واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا9%

واقعۂ کربلا مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 438

واقعۂ کربلا
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 438 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 202930 / ڈاؤنلوڈ: 5692
سائز سائز سائز

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

اس گفتگو کے بعد وہ گیا اور جناب مسلم کا سر لا کر ابن زیاد کی خدمت میں پیش کر دیا ۔(١) تقرب جوئی کے لئے اس وقت عمر بن سعد نے آگے بڑھکر ابن زیاد سے کہا : آپ کو معلوم ہے کہ مسلم مجھ سے کیا کہہ رہے تھے ؟ اوراس نے ساری وصیت ابن زیاد کے گوش گزار کردی تو ابن زیادنے مذاق اڑاتے ہوئے کہا : امین خیانت نہیں کر تا؛ ہا ں کبھی کبھی خائن پر امین کا دھو کہ ہو تا ہے۔(٢)

اس وصیت میں جو چیز یں تم سے مربوط ہیں اس سے ہم تم کو منع نہیں کرتے، تمہا را جو دل چاہے کرو اسکے تم مالک ہو۔(٣)

لیکن حسین نے اگر کوفہ کا رخ نہیں کیا تو ہمیں ان سے کوئی مطلب نہیں ہے اور اگر وہ ادھر آئے تو ہم انھیں نہیں چھوڑیں گے۔ اب رہا سوال مسلم کے جسم کا تو جب ہم نے قتل کر دیا ہے اب ہم کو اس کے جسم سے کوئی مطلب نہیں ہے جس کو جو کرنا ہے کرے ۔(٤)

____________________

١۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ صقعب بن زہیرنے عون بن ابی حجیفہ کے حوالے سے مجھ سے یہ روایت نقل کی ہے۔(طبری، ج٥، ص٣٧٨)

٢۔ جب پسر سعد نے یہ دیکھا ابن زیاد جناب مسلم کے قاتل ابن حمران سے حضرت کے قتل کے احوال پوچھ رہا ہے تو تقرب جو ئی اور چاپلو سی میں بغیر پو چھے ابن زیاد کو جناب مسلم کی ساری وصیت سنادی تو ابن زیاد نے اسے خیانت کا رکہا ،ہا ں چاپلوسو ں کا نیتجہ ایسا ہی برا ہو تا ہے۔

٣۔ ''ما لک '' کہنے کا مطلب یہ ہے کہ گویا اسے ابن زیاد نے جناب مسلم علیہ السلام کاوارث قرار دیا ہے۔

٤۔ بعض روایتو ں میں یہ جملہ ہے :اس سلسلہ میں ہم تیری سفارش قبول نہیں کری ں گے کیونکہ وہ ہمارے افراد میں سے نہیں ہیں ۔ انھو ں نے ہم سے جہاد کیا ، ہماری مخالفت کی اور ہماری ہلاکت کی کوشش کی ہے۔ (طبری ،ج٥،ص٣٧٧)اسی روایت ابومخنف میں یہ عبارت ہے کہ'' وزعموا انہ قال...''

۲۰۱

جناب ہانی کی شہادت

جناب مسلم بن عقیل (علیہ السلام) امام علیہ السلام کے شجاع اور بہادر سفیر کی شہادت کے بعد ابن زیاد نے جناب ہانی کے قتل کا حکم جاری کر دیا اور محمد بن اشعث کودیئے گئے وعدہ کو کہ ہانی کواس کے حوالے کر دے گا تاکہ وہ اپنی قوم کی عداوت اور دشمنی سے بچ سکے، وفا کرنے سے انکار کر دیا۔ابن اشعث

کی گزار ش کاسبب یہ تھاکہ وہی جناب ہانی کے پاس گیاتھااور انہیں لیکر آیاتھا۔ابن زیاد نے اپنے و عد ہ سے مکرنے کے بعد فورا ًحکم دیاکہ انہیں بازار میں لے جاؤ اور گردن اڑادو ۔

اموی جلاد اس شریف النفس انسان کا ہاتھ باندھے ہوئے ان کو بازار کی طرف لے کر چلے جہاں بکریاں بیچی جاتی تھیں ۔جب یہ افر ادجناب ہانی کووہاں لے کر آئے توآپ آوازدے رہے تھے: ''وامذحجاہ ولامذحج لی الیوم !وامذحجاہ وأین منی مَذحِج ''ہائے قبیلہ ٔمذحج والے کہاں گئے، کو ئی مذحج والامیری مددکو کیوں نہیں آتا؟'' وامذحجاہ '' ارے میرے مذحجی افراد کہاں ہیں ؟جب دیکھاکہ میری مدد کو کوئی نہیں آتاتو اپنی ساری طاقت و قدر ت کو جمع کر کے ایک بار ہاتھو ں کو جھٹکادیااوردیکھتے ہی دیکھتے ساری رسیاں ٹوٹ گئیں پھر فرمایا: کیاکوئی عصا ،خنجر،پتھر یاہڈی نہیں ہے جس سے میں اپنادفاع کرسکوں لیکن ان جلادوں نے چاروں طرف سے ان کو گھیر لیااور دوبارہ رسیو ں سے کس کر جکڑ دیاپھرکسی ایک نے کہا: اپنی گردن اٹھاؤ تاکہ تمہاراکام تمام کر دیاجائے ۔

جناب ہانی نے جواب دیا: میں کبھی ایساسخاوت مند نہیں ر ہاکہ اپنے حق حیات ا ور زندگی کوپامال کر نے کے لئے کسی کی مددکرو ں اسی اثنامیں عبیداللہ کاترکی غلام رشید(١) آگے بڑھااور تلوار سے جناب ہانی پر ایک ضرب لگائی لیکن اس کی تلوار جناب ہانی کاکچھ نہ بگاڑ پائی تو ہانی نے کہا :''الیٰ اللّٰه المعاد !اللهم الی رحمتک و رضوانک'' خداہی کی طرف برگشت ہے، خدایا!تیری رحمت اوررضایت کی آرزو ہے ۔وہ پھر آگے بڑھااوردوسری مرتبہ آپ پر وار کر دیا۔ اس ضربت سے آپ نے جام شہادت نوش فر مایا۔(٢) آپ پر خداکی رحمت ہو۔

____________________

١۔عبدالرحمن بن حصین مرادی نے اسے عبیداللہ بن زیاد کے ہمراہ قلعہ کے پاس دیکھا اورلوگو ں نے کہناشروع کردیاکہ یہ ہانی بن عروہ کاقاتل ہے تو حصین کے لڑکے نے اس کی طرف تیر چلاکر اسے قتل کر دیا۔(طبری، ج٥،ص ٣٧٩؛ارشاد، ص ٢١٧؛تذکرةالخواص)

٢۔ ابو مخنف کا بیا ن ہے کہ صقعب بن زہیر نے عون بن ابی جحیفہ کے حو الے سے مجھ سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥،ص٣٧٨)

۲۰۲

اسکے بعد یہ جلاد آپ کا سر لے کر ابن زیادکے پاس چلے گئے۔(١)

تیسرا شہید :

جناب مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ کی شہادت کے بعد ابن زیاد نے عبدالاعلی کلبی کو بلایا جسے قبیلہ بنی فتیان کے محلہ سے کثیر بن شہاب نے پکڑااور ابن زیاد کے پاس لے کر آیا تھا۔ابن زیاد نے اس سے کہا : اپنی داستان سناؤ ۔

تو اس نے کہا : اللہ آپ کو سلامت رکھے !میں اس لئے نکلا تھا تاکہ دیکھوں کہ لوگ کیا کر رہے ہیں ،اسی اثنا ء میں کثیربن شہاب نے مجھے پکڑلیا ۔

ابن زیاد : تجھے سخت وسنگین قسم کھانی پڑے گی کہ تو فقط اسی کام کے لئے نکلا تھا جس کا تجھے گمان ہے تو اس نے قسم کھا نے سے انکار کر دیا۔

ابن زیاد نے کہا اسے میدان میں لے جاؤ اور اس کی گردن اڑادو !جلادوں نے حکم کی تعمیل کی اور اس کا سر فوراً قلم کردیا۔

چو تھا شہید :

اس بندئہ خدا کی شہادت کے بعد عمارہ بن صلخب ازدی کو لا یا گیا جو جناب مسلم بن عقیل کی مدد کے لئے نکلے تھے اور انھیں گرفتار کر کے ابن زیاد کے پاس پہنچا دیا گیا تھا۔ابن زیاد نے ان سے پو چھا : تم کس قبیلہ سے ہو؟ انھوں نے جواب دیا'' ازد'' سے تو ابن زیاد نے کہا : اسے اس کے قبیلہ والوں کے پاس لے جاؤ اور اس کی گر دن اڑا دو۔(٢)

____________________

١۔ یہا ں پر طبری نے اس بات کو بیان نہیں کیاہے کہ ان دونو ں بزرگ شخصیتو ں کے پیر میں رسی باندھ کر انہیں کو فہ کے بازار و ں میں کھینچا جارہاتھا؛ لیکن مذکورہ روایت کو بیان کرنے کے بعد خو د ابومخنف ہی سے ابی جناب کلبی کے حوالے سے نقل کیاہے کہ اس نے'' عدی بن حرملہ اسدی'' سے اس نے'' عبداللہ بن سلیم'' اور'' مذری بن مشمعل'' (یہ دونو ں قبیلہ اسد سے متعلق تھے) سے اس نے ''بکیر بن مثعبہ اسدی'' سے نقل کیاہے کہ اس نے کہا: میں اس وقت تک کوفہ سے باہر نہیں نکلا تھا یہا ں تک کہ مسلم اور ہانی بن عروہ شہید کردئے گئے اور میں نے دیکھا کہ ان دونو ں کے پیرو ں میں رسی باندھ کر کوفہ کے بازار میں کھینچاجارہاہے۔ (ج٥ ،ص ٣٩٧)خوارزمی نے ج٢، ص ١٢٥ پر اور ابن شہر آشوب نے ج ٢،ص ٢١٢ پر ذکر کیا ہے کہ ابن زیاد نے کوفہ کے کوڑے خانہ پر ان دونو ں کو الٹا لٹکا دیا تھا ۔

٢۔ طبری، ج٥، ص ٣٧٨، ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے صقعب بن زہیرنے عون بن ابی جحیفہ کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے ۔

۲۰۳

مختار قید خانہ میں

جب دوسرے دن کا سورج نکلا اور عبیداللہ بن زیاد کے دربار کا دروازہ کھلا اور لوگوں کو دربار میں آنے کی اجازت ملی تو لوگ آہستہ آہستہ دربار میں آنے لگے انہیں آنے والوں میں مختار بھی تھے ۔ عبیداللہ نے انہیں پکارا اور کہاکہ سناہے تم ،لوگوں کو مسلم بن عقیل کی مدد کے لئے اکٹھا کر رہے تھے اور انھیں اکسا رہے تھے ؟

مختار : نہیں ایسا نہیں ہے، میں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا بلکہ میں تو کل آیا اور عمر وبن حریث کے زیر پرچم آگیا ، شب اسی کے ہمراہ گذاری اور صبح تک اسی کے پاس رہا ۔ عمرو بن حریث نے کہا : ہاں یہ سچ کہہ رہے ہیں ؛ آپ کو اللہ سلامت رکھے ؛لیکن ابن زیاد نے چھڑی اٹھائی اور مختار کے چہرے پر مار مار کر ان کی پیشانی ، آنکھ ، اور پلک کو زخمی کر دیایہاں تک کہ مختارکی آنکھیں ٹیڑھی ہو گئیں ؛ اس کے بعد بولا : تیرے لئے یہی سزاوار ہے۔ خدا کی قسم! اگر عمرو نے گواہی نہ دی ہوتی تو میں ابھی تیری گردن اڑادیتااور حکم دیا کہ اسے فور اً لے جاکرقید خانہ میں ڈا ل د و ۔کارندوں نے فوراً حکم کی تعمیل اور مختار کو قید خانہ میں ڈال دیا۔ یہ اسی طرح قید خانہ میں مقید رہے یہاں تک کہ امام حسین علیہ السلام شہید ہو گئے۔(١)

یزید کے پاس سروں کی روانگی

ان خدا جْو، ظلم ستیز ، اور باطل شکن افراد کی شہادت کے بعد عبیدا للہ بن زیاد نے ہانی بن ابی حیہ و داعی کلبی ہمدانی اور زبیر بن ارواح تمیمی کے ہمراہ جناب مسلم بن عقیل اور حضرت ہانی بن عروہ کے سروں کو یزید بن معاویہ کی خدمت میں روانہ کر دیا اور اپنے کاتب عمروبن نافع کو حکم دیا کہ یزید بن معاویہ کے خط میں ان باتوں کی تصریح کر دے جو مسلم اور ہانی پر گزری ہے۔عمرونے ایک لمبا چوڑا خط لکھنا شروع کردیا۔جب ابن زیاد کی نظر اس پر پڑی تو اسے برالگا اس پر اس نے کہا : یہ اتنا لمبا کیا لکھا جا رہا ہے اور یہ فضول باتیں کیا ہیں ؟ اب میں جو بتا رہا ہوں وہی لکھو !پھر اس نے اس طرح خط لکھوانا شروع کیا:

____________________

١۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ نضر بن صالح نے کہا ہے۔(طبری ج٥ ،ص ٥٦١)

۲۰۴

اما بعد اس خدا کی حمد و ثنا جس نے امیر المومنین کا پاس رکھا اور دشمنوں کی خراب کاریوں کو خود ہی درمیان سے ہٹا دیا۔امیر المومنین کی خدمت میں یہ خبر پیش کی جاتی ہے۔ خدا ان کو صاحب کرم قرار دے کہ مسلم بن عقیل نے ہانی بن عروہ مرادی کے گھر پناہ لی تھی اور میں نے ان دونوں کے اوپر جا سوس معین کر دیا تھا اور پورا پلان بناکر ان دونوں کو اپنے چنگل میں لے لیا اور خدا نے مجھے ان دونوں پر قدرت عطا فرمائی لہذا میں نے ان دونوں کے سر اڑا دیئے اور اب آپ کی خدمت میں ان دونوں کے ، سر ہانی بن ابی حیہ کلبی اور زبیر بن ارواح تمیمی کے ہمراہ روانہ کر رہاہوں ۔ یہ دونوں حکومت کے خیر خواہ ،فرمانبر دار اور بے چوں و چرا باتوں کو سننے والے ہیں ۔ امیر المومنین عراق کے حالات کے سلسلہ میں ان دونوں سے جو پوچھنا چاہتے ہیں پو چھ لیں کیونکہ یہ حالات سے آگاہ، سچے ، بافہم اور صاحب ورع ہیں ۔والسلام

یزید کا جواب

یزید نے اپنے خون آشام جلادکو اس طرح جواب دیا: امابعد، تم حکومت اور نظام کے دفاع میں ویسے ہی ہو جیسا کہ میں چاہتا تھا۔تمہارا کام دور اندیشی پر مبنی آئندہ نگر اور شجاعانہ ہے۔ وہاں کی حکومت کے لئے تم نے اپنی لیاقت اور صلاحیت ثا بت کر دی اور جو امیدیں تم سے وابستہ تھیں اسے عملی جامہ پہنادیا اور اپنے سلسلہ میں میرے گمان اور میری رائے کو واضح اور سچا کر دکھایا۔ تمہارے ان دو پیغام رسانوں کو میں نے بلایا اوران سے عراق کے حالات کے بارے میں سوال بھی کیا تو ان کے فہم و شعور وادراک کو ویساہی پایا جیسا کہ تم نے لکھاتھا ۔ میری تم سے ان کے سلسلہ میں سفارش ہے کہ ان کے ساتھ نیکی کے ساتھ پیش آؤ! مجھ تک یہ خبر پہنچی ہے کہ حسین بن علی نے عراق کی راہ اختیار کر لی ہے اور تمہاری طرف بڑھ رہے ہیں ۔

۲۰۵

اس سلسلہ میں تم حساس جگہوں پر پولس کی چوکی اورحفاظتی پہرے بیٹھادو تا کہ دور سے سب کی آمدو رفت پر نظر رکھ سکو اور اسلحوں سے لیس جوانوں کو آمادہ رکھو ؛کہیں ایسا نہ ہو کہ یکایک حالات بگڑ جائیں ؛اورتم کو جو کوئی بھی مشکوک دکھائی دے اسکے بارے میں نگران رہو اور ذرہ برابرشک کی صورت میں بھی اس کو گرفتار کرلو لیکن یاد رہے کہ قتل اسی کو کرو جو تم سے مقابلہ کرے اورہر رونماہونے والے واقعہ کی خبر ہم تک پہنچاتے رہو ۔ والسلام علیک ورحمة اللہ(١)

٨ذی الحجہ ٦٠ھ منگل کے دن جناب مسلم علیہ السلام نے اموی جلاّد کے خلاف قیام کیاتھا۔ جس دن حضرت مسلم بن عقیل نے خروج کیا تھا امام حسین علیہ السلام نے ٹھیک اسی دن یعنی یوم الترویہ کو مکہ چھوڑ دیا ۔(٢) جناب مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ کی شہادت پر عبدا للہ بن زبیر اسدی نے اشعار کہے اور فرزدق نے بھی اس سلسلہ میں یہ اشعار کہے ہیں :

ان کنت لا تدرین ما الموت فا نظری---الی هانیٔ فی السوق و ابن عقیل

الی بطل قد هشّم السیفُ وجههوآخر یهو من طمار قتیل

أصابهما أمرالأ میر فأ صبحا---احادیث من یسر بکل سبیل

تری جسداً قد غيّرالموت لونهو نضح دم قد سال کلّ مسیل

فتی هوأ حیی من فتاة حیيةٍ---وأقطع من ذی شفرتین صقیل

أیرکب أسماء الهما لیج آمناً---وقد طلبته مذحج بذحول

تطوف حو ا لیه مر ا د و کلّهم---علی رقبة من سائل و مسول

فا ن انتم لم تثأر و ا بأ خیکم---فکونوا بغایا أرُضِيَت بقلیل(٣) و(٤)

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے یہ روایت ابو جناب یحٰبن ابی حیہ کلبی نے بیان کی ہے۔(طبری ،ج٥، ص ٣٨٠) یحییٰ بن ابی حیہ کلبی ابو جناب ہانی بن ابی حیہ کا بھائی ہے جو مسلم وہانی کا سر لے کر یزید کے پاس گیا تھا۔ ایسا محسوس ہو تا ہے کہ اس کے بھائی نے اس خبر کو فخر و مباہات میں ابو مخنف سے بیان کیا ہے کیونکہ ابن زیاد نے اس کے علم ، صدق، فہم اور ورع کی توصیف کی تھی جس کی یزید کی طرف سے تصدیق بھی ہوئی تھی۔ ہا ں ایسی حماقت اور ایسے افعال کا ''کلابیو ں '' سے سر زد ہونا بعید نہیں ہے ۔

٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ صقعب بن زہیر نے عون بن ابی جحیفہ کے ذریعہ مجھ سے یہ روایت بیان کی ہے۔(طبری ،ج٥ ، ص ٣٧٨)

٣۔ ابومخنف کا بیان ہے کہ صقعب بن زہیر نے عون بن ابی جحیفہ کے حوالے سے مجھ سے یہ روایت نقل کی ہے۔(طبری، ج٥، ص ٣٨١)

٤۔ طبری نے عمار دہنی کے حوالے سے امام محمد باقر علیہ السلام سے حدیث بیان کی ہے کہ آپ نے فرمایا : ان لوگو ں کے شاعر نے اس سلسلے میں یہ کہا ہے اور ان اشعار میں سے تین بیتو ں کو کو ذ کر کیا ہے جس کا پہلا مصرع ''فان کنت لا تد رین ماالموت فا نظری'' (طبری، ج٥ ،ص ٣٥٠) لیکن یہا ں پہلے مصرع میں '' ان کنت لا تدرین'' ذکر کیا ہے جو غلط ہے کیونکہ

۲۰۶

اس سے مصرع وزن سے گر رہا ہے ، زبیر کے ''ز'' پر زبر ہے ۔شائد طبری نے اسے ابن اثیر کی الکا مل، ج٤،ص ٣٦، اور مقاتل الطا لبیین سے لیا ہے۔اصفہا نی نے مذکو رہ شخص کی شان میں یہ کہا ہے : ان کا شمارشیعو ں کے بزرگ اور برجستہ محدثین میں ہو تا ہے۔عبادبن یعقوب رواجنی متوفی ٢٠٥ھ اور اس جیسے افراد اور جو اس سے بزرگتر تھے انھو ں نے زبیر سے روایت ں نقل کی ہیں ۔ (الا غانی ،ص ٢٩٠) اس کے علاوہ اور بھی لوگو ں نے ان سے روایت نقل کی ہے یہ محمد بن عبد اللہ بن حسن صاحب نفس ذکیہ کے اصحاب میں شمار ہو تے ہیں جو ١٤٥ھ میں منصور کے عہد میں شہید کئے گئے پھر اصفہانی کہتے ہیں : یہ ابو احمد زبیر ی معروف محدث کا باپ ہے (اغانی ،ص ٢٩٠) جس کا نام محمد بن عبد اللہ بن زبیر ہے؛ کشی نے عبد الر حمن بن سیا بتہ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا : امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھے کچھ دینا ر دے کر حکم دیا کہ یہ دینا ر ان لوگو ں کے عیال کے در میان تقسم کردو ں جو آپ کے چچا زید کے ہمراہ شہید ہو گئے میں نے ان کے درمیا ن و ہ دینار تقسم کردیئے جس میں سے ٤ دینارعبد اللہ بن زبیر الرّسان کے عیال تک پہنچا دیئے۔ (رجال کشی، رقم٦٢١) شیخ مفید نے ارشاد میں ابو خالد واسطی سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں : امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھے ایک ہزار دینار دے کر حکم دیا کہ اسے ان لوگو ں کے درمیان تقسم کر دو ں جوزید کے ہمراہ مصیبتو ں میں گرفتار ہوئے۔ فضیل رسان کے بھائی عبد اللہ بن زبیر کو ان میں سے ٤ درہم میسر ہوا ۔(الا رشاد ،ص ٢٦٩) شاید اس نام کے دو افراد ہیں کیونکہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اصفہانی نے عبد اللہ بن زبیرکو شیعو ں کے برجستہ اور بزرگ محدثین میں شمار کر نے کے بعد اغانی کی ج١٣،ص ٣١پر اس بات کی تصریح کی ہے کہ وہ بنی امیہ کا پیر وتھا اور دل سے ان سے لگا ؤ رکھتا تھا اور بنی امیہ کے دشمنو ں کے مقا بلہ میں ان کی مدد ونصرت کر نا چا ہتا تھا اوراس سلسلے میں بے حد متعصب تھا۔وہ ان کے اور ان کے کا رمندو ں کے اوپر کسی کو تر جیح نہیں دیتا تھا۔ زیاداس کی ستائش اور اس کے ساتھ عطا و بخشش کرتا تھا اوراس کے قرضو ں کو بھی ادا کر تا تھا۔ ابن زیاد کے بارے میں ابن زبیر کی زبانی بہت ساری مدح وستائش موجود ہیں ۔اسی طرح اسما ء بن خارجہ فزاری کی مدح میں بھی اس کے اشعار موجود ہیں ۔(اغانی، ج٣١، ص ٣٣و ٣٧) سید مقرم نے اپنی کتاب ''الشھید مسلم ''میں اس مطلب کو ذکر کیاہے اور فرمایاہے : آیا کسی کے لئے یہ سزاوار ہے کہ مسلم اورہانی کے سلسلہ میں اس قسم کے اشعار کو ایسے شخص کی طرف نسبت دے جس کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ بنی امیہ کی طرف میلان رکھتاتھااوران کی مدح وستائش میں اس کے اشعار موجود ہیں ؟پھر سید مقرم نے ترجیح دی ہے کہ یہ اشعار فرزدق کے ہیں جوانھو ں نے ٦٠ھ میں حج سے لوٹتے ہوئے کہے تھے۔ (الشھید مسلم، ص ٢٠١)اصفہانی نے ان اشعا ر کو ابن زبیر اسدی مدائنی کی طرف منسوب کیا ہے اور اس نے ابو مخنف سے اور اس نے یوسف بن یزید سے روایت کی ہے ۔

اگر تم کو نہیں معلوم ہے کہ افتخار آمیزموت کیا ہوتی ہے تو ہانی اور مسلم بن عقیل کی موت کو بازار میں دیکھ لو جو انتہائی شجاع و بہادراور دلیر ہیں ،جن کے چہرے کو ظلم کی شمشیر نے لہو لہان کردیا اور وہ دوسرا دلیر جس کے خون سے آ غشتہ جسم قصر کے اوپر سے پھینک دیا گیا ۔ امیر عبیداللہ کا بیداد گر اور خشونت و

۲۰۷

بربریت پر مبنی وہ حکم تھا جس نے ان دونو ں کو یہا ں تک پہنچادیا اور اب ان کی شہامت و شجاعت کی سر گذشت آئندہ نسلو ں کے لئے ایک داستان ہوگئی ۔ ان کے بے جان جسم کو دیکھو جس کے رنگ کوموت نے بدل دیا ہے اور سرخ خون ان کے جسم کے ہر حصہ میں روا ں ہے ۔ یہ وہ جوا ں مرد تھے جو شرم و حیا میں دوشیزگان سے بھی زیادہ حیا دار تھے اوربرش میں شمشیر دودم اور صیقل شدہ سے بھی زیادہ ان میں کاٹ تھی ۔ کیا اسماء بن خارجہ فزاری جو اموی جلاد کی جانب سے ان کے پاس گیا تھا اور فریب و دھوکہ دیکر ان کو ابن زیاد کے پاس لے کر آیا، وہ کوفہ کی گلیو ں میں امن و امان کے ساتھ اپنے مرکب پر بیٹھ کر گذرسکتا ہے ؟ جب کہ قبیلہ مذحج ہانی کے پاک خون کا اس سے طلب گار ہے ؟ ادھر قبیلہ مراد اس کے ارد گرد سائلو ں کی طرح گھوم رہاہے ۔ ہا ں جان لوکہ اگر تم نے اپنے سرو ر و سردار کے خون کا انتقام نہ لیا تو تم وہ فاحشہ عورت ہو جو تھوڑے سے مال کے لئے اپنی عفت و آبرو بیچنے پر راضی ہوجاتی ہے ۔

۲۰۸

مکہ سے امام حسین علیہ السلام کی روانگی

* امام علیہ السلام کے ساتھ ابن زبیر کا موقف

* ابن عباس کی گفتگو

* ابن عباس کی ایک دوسری گفتگو

* عمر بن عبدالرحمن مخزومی کی گفتگو

* امام علیہ السلام کے ساتھ ابن زبیرکی آخری گفتگو

* عمرو بن سعید اشدق کا موقف

* عبداللہ بن جعفر کا خط

۲۰۹

مکہ سے امام حسین علیہ السلام کی روانگی(١)

٢٨ رجب ٦٠ھبروز یکشنبہ امام حسین علیہ السلام نے مدینہ سے مکہ کی طرف کوچ کیا اورشب جمعہ ٣ شعبان ٦٠ ھ کو مکہ میں داخل ہوئے ۔ اس کے بعد شعبان ، رمضان ، شوال ، ذی قعدہ تک امام حسین علیہ السلام مکہ میں قیام پذیر رہے اور جب ذی الحجہ کے ٨ دن گذر گئے تو ''یوم الترویہ'' (جس دن تمام حاجی مکہ میں آجاتے ہیں ) بروز سہ شنبہ امام حسین علیہ السلام نے مکہ سے سفر اختیار کیا جس دن جناب مسلم بن عقیل نے کوفہ میں اموی حکومت کے خلاف قیام کیا تھا ۔

امام علیہ السلام کے ساتھ ابن زبیر کا موقف

مکہ میں امام حسین علیہ السلام کے پاس آنے والوں میں سے ایک ابن زبیر بھی تھاجو کبھی تو دوروزپے در پے آیا کرتا تھا اورکبھی دو روز میں ایک مرتبہ آیا کرتا۔اسے یہ بات اچھی طرح معلوم ہوگئی تھی کہ جب تک مکہ میں امام حسین علیہ السلام موجود ہیں اہل حجاز نہ تو اس کی پیروی کریں گے اور نہ ہی اس کے ہاتھ پر بیعت کریں گے کیونکہ امام حسین علیہ السلام کی شخصیت ان کی نگاہوں میں عظیم ہے اور انھوں نے ان کے دلوں میں جگہ بنالی ہے۔(٢)

____________________

١۔ طبری کا بیان ہے کہ اسی سال ٦٠ھ ماہ رمضان میں یزیدنے ولید کو معزول کر کے اس کی جگہ پر عمرو بن سعید بن عاص اشدق کو مدینہ کا امیر بنا دیا ۔ عمرو ماہ رمضان میں وہا ں پہنچا ۔یہ شخص بہت بڑا کینہ توز اور بہت بولنے والا تھا (طبری ،ج٥، ص ٣٤٣) بعض روایتو ں میں ہے کہ ماہ ذی قعدہ ٦٠ھ میں مدینہ آیا تھا (طبری ،ج٥،ِ ص ٣٤٦)پھر طبری کا بیان ہے کہ یزید بن معاویہ نے اسی سال (٦٠ ھ) ولید بن عتبہ کو مکہ کی ریاست سے بھی معزول کر دیااور ان دونو ں کی ریاست عمروبن سعید بن عاص کے سپرد کر دی۔ یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ اسی سال عمرو بن سعید نے لوگو ں کے ساتھ حج بھی انجام دیادرحالیکہ وہ مکہ اور مدینہ کا حاکم تھا۔ (طبری، ج٥، ص ٣٩٩)

٢۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے عبدالرحمن بن جندب نے روایت کی اور عبدالرحمن کا بیان ہے کہ مجھ سے عقبہ بن سمعان نے یہ روایت بیان کی ہے جو امام حسین علیہ السلام کی زوجہ جناب رباب بنت امرء القیس کا غلام تھا۔ (طبری ،ج٥ ،ص ٣٥١)

۲۱۰

ایک دن وہ کسی وقت امام حسین علیہ السلام کے پاس گفتگوکے لئے آکر بیٹھا اور کہا کہ میں تو نہیں سمجھتا ہوں کہ یہ تباہ کار افراد ہم کو اس طرح چھوڑ دیں گے اور ہم سے دست بردار ہوجائیں گے کیونکہ انھیں بخوبی معلوم ہے کہ ہم اسلام کے فداکار مہاجر ہیں اور قوم و ملت کے نظم و نسق کی ذمہ داری اور اس کی زمام ہمارے ہاتھوں میں ہونی چاہیے۔ آپ مجھے بتائیں کہ آپ کا ارادہ کیا ہے اور آپ کیا کرنا چاہتے ہیں ؟

امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا : خداکی قسم میں نے تو یہ فکر کی ہے کہ میں کوفہ چلاجاؤں کیونکہ ہمارے پیروئوں اور وہاں کے اشراف نے مجھے خط لکھ کر کوفہ بلا یا ہے اور میں خداسے یہی چاہتا ہوں کہ جو میرے لئے بہتر ہے وہی میرے حق میں انجام دے۔

ابن زبیرنے کہا : خداکی قسم اگر کوفہ میں آپ کے پیروئوں کی طرح میرے بھی چاہنے والے ہوتے تو میں انھیں نہیں چھوڑتا اور فوراً چلاجاتا ، پھر اسے خیال آیا کہ اس قسم کی باتوں سے اس کاراز کھل جائے گا اور وہ متہم ہوجائے گا لہٰذا فوراً بولا : ویسے اگر آ پ حجاز میں بھی قیام پذیر رہیں اور یہاں بھی امت کے امور اپنے ہاتھوں میں لینا چاہیں تو انشااللہ آپ کی کوئی مخالفت نہیں کرے گا۔ یہ کہہ کروہ اٹھا اور فوراً چلاگیاتو امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : اس بندہ خداکے لئے دنیا میں اس سے زیادہ محبوب تر کوئی چیز نہ ہوگی کہ میں حجاز سے نکل کر عراق چلاجاؤں اسے بخوبی معلوم ہے کہ میرے رہتے ہوئے لوگ اس کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کریں گے لہٰذاوہ چاہتا ہے کہ میں اس شہر سے چلا جاؤں تا کہ اس کے لئے راستہ آسان ہوجائے۔(١) و(٢)

____________________

١۔ابومخنف کا بیان ہے کہ حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے مجھ سے یہ روایت بیان کی ہے (طبری، ج٥، ص ٣٨٢)

٢۔واقعیت یہ ہے کہ عبداللہ بن زبیرکو کوفیو ں کی منافقت اور نیرنگ و دھوکہ بازی کا خوف نہیں تھا بلکہ وہ اپنے مقصد تک پہونچنے کی فکرمیں تھا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام بھی اس کے ظرف وجود اور روحی و فکری گنجایش میں اتنی وسعت نہیں دیکھ رہے تھے کہ انجام کو اس کے لئے بیان کردی ں ؛ کیونکہ عقل مند آدمی ہر اس چیز کو بیان نہیں کر تا جس کو وہ جانتاہے اور دوسرو ں کو تمام واقعات سے رو شناس نہیں کراتا۔لوگو ں کے افکار اور ان کی صلاحیتی ں مختلف ہوتی ہیں اور بہت سارے افراد اپنے وجود میں اس بات کی توانائی نہیں رکھتے کہ بہت سارے حقائق سے آگاہ ہوسکی ں ، اسی بنیاد پر امام حسین علیہ السلام نے ابن زبیر کی فکری صلاحیت کو دیکھتے ہوئے ان کے مطابق انہیں جواب دیا۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ ابن زبیر کو امام حسین علیہ السلام کے قیام سے ذرہ برابر بھی اختلاف نہیں تھا بلکہ وہ امام کو قیام کی ترغیب دلا رہا تھا،بحث فقط زمان و مکان کے بارے میں تھی ۔

۲۱۱

ابن عباس کی گفتگو

جب امام حسین علیہ السلام نے مکہ چھوڑکر کوفہ جانے کا ار اد ہ کیا تو ابن عباس آپ کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور عرض کی :یابن عم (اے چچا کے فرزند) لوگوں کے درمیان یہ بات پھیل چکی ہے کہ آپ عراق کی طرف روانہ ہونے والے ہیں ۔ ذرامجھے بتائیے کہ آپ کیا کرناچاہتے ہیں ؟امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا :'' انی قد أجمعت المسیر فی احدیومیّ ھٰذین(١) ان شاء اللّہ تعالیٰ '' میں نے ایک دو روز میں نکلنے کاقطعی فیصلہ کر رکھاہے، ان شاء اللہ ۔

١۔چونکہ مکہ سے امام حسین علیہ السلام کی روانگی کی تاریخ ٨ذی الحجہ یوم الترویہ بعدازظہر ہے اور یہ وہ وقت ہے جب لوگ منی کی طرف جارہے ہوتے ہیں (طبری، ج ٥ ،ص٣٨٥) اس سے اندازہ ہوتاہے کہ ابن عباس اور امام علیہ السلام کے درمیان یہ گفتگو ٦ذی الحجہ کو انجام پذیر ہوئی ہے اور اس خبر کامشتہر ہونااس گفتگو سے زیادہ سے زیادہ دو دن پہلے ہے یعنی ٤ذی الحجہ کو یہ خبر پھیل گئی کہ امام علیہ السلام مکہ ترک کرنے و الے ہیں ؛لیکن اس سے قبل اس خبر کے مشتہر ہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ سوال یہ پیداہوتاہے کہ وہ کون ساسبب ہے جس کی بنیاد پر اتنے دن مکہ میں رہنے کے بعد عین حج کے دن حج تما م ہونے سے پہلے ہی امام حسین علیہ السلام نے مکہ چھوڑدیا؟اگر یہ کہا جائے کہ جناب مسلم بن عقیل کے خط کی بنیاد پر جلدی کی، کیو نکہ اس میں مرقوم تھاکہ خط ملتے ہی فوراًروانہ ہو جائیے تو یہ صحیح نہیں ہے کیو نکہ جناب مسلم بن عقیل نے اپنی شہادت سے ٢٧دن قبل یعنی ٢ ١ یا١٣ذی القعدہ کو امام حسین علیہ السلام کو خط لکھاہے۔ ایسی صورت میں تقریباً دس(١٠) دن کے اندر یعنی ٢٧ ذی قعدہ تک یہ خط امام علیہ السلام کو موصول ہوچکا تھالہذا اگر امام علیہ السلام کو سفر کرنا ہی تھا تو انھیں دنوں میں سفر کر لیتے ۔یہ ٤دن قبل خبر کا مشتہر ہونا اور عین حج کے موقع پر سفر کرنے کا راز کیا ہے ؟ اس کا جواب ہمیں فرزدق کے سوال کے جواب میں ملتا ہے،جب راستے میں فرزدق شاعر کی ملاقات امام حسین علیہ السلام سے ہوئی تو اس نے بھی امام علیہ السلام سے یہی سوال کیا کہ اتنی جلدی کیا تھی کہ آپ حج چھوڑکر جارہے ہیں ؟

۲۱۲

امام علیہ السلام نے جواب دیا :'' لولم أعجل لأخذت''(طبری ،ج٥،ص ٣٨٦) اگر میں جلدی نہ کر تا تو گرفتار کر لیاجا تا۔یہی وجہ ہے کہ شیخ مفید قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ جب امام علیہ السلام نے عراق کا قصد کیا تو خانہ کعبہ کا طواف کیا،صفاو مروہ کے درمیان سعی کی اور اسے عمرہ قرار دے کر احرام سے خارج ہو گئے کیونکہ مولا کا مل حج انجام دینے پر متمکن نہ تھے ہر آن اس کا خطرہ تھا کہ عین حج کے مو قع پر آپ کو گر فتار کر کے یزید بن معاویہ تک پہنچا دیا جائے لہٰذا امام علیہ السلام فوراً مکہ سے نکل گئے ۔(ارشاد، ص ٢١٨)معاویہ بن عمارنے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا :ماہ ذی الحجہ میں امام حسین علیہ السلام نے عمرہ انجام دیا پھر یوم الترویہ (٨ ذی الحجہ) کو عراق کی طرف کوچ کرگئے ۔یہ موقع وہ تھاکہ ادھر آپ عین حج کے موقع پر مکہ سے کوچ

کررہے تھے ادھر حجاج کرام حج کے لئے مکہ سے منیٰ کی طرف جارہے تھے ۔ ذی الحجہ میں جو حج نہ کرنا چاہے اس کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے کہ عمرہ انجام دے لے۔

اسی طرح ابراہیم بن عمر یمانی نے روایت کی ہے کہ انھوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا جو ایام حج میں عمرہ انجام دے کر باہر آجائے او روہاں سے ا پنے شہر کی طرف نکل جائے تو اس کا حکم کیا ہے ؟ امام علیہ السلام نے جواب دیا: کوئی مشکل نہیں ہے پھر اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا : امام حسین علیہ السلام عمرہ انجام دے کر یوم الترویہ مکہ سے روانہ ہوئے تھے۔(وسائل، ج١٠ ،ص ٢٤٦)

۲۱۳

یہی وجہ ہے کہ شیخ شوشتری نے فرمایا : دشمنوں نے پوری کوشش تھی کہ کسی نہ کسی طرح امام حسین علیہ السلام کو پکڑ لیں یا دھوکہ سے قتل کردیں ،خواہ آپ کعبہ کی دیوار سے لپٹے ہوں ۔ امام علیہ السلام ان کے باطل ارادہ سے آگاہ تھے لہٰذا اپنے احرام کو عمرہ مفردہ میں تبدیل کر دیا اور حج تمتع ترک کردیا۔ (الخصائص، ص ٣٢،ط تبریز)شیخ طبرسی نے اعلام الوریٰ کی ایک خاص فصل میں امام علیہ السلام کے سفر کے واقعہ اور آپ کی شہادت کا تذکرہ کیا ہے۔ وہاں پر آپ نے ارشاد میں موجودشیخ مفید کی عبارت کوتقریباًبعینہ ذکر کیا ہے اوراس کی تصریح بھی نہیں کی ہے۔ اس فصل میں آپ نے انہیں باتوں کو ذکر کیا ہے جسے شیخ مفید نے لکھا ہے۔ہاں وہاں کلمہ '' تمام الحج''کے بجائے'' اتمام الحج ''کردیاہے جو غلط ہے اور شاید نسخہ برداروں کی خطا ہے۔ اس خطا کا سبب یہ ہے کہ ان دونوں کلمات میں بڑا فرق ہے کیونکہ کلمہ'' الاتمام'' کا مطلب یہ ہے کہ امام علیہ السلام نے احرام حج باندھ لیا تھا جبکہ کلمہ'' تمام الحج'' اس معنی کی طرف راہنمائی نہیں کرتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ '' الارشاد'' کے نسخہ مختلف ہیں کیونکہ شیخ قرشی نے شیخ مفید کے کلام کو اسی طرح نقل کیا ہے جس طرح طبرسی نے'' اتمام الحج '' نقل کیا ہے۔(ج٣ ،ص ٥٠) یہ انھوں ں نے ارشاد کے ص ٢٤٣سے نقل کیا ہے جبکہ ہم نے ارشاد کے ص ٢١٨ طبع حیدریہ پر'' تمام الحج'' دیکھاہے اور یہی صحیح ہے ۔

ابن عباس نے کہا : میں آپ کے اس ارارہ سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں ۔ اللہ آپ پر رحمت نازل کرے! ذرا مجھے بتائیے کہ کیا آپ اس قوم کی طرف سفرکرنا چاہتے ہیں جنھوں نے اپنے ظالم اور ستمگار حکمراں کو نابود کردیاہے اور اپنے شہر و دیار کو ان کے چنگل سے نجات دلادی ہے اور اپنے دشمنوں کو وہاں سے نکال بھگایا ہے ؟ اگر ان لوگوں نے ایساکیا ہے تو آپ فوراً رخت سفر باندھ لیجئے لیکن اگر ان لوگوں نے آپ کو اس حال میں بلایا ہے کہ ان کا حاکم ان پر مسلط اور قہر و غلبہ کے ساتھ ان پر قابض ہے ،اس کے عاملین شہروں میں اس کی طرف سے مالیات وصول کررہے ہیں تو ایسی صورت میں ان لوگوں نے آپ کو جنگ و جدال کے لئے بلایا ہے جس کی کوئی ضمانت نہیں اور نہ ہی آپ اس بات سے امن وامان میں ہیں کہ وہ آپ کو دھوکہ دیں ، جھٹلائیں ، مخالفت کریں اور چھوڑدیں ، نیز آپ اس سے بھی امان میں نہیں ہیں کہ اگر وہ آپ کی طرف آئیں تو آپ کے سخت دشمن بن جائیں ۔امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا : میں خدا سے طلب خیر کروں گا پھر دیکھوں گا کہ کیا ہوتا ہے۔( ١ ) و( ٢)

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے۔ (طبری، ج ٥،ص٣٨٣)

٢۔ یہ بات یہا ں قابل توجہ ہے کہ ابن عباس ظلم کے خلاف امام حسین علیہ السلام کے قیام کے مخا لف نہیں ہیں بلکہ قیام کے لئے حالات سازگار ہیں یا نہیں ، اس میں انھی ں شک ہے۔امام حسین علیہ السلام نے بھی ان کے نظریہ کو رد نہیں کیا بلکہ آپ ان کو اپنا خیر خواہ سمجھتے تھے لیکن اسی حال میں اپنے بلند مقصد اور اپنی رسالت کے سلسلہ میں کوشا ں تھے کیونکہ آپ اسی ماحول میں نظام اموی کے خلاف قیام کو لازم سمجھ رہے تھے۔

۲۱۴

ابن عباس کی ایک دوسری گفتگو

سورج آہستہ آہستہ مغرب کے دامن میں اپنا چہرہ چھپانے لگا اورشب آگئی، اسی رات یا دوسرے دن صبح ابن عباس دوبارہ امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی : یابن عم ! میں بے حد صبر و تحمل سے کام لینا چاہتا ہوں لیکن مجھ سے صبر نہیں ہوتا کیونکہ میں اس سفر کو آپ کے لئے بے حد خطر ناک سمجھتا ہوں اور آپ کی ہلاکت سے مجھے خوف آتا ہے کیونکہ عراقی دھوکہ باز ہیں ؛ آپ خدا را ان کے قریب نہ جائیے؛ آپ اسی شہر میں مقیم رہیں کیونکہ آپ سید حجاز ہیں ۔ اب اگر اہل عراق آپ کو چاہتے ہیں تو آپ ان کو خط لکھ دیجیے کہ پہلے وہ اپنے دشمنوں کو وہاں سے بھگا ئیں پھر آپ وہاں جائیے؛اور اگر آپ نے جانے کے لئے عزم بالجزم کرہی لیا ہے تو آپ یمن روانہ ہوجائیں کیونکہ وہاں کی زمین وسیع ہے۔ اس کے علاوہ وہاں آپ توحید و عدالت کی دعوت اچھی طرح دے سکتے ہیں ۔ مجھے اس بات کی بھر پور امید ہے کہ آپ جو کرنا چاہتے ہیں وہاں کسی فشار اور طاقت فرسا رنج و غم کے بغیر انجام دے سکتے ہیں ۔

۲۱۵

امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا : ''یابن عم !انی واللّه لأ علم انک ناصح (١) ومشفق ولکنی ازمعت و اجمعت علی المسیر''

یابن عم ! خدا کی قسم مجھے یقینی طور پر یہ معلوم ہے کہ آپ مخلص اور مشفق ہیں لیکن آپ یہ جان لیں کہ میں عزم با لجزم کر چکا ہوں اور سفرکے لئے تیار ہوں ۔

ابن عباس نے کہا : اگر ایسا ہے کہ آپ حتماً جانا ہی چاہتے ہیں تو اپنے ساتھ مخدرات اور بچوں کو نہ لیں جائیں ؛کیونکہ میں آپ کے قتل اور خاندان کی اسیری سے خوف زدہ ہوں ۔(٢)

عمر بن عبد الرحمن مخزومی کی گفتگو

عمر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام مخزومی(٣) کا بیان ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام عراق جانے کے لئے سامان سفر باندھ چکے تو میں ان کی خدمت میں آکر ان کی ملاقات سے شرفیاب ہوا

____________________

١۔ امام حسین علیہ السلام کے اس جملہ میں کلمہ ''ناصح '' خلوص و اخلاص کے معنی میں استعمال ہواہے، موعظہ اور نصیحت کے معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے ۔ اس لفظ کے لئے یہ معنی جدید اور نیا ہے، اس کا اصلی معنی نہیں ہے، امام فرمارہے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ ابن عباس کی گفتار میں خلوص و شفقت اور محبت و عطوفت پنہا ں ہے۔ اس سے انداہ لگایا جا سکتا ہے کہ ابن عباس امام علیہ السلام کے قیام کے مخالف نہ تھے بلکہ وہ اس شک وتردید میں تھے کہ قیام کے لئے حالات سازگار اور مناسب ہیں یا نہیں اور امام علیہ السلام نے بھی اس سلسلے میں ان کی بات کو رد نہیں کیا بلکہ فرمایا کہ اس کے باوجود بھی وہ قیام کے لئے عازم ہیں کیونکہ وہ اس قیام کو شریعت مقدسہ کی زندگی کے لئے لازم اورضروری سمجھتے ہیں ۔

٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے۔ (طبری ج٥، ص ٣٨٣)

٣۔یہ وہی شخص ہے جسے مختار کے عہد حکومت میں عبداللہ بن زبیر نے ٦٦ھ میں کوفہ کا والی بنادیا تو مختار نے زائدہ بن قدامہ ثقفی کو اس کے پاس پانچ سو (٥٠٠) سپاہیو ں اور ستر (٧٠) ہزار درہم کے ساتھ روانہ کیا تا کہ وہ ان درہمو ں کے مقابلہ میں مختار کے لئے کوفہ کی گورنری چھوڑدے اور اگر وہ اس پر راضی نہ ہو تو پھر ان سپاہیو ں سے نبرد آزماہوجائے۔ عمر بن عبد الرحمن نے وہ درہم قبول کر لئے اور ر ا ہی ٔ بصرہ ہوگیا۔ (طبری، ج٦،ص ٧١) اب رہا امام علیہ السلام کی مدح و ثنا کا سوال تو اس روایت کا ناقل خود یہی شخص ہے۔ اس کا دادا حارث بن ہشام اور اس کا بھائی جھل بن ہشام دونو ں ہی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دشمن تھے۔ ہم نے اس کا تذکرہ مقدمہ میں کیاہے۔

۲۱۶

اورثنائے الہٰی کے بعد ان کی خدمت میں عرض کیا: یابن عم !میں آپ کی خدمت میں ایک درخواست لے کر حاضرہواہوں جسے مخلصانہ نصیحت کے طور پرآپ سے عرض کرناچاہتاہوں ،اب اگر آپ مجھے اپناخیر خواہ اورصاحب فکر سلیم سمجھتے ہیں تومیں وہ عرضداشت آپ کی خدمت میں پیش کرو ں ورنہ میں جو کہناچاہتاہوں اس سے صرف نظرکرلوں ۔

امام علیہ السلام نے فرمایا:''قل فواللّٰه ما أظنّک بسییٔ الرأولا هو ٍ (١) للقبیح من الأمر و ا لفعل ''

تم جو کہنا چاہتے ہو کہو، خدا کی قسم میں اس بات کا گمان بھی نہیں کرتا کہ تم میرے لئے برا تصور رکھتے ہو اور میری بھلائی نہیں چاہتے۔

عمر بن عبدالرحمن مخزومی نے کہا: مجھے خبر ملی ہے کہ آپ عراق جانا چاہتے ہیں اور میں آپ کے اس سفر سے خوفزدہ ہوں ؛کیونکہ آپ ایسے شہر میں جانا چاہتے ہیں جس میں اُمراء اور عاملین دونوں موجود ہیں اور ان کی پشت پناہی کے لئے بیت المال کا ذخیرہ موجود ہے۔ قوم درہم ودینار کی غلام ہے اور میں اس سے بھی آپ کو امن و امان میں نہیں سمجھتا کہ وہی لوگ آپ سے مقابلہ اور جنگ کے لئے کھڑے ہو جائیں گے جو ا بھی آپ کی نصرت کا وعدہ کررہے ہیں اور آپ کے دشمن کی دشمنی سے زیادہ آپ سے محبت کا دم بھرتے ہیں ۔

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:''جزاک اللّه خیراً یابن عم ! فقد واللّٰه علمت أنک مشیت بنصح و تکلّمت بعقل و مهما یقض من أمر یکن ، أخذت برأیک أو تر کته فأنت عندی أحمد مشیر وأنصحُ ناصح ''(٢) اے چچا کے فرزند خدا تم کو جزائے خیر دے ! خدا کی قسم مجھے معلوم ہے کہ تم خیر خواہی کے لئے آئے ہو اور تمہاری گفتگومیں عقل و خرد کے جلوے ہیں ؛ بنابر این حسب ضرورت یا تو تمہاری رائے پرعمل کروں گا یا اسے ترک کروں گا لیکن جو بھی ہو تم میرے نزدیک اچھا مشورہ دینے والے اور بہترین خیر خواہ ہو ۔

____________________

١۔ ھوٍ یعنی ھا ویا جس کی اصل ھویٰ ہے جس کے معنی برا ارادہ رکھنے والے کے ہیں ۔

٢۔طبری ،ج ٥،ص ٣٨٢ ،ہشام نے ابومخنف کے حوالے سے کہا ہے کہ مجھ سے صقعب بن زبیر نے عمر بن عبد الر حمن کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے ۔

۲۱۷

امام علیہ السلام کے ساتھ ابن زبیر کی آخری گفتگو

عبد اللہ بن سلیم اسدی اور مذری بن مشمعل اسدی کا بیان ہے کہ ہم دونوں حج کی غرض سے مکہ روانہ ہو ئے اور یوم ترویہ وارد مکہ ہو ئے۔وہاں پرہم نے سورج چڑہتے وقت حسین اورعبداللہ بن زبیر کو خانہ کعبہ کے دروازہ اور حجر الاسود کے درمیان کھڑے ہوئے دیکھا ، ہم دونوں ان کے نزدیک آگئے تو عبد اللہ بن زبیر کو حسین سے یہ کہتے ہو ئے سنا : اگر آپ یہاں قیام فرمائیں گے تو ہم بھی یہیں سکونت اختیار کریں گے اور یہاں کی حکومت اپنے ہا تھوں میں لے لیں پھرہم آپ کی پشت پنا ہی اور مدد کریں گے اور آپ کے مخلص و خیر خواہ ہو کر آپ کی بیعت کر لیں گے ۔

امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا :''اِن أبی حدّثنی : ''ان بها کبشاً یستحلّْ حرمتها ''! فما اْحبّ ان أکون أنا ذالک الکبش'' (١) و(٢)

میرے بابا نے مجھ سے ایک حدیث بیان فرمائی ہے کہ یہاں ایک سر برآوردہ شخص آئے گا جو اس حرم کی حرمت کو پامال کرے گا ، مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ وہ سر برآوردہ شخص میں قرارپاؤں ۔

ابن زبیرنے کہا : فرزند فاطمہ ! آپ ذرا میرے نزدیک آیئے تو امام علیہ السلام نے اپنے کانوں کو اس کے لبوں سے نزدیک کر دیا ۔ اس نے راز کی کچھ باتیں کیں پھرامام حسین ہماری طرف ملتفت ہوئے اور فر مایا :'' أتدرون ما یقول ابن زبیر ؟'' تم لوگو ں کو معلو م ہے کہ ابن زبیر نے کیا کہا ؟

ہم نے جواب دیا :. ہم آپ پر قربان ہوجائیں ! ہمیں نہیں معلوم ہے۔

امام حسین علیہ السلام نے فر مایا: وہ کہہ رہاتھا کہ آپ اسی حرم میں خانہ خداکے نزدیک قیام پذیر رہیئے، میں آپ کے لئے لوگوں کو جمع کرکے آپ کی فرمانبرداری کی دعوت دوں گا۔پھر حسین نے فرمایا:

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ ابو جناب یحٰبن ابی حیہ نے عدی بن حرملہ اسدی سے، اس نے عبد اللہ سے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ (طبری، ج٥ ،ص ٣٨٤)

٢۔ الکبش : اس نر بکر ے کو کہتے ہیں جو عام طور پر گلہ کے آگے رہتا ہے۔ یہ درواقع تشبیہ ان لوگو ں کے لئے ہے جو کسی امر کی قیادت کرتے ہیں ۔ اس حدیث کے ذریعہ سے امام علیہ السلام نے ابن زبیر کو یاد دلا یا کہ شاید یاد آوری اس کو فائدہ پہنچا ئے لیکن یاد آوری تو مو منین کے لئے نفع بخش ہو تی ہے۔ ''فان الذکری تنفع المو منین ''

۲۱۸

''واللّٰه لئن أقتل خارجاً منها بشبر أحبّ الیّ من أن اْقتل داخلاً منها بشبر وأیم اللّٰه لو کنت فی حجر ها مة من هٰذ ه الهوام لا ستخرجونی حتی یقفوافیّ حا جتهم، واللّٰه لیعتدنّ علیّ کما اعتدت الیهود فی السبت'' ) و(٢)

خداکی قسم! اگر میں حرم سے ایک بالشت دور قتل کیاجاؤں تو یہ مجھے زیادہ محبوب ہے بہ نسبت اس کے کہ میں حرم کے اندر قتل کردیا جاؤں ، خدا کی قسم! اگر میں حشرات الارض کے سوراخ میں بھی چلاجاؤں توبھی یہ لوگ مجھے وہاں سے نکال کر میرے سلسلہ میں اپنی حاجت اور خواہش پوری کرکے ہی دم لیں گے۔ خدا کی قسم! یہ لوگ اس طرح مجھ پر ظلم و ستم روا رکھیں گے جس طرح روز شنبہ یہودیوں نے ظلم و ستم کیا تھا۔

عمرو بن سعید اشدق کا موقف

جب امام حسین علیہ السلام نے مکہ سے روانگی اختیار کی تو مکہ کے گورنرعمروبن سعید بن عاص(٣) کے نمائندوں نے یحٰی بن سعید(٤) کی سربراہی میں حضرت پر اعتراض کیا۔ اور سب کے سب

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ ابو سعیدعقیصانے اپنے بعض اصحاب سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں ...۔(طبری ،ج٥،ص٣٨٥)

٢۔ یہ وہ بہترین جواب ہے جو امام حسین علیہ السلام نے تمام سوالو ں کے جو اب میں بہت مختصرطور پردیاہے کہ بہر حال بنی امیہ کو حضر ت کی تلاش ہے ؛ آپ جہا ں کہیں بھی ہو ں وہ آپ پر ظلم و ستم کری ں گے پس ایسی صورت میں لازم ہے کہ آپ فوراً مکہ چھوڑ دی ں تاکہ آپ کی مثال بکری کے اس گلہ کے بکرے کی جیسی نہ ہوجائے جو آگے آگے رہتا ہے جس کا ذکر آپ کے والد حضرت امیر المومنین نے کیا تھا۔ اسی خوف سے آپ فوراً نکل گئے کہ کہیں آپ کی اور آپ کے خاندان کی بے حرمتی نہ ہوجائے اور ادھر اہل کوفہ کی دعوت کا جواب بھی ہوجائے گا جو آپ کے لئے ان پر اتمام حجت ہو گی تا کہ یہ الزام نہ آئے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے بعد امت کے لئے کوئی حجت نہ تھی اور لوگ یہ نہ کہہ سکی ں کہ اللہ کی جانب سے تو پیغمبرو ں کے بعد ہمارے لئے کوئی حجت ہی نہ تھی۔''لئلا یکون للناس علی اللّٰہ حجة بعدالرسول'' (سورہ ٔنساء ١٦٥)اور تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے :'' لولا أرسلت الینا رسولأ منذراًو أقمت لنا علماً ھادیاً فنتبع آیاتک '' تو نے ہم تک ڈرانے والا کوئی پیغمبر کیو ں نہ بھیجا اور ہمارے لئے کوئی ہدایت کرنے والی نشانی کیو ں نہ قائم کی تاکہ ہم تیری نشانیو ں کی پیروی کر تے۔اہم بات یہ ہے کہ اس وحشت وخوف کے ماحول میں کوفہ نہ جاتے تو اور کہا ں جاتے؛ جب کہ زمین اپنی وسعتو ں کے باوجود آپ پر تنگ کردی گئی تھی ۔

۲۱۹

٣۔ جب عمر و بن سعید مدینہ کا والی ہوا تو اس نے عبیداللہ بن ابی رافع جو امام علی بن ابیطالب کے کاتب تھے،کو بلایا اور ان سے پوچھا: تمہارامولا کون ہے ؟ انھو ں نے جواب دیا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) (یہ ابو رافع ،ابوا حیحہ سعید بن عاص اکبر کے غلام تھے جو سعید بن عاص کے بیٹو ں کو میراث میں ملے تھے۔ ان میں سے تین بیٹو ں نے اپناحصہ آزاد کردیا اور یہ سب کے سب جنگ بدر میں مارڈالے گئے اورایک بیٹے خالد بن سعید نے اپنا حصہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کو ھبہ کردیا تو آ پ نے اسے آزاد کر یا) یہ سنتے ہی اس نے سو کوڑے لگائے پھر پوچھا تیرا مالک ومولا کون ہے ؟ انہو ں نے پھر جواب دیا :ر سول خدا ! تو اس نے پھر سو کوڑے لگائے۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا، وہ پوچھتا جاتا تھا اور یہ جواب میں کہتے جاتے تھے: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور وہ کوڑے برسائے جاتاتھا یہا ں تک کہ پانچ سو کوڑے مارے اور پھر پوچھاکہ تمہارامولا و مالک کون ہے؟ تو تاب نہ لاکرعبیداللہ بن ابورافع نے کہہ دیا :تم لوگ میرے مالک و مختار ہو ۔یہی وجہ ہے کہ جب عبدالملک نے عمرو بن سعید کو قتل کیا تو عبیداللہ بن ابی رافع نے شعر میں قاتل کا شکریہ اداکیا۔(طبری ،ج٣، ص ١٧٠)

عمرو بن سعیدنے ابن زبیر سے جنگ کی۔ (طبری ، ج٥،ص ٣٤٣) اور جو بھی ابن زبیر کا طرفدار تھا اسے مدینہ میں مارڈالاتھا ۔جن میں سے ایک محمد بن عمار بن یاسر تھے۔اس نے ان میں سے چالیس یا پچاس یا ساٹھ لوگو ں کوماراہے ۔(طبری ،ج٥ ،ص ٣٤٤) جب اس تک امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر پہنچی تو اس نے خوشیا ں منائی ں اور جب بنی ہاشم کی عورتو ں کا بین سنا تو کہنے لگا کہ یہ بین عثمان کے قتل پر انکے گھر کی عورتو ں کے بین کا جواب ہے پھر یہ منبر پر گیا اور لوگو ں کو اس سے باخبر کیا ۔ اس کے بعد یزید کو معلوم ہوا کہ عمرو بن سعید ، ابن زبیر سے رفق و محبت سے پیش آرہاہے اور اس پر تشدد نہیں کر رہاہے تو یکم ذی الحجہ ٦١ھکو اسے معزول کردیا۔ (طبری ،ج٥ ،ص٤٧٧) تو یہ اٹھکر یزید کے پاس آیااور اس سے معذرت خواہی کی۔ (طبری ،ج٥،ص ٤٧٩) اس کاباپ سعید بن عاص ، معاویہ کے زمانے میں مدینہ کا والی تھا۔ (طبری، ج٥ ، ص٢٤١)

٤۔یہ عمرو بن سعید کابھائی ہے۔اس نے شام میں عبدالملک کے دربار میں ان ایک ہزار جوانو ں کے ساتھ اپنے بھائی کی مدد کی جو اس کے ساتھی اور غلام تھے لیکن آخر میں وہ سب بھاگ گئے اور اسے قید کر لیا گیا پھر آزاد کردیا گیا تو یہ ابن زبیر سے ملحق ہو گیا۔ (طبری، ج٦،ص ١٤٣، ١٤٧) پھر کوفہ روانہ ہوگیا اور اپنے ماموؤ ں کے پاس پناہ لی جو جعفی قبیلہ سے متعلق تھے۔جب عبدالملک کوفہ میں داخل ہوا اور لوگو ں نے اس کی بیعت کرنا شروع کردی تو اس نے بھی اس کی بیعت کر لی اور امن کی درخواست کی۔ (طبری ،ج٦ ، ص ١٦٢)

۲۲۰

امام علیہ السلام سے کہنے لگے : اپنے ارادہ سے منصرف ہو جائیے! آپ کہاں جارہے ہیں ! امام علیہ السلام نے انکار کیا اور دونوں فریق اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہے یہاں تک کہ انھوں نے تازیانہ بلندکر لیا لیکن امام علیہ السلام اپنی راہ پر گامزن رہے۔ جب امام علیہ السلام کو ان لوگوں نے جاتے ہوئے دیکھاتوبلند آوازمیں پکارکر کہا : اے حسین !کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے جو جماعت سے نکل کر اس امت کے درمیان

تفرقہ اندازی کررہے ہو ! ان لوگوں کی باتیں سن کر امام علیہ السلام نے قران مجید کی اس آیت کی تلاوت فرمائی( : لِیْ عَمَلِیْ وَلَکُمْ عَمَلُکُمْ اَنْتُمْ بَرِيْئُوْنَ مِمَّا اَعْمَلُ وَاَنَا بَرِی ئْ مِمَّا تَعْمَلُوْنَ'' ) (١) و(٢)

اگر وہ تم کو جھٹلائیں تو تم کہہ دو کہ ہمارا عمل ہمارے لئے اور تمہاری کارستانی تمہارے لئے ہے، جو کچھ میں کرتا ہوں اس کے تم ذمہ دار نہیں اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے میں بری ہوں ۔

عبداللہ بن جعفر کاخط

چوتھے امام حضرت علی بن حسین بن علی (علیہم السلام) کا بیان ہے کہ جب ہم مکہ سے نکل رہے تھے تو عبداللہ بن جعفربن ابیطالب(٣) نے ایک خط لکھ کر اپنے دونوں فرزندوں عون و محمد(٤) کے ہمراہ روانہ کیا جس کی عبارت یہ ہے:

____________________

١۔ سورہ ٔیونس ٤١

٢۔ طبری، ج٥، ص ٣٨٥،ابو مخنف کا بیان ہے کہ حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے مجھ سے یہ روایت بیان کی ہے ۔

٣۔ آپ جنگ جمل میں امیر المومنین کے لشکر میں تھے اور عائشہ کو مدینہ پہنچانے میں آپ نے آنحضرت کی مدد فرمائی تھی ۔(طبری، ج٤، ص٥١٠)آپ کی ذات وہ ہے جس سے حضرت امیر المومنین کوفہ میں مشورہ کیا کرتے تھے۔ آ پ ہی نے حضرت کو مشورہ دیا تھا کہ محمد بن ابی بکر جو آپ کے مادری بھائی بھی تھے، کو مصر کا والی بنادیجئے۔ (طبری ،ج٤، ص ٥٥٤)آپ جنگ صفین میں بھی حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ تھے اور آپ کے حق میں بڑھ بڑھ کر حملہ کررہے تھے۔ (طبری ،ج٥ ، ص ١٤٨)بنی امیہ کے خلاف امام حسن علیہ السلام کے قیام میں بھی آپ ان کے مدد گار تھے (طبری ،ج٥،ص ١٦٠) اور جب صلح کے بعد سب مدینہ لوٹنے لگے تو دونو ں امامو ں کے ہمراہ آپ بھی مدینہ لوٹ گئے۔ (طبری ،ج٥ ، ص ١٦٥) آپ کے دونو ں فرزند عون و محمد امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ تھے۔ جب آپ تک ان کی شہادت کی خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا :''واللّه لو شهدته ،لأ حببت الّا أفارقه حتی أقتل معه'' خداکی قسم اگر میں موجود ہوتا تو واقعاً مجھے یہ محبوب تھا کہ میں ان سے جدا نہ ہو ں یہا ں تک کہ ان کے ہمراہ قتل ہوجاؤ ں ۔ (طبری ج٥ ، ص ٤٦٦)

٤۔یہ دونو ں امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ کربلامیں جام شہادت نوش فرماکرسرفراز ہوئے۔ طبری کے بیان کے مطابق عون کی ما ں جمانہ بنت مسیب بن نجبہ بن فزاری ہیں (مسیب بن نجبہ توابین کے زعماء میں شمار ہوتے ہیں ) اور محمد کی ما ں خو صاء بنت خصفہ بنت ثقیف ہیں جو قبیلہ بکربن وائل سے متعلق ہیں ۔

۲۲۱

'' امابعد ، فانّی أسألک باللّه لمّا انصرفت حین تنظر فی کتابی فانّی مشفق علیک من الوجه الذی تتوجه له أن یکون فیه هلاکک واستئصال اهل بیتک ، أن هلکت الیوم طفیٔ نور الارض فانک علم المهتدین ورجاء المؤمنین، فلا تعجل بالسیر فانّی فی أثر الکتاب؛ والسلام ''

اما بعد : جب آپ کی نگاہ میرے خط پر پڑے تو میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ اپنے ارادہ سے منصرف ہو جائیے ؛کیو نکہ آپ نے جس طرف کا رخ کیا ہے مجھے خوف ہے کہ اس میں آپ کی ہلا کت اور آپ کے خاندان کی اسیری ہے اور اگر آپ دنیا سے گذرگئے تو زمین کا نور خاموش ہو جا ئے گا؛ کیوں کہ آپ ہدایت یافتہ افراد کے پر چمدار اور مو منین کی امید ہیں ؛ لہٰذا آپ سفر میں جلدی نہ کریں ۔ میں اس خط کے پہنچتے پہنچتے آپ کی خدمت میں شر فیاب ہو رہا ہوں ۔ والسلام

عبد اللہ بن جعفر اس خط کے فوراًبعد عمرو بن سعید بن عاص کے پاس گئے اور اس سے گفتگو کرتے ہو ئے کہا : حسین (علیہ السلام) کو ایک خط لکھو جس میں تم ان کے امن وامان کا تذکرہ کرو ، اس میں ان سے نیکی اور صلہ رحم کی تمنا وآرزو کرو اور اطمینان دلا ؤ، ان سے پلٹنے کی درخواست کرو، شائد وہ تمہاری باتوں سے مطمئن ہو کر پلٹ آئیں اور اس خط کو اپنے بھائی یحٰی بن سعید کے ہمراہ روانہ کرو؛ کیو نکہ وہ زیادہ سزاوار ہے کہ اس سے وہ مطمئن ہوں اور ان کو یقین ہو جا ئے کہ تم اپنے قصد میں مصمم ہو۔عمر وبن سعید نے عبد اللہ بن جعفر کو جواب دیتے ہو ئے کہا : تم جو چا ہتے ہو لکھ کر میرے پاس لے آؤ میں اس پر مہر لگا دوں گا، بنابر یں عبد اللہ بن جعفر نے اس طرح نامہ لکھا :

بسم اللہ الر حمن الر حیم ،یہ خط عمر وبن سعید کی جانب سے حسین بن علی کے نام ہے ۔

اما بعد : میں خدا وند متعال سے در خواست کر تا ہوں کہ آپ کو ان چیزوں سے منصرف کر دے جس میں آپ کا رنج و ملال ہے اور جس میں آپ کی ہدایت ہے اس طرف آپ کو سر فراز کرے ۔مجھے خبر ملی ہے کہ آپ نے عراق کا رخ کیا ہے ۔

خداوند عالم آپ کو حکومت کی کشمکش او رمخالفت سے محفو ظ رکھے؛ کیونکہ مجھے خوف ہے کہ اس میں آپ کی ہلاکت ہے۔ میں آپ کی طرف عبداللہ بن جعفر اور یحٰبن سعید کوروانہ کررہا ہوں ؛آپ ان دونوں کے ہمراہ میرے پاس تشریف لے آئیے کیونکہ میرے پاس آپ کے لئے امان ، صلہ رحم ، نیکی اورخانہ خداکے پاس بہترین جائیگاہ ہے۔ میں خداوند عالم کو اس سلسلے میں گواہ ، کفیل ، ناظر اور وکیل قر ار دیتاہوں ۔ والسلام

۲۲۲

خط لکھ کر آپ اسے عمر و بن سعید کے پاس لے کر آئے اور اس سے کہا: اس پر مہر لگاؤ تواس نے فوراًاس پر اپنی مہر لگادی اور اس خط کو لے کرعبداللہ بن جعفر اور یحٰی امام علیہ السلام کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر آپ کی خدمت میں یحٰی بن سعیدنے خط پڑھا تو امام حسین علیہ السلام نے عمر و بن سعید کو خط کا جواب اس طرح لکھا:

بسم اللّہ الرحمن الرحیم

امابعد، فانه لم یشاقق الله ورسوله من دعاالی اللّٰه عزَّو جلَّ وعمل صالحاًو قال أنّنی من المسلمین؛وقد دعوت الیٰ الامان والبرّو الصلة فخیرالامان امان الله ولن یؤمّن اللّٰه یوم القیامةمن لم یخفه فی الدنیا، فنسأل اللّٰه مخافة فی الدنیاتوجب لنا أمانه یو م القیامة فان کنت نویت بالکتاب صلتی و برّی فجُزیتَ خیراًفی الدنیاوالآخرة ۔ والسلام

بسم اللّہ الرحمن الرحیم ، امابعد،ہر وہ شخص جو لوگوں کو خدائے عزّو جلّ کی طرف دعوت دیتاہے اور عمل صالح انجام دیتاہے اور کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں تو وہ خدااور رسول کی مخالفت نہیں کرتا ہے اور تم نے جو مجھے امان ، نیکی اور صلہ رحم کی دعوت دی ہے تو جان لو کہ بہترین امان خداوندمتعال کی امان ہے اور قیامت میں وہ شخص اللہ کی امان میں نہیں ہے جو دنیا میں اللہ سے نہیں ڈرتا ۔میں دنیامیں خدا سے اس خوف کی درخواست کرتا ہوں جو آخرت میں قیامت کے دن ہمارے لئے اما ن کا باعث ہو۔اب اگر تم نے اپنے خط کے ذریعہ میر ے ساتھ صلہ رحم اور نیکی کی نیت کی ہے تو تم کو دنیاوآخر ت میں اس کی جزا ملے گی۔

۲۲۳

وہ دونوں امام علیہ السلام کا جواب لے کرعمرو بن سعید کے پاس آئے اور کہنے لگے: ہم دونوں نے تمہارے خط کو ان کے سامنے پڑھا اور اس سلسلے میں بڑی کو شش بھی کی لیکن اس سلسلہ میں ان کا عذر یہ تھا کہ وہ فر ما رہے تھے :'' انّی رأیت رؤیاً فیهارسول اللّٰه صلّی اللّٰه علیه (وآله) وسلم وأُمرتُ فیها بأ مرٍأنا ما ضٍ له، علیّ کان أولٰ''

میں نے ایک ملکو تی خواب دیکھا ہے جس میں رسو ل خدا صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم موجو د تھے۔ اس خوا ب میں آپ نے مجھ کو ایک چیز کا حکم دیا گیا ہے۔میں اس پر ضرور عمل کروں گا اور یہ مجھ پر سب سے زیادہ اولیٰ ہے۔

جب ان دونوں نے امام علیہ السلام سے پوچھا کہ وہ خواب کیا تھا ؟تو آپ نے فر مایا :'' ما حدثت بها أحداً وما أنا محدّ ث بها حتی ألقی ربِّی'' (١) اور(٢) میں یہ خواب کسی سے بیان نہیں کرسکتا اور نہ ہی میں یہ خواب کسی سے بیان کرنے والا ہوں یہاں تک کہ اپنے رب سے ملا قات کر لوں ۔

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ حارث بن کعب والبی نے علی بن الحسین (علیہما السلام) کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥،ص٣٨٨)

٢۔امام علیہ السلام یہ مناسب نہیں دیکھ رہے تھے کہ اپنے سفر کے رازسے سب کو آشنا کر تے کیو نکہ انسان جوکچھ جا نتا ہے وہ سب بیان نہیں کر دیتا ہے خصوصاً جبکہ انسان ظرف و جودکے لحاظ سے مختلف و متفاوت ہو ں اور امام علیہ السلام پر واجب ہے کہ ہر شخص کو اس کے وجود کی وسعت اور معرفت کی گنجا ئش کے اعتبار سے آشنائی بہم پہنچائی ں ، اسی لئے امام علیہ السلام نے ان لوگو ں کو ایک واقعی جو اب دیدیا کہ''لم یشا قق الله ورسوله من دعا الی اللّٰه وعمل صالحاً ...وخیر الا مان أمان اللّٰه و لن یؤمن اللّٰه یوم القیامةمن لم یخفه فی الدنیا فنسأل اللّٰه مخافةفی الدنیا تو جب لنا أما نه یوم القیامه ''

اور جب وہ لوگ اس جواب سے قانع نہ ہو ئے تو امام علیہ السلام نے کہہ دیاکہ آپ کو ایک ایسے خواب میں حکم دیا گیا ہے جس میں خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود تھے کہ آپ اپنے سفر کو جاری رکھی ں ؛ لیکن آپ نے اس خواب کو بیان نہیں کیا اور یہ کہہ کربات تمام کردی : ''وما أنا محدث لها حتی ألقی ربی ''

شاید یہیں پرا حمد بن اعثم کوفی متوفی ٣١٠ ھ نے امام علیہ السلام کے اس خواب کا تذکر ہ کر دیا ہے جو آپ نے اپنے جد کی قبر پر مد ینہ میں دیکھا تھا لیکن یہ کیسے معلوم کہ یہ خواب وہی ہے ؟ جب امام علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ خواب خدا کی ملا قات سے قبل میں کسی سے بھی بیان نہیں کرو ں گا یعنی یہ وہی بات ہے جس کا میں نے عہد کیا ہے ۔ واللہ اعلم بہ ، اللہ اس سے بہتر آگاہ ہے۔

۲۲۴

راستہ کی منزلیں

* پہلی منزل: تنعیم

* دوسری منزل : صفاح

*تیسری منزل : حاجر

* چوتھی منزل:چشمۂ آب

* پانچویں منزل : خزیمیہ

* زہیر بن قین کا امام علیہ السلام سے ملحق ہونا

* ایک اور نامہ

* چھٹی منزل :زرود

* ساتویں منزل :ثعلبیہ

* آٹھویں منزل:زبالہ

* نویں منزل : درّہ عقبہ

* دسویں منزل : شراف

* گیارہویں منزل : ذو حسم

* بارہویں منزل : البیضہ

* تیرہویں منزل : عذیب الھجانات

* چودہویں منزل : قصر بنی مقاتل

* قربان گاہ عشق نینوا

۲۲۵

راستہ کی چودہ (١٤)منزلیں

پہلی منزل :تنعیم(١)

امام حسین علیہ السلام نے اپنے سفرکو جاری رکھااورراستہ میں آپ کا گذرایک ایسی جگہ سے ہوا جسے تنعیم کہتے ہیں ۔ وہاں آپ کی ملاقات ایک قافلہ سے ہوئی جسے بحیر بن ریسان حمیر ی(٢) نے یزید بن معاویہ کی طرف روانہ کیا تھا۔ یہ شخص یمن میں یزید کاکار گزار تھا۔ اس قافلہ کے ہمراہ الورس(٣) اور بہت سارے شاہانہ لباس تھے جسے عامل یمن نے یزید کے پاس روانہ کیا تھا۔امام علیہ السلام نے اس کا روان کے سارے بار کو اپنی گرفت میں لے لیا اور قافلہ والوں سے فرمایا :''لا أکر هکم من أحب أن یمضی معنا الی العراق أوفینا کراء ه وأحسنا صحبته، ومن أحب أن یفارقنا من مکاننا هذا أعطیناه من الکراء علیٰ قدر ماقطع من الارض''

____________________

١۔یہ مکہ سے دوفرسخ پر ایک جگہ ہے جیساکی معجم البلدان ج٢،ص٤١٦پر مرقوم ہے ۔ مکہ کے داہنی جانب ایک پہاڑہے جسے تنعیم کہتے ہیں اور شمالی حصہ میں ایک دوسراپہاڑہے جسے ''ناعم ''کہتے ہیں او راس وادی کو ''نعیمان''کہتے ہیں ۔وہا ں پر ایک مسجد موجود ہے جو قر یب ترین میقات اورحرم سے نزدیک ترین احرام سے باہر آنے کی جگہ ہے آج کل یہ جگہ مکہ کے مرکزی علاقہ سے ٦ کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے جس کا مطلب یہ ہو ا کہ ایک فرسخ ہے نہ کہ دو فرسخ ۔ اس وقت شہر سے لے کر یہا ں تک پورا ایک متصل اور وسیع علاقہ ہے جو مدینہ یا جدہ سے مکہ آنا چاہتا ہے اسے ادھر ہی سے ہو کر گذرنا پڑتا ہے۔

٢۔گویایہ وہی شخص ہے جو علم نجوم میں صاحب نظر تھاکیونکہ اس نے عبداللہ بن مطیع کو بتایا تھا کہ جب ابن زبیر قیام کرے گا تو وہ کوفہ کاوالی بنے گا۔(طبری ،ج٦، ص ٩) طاوؤ س یمانی جو بہت معروف ہیں اس شخص کے آقا تھے۔طاوؤ س یمانی نے مکہ میں ١٠٥ھ میں وفات پائی۔(طبری، ج٦، ص٢٩)

٣۔ الورس؛ یہ خاص قسم کی گھاس ہے جو تل کی طرح ہوتی ہے اور رنگ ریزی کے کام آتی ہے اور اس سے زعفران بھی بنایا جاتا ہے۔ یہ گھاس یمن کے علاوہ کہیں بھی نہیں ملتی ہے۔

ممکن ہے کہ بادی النظر فکر میں کسی کو امام علیہ السلام کا یہ فعل العیاذباللہ نا مناسب لگے کہ آپ نے درمیان سے قافلہ کے بار کو اپنی گرفت میں کیو ں لیا؟ یہ تو غصب ہے لیکن وہ افراد جو تاریخ کی ابجد خوانی سے بھی واقف ہو ں گے وہ بالکل اس کے برعکس فیصلہ کری ں گے۔ ہمارے عقیدہ کے مطابق تو امام علیہ السلام کا کام غلط ہوہی نہیں سکتا، انھو ں نے جو کیا وہی حق ہے لیکن ایک غیر کے لئے تا ریخ کی ورق گردانی کافی ہوگی اور جب وہ تاریخ کے اوراق میں امام حسن علیہ ا لسلام کی صلح کے شرائط پر نگاہ ڈالے گا تو ظاہری اعتبار سے بھی یزید کا تخت حکومت پر براجمان ہونا غلط ثابت ہوگا اور وہ ایک باغی شمار کیا جائے گا جس نے مسلمانو ں کے بیت المال کو غصب کیاہے اور امام حسین علیہ السلام امت مسلمہ کے خلیفہ قرار پائی ں گے جن کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی ہر ممکن کوشش صرف کرکے اس غاصب و باغی تک اموال مسلمین پہنچنے سے مانع ہو ں پس یمن کے اس قافلہ کو روک کر اموال کو اپنی گرفت میں لینا امام علیہ السلام کا اولین فریضہ تھا لہٰذا ہم ملاحظہ کرتے ہیں کہ امام علیہ السلام نے قافلہ والو ں سے بڑی دلنشین گفتگو کی جب کہ ظالم وجابر حکومت کی نگاہ میں ایسے افراد لائق گردن زدنی یا قابل قید و بندہوتے ہیں ۔(مترجم)

۲۲۶

میں تم لوگوں پر کوئی زبر دستی نہیں کرتا لیکن تم میں جو یہ چاہتا ہے کہ ہمارے ساتھ عراق چلے تو ہم اس کو کرایہ سفر بھی دیں گے اور اس کی ہمراہی کو خوش آمدید بھی کہیں گے اور جو ہم سے یہیں سے جدا ہونا چاہتا ہے اسے بھی ہم اتنا کرایہ سفر دے دیں گے کہ وہ اپنے وطن تک پہنچ جائے ۔

امام علیہ السلام کی اس دلنشین گفتار کے بعد جو بھی اس قافلہ نور سے جدا ہوا اسے امام علیہ السلام نے اس کا حق دے دیا اور جس نے رکنا چاہا اسے کرایہ دینے کے علاوہ اما م علیہ السلام نے لباس بھی عطا کیا۔(١)

دوسری منزل : الصفاح(٢)

عبداللہ بن سلیم اسدی اور مذری بن مشمعل اسدی کا بیان ہے کہ پہلی منزل سے چلنے کے بعدہم لوگ امام حسین علیہ السلام کے قافلہ کے ہمراہ دوسری منزل پر پہنچے جسے '' الصفاح '' کہتے ہیں اور وہاں ہماری ملاقات فرزدق بن غالب(٣) شاعر سے ہوئی۔ وہ حسین علیہ السلام کے پاس آئے اور کہا: خدا وند متعال آپ کی حاجت کو پورا کرے اور آ پ کی تمنا و آرزو کو منزل مراد تک پہنچائے ۔

____________________

١۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری،ج٥، ص ٣٨٥)

٢۔یہ جگہ حنین اور انصاب الحرم کے درمیان ہے جو بہت آ سانی سے مکہ میں داخل ہونے کا راستہ ہے ۔

٣۔ اس شخص کا نام ھمام بن غالب بن صعصہ ہے۔ ان کے دونو ں چچا'' ذھیل'' اور ''زحاف ''بصرہ میں زیاد بن سمیہ کے دیوان میں دو دو ہزار بخشش لیا کرتے تھے ۔انھو ں نے بنی نہشل اور فقیم کی ہجو میں اشعار کہے تو ان دونو ں نے زیاد سے جا کر ان کی

۲۲۷

شکایت کی ۔جب اس نے فرزدق کو طلب کیا تویہ وہا ں سے بھاگ گئے۔ اس کے بعد نوبت یہ آ گئی جب زیاد بصرہ آتا تھا تو فرزدق کوفہ آجاتے تھے اور جب وہ کوفہ آتا تھا تو فرزدق بصرہ روانہ ہوجاتے تھے۔ واضح رہے کہ زیاد ٦ مہینہ بصرہ رہتا تھااور ٦ مہینہ کوفہ کے امور سنبھالتا تھا۔ اس کے بعد یہ حجاز چلے گئے اور وہیں مکہ ومدینہ میں رہنے لگے۔اس طرح زیاد کی شرارتو ں سے بچ کر سعید بن عاص کی پناہ میں رہنے لگے یہا ں تک کہ زیاد ہلاک ہوگیا(طبری، ج٥، ص ٢٤٢، ٢٥٠)تو انھو ں نے اس کی ہجو میں مرثیہ کہا :

بکیت امرئً امن آ ل سفیان کافراً ککسری علی عدوانہ أو کقیصراً (طبری، ج٥،ص ٢٩٠)میں نے آل سفیان کے ایک مرد پر گریہ کیا جو کافر تھا جیسے قیصر و کسری اپنے دشمن پر روتے ہیں ۔

ابن زیاد کی ہلاکت کے بعد یہ دوبارہ بصرہ پلٹ گئے اور وہیں رہنے لگے۔ ٦٠ھمیں یہ اپنی ما ں کے ہمراہ حج پر آ رہے تھے جب ان کی امام حسین علیہ السلام سے ملاقات ہوئی شاید اسی لئے حسین علیہ السلام کے ہمراہ کربلا میں حاضری نہ دے سکے۔ (طبری، ج٥، ص ٣٨٦) انھو ں نے حجاج کے لئے بھی شعر کہے ہیں ۔(طبری ،ج٦،ص ٣٨٠و ٩٣٩٤) سلیمان بن عبدالملک کے محل میں بھی ان کی آمد ورفت تھی۔ (طبری ،ج٥، ص ٥٤٨)١٠٢ھ تک یہ شاعر زندہ رہے۔(طبری ،ج٥، ص ٢٤٢ ، ٢٥٠) بنی نہشل کی ہجو میں جب انھو ں نے اشعار کہے تھے تو یہ جوان تھے بلکہ ایک نوجوان اعرابی تھے جو دیہات سے آئے تھے۔ (طبری ،ج٥ ، ص ٢٤٢) ایسی صورت میں امام علیہ السلام سے ملاقات کے وقت ان کی عمر ٣٠سال سے کم تھی۔

امام علیہ السلام نے اس سے کہا :''بيّن لنا نبأ الناس خلفک'' تم جس شہر اور جہا ں کے لوگو ں کو اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو ان کی خبری ں ہمارے لئے بیان کرو ۔فرزدق نے کہا : آ پ نے واقف کار شخص سے سوال کیا ہے تو سنئے :'' قلوب الناس معک ''لوگو ں کے دل آپ کے ساتھ ہیں ''و سیوفهم مع بنی امیه'' اور ان کی تلواری ں بنی امیہ کے ساتھ ہیں'' والقضاء ینزل من السمائ'' لیکن فیصلہ و قضا تو خدا وند عالم کی طرف سے ہے ''واللّہ یفعل ما یشائ'' اور اللہ وہی کرتا ہے جو چاہتا ہے۔

۲۲۸

امام حسین علیہ السلام نے ان سے کہا : تم نے سچ کہا، اللہ جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے ؛ہمارے رب کی روزانہ اپنی ایک خاص شان ہے لہٰذا اگر اس کا فیصلہ ایسا ہوا جو ہمیں محبوب ہے تو اس کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کریں گے اور شکر کی ادائیگی میں وہ ہمارا مدد گا ر ہے اور اگرفیصلہ الہٰی ہماری امیدوں کے درمیان حائل ہوگیا تب بھی اس شخص کے لئے کچھ نہیں ہے جس کی نیت حق اور جس کی سرشت تقویٰ ہے۔ یہ کہہ کر امام علیہ السلام نے اپنی سواری کو حرکت دی تو انھوں نے امام کو سلام کیا اور دونوں جدا ہوگئے۔(١) و(٢) جب عبیداللہ بن زیاد کو خبر ملی کہ امام حسین علیہ السلام مکہ سے عراق کی طرف آرہے ہیں تو اس نے اپنی پولس کے سربراہ حصین بن تمیم تمیمی کو روانہ کیا۔ اس نے مقام قادسیہ میں آکر پڑاؤ ڈالا اور قادسیہ(٣) و خفا ن(٤) کے درمیان اپنی فوج کو منظم کیا اسی طرح قادسیہ اور قطقطانہ(٥) اورلعلع کے درمیان اپنی فوج کو منظم کرکے کمین میں لگادیا۔(٦)

____________________

١۔ ابومخنف کا بیان ہے کہ ابی جناب نے عدی بن حرملہ سے اور اس نے عبداللہ بن سلیم سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥، ص ٣٨٦) یہ بیان اس بیان سے میل نہیں کھاتا جو ان دونو ں سے عنقریب بیان ہو گا کہ یہ دو نو ں کہتے ہیں کہ ہم لوگ مقام '' زرود میں امام علیہ السلام سے ملحق ہوئے اور یہ منزل صفاح کے بعد کوفہ کے راستہ میں چندمنازل کے بعد ہے مگر یہ کہا جائے کہ ان کے قول''اقبلنا حتی انتھینا ''کا مطلب یہ ہوکہ ہم لوگ کوفہ سے روانہ ہوکر صفاح تک پہنچے جو مکہ میں داخل ہونے کا راستہ ہے پھر مناسک حج انجام دینے کے بعد منزل زرود میں امام علیہ السلام سے دوبارہ ملحق ہوگئے ۔

٢۔طبری نے کہا : ہشام نے عوانہ بن حکم کے حوالے سے، اس نے لبطہ بن فرزدق بن غالب سے اور اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ اس کے باپ نے کہا : میں نے ٦٠ھ میں حج انجام دیا اور ایام حج میں حرم میں داخل ہو ا تو دیکھا حسین بن علی مکہ سے نکل رہے ہیں میں ان کے پاس آیا اورعرض کی: بأبی أنت و أمی یا بن رسول اللّٰہ! ما اعجلک عن الحج؟ فرزند رسول خدا میرے ما ں باپ آپ پر قربان ہوجائی ں !آپ کو اتنی بھی کیا جلدی تھی کہ آپ حج چھوڑ کر جارہے ہیں ؟ امام علیہ السلام نے جواب دیا : لو لم أعجل لأْ خذت اگر میں جلدی نہ کرتا تو پکڑ لیا جاتا ۔ فرزدق کہتا ہے کہ پھر آپ نے مجھ سے پوچھا ممن أنت ؟تم کہا ں کے رہنے والے ہو ؟ تو میں نے جواب دیا : میں عراق کا رہنے والا ایک شخص ہو ں ؛ خدا کی قسم !اس سے زیادہ انھو ں نے میرے بارے میں تفتیش نہیں کی ؛ بس اتنا فرمایا : جن لوگو ں کو تم اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو مجھے ان کی خبر بتاؤ تو میں نے کہا: انکے قلوب آپ کے ساتھ ہیں اور تلواری ں بنی امیہ کے ہمراہ ہیں اور قضاء اللہ کے ہاتھ میں ہے۔آپ نے مجھ سے فرمایا : تم نے سچ کہا! پھر میں نے نذر اور مناسک حج کے سلسلہ میں کچھ سوالات کئے تو آپ نے اس کے جواب سے مجھے بہرہ مند فرمایا۔(طبری، ج٥، ص ٣٨٦)

٣۔قادسیہ او ر کوفہ کے درمیان ١٥ فرسخ کی مسافت ہے اور اس کے وعذیب کے درمیان ٤میل کا فاصلہ ہے اور اسے دیوانیہ کہتے ہیں ۔ حجاز کے دیہات کی طرف یہ(قادسیہ) عراق کا سب سے پہلا بڑاشہر ہے۔ اسی جگہ پر عراق کی سب سے پہلی جنگ بنام جنگ قادسیہ سعد بن ابی وقاص کی قیادت میں ہوئی ہے ۔

٤۔ یہ ایک قریہ ہے جو کوفہ سے نزدیک ہے جہا ں بنی عباس کا ایک پانی کاچشمہ ہے جیسا کہ معجم البلدان، ج ٣ ، ص٤٥١ پر موجود ہے ۔

٥۔ قطقطانہ ، رہیمہ سے کوفہ کی طرف تقریباً ٢٠میل کے فاصلہ پرہے۔ (طبری، ج٧ ، ص ١٢٥) یعقوبی کا بیان ہے : جب امام علیہ السلام کومسلم کی شہادت کی خبر ملی تو آپ قطقطانہ میں تھے۔ (طبری، ج٢، ص ٢٣٠)

٦۔ابو مخنف کا بیان ہے : مجھ سے یونس بن ابی اسحاق سبیعی نے اس کی روایت کی ہے۔(طبری ،ج٥،ص٣٩٤)

۲۲۹

تیسری منزل : حاجر(١)

اس کے بعد امام حسین علیہ السلام اپنے مقصد کی طرف روانہ ہوتے ہوئے حاجر بطن رمہ(٢) تک پہنچے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے قیس بن مسہر صیداوی کو اہل کوفہ کی طرف روانہ کیا اور ان کے ہمراہ اہل کوفہ کے نام ایک خط لکھا :

''بسم اللّه الرحمن الرحیم ! من الحسین بن علی الی اخوانه من المومنین و المسلمین، سلام علیکم : فانّی أحمد الیکم اللّٰه الذی لا اله الا هو ، أما بعد ، فان کتاب مسلم بن عقیل جاء ن یخبرن فیه بحسن رأیکم و اجتماع ملئکم علی نصرنا و الطلب بحقنا فسألت اللّٰه أن یحسن لنا الصنع وأن یثیبکم علی ذالک أعظم الاجر ، وقدشخصت من مکة یوم الثلاثاء لثمان مضین من ذی الحجه یوم التروية فاذا قدم علیکم رسول فا کمشوا أمرکم و جدّ وا، فان قادم علیکم فأیام هٰذه، ان شاء اللّٰه؛ والسلام علیکم ورحمة اللّه وبرکا ته ''

بسم اللّہ الرحمن الرحیم ! یہ خط حسین بن علی کی جانب سے اپنے مومنین و مسلمین بھائیوں کے نام، سلام علیکم ، میں اس خدا کی حمد و ثنا کرتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ۔امابعد ، حقیقت یہ ہے کہ مسلم بن عقیل کا خط مجھ تک آچکا ہے، اس خط میں انھوں نے مجھے خبر دی ہے کہ تم لوگوں کی رائے اچھی ہے اور تمہارے بزرگوں نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ وہ ہماری مدد کریں گے اور ہمارے حق کو ہمارے دشمنوں سے واپس لے لیں گے تو میں خدا سے سوال کرتا ہوں کہ وہ ہمارے لئے اچھی راہ قرار دے اور اس کے ثواب میں تم لوگوں کو اجرعظیم سے نوازے ۔

____________________

١ ۔حاجرنجد کی بلند وادی کو کہتے ہیں ۔

٢۔ بطن رمہ وہ جگہ ہے جہا ں اہل کو فہ و بصرہ اس وقت یکجا ہوتے تھے جب وہ مدینہ جانے کا ارادہ کرتے تھے جیسا کہ معجم البلدان، ج ٤،ص ٢٩٠،اور تاج العروس، ج ٣،ص١٣٩پر مرقوم ہے۔

۲۳۰

اس سے تم لوگ آگاہ رہوکہ میں بروز سہ شنبہ ٨ ذی الحجہ یوم الترویہ مکہ سے نکل چکا ہوں لہذا جب میرا نامہ بر تم لوگوں تک پہنچے تو جو کام تم کو کرنا چاہئیے اس کی تدبیر میں لگ جاؤ اور اس مسئلہ میں بھر پور کوشش کرو کیونکہ میں انشا ء اللہ انہی چند دنوں میں تم تک پہنچنے والا ہوں ۔ والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

امام حسین علیہ السلام کا یہ خط لے کر قیس بن مسہر صیداوی کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے۔آپ جب قادسیہ پہنچے تو حصین بن تمیم نے آپ کو گرفتار کر کے عبیداللہ بن زیاد کے پاس بھیج دیا ۔

ابن زیاد نے آپ سے کہا محل کی چھت پر جاؤ اور کذاب بن کذاب کو گالیاں دو !

قیس بن مسہر شجاعت وشہا مت کے ساتھ محل کی چھت پر آئے اور کہا :'' أیھا الناس ! ان الحسین علیہ السلام بن علی خیر خلق اللّٰہ ابن فاطمہ بنت رسول اللہ وأنا رسولہ الیکم وقد فارقتہ بالحاجر فأجیبوہ ثم لعن عبید اللہ بن زیاد وأباہ واستغفر لعلیِّ بن أبی طالب '' اے لوگو ! حسین بن علی خلق خدا میں بہتر ین مخلوق ہیں ، آپ فرزند فاطمہ بنت رسول خدا ہیں اور میں ان کا نامہ بر ہوں ، میں ان کو مقام حاجر میں چھوڑ کر یہاں آیا ہوں ۔ تم لوگ ان کی عدالت خواہ آواز پر لبیک کہنے کے لئے آمادہ ہو جاؤ پھر آپ نے عبید اللہ اور اس کے باپ پر لعنت کی اور علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کے لئے طلب مغفرت کی۔عبید اللہ نے حکم دیا کہ انھیں محل کے اوپر سے نیچے پھینک دیا جائے، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور آپ کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا۔اس طرح آپ شہید ہو گئے ۔] اللہ آپ پر نزول رحمت فر مائے[(١)

چو تھی منزل : چشمۂ آب

امام حسین علیہ السلام کا قافلہ کوفہ کی طرف رواں دواں تھا؛ راستے میں آپ کا قافلہ عرب کے ایک پا نی کے چشمہ کے پاس جا کر ٹھہرا۔ وہاں عبد اللہ بن مطیع عدوی بھی موجود تھے جو پا نی لینے کی غرض سے وہاں اترے تھے۔جیسے ہی عبد اللہ بن مطیع نے امام حسین علیہ السلام کو دیکھا ویسے ہی آپ کی خدمت میں

____________________

١۔ کتاب کے مقدمہ میں شرح احوال موجود ہے۔

۲۳۱

آکر کھڑے ہو گئے اور عرض کی: فرزند رسول خدا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں !کون سا سبب آپ کو یہاں تک لے آیا ؟

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : اہل عراق نے خط لکھ کر مجھے اپنی طرف بلا یا ہے۔عبد اللہ بن مطیع نے آپ سے عرض کیا: فرزند رسول اللہ آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ اس راہ میں آپ اسلام کی ہتک حرمت نہ ہو نے دیں ، میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ(وآلہ) وسلم کی حرمت خطرے میں نہ پڑے ،خدا کے لئے عرب کی حرمت خطرے میں نہ ڈالئے۔خدا کی قسم! اگر حق کو بنی امیہ سے واپس لینا چاہیں گے تو وہ آپ کو قتل کر ڈالیں گے اور اگر ان لوگوں نے آپ کو قتل کردیا تو آپ کے بعد کسی کو نگا ہ میں نہیں لا ئیں گے ۔(١) خدا کی قسم! اسلام کی حرمت، قریش کی حرمت ہے اورعربوں کی حرمت خاک میں مل جائے گی ،پس آپ ایسا نہ کریں اور کوفہ نہ جائیں اور بنی امیہ سے نہ الجھیں !عبد اللہ بن مطیع نے اپنے نظر یہ کو پیش کیا اور امام علیہ السلام اسے بغور سنتے رہے لیکن اپنے راستے پر چلتے رہے۔

پانچو یں منزل:خزیمیہ(٢)

امام حسین علیہ السلام کا سفر اپنے مقصد کی طرف جاری تھا۔ چلتے چلتے پھر ایک منزل پررکے جو مقام '' زرود'' سے پہلے تھی یہاں پر پانی موجود تھا،(٣) اس جگہ کا نام خزیمیہ ہے ۔

____________________

١۔ امام کے عمل سے نہ تو اسلام کی بے حرمتی ہوئی نہ ہی رسول خدا ، عرب اور قریش کی ہتک حرمت ہوئی بلکہ اسلام دشمن عناصر کی کا رستا نیو ں سے یہ سب کچھ ہوا ۔ابن مطیع نے اپنے اس جملہ میں خطا کی ہے جو یہ کہہ دیا کہولئن قتلوک لا یها بون بعد ک احداابدا کیونکہ امام علیہ السلام کے بعد ان لوگو ں کو جرأ ت ملی جو مکہ ومدینہ وکوفہ میں اس سے پہلے اپنے ہاتھو ں میں چوڑیا ں پہنے بیٹھے تھے انھی ں میں سے خود ایک ابن مطیع بھی ہے جو ابن زبیر کے زمانے میں کوفہ کا والی بنا۔ اگر امام حسین علیہ السلام نے قیام نہ کیا ہوتا تو بنی امیہ کے خلا ف کسی میں جرأ ت پیدا نہ ہوتی اور اسلام کو مٹا نے میں وہ جو چاہتے وہی کرتے ۔

٢۔یہ جگہ مقام زرود سے پہلے ہے اس کے بعدکاراستہ کوفہ جانے والو ں کے لئے ہے جیسا کہ معجم البلدان میں آیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے اس کے اورثعلبیہ کے درمیان ٣٢کیلومیٹرکا فاصلہ ہے۔ یہ درحقیقت ثعلبیہ کے بعدحجاج کی پہلی منزل ہے۔

٣۔ طبری ،ج٥،ص ٣٩٤، ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے محمد بن قیس نے یہ روایت بیان کی ہے ۔شاید یہ قیس بن مسہر کے فرزند ہیں ۔

۲۳۲

زہیر بن قین کا امام حسین علیہ السلام سے ملحق ہونا

قبیلہء بنی فنرارہ کے ایک مرد کا بیان ہے : ہم زہیر بن قین بجلی کے ہمراہ تھے اور ہم اسی راستے پر چل رہے تھے جس راستہ پر حسین (علیہ السلام) محو سفر تھے لیکن ہمارے لئے سب سے زیادہ نا پسند امر یہ تھا کہ ہم ان کے ہمراہ ایک ساتھ سفر کریں اور ایک منزل پر ٹھہریں لہٰذ ا زہیر کے حکم کے مطا بق حسین جہاں ٹھہر تے تھے ہم وہاں سے آگے بڑھ جا تے اور وہ جہاں پر آگے بڑھتے ہم وہاں پڑاؤ ڈال کر آرام کرتے تھے؛ لیکن راستے میں ہم ایک ایسی منزل پر پہنچے کہ چارو نا چار ہم کو بھی وہیں پر رکنا پڑا جہاں پر امام حسین نے پڑاؤ ڈالا تھا۔ امام حسین نے ایک طرف اپنا خیمہ لگا یا اور ہم نے اس کے دوسری طرف ؛ ہم لوگ ابھی بیٹھے اپنے خیمے میں کھا نا ہی کھا رہے تھے کہ یکایک حسین کا پیغام رساں حاضر ہوا اور اس نے سلام کیاپھر خیمہ میں داخل ہوا اور کہا : اے زہیر بن قین ! ابو عبد اللہ حسین بن علی نے مجھے تمہاری طرف بھیجا ہے تا کہ تم ان کے پاس چلو۔ اس جملہ کا اثر یہ ہوا کہ حیرت وتعجب سے جس انسان کے ہاتھ میں جو لقمہ تھا وہ نیچے گر گیا؛ سکوت کا یہ عالم تھا کہ ایسا محسوس ہو تا تھا کہ ہم سب کے سروں پر طائر بیٹھے ہیں ۔(١) زہیر بن قین کی زوجہ دلھم بنت عمر کہتی ہے کہ میں نے زہیر سے کہا : فرزند رسول اللہ تمہارے پاس پیغام بھیجے اور تم ان کے پاس نہ جائو !سبحان اللہ! اگر انھوں نے مجھے بلایا ہوتاتو میں ضرور جاتی اور ان کے گہر بار کلام کو ضرور سنتی، پھر میں نے کچھ نہ کہا لیکن زہیر بن قین اٹھے اور امام علیہ السلام کی بارگاہ میں روانہ ہوگئے ۔ابھی کچھ دیر نہ گزری تھی کہ واپس آگئے لیکن اب تو بات ہی کچھ اور تھی؛ چہرے پر خوشی کے آثار تھے اور چہرہ گلاب کی طرح کھلا جارہاتھا۔

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سدّی نے بنی فزارہ کے ایک جوان کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ جب حجاج بن یوسف کے زمانے میں ہم لوگ زہیر بن قیس بجلی کے مکان میں چھپے تھے جہا ں اہل شام داخل نہیں ہو تے تھے تو میں نے فزاری سے پوچھا: ذرا مجھ سے اس واقعہ کو بیان کرو جب تم لوگ حسین بن علی کے ہمراہ، سفر میں تھے تو اس نے یہ روایت بیان کی۔(طبری، ج٥، ص ٣٩٦، ارشاد، ص ٢٢١، خوارزمی، ص٣٢٥)

۲۳۳

اسی عالم میں زہیر نے اپنے ہمراہیوں سے کہا : تم میں سے جو ہمارے ساتھ آناچاہتا ہے آ جائے اور اگر نہیں تو اب اس سے میرا یہ آخری دیدار ہے۔اس کے بعداپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے زہیر نے کہا : میں تم لوگوں سے ایک روایت بیان کرنا چاہتا ہوں ، اسے غور سے سنو !ہم لوگ جب مقام '' بلنجر ''(١) پر لڑنے کے لئے گئے تو خداوندمتعال نے ہم لوگوں کو دشمنوں پر کامیابی عطاکی اور بڑی مقدار میں مال غنیمت بھی ہاتھ آیا۔اس وقت سلمان باہلی(٢) نے ہم لوگوں سے کہا : کیا تم لوگ اس بات پر خوش ہو کہ خدا وند عالم نے تم لوگوں کو فتح و ظفر سے نوازاہے اور کافی مقدار میں مال غنیمت تمہارے ہاتھوں لگاہے ؟ ہم لوگوں نے کہا : ہاں کیوں نہیں !تواس نے ہم لوگوں سے کہا : جب تم لوگ آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کی جوانی دیکھو گے تو تمہاری ان کے ساتھ جنگ کی خوشی اس مال غنیمت ملنے کی خوشی سے زیادہ ہو گی اورجہاں تک میری بات ہے تو اب میں تم لوگوں سے خدا حافظی کر تا ہوں ۔

پھر زہیر بن قین نے اپنی زوجہ کی طرف رخ کرتے ہوئے کہا : اب میں تم کو طلا ق دے رہا ہوں تاکہ تم آزاد ہو جاؤ اورگھروالوں کے پاس جا کر وہیں زندگی بسر کرو؛ کیونکہ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میری وجہ سے تمہیں کوئی نقصان پہنچے۔میں تمہارے لئے بہتری چاہتاہوں ۔(٣) و(٤)

____________________

١۔ یہ تاتا ریو ں (یا خزریو ں) کا شہر ہے جو انہیں کے دروازو ں میں سے ایک دروازے کے نزدیک ہے ٣٣ھ عہد عثمان میں سلمان بن ربیعہ باہلی کے ہاتھو ں یہ جنگ فتح کی گئی جیسا کہ معجم البلدان میں یہی موجود ہے ۔

٢۔ طبری ،ج٤، ص ٣٠٥ پر ہے کہ سلمان فارسی اور ابو ہریرہ اس جنگ میں لشکر کے ہمراہ موجود تھے ۔یہ بیان ابن اثیر کی الکامل میں ہے (ج ٤،ص ١٧)پھریہ بیان ہے کہ جس شخصیت نے ان لوگو ں سے یہ گفتگوکی وہ سلمان فارسی ہیں نہ کہ باہلی۔ ابن اثیر نے ا پنی تاریخ الکامل فی التاریخ میں اس بات کا ارادہ کیا ہے کہ تاریخ طبری کو کامل کری ں لہٰذاوہ اکثرو بیشتر اخبار میں طبری سے ناقل دکھائی دیتے ہیں ۔شیخ مفید نے ارشاد میں اور فتال نے روضة الواعظین میں ص ١٥٣پر ، ابن نمانے مثیر الاحزان میں ص ٢٣پر ، خوارزمی نے اپنے مقتل میں ج١، ص ٢٢٥پر اور البکری نے معجم ج١ ،ص٣٧٦ پر واضح طور سے اس بات کی صراحت کی ہے کہ وہ شخص جناب سلمان فارسی ہی تھے جنہو ں نے یہ جملہ کہا تھا۔ اس بات کی تائید طبری نے بھی کی ہے کیونکہ طبری کے بیان کے مطابق جناب سلمان وہا ں موجود تھے ؛ لیکن ظاہر یہ ہے کہ مدائن فتح ہونے کے بعد جناب سلمان فارسی وہیں کے گورنر رہے اور وہیں اپنی وفات تک قیام پذیر رہے اور کسی بھی جنگ کے لئے وہا ں سے نہیں نکلے؛ بلکہ اس جنگ سے قبل عمر کے عہد حکومت میں آپ نے اس دنیا کو الوداع کہہ دیا تھا ۔

٣۔ ابو مخنف کا بیان ہے : مجھ سے یہ خبر زہیر بن قین کی زوجہ دلھم بنت عمر و نے بیان کی ہے۔(طبری ،ج٥،ص٣٩٦، الارشاد، ص ٢٢١)

٤۔ عنقریب یہ بات کربلامیں زہیر بن قین کے خطبے سے معلوم ہوجائے گی کہ اس سے قبل زہیراس بات پر معاویہ کی مذمت کیا کرتے تھے کہ اس نے زیاد کو کس طرح اپنے سے ملحق کرلیا؛اسی طرح حجر بن عدی کے قتل پر بھی معاویہ سے ناراض تھے ۔

۲۳۴

ایک اور نامہ بر

اسی جگہ سے امام حسین علیہ السلام نے عبداللہ بن بقطر حمیری(١) کو بعض راستوں سے مسلم بن عقیل(٢) کی طرف روانہ کیا۔ سپاہ اموی جو حصین بن تمیم کے سربراہی میں کوفہ کے قریب قادسیہ میں چھاؤنی ڈالے راہوں کو مسدود کئے تھی اور آمد و رفت پر سختی سے نظررکھے ہوئی تھی؛ اس نے عبداللہ بن بقطر کوگرفتار کر کے عبیداللہ بن زیاد کے پاس بھیج دیا۔ جب آپ عبیداللہ کے پاس لائے گئے تو اس نے کہا : محل کے اوپر جاؤ اور کذاب بن کذاب پر لعنت بھیجو پھر نیچے اتر آؤ تاکہ میں تمہارے سلسلے میں اپنانظریہ قائم کرسکوں ۔یہ سن کر عبداللہ بن بقطر محل کے اوپر گئے اور جب دیکھا کہ لوگ تماشابین کھڑے ہیں تو آپ نے فرمایا :

'' أیھاالناس انی رسول الحسین علیہ السلام بن فاطمہ بنت رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم لتنصروہ و توازروہ علی بن مرجانة بن سمیہ الدعی ! ''

اے لوگومیں حسین فرزند فاطمہ بنت رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام رساں ہوں تاکہ تم لوگ ان کی مدد و نصرت کر سکو اور اس مرجانہ بن سمیہ کے بچے جس کی پیدائش کا بستر معلوم نہیں ہے، کے خلاف ان کی پشت پناہی کرو ،یہ سنتے ہی عبیداللہ بن زیادنے حکم دیاکہ انھیں چھت سے پھینک دیاجائے۔ اس کے کارندوں نے آپ کو محل کے اوپر سے نیچے پھینک دیا؛جس کی وجہ سے آ پ کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں ؛ لیکن ابھی رمق حیات باقی تھی۔عبدالملک بن عمیرلخمی(٣) آپ کے پاس آ یا اور آپ کو ذبح کر کے شہید کر ڈالا۔

____________________

١۔ آپ کی ما ں امام حسین علیہ السلام کی دیکھ بھال کیاکرتی تھی ں اسی لئے آپ کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ آ پ حضرت امام حسین علیہ السلام کے رضائی بھائی تھے۔طبری نے بقطر ہی لکھا ہے اسی طرح جزری نے الکامل میں بھی بقطر ہی ذکر کیا ہے؛ لیکن ہمارے بزرگو ں نے(ی) کے ساتھ یعنی یقطر لکھاہے جیسا کہ سماوی نے ابصارالعین، ص٥٢پر یہی لکھا ہے ۔

٢۔ ابومخنف کا بیان ہے : مجھ سے یہ خبرابو علی انصاری نے بکر بن مصعب مزنی کے حوالے سے نقل کی ہے۔(طبری ،ج٥، ص٣٩٨؛ارشاد، ص ٢٢٠) اس خبر کو انھو ں نے قیس بن مسہر صیداوی کی خبرسے خلط ملط کردیا ہے ۔

٣۔ شعبی کے بعد اس نے کوفہ میں قضاوت کا عہدہ سنبھالا۔ ١٣٦ ھ میں وہ ہلاک ہوا ؛اس وقت اس کی عمر ١٠٣ سال تھی جیسا کہ میزان الاعتدال، ج ١، ص ١٥١ ، اور تہذیب الاسمائ، ص٣٠٩ پر تحریرہے۔ عنقریب یہ بات آئے گی کہ منزل زبالہ پر صیداوی کی شہادت کی خبر سے پہلے امام علیہ السلام کو ابن بقطر کی شہادت کی خبر ملی ہے؛ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام نے قیس بن مسہر صیداوی سے پہلے یقطر کو روانہ کیا تھا ۔

۲۳۵

چھٹی منزل: زرود(١)

عبداللہ بن سلیم اسدی اور مذری بن مشمعل سے روایت ہے کہ ان دونوں نے کہا :

جب ہم حج سے فارغ ہوگئے تو ہماری ساری کوشش یہی تھی کہ ہم کسی طرح حسین سے راستے میں ملحق ہو جائیں تاکہ دیکھیں کہ بات کہاں تک پہنچتی ہے؛ لہٰذا ہم لوگوں نے اپنے ناقوں کو سر پٹ دو ڑایا؛ یہاں تک کہ مقام زرود(٢) پر ہم ان سے ملحق ہوگئے۔جب ہم لوگ ان کے قریب گئے تو دیکھا کوفہ کا رہنے والا ایک شخص عراق سے حجاز کی طرف روانہ ہے، جیسے ہی اس نے امام حسین علیہ السلام کو دیکھا اپنے راستے سے پلٹ گیا تاکہ آپ سے اس کی ملاقات نہ ہو لیکن ا مام علیہ السلام وہاں پر کھڑ ے رہے گویا اس کے دیدار کے منتطر تھے لیکن جب دیکھا کہ وہ ملاقات کے لئے مائل نہیں ہے تو اسے چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔

ہم میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا : آؤ اس شخص کے پاس چلیں اور اس سے پوچھیں اگر اس کے پاس کوفہ کی خبر ہو گی تووہ ہم کو اس سے مطلع کرے گا ؛یہ کہہ کر ہم لوگ چلے یہاں تک کہ اس تک پہنچ ہی گئے، پہنچ کر ہم نے کہا : السلام علیک ، تو اس نے جواب دیا: وعلیکم السلام ورحمة اللہ ۔

پھر ہم لوگوں نے پوچھا : تم کس قبیلہ سے ہو ؟ اس شخص نے جواب دیا : ہم قبیلہ بنی اسد سے ہیں ۔

ہم لوگوں نے کہا : ہم لوگ بھی بنی اسد سے متعلق ہیں ؛تمہارا نام کیا ہے ؟

____________________

١۔یہ جگہ خزیمیہ او رثعلبیہ کے درمیان کوفہ کے راستے میں ہے جیسا کہ معجم البلدان، ج٤،ص ٣٢٧میں یہی موجود ہے۔

٢۔ یہ خبر اس خبر سے منافات ر کھتی ہے جوابھی گذرچکی کہ یہ لوگ منزل صفاح پر مقام زرو د سے چند منزل قبل فر زدق والے واقعے میں موجود تھے کیونکہ اس خبر سے یہی ظاہر ہوتاہے بلکہ واضح ہے کہ یہ لوگ امام حسین علیہ السلام سے زرود میں ملحق ہوئے ہیں اور اس سے پہلے یہ لوگ امام کے ساتھ موجود نہیں تھے بلکہ حج کی ادائیگی کے ساتھ یہ ممکن بھی نہیں ہے کیونکہ منزل صفاح اوائل میں ہے جبکہ امام علیہ السلام ''یوم الترویہ'' کو مکہ سے نکلے ہیں ۔ اگر یہ لوگ امام علیہ السلام سے منزل صفاح پر ملحق ہوئے ہیں تو پھر حج کی انجام دہی ممکن نہیں ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ دونو ں خبرو ں کا ایک ہی راوی ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا؛ نہ ہی ابو جناب ، نہ ابو مخنف اورنہ ہی طبری، مگر یہ کہ یہ کہا جائے کہ حج سے پہلے یہ دونو ں منزل صفاح پر امام علیہ السلام سے ملے اور پھر حج کے بعد منزل زرود پر پہنچ کرامام علیہ السلام سے ملحق ہو گئے ۔

اس نے جواب دیا : بکیر بن مثعبہ، ہم لوگو ں نے بھی اپنا نام بتایا اور پھر اس سے پوچھا : کیا تم ہمیں ان لوگو ں کے بارے میں بتاؤ گے جنہیں تم اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو؟

اس نے جواب دیا:ہا ں ! میں جب کوفہ سے نکلاتھا تو مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ قتل کئے جا چکے تھے ۔ ہم نے دیکھا ان دونو ں کے پیرو ں میں رسی باندھ کر انھی ں بازار میں پھرایا جا رہاہے۔ اس خبر کے سننے کے بعد ہم لوگ اس سے جداہوکر اپنے راستے پر چل پڑے یہا ں تک کہ(حسین علیہ السلام) سے ملحق ہوگئے اور ایک دوسری منزل پر ان کے ہمراہ پٹراؤ ڈالا ۔

۲۳۶

ساتویں منزل : ثعلبیہ(١)

شام کا وقت تھا جب امام علیہ السلام نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا جس کا نام'' ثعلبیہ'' تھا۔جب آپ کے خیمہ نصب ہوچکے تو ہم لوگوں نے آپ کی خدمت میں آکر سلام عرض کیا ۔آ پ نے سلام کا جواب دیا تو ہم لوگوں نے آپ سے کہا : اللہ آپ پر رحمت نازل کرے! ہم لوگوں کے پاس ایک اہم خبر ہے۔ اگر آپ چاہیں تو اسے اعلانیہ بیان کریں اوراگر چاہیں ۔ توخفیہ اور پوشیدہ طور پر بیان کریں ۔ امام علیہ السلام نے اپنے اصحاب پر ایک نگاہ ڈالی اور فرمایا: ''مادون ھولاء سر'' ان لوگوں سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ہے جو خبر لائے ہو بیان کردو، ہم لوگوں نے ان سے کہا : آپ نے کل شام اس سوار کو دیکھا تھا جو آپ کے پاس سے گزرا تھا ؟

امام علیہ السلام نے فرمایا : ہاں ! میں اس سے کوفہ کے بارے میں سوال کرناچاہتا تھا۔ ہم نے کہا: ہم نے اس سے آپ کے لئے خبر لے لی ہے اورآپ کے بجائے ہم لوگوں نے کوفہ کے موضوع پر تحقیق کر لی ہے۔ وہ شخص قبیلہ بنی اسد کاایک مرد تھا جو ہمارے ہی قبیلہ سے تھا ۔ وہ صاحب نظر، سچا، اور صاحب عقل و فضل تھا ۔اس نے ہم لوگوں سے بتایا کہ جب وہ وہاں سے نکلا تھا تومسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ قتل ہوچکے تھے حتیٰ اس نے یہ بھی دیکھا تھا کہ ان دونوں کے پیروں میں رسی باندھ کر بازار میں گھسیٹا جارہاہے۔یہ سن کر آپ نے فرمایا :

____________________

١۔ کوفہ سے مکہ جانے کے لئے جو راستہ مڑتا ہے یہ وہی ہے۔ اس کی نسبت بنی اسد کے ایک شخص ثعلبہ کی طرف دی گئی ہے جیسا کہ معجم میں تحریر ہے۔

۲۳۷

'' انّاللّہ وانّاالیہ راجعون'' اس جملہ کی آپ نے چند مرتبہ تکرار فرمائی(١) پھر ہم نے عرض کی : آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ آ پ اپنے گھر والوں کے ہمراہ یہاں سے واپس لوٹ جائیں ؛کیونکہ اب کوفہ میں آپ کا کوئی ناصر ومدد گا ر نہیں ہے بلکہ ہمیں خوف ہے کہ کہیں وہ سب آپ کے مخالف نہ ہوگئے ہو ں ۔ایسے موقع پر فرزندان عقیل بن ابیطالب اٹھے اور انھوں نے اس کی مخالفت کی(٢) اور کہنے لگے : نہیں خدا کی قسم ہم یہاں سے اس وقت تک نہیں جائیں گے۔جب تک ہم ان سے اپنا انتقام نہ لے لیں یا وہی مزہ نہ چکھ لیں جس کاذائقہ ہمارے بھائی نے چکھاہے۔(٣) ان دونوں کا بیان ہے: حسین (علیہ السلام) نے ہم لوگوں پر ایک نگاہ ڈالی اور فرمایا : ''لاخیر فی العیش بعد ھولاء !'' ان لوگوں کے بعد زندگی میں کوئی اچھائی نہیں ہے۔ اس جملہ سے ہم نے بخوبی سمجھ لیا کہ سفر کے ارادے میں یہ مصمم ہیں تو ہم نے کہا : خدا کرے خیر ہو ! آپ نے بھی ہمارے لئے دعا کی اور فرمایا:'' رحمکم اللّہ ''اللہ تم دونوں پر رحمت نازل کرے ۔

رات کا سناٹا چھاچکا تھا، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ آپ سپیدہ سحر کے انتظار میں ہیں ؛جیسے ہی سپیدہ سحر نمودار ہوئی ،آپ نے اپنے جوانوں اور نو جوانوں سے فرمایا :''اکثروا من المائ'' پانی زیادہ سے زیادہ جمع کرلو ، ان لوگوں نے خوب خوب پانی جمع کرلیا اور اپنے سفر پر نکل پڑے یہاں تک کہ ایک دوسری منزل تک پہنچ گئے ۔

____________________

١۔ اس روایت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ جناب مسلم کی شہادت کی خبر یہا ں عام ہوگئی لیکن عنقریب یہ بات آئے گی کہ منزل زبالہ میں پہنچ کر امام علیہ السلام نے یہ خط لکھ کر اپنے اصحاب کے سامنے اس کا اعلان کیا تھا؛ یہا ں سے امام علیہ السلام کے اس جملے کا فلسفہ سمجھ میں آتا ہے کہ'' مادو ں ھولاء سر'' یعنی ان کے علاوہ جو لوگ ہیں ان کے لئے یہ خبر سری ہے اور اسی طرح یہ خبر منزل زبالہ تک پوشیدہ ہی رہی لیکن یعقوبی کا بیان ہے کہ مسلم کی شہادت کی خبر آپ کو مقام'' قطقطانہ'' میں ملی تھی۔ (تاریخ یعقوبی ،ج٦ ، ص ٢٣٠ ،ط، نجف)

٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے : ابو جناب کلبی نے عدی بن حرملہ اسد کے حوالے سے اور اس نے عبداللہ سے اس خبر کو ہمارے لئے بیان کیاہے۔ (طبری ،ج٥، ص٣٩٧) ارشاد میں ،ص ٢٢٢ پر ہے کہ عبداللہ بن سلیمان نے یہ روایت بیان کی ہے۔(ارشاد ، طبع نجف)

٣۔ ابومخنف کا بیان ہے : مجھ سے عمر بن خالد نے یہ خبر بیان کی ہے (لیکن صحیح عمرو بن خالد ہے) اور اس نے زید بن علی بن الحسین سے اور اس نے دائود بن علی بن عبداللہ بن عباس سے نقل کیا ہے ۔(طبری ،ج٥، ص ٣٩٧ ؛ارشاد، ص٢٢٢، مسعودی ،ج٣ ،ص ٧٠، الخواص ، ص ٢٤٥ ، طبع نجف)

۲۳۸

آٹھویں منزل : زبالہ(١)

یہ نورانی قافلہ اپنے سفرکے راستے طے کرتا ہوا زبالہ(٢) کے علاقے میں پہنچا تو وہاں امام حسین علیہ السلام کو اپنے رضائی بھائی عبداللہ بن بقطر(٣) کی شہادت کی خبر ملی۔ آپ نے ایک نوشتہ نکال کر لوگوں کو آواز دی اور فرمایا :'' بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم، أمابعد، فقد أتانا خبر فضیع ! قتل ابن عقیل و هانی بن عروةو عبدالله بن یقطر، وقدخذلتنا شیعتنا (٤) فمن أحب منکم الانصراف فلینصرف لیس علیه منا ذمام ''

بسم اللہ الرحمن الرحیم، امابعد،مجھ تک ایک دل دھلانے والی خبر پہنچی ہے کہ مسلم بن عقیل ، ہانی بن عروہ اور عبداللہ بن یقطر قتل کردئے گئے ہیں اور ہمار ی محبت کا دم بھرنے والوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے لہذا اب تم میں سے جو جانا چاہتا ہے وہ چلاجائے، ہماری جانب سے اس پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔

یہ جملہ سنتے ہی لوگ امام علیہ السلام سے جدا ہونے لگے کوئی داہنی طرف جانے لگاکوئی بائیں طرف؛ نتیجہ یہ ہواکہ فقط وہی ساتھی رہ گئے جو مدینہ سے آئے تھے۔ آپ نے یہ کام فقط اس لئے کیاتھا کہ

____________________

١۔ یہ جگہ کوفہ سے مکہ جاتے وقت مختلف راستے پیداہونے سے قبل ہے۔ یہا ں ایک قلعہ اورجامع مسجد ہے جو بنی اسد کی ہے۔ اس جگہ کا نام عمالقہ کی ایک عورت کے نام پر ہے جیسا کہ معجم البلدان میں یہی ہے ۔

(٢) ابومخنف کا بیان ہے : ابوجناب کلبی نے عدی بن حرملہ سے اور اس نے عبداللہ بن سلیم سے میرے لئے یہ خبر بیان کی ہے۔ (طبری، ج٥، ص ٣٩٨)

٣۔ ان کے شرح احوال گزر چکے ہیں اور وہ یہ کہ ان کی والدہ امام حسین علیہ السلام کی دیکھ بھال کیا کرتی تھی ں اسی لئے ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ امام حسین علیہ السلام کے رضائی بھائی ہیں ۔

٤۔ اس جملہ میں امام علیہ السلام کی تصریح ہے کہ کوفہ کے شیعو ں نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا۔ کوفہ اور جناب مسلم بن عقیل کی شہادت کے سلسلے میں یہ پہلا اعلان ہے اگرچہ اس کی خبر آپ کو اس سے قبل منزل زرود میں مل چکی تھی؛ لیکن ظاہر یہ ہے کہ جو لوگ وہا ں موجود تھے۔ ان کے علاوہ سب پر یہ خبر پوشیدہ تھی کیونکہ یہ امام علیہ السلام کے حکم سے ہوا تھا۔آخر کار آپ نے یہا ں '' زبالہ'' میں تمام حاضرین کے لئے اس خبر کا اعلان کردیا ۔

۲۳۹

باد یہ نشین عرب اس گمان میں آپ کے پیچھے پیچھے ہوئے تھے کہ آپ ایسے شہر میں آئیں گے جوظالم حکمرانوں کی حکومت سے پاک ہوگا اور وہاں کے لوگ آپ کے فرمانبردار ہوں گے لہذا امام علیہ السلام نے ناپسند کیا کہ ایسے لوگ آپ کے ہمسفر ہوں ۔امام چاہتے تھے کہ آپ کے ہمراہ صرف وہ رہیں جنہیں معلوم ہو کہ وہ کہاں جارہے ہیں اور امام علیہ السلام کو معلوم تھا کہ جب ان لوگوں پر بات آشکار ہوجائیگی تو کوئی بھی آپ کے ہمراہ نہیں رہے گا مگر وہ لوگ جو عدالت چاہتے ہوں اور موت ان کے ہمراہ چل رہی ہو۔(١) رات اسی منزل پر گزری ،صبح کو آپ نے اپنے جوانوں کو چلنے کا حکم دیاتو انھوں نے سب کو پانی پلاکر اور خوب اچھی طرح پانی بھر کر اپنا سفر شروع کر دیا یہاں تک کہ درّۂ عقبہ سے آپ کا گزرہوا ۔

نویں منزل : درّہ عقبہ(٢)

یہ نورانی قافلہ اپنے مقصد کی طرف آگے بڑھتا ہوا درّہ عقبہ تک پہنچا۔وہاں اس قافلہ نے اپنا پڑاؤ ڈالا۔(٣) بنی عکرمہ کے ایک شخص نے امام سے عرض کیا: آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ آپ یہیں سے پلٹ جائیے، خداکی قسم !آپ یہاں سے قدم آگے نہیں بڑھائیں گے مگریہ کہ نیزوں کی نوک اور تلواروں کی دھار پر آگے بڑھیں گے ، جن لوگوں نے آپ کو خط لکھا تھا اور آپ کوآنے کی دعوت دی تھی اگر یہ لوگ میدان کارزار کی مصیبتیں برداشت کرکے آپ کے لئے راستہ آسان کردیتے تب آپ وہاں جاتے تو آپ کے لئے بہت اچھا ہوتا لیکن ایسی بحرانی حالت میں جس سے آپ خود آگاہ ہیں ، میں نہیں سمجھتا کہ آپ کوفہ جانے کے سلسلے میں قدم آگے بڑھائیں گے۔

____________________

١۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام نے ان لوگو ں کو جانے کی اجازت دی تو آپ کا مقصد کیا تھا؟ امام علیہ السلام کا یہ بیان تمام چیزو ں پر کافی ہے

٢۔واقصہ کے بعد اور قاع سے پہلے مکہ کے راستے میں یہ ایک منزل ہے۔ یہ منزل ان کے لئے ہے جو مکہ جانا چاہتے ہیں ۔

٣۔ ابومخنف کا بیان ہے : ابوعلی انصاری نے بکر بن مصعب مزنی کے حوالے سے مجھ سے یہ خبر بیان کی ہے۔(طبری ،ج٥، ص ٣٩٨ ، ارشاد ،ص ٢٢٢ ،طبع نجف)

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438