واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا13%

واقعۂ کربلا مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 438

واقعۂ کربلا
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 438 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 192984 / ڈاؤنلوڈ: 5407
سائز سائز سائز
واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

( کذّبوا بآیاتنافاقصص القصص لعلهم یتفکّرون ) ( ۱ )

''اور انھیں اس شخص کی خبرسنا ئیے جسکو ہم نے اپنی آیتیں عطا کیں پھر وہ ان سے بالکل الگ ہوگیا اور شیطان نے اسکا پیچھاپکڑلیا تو وہ گمراہوں میں ہو گیااور ہم چاہتے تو اسے انھیں آیتوں کے سبب بلند کردیتے لیکن وہ خود زمین کی طرف جھک گیا اور اس نے خواہشات کی پیروی اختیار کر لی تو اب اسکی مثال اس کتّے جیسی ہے کہ اس پر حملہ کرو تو بھی زبان نکالے رہے اور چھوڑدو تو بھی زبان نکالے رہے یہ اس قوم کی مثال ہے جس نے ہماری آیات کی تکذیب کی،تواب آپ ان قصوں کو بیان کریں کہ شاید یہ غور وفکر کر نے لگیں ''

ان آیات کی تفسیر یہ ہے کہ '' بلعم بن باعور ا'' بنی اسرائیل کا ایک بہت ہی بڑا اور مشہور عالم تھا اسکو خداوندعالم نے اپنی روشن آیات نیز علم ومعرفت سے اس حد تک نوازاتھا کہ اسے مستجاب الدعوات قرار دے دیا تھا اور جناب موسیٰ بعض معاملات میں اس سے مدد لیتے تھے۔۔۔مگر وہ اپنی ہویٰ وہوس کا اسیر ہو گیا۔

چنا نچہ ایسے افراد جب اپنی خواہشات کا شکار ہو تے ہیں تو عام طور سے اسکے دوہی اسباب ہو تے ہیں یا تو وہ اپنے علم کو ذاتی فا ئدہ کیلئے استعمال کر نے لگتے ہیں مثلاً علم کے ذریعہ شہرت وعزت یا عہدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیںاور لوگوںکے درمیان علم کے ذریعہ اپنی شخصیت کا اظہار کرتے ہیں یا یہ کہ دولت کی لا لچ میں اپنے علم سے اہل حکومت اورطاغوت کی خدمت شروع کردیتے ہیں اور علم کے بدلہ مال دنیا کماتے ہیںاس طرح دونوں صورتوں کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ علم ہویٰ وہوس اور خواہشات کا شکا ر ہو جا تا ہے ۔

کیونکہ کسی بھی عالم کی اہمیت کا معیار در اصل اسکے علم کی کثرت نہیں ہے ،جیسے اکثر کتب

____________________

(۱)سورئہ اعراف آیت۱۷۵۔۱۷۶۔

۶۱

خانوں میں اتنی زیادہ کتابیں ہوتی ہیں کہ علماء کی ایک کثیر تعداد مل کربھی انہیں نہ اٹھا سکے مگر اسکی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ علم کی قدروقیمت در اصل صاحب علم اور اس علم کے مصرف اور محل استعمال کو دیکھ کر لگا ئی جا تی ہے ۔ اگر عالم انبیاء کے دین اوراخلاق سے مزین ہو اور اس کاعلم لوگوں کی ہدایت اور رہنمائی نیز انکی خدمت میں کام آئے تو یہ اس عالم کی قدروقیمت کاسبب ہے اور اگر خدا نخواستہ ایسا کچھ نہیں ہے تو پھراس عالم کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔

مو لا ئے کا ئنات نے خطبہ شقشقیہ میں عالم کی منزلت اور اسکی ذمہ دار یاں ان الفاظ میں بیان فرمائی ہیں:

(وما أخذ ﷲعلی العلماء أن لایقارّوا علی کظة ظالم ولاسغب مظلوم )

'' ﷲکا اہل علم سے یہ عہدہے کہ خبردار ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گر سنگی پر چین سے نہ بیٹھنا۔۔۔''

لہٰذااگرعالم خدا سے کئے ہوئے عہد کو پوار کر نے کیلئے اٹھ کھڑا ہو تو اسکی قدر ومنزلت اور مقام ومرتبہ میںاضافہ ہوتاہے ۔

بلعم بن باعور(اگر ان آیات کی تفسیربیان کرنے والی روایات کے مطابق بلعم باعوراہی مراد ہو)ان لوگو ں میں سے تھا جنھوں نے اپنے علم کی لگام خواہشات کے سپردکر دی اور انھیں کے پیچھے چل پڑے اب قرآن مجید کے الفا ظ میں اس شخص کا انجام ملاحظہ فرما ئیے :

اگران روایات کو تسلیم کر لیا جائے تو آیۂ کر یمہ میں اگر چہ بلعم باعور کے قصہ کی طرف ہی اشارہ ہے لیکن یہ باتیں ہراس شخص کیلئے ہیں جو اپنے نفس کے اوپر اپنے خواہشات کو حاکم بنادے۔

۶۲

جیسا کہ امام محمد باقر کا ارشاد گرامی ہے :

(ن الاصل فی ذلک بلعم،ثم ضرب ﷲمثلاًلکل مؤثرهواه علی هدیٰ ﷲ،من أهل القبلة )( ۱ )

''یعنی یہ تذکرہ تو در اصل بلعم کا ہی ہے لیکن خداوندعالم نے اسمیں ہر اس مسلمان کی مثال بیان کر دی ہے جو اپنی خواہشات کو ﷲ تعالیٰ کی ہدایت پر ترجیح دیتا ہو ''

ایسے لوگوں کا انجام کیا ہوتاہے ہمیں قرآنی بیانات کی روشنی میں اس پر بھی غور کرنا چاہئے۔

۱۔زمین کی جانب رغبت

زمین کی طرف رغبت ،دنیاوی زندگی سے دلبستگی کو کہتے ہیں یعنی انسان دنیا کا ہو کر رہ جائے۔کیونکہ زمین دنیاہی کا دوسرا نام ہے اور زمین کی طرف جھکا ئو ،رغبت اس سے بیزاری کے ذریعہ رفعت و بلندی کے مقابلہ میں ہے جیسا کہ آیۂ کریمہ میں اللہ تعا لیٰ کا ارشاد ہے :

( ولوشئنا لرفعناه بها ولکنه اخلد الیٰ الارض )

'' اگر ہم چا ہتے تو اسے انھیں آیات کے ذریعہ بلند کردیتے لیکن وہ خود زمین کی طرف جھک گیا ''

یعنی اس نے خود دنیا وی ذلت کو گلے لگا لیا ۔کیونکہ جس طرح سطح زمین سے بلندی کی طرف اوپر جا تے ہوئے زمین کی قوت جاذبہ اور کشش کا مقابلہ کر نے میںزحمت ومشقت ہوتی ہے مگر اس کے برعکس اوپر سے زمین کی طرف آتے وقت زمین کی کشش کا سہار ا مل جاتاہے ۔۔۔بالکل یہی حال زندگانی دنیا کی پستی اور بلندی کابھی ہوتا ہے کہ اگر کوئی بلندیوں کا خواہاں ہے تو اسے اتنی ہی مشقتیں برداشت کرنا ہو نگی لیکن اگر کوئی پستیوںمیں جانا چاہتاہے تو اس میں کوئی زحمت نہیں ہے ۔

۲۔آیات خدا سے محرومی

(فانسلخ منہا )آیات الٰہیہ سے ''انسلاخ'' یعنی اسکے پاس آیات کی جومعرفت اورعلم

____________________

(۱)مجمع البیان تفسیرسورئہ اعراف آیت ۱۷۵۔۱۷۶۔

۶۳

و حکمت و بصیرت کی جو دولت تھی وہ اس سے واپس لے لی گئی۔

''انسلاخ'' ''ا لتصاق'' کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے التصاق اس وقت کہا جاتاہے کہ جب دوچیزیں آپس میں ملی ہوئی یاچپکی ہوتی ہیں اور جب ان کے در میان مکمل علاحدگی یابالکل جدا ئی ہو جائے تو اہل عرب اسکو'' انسلاخ ''کہتے ہیں لہٰذا جو لوگ اپنی شہو توں اور خواہشات کے تحت ،قدم اٹھا تے ہیں انکا ر ابطہ علم ومعرفت اور آیات الٰہیہ سے با لکل ختم ہو جاتا ہے اور جس طرح کسی مریض کا معدہ کھانے کوقبول کرنے کے بجائے اسے رد کردیتا ہے اسی طرح انکا نفس علم وحکمت جیسی پا کیزہ اورنفیس اشیا ء کوقبول نہیں کر پاتا ہے ۔

کیونکہ اگراسکا وجود ہو س اور خواہشات کا دلدا دہ ہو جائے تو پھر اسمیں آیات الٰہیہ ،علم و حکمت اوربصیرت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی اور نہ ہی اسکے وجود میں اخلاقی اقدار وفضائل کا گذر ہوسکتا ہے ۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے منقول ہے :

(حرام علیٰ کل قلب متولّه بالشهوات أن یسکنه الورع )( ۱ )

''یعنی جو دل بھی خواہشات کا دلداد ہ ہو اسکے اندر ورع و پرہیزگاری کا بسیرا حرام ہے '' آپ کا ہی ارشاد ہے :

(حرام علیٰ کل قلب اُغری بالشهوات أن یحل فی ملکوت السمٰوات )( ۲ )

''جودل خواہشات کا فریب خوردہ ہو اس کیلئے ''ملکوت السمٰوات''کی سکونت حرام ہے ' '

____________________

(۱)مجمو عہ ورا م تنبیہ خواطرص ۳۶۲۔

(۲)گذشتہ حوالہ۔

۶۴

(حرام علی کل قلب مغلول بالشهوة أن ینتفع بالحکمة )( ۱ )

''جو دل خواہشات کی زنجیروں سے جکڑاہو اسکے لئے حکمت سے استفادہ کر ناحرام ہے ۔''

کیونکہ دل ایک ظرف کی مانند ہے اور ایک ظرف میں خواہشات نفس اوریاد الٰہی ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے ہیں لہٰذااسکے اندریا ذکر الٰہی رہے گا یا خواہشات رہیں گے کیونکہ( مَاجعل ﷲ لرجل من قلبین فی جوفه ) ( ۲ )

'' خداوندعالم نے ایک انسان کے جسم میں دو قلب نہیں بنا ئے ہیں ''

لہٰذا جب انسان اپنی خواہشات کا اتباع کرتا ہے تو پھر خود بخود اسکے دل سے یا دخدا نکل جاتی ہے اور اگر اسمیں یاد خدا آجا تی ہے تو پھر خواہشات کاامکان نہیں رہ جاتاہے۔

لہٰذا جس دل سے یاد خدا نکل جا ئے وہ خواہشات کے راستے پر چل پڑتا ہے جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے :

( ولاتطع من أغفلنا قلبه عن ذکرنا واتّبع هواه وکان أمره فرطا ) ( ۳ )

''اور ہر گز اس کی اطاعت نہ کرنا جس کے قلب کو ہم نے اپنی یادسے محروم کردیا ہے وہ اپنی خواہشات کا پیرو کار ہے اور اسکا کام سراسر زیادتی کرنا ہے ۔ ''

خواہشات کی پیروی کایہ دوسرا انجام ہے۔

۳۔شیطان کا تسلط

ارشاد رب العزت ہے :(فأتبعہ الشیطان )''اور شیطان نے اسکا پیچھا پکڑلیا ۔'' پہلے

____________________

(۱)غرر الحکم ج۱ص۳۴۴۔

(۲)سورئہ ا حزاب آیت ۴۔

(۳)سورئہ کہف آیت۲۸۔

۶۵

شیطان اس تک پہنچنے یا اس پر قبضہ کر نے سے عاجزتھا مگرخواہشات کی پیروی انسان پر شیطان کے قبضہ کو مستحکم بنادیتی ہے اور انسان جتنی زیادہ خواہشات کی پیروی کرے گا اس پر شیطان کا تسلط اور غلبہ بھی اتنا ہی زیادہ مستحکم ہو جائے گا اور یہ خواہشات کی پیروی کا تیسرا نتیجہ ہے ۔

۴۔ضلا لت و گمراہی

(فکان من الغاوین)''تو وہ گمراہوں میں ہوگیا ''ایسے لوگوں کے سلسلہ میں یہ ایک فطری چیز ہے کیونکہ جب انسان ہویٰ وہوس میں مبتلا ہو جاتاہے اور اس کے دل سے یاد الٰہی نکل جاتی ہے اس پر شیطان کا تسلط قائم ہوجاتاہے تو پھر اسکی ہدایت کا بھی کوئی امکان باقی نہیں رہ جاتا اور اسکی زندگی میںاصلاح کا امکان نہیں ہے لہٰذا وہ جس مقدار میں ہاتھ پیرمارتا ہے اتنا ہی پستیوں میں اترتا چلا جاتا ہے ۔اوریہ خواہشات کی پیروی کا چوتھا نتیجہ ہے۔

۵۔لالچ

ان لوگوں کے بارے میں ارشادا لٰہی ہے :

( فمثلُه کمثل الکلب اِنْ تحملْ علیه یَلْهَثْ او تترکه یلهثْ )

''تو اب اسکی مثال اس کتّے جیسی ہے کہ اس پر حملہ کرو تو بھی زبان نکالے رہے اور چھوڑدو تو بھی زبان نکالے رہے''

۶۶

زبان باہر نکلی رہنا یہ کتوں کی ایک مشہور بیماری ہے اور اسمیں کتے کو ہر وقت پیا س لگی رہتی ہے چنانچہ اسے چاہے جتنا پانی پلا یا جائے اسکی پیاس نہیں بجھ پاتی اور اسی لئے وہ ہمیشہ اپنی زبان باہر نکالے رہتا ہے اورچاہے کوئی اس پر حملہ کرے یا اسے اسی طرح چھوڑ دیا جائے ہر وقت اسکا ایک ہی حال رہتا ہے چنانچہ بالکل اسی صور تحال سے اہل ہوس بھی دوچار رہتے ہیں کہ دنیاوی لذتوں اور رنگینیوں میں غرق ہو نے کے باوجود انکی پیاس نہیںبجھتی چاہے وہ ما لدارہوں یا فقیر انہیں دنیا مل گئی ہو یانہ ملی ہو ان سب کا حال پیاس کے مریض اس کتے کی طرح رہتا ہے جسکی پیاس بہتے دریا بھی نہیں بجھا پاتے ہیں ۔

اسی بارے میں رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے :

( لوکان لابن آدم وادیان من ذهب لابتغیٰ وراء هما ثالثاً ) ( ۱ )

''اگر فرزند آدم کے پاس سونے سے بھری ہوئی دو وادیاں ہوں تب بھی اسے تیسری وادی کی خواہش رہتی ہے''

امام جعفر صادق سے جب ایک آدمی نے اپنے اندر دنیا کی لا لچ اور اسکی طرف توجہ رہنے کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا :جو چیز تمہا رے لئے کافی ہے اوروہ تمھیں مستغنی بنادے تو اسکی معمولی مقدار بھی تمہیں مستغنی بنا سکتی ہے لیکن جو چیز تمہارے لئے کا فی ہے اگروہ تمہیں مستغنی نہ بنا سکے تو پھر پور ی دنیا بھی تمھیں مستغنی نہیں بنا سکتی ہے اور یہ اس کا پا نچواں نتیجہ ہے ۔( ۲ )

____________________

(۱)مجمو عہ وارم تنبیہ خوا طرص ۱۶۳۔

(۲)اصول کافی ج۲ص۱۳۹

۶۷

خواہشات کا علاج

ہوس کی تخریبی طاقت

انسانی خو اہشات اس کیلئے جس مقدار میں مفید ہیں اس کے مطا بق انکے اندر قدرت اور طاقت بھی پا ئی جاتی ہے چنانچہ اگر یہ غلط راستے پر لگ جائیں تو پھر یہ اپنی طاقت کے اعتبار سے ہی انسانی زندگی کو تہہ وبالا کر کے رکھ دیتی ہیں ۔۔۔انسانی نفس کے اندر اسکے یہ دونوں (مثبت اورمفید منفی اورمضر )پہلو بالکل طے شدہ ہیں اور اس میں کسی شک وشبہ کی گنجا ئش نہیں ہے کیونکہ خواہشات ہی دراصل انسان کی زندگی کے پہیوںکو گردش دینے والی قوت ہیں اور اگر خداوندعالم نے انسان کے

نفس میں جنسیات ،مال ،خود ی (حب ذات )،کھا نے پینے اور اپنے دفاع کی محبت نہ رکھی ہوتی تو قافلۂ انسانی ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتاتھا ۔لہٰذا خواہشات کے اندر جتنے فا ئد ے ہیں انکے اندر اتنی ہی طاقت موجود ہے اور انکے اندر جتنی طاقت پائی جاتی ہے انکے بہک جانے کی صورت میں انکے نقصانات بھی اسی کے مطابق ہونگے جیسا کہ مولا ئے کا ئنات نے ارشاد فرمایا ہے:

۶۸

(الغضب مفسد للالباب ومبعد عن الصواب )( ۱ )

''غصہ عقلوں کو برباد اور راہ حق سے دور کر دینے والی چیز ہے ''

آپ نے یہ بھی فرما یا ہے :

(أکثرمصارع العقول تحت بریق المطامع )( ۲ )

''عقلوں کی اکثر قتل گاہیں طمع کی جگہوںکی چمک دمک کے آس پاس ہیں''

خواہشات کی پیروی پر روک اور انکی آزادی کے درمیان

یہی وجہ ہے کہ خواہشات کو ایکدم کچل کر رکھ دینا بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ خواہش انسانی زندگی کیلئے ایک مفید طاقت ہے جس کے سہار ے کا روان حیات انسانی رواں دواںہے اور اس کو معطل اور نا کارہ بنا دینا یا اسکی مذمت کرنا اور اسکی اہمیت کا اعتراف نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی شخصیت کے ایک بڑے حصہ کا انکار کردیا جائے اور اسکو نقل و حرکت میں رکھنے والی اصل طاقت کو نا کار ہ قرار دیدیا جائے ۔

اسی طرح خواہشات اور ہوس کی لگام کو بالکل ڈھیلا چھوڑ دینا اور انکے ہر مطالبہ کی تکمیل کرنا اور ان کی ہر بات میںہاں سے ہاں ملا نا بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اگر ان کی رسی ڈھیلی چھو ڑدی جائے تو

____________________

(۱)غرر الحکم ج۱ص۶۷ ۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۹۸۔

۶۹

یہ فائد ہ مند ہو نے کے بجائے انسان کیلئے مضر بن جاتے ہیں ۔

لہٰذا ہمیں یہ اعتراف کر نا پڑیگا کہ شرعی اعتبار سے خواہشات کی محدود تکمیل کی بہت اہمیت ہے اور جس طرح انکو بالکل آزاد چھوڑ دینا صحیح نہیں ہے اسی طرح ہر بات میں انکی تکمیل بھی صحیح نہیں ہے ۔

اسی معیار پر اسلام نے خواہشات کے بارے میں اپنے احکام بنائے ہیں یعنی پہلے وہ خواہشات کو انسان کیلئے ضروری سمجھتا ہے اور اسے فضول چیز قرار نہیں دیتا جیسا کہ قرآن کریم میں پروردگار عالم کاارشاد ہے :

( زُیّن للناسِ حبُّ الشهواتِ من النسائِ والبنینَ والقناطیرِالمقنطرةِمن الذهبِ والفضة ِوالخیلِ المسوّمةِ والأنعام والحرثِ ) ( ۱ )

''لوگوں کے لئے خواہشات دنیا ،عورتیں،اولاد،سونے چاندی کے ڈھیر،تندرست گھوڑے یا چوپائے کھیتیاںسب مزین اور آراستہ کردی گئیں ہیں ''

دوسری آیت میں ارشاد ہے :

( ٔلمالُ والبنونَ زینة الحیاةِ الدنیا ) ( ۲ )

''مال اور اولاد، زندگانی دنیا کی زنیت ہیں ''

ان آیات میں نہ صرف یہ کہ خواہشات کی مذمت نہیں ہے بلکہ اسکو زینت اور جمال زندگانی قرار دیا گیاہے اور اسی اہم نکتہ سے خواہشات کے بار ے میں اسلام کا واضح نظر یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے ۔

دوسر ے مرحلہ پر اس نے ہمیں اپنی خواہشات کو پورا کر نے اور دنیاوی لذتوں سے بہرہ مند ہونے کا حکم دیا ہے :

____________________

(۱)آل عمر ان آیت۱۴۔

(۲) سورئہ کہف آیت۴۶ ۔

۷۰

( کلوا من طیبات مارزقناکم ) ( ۱ )

''تم ہمارے پاکیزہ رزق کو کھائو ''

یایہ ارشاد الٰہی ہے :

( ولا تنس نصیبک من الدنیا ) ( ۲ )

''اور دنیا میں اپنا حصہ بھول نہ جائو''

اور اسی طرح یہ بھی ارشاد ہے :

( قل من حرّم زینة ﷲ التی أخرج لعبادهِ والطیبات من الرزق ) ( ۳ )

''پیغمبر آپ ان سے پوچھئے کہ کس نے اس زینت کو جس کو خدا نے اپنے بندوں کیلئے پیدا کیا ہے اور پاکیزہ رزق کو حرام کردیا ہے''

خواہشات کے بارے میں اسلام نے یہ دوسرا نظریہ پیش کیا ہے جس کے اندر نہ اپنی خواہشات کی تکمیل کی کھلی چھوٹ ہے کہ جس کا جس طرح دل چاہے وہ اپنی خواہشات کی پیاس بجھاتا رہے اور کسی قاعد ہ وقانون کے بغیر سر جھکا کر انھیں کے پیچھے چلتا رہے ۔

امام جعفر صادق نے فرما یا ہے :

(لاتدع النفس وهواها فن هواها رداها )( ۴ )

''اپنے نفس کو اسکے خواہشات کے اوپر نہ چھو ڑدو کیونکہ اسکے خواہشات میں اسکی پستی اور

____________________

(۱)سورئہ طہ آیت۸۱ ۔

(۲)سورئہ قصص آیت۷۷ ۔

(۳)سورئہ اعراف آیت ۳۲ ۔

(۴)اصول کافی ج۲ص۳۳۶۔

۷۱

ذلت ہے ''

ان تمام پا بند یوں اور سختیوں کے باوجود اسلام نے انسانی خواہشات کی تسلی کیلئے ایک نظام بنا کر خود بھی اس کے بیحد موا قع فراہم کئے ہیں جیسے اسلام نے جنسیات کو حرام قرار نہیں دیا ہے اور نہ اس سے منع کیا ہے اور نہ ہی اسے کوئی بر ایا پست کام کہا ہے بلکہ خود اسکی طرف رغبت دلا ئی ہے اور اسکی تاکید کی ہے البتہ اسکے لئے کچھ شرعی قواعد و ضوابط بھی بنائے ہیں اسی طرح مال سے محبت کرنے کونہ اسلام منع کر تاہے اور نہ اسے بر اکہتا ہے بلکہ یہ تمام انسانو ں کیلئے مباح ہے البتہ اسکے لئے بھی کچھ قو اعد وقوانین مرتب کردئے گئے ہیں تا کہ مالی یا جنسی خواہشات وغیرہ کی تسلی کیلئے ہر شخص کے سامنے مواقع موجود رہیں اور کوئی شخص بھی بے راہ رو ی کا شکار نہ ہو نے پا ئے یہ خواہشات کے بارے میں اسلامی نظر یہ کا تیسر ا نکتہ ہے۔

خواہشات کو قابو میں رکھنے کے لئے ''عقل ''کا کردار

خواہشات کو بغاوت اور سر کثی سے روکنے اور ہرلحاظ سے انکی تکمیل سے منع کرنے اور اسی طرح انکی تسلی کی معقول حدبندی کیلئے انسانی عقل میدان عمل میں ہمیشہ فعال رہتی ہے اور شاید اسی لئے عربی زبان میں عقل کو عقل کہا جاتا ہے کہ عقل کسی کو لگام لگانے یا پھند ے کو کہتے ہیںاور خدا نے عقل کو یہی ذمہ دار ی سونپی ہے کہ وہ خواہشات کو لگام لگا کر اپنے قابو میں رکھے جیسا کہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرما یا ہے :

(ن العقل عقال من الجهل،والنفس مثل أخبث الدواب )( ۱ )

''عقل جہالت سے بچانے والی لگام ہے اور نفس خبیث ترین چو پائے کی طرح ہے ''

روایات میں اسی مضمون کی طرف کثر ت سے اشارے موجود ہیں بطورنمونہ حضرت علی

____________________

(۱)بحارالانوار ج۱ص۱۱۷ ۔

۷۲

کے مندرجہ ذیل اقوال ملاحظہ فرما ئیں :

٭(فکرک یهدیک لی الرشاد )( ۱ )

''تمہار ی فکر تمہیں رشدو ہدایت کی طرف رہنما ئی کرتی ہے ''

٭ (للنفوس خواطرللهویٰ،والعقول تزجر وتنهی ٰ)( ۲ )

''نفس کے اندر مختلف قسم کی خواہشات ابھرتی رہتی ہیں اور عقل ان سے منع کرتی رہتی ہے ''

٭ (للقلوب خواطر سوء والعقول تزجر منها )( ۳ )

''دلوں کے اندر برے خیالات پید ا ہو تے ہیں اور عقل ان سے بازر کھتی ہے ''

٭ (النفوس طلقة،لکن أیدی العقول تمسک اعنتها )( ۴ )

''نفس تو با لکل آزاد ہوتے ہیں لیکن عقلوں کے ہاتھ انکی لگام تھامے رہتے ہیں ''

٭ (ثمرةالعقل مقت الدنیا وقمع الهویٰ) ( ۵ )

''عقل کا پھل دنیا کی نا راضگی اور خو اہشات کی تا راجی ہے ''

مختصر یہ کہ انسانی زندگی میں اسکی عقل کا کار نامہ یہ ہے کہ وہ خواہشات کواپنے محدود تقاضو ں کے تحت کنٹرول کر تی ہے اور اس کی ہوس کو سر کشی اور بغا وت سے رو کتی رہتی ہے اور انسان کو اس کی خو اہشات کی تکمیل میں بے لگام نہیں رہنے دیتی لہٰذا جس کی عقل جتنی کامل اور پختہ ہو تی ہے وہ اپنی خو اہشات پر اتنی ہی مہارت اور آسانی سے غلبہ حا صل کر لیتا ہے ۔

____________________

(۱)غررالحکم ج۲ص۵۸۔

(۲)تحف العقول ص۹۶۔

(۳)غررالحکم ج۲ص۱۲۱۔

(۴)غررالحکم ج۱ص۱۰۹۔

(۵)غررالحکم ج۲ص۳۲۳۔

۷۳

حضرت علی :

(العقل الکامل قاهرالطبع السوئ )( ۱ )

''عقل کا مل بری طبیعتوں پر غالب رہتی ہے ''

اور یہی نہیں بلکہ خواہشات پر کنڑول ہی انسان کی عقل سلیم کی پہچان ہے ۔

حضرت علی :

(حفظ العقل بمخالفة الهویٰ والعزوف عن الدنیا )( ۲ )

''خواہشات کی مخالفت اور دنیاسے بے رغبتی کے ذریعہ عقل محفوظ رہتی ہے ''

امام محمد باقر :

(لاعقل کمخالفة الهویٰ )( ۳ )

''خواہشات کی مخالفت سے بہتر کوئی عقل نہیں ہے''

حضرت علی :

(من جانب هواه صح عقله )( ۴ )

''جس نے اپنی خواہشات سے کنارہ کشی اختیار کرلی اسکی عقل صحیح وسالم ہو جا ئے گی ''

ان احادیث سے بھی یہ روشن ہوتا ہے کہ عقل اور خواہشات دونوں ہی انسان کی زندگی کے دو اہم ستون ہیں ان میںسے خواہشات، انسانی حیات کے سفینہ کی نقل وحرکت اور اسکی تعمیرو ترتی میں پتوار کا فریضہ ادا کرتے ہیں اور عقل اسکو بغاوت وسر کشی اور فتنہ وفساد کے خطرناک نشیب وفرازسے

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۸ص۹۔

(۲)غرر الحکم ج۱ص۳۴۵۔

(۳)بحارالانوار ج۷۸ص۱۶۴۔

(۴)بحارالانوار ج۱ص۱۶۰۔

۷۴

نکال کر ساحل تک پہنچا نے کی اہم ذمہ داری ادا کرتی ہے ۔۔۔لہٰذا ہر انسان کے لئے جس طرح جسم وروح ضردری ہیں اسی طرح اس کے لئے ان دونوں کاوجودبھی ضروری ہے ۔

عقل اور دین

انسانی زندگی میں دین بھی وہی کردار ادا کرتا ہے جو عقل کا کر دار ہے یعنی جس طرح عقل ، خواہشات کو مختلف طریقوں سے اپنے قابو میں رکھتی ہے اسی طرح دین بھی انھیں بہکنے سے بچاتا رہتا

ہے یعنی عقل اور دین کے اندرہر طرح کی فکری اور عملی یکسانیت اور مطابقت پائی جاتی ہے کیونکہ دین ایک الٰہی فطرت ہے جیسا کہ آیۂ کر یمہ میں ارشاد ہے :

( فطرةﷲ التی فطرالناس علیهالاتبدیل لخلق ﷲذلک الدین القیم ) ( ۱ )

''دین وہ فطرت الٰہی ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اور خلقت الٰہی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ہے یقینا یہی سید ھا اور مستحکم دین ہے ''

وہ فطرت جو انسان کے اوپر حکمراں ہو تی ہے اور عقل بھی اسی کے ساتھ ساتھ چلتی ہے وہ ''دین' 'ہے جسکے ذریعہ ﷲ تعالی نے حیات بشری کو دوام بخشا اور حیات بشری کے ذریعہ اسے قائم ودائم فرمایا لہٰذا دین بھی خواہشات کو کنڑول کر نے کے سلسلہ میں عقل کی امداد کرتاہے اور خود بھی اسی ذمہ داری کو ادا کرتاہے مختصر یہ کہ عقل اور دین ایک ہی سکے کے دورخ ہیں ۔

حضرت علی :

(العقل شرع من داخل،والشرع عقل من خارج )( ۲ )

''عقل بدن کی اندرونی شریعت اور شریعت بدن کے باہر موجود عقل کا نام ہے ''

____________________

(۱)سورئہ روم آیت ۳۰۔

(۲)کتاب جوان :آقا ئے محمد تقی فلسفی ج۱ص۲۶۵۔

۷۵

امام مو سیٰ کا ظم :

(ﷲ علی الناس حجتین :حجة ظاهرة وحجة باطنة، فاماالظاهرة فالرسل والانبیاء والائمة عليه‌السلام واماالباطنة فالعقول )( ۱ )

''لوگوں پر خدا وندعالم کی دوحجتیں (دلیلیں )ہیں ایک ظاہر ی حجت اور دوسری پوشیدہ اور باطنی حجت و دلیل۔ ظاہر ی دلیل انبیاء اور ائمہ ہیں جبکہ باطنی حجت عقل ہے ''

امام جعفر صادق کا ارشاد ہے :

(حجة ﷲعلیٰ العبادالنبی،والحجة فیما بین العباد وبین ﷲ العقل )( ۲ )

''بندوں کے اوپر خدا وندعالم کی حجت اسکے انبیاء ہیں اور خداوندعالم اور اسکے بندوں کے درمیان ،عقل حجت ہے ''

____________________

(۱)بحارالانوار ج۱ص۱۳۷۔

(۲)اصول کافی ج۱ص۲۵۔

۷۶

عقل کے تین مراحل

انسانی زندگی میں عقل کے تین اہم کردار ہوتے ہیں :

۱۔ معرفت الٰہی۔

۲۔خداوندعالم نے جو کچھ اپنے بندوں پر واجب کیا ہے اسکی اطاعت کرنا کیونکہ ﷲتعالیٰ کی صحیح معرفت کا نتیجہ اسکی اطاعت اور بندگی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

۳۔تقوائے ا لٰہی: یہ خداوندعالم کی اطاعت وبندگی کا دوسرا رخ ہے کیونکہ خداوندعالم کی اطاعت وبندگی کی بھی دوقسمیں ہیں ۔

۱۔واجبات کو بجالانا اور محرمات سے پر ہیز کرنا اور تقویٰ درحقیقت نفس کو محرمات سے باز

رکھنے کا نام ہے ۔اور شاید مندرجہ ذیل روایت میں بھی عقل کے مذکورہ تینوں مرحلوں کی وضاحت موجود ہے:

۷۷

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

(قُسّم العقل علیٰ ثلاثة أجزائ،فمن کانت فیه کمل عقله،ومن لم تکن فیه فلا عقل له:حسن المعرفة بﷲعزوجل،و حسن الطاعة ﷲ،وحسن الصبرعلیٰ أمره )( ۱ )

''عقل کے تین حصے کئے گئے ہیں لہٰذا جسکے اندر یہ تینوں حصے موجود ہوں اسکی عقل کامل ہے اور جسکے اندر یہ موجود نہ ہوں تواسکے پاس عقل بھی نہیں ہے !

۱۔حسن معرفت الٰہی (خداوندعالم کی بہتر ین شناخت ومعرفت اور حجت آوری)۔

۲۔ﷲکی بہترین اطاعت وبندگی ۔

۳۔اسکے احکامات پر اچھی طرح صبر کرنا ''

خدا کے احکام پر صبر کرنے کا دوسرا نام خواہشات پر قابو پانا ہے اور اس کو تقویٰ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ خواہشات پر قابو پانا اور انھیں اپنے کنڑول میں رکھنے کیلئے جتنا زیادہ صبر درکار ہے اتنا صبر کسی اور کام کیلئے درکار نہیں ہوتا ہے ۔

اب ان تینوں مراحل کی تفصیل ملا حظہ فرمائیں :

۱۔معر فت اور حجت آوری

عقل کی پہلی ذمہ داری معرفت اور شناخت ہے ۔کیونکہ اس دنیا کے حقائق اور اسرار سے پر دہ اٹھا نے کا ذریعہ(آلہ )عقل ہی ہے اگرچہ اہل تصوف اسکے مخالف ہیں اور وہ عقل کی معرفت اور

____________________

(۱)بحارالانوارج۱ص۱۰۶۔

۷۸

شناخت کے قائل ہی نہیں ہیں انکا کہنا ہے کہ اس دنیا کے حقائق اور خداوندعالم اور اسی طرح غیب کی معرفت کے بارے میں عقل کا کوئی دخل نہیں ہوتاہے ۔جبکہ اسلام عقل کی قوت تشخیص کا قائل ہے اور وہ اسے علم ومعرفت کا ایک آلہ قراردیتا ہے اور دنیا کے مادی یا غیر مادی تمام مقامات پریا اس دنیا کے خالق یا واجبات اور محرمات جیسے تمام مسائل میں اس کی مز ید تا ئید کرتا ہے ۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سلسلہ میں یہ ارشاد فرمایا ہے :

(نمایدرک الخیرکله فی العقل )( ۱ )

'' ہرخیر کو عقل میں تلاش کیا جاسکتا ہے ''

آپ ہی کا یہ ارشاد بھی ہے :

(استرشدوا العقل ترشدوا ولا تعصوه فتندموا )( ۲ )

''عقل سے رہنمائی حاصل کرو تو راستہ مل جائے گا اوراسکی نافرمانی نہ کرنا ورنہ شرمندگی اٹھانا پڑے گی ''

حضرت علی :

(العقل أصل العلم وداعیة الفهم )( ۳ )

''عقل ،علم کی بنیاد اور فہم (غوروفکر)کی طرف دعوت دینے والی ہے''

امام جعفر صادق :

(العقل دلیل المؤمن )( ۴ )

____________________

(۱)تحف العقول ص۵۴ ۔ بحارالانوا ر ج ۷۷ ص۱۵۸۔

(۲)اصول کافی ج۱ص۲۵۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۱۰۲۔

(۴)اصول کافی ج۱ص۲۵۔

۷۹

''عقل مومن کی رہنما ہے''

دنیا کے حقائق اور اسرار ورموز کی معرفت کیلئے عقل کی قدروقیمت اور اہمیت کیا ہے؟ اسکو روایات میں یوں بیان کیا گیا ہے:''خداوند عالم اپنے بندوں پر عقل کے ذریعہ ہی احتجاج (دلیل) پیش کریگا اور اسی کے مطابق ان کو جزا یا سزا دی جائیگی ''اس مختصر سے جملہ کے ذریعہ انسانی زندگی میں عقل کی قدروقیمت اور دین خدا میں اسکی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

امام موسی کاظم :

(أن ﷲ علیٰ الناس حجتین حجة ظاهرة وحجة باطنة،فأماالظاهرة فالرسل والانبیاء والائمة عليه‌السلام ،وأما الباطنة فالعقول )( ۱ )

''بندوں پر خداوند عالم کی دوحجتیں (دلیلیں)ہیں ایک کھلی ہوئی اور ظاہر ہے اور دوسری پوشیدہ ہے ظاہری حجت اسکے رسول، انبیاء اور ائمہ ہیں اور پوشیدہ حجت کا نام عقل ہے''

آپ ہی کا یہ ارشاد گرامی ہے:

(ان ﷲ عزوجل أکمل للناس الحجج بالعقول،وأفضیٰ لیهم بالبیان،ودلّهم علیٰ ربوبیته بالادلة )( ۲ )

''خداوند عالم نے عقلوں کے ذریعہ لوگوں پر اپنی سب حجتیں تمام کردی ہیں اوربیان سے ان کی وضاحت فرمادی اور دلیلوں کے ذریعہ اپنی ربوبیت کی طرف ان کی رہنمائی کردی ہے''

لہٰذاعقل ،انسان کے اوپر خداوند عالم کی حجت اور دلیل ہے جسکے ذریعہ وہ اپنے بندوں کا فیصلہ کرتا ہے اوراگر فہم وادراک کی اسی صلاحیت کی بناء پر اسلام نے عقل کو اس اہمیت اور عظمت سے

____________________

(۱)بحارالانوار ج۱ ص ۱۳۷۔

(۲)بحارالانوار ج۱ص۱۳۲۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

اس گفتگو کے بعد وہ گیا اور جناب مسلم کا سر لا کر ابن زیاد کی خدمت میں پیش کر دیا ۔(١) تقرب جوئی کے لئے اس وقت عمر بن سعد نے آگے بڑھکر ابن زیاد سے کہا : آپ کو معلوم ہے کہ مسلم مجھ سے کیا کہہ رہے تھے ؟ اوراس نے ساری وصیت ابن زیاد کے گوش گزار کردی تو ابن زیادنے مذاق اڑاتے ہوئے کہا : امین خیانت نہیں کر تا؛ ہا ں کبھی کبھی خائن پر امین کا دھو کہ ہو تا ہے۔(٢)

اس وصیت میں جو چیز یں تم سے مربوط ہیں اس سے ہم تم کو منع نہیں کرتے، تمہا را جو دل چاہے کرو اسکے تم مالک ہو۔(٣)

لیکن حسین نے اگر کوفہ کا رخ نہیں کیا تو ہمیں ان سے کوئی مطلب نہیں ہے اور اگر وہ ادھر آئے تو ہم انھیں نہیں چھوڑیں گے۔ اب رہا سوال مسلم کے جسم کا تو جب ہم نے قتل کر دیا ہے اب ہم کو اس کے جسم سے کوئی مطلب نہیں ہے جس کو جو کرنا ہے کرے ۔(٤)

____________________

١۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ صقعب بن زہیرنے عون بن ابی حجیفہ کے حوالے سے مجھ سے یہ روایت نقل کی ہے۔(طبری، ج٥، ص٣٧٨)

٢۔ جب پسر سعد نے یہ دیکھا ابن زیاد جناب مسلم کے قاتل ابن حمران سے حضرت کے قتل کے احوال پوچھ رہا ہے تو تقرب جو ئی اور چاپلو سی میں بغیر پو چھے ابن زیاد کو جناب مسلم کی ساری وصیت سنادی تو ابن زیاد نے اسے خیانت کا رکہا ،ہا ں چاپلوسو ں کا نیتجہ ایسا ہی برا ہو تا ہے۔

٣۔ ''ما لک '' کہنے کا مطلب یہ ہے کہ گویا اسے ابن زیاد نے جناب مسلم علیہ السلام کاوارث قرار دیا ہے۔

٤۔ بعض روایتو ں میں یہ جملہ ہے :اس سلسلہ میں ہم تیری سفارش قبول نہیں کری ں گے کیونکہ وہ ہمارے افراد میں سے نہیں ہیں ۔ انھو ں نے ہم سے جہاد کیا ، ہماری مخالفت کی اور ہماری ہلاکت کی کوشش کی ہے۔ (طبری ،ج٥،ص٣٧٧)اسی روایت ابومخنف میں یہ عبارت ہے کہ'' وزعموا انہ قال...''

۲۰۱

جناب ہانی کی شہادت

جناب مسلم بن عقیل (علیہ السلام) امام علیہ السلام کے شجاع اور بہادر سفیر کی شہادت کے بعد ابن زیاد نے جناب ہانی کے قتل کا حکم جاری کر دیا اور محمد بن اشعث کودیئے گئے وعدہ کو کہ ہانی کواس کے حوالے کر دے گا تاکہ وہ اپنی قوم کی عداوت اور دشمنی سے بچ سکے، وفا کرنے سے انکار کر دیا۔ابن اشعث

کی گزار ش کاسبب یہ تھاکہ وہی جناب ہانی کے پاس گیاتھااور انہیں لیکر آیاتھا۔ابن زیاد نے اپنے و عد ہ سے مکرنے کے بعد فورا ًحکم دیاکہ انہیں بازار میں لے جاؤ اور گردن اڑادو ۔

اموی جلاد اس شریف النفس انسان کا ہاتھ باندھے ہوئے ان کو بازار کی طرف لے کر چلے جہاں بکریاں بیچی جاتی تھیں ۔جب یہ افر ادجناب ہانی کووہاں لے کر آئے توآپ آوازدے رہے تھے: ''وامذحجاہ ولامذحج لی الیوم !وامذحجاہ وأین منی مَذحِج ''ہائے قبیلہ ٔمذحج والے کہاں گئے، کو ئی مذحج والامیری مددکو کیوں نہیں آتا؟'' وامذحجاہ '' ارے میرے مذحجی افراد کہاں ہیں ؟جب دیکھاکہ میری مدد کو کوئی نہیں آتاتو اپنی ساری طاقت و قدر ت کو جمع کر کے ایک بار ہاتھو ں کو جھٹکادیااوردیکھتے ہی دیکھتے ساری رسیاں ٹوٹ گئیں پھر فرمایا: کیاکوئی عصا ،خنجر،پتھر یاہڈی نہیں ہے جس سے میں اپنادفاع کرسکوں لیکن ان جلادوں نے چاروں طرف سے ان کو گھیر لیااور دوبارہ رسیو ں سے کس کر جکڑ دیاپھرکسی ایک نے کہا: اپنی گردن اٹھاؤ تاکہ تمہاراکام تمام کر دیاجائے ۔

جناب ہانی نے جواب دیا: میں کبھی ایساسخاوت مند نہیں ر ہاکہ اپنے حق حیات ا ور زندگی کوپامال کر نے کے لئے کسی کی مددکرو ں اسی اثنامیں عبیداللہ کاترکی غلام رشید(١) آگے بڑھااور تلوار سے جناب ہانی پر ایک ضرب لگائی لیکن اس کی تلوار جناب ہانی کاکچھ نہ بگاڑ پائی تو ہانی نے کہا :''الیٰ اللّٰه المعاد !اللهم الی رحمتک و رضوانک'' خداہی کی طرف برگشت ہے، خدایا!تیری رحمت اوررضایت کی آرزو ہے ۔وہ پھر آگے بڑھااوردوسری مرتبہ آپ پر وار کر دیا۔ اس ضربت سے آپ نے جام شہادت نوش فر مایا۔(٢) آپ پر خداکی رحمت ہو۔

____________________

١۔عبدالرحمن بن حصین مرادی نے اسے عبیداللہ بن زیاد کے ہمراہ قلعہ کے پاس دیکھا اورلوگو ں نے کہناشروع کردیاکہ یہ ہانی بن عروہ کاقاتل ہے تو حصین کے لڑکے نے اس کی طرف تیر چلاکر اسے قتل کر دیا۔(طبری، ج٥،ص ٣٧٩؛ارشاد، ص ٢١٧؛تذکرةالخواص)

٢۔ ابو مخنف کا بیا ن ہے کہ صقعب بن زہیر نے عون بن ابی جحیفہ کے حو الے سے مجھ سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥،ص٣٧٨)

۲۰۲

اسکے بعد یہ جلاد آپ کا سر لے کر ابن زیادکے پاس چلے گئے۔(١)

تیسرا شہید :

جناب مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ کی شہادت کے بعد ابن زیاد نے عبدالاعلی کلبی کو بلایا جسے قبیلہ بنی فتیان کے محلہ سے کثیر بن شہاب نے پکڑااور ابن زیاد کے پاس لے کر آیا تھا۔ابن زیاد نے اس سے کہا : اپنی داستان سناؤ ۔

تو اس نے کہا : اللہ آپ کو سلامت رکھے !میں اس لئے نکلا تھا تاکہ دیکھوں کہ لوگ کیا کر رہے ہیں ،اسی اثنا ء میں کثیربن شہاب نے مجھے پکڑلیا ۔

ابن زیاد : تجھے سخت وسنگین قسم کھانی پڑے گی کہ تو فقط اسی کام کے لئے نکلا تھا جس کا تجھے گمان ہے تو اس نے قسم کھا نے سے انکار کر دیا۔

ابن زیاد نے کہا اسے میدان میں لے جاؤ اور اس کی گردن اڑادو !جلادوں نے حکم کی تعمیل کی اور اس کا سر فوراً قلم کردیا۔

چو تھا شہید :

اس بندئہ خدا کی شہادت کے بعد عمارہ بن صلخب ازدی کو لا یا گیا جو جناب مسلم بن عقیل کی مدد کے لئے نکلے تھے اور انھیں گرفتار کر کے ابن زیاد کے پاس پہنچا دیا گیا تھا۔ابن زیاد نے ان سے پو چھا : تم کس قبیلہ سے ہو؟ انھوں نے جواب دیا'' ازد'' سے تو ابن زیاد نے کہا : اسے اس کے قبیلہ والوں کے پاس لے جاؤ اور اس کی گر دن اڑا دو۔(٢)

____________________

١۔ یہا ں پر طبری نے اس بات کو بیان نہیں کیاہے کہ ان دونو ں بزرگ شخصیتو ں کے پیر میں رسی باندھ کر انہیں کو فہ کے بازار و ں میں کھینچا جارہاتھا؛ لیکن مذکورہ روایت کو بیان کرنے کے بعد خو د ابومخنف ہی سے ابی جناب کلبی کے حوالے سے نقل کیاہے کہ اس نے'' عدی بن حرملہ اسدی'' سے اس نے'' عبداللہ بن سلیم'' اور'' مذری بن مشمعل'' (یہ دونو ں قبیلہ اسد سے متعلق تھے) سے اس نے ''بکیر بن مثعبہ اسدی'' سے نقل کیاہے کہ اس نے کہا: میں اس وقت تک کوفہ سے باہر نہیں نکلا تھا یہا ں تک کہ مسلم اور ہانی بن عروہ شہید کردئے گئے اور میں نے دیکھا کہ ان دونو ں کے پیرو ں میں رسی باندھ کر کوفہ کے بازار میں کھینچاجارہاہے۔ (ج٥ ،ص ٣٩٧)خوارزمی نے ج٢، ص ١٢٥ پر اور ابن شہر آشوب نے ج ٢،ص ٢١٢ پر ذکر کیا ہے کہ ابن زیاد نے کوفہ کے کوڑے خانہ پر ان دونو ں کو الٹا لٹکا دیا تھا ۔

٢۔ طبری، ج٥، ص ٣٧٨، ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے صقعب بن زہیرنے عون بن ابی جحیفہ کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے ۔

۲۰۳

مختار قید خانہ میں

جب دوسرے دن کا سورج نکلا اور عبیداللہ بن زیاد کے دربار کا دروازہ کھلا اور لوگوں کو دربار میں آنے کی اجازت ملی تو لوگ آہستہ آہستہ دربار میں آنے لگے انہیں آنے والوں میں مختار بھی تھے ۔ عبیداللہ نے انہیں پکارا اور کہاکہ سناہے تم ،لوگوں کو مسلم بن عقیل کی مدد کے لئے اکٹھا کر رہے تھے اور انھیں اکسا رہے تھے ؟

مختار : نہیں ایسا نہیں ہے، میں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا بلکہ میں تو کل آیا اور عمر وبن حریث کے زیر پرچم آگیا ، شب اسی کے ہمراہ گذاری اور صبح تک اسی کے پاس رہا ۔ عمرو بن حریث نے کہا : ہاں یہ سچ کہہ رہے ہیں ؛ آپ کو اللہ سلامت رکھے ؛لیکن ابن زیاد نے چھڑی اٹھائی اور مختار کے چہرے پر مار مار کر ان کی پیشانی ، آنکھ ، اور پلک کو زخمی کر دیایہاں تک کہ مختارکی آنکھیں ٹیڑھی ہو گئیں ؛ اس کے بعد بولا : تیرے لئے یہی سزاوار ہے۔ خدا کی قسم! اگر عمرو نے گواہی نہ دی ہوتی تو میں ابھی تیری گردن اڑادیتااور حکم دیا کہ اسے فور اً لے جاکرقید خانہ میں ڈا ل د و ۔کارندوں نے فوراً حکم کی تعمیل اور مختار کو قید خانہ میں ڈال دیا۔ یہ اسی طرح قید خانہ میں مقید رہے یہاں تک کہ امام حسین علیہ السلام شہید ہو گئے۔(١)

یزید کے پاس سروں کی روانگی

ان خدا جْو، ظلم ستیز ، اور باطل شکن افراد کی شہادت کے بعد عبیدا للہ بن زیاد نے ہانی بن ابی حیہ و داعی کلبی ہمدانی اور زبیر بن ارواح تمیمی کے ہمراہ جناب مسلم بن عقیل اور حضرت ہانی بن عروہ کے سروں کو یزید بن معاویہ کی خدمت میں روانہ کر دیا اور اپنے کاتب عمروبن نافع کو حکم دیا کہ یزید بن معاویہ کے خط میں ان باتوں کی تصریح کر دے جو مسلم اور ہانی پر گزری ہے۔عمرونے ایک لمبا چوڑا خط لکھنا شروع کردیا۔جب ابن زیاد کی نظر اس پر پڑی تو اسے برالگا اس پر اس نے کہا : یہ اتنا لمبا کیا لکھا جا رہا ہے اور یہ فضول باتیں کیا ہیں ؟ اب میں جو بتا رہا ہوں وہی لکھو !پھر اس نے اس طرح خط لکھوانا شروع کیا:

____________________

١۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ نضر بن صالح نے کہا ہے۔(طبری ج٥ ،ص ٥٦١)

۲۰۴

اما بعد اس خدا کی حمد و ثنا جس نے امیر المومنین کا پاس رکھا اور دشمنوں کی خراب کاریوں کو خود ہی درمیان سے ہٹا دیا۔امیر المومنین کی خدمت میں یہ خبر پیش کی جاتی ہے۔ خدا ان کو صاحب کرم قرار دے کہ مسلم بن عقیل نے ہانی بن عروہ مرادی کے گھر پناہ لی تھی اور میں نے ان دونوں کے اوپر جا سوس معین کر دیا تھا اور پورا پلان بناکر ان دونوں کو اپنے چنگل میں لے لیا اور خدا نے مجھے ان دونوں پر قدرت عطا فرمائی لہذا میں نے ان دونوں کے سر اڑا دیئے اور اب آپ کی خدمت میں ان دونوں کے ، سر ہانی بن ابی حیہ کلبی اور زبیر بن ارواح تمیمی کے ہمراہ روانہ کر رہاہوں ۔ یہ دونوں حکومت کے خیر خواہ ،فرمانبر دار اور بے چوں و چرا باتوں کو سننے والے ہیں ۔ امیر المومنین عراق کے حالات کے سلسلہ میں ان دونوں سے جو پوچھنا چاہتے ہیں پو چھ لیں کیونکہ یہ حالات سے آگاہ، سچے ، بافہم اور صاحب ورع ہیں ۔والسلام

یزید کا جواب

یزید نے اپنے خون آشام جلادکو اس طرح جواب دیا: امابعد، تم حکومت اور نظام کے دفاع میں ویسے ہی ہو جیسا کہ میں چاہتا تھا۔تمہارا کام دور اندیشی پر مبنی آئندہ نگر اور شجاعانہ ہے۔ وہاں کی حکومت کے لئے تم نے اپنی لیاقت اور صلاحیت ثا بت کر دی اور جو امیدیں تم سے وابستہ تھیں اسے عملی جامہ پہنادیا اور اپنے سلسلہ میں میرے گمان اور میری رائے کو واضح اور سچا کر دکھایا۔ تمہارے ان دو پیغام رسانوں کو میں نے بلایا اوران سے عراق کے حالات کے بارے میں سوال بھی کیا تو ان کے فہم و شعور وادراک کو ویساہی پایا جیسا کہ تم نے لکھاتھا ۔ میری تم سے ان کے سلسلہ میں سفارش ہے کہ ان کے ساتھ نیکی کے ساتھ پیش آؤ! مجھ تک یہ خبر پہنچی ہے کہ حسین بن علی نے عراق کی راہ اختیار کر لی ہے اور تمہاری طرف بڑھ رہے ہیں ۔

۲۰۵

اس سلسلہ میں تم حساس جگہوں پر پولس کی چوکی اورحفاظتی پہرے بیٹھادو تا کہ دور سے سب کی آمدو رفت پر نظر رکھ سکو اور اسلحوں سے لیس جوانوں کو آمادہ رکھو ؛کہیں ایسا نہ ہو کہ یکایک حالات بگڑ جائیں ؛اورتم کو جو کوئی بھی مشکوک دکھائی دے اسکے بارے میں نگران رہو اور ذرہ برابرشک کی صورت میں بھی اس کو گرفتار کرلو لیکن یاد رہے کہ قتل اسی کو کرو جو تم سے مقابلہ کرے اورہر رونماہونے والے واقعہ کی خبر ہم تک پہنچاتے رہو ۔ والسلام علیک ورحمة اللہ(١)

٨ذی الحجہ ٦٠ھ منگل کے دن جناب مسلم علیہ السلام نے اموی جلاّد کے خلاف قیام کیاتھا۔ جس دن حضرت مسلم بن عقیل نے خروج کیا تھا امام حسین علیہ السلام نے ٹھیک اسی دن یعنی یوم الترویہ کو مکہ چھوڑ دیا ۔(٢) جناب مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ کی شہادت پر عبدا للہ بن زبیر اسدی نے اشعار کہے اور فرزدق نے بھی اس سلسلہ میں یہ اشعار کہے ہیں :

ان کنت لا تدرین ما الموت فا نظری---الی هانیٔ فی السوق و ابن عقیل

الی بطل قد هشّم السیفُ وجههوآخر یهو من طمار قتیل

أصابهما أمرالأ میر فأ صبحا---احادیث من یسر بکل سبیل

تری جسداً قد غيّرالموت لونهو نضح دم قد سال کلّ مسیل

فتی هوأ حیی من فتاة حیيةٍ---وأقطع من ذی شفرتین صقیل

أیرکب أسماء الهما لیج آمناً---وقد طلبته مذحج بذحول

تطوف حو ا لیه مر ا د و کلّهم---علی رقبة من سائل و مسول

فا ن انتم لم تثأر و ا بأ خیکم---فکونوا بغایا أرُضِيَت بقلیل(٣) و(٤)

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے یہ روایت ابو جناب یحٰبن ابی حیہ کلبی نے بیان کی ہے۔(طبری ،ج٥، ص ٣٨٠) یحییٰ بن ابی حیہ کلبی ابو جناب ہانی بن ابی حیہ کا بھائی ہے جو مسلم وہانی کا سر لے کر یزید کے پاس گیا تھا۔ ایسا محسوس ہو تا ہے کہ اس کے بھائی نے اس خبر کو فخر و مباہات میں ابو مخنف سے بیان کیا ہے کیونکہ ابن زیاد نے اس کے علم ، صدق، فہم اور ورع کی توصیف کی تھی جس کی یزید کی طرف سے تصدیق بھی ہوئی تھی۔ ہا ں ایسی حماقت اور ایسے افعال کا ''کلابیو ں '' سے سر زد ہونا بعید نہیں ہے ۔

٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ صقعب بن زہیر نے عون بن ابی جحیفہ کے ذریعہ مجھ سے یہ روایت بیان کی ہے۔(طبری ،ج٥ ، ص ٣٧٨)

٣۔ ابومخنف کا بیان ہے کہ صقعب بن زہیر نے عون بن ابی جحیفہ کے حوالے سے مجھ سے یہ روایت نقل کی ہے۔(طبری، ج٥، ص ٣٨١)

٤۔ طبری نے عمار دہنی کے حوالے سے امام محمد باقر علیہ السلام سے حدیث بیان کی ہے کہ آپ نے فرمایا : ان لوگو ں کے شاعر نے اس سلسلے میں یہ کہا ہے اور ان اشعار میں سے تین بیتو ں کو کو ذ کر کیا ہے جس کا پہلا مصرع ''فان کنت لا تد رین ماالموت فا نظری'' (طبری، ج٥ ،ص ٣٥٠) لیکن یہا ں پہلے مصرع میں '' ان کنت لا تدرین'' ذکر کیا ہے جو غلط ہے کیونکہ

۲۰۶

اس سے مصرع وزن سے گر رہا ہے ، زبیر کے ''ز'' پر زبر ہے ۔شائد طبری نے اسے ابن اثیر کی الکا مل، ج٤،ص ٣٦، اور مقاتل الطا لبیین سے لیا ہے۔اصفہا نی نے مذکو رہ شخص کی شان میں یہ کہا ہے : ان کا شمارشیعو ں کے بزرگ اور برجستہ محدثین میں ہو تا ہے۔عبادبن یعقوب رواجنی متوفی ٢٠٥ھ اور اس جیسے افراد اور جو اس سے بزرگتر تھے انھو ں نے زبیر سے روایت ں نقل کی ہیں ۔ (الا غانی ،ص ٢٩٠) اس کے علاوہ اور بھی لوگو ں نے ان سے روایت نقل کی ہے یہ محمد بن عبد اللہ بن حسن صاحب نفس ذکیہ کے اصحاب میں شمار ہو تے ہیں جو ١٤٥ھ میں منصور کے عہد میں شہید کئے گئے پھر اصفہانی کہتے ہیں : یہ ابو احمد زبیر ی معروف محدث کا باپ ہے (اغانی ،ص ٢٩٠) جس کا نام محمد بن عبد اللہ بن زبیر ہے؛ کشی نے عبد الر حمن بن سیا بتہ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا : امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھے کچھ دینا ر دے کر حکم دیا کہ یہ دینا ر ان لوگو ں کے عیال کے در میان تقسم کردو ں جو آپ کے چچا زید کے ہمراہ شہید ہو گئے میں نے ان کے درمیا ن و ہ دینار تقسم کردیئے جس میں سے ٤ دینارعبد اللہ بن زبیر الرّسان کے عیال تک پہنچا دیئے۔ (رجال کشی، رقم٦٢١) شیخ مفید نے ارشاد میں ابو خالد واسطی سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں : امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھے ایک ہزار دینار دے کر حکم دیا کہ اسے ان لوگو ں کے درمیان تقسم کر دو ں جوزید کے ہمراہ مصیبتو ں میں گرفتار ہوئے۔ فضیل رسان کے بھائی عبد اللہ بن زبیر کو ان میں سے ٤ درہم میسر ہوا ۔(الا رشاد ،ص ٢٦٩) شاید اس نام کے دو افراد ہیں کیونکہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اصفہانی نے عبد اللہ بن زبیرکو شیعو ں کے برجستہ اور بزرگ محدثین میں شمار کر نے کے بعد اغانی کی ج١٣،ص ٣١پر اس بات کی تصریح کی ہے کہ وہ بنی امیہ کا پیر وتھا اور دل سے ان سے لگا ؤ رکھتا تھا اور بنی امیہ کے دشمنو ں کے مقا بلہ میں ان کی مدد ونصرت کر نا چا ہتا تھا اوراس سلسلے میں بے حد متعصب تھا۔وہ ان کے اور ان کے کا رمندو ں کے اوپر کسی کو تر جیح نہیں دیتا تھا۔ زیاداس کی ستائش اور اس کے ساتھ عطا و بخشش کرتا تھا اوراس کے قرضو ں کو بھی ادا کر تا تھا۔ ابن زیاد کے بارے میں ابن زبیر کی زبانی بہت ساری مدح وستائش موجود ہیں ۔اسی طرح اسما ء بن خارجہ فزاری کی مدح میں بھی اس کے اشعار موجود ہیں ۔(اغانی، ج٣١، ص ٣٣و ٣٧) سید مقرم نے اپنی کتاب ''الشھید مسلم ''میں اس مطلب کو ذکر کیاہے اور فرمایاہے : آیا کسی کے لئے یہ سزاوار ہے کہ مسلم اورہانی کے سلسلہ میں اس قسم کے اشعار کو ایسے شخص کی طرف نسبت دے جس کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ بنی امیہ کی طرف میلان رکھتاتھااوران کی مدح وستائش میں اس کے اشعار موجود ہیں ؟پھر سید مقرم نے ترجیح دی ہے کہ یہ اشعار فرزدق کے ہیں جوانھو ں نے ٦٠ھ میں حج سے لوٹتے ہوئے کہے تھے۔ (الشھید مسلم، ص ٢٠١)اصفہانی نے ان اشعا ر کو ابن زبیر اسدی مدائنی کی طرف منسوب کیا ہے اور اس نے ابو مخنف سے اور اس نے یوسف بن یزید سے روایت کی ہے ۔

اگر تم کو نہیں معلوم ہے کہ افتخار آمیزموت کیا ہوتی ہے تو ہانی اور مسلم بن عقیل کی موت کو بازار میں دیکھ لو جو انتہائی شجاع و بہادراور دلیر ہیں ،جن کے چہرے کو ظلم کی شمشیر نے لہو لہان کردیا اور وہ دوسرا دلیر جس کے خون سے آ غشتہ جسم قصر کے اوپر سے پھینک دیا گیا ۔ امیر عبیداللہ کا بیداد گر اور خشونت و

۲۰۷

بربریت پر مبنی وہ حکم تھا جس نے ان دونو ں کو یہا ں تک پہنچادیا اور اب ان کی شہامت و شجاعت کی سر گذشت آئندہ نسلو ں کے لئے ایک داستان ہوگئی ۔ ان کے بے جان جسم کو دیکھو جس کے رنگ کوموت نے بدل دیا ہے اور سرخ خون ان کے جسم کے ہر حصہ میں روا ں ہے ۔ یہ وہ جوا ں مرد تھے جو شرم و حیا میں دوشیزگان سے بھی زیادہ حیا دار تھے اوربرش میں شمشیر دودم اور صیقل شدہ سے بھی زیادہ ان میں کاٹ تھی ۔ کیا اسماء بن خارجہ فزاری جو اموی جلاد کی جانب سے ان کے پاس گیا تھا اور فریب و دھوکہ دیکر ان کو ابن زیاد کے پاس لے کر آیا، وہ کوفہ کی گلیو ں میں امن و امان کے ساتھ اپنے مرکب پر بیٹھ کر گذرسکتا ہے ؟ جب کہ قبیلہ مذحج ہانی کے پاک خون کا اس سے طلب گار ہے ؟ ادھر قبیلہ مراد اس کے ارد گرد سائلو ں کی طرح گھوم رہاہے ۔ ہا ں جان لوکہ اگر تم نے اپنے سرو ر و سردار کے خون کا انتقام نہ لیا تو تم وہ فاحشہ عورت ہو جو تھوڑے سے مال کے لئے اپنی عفت و آبرو بیچنے پر راضی ہوجاتی ہے ۔

۲۰۸

مکہ سے امام حسین علیہ السلام کی روانگی

* امام علیہ السلام کے ساتھ ابن زبیر کا موقف

* ابن عباس کی گفتگو

* ابن عباس کی ایک دوسری گفتگو

* عمر بن عبدالرحمن مخزومی کی گفتگو

* امام علیہ السلام کے ساتھ ابن زبیرکی آخری گفتگو

* عمرو بن سعید اشدق کا موقف

* عبداللہ بن جعفر کا خط

۲۰۹

مکہ سے امام حسین علیہ السلام کی روانگی(١)

٢٨ رجب ٦٠ھبروز یکشنبہ امام حسین علیہ السلام نے مدینہ سے مکہ کی طرف کوچ کیا اورشب جمعہ ٣ شعبان ٦٠ ھ کو مکہ میں داخل ہوئے ۔ اس کے بعد شعبان ، رمضان ، شوال ، ذی قعدہ تک امام حسین علیہ السلام مکہ میں قیام پذیر رہے اور جب ذی الحجہ کے ٨ دن گذر گئے تو ''یوم الترویہ'' (جس دن تمام حاجی مکہ میں آجاتے ہیں ) بروز سہ شنبہ امام حسین علیہ السلام نے مکہ سے سفر اختیار کیا جس دن جناب مسلم بن عقیل نے کوفہ میں اموی حکومت کے خلاف قیام کیا تھا ۔

امام علیہ السلام کے ساتھ ابن زبیر کا موقف

مکہ میں امام حسین علیہ السلام کے پاس آنے والوں میں سے ایک ابن زبیر بھی تھاجو کبھی تو دوروزپے در پے آیا کرتا تھا اورکبھی دو روز میں ایک مرتبہ آیا کرتا۔اسے یہ بات اچھی طرح معلوم ہوگئی تھی کہ جب تک مکہ میں امام حسین علیہ السلام موجود ہیں اہل حجاز نہ تو اس کی پیروی کریں گے اور نہ ہی اس کے ہاتھ پر بیعت کریں گے کیونکہ امام حسین علیہ السلام کی شخصیت ان کی نگاہوں میں عظیم ہے اور انھوں نے ان کے دلوں میں جگہ بنالی ہے۔(٢)

____________________

١۔ طبری کا بیان ہے کہ اسی سال ٦٠ھ ماہ رمضان میں یزیدنے ولید کو معزول کر کے اس کی جگہ پر عمرو بن سعید بن عاص اشدق کو مدینہ کا امیر بنا دیا ۔ عمرو ماہ رمضان میں وہا ں پہنچا ۔یہ شخص بہت بڑا کینہ توز اور بہت بولنے والا تھا (طبری ،ج٥، ص ٣٤٣) بعض روایتو ں میں ہے کہ ماہ ذی قعدہ ٦٠ھ میں مدینہ آیا تھا (طبری ،ج٥،ِ ص ٣٤٦)پھر طبری کا بیان ہے کہ یزید بن معاویہ نے اسی سال (٦٠ ھ) ولید بن عتبہ کو مکہ کی ریاست سے بھی معزول کر دیااور ان دونو ں کی ریاست عمروبن سعید بن عاص کے سپرد کر دی۔ یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ اسی سال عمرو بن سعید نے لوگو ں کے ساتھ حج بھی انجام دیادرحالیکہ وہ مکہ اور مدینہ کا حاکم تھا۔ (طبری، ج٥، ص ٣٩٩)

٢۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے عبدالرحمن بن جندب نے روایت کی اور عبدالرحمن کا بیان ہے کہ مجھ سے عقبہ بن سمعان نے یہ روایت بیان کی ہے جو امام حسین علیہ السلام کی زوجہ جناب رباب بنت امرء القیس کا غلام تھا۔ (طبری ،ج٥ ،ص ٣٥١)

۲۱۰

ایک دن وہ کسی وقت امام حسین علیہ السلام کے پاس گفتگوکے لئے آکر بیٹھا اور کہا کہ میں تو نہیں سمجھتا ہوں کہ یہ تباہ کار افراد ہم کو اس طرح چھوڑ دیں گے اور ہم سے دست بردار ہوجائیں گے کیونکہ انھیں بخوبی معلوم ہے کہ ہم اسلام کے فداکار مہاجر ہیں اور قوم و ملت کے نظم و نسق کی ذمہ داری اور اس کی زمام ہمارے ہاتھوں میں ہونی چاہیے۔ آپ مجھے بتائیں کہ آپ کا ارادہ کیا ہے اور آپ کیا کرنا چاہتے ہیں ؟

امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا : خداکی قسم میں نے تو یہ فکر کی ہے کہ میں کوفہ چلاجاؤں کیونکہ ہمارے پیروئوں اور وہاں کے اشراف نے مجھے خط لکھ کر کوفہ بلا یا ہے اور میں خداسے یہی چاہتا ہوں کہ جو میرے لئے بہتر ہے وہی میرے حق میں انجام دے۔

ابن زبیرنے کہا : خداکی قسم اگر کوفہ میں آپ کے پیروئوں کی طرح میرے بھی چاہنے والے ہوتے تو میں انھیں نہیں چھوڑتا اور فوراً چلاجاتا ، پھر اسے خیال آیا کہ اس قسم کی باتوں سے اس کاراز کھل جائے گا اور وہ متہم ہوجائے گا لہٰذا فوراً بولا : ویسے اگر آ پ حجاز میں بھی قیام پذیر رہیں اور یہاں بھی امت کے امور اپنے ہاتھوں میں لینا چاہیں تو انشااللہ آپ کی کوئی مخالفت نہیں کرے گا۔ یہ کہہ کروہ اٹھا اور فوراً چلاگیاتو امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : اس بندہ خداکے لئے دنیا میں اس سے زیادہ محبوب تر کوئی چیز نہ ہوگی کہ میں حجاز سے نکل کر عراق چلاجاؤں اسے بخوبی معلوم ہے کہ میرے رہتے ہوئے لوگ اس کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کریں گے لہٰذاوہ چاہتا ہے کہ میں اس شہر سے چلا جاؤں تا کہ اس کے لئے راستہ آسان ہوجائے۔(١) و(٢)

____________________

١۔ابومخنف کا بیان ہے کہ حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے مجھ سے یہ روایت بیان کی ہے (طبری، ج٥، ص ٣٨٢)

٢۔واقعیت یہ ہے کہ عبداللہ بن زبیرکو کوفیو ں کی منافقت اور نیرنگ و دھوکہ بازی کا خوف نہیں تھا بلکہ وہ اپنے مقصد تک پہونچنے کی فکرمیں تھا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام بھی اس کے ظرف وجود اور روحی و فکری گنجایش میں اتنی وسعت نہیں دیکھ رہے تھے کہ انجام کو اس کے لئے بیان کردی ں ؛ کیونکہ عقل مند آدمی ہر اس چیز کو بیان نہیں کر تا جس کو وہ جانتاہے اور دوسرو ں کو تمام واقعات سے رو شناس نہیں کراتا۔لوگو ں کے افکار اور ان کی صلاحیتی ں مختلف ہوتی ہیں اور بہت سارے افراد اپنے وجود میں اس بات کی توانائی نہیں رکھتے کہ بہت سارے حقائق سے آگاہ ہوسکی ں ، اسی بنیاد پر امام حسین علیہ السلام نے ابن زبیر کی فکری صلاحیت کو دیکھتے ہوئے ان کے مطابق انہیں جواب دیا۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ ابن زبیر کو امام حسین علیہ السلام کے قیام سے ذرہ برابر بھی اختلاف نہیں تھا بلکہ وہ امام کو قیام کی ترغیب دلا رہا تھا،بحث فقط زمان و مکان کے بارے میں تھی ۔

۲۱۱

ابن عباس کی گفتگو

جب امام حسین علیہ السلام نے مکہ چھوڑکر کوفہ جانے کا ار اد ہ کیا تو ابن عباس آپ کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور عرض کی :یابن عم (اے چچا کے فرزند) لوگوں کے درمیان یہ بات پھیل چکی ہے کہ آپ عراق کی طرف روانہ ہونے والے ہیں ۔ ذرامجھے بتائیے کہ آپ کیا کرناچاہتے ہیں ؟امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا :'' انی قد أجمعت المسیر فی احدیومیّ ھٰذین(١) ان شاء اللّہ تعالیٰ '' میں نے ایک دو روز میں نکلنے کاقطعی فیصلہ کر رکھاہے، ان شاء اللہ ۔

١۔چونکہ مکہ سے امام حسین علیہ السلام کی روانگی کی تاریخ ٨ذی الحجہ یوم الترویہ بعدازظہر ہے اور یہ وہ وقت ہے جب لوگ منی کی طرف جارہے ہوتے ہیں (طبری، ج ٥ ،ص٣٨٥) اس سے اندازہ ہوتاہے کہ ابن عباس اور امام علیہ السلام کے درمیان یہ گفتگو ٦ذی الحجہ کو انجام پذیر ہوئی ہے اور اس خبر کامشتہر ہونااس گفتگو سے زیادہ سے زیادہ دو دن پہلے ہے یعنی ٤ذی الحجہ کو یہ خبر پھیل گئی کہ امام علیہ السلام مکہ ترک کرنے و الے ہیں ؛لیکن اس سے قبل اس خبر کے مشتہر ہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ سوال یہ پیداہوتاہے کہ وہ کون ساسبب ہے جس کی بنیاد پر اتنے دن مکہ میں رہنے کے بعد عین حج کے دن حج تما م ہونے سے پہلے ہی امام حسین علیہ السلام نے مکہ چھوڑدیا؟اگر یہ کہا جائے کہ جناب مسلم بن عقیل کے خط کی بنیاد پر جلدی کی، کیو نکہ اس میں مرقوم تھاکہ خط ملتے ہی فوراًروانہ ہو جائیے تو یہ صحیح نہیں ہے کیو نکہ جناب مسلم بن عقیل نے اپنی شہادت سے ٢٧دن قبل یعنی ٢ ١ یا١٣ذی القعدہ کو امام حسین علیہ السلام کو خط لکھاہے۔ ایسی صورت میں تقریباً دس(١٠) دن کے اندر یعنی ٢٧ ذی قعدہ تک یہ خط امام علیہ السلام کو موصول ہوچکا تھالہذا اگر امام علیہ السلام کو سفر کرنا ہی تھا تو انھیں دنوں میں سفر کر لیتے ۔یہ ٤دن قبل خبر کا مشتہر ہونا اور عین حج کے موقع پر سفر کرنے کا راز کیا ہے ؟ اس کا جواب ہمیں فرزدق کے سوال کے جواب میں ملتا ہے،جب راستے میں فرزدق شاعر کی ملاقات امام حسین علیہ السلام سے ہوئی تو اس نے بھی امام علیہ السلام سے یہی سوال کیا کہ اتنی جلدی کیا تھی کہ آپ حج چھوڑکر جارہے ہیں ؟

۲۱۲

امام علیہ السلام نے جواب دیا :'' لولم أعجل لأخذت''(طبری ،ج٥،ص ٣٨٦) اگر میں جلدی نہ کر تا تو گرفتار کر لیاجا تا۔یہی وجہ ہے کہ شیخ مفید قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ جب امام علیہ السلام نے عراق کا قصد کیا تو خانہ کعبہ کا طواف کیا،صفاو مروہ کے درمیان سعی کی اور اسے عمرہ قرار دے کر احرام سے خارج ہو گئے کیونکہ مولا کا مل حج انجام دینے پر متمکن نہ تھے ہر آن اس کا خطرہ تھا کہ عین حج کے مو قع پر آپ کو گر فتار کر کے یزید بن معاویہ تک پہنچا دیا جائے لہٰذا امام علیہ السلام فوراً مکہ سے نکل گئے ۔(ارشاد، ص ٢١٨)معاویہ بن عمارنے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا :ماہ ذی الحجہ میں امام حسین علیہ السلام نے عمرہ انجام دیا پھر یوم الترویہ (٨ ذی الحجہ) کو عراق کی طرف کوچ کرگئے ۔یہ موقع وہ تھاکہ ادھر آپ عین حج کے موقع پر مکہ سے کوچ

کررہے تھے ادھر حجاج کرام حج کے لئے مکہ سے منیٰ کی طرف جارہے تھے ۔ ذی الحجہ میں جو حج نہ کرنا چاہے اس کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے کہ عمرہ انجام دے لے۔

اسی طرح ابراہیم بن عمر یمانی نے روایت کی ہے کہ انھوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا جو ایام حج میں عمرہ انجام دے کر باہر آجائے او روہاں سے ا پنے شہر کی طرف نکل جائے تو اس کا حکم کیا ہے ؟ امام علیہ السلام نے جواب دیا: کوئی مشکل نہیں ہے پھر اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا : امام حسین علیہ السلام عمرہ انجام دے کر یوم الترویہ مکہ سے روانہ ہوئے تھے۔(وسائل، ج١٠ ،ص ٢٤٦)

۲۱۳

یہی وجہ ہے کہ شیخ شوشتری نے فرمایا : دشمنوں نے پوری کوشش تھی کہ کسی نہ کسی طرح امام حسین علیہ السلام کو پکڑ لیں یا دھوکہ سے قتل کردیں ،خواہ آپ کعبہ کی دیوار سے لپٹے ہوں ۔ امام علیہ السلام ان کے باطل ارادہ سے آگاہ تھے لہٰذا اپنے احرام کو عمرہ مفردہ میں تبدیل کر دیا اور حج تمتع ترک کردیا۔ (الخصائص، ص ٣٢،ط تبریز)شیخ طبرسی نے اعلام الوریٰ کی ایک خاص فصل میں امام علیہ السلام کے سفر کے واقعہ اور آپ کی شہادت کا تذکرہ کیا ہے۔ وہاں پر آپ نے ارشاد میں موجودشیخ مفید کی عبارت کوتقریباًبعینہ ذکر کیا ہے اوراس کی تصریح بھی نہیں کی ہے۔ اس فصل میں آپ نے انہیں باتوں کو ذکر کیا ہے جسے شیخ مفید نے لکھا ہے۔ہاں وہاں کلمہ '' تمام الحج''کے بجائے'' اتمام الحج ''کردیاہے جو غلط ہے اور شاید نسخہ برداروں کی خطا ہے۔ اس خطا کا سبب یہ ہے کہ ان دونوں کلمات میں بڑا فرق ہے کیونکہ کلمہ'' الاتمام'' کا مطلب یہ ہے کہ امام علیہ السلام نے احرام حج باندھ لیا تھا جبکہ کلمہ'' تمام الحج'' اس معنی کی طرف راہنمائی نہیں کرتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ '' الارشاد'' کے نسخہ مختلف ہیں کیونکہ شیخ قرشی نے شیخ مفید کے کلام کو اسی طرح نقل کیا ہے جس طرح طبرسی نے'' اتمام الحج '' نقل کیا ہے۔(ج٣ ،ص ٥٠) یہ انھوں ں نے ارشاد کے ص ٢٤٣سے نقل کیا ہے جبکہ ہم نے ارشاد کے ص ٢١٨ طبع حیدریہ پر'' تمام الحج'' دیکھاہے اور یہی صحیح ہے ۔

ابن عباس نے کہا : میں آپ کے اس ارارہ سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں ۔ اللہ آپ پر رحمت نازل کرے! ذرا مجھے بتائیے کہ کیا آپ اس قوم کی طرف سفرکرنا چاہتے ہیں جنھوں نے اپنے ظالم اور ستمگار حکمراں کو نابود کردیاہے اور اپنے شہر و دیار کو ان کے چنگل سے نجات دلادی ہے اور اپنے دشمنوں کو وہاں سے نکال بھگایا ہے ؟ اگر ان لوگوں نے ایساکیا ہے تو آپ فوراً رخت سفر باندھ لیجئے لیکن اگر ان لوگوں نے آپ کو اس حال میں بلایا ہے کہ ان کا حاکم ان پر مسلط اور قہر و غلبہ کے ساتھ ان پر قابض ہے ،اس کے عاملین شہروں میں اس کی طرف سے مالیات وصول کررہے ہیں تو ایسی صورت میں ان لوگوں نے آپ کو جنگ و جدال کے لئے بلایا ہے جس کی کوئی ضمانت نہیں اور نہ ہی آپ اس بات سے امن وامان میں ہیں کہ وہ آپ کو دھوکہ دیں ، جھٹلائیں ، مخالفت کریں اور چھوڑدیں ، نیز آپ اس سے بھی امان میں نہیں ہیں کہ اگر وہ آپ کی طرف آئیں تو آپ کے سخت دشمن بن جائیں ۔امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا : میں خدا سے طلب خیر کروں گا پھر دیکھوں گا کہ کیا ہوتا ہے۔( ١ ) و( ٢)

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے۔ (طبری، ج ٥،ص٣٨٣)

٢۔ یہ بات یہا ں قابل توجہ ہے کہ ابن عباس ظلم کے خلاف امام حسین علیہ السلام کے قیام کے مخا لف نہیں ہیں بلکہ قیام کے لئے حالات سازگار ہیں یا نہیں ، اس میں انھی ں شک ہے۔امام حسین علیہ السلام نے بھی ان کے نظریہ کو رد نہیں کیا بلکہ آپ ان کو اپنا خیر خواہ سمجھتے تھے لیکن اسی حال میں اپنے بلند مقصد اور اپنی رسالت کے سلسلہ میں کوشا ں تھے کیونکہ آپ اسی ماحول میں نظام اموی کے خلاف قیام کو لازم سمجھ رہے تھے۔

۲۱۴

ابن عباس کی ایک دوسری گفتگو

سورج آہستہ آہستہ مغرب کے دامن میں اپنا چہرہ چھپانے لگا اورشب آگئی، اسی رات یا دوسرے دن صبح ابن عباس دوبارہ امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی : یابن عم ! میں بے حد صبر و تحمل سے کام لینا چاہتا ہوں لیکن مجھ سے صبر نہیں ہوتا کیونکہ میں اس سفر کو آپ کے لئے بے حد خطر ناک سمجھتا ہوں اور آپ کی ہلاکت سے مجھے خوف آتا ہے کیونکہ عراقی دھوکہ باز ہیں ؛ آپ خدا را ان کے قریب نہ جائیے؛ آپ اسی شہر میں مقیم رہیں کیونکہ آپ سید حجاز ہیں ۔ اب اگر اہل عراق آپ کو چاہتے ہیں تو آپ ان کو خط لکھ دیجیے کہ پہلے وہ اپنے دشمنوں کو وہاں سے بھگا ئیں پھر آپ وہاں جائیے؛اور اگر آپ نے جانے کے لئے عزم بالجزم کرہی لیا ہے تو آپ یمن روانہ ہوجائیں کیونکہ وہاں کی زمین وسیع ہے۔ اس کے علاوہ وہاں آپ توحید و عدالت کی دعوت اچھی طرح دے سکتے ہیں ۔ مجھے اس بات کی بھر پور امید ہے کہ آپ جو کرنا چاہتے ہیں وہاں کسی فشار اور طاقت فرسا رنج و غم کے بغیر انجام دے سکتے ہیں ۔

۲۱۵

امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا : ''یابن عم !انی واللّه لأ علم انک ناصح (١) ومشفق ولکنی ازمعت و اجمعت علی المسیر''

یابن عم ! خدا کی قسم مجھے یقینی طور پر یہ معلوم ہے کہ آپ مخلص اور مشفق ہیں لیکن آپ یہ جان لیں کہ میں عزم با لجزم کر چکا ہوں اور سفرکے لئے تیار ہوں ۔

ابن عباس نے کہا : اگر ایسا ہے کہ آپ حتماً جانا ہی چاہتے ہیں تو اپنے ساتھ مخدرات اور بچوں کو نہ لیں جائیں ؛کیونکہ میں آپ کے قتل اور خاندان کی اسیری سے خوف زدہ ہوں ۔(٢)

عمر بن عبد الرحمن مخزومی کی گفتگو

عمر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام مخزومی(٣) کا بیان ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام عراق جانے کے لئے سامان سفر باندھ چکے تو میں ان کی خدمت میں آکر ان کی ملاقات سے شرفیاب ہوا

____________________

١۔ امام حسین علیہ السلام کے اس جملہ میں کلمہ ''ناصح '' خلوص و اخلاص کے معنی میں استعمال ہواہے، موعظہ اور نصیحت کے معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے ۔ اس لفظ کے لئے یہ معنی جدید اور نیا ہے، اس کا اصلی معنی نہیں ہے، امام فرمارہے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ ابن عباس کی گفتار میں خلوص و شفقت اور محبت و عطوفت پنہا ں ہے۔ اس سے انداہ لگایا جا سکتا ہے کہ ابن عباس امام علیہ السلام کے قیام کے مخالف نہ تھے بلکہ وہ اس شک وتردید میں تھے کہ قیام کے لئے حالات سازگار اور مناسب ہیں یا نہیں اور امام علیہ السلام نے بھی اس سلسلے میں ان کی بات کو رد نہیں کیا بلکہ فرمایا کہ اس کے باوجود بھی وہ قیام کے لئے عازم ہیں کیونکہ وہ اس قیام کو شریعت مقدسہ کی زندگی کے لئے لازم اورضروری سمجھتے ہیں ۔

٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے۔ (طبری ج٥، ص ٣٨٣)

٣۔یہ وہی شخص ہے جسے مختار کے عہد حکومت میں عبداللہ بن زبیر نے ٦٦ھ میں کوفہ کا والی بنادیا تو مختار نے زائدہ بن قدامہ ثقفی کو اس کے پاس پانچ سو (٥٠٠) سپاہیو ں اور ستر (٧٠) ہزار درہم کے ساتھ روانہ کیا تا کہ وہ ان درہمو ں کے مقابلہ میں مختار کے لئے کوفہ کی گورنری چھوڑدے اور اگر وہ اس پر راضی نہ ہو تو پھر ان سپاہیو ں سے نبرد آزماہوجائے۔ عمر بن عبد الرحمن نے وہ درہم قبول کر لئے اور ر ا ہی ٔ بصرہ ہوگیا۔ (طبری، ج٦،ص ٧١) اب رہا امام علیہ السلام کی مدح و ثنا کا سوال تو اس روایت کا ناقل خود یہی شخص ہے۔ اس کا دادا حارث بن ہشام اور اس کا بھائی جھل بن ہشام دونو ں ہی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دشمن تھے۔ ہم نے اس کا تذکرہ مقدمہ میں کیاہے۔

۲۱۶

اورثنائے الہٰی کے بعد ان کی خدمت میں عرض کیا: یابن عم !میں آپ کی خدمت میں ایک درخواست لے کر حاضرہواہوں جسے مخلصانہ نصیحت کے طور پرآپ سے عرض کرناچاہتاہوں ،اب اگر آپ مجھے اپناخیر خواہ اورصاحب فکر سلیم سمجھتے ہیں تومیں وہ عرضداشت آپ کی خدمت میں پیش کرو ں ورنہ میں جو کہناچاہتاہوں اس سے صرف نظرکرلوں ۔

امام علیہ السلام نے فرمایا:''قل فواللّٰه ما أظنّک بسییٔ الرأولا هو ٍ (١) للقبیح من الأمر و ا لفعل ''

تم جو کہنا چاہتے ہو کہو، خدا کی قسم میں اس بات کا گمان بھی نہیں کرتا کہ تم میرے لئے برا تصور رکھتے ہو اور میری بھلائی نہیں چاہتے۔

عمر بن عبدالرحمن مخزومی نے کہا: مجھے خبر ملی ہے کہ آپ عراق جانا چاہتے ہیں اور میں آپ کے اس سفر سے خوفزدہ ہوں ؛کیونکہ آپ ایسے شہر میں جانا چاہتے ہیں جس میں اُمراء اور عاملین دونوں موجود ہیں اور ان کی پشت پناہی کے لئے بیت المال کا ذخیرہ موجود ہے۔ قوم درہم ودینار کی غلام ہے اور میں اس سے بھی آپ کو امن و امان میں نہیں سمجھتا کہ وہی لوگ آپ سے مقابلہ اور جنگ کے لئے کھڑے ہو جائیں گے جو ا بھی آپ کی نصرت کا وعدہ کررہے ہیں اور آپ کے دشمن کی دشمنی سے زیادہ آپ سے محبت کا دم بھرتے ہیں ۔

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:''جزاک اللّه خیراً یابن عم ! فقد واللّٰه علمت أنک مشیت بنصح و تکلّمت بعقل و مهما یقض من أمر یکن ، أخذت برأیک أو تر کته فأنت عندی أحمد مشیر وأنصحُ ناصح ''(٢) اے چچا کے فرزند خدا تم کو جزائے خیر دے ! خدا کی قسم مجھے معلوم ہے کہ تم خیر خواہی کے لئے آئے ہو اور تمہاری گفتگومیں عقل و خرد کے جلوے ہیں ؛ بنابر این حسب ضرورت یا تو تمہاری رائے پرعمل کروں گا یا اسے ترک کروں گا لیکن جو بھی ہو تم میرے نزدیک اچھا مشورہ دینے والے اور بہترین خیر خواہ ہو ۔

____________________

١۔ ھوٍ یعنی ھا ویا جس کی اصل ھویٰ ہے جس کے معنی برا ارادہ رکھنے والے کے ہیں ۔

٢۔طبری ،ج ٥،ص ٣٨٢ ،ہشام نے ابومخنف کے حوالے سے کہا ہے کہ مجھ سے صقعب بن زبیر نے عمر بن عبد الر حمن کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے ۔

۲۱۷

امام علیہ السلام کے ساتھ ابن زبیر کی آخری گفتگو

عبد اللہ بن سلیم اسدی اور مذری بن مشمعل اسدی کا بیان ہے کہ ہم دونوں حج کی غرض سے مکہ روانہ ہو ئے اور یوم ترویہ وارد مکہ ہو ئے۔وہاں پرہم نے سورج چڑہتے وقت حسین اورعبداللہ بن زبیر کو خانہ کعبہ کے دروازہ اور حجر الاسود کے درمیان کھڑے ہوئے دیکھا ، ہم دونوں ان کے نزدیک آگئے تو عبد اللہ بن زبیر کو حسین سے یہ کہتے ہو ئے سنا : اگر آپ یہاں قیام فرمائیں گے تو ہم بھی یہیں سکونت اختیار کریں گے اور یہاں کی حکومت اپنے ہا تھوں میں لے لیں پھرہم آپ کی پشت پنا ہی اور مدد کریں گے اور آپ کے مخلص و خیر خواہ ہو کر آپ کی بیعت کر لیں گے ۔

امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا :''اِن أبی حدّثنی : ''ان بها کبشاً یستحلّْ حرمتها ''! فما اْحبّ ان أکون أنا ذالک الکبش'' (١) و(٢)

میرے بابا نے مجھ سے ایک حدیث بیان فرمائی ہے کہ یہاں ایک سر برآوردہ شخص آئے گا جو اس حرم کی حرمت کو پامال کرے گا ، مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ وہ سر برآوردہ شخص میں قرارپاؤں ۔

ابن زبیرنے کہا : فرزند فاطمہ ! آپ ذرا میرے نزدیک آیئے تو امام علیہ السلام نے اپنے کانوں کو اس کے لبوں سے نزدیک کر دیا ۔ اس نے راز کی کچھ باتیں کیں پھرامام حسین ہماری طرف ملتفت ہوئے اور فر مایا :'' أتدرون ما یقول ابن زبیر ؟'' تم لوگو ں کو معلو م ہے کہ ابن زبیر نے کیا کہا ؟

ہم نے جواب دیا :. ہم آپ پر قربان ہوجائیں ! ہمیں نہیں معلوم ہے۔

امام حسین علیہ السلام نے فر مایا: وہ کہہ رہاتھا کہ آپ اسی حرم میں خانہ خداکے نزدیک قیام پذیر رہیئے، میں آپ کے لئے لوگوں کو جمع کرکے آپ کی فرمانبرداری کی دعوت دوں گا۔پھر حسین نے فرمایا:

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ ابو جناب یحٰبن ابی حیہ نے عدی بن حرملہ اسدی سے، اس نے عبد اللہ سے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ (طبری، ج٥ ،ص ٣٨٤)

٢۔ الکبش : اس نر بکر ے کو کہتے ہیں جو عام طور پر گلہ کے آگے رہتا ہے۔ یہ درواقع تشبیہ ان لوگو ں کے لئے ہے جو کسی امر کی قیادت کرتے ہیں ۔ اس حدیث کے ذریعہ سے امام علیہ السلام نے ابن زبیر کو یاد دلا یا کہ شاید یاد آوری اس کو فائدہ پہنچا ئے لیکن یاد آوری تو مو منین کے لئے نفع بخش ہو تی ہے۔ ''فان الذکری تنفع المو منین ''

۲۱۸

''واللّٰه لئن أقتل خارجاً منها بشبر أحبّ الیّ من أن اْقتل داخلاً منها بشبر وأیم اللّٰه لو کنت فی حجر ها مة من هٰذ ه الهوام لا ستخرجونی حتی یقفوافیّ حا جتهم، واللّٰه لیعتدنّ علیّ کما اعتدت الیهود فی السبت'' ) و(٢)

خداکی قسم! اگر میں حرم سے ایک بالشت دور قتل کیاجاؤں تو یہ مجھے زیادہ محبوب ہے بہ نسبت اس کے کہ میں حرم کے اندر قتل کردیا جاؤں ، خدا کی قسم! اگر میں حشرات الارض کے سوراخ میں بھی چلاجاؤں توبھی یہ لوگ مجھے وہاں سے نکال کر میرے سلسلہ میں اپنی حاجت اور خواہش پوری کرکے ہی دم لیں گے۔ خدا کی قسم! یہ لوگ اس طرح مجھ پر ظلم و ستم روا رکھیں گے جس طرح روز شنبہ یہودیوں نے ظلم و ستم کیا تھا۔

عمرو بن سعید اشدق کا موقف

جب امام حسین علیہ السلام نے مکہ سے روانگی اختیار کی تو مکہ کے گورنرعمروبن سعید بن عاص(٣) کے نمائندوں نے یحٰی بن سعید(٤) کی سربراہی میں حضرت پر اعتراض کیا۔ اور سب کے سب

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ ابو سعیدعقیصانے اپنے بعض اصحاب سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں ...۔(طبری ،ج٥،ص٣٨٥)

٢۔ یہ وہ بہترین جواب ہے جو امام حسین علیہ السلام نے تمام سوالو ں کے جو اب میں بہت مختصرطور پردیاہے کہ بہر حال بنی امیہ کو حضر ت کی تلاش ہے ؛ آپ جہا ں کہیں بھی ہو ں وہ آپ پر ظلم و ستم کری ں گے پس ایسی صورت میں لازم ہے کہ آپ فوراً مکہ چھوڑ دی ں تاکہ آپ کی مثال بکری کے اس گلہ کے بکرے کی جیسی نہ ہوجائے جو آگے آگے رہتا ہے جس کا ذکر آپ کے والد حضرت امیر المومنین نے کیا تھا۔ اسی خوف سے آپ فوراً نکل گئے کہ کہیں آپ کی اور آپ کے خاندان کی بے حرمتی نہ ہوجائے اور ادھر اہل کوفہ کی دعوت کا جواب بھی ہوجائے گا جو آپ کے لئے ان پر اتمام حجت ہو گی تا کہ یہ الزام نہ آئے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے بعد امت کے لئے کوئی حجت نہ تھی اور لوگ یہ نہ کہہ سکی ں کہ اللہ کی جانب سے تو پیغمبرو ں کے بعد ہمارے لئے کوئی حجت ہی نہ تھی۔''لئلا یکون للناس علی اللّٰہ حجة بعدالرسول'' (سورہ ٔنساء ١٦٥)اور تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے :'' لولا أرسلت الینا رسولأ منذراًو أقمت لنا علماً ھادیاً فنتبع آیاتک '' تو نے ہم تک ڈرانے والا کوئی پیغمبر کیو ں نہ بھیجا اور ہمارے لئے کوئی ہدایت کرنے والی نشانی کیو ں نہ قائم کی تاکہ ہم تیری نشانیو ں کی پیروی کر تے۔اہم بات یہ ہے کہ اس وحشت وخوف کے ماحول میں کوفہ نہ جاتے تو اور کہا ں جاتے؛ جب کہ زمین اپنی وسعتو ں کے باوجود آپ پر تنگ کردی گئی تھی ۔

۲۱۹

٣۔ جب عمر و بن سعید مدینہ کا والی ہوا تو اس نے عبیداللہ بن ابی رافع جو امام علی بن ابیطالب کے کاتب تھے،کو بلایا اور ان سے پوچھا: تمہارامولا کون ہے ؟ انھو ں نے جواب دیا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) (یہ ابو رافع ،ابوا حیحہ سعید بن عاص اکبر کے غلام تھے جو سعید بن عاص کے بیٹو ں کو میراث میں ملے تھے۔ ان میں سے تین بیٹو ں نے اپناحصہ آزاد کردیا اور یہ سب کے سب جنگ بدر میں مارڈالے گئے اورایک بیٹے خالد بن سعید نے اپنا حصہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کو ھبہ کردیا تو آ پ نے اسے آزاد کر یا) یہ سنتے ہی اس نے سو کوڑے لگائے پھر پوچھا تیرا مالک ومولا کون ہے ؟ انہو ں نے پھر جواب دیا :ر سول خدا ! تو اس نے پھر سو کوڑے لگائے۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا، وہ پوچھتا جاتا تھا اور یہ جواب میں کہتے جاتے تھے: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور وہ کوڑے برسائے جاتاتھا یہا ں تک کہ پانچ سو کوڑے مارے اور پھر پوچھاکہ تمہارامولا و مالک کون ہے؟ تو تاب نہ لاکرعبیداللہ بن ابورافع نے کہہ دیا :تم لوگ میرے مالک و مختار ہو ۔یہی وجہ ہے کہ جب عبدالملک نے عمرو بن سعید کو قتل کیا تو عبیداللہ بن ابی رافع نے شعر میں قاتل کا شکریہ اداکیا۔(طبری ،ج٣، ص ١٧٠)

عمرو بن سعیدنے ابن زبیر سے جنگ کی۔ (طبری ، ج٥،ص ٣٤٣) اور جو بھی ابن زبیر کا طرفدار تھا اسے مدینہ میں مارڈالاتھا ۔جن میں سے ایک محمد بن عمار بن یاسر تھے۔اس نے ان میں سے چالیس یا پچاس یا ساٹھ لوگو ں کوماراہے ۔(طبری ،ج٥ ،ص ٣٤٤) جب اس تک امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر پہنچی تو اس نے خوشیا ں منائی ں اور جب بنی ہاشم کی عورتو ں کا بین سنا تو کہنے لگا کہ یہ بین عثمان کے قتل پر انکے گھر کی عورتو ں کے بین کا جواب ہے پھر یہ منبر پر گیا اور لوگو ں کو اس سے باخبر کیا ۔ اس کے بعد یزید کو معلوم ہوا کہ عمرو بن سعید ، ابن زبیر سے رفق و محبت سے پیش آرہاہے اور اس پر تشدد نہیں کر رہاہے تو یکم ذی الحجہ ٦١ھکو اسے معزول کردیا۔ (طبری ،ج٥ ،ص٤٧٧) تو یہ اٹھکر یزید کے پاس آیااور اس سے معذرت خواہی کی۔ (طبری ،ج٥،ص ٤٧٩) اس کاباپ سعید بن عاص ، معاویہ کے زمانے میں مدینہ کا والی تھا۔ (طبری، ج٥ ، ص٢٤١)

٤۔یہ عمرو بن سعید کابھائی ہے۔اس نے شام میں عبدالملک کے دربار میں ان ایک ہزار جوانو ں کے ساتھ اپنے بھائی کی مدد کی جو اس کے ساتھی اور غلام تھے لیکن آخر میں وہ سب بھاگ گئے اور اسے قید کر لیا گیا پھر آزاد کردیا گیا تو یہ ابن زبیر سے ملحق ہو گیا۔ (طبری، ج٦،ص ١٤٣، ١٤٧) پھر کوفہ روانہ ہوگیا اور اپنے ماموؤ ں کے پاس پناہ لی جو جعفی قبیلہ سے متعلق تھے۔جب عبدالملک کوفہ میں داخل ہوا اور لوگو ں نے اس کی بیعت کرنا شروع کردی تو اس نے بھی اس کی بیعت کر لی اور امن کی درخواست کی۔ (طبری ،ج٦ ، ص ١٦٢)

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438