واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا18%

واقعۂ کربلا مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 438

واقعۂ کربلا
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 438 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 192990 / ڈاؤنلوڈ: 5408
سائز سائز سائز
واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

لوگوں سے وہاں کے بارے میں سن چکا تھا کہ مسلم بن عوسجہ امام حسین علیہ السلام کے لئے بیعت لے رہے ہیں ۔یہ وہیں آکر بیٹھ گیا اور نماز تمام ہونے کا انتظار کرنے لگا جب جناب مسلم بن عوسجہ نماز تمام کر چکے تو کہنے لگا : ائے بندہ خدا میں شام کا رہنے والا قبیلہ'' ذوالکلاع ''سے وابستہ ہوں خدا وند عالم نے مجھ پر احسان کیا ہے کہ میرے دل میں اہل بیت کی محبت اور ان سے محبت کرنے والوں کی محبت جاگزیں کردی ہے۔ یہ ٣ہزار درہم کے ساتھ میں چاہتا ہو ں کہ اس شخص سے ملاقات کروں جس کے بارے میں مجھ کو خبر ملی ہے کہ وہ کوفہ میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی کے بیٹے کی طرف سے بیعت لینے آیا ہے۔ میں اُن سے ملا قات کا مشتاق تھا لیکن کوئی ایسا شخص نہیں مل سکاجو میری ان تک رہنمائی کر تا اور نہ ہی کو ئی ان کی منزل گاہ سے آگاہ ہے۔ابھی میں مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ مسلمانوں میں سے کسی کو یہ کہتے سنا کہ اس مرد کو ان کے جائے قیام کا علم ہے لہذا میں آپ کے پاس حاضر ہو گیا تاکہ آپ یہ مال لے لیں اور مجھے اپنے آقا کے پاس لے چلیں تاکہ میں ان کے ہاتھوں پر بیعت کرسکوں ۔ اگر آپ چاہیں تو ملنے سے پہلے ہی مجھ سے اْن کی بیعت لے لیں ۔

اس پر مسلم بن عوسجہ نے اس سے کہا : میں اس پر خدا کی حمد کر تا ہوں تم کوان سے ملوا دوں گا ۔ مجھے اس کی خوشی ہے کہ تم جو چاہتے ہو وہ تم کو مل جائے گا اور تمہارے وسیلہ سے خدا اپنے نبی کے اہل بیت کی مدد کرے گا؛ لیکن مجھے اس کی سخت فکر ہے کہ اپنے مقصد تک پہچنے سے قبل تم نے مجھ کو پہچان لیا۔یہ فکر اس لئے ہے کہ یہ ابن زیاد سر کش ہے۔ یہ کہہ کر مسلم بن عوسجہ نے چلنے سے پہلے ہی اس سے بیعت لے لی اور بڑے ہی سخت اور سنگین عہد وپیمان کرائے کہ ہمیشہ خاندان رسالت کا خیر خوا ہ اور ان کے راز وں کو چھپا نے والا رہے گا۔ معقل نے مسلم بن عوسجہ کی رضایت کے لئے سب کچھ قبول کرلیا۔ اس کے بعد مسلم بن عو سجہ اسے اپنے گھر لے گئے اور کہا چند روز یہیں رہوتاکہ میں وقت لیکر تم کو ان کا دیدار کرا سکوں ، پھر مسلم بن عو سجہ نے اجازت لے کر جناب مسلم علیہ السلام سے اس کی ملا قات کرادی ۔(١)

____________________

١۔ ابو مخنف نے معلی بن کلیب سے اور انہو ں نے ابو وداک سے نقل کیا ہے۔(طبری ،ج٥، ص ٣٦١)

۱۶۱

ابن زیاد کے قتل کا منصوبہ

انہی شرائط میں ہانی بن عروہ مریض ہو جاتے ہیں اورعبیداللہ ابن زیاد، ہانی کی عیادت کے لئے آتا ہے۔ ابن زیاد کے آنے سے پہلے عمارةبن عبیدسلولی نے(١) ہانی سے کہا : ہمارے اجتماع کا مقصد یہ ہے کہ کسی طرح اس خون آشام جلا دکو موت کے گھاٹ اتار دیں ۔اللہ نے آج ہم کو مہلت دیدی ہے لہذا جیسے ہی وہ آئے اسے قتل کردیا جائے۔ لیکن ہانی نے کہا: مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ وہ میرے گھر میں قتل کیا جائے لہٰذا ابن زیاد آیا، عیادت کی اور چلا گیا ۔

ابھی اس واقعہ کو ایک ہفتہ نہ گزار تھاکہ شریک بن اعور حارثی مریض ہو گیا۔ چونکہ وہ تمام حکمرانوں سے نزدیک تھا منجملہ ابن زیاد کا بھی مقرب تھااور دوسری طرف اس کے دل میں تشیع اور محبت اہل بیت کی گرمی شعلہ ورتھی لہذا جب عبید اللہ ابن زیاد نے اس کے پاس آدمی بھیج کر کہا کہ آج شام میں تمہا رے دیدار کو آؤں گا تو شریک نے جناب مسلم کو بلا کر کہا : وہ فا جر آج رات میری عیادت کو آے گا جب وہ آکر بیٹھے تو آپ پردے کے پیچھے سے آکر اسے قتل کر دیجئے پھر محل میں جا کر بیٹھ جائیے ، اس کے بعد کوئی نہیں ہے جو آ پ اور اس کے درمیان حائل ہو سکے۔ اب اگر میں اپنے اس مرض سے صحت یاب ہو گیا تو میں بصرہ چلا جاؤں گا اور حکومت آپ کی ہو گی ۔

جب رات آئی تو ابن زیاد شریک کی عیادت کے لئے آیا اور مسلم نے اپنے آپ کو آمادہ کیا۔ شریک نے مسلم سے کہا : دیکھو جب وہ بیٹھ جائے تو فرصت کو ہاتھ سے جا نے نہ دینااسی اثنا میں ہانی بن عروہ کھڑے ہوئے اور کہا : مجھے پسند نہیں ہے کہ وہ میرے گھر میں قتل ہو (گویا ہانی اس کو اپنے لئے ننگ وعار سمجھ رہے تھے) بنا برین عبیداللہ بن زیاد آیا اور داخل خانہ ہو کر شریک کی احوال پرسی کی۔ اس احوال پرسی نے طول اختیار کیا لیکن شریک نے دیکھا کہ مسلم نہیں نکل رہے ہیں لہذا فرصت کے فوت ہونے کے خوف سے ایک شعر پڑھا جس کا معنی اس طرح ہے : کس انتظار میں ہو کہ سلمیٰ کو سلام وتہنیت پیش کرو ؟ مجھے

____________________

١۔ یہ کو فہ والو ں کے نامہ برو ں میں سے ایک ہیں جو ٥٣ خطوط لے کر گئے تھے اور امام علیہ السلام نے انہیں مسلم بن عقیل ،قیس بن مسہر صیداوی اور عبد الر حمن ارجی کے ساتھ کوفہ روانہ کیا تھا۔

۱۶۲

سیراب کرو چاہے اس میں میری جان چلی جاے!یہ شعر اس نے دو تین بار پڑھا تو ابن زیاد نے کہا : تم کو کیا ہو گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مرض کی شدت سے تم ہذیان بک رہے ہو!ہانی نے کہا : ہاں ! اللہ آپ کوصحیح وسالم رکھے ؛صبح سے لے کر اب تک ان کی حالت ایسی ہی ہے۔ اس پر ابن زیاد اٹھ کر چلا گیا ۔ مسلم باہر نکلے تو شریک نے کہا اس کے قتل سے تمہیں کس چیز نے روک دیا ؟ مسلم نے جواب دیا : ''خصلتا ن'' دو چیزوں نے روک دیا''اما احد هما: فکر اهة هانیٔ أن یقتل فی داره'' پہلی چیز تو یہ کہ ہانی کو ناپسند تھا کہ وہ ان کے گھر میں قتل کیا جائے''اما الأخریٰ : فحد یث حدثه الناس عن النب صلی اللّٰه علیه و آله وسلّم ان الا یمان قید الفتک ولا یفتک المؤ من '' دوسری چیز حدیث نبوی ہے جسے لوگوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نقل کیا ہے کہ خدا پر ایمان، غفلت کی حالت میں قتل کر نے سے روک دیتاہے اور مومن دھوکے سے کبھی کسی کو قتل نہیں کرتا ۔

اس پر ہانی نے کہا : خدا کی قسم اگر تم قتل کرتے تو میں بھی اس فاسق و فاجر اور دھو کہ باز کو قتل کرنے میں شریک رہتا لیکن مجھے یہ نا پسند تھا کہ وہ میرے گھر میں قتل ہو۔(١)

معقل کی جناب مسلم سے ملاقات

معقل چند دن جناب مسلم بن عوسجہ کے گھر میں رہاتا کہ جناب مسلم بن عقیل کے پاس جا سکے۔ چند دنوں کے بعد یہ جناب مسلم بن عو سجہ کے توسط سے مسلم بن عقیل علیہ السلام کے پاس پہنچ گیا ۔ جناب مسلم بن عو سجہ نے سارا واقعہ تفصیل سے سنا دیا تو جناب مسلم بن عقیل نے بیعت لے لی اور جناب ابو ثما مہ صائدی(٢) کو حکم دیا کہ اس سے وہ پیسہ لے لیں جو وہ لے کر آیا ہے اس کے بعد معقل نے آنا جانا شروع کر دیا ۔وہ یہاں آکر ان کی خبروں کو سنتا ، رازوں سے آشنا ہو تا پھر وہاں سے نکل کر جا تا اور ابن زیاد کو ساری سر گذشت سنا دیتاتھا ۔

____________________

١۔ابو مخنف نے معلی بن کلیب سے اور اس نے ابو وداک سے روایت کی ہے۔(طبری ،ج٥ ، ص ٣٦١)

٢۔ ابو ثمامہ چونکہ مسائل اقتصادی سے آگا ہ تھے لہٰذا جو اموال لوگ دیتے تھے اسے بھی جناب مسلم کی طرف سے آپ ہی لیتے تھے اور اس سے اسلحہ خرید ا کر تے تھے۔آپ عرب کے شہسوارو ں اور شیعو ں کے بزرگو ں میں شمار ہوتے تھے۔ (طبری ،ج٥،ص ٣٦٤) جناب مسلم نے ان کو قبیلہ ٔ ہمدان اور قبیلہ بنی تمیم کے لوگو ں کی سر براہی سوپنی تھی۔ (طبری ،ج٥ ، ص ٣٦٩) آپ کر بلا میں بھی حاضر تھے اور وہا ں امام حسین علیہ السلام سے نماز پڑھنے کی در خواست کی تو امام علیہ السلام نے آپ کے حق میں خیر کی دعا کی اور فرمایا :'' ذکر ت الصلوٰة جعلک اللّہ من المصلین الذ اکر ین''تم نے نما ز کو یاد کیا ؛خدا تم کوان نما زگزارو ں میں شامل کرے جو ہمیشہ یاد الہٰی میں رہتے ہیں ۔ (طبری ،ج٥ ، ص ٤٣٩) نماز سے پہلے ہی آپ کے اس چچا زادبھائی نے آپ سے مبارز طلبی کی تھی جو عمر بن سعد کے لشکر میں تھااور آپ نے اس ملعون کو قتل کیا تھا۔(طبری ،ج٥، ص ٤٤١)

۱۶۳

ہانی کا دربار میں طلب کیا جانا

انہی دنوں ایک دن ابن زیاد نے اپنے درباریوں سے پوچھا: ہانی مجھے یہاں دکھائی نہیں دے رہے ہیں ؟ حاضرین نے جواب دیا: وہ مشکوک ہیں ۔اس پر عبیداللہ بن زیاد نے محمد بن اشعث،(١)

____________________

١۔ محمد بن اشعث بن قیس کندی : اسی شخص سے زیاد نے کوفہ کی اور اس کے قبیلہ کی بزرگ شخصیت جناب حجربن عدی کو طلب کیا ۔حجر نے اس سے درخواست کی کہ زیادسے امان کا مطالبہ کرے اور مجھے معاویہ کے پاس بھیج دے پھرمعاویہ جو چاہے میرے ساتھ سلوک کرے۔ شروع میں تو اس نے اسے قبول کرلیا لیکن آخر کا رحجر کو زیاد کے حوالے کر دیا۔(طبری ج ٥؛ص ٢٦٣،٢٦٤)اس کی اس حرکت پر عبیدہ کندی نے محمد بن اشعث پر طنز کیا کہ تو نے حجر کے ساتھ دغا کی اور مسلم علیہ السلام سے جنگ پر آمادہ ہوا اس سلسلہ میں اس نے شعر کہہ ڈالے:

أسلمت عمک لم تقاتل دونه

فرقاً ولولا انت کان منیعا

وقتلت وافد آل بیت محمد

وسلبت أسیافاله ودروعا

(طبر ی، ج، ص٢٨٥)تونے اپنے چچا کی طرف سے لڑنے کے بجائے انہیں ظلم کے ہاتھو ں سونپ دیا اور ان کی نجات کے لئے کچھ بھی نہ کیا جب کہ اگر تو انھی ں دھو کہ نہ دیتا تو کبھی بھی وہ لوگ ان پر ہاتھ نہیں رکھ پاتے ؛اسی طرح تو نے سفیر حسین علیہ السلام اور نمائندہ خاندان اہلبیت کو شہید کر دیا اور ان کے اسلحو ں کو تاراج کردیا۔'' کندہ'' اور ''حضرموت ''کے جتنے لوگ اس کی اطاعت میں تھے سبھی نے ابن زیاد کی طرف سے پرچم امان بلند کرکے مسلم بن عقیل کو فریب و دھوکہ دیکر چھوڑدینے کے لئے کہا (طبری، ج ٥،ص ٣٦٩)لیکن جنگ کے لئے ابن زیاد نے اسی کو قبیلہ قیس کے جوانو ں کے ساتھ روانہ کیا کیونکہ ہر آیندہ نگر انسان ابن عقیل سے مقاتلہ اور جنگ کو ناپسند کرتا تھا ۔(طبری ، ج٥،ص ٣٧٣) طبری کا کہنا ہے کہ اسی نے جناب مسلم کو امان دیا ۔(طبری ،ج٥ ، ص ٢٧٤) لیکن جب ابن زیاد کو اس امان کی خبر ملی تو اس نے قبول نہیں کیا ۔(طبری ،ج٥، ص ٣٧٥) اسی طرح ہانی بن عروہ کے سلسلہ میں بھی سفارش کی لیکن اس کی سفارش قبول نہیں ہوئی ۔(طبری ،ج ٥ ،ص ٣٧٨) قبیلہ کندہ عمر بن سعد کے حکم پر قیام کرتے

۱۶۴

تھے کیونکہ وہ سب پسر سعد کے مامو ں ہوتے تھے۔ جب یزید بن معاویہ ہلاک ہوگیا اور ان لوگو ں کو ابن زیاد نے اپنی طرف بلایا تو ان لوگو ں نے ابن زیاد کو چھوڑدیا اور عمر بن سعد کو اپنا حاکم بنا لیا۔ جب ہمدان کے مردو ں نے تلواری ں کھینچ لی ں اور ان کی عورتی ں امام حسین علیہ السلام پر رونے لگی ں تو اشعث کا لڑکا اپنے ارادے سے منصرف ہو گیا اور بولا : ایسا مسئلہ پیش آگیا ہے کہ اب ہم اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کر سکتے (طبری ،ج٥، ص ٥٢٥) اس کے بعد ان لوگو ں نے مکہ میں ابن زبیر کو خط لکھا تو ابن زبیر نے محمدبن اشعث بن قیس کو موصل بھیج دیا۔ جب موصل میں اس نے قدم رکھا تو وہا ں مختار کی جانب سے عبدالرحمن بن سعیدبن قیس امیر تھالہذا یہ موصل سے نکل کرتکریت آگیا اور وہا ں قبیلو ں کے اشراف وغیرہ کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع کردیا اور انتظار کرنے لگا کہ دیکھی ں لوگ کیا کرتے ہیں پھر خود جناب مختار کے پاس جاکر ان کی بیعت کرلی (طبری ، ج٦، ص ٣٦) لیکن جب ابن زیاد شام کے لشکر کے ہمراہ موصل آیا اور مختار کے ساتھیو ں سے جنگ کے لئے خروج کیا تو اشراف کوفہ بھی اس سے مل گئے اور اس کے ساتھ حملہ کردیا۔ انہیں کوفیو ں میں محمدبن اشعث بھی تھا اور اس کا بیٹا اسحاق بن محمد بن اشعث۔انھو ں نے قبیلہ ''کندہ ''کے ایک گروہ کے ساتھ جناب مختار پر خروج کیا۔ (طبری ،ج٦،ص ٣٩، ٤٥) لیکن ان سب کے متفرق ہو جانے او شکست کھانے کے بعد محمد بن اشعث ابن قیس قادسیہ کے پہلو میں اپنے قریہ کی طرف نکل گیا ۔ مختار نے وہا ں اپنے ساتھیو ں کو بھیجا لیکن محمد بن اشعث وہا ں سے نکل کر مصعب بن زبیر سے ملحق ہوگیا۔مختار کے سپاہیو ں نے اس کا گھر منہدم کر دیا (طبری، ج٦، ص٦٦) پھر مصعب نے اس کو حکم دیا کہ وہ مہلب بن صفرہ کے پاس چلاجائے اور مصعب کا یہ خط اسے دیدے ۔وہ یہ چلاگیا اور پھر مہلب کے ساتھ مختار سے جنگ کے لئے آیا (طبری ،ج٦،ص٩٤) پھر کوفہ کی ایک عظیم فوج کے ساتھ آیا جس کا مقصد مختار کو ہٹاناتھا۔ وہ فوج بصرہ والی فوج سے زیادہ خطرناک تھی۔ وہ شکست کھاکر اسیر ہونے کے لئے تیار نہیں تھے یہا ں تک کہ مختار ان کو قتل کردیتے ۔وہ مصعب کے ہمراہ مختار سے جنگ کرنے میں ماراگیا ۔مصعب نے اس کے بیٹے عبدالرحمن بن محمد بن اشعث کو کوفہ کے کوڑے خانے کے پاس اس کی لاش کے لئے بھیجا ۔(طبری ،ج٦، ص ١٠٤)

۱۶۵

اسماء بن خارجہ(١) اورعمرو بن حجاج(٢) کو بلایا(عمروبن حجاج کی بہن روعة، ہانی بن عروہ کی بیوی تھی) اور ان سے پوچھا: ہانی بن عروہ کو ہم تک آنے سے کس نے روکاہے ؟ اس پر ان لوگو ں نے جواب

____________________

١۔اسے فزاری بھی کہاجاتا ہے۔ یہ شخص وہی ہے جس نے جناب حجر بن عدی کے خلاف گواہی تحریر کی تھی (طبری ،ج٥، ص ٩٢٠٧) یہ وہی ہے جسے حجاج نے کمیل بن زیاد نخعی اور عمیر بن صنائی کے سلسلے میں یاد کیا تھا۔ یہ دونو ں وہ تھے جنہو ں نے عثمان کی طرف خروج کیا تھا ۔ حجاج نے ان دونو ں کو قتل کر دیا ۔(طبری،ج٤، ص ٤٠٤)اسی نے ابن زیاد پر ہانی بن عروہ کو مارنے کے سلسلے میں اعتراض کیا تھا تو ابن زیاد نے حکم دیا کہ اسے قید کرلو (طبری، ج٥،ص ٣٦٧)پھر یہ ابن مطیع کے اصحاب میں شمار ہونے لگا (طبری ،ج ٦ ، ص ٣١) پھر ٦٨ھمیں مصعب بن زبیر کے ساتھیو ں میں ہوگیا ۔(طبری، ج٦ ،ص ١٢٤)

٢۔امام حسین علیہ السلام کو جن لوگو ں نے خط لکھا ان میں ایک یہ بھی ہے۔اس سے قبل اس شخص کے احوال بیان ہوچکے ہیں ۔

۱۶۶

دیا ہم لوگ نہیں جانتے ہیں !اللہ آپ کو صحیح وسالم رکھے۔اس پر ابن زیاد نے کہا : مجھے تو خبر ملی ہے کہ وہ صحت یاب ہوچکے ہیں اور اپنے گھر کے دروازہ پر بیٹھا کر تے ہیں لہٰذا تم جاؤ،ان سے ملاقات کرو اور انھیں سمجھادو کہ حکومت کے سلسلہ میں اپنی ذمہ داری سے کوتاہی نہ کریں کیونکہ یہ مجھے پسند نہیں ہے کہ ان جیسے اشراف و بزرگانِ عرب میری نظر سے گر جا ئیں ۔(١)

ہانی، ابن زیاد کے دربار میں

یہ تمام افرادہانی کے پاس گئے اور شام تک ان کے پاس بیٹھے رہے۔ اس وقت جناب ہانی بن عروہ اپنے گھر کے دروازہ پر بیٹھے تھے۔ ان لوگوں نے جناب ہانی سے پوچھا کہ آپ امیر سے ملاقات کرنے کیوں نہیں آتے ؟وہ تو آپ کو بہت یاد کرتے ہیں اور کہا ہے کہ اگر آپ مریض ہیں تو میں عیادت کے لئے آوں ۔ ہانی نے جواب دیا : بیماری میرے آنے میں مانع ہے تو اس پر ان لوگوں نے کہا : امیر تک یہ خبر پہنچی ہے کہ ہرشام کو آپ اپنے گھرکے دروازہ پر بیٹھتے ہیں اور انہیں انتظار میں رکھے ہیں ۔ آپ کو بخوبی معلوم ہے کہ حاکم ایسی چیزوں کے متحمل نہیں ہوتے ہیں ؛لہٰذا ہم آپ کو قسم دیتے ہیں کہ آپ ابھی ہمارے ساتھ چلیں ۔اس پر ہانی نے لباس منگوائے اور اسے پہناپھر خچر منگواکر اس پر سوار ہوکر قصر کے پاس پہنچے اور گویا وہاں پہنچتے ہی ان بعض چیزوں سے آگاہ ہوگئے تھے جو ہونے والی تھیں لہذاحسان بن خارجہ سے کہا : جان برادر ! خدا کی قسم میں اس مرد سے خائف ہوں ، تم اس سلسلسہ میں کیا کہتے ہو؟اس پر حسان بن خارجہ نے کہا : اے چچا خدا کی قسم! میں آپ کے سلسلے میں ذرہ برابر خوف زدہ نہیں ہوں ؛ آپ اپنے دل میں کسی خوف کو راہ کیوں دیتے ہیں جب کہ آپ بالکل بری ہیں ؟ ابن زیاد کے گرگے جناب ہانی کو لے کر دربار میں داخل ہوئے۔ ابن زیاد کی نگاہ جیسے ہی ہانی پر پڑی زیر لب کہنے لگا ۔ احمق اپنے پیروں سے چل کر

____________________

١۔ابو مخنف نے معلی بن کلیب سے اور اس نے ابوودّاک سے نقل کیا ہے پھر مجالد بن سعید ، حسن بن عقبہ مرادی اور نمیربن وعلہ نے ابو وداک سے نقل کیا ہے۔(طبری ،ج٥، ص ٣٦١، ٣٦٤ و الارشاد ،ص ١٠٨)

۱۶۷

اپنی موت کی طرف آیا ہے۔جب ہانی ابن زیاد کے پاس پہنچے تو قاضی شریح(١) بھی وہاں موجود تھا۔ ابن زیاد نے ہانی کی طرف متوجہ ہو کر کہا :

ارید حیا ته و یرید قتلی

عذیرک من خلیلک من مراد

میں اس کی حیات کی فکر میں ہوں لیکن یہ تو مجھکو قتل کرنا چاہتا ہے، ذرا اس سے پوچھو کہ اس کے پاس قبیلۂ مراد کے اپنے دوست کے لئے کون ساعذرہے ۔

ہانی، ابن زیاد کے روبرو

ہانی بن عروہ اپنی درایت سے ابن زیاد کے ارادہ کو بھانپ چکے تھے لہٰذا خود ہی ابن زیاد کو مخاطب کیا: اے امیر ! تمہارا منظور نظر کیا ہے ؟ ابن زیاد بولا : ہانی ! بس کرو ! اپنے ارد گرد تم امیر المومنین اور مسلمین کے خلاف کیا کھیل کھیل رہے ہو ۔ تم نے مسلم بن عقیل کو اپنے گھر میں پناہ دے رکھی ہے اور اپنے اطراف میں اسلحوں اور جنگجوؤں کو جمع کر رہے ہو اور اس گمان میں ہو کہ یہ بات مجھ سے پوشیدہ ہے ۔

____________________

١۔ اس کا نام شریح بن حارث کندی ہے۔ عمر نے ١٨ھ میں اسے کوفہ کا قاضی بنایا تھا۔ (طبری ،ج٤، ص ١٠١)اس کا شمار ان لوگو ں میں ہوتا ہے جنہو ں نے کوفیو ں کو عثمان کی مدد و نصرت کے لئے شعلہ ور کیا تھا۔ (طبری ،ج ٤، ص ٣٥٢) شریح بن حارث قاضی ہی نے گواہو ں کی گواہی کے ذیل میں جناب حجر بن عدی کے خلاف تحریر لکھی تھی لیکن وہ کہتا ہے کہ مجھ سے ابن زیاد نے جب ان کے بارے میں پوچھا تو میں نے کہا کہ وہ بڑے روز ہ دار اور نماز گزار ہیں ۔ (طبری، ج٥، ص ٢٧٠)زیاد نے اس سے مشورہ کیا کہ اپنے مجزوم ہاتھ کو کاٹ دے تواس نے مشورہ دیا کہ ایسا نہ کرو! اس پر لوگو ں نے اس کی ملامت کی تو اس نے کہا کہ رسول خدا نے فرمایا ہے :'' المستشار مؤتمن '' جس سے مشورہ کیا جاتا ہے وہ امین ہے۔ (طبری ،ج٥، ص ٢٨٩)ابن زبیر نے اسے قاضیٔ کوفہ بنانا چاہا تو اس نے انکار کردیا ۔(طبری، ج٥، ص ٥٨٢)لیکن مختار کی جانب سے قضاوت کی دعوت کو قبول کرلیا پھر جب اس نے یہ سنا کہ مختار کے افرادکی زبان پر یہ زمزمہ ہے کہ یہ عثمانی ہے اور یہ جناب حجر بن عدی کے خلاف گواہی دینے والو ں میں شمار ہوتا ہے حضرت علی علیہ السلام نے اسے قضاوت کے عہدہ سے معزول کردیا تھا اور ہانی کے سلسلے میں اس نے صحیح خبر نہیں دی تھی تو اس نے مریض ہونے کا بہانہ بناکر قضاوت چھوڑدی۔ مختار نے اس کی جگہ پر عبداللہ بن عتبہ بن مسعود کو قاضی بنادیا پھر عبداللہ بن مالک طائی کو قضاوت کا عہدہ دیدیا۔ (طبری، ج ٦ ، ص ٣٤) مختار کے بعد اس نے ابن زبیر کی طرف سے قضاوت کو قبول کرلیا(طبری ،ج ٦ ،ص ١٤٩) اور حجاج کے زمانے میں اس عہدہ سے ٧٩ھ میں اس عہدہ سے استعفی دیدیا اور مشورہ دیا کہ بردہ بن ابو موسی اشعری کو قاضی بنادے۔ حجاج نے استعفی قبول کرکے ابو بردہ کو والی بنادیا ۔اس نے تقریبا ساٹھ ٦٠ سال تک قضاوت کی۔

۱۶۸

ہانی : میں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا ہے اور نہ ہی مسلم میرے پاس ہیں ۔

ابن زیاد : کیوں نہیں ! تم نے ایسا ہی کیا ہے ۔

ہانی : میں نے یہ کام انجام نہیں دیا ہے ۔

ابن زیاد :کیوں نہیں ! یہ کام تم نے ہی کیا ہے۔

اس ردّ و قدح اور توتو میں میں کا سلسلہ بڑھتا ہی گیااور ابن زیاد ان باتوں کا ذمہ داران کو ٹھہراتا رہا اور ہانی انکار کرتے رہے۔ آخر کار ابن زیاد نے معقل کو بلایا جوجاسوسی کے فرائض انجام دے رہاتھا۔ معقل فوراًسامنے آکر کھڑا ہوگیا۔ ابن زیاد نے کہا : اسے پہچانتے ہو ؟ تو ہانی نے کہا : ہاں ، اس وقت ہانی کے سمجھ میں آیا کہ یہ جاسوس تھا جو وہاں کی باتیں یہاں آکر سنایا کرتا تھا۔ اب چار وناچار ہانی بولے :

میری باتیں سنو اور اسے سچ سمجھو!خدا کی قسم میں تم سے جھوٹ نہیں بول رہاہوں ۔ قسم ہے اس خدا کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ۔میں نے مسلم کو اپنے گھر آنے کی دعوت نہیں دی تھی اور نہ ہی میں اس کے سلسلہ میں کچھ جانتا تھا لیکن ایک دن میں نے انہیں اپنے گھر کے دروازہ پر بیٹھاہوا دیکھا ۔انہوں نے مجھ سے درخواست کی کہ میرے گھر میں آجائیں تو مجھے اس درخواست کو ٹھکرانے میں شرم آئی اور وہ اس طرح میری حرمت میں داخل ہوگئے۔ میں نے انہیں اپنے گھر میں جگہ دی،انکی مہمان نوازی کی اور پناہ دی ۔یہی وہ بات ہے جو ان کے سلسلہ میں تم تک پہنچائی گئی ہے۔اب اگر تم چاہو تو میں ابھی سنگین عہدو پیمان باندھ لوں کہ میرا حکومت کے خلاف شورش اور برائی کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور اگر چاہوتو میں تمہارے پاس کوئی چیزگرو رکھ دوں تاکہ دوبارہ تمہارے پاس آجاؤں اور ان کے پاس جاکر انہیں حکم دوں کہ میرے گھر سے نکل کر جہاں چاہے چلاجائے اور میرے پیمان و میری ہمسایگی سے نکل جائے ۔

ابن زیاد : ہرگز نہیں ! میں اس وقت تک تم کو نہیں جانے دوں گا جب تک تم انہیں یہاں نہ لے آؤ!

۱۶۹

ہانی : نہیں خدا کی قسم میں اسے کبھی نہیں لاؤں گا !میں اپنے مہمان کو یہاں لے آؤں تاکہ تم اسے قتل کردو !

ابن زیاد: خداکی قسم تم ضرور اسے یہاں لاؤ گے۔

ہانی : خدا کی قسم میں کبھی نہیں لاؤں گا ۔

جب دونوں کے درمیان اسی طرح تکرار بڑھتی گئی تو مسلم بن عمرو باہلی اٹھا اور اس نے کہا : خدا امیر کو سلا مت رکھے ! کچھ دیر آپ مجھے اور ان کو تنہا چھوڑ دیں تا کہ میں ان سے کچھ گفتگو کر سکوں اور اس کے بعد ہانی سے کہا : آپ اٹھ کر یہاں میرے پاس آیئے تاکہ میں آپ سے کچھ گفتگو کر سکوں ۔ہانی وہاں سے اٹھ کر اس کے کنارے آگئے جہاں ابن زیاد سے دوری تھی لیکن اتنی دوری پر تھے کہ ابن زیاد ان دونوں کو بخوبی دیکھ سکتا تھا اور جب ان دونوں کی آواز یں بلند ہو رہی تھیں تو وہ بخوبی ان کی گفتگو سن رہا تھالیکن جب وہ لوگ آہستہ آہستہ گفتگو کر رہے تھے تو یہ بات چیت ابن زیاد کے لئے نا مفہوم تھی۔ مسلم بن عمرو باہلی نے ہانی سے کہا : ا ے ہانی !تم کو خدا کا واسطہ ہے کہ اپنی جان کو خطرہ میں نہ ڈالو اور اپنے خاندان اور قبیلہ کو بلا ؤں میں مبتلا مت کرو!خدا کی قسم میں تمہا رے قتل سے بہت زیادہ پر یشان ہوں اور یہ نہیں چاہتا کہ تم قتل کر دئے جاؤ۔ یہ (مسلم بن عقیل) جو تمہارے مہمان ہیں یہ انہیں لوگوں کے چچا زاد بھائی ہیں ۔ یہ لوگ نہ تو انہیں قتل کریں گے اور نہ ہی نقصان پہنچائیں گے پس تم انہیں حاکم کوسونپ دو۔ اس میں نہ تو تمہا ری ذلت وخواری ہے اور نہ ہی تمہارے لئے عیب و منقصت ہے، تم تو انہیں فقط حاکم کے حوالے کر رہے ہو ۔

ہانی : کیوں نہیں ! خدا کی قسم اس میں میری ذلت وخواری ہے۔میں اپنے مہمان اور ہمسایہ کو اسے سونپ دوں ! جب کہ میں ابھی صحیح وسالم ہوں ، دیکھنے اور سننے کی صلا حیت ابھی باقی ہے،میرے بازؤں کی مچھلیاں ابھی قوت رکھتی ہیں اور میرے ناصرو مددگا ر بڑی تعداد میں موجودہیں خدا کی قسم اگر میں تنہا رہ جاؤں اور میرا کو ئی ناصر ومددگا ر نہ رہے تب بھی میں اس کے ہاتھوں اپنے مہمان کو نہیں سونپوں گا یہاں تک کہ اس کے لئے مجھے موت آجائے۔ یہ جملے ہانی اس یقین کے ساتھ کہہ رہے تھے کہ ان کاقبیلہ ابھی ابھی ان کی مدد کے لئے حرکت میں آجائے گا اور اس ظلم وجورکے خلاف تلوار کھینچ لے گالہٰذا وہ بار بار قسم کھارہے تھے کہ میں خدا کی قسم کبھی بھی اپنے مہمان سے دست بردارنہیں ہوں گا ۔

۱۷۰

موت کی دھمکی

ابن زیاد نے ہانی کی گفتگو سننے کے بعد کہا : اسے میرے پاس لاؤ! ہانی کو اس کے پاس لے جا یا گیا؛ جب ہانی وہاں پہنچے توابن زیاد نے کہا : خدا کی قسم تم اسے (جناب مسلم) ضرور یہاں لاؤ گے ورنہ میں تمہاری گردن اڑا دوں گا ۔

ہانی : اگر تم ایسا کروگے تو اپنے محل کے ارد گرد برہنہ شمشیروں کو پاؤ گے۔(١) وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ ان کے قبیلہ والے باہر ان کی باتیں سن رہے ہیں ۔

ابن زیاد : وائے ہو تجھ پر ! تو مجھے بر ہنہ شمشیروں سے ڈراتا ہے ! اسے میرے نزدیک لاؤ! جب نزدیک لا یا گیا تو چھڑی سے ہانی کے چہرہ پراتنا مارا کہ ان کی پیشانی اور رخسار زخمی ہوگئے،ناک ٹوٹ گئی اور خون کپڑوں پربہنے لگا،رخسار اور پیشانی کے گوشت کٹ کرداڑھی پر گرگئے اور آخر کار چھڑی ٹوٹ گئی ۔

ہا نی نے اپنے بچاؤ کے لئے وہیں کھڑے ایک شخص کے تلوار کے دستہ پر ہاتھ مارا لیکن لوگوں نے ان کو پکڑ لیا اور یہ کام نہ کرنے دیا ۔

____________________

١۔طبری نے عیسیٰ بن یزید کنانی سے روایت کی ہے کہ ابن زیاد نے ہا نی سے کہا : کیا تم کو معلوم نہیں ہے کہ جب میرا باپ اس شہر میں آیا تو تم کو اور حجر بن عدی کو چھوڑکر اس شہر کے تمام شیعو ں کو قتل کر دیا تھا اور حجر کے ساتھ جو ہواوہ تم کو معلوم ہے۔ اس کے بعد تمہاری معاشرت ہمیشہ اچھی رہی پھر تمہارے باپ نے امیر کوفہ کو لکھا کہ تم سے ہا نی کے سلسلے میں میری درخواست اور حاجت ہے۔ ہانی نے جواب دیا : ہا ں ! تو ابن زیاد بولا : کیا اس کی جزا یہی تھی کے تم اپنے گھر میں اس شخص کو چھپا ئے رکھو جو مجھے قتل کر نا چا ہتا ہے ! ہانی نے جواب دیا: میں نے ایسا نہیں کیا ہے۔ابن زیاد نے اپنے تمیمی غلام کو نکال کرسامنے کھڑا کر دیا جو ان لوگو ں کی جا سوسی کیا کر تا تھا۔جب ہا نی نے اسے دیکھا فوراً سمجھ گئے کہ یہ ساری خبری ں پہنچا یا کر تا تھا پھر ہا نی بولے : اے امیر ! جو باتی ں تجھ تک پہنچی ہیں وہ صحیح ہیں لیکن میں نے تمہارے حقوق کو ضائع نہیں کیا ہے،امن میں ہے اور ہلا کت سے محفوظ ،پس تو جس طرح چاہتا ہے خوش رہ۔

۱۷۱

ابن زیاد کا غلام مہران وہیں اس کے سر پر کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں چھٹری تھی، وہ چلا یا : ہائے یہ کیسی ذلت ہے ! یہ جو لا ہاغلام آپ کو امان دے رہا ہے ۔یہ کہہ کر چھڑی ابن زیاد کی طرف پھینکی اور کہا اس کو پکڑیے اور اس نے جناب ہانی کے بالوں کو پکڑا اور ابن زیاد نے اس چھڑی سے ہانی کو مارنا شروع کیا یہاں تک کہ ان کی ناک اور پیشانی ٹوٹ گئی اور چھڑی کے اوپر کا حصہ ٹوٹ کردیوار سے ٹکرایا اور اس میں گھس گیا۔ (طبری ،ج٥، ص ٣٦١)

ابن زیاد نعرہ لگا تے ہوئے:اے ہانی! کیا تو خارجی ہو گیا ہے اور امیر المو منین کے خلاف شورش بر پا کر رہا ہے ؟ آگا ہ ہو جا کہ تونے اس کے ذریعہ سے خود کو بڑی سخت سزا میں مبتلا کر لیا ہے۔ اب تیرا قتل ہمارے لئے صحیح اور حلا ل ہے۔پھر حکم دیا کہ اسے پکڑ و اور محل کے ایک کمرے میں ڈال دو۔کمرے کا دروازہ بند کر کے اس پر ایک نگھبان معین کردو ۔ جلا دوں نے اس کے حکم کی تعمیل کی ، لیکن اسی موقع پر اسماء بن خارجہ اٹھ کھڑا ہو ا اور بولا : کیا ہم فریب کا ر اور دھوکہ باز پیغام رساں تھے جو آج تیری طرف سے ان کے پاس گئے تھے تا کہ انہیں تیرے پاس لے آئیں اور جب وہ آجائیں تو ان کے چہرہ کو توچھڑی سے چور چور کردے اور ان کی داڑھی کو خون سے رنگین کردے! اسکے بعد قتل کا بھی در پئے ہو جائے!

ابن زیاد بولا : تو ابھی تک یہیں ہے، پس حکم دیا کہ اسے مارو ! جلا دوں نے اس کے سر و گر دن پر مار نا شروع کیا اور اسے قید کر دیا ۔

محمد بن اشعث بولا : ہم امیر کے منشا ء ومرام سے راضی ہیں خواہ ان کی رائے ہمارے حق میں ہو یا ہمارے نقصان۔ میں ، واقعاً ہمارے امیر بڑے مودّب ہیں ۔(١) اس کے بعد محمد بن اشعث اٹھ کر عبید اللہ بن زیادکے پاس آیا اور اس سے محو سخن ہوا : اے امیر ! شہر میں ہا نی بن عروہ کی شان و منزلت اور قبیلہ میں ان کے گھر کی عزت آپ پر ہویداہے۔ ان کی قوم کو معلوم ہے کہ ہم دو آدمی ان کو یہاں آپ کے پاس لے کر آئے ہیں لہذا آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ آپ ان کو ہمیں دیدیں کیونکہ میں ان کی قوم سے دشمنی مول لینا نہیں چا ہتا۔ ان کی قوم اس شہر اور اہل یمن کے درمیان با عزت قوم میں شمار ہوتی ہے ۔(٢) اس پرابن زیاد نے وعدہ کیا کہ وہ ایسا ہی کرے گا۔(٣)

____________________

١۔ طبری ،ج٥، ص ٣٦٧ ، ابو مخنف نے کہاکہ اس مطلب کو مجھ سے نمیر بن واعلہ نے ابو وداک کے حوالے سے نقل کیا ہے۔

٢۔ کیو نکہ قبیلہ ء کندہ کا شمار کوفہ میں یمنی قبا ئل میں ہو تا تھا اور قبیلہ مذحج اور مراد'' قبیلہ کندہ ''میں سے تھے ۔

٣۔ ابومخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے صقعب بن زہیر نے عون بن ابی جحیفہ کے حوالے سے یہ روایت کی ہے۔ (طبری، ج٥، ص ٣٧٨، ''الارشاد'' ص ٢١٠ ، خوارزمی ص ٢٠٥)

۱۷۲

عمر وبن حجاج تک یہ خبر پہنچی کہ ہانی مارڈالے گئے تو وہ قبیلۂ مذحج کے ہمراہ ایک بڑی بھیڑ کو لیکر چلا جس نے پورے قصر کو گھیر لیا ؛پھر وہاں پہنچ کر چلا یا : میں عمروبن حجاج ہو ں اور یہ قبیلۂ مذحج کے جنگجو جو ان اور ان کے اشراف وبزرگان ہیں ۔ ہم نے نہ تو حکومت کی فرما نبرداری سے سر پیچی کی ہے،نہ امت میں تفرفہ ایجاد کیا ہے اور نہ ہی امت سے جدا ہو ئے ہیں لیکن انہیں خبر ملی ہے کہ ان کے بزرگ کو قتل کر دیا گیا ہے اور یہ ان کے لئے بڑا سخت مرحلہ ہے۔

ابن زیاد کو فوراًخبر دی گئی کہ قبیلہ مذحج کے افراد دروازہ پہ کھڑے ہیں ۔ ابن زیاد نے فوراً قاضی شریح سے کہا : تم فوراً ان کے سردار کے پاس جاؤ اور اسے دیکھو پھر آکر ان لوگو ں کو بتاؤ کہ وہ قتل نہیں ہوا ہے اور تم نے خود اسے دیکھا ہے۔(١) شریح کہتا ہے : میں ہا نی کے پاس گیا جیسے ہی ہا نی نے مجھے دیکھا ویسے ہی کہا : اے خدا ! اے مسلمانوں ! کیا میرے قبیلہ والے مرگئے ہیں ؟! وہ دیندار افراد کہاں ہیں ؟شہر والے سب کہاں ہیں ؟ کیا سچ مچ وہ سب مرگئے ہیں اور مجھے اپنے اور اپنے بچوں کے دشمنوں کے درمیان تنہا چھوڑ دیا ہے؟ ! خون ان کے چہرے سے ٹپک رہا تھا اور وہ اسی عالم میں چیخ رہے تھے کہ اسی اثناء میں انھوں نے دروازہ پر چیخ پکار کی آواز سنی۔میں یہ آواز یں سن کر با ہر آیا ۔وہ بھی تھوڑا سا مجھ سے نزدیک ہوئے اور کہا : اے شر یح ! میں گمان کر رہا ہوں کہ یہ قبیلہ ء مذحج اورمیرے چاہنے والے مسلمانوں کی آواز یں ہیں ؛ جو مجھے بچا نے آئے ہیں ؛ اگر ان میں سے دس بھی آجائیں تو مجھے نجات دلا دیں گے ۔

شریح کہتاہے کہ میں ان کے پاس گیاجو محل کے دروازہ پر کھڑے تھے لیکن چونکہ ابن زیاد نے اپنے ایک گرگے'' حمید بن بکر احمری'' کوہمارے ساتھ روانہ کردیاتھا جو اپنی برہنہ شمشیرکے ساتھ ہمیشہ ابن زیاد کے سر پر اس کی محافظت کیا کرتاتھالہٰذاامیر کے حکم کے خلاف میں کچھ نہ کہہ سکااوران کے سامنے جاکریہی کہا: اے لوگو!امیر کو جب تمہاری آمد کی اطلاع ملی اورہانی کے سلسلے میں تمہاری گفتگو سنی تو مجھے فورا ً ان کے پاس بھیجاتاکہ میں نزدیک سے ان کو دیکھ کر آوں میں خود ان کے پاس گیااور دیکھا کہ وہ زندہ

____________________

١۔طبری ،ج٥ ،ص ٣٦٧، ابو مخنف کا بیان ہیکہ یہ روایت مجھ سے نمیر بن واعلہ نے ابو وداک کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔(ارشاد ،ص ٢١٠ ،خوارزمی، ص ٢٠٥)

۱۷۳

ہیں ،ان کے قتل کے سلسلے میں تم لوگوں کو جو خبر دی گئی ہے وہ سب غلط ہے۔ اس پر عمروبن حجاج اور اس کے ساتھیوں نے کہا: اگر وہ قتل نہیں ہوئے ہیں توخدا کاشکرہے یہ کہکر وہ سب پلٹ گئے۔(١)

ہانی کو قید کرنے کے بعد ابن زیاد کا خطبہ

ہانی کوقید کرنے کے بعدابن زیاد لوگوں کی شورش سے ہر اساں اور خوفزدہ ہوگیا لہٰذا قوم کے سربرآوردہ افراد اور اپنے حشم و خدم نیزاپنی پولس کے افسروں کے ہمراہ محل کے باہر آیا اور منبر پر گیا۔ حمد و ثناے الٰہی کے بعدبولا: امابعد، اے لوگو!خداوند عالم کی فرمانبرداری اور اپنے حاکم کی اطاعت کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو نیز اختلاف اور افتراق سے بچو ورنہ ہلاک ہوجاؤگے ،ذلیل و رسوا ہوجاؤگے ، قتل ، جفا اور محرومیت تمہارا مقدر ہوجائے گی! آگاہ ہوجاؤکہ تمہارا بھائی وہ ہے جو سچ بولتا ہے اور جو ہوشیار کردیتا ہے اس کا عذر معقول ہے۔(٢)

____________________

١۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے صقعب بن زہیر نے عبد الرحمن بن شریح سے یہ روایت نقل کی ہے۔اس نے کہاکہ میں نے اسماعیل بن طلحہ سے حدیث سنی ہے۔(طبری ،ج٥،ص٣٦٧)

٢۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ حجاج بن علی نے مجھ سے محمد بن بشر ہمدانی کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔(طبری، ج٥ ، ص٣٦٨)

۱۷۴

جناب مسلم علیہ السلام کاقیام

سب سے پہلے جناب مسلم نے عبداللہ بن خازم کو محل کی طرف خبر لانے کے لئے روانہ کیا تاکہ وہ جناب ہانی کی سرگذشت سے آگاہ کرے۔عبداللہ بن خازم کہتا ہے : جب ہانی کو زد و کوب کے بعد قید کردیا گیا تو میں فوراً اپنے گھوڑے پر بیٹھ گیا اور میں وہ سب سے پہلا شخص تھاجس نے جناب مسلم کو وہاں کے تمام حالات سے آگاہ کیاتھا۔ اس وقت قبیلہ مراد کی عورتیں چلارہی تھیں : ہاے رے مصیبت و غم ، ارے یہ کیسا سانحہ ہمارے قبیلہ پر ہوگیا ۔میں جناب مسلم کے پاس آیا اور ساری خبرسناڈالی؛ جناب مسلم نے مجھے فوراً حکم دیا کہ میں ان کے اصحاب کے درمیان صدابلندکروں ''یا منصور امت'' اے امت کے مددگارو ! اس وقت سب کے سب جناب مسلم کے ارد و گرد جمع تھے اور ١٨ہزار بیعت کرنے والوں میں ٤ہزار اس وقت موجود تھے۔ میں نے آواز لگائی : یامنصو امت اے امت کے مدد گارو ! میری آواز ہوا کے دوش پر لہرائی اور سب کے سب جمع ہوگئے پھر جناب مسلم نے لشکر کو منظم کرتے ہوئے عبداللہ بن عمرو بن عزیز کندی کو قبیلہ کندہ اور ربیعہ کا سربراہ بنایا اور فرمایا : ابھی لشکر کے ہمراہ میرے سامنے حرکت کر جا ؤ پھر مسلم بن عوسجہ اسدی کو قبیلہ مذحج اور اسد کی سربراہی سونپی اور فرمایا :تم ان پیدلوں کے ساتھ نکل جاؤ کہ ان کے سربراہ تم ہو۔اس کے بعد ابو ثمامہ صائدی کو تمیم اور ہمدان کی سر براہی اور عباس بن جعدہ جدلی(١) کومدینہ والوں کا سر براہ بنایا اورخود قبیلۂ مراد کے لوگوں کے ساتھ چل پڑے ۔

اشراف کوفہ کا اجتماع

کوفہ کے سر بر آوردہ ا فراد ابن زیادکے پاس اضطراری دروازہ سے پہنچ گئے جو دارالر ومیین(٢) سے ملاہوا تھا۔عبیداللہ بن زیاد نے کثیر بن شہاب بن حصین حارثی(٣) کو بلایا اور اسے

____________________

١۔یہ شخص ہمیں مختار کی اس فوج کے میسرہ(بایا ں محاذ) پر دکھائی دیتا ہے جو مدینہ میں ابن زبیر سے لڑنے آئی تھی لیکن وہا ں اسکانام عیاش بن جعدہ جدلی ملتا ہے۔ جب یہ لوگ ابن زبیر کی فوج کے سامنے شکست خوردہ ہوگئے تویہ ابن زبیرکے امان کے پرچم تلے نہیں گئے جب کہ اس کے ہمراہ ٣٠٠افراد تھے لہٰذاجب یہ لوگ ان کے ہتھے چڑھے تو ان لوگو ں نے ١٠٠ لوگو ں کو قتل کر دیااور جو (٢٠٠) دوسو کے آس پاس بچے تھے ان میں سے اکثر راستے میں مر گئے۔ (طبری ،ج٦،ص٧٤) چو نکہ ہم نے عباس اور عیاش کا اس کے علا وہ کوئی ذکر کہیں نہیں دیکھا ہے اور اس قرینہ سے کہ انہو ں نے جناب مختار سے وفا کا ثبوت پیش کیا بعید معلوم ہو تا ہے کہ کو ئی دوشخص ہو بلکہ تر جیح اس کو حاصل ہے کہ یہ ایک شخص ہے جس کانام یا عباس ہے یاعیاش۔ یہ جناب مسلم کے بعد زندہ رہے یہا ں تک کہ جناب مختار کے ساتھ خروج کیااوریاتووہا ں قتل ہوئے یا وفات پاگئے ۔

٢۔ یہا ں سے معلوم ہوتا ہے کہ'' دارالر و میین '' دارالامارہ کے پیچھے سے متصل تھا۔چونکہ غیر مسلم ہونے کی وجہ سے وہ لوگ یہا ں مسلمانو ں کی پناہ میں رہتے تھے لہٰذاعبیداللہ اور اس کے افراد ادھر سے ان سے رفت وآمد رکھتے تھے۔افسوس کہ یاران جناب مسلم اس دروازہ کے بند ہونے سے غافل تھے ۔

٣۔ یہ شخص وہی ہے جس نے جناب حجر بن عدی کے خلاف گواہی تحریر کی تھی (طبری ،ج ٥، ص ٢٦٩) اور حجر اوران کے ساتھیو ں کو معاویہ کے پاس لے گیا تھا۔(طبری ،ج٥،ص ٢٧٠) اشراف کوفہ میں یہی وہ پہلا شخص ہے جس سے ابن زیاد نے عہد وپیمان کیا کہ لوگو ں کو دھوکہ دے کر جناب مسلم علیہ السلام سے دورکرے گا۔(طبری،ج٥،ص٣٧٠)

۱۷۵

حکم دیا کہ اپنے مذحجی پیرو ئوں کے ہمراہ کوفہ کی گلیوں میں منتشر ہوجائے اور لوگوں کو جھوٹے پروپگنڈہ کے ذریعہ جناب مسلم سے دور کردے۔انھیں جنگ سے ڈرائے اور حاکم کے ظلم و ستم اور قیدو بند سے بر حذر کرائے ۔

اسی طرح محمدبن اشعث کو حکم دیا کہ قبیلہ کندہ اور حضر موت میں سے جو اس کے طرف دار ہیں ان کے ہمراہ پرچم امان لے کر نکلے اور کہے جو اس میں پرچم تلے آجائے گا وہ امان میں ہے۔ اسی طرح قعقاع بن شور ذھلی،(١) شبث بن ربعی تمیمی ، حجار بن ابجر عجلی اور شمر بن ذی الجوش عامری(٢و٣) سے بھی اسی قسم کی باتیں کہیں ۔ شبث بن ربعی کے ہاتھ میں پرچم دے کر کہا : تم ایک بلندی سے نمودار ہوکر اپنے نوکر

____________________

١۔یہ وہی شخص ہے جس نے جناب حجر بن عدی کے خلاف گواہی تحریر کی تھی۔(طبری، ج٥، ص ٢٦٩) اور جناب مسلم علیہ السلام کے مقابلہ پر بھی آیا تھا۔ (طبری ،ج٥، ص ٢٧٠، ٢٨١)

٢۔ طبری، ج٥، ص ٣٦٨،ابو مخنف کا بیان ہے کہ یہ روایت مجھ سے یوسف بن یزید نے عبداللہ بن خازم کے حوالے سے نقل کی ہے ۔

٣۔یہ جنگ صفین میں حضرت علی علیہ السلام کی فوج میں تھا (طبری، ج٥، ص ٦٨)(لیکن اپنی بد اعمالیو ں کے نتیجے میں اس حد تک پہنچا کہ) اس کا نام بھی جناب حجر بن عدی کے خلاف گواہی دینے والو ں میں آتا ہے۔ (طبری، ج٥، ص ٣٧٠) اسی نے ابن زیاد کو امام حسین علیہ السلام کے قتل پر شعلہ ور کیا تھا ۔(طبری، ج٥، ص ٤١٤) یہ کربلامیں موجود تھا وہا ں اس نے ام البنین کے فرزندو ں جناب عباس علیہ السلام کے بھائیو ں کو امان کی دعوت دی تھی اور امام حسین علیہ السلام کو چھوڑنے کی طرف راغب کیا تھا۔ (طبری، ج٥، ص ٤١٥) جب شب عاشور امام حسین علیہ السلام کو ایک رات کی مہلت دینے کے سلسلہ میں پسر سعد نے اس سے مشورہ کیا تو اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔(طبری ،ج٥،ص ٤١٧) یہ پسر سعد کے لشکر میں میسرہ (بائی ں محاذ) کا سردار تھا (طبری، ج٥،ص ٤٦٦)اسی نے امام حسین علیہ السلام کے خطبہ کا جواب دریدہ دھنی اور بد کلامی کے ذریعہ سے دیا تھا تو جناب حبیب بن مظاہر نے اسکی بڑی ملامت کی تھی۔ (طبری ،ج٥، ص ٤٣٦) جناب زہیر بن قین کے خطبہ کا جواب اس نے تیر پھینک کر دیا تھا جس پر جناب زہیر بن قین نے اس کی لعنت وملامت کی تھی ۔(طبری، ج٥، ص ٤٣٦) پسر سعد کے میسرہ سے اس نے امام حسین علیہ السلام کے بائی ں محاذ پر حملہ کیا (طبری ،ج٥، ص ٤٣٦) اور امام علیہ السلام کے خیمہ پر تیر پھینکا اور چلا یا کہ آگ لاؤاور خیمو ں کو رہنے والو ں کے ہمراہ جلادو یہ آواز سن کرمخدرات عصمت با آواز بلند رونے لگی ں اور باہر نکلنا چاہا لیکن امام حسین علیہ السلام نے ڈھارس بندھوائی (طبری ،ج٥، ص ٤٣٨) اسی نے جناب نافع بن ہلال جملی کو قتل کیا۔ (طبری ،ج٥، ص ٤٤٢) جناب امام سجاد علیہ السلام کو بھی قتل کرنا چاہتاتھالیکن لوگو ں نے منع کیا۔ (طبری ،ج٥، ص ٤٥٤) یہ ا ن لوگو ں میں شمار ہوتا ہے جو سرو ں کو لے کر ابن زیاد کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے (طبری ،ج٥،ص ٤٥٦) اور انہیں مقدس سرو ں کو اسیرو ں کے ہمراہ لے کر یزید کے دربار میں حاضر ہواتھا۔(طبری، ج٥،ص ٤٦٠و٤٦٣) اس کے ہمراہ ٢٠ مقدس سر تھے جو گرد غبار میں اٹے تھے۔ (طبری، ج٥، ص ٤٦٨)ابن مطیع نے مختار سے لڑنے کے لئے اسے سالم کے ایک گروہ کے ہمراہ روانہ کیا، (طبری ،ج٦،ص ١٨) اس کے ہمراہ دوہزار سپاہی تھے۔ (طبری ،ج٦، ص ٢٩) یہ ان لوگو ں میں شامل ہوتا ہے جو اشراف کوفہ کے ساتھ مختار سے لڑنے آئے تھے(طبری ،ج٦، ص ٤٤) اور جب ہزیمت کا سامنا ہواتو کوفہ سے بھاگ کھڑاہوا اور ہزیمت کے عالم میں فرارکے وقت ٦٤ھ میں عبدالرحمن بن ابی الکنود کے ہاتھو ں ماراگیا۔ (طبری ،ج٦،ص٥٢، ٥٣)کلمہ ''شمر''عبری زبان کا لفظ ہے جس کی اصل شامر ہے بمعنی سامر ،جیسا کہ آج کل اسحاق شامیر کہاجاتا ہے ۔

۱۷۶

سرشت اور فرمانبردارافراد کو انعام و اکرام و احترام وپاداش کے وعدہ سے سرشار کردو اور خاندان رسالت کے پیرو ئوں کو ڈراؤ کہ سنگین کیفر ، قطع حقوق اور محرومیت میں مبتلا ہونگے اور ان کے دلوں میں یہ کہہ کر خوف ڈال دوکہ عبیداللہ کی مدد کے لئے شام سے لشکر آنے ہی والا ہے۔(١)

پرچم امان کے ساتھ اشراف کوفہ

جناب مسلم سے لوگوں کو دور کرنے کے لئے اشراف کوفہ ابن زیاد کے قصرسے پرچم امان کے ہمراہ باہر نکلے۔ ان میں سب سے پہلے کثیر بن شہاب نے بولنا شروع کیا ۔اس نے کہا: اے لوگو!اپنے گھر اور گھر والوں کی طرف لوٹ جاؤ ، خشونت ، بدی اور شر میں جلدی نہ کرو ، اپنی جان کو موت کے منہ میں نہ ڈالو!کیونکہ امیرالمومنین یزید کی فوج شام سے پہنچنے ہی والی ہے۔ جان لو کہ امیر نے عہد کیا ہے کہ اگرآج شام تک تم نے اپنی جنگ کا سلسلہ جاری رکھا اور اس سے منصرف نہ ہوئے تو وہ تمہاری نسل کو حقوق سے محروم کردیں گے اورتمہارے جنگجوؤں کو اہل شام کی فوج میں تتر بتر کردیں گے۔جان لو کہ حاکم کا فیصلہ یہ ہے کہ بیماروں کے بدلے صحت یاب افرادپکڑے جائیں اور غائب کے بجائے حاضر لوگ قید کئے جائیں گے۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا یہاں تک کہ شورش کرنے والا اس وبال کا مزہ چکھ لے جسے اس نے اپنے ہاتھوں سے شروع کیا تھا ۔

ابن شہاب کے بعد دوسرے اشراف نے بھی اسی قسم کے الفاظ کی تکرار کی۔جب لوگوں نے اپنے بزرگوں سے اس طرح کی باتیں سنیں توانہوں نے جداہونا شروع کردیا ...۔(٢) نوبت یہاں تک پہنچی کہ عورتیں اپنے بچوں ،بھائیوں اور شوہروں کا ہاتھ پکڑکر کہنے لگیں چلویہاں جتنے لوگ ہیں وہی کافی ہیں ۔دوسری طرف مرد اپنے بھائیوں اور بیٹوں کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگے : کل'' شام'' سے فوج آرہی ہے ۔ اس جنگ اور شر میں تم کیا کرسکتے ہو۔ یہ کہہ کر لوگ اپنے اپنے عزیزوں کو لے جانے لگے۔(٣)

____________________

١ ۔ابومخنف نے کہا : مجھ سے ابو جناب کلبی نے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری، ج٥، ص ٣٦٩)

٢۔ابومخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے عبد بن خازم کثیرازدی کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے ۔ (طبری، ج٥، ص ٣٧٠)

٣۔ ابومخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے مجالد بن سعید نے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری، ج٥، ص ٣٧١)

۱۷۷

ادھر ابن زیاد کی بتائی ہو ئی سازشوں پر عمل کر تے ہوئے محمد بن اشعث محل سے با ہر نکلا اور قبیلہ بنی عمارہ کے گھروں کے پاس جا کر کھڑا ہوا ۔''عمارہ ازدی''کو جو اسلحہ لے کر جناب مسلم کی مدد کے لئے نکل کر ان کے مددگاروں سے ملحق ہو نا چاہ رہے تھے گر فتار کر لیااور ابن زیاد کے پاس بھیج دیا۔ وہاں اس نے اس جواں مرد کو قید کر لیا۔ جناب مسلم کوجیسے ہی اس کی خبر ملی فوراً مسجد سے عبد الر حمن بن شریح شبامی(١) کو اس ملعون(محمد بن اشعث) کی طرف بھیجا ۔ اس خیانت کار نے جیسے ہی حق وحقیقت کے جوانوں کو دیکھاوہاں سے بھاگ کھڑا ہوا.(دوسری طرف قعقاع بن شور ذہلی نے ایک علا قہ سے جسے ''عرار'' کہتے ہیں جناب مسلم اور ان کے ساتھیوں پر حملہ کردیا)(٢) اور محمد بن اشعث کو پیغام بھیجا کہ میں نے مقام ''عرار '' سے حملہ شروع کر دیا ہے،تم پر یشان نہ ہو لیکن پھر خود عقب نشینی کرلی۔(٣)

ادھر تیسری طرف شبث بن ربعی نے جناب مسلم کے سپاہیوں کے ساتھ جنگ شروع کر دی اور کچھ دیر لڑنے کے بعد اپنے سپاہیوں سے کہنے لگا : شام تک انتظار کرویہ سب کے سب پر اکندہ ہو جائیں گے۔اس پر قعقاع بن شور نے کہا : تم نے تو خود ان لوگوں کا راستہ بند کررکھا ہے ،انہیں چھوڑ دو یہ خود ہی متفرق ہو جائیں گے۔(٤)

جناب مسلم علیہ السلام کی غربت و تنہائی

عباس جدلی کا بیان ہے کہ جب ہم جناب مسلم بن عقیل کے ہمراہ نکلے تھے تو ہماری تعداد ٤ ہزار تھی لیکن ابھی محل تک پہنچنے بھی نہ پا ئے تھے کہ ہم ٣٠٠ کے اند ر سمٹ گئے ۔(٥) اس جدائی کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا گو یا ہر شخص فرار کی فکر میں تھا۔ اب رات کا پر دہ دن کی سفیدی پر غالب ہو رہا تھا اور

____________________

١۔ابو مخنف کا بیان ہے : ابو جناب کلبی نے مجھ سے یہ روایت کی ہے۔ (طبری ،ج٥، ص ٣٦٩)

٢۔ اس مطلب کو ہارون بن مسلم نے علی بن صالح سے عیسیٰ بن یزید کے حوالے سے نقل کیا ہے۔(طبری ج٥ ص ٣٨١) چو نکہ یہ مطلب ابو مخنف کی خبر میں نہیں ہے لہٰذا اسے بر یکٹ میں لکھا گیا ہے۔

٣۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ یہ روایت مجھ سے سیلمان بن ابی راشد نے عبد اللہ بن خازم کثیرازدی کے حوالے سے بیان کی ہے ۔(طبری ،ج٥ ،ص٣٧٠)

٤۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے مجا لد بن سعیدنے یہ روایت کی ہے ۔

٥۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ یہ روایت مجھ سے یو نس بن ابو اسحاق نے کی ہے۔(طبری ،ج ٥ ،ص ٣٦٩)

۱۷۸

وہاں مسجد میں فقط ٣٠ افراد مو جود تھے ۔مسلم نے انہی ٣٠ لوگوں کے ساتھ نماز اداکی۔ جناب مسلم نے جب یہ حالت دیکھی تو مسجد سے نکل کر کو چہ ء کندہ کا رخ کیا ۔ گلی پار کر تے وقت دیکھا تو فقط ١٠ آدمی آپ کے ساتھ تھے اور جب گلی ختم ہو گئی تو اب مسلم تنہا تھے۔ اب جو مسلم ملتفت ہو ئے تو محسوس کیا کہ ان کے ساتھ کو ئی راستہ بتا نے والا بھی نہیں ہے اور کوئی ایسا بھی نہیں ہے کہ اگر دشمن سامنے آجائے تو اپنی جان پر کھیل کے انھیں بچالے۔ چارو ناچار بے مقصد کو فہ کی گلیوں میں سر گرداں گھو منے لگے۔کچھ سمجھ ہی میں نہیں آرہا تھا کہ کہاں جا ئیں ۔چلتے چلتے آپ قبیلہ کندہ کے بنی'' جبلہ'' کے گھر وں کی طرف نکل گئے اور وہاں آپ کا قدم آکر ایک خاتون کے دروازہ پر رکا جسے ''طو عہ ''کہتے ہیں جو ام ولد تھی۔ یہ اشعث بن قیس(١) کی کنیزتھی جب اس سے اشعث کو بچہ ہوگیا(جس کی وجہ سے وہ ام ولید کہی جانے لگی)

____________________

١۔ ١٠ ھ میں اشعث ٦٠ لوگو ں کے ہمراہ پیغمبر اسلام کی خدمت میں شرفیاب ہو ا اور اسلام قبول کیا ۔ یہ اپنی ما ں کی طرف سے آکل مرار کی طرف منسوب تھا۔چو نکہ وہ ملوک تھے اور اس نے چاہاکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے اسی سے منتسب کری ں لیکن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے'' نضر بن کنانہ ''سے منتسب کیا تو اس پراس نے کسی تعجب کا اظہار نہیں کیا۔(طبری ،ج٣ ، ص ١٣٧) نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی بہن(قتیلہ) سے شادی کی لیکن ہمبستری سے قبل ہی آپ کی روح ملک جاودا ں کو کوچ کر گئی اور یہ عورت اپنے بھا ئی اشعث کے ہمراہ مرتد ہو گئی۔(طبری، ج ٣، ص ١٦٨) نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اشعث اسلام کی طرف آکر دوبارہ مرتد ہو گیا اور جنگ شروع کردی لیکن ہز یمت کا سامنا کرنا پڑا تو امان مانگ لیا، اس پر مسلمانو ں نے امان دیدی (طبری ،ج٣،ص ٣٣٥۔٣٣٧) پھر اسے دوسرے اسیرو ں اور قیدیو ں کے ہمراہ ابو بکر کے پاس لے جایا گیا تو خلیفہ ء اول نے معاف کر کے اس کی بیٹی ام فروہ سے شادی کی درخواست کردی اور اس سے رشتہ ازدواج میں منسک ہو گئے لیکن مبا شرت نہیں کی۔ بعدہ اشعث پھر مرتد ہو گیا لیکن ابو بکر نے پھر اس کے اسلام کو قبول کر لیا ۔لغز شو ں کو معاف کر دیا اور اس کے گھر والو ں کو اسے لو ٹا دیا۔ (طبری، ج٣،ص ٣٣٩)اپنی وفات کے وقت ابو بکر نے کہا : جس دن اشعث بن قیس قیدی بنا کر لا یا گیا تھا اے کا ش اسی دن میں نے اس کی گردن ماردی ہو تی؛ کیونکہ کو ئی شراور برائی ایسی نہیں ہے جسکی اس نے مددنہ کی ہو۔(طبری ،ج٣،ص ٤٣) جنگ قادسیہ میں اہل یمن کے ١٧٠٠ افراد پر مشتمل لشکر کے ساتھ اشعث ملحق ہو گیا۔(طبری ،ج٣،ص ٣٨٧) سعد ابن ابی وقاص نے اسے ان لوگو ں میں پایا جو جسم و جسمانیت کے اعتبار سے بھی قابل دید تھے ، صاحب رعب و وہشت اور صاحب نظر بھی تھے لہذا سعد نے ان لوگو ں کو اہل فارس کے بادشاہ کو دعوت دینے کے لئے بھیجا۔ (طبری ،ج٣،ص ٤٩٦) یہ جنگ میں اہل فارس کے خلاف اس نعرہ کے ذریعہ اپنی قوم کا دل بڑھا رہا تھا کہ عرب نمونہ ہیں ، فارس کی زبان میں خدا نازل نہیں ہوا ہے۔ (طبری، ج٣،ص ٣٩و ٥٦٠) قبیلہ کندہ کے ٧٠٠ جوانو ں کے ہمراہ اس نے حملہ کیا اور اہل فارس کے سر براہ کو قتل کر ڈالا ۔(طبری ،ج٣، ص ٥٦٣) وہا ں سے جو غنائم

۱۷۹

اور انفال خالد بن ولید کو ملے تھے اس پر اس کو لا لچ آگئی اور اس نے اسی میں سے کچھ مانگ لیا تو ١٠ ہزار کی اجازت اسے دیدی۔ (طبری، ج٤،ص ٦٧) واقعۂ نہا وند میں بھی یہ موجود تھا۔ (طبری ،ج٤،ص١٢٩) ٣٠ ھ میں عراق کے ''طیرناباد ''کے علا قہ میں جو انفال کے اموال تھے اسے اس نے'' حضرموت''کے اپنے اموال کے بدلے میں عثمان سے خریدلیا۔ (طبری ،ج٤،ص ٢٨٠) ٣٤ھ میں سعید بن عاص نے کوفہ سے اسے آذربایجان کا والی بنا کر بھیجا۔ (طبری، ج٤،ص٥٦٩) پھر آذربایجان کی حکومت کے زمانے میں ہی عثمان اس دنیا سے چل بسے (طبری ،ج٤،ص ٤٢٢) اور حضرت علی علیہ السلام خلیفہ ہوئے تو آپ نے اسے اپنی بیعت کی طرف بلایا اور اپنی نصرت ومدد کے لئے اس جگہ کو چھوڑ دینے کے لئے کہا تو اس نے بیعت کرلی اور وہا ں سے چلا آیا۔ (طبری، ج٤،ص ٥٦١) جنگ صفین میں معاویہ کے لشکر سے پانی لے کر آنے کی ذمہ داری بھی اسے سونپی گئی تھی۔(طبری ،ج٤،ص٥٦١)یہی وہ ہے جس نے حضرت علی علیہ السلام کی زبردست مخالفت کی تو حضرت تحکیم پر راضی ہو گئے لیکن اس نے حکمیت کے لئے ابو موسی اشعری پرزور ڈالا اور جن لوگو ں سے حضرت علی علیہ السلام راضی تھے جیسے ابن عباس اور مالک اشتر اس سے اس نے انکار کرتے ہوئے اشعری کی حکمیت پر اصرار کر تا رہا اورجنگ سے انکار کر تا رہا ۔(طبری ،ج٤، ص٥١) یہ وہ سب سے پہلا شخص ہے جس نے حکمیت کے کاغذ پر سب سے پہلے گواہی کے لئے دستخط کئے اور مالک اشتر کوبھی اس کے لئے بلا یا تو انھو ں نے انکار کیا ؛اس پر اس نے ان کی تو ہین کی ، ان کو گا لیا ں دی ں اور مکتوب پڑھ کرلوگو ں کو سنانے لگا۔ (طبری، ج٥،ص٥٥) نہروان کے بعد علی علیہ السلام سے ہٹ کر معاویہ کی طرف پلٹ گیا اور کوفہ کے حجة الاستعداد میں پلٹنے پر اصرار کیا۔ (طبری ،ج٥،ص ٨٩) عثمان نے اسے لالچ دلائی تھی کہ آذربایجان کا خراج ایک لاکھ ہے۔ (طبری ،ج٥،ص ١٣٠) کو فہ میں اس نے ایک مسجد بھی بنوائی تھی۔

۱۸۰

ترجمہ : انسانوں ميں ايسے لوگ بھى ہيں جنكى باتيں زندگانى دنيا ميں بھلى لگتى ہيں اور وہ اپنے دل كى باتوں پر خدا كو گواہ بناتے ہيں حالانكہ وہ بد ترين دشمن ہيں ، كو حضرت على (ع) سے منسوب كر دے اور'' و من الناس من يشرى نفسہ بتغاء مرضات اللہ واللّہ رئوف با العباد '' سورہ بقرہ آيت ۲۰۷كو جو حضرت على (ع) كى شان ميں نازل ہوئي تھى اسكے متعلق ايك حديث رسول (ص) سے منسوب كر كے امير المومنين كے قاتل ابن ملجم كے نام كر دے ، سمرہ بن جندب نے قبول نہيں كيا _

معاويہ نے مزيد دو لاكھ درہم بھجوائے پھر بھى قبول نہيں كيا ليكن جب معاملہ چار لاكھ درہم تك پہونچ گيا تب جا كر سمرہ بن جندب نے رسول اكرم (ص) سے جھوٹى حديث ان آيتوں كے سلسلے ميں گڑھى اور لوگوں سے بيان كيا(۱)

معاويہ كے مقابلے ميں بعض دليروں كا كردار

پرو پيگنڈے كى جنگ اتنى خطرناك تھى كہ ايمان كى اساس طوفان كے زد پر اكر فنا ہو رہى تھى ، اور بعض صحابہ و تابعين نے معاويہ كى آواز پر لبيك كہہ كر اپنا خوب پيٹ بھرا_

مملكت اسلامى كے با رسوخ افراد مسلمانوں كے بيت المال سے خريدے جانے لگے اور ان لوگوں كو خوب سونے اور چاندى كى تھيلياں دى جانے لگيں يا كسى حكومتى عہدے پر فائز كر ديا گيا ، مگر ايك چھوٹا سا گروہ تھا جس نے دين و شرافت كو مد نظر ركھتے ہوئے معاويہ كى ہونكارى نہيں بھرى تھى ، ان لوگوں كو اتنا ستايا گيا كہ انھوں نے اپنى جان و مال سب كچھ راہ خدا ميں قربان كر ديا _

جس كا نتيجہ يہ ہوا كہ ہزاروں جھوٹى حديثيں منظر عام پر اگئيں اور اسلامى معاشرہ تاريك ماحول ميں چلا گيا ، ان گڑھى ہوئي حديثوں كے ہوتے ہوئے كون انسان اسلام حقيقى كو پہچان سكتا تھا اور دوسرے يہ كہ وہ ہزاروں افراد جو متقى و پرہيزگار تھے وہ سختيوں كو جھيل كر موت كے دامن ميں سو چكے تھے _

ہم نے اس سے پہلے ان لوگوں كا تذكرہ كيا ہے جنھوں نے معاويہ كے دام فريب ميں اكر جھوٹى حديثيں گڑھيں كہ انہى ميں ايك سمرہ بن جندب ہے ، يہ وہ شخص ہے جو معاويہ كے اشارے پر ناچتا رہا جسكى وجہ سے اسكو بصرہ كى حكومت ملى تھى _

سمرہ كى اور سياہكاريوں كو چھوڑ كر صرف جو كوفہ ميں تباہياں اور قتل و غارتگرى كا اس نے بازار گرم كيا تھا ، اسكو طبرى يوں بيان كرتا ہے _

____________________

۱_شرح نہج البلاغہ ج۱ ص ۳۶۱

۱۸۱

مشہور عالم ابن سيريں سے پوچھا گيا كہ سمرہ بن جندب نے كسى كو قتل كيا ہے يا نہيں سيرين نے جواب ديا ، تم لوگ سمرہ كے قتل كو شمار كر لو گے ؟

ايك مرتبہ زياد نے بصرہ ميں اپنا جا نشين بنا ديا تو چھہ مہينے كے اندر اس نے اٹھ ہزار بے گناہ مسلمانوں كو قتل كيا جن ميں پينتاليس افراد وہ تھے جو حافظان قران تھے(۲)

طبرى مزيد كہتا ہے ، جب معاويہ نے زياد كى جگہ سمرہ بن جندب كو چند مہينے تك حاكم بصرہ بنا كر معزول كر ديا تو اس نے كہا ، خدا معاويہ كو غارت كرے ، خدا كى قسم ، ميں نے جس طرح معاويہ كے حكم كو مانا تھا اگر اسى طرح اپنے پروردگار كى اطاعت كرتا تو ہرگز مستحق عذاب نہ ہوتا(۳)

انھيں ميں دوسرا ضمير فروش مغيرہ بن شعبہ تھا ، جس نے سات سال كچھ مہينے كوفہ پر حكومت كى اور ايك لمحہ بھى حضرت على (ع) اور قاتلان عثمان پر نفريں كئے بغير اور عثمان كے حق ميں دعا كئے بغير چين و سكون سے نہيں بيٹھا _

البتہ مغيرہ اپنى چالاكى و ذہانت كيوجہ سے حكومتى امور كو كبھى نرميت اور خاطر مدارات كے ذريعے تو كبھى سختى سے انجا م ديتا تھا _

طبرى لكھتے ہيں :

ايك روز مغيرہ بن شعبہ نے صحابى امام (ع) صعصہ بن صوحان سے كہا ، ذرا كان كھول كر سن لو ، ايسا نہ ہو كہ ايك دن تمھارى خبر عثمان كى بد گوئي كرتے ہوئے ميرے كانوں تك پہونچے ، اگر على (ع) كے فضائل كو بيان كرنا ہے تو علنى طور پر بيان نہ كرنا بلكہ مخفى مقام پر بيان كرنا جس طرح على (ع) كے فضائل تم جانتے ہو اسى طرح ميں بھى واقف ہوں ليكن كيا كروں حكومت اموى كى طرف سے ڈنڈا ہے كہ على (ع) كو برا بھلا كہو ، البتہ ميں نے اكثر مقامات پر ان امور ميں رو گردانى كى ہے مگر جہاں پر مجبور ہو جاتا ہوں تو اپنى محافظت كے لئے بعض جملے برائي كے كہہ ڈالتا ہوں ، اگر زياد ہ فضائل على (ع) كے بيان كرنے كا شوق ركھتے ہو تو اپنے قريبى رشتہ داروں كے گھروں ميں بيان كرنا مگر مسجد اور شاہراہ پر بيان كرنا ايك ايسا مسئلہ ہے جسكو خليفہ ( معاويہ ) برداشت نہيں كر سكتا ، اور نہ ہى اس سلسلے ميں ميرے عذر كو قبول كر سكتا ہے(۴)

____________________

۲_ طبرى ج۶ ص ۱۳۲ ، ابن اثير ج۳ ص ۱۸۹

۳_طبرى ج۶ ص ۱۶۴ ، ابن اثير ج۳ ص ۲۱۲

۴_طبرى ج۶ ص ۱۰۸

۱۸۲

اخر ى فرد زياد بن ابيہ كى ہے جس نے معاويہ كے حكم كو نافذ كرنے ميں بہت مشكلات كا سامنا كيا ہے ، حجر اور انكے ساتھيوں كے ساتھ جو اس نے سلوك كيا تھا اسكو اپ نے ملاحظہ فرمايا ليكن اس وقت اسى واقعہ كى ايك كڑى جو زياد اور صيفى بن فسيل كے درميان آيا تھا اسكو بيان كر رہا ہوں _

ايك روز زياد نے صيفى كو بلوايا اور اس سے كہا ، اے دشمن خدا تم ابو تراب كے بارے ميں كيا كہتے ہو ، صيفى نے كہا ، ابو تراب كس كا نام ہے _

زياد نے كہا _ تمھيں نہيں معلوم ہے ارے تم اچھى طرح سے ان كو پہچانتے ہو _

صيفى نے كہا _ مجھے نہيں معلوم ہے _

زياد نے كہا _ على بن ابيطالب كا لقب ہے _

صيفى نے كہا _ اچھا وہ ہيں _

ايك طويل مدت تك ايسے ہى مكالمہ ہوتا رہا ، اخر زياد نے چھڑى منگوائي اور صيفى سے كہا كہ اب بتائو تمھارا على (ع) كے بارے ميں كيا خيال ہے _

صيفى نے كہا ، اس بندئہ خدا ميں جو خوبى ہو گى اسى كو بيان كرونگا _

زياد نے اپنے جلادوں سے كہا كہ اسكو اتنا مارو كہ انكى گردن ٹوٹ جائے ، ان لوگوں نے صيفى كى خوب پٹائي كى _

زياد نے پھر پوچھا ، اب على (ع) كے بارے ميں كيا كہتے ہو _

صيفى نے كہا خدا كى قسم ، اگر تم لوگ مجھے تلوار سے ٹكڑے ٹكڑے بھى كر دو گے تو وہى كہوں گا جو انكى خوبى كى علامت ہے _

زياد نے كہا _ اگر على (ع) پر نفرين نہيں كرو گے تو تمہارى گردن اڑا دو نگا _

صيفى نے جواب ديا _ تم ميرى گردن كو تن سے جدا كر سكتے ہو مگر جس چيز كو سننا چاہتے ہو اسكو ميرى زبان سے نہيں سن سكتے ہو ، ميں قتل ہو كر خوش نصيب بن جائو نگا اور تم قتل كر كے بدبخت ہو جائو گے _

يہ سننا تھا كہ زياد نے حكم ديا كہ اسكو زنجيروں ميں جكڑ كر قيد خانہ ميں ڈال ديا جائے اخر اس شخص ( صيفى ) كو بھى حجر اور انكے ساتھيوں كے ساتھ شھيد كر ديا گيا(۵)

____________________

۵_ طبرى ج۶ ص ۱۴۹ ، ابن اثير ج۳ ص ۲۰۴ ، اغانى ج ۱۶ ص ۷ ، ابن عساكر ج ۶ ص ۴۵۹

۱۸۳

،واقعہ يہ ہے كہ زياد نے حضر موت كے اطراف سے دو ادميوں كو معاويہ كے پاس بھيجا اور اس نے خط ميں يہ لكھا كہ يہ لوگ دين على (ع) اور انكے چاہنے والے ہيں _

معاويہ نے جواب ديا _ جو بھى دين على (ع) اور انكى اطاعت ميں ہے انكو قتل كر كے ان كى لاشوں كو پا ئمال كر دو _

زياد نے ان دونوں محبان على (ع) كو كوفے كے دار الامارہ پر سولى ديدى(۶)

ايك دوسرا خط معاويہ كے پاس يہ لكھا كہ ايك قبيلہ خثعمى كے فرد نے ميرے سامنے على (ع) كى مدح سرائي كى ہے اور عثمان كو

برے الفاظ سے ياد كيا ہے ، اس سلسلہ ميں تمھارا حتمى فيصلہ كيا ہے _

معاويہ نے جواب ديا _ اس شخص كو زندہ در گور كر دو ، زياد نے يہ كام معاويہ كے كہنے پر انجام ديا كہ لوگ خوف و دہشت كے مارے فضائل على (ع) كو بيان نہ كر سكيں(۷) _

مورخين نے زياد كى تباہكاريوں كے سلسلے ميں بہت كچھ تحرير كيا ہے خود ابن عساكر لكھتا ہے ، ايك روز زياد نے تمام اہل كوفہ كو دعوت دى جب مسجد كوفہ لوگوں سے بھر گئي تو زياد نے اس جم غفير كو حكم ديا كہ تم لوگ على (ع) پر نفريں كرو(۸) _

مسعودى لكھتے ہيں :

زياد نے اہل كوفہ كو اپنے قصر ميں بلايا اور ان لوگوں سے كہا كہ تم لوگ على (ع) كو برا بھلا كہو اور اپنے مامورين سے جتا ديا كہ اگر كوئي شخص على (ع) پر نفرين كرنے سے كترائے تو اسكى گردن فوراً اڑا دو مگر خوش قسمتى يہ رہى كہ اسى وقت مرض طاعون ميں مبتلا ہو گيا اور اس دنيا سے مر كھپ گيا اس طرح اہل كوفہ نے چين و سكون كى سانس لى(۹)

____________________

۶_ المحبر ص ۴۷۹

۷_طبرى ج۶ ص ۱۶۰ ، ابن اثير ج۳ ص ۲۰۹ ، ا غانى ج ۱۶ ص ۱۰ ، ابن عساكر ج۲ ص ۳۷۹

۸_ ابن عساكر ج۲ ص ۵۱۷

۹_ مروج الذھب ج۳ ص ۳۰

۱۸۴

عمرو بن حمق خزاعى كى ذات وہ تھى جن كا شماربہادروں ميں ہوتا تھا ، مگر حاكم كوفہ زياد نے انكے قتل كا فرمان جارى كر ديا تھا ، يہ امام عليہ السلام پر تبرا نہ بھيجنے كے ڈر سے جنگل ميں جا كر چھپ گئے ، ليكن حاكم كوفہ ( زياد ) كے ظالم سپاہيوں نے انكو چراغ كے ذريعہ ڈھونڈھنا شروع كيا اخر كار عراق كے تپتا صحراء كے ايك غار ميں انكو گرفتار كر ليا گيا اور حاكم كوفہ كى خدمت ميں پيش كيا گيا ، مگر عمر و بن حمق خزاعى نے امام (ع) كو كچھ نہ كہا جسكے بدلے ميں انكو زياد نے قتل كر ديا پھر انكے سر كو معاويہ كے پاس بھيجا اس نے حكم ديا كہ اس سر كو بازار ميں لٹكا ديا جائے تاكہ لوگ اس سر سے عبرت ليں _

چند دنوں بعد اس سر كو عمرو بن حمق كى بيوى كے پاس بھيجا گيا جو خود اسى محبت على (ع) كيوجہ سے قيد خانہ كى صعوبتوں كو برداشت كر رہى تھيں ، جب انھوں نے اپنے شوہر كے كٹے ہوئے سر كو ديكھا تو حسرت و ياس كے مارے يہ كہا ، كتنا زمانہ ہو گيا كہ تم لوگوں نے ميرے شوہر كو مجھ سے چھڑا ديا تھا ، ليكن اب اسكے سر كو ميرى خدمت ميں تحفہ بنا كر پيش كرتے ہو ارے يہ تحفہ بڑا قيمتى _(۱۰) _

بلاد اسلامى كے منبروں سے امير المومنين پر نفرين

امام عليہ السلام كے اصحاب كو صفحہ ہستى سے مٹانے كى كوشش اور جھوٹى حديثوں كے ذريعہ نيك كردار كو بد نام كرنا نيز بد كردار كو نيك كردار كرنے كى سازش يہ سارى كى سارى معاويہ كى سياست تھى جو تمام بلاد اسلامى ميں اگ كى طرح پھيل چكى تھى ، زياد بن ابيہ اور معاويہ كے ديگر حكمرانوں نے اس سياست كو تر ويج دينے ميں بہت مشكلات كا سامنا كيا تھا اور اس سلسلہ ميں مورخين نے ان حكمرانوں كى زيادتيوں اور تباہكاريوں كو بيان بھى كيا ہے _

يہ تمام تباہكارياں اور گندى سياست بنى اميہ كے دور ميں ديكھنے ميں اتى ہے ، كيونكہ ان لوگوں نے مسلمانوں كے ذہن و دماغ كو اسى لئے حقائق سے دور ركھا تھا تاكہ تمام بلاد اسلامى كے منبروں سے حضرت على (ع) كو برا بھلا كہا جائے اور صرف ايك سيستان كا صوبہ تھا جو معاويہ كے حكم كو نہيں مان رہا تھا اور ايك مرتبہ كے علاوہ اہل سيستان نے منبروں سے حضرت على (ع) كو برا بھلا نہيں كہا :

____________________

۱۰_ابن قتيبہ كى المعارف ص ۱۲۷ ، استيعاب ج۲ ص ۵۱۷ ، اصابہ ج۲ ص ۵۲۶ ، ابن كثير ج۸ ص ۴۸ ، المعبر ص ۴۹۰

۱۸۵

اس ايك مرتبہ كے بعد سيستانيوں نے اموى اركان خلافت سے عہد و پيمان كيا كہ ہم كو حضرت امير المومنين (ع) پر نفرين كرنے سے باز ركھا جائے ، درانحاليكہ اسى زمانے ميں شہر اسلامى كے دو مقدس ترين شھروں ( مكہ و مدينہ ) ميں منبروں سے امام (ع) پر لعنت بھيجى جا رہى تھى(۱۱)

ضمير فروش خطيبوں نے خاندان علوى (ع) كے سامنے امام (ع) بزرگوار پر لعن و طعن كى تھى جنھيں مورخين نے نقل كئے ہيں ،ليكن ميں ان تمام واقعات كو چھوڑتے ہوئے صرف ايك واقعہ پيش كر رہا ہوں _

ايك مرتبہ عمر و بن عاص نے منبر سے حضرت على (ع) كو خوب برا بھلا كہا ، جب يہ اترگيا تو اسكے بعد مغيرہ بن شعبہ منبر پر اگيا اور اس نے بھى امام (ع) كے حق ميں نا زيبا كلمات زبان پر جارى كئے ، درانحاليكہ اس مجلس ميں حضرت امام حسن مجتبى (ع) موجود تھے ، حاضرين نے امام (ع) سے ان دونوں ( عمر و عاص، مغيرہ ) كا جواب دينے كے لئے كہا :

انحضرت (ص) نے ايك صورت ميں جواب دينے كى پيشكش كو قبول كيا كہ اگر ميں حق بات كہوں تو تم سب ميرى تصديق كرنا اور اگر نا حق بات كہوں تو ( العياذ باللہ ) ميرى تكذيب كرنا ، امام عليہ السلام اس عہد و پيمان كے بعد منبر پر گئے اور حمدالہى كے بعد عمر واور مغيرہ سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ ، تم دونوں سے خدا كى قسم ديكر پوچھتا ہوں كہ آيا تم دونوں بھول گئے ہو جو رسول (ص) نے مہار پكڑنے والے كو اور مركب ہنكانے والے كو نيز سوار پر لعنت بھيجى تھى جن ميں ايك فلاں شخص ( معاويہ ) تھا(۱۲) _

حاضرين نے كہا اپ سچ كہتے ہيں :

دوسرى مرتبہ پھر عمر و عاص و مغيرہ كو مخاطب كرتے ہوئے كہا :

ايا تم دونوں كو معلوم نہيں ہے جو پيغمبر اسلام (ص) نے عمر و عاص كے ہر شعركے بيت پر لعنت بھيجى تھى(۱۳) ، تمام لوگوں نے كہا خدا كى قسم اپ سچ كہتے ہيں(۱۴) _

____________________

۱۱_ياقوت حموى ج۵ ص ۳۸ مطبوعہ مصر

۱۲_ سوار ابو سفيان، مہار تھامنے والا يزيد بن ابو سفيان نيز ہنكانے والا معاويہ تھا اور پيغمبر اسلام (ص) نے ان تينوں پر لعنت بھيجى تھي

۱۳_ عمر و عاص نے عصر جاہليت ميں ايك قصيدہ رسول (ص) كى مذمت ميں كہا تھا انحضرت نے بد دعا كر كے خدا وند عالم سے درخواست كى كہ اسكے ہر بيت پر ايك لعنت بھيجے

۱۴_ تطہير اللسان ص۵۵

۱۸۶

ليكن جو مومن اور اہلبيت عليہم السلام كے چاہنے والے تھے كبھى بھى خطبوں ميں نيز جس نشست ميں على (ع) كو برا بھلا كہا جاتا تھا اس ميں شريك نہيں ہوتے تھے ، اور قبل اسكے كہ خطبہ ديا جائے مسجد كو چھوڑ ديتے تھے _

يہى وجہ تھى جو معاويہ كے حكمرانوں نے حكم خدا و رسو ل(ص) كو بدل ديا تھا ، اور جس نماز ميں پہلے خطبہ تھا اسكو بعد ميں پڑھا گيا _

كتاب محلى ميں ابن حزم رقمطراز ہيں :

بنى اميہ كى حكومت ميں سب سے پہلے جو كام انجام ديا گيا وہ يہ تھا كہ خطبہ نماز كو نماز پر مقدم كر ديا گيا ، ان لوگوں نے اپنے نا مشروع فعل كى توجيہ و تاويل اس طرح كى كہ لوگ نماز ختم ہونے كے بعد چلے جاتے ہيں اور خطبہ كو نہيں سنتے ہيں _

ليكن حقيقت تو يہ ہے كہ ان لوگوں نے اتنا على (ع) كو برا بھلا كہا كہ نمازى اپنى نماز تمام كر كے مسجد سے بھاگ جاتے تھے اور مسلمان كا يہ فعل صحيح معنوں ميں درست و حق تھا(۱۵)

صحيح بخارى اور صحيح مسلم نيز حديث كى دوسرى معتبر كتابوں ميں ابو سعيد خدرى سے يوں نقل ہوا ہے _

ميں ( سعيد ) حاكم مدينہ مروان كے ساتھ عيد الاضحى يا عيد الفطر كى نماز عيد گاہ ميں پڑھنے گيا ، كثير بن صلت كے بنائے ہوئے منبر كے قريب جيسے ہى مروان پہونچا تو اس پر چڑھ گيا اور نماز سے پہلے خطبہ دے ڈالا ، ميں نے اسكو لاكھ روكا مگر وہ نہ مانا ، جب خطبہ ديكر مروان نيچے اترا تو ميں نے اس سے كہا كہ خدا كى قسم ، تم نے تو دين و شريعت كو بدل ڈالا ہے

مروان نے كہا ، اے ابو سعيد جن چيزوں كو تم بنام دين سمجھتے ہو وہ تمام كى تمام دنيا سے اٹھ گئي ہيں _

ابو سعيد نے كہا ، خدا كى قسم ، ان بدعتوں سے بھتر يہ تھا كہ كچھ جانتے ہى نہيں ، مروان نے كہا ، اگر نماز سے پہلے خطبہ نہ ديتے تو لوگ ميرے خطبے كو ہرگز نہيں سنتے اسى وجہ سے ميں نے نماز سے پہلے خطبہ ديديا ہے(۱۶)

____________________

۱۵_ محلى ج۵ ص ۱۸۶ ، امام شافعى ج۱ ص ۲۰۸

۱۶_بخارى ج۲ ص ۱۱۱ ، مسلم ج۳ ص ۲۰ ، سنن ابى داو د ج۱ ص ۱۷۸ ، ابن ماجہ ج۱ ص ۳۸۶ ، بيہقى ج۳ ص ۲۹۷ ، مسند احمد ج۳ ص ۲۰

۱۸۷

بعض لوگوں كا لعنت سے گريز خلافت اموى كے حكام و مامورين نے صرف عام لوگوں سے حضرت على (ع) پر لعنت نہيں بھجوائي ، بلكہ اصحاب رسول (ص) جو اسلام كى معرفت ركھنے كيوجہ سے زيادہ مستحق پيروى تھے ان سے بھى كہا كہ ميرے حكم كو مانيں اور على (ع) پر لعنت بھيجيں _

سہل بن سعد كہتے ہيں :

ايك روز ال مروان(۱۷) كے ايك حاكم نے مدينہ ميں مجھے طلب كيا اور ہم سے كہا كہ تم على (ع) پر لعنت بھيجو ، ميں نے حاكم مدينہ كى بات كو ٹھكرا ديا _

حاكم نے كہا اچھا ابو تراب(ع) پر لعنت بھيج دو _

سہل نے كہا ، حضرت على (ع) كو سارے ناموں ميں سب سے زيادہ محبوب نام ابو تراب(ع) تھا اور جب لوگوں نے اس نام سے ياد كيا تو اپ بہت خوش ہوئے _

حاكم مدينہ نے كہا _ مجھے اس نام كى داستان سے مطلع كرو اور خوش ہونے كا سبب بتائو ، ميں نے كہا ايك مرتبہ پيغمبر(ص)

اسلام جناب سيدہ(ع) كے گھر تشريف لائے اور على (ع) كو وہاں موجود نہ پاكر اپنى بيٹى سے پوچھا كہ تمھارے چچا زاد بھائي كہا ں ہيں _

فاطمہ(ع) نے كہا كہ ميرے اور ان كے درميان تھوڑا سا سخت كلامى ہو گئي ہے اور اسكے بعد انھوں نے گھر ميں ارام نہيں كيا اور باہر چلے گئے _

انحضرت (ص) نے ايك شخص سے كہا كہ جا كر ديكھوكہ على (ع) كہا ں ہيں اس نے جب مسجد ميں حضرت على (ع) كو ليٹے ہوئے ديكھا تو رسول اكرم (ص) سے جا كر كہا كہ وہ مسجد ميں سو رہے ہيں ، جب رسول اكرم (ص) نے على (ع) كو خاك ميں اٹے ہوئے ديكھا تو بڑى مہر بانى سے انكے جسم سے خاك كو جھاڑا اور كہا ، اٹھو ابو تراب ، اٹھو ابو تراب(۱۸)

____________________

۱۷_مقصود مروان بن حكم ہو گا

۱۸_صحيح مسلم ج ۷ ص ۱۲۴

۱۸۸

ابو تراب كے معنى مٹى كو دوست ركھنے والا ہے بنى اميہ نے يہ گمان كر ليا تھا كہ على (ع) كى يہ كيفييت ذليل و حقير ہے درانحاليكہ انكو يہ بھى نہ معلوم ہو سكا كہ يہ لقب خود على (ع) كے كمال كى دليل ہے جو اس طرح رسول (ص) اپ سے لطف و مہربانى سے پيش ارہے تھے ، ورنہ بنى اميہ لوگوں سے يہ نہ كہتے كہ ابو تراب(ع) پر لعنت بھيجو _

عامر بن سعد جو خود اس واقعہ كا چشم ديد گواہ ہے كہتا ہے :

ايك مرتبہ معاويہ نے ميرے باپ ( سعد ) كو اپنى خدمت ميں بلايا اور ان سے كہنے لگا كہ تم على (ع) كو برا بھلا كيوں نہيں كہتے ہو ؟

ميرے باپ نے جواب ديا كہ _ اے معاويہ جب تك مجھے يہ تين حديثيں ياد رہيں گى كبھى على (ع) كو برا بھلا نہيں كہہ سكتا ، اور رسول (ص) كى يہ حديثيں ميرى نظر ميں عرب كے سرخ رنگ كے اونٹوں سے زيادہ قيمتى ہيں _

۱_ جب رسول (ص) ايك جنگ ( تبوك ) ميں جا رہے تھے اور على (ع) كو ساتھ نہ لے گئے اور انكو شہر مدينہ كے منافقوں سے نپٹنے كے لئے چھوڑ ديا تھا تو اس وقت على (ع) نے بہت گريہ كيا اور انحضرت (ص) سے فرمايا : اے رسول(ص) خدا مجھے عورتوں اور بچوں كے درميان چھوڑ كر جاتے ہيں تو ميں نے اپنے كانوں سے رسول(ص) اكرم كو يہ فرماتے ہوئے سنا تھا ''اما ترضى ان تكون منى بمنزلة هارون من موسى الّا انه لا نبى بعدى ''

ترجمہ : آيا تم راضى نہيں ہو كہ تمھارا وہى مرتبہ ہے جو موسى كے لئے ہارون كا تھا فرق اتنا ہے كہ ميرے بعد كوئي نبى ہونے والا نہيں ہے _

۲_ دوسرى مرتبہ جنگ خيبر ميں كہتے ہوئے سنا تھا''لاعطينّ الراية غدا رجلا ً يحب الله و رسوله و يحبه الله و رسوله ''

ترجمہ : كل ميں اس مرد كو علم دوں گا جو خدا و رسول كو دوست ركھتا ہے اور خدا و رسول (ص) اسے دوست ركھتے ہيں ،ہم تمام لوگ گردنوں كو بلند كر كے رسول (ص) خدا كو ديكھنے لگے اپ (ص) نے فرمايا : على (ع) كہاں ہيں ؟

۱۸۹

حاضرين ان كو بلانے كے لئے دوڑے جبكہ على (ع) كے انكھوں ميں شديد درد تھا وہ اسى حالت ميں پيغمبر اكرم (ص) كى خدمت ميں لائے گئے ، انحضرت (ص) نے ان كى انكھوں ميں اپنا لعاب دہن لگايا پھر علم جنگ انكے ہاتھوں ميں ديا جسكے بعد خدا وند عالم نے انكو فتحيابى سے ہمكنار كيا _

مجھے وہ بھى وقت ياد ہے جب يہ آيت نازل ہوئي تھى ،كہ''فقل تعالوا ندع ابنا ئنا الخ_

ترجمہ : پس ان سے كہو كہ ائو اس طرح فيصلہ كر ليں كہ ہم اپنے بيٹوں كو لاتے ہيں تم اپنے بيٹوں كو لائو ، پيغمبر(ص) اسلام نے على (ع) ، فاطمہ(ع) ، حسن(ع) ، حسين(ع) كو بلايا اور كہا ، اے ميرے مالك يہى ہمارے اہلبيت(ع) ہيں _

مسعودى سعد بن وقاص اور معاويہ كى ملاقات كو طبرى سے يوں نقل كرتا ہے _

جب معاويہ حج كرنے كے لئے مكہ آيا تو سعد بن وقاص سے طواف كعبہ كے وقت ملاقات ہوئي ، جب طواف كر چكا تو سعد كو ليكر دار الندوہ ( جو عصر جاہليت ميں بزرگان قريش كے اجتماع كى جگہ تھى ) آيا اور سعد سے كہا كہ تم على (ع) پر لعنت بھيجو ، معاويہ كى اس بات پر سعد كو اتنا غصہ آيا كہ اپنى جگہ سے كھڑے ہو گئے اور كہا :

اے معاويہ ، تو مجھے اسى لئے ليكر آيا ہے تاكہ على (ع) جيسے شخص پر لعن و طعن كروں خدا كى قسم ، اگر على كے فضائل و كمالات ميں سے ايك فضيلت ميرے اندر ہوتى تو دنيا كى تمام چيزوں سے زيادہ محبوب و قيمتى ہوتى(۱۹)

مسعودى نے اس واقعہ كو لكھنے كے بعد ايك عبارت پيش كى ہے جو اس واقعہ سے تھوڑا سا فرق ركھتى ہے_

سعد نے معاويہ سے كہا كہ ، خدا كى قسم ، جب تك زندہ رہو نگا تيرے گھر ميں قدم نہيں ركھوں گا يہ كہا اور اٹھ كھڑے ہوئے(۲۰)

ابن عبد ربہ اندلسى اپنى كتاب ميں لكھتے ہيں :

امام حسن (ع) مجتبى كى شہادت كے بعد معاويہ خليفہ بن كر مكہ حج كرنے گيا پھر مدينہ كى طرف رخ كيا اسكى اس سفر ميں يہ خواہش تھى كہ مسجد النبوى (ص) كے منبر سے على (ع) كو برا بھلا كہے_

____________________

۱۹_صحيح مسلم ج۷ ص ۱۲۰ ، ترمذى ج ۱۳ ص ۱۷۱ ، مستدرك ج۳ ص ۱۰۹ ، اصابہ ج۲ ص ۵۰۲

۲۰_مروج الذھب ج۳ ص ۲۴

۱۹۰

معاويہ كے اطرافيوں نے اس سے كہا ، اس شہر ( مدينہ ) ميں فاتح ايران اور با عظمت صحابى سعد بن وقاص رہتے ہيں ، وہ اس كام كو ہرگز ہونے نہيں ديں گے لہذا بہتر يہى ہے كہ انكے پاس جا كر ان سے پوچھ ليا جائے _

مامورين معاويہ، سعد كے پاس گئے جيسے ہى انھوں نے سنا تو ان لوگوں سے كہا _ اگر اس كام كو انجام ديا گيا تو ياد ركھو جس مسجد كے در سے على (ع) كو برا بھلا كہا گيا اس در ميں ہرگز قدم نہيں ركھےں گے_

يہ بات اس وقت واضح ہوگى جب ہميں يہ معلوم ہو جائے كہ مدينہ ميں مسجد نبوى (ص) كے بارے ميں گفتگو ہوئي تھى يا كوئي اور مسجد تھى _

معاويہ سعد كے نفوذ كے سامنے مات كھا گيا اورجب تك وہ زندہ رہے معاويہ اس كام كو انجام نہ دے سكا _

ليكن جب سعد بن وقاص اس دنيا سے چلے گئے تو معاويہ نے مدينہ كے اندر بار ديگر سعى و كوشش كى اور امام على (ع) كو مسجد نبوى (ص) كے منبر سے گالى دي_

يہى وہ دور تھا جس ميں معاويہ نے اپنے تمام كارندوں كو خط لكھا اور حضرت على (ع) پر تمام بلاد اسلامى كے منبروں سے لعن و طعن كروائي _

زوجہ رسول (ص) ام سلمى نے كئي خطوط معاويہ كے پاس بھيجے جن ميں ان باتوں كو لكھا اے معاويہ ، تو تمام منبروں سے على (ع) اور انكے ساتھيوں پر نفرين كروا رہا ہے جبكہ يہ نفرين خدا و رسول (ص) پر ہو رہى ہے _

ميں قسم كھاتى ہوں كہ خدا اور پيغمبر(ص) اسلام اسكو دوست ركھتے تھے ، مگر ام سلمى كے خط نے كوئي خاص اثر معاويہ پر نہيں ڈالا

۱۹۱

بلكہ اس نے ان خطوط كو ردى كى ٹوكرى ميں ڈال ديا تھا _(۲۱) _

معاويہ كا اخرى ہدف

جب بھى معاويہ اپنے حسب و نسب اور اپنے خاندان كے كرتوت پر (جو اسلام كے مقابلے ميں جنگ كى تھى )نظر دوڑاتا تھا تو شرم و حياء كے مارے اسكا سر جھك جاتا تھا اور يہ تمام چيزيں اسكى حيرانى و پريشانى كى باعث بن جاتى تھيں ، كيونكہ ايك طرف اسلام نے اس كو اور اسكے خاندان كو ضرب كارى لگا كر ذلت و رسوائي كے كھنڈر ميں ڈال ديا تھا _

دوسرى طرف اس كے ديرينہ رقيب بنى ہاشم شہرت كے فلك چہارم پر جا رہے تھے ، يہ تمام مشكلات اسكے ذہن و دماغ پر پہاڑ كى طرح بوجھ بنى ہوئي تھى ، جنكو ہلكا كرنے كے لئے اس نے اصحاب پيغمبر (ص) سے جنگ كى تھى _

ليكن ان تمام جنگوں ميں امير شام معاويہ كى يہى كوشش رہى كہ كہيں سے اپنے كينے كا اظہار نہ ہو كيونكہ ابھى حكومت نئي ہے ورنہ جان و مال خطرے ميں پڑ جائے گا ، ليكن جب ايك دن مغيرہ بن شعبہ كے ساتھ تنہائي ميں بيٹھا، چونكہ دونوں عصر جاہليت سے اپس ميں دوست تھے نيز سالہا سال دونوں سياہكاريوں و تباہكاريوں ميں ايك دوسرے كا ہاتھ بٹا رہے تھے تو معاويہ نے اپنى سياست كو فاش كر ديا _

كتاب الموفقيات ميں زبير بن بكار ، مطرف بن مغيرہ ، سے نقل كرتے ہيں ، ميں اپنے والد (مغيرہ ) كے ساتھ شام گيا ہم دونوں كا قيام معاويہ كے يہاں تھا ميرے والد ہر روز امير شام معاويہ كے پاس جا يا كرتے تھے اور جا كر گھنٹوں باتيں كيا كرتے تھے اور جب معاويہ كے پاس سے اتے تھے تو سارى باتوں كو بيان كرتے تھے _ايك دن معاويہ كے پاس سے آئے تو ميں نے كھانا حاضر كيا ، ليكن انھوں نے نہيں كھايا ، ميں اپنے دل ميں سوچنے لگا كہ كہيں ہم سے كوئي خطا تو سرزد نہيں ہو گئي ہے _

لہذا ميں نے اپنے باپ ( مغيرہ ) سے سوال كيا كہ اج كى شب اپ كيوں اتنا كبيدہ خاطر ہيں _

____________________

۲۱_عقد الفريد ج۳ ص ۱۲۷

۱۹۲

ميرے باپ نے جواب ديا كہ ، اے ميرے لال ، اج ہم خبيث ترين و كافر ترين شخص كے پاس سے ارہے ہيں _

ميں نے پوچھا وہ كون ہے ؟

ميرے باپ نے كہا ارے وہى معاويہ ہے اج اسكى مجلس اغيار سے خالى تھى ، تو ميں نے اس سے كہا كہ اے امير المومنين اپ تو اپنے ہدف تك پہونچ گئے ہيں _

لہذا اس بوڑھاپے ميں عدل و انصاف سے كام ليجئے اور اپنے رشتہ داروں ( بنى ہاشم ) پر رحم و كرم كيجئے تاكہ لوگ اپكى تعريف و تمجيد كريں _

خدا كى قسم ، اب ان لوگوں سے كسى چيز كا خوف نہيں ہے _

اس پر معاويہ نے كہا ، جو كچھ تم نے كہا ہے بہت مشكل ہے ، ابو بكر تخت خلافت پر آئے عدل و انصاف كيا تمام زحمتوں كو برداشت كيا مگر خدا كى قسم ، ايك موذن بھى ان كا نام اذان ميں نہيں ليتا ہے _

عمر خليفہ بنے دس سال كى طويل مدت تك سختيوں كو جھيلا مرنے كے بعد كوئي بھى ان كا نام ليوا نہيں ہے _

اخر ميں ہمارے بھائي عثمان تخت خلافت پربرا جمان ہوئے جو نسب كے اعتبار سے كوئي بھى ان كا ہم پلہ نہيں ہے اور جو كچھ كرنا تھا انھوں نے انجام ديا ليكن ان كے ساتھ كيسا حادثہ پيش آيا جسكى وجہ سے مار ڈالے گئے ، مگر ان كا بھى كوئي نام نہيں ليتا ہے ، اور لوگوں نے انكى كار كردگى كو بالائے طاق ركھ ديا ہے درانحاليكہ اس مرد ہاشمى ( محمد(ص) ) كا نام موذن ہر روز پانچ مرتبہ تمام بلاد اسلامى كے گلدستہ اذان سے ليتا ہے كہ

اشھد ان محمد رسول(ص) اللہ_

اے مغيرہ تم ہى فيصلہ كرو كہ ايسى صورت ميں كون سا اچھا كام اور كس كا نام باقى رہ سكتا ہے _

خدا كى قسم ، جب تك اس نام كو نہ مٹادونگا اس وقت تك چين و سكون سے نہيں بيٹھوں گا(۲۲) رسول خدا (ص) كى شہرت

عامہ سے معاويہ كا سينہ اگ كى بھٹى ہو رہا تھا ( كيونكہ معاويہ كے بھائي ، ماموں اور دوسرے رشتہ داروں كو جنگ بدر ميں مارا تھا ) لہذا اس نام كو مٹانے كے لئے اس نے ان دو سياستوں انتخاب كيا ، اسكى پہلى سياست يہ تھى جس كا خلاصہ يہ ہے ، كہ بنى ہاشم كى ايك فرد بھى زمين پر زندہ نہ رہے يہ بات صرف ميں نہيں كہہ رہا ہوں ، بلكہ اسكى وضاحت خود مولائے

____________________

۲۲_مروج الذھب ج ۹ ص ۴۹ ، شرح نہج البلاغہ ج۱ ص ۴۶۳

۱۹۳

كائنات امير المومنين (ع) نے بھى كى ہے كہ خدا كى قسم معاويہ چاہتا ہے كہ بنى ہاشم كى ايك فرد بھى روئے زمين پر باقى نہ رہے اور خدا كا نور بجھ جائے درانحاليكہ خدا وند عالم اپنے نور كو تمام عالم ميں پھيلا كر رہے گا چاہے كافروں كو برا ہى كيوں نہ لگے(۲۳)

معاويہ كى دوسرى سياست يہ تھى كہ بنى ہاشم كے نام و نشان كو صفحہ ہستى سے مٹا ديا جائے اسى لئے جھوٹى حديثوں اور سيرت و تاريخ كا ايك بڑا كارخانہ كھولا تاكہ ان كى منقصت كر كے كردار كو بد نام كر ديا جائے اور بنى اميہ كى فضيلت و منزلت كا پر چار كيا جائے ، يہى وجہ تھى كہ اس نے رسول (ص) كى لعنت والى حديث جو خود اسكے اور ابو سفيان يا خاندان اموى كى كسى ايك فرد جسيے عمر و بن عاص كے سلسلے ميں تھى كے مقابلے ميں رسول اسلام (ص) سے جھوٹى حديث منسوب كر كے لوگوں كے درميان پر چار كرائي كہ ، بارالہا ميں انسان ہوں _

اگر غصے كى حالت ميں كسى پر غلطى سے لعنت بھيجدى ہے يا اسكى مذمت كر دى ہے تو اس لعن و تشنيع كے بدلہ ميں اسكے گناہوں كو معاف كر دے تاكہ پاك و پاكيزہ ہو جائے _

ان جعلى حديثوں نے معاويہ كے حق ميں شمشير برّان كا كام كيا ، ايك طرف رسول اكرم (ص) نے جو كچھ ا س كے يا اس كے خاندان والوں كے سلسلے ميں كہا تھا جو حقيقت ميں سچ تھا ان حديثوں سے اس نے داغدار دامن كو پاك و صاف كر ليا _

دوسرى طرف پيغمبروں (ص) كو ايك معمولى انسان دكھايا كہ انھوں نے جو كچھ كہا تھا وہ سب غصے ميں كہا ، جبكہ اپ لوگ اچھى طرح سے جانتے ہيں كہ خدا وند عالم نے اپنے رسول(ص) كے اخلاق و كردار كى كتنى تعريف و تمجيد كى ہے ، اور انكو انك لعلى خلق عظيم سے ياد كيا ہے ، اور اپكے متعلق سورہ ال عمران ميں ارشاد فرمايا ہے ، ''فبما رحمة من اللہ لنت لھم ولو كنت فظا غليط القلب لا نفضوا من حولك ''نيز دوسرى جگہ كہا كہ ، انكى تمام باتيں وحى الہى كا سر چشمہ ہيں '' وما ينطق عن الھوى ان ھو الّا وحى يوحى '' سورہ نجم آيت۳_۳

معاويہ كى اس برى سياست كو ہر كس و نا كس نہيں سمجھ پايا تھا يہى وجہ تھى جو سادہ لوح افراد تھے اور وہ اپنى ذات سے بے بہرہ تھے اسكى آواز پر دوڑنے لگے ، اور معاويہ كى ہاں ميں ہاں ملانے لگے ، اور جو ضمير فروشوں نے اسكے حكم سے بناوٹى حديثيں تيار كى تھيں انھيں ہر جگہ بيان كرنے لگے اگر چہ معاويہ نے اپنے اندر ونى كينے كو لوگوں كے سامنے ظاہر نہيں كيا

____________________

۲۳_ مروج الذھب ج۳ ص ۲۸

۱۹۴

ليكن اپنى نا پاك تمنائوں كو كھلے عام انجام ديا ہاں ،اس نے ايك طرف عثمان اور ان كے ہمراہيوں كا كھل كر ساتھ ديا_ اور دوسرى طرف على (ع) اور ان كے خاندان والوں نيز ان كے چاہنے والوں پر كہ جنھوں نے اس كى سياہكاريوں ميں ہاتھ نہيں بٹايا تھا ظلم و ستم كا پہاڑ ڈھايا ، اور كسى كو اذيت دى تو كسى كو قيد خانے ميں ڈلوايا تو كسى كو زندہ در گور كيا گيا ، ہمارى بحث كى محور ام المومنين عائشه كى ذات ہے كہ جس وقت انسانيت سولى پر چڑھائي جا رہى تھى اور شيعيان على (ع) كو شكنجوں اور قيد خانوں كى اذيتوں ميں مبتلا كيا جا رہا تھا اپ اسوقت بھى اركان حكومت اموى كى نظر ميں باعث صد احترام تھيں اور معاويہ نے جو امير المومنين (ع) سے جنگ كى تھى تو اس ميں بھى اپ نے معاويہ ہى كا ساتھ ديا تھا ،جب اپ حضرات نے يہاں تك ان كى كاركردگى كو ملاحظہ فرما ليا تو اس بات كو بھى ذہن نشين كر ليجئے كہ انھوں نے معاويہ كى جعلى حديثوں كے كار خانے ميں كتنا حصہ ليا ہے_

سعد بن ہشام نے حكيم بن افلح سے عائشه كے گھر جانے كو كہا ، اس نے كہا كہ ہم ان كے يہاں ہر گز نہيں جائيں گے ، ميں نے عائشه كو جب دو گروہوں (حزب علوى اور حزب عثمان ) ميں اختلاف چل رہا تھا تو ان كو مداخلت كرنے سے منع كيا ليكن انھوں نے ميرى بات نہيں مانى اور اپنى ڈگر پر چلتى رہيں(۲۴) يہ جو افلح نے عائشه كے بارے ميں كہا كہ حزب علوى (ع) اور حزب عثمان كے اختلاف ميں مداخلت كي، اس كا مطلب كيا ہے ؟

اپ نے پہلے ديكھا نيز ائندہ ملاحظہ فرمائيں گے كہ عائشه نے ان حالات ميں عثمان كے پارٹى كى خوب تعريف و تمجيد كى اور ان كے حق ميں رسول اسلام(ص) سے جھوٹى حديثوں كو منسوب كر كے بيان كيا تھا _

انھوں نے حزب علوى (ع) كى خدمت ميں يقيناً حديثيں گڑھى ہو نگى ، ان ہى باتوں كى وجہ سے حكيم افلح نے انكو منع كيا ليكن انھوں نے اسكى بات پر كان نہيں دھرا _

عائشه كى ايك حديث

احمد بن حنبل اپنى مسند ميں نعمان بن بشير سے نقل كرتے ہيں :

معاويہ نے مجھے ايك خط ديكر عائشه كے يہاں بھيجا ، ميں نے اس خط كو عائشه كى خدمت ميں پيش كيا تو اپ نے فرمايا ، اے ميرے لال ، ميں نے جو كچھ پيغمبر(ص) اسلام سے سنا ہے اس كو تم سے بيان نہ كروں ؟

___________________

۲۴_مسند احمد ج۶ ص ۵۶ ، تہذيب التہذيب ج۲ ص ۴۴۴

۱۹۵

نعمان نے كہا ، ضرور بيان كيجئے :

عائشه نے كہا ، ايك روز ہم اور حفصہ رسول (ص) كى خدمت ميں بيٹھى ہوئي تھى كہ اپ(ص) نے فرمايا كہ كتنا اچھا ہوتا كہ كوئي بات كرنے والا اجاتا _

عائشه نے كہا اے رسول خدا (ص) ہم اپنے باپ ( ابو بكر ) كو بلا ديں

انحضرت (ص) نے كچھ جواب نہيں ديا

رسول (ص) نے بار ديگر اپنى خواہش بيان كى حفصہ نے كہا ہم اپنے باپ ( عمر )كو بلاديں حضور (ص) خاموش رہے _

اس كے بعد رسول اسلام (ص) نے ايك شخص كو بلايا اور چپكے سے اسكے كان ميں كچھ كہا وہ ادمى چلا گيا ، تھوڑى دير بعد عثمان اگئے ، انحضرت(ص) نے ان سے خوب باتيں كيں ، گفتگو كے درميان ميں نے سنا كہ حضور(ص) يہ فرما رہے ہيں _

اے عثمان ، عنقريب خدا وند متعال تمہارے جسم پر ايك لباس ( خلافت ) پہنانے والا ہے اگر لوگوں نے اس لباس كو تم سے چھيننے كى كوشش كى تو تم اسكو ہر گز نہ اتارنا _

رسول(ص) خدا نے اس فقرے كو تين بار دہرايا

نعمان بن بشير كہتا ہے كہ ميں نے كہا :

اے ام المومنين يہ حديث عثمان كى مخالفت كرتے وقت اور لوگوں كو انكے خلاف بھڑكاتے وقت ياد نہيں رہى تھى _

عائشه نے كہا اے نعمان ميں اسكو ايسا بھول گئي تھى گويا كبھى سنا ہى نہيں تھا(۲۵)

يہ واقعہ اس زمانہ ميں پيش آيا كہ خليفہ وقت معاويہ نے عائشه كو خط لكھا اور نعمان اس كو ليكر گيا اور يہ اس كا منتظر ہے كہ يہ

جواب ديں ايسے وقت ميں رسول (ص) كى ايك حديث عائشه كو ياد ائي ہے اور قاصد سے بيان فرمائي كہ رسول (ص) نے عثمان كے بارے ميں وصيت كى تھى كہ ائندہ كا خليفہ عثمان ہے پھر لباس خلافت كو ہرگز جسم سے نہ اتارنا _

غور طلب بات يہ ہے كہ اس خط سے حديث كا كيا ربط ہے ؟

ايا معاويہ نے اپنے خط ميں ان سے سفارش كى تھى كہ عثمان كا دفاع كريں ؟

__________________

۲۵_مسند احمد ج۶ ص ۱۴۹

۱۹۶

يا يہ كہ جب قاصد امير شام معاويہ كے يہاں پلٹ كر جائے تو انكى حديث كو معاويہ سے بيان كرے ؟

يا كوئي دوسرى بات تھى ؟

ايا ممكن ہے كہ جو عائشه ايك طويل مدت تك عثمان سے جھگڑا كرتى رہيں اور لوگوں كو ان كے خلاف بھڑكاتى رہيں يا اسى قسم كى دوسرى باتيں جو معاويہ كے زمانے ميں پيش ائيں ، اور لوگوں سے بيان كيا تھا اسكى وجہ صرف اتنى ہے كہ معاويہ كے زمانے ميں عائشه ايك كنيز كى طرح زندگى گذار رہى تھيں _

اور جو كچھ جھوٹى حديثيں اپنے باپ يا عمر و طلحہ نيز خاندان كى فضيلت ميں بيان كى تھى اسكى وجہ يہ تھى كہ معاويہ كى حديث گڑھنے والى سياست كو كامياب بنا كر اس كو خوش كرنا تھا اور اس سلسلہ ميں انھوں نے اپنے رشتہ دار اور چاہنے والوں كے فضائل كو نشر كرنے ميں ايڑى چوٹى كا زور بھى لگايا تھا اسى لئے محاورہ بھى ہے كہ جسكو چوٹ لگتى ہے اسى كو درد ہوتا ہے '' ليست الثكلى المستاجرہ ''

ہم نے ان بحثوں ميں نہ كسى كے فضائل كو بڑھا چڑھا كر بيان كيا ہے اور نہ ہى ميرا مقصد كسى كى عيب جوئي كرنا تھا ، بلكہ ہمارا واحد ہدف يہ تھا كہ ان حديثوں كى جانچ پڑتال كى جائے جو رسول اسلام (ص) سے جھوٹ منسوب كر كے بيان كى گئي ہيں جسكو انشاء اللہ اس كتاب كى اخرى بحث ميں ملاحظہ فرمائيں گے _

تحقيق اور نتيجہ

ہم نے اس سے پہلے زندگانى عائشه كى اچھى طرح تحقيق كى تاكہ ان كى سياسى و اجتماعى اور معاشراتى كارناموں كے ساتھ انكے اغراض و مقاصد سامنے اجائيں ، اب اس كے پس منظر ميں ان چيزوں كو پيش كروں گا كہ وہ كون سى چيز باعث بنى جنھوں نے حديث نقل كرنے پر بر انگيختہ كيا تھا _

اگر اس كا خلاصہ كيا جائے تو يہ ہو گا كہ ، عائشه ايك تيز طرار عورت كے ساتھ ساتھ ايك بہترين خطيبہ تھيں جس كے ذريعہ عالم و جاہل سب كے افكار و قلوب كو جذب كر ليتى تھيں ، ايك بہترين سياستدان تھيں جس كى وجہ سے لشكر عظيم كو كنٹرول كر ليتى تھيں ، ان كا عوام ميں اتنا اثر و رسوخ تھا كہ ايك اشارے پر لوگوں كو خليفہ وقت كے خلاف ايسا بھڑكا ديا كہ انھوں نے اسكى بساط حكومت كو پلٹ ديا _

۱۹۷

عائشه جاہ و حشم كى بھوكى عورت كا نام ہے جس كو حاصل كرنے ميں كسى چيز سے خوف نہيں كھايا تھا ، بلكہ كسى نہ كسى طرح اس كو حاصل كر كے رہيں ، انھوں نے اپنے چاہنے والوں كے ساتھ اتنا مہربانى كى كہ حد سے اگے بڑھ گئيں _

اپنے خاندان اور اپنے مخالفوں كى نسبت اتنى كينہ توز تھيں كہ ان كے دشمنوں سے مرنے مارنے پر اجاتى تھيں ، المختصر يہ كہ ايسى عورت تاريخ ميں ڈھونڈھنے سے بھى نہ ملے گى ، اگر كوئي بات اپنے خاندان يا چاہنے والوں كے حق ميں كہہ دى تو وہ سب كے زبان پر چڑھ جاتى تھى ، اور تاريخ كے صفحات ميں زندہ جاويد ہو جاتى تھى تاكہ لوگوں كے لئے مشعل راہ بن جائے اور انے والى پيڑياں انكى معرفت و شہرت سے پہچان ليں _

اگر كوئي بات اپنے دشمنوں كو شكست دينے كے لئے بيان كر دى تو تاريخ نے ہميشہ كےلئے اپنے دامن ميں جگہ ديدى ، يا يوں كہوں كہ اگر اس نے كسى كى حمايت يا مخالفت ميں كوئي بات كسى سے كہہ ڈالى تو يہ بات مسافروں و كاردانوں كے ذريعہ ايك دوسرے تك پہونچ جاتى تھى اور لوگ اس كو حديث سمجھ كر ايك شہر سے دوسرے شہر تحفہ سمجھ كرلے جاتے تھے اخر ميں يہ باتيں كتابوں ميں منتقل ہو گئيں اور انے والى نسلوں نے ان باتوں كو حديث كا نام دے ديا _

يہ تمام باتيں خود ام المومنين عائشه كى عظمت و منزلت كى بڑى دليليں ہيں ، ہم نے جب عائشه كے چہرے كو تاريخ كى حقيقت ميں ديكھا اور جن لوگوں نے ان كى ذات كو عظمت كے سانچے ميں ڈھال كے پيش كيا تو ان دونوں ميں بہت

۱۹۸

فرق پايا ، ليكن جن لوگوں نے ان كى عظمتوں كا گيت گايا ہے ان سے ميرى ايك درخواست ہے كہ عائشه كے بطن سے ايك رسول (ص) كا بيٹا دكھا ديجئے ، البتہ يہ دونوں فضيلتيں حقيقت سے كوسوں دور ہيں _

ہميں صدر اسلام كى شخصيتوں كى اپنى طرف سے تعريف نہيں كرنى چاہيئے ، كيونكہ ايسى صورت ميں مدح و ثنا ء ايك خيالى ہو كر رہ جائيگى جسكى كوئي حيثيت نہيں ہے ، ہمارى پيش كى ہوئي سارى باتيں حقيقت سے تعلق ركھتى ہيں _

زندگانى عائشه كى تحقيق كا مقصد ہم نے بارہا كہا اور اخر ميں پھر كہتا ہوں كہ ام المومنين عائشه نے اپنے مقاصد تك پہونچنے كے لئے دو زبردست چيزوں كا سہارا ليا تھا _

۱_ عائشه نے اپنى پورى زندگى ميں زوجہء رسول (ص) نيز ام المومنين كے لقب كا سہارا ليا اور اس سے اپنى طرف لوگوں كى توجہ مبذول كروائي ، اور اس موثر حربے كو استعمال كر كے اپنے مخالفوں كى زد و كوب كى اور اپنے چاہنے والوں كى ہمت افزائي كى _

۲_ وقت كى نزاكت كو ديكھتے ہوئے پيغمبر(ص) اسلام سے ان كى حديث نقل كى ، يا اپنى قابليت جھاڑنے كے لئے زوجيت كا فائدہ اٹھا كر جھوٹى حديثيں گڑھيں ، عائشه نے جن جگہوں پر رسول (ص) كى بيوى ہونے كے ناطے فائدہ اٹھايا ہے اس كو اس مختصر بحث ميں بيان كرنا بہت مشكل ہے ، ليكن نمونے كے طور پر دو تين حديثيں پيش كر رہا ہوں _

۱_ مسلم اپنى صحيح ميں نقل كرتے ہيں :

عائشه فرماتى ہيں : جب رسول خدا (ص) بستر مرگ پر تھے تو انھوں نے ہم سے فرمايا:

اے عائشه _ اپنے باپ ( ابو بكر )اور بھائي كو بلا لائو تاكہ ايك وصيت لكھدوں كيونكہ مجھے ڈر ہے كہ كہيں لوگ ارزو نہ كرنے لگيں اور كہنے والے يہ نہ كہنے لگيں كہ ميں خلافت كا زيادہ مستحق تھا ، درانحاليكہ ، خدا اور مومنين ابو بكر ہى كو چاہتے ہيں _

۲_ صحيح بخارى ميں ہے كہ : عائشه فرماتى ہيں ، جب رسول خدا (ص) پر مرض نے شدت پكڑلى تو عبد الرحمن بن ابو بكر سے فرمايا : ہڈى يا كوئي تختى لے ائو تاكہ ميں ابو بكر كے حق ميں نوشتہ لكھدوں تاكہ ميرے بعد كوئي اس ( ابوبكر ) سے خلافت كے

۱۹۹

سلسلے ميں جھگڑا كرنے نہ لگے ، عبد الرحمن ادھر تختى وغيرہ لينے گئے تو پيغمبر اسلام (ص) نے فرمايا :اے ابو بكر خدا اور مومنين تمھارے سلسلہ ميں تھوڑا سا بھى اختلاف نہيں ركھتے ہيں _

اپ نے ديكھا كہ عائشه نے ان دو حديثوں سے اپنے باپ كى حكومت و خلافت كو رسول (ص) كى بيمارى سے ملتے جلتے واقعات سے كس طرح ثابت كر ديا اور اپنے باپ كى خلافت كے لئے دو دليليں پيش كر ديں _

۳_ جب عائشه كے روابط عثمان سے مسالمت اميز تھے تو ان كى خوب مدد كى اور ان كى حكومت كى حمايت ميں بولتى رہيں ، اور زوجيت رسول (ص) سے فائدہ اٹھا تے ہوئے عثمان كے حق ميں ايك حديث بھى گڑھ ڈالى تھى ، جس كو صحيح مسلم نے عائشه سے نقل كيا ہے كہ :

ميں رسول (ص) كے ساتھ ايك چادر ميں ارام كر رہى تھى كہ ابو بكر اگئے ، پيغمبر(ص) اسلام نے انكو اندر بلا ليا ، پھر تھوڑى دير بعد عمر بن خطاب چلے آئے رسول(ص) اسلام نے انكو بھى اسى حالت ميں بلاليا ; ليكن جب حضرت عثمان آئے تو رسول خدا (ص) چادر سے باہر اگئے پھر عثمان كو گھر ميں بلايا ، جب عثمان چلے گئے تو ميں نے رسول(ص) اسلام سے سوال كيا كہ يا رسول(ص) اللہ جب ابو بكر اور عمر آئے تو اپ چادر كے اندر ليٹے رہے ليكن جب عثمان آئے تو اپنے كو چادر سے باہر كر ليا ، اس ميں كيا راز ہے ، پيغمبر(ص) اسلام نے فرمايا : چونكہ عثمان ايك شرم و حيا كا پيكر ہے لہذا ميں ڈرا كہ اگر اسى حالت ميں عثمان سے ملاقات كر ليتا تو وہ شدت شرم سے مجھ سے بات نہ كر پاتا _

۴_ صحيح مسلم نے اسى حديث كو دوسرى طرح سے عائشه كا يوں بيان نقل كيا ہے:

ايك دن پيغمبر(ص) اسلام ميرے ساتھ چادر اوڑھے ليٹے ہوئے تھے ، جيسے ہى عثمان آئے تو رسول (ص) نے مجھ سے كہا اے عائشه تم اپنا لباس وغيرہ ٹھيك كر لو ، ميں نے كہا ، يا رسول(ص) اللہ ، ابو بكر اور عمر كے انے پر اپ نے مجھ سے لباس ٹھيك كرنے كو نہيں كہا ليكن جب عثمان آئے تو اپنے ہوش و حواس كو كھو ديا نيز ان سے ملاقات كرنے كے لئے اپنے جسم پر لباس بھى پہن ليا _

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438