بعد بقید حیات تھے۔ وہ اپنی کتاب میں اس طرح رقمطراز ہیں کہ یحٰبن سعید نے محمد بن مخنف سے نقل کیا ہے کہ محمدبن مخنف کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے بصرہ سے پلٹنے کے بعد میرے والد (مخنف بن سلیم) کی طرف نگاہ کی اور فرمایا :''لیکن مخنف بن سلیم اور ان کی قوم نے جنگ میں شرکت سے سر پیچی نہیں کی...۔''(٣)

محمد بن مخنف اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے اصحاب کا یہ کہنا ہے کہ امیر المو منین نے مخنف بن سلیم کو اصفہان اور ہمدان کی ذمہ داری دیکر گو رنر کے طور پروہاں روانہ کیا اور وہاں کے سابق ذمہ دار جر یربن عبد اللہ بجلی کو معزول کر دیا۔(٤) محمد بن مخنف مزید کہتے ہیں کہ جب حضرت علی علیہ السلام نے شام کا قصد کیا تو اپنے کا رکنوں کو اس سے آگا ہ کیا ؛ منجملہ ایک خط مخنف بن سلیم کو

____________________

١۔ طبری ،ج ٥ ،ص ١٣٣ مطبوعہ دار المعارف

٢۔ ذیل المذیل، ص٥٤٧ ،مطبوعہ دار سویدان؛ تاریخ طبری کی گیارہوی ں جلد

٣۔ وقعة صفین، ص٨ ، طبع مدنی

٤۔ سابقہ حوالہ، ص١١

۲۲

روانہ کیا جسے آپ کے حکم کے مطابق آپ کے کاتب عبداللہ ابی رافع نے تحریر کیا تھاخط ملتے ہی مخنف بن سلیم نے اپنے اہلکاروں میں سے دو آدمیوں کو اپنا نائب مقرر کیا اور خود وہاں سے فوراً حضرت کے لشکر کی طرف روانہ ہوگئے ؛یہاں تک کہ صفین ہی میں حضر ت علی علیہ السلام کی ہمر کا بی میں شہید ہو گئے۔(١) آگے بڑھ کر محمد بن مخنف کہتے ہیں کہ مخنف بن سلیم چار بڑے قبیلے ازد ، بجیلہ ، انصاراور خزاعہ کے سربراہ تھے۔(٢) پھر لکھتے ہیں :مخنف ، بابل کے سفرمیں علی علیہ السلام کے ہمراہ تھے۔(٣)

اسکے علاوہ بزرگان'' ازد'' سے مروی ہے کہ'' قبیلہ ازد'' کا ایک گروہ شام کی طرف سے اور دوسرا گروہ عراق کی طرف سے (جس میں مخنف بھی تھے) جب آمنے سامنے ہوا تو مخنف بن سلیم کے لئے یہ بڑی سخت منزل تھی۔ان کے دل پر اس سے چوٹ لگی اور وہ بے چین ہو گئے؛ لہٰذاانہوں نے ایک تقریر کی اور فر مایا کہ یہ امر میرے لئے بڑاسخت ہے اورمیں اس سے خوش نہیں ہوں ۔(٤)

اس سلسلے میں ابو مخنف کا بیان بھی قابل استفادہ ہے۔ وہ اس واقعہ کو اپنے والد کے چچا محمد بن مخنف سے نقل کر تے ہیں کہ محمدبن مخنف کہتے ہیں :''اس دن میں اپنے والد مخنف بن سلیم کے ہمراہ تھا اوراس وقت میری عمر ٧ا سال کا تھی''۔(٥)

اس جملہ سے کہ '' میری عمر١٧سال تھی '' اندازہ ہوتا ہے کہ سعیداپنے بھائی محمد سے چھوٹے تھے اور وہ جنگ صفین میں حاضر نہ تھے لہٰذا اس جنگ کی روداد کو اپنے بھائی سے نقل کررہے ہیں ۔ یہ خبر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ محمد بن مخنف کی ولادت٢٠ ھ میں ہوئی ۔بنابراین سعید، جو لوط (ابو مخنف) کے دادا ہیں وہ بھی اسی سال کے آس پاس متولد ہوئے ہیں ۔

____________________

١۔سابقہ حوالہ، ص١٠٤

٢۔صفین، ص١١٧

٣۔سابقہ حوالہ، ص١٣٥

٤۔سابقہ حوالہ، ص٢٦٢ ؛کتاب تقریب التہذیب میں مذکو ر ہے کہ ''مخنف بن سلیم ٦٤ھ میں توابین کے ہمراہ عین الوردةمیں شہید ہو ئے لیکن یہ غلط ہے۔

٥۔طبری، ج، ٤ص٤٤٦

۲۳

لوط کے داد ا سعید حضرت علی علیہ السلام کے اصحاب میں شمار ہوتے ہیں جبکہ آپ کے والدیحٰی امیر المو منین کے اصحاب میں شمار نہیں ہوتے ۔.پس ہم اگر کم ترین مدت بھی فرض کریں تو یہی کہا جاسکتاہے کہ سعید کی شادی کے بعد جب یحٰدنیا میں آئے تو اس وقت سعید ٢٠ سال کے تھے ۔(١) اس بنیاد پر لوط کا اصحاب امیر المومنین میں ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہو تا، بلکہ ان کے والد یحٰکو بھی حضرت علی علیہ السلام کے اصحاب میں شمار نہیں کیا جا سکتا ہے۔اب ہم یہ فرض کرتے ہیں کہ یحٰنے شادی کی اور اس سے لوط دنیا میں آئے تو اس وقت ان کا سن ٢٠ سال تھا؛ اس کا مطلب یہ ہو گا ٦٠ ھ گذر گیا تھاجبکہ یہ بہت کم ترین مدت فرض کی گئی ہے۔ اسطرح خود لوط کے بارے میں ہم یہ فرض کر تے ہیں کہ انھوں نے اپنی عمرکے بیسویں سال کے آس پاس حدیث کا سننا اور حاصل کرنا شروع کیا ؛ اس کی بنیاد پر ٨٠ ھسامنے آجا تی ہے ،پھر انھوں نے اس کتاب کی تالیف میں تقریبا٢٠ سال صرف کیے۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ لوط پہلی صدی ہجری کے آخری سالوں یا صدی تمام ہونے کے بعد اس کتاب کی تالیف سے فارغ

____________________

١۔ابو مخنف کے والد یحییٰ کس طرح اصحاب امیر المو منین میں شمار ہو سکتے ہیں ؟اور کس طرح شیخ نے اسے اپنی دونو ں کتا بو ں میں لکھ دیا؟ یہ ایک سوال ہے اور.ہم سے پہلے فاضل حائری نے اپنی کتاب منتہی المقال میں شیخ پر یہی اعتراض کیا ہے۔انہو ں نے اس بات پر استدلا ل قا ئم کیا ہے کہ ابو مخنف نے حضرت علی علیہ السلام کو نہیں دیکھا ہے ؛ اسکے بعد انھو ں نے شیخ طوسی کے قول جو انھو ں نے اپنی دونو ں کتابو ں میں بیان کیا ہے کہ یحٰی نے حضرت علی علیہ السلام کا دیدار کیا ہے ،کو اس دلیل سے ضعیف جانا ہے کہ ان کے پر دادا مخنف بن سلیم حضرت علی کے اصحاب میں تھے، جیسا کہ شیخ وغیرہ نے اس کی تصریح کی ہے۔ فاضل حائر ی کی عبارت اس طرح ہے : اس سے ثابت ہو تا ہے کہ لوط نے حضرت کا دیدار نہیں کیا بلکہ ان کے باپ یحٰکا حضرت کو درک کر نا بھی ضعیف ہے۔ بنا برین ابو مخنف کا اصحاب امیر المو منین میں شما ر ہو نا جیسا کہ کشی نے کہا ہے غیر ممکن ہے اورجو استدلال مقتل ابو مخنف کے مقدمہ پر شیخ غفاری نے تحریر کیا ہے وہ بھی بے جا ہے ۔شیخ غفاری کہتے ہیں کہ ممکن ہے ابو مخنف اپنے پر دادا مخنف بن سلیم کے ہمراہ ہو ں ،اس طرح سے کہ اس وقت لوط ١٥ سال کے ہو ں اور ان کے والد یحٰ٣٥ کے ہو ں اور انکے دادا سعید کی عمر ٥٥سال ہو اور پر دادامخنف بن سلیم کا سن ٧٥ سال ہو۔اس استدلال میں جو اعتراض واردہے وہ واضح ہے، کیو نکہ ابو مخنف اپنے والد کے چچا محمد بن مخنف سے نقل کرتے ہیں کہ وہ جنگ صفین کے موقع پر ١٧ سال کے تھے یعنی ان کے بھائی سعید ان سے بڑے نہیں تھے بلکہ چھوٹے تھے اسی لئے جنگ صفین میں شریک نہیں ہو ئے اور انہو ں نے اس جنگ کی روداد اپنے بھائی سے نقل کی پس اس وقت ان کاسن ١٥سال کے آس پا س ہو گا، نہ کہ ٥٥ سال کا ۔

۲۴

ہوئے ،لیکن یہ بہت بعید ہے کہ انہوں نے اس زمانے میں اسے لکھا ہواور پھر لوگوں کو املا کریا ہو۔کیونکہ اس زمانے میں تدوین حدیث پربڑی سخت پابندی عائد تھی؛ بلکہ سخت ممنوع تھا۔ اس اموی دور سلطنت میں تاریخ نویسی کا کیا سوال پیدا ہو تا ہے اوروہ بھی شیعی تاریخ کا ؟ !جبکہ یہ زمانہ شیعوں کے لئے خوف،تقیہ اور گھٹن کا زمانہ ہے ۔

ابو مخنف نے مسلم بن عقیل کے کوفہ میں وارد ہو کر مختار بن ابو عبید ثقفی کے گھر رہنے کے سلسلے میں جو خبر نقل کی ہے اس میں یہ جملہ موجود ہے :'' یہ گھر آج مسلم بن مسیب کے گھر سے معروف ہے''اس جملہ سے ہمیں ایک فائدہ یہ حاصل ہو تا ہے کہ انھوں نے اس مقتل کی تالیف پہلی صدی ہجری کی تیسری دہائی میں کی ہے ،کیونکہ مسلم بن مسیب ١٢٩ ھمیں شیراز کے عامل تھے جیسا کہ طبری کی ،ج٧،ص٣٧٢ پر مر قوم ہے اور یہ عہد بنی امیہ کے ضعف و شکست اور بنی عباس کے قیام کا دور شمار ہو تا ہے جس میں بنی عباس اہل بیت کی رضایت حاصل کر کے امام حسین اور آپ کے اہل بیت علیہم السلام کے خون کا بدلہ لینا چاہتے تھے لہذا ممکن ہے عباسیوں ہی نے ابو مخنف کومقتل حسین علیہ السلام کی تالیف کی دعوت دی ہو تاکہ ان کے قیام کی تائیدہو سکے پھر جب یہ لوگ زمام حکومت پر قابض ہوگئے تو ابو مخنف اور ان کے مقتل کو تر ک کر دیاجیسا کہ اہل بیت علیہم السلام کو چھوڑ دیا بلکہ ان سے جنگ پر آمادہ ہوگئے ۔

ابومخنف کی کتابیں

(الف)شیخ نجاشی نے ابو مخنف کی مندرجہ ذیل کتابوں کا ذکر کیاہے۔

١۔کتاب المغازی

٢۔کتاب الردّہ

٣۔کتاب فتوح الاسلام

٤۔کتاب فتوح العراق

٥۔کتاب فتوح الخراسان

٦۔کتاب شوریٰ

۲۵

٧۔کتاب قتل عثمان

٨۔کتاب جمل

٩۔کتاب صفین

١٠۔کتاب الحکمین

١١۔ کتاب النہروان

١٢۔کتاب الغارات

١٣۔ کتاب اخبار محمد بن ابی بکر

١٤۔ کتاب مقتل محمدبن ابی بکر

١٥۔ کتاب مقتل امیرالمومنین علیہ السلام

١٦۔کتاب اخبار زیاد

١٧۔ کتاب مقتل حجر بن عدی

١٨۔ کتاب مقتل الحسن

١٩۔کتاب مقتل الحسین علیہ السلام

٢٠۔ کتاب اخبارالمختار

٢١۔کتاب اخبار ابن الحنفیہ

٢٢۔ کتاب اخبارا لحجاج بن یوسف ثقفی

٢٣۔کتاب اخباریوسف بن عمیر

٢٤۔کتاب اخبارشبیب الخارجی

٢٥۔کتاب اخبارمطرف بن مغیرہ بن شعبہ

٢٦۔کتاب اخبارالحریث بن الاسدی الناجی

٢٧۔کتاب اخبارآل مخنف بن سلیم

۲۶

اس کے بعد نجاشی نے اپنے طریق کو اس طرح ذکر کیا ہے :''عن تلمیذہ ہشام الکلبی''ابو مخنف کے شاگرد کلبی سے مروی ہے(١)

(ب) شیخ طوسی نے بھی فہرست میں ان میں سے بعض کتابوں کا تذکرہ کیا ہے اور اس کے بعد فرماتے ہیں کہ ابو مخنف کی ایک کتاب بنام ''کتاب خطبات الزہرائ'' بھی ہے۔ شیخ طوسی روایت میں اپنے طریق کو بیا ن فرماتے ہیں ۔(٢)

(ج)ابن ندیم نے بھی اپنی فہرست میں ان کتابوں میں سے بعض کا ذکر کیا ہے، منجملہ مقتل الحسین کوابو مخنف ہی کی کتابوں میں شمار کیاہے۔

دواہم نکات

ابومخنف کی کتابوں کی فہرست کابغور مطالعہ کرنے کے بعد دو اہم نکات سامنے آتے ہیں :

١۔سب سے پہلی بات یہ کہ ابو مخنف نے اپنی ساری کوششیں اس پر صرف کی ہیں کہ شیعی روایات بالخصوص کوفہ سے متعلق اخبار کو اپنی کتابوں میں درج کریں ۔ ان کتابوں میں کوئی بھی کتاب ایسی نہیں ہے جس میں بنی امیہ یا بنی مروان کا عنوان شامل ہو، اسی طرح ان کتابوں میں ابو مسلم خراسانی کا قیام اوربنی عباس کی تشکیل حکومت کے سلسلے میں بھی کوئی عنوان نظر نہیں آتا جبکہ بنی عباس کی حکومت کی تشکیل کے ٢٥ سال بعد ٥٨ا ہجری میں ابو مخنف کی وفات ہوئی ہے۔ اگر فہرست کتب میں اس مو ضوع پر کوئی کتاب نظر آتی ہے تو وہ فقط ''کتاب حجاج بن یوسف ثقفی ''ہے اور حجاج کی تباہکاریوں کی داستان اس کی موت کے ساتھ ٩٥ ہجری میں ختم ہو جاتی ہے۔ البتہ طبری نے بنی امیہ کے آ خری ایام کی خبروں کو ١٣٢ ہجری کے حوادث میں ابو مخنف ہی سے نقل کیا ہے۔(٣)

٢۔ دو سرا اہم نکتہ یہ ہے کہ ابو مخنف کی روایات کو ان کی کتابوں میں ، خصوصاًطبری کی روایتوں میں ملا حظہ کر نے کے بعد اندازہ ہو تا ہے کہ ابو مخنف نے بہت سارے موارد میں اپنے باپ ،چچا،چچازادبھائیوں یا ''قبیلۂ ازد'' کے وہ بزرگان جو اس وقت زندہ تھے، ان سے رواتیں نقل کی ہیں اوریہ اس بات کی دلیل ہے کہ ابو مخنف کے قبیلہ میں بہت ساری خبر یں موجو دتھیں جس نے ابو مخنف کو ان کی جمع آوری اور تالیف پربر انگیختہ کیا۔ .اسی وجہ سے ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی خبروں میں کوفہ اور اہل کوفہ ہی پر اکتفا کر تے ہیں اور اس فن میں انھوں نے اتنا یدطولیٰ حاصل کیا کہ دوسروں کے مقابلہ میں وہ اس فن میں اعلم شمار ہو تے ہیں ۔

____________________

١۔رجال نجاشی، ص٢٢٤،طبع حجر ہند

٢۔فہرست، ص١٥٥وطبری ،ج٧،ص٤١٧،سال ١٣٢ ہجری فی خروج محمد بن خالد بالکوفہ

٣۔طبری ،ج٥، ص٤١٧

۲۷

مذہب ووثاقت

ابو مخنف کے آثارکو دیکھنے کے بعد اس بات کا بھی اندازہ ہو تا ہے کہ انھوں نے امام زین العابدین علیہ السلام (جنکی شہادت ٩٥ ہجری میں ہو ئی ہے) سے کو ئی روایت بلا واسطہ نقل نہیں کی ہے؛ اسی طرح امام محمد باقر علیہ السلام (جنکی شہادت ١١٥ ہجری میں ہوئی ہے) سے بھی بلا واسطہ ایک روایت موجود نہیں ہے۔(١)

بلکہ وہ امام محمد باقر علیہ السلام سے ایک واسطہ اور امام زین العا بدین علیہ السلام سے دو واسطوں سے روایت نقل کرتے ہیں اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے بلا واسطہ چند ہی روایتں ملتی ہیں ۔(٢) یہ مطلب شیخ نجاشی کی ان باتوں کی تائیدکرتاہے جس میں وہ فرماتے ہیں : ''بعض لوگ کہتے ہیں کہ ابو مخنف نے امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ ''اسی طرح ابوا مخنف نے امام موسی کاظم علیہ السلام سے بھی کوئی روایت نقل نہیں کی ہے جب کہ ابو مخنف امام علیہ السلام کے زمانے میں موجود تھے، کیونکہ امام موسی کاظم علیہ السلام کی شہادت ١٤٨ ہجری میں واقع ہوئی ہے ؛یہی وجہ ہے کہ کسی نے بھی ابو مخنف کو امام علیہ السلام کے صحابیوں میں شمار نہیں کیا ہے ۔

____________________

١۔طبری،ج ٥،ص٤٨٨۔خبر شہادت شیر خوار کو ملا حظہ کیجئے ۔

٢۔خبر شب عا شو راملاحظہ ہو ،ج ٥ ،ص٤٨٨

۲۸

مندرجہ بالا قرینے اس مطلب کی دلیل فراہم کرتے ہیں کہ ابو مخنف شیعہ نہیں تھے اورشیعی اصطلاح کے مطابق ائمہ کے اصحاب میں شمار نہیں ہوتے تھے، جن کو مخالفین اہل بیت رافضی کہا کرتے تھے؛ البتہ اس زمانے میں اہل کوفہ کی طرح ان کا بھی فکری اور نظریاتی میلان تشیع کی طرف تھا لیکن سنی مذہب کوبطور کلی ترک نہیں کیا تھا۔اس کی تائید میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مخالفین اہل بیت میں سے کسی نے بھی رافضی کے تیر سے ان پر حملہ نہیں کیا ہے جیسا کہ وہ ہر شیعہ کے لئے کرتے تھے حتیٰ کہ یہ ایک اصطلاح بن چکی تھی جو ابھی تک باقی ہے۔ بلکہ ابومخنف کے سلسلے میں مخالفین اہل بیت کا نظریہ یہ ہے کہ وہ تشیع اور مذہب اہل بیت کی طرف رجحان رکھتے تھے ، اسی وجہ سے ان کو شیعہ کہا کرتے ہیں ؛ لیکن مخالفین اہل بیت علیہم السلام کوجن کے بارے میں معلوم ہوجاتاتھا کہ یہ مذہب اہل بیت سے وابستہ ہیں ان پر فوراًرافضی ہونے کا تیرچلاتے تھے اور فقط شیعہ کہنے پر اکتفانہیں کرتے تھے۔دشمنان اہل بیت کے نزدیک اصطلاح شیعہ اور رافضی میں اساسی فرق یہی ہے ۔

ذہبی ، اہل سنت کے معروف رجالی ، کہتے ہیں : ''یہ اخباری مذہب کے حامی ہیں اور قابل اعتماد نہیں ہیں ''۔ ابوحاتم وغیرہ نے ان سے روایت نقل نہیں کی ہے اور ان کو ترک کردیا ہے ۔

ابن معین کہتے ہیں :''یہ ثقہ نہیں ہیں '' مرّ ہ کہتے ہیں :'' وہ بہت قابل توجہ نہیں ہیں ''۔ ابن عدی کہتے ہیں : ''وہ متعصب شیعہ تھے ا ان کا شمارشیعہ محدثین و مورخین میں ہوتاہے(١) ان میں سے کسی بھی رجالی نے ابو مخنف پر رافضی کے تیر سے حملہ نہیں کیا ہے جبکہ ان تمام رجالیوں کی سیرت یہ ہے کہ اگر ان کے لئے کسی کے سلسلے میں اہل بیت کی پیروی ثابت ہو جائے تو فوراًرافضی کہہ کر اپنی دریدہ ذ ہنی اور شوریدہ فکر ی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔

ابن ابی الحدید معتزلی نے اس بات کی بالکل صراحت کر دی۔ وہ کہتے ہیں :''ابو مخنف کا شمار محدثین میں ہوتاہے اوران کا تعلق اس گروہ سے ہے جو اس بات کا قائل ہے کہ امامت عوام کے اختیار

____________________

١۔ میزان الاعتدال، ج٣،ص ٤٣،طبع حلبی محترق کے معنی متعصب کے ہیں جیسا کہ میزان الاعتدال میں حارث بن حصیرہ کے سلسلے میں آیا ہے؛ محترق کے وہ معنی نہیں ہیں جو عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔

۲۹

میں ہے ؛عوام جس کو چاہے امام بنادے، لہٰذا وہ نہ توشیعہ تھے اور نہ ہی شیعی رجال میں ان کاشمار ہوتا ہے۔(١)

سیدصدر نے ابن ابی الحدیدکی اس عبارت کو''تاسیس الشیعہ لعلوم الاسلام''میں نقل کیا ہے پھر اس عبارت پرتعلیقہ لگاتے ہوئے کہتے ہیں :''میرے نزدیک تشیع ہی کی بنیاد پر ان کی مذ مت کی گئی ؛اس کے باوجود وہ اہل سنت کے علماء کے نزدیک مورد اطمینان وقابل وثوق ہیں اور ائمہ اہلسنت نے ان پر اعتماد کیا ہے جیسے ابی جریر طبری ،ابن اثیر بالخصوص، ابن جریر طبری جس نے اپنی ضخیم اور عظیم تاریخ کو ابی مخنف ہی کی روایتوں سے پرکر دیا ہے ۔(٢)

علامہ سید شرف الدین موسوی نے اپنی کتاب'' المراجعات'' میں ایک خاص فصل قرار دی ہے جس میں ان سو شیعی رجال کا تذکرہ کیا ہے جو اہل سنت کی سندوں میں بلکہ صحاح میں موجود ہیں ۔ علامہ مرحوم نے ان سندوں کو حوالے کے ساتھ ذکر کیا ہے۔

علامہ شرف الدین موسوی کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے :اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ وہ (ابو مخنف)شیعہ تھے لیکن شیعہ امامی نہیں تھے جیسا کہ ابن ابی الحدید نے بھی اس کی صراحت کی ہے جو ایک متین بیان ہے البتہ بعض اہل سنت نے انہیں اس بنیاد پر شیعہ لکھ دیا کہ محبت و مودت اورافکار میں ان کا میلان اہل بیت اطہار علیہم السلام کی طرف تھا لیکن یہ کہ وہ آج کل کی اصطلاح کے مطابق بطور کامل شیعہ تھے، تو یہ غلط ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ گذشتہ علمائے شیعہ میں سے کسی نے بھی ان کے شیعہ ہونے کی تصریح نہیں فرمائی ہے۔شیخ نجاشی جو اس فن کے استاد تھے انھوں نے اس سلسلے میں بڑی احتیاط سے توصیف فرمائی ہے کہ ''ابو مخنف مورخین کوفہ کے بزرگ اور استاد تھے ''،یہ نہیں فرمایا کہ ہمارے مورخین کے استاد و بزرگ تھے، چہ جائیکہ یہ کہیں کہ ہمارے علماء و دانشوروں کے بزرگ اور استاد تھے ۔

____________________

١۔تاسیس الشیعہ، ص٢٣٥،طبع بغدادمیں آیا ہے کہ میں نے طبری کی سند میں ابو مخنف کی روایت کو شمار کیا تو٤٠٠ روایتو ں کے آس پاس پایا جیسا کہ فہرست اعلام ،ج٧،ص٤١٧،سال ١٣٢ میں محمد بن خالدکے خروج کے سلسلے میں یہ موجود ہے۔

٢۔تاسیس الشیعہ، ص٢٣٥ ،طبع بغداد ،المراجعات،ص١٦ تا١٧ وص،٥٢ تا ١١٨،دار الصادق

۳۰

اس پر تعجب نہ کیجئے کہ ابن ابی الحدید نے اس سلسلے میں کیونکر تصریح کردی، ذرادیکھئے!جب وہ جنگ جمل کے واقعہ میں ابو مخنف سے اس رجز کا تذکرہ کرتے ہیں جس میں مولائے کائنات نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانب سے اپنی وصایت کا تذکرہ کیا ہے تو کہتے ہیں کہ ان رجزوں کے نقل کرنے سے اس سے زیادہ کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ ابو مخنف فکر و نظر کے اعتبار سے شیعہ تھے نہ کہ عقیدئہ امامت میں ، جیسا کہ بہت سارے اہل سنت اس مطلب کی روایت کرتے ہیں ۔الغرض ابو مخنف شیعہ تھے اس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن ان کے امامی مذہب ہونے پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے ،اس بناپر ابومخنف کی توصیف و تمدیح کا بہترین طریقہ وہی ہے جسے شیخ نجاشی نے اپنایا ہے : ''شیخ اصحاب اخبار الکوفہ ووجھہم وکان یسکن الی ما یرویہ''وہ مورخین کوفہ کے بزرگ اور معروف آدمی تھے لوگ ان کی روایتوں پر اعتماد کرتے تھے ۔

نجاشی کا یہ بیان ایک قابل اعتبار مدح وستائش ہے جس کی بنیاد پر ان سے مروی روایتوں کا حسن ہونا ثابت ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی روایتوں کو'' الوجیزہ'' ،''ا لبلغہ'' اور ''الحاوی'' وغیرہ میں حسن شمار کیا گیا ہے ۔

ہشام الکلبی

شیخ نجاشی نے ہشام الکلبی کا ذکر کیا ہے اور ان کا نسب نامہ بھی مرقوم فرمایاہے اس کے بعدفرماتے ہیں : ہشام تاریخ دان ، تاریخ نگار اور علم و فضل میں مشہور تھے۔ وہ پیروان مذہب اہل بیت میں شمار ہو تے ہیں ۔ ان کی ایک حدیث بہت مشہور ہے جس کی داستان بہت ہی دلچسپ ہے ۔ہشام کہتے ہیں : ''میں ایک ایسے مرض میں مبتلا ہوگیا تھا جس کی و جہ سے میں اپنے سارے علم کو فراموش کرچکاتھا لہٰذا میں امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس آیا اور امام سے ساری داستان کہہ سنائی امام نے مجھے جام علم پلایا اس جام کے پیتے ہی میراسارا علم دوبارہ واپس آگیا'' ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام ان کو اپنے قریب رکھتے تھے، ان کا احترام کرتے اور ان کے لئے ترقی و بلندی کے مواقع فراہم کرتے تھے؛ اسی لئے وہ کامیاب رہے اور بہت ساری کتابیں ان کے آثار میں باقی ہیں ۔(١)

____________________

١۔ رجال نجاشی،ص٣٠٥،حجر ہند

۳۱

اس کے بعد نجاشی نے ہشام کی کتابوں کا تذکرہ کیا ہے اور ان کو اپنے طریق میں مرقوم فرمایا؛ منجملہ ان کتب میں '' مقتل الحسین'' کو بھی ہشام کی کتابوں میں شمار کیاہے۔ شاید اس کا سبب یہ ہو کہ ہشام نے کتاب'' مقتل الحسین ''کے تمام حصوں یا اکثر و بیشتر حصوں کو اپنے استاد(ابو مخنف) سے نقل کیا ہے ۔

قابل تعجب بات یہ ہے کہ شیخ طوسی نے اپنی کتاب'' مختار ''میں رجال نجاشی سے نقل کیا ہے نجاشی فرماتے ہیں : ''کلبی کا شمار سنی رجال میں ہوتا ہے ،ہاں ؛ اہل بیت سے انہیں شدت کی محبت تھی، بعض لوگوں نے کہا ہے کہ کلبی تقیہ میں تھے ، مخالف اہل بیت نہیں تھے ۔(١)

____________________

١۔ المختار من رجال ا لکشی، ص ٣٩٠ ،حدیث ٧٣٣ طبع مشہد، یہ بات پوشیدہ نہیں رہنی چاہیئے کہ ہمارے متعدد بزرگ علمائے رجال تعارض کی صورت میں نجاشی کے قول کو مقدم مانتے ہیں ١۔ شہیدثانی مسالک میں فرماتے ہیں :''وظاهر حال النجاشی انه اضبط الجماعه واعرفهم بحال الرواة ''ظاہر یہ ہے کہ نجاشی کا حافظہ سب سے قوی اور راویو ں کے احوال سے سب سے زیادہ باخبر ہیں ۔٢۔ان کے نواسے ''شرح الاستبصار'' میں فرماتے ہیں :''والنجاشی مقدم علی الشیخ فی هٰذه المقامات کما یعلم بالممارسته '' ۔ نجاشی ان موارد میں شیخ پر مقدم ہیں جیسا کہ تحقیق و جستجو سے یہی معلوم ہوتا ہے۔٣۔ان کے استاد محقق استرآبادی کتاب ''الرجال الکبیر'' میں سلیمان بن صالح کے احوال نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :''ولا یخفی تخالف ما بین طریقتی الشیخ والنجاشی ولعل النجاشی اثبت'' ۔ یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ رجال شناسی میں شیخ اور نجاشی کے درمیان اختلاف کی صورت میں نجاشی کا قول مقدم ہے ؛کیونکہ نجاشی کا نظریہ زیادہ محکم ہے ۔٤۔ سید بحر العلوم'' الفوائد الرجالیہ'' میں فرماتے ہیں :'' احمد بن علی نجاشی کا محکم ، استوار اور عادل بزرگو ں میں شمار ہوتا ہے۔ آپ جرح و تعدیل کے عظیم ترین رکن ہیں اور اس راہ کے سب سے بزرگ عالم ہیں '' ہمارے تمام علماء کا اس پر اجماع ہے کہ وہ معتمد ہیں اور سب کے سب احوال رجال میں انہیں کی طرف استناد کرتے ہیں نیزان کے قول کو مقدم جانتے ہیں ۔اصحاب نے ان کی کتاب کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ جس کی کو ئی نظیر نہیں ہے اس باب میں صراحت کی ہے کہ نجاشی کا قول صحیح ہے ۔اس کے علاوہ نجاشی نے اپنی کتاب میں شیخ کشّی کے احوال کو پیش کرتے ہو ئے فرما یا : ''کان ثقةعیناً..''آپ مورد وثوق اور معروف انسان تھے ،رجال کے موضوع پرآپ کی ایک کتاب ہے جو بڑی معلوماتی ہے لیکن اس کتاب میں کافی غلطیا ں ہیں ۔آپ عیاشی کے ساتھ تھے اور انہیں سے روایتی ں نقل کی ہیں ا لبتہ اس کتاب میں ضعیف راویو ں سے بھی روایت نقل کردی ہے (ص٣٦٣) پھر نجاشی ،عیاشی کے سلسلے میں لکھتے ہیں ''ثقة و صدوق'' ، وہ مورد وثوق اوربڑے سچے تھے ''عین من عیون ھٰذہ الطائفہ'' اس گرو ہ شیعہ کی معروف ترین شخصیتو ں میں شمار ہوتے تھے۔ عیاشی پہلے سنی تھے پھر شیعہ ہوئے۔ آپ نے ضعفا سے بہت روایتی ں نقل کی ہیں ۔(ص٢٤٧) شاید کشّی نے یہ قول عیاشی ہی سے حاصل کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کلبی سنی تھے کیونکہ وہ شروع میں سنی تھے۔ ہا ں کلبی اپنے کو چھپا ئے رہتے تھے اور تقیہ پر عمل کرتے تھے جیسا کہ کشی نے ذکر کیاہے۔

۳۲

اسکے بعد شیخ نے ہشام کلبی کا بالکل تذکرہ نہیں کیا ہے؛نہ ہی رجال میں اورنہ ہی فہرست میں ، ہاں اپنے اس طریق میں جس میں ابومخنف کی کتابوں سے روایت نقل کی ہے ہشام کا تذکرہ کیا ہے۔(١)

شاید اس کا سبب یہ ہوکہ کلبی کی جتنی کتابیں تاریخ شیعہ سے مختص ہیں ان سب میں انہوں نے اپنے استاد ابی مخنف سے روایتیں نقل کی ہیں ، لیکن دوسری کتابیں کہ جو شیعوں کی تاریخ سے مخصوص نہیں ہیں دوسرے مورخین سے نقل ہیں ۔ اہل سنت کے سیرو تراجم کے تمام دانشوروں نے ہشام کے علم و حافظہ اور انکے شیعہ ہو نے کی صراحت کی ہے۔ابن خلکان کہتے ہیں : ''تاریخ اور تاریخ نگاری کے سلسلے میں ان کی معلومات بڑی وسیع تھی۔ وہ علم انساب کے سب سے بڑے عالم تھے اور اخباروروایات کے حفظ میں مشہور روزگار تھے ۔آپ کی وفات ٢٠٦ ہجری میں ہوئی ۔(٢)

اہلسنت کے دوسرے بزرگ عالم رجالی ابو احمدبن عدی اپنی کتاب'' کا مل'' میں کہتے ہیں : ''کلبی کی حدیثیں صالح ودرست ہیں ۔ تفسیر میں بھی انکا علم وسیع تھا اور وہ اس علم کے ذریعہ معروف تھے؛ بلکہ تفسیر میں ان سے طولانی اور سیر حاصل بحث کسی نے بھی نہیں کی ہے ۔کلبی تفسیر میں مقاتل بن سلیمان پر برتری اور فضیلت رکھتے ہیں ؛کیو نکہ مقاتل کے یہاں عقیدہ اور مذہب کی سستی وخرابی موجودہے۔ ابن حبان نے کلبی کو ثقات میں شمار کیا ہے'' ۔(٣)

رائج مقتل الحسین

اس زمانے میں متداول، لوگوں کے ہاتھوں اور مطبو عات میں جو مقتل ہے اسے ابو مخنف نے تالیف نہیں کیاہے، بلکہ اسے کسی دوسرے نے جمع کیا ہے، لیکن یہ معلوم نہیں ہے کہ کہاں جمع کیا گیا، کس

____________________

١۔رجال طوسی ،ص١٥٥ ۔

٢۔طبری نے اپنی تاریخ میں کلبی سے ٣٣٠ موارد نقل کئے ہیں ۔ اسکے باوجود اپنی کتاب'' ذیل المذیل ''میں ان کے احوال مر قوم نہیں کئے ہیں ۔ فقط کلبی کے باپ کا تذکرہ(ص١١٠)پر کر تے ہوئے کہا ہے :ان کے دادا بشربن عمرو کلبی ہیں اور انکے فرزند سائب ،عبید او رعبد الرحمن ہیں جو جنگ جمل اور جنگ صفین میں حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ تھے۔

٣۔ لسان المیزان ،ج٢،ص٣٥٩۔

۳۳

نے جمع کیا ،کس کے ہا تھوں یہ کتاب ملی اور سب سے پہلے یہ کتاب کہاں چھپی ہے ؟ کسی کو ان مسائل کا علم نہیں ہے ۔ امام شرف الدین مو سوی رحمةاللہ علیہ فر ماتے ہیں : ''یہ بات مخفی نہیں ہے کہ مقتل امام حسین علیہ السلام میں جو کتاب رائج ہے وہ ابو مخنف کی طرف منسوب ہے جس میں بہت ساری ایسی حد یثیں موجود ہیں جسکا ابو مخنف کو علم بھی نہیں تھا اور یہ سب کی سب حد یثیں جھو ٹی ہیں جو ان کے سر مڑ ھی گئی ہیں ۔جھو ٹوں اور فر یب کاروں نے بہت ساری چیزوں کا اس میں اضافہ کیا ہے۔فر یب کاروں کا جھو ٹی روایتیں گڑھ کر ان کی طرف نسبت دینا خود ان کی عظمت وجلا لت کا بین ثبوت ہے''(١) کیو نکہ جعل ساز کو معلوم ہے کہ تاریخ کے میر کا رواں کا نام ابو مخنف ہے لہذا جھوٹی روایات انہیں کی طرف منسوب کی جائیں تا کہ لوگ صحیح و غلط میں تمییز دیئے بغیر قبول کر لیں ۔

محدث قمی فر ما تے ہیں : یہ بات معلو م ہو نی چاہئے کہ تاریخ و سیر میں ابو مخنف کی کتا بیں کثیر تعدادمیں موجودہیں ، ان میں سے ایک کتاب'' مقتل الحسین'' ہے جسے قدیم بزرگ علماء نے ذکر کیا ہے اور اس پر اعتماد بھی کر تے تھے؛لیکن بہت افسوس کی بات یہ ہے کہ اس وقت اسکا ایک بھی نسخہ مو جو دنہیں ہے۔یہ مقتل جو اس وقت ہما رے ہا تھوں میں ہے اور اسے ابو مخنف کی طرف منسوب کیا جا تاہے در حقیقت ان کا مقتل نہیں ہے بلکہ کسی دوسرے معتمد مورخ کا بھی نہیں ہے ۔اگر کسی کو اس کی تصدیق کر نی ہے تو جو کچھ اس مقتل میں ہے اور جسے طبری وغیرہ نے نقل کیا ہے ان کا مقایسہ کرکے دیکھ لے؛ حقیقت سا منے آجائے گی۔ میں نے اس مطلب کو اپنی کتاب نفس المہموم میں طرماح بن عدی کے واقعہ کے ذیل میں بیان کردیا ہے۔(٢)

اب جبکہ ہم نے اس کتاب کی تحقیق کا بیڑااٹھایا ہے تو ضروری ہے کہ ہم اس کتاب کے جعلی ہونے کی بحث کو غور وخوص کے ساتھ آگے بڑھائیں تاکہ قارئین کرام پر بات واضح سے واضح تر ہوجائے ۔

یہ بات یقینی ہے کہ اس کتاب کی جمع آوری ابو مخنف کے علاوہ کسی اور نے کی ہے لیکن کس نے کی اور کب کی ہے اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا ،اگر چہ اس بات کا اندازہ ضرور ہوتا ہے کے جمع آوری کرنے

____________________

١۔مو لفوا الشیعة فی صدر الا سلام، ص٤٢،طبع النجاح

٢۔ الکنی والالقاب ،ج١ ، ص١٤٨؛نفس المہموم ص١٩٥،اوراس کا مقدمہ، ص٨ ،طبع بصیرتی

۳۴

والا شخص متاخرین میں سے ہے اور عرب زبان ہے لیکن نہ تو تاریخ شناس ہے، نہ حدیث شناس اور نہ ہی علم رجال سے آگاہ ہے حتیٰ عربی ادب سے بھی واقف نہیں ہے کیونکہ کتاب میں اس نے ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں جو جدید عربی کے عام اور بازاری الفاظ ہیں ۔

اس کتاب میں ١٥٠روایات موجود ہیں جن میں سے ٦روایتیں مرسل ہیں ۔

مرسل روایات میں پہلی روایت چوتھے امام حضرت زین العابدین علیہ السلام سے ہے جو ص٤٩ پر موجودہے ۔

دوسری مرسلہ روایت عبداللہ بن عباس سے ہے جو ص٩٤ پرنقل ہوئی ہے ۔

تیسری روایت عمارہ بن سلیمان سے ہے اور وہ حمید بن مسلم سے نقل کرتے ہیں ،ص٨٢۔

چوتھی روایت ایک ایسے شخص سے ہے جس کے بارے میں یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ وہ عبداللہ بن قیس ہے، ص٩٦۔

پانچویں روایت کے بارے میں دعوی کیا جاتا یہ کہ عمار سے نقل ہوئی۔یہ روایت ص٧٠پرکلینی،متوفیٰ ٣٢٩ھسے مرفوعاًمنقول ہے اور اصول کافی میں یہ روایت موجود نہیں ہے۔

جمع آوری کرنے والے نے روایت نمبر١٠٥(١) سے کتاب میں ایک شخص کو داخل کیا ہے جس کا نام سہل شہر زوری ہے اور اس سے بہت ساری حدیثیں نقل کی ہیں ۔مولف نے اس شخص کوکوفہ سے شام ، حتیٰ شا م سے مدینہ تک اہل بیت کے ہمراہ دکھایا ہے اور اس سے ٣١مرسل روایتیں نقل کی ہیں ، منجملہ سہل بن سعد ساعدی کی روایت کو اسی شخص یعنی ''سہل بن سعید شہر زوری ''کے نام سے ذکر کردیا ہے!(٢)

اس کے علاوہ اس کتاب کی بقیہ روایتوں کی نسبت خود ابو مخنف کی طرف دی گئی ہے جو ١٣٨ حدیثیں ہیں ۔

اس کتاب میں بہت ساری واضح اور فاش غلطیاں ہیں جن کی طرف مندرجہ ذیل سطروں میں اشارہ کیا جارہا ہے ۔

____________________

١۔ مقتل ابو مخنف، ص١٠٢،طبع نجف

٢۔مقتل ابو مخنف، ص١٢٣،نجف

۳۵

واضح غلطیاں

اس رائج مقتل میں بہت ساری واضح غلطیاں ہیں :

١۔ ایک صاحب بصیرت قاری اس مقتل کے پہلے صفحے کی پہلی ہی سطر میں واضح غلطی کی طرف متوجہ ہو جائے گاکہ ابو مخنف کہتے ہیں : ''حدثنا ابو المنذرہشام عن محمد بن سائب کلبی'' مجھ سے ابو منذر ہشام نے محمدبن سائب کلبی کے حوالے سے روایت نقل کی ہے ، ذرا غور کیجئے کہ ابو مخنف ہشا م کے استاد ہیں اور وہ اپنے شاگرد ہشام سے روایتیں نقل کررہے ہیں !مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ اس بے اساس مقتل کے مطابق ہشام نے اپنے باپ محمد بن سائب کلبی کے حوالے سے اپنے استاد ابو مخنف کے لئے ان روایات کو نقل کیا ہے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کتاب کو جمع کرنے والا شخص راویوں کے حالات زندگی سے کس قدر نابلد تھا کہ ا س کے اوپر یہ واضح امر بھی مخفی تھا۔(١)

٢۔اس کے بعد جب آپ اس کتاب کے چند اوراق اور پلٹیں گے تو آپ کا اس عبارت سے سامناہو گا '' و روی الکلینی فی حدیث''(٢)

اے کاش معلوم ہوجاتا کہ کلینی سے روایت کرنے والا شخص کون ہے جبکہ کلینی نے ٣٢٩ ہجری میں اس دار فانی کو وداع کیا ہے اور ابو مخنف کی وفات١٥٨ ہجری میں ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ یہ روایت کافی میں بھی موجود نہیں ہے ۔

٣۔کچھ اورورق گردانی کرنے کے بعدآپ کو یہ عبارت ملے گی ؛''فانفذ(یزید)الکتاب الی الولیدوکا ن قد ومه لعشرة ایام خلون من شعبان'' (٣) 'یزید نے خط لکھ کر ولید کی طرف روانہ کیا اور یہ خط دس شعبان کوحاکم مدنیہ کے ہا تھ میں پہنچا '۔جبکہ تمام مورخین کا اس پر اتفاق ہے کہ

____________________

١۔ایسی ہی ایک روایت سید مرتضیٰ نے اپنی کتاب'' تنزیہ الانبیا ئ'' ص ١٧١ میں نقل کی ہے کہ ابن عباس فرزند ہشام نے اپنے والد ہشام سے انھو ں نے ابومخنف سے اور انھو ں نے ابی الکنودعبد الرحمٰن بن عبید سے روایت کی ہے۔شاید اس کتاب کو جمع کرنے والے نے سید کی کتاب یاکسی اور جگہ سے اس بات کو تحریف و تصحیف و زیادتی کے ساتھ نقل کردیا ۔

٢۔ ص٧

٣۔ص١١

۳۶

امام حسین علیہ االسلام ٣ شعبان کو مکہ وارد ہو گئے تھے۔ خود طبری نے ابو مخنف کے حوالے سے بھی یہی لکھا ہے۔اب ذرا غور کیجئے کہ ان دونوں تاریخوں کو کیسے جمع کیا جا سکتا ہے۔

٤۔ سفیر امام حسین جناب مسلم بن عقیل کی شہادت کے سلسلے میں فقط اسی مقتل میں جناب مسلم کے راستے میں گڑھا کھود نے اور انھیں زنجیر میں جکڑ کر عبید اللہ بن زیاد کے دربار میں لے جانے کی خبر ملتی ہے۔کتاب کی عبارت اس طرح ہے : '' ابن زیاد فوج کے پاس آیا اور ان سے کہا : میں نے ایک چال سونچی ہے کہ ہم مسلم کے راستے میں ایک گڑھا کھود دیں اور اسے خس وخا شاک سے چھپا دیں ،پھر حملہ کر کے مسلم کو آگے آنے پر مجبور کریں ۔ جب وہ اس میں گِر جائیں تو ہم انھیں پکڑلیں ۔میں سمجھتا ہوں کہ وہ اس دام میں آکر زندہ نہیں بچ پائیں گے۔(١)

٥۔ اسی طرح یہ خبر بھی فقط اسی کتاب میں موجودہے : ''جب امام حسین علیہ السلام کے دو فدا کا ر ساتھی مسلم و ہانی کو فہ میں شہید کر دیئے گئے اور امام ان دونوں کی خبر سے مطلع نہ ہو سکے تو آپ بہت مضطرب اور پریشان حال نظر آنے لگے لہٰذ ا آپ نے اپنے خاندان والوں کو جمع کرکے سب کو فوراً مدنیہ واپس ہونے کا حکم دیا ۔ امام کے حکم کے مطابق سب کے سب امام کے ہمراہ مدنیہ کی طرف نکل گئے یہاں تک کہ سب لوگ مد نیہ پہنچ گئے۔یہاں پر امام حسین علیہ السلام بنفس نفیس قبر رسو لخدا صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم کے پاس آے اور تعویذقبر سے لپٹ کر زاروقطار رونے لگے اور روتے روتے آپ کی آنکھ لگ گئی ''(٢) جبکہ اس بے بنیاد خبر کا ذکر کسی کتاب یاسفر نامہ میں نہیں ملتا ہے ۔

٦۔تنہا یہی کتاب ہے جس میں یہ خبر ملتی ہے :''جب امام وارد کر بلا ہو ئے تو آپ نے ٧ گھوڑے بدلے؛ لیکن جب کسی گھوڑے نے بھی حرکت نہ کی تو آپ وہیں اترگئے، وہیں پڑاوڈالا اور وہاں سے آگے نہ بڑھے۔''(٣)

٧۔ فقط اسی کتاب میں یہ خبر ملتی ہے کہ امام زین العا بدین علیہ السلام نے نقل فرما یا کہ امام حسین علیہ السلا م شب عاشور کر بلا میں وارد ہو ئے۔(٤)

____________________

١۔ص ٣٠

٢۔ص٣٩

٣۔ ص ٤٨

٤۔ص٤٩

۳۷

٨۔اسی کتاب میں لشکر پسر سعد کی تعداد ٨٠ ہزار بتائی گئی ہے۔(١)

٩۔ تنہا اسی کتاب نے فوج کی آمد پر زہیر بن قین کا خطبہ نقل کیا ہے کہ زہیر بن قین اپنے ساتھیوں کے پاس آئے اور کہا : ''اے گروہ مہاجرو انصار !اس ملعون کتے اور اس جیسے افراد کے کلام تم کو دھو کہ میں نہ ڈالنے پائیں کیو نکہ انھیں محمد صلی اللہ علیہ ولہ وسلم کی شفاعت ملنے والی نہیں ہے، اس لئے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذریت کو قتل کر رہے ہیں اور جو ان کی مددکر رہا ہے اسے بھی قتل کرنے پر آمادہ ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔(٢)

١٠۔ تنہا اسی کتاب میں ہے کہ امام حسین علیہ االسلام نے کنواں کھودا لیکن اس میں پانی نہیں ملا ۔(٣)

١١۔تنہا اسی کتا ب نے شب عا شور اور روز عاشور کے واقعہ کو تین بار بغیر ترتیب کے درہم برہم نقل کیا ہے :

سب سے پہلے امام حسین علیہ السلام کے خطبہ کی خبر نقل کی ہے اور اسکے بعد علمدار کر بلا کی شہادت کی خبر بیان کی ہے۔ تنہا اسی کتاب نے لکھا ہے کہ جب آخری وقت میں حضرت عباس کے ہاتھ کٹ گئے تو انھوں نے تلوار کو منہ سے پکڑ لیا ، اسکے بعد لکھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام خون سے غلطاں لاش پر پہنچے اور ان کی لاش کو گھوڑے کی پشت پر رکھ کرخیمے تک لائے، پھر امام حسین علیہ السلام نے شدید گر یہ کیا اور آپ کے ساتھ جتنے لوگ تھے وہ بھی رونے لگے۔(٤)

اس کے بعد آپ ملا حظہ کریں گے کہ یہ کتاب شب عاشور کے واقعہ کو نقل کر تی ہے جس میں امام حسین اپنے اصحاب کے پاس آئے اور ان سے کہا : ''اے میرے ساتھیوں ،یہ قوم میرے علاوہ کسی اور کو قتل کرنا نہیں چاہتی ہے پس جب شب کا سناٹا چھاجائے تو اس کی تاریکی میں تم سب یہاں سے چلے جاؤ ، پھر آگے بڑھ کر اس طرح رقمطرازہے: اور پھر امام علیہ السلام سو گئے اور جب صبح اٹھے ...۔''(٥)

____________________

١۔ص٥٢

٢۔ ص ٥٦

٣۔ص٥٧

٤۔ ص ٥٩

٥۔ ص ٥٩ ۔ ٦٠

۳۸

پھر وہاں سے پلٹ کر صبح عاشور کی داستان چھیڑ تے ہیں اور امام حسین علیہ االسلام کے ایک دوسرے خطبہ کا ذکر کر تے ہیں ۔تنہا یہی کتا ب ہے جو بیان کر تی ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے پسر سعد کے پاس انس بن کا ہل کو سفیر بنا کر بھیجا۔ جبکہ اس نا مہ بر کا نام انس بن حر ث بن کا ہل اسدی ہے ۔

تیسری بار پھر شب عاشورہ کا تذکر ہ چھیڑ ا اور اس میں امام علیہ االسلام کے ایک دوسرے معروف خطبہ کاذکر کیا جس میں امام نے اپنے اصحاب واہل بیت کو مخا طب کیا ہے۔ اس کے بعد پھر امام حسین علیہ السلام اور پسر سعد کے لشکر کی حکمت عملی کو بیان کیا ہے۔''(١)

١٢۔ تنہا یہی کتاب ہے جس نے امام حسین علیہ السلام کے اصحاب میں ابر اہیم بن حسین کا ذکر کیا ہے۔(٢)

١٣۔ اس کتاب نے طر ماح بن عدی کو شہید کر بلا میں شمار کیا ہے جبکہ طبری نے کلبی کے واسطہ سے ابو مخنف سے نقل کیا ہے کہ طرما ح کر بلا میں موجود نہ تھے اور نہ ہی وہ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ قتل ہوئے ہیں ۔(٣)

محدث قمی نے بھی اپنی کتاب نفس المہموم ص١٩٥ پر اس خبر کے نیچے تعلیقہ لگا یا ہے ۔

١٤۔ جناب حرریا حی کے قصے میں یہ شخص چند اشعار ذکر کر تا ہے جو عبید اللہ بن حر جعفی کے ہیں اور وہ قصر بنی مقاتل کا رہنے والا ہے۔(اس کی قسمت کی خرابی یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے اسے بلا یا تو اس نے مثبت جواب نہیں دیا اور سعادت کی راہ کو خود پر بند کر لیا) لیکن کتاب کی جمع آوری کر نے والے نے ان اشعار کو حر ریاحی سے منسوب کر دیا اور اس پر توجہ بھی نہ کی، کہ یہ اشعارحرریاحی کے حال سے تنا سب نہیں رکھتے، کیو نکہ اس میں ایک شعر کا مصرع یہ ہے :''وقفت علی اجسادہم وقبورہم''(٤)

____________________

١۔ ص ٦١ ٦٢

٢۔ص ٧٠

٣۔ص ٧٢

٤۔ص٧٦ ،طبری نے ج ٥ ص ٤٧٠طبع دار المعارف پر اس شعر کو ابو مخنف سے نقل کیاہے اور انہو ں نے عبد الر حمن بن جندب سے نقل کیا ہے کہ عبید اللہ بن حر نے اس شعر کو مدا ئن میں کہا تھا : یقول امیر غادر وابن غادر۔ ألا کنت قاتلت الشہید ابن فاطمہ ؟ ذرا غور کیجئے کہ اس خیا نت کا ر مؤلف نے کلمات بدل دیے تا کہ یہ شعر حر ریا حی کے حال سے متنا سب ہو جا ئے لیکن پھر بھی متنا سب حال نہ ہو سکا۔ ہا ئے افسوس کہ یہ جمع آوری کر نے والا شخص کتنا نادان تھا ۔

۳۹

١٥۔حر ریاحی کی شہادت پر اما م حسین علیہ السلام کی طرف چند رثائی اشعار منسوب کئے ہیں جبکہ یہ اشعار امام حسین علیہ السلام کی شان امامت سے منا سبت نہیں رکھتے ہیں

نعم الحر اذ واسی حسینا

لقد فازالذی نصرواحسینا!(١)

حر کیا اچھے تھے کہ انھوں نے حسین کی مدد کی حقیقت میں وہی کامیاب ہے جس نے حسین کی مدد کی!

١٦۔نیز اسی کتا ب میں چند اشعار کو امام حسین علیہ السلام کی طرف منسوب کیا گیاہے کہ آپ نے اصحاب کی شہادت پر یہ اشعار کہے جبکہ ان اشعار سے بالکل واضح ہے کہ یہ امام حسین علیہ السلام کے نہیں ہیں بلکہ متا خرین ہی میں سے کسی شاعرکے اشعار ہیں کیو نکہ شاعر اس میں کہتا ہے کہ ''نصرواالحسین فیا لھم من فتےة''اسی طرح کے اور دوسرے اشعاربھی ہیں ۔(٢)

١٧۔ اسی کتاب نے کر بلا میں امام حسین علیہ السلام کے ورود کا دن روز چہار شنبہ لکھا ہے(٣) اور شہادت کا دن روز دوشنبہ تحریر کیا ہے ۔(٤) اس کا مطلب یہ ہوا کہ امام حسین علیہ السلام پانچ محرم کو کر بلا وارد ہو ئے ہیں جبکہ تمام مورخین ، منجملہ تا ریخ طبری کی روایت کے مطابق ابو مخنف کا نظریہ بھی یہی ہے کہ امام علیہ السلام٢ محرم کو وارد کر بلا ہو ئے اور وہ پنجشنبہ کا دن تھا۔(٥)

١٨۔ اس کتا ب کی تدوین کر نے والے نے روایت نمبر ١٠٥(٦) سے مسلسل ایک ہی راوی سے کثرت کے ساتھ روایت نقل کی ہے جس کے بارے میں اس شخص نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کا نام سہل شہر زوری ہے۔ اس شخص کو مؤ لف نے کو فہ سے شام اور وہاں سے مد ینہ تک اہل حرم کے ساتھ دکھا یا

____________________

١۔ص ٧٩

٢۔ص ٨٥

٣۔ص ٤٨

٤۔ ص ٩٣

٥۔ ج ٥، ص ٤٠٩ ،اس مطلب کی تا ئید وہ روایت بھی کر تی ہے جسے اربلی نے کشف الغمہ، ج٢،ص ٥٥٢پرامام جعفر صادق سے نقل کیا ہے کہ'' وقبض یو م عاشورء ، الجمعہ ''جس کانتیجہ یہ ہو گا عاشور جمعہ کو تھا ۔

٦۔ص١٠٢

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438