واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا13%

واقعۂ کربلا مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 438

واقعۂ کربلا
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 438 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 192905 / ڈاؤنلوڈ: 5407
سائز سائز سائز
واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

اس کی عمارت کو قصر کی اینٹو ں کو توڑ کر بنایا گیا جو مقام ''حیرة ''میں کسری کی طرح تھا اور قصر کے آخر میں قبلہ کی طرف بیت المال قرار دیا گیا۔ اس طرح مسجد کا قبلہ قصر کے داہنی طرف تھا اور اسکی عمارت مرمری تھی جس کے پتھر کسری سے لائے گئے تھے۔(طبری ،ج٤ ، ص٦٤)مسجد کے قبلہ کی طرف ٤راستے بنائے گئے اور اس کے پچھم ، پورب٣٣سڑکی ں بنائی گئی ں ۔مسجد اور بازار سے ملی ہوئی جگہ پر ٥سڑکی ں بنائی گئی ں ۔ قبلہ کی سڑک کی طرف بنی اسد نے مکان بنانے کے لئے انتخاب کیا۔ اسد اور نخع کے درمیا ن ایک راستہ تھا ، نخع اور کندہ کے درمیان ایک راستہ تھا ۔کندہ اور ازد کے درمیان ایک راستہ تھا۔صحن کے شرقی حصہ میں انصار اور مزینہ ر ہنے لگے، اس طرح تمیم اور محارب کے درمیان ایک راستہ تھا ۔ اسد اور عامر کے درمیان ایک راستہ تھا ۔ صحن کے غر بی حصہ میں بجلہ اور بجیلہ نے منزل کے لئے انتخاب کیا۔ اسی طرح جد یلہ اور اخلا ط کے درمیان ایک راستہ اور سلیمان و ثقیف کے درمیان دو راستے تھے جو مسجد سے ملے ہوئے تھے۔ہمدان ایک راستہ پر اور بجیلہ ایک راستہ پر تھے ، اسی طرح تمیم اور تغلب کا ایک راستہ تھا۔یہ وہ سڑکی ں تھی ں جو بڑی سڑکی ں کہی جاتی تھی ں ۔ ان سڑ کو ں کے برابر کچھ اور سڑکی ں بنائی گئی ں پھر ان کو ان شاہراہو ں سے ملا دیا گیا۔ یہ دوسری سڑکی ں ایک ذراع سے کم کے فا صلہ پر تھی ں ۔اسی طرح اس کے اطراف میں مسافرین کے ٹھہرنے کے لئے مکانات بنائے گئے تھے ۔وہا ں کے بازارمسجدو ں کی روش پر تھے جو پہلے آ کر بیٹھ جاتاتھا وہ جگہ اسی کی ہوجاتی تھی یہا ں تک کہ وہا ں سے اٹھ جائے یا چیزو ں کے بیچنے سے فارغ ہوجائے(طبری ،ج٤، ص ٤٥ ۔ ٤٦) اور تمام دفاعی نظام بھی بر قرار کئے گئے، منجملہ ٤ ہزار تیز رفتار گھوڑے بھی رکھے گئے۔ اس طرح شہر کو فہ مسلمانو ں کے ہا تھو ں تعمیر ہو ا۔

٥۔ نعمان مدینہ میں قبیلہ ء خزرج کی ایک فرد تھا ۔شیخ طوسی نے'' رجال'' میں ص٣٠ پر اسے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے اصحاب میں شمار کیا ہے اور طبری نے ج ٤،ص ٤٣٠ پر اسے ان لوگو ں میں شمار کیا ہے جنہو ں نے عثمان کے قتل کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی بیعت سے سر پیچی کی ہے۔اس کے بعد یہ معاویہ سے ملحق ہو گیا اور جنگ صفین میں اسی کے ہمراہ تھا۔ اس کے بعد معاویہ نے ایک فوج کے ساتھ اسے'' عین التمر''شب خون کے لئے بھیجا۔ اس مطلب کو طبری نے ٣٩ ھکے واقعات ج ٥، ص ١٣٣ پر لکھا ہے پھر ٥٨ھ میں معاویہ نے اسے کوفہ کا والی بنادیا ۔ یہ اس عہدہ پر باقی رہا یہا ں تک کہ معاویہ کیفر کر دار تک پہنچ گیا اور یزید نے مسند سنبھالی ۔ آخر کا ر اس کی جگہ پر یزید کی جانب سے ٦٠ ھمیں عبید اللہ بن زیاد نے گورنر ی کی با گ ڈور سنبھا لی۔اب نعما ن نے یزید کی راہ لی اور امام حسین علیہ السلام کے قتل ہو نے تک اسی کے پاس رہا ۔ پھر یزیدکے حکم پر اہل حرم کے ہمراہ مدینہ گیا (طبری ،ج٥،ص٤١٢) وہا ں سے شام لو ٹ کر یزید کے پاس رہنے لگا یہا ں تک کہ یزید نے اسے پھر مدینہ بھیجاتاکہ وہ انصار کو عبداللہ بن حنظلہ سے دور رہنے کا مشورہ دے اور یزیدکی مخالفت سے ا نہیں ڈرائے دھمکائے لیکن انصار نے ایک نہ سنی۔ (طبری ،ج٥،ص٤٨١ا)

۱۰۱

٦۔ ٢٠ھ میں عبیداللہ بن زیاد پیدا ہوا ۔(طبری، ج٥، ص ٢٩٧) ٤١ھ میں بسربن ارطاة نے بصرہ میں اسے اس کے دو بھائیو ں عباد اور عبدالرحمن کے ہمراہ قید کرلیا اور زیاد کے نام ایک خط لکھاکہ یا تم فورا ً تم معاویہ کے پاس جائویا میں تمہارے بیٹو ں کو قتل کردو ں گا۔(طبری ،ج٥ ،ص ١٦٨)٥٣ھ میں زیاد مر گیا ۔(طبری، ج٥،ص٢٨) اس کے بعد اس کا بیٹا عبید اللہ معاویہ کے پاس گیا ۔ معاویہ نے ٥٤ھ میں اسے خراسان کا گورنر بنادیا۔ (طبری ،ج ٥،ص٢٩٧) اس کے بعد ٥٥ھ میں بصرہ کا والی مقررکردیا ۔ خراسان سے نکل کر بصرہ جاتے وقت اس نے اسلم بن زرعہ کلابی کواپنا جا نشین بنا یا۔(طبری ،ج٥ ،ص٣٠٦) جس زمانے میں خراسان میں اس نے کوہ نجاری پر حملہ کیا اور اس کے دو شہر رامیشتہ اوربیر جند کو فتح کرلیا اسی وقت اپنے سپاہیو ں میں سے دوہزارتیر اندازو ں کو اس نے لیا اور ان کی تربیت کے بعد انہیں اپنے ساتھ لیکر بصرہ روانہ ہوگیا۔ (طبری، ج ٥،ص ٢٩٨) اس کا ایک بھائی عباد بن زیاد، سجستان کا گورنر تھا اوردوسرابھائی عبدالرحمن بن زیاد اپنے بھائی عبیداللہ ہی کے ہمراہ خراسان کی حکمرانی میں تھا ،وہ اس عہدہ پر دو سال تک رہا (طبری ،ج٥ ،ص٢٩٨) پھر کرمان کی حکومت کو بھی عبیداللہ بن زیاد نے ہی سنبھال لیا اور وہا ں اس نے شریک بن اعورحارثی ہمدانی کو بھیج دیا۔ (طبری، ج٥ ،ص٣٢١) یزید نے عباد کو سجستان سے اور عبدالرحمن کو خراسان سے معزول کرکے ان کے بھائی سلم بن زیاد کو گورنربنادیااورسجستان اس کے بھائی یزید بن زیاد کو بھیج دیا (طبری، ج٥ ،ص٤٧١)پھر اسے کو فہ کی گورنری بھی ٦٠ھ میں دیدی او بصرہ میں اس کے بھائی عثمان بن زیاد کو حاکم بنادیا۔ (طبری ،ج٥،ص٣٥٨) جب امام حسین کی شہادت ہوئی تو یہ ملعون ٤٠سال کا تھا اور اس عظیم واقعہ کے بعد یہ ١ ٦ھمیں پھر کوفہ سے بصرہ لوٹ گیا۔ جب یزید اوراس کا بیٹا معاویہ ہلاک ہوگیا تو بصرہ والو ں نے اس کی بیعت کرلی اور اسکو خلیفہ کہنے لگے لیکن پھر اس کی مخالفت کرنے لگے تویہ شام چلاگیا (طبری ،ج ٥،ص٥٠٣) اس سفر میں اس کے ساتھ اس کا بھائی عبداللہ بھی تھا۔ یہ ٦٤ھکا واقعہ ہے۔ (طبری ،ج ٥،ص ٥١٣) وہا ں اس نے مروان کی بیعت کی ور اس کو اہل عراق کے خلاف جنگ کے لئے اکسایا تو مروان نے اسے ایک فوج کے ساتھ عراقیو ں کے خلاف جنگ کے لئے بھیجا۔ (طبری ،ج٥،ص٥٣) وہا ں اس نے تو ابین سے جنگ کی اور ان کو ہرادیا یہ واقعہ ٦٥ھ کا ہے۔ (طبری، ج٥،ص ٥٩٨)پھر ٦٦ھ میں جناب مختار سے نبرد آزما ہوا (طبری ،ج٦، ص٨١) اور اسی میں اپنے شامی ہمراہیو ں کے ساتھ ٦٧ ھمیں قتل کردیا گیا۔ (طبری، ج ٦، ص ٨٧)

۱۰۲

لیکن یزید نے جب زمام حکومت سنبھالی تو اس کا سارا ہم و غم یہ تھا کہ ان لوگوں سے بیعت حاصل کرے جنہوں نے اس کے باپ معاویہ کی درخواست کو یزید کی بیعت کے سلسلے میں ٹھکرادیا تھا اور کسی طرح بھی یزید کی بیعت کے سلسلہ میں اپناہاتھ دینا نہیں چاہتے تھے ،لہٰذاآسودہ خاطرہونے کے لئے اس نے مدینہ کے گورنر ولید کو ایک خط اس طرح لکھا :'' بسم اللّه الرحمن الرحیم ، من یزید امیر المؤمنین الی الولید بن عتبه ...اما بعد: فان معاوية کان عبدامن عباداللّه ، اکرمه اللّه و استخلفه، و خوله و مکن له فعاش بقدر ومات باجل،فرحمه اللّه !فقد عاش محموداً! ومات برّاً تقیا! والسلام ''

یزید امیر المومنین کی طرف سے ولید بن عتبہ کے نام، امابعد ...حقیقت یہ ہے کہ معاویہ خدا کے بندوں میں سے ایک بندہ تھا جس کو خدا نے مورد احترام و اکرام قرار دیا اور خلافت و اقتدار عطا فرمایا اور بہت سارے امکانات دئیے ۔ان کی زندگی کی جتنی مد ت تھی انھوں نے اچھی زندگی بسر کی اور جب وقت آگیاتو دنیا چھوڑ کر چلے گئے۔ خدا ان کو اپنی رحمت سے قریب کرے ۔انھوں نے بڑی اچھی زندگی بسر کی اورنیکی اور شائستگی کے ساتھ دنیا سے گزر گئے۔ والسلام

پھر ایک دوسر ے کا غذ پر جو چوہے کے کان کی طرح تھا یہ جملے لکھے :

'' اما بعد فخذ حسینا و عبد اللّه بن عمر و عبداللّه بن زبیر با لبیعة اخذا شدیدًالیست فیه رخصة حتی یبا یعوا، والسلام'' ( ١)

اما بعد ، حسین بن علی ، عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر سے سختی کے ساتھ مہلت دیئے بغیر فوراً بیعت حاصل کرو ۔ والسلام

معاویہ کی خبر مرگ پاتے ہی(٢) ولید نے فوراً مروان بن حکم(٣) کو بلوا یا تا کہ اس سلسلے میں اس سے مشورہ کر سکے ۔(٤)

____________________

١۔ طبری، ج٥،ص ٣٣٨ ، اس خبر کو طبری نے ہشام کے حوالے سے اور ہشام نے ابو مخنف کی زبانی نقل کیا ہے۔یہ ان متعدد روایتو ں میں سے پہلی روایت ہے جنہیں طبری نے آپس میں ملادیا ہے اور ہر روایت کے شروع میں ''قال '' کہا ہے۔ یہ تمام روایتی ں ابو مخنف کی طرف مستند ہیں ۔

طبری کی روایت میں ہشام کے حوالے سے ابو مخنف سے یہی جملہ نقل ہوا ہے جس میں فقط شدت اور سختی کا تذکر ہ ہے ، قتل کا ذکر نہیں ہے۔ہشام کے حوالے سے سبط بن جوزی کی روایت میں بھی یہی الفاظ نقل ہوئے ہیں ۔ (ص ٢٣٥) ارشاد کے ص ٢٠٠ پر شیخ مفید نے بھی اسی جملہ کا تذکرہ کیا ہے جس میں ہشام اور مداینی کا حوالہ موجود ہے لیکن یعقوبی نے اپنی تا ریخ میں ج ٢،ص ٢٢٩پر خط کا مضمون اس طرح نقل کیا ہے:

''اذ اتاک کتابی هذا فأ حضر الحسین بن علی ، وعبدالله بن زبیر فخذهما با لبیعة ، فان امتنعا فا ضرب أعنا قهماوابعث الیّ برؤوسهما،وخذ الناس بالبیعة ، فمن امتنع فأ نفذ فیه الحکم، وفی الحسین بن علی و عبدالله بن زبیر، والسلام''

۱۰۳

جیسے ہی تم کو میرا خط ملے ویسے ہی حسین بن علی اور عبداللہ بن زبیر کو حاضر کرو اور ان دونو ں سے بیعت حاصل کر! اگر انکار کری ں تو ان کی گر دن اڑادواور ان کے سر ہمارے پاس بھیج دو! لوگو ں سے بھی بیعت لو اور انکا ر کرنے پر ان کے ساتھ بتائے ہوئے حکم پر عمل کرو! وہی جو حسین بن علی اور عبداللہ بن زبیر کے بارے میں بتایا ہے ۔ والسلام

خوا رزمی نے اپنے مقتل کے ص١٨٠ پر ابن اعثم کے حوالے سے خط کو نقل کیا ہے ۔ یہ خط بعینہ طبری کی ہشام کے حوالے سے منقول روایت کی طرح ہے فقط اس جملہ کا اضافہ کیاہے : ...ومن ابی علیک منہم فاضرب عنقہ و ابعث الیّ براسہ ، ان میں سے جو انکا ر کرے اس کا سر کاٹ کر فوراً میرے پاس روانہ کرو !یزید کا یہ خط ولید کو ٢٦ جب شب جمعہ کو موصول ہوا تھا جیسا کہ امام حسین علیہ السلام کے مدینہ کو الوادع کہنے کی تا ریخ سے یہی اندازہ ہوتا ہے ۔

٢۔ مورخین نے اس بات کی صراحت نہیں فرمائی ہے کہ یزید نے یہ خط کب لکھا اور کب قاصد کو مدینہ کے لئے روانہ کیا تا کہ اس بات کا اندازہ ہو سکے کہ شام سے مدینہ کی مسافت میں کتنا وقت لگا۔ ہا ں طبری نے (ج٥، ص، ٤٨٢)پر ہشا م کے حوالے سے ابو مخنف سے جو روایت نقل کی اس سے ہم کچھ اندازہ لگا سکتے ہیں ، کیو نکہ عبد الملک بن مروان نے یزید کو جو خط لکھا تھا کہ ہم لوگ مدینہ میں محصورہیں لہٰذ ا فوج بھیجو جس کے نتیجے میں واقعہ حرہ سامنے آیا اس میں یہ ملتا ہے کہ قاصد کو آمدورفت میں ٢٤ دن لگے؛ بارہ دن جانے میں اور ١٢ دن واپس لوٹنے میں ۔ اس وقت یہ قاصد کہتا ہے کہ اتنے دنو ں کے بعد میں فلا ں وقت عبد الملک بن مروان کے پاس پہنچا، اس کے علاوہ طبری کے دوسرے بیان سے بھی کچھ اندازہ لگتا ہے کیو نکہ طبری نے ج ٥،ص ٤٩٨ پر واقدی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ یزید ١٤ ربیع الاول ٦٤ ھ کوواصل جہنم ہوا اور مدینہ میں اس کی خبر مرگ ربیع الآ خر کے شروع میں موصول ہوئی۔ اس کا مطلب ہوا کہ یزید کی ہلاکت کی خبر ١٦ دنو ں بعد ملی ۔

٣۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اس کے باپ حکم بن عاص کے ہمراہ مدینہ سے باہر نکال دیاتھا ،کیو نکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مذاق اڑایاکرتا تھا ، لیکن عثمان نے اسے اپنی حکومت میں جگہ دی اور اپنی بیٹی نائلہ کی اس سے شادی کردی اور افریقا سے مصالحت کے بعد جو ایک خطیر رقم آئی تھی جس کا ایک حصہ ٣٠٠ قنطار سو نا تھاوہ اسے دیدیا (طبری، ج٤،ص ٢٥٦) اور اسنے ان اموال کی مددسے نہر مروان کی خریداری کی جو تمام عراق میں پھیلی ہوئی تھی (طبری ،ج٤،ص٢٨٠) اس کے علا وہ مروان کو ١٥ ہزار دینار کی ایک رقم اور دی (طبری، ج٤، ص ٣٤٥) سب سے بری بات جو ہوئی وہ یہ کہ عثمان ، مروان کے ہاتھو ں کی کٹھ پتلی بن گئے۔ وہ جو چاہتا تھا یہ وہی کرتے تھے۔ اسی مسئلہ میں امیر المو منین علی علیہ السلام نے عثمان کوخیر خواہی میں سمجھا یا تھا ۔جب عثمان کا محا صرہ ہوا تو عثمان کی طرف سے اس نے لڑنا شروع کیا جس کے نتیجے میں خود اس پر حملہ ہوا پھر لوگو ں نے اس کے قتل کا ارادہ کیالیکن ایک بوڑھی دایہ جس نے اسے دودھ پلا یا تھا مانع ہو گئی اور بولی : اگر تم اس آدمی کو مارنا چاہتے ہو تو یہ مر چکا ہے اور اگر تم اس کے گوشت سے کھیلنا چاہتے ہو تو بری بات ہے (طبری ،ج٤ ،ص ٣٦٤) وہا ں سے اس کا غلام ابو حفصہ یمانی اسے اٹھا کر اپنے گھر لے گیا۔ (طبری، ج٤،ص ٣٨٠) اسی واقعہ کے بعد مروان کی گردن ٹیڑھی ہو گئی تھی اور آخر وقت تک ایسی ہی رہی۔ (طبری، ج٤،ص٣٩٤)

۱۰۴

یہ شخص جنگ جمل میں شریک تھا اور دونو ں نمازو ں کے وقت اذان دیا کر تاتھا۔ اسی نے طلحہ پر ایسا تیر چلا یا کہ وہ وہیں ڈھیر ہو گئے ۔خود بھی یہ جنگ میں زخمی ہوگیا تھا لہٰذا وہا ں سے بھاگ کر مالک بن مسمع غزاری کے یہا ں پہنچااور اس سے پناہ کی درخواست کی اور اس نے درخواست کوقبول کر لیا ۔(طبری ،ج ٤، ص ٥٣٦) جب وہا ں سے پلٹا تو معاویہ سے جاملا۔ (طبری ،ج ٤، ص ٥٤١) معاویہ نے بھی عام الجماعةکے بعد اسے مدینہ کا گورنر بنادیا ۔ ٤٤ھ میں اس نے مسجد میں پیش نماز کی خاص جگہ بنانے کی بدعت رائج کی۔ (طبری ،ج٥،ص٢١٥) اس کے بعد معاویہ نے فدک اس کے سپرد کر دیالیکن پھر واپس لے لیا (ج ٥،ص ٥٣١) ٤٩ھمیں معاویہ نے اسے معزول کر دیا ۔(طبری ،ج٥،ص ٢٣٢) ٥٤ھ میں ایک بار پھر مدینہ کی گو رنری اس کے سپرد کردی۔ ٥٦ھ میں معاویہ نے حج انجام دیا تو وہا ں اس نے چاہا کہ مروان یزید کی بیعت کی تو ثیق کردے (طبری، ج٥،ص٣٠٤) لیکن پھر معاویہ ٥٨ ھ تک اپنے اس ارادے سے منصرف ہو گیا ۔ ٥٦ھ میں ولید بن عتبہ بن ابو سفیان کو مدینہ کا گو رنر بنادیا۔یہی وجہ ہے کہ مروان اس سے ہمیشہ منہ پھلا ئے رکھتا تھا۔(طبری، ج ٥، ص ٣٠٩) جب اہل حرم شام وارد ہو رہے تھے تو یہ ملعون دمشق میں موجود تھا ۔(طبری، ج٥ ،ص ٤٦٥) ٦٢ھ میں واقعہ حرہ کے موقع پر یہ مدینہ ہی میں تھا۔ یہی وہ ملعون ہے جس نے حکو مت سے مدد مانگی تھی تو مدد کے طور پر یزید نے مسلم بن عقبہ المری کو روانہ کیا۔ (طبری، ج٥،ص ٤٨٢) جب اہل مدینہ مسلم بن عقبہ کے سامنے پہنچے تو بنی امیہ نے انہیں مروان کے گھر میں قید کر دیا جبکہ وہ ہزار آدمی تھے پھر ان کو مدینہ سے باہرنکال دیا اور اس نے اپنے اہل وعیال کو چو تھے امام حضرت زین العابدین علیہ السلام کے پاس مقام ینبع میں چھوڑ دیا امام علیہ السلام نے ان کی پر ورش و حمایت کی ذمہ داری لے لی ۔ امام علیہ السلام نے اس زمانے میں مدینہ کو چھو ڑدیا تھا تا کہ ان کے کسی جرم کے گواہ نہ بن سکی ں (طبری ،ج٥،ص ٤٨٥) پھر جب ٦٤ھمیں عبید اللہ بن زبیر اپنے بھائی عبداللہ بن زبیر کی حکو مت میں مدینہ کا گورنر بن گیا تو بنی امیہ مدینہ سے نکل بھاگے اور شام پہنچ کر مروان کے ہاتھو ں پر بیعت کرلی۔ (طبری ،ج٥، ص ٥٣٠) ٦٥ھ میں اس کو موت آگئی۔

٤۔ جب ولید گورنر کے عہدہ پر فائز ہونے کے بعد مدینہ پہنچا تو مروان ناراضگی کے اظہار کے ساتھ اس سے ملنے آیا۔جب ولید نے اسے اس حالت میں دیکھا تو اس نے اپنے افراد کے درمیان مروان کی بڑی ملامت کی؛ جب یہ خبر مروان تک پہنچی تو ان دونو ں کے آپسی رشتے اور رابطے تیرو تار ہو گئے۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا یہا ں تک کہ معاویہ کی موت کی خبر لے کر نامہ بر آیا۔ چونکہ یہ موت ولید کے لئے بڑی صبرآزماتھی اور دوسری اہم مشکل جو اس کے سر پر تھی وہ یہ کہ اس خط میں حکم دیا گیا تھا کہ امام حسین علیہ السلام اور دیگر لوگو ں سے بیعت لی جائے لہذاایسی صورت میں اس نے مروان جیسے گھا گ آدمی کا سہارا لیا اور اسے بلوا بھیجا ۔(. طبری، ج٥،ص ٣٢٥)

۱۰۵

مروان سے مشورہ

مروان نے جب یزید کا خط پڑھا تو''انّا للّه وانّا الیه راجعون ''کہا اور اس کے لئے دعا ئے رحمت کی۔ ولید نے اس سے اس سلسلے میں مشورہ لیتے ہو ئے پو چھا : ''کیف تری ان نصنع'' تم کیا کہتے ہو ہمیں کیا کر نا چاہیے؟ اس پر مروان نے کہا : میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اسی وقت تم ایک آدمی کو ان لوگوں کے پاس بھیجو اور ان لوگوں سے بیعت طلب کرو اور کہو کہ فوراً مطیع ہو جائیں ؛ اگر وہ اس پر راضی ہو جائیں تو ان سے اسے قبول کرلو اور ان سے دست بر دارہو جاؤ لیکن اگر وہ انکار کریں تو قبل اس کے کہ انہیں معاویہ کی موت کی خبر ملے ان کے سرقلم کردو؛کیو نکہ اگر ان لوگوں کو معاویہ کی موت کی خبر ہو گئی تو ان میں سے ہر ایک ملک کے گو شہ و کنار میں شورش بر پا کر کے قیام کردے گا اور مخالفت کا بازار گرم ہو جا ے گا اور یہ لوگ عوام کو اپنی طرف بلا نے لگیں گے ۔(١)

قاصد بیعت

یہ سنتے ہی ولید نے عبداللہ بن عمرو بن عثمان کو جو ایک نو جوان تھا(٢) امام حسین علیہ السلام اور عبداللہ بن زبیر کی طرف روانہ کیا ۔ اس نے تلاش کرنے کے بعد دونوں لوگوں کو مسجد میں بیٹھا ہواپایا۔ وہ ان دونوں کے پاس گیا اور ان کو ایسے وقت میں ولید کے دربار میں بلایا کہ نہ تو وہ و قت ولید کے عام جلسے کا تھا اورنہ ہی ولید کے پاس اس وقت جایاجاتاتھا۔(٣)

____________________

١۔طبری، ج ٥،ص ٣٩٩ ، اسی روایت کو ہشام نے ابو مخنف سے نقل کیا ہے۔ خوارزمی نے بھی ص١٨١ پر اس کی روایت کی ہے۔

٢۔ یہ شخص٩١ھ تک زندہ رہا ، کیونکہ ولید بن عبد الملک نے جب مدینہ میں بعض قریشیو ں کا استقبال کیا تو یہ موجود تھا (طبری ،ج٦ ، ص٥٦٥) ''القمقام ''کے بیان کے مطابق اس کی وفات ٩٦ھ میں ہوئی اور اس کالقب مطرف تھا ۔(القمقام، ص ٢٧٠)عبدا للہ کا باپ عمرو جوخلیفہ سوم عثمان کا بیٹا ہے یعنی یہ قاصد عثمان کا پوتا تھا ۔اس کی ما ں کا نام ام عمرو بنت جندب ازدی تھا۔ (طبری ،ج٤،ص٤٢٠) طبری نے جلد ٥، ص ٤٩٤ پر لکھا ہے کہ اس کی ما ں قبیلۂ''دو س'' سے تھی ۔مسلم بن عقبہ نے واقعہ حرہ میں اسے بنی امیہ سے بے وفائی میں متہم کیا۔ جب اسے مسلم بن عقبہ کے پاس لایاگیاتو اس نے عبداللہ بن عمرو کی بڑی مذمت کی اور حکم دیا کہ اس کی داڑھی کو نوچ ڈالا جائے ۔

٣۔وقت کے سلسلے میں ابو مخنف کی خبر اس حد تک ہے کہ ''لم یکن الولید یجلس فیھا للناس'' ایسے وقت میں

۱۰۶

بلایا کہ جب کوئی عمومی جلسے کا وقت نہ تھا ، لیکن یہ رات کا وقت تھا یا دن کا اس کی کوئی تصریح نہیں ہے؛ لیکن اس روایت میں کچھ ایسے قرائن موجود ہیں جس سے وقت کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ ٢٦ رجب جمعہ کے دن صبح کا واقعہ ہے۔

(الف)۔ روایت کا جملہ یہ ہے''فارسل ..الیهما یدعو هما فآتاهما فوجد هما فی المسجد فقال : اجیبا ا لأ میر یدعوکما فقالا له : انصرف ، الأن ناتیه'' ۔ ولید نے اسے ان دونو ں کی طرف بلانے کے لئے بھیجا۔ قاصد نے تلاش کرتے ہوئے ان دونو ں کو مسجدمیں پایا تو کہنے لگا:امیر نے تم دونو ں کو بلا یا ہے۔ اس پر ان دونو ں نے کہاکہ تم چلوہم ابھی آتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دونو ں کو ایک ہی وقت میں بلایا گیا تھا ۔ ابن زبیر سے ایک دوسری خبر میں یہ ہے کہ اس نے کہا : ہم ابھی آتے ہیں لیکن وہ وہا ں سے اٹھ کر اپنے گھر آیا اور چھپ گیا۔ ولید نے پھر دوبارہ قاصد کو بھیجا تو اسے اپنے ساتھیو ں کے درمیان پایا۔ اس نے مسلسل تین یا چار با قاصدو ں کو بھیج کر بے حد اصرار کیا تو اس پر ابن زبیر نے کہا : ''لاتعجلونی ، امھلونی فانی آتیکم'' ا تنی جلدی نہ کرو تھوڑی سی مہلت دو ،میں بس آہی رہا ہو ں ۔ اس پر ولید نے پانچوی ں مرتبہ اپنے گرگو ں کو بھیج کر اسے بلوایا ۔وہ سب آکر ابن زبیر کو برا بھلا کہنے لگے اور چیخ کر بولے :''یا بن الکاهلیه! واللّه لتاتینّ الامیر او لیقتلنّک' 'اے کاہلہ کے بیٹے تو فورا امیر کے پاس آجا ورنہ وہ تیرا سر کاٹ دے گا۔ اس کے بعد ابن زبیر نے وہ پورا دن اور رات کے پہلے حصے تک وہا ں جانے سے گریز کیا اور وہ ہر وقت یہی کہے جاتا تھا کہ ابھی آتا ہو ں ؛ لیکن جب لوگو ں نے اسے برانگیختہ کیا تو وہ بولا : خدا کی قسم میں اتنے قاصدو ں کی آمد سے پریشان ہوگیا ہو ں اور اس طرح پے در پے لوگو ں نے میرا جینا حرام کردیا ہے لہٰذاتم لوگ اتنی جلدی نہ کرو تاکہ میں امیر کے پاس ایک ایسے شخص کوبھیجو ں جو ان کا منشاء اور حکم معلوم کر آئے۔ اس کا م کے لئے اس نے اپنے بھائی جعفر بن زبیر کو روانہ کیا۔ جعفر بن زبیر نے وہا ں جا کر کہا : رحمک اللہ : اللہ آپ پر رحم کرے آپ عبداللہ سے دست بردار ہوجائیے ۔ آپ نے قاصدو ں کو بھیج بھیج کر ان کا کھانا پانی حرام کر دیا ہے،ان کا کلیجہ منہ کو آرہاہے، انشاء اللہ وہ کل خود آجائی ں گے۔ آپ اپنے قاصد کو لوٹالیجئے اور اس سے کہیے کہ ہم سے منصرف ہوجائے۔ اس پر حاکم نے شام کے وقت وہا ں سے لوگو ں کو ہٹالیا اور ابن زبیر راتو ں رات مدینے سے نکل گیا۔ گذشتہ سطرو ں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ولید کا قاصد صبح میں آیا تھا ، بلکہ واضح طور پر ذکر ہے کہ یہ سارے امور صبح میں انجام پائے کیونکہ عبارت کا جملہ یہ ہے : ''فلبث بذالک نھارہ و اول لیلہ '' اس کے بعد ابن زبیر دن بھر اور رات کے پہلے حصے تک تھما رہا چونکہ امام علیہ السلام اور ابن زبیر کو ایک ہی ساتھ بلایا گیا تھا لہٰذا امام علیہ السلام کو بلائے جانے کا وقت بھی وقت صبح ہی ہوگا ۔

(ب)روایت میں یہ جملہ موجود ہے ''فالحوا علیھما عشیتھما تلک و اول لیلھما '' ان لوگو ں کو شام کے وقت اور شب کے پہلے حصے میں پھر بلوایا گیا۔اس جملہ سے بعض لوگو ں نے یہ سمجھا کہ امام علیہ السلام کو عصر کے وقت بلایا گیا تھا؛ لیکن یہ ایک وہم ہے حقیقت تو یہ ہے کہ اس جملہ میں جو ایک کلمہ موجود ہے وہ اس کی نفی کرتا ہے کیونکہ ، فألحواعلیھما''میں الحاح اصرار کے معنی میں استعمال ہواہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پہلے صبح کے وقت بلا یا گیا پھر اصرار اور تکرار دعوت میں شام سے رات

۱۰۷

ہوگئی۔ خود یہ عبارت اس بات کوبیا ن کرتی ہے کہ یہ دعوت دن میں تھی، رات میں نہیں ۔

(ج) ابومخنف نے عبدالملک بن نوفل بن مساحق بن مخرمہ سے اور انھو ں نے ابو سعید مقبری سے نقل کیا ہے کہ ہم نے امام حسین علیہ السلام کو مسجد النبی میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا۔ ابھی دو دن بھی نہ گذرے تھے کہ معلوم ہوا کہ آپ مکہ روانہ ہوگئے(طبری ،ج٥،ص ٣٤٢) اس مطلب کی تائید ایک دوسری روایت بھی کرتی ہے کیونکہ اس روایت سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ ابن زبیر اپنے گھر میں چھپ کر اپنے چاہنے والو ں کے درمیان پناہ گزی ں ہوگیا تھا۔اس کے بعد پورے دن اور رات کے پہلے حصہ تک ٹھہرا رہا لیکن پچھلے پہر وہ مدینہ سے باہرنکل گیا ۔جب صبح ہوئی اور ولید نے پھر آدمی کو بھیجا تو معلوم ہوا کہ وہ نکل چکا ہے۔اس پر ولید نے ٨٠گھوڑ سوارو ں کو ابن زبیر کے پیچھے دوڑایا لیکن کوئی بھی اس کی گرد پا نہ پا سکا۔ سب کے سب لوٹ آئے اور ایک دوسرے کو سست کہنے لگے یہا ں تک کہ شام ہو گئی (یہ دوسرا دن تھا) پھر ان لوگو ں نے شام کے وقت قاصد کو امام حسین علیہ السلام کے پاس بھیجا توامام علیہ ا لسلام نے فرمایا :''اصبحواثم ترو ن و نری'' ذرا صبح تو ہولینے دو پھر تم بھی دیکھ لینا ہم بھی دیکھ لی ں گے۔ اس پر ان لوگو ں نے اس شب امام علیہ السلام سے کچھ نہ کہا اور اپنی بات پر اصرار نہ کیا پھر امام علیہ السلام اسی شب تڑکے نکل گئے ۔یہ یکشنبہ کی شب تھی اور رجب کے دو دن باقی تھے۔ (طبری، ج٥،ص ٣٤١)

نتیجہ ۔ان تمام باتو ں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ابن زبیر حاکم وقت کی طرف سے بلائے جانے کے بعددن بھر ہی مدینہ میں رہے اور راتو ں رات نکل بھاگے اور امام علیہ السلام دو دن رہے اور تیسرے دن تڑکے نکل گئے ۔ چونکہ امام علیہ السلام نے شب یکشنبہ مدینہ سے کوچ کیا،اس کا مطلب یہ ہو ا کہ روز جمعہ اور شب شنبہ اور روز شنبہ آپ مدینہ میں رہے اور یہ بلاوا جمعہ کے دن بالکل سویرے سویرے تھا۔ اس بنیاد پر روایت یہ کا جملہ کہ'' ساعة لم یکن الولید یجلس فیھا للناس'' (ایسے وقت میں بلا یا تھا جس وقت وہ عوام سے نہیں ملاکرتا تھا) قابل تفہیم ہوگا۔ ابن زبیر اور امام علیہ السلام جمعہ کے دن صبح صبح مسجد میں موجود تھے؛ شاید یہ نماز صبح کے بعد کاوقت تھا ۔مقبری کے حوالے سے ابو مخنف کی روایت کے مطابق امام حسین علیہ السلام ولید کے دربار سے لوٹنے کے بعد اپنے ان دو بھروسہ مند ساتھیو ں کے ساتھ مسجد میں داخل ہوئے جن کے ہمراہ آپ ولید کے دربار میں گئے تھے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جمعہ کے دن صبح ہی میں ولید کا قاصد آیا تھا اور وہ رجب کی ٢٦وی ں تاریخ تھی، اسی لئے ولید اس دن عوام کے لئے نہیں بیٹھتاتھا کیونکہ وہ جمعہ کا دن تھا اور جمعہ کے دن دربار نہیں لگتا تھا ۔

۱۰۸

پس قاصد نے کہا : '' آپ دونوں کو امیر نے بلا یا ہے '' اس پر ان دونوں نے جواب دیا تم جاؤ ہم ابھی آتے ہیں ۔(١) ولید کے قاصد کے جانے کے بعد دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھااور ابن زبیر نے امام حسین علیہ السلام سے کہا : اس بے وقت بلائے جانے کے سلسلے میں آپ کیا گمان کرتے ہیں ؟ امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا :'' قد ظننت ان طاغیتهم قد هلک فبعث الینا لیا خذنا با لبیعة قبل ان یفشوا فی الناس الخبر '' میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ ان کا سرکش حاکم ہلاک ہوچکا ہے لہٰذا ولید نے قاصد کو بھیجاتاکہ لوگوں کے درمیان خبر پھیلنے سے پہلے ہی ہم سے بیعت لے لی جا ئے ۔

____________________

١۔طبری ج ، ٤ص ٣٣٩ ہشام بن محمد نے ابو مخنف سے نقل کیا ہے۔ سبط ابن جوزی نے بھی ص ٢٠٣ پر اور خوارزمی نے ص ١٨١ پراس مطلب کو ذکر کیا ہے لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہا ں دو ہی افراد کا ذکر ہے جب کہ خط میں تین لوگو ں کا تذکرہ تھا۔

روایت کے آخری ٹکڑے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فقط امام علیہ السلام اور عبداللہ بن زبیر کا ذکرکرنا اور عبد الر حمن بن ابو بکراور عبداللہ بن عمر کا ذکر نہ آنا شاید اس لئے ہے کہ پہلا یعنی پسر ابو بکر تو واقعہ سے پہلے ہی مر چکا تھااور دوسرا یعنی عبداللہ بن عمر مدینہ ہی میں نہیں تھا، جیسا کہ طبری نے واقدی سے روایت کی ہے۔(طبری ،ج٥، ص٣٤٣)

۱۰۹

مقتل خوارزمی میں اعثم کوفی کے حوالے سے ص ١٨١ پراوراسی طرح سبط بن جوزی نے ص ٢٣٥ پر اس قاصد کا نام جو اُن دونوں کے پاس آیا تھا عمرو بن عثمان ذکر کیا ہے اور تاریخ ا بن عساکر،ج٤، ص٣٢پر اس کا نام عبدالرحمن بن عمروبن عثمان بن عفان ہے۔

اس پر ابن زبیر نے کہا:وما اظن غیرہ فما ترید ان تصنع ؟ میرا گمان بھی یہی ہے تو آپ اب کیا کرنا چاہتے ہیں ؟ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :'' اجمع فتیا نی الساعة ثم امشی الیہ فاذا ابلغت الباب احتبستھم علیہ ثم دخلت علیہ '' ، میں ابھی ابھی اپنے جوانوں کو جمع کرکے ان کے ہمراہ دربار کی طرف روانہ ہوجاؤں گا اور وہاں پہنچ کر ان کو دروازہ پر روک دوں گا اور تنہا دربار میں چلاجاؤں گا۔ابن زبیر : ''انی اخافہ علیک اذا دخلت'' جب آپ تنہا دربار میں جائیں گے تو مجھے ڈر ہے کہ آپ کے ساتھ کوئی برا سلوک نہ کیا جائے ۔

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :'' لاآتیہ الا وانا علی الا متناع قادر'' تم فکر مت کرو میں ان کے ہر حربہ سے بے خوف ہوکر ان سے مقاومت کی قدرت رکھتا ہوں ۔ اس گفتگو کے بعد امام علیہ السلام اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے چاہنے والوں اور گھر والوں کو اکھٹا کر کے روانہ ہوگئے۔ دربار ولید کے دروازہ تک پہنچ کر اپنے اصحاب سے اس طرح گویا ہوئے :'' انی داخل ، فان دعوتکم او سمعتم صوته قد علا فاقتحموا علیّ باجمعکم والا فلاتبرحوا حتی أخرج الیکم ''میں اندر جا رہا ہوں اگرمیں بلاؤں یا اس کی آواز بلند ہو تو تم سب کے سب ٹوٹ پڑنا ور نہ یہیں پر ٹھہرے رہنا یہاں تک کہ میں خود آجاؤں ۔(١)

____________________

١۔شیخ مفید نے اس واقعہ کو اختصار کے ساتھ ذکر کیا ہے، ص ٢٠٠؛سبط بن جوزی ،ص ٢٣٦، خوارزمی ، ص ١٨٣۔

۱۱۰

امام حسین علیہ السلام ولید کے پاس

اس کے بعد امام علیہ السلام دربار میں داخل ہوئے ۔اس کو سلام کیا اور وہاں پر مروان کو بیٹھاہوا پایا جبکہ اس سے پہلے دونوں کے رابطہ میں دراڑپڑ گئی تھی ۔ امام حسین علیہ السلام نے معاویہ کی موت سے انجان بنتے ہوئے فرمایا :''الصلة خیر من القطیعه'' رابطہ برقرار رکھنا توڑنے سے بہتر ہے۔

خدا تم دونوں کے درمیان صلح و آشتی برقرار فرمائے۔ ان دونوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ۔ امام علیہ السلام آکر اپنی جگہ پربیٹھ گئے۔ ولید نے معاویہ کی خبر مرگ دیتے ہی فوراًاس خط کو پڑھ دیا اور آپ سے بیعت طلب کرنے لگا تو آپ نے فرمایا :''انا للّه وانّا الیه راجعون أمّا ما سأ لتنی من البیعة فان مثلی لا یعطی بیعته سرا'' تم نے جو بیعت کے سلسلے میں سوال کیا ہے تو میرے جیسا آدمی تو خاموشی سے بیعت نہیں کرسکتا'' ولا أراک تجتزی بها منی سرّاً دون ان تظهرها علی رؤوس الناس علانية'' ؟ میں نہیں سمجھتا کہ تم لوگوں میں اعلان عام کئے بغیر مجھ سے خاموشی سے بیعت لینا چاہوگے۔ولید نے کہا : ہاں یہ صحیح ہے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا :'' فاذاخرجت الی الناس فدعوتهم الی البیعةدعوتنا مع الناس فکان امراً واحداً'' (١) توٹھیک ہے جب باہر نکل کر لوگوں کو بیعت کے لئے بلاؤگے تو ہمیں بھی دعوت دینا تاکہ کام ایک بار ہوجائے۔امام علیہ السلام کے سلسلے میں ولید عافیت کو پسند کررہاتھا لہٰذا کہنے لگا : ٹھیک ہے اللہ کا نام لے کر آپ چلے جائیے جب ہم لوگوں کو بلائیں گے تو آپ کو بھی دعوت دیں گے ، لیکن مروان ولید سے فوراً بول پڑا :ّواللّه لئن فارقک الساعة ولم یبایع ؛لاقدرت منه علی مثلها أبداً ، حتی تکثر القتلی بینکم وبینه ! احبس الرجل ولا یخرج من عندک حتی یبایع أو تضرب عنقه! ''(٢)

____________________

١۔خوارزمی نے اس مطلب کو دوسرے لفظو ں میں ذکر کیا ہے ،ص١٨٣۔

٢۔خوارزمی نے اس مطلب کو ص١٨٤پر ذکر کیا ہے۔

۱۱۱

خدا کی قسم اگر یہ ابھی چلے گئے اور بیعت نہ کی تو پھر ایسا موقع کبھی بھی نہیں ملے گا یہاں تک کہ دونوں گروہ کے درمیان زبر دست جنگ ہو تم اسی وقت اس مرد کو قید کرلو اور بیعت کئے بغیر جا نے نہ دو یا گردن اڑادو ،یہ سنتے ہی امام حسین علیہ السلام غضبناک ہو کراٹھے اور فرمایا :''یابن الزرقاء (١) انت تقتلنی ام هو؟ کذبت والله واثمت'' (٢) اے زن نیلگوں چشم کے بیٹے تو مجھے قتل کرے گا یا وہ ؟ خدا کی قسم تو جھوٹا ہے اور بڑے دھوکے میں ہے۔ اس کے بعد امام علیہ السلام باہر نکل کر اپنے اصحاب کے پاس آئے اور ان کو لیکر گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔(٣)

____________________

١۔یہ زرقاء بنت موہب ہے۔ تاریخ کامل ،ج٤،ص ٧٥ کے مطابق یہ عورت برے کامو ں کی پرچمدار تھی ۔یہ امام علیہ السلام کی طرف سے قذف اور تہمت نہیں ہے کہ اسے برے لقب سے یاد کرنا کہاجائے بلکہ قرآن مجید کی تاسی ہے قرآن ولید بن مغیرہ مخزومی کی شان میں کہتا ہے:''عتل بعد ذالک زنیم'' زنیم کے معنی لغت میں غیر مشروع اولاد کے ہیں جس کو کوئی اپنے نسب میں شامل کرلے۔

٢۔مقتل خوارزمی، ص١٨٤ میں ان جملوں کا اضافہ ہے :''انا اهل بیت النبوه ومعدن الرسالة و مختلف الملائکةومهبط الرحمة، بنا فتح اللّه وبنا یختم، ویزید رجل فاسق ، شارب الخمر ، قاتل النفس، معلن بالفسق، فمثلی لا یبایع مثله ،ولکن نصبح و تصبحون وننظر و تنظرون أیناأحق بالخلافةو البیعة'' ہاں اے ولید !تو خوب جانتا ہے کہ ہم اہل بیت نبوت ، معدن رسالت ، ملائکہ کی آمد ورفت کی جگہ اور رحمت خدائی کے نزول و ھبوط کا مرکز ہیں ، اللہ نے ہمارے ہی وسیلہ سے تمام چیزوں کا آغاز کیااور ہمارے ہی ذریعہ انجام ہوگا ، جبکہ یزیدایک فاسق ، شراب خوار ، لوگوں کا قاتل اور کھلم کھلا فسق انجام دینے والا ہے،پس میرے جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا ؛لیکن صبح ہونے دو پھر تم بھی دیکھنا اور ہم بھی دیکھیں گے کہ ہم میں سے کون خلافت و بیعت کا زیادہ حقدار ہے۔ جیسے ہی امام علیہ السلام کی آواز بلند ہوئی تو جوانان بنی ہاشم برہنہ تلواروں کے ساتھ ٹوٹ پڑے؛ لیکن امام علیہ السلام نے ان لوگو ں کو روکا اور گھر کی طرف لے کر روانہ ہوگئے۔ مثیرالاحزان میں ابن نما(متوفیٰ٦٤٥ھ) نے اور لہوف میں سید ابن طائووس (متوفیٰ ٦١٣ھ) نے روایت کا تذکرہ کیاہے ۔

٣۔طبری نے اس روایت کو ہشام بن محمد کے حوالے سے ابی مخنف سے نقل کیا ہے۔ خوارزمی نے ص١٨٤پر خبر کا تتمہ بھی لکھا ہے کہ ولید سے مروان بولا :''عصیتنی لاوالله لا یمکنک من مثلها من نفسه ابداً'' تم نے میری مخالفت کی ہے تو خدا کی قسم تم اب کبھی بھی ان پر اس طرح قدرت نہیں پاؤگے ۔ولیدنے کہا:'' ویح غیرک یا مروان ..''اے مروان! یہ سرزنش کسی اور کو کر تو نے تو میرے لئے ایسا راستہ چنا ہے کہ جس سے میرا دین برباد ہوجائے گا ، خدا کی قسم اگر میرے پاس مال دنیا میں سے ہرو ہ چیز ہو جس پر خورشید کی روشنی پڑتی ہے اور دوسری طرف حسین کا قتل ہوتوحسین کا قتل مجھے محبوب نہیں ہے۔(سبط بن جوزی، ص٢٢٦)

سبحان اللہ ! کیا میں حسین کو فقط اس بات پر قتل کردوں کہ انھوں نے یہ کہا ہے کہ میں بیعت نہیں کروں گا ؟ خدا کی قسم میں گمان کرتا ہوں کہ جو قتل حسین کا مرتکب ہو گا وہ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک خفیف المیزان ہوگا۔ (ارشاد ،ص ٢٠١)

مروان نے اس سے کہا : اگر تمہاری رائے یہی ہے تو پھر تم نے جو کیا وہ پالیا۔

۱۱۲

ابن زبیر کا موقف

ابن زبیر نے یہ کہا: میں ابھی آتا ہوں لیکن اپنے گھر آکر چھپ گئے ۔ ولید نے قاصد کودوبارہ اس کی طرف روانہ کیا ۔ اس نے ابن زبیر کو اپنے چاہنے والوں کی جھر مٹ میں پا یا جہاں وہ پناہ گزیں تھا۔ اس پر ولید نے مسلسل بلا نے والوں کے ذریعہ آنے پرتاکید کی ...آخر کا ر ابن زبیر نے کہا :''لا تعجلو نی فانی آتیکم امهلونی'' جلد ی نہ کرو میں ابھی آرہا ہوں ؛ مجھ کو تھوڑی سی مہلت دو ۔ اسکے بعد وہ دن اور رات کے پہلے پہر تک مدینہ میں رہا اور یہی کہتا رہا کہ میں ابھی آرہا ہوں ؛یہا ں تک کہ ولیدنے پھر اپنے گر گوں کو ابن زبیر کے پاس روانہ کیا ۔ وہ سب وہاں پہنچ کر اسے برا بھلا کہنے لگے اور چیخ کر بولے : ائے کا ہلہ کے بیٹے ! خدا کی قسم تو فوراً آجا ورنہ امیر تجھ کو قتل کر دے گا۔ لوگوں نے زبر دستی کی تو ابن زبیر نے کہا :خدا کی قسم ان مسلسل پیغام لانے والوں کی وجہ سے میں بے چین ہوں ؛ پس تم لوگ جلدی نہ کرومیں ابھی امیر کے پاس کسی ایسے شخص کو بھیجتا ہوں جو ان کی رائے معلوم کر کے آئے ، اس کے بعد فوراًاس نے اپنے بھائی جعفر بن زبیر کو روانہ کیا ۔ اس نے جا کر کہا : اللہ آپ کو سلامت رکھے ، عبداللہ سے دست بردار ہوجایئے، لوگوں کو بھیج بھیج کر آپ نے ان کو خوف زدہ کر رکھا ہے، وہ انشا ء اللہ کل آپ کی خدمت میں حاضر ہو جائیں گے۔ اب آپ اپنے پیغام رساں سے کہئے کہ وہ ہمارا پیچھا چھوڑ دے، اس پر ولید نے آدمی بھیج کر قاصد کو جانے سے روک دیا ۔

ادھر ابن زبیر ٢٧ رجب کو شب شنبہ امام حسین علیہ السلام کے نکلنے سے پہلے ہی راتوں رات مدینے سے نکل گئے اور سفر کے لئے نا معلوم راستہ اختیار کیا۔سفر کا ساتھی فقط انکا بھائی جعفر تھا اور کوئی تیسرا نہیں تھا ۔ ان دونوں بھائیوں نے پکڑے جانے کے خوف سے عام راستے پر چلنے سے گریز کیا اور ناہموار راستے سے ہو تے ہوئے مکہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ (تذکرةالخواص ، ابن جوزی ،ص ٢٣٦)

جب صبح ہوئی تو ولید نے اپنے آدمیوں کو پھر بھیجا لیکن ابن زبیر نکل چکے تھے۔ اس پر مروان نے کہا : خدا کی قسم وہ مکہ روانہ ہواہے اس پر ولید نے فوراً لوگوں کو اس کے پیچھے دوڑایا؛ اس کے بعد بنی ا میہ کے ٨٠ گھوڑ سواروں کو ابن زبیرکی تلاش کے لئے بھیجا لیکن وہ سب کے سب خالی ہاتھ لو ٹے ۔

ادھر عبداللہ بن زبیر اپنے بھائی کے ہمراہ مشغول سفر ہیں ۔ چلتے چلتے جعفر بن زبیر نے'' صبرةالحنظلی'' کے شعر سے تمثیل کی:

وکل بنی أم سیمسون لیلة

ولم یبق من أعقابهم غیر واحد

اس پر عبداللہ نے کہا :سبحان اللہ !بھائی اس شعر سے کیا کہنا چاہتے ہو ؟جعفر نے جواب دیا : بھائی ! میں نے کوئی ایسا

۱۱۳

ارادہ نہیں کیا ہے جو آپ کے لئے رنجش خاطرکاباعث ہو ۔ اس پر عبداللہ نے کہا : خدا کی قسم مجھے یہ نا پسند ہے کہ تمہاری زبان سے کوئی ایسی بات نکلے جس کا تم نے ارادہ نہ کیا ہو۔ اس طرح ابن زبیر سفر کرتے رہے یہاں تک کہ مکہ پہنچ گئے۔ اس وقت مکہ کا حاکم عمرو بن سعید تھا۔ جب ابن زبیر وارد مکہ ہوئے تو عمرو بن سعیدسے کہا : میں نے آپ کے پا س پناہ لی ہے لیکن ابن زبیر نے کبھی ان لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی اور نہ ہی کوئی افاضہ کیا بلکہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک کنارے رہنے لگے اور نماز بھی تنہا پڑھنے لگے اور افاضہ بھی تنہا ہی رہا ۔(طبری ، ج٥،ص٣٤٣) اس واقعہ کو ہشام بن محمد نے ابی مخنف سے نقل کیا ہے۔ شیخ مفید نے ارشاد ،ص٢٠١، اور سبط ابن جوزی نے تذکرة الخواص ،ص٢٣٦پر بھی اس واقعہ کا تذکرہ کیا ہے۔ وہاں یہ ملتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام آئندہ شب میں اپنے بچوں ، جوانوں اور گھر االوں کے ہمراہ مدینہ سے باہرنکل گئے اور ابن زبیر سے دور ہی رہے اور سبط ابن جوزی ص ٢٤٥ پر ہشام اور محمد بن اسحاق سے رویت نقل کرتے ہیں کہ دو شنبہ کے دن ٢٨ رجب کو امام علیہ السلام نکلے اورخوارزمی نے ص١٨٦پر لکھا ہے کہ آپ ٣ شعبان کومکہ پہنچے ۔

امام حسین علیہ السلام مسجد مدینہ میں

دوسرے دن سب کے سب عبداللہ بن زبیر کی تلاش میں لگ گئے اور امام حسین علیہ السلام کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں گیا یہا ں تک کہ شام ہو گئی۔ شام کے وقت ولید نے کچھ لوگوں کو امام حسین کے پاس بھیجا ۔یہ٢٨ رجب سنییجر کا دن تھا۔ امام حسین نے ان سے فرما یا : صبح ہونے دو تم لوگ بھی کچھ سوچ لواور میں بھی سوچتا ہوں ۔ یہ سن کر وہ لوگ اس شب یعنی شب ٢٩ رجب امام حسین علیہ السلام سے دست بردار ہوگئے اور اصرار نہیں کیا ۔(١) ابو سعید مقبری کا بیا ن ہے کہ میں نے امام حسین علیہ السلام کو مسجد میں وارد ہوتے ہوئے دیکھا۔ آپ دولوگوں پر تکیہ کئے ہوئے چل رہے تھے، کبھی ایک شخص پر تکیہ کرتے تھے اور کبھی دوسرے پر؛اسی حال میں یزید بن مفرغ حمیری کے شعر کو پڑھ رہے تھے :

لاذعرت السوام فی فلق الصبح

مغیراً،و لا د عیت یزیداً

یوم اْعطی من المهابه ضیماً

والمنایا یرصدننی أن أحیدا(٢)

____________________

١۔طبری، ج٥ ، ص٣٣٨، ٣٤١، ہشام بن محمد نے ابو مخنف سے روایت نقل کی ہے اور شیخ مفید نے بھی اس کو ذکر کیا ہے۔(ارشاد، ص ٢٠١)

٢۔خوارزمی ،ص١٨٦

۱۱۴

میں سپیدہ سحری میں حشرات الارض سے نہیں ڈرتا نہ ہی متغیر ہوتاہوں اور نہ ہی اپنی مدد کے لئے یزید کو پکاروں گا ۔سختیوں کے دنوں میں خوف نہیں کھاتا جبکہ موت میری کمین میں ہے کہ مجھے شکارکرے ۔

راوی کہتا ہے کہ میں نے جب یہ اشعار سنے تواپنے دل میں کہا : خدا کی قسم ان اشعار کے پیچھے کوئی ارادہ چھپاہواہے۔ابھی دو دن نہ گذرے تھے کہ خبر ملی کہ امام حسین علیہ السلام نے مکہ کا سفر اختیار کرکیا ہے۔(١)

محمدبن حنفیہ کا موقف(٢)

محمد حنفیہ کو جب اس سفر کی اطلاع ملی تو اپنے بھا ئی حسین علیہ السلام کے پاس آئے اور فر مایا بھائی جان ! آپ میرے لئے دنیا میں سب سے زیاد ہ محبوب اور سب سے زیادہ عزیز ہیں میں اپنی نصیحت اور خیر خواہی کا ذخیرہ آپ کے علاوہ کسی دوسرے تک پہنچانا بہتر نہیں سمجھتا آپ یزید بن معاویہ کی بیعت نہ کیجئے اور کسی دور دراز علاقہ میں جاکر پناہ گزین ہو جائیے پھر اپنے نمائندوں کو لوگوں کے پاس بھیج کر اپنی طرف دعوت دیجئے اب اگر ان لوگوں نے آپ کی بیعت کر لی تو اس پر آپ خدا کی حمد وثنا کیجئے اور اگر لوگ آپ کے علاوہ کسی اور کی بیعت کر لیتے ہیں تو اس سے نہ آپ کے دین میں کمی آئے گی نہ عقل میں ، اس سے نہ آپ کی مروت میں کوئی کمی آئے گی اور نہ فضل وبخشش میں ۔مجھے اس بات کاخوف ہے کہ آپ ان شہروں میں سے کسی ایک شہر میں چلے جائیں اور کچھ لوگ وہا ں آکر آپ سے ملیں پھر آپس میں اختلاف کرنے لگیں ۔کچھ گروہ آپ کے ساتھ ہو جائیں اور کچھ آپ کے مخالف ۔اس طرح جنگ کا شعلہ بھڑک اٹھے اور آپ سب سے پہلے نیزوں کی باڑھ پر آجائیں ۔اس صورت میں وہ ذات جو ذاتی طور پر اور اپنے آبا ء واجد اد کی طرف سے اس امت کی باوقار ترین فرد ہے اس کا خون ضائع ہوگا اور ان کے اہل بیت ذلیل ہوں گے۔ امام علیہ السلام نے جواب دیا :بھائی میں جارہا ہوں !

____________________

١۔طبری، ج ٥،ص٣٤٢، ابومخنف کا بیان ہے کہ یہ واقعہ مجھ سے عبدالملک بن نوفل بن مساحق نے ابوسعید مقبری کے حوالے سے نقل کیا ہے ، جن کازندگی نامہ پہلے بیان ہوچکاہے۔تذکرةالخواص ،ص٢٣٧

٢۔ محمد حنفیہ کی ما ں خولہ بنت جعفر بن قیس ہیں جو قبیلہ ء بنی بکر بن وائل سے تعلق رکھتی ہیں ۔(طبری ،ج، ٥، ص ١٥٤)

۱۱۵

آپ جنگ جمل میں اپنے بابا علی مرتضیٰ علیہ السلام کے ہمراہ تھے۔ امام علی السلام نے آپ کے ہاتھوں میں علم دیا تھا (طبری ،ج ٥، ص ٤٤٥)آپ نے وہاں بہت دلیری کے ساتھ جنگ لڑی اور قبیلۂ ''ازد''کے ایک شخص کا ایک ہاتھ کاٹ دیا جو لوگوں کو جنگ پر اکسارہا تھا ۔(طبری، ج ٤،ص ٤١٢) آپ جنگ صفین میں بھی موجودتھے اور وہاں عبید اللہ بن عمر نے ان کو مبارزہ کے لئے طلب کیا تو حضرت علی علیہ السلام نے شفقت میں روکا کہ کہیں قتل نہ ہو جا ئیں ۔ (طبری ،ج٥، ص١٣) امام حسین علیہ السلام جب مکہ سے عراق جارہے تھے تو آپ مدینہ میں مقیم تھے۔ (طبری ،ج٥،ص٣٩٤) مختار آپ ہی کی نمائند گی کا دعویٰ کر تے ہوئے کوفہ میں وارد ہوئے تھے۔ (طبری ،ج ٥،ص ٥٦١) ابن حنفیہ کو اس کی خبر دی گئی اور ان سے اس سلسلے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا : میں اس بات کو محبوب رکھتا ہوں کہ خدا ئے متعال اپنے جس بندے کے ذریعہ چاہے ہمارے دشمن سے بد لہ لے۔جب مختار کو ابن حنفیہ کے اس جملہ کی اطلاع ملی تو انھوں نے جناب محمد حنفیہ کو امام مہدی کا لقب دیدیا ۔(طبری ،ج٦، ص ١٤) مختار ایک خط لیکرابراہیم بن مالک اشتر کے پا س گئے جو ابن حنفیہ سے منسوب تھا ۔(طبری ،ج ٦،ص ٤٦) اس کا تذکرہ ابن حنفیہ کے پاس کیا گیا تو انھوں نے کہا : وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ ہمارا چاہنے والا ہے اور قاتلین حسین علیہ السلام تخت حکومت پر بیٹھ کر حکم نا فذ کر رہے ہیں ۔مختار نے یہ سنا تو عمر بن سعداور اس کے بیٹے کو قتل کر کے ان دو نوں کا سر ابن حنفیہ کے پاس روانہ کر دیا۔ (طبری، ج ٦،ص ٦٢) مختار نے ایک فوج بھیج کر ابن حنفیہ کو برانگیختہ کرنا چاہا کہ وہ ابن زبیر سے مقابلہ کریں لیکن محمد حنفیہ نے روک دیا اور خون بہا نے سے منع کر دیا۔ (طبری،ج٦،ص٧٤) جب یہ خبر ابن زبیر کو ملی تو اس نے ابن حنفیہ اور ان کے ١٧رشتہ داروں کو کچھ کو فیوں کے ہمراہ زمزم کے پاس قید کردیا اور یہ دھمکی دی کہ بیعت کریں ورنہ سب کوجلادیں گے۔ اس حالت کو دیکھ کر محمد حنفیہ نے کو فہ کے تین آدمیوں کو مختار کے پاس روانہ کیا اور نجات کی درخواست کی ۔ خبر ملتے ہی مختار نے چار ہزار کا لشکرجو مال واسباب سے لیث تھا فوراً روانہ کیا ۔وہ لوگ پہنچتے ہی مکہ میں داخل ہوئے اور مسجدالحرام میں پہنچ کر فوراً ان لوگوں کو قید سے آزاد کیا ۔ آزاد کر نے کے بعد ان لوگوں نے محمدحنفیہ سے ابن زبیر کے مقابلہ میں جنگ کی اجازت مانگی تو محمد حنفیہ نے روک دیا اور اموال کو ان کے درمیان تقسیم کردیا ۔(طبری ،ج ٦،ص ٦٧) آپ شیعوں کو زیادہ روی سے روکا کرتے تھے۔ (طبری ،ج ٦،ص ١٠٦) ٦٨ ھ میں حج کے موقع پر آپ کے پاس ایک مستقل پر چم تھا اور آپ فرمایا کر تے تھے: میں ایسا شخص ہوں جو خود کو ابن زبیر سے دور رکھتا ہو ں اور جو میرے ساتھ ہے اس کو بھی یہی کہتا ہوں کیو نکہ میں نہیں چاہتا کہ میرے سلسلے میں دو لوگ بھی اختلاف کریں ۔(طبری ،ج٦،ص١٣٨) آپ جحاف کے سال تک زندہ رہے اور ٦٥سال کی عمر میں طائف میں اس دنیا سے جاں بحق ہو گئے۔ ابن عباس نے آپ کی نماز پڑھائی ۔(طبری ،ج ٥،ص ١٥٤)

۱۱۶

محمد حنفیہ نے کہا :اگرآپ جا ہی رہے ہیں تو مکہ میں قیام کیجئے گا۔اگروہ جگہ آپ کے لئے جا ئے امن ہو تو کیا بہتر اور اگرامن وسلامتی کو وہاں پر بھی خطرہ لاحق ہو تو ریگستانو ں ، پہاڑوں اوردرّہ کو ہ میں پناہ لیجئے گا او رایک شہر سے دوسرے شہر جاتے رہیئے گا تاکہ روشن ہو جائے کہ لوگ کس طرف ہیں ۔ ایسی

صورت میں آپ حالات کو اچھی طرح سمجھ کر فیصلہ کر سکیں گے ۔ میرے نزدیک آپ کے لئے بہترین راستہ یہی ہے۔اس صورت میں تمام امور آپ کا استقبال کریں گے اوراگر آپ نے اس سے منھ موڑ اتو تما م امور آپ کے لئے مشکل سے مشکل تر ہوجائیں گے ۔

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :بھائی جان !آپ نے خیر خواہی کی ہے اور شفقت فرمائی ہے، امید ہے کہ آپ کی رائے محکم اور استوار ہو۔(١)

امام حسین علیہ السلام کا مدینہ سے سفر

امام حسین علیہ السلام نے ولید سے کہا ٹھہرجاؤتاکہ تم بھی غور کرلو اور ہم بھی غور کرلیں ، تم بھی دیکھ لواور ہم بھی دیکھ لیں ، ادھر وہ لوگ عبداللہ بن زبیر کی تلاش میں امام حسین علیہ السلام کو با لکل بھول گئے یہاں تک کہ شام ہوگئی۔ اسی شام ولید نے کچھ لوگوں کو امام حسین علیہ السلام کے پاس بھیجا۔ یہ ٢٧ رجب شنبہ کا دن تھا۔ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : صبح ہونے دو پھر تم بھی دیکھ لینا اور ہم بھی دیکھ لیں گے، اس پر وہ لوگ اس شب جو شب یکشنبہ یعنی شب ٢٨ رجب تھی رک گئے اور کسی نے اصرار بھی نہیں کیا۔ اسی رات امام حسین مدینہ سے خارج ہوئے جب کہ رجب کے فقط دو دن باقی تھے۔ آپ کے ہمراہ آپ کے فرزند اور بھائی وبھتیجے موجود تھے بلکہ اہل بیت کے اکثر افراد موجود تھے،البتہ محمد حنفیہ اس کاروان کے ہمراہ نہیں تھے۔(٢)

____________________

١۔طبری ،ج ٥ ، ص٣٤١، ہشام بن محمد نے ابو مخنف سے یہ روایت کی ہے اور شیخ مفید نے بھی اس کا تذکرہ کیا ہے۔ (ارشاد،ص٢٠٢، خوارزمی ، ص١٨٨،اور خوارزمی نے اعثم کوفی کے حوالے سے امام علیہ السلام کی وصیت ''امّا بعد فانّی لم اخرج ...''کا اضافہ کیا ہے ۔اور وصیت میں ''سیرة خلفاء الراشدین '' کا اضافہ کیا ہے ۔

٢۔طبری ، ج ٥،ص٢٤٠، ٢٤١و ٣٨١ پر بھی کوچ کرنے کی تاریخ یہی بیان کرتے ہیں جسے ابو مخنف نے صقعب بن زہیر کے حوالے سے اورانھو ں نے عون بن ابی حجیفہ کے توسط سے نقل کیا ہے۔'' ارشاد'' ، ص٢٠٩پر شیخ مفید اور تذکرة الخواص، ص٢٣٦پر سبط بن جوزی بیان کرتے ہیں : آئندہ شب امام حسین علیہ السلام اپنے جوانو ں اور اہل بیت کے ہمراہ مدینہ سے سفر اختیار کیا در حالیکہ لوگ ابن زبیر کی وجہ سے آپ سے دست بردار ہوگئے تھے، پھرص٢٤٥ پر محمدبن اسحاق اور ہشام سے روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ نے یکشنبہ کو جبکہ رجب کے تمام ہونے میں دو دن بچے تھے مدینے سے سفر اختیار کیا ،البتہ خوارزمی نے اپنے مقتل کے ص١٨٩ پر لکھا ہے کہ رجب کے تین دن باقی تھے ۔

۱۱۷

مدینہ سے سفر اختیار کرتے وقت امام حسین علیہ السلام اس آیت کی تلاوت فرما رہے تھے:( ''فَخَرَجَ مِنْهَا خَائِفاً يَتَرَقَّبُ قَالَ رَبِّ نَجِّنِی مِنَ الْقَوْمِ الْظَّالِمِيْنَ'' ) (١) اور جب مکہ پہنچے تویہ آیت تلا وت فر ما ئی( ''وَلَمَّاتَوَجَّهَ تِلْقَآ ئَ مَدْيَنَ قَالَ عَسَٰی رَبِّی أَنْ يَهْدِيَنِی سَوَائَ السَّبِيْلِ'' ) (٢)

____________________

١۔ قصص ، آیت٢١

٢۔ قصص ، آیت ٢٢، طبری ج٥،ص، ٣٤٣ پرہشام بن محمد ابو مخنف سے نقل کر تے ہیں ۔

۱۱۸

عبد اللہ بن عمر کا موقف :(۱) پھر ولید نے ایک شخص کو عبد اللہ بن عمر کے پاس بھیجا تو آنے والے نے ا بن عمر سے کہا : یزید کی بیعت کرو ! عبد اللہ بن عمر نے کہا : جب سب بیعت کرلیں گے تو میں بھی کرلوں گا۔(۲) اس پر ایک شخص نے کہا : بیعت کرنے سے تم کو کونسی چیز روک رہی ہے ؟ کیاتم یہ چاہتے ہو کہ لوگ اختلاف کریں اورآپس میں لڑبھڑکر فنا ہوجائیں اور جب کوئی نہ بچے تو لوگ یہ کہیں کہ اب تو عبداللہ بن عمر کے علاو ہ کو ئی بچانہیں ہے لہذا اسی کی بیعت کرلو ، عبداللہ بن عمر نے جواب دیا : میں نہیں چاہتاکہ وہ لوگ قتل ہوں ، اختلاف کریں اور فناہوجائیں لیکن جب سب بیعت کرلیں گے اور میرے علاو ہ کوئی نہیں بچے گا تو میں بھی بیعت کرلوں گا اس پر ان لوگوں نے ابن عمر کو چھوڑدیا کیونکہ کسی کو ان سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔

____________________

(١) طبری ، ج ٥، ص٣٤٢ میں یہ لفظ موجود ہے کہ ہشام بن محمد ابو مخنف سے نقل کرتے ہیں ...، پھر طبری کہتے ہیں کہ واقدی (متوفی ٢٠٧) کا گمان ہے کہ جب قاصد ،معاویہ کی موت کی خبر لے کر ولید کے پاس آیا تھا اس وقت ابن عمر مدینہ میں موجود ہی نہیں تھے اور یہی مطلب سبط بن جوزی نے بھی اپنی کتاب کے صفحہ ٢٣٧ پر لکھاہے۔ ہا ں ابن زبیر اور امام حسین علیہ السلام کو بیعت یزید کے لئے بلایا تو یہ دونو ں اسی رات مکہ کو روانہ ہوگئے ؛ا ن دونو ں سے ابن عباس اور ابن عمر کی ملاقات ہوئی،جو مکہ سے آرہے تھے تو ان دونو ں نے ان دونو ں سے پوچھا : آپ کے پیچھے کیا ہے ؟ تو ان دونو ں نے کہا : معاویہ کی موت اور یزید کی بیعت ، اس پر ابن عمر نے کہا : آپ دونو ں تقوائے الٰہی اختیار کیجئے اور مسلمین کی جماعت کو متفرق نہ کیجئے ! اس کے بعد وہ آگے بڑھ گیا اور وہیں چند دنو ں اقامت کی یہا ں تک کہ مختلف شہرو ں سے بیعت آنے لگی تو وہ اور ابن عباس نے پیش قدمی کی اور دونو ں نے یزید کی بیعت کر لی''۔

(٢) جیسا کہ معاویہ نے اپنی وصیت میں اور مروان نے ولید کو مشورہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ ایسا ہوگا اورویسا ہی ہوا ۔

۱۱۹

امام حسین علیہ السلام مکہ میں

* عبد اللہ بن مطیع عدوی

* امام حسین علیہ السلام کا مکہ میں ورود

* کوفیوں کے خطوط

* امام حسین علیہ السلام کا جواب

* حضرت مسلم علیہ السلام کا سفر

* راستے سے جناب مسلم کا امام علیہ السلام کے نا م خط

* مسلم کو امام علیہ السلام کا جواب

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

تواشعث نے اسے آزاد کر دیا ۔ اس نے اسید حضرمی(١) سے شادی کرلی ۔اسی شادی کے نتیجہ میں بلال نامی لڑکا پیدا ہواتھاجو ان دنوں دوسرے لوگوں کے ہمراہ گھر سے باہر تھا اور ابھی تک لوٹا نہیں تھا۔ اس کی ماں دروازے پر کھڑی اس کا انتظار کررہی تھی۔جناب مسلم نے اس خاتون کو دیکھتے ہی اسے سلام کیا تو اس نے فوراًجواب دیا ۔

اس پر جناب مسلم نے اس سے کہا :''یاأمة اللّٰه اسقینی مائ' 'اے کنیز خدا !میں پیاسا ہوں مجھے پانی پلادے۔ وہ خاتون اندر گئی، ظرف لے کر لوٹی اور جناب مسلم کو پانی دیا پانی پی کر جناب مسلم وہیں بیٹھ گئے۔ وہ جب برتن رکھ کر آئی تو دیکھا مسلم وہیں بیٹھے ہیں تو اس نے کہا : یاعبداللّٰہ ألم تشرب؟اے بندہ خدا کیا تو نے پانی نہیں پیا ؟

____________________

١۔ یہ اسید بن مالک حضرمی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کربلامیں اسی نے جناب مسلم کے فرزند عبداللہ کو شہید کیا اور اس کا بیٹاوہ ہے جس نے حاکم کو یہ اطلاع دی کہ مسلم میرے گھر میں ہیں اوریہی خبر رسانی جناب مسلم کی شہادت پر تمام ہوئی ۔

۱۸۱

جناب مسلم نے کہا:کیوں نہیں ،طوعہ نے کہا:تو اب اپنے گھر والوں کے پاس چلے جااس پر جناب مسلم خاموش ہوگئے اور وہ نیک خاتون اندر چلی گئی۔ کچھ دیر کے بعد جب پھر لوٹ کر آئی تو دیکھا جناب مسلم وہیں بیٹھے ہیں ۔ اس نے اپنے جملے پھر دھرائے ۔اس پر وہ سفیر حسینی پھر خاموش رہا تو اس عورت نے حضرت مسلم سے کہا : سبحان اللہ ! اے بندہ خدا میرے سلسلہ میں اللہ سے خوف کھا ۔جا اپنے گھر والوں کی طرف چلاجااللہ تجھے عافیت میں رکھے ؛تیرے لئے میرے گھر کے دروازے پر بیٹھنا مناسب نہیں ہے اور میں تیرے اس بیٹھنے کو تیرے لئے حلال نہیں کروں گی، اتنا سنناتھا کہ جناب مسلم کھڑے ہوگئے اور فرمایا :

'' یا أمةاللّٰہ ، مالی فی المصر منزل ولا عشیرہ فھل لک اِلی أجر و معروف ولعلی مکافِئُکِ بہ بعد الیوم؟''اے کنیز خدا ! کہاں جاؤں ؟ اس شہر میں نہ تو میرا کوئی گھر ہے نہ ہی میرے گھر والے ہیں ، کیا تم ایک اچھا کام انجام دینا چاہتی ہو جس کا اجر اللہ سے پاؤ اور شاید آج کے بعد میں بھی کچھ اس کا بدلہ دے سکوں ؟

طوعہ : اے بندہ خدا ! تو کون ہے ؟ اور وہ نیک کام کیا ہے ؟

مسلم : میں مسلم بن عقیل ہوں ۔اس قوم نے مجھے جھٹلایا اور دھوکہ دیا ۔

طوعہ : تم سچ مچ مسلم ہو!

مسلم : ہاں !میں مسلم ہوں ۔

طوعہ : تو بس اب اندر آجاؤ !یہ کہہ کر وہ نیک سرشت خاتون آپ کو اندرون خانہ ایک ایسے کمرے میں لے گئی جس میں وہ خود نہیں رہا کرتی تھی۔ اس کے بعد اس کمرے میں بستر بچھایااور جناب مسلم کو اس پر بٹھا کر رات کا کھانا پیش کیا لیکن آپ نے کچھ نہ کھایا ۔

ادھر طوعہ اپنے بیٹے کے انتظار میں لحظہ شماری کررہی تھی کہ تھوڑی ہی دیر میں اس کا بیٹا آگیا ۔ اس نے غور کیا کہ کمرے میں ماں کا آناجانا بہت زیادہ ہے لہذا اس نے کہا : ماں کمرے میں تمہارا آناجانا مجھے شک میں ڈال رہا ہے۔کیا اس میں کوئی بات ہے ؟ طوعہ نے کہا بیٹا اس بات کو رہنے دو اورصرف نظر کرو۔ بیٹے نے ماں سے کہا : خدا کی قسم تم کو مجھے بتا نا ہی ہوگا ۔

۱۸۲

طوعہ : ہاں بات تو ہے لیکن تم اس کے بارے میں کچھ نہ پوچھو ۔اس پر بیٹے نے بہت اصرار کیا تو ماں نے کہا : اے بیٹا ! میں بتائے تو دیتی ہو ں لیکن دیکھو کسی سے بھی اسے نہ بتانا ۔اسکے بعد طوعہ نے بیٹے سے قسم کھلوائی تو اس نے قسم کھالی کہ کسی سے نہیں بتائے گا اس کے بعد ماں نے اسے سارے ماجرے سے آگاہ کردیا۔ یہ سن کر وہ لیٹ گیا اور خاموش ہوگیا ۔(١)

ابن زیاد کا موقف

جب رات کااچھا خاصہ وقت گذر گیا اور کافی دیر انتظار کرنے کے بعد ابن زیاد نے دیکھا کہ مسلم بن عقیل کے مدد کرنے والوں اور نصرت کرنے والوں کی اس طرح کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی ہے جیسے اس سے قبل سنائی دے رہی تھی تو اس نے اپنے گرگوں سے کہا:ذرادیکھو!ا ن میں سے کوئی تمہیں دکھائی دے رہاہے ؟ وہ لوگ گئے لیکن کوئی دکھائی نہیں دیا تو ابن زیاد نے کہا: ذرا غور سے دیکھو !شاید وہ لوگ کسی سایہ میں چھپے کمین میں بیٹھے ہوں ،لہٰذا ان لوگوں نے مسجد کے اندر باہراور اطراف میں دیکھا، اس کے بعد مشعلیں روشن کرکے دیکھنے لگے کہ کہیں کوئی چھپاہو اتو نہیں ہے۔ کچھ دیر کے لئے مشعلوں کو روشن رکھا پھر بجھادیا، اس کے بعد قندیلوں کو رسےّوں میں محکم باندھ دیا اور اس میں آگ روشن کرکے اوپر سے

____________________

١۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجا لد بن سعید نے مجھ سے اس روایت کو بیان کی ہے۔(طبری، ج٥،ص٣٧١، ارشاد ،ص ٢١٢، خوارزمی ،ص ٢٠٨) طبری نے عماردہنی کے حوالے سے امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا :جب مسلم نے یہ دیکھا کہ وہ سڑک پر تنہا رہ گئے ہیں تو ایک گھر کے دروازہ پر آکر بیٹھ گئے۔ وہا ں سے ایک عورت نکلی تو مسلم نے اس سے کہا : ''اسقینی'' مجھ کو پانی پلا ؤ تو اس خاتون نے پا نی لا کر پلا یا پھر وہ اندر چلی گئی اور مسلم وہیں مشیت الہٰی کے سہارے بیٹھے رہے پھر وہ نکلی تو دیکھا مسلم وہیں بیٹھے ہیں تو اس نے کہا : ائے بند ہ خدا ! تیر ایہا ں بیٹھنا شک وشبہ سے خالی نہیں ہے، تو اٹھ جا ! اس پر جناب مسلم نے کہا : میں مسلم بن عقیل ہو ں کیا تو مجھ کو پناہ دے سکتی ہے ؟ اس خاتون نے جواب دیا: ہا ں !اس خاتون کا بیٹامحمد بن اشعث کے موالی میں شمار ہوتا تھا جب بیٹے کو اس کی خبر ہوئی تو اس نے جاکر محمد کو خبر دے دی اور محمد نے جا کر عبیداللہ کو خبر پہنچادی توعبیداللہ نے وہا ں اپنی پولس کے سربراہ عمروبن حریث مخزومی کو بھیجااوراس کے ہمراہ عبدالرحمن بن محمدبن ا شعث بھی تھا۔مسلم کو خبر بھی نہ ہوئی اور سارا گھر گھیر لیاگیا ۔(طبری ،ج٥،ص ٣٥٠) اس کے پیچھے اس کی فوج کا سربراہ حصین بن تمیم بھی آگیا۔

۱۸۳

نیچے کی طرف رکھ دیا اور ہر گو شہ و کنارکو قندیلوں سے روشن کردیا یہاں تک کہ منبر کے اطراف کو بھی روشن کردیا ۔جب ہر طرح سے انھیں یقین ہوگیا کہ کوئی نہیں ہے تو ابن زیاد کو خبر دی کہ کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ ابن زیاد نے فوراً اپنے کاتب عمر وبن نافع(١) کو حکم دیا کہ فوراً جا کر یہ اعلان کرے کہ حاکم ہر اس شخص کی حرمت سے دست بردار ہے جو نماز عشاء مسجد کے علاوہ کہیں اور پڑھے ،خواہ وہ پولس ہو یا عرفاء ،صاحبان شرف ہوں یا جنگجو۔ اس خطر ناک اور تہدید آمیز اعلان کا اثر یہ ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے مسجد لوگوں سے چھلکنے لگی۔ ایسے موقع پر حصین بن تمیم تمیمی(٢) جو اس کے نگہبانوں کا سردار تھا اس نے ابن زیاد سے کہا : اگر آپ چاہیں تو خود نماز پڑھائیں یا کسی دوسرے کو بھیج دیں جو نماز پڑھادے کیونکہ مجھے خوف ہے کہ آپ کے بعض دشمن آپ پر حملہ نہ کردیں ! اس پر ابن زیاد نے کہا : میرے محافظین و نگہبانوں سے کہوکہ جس طرح وہ میری حفاظت کے لئے صف باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں اس طرح نماز کی پہلی صف میں کھڑے ہوں اور تم ان سب پر نگاہ رکھو۔ اس کے بعد حکم دیا کہ باب سدّہ جو مسجد میں کھلتا تھا اور اب تک بند تھا اسے کھولا جائے پھر ابن زیاد اپنے گرگوں کے ہمراہ وہاں سے نکلا اور لوگوں کونمازپڑھائی۔

____________________

١۔ یہ وہی کاتب ہے جس نے یزید کو جناب مسلم کے قتل کے لئے خط لکھا تھا۔ اس نے خط لکھنے میں دیر لگا ئی تو ابن زیاد کو ناگوار لگا۔(طبری ،ج٥،ص ٣٨)

٢۔ابن زیاد نے اسے قادسیہ کی طرف اس فوج کو منظم کرنے کے لئے بھیجا تھا جو'' خفان''،'' قطقطانہ'' اور''لعلع''کے درمیا ن تھی۔ (طبری ،ج٥،ص ٣٩٤) یہ وہی شخص ہے جس نے حضرت امام حسین علیہ السلام کے ایلچی جناب قیس بن مسہر کو ابن زیاد کے پاس بھیجا اور اس نے انہیں قتل کردیا ۔(طبری ،ج٥، ص ٣٩٥) اسی طرح عبداللہ بن بقطر کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا ۔(طبری ،ج٥،ص ٣٩٨) یہی شخص حر کے ساتھ بنی تمیم کے ایک ہزار لوگو ں کے ہمراہ قادسیہ سے آگے آگے تھا تاکہ امام حسین علیہ السلام کو گھیرے یہ کربلا میں پولس کا سربراہ تھا اور جناب حر کو قتل کرنے کے لئے اپنی فوج کو شعلہ ور کررہا تھا۔ (طبری، ج ٥ ،ص ٤٣٤)پسر سعد نے اس کے ہمراہ ٥٠٠ پانچ سو تیر انداز بھیجے تھے اوراس نے ان لوگو ں کو امام حسین علیہ السلام کے اصحاب پر تیرو ں کی بارش کرنے کے لئے بھیجا۔ ان تیر اندازو ں نے نزدیک سے تیرو ں کا مینہ برسادیا اور ان کے گھوڑو ں کو پئے کردیا۔(طبری ،ج٥ ،ص ٤٣٧)جب امام حسین علیہ السلام کے اصحاب ہنگام ظہر نماز کے لئے آمادہ ہورہے تھے تو اس نے حملہ کردیا ۔جناب حبیب بن مظاہر اس کے سامنے آئے اور اس کے گھوڑے پر تلوار سے حملہ کیا تو وہ اچھل کر زمین پر گر گیا۔ اس پر بدیل بن صریم عقفانی نے جناب حبیب کے سر پر اپنی تلوار سے ضرب لگائی اور بنی تمیم کے دوسرے سپاہی نے آپ پر نیزہ سے حملہ کیا پھر حصین بن تمیم پلٹ کر آیا اوراس نے تلوار سے آپ کے سر پر حملہ کیا اس کے اثر سے آپ زمین پر گر پڑے، وہا ں ایک تمیمی آیا اور اس نے آپ کا سر کاٹ کر حصین کے ہاتھ میں دیا ۔ اس نے سر کو اپنے گھوڑے کی گردن میں لٹکا لیا اور لشکر پر حملہ کیا پھر قاتل کو لوٹادیا (طبری ،ج ٥،ص ٤٤٠) آخر کار جب امام حسین نہر فرات کے قریب آرہے تھے تو اس نے تیر چلایا جو آپ کے منہ پر لگا جس پر آپ نے اس کوبد دعا کی۔(طبری ،ج٥،ص ٤٤٩)

۱۸۴

مسلم کی تنہائی کے بعد ابن زیاد کا خطبہ

نماز کے بعد ابن زیاد منبر پر گیا اور حمد و ثناے الہٰی بجالانے کے بعد بولا : امابعدجا ہل اور بیو قوف ابن عقیل کو تم لوگو ں نے دیکھا کہ اختلاف اور جدائی لے کر یہاں آیا۔میں ہر اس شخص کی حرمت سے بری الذ مہ ہوں ۔جس کے گھر میں ہم نے مسلم کو پا لیا اور جو بھی مسلم کو لے کرآئے گا اس کا خون بہا اسے دیدیا جا ئے گا ! اے بندگا ن خدا تقویٰ اختیار کرو ، اپنی طاعت وبیعت پر برقرار رہواور اپنی حرمت شکنی کے راستے نہ کھولو ۔

اس کے بعدسپاہیوں کے سربراہ حصین بن تمیم کی طرف رخ کیا اور کہا : اے حصین بن تمیم ! ہشیار ہو جا اگر شہر کو فہ کا کو ئی دروازہ بھی کھلا یا یہ مرد اس شہر سے نکل گیا اور تو اسے نہ پکڑ سکا تو یہ دن تیری ماں کے لئے عزاکا دن ہو گا ! ہم نے تجھے کو فیوں کے سارے گھر کو سونپ دیا ہے، تو آزاد ہے، جس گھر میں چاہے جا کر تلا ش کر لہٰذا تو فوراً شہر کوفہ کے دروازوں پر نگہبانوں کو لگا دے اور کل صبح سے دقت کے ساتھ گھروں کی تلا شی لے اورٹوہ میں لگ جا یہا ں تک کہ اس مرد کو میرے سامنے پیش کرے۔

ابن زیاد مسلم کی تلا ش میں

اس آتشیں تقریر کے بعد ابن زیاد منبر سے نیچے آگیا اور محل کے اندر چلا گیا اس کے بعدعمرو بن حریث مخزومی(١) کے ہا تھ میں ایک پر چم دے کر اسے اپنے اطرافیوں اور کار کنوں کا سر براہ بنا دیا(٢) اور اپنی

____________________

١۔ یہ وہی شخص ہے جس نے نہاوند کی فتح کے بعد مسلمانو ں کے غنا ئم جولو لو و مرجان اور یاقوت و زمّردسے بڑے بڑے ٹوکرو ں پر مشتمل تھے غنائم کے منشی سائب بن اقرع ثقفی کو دھوکہ دے کر دو ہزار درہم میں خرید لیا۔ اس کے بعد اسے لیکر سر زمین کفر میں پہنچا اور اسے چالیس لاکھ میں بیچا۔ اس طرح ٢١ھ میں یہ عرب کے سرمایہ دارو ں میں شمار ہونے لگا ، یہ کوفہ میں سعید بن عاص کا جانشین تھااور ٣٤ھ میں یہ لوگو ں کو عثمان کے سلسلہ میں تحرک سے روکتا تھا۔(طبری، ج٤ ،ص ٣٣٢) ٥١ ھمیں یہ کوفہ میں زیاد بن سمیہ کاجانشین تھا ۔ اس نے جناب حجربن عدی اور ان کے ساتھیو ں کے خلاف گواہی دی تو ان کے ساتھیو ں نے ان پر پتھراو کردیا۔(طبری، ج٥، ص ٢٥٦ ، ٢٦٨) یہ ایک مدت اہل مدینہ کا سربراہ تھا۔ ٦٤ھمیں یہ کوفہ میں ابن زیاد کا جانشین تھا ۔جب یزید ہلاک ہوگیا اور ابن زیاد نے لوگو ں کو اپنی بیعت کی طرف بلایا تواس نے ابن زیاد کی پیروی کی اور لوگو ں کو ابن زیاد کی طرف دعوت دینے لگا۔اس وقت کوفیو ں نے اس پر پتھراؤ

کردیا،(طبری، ج٥ ،ص ٥٢٤) اس کو محل سے نکال دیا(طبری ،ج٥،ص ٥٦٠) اور اسے معزول کردیا۔ ٦٦ھ میں یہ مختار کے انقلاب میں شر یک ہو گیا۔ (طبری ،ج ٥، ص ٣٠) کوفہ میں اس کا ایک حمام بھی تھا۔(طبری، ج٦، ص ٤٨) عبد الملک نے اسے ٧١ھ میں اپنے مقر بین میں شامل کرلیا۔(طبری ،ج٦، ٣٧٦) اس نے مسلم بن عقیل کے لئے پانی لانے سے انکار کر دیااور ابن زیاد کے سامنے جناب زینب کی سفارش نہیں کی۔ (طبری، ج٥،ص ٤٥٧) مگر یہ قریش کی غیرت تھی جس نے ایسا کر نے پر مجبور کیا ۔٨٥ھمیں اسے موت آگئی۔نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے وقت ''ذیل المذیل'' ص ٥٢٧، طبع سویڈن کے مطابق اس کی عمر ١٢سال تھی۔

۱۸۵

نیا بت میں اسے حکم دیا کہ مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کے امور کو حل وفصل کرے۔

عبیدا للہ کے خلاف جناب مسلم کے قیام کی خبر پورے کو فہ میں پھیل چکی تھی۔ جناب مختار کوبھی جو کو فہ کے نزدیک ایک گاؤں میں زندگی بسر کر رہے تھے جسے '' لقفا'' کہتے ہیں اور آپ جناب مسلم کے ہا تھوں پر بیعت کر نے کے بعد اس گاؤں میں لوگوں سے جناب مسلم کے لئے بیعت لے رہے تھے،انہیں نصیحتیں کر رہے تھے اور لوگوں کو آپ کی فر ما نبرداری کی دعوت دے رہے تھے ،جیسے جناب مسلم کی غر بت و تنہا ئی کی خبر ملی اپنے دوستوں ، غلاموں اور ہم فکروں کے ہمراہ ان کی مدد کے لئے روانہ ہوگئے۔ غروب آفتاب کا وقت تھا کہ مختا ر مسجد کو فہ کے باب الفیل کے پاس آکر رکے ۔اپنے راستے میں عمرو بن حریث کے پاس وہ پر چم امان دیکھا جسے عبید اللہ نے جناب مسلم کے ساتھیوں کو دھوکہ دینے کے لئے اس کے ہا تھوں سونپا تھا ۔

جب مختار باب الفیل کے پاس تھے کہ وہاں سے ہا نی بن ابی حیہ وداعی کا گذرہوا۔(١) اس نے مختار سے کہا : تم یہاں کس لئے کھڑے ہو؟ ! نہ تو لوگوں کے ساتھ ہو نہ ہی اپنے راستہ پر ہو ؟ اس پر مختار نے کہا : تم لوگوں کی عظیم غلطی اور خطا پر میرے افکار متز لزل ہیں ۔

ہا نی بن ابی حیہ نے کہا : میں سمجھتا ہو ں کہ خود کو قتل کر وانا چاہتے ہو ۔یہ کہہ کر وہ وہاں سے آگے بڑھ کر عمروبن حریث کے پاس گیا اور اسے اس واقعہ سے خبر دار کردیا ۔(٢)

____________________

٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے مجالد بن سعید نے یہ روایت کی ہے۔(طبری ،ج ٥، ص٣٧١ ، ٣٧٣)

١۔اس کا شمار انہیں لوگو ں میں ہوتا ہے جنھو ں نے جناب حجر بن عدی اور ان کے ساتھیو ں کے خلاف گواہی دی تھی(طبری ،ج٥،ص ٢٧٠) نیز یہ ان لوگو ں میں سے ایک ہے جو جناب مسلم اور جناب ہانی کے سر کو لے کر یزید کے پاس گئے تھے۔ (طبری ،ج٥، ص ٣٨) ٦٤ ھ میں یہ شخص ابن زبیر کے عہد حکومت میں مکہ میں مختار سے ملا اور اسے مختار سے معلوم ہوا کہ وہ کوفہ پلٹنے والے ہیں اور وہا ں سے حملہ کرنے والے ہیں تو اس نے مختار کو گمراہ کن فتنے سے ڈرایا۔(طبری، ج ٥، ص ٥٧٨) ٢۔طبری، ج٥ ص، ٥٦٩، ابو مخنف نے نضر بن صالح سے نقل کیا ہے۔

۱۸۶

مختار کا نظریہ

عبد الرحمن بن ا بی عمیر ثقفی(١) کا بیان ہے کہ میں عمرو بن حریث کے پاس بیٹھا تھا کہ ہا نی بن ابی حیہ مختار کی سنانی لیکر پہنچا ۔ابن حریث نے مجھ سے کہا : اٹھو اور اپنے چچا سے کہو کہ مسلم بن عقیل کو نہیں معلوم ہے کہ تم کہاں ہو اور اپنی حرمت شکنی کے لئے راستہ نہ کھو لو۔ میں اٹھا کہ انہیں جا کر لاؤں اس پر زائدہ بن قدامہ بن مسعود(٢) اٹھا اور اس نے کہا کہ وہ مختار کو لا ئے گا لیکن اس شرط پر کہ وہ امان میں ہوں ۔ عمروبن حریث نے کہا :

میری جانب سے وہ امن میں ہیں اور اگر بات امیر عبیداللہ بن زیاد تک پہنچی تو میں اس کے سامنے کھڑے ہو کر مختار کے حق میں گواہی دوں گا اور بہتر ین طریقہ سے سفارش کروں گا ۔

اس پر زائدہ بن قدامہ نے کہا : ایسی صورت میں انشا ء اللہ خیر کے علا وہ کچھ بھی نہیں ہے ۔

عبد الر حمن کا بیان ہے کہ میں نکلا اورمیرے ہمراہ زائدہ بھی مختار کی طرف نکلا ۔ہم دونوں نے مختار کو خبر دی اور انہیں قسم دی کہ اپنے لئے مشکل کھڑی نہ کریں اور حرمت شکنی کا راستہ نہ کھو لیں ۔اس پر وہ ابن حریث کے پاس آئے، سلام کیا اور اس کے پر چم تلے رات بھر بیٹھے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔(٣)

____________________

١۔٦٧ھ میں یہ مختار کے قیام میں شریک تھے۔ (طبری، ج٦، ص ٩٨) ظاہر یہ ہے کہ یہ عبد الرحمن بن عبداللہ بن عثمان ثقفی ہے جو معاویہ کی بہن ام حکم کا بیٹا ہے، جسے معاویہ نے ٥٨ھ میں کوفہ کا عامل بنا یا تھا ۔یہ عہدہ معاویہ نے ضحاک بن قیس کے بعداسے دیا تھا۔ اس کی پولس کا سر براہ زائدہ بن قدامہ ثقفی تھا(طبری ،ج٥، ص ٣١٠)اور اس سے پہلے ٥١ھ میں یہ موصل میں معاویہ کا عامل تھا ۔اسی نے یہ گمان کرتے ہوئے کہ عثمان کے قتل کاقصاص لے رہا ہے جناب عمروبن حمق خزاعی کو مرض کے عالم میں قتل کر دیاتھا۔(طبری، ج٥، ص ٢٦٥)اس کی بری سیرت کی وجہ سے اہل کو فہ نے اس کو مطرود کر دیا تو یہ اپنے مامو ں معاویہ سے ملحق ہو گیا۔ اس نے اس کو مصر کا والی بنا دیا۔وہا ں سے بھی اس کو نکال بھگایاگیاتو وہ معاویہ کے پاس لوٹ گیا (ج٥، ص ٣١٢) اور اگر اس کی یزید سے رشتہ داری نہ ہوتی تو ابن حریث اس کو کوئی فائدہ نہ پہونچاتا ۔

٢۔مقدمہ میں اس کی پوری تفصیل گذرچکی ہے، رجوع کری ں ۔

٣۔ ابو مخنف کا بیان ہے: نضر بن صالح نے عبد الرحمن بن ابی عمیر ثقفی کے حوالے سے مجھے یہ خبردی ہے۔(طبری ،ج٥، ص ٥٧٠)

۱۸۷

ابو جناب کلبی کا بیان ہے کہ کثیر بن شہاب حارثی کی ملاقات ایک جوان سے ہوئی جو اسلحو ں سے لیس تھا؛ جسے عبد الاعلی بن یزید کلبی کہتے ہیں ۔ابن شہاب نے اسے گر فتار کرکے ابن زیاد کے پاس پہنچا دیا اور اس جواں مرد کی ساری داستان کہہ سنائی تو کلبی نے ابن زیاد سے کہا : میں نے تمہاری ہی طرف آنے کا ارادہ کیاتھالیکن ابن زیاد نے اس کی بات نہ مانی اور کہا کہ یہ تم نے اپنا ارادہ بتایا ہے ؛یہ کہنے کے بعداس نے اسے قید کرنے کا حکم صادر کردیا اور لوگوں نے اسے قید کردیا۔(١)

دوسری صبح

دوسرے دن کا سورج افق پر طلوع ہوا اور اپنے ساتھ داستانوں کا لشکر لے کر آیا ۔صبح ہوتے ہی ابن زیاد اپنے دربار میں آکر بیٹھا اور لوگوں کو آنے کی اجازت دی تو لوگ دربار میں داخل ہو نے لگے۔ انہیں داخل ہونے والوں میں محمد بن اشعث بھی تھا۔ابن زیاد بولا : آفرین اور مرحبا! اس شخص پر جواپنے امیر سے نہ تو خیانت کرتا ہے اور نہ ہی مورد تہمت واقع ہوتا ہے ۔یہ کہہ کر اسے اپنے پہلو میں جگہ دی ۔

ادھر دوسرے دن صبح نیک شرست جناب مسلم کو پناہ دینے والی ضعیفہ کا لڑکا بلال بن اُسید عبدالر حمن بن محمد بن اشعث کے پاس آیا اور ساری روداد سنادی کہ مسلم بن عقیل اس کے گھر میں اس کی ماں کی پناہ میں ہیں ۔ عبدالرحمن وہاں سے فوراً اپنے باپ کے پاس آیا جوابن زیاد کے پاس موجود تھا اور آہستہ آہستہ سب کچھ سنا دیا۔ اس سر گوشی کو جب ابن زیاد نے دیکھا تو اس نے کہا : یہ تم سے کیا کہہ رہا تھا؟ محمد بن اشعث بولا : اس نے مجھ کو ابھی ابھی خبر دی ہے کہ مسلم ابن عقیل ہمارے ہی قبیلہ کے ایک گھر میں پناہ لئے ہوئے ہیں ۔ابن زیاد نے اپنی چھڑی کی نوک اس کے پہلو میں چبھائی اور بولا : اٹھو اور ابھی اسے لے کر یہاں آؤ!(٢)

____________________

١۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے ابوجناب کلبی نے یہ روایت بیان کی ہے۔ (طبری، ج٥، ص ٣٦٩)

٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ یہ روایت مجالد بن سعید نے مجھ سے بیان کی ہے۔(طبری، ج٥، ص٣٧١، الاشاد، ص ٢١٣، تذکرةالخواص،ص ٢٠٨)

۱۸۸

محمد بن اشعث جناب مسلم کے مقابلے میں

ابن زیاد نے عمروبن حریث کے پاس ایک آدمی کو بھیجا جو اس وقت مسجد میں اس کا جانشین تھا کہ فوراً قبیلہ قیس کے ساٹھ یا ستر آدمیوں کو ابن اشعث کے ساتھ روانہ کرے ۔ابن زیاد کو یہ ناپسند تھا کہ ابن اشعث کے قبیلہ کے لوگ اس کے ہمراہ جائیں(١) کیونکہ اسے معلوم تھا کہ تمام قبیلوں کو یہ ناپسند ہے کہ وہ مسلم ابن عقیل جیسی شخصیت کے مد مقابل آئیں ۔ عمر و بن حریث نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے فوراًعمرو بن عبیداللہ بن عباس سلمی کی سربراہی میں قبیلہ قیس کے ساٹھ یاستر آدمیوں کوابن اشعث کے ہمراہ روانہ کیا۔ ان سب نے اس گھرکو محاصرہ میں لے لیا جس میں جناب مسلم موجود تھے ۔

جناب مسلم کا ابن اشعث سے جہاد

جب گھوڑوں کی ٹاپوں کی صدا ور سپاہیوں کی آواز جناب مسلم کے کانوں میں پہنچی توآپ سمجھ گئے کہ لشکر آ گیا ہے لہٰذا نیام سے شمشیر کو باہر نکا لا اور فوراً مقابلہ کے لئے باہر آگئے۔ ان لوگوں نے گھر پرحملہ کر دیا لیکن جناب مسلم نے اس گھر کا دفاع کرتے ہوئے ان پر ایسا زبر دست حملہ کیا کہ وہ تاب نہ لا کر پیچھے ہٹ گئے۔ جب وہ پھر آگے بڑھے تو جناب مسلم نے پھر ویسا ہی حملہ کیا۔ اسی اثنا میں بکیر بن حمران احمری شامی نے آپ کے رخسار پر ضرب لگائی جس سے آپ کے اوپر والے ہونٹ کٹ گئے اور تلوار نچلے ہونٹ کو زخمی کر گئی جس سے آپ کے آگے کے دو دانت ٹوٹ گئے۔ ادھر جناب مسلم نے بھی مرگبار تلوار اس کے سر پر چلائی اور ایک دوسری تلوار اس کے شانے کے نیچے ماری کہ قریب تھا کہ اس کے شکم میں چلی جائے۔

____________________

١۔لیکن خود ابن اشعث کو بھیجنے کا سبب شاید یہ ہو کہ اس کے جانے کی وجہ سے مسلم خود اسی کے خاندان کی کنیز(طوعہ جس کا بیٹا بلال ہے) کے گھر سے نکلی ں گے۔یہا ں سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن زیاد کس طرح عشائر اور بادیہ نشین لوگو ں کے امور سے آگاہ تھا اور کسی طرح ان سے اپنے مقاصد کو حل کرتا تھا ۔

۱۸۹

آگ اور پتھر کی بارش

جب ان لوگوں نے یہ دیکھا کہ مسلم کی حالت یہ ہے توگھروں کی چھتوں سے پتھر پھینکنا شروع کردیا اور اس یکّہ و تنہا سفیر حسینی پرآگ کے شعلہ برسا نے لگے ۔جناب مسلم نے جب یہ حالت دیکھی تو تلوار کھینچ کر مقابلے میں آگئے اور ان سے نبرد آزما ہوگئے۔ اسی وقت محمد بن اشعث آیا اور کہنے لگا : اے جوان ! تیرے لئے امان ہے لہٰذا تو خود کو قتل کرنے کا سامان فراہم نہ کر!جناب مسلم اپنے جہاد کو جاری رکھتے ہوئے رزمیہ اشعار پڑھ رہے تھے۔

اقسمت لااُقتل الاحرّا

وان رایت الموت شیئاًنکرا

میں نے قسم کھائی ہے کہ میں آزادی کے ساتھ قتل کیا جاؤں گا ۔ اگر چہ موت کو میں بری چیز سمجھتا ہوں ۔

کل امریء یوماً ملاق شرا

و یخلط البارد سخناًمرّاً

ہر انسان ایک دن شر میں گرفتار ہوتا ہے اور زندگی کی سختی و گرمی آرام و آسائش سے آمیختہ ہے ۔

ردّ شعاع النفس فاستقر (١)

أخاف أن أکذب أوأ غرّا

خوف و ہراس کو اپنے سے دور کرو تاکہ ہمیشہ زندہ و پائندہ رہو ۔ مجھے تو اس کا خوف ہے کہ یہ قوم مجھے جھوٹا وعدہ دے کر دھوکہ دینے کے در پے ہے۔

____________________

١۔ہمارے پاس طبری اور غیر طبری کا جو نسخہ موجود ہے اس میں شعاع النفس کی جگہ شعاع الشمس موجود ہے ۔ شیخ سماوی نے ابصار العین ص ٤٩پر ذکر کیا ہے کہ یہ رد و بدل اس کی جانب سے ہے جو شعاع النفس کے معنی نہیں جانتا ہے اور یہ تصور کرتا ہے کہ شعاع الشمس زیادہ بہتر ہے جب کہ شعاع النفس سے مراد جان کا خوف ہے۔ عرب یہ کہا کرتے ہیں :'' مارت نفسہ شعاعا '' یعنی اس کی جان سورج کی کرنو ں کی طرح جدا ہوگئی۔یہ جملہ اس وقت کہاجاتا ہے جب خوف بہت شدید ہو؛ کیونکہ شعاع کے معنی ہی یہ ہیں کہ کوئی چیز کسی سے دقت کے ساتھ جدا ہوجائے۔ یہی معنی شعر میں بھی استعمال ہوا ہے''أقول لھا و قد طارت شعاعا من الأ بطال ویحک لا تراعی''اس شعر میں شعاع کا مطلب یہ ہے کہ خوف کے بعد دل ٹھہر گیا ۔

۱۹۰

فریب امان اور گرفتاری

محمد بن اشعث نے حضرت مسلم سے کہا : تم سے جھو ٹ نہیں بولا جارہا ہے نہ ہی تم کوفریب اور دھوکہ دیاجارہاہے، یہ لوگ تو تمہارے چچا ہی کی اولاد ہیں نہ کہ تمہارے قاتل اور تم سے لڑائی کرنے والے۔دوسری طرف سنگ باری نے جناب مسلم کو بے حد زخمی کر دیا تھااورآپ لڑتے لڑتے تھک چکے تھے۔لہٰذا اسی گھر کی دیوار پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوگئے۔ محمد بن اشعث نے آپ کے پاس آکر کہا: آ پ کے لئے امان ہے۔ جناب مسلم نے اس سے پوچھا : آمن انا ؟ کیا واقعاً میں امان میں ہوں ؟محمد بن اشعث نے جواب دیا : ہاں ،اور ابن اشعث کے ہمراہ پوری فوج نے کہا : ہاں ہاں تم امان میں ہو تو جناب مسلم نے کہا :'' أما لولم تؤمّنونی ما وضعت یدی فی أیدیکم''اگرتم لوگوں نے مجھے امان نہیں دیا ہوتا تو میں کبھی بھی تمہارے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ نہ دیتا۔ (اس جملہ سے ان لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ مسلم امان پر راضی ہوچکے ہیں ) اس کے بعد وہ لوگ ایک خچر لے کر آئے اور جناب مسلم کو اس پر سوار کیا اورسب ان کے اطراف جمع ہوگئے اور ان کی گردن سے تلوار نکالی۔یہ دیکھ کر گویا جناب مسلم خود سے مایوس ہوگئے، ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور آپ نے فرمایا : ''ھذا اول الغدر'' یہ سب سے پہلا دھوکہ ہے ۔

محمد بن اشعث بولا:ا مید ہے کہ آپ کو کوئی مشکل نہ ہوگی۔ جناب مسلم نے کہا:امید کے سوا کچھ نہیں ہے، تم لوگوں کا امان نامہ کہاں ہے !''اناللّہ و انّا الیہ راجعون!''اور یہ کہہ کر رو پڑے۔ اس موقع پر عمرو بن عبیداللہ سلمی جو ایک دوسرے گروہ کا سربراہ تھا آپ سے مخاطب ہوکر بولا :بے شک اگر ایک شخص وہ چیزطلب کرے جس کے تم طلبگار تھے اور اس راہ میں اسے وہ مشکلات پیش آئیں جو تمہیں پیش آئی ہیں تو اسے رونا نہیں چاہیے۔

جناب مسلم نے فرمایا : ''انی واللّٰہ ما لنفسی ابکی ''خداکی قسم میں اپنے لئے نہیں رورہا ہوں '' ولا لھا من القتل أرثی'' اور نہ ہی قتل ہونے کے خوف سے میں مرثیہ کناں ہوں ؛ اگر چہ میں پلک جھپکتے تلف ہونا پسند نہیں کرتا تھا ''ولکن أبکی لأھلی المقبلین الیّ'' میں تو ان لوگوں پر آنسو بہارہاہوں جو میرے پیچھے آرہے ہیں ۔ ''ابکی لحسین و آل حسین (علیھم السلام) '' میں تو حسین اور اولاد حسین پر آنسو بہا رہاہوں ۔

۱۹۱

حضرت مسلم کی محمد بن اشعث سے وصیت

پھر حضرت مسلم علیہ السلام نے محمد بن اشعث کی طرف رخ کر کے فرمایا :''یاعبداللّٰه انّی أراک واللّٰه ، ستعجز عن أمانی، فهل عندک خیرتستطیع أن تبعث من عندک رجلاً علی لسانی يُبلغ حسیناً ، فا نی لا أراه الا قد خرج الیکم مُقبلاً أو هو خارج غداًهو وأهل بیته ، وان ما تری من جزع لذالک فیقول (الرسول) انّ ابن عقیل بعثن الیک وهو فی أید القوم أسیرلا یری أن یمش حتی یقتل وهو یقول : ارجع بأهل بیتک ، ولا یغرّک أهل الکوفة ! فانهم أصحاب ابیک الذی کان یتمنّی فراقهم بالموت أو القتل ! ان أهل الکوفه کذبوک و کذبون ! ولیس لمُکذَّب رأی !'' (١)

اے بندہ خدا !میں تو خدا کی قسم یہ دیکھ ر ہا ہوں کہ توعنقریب مجھے امان دلانے سے عاجز ہو جائے گا ؛ کیا تجھ سے نیکی کی امید کی جاسکتی ہے ؟کیا تم کسی ایسے شخص کو اپنی طرف سے بھیجنے کی قدرت رکھتے ہو جو میری زبانی حسین علیہ السلام کو پیغام پہنچادے ، کیو نکہ میں یہ سمجھتاہوں کہ وہ تم لوگوں کی طرف آنے کے لئے آج نکل چکے ہو نگے یا کل نکل جائیں گے جبکہ ان کے ہمر اہ ان کا پورا خاندان ہوگا۔تم جو ان آنسو ؤں کو دیکھ رہے تھے اس کا سبب یہی ہے ۔ وہ پیغام رساں جاکرامام حسین علیہ السلام یہ کہہ دے کہ ابن عقیل نے مجھے آپ کے پاس اس حال میں بھیجاہے کہ وہ گرفتار ہوچکے ہیں اور قدم بقدم شہادت کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔وہ اس عالم میں یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ اپنے اہل بیت کے ساتھ پلٹ جایئے! کہیں اہل کوفہ آپ کو دھوکہ نہ دے دیں کیونکہ یہ وہی لوگ ہیں جوآپ کے باباکے ساتھی تھے لیکن حضرت آرزو کرتے تھے کہ موت یا قتل کے ذریعہ ان سے جداہوجائیں ۔اہل کوفہ نے آپ کو جھٹلایااور مجھے بھی جھٹلایا اور جھوٹے شخص کی کوئی رائے اور کوئی نظر نہیں ہوتی ۔

اس پر محمد بن اشعث بولا:میں تمہارا پیغام ضرور پہنچاؤں گااور ابن زیاد کو ضروربتاؤں گاکہ میں نے تم کو امان دی ۔

____________________

١۔ ابومخنف کا بیان ہے کہ قدامہ بن سعید بن زائدہ بن قدامہ ثقفی نے اسے اپنے جد زائدہ سے ہمارے لئے روایت کی ہے۔ (طبری،ج٥،ص٣٧٢) شرح حال، مقدمہ میں ملا حظہ ہو۔

۱۹۲

مسلم قصر کے دروازے پر

محمدبن اشعث، ابن عقیل کوقصرکے دروازے تک لے کر آیا۔ اس وقت آپ بہت پیاسے تھے۔ ادھر محل کے دروازے پر لوگ بیٹھے اجازت کے منتظر تھے جن میں عمارة بن عقبہ ابی معیط ، عمرو بن حریث ، مسلم بن عمر و اور کثیر بن شہاب(١) قابل ذکر ہیں ۔ وہیں پر ٹھنڈے پانی کا کوزہ رکھا ہوا تھا۔ جناب مسلم نے کہا :''اسقونی من هذا المائ '' مجھے تھوڑا سا پانی پلادو! تومسلم بن عمر و باہلی بولا : تم دیکھ رہے ہو کہ یہ پانی کتنا ٹھنڈا ہے ! خدا کی قسم اس میں سے ایک قطرہ بھی تم کو نہیں پلایا جائے گایہاں تک کہ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں کھولتا ہوا پانی تمہارے نصیب ہو ۔

جناب مسلم نے کہا :''ویحک من انت ؟ '' واے ہو تجھ پر تو کون ہے؟

اس نے کہا : میں اس کا فرزند ہوں(٢) کہ جب تم نے حق ے انکار کیا تواس نے اس کو پہچان لیا اور جب تم نے اپنے امام حاکم سے ناسازگاری کا مظاہرہ کیا تو اس نے خیر خواہی کی اور جب تم نے اس کی نافرمانی اور مخالفت کی تو اس نے اس کی فرمانبر داری اور اطاعت کی ! میں مسلم بن عمرو باہلی ہوں ۔ جناب مسلم :'' لأمّک الثکل! ما أجفاک و ماأفظّک و أقسیٰ قلبک و أغلظک ! أنت یابن باهله أولیٰٰ با لحمیم والخلود فی نار جهنم منّی ''

تیری ماں تیرے ماتم میں بیٹھے! تو کتنا جفاکار ، خشن ، سخت دل اور بے رحم ہے ۔ اے فرزند باہلہ! جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ اور اس میں ہمیشگی تجھ پر زیب دیتی ہے نہ کہ ہم پر۔

____________________

١۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ جعفر بن حذیفہ طائی نے اس روایت کو بیان کیا ہے اور سعید بن شیبان نے حدیث کی تعریف کی ہے۔(طبری ،ج ٥، ص ٣٧٥)

٢۔کتابو ں میں یہی جملہ موجود ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ میں وہ ہو ں کیونکہ مسلم بن عمرو باھلی نے اپنے باپ کی تعریف نہیں کی ہے بلکہ اپنی تعریف و تمجید کی ہے ۔

۱۹۳

پھر آپ محل کی دیوار پر ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ یہ حال دیکھ کر عمروبن حریث مخزومی نے اپنے غلام سلیمان کو بھیجا اور وہ کوزہ میں پانی لے کر آیا۔(١)

اس کے اوپرایک رومال اور ساتھ میں ایک پیالہ بھی تھا۔اس نے پیالہ میں پانی ڈال کرجناب مسلم کو پینے کے لئے دیا لیکن جب بھی آپ پانی کو منھ سے لگاتے پیالہ خون سے بھر جاتا۔جب تیسری بار پیالہ خون سے بھر گیا اور پیتے وقت اس میں آگے کے دو دانت گر گئے تو حضرت مسلم نے فرمایا : '' الحمد للّہ ! لو کان لی من الرزق المقسوم شربتہ''(٢) اگر یہ پانی میرے رزق میں ہوتا تو میں اسے پی لیتا۔

اس کے بعد ابن اشعث نے اجازت چاہی تو اسے دربارمیں داخل ہونے کی اجازت مل گئی۔ اپنے ہمراہ وہ حضرت مسلم کو بھی ابن زیاد کی خدمت میں لیکر حاضر ہوا لیکن حضرت مسلم نے اسے امیر کے عنوان سے سلام نہیں کیا۔ نگہبان نے کہا : تم امیر کو سلام کیوں نہیں کرتے ۔

____________________

١۔ ابو مخنف نے یہا ں سے قدامہ بن سعید کی روایت کو کاٹ دیا ہے تاکہ سعید بن مدرک بن عمارہ بن عقبہ ابن ابی معیط سے حدیث بیان کری ں کہ اس نے اپنے غلام قیس کو پانی لانے کے لئے روانہ کیا تھا اورو ہ کوزہ آب لے کر آیا جبکہ روایت ظاہر میں قدامہ کی روایت کی طرف پلٹتی ہے اور ہم نے قدامہ بن سعید کی روایت کو جو اس نے اپنے جد زائدہ بن قدامہ ثقفی سے بیان کی ہے ترجیح دی ہے کیونکہ سعید بن مدرک جعل حدیث کے جرم میں متہم ہے، مثال کے طور پر اس نے اپنے جد عمارہ کی فضیلت میں حدیث گڑھی ہے جبکہ قدامہ کی روایت میں اس قسم کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ اس نے اسی روایت میں پانی لانے کے ذکرکو اپنے جدقدامہ سے منسوب نہیں کیاہے جبکہ وہ وہا ں موجودتھابلکہ اس کی نسبت عمرو بن حریث کی طرف دی ہے اور عمروبن حریث کی دو خصوصیت ہے؛ ایک تو ا س نے مختار کے سلسلہ میں نرمی سے کام لیاکیونکہ ابن زیاد کے سامنے ایسی گواہی دی کہ مختارکو قتل سے نجات مل گئی۔ دوسرے موقع پراس نے اس وقت ابن زیاد کے سامنے حضرت زینب کی سفارش کی جب وہ آپ کو مارنے کے لئے کمر ہمت باندھ چکاتھا۔ اگر چہ اس کا یہ عمل قریشی غیرت و حمیت کی بنیاد پر تھا لیکن عمارہ بن عقبةبن ابی معیط اموی تو اہل بیت علیہم السلام کاسخت دشمن ہے۔مقدمہ میں اس کے حالات گذرچکے ہیں ، وہا ں ملاحظہ کیجئے۔ شیخ مفید ارشاد ،ص ٢١٥،اور خوارزمی نے ص٢١٠پر اسی نظر کو اختیار کیاہے لیکن سماوی نے ص٤٥ پر دونو ں خبرو ں کو جمع کر کے یہ کہا ہے کہ دونو ں نے پانی لانے کو بھیجا تھا جب کہ یہ غلط ہے۔

٢۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے قدامہ بن سعید نے یہ روایت بیان کی ہے۔(طبری، ج٥،ص٣٧٥)

۱۹۴

جناب مسلم نے کہا :''ان کان یرید قتلی فما سلامی علیه وان کان لا یرید قتلی فلعمری لیکثرن سلامی علیه' 'اگر یہ مجھے قتل کرنا چا ہتا ہے تو پھر سلام کس لئے !اور اگرقتل نہیں کرنا چاہتا تو میری جان کی قسم میرا اس پربہت بہت سلام ہو ۔

ابن زیاد نے کہا : مجھے اپنی جان کی قسم ہے کہ تم ضرور بالضرور قتل کئے جاؤگے ۔

مسلم : ایسا ہی ہوگا ؟

ابن زیاد : ہاں ایساہی ہوگا

مسلم : تو پھر مجھے اتنی مہلت دے کہ میں کسی آشنا سے وصیت کر سکوں ۔

عمر بن سعد سے مسلم کی وصیت

یہ کہہ کر جناب مسلم علیہ السلام عبیداللہ کے درباریوں کی طرف نگاہ دوڑانے لگے تو سعد کے بیٹے عمر پر نظر پڑی۔ اس سے مخاطب ہو کر آپ نے فرمایا : '' یا عمر ! انّ بینی و بینک قرابة(١) ولی الیک حاجة وقد یجب لی علیک نجح حاجتی وھو سرّ ''اے عمر !میرے اور تمہارے درمیان رشتہ داری ہے اور تم سے مجھے ایک کام ہے جو راز ہے لہذا تم پر لازم ہے کہ میرے اس کام کو انجام دو۔

عمر سعد نے اس درخواست سے انکار کرنا چا ہاتو عبیداللہ نے کہا : اپنے چچا زادبھائی کی درخواست مت ٹھکراؤ ۔یہ سن کر عمر سعد اٹھا اور وہاں جا کر مسلم کے ہمراہ بیٹھا جہاں ابن زیاد بخوبی دیکھ رہاتھا۔ حضرت مسلم نے اس سے کہا : جب سے میں کوفہ میں آیاہوں اس وقت سے لے کر اب تک سات سو (٧٠٠) درہم کا مقروض ہو چکا ہوں اس کو تم میری طرف سے ادا کردینا۔

دوسری وصیت یہ کہ ہمارے جسد خاکی کو ان سے لے کر دفن کر دینااور تیسری وصیت یہ ہے کہ حسین علیہ السلام کی طرف کسی کو روانہ کر کے انہیں کوفہ آنے سے روک دینا کیونکہ لوگوں کی مسلسل

۱۹۵

١۔ جناب مسلم اور عمر سعد کے درمیان ایک قرابت تو قریش ہونے کی بنیاد پر تھی اور ماں کی طرف سے آپ بنی زہرہ جو بنی سعد کا قبیلہ ہے، سے متعلق تھے ۔

درخواست اور مسلسل بیعت کے بعد میں نے ا ن کو لکھ دیا تھا کہ لوگ آپ کے ساتھ ہیں لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ وہ راستہ میں ہوں گے ۔(١)

____________________

١۔ اشعث کے لڑکے سے وصیت کرنے کے بعد دوبارہ پسر سعد سے وصیت کرنے کا مقصد یہ تھا کہ شاید ان میں سے کوئی یک خبر پہنچادے۔

۱۹۶

مسلم علیہ السلام ابن زیاد کے رو برو

وصیت کے بعد ابن زیاد جناب مسلم سے مخاطب ہوا اور بولا : اے عقیل کے فرزند ! لوگوں کے کام اچھے سے چل رہے تھے اور سب ہمدل اور متحد تھے، تم نے ان کے شہر میں داخل ہوکر انھیں پراکندہ کردیا ، اختلاف اورکشمکش کا بیج ان کے درمیان ڈال دیا اور انھیں ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑاکیا ؛ سچ بتاؤ ! یہ عمل تم سے کیوں سرزد ہوا ؟

حضرت مسلم نے جواب دیا :'' کلا لست آ تیت و لکن أہل المصر زعموا أن أباک قتل خیار ھم و سفک دماء ھم و عمل فیھم أعمال کسری و قیصر فأ تینا ھم لنأ مر با لعدل و ندعوا لی حکم الکتاب'' ہر گز ایسا نہیں ہے، میں خود سے نہیں آیا ہوں بلکہ اس شہر کے لوگوں کو اس بات کا یقین ہے کہ تیرے باپ نے ان کے نیک بزرگوں کو قتل کیا ، ان کا خون بہایا ہے اوران کے درمیان قیصر و کسری کے بادشاہوں جیسا سلوک کیا ہے لہذا ان لوگوں نے ہم کو دعوت دی تاکہ ہم یہاں آکر عدل و انصاف قائم کریں اور حکم خدا کی طرف دعوت دیں ۔

عبیداللہ : اے خدا کے نا فر مان بندے !تجھے ان سب چیزوں سے کیا مطلب جب تو مدینہ میں بیٹھا شراب پی رہا تھا تو ہم ان کے درمیان عدالت اور کتاب خدا کے حکم کی بنیاد پر حکومت کررہے تھے۔

مسلم :'' أنا أشرب الخمر ! واللّٰه ان اللّٰه لیعلم أنک غیر صادق وأنک قلت بغیر علم وأنلست کما ذکرت وانّ أحق بشرب الخمر منّی و أولیٰ بها من یلغ فی دماء المسلمین و لغاً فیقتل النفس الت حرّم اللّٰه قتلهاو یقتل النفس بغیر النفس و یسفک الدم الحرام و یقتل علی الغضب والعداوة و سوء الظن ویلهو و یلعب کأنّ لم یصنع شیئاً''

۱۹۷

میں شراب پی رہا تھا ! خدا کی قسم خدا جانتا ہے کہ تو سچانہیں ہے اور تو نے علم ودانش کے بغیریہ جملہ کہا ہے؛ میں ویسا نہیں ہوں جیساتونے ذکر کیا ہے ،شراب خوار اور مست تووہ ہے جو مسلمین کے خون سے آ غشتہ ہے،جو ایسے نفوس کو قتل کرتاہے جنہیں قتل کرنے سے اللہ نے روکاہے اور جوبے گناہ لوگوں کو قتل کیاکرتاہے ، حرام خو ن کے سیلاب بہاتاہے اور غصہ ، دشمنی اور بد گمانی کی بنیاد پر لو گو ں کو قتل کیاکرتاہے، لھو ولعب وعیش و نوش میں مشغول رہتا ہے اور اس طرح زندگی گذارتا ہے جیسے کوئی خیانت اور بیہودگی انجام ہی نہ دی ہو ؛ایسے شخص پر شراب خواری زیب دیتی ہے نہ کہ ہم پر ۔

ابن زیاد : اے فاسق !یہ تیری ہوی و ہوس ہے جسے خدانے تیرے لئے قرار نہیں دیا؛بلکہ تیری اس آرزوکے درمیان حائل ہوگیا اور تجھے اس کا اہل نہیں سمجھا ۔

مسلم :''فمن أهله ؟ یابن زیاد ! ''اے ابن زیاد ! تو پھر اس کا اہل کون ہے ؟

ابن زیاد : امیر المومنین یزید اس کے اہل ہیں ۔

مسلم :''الحمد للّه علی کل حال ، رضینا با للّٰه حکماً بیننا و بینکم'' خدا کا ہر حال میں شکر گذار ہوں اور اس پر راضی ہوں کہ وہ ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرنے والا ہے ۔

ابن زیاد : ایسی باتیں کررہے ہو کہ گویا قوم و ملت کی پیشوائی اور ان پرحکومت تمہارا حق ہے ۔

مسلم :''واللّه ما هو با لظن ولکنه الیقین ''خدا کی قسم اس میں ذرہ برابر گمان نہیں بلکہ یقیناً یہ ہماراہی حق ہے۔

ابن زیاد :اللہ مجھکو قتل کر دے اگر میں تم کو اس طرح قتل نہ کروں جس طرح پورے اسلام کی تاریخ میں اب تک کسی کو قتل نہیں کیا گیا ہے۔

۱۹۸

مسلم :''أما انک لاتدع سوء القتلة و قبح المثله و خبث السیرة و لؤم الغلبة ولا أحد من الناس أحق بها منک'' ہاں !بے دردی سے قتل کر نے ،بری طرح جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے ، خبیث اور پلید سرشت اور ملامت آمیزعادت کی کثرت کو تم کبھی نہ ترک کرنا تیرے علاوہ ایسا برا کام کوئی انجام بھی نہیں دے سکتا ہے۔ اوباشوں کا ہتھیار گالی ہے لہذا حضرت مسلم علیہ السلام کی عقل آفرین گفتگو اور اپنی قلعی کھلنے کے بعد سمیہ(١) کے فرزند کوجب کوئی جواب نہیں ملا تو اس نے امام حسین ، حضرت علی اور جناب عقیل کو گالیاں دینا شروع کر دیا ۔

حضرت مسلم علیہ السلام کی شہادت

پھر ابن زیاد بولا : اسے محل کی چھت پر لے جاؤاور اس کی گردن مار دو ،اس کے بعد اس کے جسد کو زمین پر پھینک دو ۔یہ وہ موقع تھاجب جناب مسلم نے اشعث کے لڑکے کو مخاطب کر کے فرمایا :'' یابن الاشعث اماواللّٰه لولاانک آمنتنی ما استسلمت ، قم بسیفک دونی فقد أخفرت ذمتک'' (٢) اے اشعث کے فرزند! خدا کی قسم اگر تو نے امان دینے کا وعدہ نہ کیا ہوتا تو میں جنگ سے کبھی بھی دست بردار نہ ہوتالہذا اب اٹھ اور جسے وعدۂ امان دیا ہے اس کاجواں مردی کے ساتھ دفاع کرکیونکہ تیری حرمت اور تیرے حقوق پامال کئے جارہے ہیں ۔

یہ سنتے ہی محمد بن اشعث آگے بڑھا اور ابن زیاد کے پاس آکر جناب مسلم کے زخمی ہونے ، بکیر بن حمران پر حملہ کرنے اور اپنے امان دینے کا سارا واقعہ ابن زیاد سے کہہ سنایا اور اس بات کی بھی صراحت کی کہ میں نے انہیں امان دی ہے؛ لیکن عبید اللہ بن زیاد بولا : تمہارے امان دینے سے کیاہوتا ہے،کیا ہم نے تمہیں امان دینے کے لئے بھیجا تھا ؟ہم نے تو تم کو فقط اس لئے بھیجا تھاکہ تم اسے لے آؤ ۔یہ سن کر محمد بن اشعث خاموش ہوگیا ۔(٣)

____________________

١۔'' سمیہ ''زیاد کی ما ں زمانہ جاہلیت میں برے کامو ں کی پرچم دار تھی۔ ابو سفیان اور دوسرے مردو ں نے اس سے زنا کیا جسکے نتیجہ میں زیاد کا وجود دنیا میں آیا ۔باپ کے سلسلہ میں اختلاف شروع ہوایہا ں تک کہ نوبت قرعہ پر آئی۔ تیرو ں کو پھینک کر قرعہ کیا گیاتوقرعہ ابو سفیان کے نام نکلا لیکن ہمیشہ اسے بن زیادبن سمیّہ ہی کے نام سے یاد کیا گیا یہا ں تک کہ معاویہ نے اسے اپنے باپ سے نسبت دیتے ہوئے اسے اپنا بھائی قرار دیا جو دین اور عرف کی نظر میں معاویہ کا ایک بد ترین عمل تھا ۔

٢۔ابو مخنف کابیان ہے کہ مجھ سے سعید بن مدرک بن عمارہ نے اپنے جد عمارہ بن عقبة بن ابی معیط کے حوالے سے اس حدیث کو ذکر کیا ہے ۔(طبری ،ج٥،ص ٣٧٦)

٣۔ابومخنف کابیان ہے کہ جعفر بن حذیفہ طائی نے مجھ سے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔(طبری ،ج٥،ص ٣٧٥)

۱۹۹

پھرا بن زیادبولا: کہاں ہے وہ شخص جس کے سر اور شانے پر ابن عقیل نے ضرب لگائی تھی؟ یہ کہہ کر اسے بلایا او ر اس سے یو ں مخاطب ہوا : اسے لے کر اوپر جاؤ اور اس کا سر قلم کر کے اپنا انتقام لے لو !یہ سنتے ہی بکیرا حمری ''حضرت مسلم'' کو لے کر محل کی چھت پر اس حالت میں آیا کہ آ پ کی زبان پر تکبیر (اللّہ اکبر) واستغفار (استغفراللّہ ...) تھا اور آپ ملائکہ الہٰی اور خدا وندعالم کے رسولوں پر درود و سلام بھیج رہے تھے اور باربارزبان پر یہ فقرے جاری ہو رہے تھے:''اللهم احکم بیننا و بین قوم غرّونا و کذّبونا و أذلّونا' ' خدا یا !ہمارے اور اس قوم کے درمیان فیصلہ کر جس نے ہمیں دھوکہ دیا ، ہمیں جھٹلایا اور ذلیل کیا !

بکیر بن حمران احمری آپ کو چھت کے اس حصہ کی طرف لے گیا جو اس وقت قصابوں کی جگہ تھی(١) اور وہیں پر آپ کا سر قلم کر کے آپ کو شھید کر دیا۔ سر کاٹنے کے بعداسے نیچے پھینک دیا اوراس کے فوراً ہی بعد جسم کو بھی نیچے ڈال دیا۔

قتل کر نے کے بعد بکیر بن حمران احمری جس نے ابھی ابھی جناب مسلم کو شہیدکیا تھا نیچے اترا تو ابن زیاد نے اس سے پو چھا : اسے قتل کردیا ؟ بکیرنے کہا: ہاں ۔

ابن زیاد نے سوال کیا : جب تم اسے اوپر لے جارہے تھے تو وہ کیا کہہ رہا تھا ؟

بکیر: وہ تکبیر، تسبیح اور استغفار کررہا تھا اور جب میں نے اس کو قتل کرنے کے لئے اپنے سے قریب کیا تو اس نے کہا :''اللهم احکم بیننا وبین قوم کذّبو نا وغرّوناوخذ لونا وقتلونا'' خدا! تو ہی ہمارے اور اس قوم کے درمیان فیصلہ کر جس نے ہمیں جھٹلا یا ، دھوکہ دیا ، تنہاچھوڑ دیا اور قتل کردیاپھر ہم نے اس سے کہا : میرے نزدیک آ !جب وہ نزدیک آیا تو میں نے ایسی ضربت لگا ئی کہ وہ سنبھل نہ سکا پھر ہم نے دوسری ضربت میں اسے قتل کردیا۔

____________________

١۔ارشادمیں ص ٢١٦پر شیخ مفید نے الحذا ئیین لکھا ہے یعنی جوتے والو ں کی جگہ اور خوارزمی نے ص٢١٥پر سوق القصابین لکھا ہے یعنی قصا بو ں کا بازاراورص٢١٤ پرلکھاہے کہ وہ جگہ جہا ں بکریا ں بیچی جاتی تھی ں ۔ طبری کی عبارت سے مذکورہ مطلب زیا دہ قابل ترجیح ہے''الیوم''سے مرادابومخنف کا زمانہ ہے کیونکہ اس زما نے میں بالا خانہ کے اس حصہ سے وہ علاقہ دکھائی دیتا تھا ۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438