واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا13%

واقعۂ کربلا مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 438

واقعۂ کربلا
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 438 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 192967 / ڈاؤنلوڈ: 5407
سائز سائز سائز
واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

قریش کے ہاتھ سے لے لیا اور وہیں پھاڑ دیا اور فوراً جناب ابوطالب (ع) کے ساتھ شعب کی طرف روانہ ہوگئے_

اور یوں رسول خدا(ص) کی زندگی میں دعوت اسلام کے لئے ایک نئے دور کا آغاز ہوا_

آیت قرآن

''( انّه من يّتّق و یصبر فانّ الله لا یضیع اجر المحسنین ) ''

جو شخص تقوی اختیار کرے اور صبر کرے تو اللہ تعالی نیکیوں کے اجر کو ہرگز ضائع نہیں کرتا''

سورہ یوسف آیت ۹۰''

سوچئے اور جواب دیجئے

۱)___ پیغمبر اسلام(ص) اور آپ کے اعزاء و اقارب کتنی مدت شعب میں محصور رہے؟ یہ مدّت ان پر کسی گزری ان تمام سختیوں کو وہ کس مقصد اور غرض کے لئے برداشت کرتے رہے؟

۲)___ قریش کے سرداروں نے جناب ابوطالب (ع) کو دیکھ

۱۶۱

کرکیا سوچا؟ انہوں نے کس لئے صدر مجلس میں جگہ دی___؟

۳)___ جناب ابوطالب (ع) نے جوانوں کے صبر و استقامت کی کس طرح تعریف کی؟

۴)___ مشرکین نے پیغام کے سننے اور صندوق کے کھولنے سے پہلے کیا سوچا تھا؟

۵)___ ابوطالب (ع) کی ملاقات اور پیغام کا کیا نتیجہ نکلا___؟

۱۶۲

انسانوں کی نجات کیلئے کوشش

بعثت کے دسویں سال اقتصادی بائیکات ختم ہوگیا پیغمبر(ص) خدا اور آپ(ص) کے باوفا ساتھی تین سال تک صبر و استقامت سے صعوبتوں کو برداشت کرنے کے بعد شعب کے قیدخانہ سے آزاد ہوئے اور اپنے گھروں کی طرف گئے_ خداوند متعال نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ خدا کی راہ میں سعی و کوشش کریں اور صبر و استقامت کا مظاہر کریں تو خدا ان کی مدد کرے گا اور خدا نے اپنا کیا ہوا وعہ پورا کیا_

حضرت ابوطالب(ع) کہ جنہوں نے رسول خدا(ص) کی حفاظت کی ذمہ داری کو قبول کیا تھا، کفار کی طاقت اور کثرت سے نہ گھبرائے اور آپ نے پوری قوت کے ساتھ رسول(ص) خدا کا دفاع کیا_

آخر کار خدا کی نصرت آپہنچی اور انہیں اس جہاد میں کامیابی نصیب

۱۶۳

ہوئی اور ان کے احترام، سماجی مرتبے اور عظمت میں اضافہ ہوگیا بنی ہاشم اپنی اس کامیابی پر بہت خوش ہوئے اور تمام تکالیف اور سختیوں کے بعد دوبارہ اپنی زندگی کا آغاز کیا_

بت پرست اور قریش کے سردار اپنی شکست پر بہت پیچ و تاب کھارہے تھے لیکن ان حالات میں بے بس تھے لہذا کسی مناسب موقع کا انتظار کرنے لگے ان حالات میں پیغمبر اسلام(ص) کو تبلیغ دین کا نہایت نادر موقع ہاتھ آیا وہ بہت خوش تھے کہ اس طرح اپنے چچا کے سماجی رتبہ اور حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نہایت آزادی سے اپنے الہی پیام کو پہنچانے میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں اس لئے آپ(ص) بہت زیادہ لگن سے تبلیغ میں مشغول ہوگئے_

آپ(ص) نے لوگوں سے کہا

اے لوگو

وہ کون ہے جو زمین و آسمان سے تمہارے لئے روزی پہنچاتا ہے؟ کون ہے جس نے تمھیں آنکھ اور کان عنایت فرمائے؟ کون ہے جس کے ارادے سے جہان خلق ہوا اور اس کا نظام چل رہا ہے؟ لوگو تمہارے اس جہان کا پیدا کرنے والا خدا ہے وہی تمہاری اور اس جہان کی پرورش کرتا ہے اور روزی دیتا ہے وہ تمہارا حقیقی پروردگار ہے پس کیوں اس کا شریک قرار دیتے ہو اور اس کے علاوہ کسی اور کی

۱۶۴

اطاعت کرتے ہو؟ صرف خدا کی پرستش کرو اور صرف اسی کی اطلاعت کرو کہ یہی صحیح راستہ ہے اور حق کا ایک ہی راستہ ہے اور اس کے سوا سب گمراہی ہے_ پس جان لو کہ کسی طرف جارہے ہو؟ اے لوگو

جو لوگ نیکی اور حق کا راستہ اختیار کرتے ہیں خدا انہیں بہترین جزا عنایت فرماتا ہے اور زیادہ اور بہتر بھی دیتا ہے نیکوں کے چہرے پر کبھی ذلّت و خواری کی گرد نہیں بیٹھتی، ایسے لوگ جتنی ہیں اور ہمیشہ اس میں رہیں گے لیکن وہ لوگ جو برائی اور گناہ کا راستہ اختیار کرتے ہیں انہیں سخت سزا دی جائے گی''

لیکن افسوس کہ یہ حالات اور آزادنہ تبلیغ و گفتگو کا سلسلہ زیادہ مدت تک برقرار نہ رہ سکا_ ابھی اقتصادی بائیکاٹ کو ختم ہوئے نو ماہ بھی نہ گزرے تھے کہ حضرت محمد(ص) کے چچا حضرت ابوطالب (ع) وفات پاگئے اور یوں رسول خدا(ص) اپنے بہت بڑے مددگار، مہربان و ہمدرد اور جانثار سے محروم ہوگئے_

مشرکین اس بات سے خوش ہوئے اور پھر مخالفتوں کا سلسلہ شروع کردیا ابھی زیادہ وقت نہ گزار تھا کہ حضرت محمد(ص) کی زوجہ محترمہ جناب خدیجہ کہ جنہوں نے صداقت و وفاداری کے ساتھ حضرت محمد(ص) کے ساتھ

۱۶۵

ایک طویل عرصہ گزارا تھا اور جو کچھ بھی ان کے پاس تھا اسے تبلیغ دین اور اسلام کی مدد پر خرچ کردیا تھا وفات پاگئیں_

اس حساس موقع پر ان دو حادثات کا واقع ہونا پیغمبر خدا(ص) کے لئے انتہائی تکلیف دہ اور رنج و غم کا باعث تھا آپ نے اس سال کا نام غم و اندوہ کا سال یعنی عام الحزن رکھا_

حضرت ابوطالب(ع) کی وفات کے بعد بنی ہاشم نا اتفاقی کا شکار ہوگئے، اپنے اتحاد کی طاقت کو ہاتھوں سے کھو بیٹھے اور اس کے بعد وہ پہلے کی طرح رسول خدا(ص) کی حمایت نہ کرسکے''

کفار و مشرکین نے جو ایسے ہی کسی موقع کی تلاش میں تھے رسول خدا(ص) کو تکلیف اور ایذا پہنچانے کا سلسلہ پھر شروع کردیا اور آپ کے کاموں میں مداخلت کرنے لگے_

کوچہ و بازار میں پیغمبر اسلام(ص) کا مذاق اڑاتے اور آپ(ص) کو آزادانہ طور پر قرآن کی آیات کو لوگوں کے سامنے پڑھنے نہ دیتے اور نہ ہی لوگوں سے بات چیت کرنے دیتے اور آپ کو ڈراتے دھمکاتے_

آخر کار نوبت یہاں تک آپہنچی کہ کبھی کبھار آپ کے سر مبارک پر کوڑا کرکٹ ڈال دیتے اور آپ خاک آلودہ ہوکر گھر واپس آتے آپ کی کم عمر صاحبزادی جناب فاطمہ (ص) آپ(ص) کے استقبال کے لئے آگے بڑھتیں_ آپ(ص) کو اس حال میں دیکھ کر ان کا دل دکھتا اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے آپ کے سرمنہ کو صاف کرتیں اور بے اختیار دوپڑتیں لیکن رسول(ص) خدا فاطمہ (ع) سے نہایت شفقت کے ساتھ

۱۶۶

فرماتے''

میری پیاری بیٹی پریشان نہ ہو، خدا کی راہ میں ان مصائب کا برداشت کرنا بہت آسان ہے''

اس طرح جناب ابوطالب (ع) اور حضرت خدیجہ کی وفات سے پیغمبر اسلام(ص) کی اندرونی اور بیرونی زندگی تہ و بالا ہوکر رہ گئی کیوں کہ آپ اپنے سب سے بڑے حامی و مددگار اور جانباز سے جو قریش کے قبیلے کا سردار تھا محروم ہوگئے اس لئے آپ کو اس معاشرے اور اجتماع میں آزادی اور سکون حاصل نہ رہا ہر وقت آپ کی جان خطرے میں رہتی تھی آپ کا گھر بھی ایک جان نثار و وفا شعار، دوست و مددگار اور غم گسار بیوی سے خالی ہوچکا تھا جب آپ ان مصائب اور تکالیف کو جو باہردی جاتی تھیں برداشت کرتے ہوئے گھر واپس لوٹتے تو اپنی بیوی اور ہمسر کا کشادہ اور مسکراتا چہرہ نہ دیکھ پاتے بلکہ چھوٹی سی بچّی کے روتے ہوئے چہرے پر نگاہ پڑتی، وہ آپ کے استقبال کے لئے آتی اور اپنی والدہ کے پوچھتی اور سوال کرتی''

بابا ماں کہاں ہیں؟

رسول خدا(ص) اپنی بیٹی کا چہرہ چومتے اسے پیار کرتے اور اس کے رخساروں پر بہتے ہوئے آنسوؤں کے قطروں کو صاف کرتے اور فرماتے:

بیٹی رؤومت، تمہاری ماں بہشت میں گئی ہیں اور وہاں جنّت کے پاک فرشتے ان کی مہمان نوازی کر رہے ہیں

اس قسم کے حالات میں پیغمبر اسلام(ص) نے کس طرح اپنی رسالت کے کام کو انجام دیا؟ آیا ممکن تھا کہ حضرت ابوطالب (ع) جیسا کوئی اور شخص تلاش

۱۶۷

کریں کہ جو ان کی تبلیغ اور دعوت کی حمایت کرے؟

کیا اس قسم کے حامی اور مددگار کے بغیر اپنی دعوت اور لوگوں کی ہدایت کا اہم فریضہ انجام دے سکتے تھے؟

طائف کا سفر

جب پیغمبر اسلام(ص) پر وہ وقت آیا کہ آپ مکہ کے لوگوں کی حمایت اور ان کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے تو آپ(ص) نے ارادہ کیا کہ طائف(۱) کا سفر کریں اور وہاں کے لوگوں کو دین اسلام کی دعوت دیں اس امید کے ساتھ کہ وہ اسلام کو قبول کرلیں گے اور قریش کے سرداروں کے مقابلہ میں ان کی حمایت کریں گے_

پیغمبر(ص) خدا نے اپنی بیٹی فاطمہ(ص) کو اپنے عزیزوں میں سے ایک کے سپرد کیا اور تھوڑی سی خوراک اور پانی لے کر خفیہ طور پر مکہ سے باہر نکلے اور بندگان خدا کو ظلم و ستم، شرک و پلیدی اور گناہ سے نجات دلانے اور انہیں اللہ کی اطاعت اور بندگی کی طرف دعوت دینے کی غرض سے طائف کا رخ کیا_

مكّہ اور طائف کا درمیانی راستہ نہایت دشوار گزار اور کٹھن

____________________

۱) طائف ایک ٹھنڈا شہر ہے جو مكّہ سے بارہ فرسخ کے فاصلہ پر واقع ہے اور ثقیف قبیلہ جو قریش کا سب سے بڑا قبیلہ تھا وہاں سکونت پذیر رہا ہے

۱۶۸

تھا آپ خستہ حال لیکن ایمان کامل اور بھر پور امید کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے وہاں آپ بالکل اجنبی اور ناآشنا تھے_

اگر چہ طائف کے اکثر لوگوںنے آپ کا نام اور آپ کے دین کے متعلق تھوڑا بہت سن رکھا تھا لیکن لوگوں نے آپ کو نزدیک سے نہیں دیکھا تھا اور وہ آپ کو نہیں پہچانتے تھے_

آپ شہر میں داخل ہوئے اور گلی کو چوں کا رخ کیا کہ شاید کوئی شناسا مل جائے لیکن آپ کو کوئی شناسا نظر نہین آیا کہ جو شہر کے رؤسا اور بزرگوں کے گھروں تک رہنمائی کرے اور آپ(ص) سے آپ کی مدد کے متعلق دریافت کرے کہ آپ(ص) اس شہر میں کیوں تشریف لائے ہیں؟

آخر کار کوئی صورت آشنا نہ پا کر رسول (ص) خدا نے خود اپنی پہچان کروائی اور اپنے سفر کے مقصد کو بیان کیا:

میں محمد بن عبداللہ، اللہ کا رسول(ص) ہوں، میں اللہ کی طرف سے تمہاری ہدایت و نجات کا پیغام لایا ہوں تم لوگ شرک و بت پرستی اور ظلم و ستم سے ہاتھ اٹھا لو اور خدا کی اطاعت کرو اور تقوی اختیار کرو اور میری پیروی کرو تا کہ تمہیں دنیا و آخرت کی پاکیزہ زندگی اور دائمی و نیک زندگی کی طرف راہنمائی کروں میں تمہیں قیامت کے دن حاضر ہونے سے ڈراتا ہوں اور آخرت کے عذاب سے خوف دلاتا ہوں ڈرو اس وقت سے جب کام تمام ہوجائے اور تم کافر و مشرک

۱۶۹

دنیا سے چلے جاؤ کہ پھر قیامت کے دن حسرت و عذاب میں گرفتار ہوگے میری دعوت کو قبول کرلو تا کہ دنیا و آخرت میں فلاح پاؤ میری اور میری آسمانی دعوت کی حمایت کرو تا کہ میں تمام لوگوں کو دین اسلام کی طرف بلا سکوں''

لیکن قبیلہ ثقیف کے سرداروں کے دل ظلم و ستم کی وجہ سے سخت اور تاریک ہوچکے تھے انہوں نے آپ کی آسمانی ندا کو قبول نہ کیا بلکہ آپ(ص) کے ساتھ بے جا اور ناروا سلوک کیا_ رسول (ص) خدا بہت زیادہ ملول ہونے کہ یہ لوگ کیوں اپنی گمراہی پر اصرار کر رہے ہیں؟ کیوں بتوں کی عبادت کرتے ہیں؟ کیوں ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں اور نہ دیکھتی ہیں اور نہ ہی وہ ان کو کچھ دے سکتی ہیں؟

کیوں لوگ میرے نور پیغمبر(ص) کی جو اللہ نے مجھے عنایت کیا ہے پیروی نہیں کرتے؟ کیوں خدا کی وحدانیت کا اقرار نہیں کرتے؟

کیوں اپنی برائیوں اور ظلم پر باقی رہنا چاہتے ہیں؟

کیوں یہ لوگ اپنے ان برے اعمال سے دنیا و آخرت کی ذلت و خواری میں اپنے آپ کو گرفتار کرنا چاہتے ہیں؟ ...؟

رسول (ص) خدا افسردہ اور بے قرار ہوگئے اور مجبور ہوکر ان کے گھر سے باہر نکل آئے اور دوسرے لوگوں کودعوت دینا شروع کردیں_ تقریباً ایک مہینہ تک آپ(ص) نے اس شہر میں قیام کیا اور لوگوں سے جو کوچہ و بازار سے گزرتے تھے گفتگو اور آخرت کی دنیا____ میں انسانی اعمال کی

۱۷۰

قدر و قیمت اور زندگی کی غرض و غایت اور صحیح راہ و رسم کے بارے میں لوگوں کو بتایا اور انہیں خداپرستی اور خدا دوستی اور اللہ کی اطاعت کی طرف دعوت دی اور آخرت کے عذاب سے ڈرایا_ لیکن آپ(ص) کے وعظ و نصیحت اور تبلیغ نے ان کے تاریک دلوں پر کوئی زیادہ اثر نہ کیا گو کہ ان میں سے بعض کے دلوں میں کہ جو بہت زیادہ آلودہ نہیں ہوئے تھے ایک نور سا چمک اٹھا تھا اور آہستہ آہستہ تاریکی اور برائی چھٹتی چلی گئی_

لیکن مستکبرین اور سردار کہ جو اپنی قدرت اور منافع کو خطرے میں دیکھ رہے تھے انہوں نے تدریجاً خطرے کا احساس کرلیا اور بعض نادان اور کمینے انسانوں کو ابھارا کہ وہ جناب رسول(ص) خدا کی راہ میں زحمتیں اور روکاوٹیں پیدا کریں آپ(ص) کا مذاق اڑائیں اور آپ کی گفتگو کے درمیان شور و غل مچائیں اور انہیں ناسزا کہیں اور پتھر ماریں_

آخر کار ایک دن جب آپ(ص) لوگوں کے درمیان تقریر فرما رہے تھے کہ اوباش قسم کے انسانوں اور دھوکہ میں آئے ہوئے نادانوں نے کہ جنہیں مستکبرین نے بھڑکایا تھا آپ کے گرد گھیرا ڈالا اور آپ کو پتھر مارنے شروع کردئے اور کہنے لگے کہ ہمارے شہر سے نکل جاؤ_

طائف سے خروج

پیغمبر اسلام(ص) نے مجبور ہوکر شہر سے باہر کا رخ کیا_ بے وقوف اور نادان لوگ اب بھی آپ(ص) کا پیچھا کر رہے تھے اور پتھر مار رہے تھے آپ(ص)

۱۷۱

کا جسم مبارک بری طرح زخمی ہوچکا تھا اور آپ(ص) کے پاؤں سے خون بہہ رہا تھا آپ(ص) تھکے ماندے خون آلود جسم اور غم و اندوہ کے ساتھ طائف سے نکل گئے_

آپ(ص) ان لوگوں کی ہدایت اور نجات کے لئے تنہا اور اجنبی ہوتے ہوئے اس شہر میں داخل ہوئے تھے جو ظلم کے اسیر تھے اور اب زخمی اور خستہ بدن کے ساتھ اس شہر سے باہر جا رہے تھے بالآخر طائف کے احمق اور کمین لوگوں نے آپ(ص) پر پتھر برسانا بند کئے اور آپ(ص) کا پیچھا چھوڑ کر اپنے ظلم اور تاریکی سے مغلوب شہر کی طرف واپس لوٹ گئے_

پیغمبر(ص) جو زخموں سے چور تھے اور تھکن کی وجہ سے مزید چلنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے ایک ایسے درخت کے سایہ میں بیٹھ گئے جس کی شاخیں ایک باغ کی دیوار سے باہر نکلی ہوئی تھیں اور اپنے خدا سے یوں مناجات کرنے لگے اے پروردگار میں اپنی کمزوری و ناتوانی اورناتوان لوگوں کے ظلم و ستم کو تیرے سامنے بیان کرتا ہوں اے مہربان خدا اور اے مستصعفین کے پروردگار مجھے کس کے آسرے پر چھوڑا ہے؟ کیا مجھے بیگانوں کے لئے چھوڑدیا ہے؟ تا کہ وہ اپنے سخت اور کرخت چہرے سے مجھے دیکھیں؟ کیا تجھے پسند ہے کہ دشمن مجھ پر مسلط ہوجائے؟

خدایا میں ان تمام مصائب کو تیرے لئے اور تیرے بندوں کی خاطر برداشت کر رہا ہوں_

۱۷۲

باغ کا مالک آپ(ص) کی یہ حالت دور سے دیکھ رہا تھا اس کا دل پیغمبر اسلام(ص) کی اس حالت پر دکھا انگور سے بھری ایک ٹوکری غلام کے حوالہ کی جس کا نام ''عداس'' تھا کہ پیغمبر اسلام(ص) کو دے آئے_

عداس نے ٹوکری کو اٹھایا اور پیغمبر(ص) خدا کے نزدیک لایا_ پیغمبر(ص) کا تھکا ہوا نورانی چہرہ، زخمی جسم، اور خون میں آلودہ پاؤں اس کے لئے تعجب خیز تھے_ اس نے انگوروں کی ٹوکری پیغمبر(ص) کی خدمت میں پیش کی اور ادب سے بولا:

شوق فرمایئےان انگوروں میں سے کھا لیجئے''

اور خود ایک طرف جاکر کھڑا ہوکیا اور حیرت سے اللہ کے پیغمبر کی جانب دیکھنے لگا_

رسول خدا(ص) نے کہ جو بھوک و پیاس سے نڈھال تھے ایک خوشہ انگور کا اٹھایا اس کے صاف شفاف دانوں پر نظر ڈالنا شروع کردیا_

کتنی بر محل اور موقع کی مناسبت سے رسول خدا(ص) کی مہمانی کی گئی آپ(ص) کا خشک گلاتر ہوگیا''

عداس جو بڑی توجہ سے رسول خدا(ص) کی طرف دیکھ رہا تھا جب اس نے_ بسم اللہ الرحمن الرحیم کا کلمہ رسول (ص) خدا سے سنا تو سخت تعجب ہوا اور پوچھا:

اس کلمہ سے کیا مراد ہے؟ اس کلمہ کو آپ نے کس سے سیکھا ہے؟

۱۷۳

رسول خدا(ص) نے عداس کی صورت کو محبت آمیزنگاہ سے دیکھا اور پھر اس سے پوچھا:

تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ تمہارا کیا دین ہے؟

اس نے جواب دیا_

نینوا کا رہنے والا ہوں اور مسیحی دین رکھتا ہوں''

اچھا نینوا کے ہو جو اللہ کے نیک بندے یونس (ع) کا شہر ہے_

یونس جو متی کے فرزند ہیں''

عداس کی حیرانی میں اور اضافہ ہوا اور پوچھا کہ:

آپ(ص) یونس (ع) کو کس طرح جانتے ہیں؟ اور ان کے باپ کا نام کس طرح معلوم ہے؟ خدا(ص) کی قسم جب میں نینوا سے باہر نکلا تو اس وقت دس لوگ بھی نہیں تھے جو جناب یونس (ع) کے باپ کو جانتے ہوں آپ(ص) ان کو کس طرح پہچانتے ہیں؟ اور کس طرح ان کے باپ کا نام جانتے ہیں؟ اس خطّے کے لوگ جاہل ہیں اور آپ(ص) نے یونس (ع) کے باپ کا نام کس سے معلوم کیا ہے_

رسول خدا(ص) نے فرمایا:

یونس میرا بھائی اور خدا کا پیغمبر(ص) تھا اور میں بھی خدا کا پیغمبر ہوں خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ اپنے تمام کاموں کا آغاز اس کے نام اور اس مقدس کلمہ ''بسم اللہ الرحمن الرحیم'' سے کروں جانتے ہو کس لئے؟

عداس کہ جس کا دل روشن اور حق کو قبول کرنے پر راغب تھا بہت خوش ہوا اور پیغمبر خدا(ص) کی دعوت اور آپ(ص) کی پیغمبری کے

۱۷۴

متعلق بہت سے سوالات کئے پیغمبر اسلام(ص) باوجود اسکے کہ بہت تھکے ہوئے تھے اس کے تمام سوالات کا بہت صبر و حوصلہ سے جواب دیتے رہے_ عداس کی گفتگو پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ کئی گھنٹوں تک جاری رہی اور آخر کار پیغمبر اسلام(ص) کی رسالت کی دعوت کی حقیقت اس پر واضح ہوگئی وہ آپ(ص) پر ایمان لے آیا اور مسلمان ہوگیا_

پیغمبر اسلام(ص) بھی اس کے اسلام لانے سے بہت خوش ہوئے اور اس بات پر اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس سفر میں ایک محروم اور ستم رسیدہ انسان کی ہدایت کی _

آپ(ص) نے عداس کو خداحافظ کہا اور مكّہ کی طرف روانہ ہوگئے اس مكّہ کی جانب کہ جسکے رہنے والے مشرکین تلواریں نکالے آپ(ص) کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے راستہ بہت سخت اور دشوار تھا_ لیکن اللہ کی طرف سے ذمہ داری اور ماموریت اور سول (ص) خدا کا ہدف زیادہ اہم تھا آپ(ص) نے چلنا شروع کیا آپ(ص) کے پاک و پاکیزہ خون کے قطرے آپ کے ایمان راسخ اور خدا کے بندوں کی ہدایت کی راہ میں_ استقامت کو راستے کے سخت پتھروں پر نقش کی صورت میں چھوڑ رہے تھے_

آیت قرآن

( لقد جاء کم رسول مّن انفسکم عزیز علیه ما عنتّم حریص

۱۷۵

علیکم بالمؤمنین رء وف رّحیم)

سورہ توبہ آیت ۱۲۸''

تم میں سے رسول ہدایت کے لئے آیا ہے تمہاری پریشانی اور رنج اس پر سخت ہے وہ تمہاری ہدایت کے لئے حریص و دلسوز ہے اور مومنین پر مہربان اور رحیم ہے''

سوچئے اور جواب دیجئے

۱)___ پیغمبر خدا(ص) اپنی تبلیغ و گفتگو میں لوگوں کو کن اصولوں کی طرف دعوت دیتے تھے؟

۲)___ حضرت ابوطالب (ع) کی وفات نے پیغمبر اسلام(ص) کی تبلیغ اور دعوت پر کیا اثر ڈالا؟

۳)___ پیغمبر(ص) نے طائف کا سفر کس غرض سے کیا تھا؟ کتنی مدّت طائف میں رہے اور اس مدّت میں آپ(ص) کی تبلیغ کا کیا پروگرام تھا؟

۴)___ شہر کے بزرگوں اور سرداروں نے کس طرح پیغمبر(ص) کی تبلیغ کی مزاحمت کی؟ اور کیوں؟

۵)___ رسول خدا(ص) نے طائف کے شہر سے نکلنے کے بعد اللہ سے کیسی مناجات کی اور خدا سے کیا کہا؟

۶)___ اس حالت میں کس نے آپ(ص) کی مہمان نوازی کی؟

۱۷۶

۷)___ عداس نے کس چیز کے سبب تعجب کیا؟ اور رسول (ص) سے کیا سوال کیا؟

۸) کس چیز کو سن کر عداس کے تعجب میں اضافہ ہوا؟

۹)___ عداس کس طرح مسلمان ہوا پیغمبر اسلام(ص) عداس کے مسلمان ہونے سے کیوں خوش ہوئے؟

۱۷۷

پیغمبر اکرم(ص) کی بیعت

حج کے ایام میں بہترین اور مناسب موقع تھا کہ پیغمبر اسلام(ص) مشرکین کے کسی دباؤ کے بغیر لوگوں سے گفتگو کرسکیں اور انہیں اسلام کے بارے میں غور و فکر کی دعوت دے سکیں اور اسلام و ایمان کے نور کو لوگوں کے دلوں میں روشن کرسکیں_

اس مرتبہ پیغمبر اسلام (ص) خزرج قبیلہ کے چھ آدمیوں سے گفتگو کر رہے تھے اپنے دل نشین اور آسمانی آہنگ میں لوگوں کے لئے قرآن مجید کی ان آیات کی تلاوت فرما رہے تھے جو خداپرستی کی تائید اور شرک و بت پرستی کی نفی کے بارے میں تھیں اور بعض آیات عقل و دل کو بیدار کرنے کے بارے میں تھیں_

ان آیات میں سے چند ایک بطور نمونہ یہاں تحریر کی جاتی ہیں جن

۱۷۸

کا تعلق سورہ نحل سے ہے''

خدا آسمان سے بارش برساتا ہے اور مردہ کو زندہ کرنا ہے، البتہ اس میں واضح اور روشن نشانی ہے اس گروہ کے لئے جو بات سننے کے لئے حاضر ہو تمہیں چوپایوں کی خلقت سے عبرت حاصل کرنا چاہئے_ خون اور گوبر کے درمیان سے پاکیزہ اور خوش مزہ دودھ تمہیں پلاتے ہیں کھجور اور انگور کے درخت کے پھولوں کو دیکھو کہ جس سے شراب بناتے ہو اور اس سے پاک و پاکیزہ روزی حاصل کرتے ہو اس میں عقلمندوں کے لئے واضح علامت موجود ہے تیرے خدا نے شہد کی مكّھی کو وحی کی ہے کہ وہ پہاڑوں او ردرختوں میں گھر بنائیں اور تمام میوے کھائیں اور تیرے اللہ کے راستے کو تواضع سے طے کریں اور دیکھو کہ ہم کس طرح شہد کی مکھی سے اس طرح کا مزیدار شربت مختلف رنگوں میں باہر لاتے ہیں کہ جس میں لوگوں کے لئے شفا ہے اور اس میں سوچنے والوں کے لئے واضح نشانی موجود ہے خدا ہی ہے جس نے تمہیں خلق کیا اور وہی ہے جو تمہیں موت دے گا تم میں سے کچھ لوگ ضعیفی اور بڑھا پے کی عمر کو پہنچ جائیں گے کہ کچھ بھی نہیں سمجھ پائیں گے البتہ خدا علیم و قدیر ہے

پس کیوں غیر خدا کی پرستش کرتے ہیں وہ چیزیں کہ

۱۷۹

جن کے ہاتھ میں زمین و آسمان کی روزی نہیں ہے، کچھ نہیں اور نہ ہی ان کے ذمہ کوئی کام ہے

قرآن مجید کی آیات کے معنی اور پیغمبر(ص) کی حکیمانہ اور دل نشین اور محبت بھری گفتگو نے ان لوگوں پر بہت اچھا اثر کیا اور انہیں اسلام کا گرویدہ بنادیا اس کے علاوہ انہوں نے یہودیوں سے سن رکھا تھا کہ حضرت موسی (ع) نے اپنی آسمان کتاب میں خبر دی ہے کہ ایک پیغمبر مکہ سے اٹھے گا جو وحدانیت او رتوحید پرستی کی ترویج کرے گا_ غرض پیغمبر خدا(ص) کی اس تمہیدی گفتگو ان کی روح پرور باتیں سن کر اور ان کا محبت بھرا انداز دیکھ کر ان میں ایک نئی روح پیدا ہوئی اور انہوں نے اسی مجلس میں اسلام قبول کرلیا،

جب وہ لوگ پیغمبر(ص) سے جدا ہونے لگے تو کہنے لگے کہ:

ایک طویل عرصہ سے ہمارے اور اس قبیلے کے درمیان جنگ جاری ہے امید ہے کہ خداوند عالم آپ(ص) کے مذہب اور دین کے وسیلے سے اس جنگ کا خاتمہ کردے گا اب ہم اپنے شہر یثرب کی طرف لوٹ کرجائیں گے تو آپ کے آسمانی دین اسلام کو لوگوں سے بیان کریں گے_

یثرب کے لوگوں نے تھوڑا بہت حضرت محمّد اور آپ کے دین کے متعلق ادھر ادھر سے سن رکھا تھا لیکن ان چھ افراد کی تبلیغ نے اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے ایک مناسب فضا پیدا کردی اور اسلام کے لئے حالات سازگار بنادئے اور یوں کافی تعداد میں لوگ

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

اس گفتگو کے بعد وہ گیا اور جناب مسلم کا سر لا کر ابن زیاد کی خدمت میں پیش کر دیا ۔(١) تقرب جوئی کے لئے اس وقت عمر بن سعد نے آگے بڑھکر ابن زیاد سے کہا : آپ کو معلوم ہے کہ مسلم مجھ سے کیا کہہ رہے تھے ؟ اوراس نے ساری وصیت ابن زیاد کے گوش گزار کردی تو ابن زیادنے مذاق اڑاتے ہوئے کہا : امین خیانت نہیں کر تا؛ ہا ں کبھی کبھی خائن پر امین کا دھو کہ ہو تا ہے۔(٢)

اس وصیت میں جو چیز یں تم سے مربوط ہیں اس سے ہم تم کو منع نہیں کرتے، تمہا را جو دل چاہے کرو اسکے تم مالک ہو۔(٣)

لیکن حسین نے اگر کوفہ کا رخ نہیں کیا تو ہمیں ان سے کوئی مطلب نہیں ہے اور اگر وہ ادھر آئے تو ہم انھیں نہیں چھوڑیں گے۔ اب رہا سوال مسلم کے جسم کا تو جب ہم نے قتل کر دیا ہے اب ہم کو اس کے جسم سے کوئی مطلب نہیں ہے جس کو جو کرنا ہے کرے ۔(٤)

____________________

١۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ صقعب بن زہیرنے عون بن ابی حجیفہ کے حوالے سے مجھ سے یہ روایت نقل کی ہے۔(طبری، ج٥، ص٣٧٨)

٢۔ جب پسر سعد نے یہ دیکھا ابن زیاد جناب مسلم کے قاتل ابن حمران سے حضرت کے قتل کے احوال پوچھ رہا ہے تو تقرب جو ئی اور چاپلو سی میں بغیر پو چھے ابن زیاد کو جناب مسلم کی ساری وصیت سنادی تو ابن زیاد نے اسے خیانت کا رکہا ،ہا ں چاپلوسو ں کا نیتجہ ایسا ہی برا ہو تا ہے۔

٣۔ ''ما لک '' کہنے کا مطلب یہ ہے کہ گویا اسے ابن زیاد نے جناب مسلم علیہ السلام کاوارث قرار دیا ہے۔

٤۔ بعض روایتو ں میں یہ جملہ ہے :اس سلسلہ میں ہم تیری سفارش قبول نہیں کری ں گے کیونکہ وہ ہمارے افراد میں سے نہیں ہیں ۔ انھو ں نے ہم سے جہاد کیا ، ہماری مخالفت کی اور ہماری ہلاکت کی کوشش کی ہے۔ (طبری ،ج٥،ص٣٧٧)اسی روایت ابومخنف میں یہ عبارت ہے کہ'' وزعموا انہ قال...''

۲۰۱

جناب ہانی کی شہادت

جناب مسلم بن عقیل (علیہ السلام) امام علیہ السلام کے شجاع اور بہادر سفیر کی شہادت کے بعد ابن زیاد نے جناب ہانی کے قتل کا حکم جاری کر دیا اور محمد بن اشعث کودیئے گئے وعدہ کو کہ ہانی کواس کے حوالے کر دے گا تاکہ وہ اپنی قوم کی عداوت اور دشمنی سے بچ سکے، وفا کرنے سے انکار کر دیا۔ابن اشعث

کی گزار ش کاسبب یہ تھاکہ وہی جناب ہانی کے پاس گیاتھااور انہیں لیکر آیاتھا۔ابن زیاد نے اپنے و عد ہ سے مکرنے کے بعد فورا ًحکم دیاکہ انہیں بازار میں لے جاؤ اور گردن اڑادو ۔

اموی جلاد اس شریف النفس انسان کا ہاتھ باندھے ہوئے ان کو بازار کی طرف لے کر چلے جہاں بکریاں بیچی جاتی تھیں ۔جب یہ افر ادجناب ہانی کووہاں لے کر آئے توآپ آوازدے رہے تھے: ''وامذحجاہ ولامذحج لی الیوم !وامذحجاہ وأین منی مَذحِج ''ہائے قبیلہ ٔمذحج والے کہاں گئے، کو ئی مذحج والامیری مددکو کیوں نہیں آتا؟'' وامذحجاہ '' ارے میرے مذحجی افراد کہاں ہیں ؟جب دیکھاکہ میری مدد کو کوئی نہیں آتاتو اپنی ساری طاقت و قدر ت کو جمع کر کے ایک بار ہاتھو ں کو جھٹکادیااوردیکھتے ہی دیکھتے ساری رسیاں ٹوٹ گئیں پھر فرمایا: کیاکوئی عصا ،خنجر،پتھر یاہڈی نہیں ہے جس سے میں اپنادفاع کرسکوں لیکن ان جلادوں نے چاروں طرف سے ان کو گھیر لیااور دوبارہ رسیو ں سے کس کر جکڑ دیاپھرکسی ایک نے کہا: اپنی گردن اٹھاؤ تاکہ تمہاراکام تمام کر دیاجائے ۔

جناب ہانی نے جواب دیا: میں کبھی ایساسخاوت مند نہیں ر ہاکہ اپنے حق حیات ا ور زندگی کوپامال کر نے کے لئے کسی کی مددکرو ں اسی اثنامیں عبیداللہ کاترکی غلام رشید(١) آگے بڑھااور تلوار سے جناب ہانی پر ایک ضرب لگائی لیکن اس کی تلوار جناب ہانی کاکچھ نہ بگاڑ پائی تو ہانی نے کہا :''الیٰ اللّٰه المعاد !اللهم الی رحمتک و رضوانک'' خداہی کی طرف برگشت ہے، خدایا!تیری رحمت اوررضایت کی آرزو ہے ۔وہ پھر آگے بڑھااوردوسری مرتبہ آپ پر وار کر دیا۔ اس ضربت سے آپ نے جام شہادت نوش فر مایا۔(٢) آپ پر خداکی رحمت ہو۔

____________________

١۔عبدالرحمن بن حصین مرادی نے اسے عبیداللہ بن زیاد کے ہمراہ قلعہ کے پاس دیکھا اورلوگو ں نے کہناشروع کردیاکہ یہ ہانی بن عروہ کاقاتل ہے تو حصین کے لڑکے نے اس کی طرف تیر چلاکر اسے قتل کر دیا۔(طبری، ج٥،ص ٣٧٩؛ارشاد، ص ٢١٧؛تذکرةالخواص)

٢۔ ابو مخنف کا بیا ن ہے کہ صقعب بن زہیر نے عون بن ابی جحیفہ کے حو الے سے مجھ سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥،ص٣٧٨)

۲۰۲

اسکے بعد یہ جلاد آپ کا سر لے کر ابن زیادکے پاس چلے گئے۔(١)

تیسرا شہید :

جناب مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ کی شہادت کے بعد ابن زیاد نے عبدالاعلی کلبی کو بلایا جسے قبیلہ بنی فتیان کے محلہ سے کثیر بن شہاب نے پکڑااور ابن زیاد کے پاس لے کر آیا تھا۔ابن زیاد نے اس سے کہا : اپنی داستان سناؤ ۔

تو اس نے کہا : اللہ آپ کو سلامت رکھے !میں اس لئے نکلا تھا تاکہ دیکھوں کہ لوگ کیا کر رہے ہیں ،اسی اثنا ء میں کثیربن شہاب نے مجھے پکڑلیا ۔

ابن زیاد : تجھے سخت وسنگین قسم کھانی پڑے گی کہ تو فقط اسی کام کے لئے نکلا تھا جس کا تجھے گمان ہے تو اس نے قسم کھا نے سے انکار کر دیا۔

ابن زیاد نے کہا اسے میدان میں لے جاؤ اور اس کی گردن اڑادو !جلادوں نے حکم کی تعمیل کی اور اس کا سر فوراً قلم کردیا۔

چو تھا شہید :

اس بندئہ خدا کی شہادت کے بعد عمارہ بن صلخب ازدی کو لا یا گیا جو جناب مسلم بن عقیل کی مدد کے لئے نکلے تھے اور انھیں گرفتار کر کے ابن زیاد کے پاس پہنچا دیا گیا تھا۔ابن زیاد نے ان سے پو چھا : تم کس قبیلہ سے ہو؟ انھوں نے جواب دیا'' ازد'' سے تو ابن زیاد نے کہا : اسے اس کے قبیلہ والوں کے پاس لے جاؤ اور اس کی گر دن اڑا دو۔(٢)

____________________

١۔ یہا ں پر طبری نے اس بات کو بیان نہیں کیاہے کہ ان دونو ں بزرگ شخصیتو ں کے پیر میں رسی باندھ کر انہیں کو فہ کے بازار و ں میں کھینچا جارہاتھا؛ لیکن مذکورہ روایت کو بیان کرنے کے بعد خو د ابومخنف ہی سے ابی جناب کلبی کے حوالے سے نقل کیاہے کہ اس نے'' عدی بن حرملہ اسدی'' سے اس نے'' عبداللہ بن سلیم'' اور'' مذری بن مشمعل'' (یہ دونو ں قبیلہ اسد سے متعلق تھے) سے اس نے ''بکیر بن مثعبہ اسدی'' سے نقل کیاہے کہ اس نے کہا: میں اس وقت تک کوفہ سے باہر نہیں نکلا تھا یہا ں تک کہ مسلم اور ہانی بن عروہ شہید کردئے گئے اور میں نے دیکھا کہ ان دونو ں کے پیرو ں میں رسی باندھ کر کوفہ کے بازار میں کھینچاجارہاہے۔ (ج٥ ،ص ٣٩٧)خوارزمی نے ج٢، ص ١٢٥ پر اور ابن شہر آشوب نے ج ٢،ص ٢١٢ پر ذکر کیا ہے کہ ابن زیاد نے کوفہ کے کوڑے خانہ پر ان دونو ں کو الٹا لٹکا دیا تھا ۔

٢۔ طبری، ج٥، ص ٣٧٨، ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے صقعب بن زہیرنے عون بن ابی جحیفہ کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے ۔

۲۰۳

مختار قید خانہ میں

جب دوسرے دن کا سورج نکلا اور عبیداللہ بن زیاد کے دربار کا دروازہ کھلا اور لوگوں کو دربار میں آنے کی اجازت ملی تو لوگ آہستہ آہستہ دربار میں آنے لگے انہیں آنے والوں میں مختار بھی تھے ۔ عبیداللہ نے انہیں پکارا اور کہاکہ سناہے تم ،لوگوں کو مسلم بن عقیل کی مدد کے لئے اکٹھا کر رہے تھے اور انھیں اکسا رہے تھے ؟

مختار : نہیں ایسا نہیں ہے، میں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا بلکہ میں تو کل آیا اور عمر وبن حریث کے زیر پرچم آگیا ، شب اسی کے ہمراہ گذاری اور صبح تک اسی کے پاس رہا ۔ عمرو بن حریث نے کہا : ہاں یہ سچ کہہ رہے ہیں ؛ آپ کو اللہ سلامت رکھے ؛لیکن ابن زیاد نے چھڑی اٹھائی اور مختار کے چہرے پر مار مار کر ان کی پیشانی ، آنکھ ، اور پلک کو زخمی کر دیایہاں تک کہ مختارکی آنکھیں ٹیڑھی ہو گئیں ؛ اس کے بعد بولا : تیرے لئے یہی سزاوار ہے۔ خدا کی قسم! اگر عمرو نے گواہی نہ دی ہوتی تو میں ابھی تیری گردن اڑادیتااور حکم دیا کہ اسے فور اً لے جاکرقید خانہ میں ڈا ل د و ۔کارندوں نے فوراً حکم کی تعمیل اور مختار کو قید خانہ میں ڈال دیا۔ یہ اسی طرح قید خانہ میں مقید رہے یہاں تک کہ امام حسین علیہ السلام شہید ہو گئے۔(١)

یزید کے پاس سروں کی روانگی

ان خدا جْو، ظلم ستیز ، اور باطل شکن افراد کی شہادت کے بعد عبیدا للہ بن زیاد نے ہانی بن ابی حیہ و داعی کلبی ہمدانی اور زبیر بن ارواح تمیمی کے ہمراہ جناب مسلم بن عقیل اور حضرت ہانی بن عروہ کے سروں کو یزید بن معاویہ کی خدمت میں روانہ کر دیا اور اپنے کاتب عمروبن نافع کو حکم دیا کہ یزید بن معاویہ کے خط میں ان باتوں کی تصریح کر دے جو مسلم اور ہانی پر گزری ہے۔عمرونے ایک لمبا چوڑا خط لکھنا شروع کردیا۔جب ابن زیاد کی نظر اس پر پڑی تو اسے برالگا اس پر اس نے کہا : یہ اتنا لمبا کیا لکھا جا رہا ہے اور یہ فضول باتیں کیا ہیں ؟ اب میں جو بتا رہا ہوں وہی لکھو !پھر اس نے اس طرح خط لکھوانا شروع کیا:

____________________

١۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ نضر بن صالح نے کہا ہے۔(طبری ج٥ ،ص ٥٦١)

۲۰۴

اما بعد اس خدا کی حمد و ثنا جس نے امیر المومنین کا پاس رکھا اور دشمنوں کی خراب کاریوں کو خود ہی درمیان سے ہٹا دیا۔امیر المومنین کی خدمت میں یہ خبر پیش کی جاتی ہے۔ خدا ان کو صاحب کرم قرار دے کہ مسلم بن عقیل نے ہانی بن عروہ مرادی کے گھر پناہ لی تھی اور میں نے ان دونوں کے اوپر جا سوس معین کر دیا تھا اور پورا پلان بناکر ان دونوں کو اپنے چنگل میں لے لیا اور خدا نے مجھے ان دونوں پر قدرت عطا فرمائی لہذا میں نے ان دونوں کے سر اڑا دیئے اور اب آپ کی خدمت میں ان دونوں کے ، سر ہانی بن ابی حیہ کلبی اور زبیر بن ارواح تمیمی کے ہمراہ روانہ کر رہاہوں ۔ یہ دونوں حکومت کے خیر خواہ ،فرمانبر دار اور بے چوں و چرا باتوں کو سننے والے ہیں ۔ امیر المومنین عراق کے حالات کے سلسلہ میں ان دونوں سے جو پوچھنا چاہتے ہیں پو چھ لیں کیونکہ یہ حالات سے آگاہ، سچے ، بافہم اور صاحب ورع ہیں ۔والسلام

یزید کا جواب

یزید نے اپنے خون آشام جلادکو اس طرح جواب دیا: امابعد، تم حکومت اور نظام کے دفاع میں ویسے ہی ہو جیسا کہ میں چاہتا تھا۔تمہارا کام دور اندیشی پر مبنی آئندہ نگر اور شجاعانہ ہے۔ وہاں کی حکومت کے لئے تم نے اپنی لیاقت اور صلاحیت ثا بت کر دی اور جو امیدیں تم سے وابستہ تھیں اسے عملی جامہ پہنادیا اور اپنے سلسلہ میں میرے گمان اور میری رائے کو واضح اور سچا کر دکھایا۔ تمہارے ان دو پیغام رسانوں کو میں نے بلایا اوران سے عراق کے حالات کے بارے میں سوال بھی کیا تو ان کے فہم و شعور وادراک کو ویساہی پایا جیسا کہ تم نے لکھاتھا ۔ میری تم سے ان کے سلسلہ میں سفارش ہے کہ ان کے ساتھ نیکی کے ساتھ پیش آؤ! مجھ تک یہ خبر پہنچی ہے کہ حسین بن علی نے عراق کی راہ اختیار کر لی ہے اور تمہاری طرف بڑھ رہے ہیں ۔

۲۰۵

اس سلسلہ میں تم حساس جگہوں پر پولس کی چوکی اورحفاظتی پہرے بیٹھادو تا کہ دور سے سب کی آمدو رفت پر نظر رکھ سکو اور اسلحوں سے لیس جوانوں کو آمادہ رکھو ؛کہیں ایسا نہ ہو کہ یکایک حالات بگڑ جائیں ؛اورتم کو جو کوئی بھی مشکوک دکھائی دے اسکے بارے میں نگران رہو اور ذرہ برابرشک کی صورت میں بھی اس کو گرفتار کرلو لیکن یاد رہے کہ قتل اسی کو کرو جو تم سے مقابلہ کرے اورہر رونماہونے والے واقعہ کی خبر ہم تک پہنچاتے رہو ۔ والسلام علیک ورحمة اللہ(١)

٨ذی الحجہ ٦٠ھ منگل کے دن جناب مسلم علیہ السلام نے اموی جلاّد کے خلاف قیام کیاتھا۔ جس دن حضرت مسلم بن عقیل نے خروج کیا تھا امام حسین علیہ السلام نے ٹھیک اسی دن یعنی یوم الترویہ کو مکہ چھوڑ دیا ۔(٢) جناب مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ کی شہادت پر عبدا للہ بن زبیر اسدی نے اشعار کہے اور فرزدق نے بھی اس سلسلہ میں یہ اشعار کہے ہیں :

ان کنت لا تدرین ما الموت فا نظری---الی هانیٔ فی السوق و ابن عقیل

الی بطل قد هشّم السیفُ وجههوآخر یهو من طمار قتیل

أصابهما أمرالأ میر فأ صبحا---احادیث من یسر بکل سبیل

تری جسداً قد غيّرالموت لونهو نضح دم قد سال کلّ مسیل

فتی هوأ حیی من فتاة حیيةٍ---وأقطع من ذی شفرتین صقیل

أیرکب أسماء الهما لیج آمناً---وقد طلبته مذحج بذحول

تطوف حو ا لیه مر ا د و کلّهم---علی رقبة من سائل و مسول

فا ن انتم لم تثأر و ا بأ خیکم---فکونوا بغایا أرُضِيَت بقلیل(٣) و(٤)

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے یہ روایت ابو جناب یحٰبن ابی حیہ کلبی نے بیان کی ہے۔(طبری ،ج٥، ص ٣٨٠) یحییٰ بن ابی حیہ کلبی ابو جناب ہانی بن ابی حیہ کا بھائی ہے جو مسلم وہانی کا سر لے کر یزید کے پاس گیا تھا۔ ایسا محسوس ہو تا ہے کہ اس کے بھائی نے اس خبر کو فخر و مباہات میں ابو مخنف سے بیان کیا ہے کیونکہ ابن زیاد نے اس کے علم ، صدق، فہم اور ورع کی توصیف کی تھی جس کی یزید کی طرف سے تصدیق بھی ہوئی تھی۔ ہا ں ایسی حماقت اور ایسے افعال کا ''کلابیو ں '' سے سر زد ہونا بعید نہیں ہے ۔

٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ صقعب بن زہیر نے عون بن ابی جحیفہ کے ذریعہ مجھ سے یہ روایت بیان کی ہے۔(طبری ،ج٥ ، ص ٣٧٨)

٣۔ ابومخنف کا بیان ہے کہ صقعب بن زہیر نے عون بن ابی جحیفہ کے حوالے سے مجھ سے یہ روایت نقل کی ہے۔(طبری، ج٥، ص ٣٨١)

٤۔ طبری نے عمار دہنی کے حوالے سے امام محمد باقر علیہ السلام سے حدیث بیان کی ہے کہ آپ نے فرمایا : ان لوگو ں کے شاعر نے اس سلسلے میں یہ کہا ہے اور ان اشعار میں سے تین بیتو ں کو کو ذ کر کیا ہے جس کا پہلا مصرع ''فان کنت لا تد رین ماالموت فا نظری'' (طبری، ج٥ ،ص ٣٥٠) لیکن یہا ں پہلے مصرع میں '' ان کنت لا تدرین'' ذکر کیا ہے جو غلط ہے کیونکہ

۲۰۶

اس سے مصرع وزن سے گر رہا ہے ، زبیر کے ''ز'' پر زبر ہے ۔شائد طبری نے اسے ابن اثیر کی الکا مل، ج٤،ص ٣٦، اور مقاتل الطا لبیین سے لیا ہے۔اصفہا نی نے مذکو رہ شخص کی شان میں یہ کہا ہے : ان کا شمارشیعو ں کے بزرگ اور برجستہ محدثین میں ہو تا ہے۔عبادبن یعقوب رواجنی متوفی ٢٠٥ھ اور اس جیسے افراد اور جو اس سے بزرگتر تھے انھو ں نے زبیر سے روایت ں نقل کی ہیں ۔ (الا غانی ،ص ٢٩٠) اس کے علاوہ اور بھی لوگو ں نے ان سے روایت نقل کی ہے یہ محمد بن عبد اللہ بن حسن صاحب نفس ذکیہ کے اصحاب میں شمار ہو تے ہیں جو ١٤٥ھ میں منصور کے عہد میں شہید کئے گئے پھر اصفہانی کہتے ہیں : یہ ابو احمد زبیر ی معروف محدث کا باپ ہے (اغانی ،ص ٢٩٠) جس کا نام محمد بن عبد اللہ بن زبیر ہے؛ کشی نے عبد الر حمن بن سیا بتہ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا : امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھے کچھ دینا ر دے کر حکم دیا کہ یہ دینا ر ان لوگو ں کے عیال کے در میان تقسم کردو ں جو آپ کے چچا زید کے ہمراہ شہید ہو گئے میں نے ان کے درمیا ن و ہ دینار تقسم کردیئے جس میں سے ٤ دینارعبد اللہ بن زبیر الرّسان کے عیال تک پہنچا دیئے۔ (رجال کشی، رقم٦٢١) شیخ مفید نے ارشاد میں ابو خالد واسطی سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں : امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھے ایک ہزار دینار دے کر حکم دیا کہ اسے ان لوگو ں کے درمیان تقسم کر دو ں جوزید کے ہمراہ مصیبتو ں میں گرفتار ہوئے۔ فضیل رسان کے بھائی عبد اللہ بن زبیر کو ان میں سے ٤ درہم میسر ہوا ۔(الا رشاد ،ص ٢٦٩) شاید اس نام کے دو افراد ہیں کیونکہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اصفہانی نے عبد اللہ بن زبیرکو شیعو ں کے برجستہ اور بزرگ محدثین میں شمار کر نے کے بعد اغانی کی ج١٣،ص ٣١پر اس بات کی تصریح کی ہے کہ وہ بنی امیہ کا پیر وتھا اور دل سے ان سے لگا ؤ رکھتا تھا اور بنی امیہ کے دشمنو ں کے مقا بلہ میں ان کی مدد ونصرت کر نا چا ہتا تھا اوراس سلسلے میں بے حد متعصب تھا۔وہ ان کے اور ان کے کا رمندو ں کے اوپر کسی کو تر جیح نہیں دیتا تھا۔ زیاداس کی ستائش اور اس کے ساتھ عطا و بخشش کرتا تھا اوراس کے قرضو ں کو بھی ادا کر تا تھا۔ ابن زیاد کے بارے میں ابن زبیر کی زبانی بہت ساری مدح وستائش موجود ہیں ۔اسی طرح اسما ء بن خارجہ فزاری کی مدح میں بھی اس کے اشعار موجود ہیں ۔(اغانی، ج٣١، ص ٣٣و ٣٧) سید مقرم نے اپنی کتاب ''الشھید مسلم ''میں اس مطلب کو ذکر کیاہے اور فرمایاہے : آیا کسی کے لئے یہ سزاوار ہے کہ مسلم اورہانی کے سلسلہ میں اس قسم کے اشعار کو ایسے شخص کی طرف نسبت دے جس کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ بنی امیہ کی طرف میلان رکھتاتھااوران کی مدح وستائش میں اس کے اشعار موجود ہیں ؟پھر سید مقرم نے ترجیح دی ہے کہ یہ اشعار فرزدق کے ہیں جوانھو ں نے ٦٠ھ میں حج سے لوٹتے ہوئے کہے تھے۔ (الشھید مسلم، ص ٢٠١)اصفہانی نے ان اشعا ر کو ابن زبیر اسدی مدائنی کی طرف منسوب کیا ہے اور اس نے ابو مخنف سے اور اس نے یوسف بن یزید سے روایت کی ہے ۔

اگر تم کو نہیں معلوم ہے کہ افتخار آمیزموت کیا ہوتی ہے تو ہانی اور مسلم بن عقیل کی موت کو بازار میں دیکھ لو جو انتہائی شجاع و بہادراور دلیر ہیں ،جن کے چہرے کو ظلم کی شمشیر نے لہو لہان کردیا اور وہ دوسرا دلیر جس کے خون سے آ غشتہ جسم قصر کے اوپر سے پھینک دیا گیا ۔ امیر عبیداللہ کا بیداد گر اور خشونت و

۲۰۷

بربریت پر مبنی وہ حکم تھا جس نے ان دونو ں کو یہا ں تک پہنچادیا اور اب ان کی شہامت و شجاعت کی سر گذشت آئندہ نسلو ں کے لئے ایک داستان ہوگئی ۔ ان کے بے جان جسم کو دیکھو جس کے رنگ کوموت نے بدل دیا ہے اور سرخ خون ان کے جسم کے ہر حصہ میں روا ں ہے ۔ یہ وہ جوا ں مرد تھے جو شرم و حیا میں دوشیزگان سے بھی زیادہ حیا دار تھے اوربرش میں شمشیر دودم اور صیقل شدہ سے بھی زیادہ ان میں کاٹ تھی ۔ کیا اسماء بن خارجہ فزاری جو اموی جلاد کی جانب سے ان کے پاس گیا تھا اور فریب و دھوکہ دیکر ان کو ابن زیاد کے پاس لے کر آیا، وہ کوفہ کی گلیو ں میں امن و امان کے ساتھ اپنے مرکب پر بیٹھ کر گذرسکتا ہے ؟ جب کہ قبیلہ مذحج ہانی کے پاک خون کا اس سے طلب گار ہے ؟ ادھر قبیلہ مراد اس کے ارد گرد سائلو ں کی طرح گھوم رہاہے ۔ ہا ں جان لوکہ اگر تم نے اپنے سرو ر و سردار کے خون کا انتقام نہ لیا تو تم وہ فاحشہ عورت ہو جو تھوڑے سے مال کے لئے اپنی عفت و آبرو بیچنے پر راضی ہوجاتی ہے ۔

۲۰۸

مکہ سے امام حسین علیہ السلام کی روانگی

* امام علیہ السلام کے ساتھ ابن زبیر کا موقف

* ابن عباس کی گفتگو

* ابن عباس کی ایک دوسری گفتگو

* عمر بن عبدالرحمن مخزومی کی گفتگو

* امام علیہ السلام کے ساتھ ابن زبیرکی آخری گفتگو

* عمرو بن سعید اشدق کا موقف

* عبداللہ بن جعفر کا خط

۲۰۹

مکہ سے امام حسین علیہ السلام کی روانگی(١)

٢٨ رجب ٦٠ھبروز یکشنبہ امام حسین علیہ السلام نے مدینہ سے مکہ کی طرف کوچ کیا اورشب جمعہ ٣ شعبان ٦٠ ھ کو مکہ میں داخل ہوئے ۔ اس کے بعد شعبان ، رمضان ، شوال ، ذی قعدہ تک امام حسین علیہ السلام مکہ میں قیام پذیر رہے اور جب ذی الحجہ کے ٨ دن گذر گئے تو ''یوم الترویہ'' (جس دن تمام حاجی مکہ میں آجاتے ہیں ) بروز سہ شنبہ امام حسین علیہ السلام نے مکہ سے سفر اختیار کیا جس دن جناب مسلم بن عقیل نے کوفہ میں اموی حکومت کے خلاف قیام کیا تھا ۔

امام علیہ السلام کے ساتھ ابن زبیر کا موقف

مکہ میں امام حسین علیہ السلام کے پاس آنے والوں میں سے ایک ابن زبیر بھی تھاجو کبھی تو دوروزپے در پے آیا کرتا تھا اورکبھی دو روز میں ایک مرتبہ آیا کرتا۔اسے یہ بات اچھی طرح معلوم ہوگئی تھی کہ جب تک مکہ میں امام حسین علیہ السلام موجود ہیں اہل حجاز نہ تو اس کی پیروی کریں گے اور نہ ہی اس کے ہاتھ پر بیعت کریں گے کیونکہ امام حسین علیہ السلام کی شخصیت ان کی نگاہوں میں عظیم ہے اور انھوں نے ان کے دلوں میں جگہ بنالی ہے۔(٢)

____________________

١۔ طبری کا بیان ہے کہ اسی سال ٦٠ھ ماہ رمضان میں یزیدنے ولید کو معزول کر کے اس کی جگہ پر عمرو بن سعید بن عاص اشدق کو مدینہ کا امیر بنا دیا ۔ عمرو ماہ رمضان میں وہا ں پہنچا ۔یہ شخص بہت بڑا کینہ توز اور بہت بولنے والا تھا (طبری ،ج٥، ص ٣٤٣) بعض روایتو ں میں ہے کہ ماہ ذی قعدہ ٦٠ھ میں مدینہ آیا تھا (طبری ،ج٥،ِ ص ٣٤٦)پھر طبری کا بیان ہے کہ یزید بن معاویہ نے اسی سال (٦٠ ھ) ولید بن عتبہ کو مکہ کی ریاست سے بھی معزول کر دیااور ان دونو ں کی ریاست عمروبن سعید بن عاص کے سپرد کر دی۔ یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ اسی سال عمرو بن سعید نے لوگو ں کے ساتھ حج بھی انجام دیادرحالیکہ وہ مکہ اور مدینہ کا حاکم تھا۔ (طبری، ج٥، ص ٣٩٩)

٢۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے عبدالرحمن بن جندب نے روایت کی اور عبدالرحمن کا بیان ہے کہ مجھ سے عقبہ بن سمعان نے یہ روایت بیان کی ہے جو امام حسین علیہ السلام کی زوجہ جناب رباب بنت امرء القیس کا غلام تھا۔ (طبری ،ج٥ ،ص ٣٥١)

۲۱۰

ایک دن وہ کسی وقت امام حسین علیہ السلام کے پاس گفتگوکے لئے آکر بیٹھا اور کہا کہ میں تو نہیں سمجھتا ہوں کہ یہ تباہ کار افراد ہم کو اس طرح چھوڑ دیں گے اور ہم سے دست بردار ہوجائیں گے کیونکہ انھیں بخوبی معلوم ہے کہ ہم اسلام کے فداکار مہاجر ہیں اور قوم و ملت کے نظم و نسق کی ذمہ داری اور اس کی زمام ہمارے ہاتھوں میں ہونی چاہیے۔ آپ مجھے بتائیں کہ آپ کا ارادہ کیا ہے اور آپ کیا کرنا چاہتے ہیں ؟

امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا : خداکی قسم میں نے تو یہ فکر کی ہے کہ میں کوفہ چلاجاؤں کیونکہ ہمارے پیروئوں اور وہاں کے اشراف نے مجھے خط لکھ کر کوفہ بلا یا ہے اور میں خداسے یہی چاہتا ہوں کہ جو میرے لئے بہتر ہے وہی میرے حق میں انجام دے۔

ابن زبیرنے کہا : خداکی قسم اگر کوفہ میں آپ کے پیروئوں کی طرح میرے بھی چاہنے والے ہوتے تو میں انھیں نہیں چھوڑتا اور فوراً چلاجاتا ، پھر اسے خیال آیا کہ اس قسم کی باتوں سے اس کاراز کھل جائے گا اور وہ متہم ہوجائے گا لہٰذا فوراً بولا : ویسے اگر آ پ حجاز میں بھی قیام پذیر رہیں اور یہاں بھی امت کے امور اپنے ہاتھوں میں لینا چاہیں تو انشااللہ آپ کی کوئی مخالفت نہیں کرے گا۔ یہ کہہ کروہ اٹھا اور فوراً چلاگیاتو امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : اس بندہ خداکے لئے دنیا میں اس سے زیادہ محبوب تر کوئی چیز نہ ہوگی کہ میں حجاز سے نکل کر عراق چلاجاؤں اسے بخوبی معلوم ہے کہ میرے رہتے ہوئے لوگ اس کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کریں گے لہٰذاوہ چاہتا ہے کہ میں اس شہر سے چلا جاؤں تا کہ اس کے لئے راستہ آسان ہوجائے۔(١) و(٢)

____________________

١۔ابومخنف کا بیان ہے کہ حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے مجھ سے یہ روایت بیان کی ہے (طبری، ج٥، ص ٣٨٢)

٢۔واقعیت یہ ہے کہ عبداللہ بن زبیرکو کوفیو ں کی منافقت اور نیرنگ و دھوکہ بازی کا خوف نہیں تھا بلکہ وہ اپنے مقصد تک پہونچنے کی فکرمیں تھا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام بھی اس کے ظرف وجود اور روحی و فکری گنجایش میں اتنی وسعت نہیں دیکھ رہے تھے کہ انجام کو اس کے لئے بیان کردی ں ؛ کیونکہ عقل مند آدمی ہر اس چیز کو بیان نہیں کر تا جس کو وہ جانتاہے اور دوسرو ں کو تمام واقعات سے رو شناس نہیں کراتا۔لوگو ں کے افکار اور ان کی صلاحیتی ں مختلف ہوتی ہیں اور بہت سارے افراد اپنے وجود میں اس بات کی توانائی نہیں رکھتے کہ بہت سارے حقائق سے آگاہ ہوسکی ں ، اسی بنیاد پر امام حسین علیہ السلام نے ابن زبیر کی فکری صلاحیت کو دیکھتے ہوئے ان کے مطابق انہیں جواب دیا۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ ابن زبیر کو امام حسین علیہ السلام کے قیام سے ذرہ برابر بھی اختلاف نہیں تھا بلکہ وہ امام کو قیام کی ترغیب دلا رہا تھا،بحث فقط زمان و مکان کے بارے میں تھی ۔

۲۱۱

ابن عباس کی گفتگو

جب امام حسین علیہ السلام نے مکہ چھوڑکر کوفہ جانے کا ار اد ہ کیا تو ابن عباس آپ کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور عرض کی :یابن عم (اے چچا کے فرزند) لوگوں کے درمیان یہ بات پھیل چکی ہے کہ آپ عراق کی طرف روانہ ہونے والے ہیں ۔ ذرامجھے بتائیے کہ آپ کیا کرناچاہتے ہیں ؟امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا :'' انی قد أجمعت المسیر فی احدیومیّ ھٰذین(١) ان شاء اللّہ تعالیٰ '' میں نے ایک دو روز میں نکلنے کاقطعی فیصلہ کر رکھاہے، ان شاء اللہ ۔

١۔چونکہ مکہ سے امام حسین علیہ السلام کی روانگی کی تاریخ ٨ذی الحجہ یوم الترویہ بعدازظہر ہے اور یہ وہ وقت ہے جب لوگ منی کی طرف جارہے ہوتے ہیں (طبری، ج ٥ ،ص٣٨٥) اس سے اندازہ ہوتاہے کہ ابن عباس اور امام علیہ السلام کے درمیان یہ گفتگو ٦ذی الحجہ کو انجام پذیر ہوئی ہے اور اس خبر کامشتہر ہونااس گفتگو سے زیادہ سے زیادہ دو دن پہلے ہے یعنی ٤ذی الحجہ کو یہ خبر پھیل گئی کہ امام علیہ السلام مکہ ترک کرنے و الے ہیں ؛لیکن اس سے قبل اس خبر کے مشتہر ہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ سوال یہ پیداہوتاہے کہ وہ کون ساسبب ہے جس کی بنیاد پر اتنے دن مکہ میں رہنے کے بعد عین حج کے دن حج تما م ہونے سے پہلے ہی امام حسین علیہ السلام نے مکہ چھوڑدیا؟اگر یہ کہا جائے کہ جناب مسلم بن عقیل کے خط کی بنیاد پر جلدی کی، کیو نکہ اس میں مرقوم تھاکہ خط ملتے ہی فوراًروانہ ہو جائیے تو یہ صحیح نہیں ہے کیو نکہ جناب مسلم بن عقیل نے اپنی شہادت سے ٢٧دن قبل یعنی ٢ ١ یا١٣ذی القعدہ کو امام حسین علیہ السلام کو خط لکھاہے۔ ایسی صورت میں تقریباً دس(١٠) دن کے اندر یعنی ٢٧ ذی قعدہ تک یہ خط امام علیہ السلام کو موصول ہوچکا تھالہذا اگر امام علیہ السلام کو سفر کرنا ہی تھا تو انھیں دنوں میں سفر کر لیتے ۔یہ ٤دن قبل خبر کا مشتہر ہونا اور عین حج کے موقع پر سفر کرنے کا راز کیا ہے ؟ اس کا جواب ہمیں فرزدق کے سوال کے جواب میں ملتا ہے،جب راستے میں فرزدق شاعر کی ملاقات امام حسین علیہ السلام سے ہوئی تو اس نے بھی امام علیہ السلام سے یہی سوال کیا کہ اتنی جلدی کیا تھی کہ آپ حج چھوڑکر جارہے ہیں ؟

۲۱۲

امام علیہ السلام نے جواب دیا :'' لولم أعجل لأخذت''(طبری ،ج٥،ص ٣٨٦) اگر میں جلدی نہ کر تا تو گرفتار کر لیاجا تا۔یہی وجہ ہے کہ شیخ مفید قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ جب امام علیہ السلام نے عراق کا قصد کیا تو خانہ کعبہ کا طواف کیا،صفاو مروہ کے درمیان سعی کی اور اسے عمرہ قرار دے کر احرام سے خارج ہو گئے کیونکہ مولا کا مل حج انجام دینے پر متمکن نہ تھے ہر آن اس کا خطرہ تھا کہ عین حج کے مو قع پر آپ کو گر فتار کر کے یزید بن معاویہ تک پہنچا دیا جائے لہٰذا امام علیہ السلام فوراً مکہ سے نکل گئے ۔(ارشاد، ص ٢١٨)معاویہ بن عمارنے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا :ماہ ذی الحجہ میں امام حسین علیہ السلام نے عمرہ انجام دیا پھر یوم الترویہ (٨ ذی الحجہ) کو عراق کی طرف کوچ کرگئے ۔یہ موقع وہ تھاکہ ادھر آپ عین حج کے موقع پر مکہ سے کوچ

کررہے تھے ادھر حجاج کرام حج کے لئے مکہ سے منیٰ کی طرف جارہے تھے ۔ ذی الحجہ میں جو حج نہ کرنا چاہے اس کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے کہ عمرہ انجام دے لے۔

اسی طرح ابراہیم بن عمر یمانی نے روایت کی ہے کہ انھوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا جو ایام حج میں عمرہ انجام دے کر باہر آجائے او روہاں سے ا پنے شہر کی طرف نکل جائے تو اس کا حکم کیا ہے ؟ امام علیہ السلام نے جواب دیا: کوئی مشکل نہیں ہے پھر اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا : امام حسین علیہ السلام عمرہ انجام دے کر یوم الترویہ مکہ سے روانہ ہوئے تھے۔(وسائل، ج١٠ ،ص ٢٤٦)

۲۱۳

یہی وجہ ہے کہ شیخ شوشتری نے فرمایا : دشمنوں نے پوری کوشش تھی کہ کسی نہ کسی طرح امام حسین علیہ السلام کو پکڑ لیں یا دھوکہ سے قتل کردیں ،خواہ آپ کعبہ کی دیوار سے لپٹے ہوں ۔ امام علیہ السلام ان کے باطل ارادہ سے آگاہ تھے لہٰذا اپنے احرام کو عمرہ مفردہ میں تبدیل کر دیا اور حج تمتع ترک کردیا۔ (الخصائص، ص ٣٢،ط تبریز)شیخ طبرسی نے اعلام الوریٰ کی ایک خاص فصل میں امام علیہ السلام کے سفر کے واقعہ اور آپ کی شہادت کا تذکرہ کیا ہے۔ وہاں پر آپ نے ارشاد میں موجودشیخ مفید کی عبارت کوتقریباًبعینہ ذکر کیا ہے اوراس کی تصریح بھی نہیں کی ہے۔ اس فصل میں آپ نے انہیں باتوں کو ذکر کیا ہے جسے شیخ مفید نے لکھا ہے۔ہاں وہاں کلمہ '' تمام الحج''کے بجائے'' اتمام الحج ''کردیاہے جو غلط ہے اور شاید نسخہ برداروں کی خطا ہے۔ اس خطا کا سبب یہ ہے کہ ان دونوں کلمات میں بڑا فرق ہے کیونکہ کلمہ'' الاتمام'' کا مطلب یہ ہے کہ امام علیہ السلام نے احرام حج باندھ لیا تھا جبکہ کلمہ'' تمام الحج'' اس معنی کی طرف راہنمائی نہیں کرتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ '' الارشاد'' کے نسخہ مختلف ہیں کیونکہ شیخ قرشی نے شیخ مفید کے کلام کو اسی طرح نقل کیا ہے جس طرح طبرسی نے'' اتمام الحج '' نقل کیا ہے۔(ج٣ ،ص ٥٠) یہ انھوں ں نے ارشاد کے ص ٢٤٣سے نقل کیا ہے جبکہ ہم نے ارشاد کے ص ٢١٨ طبع حیدریہ پر'' تمام الحج'' دیکھاہے اور یہی صحیح ہے ۔

ابن عباس نے کہا : میں آپ کے اس ارارہ سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں ۔ اللہ آپ پر رحمت نازل کرے! ذرا مجھے بتائیے کہ کیا آپ اس قوم کی طرف سفرکرنا چاہتے ہیں جنھوں نے اپنے ظالم اور ستمگار حکمراں کو نابود کردیاہے اور اپنے شہر و دیار کو ان کے چنگل سے نجات دلادی ہے اور اپنے دشمنوں کو وہاں سے نکال بھگایا ہے ؟ اگر ان لوگوں نے ایساکیا ہے تو آپ فوراً رخت سفر باندھ لیجئے لیکن اگر ان لوگوں نے آپ کو اس حال میں بلایا ہے کہ ان کا حاکم ان پر مسلط اور قہر و غلبہ کے ساتھ ان پر قابض ہے ،اس کے عاملین شہروں میں اس کی طرف سے مالیات وصول کررہے ہیں تو ایسی صورت میں ان لوگوں نے آپ کو جنگ و جدال کے لئے بلایا ہے جس کی کوئی ضمانت نہیں اور نہ ہی آپ اس بات سے امن وامان میں ہیں کہ وہ آپ کو دھوکہ دیں ، جھٹلائیں ، مخالفت کریں اور چھوڑدیں ، نیز آپ اس سے بھی امان میں نہیں ہیں کہ اگر وہ آپ کی طرف آئیں تو آپ کے سخت دشمن بن جائیں ۔امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا : میں خدا سے طلب خیر کروں گا پھر دیکھوں گا کہ کیا ہوتا ہے۔( ١ ) و( ٢)

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے۔ (طبری، ج ٥،ص٣٨٣)

٢۔ یہ بات یہا ں قابل توجہ ہے کہ ابن عباس ظلم کے خلاف امام حسین علیہ السلام کے قیام کے مخا لف نہیں ہیں بلکہ قیام کے لئے حالات سازگار ہیں یا نہیں ، اس میں انھی ں شک ہے۔امام حسین علیہ السلام نے بھی ان کے نظریہ کو رد نہیں کیا بلکہ آپ ان کو اپنا خیر خواہ سمجھتے تھے لیکن اسی حال میں اپنے بلند مقصد اور اپنی رسالت کے سلسلہ میں کوشا ں تھے کیونکہ آپ اسی ماحول میں نظام اموی کے خلاف قیام کو لازم سمجھ رہے تھے۔

۲۱۴

ابن عباس کی ایک دوسری گفتگو

سورج آہستہ آہستہ مغرب کے دامن میں اپنا چہرہ چھپانے لگا اورشب آگئی، اسی رات یا دوسرے دن صبح ابن عباس دوبارہ امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی : یابن عم ! میں بے حد صبر و تحمل سے کام لینا چاہتا ہوں لیکن مجھ سے صبر نہیں ہوتا کیونکہ میں اس سفر کو آپ کے لئے بے حد خطر ناک سمجھتا ہوں اور آپ کی ہلاکت سے مجھے خوف آتا ہے کیونکہ عراقی دھوکہ باز ہیں ؛ آپ خدا را ان کے قریب نہ جائیے؛ آپ اسی شہر میں مقیم رہیں کیونکہ آپ سید حجاز ہیں ۔ اب اگر اہل عراق آپ کو چاہتے ہیں تو آپ ان کو خط لکھ دیجیے کہ پہلے وہ اپنے دشمنوں کو وہاں سے بھگا ئیں پھر آپ وہاں جائیے؛اور اگر آپ نے جانے کے لئے عزم بالجزم کرہی لیا ہے تو آپ یمن روانہ ہوجائیں کیونکہ وہاں کی زمین وسیع ہے۔ اس کے علاوہ وہاں آپ توحید و عدالت کی دعوت اچھی طرح دے سکتے ہیں ۔ مجھے اس بات کی بھر پور امید ہے کہ آپ جو کرنا چاہتے ہیں وہاں کسی فشار اور طاقت فرسا رنج و غم کے بغیر انجام دے سکتے ہیں ۔

۲۱۵

امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا : ''یابن عم !انی واللّه لأ علم انک ناصح (١) ومشفق ولکنی ازمعت و اجمعت علی المسیر''

یابن عم ! خدا کی قسم مجھے یقینی طور پر یہ معلوم ہے کہ آپ مخلص اور مشفق ہیں لیکن آپ یہ جان لیں کہ میں عزم با لجزم کر چکا ہوں اور سفرکے لئے تیار ہوں ۔

ابن عباس نے کہا : اگر ایسا ہے کہ آپ حتماً جانا ہی چاہتے ہیں تو اپنے ساتھ مخدرات اور بچوں کو نہ لیں جائیں ؛کیونکہ میں آپ کے قتل اور خاندان کی اسیری سے خوف زدہ ہوں ۔(٢)

عمر بن عبد الرحمن مخزومی کی گفتگو

عمر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام مخزومی(٣) کا بیان ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام عراق جانے کے لئے سامان سفر باندھ چکے تو میں ان کی خدمت میں آکر ان کی ملاقات سے شرفیاب ہوا

____________________

١۔ امام حسین علیہ السلام کے اس جملہ میں کلمہ ''ناصح '' خلوص و اخلاص کے معنی میں استعمال ہواہے، موعظہ اور نصیحت کے معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے ۔ اس لفظ کے لئے یہ معنی جدید اور نیا ہے، اس کا اصلی معنی نہیں ہے، امام فرمارہے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ ابن عباس کی گفتار میں خلوص و شفقت اور محبت و عطوفت پنہا ں ہے۔ اس سے انداہ لگایا جا سکتا ہے کہ ابن عباس امام علیہ السلام کے قیام کے مخالف نہ تھے بلکہ وہ اس شک وتردید میں تھے کہ قیام کے لئے حالات سازگار اور مناسب ہیں یا نہیں اور امام علیہ السلام نے بھی اس سلسلے میں ان کی بات کو رد نہیں کیا بلکہ فرمایا کہ اس کے باوجود بھی وہ قیام کے لئے عازم ہیں کیونکہ وہ اس قیام کو شریعت مقدسہ کی زندگی کے لئے لازم اورضروری سمجھتے ہیں ۔

٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے۔ (طبری ج٥، ص ٣٨٣)

٣۔یہ وہی شخص ہے جسے مختار کے عہد حکومت میں عبداللہ بن زبیر نے ٦٦ھ میں کوفہ کا والی بنادیا تو مختار نے زائدہ بن قدامہ ثقفی کو اس کے پاس پانچ سو (٥٠٠) سپاہیو ں اور ستر (٧٠) ہزار درہم کے ساتھ روانہ کیا تا کہ وہ ان درہمو ں کے مقابلہ میں مختار کے لئے کوفہ کی گورنری چھوڑدے اور اگر وہ اس پر راضی نہ ہو تو پھر ان سپاہیو ں سے نبرد آزماہوجائے۔ عمر بن عبد الرحمن نے وہ درہم قبول کر لئے اور ر ا ہی ٔ بصرہ ہوگیا۔ (طبری، ج٦،ص ٧١) اب رہا امام علیہ السلام کی مدح و ثنا کا سوال تو اس روایت کا ناقل خود یہی شخص ہے۔ اس کا دادا حارث بن ہشام اور اس کا بھائی جھل بن ہشام دونو ں ہی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دشمن تھے۔ ہم نے اس کا تذکرہ مقدمہ میں کیاہے۔

۲۱۶

اورثنائے الہٰی کے بعد ان کی خدمت میں عرض کیا: یابن عم !میں آپ کی خدمت میں ایک درخواست لے کر حاضرہواہوں جسے مخلصانہ نصیحت کے طور پرآپ سے عرض کرناچاہتاہوں ،اب اگر آپ مجھے اپناخیر خواہ اورصاحب فکر سلیم سمجھتے ہیں تومیں وہ عرضداشت آپ کی خدمت میں پیش کرو ں ورنہ میں جو کہناچاہتاہوں اس سے صرف نظرکرلوں ۔

امام علیہ السلام نے فرمایا:''قل فواللّٰه ما أظنّک بسییٔ الرأولا هو ٍ (١) للقبیح من الأمر و ا لفعل ''

تم جو کہنا چاہتے ہو کہو، خدا کی قسم میں اس بات کا گمان بھی نہیں کرتا کہ تم میرے لئے برا تصور رکھتے ہو اور میری بھلائی نہیں چاہتے۔

عمر بن عبدالرحمن مخزومی نے کہا: مجھے خبر ملی ہے کہ آپ عراق جانا چاہتے ہیں اور میں آپ کے اس سفر سے خوفزدہ ہوں ؛کیونکہ آپ ایسے شہر میں جانا چاہتے ہیں جس میں اُمراء اور عاملین دونوں موجود ہیں اور ان کی پشت پناہی کے لئے بیت المال کا ذخیرہ موجود ہے۔ قوم درہم ودینار کی غلام ہے اور میں اس سے بھی آپ کو امن و امان میں نہیں سمجھتا کہ وہی لوگ آپ سے مقابلہ اور جنگ کے لئے کھڑے ہو جائیں گے جو ا بھی آپ کی نصرت کا وعدہ کررہے ہیں اور آپ کے دشمن کی دشمنی سے زیادہ آپ سے محبت کا دم بھرتے ہیں ۔

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:''جزاک اللّه خیراً یابن عم ! فقد واللّٰه علمت أنک مشیت بنصح و تکلّمت بعقل و مهما یقض من أمر یکن ، أخذت برأیک أو تر کته فأنت عندی أحمد مشیر وأنصحُ ناصح ''(٢) اے چچا کے فرزند خدا تم کو جزائے خیر دے ! خدا کی قسم مجھے معلوم ہے کہ تم خیر خواہی کے لئے آئے ہو اور تمہاری گفتگومیں عقل و خرد کے جلوے ہیں ؛ بنابر این حسب ضرورت یا تو تمہاری رائے پرعمل کروں گا یا اسے ترک کروں گا لیکن جو بھی ہو تم میرے نزدیک اچھا مشورہ دینے والے اور بہترین خیر خواہ ہو ۔

____________________

١۔ ھوٍ یعنی ھا ویا جس کی اصل ھویٰ ہے جس کے معنی برا ارادہ رکھنے والے کے ہیں ۔

٢۔طبری ،ج ٥،ص ٣٨٢ ،ہشام نے ابومخنف کے حوالے سے کہا ہے کہ مجھ سے صقعب بن زبیر نے عمر بن عبد الر حمن کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے ۔

۲۱۷

امام علیہ السلام کے ساتھ ابن زبیر کی آخری گفتگو

عبد اللہ بن سلیم اسدی اور مذری بن مشمعل اسدی کا بیان ہے کہ ہم دونوں حج کی غرض سے مکہ روانہ ہو ئے اور یوم ترویہ وارد مکہ ہو ئے۔وہاں پرہم نے سورج چڑہتے وقت حسین اورعبداللہ بن زبیر کو خانہ کعبہ کے دروازہ اور حجر الاسود کے درمیان کھڑے ہوئے دیکھا ، ہم دونوں ان کے نزدیک آگئے تو عبد اللہ بن زبیر کو حسین سے یہ کہتے ہو ئے سنا : اگر آپ یہاں قیام فرمائیں گے تو ہم بھی یہیں سکونت اختیار کریں گے اور یہاں کی حکومت اپنے ہا تھوں میں لے لیں پھرہم آپ کی پشت پنا ہی اور مدد کریں گے اور آپ کے مخلص و خیر خواہ ہو کر آپ کی بیعت کر لیں گے ۔

امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا :''اِن أبی حدّثنی : ''ان بها کبشاً یستحلّْ حرمتها ''! فما اْحبّ ان أکون أنا ذالک الکبش'' (١) و(٢)

میرے بابا نے مجھ سے ایک حدیث بیان فرمائی ہے کہ یہاں ایک سر برآوردہ شخص آئے گا جو اس حرم کی حرمت کو پامال کرے گا ، مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ وہ سر برآوردہ شخص میں قرارپاؤں ۔

ابن زبیرنے کہا : فرزند فاطمہ ! آپ ذرا میرے نزدیک آیئے تو امام علیہ السلام نے اپنے کانوں کو اس کے لبوں سے نزدیک کر دیا ۔ اس نے راز کی کچھ باتیں کیں پھرامام حسین ہماری طرف ملتفت ہوئے اور فر مایا :'' أتدرون ما یقول ابن زبیر ؟'' تم لوگو ں کو معلو م ہے کہ ابن زبیر نے کیا کہا ؟

ہم نے جواب دیا :. ہم آپ پر قربان ہوجائیں ! ہمیں نہیں معلوم ہے۔

امام حسین علیہ السلام نے فر مایا: وہ کہہ رہاتھا کہ آپ اسی حرم میں خانہ خداکے نزدیک قیام پذیر رہیئے، میں آپ کے لئے لوگوں کو جمع کرکے آپ کی فرمانبرداری کی دعوت دوں گا۔پھر حسین نے فرمایا:

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ ابو جناب یحٰبن ابی حیہ نے عدی بن حرملہ اسدی سے، اس نے عبد اللہ سے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ (طبری، ج٥ ،ص ٣٨٤)

٢۔ الکبش : اس نر بکر ے کو کہتے ہیں جو عام طور پر گلہ کے آگے رہتا ہے۔ یہ درواقع تشبیہ ان لوگو ں کے لئے ہے جو کسی امر کی قیادت کرتے ہیں ۔ اس حدیث کے ذریعہ سے امام علیہ السلام نے ابن زبیر کو یاد دلا یا کہ شاید یاد آوری اس کو فائدہ پہنچا ئے لیکن یاد آوری تو مو منین کے لئے نفع بخش ہو تی ہے۔ ''فان الذکری تنفع المو منین ''

۲۱۸

''واللّٰه لئن أقتل خارجاً منها بشبر أحبّ الیّ من أن اْقتل داخلاً منها بشبر وأیم اللّٰه لو کنت فی حجر ها مة من هٰذ ه الهوام لا ستخرجونی حتی یقفوافیّ حا جتهم، واللّٰه لیعتدنّ علیّ کما اعتدت الیهود فی السبت'' ) و(٢)

خداکی قسم! اگر میں حرم سے ایک بالشت دور قتل کیاجاؤں تو یہ مجھے زیادہ محبوب ہے بہ نسبت اس کے کہ میں حرم کے اندر قتل کردیا جاؤں ، خدا کی قسم! اگر میں حشرات الارض کے سوراخ میں بھی چلاجاؤں توبھی یہ لوگ مجھے وہاں سے نکال کر میرے سلسلہ میں اپنی حاجت اور خواہش پوری کرکے ہی دم لیں گے۔ خدا کی قسم! یہ لوگ اس طرح مجھ پر ظلم و ستم روا رکھیں گے جس طرح روز شنبہ یہودیوں نے ظلم و ستم کیا تھا۔

عمرو بن سعید اشدق کا موقف

جب امام حسین علیہ السلام نے مکہ سے روانگی اختیار کی تو مکہ کے گورنرعمروبن سعید بن عاص(٣) کے نمائندوں نے یحٰی بن سعید(٤) کی سربراہی میں حضرت پر اعتراض کیا۔ اور سب کے سب

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ ابو سعیدعقیصانے اپنے بعض اصحاب سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں ...۔(طبری ،ج٥،ص٣٨٥)

٢۔ یہ وہ بہترین جواب ہے جو امام حسین علیہ السلام نے تمام سوالو ں کے جو اب میں بہت مختصرطور پردیاہے کہ بہر حال بنی امیہ کو حضر ت کی تلاش ہے ؛ آپ جہا ں کہیں بھی ہو ں وہ آپ پر ظلم و ستم کری ں گے پس ایسی صورت میں لازم ہے کہ آپ فوراً مکہ چھوڑ دی ں تاکہ آپ کی مثال بکری کے اس گلہ کے بکرے کی جیسی نہ ہوجائے جو آگے آگے رہتا ہے جس کا ذکر آپ کے والد حضرت امیر المومنین نے کیا تھا۔ اسی خوف سے آپ فوراً نکل گئے کہ کہیں آپ کی اور آپ کے خاندان کی بے حرمتی نہ ہوجائے اور ادھر اہل کوفہ کی دعوت کا جواب بھی ہوجائے گا جو آپ کے لئے ان پر اتمام حجت ہو گی تا کہ یہ الزام نہ آئے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے بعد امت کے لئے کوئی حجت نہ تھی اور لوگ یہ نہ کہہ سکی ں کہ اللہ کی جانب سے تو پیغمبرو ں کے بعد ہمارے لئے کوئی حجت ہی نہ تھی۔''لئلا یکون للناس علی اللّٰہ حجة بعدالرسول'' (سورہ ٔنساء ١٦٥)اور تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے :'' لولا أرسلت الینا رسولأ منذراًو أقمت لنا علماً ھادیاً فنتبع آیاتک '' تو نے ہم تک ڈرانے والا کوئی پیغمبر کیو ں نہ بھیجا اور ہمارے لئے کوئی ہدایت کرنے والی نشانی کیو ں نہ قائم کی تاکہ ہم تیری نشانیو ں کی پیروی کر تے۔اہم بات یہ ہے کہ اس وحشت وخوف کے ماحول میں کوفہ نہ جاتے تو اور کہا ں جاتے؛ جب کہ زمین اپنی وسعتو ں کے باوجود آپ پر تنگ کردی گئی تھی ۔

۲۱۹

٣۔ جب عمر و بن سعید مدینہ کا والی ہوا تو اس نے عبیداللہ بن ابی رافع جو امام علی بن ابیطالب کے کاتب تھے،کو بلایا اور ان سے پوچھا: تمہارامولا کون ہے ؟ انھو ں نے جواب دیا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) (یہ ابو رافع ،ابوا حیحہ سعید بن عاص اکبر کے غلام تھے جو سعید بن عاص کے بیٹو ں کو میراث میں ملے تھے۔ ان میں سے تین بیٹو ں نے اپناحصہ آزاد کردیا اور یہ سب کے سب جنگ بدر میں مارڈالے گئے اورایک بیٹے خالد بن سعید نے اپنا حصہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کو ھبہ کردیا تو آ پ نے اسے آزاد کر یا) یہ سنتے ہی اس نے سو کوڑے لگائے پھر پوچھا تیرا مالک ومولا کون ہے ؟ انہو ں نے پھر جواب دیا :ر سول خدا ! تو اس نے پھر سو کوڑے لگائے۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا، وہ پوچھتا جاتا تھا اور یہ جواب میں کہتے جاتے تھے: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور وہ کوڑے برسائے جاتاتھا یہا ں تک کہ پانچ سو کوڑے مارے اور پھر پوچھاکہ تمہارامولا و مالک کون ہے؟ تو تاب نہ لاکرعبیداللہ بن ابورافع نے کہہ دیا :تم لوگ میرے مالک و مختار ہو ۔یہی وجہ ہے کہ جب عبدالملک نے عمرو بن سعید کو قتل کیا تو عبیداللہ بن ابی رافع نے شعر میں قاتل کا شکریہ اداکیا۔(طبری ،ج٣، ص ١٧٠)

عمرو بن سعیدنے ابن زبیر سے جنگ کی۔ (طبری ، ج٥،ص ٣٤٣) اور جو بھی ابن زبیر کا طرفدار تھا اسے مدینہ میں مارڈالاتھا ۔جن میں سے ایک محمد بن عمار بن یاسر تھے۔اس نے ان میں سے چالیس یا پچاس یا ساٹھ لوگو ں کوماراہے ۔(طبری ،ج٥ ،ص ٣٤٤) جب اس تک امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر پہنچی تو اس نے خوشیا ں منائی ں اور جب بنی ہاشم کی عورتو ں کا بین سنا تو کہنے لگا کہ یہ بین عثمان کے قتل پر انکے گھر کی عورتو ں کے بین کا جواب ہے پھر یہ منبر پر گیا اور لوگو ں کو اس سے باخبر کیا ۔ اس کے بعد یزید کو معلوم ہوا کہ عمرو بن سعید ، ابن زبیر سے رفق و محبت سے پیش آرہاہے اور اس پر تشدد نہیں کر رہاہے تو یکم ذی الحجہ ٦١ھکو اسے معزول کردیا۔ (طبری ،ج٥ ،ص٤٧٧) تو یہ اٹھکر یزید کے پاس آیااور اس سے معذرت خواہی کی۔ (طبری ،ج٥،ص ٤٧٩) اس کاباپ سعید بن عاص ، معاویہ کے زمانے میں مدینہ کا والی تھا۔ (طبری، ج٥ ، ص٢٤١)

٤۔یہ عمرو بن سعید کابھائی ہے۔اس نے شام میں عبدالملک کے دربار میں ان ایک ہزار جوانو ں کے ساتھ اپنے بھائی کی مدد کی جو اس کے ساتھی اور غلام تھے لیکن آخر میں وہ سب بھاگ گئے اور اسے قید کر لیا گیا پھر آزاد کردیا گیا تو یہ ابن زبیر سے ملحق ہو گیا۔ (طبری، ج٦،ص ١٤٣، ١٤٧) پھر کوفہ روانہ ہوگیا اور اپنے ماموؤ ں کے پاس پناہ لی جو جعفی قبیلہ سے متعلق تھے۔جب عبدالملک کوفہ میں داخل ہوا اور لوگو ں نے اس کی بیعت کرنا شروع کردی تو اس نے بھی اس کی بیعت کر لی اور امن کی درخواست کی۔ (طبری ،ج٦ ، ص ١٦٢)

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438