واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا18%

واقعۂ کربلا مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 438

واقعۂ کربلا
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 438 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 192940 / ڈاؤنلوڈ: 5407
سائز سائز سائز
واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

سودہ زوجہ رسول(ص) کی گفتگو

چنانچہ صحاح کے اندر اور آپ کے محدثین و مورخین کی کتابوں میں درج ہے کہ سودہ زوجہ رسول خدا(ص) سے لوگوں نے کہا کہ تم حج وعمرہ کیوں نہیں کرتیں اور اس سعادت عظمی سے کس لیے محروم ہو؟ سودہ نے جواب دیا کہ مجھ پر ایک مرتبہ حج واجب تھا اس کو بجالائی، اب اس کے بعد میرا حج و عمرہ حکم خداوندی کی اطاعت ہے کیونکہ اس کا ارشاد ہے "وَ قَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ " ( یعنی اپنے گھروں میں سکون سے بیٹھو 12 مترجم) بس میں اس کی تعمیل میں گھر سے باہر نہیں نکلوں گی بلکہ میرا تو ارادہ یہ ہے کہ جس حجرے میں رسول اللہ(ص) مجھ کو بٹھا گئے ہیں حتی الامکان اس سے بھی قدم باہر نہ رکھوں گی یہاں تک کہ مرجائوں ( چنانچہ انہوں نے کیا بھی یہی کہ گھر سے باہر نہیں نکلیں ان کا جنازہ ہی باہر نکلا)

ہمارے لیے سودہ یا عائشہ اور ام سلمہ میں کوئی فرق نہیں سبھی پیغمبر(ص) کی بیویاںاور امہات المومنین ہیں۔ البتہ ان کے اعمال کے لحاظ سے فرق ہے۔

امت کے نزدیک عائشہ و حفصہ کا جو احترام ہے وہ اس وجہ سے نہیں کہ ابوبکر و عمر کی بیٹیاں تھیں( اگر چہ آپ اسی جہت سے احترام کرتے ہیں) بلکہ اس لیے ہے کہ رسول اللہ(ص) کی زوجہ اور شریک حیات تھیں۔ لیکن ازواج رسول(ص) کو فخر و شرف اسی وقتحاصل ہوگا جب وہ متقی اور پرہیز گار ہوں جیسا کہ آیت نمبر31 سورہ نمبر33 ( احزاب) میں صاف صاف ارشاد ہے۔

"يا نِساءَ النَّبِيِ‏ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّساءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ ."

جس کا مطلب یہ ہے کہ اے زنان پیغمبر(ص) تم کسی دوسری عورت کے مانند نہیں ہو ( یعنی شرافت فضیلت کی حیثیت سے سب پر فوقیت رکھتی ہو) لیکن شرط یہ ہے کہ خدا ترسی اور پرہیز گاری اختیار کرو۔

علی علیہ السلام سے عائشہ کی مخالفت اور جنگ

پس سودہ رسول اللہ(ص) کی ایک متقی اور مطیع و فرمانبردار بیوی تھیں، اور عائشہ آں حضرت(ص) کی و سرکش زوجہ تھیں جو طلحہ و زبیر کے فریب میں آکر( یا حضرت علی علیہ السلام سے اپنے ذاتی بغض و عداوت کی بنا پر) بصرہپہنچیں جہاں علی علیہ السلام کی طرف سے والی بصرہ اوربزرگ صحابی عثمان ابن حنیف کو گرفتار کر کے ان کے سر اور چہرے کے سب بال اکھاڑ ڈالے گئے۔ تازیانوں کی زبردست مار دے کر ان کو نکال دیااور بیچارے سو(100) نفر سے زیادہ نہتے لوگوں کو قتل کردیا گیا۔ چنانچہ ابن اثیر، مسعودی، محمد بن جریر طبری اور ابن ابی الحدید وغیرہ سب نے سب اس کو تفصیل سے لکھا ہے۔

۱۴۱

اس کے بعد عسکرنامی اونٹ پر سوار ہو کر جس کو تیندوے کی کھال اور زرہ پہنائی گئی تھی ایک( زمانہ جاہلیت کے ) جنگی سپاہی کے میدان میں آگئیں اور محض ان کی بغاوت کی وجہ سے ہزاروں مسلمانوں کے خون بہہ گئے۔ آیا یہ داغ نہیں تھا کہ بے حیثیت اور خدا ناشناس لوگ اپنی عورتوں کو تو گھروں کے اندر پردے میں بٹھائیں لیکن رسول خدا(ص) کی بیوی کو اس نصیحت و رسوائی کے ساتھ مجمع عام میں لا کھڑی کریں۔

آیا یہ اقدام خدا و رسول(ص) کے حکم سے سرتابی نہیں تھا؟

فضائل علی(ع) شمار سے باہر ہیں

اور وہ بھی علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ایسی بزرگ شخصیت کے مقابلے میں جس کے فضائل و مناقب میں خود آپ کے اکابر علماءنے اتنی کثرت سے روایتیں نقل کی ہیں کہ ان کا شمار و احصار و شواہد ہے۔

چنانچہ امام احمد ابن حنبل مسند میں، ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں، امام فخرالدین تفسیر کبیر میں خطیب خوارزمی مناقب میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودت میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب باب64 میں اور میر سید علی ہمدانی شافعی مودۃ القربی مودت پنجم میں خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب اور جرامت عبداللہ بن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلعم نے علی علیہ السلام سے فرمایا:

" لو انّ‏ البحر مداد و الغياض اقلام و الإنس كتّاب و الجنّ حسّاب ما احصوا فضائلك يا ابا الحسن"

یعنی اگر سمندر روشنی بن جائے، درخت قلم بن جائیں، سارے انسان لکھنے والے ہوں اور پوری قوم جن حساب کرنے والی ہو تب بھی اے ابو الحسن(ع) تمہارے فضائل کا شمار نہیں کرسکتے۔

جن بزرگوار کے حق میں جناب رسالت ماب ایسے کلمات ارشاد فرمائیں کہ تمام جن و انس مل کر بھی ان کے فضائل کا حساب نہیں کرسکتے تو بھلا ہم لوگ اپنی کند زبانوں اور شکستہ قلموں سے آپ کے مراتب و مناقب عالیہ کا حصر کیونکر کرسکتے ہیں؟

پھر بھی جہاں تک طاقت و قدرت تھی اکابر علمائے شیعہ کے علاوہ خود آپ کے علماء نے باوجود اپنے پورے تکلف کے اور بعض نے اپنے انتہائی تعصب کے بعد بھی جیسے قوشجی ، ابنحجر اور روز یہاں وغیرہ نے حضرت علی(ع) کا لا تعداد لا تحصی فضائل میں سے صرف ایک جز کو درج کر کے اپنی کتابوں کو بھر دیا ہے۔

۱۴۲

علی(ع) کے فضائل و مناقب میں روایتیں

آپ صحاح ستہ کو غور سے ملاحظہ فرمائیے۔ ان کے علاوہ مودت القربی پر سید علی ہمدانی ، معجم طبرانی، مطالب السئول محمد بن طلحہ شافعی، مسند وفضائل امام احمد بن حنبل جمع بین الصحیحین حمیدی مناقب اخطب الخطباء خوازرمی، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد دوم ص449 اور فصول المہمہ ابن صباغ مالکی بالخصوص ص124 میں کتاب معالم العترۃ النبویہ حافظ عبدالعزیزبن الاخضر الجنابذی سے بروایت جناب فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیہا نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا میرے پدر بزرگوار حضرت رسول خدا(ص) عرفہ کی شام کو ہمارے پاس تشریف لائے اور ارشاد فرمایا:

" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ َو جَل بَاهَى‏ بِكُمْ‏ الملَائِکةَعَامَّةً وَ غَفَرَ لَكُمْ عَامَّةً وَ لِعَلِيٍّ خَاصَّةً وَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ غَيْرَ مُحَابٍ لِقَرَابَتِي هَذَا جَبْرَئِيلُ يُخْبِرُنِي أَنَّ السَّعِيدَ كُلَّ السَّعِيدِ حَقَّ السَّعِيدِ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً فِي حَيَاتِهِ وَ بَعْدَ مَوْتِهِ وَ إِنَّ الشَّقِيَّ كُلَّ الشَّقِيِّ حَقَّ الشَّقِيِّ مَنْ أَبْغَضَ عَلِيّاً فِي حَيَاتِهِ وَ بَعْدَ ممَاَتِهِ."

یعنی خدائے عزوجل فرشتوں کے سامنے بالعموم تم لوگوں پر فخر کرتا ہے اور بالعموم تم لوگوں کوبخش دیا ہے اور خصوصیت کے ساتھ علی(ع) کو اور میں جو کہ خدا کا رسول(ص) ہوں بغیر رشتے اور قرابت والے جذبہ محبت کے کہتا ہوں کہ در حقیقت پوری سعادت کے ساتھ سعید و نیک بخت وہی ہے جو علی(ع) کو ان کی زندگی میں اور وفات کے بعد دوست رکھے اور پوری شقاوت کے ساتھ شقی و بد بخت دہی ہے جو علی(ع) سے ان کی زندگی میں اور موت کے بعد بغض رکھے۔

انہیں کتابوں میں ایک مفصل حدیث جس کو غالبا میں گذشتہ شبوں میں عرض بھی کرچکاہوں۔ خلیفہ عمر ابن خطاب سے وہ رسول اللہ(ص) سے نقل کرتے ہیں جس کے آخر میں علی علیہ السلام سے فرمایا:

"كَذَبَ‏ مَنْ‏ زَعَمَ‏ أَنَّهُ‏ يُحِبُّنِي‏ وَ هو مُبْغِضُكَ يَا عَلِيُّ مَنْ اَحبَّکَ فقَد اَحبَّنی وَمَن اَحبَّنیفَقَد اَحَبّه اللهُ وَمَن اَحَبّه اللهُ اَدخَلهُ الجَنَّة وَ مَنْ أَبْغَضَكَ فَقَدْ أَبْغَضَنِي وَ مَنْ أَبْغَضَنِي فَقَدْ أَبْغَضَ اللَّهَ وَ أَدْخَلَهُ النَارَ."

یعنی جھوٹا ہے وہ شخص جو اے علی(ع) تم کو دشمن رکھتا ہو اور پھر میری دوستی کا دعوی کرے، اے علی(ع) جس نے تم کو دوست رکھا اس نے مجھ کو دوست رکھا اور جسنے مجھ کود وست رکھا اس کو خدا دوست رکھتا ہے اور جسکو خدا دوست رکھتا ہے اس کو جنت میں داخل کرتا ہے۔ اور جس نے تم کو دشمن رکھا اس نے مجھ کو دشمن رکھا اور جس نے مجھ کو دشمن رکھا اس کو خدا دشمن رکھتا ہے اور دوزخ میں ڈل دیتا ہے۔

۱۴۳

علی(ع) کی دوستی ایمان اور آپ(ع) کی دشمنی کفر و نفاق ہے

نیز کتاب الآل ابن خالویہ سے بروایت ابو سعید خدری نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نے علی(ع) سے فرمایا :

"حبّک‏ إيمان‏، و بغضک نفاق و اول من يدخل الجتة مجبک و اول من يدخل النار مبغضک."

یعنی اے علی(ع) تمہاری محبت ایمان اور تمہاری عداوت نفاق ہے، اور سب سے پہلے جو شخص جنت میں داخل ہوگا، وہ تمہارا دوست ہوگا اور سب سے پہلے جو شخص جہنم واصل ہوگا وہ تمہارا دشمن ہوگا۔

میرسید علی ہمدانی شافعی مودت القربی مودت سیم میں اور حموینی فرائد میں نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر(ص) نے اصحاب کے درمیان فرمایا:

"لا يحب عليا الا مومن و لا يبغضه الا کافر"

یعنی علی(ع) کو دوست نہیں رکھتا لیکن مومن اور ان کو دشمن نہیں رکھتا لیکن کافر۔

اور دوسرے مقام پر فرمایا:

" لا يحبك‏ الّا مؤمن و لا يبغضك الامنافق"

یعنی اے علی(ع) تم کو دوست نہیں رکھتا لیکن مومن اور دشمن نہیں رکھتا لیکن منافق۔

محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب62 ص119 میں تاریخ دمشق، محدث شام اور محدث عراق سے اور انہوں نے حذیفہ اور جابر سے روایت نقل کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا:

" عَلِيٌ‏ خَيْرُ الْبَشَرِ مَنْ أَبَى فَقَدْ كَفَرَ.."

یعنی علی(ع) بہترین بشر ہیں، جو شخص اس سے انکار کرے وہ کافر ہے۔

نیز عطا سے روایت کی ہے کہ لوگوں نے عائشہ سے علی(ع) کا حال دریافت کیا تو انہوں نے کہا:

"ذَاكَ‏خَيْرُالْبَشَرِ، لاَ يَشُكُّ "( یعنی یہ بترین بشر ہیں، اس میں سوا کافر کے کوئی شک نہیں کرتا ۔)

اور کہتے ہیں کہ حافظ ابن عساکر اپنی تاریخ میں جس کو سو(100) جلدیں ہیں اور ان میں سے تین جلدیں علی علیہ السلام کے فضائل و مناقب میں ہیں پچاسویں جلد میں عائشہ سے اسی روایت کو نقل کیا ہے۔

محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول ص17 میں اور ابن صباغ مالکی فصول المہمہ ترمذی اور نسائی سے اور وہ ابوسعید خدری سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :

"مَا كُنَّا نَعْرِفُ‏ الْمُنَافِقِينَ‏ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ص إِلَّا بِبُغْضِهِمْ عَلِيّاً "

یعنی ہم زمانہ رسول(ص) میں منافقین کو صرف علی(ع) کی عداوت سے پہنچانتے تھے۔

نیز فصول المہمہ میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم

۱۴۴

صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیرالمومنین علی علیہ السلام سے فرمایا:

"حربک حربی و دمک دمی و انا حارب لمن حاربک لا يحبك‏ إلّا طاهر الولادة، و لا يبغضك إلّا خبيث الولادةلا يحبك‏ الّا مؤمن و لا يبغضك الامنافق."

یعنی اے علی(ع) تم سے جنگکرنا مجھ سے جنگ کرنا ہے، تمہارا خون میرا خون ہے اور جو شخص تم سے جنگ کرے اس سے میری بھی جنگ ہے۔ تم سے وہی محبت رکھتا ہے جو حلال زادہ ہے اور تم سے وہی بغض رکھتا ہے جو ولد الحرام ہو۔ تم کو دوست نہیں رکھتا مگر مومن اور تم کو دشمن نہیں رکھتا مگر منافق۔

شیخ : اس قسم کی حدیثیں صرف علی کرم اللہ وجہہ سے مخصوص نہیں، بلکہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے بارے میں بھی وارد ہوئی ہیں۔

خیر طلب: ممکن ہو تو ان حدیثوں میں سے کوئی نمونہ بیان فرمائیے تاکہ حقیقت کھل جائے۔

شیخ : عبدالرحمن ابن مالک مغول اپن سند کے ساتھ جابر سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا :

"لا يبغـضابابکر و عمر مومن و يحبهما منافق"

یعنی ابوبکر و عمر کا بغض مومن اور محبت منافق نہیں رکھتا۔

خیر طلب : آپ کے بیان سے پھر مجھ کو تعجب ہوا۔ کیا آپ پہلی شب کا یہ معاہدہ بھول گئے کہ ہم لوگ یکطرفہحدیثوں سے استدلال نہیں کریں گے؟ پھر بھی اگر آپ ایسا کرنا ہی چاہتے ہیں تو اس قسم کے ضعیف و موضوع اور ناقابل قبول حدیثیں نہیں جن کے راوی جھوٹے اورجعلساز ہوں بلکہ صحیح الاسناد احادیث پیش کیجئے۔

شیخ : آپ نے طے کر لیا ہے جو حدیث بھی ہم سے سنیں گے اس کو اہانت کے ساتھ رد کریں گے۔

خیر طلب: مجھ کو افسوس ہے کہ تنہا میں نے ہی تردید نہیں کی ہے بلکہ خود آپ کے اکابر علماء نے بھی رد کیا ہے بہتر ہوگا کہ آپ میزان الاعتدلال ذہبی اور تاریخ خطیب بغدادی جلد دہم ص236 کی طرف رجوع کیجئے تو نظر آئے کہ اکثر ائمہ جرح و تعدیل نے عبدالرحمن ابن مالک کے حالات میں نقل کیا ہے کہ انہ کذاباناک وضاع لا یشک فیہ احد۔ یعنی در حقیقت یہ ( عبدالرحمن) سخت جھوٹا، بڑا تہمت باندھنے والا اور بہت حدیثیں گڑھنے والا ہے جس میں کسی شخص کو بھی شک و شبہ نہیں۔

آپ کو خدا کا واسطہ انصاف سے بتائیے کہ آیا آپ کی یک طرفہ حدیث جو ایک دروغ گو اور جعل ساز شخص سے مروی ہے ان تمام احادیث وروایات کا مقابلہ کرسکتی ہے جو آپ کے اکابر علماء سے منقول ہیں اور جن میں سے بعض نمونے کے طور پر پیش کی جاچکی ہیں؟

مہربانی کر کے جامع الکبیر سیوطی جلد ششم ص390، ریاض النظرہ محب الدین جلد دوم ص215 جامع ترمذی جلد دوم ص299، استیعاب ابن عبد البر جلد سیم ص49، حلیتہ الاولیاء حافظ ابونعیم جلد ششم ص295، مطالب السئول محمد بن طلحہ شافعی ص17، اور فصول المہمہ ابن صباغ مالکی ص126، کو ملاحظہ فرمائیے کہ ہر ایک نے مختلف عبارتوں کے ساتھ ابوذر غفاری سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا :

"ما كنّا نعرف‏ المنافقين‏ على عهد رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله إلّابثلاث بتكذيبهم اللّه و رسوله،

۱۴۵

و التخلّف عن الصلوات، و بغضهم علي بن أبي طالب و عن ابی سعيد الخدری كنّا نعرف‏ المنافقين‏ إلّا ببغضهم عليّا و ما کنا نعرف المنافقين علی عهد رسول الله الا ببغضهم عليا."

یعنی ہم لوگ عہد رسول(ص) میں منافقین کو صرف تین علامتوں سے پہچانتے تھے، خدا و رسول(ص) کو جھٹلانے سے ، ترک نماز سے اور علی ابن ابی طالب(ع) کی عداوت سے ، اور ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا ہم منافقین کو بغض علی(ع) سے پہچانتے تھے اور عہد رسول(ص) میں ہمارے پاس منافقین کی سوا اس کے اور کوئی پہچان نہیں تھی کہ وہ علی(ع) سے دشمنی رکھتے تھے۔

نیز امام احمد بن حنبل نے مسند جلد اول ص95 و ص138 میں، ابن عبدالبر نے استیعاب جلد سیم ص137 میں، احمد خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد جلد چہاردہم ص426 میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص264 میں، امام نسائی نے سنن جلد ہشتم ص117، او خصائص العلوی ص27 میں، حموینی نے فرائد باب 22 میں ابن حجر نے اصابہ جلد دوم ص509 میں، حافط ابونعیم نے حلیتہ الاولیاء جلد چہارم ص185 میں، سبط ابن جوزی نے تذکرۃ ص15، سیوطی نے جامع الکبیر ص152، ص408 میں، محمد ابن طلحہ شافعی نے مطالب السئول ص17 میں اور ترمذی نےجامع جلددوم ص13 میںمختلف عبارات کےساتھ کہیں ام سلمہ اور کہیں ابنعباس سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم صلعم نے فرمایا :

" ياعلی ال يحبک منافق و لا يبغضک مومن لا يحبک الا مومن و لا يبغضک الا منافق ال يحب عليا المنافق و لا يبغضه مومن"

یعنی اے علی(ع) منافق تم سے محبت نہیں رکھتا اور مومن تم سے بغض نہیں رکھتا۔ تم کو دوست نہیں رکھتا۔ مگر مومن اور تم کو دشمن نہیں رکھتا مگر منافق، علی سے منافق محبت نہیں رکھتا اور مومن ان سے عداوت نہیں رکھتا۔

اور ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد اول ص364 میں شیخ معتزلہ شیخ ابوالقاسم بلخی سے نقل کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں :

"و قد اتفقت الاخبار الصحيحه التی لا ريب فيها عند المحدثين علی ان النبی قال له لايبغضک الا منافق و لا يحبک الا مومن"

یعنی اخبار صحیحہ کا اتفاق ہے اور تمام محدیثیں اس پر متفق ہیں کہ یقینا پیغمبر(ص) نے علی(ع) سے فرمایا کہ تم کو سوا منافق کے کوئی دشمن نہیں رکھتا اور سوا مومن کے کوئی دوست نہیں رکھتا۔

نیز جلد چہارم ص264 میں امیرالمومنین علیہ السلام کا ایک خطبہ نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

"لو ضربت خيشوم المؤمن بسيفي هذا على أن يبغضني ما أبغضني، و لو صببت الدنيا بجملتها على المنافق أن يحبّني ما أحبّني، و ذلك أنّه قضي فانقضى على لسان النبيّ الامّي صلّى اللّه عليه و آله و سلّم: أنّه لا يبغضك مؤمن و لا يحبّك‏ منافق."

یعنی اگر میں اپنی اس تلوار سے مومن کی ناک پر ماروں کو مجھ کو دشمن رکھے تب بھی وہمجھ سے دشمن نہ رکھے گا اور اگر میں تمام دنیا منافق کو دے دوں کہ مجھ کو دوست رکھے تب بھی وہ مجھ کو دوست نہ رکھے گا۔ اور یہ وہی فیصلہ ہے جو زبان رسول(ص) پر جاری ہوچکا ہے کہ آپ نے فرمایا اے علی(ع) مومن تم سے بغض نہیں رکھتا اور منافق تم سے محبت نہیں کرتا۔

اس قسم کے اخبار و احادیث آپ کی معتبر کتابوں میں بکثرت سے مروی ہیں۔ میں نے وقت کے لحاظ سے یہ چند حدیثیں جو اس وقت پیش نظر تھیں عرض کردیں۔

۱۴۶

اب میں آپ حضرات سے حق کے نام پر سوال کرتا ہوں کہ علی علیہ السلام سے عائشہ کیبغاوت اور جنگ آیا رسول خدا(ص) سے جنگ نہیں تھی؟ آیا یہ لڑائی اور لوگوں کو علی علیہ السلام سے جنگ کرنے پر آمادہ کرنا خلوصو محبت اور دوستی کی وجہ سے تھا یا بغض و کینہ اور عداوت کی بنا پر؟ ظاہر ہے کہ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان محبت کے سبب سے جنگ ہوتی ہے لہذا قطعا بغض و عداوت کی وجہ سے تھی، تو ان تمام احادیث میں جن کا نمونہ پیش کیا گیا ہے کیا رسول اکرم(ص) نے علی(ع) سے دشمنی اور جنگ کرنے کو کفر ونفاق کی ایک علامت قرار نہیں دیا ہے؟ آیا ان اخبار و احادیث کو علی سے عائشہ کے مقابلے اور جنگ پر منطبق کرنے سے کیا نتیجہ نکلے گا؟

گذارش ہے کہ بغیر کسی طرفداری اور جذبہ محبتو عداوت کے از روئے انصاف سچا فیصلہ فرمائیے۔ عجیب چیز ہے کہ اس وقت مجھ کو ایک ایسی حدیث یاد آگئی جس کو نقیہ ہمدانی میر سید علی شافعی نے مودۃ القربی کی مودت سیم میں خود عائشہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ :

" أنّ اللّه قد عهد إليّ أنّ من‏ خرج‏ على‏ عليّ‏ عليه السّلام فهو كافر في النار"

یعنی بتحقیق اللہ نے قطعی طور پر مجھ سے قول و قرار فرمایا ہے کہ جو شخص بھی علی(ع) پر خروج اور بغاوت کرے وہ کافر ہے۔ اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

پھر تعجب یہ ہے کہ جب لوگوں نے ان پر اعتراض کیا کہ جب آپ پیغمبر(ص) سے ایسی بات سن چکی تھیں تو علی (ع) پر خروج کیوں کیا؟ تو یہ پھسپھسا عذر پیش کردیا کہ:

" نسيت هذا الحديث يوم الجمل حتّى ذكرته بالبصرة"

یعنی میں اس حدیث کو جنگ جمل کے روز بھول گئی تھی یہاں تک کہ بصرے میں یاد آئی۔

شیخ : حضرت آپ خود ایسا بیان دے رہے ہیں تو اب ام المومنین رضی اللہ عنہا پر کیا اعتراض ہے؟ بدیہی چیز ہے کہ انسان سہوو نسیان کا مرکز ہے۔

خیر طلب: اگر میں بھی مان لوں کہ جنگ جمل کے روز وہ اس حدیث کو بھول گئیں تھیں تو کیا جس روز مکہ معظمہ سے واپس ہو رہی تھیں اور تمام خیر خواہوں نے یہاں تک کہ رسول اللہ(ص) کی پاک باز بیویوں نے بھی ان کو منع کیا تھا کہ یہ بیجا حرکت نہ کرو اس لیے کہ علی(ع) سے مخالفت کرنا پیغمبر(ص) سے مخالفت کرنا ہے اس وقت بھی یہ حدیث یاد نہیں تھی؟

آیا آپ کے مورخین جنہوں نے واقعہ جمل تحریر کیا ہے متوجہ نہیں کرچکے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا تھا عائشہ اس راستے سے جس میں حوائب کے کتے تم پر بھونکیں۔ چنانچہ جب یہ بصرے جارہی تھیںاور چشمہ بنی کلاب پر پہنچیں تو کتوں نے چاروں طرف سے محمل کو گھیر لیا اور بھونکنا شروع کیا، انہوں نے پوچھا کہ یہ کون سا مقام ہے ؟ تو لوگوں نے جواب دیاکہ حوائب اس پر ان کو پیغمبر(ص) کا ارشاد یاد آگیا تھا تو پھر کس لیے طلحہ و زبیر کے فریب میں آئیں اور آگے بڑھتی گئیں، یہاں تک کہ بصرے پہنچ کر ایسا عظیم فتنہ برپاکردیا؟

آیا اس کے لیے بھی آپ کہہ سکتے ہیں کہ بھول گئی تھیں یا بالقصد و بالارادہ جان بوجھ کر یہ راستہ طے کیا؟ آیا یہ حقیقت میں ایک بہت بڑا دھبہ نہیں تھا جس نے ام المومنین عائشہ کا دامن آلودہ کردیا اور جو کسیپانی سے دھویا نہیں جاسکتا کیوںکہ انہوں نے

۱۴۷

سب سمجھتے ہوئے عمدا خدا و رسول(ص) کے حکم سے منہ موڑا ااور طلحہ و زبیر کی بات مان کے خلیفہ اور وصیرسول(ص) سے لڑنے کے لیے پہنچ گئیں باوجودیکہ خود بھی کہتی تھیں کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا ہے کہ جو شخص علی(ع) سے جنگ کرے اور ان پر خروج کرے وہ کافر ہے؟ آیا امیرالمومنین علیہ السلام سے جو رسول اللہ(ص) کے وصی اور خلیفہ تھے جنگ کرنا اور مسند خلافت پر بیٹھتے ہی آپ کے لیے پریشانی کے اسباب اور جنگی انقلاب پیدا کرنا آں حضرت صلعم کے لیے باعث تکلیف نہیں تھا ؟ کیا جیسا کہ میں گذشتہ شب مع اسناد کے عرض کرچکا ہوں حدیث میں نہیں ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا :

"من‏ آذى‏ عليا فقد آذاني!! إن عليا أولكم إيماناً و أوفاكم بعهد اللَّه، يا أيها الناس من‏ آذى‏ عليا بعث يوم القيامة يهوديّاً أو نصرانياً."

یعنی جس نے علی(ع) کو ایذا دی اس نے یقینا مجھ کو ایذا دی اور جس نے مجھ کو ایذا دی اس نے در حقیقت خدا کو ایذا دی۔ اے گروہ ناس جس نے علی(ع) کو تکلیف پہنچائی وہ قیامت کے روز یہودی یا ںصرانی اٹھایا جائے گا۔

عائشہ کے حکم سے بصرے میں صحابہ اور بے گناہ مومنین کا قتل عام

جب یہ تمام روایتیں آپ کی معتبر کتابوں میں موجود ہیں تو آپ کس حق سے شیعوں پر اعتراض فرماتے ہیں؟

آیا بے خطا مومنین کا خون، رسول اللہ(ص) کے محترم صحابیعثمان ابن حنیف کی زجر و توبیخ اور سو(100) نفر سے زیادہ خزانے کے محافظین کا قتل جو غیر مسلح تھے اور جنگی سپاہیوں میں سے نہیں تھے اور جن سے چالیس اشخاص مسجد کے اندر مارے گئے، یہ سب جنگ کے محرک اور بانی کی گردن پر نہیں تھا؟

چنانچہ علامہ مسعودی نے مروج الذہب جلد دوم ص7 میں اس عبارت کے ساتھ لکھا ہے :

" فقتل‏ منهم‏ سبعون‏ رجلا غير من جرح، و خمسون من السبعين ضرب رقابهم صبرا من بعد الاسر، و هؤلاء أول من قتل ظلما في الاسلام"

یعنی علاوہ ان لوگوں کے جو زخمی کئے گئے بیت المال کے نہتے محافظین میں سے ستر آدمیوں کو قتل کیا جن میں سے پچاس کی اسیری اور مجبوری کی حالت میں گردنیں ماری گئیں، اور یہ لوگ اسلام کے اندر سب سے پہلے ظلم کے ساتھ قتل کئے گئے۔

اور آپ کے علماء مورخیں میں سے ابن جریر اور ابن اثیر وغیرہ نے ان واقعات کو پوری تفصیل سے نقل کیا ہے ، اب آپ یا تو ان روایات کو اپنی معتبر کتابوں سے خارج کیجئے، جیسا کہ جدید مطبوعات میں آپ کے علماء تحریف سے کام لے رہے ہیں بلکہ بعض مطالب کو تو سرے سے غائب ہی کردیتے ہیں، اور اپنے علمائے اعلام و اکابر مورخین کو جھٹلائیے یا شیعوں پر طعن و تشنیع اور اعتراض کرنے سے باز آئیے کیونکہ شیعہ تو وہی کہتے ہیں جو آپ کی کتب معتبرہ میں درج ہوچکا ہے۔ خدا کی قسماس میں جماعت شیعہ کا کوئی قصور نہیں ہے، ہمارے اور آپ کے درمیان فرق صرف ؟؟؟؟؟ رہے کہ آپ اپنی معتبر کتب میں ان اخبار و احادیث کا سطحینظر سے مطالعہ کرتے ہیںاور حب الشی یعمی ویصم ( یعنی کسی چیز کی محبت اندھا اور بہرا بنادیتی

۱۴۸

ہے۔12 مترجم) کے مصداق تاریخ کے ان اہمواقعات کو اخبار کے مطابق نہیں کرتے، ہمیشہ محض حسنِ ظن اور بے موقع دفاع سے کام لیتے ہیں اور حقائق پر کوئی توجہ نہیں کرتے۔ یا اگر توجہ کرتے بھی ہیں تو پردہ پوشی کی کوشش کرتے ہوئے اس کی صفائی اس طرح سے پیش کرتے ہیں کہ پسر مردہ عورت بھی ہنس پڑے۔

لیکن ہم غیر جانبداری کے ساتھ منصفانہ اور گہری نظر ڈالتے ہیں اور کتب فریقین میں مروی اخبار و احادیث کو واقعات کے مطابق کر کے حقائق کا انکشاف کرتے ہیں۔ اس مطابقت میں بھی آپ کو جس مقام پر کوئی شبہ یا غلطی اور خود غرضی نطر آئیے۔منطقی اعتراض کے ساتھ اس کی تردید کر دیجئے میں انتہائی ممنوں ہوں گا۔

شیخ : آپ کے بیانات درست ہیں لیکن ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بھی انسان تھیں معصوم نہیں تھیں یقینا دھوکہ میں آکر ان سے ایک خطا سرزد ہوگئی۔ اپنی سادگی کی وجہ سے دو بڑے صحابیوں کے فریب میں آگئی تھیں لیکن بعد میں توبہ کر لی اور خدا نے بھی ان سے درگذر فرمائی۔

خیر طلب: اولا آپ نے اقرار کر لیا کہ کبار صحابہ خطار کار اور فریبی تھے حالانکہ حاضرین تحت شجرہ اور بیعت رضوان والوں میں سے تھے۔ پس آپ کی وہ حدیث جو صحابہ کی پاک دامنی کے لیے آپ پچھلی راتوں میں پیش کرچکے ہیں کہ سارے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی پیروی کی جائے ہدایت حاصل ہوجائی گی خود بخود باطل ہوجاتی ہے۔

دوسرے آپ نے فرمایا کہ ام المومنین عائشہ نے توبہ کرلی تو یہ محض دعوی ہی دعوی ہے۔ کیونکہ بغاوت و جنگ اور مسلمانوں کا قتل عام تو بالاتفاق ثابت ہے لیکن ان کی توبہ کا کوئی ثبوت نہیں لہذا اس کا سہارا نہیں لیا جاسکتا۔

امام حسن(ع)کو پیغمبر(ص) کے پاس دفن کرنے سے عائشہ کی ممانعت

البتہ یہ مسلم ہے کہ عائشہ کی طبیعت میں سکون نہیں تھا، ان سے پے در پے طفلانہ حرکتیں سرزد ہوتی رہیں جنمیں سے ہر ایک نے ان کی تاریخ زندگی کو فاسد بنایا۔ بقول آپ کے اگرتوبہ کر لی تھی اور پشیمان ہو کر خاموش بیٹھ گئی تھیں تو پھر کس لیے بعد کو سبط رسول(ص) امام حسن علیہ السلام کے جنازے کے ساتھ ایسا سلوک کیا اور ایسا فساد برپا کیا جس سے ہر سننے والا بغیر متاثر ہوئے نہیں رہتا؟

فقط یہی نہیں کہ رسول اللہ(ص) کو رنجیدہ اورآرزدہ کرتیتھیں یا زمانہ جاہلیت کی عورتوں کی طرح اونٹ پر سوار ہوکر پیغمبر(ص) کے وصی اور خلیفہ سے لڑنے جاتی تھیں جس سے ہم کہہ سکیں کہ صرف زندہ افراد سے ضد اور مخالفت رکھتی تھیں، بلکہ خچر پر سوار ہو کر رسول خدا(ص) کے بڑے نواسے حضرت امام حسن علیہ السلام کے جنازے کا راستہ بھی روکا چنانچہ آپ کے اکابر علماء مورخین بالخصوص یوسف سبط ابن جوزی نے تذکرہ خواص الامہ ص122 میں، علامہ مسعودی صاحب مروج الذہب نے اثبات الوصیہ ص136 میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص18 کے شروع میں ابو الفرج اور یحیی بن الحسن صاحب کتاب النسب سے نقل کرتے ہوئے خداوند شاہ نے

۱۴۹

روضتہ الصفا جلد دوم میں واقدی نے ، متوفی احمد بن محمد حنفی نے ترجمہ تاریخ اعثم کوفی میں، ابن شخنہ نے روضتہ المناظر میں، اور ابو الفداء وغیرہ نے اپنی تاریخوں میں نقل کیا ہے کہ جس وقت حضرت کا جنازہ لے چلے تو عائشہ خچر پر سوار ہو کر بنی امیہ اور ان کے غلاموں کی ایک جماعت کے ساتھ لیے ہوئے سد راہ ہوئیں اور کہا کہ ہم امام حسن(ع) کو قبر رسول (ص) کے پہلو میں دفن نہ کرنے دیں گے۔

بروایت مسعودی ابن عباس نے کہا کہ عائشہ تمہارے حال پر تعجبہے :

"اما كفاك‏ أن‏ يقال‏ يوم‏ الجمل‏ حتى يقال يوم البغل؟ يوما على جمل و يوما على بغل بارزة عن حجاب رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله تريدين إطفاء نور اللّه؛ و اللّه متمّ نوره و لو كره المشركون، انّا للّه و انّا إليه راجعون."

یعنی آیا تمہارے لیے روز جمل کی شہرت کافی نہیں ہوئی تھی، ( یعنی اونٹ پر سوار ہو کر میدان جنگ میں نکل پڑیں) یہاں تک کہ لوگ یوم بغل کا ذکر کریں( یعنی خچر پر سوار ہوکر فرزند رسول(ص) کا جنازہ روکا) تمنے کبھی خچر پر بیٹھ کر حجاب پیغمبر(ص) کو چاک کر دیا یا تمہارا عزم ہے کہ اللہ کے نور کو بجھا دو حالانکہ خدا اپنے نور کو کامل کرنےوالا ہے چاہے مشرکین کو ناگوار ہی ہو یقینا ہم اللہ کے لیے ہیں اور یقینا ہم کو اسی کی طرف پلٹ کے جانا ہے۔

اور بعض نے لکھا ہے کہ ان سے یہ فرمایا:

تجملت‏تبغلت‏و لو عشت تفيلتلك الثمن من التسع‏و في الكل تطمعت

یعنی تم کبھی اوںٹ پر سوار ہوئیں کبھی خچر پر، اور اگر زندہ رہوگی تو ہاتھی پر بھی سوار ہوگی۔ تمہارا آٹھویں حصے میں سے صرف نواں حصہ ہے لیکن سب پر قابض ہوگئیں۔

بنی ہاشم نے چاہا کہ تلوار کھینچ کر ان لوگوں کودفع کریں لیکن حضرت امام حسین علیہ السلام مانع ہوئے اور فرمایا میرے بھائی نے وصیت فرمائی ہے کہ میں اس پر راضی نہیں ہوں کہ میرے جنازے کے پیچھے ایک فصد کے برابر بھی خون ریزی ہو، چنانچہ آپ کے حکم سے جنازہ واپس لائے اور بقیع میں دفن کیا۔

شہادت امیرالمومنین (ع) پر عائشہ کا سجدہ اور اظہار مسرت

اگر یہ صحیح ہے کہ عائشہ نے توبہ کر لی تھی اور امیرالمومنین(ع) سے جنگ کرنے پر نادم تھیں تو حضرت کی خبر شہادت سننے کے بعدسجدہ شکر کیوں بجالائیں؟ جیسا کہ ابو الفرج اصفہانی صاحب اغالی نے مقاتل الطالبین میں حضرت کے حالات بیان کرتے ہوئے آخر میں نقل کیا ہے کہ "لما جاء عائشه قتل اميرالمومنين علی سجدت "( یعنی جب عائشہ کو قتل و شہادت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی خبر ملی تو انہوں نے (شکر کا) سجدہ کیا۔)

اگر واقعی توبہ کر لی تھی اور پشیمان تھیں تو حضرت کی خبر شہادت سن کر مسرت وشادمانی کا اظہار کس لیے کیا؟ جیسا کہ محمد بن جریر طبری نے اپنی تاریخ حوادث سنہ40 ہجری میں اور ابوالفرج اصفہانی نے مقاتل الطالبین آخر حالات حضرت علی علیہ السلام میں روایت کی ہے جس وقت ان کو ایک غلام نے حضرت کی شہادت سے مطلع کیا تو انہوں نے کہا:

فالقف عصاها واستفرت بها النوی کما فر عيناه بالاياب السافر

۱۵۰

القاء عصاء اطمینان قلب اور خاطر جمعی کا کنایہ ہے بعنی جس وقت کسی مخصوص موقع پر کسی شخص کے دل کو اطمینان اور دماغ کو سکون حاصل ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے القی عصاہ (جیساکہ مسکویہ نے تجارب الامم اور میری نے حیات الحیوان میں بیان کیا ہے) یہ شعر پڑھنے سے عائشہ کا مطلب یہ تھا کہ علی(ع) کے بارے میں میرے خیالات کو تسکین میرے دل کو فرحت اور میرے دماغ کو آسودگی حاصل ہوگئی اس لیے کہ میں اسی اطلاع کی منتظر تھی، جیسے کوئی شخص اپنے مسافر کی واپسی کا انتظار کر رہا ہو اور اس کے آجانے پر اس کی آںکھیں روشن اور دل باغ باغ ہوجائے اس کے بعد خبر لانے سے دریافت کیا کہ کس نے ان کو قتل کیا؟ جواب ملا کہ قبیلہ بنی مراد کےعبدالرحمن ابن ملجم نے تو فورا کہا:

فان يک نائبا فلقد نغاه غلام ليس فی فيه التراب

یعنی اگر علی(ع) مجھ سے دور ہیں تو ان کی موت کی خبر وہ غلام لایا ہے جس کے منہ میں خاک نہ ہو۔

زینب دختر ام سلمہ موجود تھیں انہوں نے کہا۔ آیا علی(ع) کے بارے میں تم کو اس طرح خوش ہونا اور ایسی باتیں کہہ کے اظہار مسرت کرنا مناسب ہے؟ انہوں نے دیکھا کہ یہ تو برا ہوا لہذا جواب دیا کہ میں آپے میں نہیں تھی اور بھول چوک میں اس قسم کے الفاظ کہہ ریئے، چنانچہ اگر پھریہ کیفیت مجھ پر طاری ہو اور یہ باتیں دہرائوں تو مجھ کو یاد دلا دینا تاکہ باز رہوں۔

بہتر ہوگا کہ آپ حضرات محبت و عداوت کے جذبات کو الگ رکھ کے عبرت حاصل کریں تو معلوم ہو کہ مسئلہ توبہ کی کوئی حقیقت نہ تھی بلکہ یہ مرتے دم تک اپنی دشمنی پر قائم رہیں، ورنہ اظہار مسرت اور سجدہ شکر کیوں کرتیں؟ حضرات ! ان افعال کو کس چیز پرمحمول کیجئے گا؟ کیا اس کے علاوہ اور کوئی مطلب نکل سکتا ہے کہ ام المومنین عائشہ عقل کی اوچھی عورت تھیں اور زندگی بھر چین سے نہیں بیٹھیں؟ اس وقت مجھ کو ایک اوربات یاد آگئی ، آپ حضرات شیعوں پر اعتراض کرتے ہیں اور ان کو عداوت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ خلیفہ سوم عثمان پر نکتہ چینی کیوں کرتے ہیں اور ان کے وہ مطاعن جن کو خود آپ کے علماء نے بھی نقل کیا ہے کیوں بیان کرتے ہیں؟

عثمان کی نسبت عائشہ کے متضاد فقرے

اگر یہی بات ہے و آپ کو ام المومنین عائشہ سے بھی حسن ظن نہ رکھنا چاہئیے اس لیے کہ بالعموم آپ کے اکابر علماء مورخین جیسے ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص77 میں، مسعودی نے کتاب اخبار الزمان اور اوسط میں، سبط ابن جوزی نے تذکرۃ خواص الامہ ص36 میں، نیز ابن جریر، ابن عساکر اور ابن اثیر وغیرہ نے لکھا ہے کہ ام المومنین عائشہ برابر عثمان کی بدگوئی کرتی رہتی تھیں یہاں تک کہ آواز دیتی تھیں "اقتلوا نعثلا قتله الله فقد کفر " یعنی نعثل ( عثمان) کو قتل کردو، خدا اس کو قتل کرے کیونکہ بتحقیق یہ کافر ہوگیا ہے) لیکن جیسے ہی عثمان قتل ہوئے تو علی علیہ السلام سے اپنے کینے اور عداوت کی بناء پر

۱۵۱

کہنے لگیں "قتل عثمان مظلوما والله لاطلبن بدمه فقوموا " ( یعنی عثمان مظلوم قتل ہوئے، خدا کی قسم میں ان کے خون کا مطالبہ کروں گی پس میری حمایت میں اٹھ کھڑے ہو)

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں :

" أن‏ عائشة كانت‏ من أشد الناس على عثمان حتى إنها أخرجت ثوبا من ثياب رسول الله ص فنصبته في منزلها و كانت تقول للداخلين إليها هذا ثوب رسول الله صلی الله عليه و آله لم يبل و عثمان قد أبلى سنته."

یعنی در حقیقت عائشہ تمام لوگوں سے زیادہ عثمان کی دشمن تھیں، یہاں تک کہ رسول اللہ(ص) کا پیراہن نکال کے اپنے گھر میں لٹکا دیا تھا اور آنے والوں سے کہتی تھیں کہ ابھی رسول اللہ(ص) کا پیراہن بوسیدہ نہیں ہوا اور عثمان نے آںحضرت(ص) کی سنت کو فرسودہ اور بیکار بنا دیا۔

نیز ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ جس وقت مکے میں عائشہ کو قتل عثمان کی خبر ملی تو کہا:

"أبعده‏ الله‏ ذلك بما قدمت يداه و ما الله‏ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ."

یعنی خدا ان کو اپنی رحمت سے دور کرے، یہ انہیں کی کرتوت کا نتیجہ ہے، اور اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔

آپ خلیفہ عثمان کے حق میں عائشہ سے بغیر کسی دلیل کے اس قسم کے الفاظ سنتے ہیں اور قطعا کوئی اثر نہیں لیتے لیکن یہی باتیں اگر بے چارے شیعوں کی زبانسے نکلیں تو آپ فورا رفض اور کفر کا حکم لگا کر ان کا قتل واجب جانتے ہیں۔

انسان کی نظر بے لوث ہونا چاہئیے کیونکہ بدگمانی ہی سے ساری خرابیان پیدا ہوتی ہیں۔ یہ حقیقت مسلم ہے کہ ام المومنین عائشہ حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی طرف سے شدید کینے اور عداوت کا جذبہ رکھتی تھیں، چنانچہجس وقت یہ سنا کہ مسلمانوں نے حضرت سے بیعت کر لی تو کہا:

" لوددت إن السماء انطبقت على الارض ، ثمّ ان اتم هذا قتلوا ابن‏ عفّان‏ مظلوما."

یعنی میرے نزدیک آسمان کو زمین پر پھٹ پڑنا بہتر ہے اگر میں اس ( خلافت ) کو مکمل ہوجانے دوں، ابن عفان (عثمان) کو مظلوم قتل کیا۔

آیا اس قسم کے مختلف اور متضاد جملے ام المومنین عائشہ کے تلون مزاج کو ثابت نہیں کرتے؟

شیخ :ام المومنین عائشہکے طرز عمل اور رفتار و گفتار میں ایسے اختلافات کثرت سے منقول ہیں لیکن دو چیزیں مسلم اور ثابت ہیں۔

ایک یہ کہ عائشہ ام المومنین رضی اللہ عنہا کو لوگوں نے فریب دیا اور وہ اس روز علی کرم اللہ وجہہ کے مرتبہ ولایت کی طرف متوجہ نہیں تھیں جیسا کہ انہوں نے خود کہا ہے کہ میں بھول گئی تھی اور مجھ کو بصرے میں یاد آیا۔

دوسرے توبہ کرنی تھی لہذا قطعا خداوند عالم پچھلی غلطیوں کو معاف کر کے ان کو بہشت کے بلند درجات میں جگہ دیگا۔

خیر طلب : توبہ کے موضوع پر میں بار بار اپنی گفتگو نہیں دہرائوں گا اور یہ نہیں پوچھوں گا کہ اتنے زیادہ بے گناہ مسلمانوں کا خون بہائے جائے، ان کی ہتک حرمت کئے جانے اور ان کے اموال تاخت و تاراج کئے جانے کے بعد کیوںکر ممکن ہے کہ بغیر محاکمے اور باز پرس کے چھٹی مل جائے؟ یہ صحیح ہے کہ خدا ارحم الراحمین ہے لیکن

" فِي‏ مَوْضِعِ‏ الْعَفْوِ وَ الرَّحْمَةِ، وَ أَشَدُّ الْمُعاقِبِينَ فِي مَوْضِعِ النَّكالِ وَ النَّقِمَةِ"

یعنی خدا عفو و رحمت کے موقع پر سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے اورعذاب و عقوبت کے

۱۵۲

محل پر سب سےزیادہ سخت سزا دینے والا بھی ہے۔

اس کے علاوہ ان کو خود مرتے دم اعتراف رہا کہ وہ عمدا ان واقعات و حوادث کی باعث ہوئیں۔ اور اسی وجہ سے جیسا کہ آپ کے اکابر علماء نے نقل کیا ہے وصیت کی تھی کہ مجھ کو پیغمبر(ص) کے پہلو میں دفن نہ کرنا اس لیے کہ میں خود جانتی ہوں کہ میں نے آں حضرت(ص) کے بعد کون کون سے حادثات رونما کئے ہیں چنانچہ حاکم نے مستدرک میں، ابن قتیبہ نے معارف میں، محمد بن یوسف زرندی نے کتاب اعلام بسیرۃ النبی میں اور ابن البیع نیشاپوری وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ عائشہ نے عبداللہ ابن زبیر کو وصیت کی :

"ادفونی مع اخواتی بالبقيع فانی قد احدث امورا بعده"

یعنی مجھ کو بقیع کے اندر میری بہنوں کے پہلو میں دفن کرنا اس لیے کہ میں نے رسول اللہ(ص) کے بعد نئی نئی باتیں پیدا کی ہیں۔

اور آپ جو یہ فرمایا ہے کہ ام المومنین پر نسیان طاری تھا، فضائل علی(ع) کی حدیثوں کو بصرے میں یاد کیا اور اسی بنا پر پیغمبر(ص) کی ممانعت بھی بھول گئی تھیں، تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے بہتر ہوگا کہ اپنے اکابر علماء کی معتبر کتب کا مطالعہ کیجئے تاکہ اس حسن ظن کی حقیقت واضح ہوجائے، خصوصیت کے ساتھ ابن ابی الحدید کی شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص77 کو پڑھئیے تو اصلیت کا پتہ چل جائے۔

اب میں مطلب روشن ہونے کے لیے اس کتاب کے بعض مندرجات کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔

عائشہ کو ام سلمہ کی نصیحتیں

ابن ابی الحدید نے تاریخ ابی مخنف لوط بن یحیی ازدی سے نقل کیا ہے کہ اس موقع پر ام المومنین ام سلمہ بھی بسلسلہ حج مکہ معظمہ میں موجود تھیں، جب انہوںنے سنا کہ عائشہ عثمان کی خون خواہی کے لیے اٹھی ہیں اور بصرہ جارہی ہیں تو بہت متاثر ہوئیں اور ہر مجمع میں علی علیہ السلام کے فضائل ومناقب بیان کرنے لگیں۔ عائشہ ام کے پاس آئیں تاکہ ان کو فریب دے کر اپنا شریک کار بنالیں تب بصرہ روانہ ہوں۔

ام سلمہ نے فرمایا کہ تم کل تک تو عثمان کو اس قدر گالیاں دیتی تھیں ، ان کی مذمت کرتی تھیں، اور ان کو نعثل کہتی تھیںاور اب انہیں کے خون کا قصاص لینے کے لیے علی علیہ السلام کے مقابلے میں اٹھی ہو۔ کیا تم ان حضرت کے فضائل سے آگاہ نہیں ہو؟ اگر بھول گئی ہوتو میں اب پھر یاد دلاتی ہوں۔

عائشہ کو فضائل علی علیہ السلام کی یاد دہانی

یاد کرو کہ ایک روز میں رسول خدا(ص) کے ہمراہ تمہارے حجرے میں آئی تھی کہ اتنے میں علی(ع) بھی آگئے اور پیغمبر(ص) سے کچھ خفیہ باتیں کرنے لگے جب اس سرگوشی میں دیر لگی تو تم ان حضرت کو سخت و سسنت کہنے کے لیے اٹھیں، میں نے منع بھی کیا لیکن تم نے دھیان

۱۵۳

نہیں دیا اور ان بزرگوار پر غصہ دکھاتے ہوئے کہا کہ نو دنوں میں سے ایک دن میری باری کا ہے اس میں بھی تم آگئے اور پیغمبر(ص) کو مشغول کر لیا، اس پر رسول اکرم(ص) اس قدر غضبناک ہوئے کہ چہرہ مبارک سرخ ہوگیا اور تم سے فرمایا:

"ارجعى‏ ورائك‏ و اللّه لا يبغضه أحد من أهل بيتي و لا من غيرهم من الناس إلّا و هو خارج من الايمان، "

یعنی پیچھے ہٹو، خدا کی قسم کوئی میرا گھر والا ہو یا غیر شخص اگر علی(ع) سے بغض رکھے گا تو وہ قطعا ایمان سے خارج ہے۔

پس تم نادم اور شرمندہ ہو کر لوٹ آئی تھیں!عائشہ نے کہا ہاں مجھ کو یاد ہے ۔ ام سلمہ نے فرمایا یاد کرو ایک روز تم پیغمبر(ص) کا سرمبارک دھو رہی تھیں اور میں حیس ( ایک قسم کا کھانا) تیار کر رہی تھی، آں حضرت (ص) نے سر مبارک بلند کر کے فرمایا کہ تم دونوں میں سے اونٹ پر بیٹھنے والی گنہ گار عورت کون ہے جس پر حواب کے کتے بھونکیں گے اور وہ پل صراط پر منہ کے بل گرے گی؟ میں نے حیس کو چھوڑ دیا اور عرض کیا یا رسول اللہ(ص) میں ایسے کام سے اللہ اور اس کے رسول(ص) سے پناہ مانگتی ہوں۔ اس کے بعد آن حضرت(ص) نے تمہاری پیٹھ پر ہاتھ مار کر فرمایا کہ بچو اس سے کہ یہ حرکت کرنے والی عورت تمہیں ہو!عائشہ نے کہا ہاں مجھ کو یاد ہے۔

ام سلمہ نے کہا میں تم کو یاد دلاتی ہوں کہ ایک سفر میں ہم دونوں پیغمبر(ص) کے ہمراہ تھیں ایک روز علیعلیہ السلام پیغمبر صلعم کی کفشین سی رہے تھے اور ہم دونوں ایک درخت کے سائے میں بیٹھی تھیں۔ اتفاق سے تمہارے باپ ابوبکر اور عمر نے آکر اجازت چاہی میں اور تم پردے میں چلی گئیں اور یہ لوگ بیٹھ گئےتھوڑی گفتگو کے بعد انہوں نے کہا یا رسول اللہ(ص) :

" يا رسول اللّه إنا لا ندرى‏ قدر ما تصحبنا فلو أعلمتنا من يستخلف علينا ليكون بعدك لنا مفزعا، فقال لهما: أما أنّى أرى مكانه و لو فعلت لتفرّقتم عنه كما تفرّقت بنو اسرائيل عن هارون بن عمران، فسكتا ثمّ خرجا"

مطلب یہ کہ ہم لوگ آپ کی مصاحبت کی قدر نہیں جانتے پس ہماری خواہش ہے کہ ہم سے بتائیے کہ ہم پر آپ کا خلیفہ اور جانشین کون ہوگا تاکہ آپ کےبعد وہ ہمارے لیے فریاد رس اور پناہ گاہ ہو، آں حضرت(ص) نے ان دونوں (ابوبکر و عمر) سے فرمایا میں اس کے مقام اور منزل کو دیکھ رہا ہوں لیکن اگر عملا ایسا کروں اور اس کو پہنچوادوں تو تم لوگ اس کو چھوڑ کے الگ ہوجائو گے جس طرح بنی اسرائیل ہارون کو چھوڑ کر الگ ہوگئے تھے۔ پس وہ دونوں خاموش ہو کر چلے گئے ۔

ان دونوں کے جانے کے بعد ہم لوگ باہر آئے اور میں نے عرض کیا یا رسول اللہ(ص):

"من كنت يا رسول اللّه مستخلفا عليهم؟ فقال عليه السّلام: خاصف النّعل، فنزلنا و لم نر أحدا إلّا عليا، فقلت: يا رسول اللّه ما نرى إلّا عليّا، فقال: هو ذاك."

یعنی ان لوگوں پر آپ کا خلیفہ کون ہوگا؟ آں حضرت(ص) نے فرمایا جو شخص میری جوتیاں سی رہا ہے۔ ہم لوگوں نے نکل کے دیکھا تو سوا علی(ع) کے اور کوئی نظر نہ آِیا پس میں ن ے عرض کیا یا رسول اللہ(ص) ! مجھ کو تو سوا علی(ع) کے اور کوئی نظر نہیں آرہا ہے فرمایا وہی ( علی(ع)) خلیفہ ہیں۔

عائشہ نے کہا ہاں مجھ کو یاد ہے ام سلمہ نےکہا کہ جب ان احادیث کو جانتی ہو تو پھر کہاں جارہی ہو؟ انہوں نے جواب دیا میں لوگوں کے درمیان اصلاح کرنے جارہی ہوں۔ اب تو آپ حضرات کو بھی تصدیقکرنا چاہئیے کہ ام المومنین عائشہ نے فریب نہیں کھایا بلکہ جان بوجھ کر فتنہ انگیزی پر آمادہ تھیں اور سب کچھ سمجھتے ہوئے عمدا بغاوت کی، باوجودیکہ ام سلمہ نے رسول اللہ(ص) کی حدیثیں بھی یاد دلائیں لیکن باز نہیں آئیں اور امیرالمومنین(ع) کی عظمت ومنزلت

۱۵۴

کا اقرار کرنے کےبعد بھی بصرے کی طرف سفر کر کےاتنا بڑا فتنہ برپا کیا جس کے نتیجے میں بے شمار مسلمانوں کا خون بہہ گیا۔ خصوصیت کے ساتھ اس حدیث خاصف النعل میں حضرت کی امامت و خلافت پر بہت بڑی نص اور حجت موجود ہے کیونکہ جس وقت ام سلمہ عرض کرتی ہیں کہ یا رسول اللہ(ص) کون ہے وہ شخص جس کو آپ اپنے بعد خلیفہ بنا رہے ہیں تو آں حضرت(ص) نے فرمایا میری نعلین کا سینے والا اور وہ سوا علی(ع) کے کوئی دوسرا نہیں تھا۔ شیعوں کا گناہ صرف یہ ہے کہ کسی عادت سے متاثر نہیں ہوتے بلکہ تحقیق کے دور میں سے چودہ سو برس قبل کے اہم واقعات کا معائنہ کرتے ہیں اور بغیر تعصب یا جانبداری کے آیات قرآن مجید اور علمائے فریقین کی معتبر کتابوں سے استفادہ کر کے سچا سچا فیصلہ کرتے ہیں۔

اسی بنا پر ان کا عقیدہ ہے کہ اگر چہ سیاسی چالبازیوں کی وجہ سے بظاہر تاریخ میں علی علیہ السلام کی خلافت چوتھے نمبر پر آتی ہے لیکن یہ پس ماندگی حضرت کی افضلیت اور حضرت کے حق میں جو نصوص وارد ہیں ان کو قطع نہیں کرسکی اور نہ کرسکے گی۔

ہمارا بھی اعتقاد ہے اور ہم بھی اقرار کرتے ہیں کہ جیسا تاریخ میں درج ہے ابوبکر (سیاسی دائوں پیچ سے) کے اندر بغیر علی علیہ السلام ، بنی ہاشم اور کبار صحابہ کی موجودگی کے اور اںصار کے قبیلہ خزرج کی مخالفت کے باوجود خلیفہ نامزد کردیئے گئے، پھر اس کے بعد شخصی ڈکٹیڑی اور شوری کے بل پر عم و عثمان ظاہری طور پر علی علیہ السلام سے قبل مسند خلافت پر قابض ہوگئے۔

لیکن فرق یہ ہے کہ یہ لوگ امت والوں کے خلیفہ تھے یعنی ان کے چند ساتھی براتی لوگوں نے زور آزمائی کر کے ان کی گردن میں خلافت کا قلادہ ڈال دیا ۔ اور حضرت امیرالمومنین علیہ السلام خلیفہ رسول(ص) ہیں کیونکہ اللہ اور اس کے پیغمبر(ص) کی طرف سے منصوص تھے۔

شیخ : آپ بے لطفی کیبا تیں کر رہے ہیں۔ ان کے درمیان کوئی فرق نہیں تھا، جن لوگوں نے خلفائے ثلثہ ابوبکر و عمر وعثمان رضی اللہ عنہم کو اجماع کے ساتھ مقامات خلافت پر نصب کیا انہیں نے علی کرم اللہ وجہہ کو بھی خلافت پر مقرر کیا۔

خلفائے ثلاثہ کی تعیین میں اختلاف ان کی خلافت باطل ہونے کی دلیل ہے

خیر طلب: خلافت خلفاء کےطریق تعیین میں مختلف پہلوئوںسے کھلا ہوا تفاوت سے اولا آپ نے اجماع کی طرف اشارہ کیا ہے تو یہ بڑی بے لطفی کی بات ہے کہ ایک ہی مطلب بار بار دہرایا جائے کیونکہ میں پچھلی راتوں میں دلیل اجماع کے بے بنیاد ہونے پر مکمل روشنی ڈال چکا ہوں اور ثابت کرچکا ہوں کہ خلفائے ثلاثہ میں سے کسی ایک کی خلافت بھی اجماع امت کے ساتھ قائم نہیں ہوئی۔ ملاحظہ ہو اسی کتاب کا ص29

بطلان اجماع پر دوسرے دلائل

دوسرے اگر دلیل اجماع پر آپ کا اعتماد ہے اور آپ کے نزدیک خدا و رسول(ص) کی جانب سے امت کے لیے یہ حق

۱۵۵

شرعا ثابت ہے تو قاعدے کے رو سے چاہئیے یہ تھا کہ جو خلیفہ بھی دنیا سے اٹھے ساری امت جمع ہو یا زمانہحالکی رسم کے مطابق ایک نمائندہ جماعت یا انتظامی کمیٹی کی تشکیل کرے جو خلیفہ معین کرنے کا مسئلہ طے کرے اور جس پر سب کا اجماع ہوجائے یا ( بقول آپ کے ) صاحبان عقل متفق ہوجائیں اور اتفاق رائے ثابت ہوجائے وہشخص لوگوں کا منتخب خلیفہ قرار پائے ( رسول خدا(ص) کا خلیفہ نہیں) نیز ضروری تھا کہ اس تمدنی اصول پر ہر زمانے میں عملدر آمد ہوتا رہے۔

یقینا آپ تصدیق کریں گے کہ کسی اسلامی خلیفہ کے لیے اس قسم کا اجماع قطعا واقع نہیں ہوا، حتی کہ ناقص اجماع بھی (جس کے متعلق ہم پہلے ہیثابتکرچکے ہیں کہ کبار صحابہ بنی ہاشم اور انصار اس میں شامل نہیں تھے ) سوا ابوبکر بن ابی قحافہ کے کسی اور کے لیے منعقد نہیںہوا۔

اس لیے کہ اسلام کے جمل مورخین و محدثین کا اتفاق ہے کہعمر کی خلافت فقط خلیفہ ابوبکر کی نص پر قائم ہوئی ۔ اگر تعیین خلافت میں اجماع شرط ہےتو ابوبکر کے بعد عمر کے لیے اجماع کی تشکیل کیوں نہیں ہوئی اور رائے عامہ کا سہارا کیوں نہیں لیا گیا؟

شیخ : کھلی ہوئی بات ہے کہ چونکہ ابو بکر کو اجماع امت نے خلافت پر معین کیا تھا لہذا اپنے بعد والے خلیفہ کے تقرر تنہا خلیفہ اول کا قول ایک مضبوط سند ہے اور ان کے بعد بھی دوبارہ اجماع یا خلیفہ کے تعیین میں امت کی رائے حاصل کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ہر خلیفہ کا قول خلیفہ ما بعد کی تعیین میں مستحکم سند ہے اور یہ خلیفہ کا مخصوص حق ہے کہ اپنے بعد کے لیے خلیفہ معین کر جائے او لوگوں کو حیران و سرگردان نہ چھوڑے ، چنانچہ مسلم الثبوت اجماعی خلیفہ ابوبکر نے جب عمر کو خلافت پر نصب کردیا تو وہ پیغمبر(ص) کے مستقل خلیفہ ہوگئے۔

خیر طلب: اول یہ کہ اگر آپ اپنے عقیدے کے مطابق، مسلم الثبوت خلیفہ کے لیے خلیفہ ما بعد کے تقرر میں ایسے حق کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ خلیفہ کا فرض ہے کہ امت کو حیران نہ چھوڑے نیز اپنے بعد خلیفہ معین کرنے کے لیے پس اسی کی ںص کافی ہے، تو آپ نے اسی حق کو مسلم الثبوت پیغمبر(ص) اور رسول برحق سے آخر کیوں سلب کرلیا؟ اور ان تمام مخصوص اور واضح نصوص کو جن کے ذریعہ رسول اکرم(ص) نے صراحتہ وکنایۃ باربار اور مختلف مقامات پر علی علیہ السلام کو معین فرمایا( جن میں سے بعض کی طرف ہمپچھلی شبوں میں اشارہ کرچکے ہیں اور آج کی رات بھی حدیث ام سلمہ کی کھلی ہو نص پیش کی جاچکی ہے) کیوں نظر انداز کردیتے ہیں اور ان سے اثر لینے کے بجائے ہر ایک کے لیے فضول تاویلیں کرتے ہیں جیسے ابن ابی الحدید نے حدیث ام سلمہ میں مضحکہ خیز تاویل و ترمیم کر کے اس نص صریح کو رد کیا ہے؟

واقعی بڑے تعجب کا مقام ہے کہ آخر کس بنیاد پر آپ فرماتے ہیں کہ عمر کو خلافت پر نصب کرنے کے لیے ابوبکر کا قول سند ہے لیکن رسول خدا(ص) کے قول میں کوئی سندیت نہیں؟ اور آں حضرت(ص) کے حکیمانہ ارشادات سے بے ربط مطالب پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟

دوسرے آپ کہاں سے اور کس دلیل سے فرماتے ہیں کہ خلیفہ اول جو اجماع سے معین ہوئے اپنے بعد خلیفہ مقررکرنے کا حق رکھتے ہیں؟ آیا پیغمبر(ص) کی طرف سے اس قسم کی کوئی ہدایت نافذ ہوئی ہے؟ جواب قطعا نفی میں ہوگا۔

۱۵۶

تیسرے آپ کہتے ہیں کہ جب خلیفہ اول اجماع سے مقرر ہوچکے تو اب دوسرے خلفاء کی تعیین دوبارہ اجماع کی ضرورت نہیں ہے۔ وہی مںصوب خلیفہ امت کی جانب سے اس کا حق رکھتے ہیں کہ اپنے بعد کے لیے خلیفہ معین کردیں اور تنہا انہیں کی نص کافی ہے۔

مجلس شوری پر اعتراض

اگر حقیقت یہی ہے تو یہ اصول صرف عمر ہی کی خلافت میں کیوں برتا گیا؟ بلکہ خلافت عثمان میں تو اس کے برخلاف عمل کیا گیا اور عمر نے خود خلیفہ معین کرنے کے عوض یہ معاملہ چھ اشخاص کے شوری پر چھوڑ دیا۔ معلوم نہیں اثبات خلافت پر آپ حضرات کی دلیل کیا ہے؟ آپ جانتے ہیں کہ جب دلائل میں اختلاف پیدا ہوجائے تو اصل موضوع ہی باطل ہوجاتا ہے۔

اگر اثبات خلافت پر آپ کی دلیل اجماع امت ہے اور ساری امت کو جمع ہو کر متفقہ رائے دنیا چاہئیے (قطع نظر اس سے کہ ابوبکر کی خلافت میں بھی ایسا اجماع واقع نہیں ہوا) تو عمر کی خلافت میں اس طرح کا اجماع کیوں تشکیل نہیں دیا گیا؟ اگر آپ اجماع کو صرف پہلی ہی خلافت میں ضروری سمجھتے ہیں اور بعد والے خلفاء کی تعیین میں فقط اجماع کے ذریعے متنخب کئے ہوئے خلیفہ کی نص ہی کافی ہے۔ تو عثمان کی خلافت میں اس قاعدے پر کیوں عمل نہیں کیا گیا؟ اور خلیفہ عمر نے ابوبکر کے رویے کے بر خلاف خلیفہ کا انتخاب (ہٹلر شاہی نمونے کے)شوری کے اوپر کیوں چھوڑا؟ وہ بھی ایسی مجلس شوری جیسی دنیا کے کسی گوشے میں( یہاں تک کہ وحشی اقوام کے درمیان بھی) قائم نہیں ہوئی، بجائے اس کے کہ مجلس کے نمائندوں کو قوم منتخب کرے( تاکہ اس میں اکثریت کے قول اور خیال کی کچھ تو جھلک موجود ہے) خلیفہ عمر نے خود ہی نامزد کردیا۔

عبد الرحمن ابن عوف کی حکمیت پر اعتراض

اور سب سے عجیب تر بات یہ کہ جملہ ارکان کے اختیارات پامال کر کے ہر ایک ممبر کو عبدالرحمن بن عوف کا ماتحت اور محکوم بنادیا۔

معلوم نہیں کون سرشرعی، عرفی، علمی، یا عملی بنیاد پر عبدالرحمن کو یہ امتیازی ورجہ دے دیا( سوا اس کے کہ یہ عثمان کے عزیز قریب تھے اور یقین تھا کہ عثمان کو چھوڑ کے دوسرے کا ساتھ نہیں دیں گے) کہ اپنے دستور العمل میں کہہ دیا، جس طرف عبدالرحمن ہوں وہی حق ہے اور عبدالرحمن جس کی بیعت کرلیں دوسروں کو بھی اس کی اطاعت کرنا چاہئیے؟

جب ہم گہری نظر سے دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ یہ ایک آمرانہ حکم تھا جس کو شوری کے بھیس میں نافذ کیا گیا تھا۔ ورنہ ہم آج دیکھتے ہیں کہ جمہوریت کا قانون اس طرز عمل کے بالکل برعکس ہے۔ واقعی تعجب اور افسوس کا مقام ہے کہ جیسا میں گذشتہ شبوں

۱۵۷

میں بھی سلسلہ اسناد کے ساتھ عرض کرچکا ہوں۔ باوجودیکہ رسول اللہ(ص) نے بار بار فرمایا ہے:

"عَلِيٌ‏ مَعَ‏ الْحَقِ‏ وَ الْحَقُّ مَعَ عَلِيٍّ حَيْثُ دَارَ."

یعنی علی(ع) حق کے ساتھ اور حق علی (ع) کے ساتھ ہے جدھر وہ گردش کریں۔

نیز فرمایا ہے: "هذا علی فاروق‏ هذه‏ الأمّة يفرق بين الحقّ و الباطل "

یعنی یہ علی(ع) اس امت کے فاروق ہیں جو حق و باطل کے درمیان فرق قائم کرتے ہیں۔

چنانچہ حاکم مستدرک میں، حافظ ابونعیم نے حلیتہ الاولیاء میں، طبرانی ن اوسط میں، ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں، محب الدین طبری نے ریاض النظرہ میں، حموینی نے فرائد میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں، اور سیوطی نے در المنثور میں، ابن عباس، سلمان، ابوذر، اور حذیفہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

"ستكون‏ بعدي‏ فتنة، فإذا كان ذلك فالزموا عليّ بن أبي طالب عليه السّلام، فإنّه أوّل من يراني، و أوّل من يصافحني يوم القيامة، و هو الصدّيق الأكبر، و هو فاروق هذه الأمّة؛ يفرق بين الحقّ و الباطل، و هو يعسوب المؤمنين."

یعنی عنقریب میرے بعد ایک فتنہ برپا ہوگا پس اس موقع پر تم کو لازم ہے کہ علی ابن ابی طالب کا ساتھ پکڑو اس لیے کہ یہ پہلے وہ شخص ہیں جو قیامت کے روز مجھ سے مصافحہ کریں گے۔ یہ سب سے بڑے بڑے راست گو اور اس امت کے فاروق ہیں جو حق وباطل کے درمیان تفریق کرتے ہیں اور یہی مومنین کے بادشاہ ہیں۔

اور عمار کے مشہور حدیث میں ہے جس کو سلسلہ اسناد کے ساتھ پچھلی راتوں میں تفصیل سے عرض کرچکا ہوں کہ آں حضرت(ص) نے عمار یاسر سے فرمایا:

"إن‏ سلك‏ الناس‏ كلهم‏ واديا و علي واديا فاسلك وادي علي دخل عن الناس يا عمار علی لايردک عن هدى و لا يدلک علی ردی يا عمار طاعة علي من طاعتي و طاعتي من طاعة الله."

یعنی اگر تمام لوگ ایک راستے پر ہوجائیں اور علی(ع) ایک راستے پر تو علی(ع) ہی کے راستے پر چلنا اور تمام لوگوں کا ساتھ چھوڑ دینا۔ اے عمار علی(ع) تم کو ہدایت سے برگشتہ نہ کریں گے اور ہلاکت کی طرف نہ لے جائیں گے۔ اے عمار علی(ع) کی اطاعت میری اطاعت اور میری اطاعت خدا کی اطاعت ہے۔

حضرت امیرالمومنین کی منزلت پر بدترین ظلم

لیکن پھر بھی خلیفہ عمر پیغمبر(ص) کی ہدایت کے برخلاف علی(ع) کو شوری میں عبدالرحمن کو محکوم اور ماتحت قرار دیتے ہیں آیا ایسی حکومت حقبجانب ہوسکتی ہے جس نے دوسرے تمام بزرگان صحابہ کو دودھ کی مکھی بنا دیا اور امر خلافت میں ان کے حق رائے وہی کو کالعدم کردیا؟ پھر اسی پر اکتفاء نہیں کی بلکہ خود شوری میں بھی علی علیہ السلام پر شرمناک ظلم ڈھایا اور ان حضرت کی انتہائی اہانت کی کہ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ( فاروق ) کو عبدالرحمن کا ماتحت اور محکوم بنایا۔

محترم حضرات ! انصاف سے فیصلہ کیجئے اور استیعاب ، اصابہ، اور حلیتہ الاولیاء وغیرہ جیسی کتاب رجال کا مطالعہ کرنے کے بعد علی علیہ السلام کے حالات کا عبدالرحمن بلکہ شوری کے پانچوں ممبروں کی حیثیت کے ساتھ موازنہ کیجئے اور دیکھئے کہ حاکم بننے

۱۵۸

کی لیاقت عبدالرحمن کے اندر تھی یا حضرت امیرالمومنین علیہ السلام میں؟ اس کے بعد اندازہ کیجئےکہ سیاسی پارٹی بندی کے ماتحتبھی حضرت علی(ع) کے حق ولایت کو پامال کردیا جائے۔

خلاصہ یہ کہ اگر خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب کا یہ دستور قابل عمل تھا کہ تعیین خلافت کے لیے مجلس شوری ضروری ہے تو حضرت امیرالمومنین(ع) کی خلافت میں اس کا سہارا کیوں نہیں لیا گیا؟

حیرت ہے کہ خلافت خلفائے اربعہ ( راشدین) ابوبکر، عمر ، عثمان اور علی(ع) میں چار طریقے بروئے کار آئے تو آیا ان چاروں قسموں میں سے کون سی قسم بنیادی برحق اور قابل اعتماد تھی اور کون سے اقسام باطل؟ اگر آپ کے حسب دل خواہ چاروں طریقے حق تھے تو ماننا پڑے گا کہ آپ کے پاس تعیین خلافت کے لیے کئی مستقل اصول اور محکم دلیل ہی موجود نہیں ہے۔

اگر آپ حضرات اپنی عادت سے ذرا ہٹ کے مںصفانہ اور گہری نظر سے حقائق کیجئے تو اعتراف کیجئے گا کہ حقیقت اس کے علاوہ ہے جس کا ظاہر بظاہر شہرہ اور رواج ہے۔

چشمباز وگوش باز و این عمی خیرتم از چشم بندی خدا

شیخ : اگر آپ کے یہ بیانات صحیح ہوںکہ (بقول آپ کے ) اس معاملے پر گہری نگاہ ڈالنا چاہئیے تو ایسی صورت میں علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت بھی ڈانواں ڈول ہوجاتی ہے، کیونکہ جس اجماع نے خلفائے سابق( ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم) کو خلافت پر نصب کیا اور تقویت دی اسی نے علی کرم اللہ وجہہ کو بھی منتخب کیا اور خلافت پر مقرر کیا ہے۔

خیر طلب: آپ کا یہ بیان اس وقت درست ہوسکتا ہے جب کہ پہلے سے رسول خدا(ص) کے نصوص اور ارشادات موجود نہ ہوں حالانکہ علی علیہ السلام کی خلافت اجماع امت کی پابند نہ تھی بلکہ خدا و رسول (ص) کی جانب سے مںصوص تھی۔

خلافت علی(ع) خدا و رسول(ص) کی طرف سے منصوص تھی

اگر حضرت نے خلافت کا بار سنھبالا تو وہ اجماع یا لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اپنا حق واپس پانے کے صورت میں تھا، اس لیے کہ اگر کسی حق دار کا حق غصب کر لیا جائے تو چاہے مدتین گذر جائیں لیکن جس وقت موقع ہاتھ آجائے،حالات سازگار ہوجائیں اور مانع برطرف ہوجائے وہ اپنا حق وصول کرسکتا ہے ۔ چنانچہ جس روز مانع برطرف ہوا اور ماحول مقتضی ہوگیا حضرت نے احقاق حق فرمایا اور حق اپنے مرکز سے ملحق ہوگیا۔

آپ حضرات اگر بھول گئے ہوں تو رسائل واخبارات کے صفحات او خصوصی اشاعتوں کا مطالعہ فرمائیے جن میں وہ دلائل اور نصوص خلافت درج ہیں جن کو ہم نے گذشتہ راتوں میں پیش کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ خلافت ظاہری کی مسند پر حضرت کا قیام اجماع یا لو گوں کی توجہ کے سبب سے نہیں بلکہ آیات قرآنی و نصوص پیغمبر(ص) کی بنیاد پر تھا اور اپنے حق کی واپسی تھی۔

۱۵۹

آپ تو ایسی ایک بھی متفق علیہ حدیث نہیں پیش کرسکتے جس میں رسول اکرم(ص) نے فرمایا ہو کہ ابوبکر، عمر اور عثمان میرے وصی اور خلیفہ ہیں یا جس میں اموی اور عباسی خلفاء میں سے کسی کا نام لیا ہو۔ البتہ ( علاوہ توار کتب شیعہ کے) آپ کی تمام معتبر کتابوںمیں پیغمبر(ص) سے ایسی حدیثیں ضرور کثرت سے منقول ہیں جن میں آں حضرت (ص) نے علی علیہ السلام کو اپنی خلافت و وصایت پر نصب فرمایا ہے چنانچہ ان میں سے چند پچھلی راتوں میں اور حدیث ام سلمہ آج کی شب عرض کرچکا ہوں۔

شیخ : ہماری روایتوں میں بھی وارد ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا ابوبکر میرے خلیفہ ہیں۔

خیر طلب: گویا آپ ان دلائل کو بالکل بھول ہی گئے جو میں سابق راتوں میں ان احادیث کے بطلان پر قائم کرچکا ہوں، اور آج کی شب بھی میں آپ کو بغیر جواب کے نہیں چھوڑوں گا ۔ شیخ مجددالدین فیروز آبادی صاحب قاموس اللغات کتاب مضرالسعادت میں کہتے ہیں :

" إن‏ ما ورد في‏ فضائل‏ أبي بكر فهي من المفتريات التي يشهد بديهة العقل بكذبها "

یعنی فضائل ابوبکر میں جو کچھ بھی نقل ہوا ہے وہ ایسی افترا پروازیون میں سے ہے کہ عقل بدیہی طور پر اس کے جھوٹ ہونے کی گواہی دیتی ہے۔

علی(ع) کی خلافت اجماع سے قریب تر تھی

ان چیزوں کے علاوہ اگر آپ خلافت کے ظاہری طریقے پر اچھی طرح غور کریں تو خلفائے راشدین( ابوبکر، عمر، عثمان اور علی(ع)) اور اموی و عباسی خلفاء میں سے کسی ایک کے لیے بھی کوئی اجماع منعقد نہیں ہوا کہ تمام امت جمع ہوتی یا ساری امت کے باقاعدہ چنے ہوئے نمائیندے اکٹھا ہوتے اور بالاتفاق اس کی خلافت کے لیے رائے دیتے ۔ پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ دوسرےخلفاء کی نسبت بظاہر حضرت علی علیہ السلام ہی کی خلافت اجماع سے قریب تر تھی اس لیے کہ آپ کے علماء و مورخین لکھتے ہیں کہ خلافت خزرج کے ساتھ اپنی مخالفت کی وجہ سے بیعت کر لی کیونکہ اس نے سعد بن عبادہ کو امارت کا امیدوار نامزد کیا تھا۔ پھر آگے چل کر بعض نے ڈرانے دھمکانے سے ( جس کی تفصیل عرض کرچکا ہوں) اور ایک جماعت نے لالچ دلانے سے بیعت کی لیکن پھر بھی ایک گروہ نے مثلا سعد بن عبادہ کی پیروی میں اںصار نے آخر تک خلافت تسلیم نہیں کی پھر عمر کی خلافت تنہا ابوبکر کی تجویز سے قائم ہوئی جس میں اجماع اور رائے عامہ کا قطعا کوئی دخل تھا بلکہ یہ خلافت شاہانہ انداز کا ایک نمونہ تھی۔

اس کے بعد عثمان عمر کی بنائی ہوئی آمرانہ مجلس شوری کی سیاسی ترکیب سے مسند خلافت پر بیٹھے ۔ البتہ علی علیہ السلام کےقیام خلافت میں تقریبا سارے بلاد مسلمین کے اکثر نمائیندوں نے جو اتفاق سے دربار خلافت سے داد خواہی کرنکے لیے مدینے آئے ہوئے تھے، شریک ہو کر ایک بڑے اجماع کی تشکیل کی اور سبھی کے اصرار سے حضرت خلافت ظاہری

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

امام علیہ السلام سے کہنے لگے : اپنے ارادہ سے منصرف ہو جائیے! آپ کہاں جارہے ہیں ! امام علیہ السلام نے انکار کیا اور دونوں فریق اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہے یہاں تک کہ انھوں نے تازیانہ بلندکر لیا لیکن امام علیہ السلام اپنی راہ پر گامزن رہے۔ جب امام علیہ السلام کو ان لوگوں نے جاتے ہوئے دیکھاتوبلند آوازمیں پکارکر کہا : اے حسین !کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے جو جماعت سے نکل کر اس امت کے درمیان

تفرقہ اندازی کررہے ہو ! ان لوگوں کی باتیں سن کر امام علیہ السلام نے قران مجید کی اس آیت کی تلاوت فرمائی( : لِیْ عَمَلِیْ وَلَکُمْ عَمَلُکُمْ اَنْتُمْ بَرِيْئُوْنَ مِمَّا اَعْمَلُ وَاَنَا بَرِی ئْ مِمَّا تَعْمَلُوْنَ'' ) (١) و(٢)

اگر وہ تم کو جھٹلائیں تو تم کہہ دو کہ ہمارا عمل ہمارے لئے اور تمہاری کارستانی تمہارے لئے ہے، جو کچھ میں کرتا ہوں اس کے تم ذمہ دار نہیں اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے میں بری ہوں ۔

عبداللہ بن جعفر کاخط

چوتھے امام حضرت علی بن حسین بن علی (علیہم السلام) کا بیان ہے کہ جب ہم مکہ سے نکل رہے تھے تو عبداللہ بن جعفربن ابیطالب(٣) نے ایک خط لکھ کر اپنے دونوں فرزندوں عون و محمد(٤) کے ہمراہ روانہ کیا جس کی عبارت یہ ہے:

____________________

١۔ سورہ ٔیونس ٤١

٢۔ طبری، ج٥، ص ٣٨٥،ابو مخنف کا بیان ہے کہ حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے مجھ سے یہ روایت بیان کی ہے ۔

٣۔ آپ جنگ جمل میں امیر المومنین کے لشکر میں تھے اور عائشہ کو مدینہ پہنچانے میں آپ نے آنحضرت کی مدد فرمائی تھی ۔(طبری، ج٤، ص٥١٠)آپ کی ذات وہ ہے جس سے حضرت امیر المومنین کوفہ میں مشورہ کیا کرتے تھے۔ آ پ ہی نے حضرت کو مشورہ دیا تھا کہ محمد بن ابی بکر جو آپ کے مادری بھائی بھی تھے، کو مصر کا والی بنادیجئے۔ (طبری ،ج٤، ص ٥٥٤)آپ جنگ صفین میں بھی حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ تھے اور آپ کے حق میں بڑھ بڑھ کر حملہ کررہے تھے۔ (طبری ،ج٥ ، ص ١٤٨)بنی امیہ کے خلاف امام حسن علیہ السلام کے قیام میں بھی آپ ان کے مدد گار تھے (طبری ،ج٥،ص ١٦٠) اور جب صلح کے بعد سب مدینہ لوٹنے لگے تو دونو ں امامو ں کے ہمراہ آپ بھی مدینہ لوٹ گئے۔ (طبری ،ج٥ ، ص ١٦٥) آپ کے دونو ں فرزند عون و محمد امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ تھے۔ جب آپ تک ان کی شہادت کی خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا :''واللّه لو شهدته ،لأ حببت الّا أفارقه حتی أقتل معه'' خداکی قسم اگر میں موجود ہوتا تو واقعاً مجھے یہ محبوب تھا کہ میں ان سے جدا نہ ہو ں یہا ں تک کہ ان کے ہمراہ قتل ہوجاؤ ں ۔ (طبری ج٥ ، ص ٤٦٦)

٤۔یہ دونو ں امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ کربلامیں جام شہادت نوش فرماکرسرفراز ہوئے۔ طبری کے بیان کے مطابق عون کی ما ں جمانہ بنت مسیب بن نجبہ بن فزاری ہیں (مسیب بن نجبہ توابین کے زعماء میں شمار ہوتے ہیں ) اور محمد کی ما ں خو صاء بنت خصفہ بنت ثقیف ہیں جو قبیلہ بکربن وائل سے متعلق ہیں ۔

۲۲۱

'' امابعد ، فانّی أسألک باللّه لمّا انصرفت حین تنظر فی کتابی فانّی مشفق علیک من الوجه الذی تتوجه له أن یکون فیه هلاکک واستئصال اهل بیتک ، أن هلکت الیوم طفیٔ نور الارض فانک علم المهتدین ورجاء المؤمنین، فلا تعجل بالسیر فانّی فی أثر الکتاب؛ والسلام ''

اما بعد : جب آپ کی نگاہ میرے خط پر پڑے تو میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ اپنے ارادہ سے منصرف ہو جائیے ؛کیو نکہ آپ نے جس طرف کا رخ کیا ہے مجھے خوف ہے کہ اس میں آپ کی ہلا کت اور آپ کے خاندان کی اسیری ہے اور اگر آپ دنیا سے گذرگئے تو زمین کا نور خاموش ہو جا ئے گا؛ کیوں کہ آپ ہدایت یافتہ افراد کے پر چمدار اور مو منین کی امید ہیں ؛ لہٰذا آپ سفر میں جلدی نہ کریں ۔ میں اس خط کے پہنچتے پہنچتے آپ کی خدمت میں شر فیاب ہو رہا ہوں ۔ والسلام

عبد اللہ بن جعفر اس خط کے فوراًبعد عمرو بن سعید بن عاص کے پاس گئے اور اس سے گفتگو کرتے ہو ئے کہا : حسین (علیہ السلام) کو ایک خط لکھو جس میں تم ان کے امن وامان کا تذکرہ کرو ، اس میں ان سے نیکی اور صلہ رحم کی تمنا وآرزو کرو اور اطمینان دلا ؤ، ان سے پلٹنے کی درخواست کرو، شائد وہ تمہاری باتوں سے مطمئن ہو کر پلٹ آئیں اور اس خط کو اپنے بھائی یحٰی بن سعید کے ہمراہ روانہ کرو؛ کیو نکہ وہ زیادہ سزاوار ہے کہ اس سے وہ مطمئن ہوں اور ان کو یقین ہو جا ئے کہ تم اپنے قصد میں مصمم ہو۔عمر وبن سعید نے عبد اللہ بن جعفر کو جواب دیتے ہو ئے کہا : تم جو چا ہتے ہو لکھ کر میرے پاس لے آؤ میں اس پر مہر لگا دوں گا، بنابر یں عبد اللہ بن جعفر نے اس طرح نامہ لکھا :

بسم اللہ الر حمن الر حیم ،یہ خط عمر وبن سعید کی جانب سے حسین بن علی کے نام ہے ۔

اما بعد : میں خدا وند متعال سے در خواست کر تا ہوں کہ آپ کو ان چیزوں سے منصرف کر دے جس میں آپ کا رنج و ملال ہے اور جس میں آپ کی ہدایت ہے اس طرف آپ کو سر فراز کرے ۔مجھے خبر ملی ہے کہ آپ نے عراق کا رخ کیا ہے ۔

خداوند عالم آپ کو حکومت کی کشمکش او رمخالفت سے محفو ظ رکھے؛ کیونکہ مجھے خوف ہے کہ اس میں آپ کی ہلاکت ہے۔ میں آپ کی طرف عبداللہ بن جعفر اور یحٰبن سعید کوروانہ کررہا ہوں ؛آپ ان دونوں کے ہمراہ میرے پاس تشریف لے آئیے کیونکہ میرے پاس آپ کے لئے امان ، صلہ رحم ، نیکی اورخانہ خداکے پاس بہترین جائیگاہ ہے۔ میں خداوند عالم کو اس سلسلے میں گواہ ، کفیل ، ناظر اور وکیل قر ار دیتاہوں ۔ والسلام

۲۲۲

خط لکھ کر آپ اسے عمر و بن سعید کے پاس لے کر آئے اور اس سے کہا: اس پر مہر لگاؤ تواس نے فوراًاس پر اپنی مہر لگادی اور اس خط کو لے کرعبداللہ بن جعفر اور یحٰی امام علیہ السلام کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر آپ کی خدمت میں یحٰی بن سعیدنے خط پڑھا تو امام حسین علیہ السلام نے عمر و بن سعید کو خط کا جواب اس طرح لکھا:

بسم اللّہ الرحمن الرحیم

امابعد، فانه لم یشاقق الله ورسوله من دعاالی اللّٰه عزَّو جلَّ وعمل صالحاًو قال أنّنی من المسلمین؛وقد دعوت الیٰ الامان والبرّو الصلة فخیرالامان امان الله ولن یؤمّن اللّٰه یوم القیامةمن لم یخفه فی الدنیا، فنسأل اللّٰه مخافة فی الدنیاتوجب لنا أمانه یو م القیامة فان کنت نویت بالکتاب صلتی و برّی فجُزیتَ خیراًفی الدنیاوالآخرة ۔ والسلام

بسم اللّہ الرحمن الرحیم ، امابعد،ہر وہ شخص جو لوگوں کو خدائے عزّو جلّ کی طرف دعوت دیتاہے اور عمل صالح انجام دیتاہے اور کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں تو وہ خدااور رسول کی مخالفت نہیں کرتا ہے اور تم نے جو مجھے امان ، نیکی اور صلہ رحم کی دعوت دی ہے تو جان لو کہ بہترین امان خداوندمتعال کی امان ہے اور قیامت میں وہ شخص اللہ کی امان میں نہیں ہے جو دنیا میں اللہ سے نہیں ڈرتا ۔میں دنیامیں خدا سے اس خوف کی درخواست کرتا ہوں جو آخرت میں قیامت کے دن ہمارے لئے اما ن کا باعث ہو۔اب اگر تم نے اپنے خط کے ذریعہ میر ے ساتھ صلہ رحم اور نیکی کی نیت کی ہے تو تم کو دنیاوآخر ت میں اس کی جزا ملے گی۔

۲۲۳

وہ دونوں امام علیہ السلام کا جواب لے کرعمرو بن سعید کے پاس آئے اور کہنے لگے: ہم دونوں نے تمہارے خط کو ان کے سامنے پڑھا اور اس سلسلے میں بڑی کو شش بھی کی لیکن اس سلسلہ میں ان کا عذر یہ تھا کہ وہ فر ما رہے تھے :'' انّی رأیت رؤیاً فیهارسول اللّٰه صلّی اللّٰه علیه (وآله) وسلم وأُمرتُ فیها بأ مرٍأنا ما ضٍ له، علیّ کان أولٰ''

میں نے ایک ملکو تی خواب دیکھا ہے جس میں رسو ل خدا صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم موجو د تھے۔ اس خوا ب میں آپ نے مجھ کو ایک چیز کا حکم دیا گیا ہے۔میں اس پر ضرور عمل کروں گا اور یہ مجھ پر سب سے زیادہ اولیٰ ہے۔

جب ان دونوں نے امام علیہ السلام سے پوچھا کہ وہ خواب کیا تھا ؟تو آپ نے فر مایا :'' ما حدثت بها أحداً وما أنا محدّ ث بها حتی ألقی ربِّی'' (١) اور(٢) میں یہ خواب کسی سے بیان نہیں کرسکتا اور نہ ہی میں یہ خواب کسی سے بیان کرنے والا ہوں یہاں تک کہ اپنے رب سے ملا قات کر لوں ۔

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ حارث بن کعب والبی نے علی بن الحسین (علیہما السلام) کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥،ص٣٨٨)

٢۔امام علیہ السلام یہ مناسب نہیں دیکھ رہے تھے کہ اپنے سفر کے رازسے سب کو آشنا کر تے کیو نکہ انسان جوکچھ جا نتا ہے وہ سب بیان نہیں کر دیتا ہے خصوصاً جبکہ انسان ظرف و جودکے لحاظ سے مختلف و متفاوت ہو ں اور امام علیہ السلام پر واجب ہے کہ ہر شخص کو اس کے وجود کی وسعت اور معرفت کی گنجا ئش کے اعتبار سے آشنائی بہم پہنچائی ں ، اسی لئے امام علیہ السلام نے ان لوگو ں کو ایک واقعی جو اب دیدیا کہ''لم یشا قق الله ورسوله من دعا الی اللّٰه وعمل صالحاً ...وخیر الا مان أمان اللّٰه و لن یؤمن اللّٰه یوم القیامةمن لم یخفه فی الدنیا فنسأل اللّٰه مخافةفی الدنیا تو جب لنا أما نه یوم القیامه ''

اور جب وہ لوگ اس جواب سے قانع نہ ہو ئے تو امام علیہ السلام نے کہہ دیاکہ آپ کو ایک ایسے خواب میں حکم دیا گیا ہے جس میں خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود تھے کہ آپ اپنے سفر کو جاری رکھی ں ؛ لیکن آپ نے اس خواب کو بیان نہیں کیا اور یہ کہہ کربات تمام کردی : ''وما أنا محدث لها حتی ألقی ربی ''

شاید یہیں پرا حمد بن اعثم کوفی متوفی ٣١٠ ھ نے امام علیہ السلام کے اس خواب کا تذکر ہ کر دیا ہے جو آپ نے اپنے جد کی قبر پر مد ینہ میں دیکھا تھا لیکن یہ کیسے معلوم کہ یہ خواب وہی ہے ؟ جب امام علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ خواب خدا کی ملا قات سے قبل میں کسی سے بھی بیان نہیں کرو ں گا یعنی یہ وہی بات ہے جس کا میں نے عہد کیا ہے ۔ واللہ اعلم بہ ، اللہ اس سے بہتر آگاہ ہے۔

۲۲۴

راستہ کی منزلیں

* پہلی منزل: تنعیم

* دوسری منزل : صفاح

*تیسری منزل : حاجر

* چوتھی منزل:چشمۂ آب

* پانچویں منزل : خزیمیہ

* زہیر بن قین کا امام علیہ السلام سے ملحق ہونا

* ایک اور نامہ

* چھٹی منزل :زرود

* ساتویں منزل :ثعلبیہ

* آٹھویں منزل:زبالہ

* نویں منزل : درّہ عقبہ

* دسویں منزل : شراف

* گیارہویں منزل : ذو حسم

* بارہویں منزل : البیضہ

* تیرہویں منزل : عذیب الھجانات

* چودہویں منزل : قصر بنی مقاتل

* قربان گاہ عشق نینوا

۲۲۵

راستہ کی چودہ (١٤)منزلیں

پہلی منزل :تنعیم(١)

امام حسین علیہ السلام نے اپنے سفرکو جاری رکھااورراستہ میں آپ کا گذرایک ایسی جگہ سے ہوا جسے تنعیم کہتے ہیں ۔ وہاں آپ کی ملاقات ایک قافلہ سے ہوئی جسے بحیر بن ریسان حمیر ی(٢) نے یزید بن معاویہ کی طرف روانہ کیا تھا۔ یہ شخص یمن میں یزید کاکار گزار تھا۔ اس قافلہ کے ہمراہ الورس(٣) اور بہت سارے شاہانہ لباس تھے جسے عامل یمن نے یزید کے پاس روانہ کیا تھا۔امام علیہ السلام نے اس کا روان کے سارے بار کو اپنی گرفت میں لے لیا اور قافلہ والوں سے فرمایا :''لا أکر هکم من أحب أن یمضی معنا الی العراق أوفینا کراء ه وأحسنا صحبته، ومن أحب أن یفارقنا من مکاننا هذا أعطیناه من الکراء علیٰ قدر ماقطع من الارض''

____________________

١۔یہ مکہ سے دوفرسخ پر ایک جگہ ہے جیساکی معجم البلدان ج٢،ص٤١٦پر مرقوم ہے ۔ مکہ کے داہنی جانب ایک پہاڑہے جسے تنعیم کہتے ہیں اور شمالی حصہ میں ایک دوسراپہاڑہے جسے ''ناعم ''کہتے ہیں او راس وادی کو ''نعیمان''کہتے ہیں ۔وہا ں پر ایک مسجد موجود ہے جو قر یب ترین میقات اورحرم سے نزدیک ترین احرام سے باہر آنے کی جگہ ہے آج کل یہ جگہ مکہ کے مرکزی علاقہ سے ٦ کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے جس کا مطلب یہ ہو ا کہ ایک فرسخ ہے نہ کہ دو فرسخ ۔ اس وقت شہر سے لے کر یہا ں تک پورا ایک متصل اور وسیع علاقہ ہے جو مدینہ یا جدہ سے مکہ آنا چاہتا ہے اسے ادھر ہی سے ہو کر گذرنا پڑتا ہے۔

٢۔گویایہ وہی شخص ہے جو علم نجوم میں صاحب نظر تھاکیونکہ اس نے عبداللہ بن مطیع کو بتایا تھا کہ جب ابن زبیر قیام کرے گا تو وہ کوفہ کاوالی بنے گا۔(طبری ،ج٦، ص ٩) طاوؤ س یمانی جو بہت معروف ہیں اس شخص کے آقا تھے۔طاوؤ س یمانی نے مکہ میں ١٠٥ھ میں وفات پائی۔(طبری، ج٦، ص٢٩)

٣۔ الورس؛ یہ خاص قسم کی گھاس ہے جو تل کی طرح ہوتی ہے اور رنگ ریزی کے کام آتی ہے اور اس سے زعفران بھی بنایا جاتا ہے۔ یہ گھاس یمن کے علاوہ کہیں بھی نہیں ملتی ہے۔

ممکن ہے کہ بادی النظر فکر میں کسی کو امام علیہ السلام کا یہ فعل العیاذباللہ نا مناسب لگے کہ آپ نے درمیان سے قافلہ کے بار کو اپنی گرفت میں کیو ں لیا؟ یہ تو غصب ہے لیکن وہ افراد جو تاریخ کی ابجد خوانی سے بھی واقف ہو ں گے وہ بالکل اس کے برعکس فیصلہ کری ں گے۔ ہمارے عقیدہ کے مطابق تو امام علیہ السلام کا کام غلط ہوہی نہیں سکتا، انھو ں نے جو کیا وہی حق ہے لیکن ایک غیر کے لئے تا ریخ کی ورق گردانی کافی ہوگی اور جب وہ تاریخ کے اوراق میں امام حسن علیہ ا لسلام کی صلح کے شرائط پر نگاہ ڈالے گا تو ظاہری اعتبار سے بھی یزید کا تخت حکومت پر براجمان ہونا غلط ثابت ہوگا اور وہ ایک باغی شمار کیا جائے گا جس نے مسلمانو ں کے بیت المال کو غصب کیاہے اور امام حسین علیہ السلام امت مسلمہ کے خلیفہ قرار پائی ں گے جن کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی ہر ممکن کوشش صرف کرکے اس غاصب و باغی تک اموال مسلمین پہنچنے سے مانع ہو ں پس یمن کے اس قافلہ کو روک کر اموال کو اپنی گرفت میں لینا امام علیہ السلام کا اولین فریضہ تھا لہٰذا ہم ملاحظہ کرتے ہیں کہ امام علیہ السلام نے قافلہ والو ں سے بڑی دلنشین گفتگو کی جب کہ ظالم وجابر حکومت کی نگاہ میں ایسے افراد لائق گردن زدنی یا قابل قید و بندہوتے ہیں ۔(مترجم)

۲۲۶

میں تم لوگوں پر کوئی زبر دستی نہیں کرتا لیکن تم میں جو یہ چاہتا ہے کہ ہمارے ساتھ عراق چلے تو ہم اس کو کرایہ سفر بھی دیں گے اور اس کی ہمراہی کو خوش آمدید بھی کہیں گے اور جو ہم سے یہیں سے جدا ہونا چاہتا ہے اسے بھی ہم اتنا کرایہ سفر دے دیں گے کہ وہ اپنے وطن تک پہنچ جائے ۔

امام علیہ السلام کی اس دلنشین گفتار کے بعد جو بھی اس قافلہ نور سے جدا ہوا اسے امام علیہ السلام نے اس کا حق دے دیا اور جس نے رکنا چاہا اسے کرایہ دینے کے علاوہ اما م علیہ السلام نے لباس بھی عطا کیا۔(١)

دوسری منزل : الصفاح(٢)

عبداللہ بن سلیم اسدی اور مذری بن مشمعل اسدی کا بیان ہے کہ پہلی منزل سے چلنے کے بعدہم لوگ امام حسین علیہ السلام کے قافلہ کے ہمراہ دوسری منزل پر پہنچے جسے '' الصفاح '' کہتے ہیں اور وہاں ہماری ملاقات فرزدق بن غالب(٣) شاعر سے ہوئی۔ وہ حسین علیہ السلام کے پاس آئے اور کہا: خدا وند متعال آپ کی حاجت کو پورا کرے اور آ پ کی تمنا و آرزو کو منزل مراد تک پہنچائے ۔

____________________

١۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری،ج٥، ص ٣٨٥)

٢۔یہ جگہ حنین اور انصاب الحرم کے درمیان ہے جو بہت آ سانی سے مکہ میں داخل ہونے کا راستہ ہے ۔

٣۔ اس شخص کا نام ھمام بن غالب بن صعصہ ہے۔ ان کے دونو ں چچا'' ذھیل'' اور ''زحاف ''بصرہ میں زیاد بن سمیہ کے دیوان میں دو دو ہزار بخشش لیا کرتے تھے ۔انھو ں نے بنی نہشل اور فقیم کی ہجو میں اشعار کہے تو ان دونو ں نے زیاد سے جا کر ان کی

۲۲۷

شکایت کی ۔جب اس نے فرزدق کو طلب کیا تویہ وہا ں سے بھاگ گئے۔ اس کے بعد نوبت یہ آ گئی جب زیاد بصرہ آتا تھا تو فرزدق کوفہ آجاتے تھے اور جب وہ کوفہ آتا تھا تو فرزدق بصرہ روانہ ہوجاتے تھے۔ واضح رہے کہ زیاد ٦ مہینہ بصرہ رہتا تھااور ٦ مہینہ کوفہ کے امور سنبھالتا تھا۔ اس کے بعد یہ حجاز چلے گئے اور وہیں مکہ ومدینہ میں رہنے لگے۔اس طرح زیاد کی شرارتو ں سے بچ کر سعید بن عاص کی پناہ میں رہنے لگے یہا ں تک کہ زیاد ہلاک ہوگیا(طبری، ج٥، ص ٢٤٢، ٢٥٠)تو انھو ں نے اس کی ہجو میں مرثیہ کہا :

بکیت امرئً امن آ ل سفیان کافراً ککسری علی عدوانہ أو کقیصراً (طبری، ج٥،ص ٢٩٠)میں نے آل سفیان کے ایک مرد پر گریہ کیا جو کافر تھا جیسے قیصر و کسری اپنے دشمن پر روتے ہیں ۔

ابن زیاد کی ہلاکت کے بعد یہ دوبارہ بصرہ پلٹ گئے اور وہیں رہنے لگے۔ ٦٠ھمیں یہ اپنی ما ں کے ہمراہ حج پر آ رہے تھے جب ان کی امام حسین علیہ السلام سے ملاقات ہوئی شاید اسی لئے حسین علیہ السلام کے ہمراہ کربلا میں حاضری نہ دے سکے۔ (طبری، ج٥، ص ٣٨٦) انھو ں نے حجاج کے لئے بھی شعر کہے ہیں ۔(طبری ،ج٦،ص ٣٨٠و ٩٣٩٤) سلیمان بن عبدالملک کے محل میں بھی ان کی آمد ورفت تھی۔ (طبری ،ج٥، ص ٥٤٨)١٠٢ھ تک یہ شاعر زندہ رہے۔(طبری ،ج٥، ص ٢٤٢ ، ٢٥٠) بنی نہشل کی ہجو میں جب انھو ں نے اشعار کہے تھے تو یہ جوان تھے بلکہ ایک نوجوان اعرابی تھے جو دیہات سے آئے تھے۔ (طبری ،ج٥ ، ص ٢٤٢) ایسی صورت میں امام علیہ السلام سے ملاقات کے وقت ان کی عمر ٣٠سال سے کم تھی۔

امام علیہ السلام نے اس سے کہا :''بيّن لنا نبأ الناس خلفک'' تم جس شہر اور جہا ں کے لوگو ں کو اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو ان کی خبری ں ہمارے لئے بیان کرو ۔فرزدق نے کہا : آ پ نے واقف کار شخص سے سوال کیا ہے تو سنئے :'' قلوب الناس معک ''لوگو ں کے دل آپ کے ساتھ ہیں ''و سیوفهم مع بنی امیه'' اور ان کی تلواری ں بنی امیہ کے ساتھ ہیں'' والقضاء ینزل من السمائ'' لیکن فیصلہ و قضا تو خدا وند عالم کی طرف سے ہے ''واللّہ یفعل ما یشائ'' اور اللہ وہی کرتا ہے جو چاہتا ہے۔

۲۲۸

امام حسین علیہ السلام نے ان سے کہا : تم نے سچ کہا، اللہ جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے ؛ہمارے رب کی روزانہ اپنی ایک خاص شان ہے لہٰذا اگر اس کا فیصلہ ایسا ہوا جو ہمیں محبوب ہے تو اس کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کریں گے اور شکر کی ادائیگی میں وہ ہمارا مدد گا ر ہے اور اگرفیصلہ الہٰی ہماری امیدوں کے درمیان حائل ہوگیا تب بھی اس شخص کے لئے کچھ نہیں ہے جس کی نیت حق اور جس کی سرشت تقویٰ ہے۔ یہ کہہ کر امام علیہ السلام نے اپنی سواری کو حرکت دی تو انھوں نے امام کو سلام کیا اور دونوں جدا ہوگئے۔(١) و(٢) جب عبیداللہ بن زیاد کو خبر ملی کہ امام حسین علیہ السلام مکہ سے عراق کی طرف آرہے ہیں تو اس نے اپنی پولس کے سربراہ حصین بن تمیم تمیمی کو روانہ کیا۔ اس نے مقام قادسیہ میں آکر پڑاؤ ڈالا اور قادسیہ(٣) و خفا ن(٤) کے درمیان اپنی فوج کو منظم کیا اسی طرح قادسیہ اور قطقطانہ(٥) اورلعلع کے درمیان اپنی فوج کو منظم کرکے کمین میں لگادیا۔(٦)

____________________

١۔ ابومخنف کا بیان ہے کہ ابی جناب نے عدی بن حرملہ سے اور اس نے عبداللہ بن سلیم سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥، ص ٣٨٦) یہ بیان اس بیان سے میل نہیں کھاتا جو ان دونو ں سے عنقریب بیان ہو گا کہ یہ دو نو ں کہتے ہیں کہ ہم لوگ مقام '' زرود میں امام علیہ السلام سے ملحق ہوئے اور یہ منزل صفاح کے بعد کوفہ کے راستہ میں چندمنازل کے بعد ہے مگر یہ کہا جائے کہ ان کے قول''اقبلنا حتی انتھینا ''کا مطلب یہ ہوکہ ہم لوگ کوفہ سے روانہ ہوکر صفاح تک پہنچے جو مکہ میں داخل ہونے کا راستہ ہے پھر مناسک حج انجام دینے کے بعد منزل زرود میں امام علیہ السلام سے دوبارہ ملحق ہوگئے ۔

٢۔طبری نے کہا : ہشام نے عوانہ بن حکم کے حوالے سے، اس نے لبطہ بن فرزدق بن غالب سے اور اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ اس کے باپ نے کہا : میں نے ٦٠ھ میں حج انجام دیا اور ایام حج میں حرم میں داخل ہو ا تو دیکھا حسین بن علی مکہ سے نکل رہے ہیں میں ان کے پاس آیا اورعرض کی: بأبی أنت و أمی یا بن رسول اللّٰہ! ما اعجلک عن الحج؟ فرزند رسول خدا میرے ما ں باپ آپ پر قربان ہوجائی ں !آپ کو اتنی بھی کیا جلدی تھی کہ آپ حج چھوڑ کر جارہے ہیں ؟ امام علیہ السلام نے جواب دیا : لو لم أعجل لأْ خذت اگر میں جلدی نہ کرتا تو پکڑ لیا جاتا ۔ فرزدق کہتا ہے کہ پھر آپ نے مجھ سے پوچھا ممن أنت ؟تم کہا ں کے رہنے والے ہو ؟ تو میں نے جواب دیا : میں عراق کا رہنے والا ایک شخص ہو ں ؛ خدا کی قسم !اس سے زیادہ انھو ں نے میرے بارے میں تفتیش نہیں کی ؛ بس اتنا فرمایا : جن لوگو ں کو تم اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو مجھے ان کی خبر بتاؤ تو میں نے کہا: انکے قلوب آپ کے ساتھ ہیں اور تلواری ں بنی امیہ کے ہمراہ ہیں اور قضاء اللہ کے ہاتھ میں ہے۔آپ نے مجھ سے فرمایا : تم نے سچ کہا! پھر میں نے نذر اور مناسک حج کے سلسلہ میں کچھ سوالات کئے تو آپ نے اس کے جواب سے مجھے بہرہ مند فرمایا۔(طبری، ج٥، ص ٣٨٦)

٣۔قادسیہ او ر کوفہ کے درمیان ١٥ فرسخ کی مسافت ہے اور اس کے وعذیب کے درمیان ٤میل کا فاصلہ ہے اور اسے دیوانیہ کہتے ہیں ۔ حجاز کے دیہات کی طرف یہ(قادسیہ) عراق کا سب سے پہلا بڑاشہر ہے۔ اسی جگہ پر عراق کی سب سے پہلی جنگ بنام جنگ قادسیہ سعد بن ابی وقاص کی قیادت میں ہوئی ہے ۔

٤۔ یہ ایک قریہ ہے جو کوفہ سے نزدیک ہے جہا ں بنی عباس کا ایک پانی کاچشمہ ہے جیسا کہ معجم البلدان، ج ٣ ، ص٤٥١ پر موجود ہے ۔

٥۔ قطقطانہ ، رہیمہ سے کوفہ کی طرف تقریباً ٢٠میل کے فاصلہ پرہے۔ (طبری، ج٧ ، ص ١٢٥) یعقوبی کا بیان ہے : جب امام علیہ السلام کومسلم کی شہادت کی خبر ملی تو آپ قطقطانہ میں تھے۔ (طبری، ج٢، ص ٢٣٠)

٦۔ابو مخنف کا بیان ہے : مجھ سے یونس بن ابی اسحاق سبیعی نے اس کی روایت کی ہے۔(طبری ،ج٥،ص٣٩٤)

۲۲۹

تیسری منزل : حاجر(١)

اس کے بعد امام حسین علیہ السلام اپنے مقصد کی طرف روانہ ہوتے ہوئے حاجر بطن رمہ(٢) تک پہنچے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے قیس بن مسہر صیداوی کو اہل کوفہ کی طرف روانہ کیا اور ان کے ہمراہ اہل کوفہ کے نام ایک خط لکھا :

''بسم اللّه الرحمن الرحیم ! من الحسین بن علی الی اخوانه من المومنین و المسلمین، سلام علیکم : فانّی أحمد الیکم اللّٰه الذی لا اله الا هو ، أما بعد ، فان کتاب مسلم بن عقیل جاء ن یخبرن فیه بحسن رأیکم و اجتماع ملئکم علی نصرنا و الطلب بحقنا فسألت اللّٰه أن یحسن لنا الصنع وأن یثیبکم علی ذالک أعظم الاجر ، وقدشخصت من مکة یوم الثلاثاء لثمان مضین من ذی الحجه یوم التروية فاذا قدم علیکم رسول فا کمشوا أمرکم و جدّ وا، فان قادم علیکم فأیام هٰذه، ان شاء اللّٰه؛ والسلام علیکم ورحمة اللّه وبرکا ته ''

بسم اللّہ الرحمن الرحیم ! یہ خط حسین بن علی کی جانب سے اپنے مومنین و مسلمین بھائیوں کے نام، سلام علیکم ، میں اس خدا کی حمد و ثنا کرتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ۔امابعد ، حقیقت یہ ہے کہ مسلم بن عقیل کا خط مجھ تک آچکا ہے، اس خط میں انھوں نے مجھے خبر دی ہے کہ تم لوگوں کی رائے اچھی ہے اور تمہارے بزرگوں نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ وہ ہماری مدد کریں گے اور ہمارے حق کو ہمارے دشمنوں سے واپس لے لیں گے تو میں خدا سے سوال کرتا ہوں کہ وہ ہمارے لئے اچھی راہ قرار دے اور اس کے ثواب میں تم لوگوں کو اجرعظیم سے نوازے ۔

____________________

١ ۔حاجرنجد کی بلند وادی کو کہتے ہیں ۔

٢۔ بطن رمہ وہ جگہ ہے جہا ں اہل کو فہ و بصرہ اس وقت یکجا ہوتے تھے جب وہ مدینہ جانے کا ارادہ کرتے تھے جیسا کہ معجم البلدان، ج ٤،ص ٢٩٠،اور تاج العروس، ج ٣،ص١٣٩پر مرقوم ہے۔

۲۳۰

اس سے تم لوگ آگاہ رہوکہ میں بروز سہ شنبہ ٨ ذی الحجہ یوم الترویہ مکہ سے نکل چکا ہوں لہذا جب میرا نامہ بر تم لوگوں تک پہنچے تو جو کام تم کو کرنا چاہئیے اس کی تدبیر میں لگ جاؤ اور اس مسئلہ میں بھر پور کوشش کرو کیونکہ میں انشا ء اللہ انہی چند دنوں میں تم تک پہنچنے والا ہوں ۔ والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

امام حسین علیہ السلام کا یہ خط لے کر قیس بن مسہر صیداوی کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے۔آپ جب قادسیہ پہنچے تو حصین بن تمیم نے آپ کو گرفتار کر کے عبیداللہ بن زیاد کے پاس بھیج دیا ۔

ابن زیاد نے آپ سے کہا محل کی چھت پر جاؤ اور کذاب بن کذاب کو گالیاں دو !

قیس بن مسہر شجاعت وشہا مت کے ساتھ محل کی چھت پر آئے اور کہا :'' أیھا الناس ! ان الحسین علیہ السلام بن علی خیر خلق اللّٰہ ابن فاطمہ بنت رسول اللہ وأنا رسولہ الیکم وقد فارقتہ بالحاجر فأجیبوہ ثم لعن عبید اللہ بن زیاد وأباہ واستغفر لعلیِّ بن أبی طالب '' اے لوگو ! حسین بن علی خلق خدا میں بہتر ین مخلوق ہیں ، آپ فرزند فاطمہ بنت رسول خدا ہیں اور میں ان کا نامہ بر ہوں ، میں ان کو مقام حاجر میں چھوڑ کر یہاں آیا ہوں ۔ تم لوگ ان کی عدالت خواہ آواز پر لبیک کہنے کے لئے آمادہ ہو جاؤ پھر آپ نے عبید اللہ اور اس کے باپ پر لعنت کی اور علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کے لئے طلب مغفرت کی۔عبید اللہ نے حکم دیا کہ انھیں محل کے اوپر سے نیچے پھینک دیا جائے، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور آپ کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا۔اس طرح آپ شہید ہو گئے ۔] اللہ آپ پر نزول رحمت فر مائے[(١)

چو تھی منزل : چشمۂ آب

امام حسین علیہ السلام کا قافلہ کوفہ کی طرف رواں دواں تھا؛ راستے میں آپ کا قافلہ عرب کے ایک پا نی کے چشمہ کے پاس جا کر ٹھہرا۔ وہاں عبد اللہ بن مطیع عدوی بھی موجود تھے جو پا نی لینے کی غرض سے وہاں اترے تھے۔جیسے ہی عبد اللہ بن مطیع نے امام حسین علیہ السلام کو دیکھا ویسے ہی آپ کی خدمت میں

____________________

١۔ کتاب کے مقدمہ میں شرح احوال موجود ہے۔

۲۳۱

آکر کھڑے ہو گئے اور عرض کی: فرزند رسول خدا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں !کون سا سبب آپ کو یہاں تک لے آیا ؟

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : اہل عراق نے خط لکھ کر مجھے اپنی طرف بلا یا ہے۔عبد اللہ بن مطیع نے آپ سے عرض کیا: فرزند رسول اللہ آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ اس راہ میں آپ اسلام کی ہتک حرمت نہ ہو نے دیں ، میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ(وآلہ) وسلم کی حرمت خطرے میں نہ پڑے ،خدا کے لئے عرب کی حرمت خطرے میں نہ ڈالئے۔خدا کی قسم! اگر حق کو بنی امیہ سے واپس لینا چاہیں گے تو وہ آپ کو قتل کر ڈالیں گے اور اگر ان لوگوں نے آپ کو قتل کردیا تو آپ کے بعد کسی کو نگا ہ میں نہیں لا ئیں گے ۔(١) خدا کی قسم! اسلام کی حرمت، قریش کی حرمت ہے اورعربوں کی حرمت خاک میں مل جائے گی ،پس آپ ایسا نہ کریں اور کوفہ نہ جائیں اور بنی امیہ سے نہ الجھیں !عبد اللہ بن مطیع نے اپنے نظر یہ کو پیش کیا اور امام علیہ السلام اسے بغور سنتے رہے لیکن اپنے راستے پر چلتے رہے۔

پانچو یں منزل:خزیمیہ(٢)

امام حسین علیہ السلام کا سفر اپنے مقصد کی طرف جاری تھا۔ چلتے چلتے پھر ایک منزل پررکے جو مقام '' زرود'' سے پہلے تھی یہاں پر پانی موجود تھا،(٣) اس جگہ کا نام خزیمیہ ہے ۔

____________________

١۔ امام کے عمل سے نہ تو اسلام کی بے حرمتی ہوئی نہ ہی رسول خدا ، عرب اور قریش کی ہتک حرمت ہوئی بلکہ اسلام دشمن عناصر کی کا رستا نیو ں سے یہ سب کچھ ہوا ۔ابن مطیع نے اپنے اس جملہ میں خطا کی ہے جو یہ کہہ دیا کہولئن قتلوک لا یها بون بعد ک احداابدا کیونکہ امام علیہ السلام کے بعد ان لوگو ں کو جرأ ت ملی جو مکہ ومدینہ وکوفہ میں اس سے پہلے اپنے ہاتھو ں میں چوڑیا ں پہنے بیٹھے تھے انھی ں میں سے خود ایک ابن مطیع بھی ہے جو ابن زبیر کے زمانے میں کوفہ کا والی بنا۔ اگر امام حسین علیہ السلام نے قیام نہ کیا ہوتا تو بنی امیہ کے خلا ف کسی میں جرأ ت پیدا نہ ہوتی اور اسلام کو مٹا نے میں وہ جو چاہتے وہی کرتے ۔

٢۔یہ جگہ مقام زرود سے پہلے ہے اس کے بعدکاراستہ کوفہ جانے والو ں کے لئے ہے جیسا کہ معجم البلدان میں آیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے اس کے اورثعلبیہ کے درمیان ٣٢کیلومیٹرکا فاصلہ ہے۔ یہ درحقیقت ثعلبیہ کے بعدحجاج کی پہلی منزل ہے۔

٣۔ طبری ،ج٥،ص ٣٩٤، ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے محمد بن قیس نے یہ روایت بیان کی ہے ۔شاید یہ قیس بن مسہر کے فرزند ہیں ۔

۲۳۲

زہیر بن قین کا امام حسین علیہ السلام سے ملحق ہونا

قبیلہء بنی فنرارہ کے ایک مرد کا بیان ہے : ہم زہیر بن قین بجلی کے ہمراہ تھے اور ہم اسی راستے پر چل رہے تھے جس راستہ پر حسین (علیہ السلام) محو سفر تھے لیکن ہمارے لئے سب سے زیادہ نا پسند امر یہ تھا کہ ہم ان کے ہمراہ ایک ساتھ سفر کریں اور ایک منزل پر ٹھہریں لہٰذ ا زہیر کے حکم کے مطا بق حسین جہاں ٹھہر تے تھے ہم وہاں سے آگے بڑھ جا تے اور وہ جہاں پر آگے بڑھتے ہم وہاں پڑاؤ ڈال کر آرام کرتے تھے؛ لیکن راستے میں ہم ایک ایسی منزل پر پہنچے کہ چارو نا چار ہم کو بھی وہیں پر رکنا پڑا جہاں پر امام حسین نے پڑاؤ ڈالا تھا۔ امام حسین نے ایک طرف اپنا خیمہ لگا یا اور ہم نے اس کے دوسری طرف ؛ ہم لوگ ابھی بیٹھے اپنے خیمے میں کھا نا ہی کھا رہے تھے کہ یکایک حسین کا پیغام رساں حاضر ہوا اور اس نے سلام کیاپھر خیمہ میں داخل ہوا اور کہا : اے زہیر بن قین ! ابو عبد اللہ حسین بن علی نے مجھے تمہاری طرف بھیجا ہے تا کہ تم ان کے پاس چلو۔ اس جملہ کا اثر یہ ہوا کہ حیرت وتعجب سے جس انسان کے ہاتھ میں جو لقمہ تھا وہ نیچے گر گیا؛ سکوت کا یہ عالم تھا کہ ایسا محسوس ہو تا تھا کہ ہم سب کے سروں پر طائر بیٹھے ہیں ۔(١) زہیر بن قین کی زوجہ دلھم بنت عمر کہتی ہے کہ میں نے زہیر سے کہا : فرزند رسول اللہ تمہارے پاس پیغام بھیجے اور تم ان کے پاس نہ جائو !سبحان اللہ! اگر انھوں نے مجھے بلایا ہوتاتو میں ضرور جاتی اور ان کے گہر بار کلام کو ضرور سنتی، پھر میں نے کچھ نہ کہا لیکن زہیر بن قین اٹھے اور امام علیہ السلام کی بارگاہ میں روانہ ہوگئے ۔ابھی کچھ دیر نہ گزری تھی کہ واپس آگئے لیکن اب تو بات ہی کچھ اور تھی؛ چہرے پر خوشی کے آثار تھے اور چہرہ گلاب کی طرح کھلا جارہاتھا۔

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سدّی نے بنی فزارہ کے ایک جوان کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ جب حجاج بن یوسف کے زمانے میں ہم لوگ زہیر بن قیس بجلی کے مکان میں چھپے تھے جہا ں اہل شام داخل نہیں ہو تے تھے تو میں نے فزاری سے پوچھا: ذرا مجھ سے اس واقعہ کو بیان کرو جب تم لوگ حسین بن علی کے ہمراہ، سفر میں تھے تو اس نے یہ روایت بیان کی۔(طبری، ج٥، ص ٣٩٦، ارشاد، ص ٢٢١، خوارزمی، ص٣٢٥)

۲۳۳

اسی عالم میں زہیر نے اپنے ہمراہیوں سے کہا : تم میں سے جو ہمارے ساتھ آناچاہتا ہے آ جائے اور اگر نہیں تو اب اس سے میرا یہ آخری دیدار ہے۔اس کے بعداپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے زہیر نے کہا : میں تم لوگوں سے ایک روایت بیان کرنا چاہتا ہوں ، اسے غور سے سنو !ہم لوگ جب مقام '' بلنجر ''(١) پر لڑنے کے لئے گئے تو خداوندمتعال نے ہم لوگوں کو دشمنوں پر کامیابی عطاکی اور بڑی مقدار میں مال غنیمت بھی ہاتھ آیا۔اس وقت سلمان باہلی(٢) نے ہم لوگوں سے کہا : کیا تم لوگ اس بات پر خوش ہو کہ خدا وند عالم نے تم لوگوں کو فتح و ظفر سے نوازاہے اور کافی مقدار میں مال غنیمت تمہارے ہاتھوں لگاہے ؟ ہم لوگوں نے کہا : ہاں کیوں نہیں !تواس نے ہم لوگوں سے کہا : جب تم لوگ آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کی جوانی دیکھو گے تو تمہاری ان کے ساتھ جنگ کی خوشی اس مال غنیمت ملنے کی خوشی سے زیادہ ہو گی اورجہاں تک میری بات ہے تو اب میں تم لوگوں سے خدا حافظی کر تا ہوں ۔

پھر زہیر بن قین نے اپنی زوجہ کی طرف رخ کرتے ہوئے کہا : اب میں تم کو طلا ق دے رہا ہوں تاکہ تم آزاد ہو جاؤ اورگھروالوں کے پاس جا کر وہیں زندگی بسر کرو؛ کیونکہ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میری وجہ سے تمہیں کوئی نقصان پہنچے۔میں تمہارے لئے بہتری چاہتاہوں ۔(٣) و(٤)

____________________

١۔ یہ تاتا ریو ں (یا خزریو ں) کا شہر ہے جو انہیں کے دروازو ں میں سے ایک دروازے کے نزدیک ہے ٣٣ھ عہد عثمان میں سلمان بن ربیعہ باہلی کے ہاتھو ں یہ جنگ فتح کی گئی جیسا کہ معجم البلدان میں یہی موجود ہے ۔

٢۔ طبری ،ج٤، ص ٣٠٥ پر ہے کہ سلمان فارسی اور ابو ہریرہ اس جنگ میں لشکر کے ہمراہ موجود تھے ۔یہ بیان ابن اثیر کی الکامل میں ہے (ج ٤،ص ١٧)پھریہ بیان ہے کہ جس شخصیت نے ان لوگو ں سے یہ گفتگوکی وہ سلمان فارسی ہیں نہ کہ باہلی۔ ابن اثیر نے ا پنی تاریخ الکامل فی التاریخ میں اس بات کا ارادہ کیا ہے کہ تاریخ طبری کو کامل کری ں لہٰذاوہ اکثرو بیشتر اخبار میں طبری سے ناقل دکھائی دیتے ہیں ۔شیخ مفید نے ارشاد میں اور فتال نے روضة الواعظین میں ص ١٥٣پر ، ابن نمانے مثیر الاحزان میں ص ٢٣پر ، خوارزمی نے اپنے مقتل میں ج١، ص ٢٢٥پر اور البکری نے معجم ج١ ،ص٣٧٦ پر واضح طور سے اس بات کی صراحت کی ہے کہ وہ شخص جناب سلمان فارسی ہی تھے جنہو ں نے یہ جملہ کہا تھا۔ اس بات کی تائید طبری نے بھی کی ہے کیونکہ طبری کے بیان کے مطابق جناب سلمان وہا ں موجود تھے ؛ لیکن ظاہر یہ ہے کہ مدائن فتح ہونے کے بعد جناب سلمان فارسی وہیں کے گورنر رہے اور وہیں اپنی وفات تک قیام پذیر رہے اور کسی بھی جنگ کے لئے وہا ں سے نہیں نکلے؛ بلکہ اس جنگ سے قبل عمر کے عہد حکومت میں آپ نے اس دنیا کو الوداع کہہ دیا تھا ۔

٣۔ ابو مخنف کا بیان ہے : مجھ سے یہ خبر زہیر بن قین کی زوجہ دلھم بنت عمر و نے بیان کی ہے۔(طبری ،ج٥،ص٣٩٦، الارشاد، ص ٢٢١)

٤۔ عنقریب یہ بات کربلامیں زہیر بن قین کے خطبے سے معلوم ہوجائے گی کہ اس سے قبل زہیراس بات پر معاویہ کی مذمت کیا کرتے تھے کہ اس نے زیاد کو کس طرح اپنے سے ملحق کرلیا؛اسی طرح حجر بن عدی کے قتل پر بھی معاویہ سے ناراض تھے ۔

۲۳۴

ایک اور نامہ بر

اسی جگہ سے امام حسین علیہ السلام نے عبداللہ بن بقطر حمیری(١) کو بعض راستوں سے مسلم بن عقیل(٢) کی طرف روانہ کیا۔ سپاہ اموی جو حصین بن تمیم کے سربراہی میں کوفہ کے قریب قادسیہ میں چھاؤنی ڈالے راہوں کو مسدود کئے تھی اور آمد و رفت پر سختی سے نظررکھے ہوئی تھی؛ اس نے عبداللہ بن بقطر کوگرفتار کر کے عبیداللہ بن زیاد کے پاس بھیج دیا۔ جب آپ عبیداللہ کے پاس لائے گئے تو اس نے کہا : محل کے اوپر جاؤ اور کذاب بن کذاب پر لعنت بھیجو پھر نیچے اتر آؤ تاکہ میں تمہارے سلسلے میں اپنانظریہ قائم کرسکوں ۔یہ سن کر عبداللہ بن بقطر محل کے اوپر گئے اور جب دیکھا کہ لوگ تماشابین کھڑے ہیں تو آپ نے فرمایا :

'' أیھاالناس انی رسول الحسین علیہ السلام بن فاطمہ بنت رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم لتنصروہ و توازروہ علی بن مرجانة بن سمیہ الدعی ! ''

اے لوگومیں حسین فرزند فاطمہ بنت رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام رساں ہوں تاکہ تم لوگ ان کی مدد و نصرت کر سکو اور اس مرجانہ بن سمیہ کے بچے جس کی پیدائش کا بستر معلوم نہیں ہے، کے خلاف ان کی پشت پناہی کرو ،یہ سنتے ہی عبیداللہ بن زیادنے حکم دیاکہ انھیں چھت سے پھینک دیاجائے۔ اس کے کارندوں نے آپ کو محل کے اوپر سے نیچے پھینک دیا؛جس کی وجہ سے آ پ کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں ؛ لیکن ابھی رمق حیات باقی تھی۔عبدالملک بن عمیرلخمی(٣) آپ کے پاس آ یا اور آپ کو ذبح کر کے شہید کر ڈالا۔

____________________

١۔ آپ کی ما ں امام حسین علیہ السلام کی دیکھ بھال کیاکرتی تھی ں اسی لئے آپ کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ آ پ حضرت امام حسین علیہ السلام کے رضائی بھائی تھے۔طبری نے بقطر ہی لکھا ہے اسی طرح جزری نے الکامل میں بھی بقطر ہی ذکر کیا ہے؛ لیکن ہمارے بزرگو ں نے(ی) کے ساتھ یعنی یقطر لکھاہے جیسا کہ سماوی نے ابصارالعین، ص٥٢پر یہی لکھا ہے ۔

٢۔ ابومخنف کا بیان ہے : مجھ سے یہ خبرابو علی انصاری نے بکر بن مصعب مزنی کے حوالے سے نقل کی ہے۔(طبری ،ج٥، ص٣٩٨؛ارشاد، ص ٢٢٠) اس خبر کو انھو ں نے قیس بن مسہر صیداوی کی خبرسے خلط ملط کردیا ہے ۔

٣۔ شعبی کے بعد اس نے کوفہ میں قضاوت کا عہدہ سنبھالا۔ ١٣٦ ھ میں وہ ہلاک ہوا ؛اس وقت اس کی عمر ١٠٣ سال تھی جیسا کہ میزان الاعتدال، ج ١، ص ١٥١ ، اور تہذیب الاسمائ، ص٣٠٩ پر تحریرہے۔ عنقریب یہ بات آئے گی کہ منزل زبالہ پر صیداوی کی شہادت کی خبر سے پہلے امام علیہ السلام کو ابن بقطر کی شہادت کی خبر ملی ہے؛ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام نے قیس بن مسہر صیداوی سے پہلے یقطر کو روانہ کیا تھا ۔

۲۳۵

چھٹی منزل: زرود(١)

عبداللہ بن سلیم اسدی اور مذری بن مشمعل سے روایت ہے کہ ان دونوں نے کہا :

جب ہم حج سے فارغ ہوگئے تو ہماری ساری کوشش یہی تھی کہ ہم کسی طرح حسین سے راستے میں ملحق ہو جائیں تاکہ دیکھیں کہ بات کہاں تک پہنچتی ہے؛ لہٰذا ہم لوگوں نے اپنے ناقوں کو سر پٹ دو ڑایا؛ یہاں تک کہ مقام زرود(٢) پر ہم ان سے ملحق ہوگئے۔جب ہم لوگ ان کے قریب گئے تو دیکھا کوفہ کا رہنے والا ایک شخص عراق سے حجاز کی طرف روانہ ہے، جیسے ہی اس نے امام حسین علیہ السلام کو دیکھا اپنے راستے سے پلٹ گیا تاکہ آپ سے اس کی ملاقات نہ ہو لیکن ا مام علیہ السلام وہاں پر کھڑ ے رہے گویا اس کے دیدار کے منتطر تھے لیکن جب دیکھا کہ وہ ملاقات کے لئے مائل نہیں ہے تو اسے چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔

ہم میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا : آؤ اس شخص کے پاس چلیں اور اس سے پوچھیں اگر اس کے پاس کوفہ کی خبر ہو گی تووہ ہم کو اس سے مطلع کرے گا ؛یہ کہہ کر ہم لوگ چلے یہاں تک کہ اس تک پہنچ ہی گئے، پہنچ کر ہم نے کہا : السلام علیک ، تو اس نے جواب دیا: وعلیکم السلام ورحمة اللہ ۔

پھر ہم لوگوں نے پوچھا : تم کس قبیلہ سے ہو ؟ اس شخص نے جواب دیا : ہم قبیلہ بنی اسد سے ہیں ۔

ہم لوگوں نے کہا : ہم لوگ بھی بنی اسد سے متعلق ہیں ؛تمہارا نام کیا ہے ؟

____________________

١۔یہ جگہ خزیمیہ او رثعلبیہ کے درمیان کوفہ کے راستے میں ہے جیسا کہ معجم البلدان، ج٤،ص ٣٢٧میں یہی موجود ہے۔

٢۔ یہ خبر اس خبر سے منافات ر کھتی ہے جوابھی گذرچکی کہ یہ لوگ منزل صفاح پر مقام زرو د سے چند منزل قبل فر زدق والے واقعے میں موجود تھے کیونکہ اس خبر سے یہی ظاہر ہوتاہے بلکہ واضح ہے کہ یہ لوگ امام حسین علیہ السلام سے زرود میں ملحق ہوئے ہیں اور اس سے پہلے یہ لوگ امام کے ساتھ موجود نہیں تھے بلکہ حج کی ادائیگی کے ساتھ یہ ممکن بھی نہیں ہے کیونکہ منزل صفاح اوائل میں ہے جبکہ امام علیہ السلام ''یوم الترویہ'' کو مکہ سے نکلے ہیں ۔ اگر یہ لوگ امام علیہ السلام سے منزل صفاح پر ملحق ہوئے ہیں تو پھر حج کی انجام دہی ممکن نہیں ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ دونو ں خبرو ں کا ایک ہی راوی ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا؛ نہ ہی ابو جناب ، نہ ابو مخنف اورنہ ہی طبری، مگر یہ کہ یہ کہا جائے کہ حج سے پہلے یہ دونو ں منزل صفاح پر امام علیہ السلام سے ملے اور پھر حج کے بعد منزل زرود پر پہنچ کرامام علیہ السلام سے ملحق ہو گئے ۔

اس نے جواب دیا : بکیر بن مثعبہ، ہم لوگو ں نے بھی اپنا نام بتایا اور پھر اس سے پوچھا : کیا تم ہمیں ان لوگو ں کے بارے میں بتاؤ گے جنہیں تم اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو؟

اس نے جواب دیا:ہا ں ! میں جب کوفہ سے نکلاتھا تو مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ قتل کئے جا چکے تھے ۔ ہم نے دیکھا ان دونو ں کے پیرو ں میں رسی باندھ کر انھی ں بازار میں پھرایا جا رہاہے۔ اس خبر کے سننے کے بعد ہم لوگ اس سے جداہوکر اپنے راستے پر چل پڑے یہا ں تک کہ(حسین علیہ السلام) سے ملحق ہوگئے اور ایک دوسری منزل پر ان کے ہمراہ پٹراؤ ڈالا ۔

۲۳۶

ساتویں منزل : ثعلبیہ(١)

شام کا وقت تھا جب امام علیہ السلام نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا جس کا نام'' ثعلبیہ'' تھا۔جب آپ کے خیمہ نصب ہوچکے تو ہم لوگوں نے آپ کی خدمت میں آکر سلام عرض کیا ۔آ پ نے سلام کا جواب دیا تو ہم لوگوں نے آپ سے کہا : اللہ آپ پر رحمت نازل کرے! ہم لوگوں کے پاس ایک اہم خبر ہے۔ اگر آپ چاہیں تو اسے اعلانیہ بیان کریں اوراگر چاہیں ۔ توخفیہ اور پوشیدہ طور پر بیان کریں ۔ امام علیہ السلام نے اپنے اصحاب پر ایک نگاہ ڈالی اور فرمایا: ''مادون ھولاء سر'' ان لوگوں سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ہے جو خبر لائے ہو بیان کردو، ہم لوگوں نے ان سے کہا : آپ نے کل شام اس سوار کو دیکھا تھا جو آپ کے پاس سے گزرا تھا ؟

امام علیہ السلام نے فرمایا : ہاں ! میں اس سے کوفہ کے بارے میں سوال کرناچاہتا تھا۔ ہم نے کہا: ہم نے اس سے آپ کے لئے خبر لے لی ہے اورآپ کے بجائے ہم لوگوں نے کوفہ کے موضوع پر تحقیق کر لی ہے۔ وہ شخص قبیلہ بنی اسد کاایک مرد تھا جو ہمارے ہی قبیلہ سے تھا ۔ وہ صاحب نظر، سچا، اور صاحب عقل و فضل تھا ۔اس نے ہم لوگوں سے بتایا کہ جب وہ وہاں سے نکلا تھا تومسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ قتل ہوچکے تھے حتیٰ اس نے یہ بھی دیکھا تھا کہ ان دونوں کے پیروں میں رسی باندھ کر بازار میں گھسیٹا جارہاہے۔یہ سن کر آپ نے فرمایا :

____________________

١۔ کوفہ سے مکہ جانے کے لئے جو راستہ مڑتا ہے یہ وہی ہے۔ اس کی نسبت بنی اسد کے ایک شخص ثعلبہ کی طرف دی گئی ہے جیسا کہ معجم میں تحریر ہے۔

۲۳۷

'' انّاللّہ وانّاالیہ راجعون'' اس جملہ کی آپ نے چند مرتبہ تکرار فرمائی(١) پھر ہم نے عرض کی : آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ آ پ اپنے گھر والوں کے ہمراہ یہاں سے واپس لوٹ جائیں ؛کیونکہ اب کوفہ میں آپ کا کوئی ناصر ومدد گا ر نہیں ہے بلکہ ہمیں خوف ہے کہ کہیں وہ سب آپ کے مخالف نہ ہوگئے ہو ں ۔ایسے موقع پر فرزندان عقیل بن ابیطالب اٹھے اور انھوں نے اس کی مخالفت کی(٢) اور کہنے لگے : نہیں خدا کی قسم ہم یہاں سے اس وقت تک نہیں جائیں گے۔جب تک ہم ان سے اپنا انتقام نہ لے لیں یا وہی مزہ نہ چکھ لیں جس کاذائقہ ہمارے بھائی نے چکھاہے۔(٣) ان دونوں کا بیان ہے: حسین (علیہ السلام) نے ہم لوگوں پر ایک نگاہ ڈالی اور فرمایا : ''لاخیر فی العیش بعد ھولاء !'' ان لوگوں کے بعد زندگی میں کوئی اچھائی نہیں ہے۔ اس جملہ سے ہم نے بخوبی سمجھ لیا کہ سفر کے ارادے میں یہ مصمم ہیں تو ہم نے کہا : خدا کرے خیر ہو ! آپ نے بھی ہمارے لئے دعا کی اور فرمایا:'' رحمکم اللّہ ''اللہ تم دونوں پر رحمت نازل کرے ۔

رات کا سناٹا چھاچکا تھا، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ آپ سپیدہ سحر کے انتظار میں ہیں ؛جیسے ہی سپیدہ سحر نمودار ہوئی ،آپ نے اپنے جوانوں اور نو جوانوں سے فرمایا :''اکثروا من المائ'' پانی زیادہ سے زیادہ جمع کرلو ، ان لوگوں نے خوب خوب پانی جمع کرلیا اور اپنے سفر پر نکل پڑے یہاں تک کہ ایک دوسری منزل تک پہنچ گئے ۔

____________________

١۔ اس روایت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ جناب مسلم کی شہادت کی خبر یہا ں عام ہوگئی لیکن عنقریب یہ بات آئے گی کہ منزل زبالہ میں پہنچ کر امام علیہ السلام نے یہ خط لکھ کر اپنے اصحاب کے سامنے اس کا اعلان کیا تھا؛ یہا ں سے امام علیہ السلام کے اس جملے کا فلسفہ سمجھ میں آتا ہے کہ'' مادو ں ھولاء سر'' یعنی ان کے علاوہ جو لوگ ہیں ان کے لئے یہ خبر سری ہے اور اسی طرح یہ خبر منزل زبالہ تک پوشیدہ ہی رہی لیکن یعقوبی کا بیان ہے کہ مسلم کی شہادت کی خبر آپ کو مقام'' قطقطانہ'' میں ملی تھی۔ (تاریخ یعقوبی ،ج٦ ، ص ٢٣٠ ،ط، نجف)

٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے : ابو جناب کلبی نے عدی بن حرملہ اسد کے حوالے سے اور اس نے عبداللہ سے اس خبر کو ہمارے لئے بیان کیاہے۔ (طبری ،ج٥، ص٣٩٧) ارشاد میں ،ص ٢٢٢ پر ہے کہ عبداللہ بن سلیمان نے یہ روایت بیان کی ہے۔(ارشاد ، طبع نجف)

٣۔ ابومخنف کا بیان ہے : مجھ سے عمر بن خالد نے یہ خبر بیان کی ہے (لیکن صحیح عمرو بن خالد ہے) اور اس نے زید بن علی بن الحسین سے اور اس نے دائود بن علی بن عبداللہ بن عباس سے نقل کیا ہے ۔(طبری ،ج٥، ص ٣٩٧ ؛ارشاد، ص٢٢٢، مسعودی ،ج٣ ،ص ٧٠، الخواص ، ص ٢٤٥ ، طبع نجف)

۲۳۸

آٹھویں منزل : زبالہ(١)

یہ نورانی قافلہ اپنے سفرکے راستے طے کرتا ہوا زبالہ(٢) کے علاقے میں پہنچا تو وہاں امام حسین علیہ السلام کو اپنے رضائی بھائی عبداللہ بن بقطر(٣) کی شہادت کی خبر ملی۔ آپ نے ایک نوشتہ نکال کر لوگوں کو آواز دی اور فرمایا :'' بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم، أمابعد، فقد أتانا خبر فضیع ! قتل ابن عقیل و هانی بن عروةو عبدالله بن یقطر، وقدخذلتنا شیعتنا (٤) فمن أحب منکم الانصراف فلینصرف لیس علیه منا ذمام ''

بسم اللہ الرحمن الرحیم، امابعد،مجھ تک ایک دل دھلانے والی خبر پہنچی ہے کہ مسلم بن عقیل ، ہانی بن عروہ اور عبداللہ بن یقطر قتل کردئے گئے ہیں اور ہمار ی محبت کا دم بھرنے والوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے لہذا اب تم میں سے جو جانا چاہتا ہے وہ چلاجائے، ہماری جانب سے اس پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔

یہ جملہ سنتے ہی لوگ امام علیہ السلام سے جدا ہونے لگے کوئی داہنی طرف جانے لگاکوئی بائیں طرف؛ نتیجہ یہ ہواکہ فقط وہی ساتھی رہ گئے جو مدینہ سے آئے تھے۔ آپ نے یہ کام فقط اس لئے کیاتھا کہ

____________________

١۔ یہ جگہ کوفہ سے مکہ جاتے وقت مختلف راستے پیداہونے سے قبل ہے۔ یہا ں ایک قلعہ اورجامع مسجد ہے جو بنی اسد کی ہے۔ اس جگہ کا نام عمالقہ کی ایک عورت کے نام پر ہے جیسا کہ معجم البلدان میں یہی ہے ۔

(٢) ابومخنف کا بیان ہے : ابوجناب کلبی نے عدی بن حرملہ سے اور اس نے عبداللہ بن سلیم سے میرے لئے یہ خبر بیان کی ہے۔ (طبری، ج٥، ص ٣٩٨)

٣۔ ان کے شرح احوال گزر چکے ہیں اور وہ یہ کہ ان کی والدہ امام حسین علیہ السلام کی دیکھ بھال کیا کرتی تھی ں اسی لئے ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ امام حسین علیہ السلام کے رضائی بھائی ہیں ۔

٤۔ اس جملہ میں امام علیہ السلام کی تصریح ہے کہ کوفہ کے شیعو ں نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا۔ کوفہ اور جناب مسلم بن عقیل کی شہادت کے سلسلے میں یہ پہلا اعلان ہے اگرچہ اس کی خبر آپ کو اس سے قبل منزل زرود میں مل چکی تھی؛ لیکن ظاہر یہ ہے کہ جو لوگ وہا ں موجود تھے۔ ان کے علاوہ سب پر یہ خبر پوشیدہ تھی کیونکہ یہ امام علیہ السلام کے حکم سے ہوا تھا۔آخر کار آپ نے یہا ں '' زبالہ'' میں تمام حاضرین کے لئے اس خبر کا اعلان کردیا ۔

۲۳۹

باد یہ نشین عرب اس گمان میں آپ کے پیچھے پیچھے ہوئے تھے کہ آپ ایسے شہر میں آئیں گے جوظالم حکمرانوں کی حکومت سے پاک ہوگا اور وہاں کے لوگ آپ کے فرمانبردار ہوں گے لہذا امام علیہ السلام نے ناپسند کیا کہ ایسے لوگ آپ کے ہمسفر ہوں ۔امام چاہتے تھے کہ آپ کے ہمراہ صرف وہ رہیں جنہیں معلوم ہو کہ وہ کہاں جارہے ہیں اور امام علیہ السلام کو معلوم تھا کہ جب ان لوگوں پر بات آشکار ہوجائیگی تو کوئی بھی آپ کے ہمراہ نہیں رہے گا مگر وہ لوگ جو عدالت چاہتے ہوں اور موت ان کے ہمراہ چل رہی ہو۔(١) رات اسی منزل پر گزری ،صبح کو آپ نے اپنے جوانوں کو چلنے کا حکم دیاتو انھوں نے سب کو پانی پلاکر اور خوب اچھی طرح پانی بھر کر اپنا سفر شروع کر دیا یہاں تک کہ درّۂ عقبہ سے آپ کا گزرہوا ۔

نویں منزل : درّہ عقبہ(٢)

یہ نورانی قافلہ اپنے مقصد کی طرف آگے بڑھتا ہوا درّہ عقبہ تک پہنچا۔وہاں اس قافلہ نے اپنا پڑاؤ ڈالا۔(٣) بنی عکرمہ کے ایک شخص نے امام سے عرض کیا: آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ آپ یہیں سے پلٹ جائیے، خداکی قسم !آپ یہاں سے قدم آگے نہیں بڑھائیں گے مگریہ کہ نیزوں کی نوک اور تلواروں کی دھار پر آگے بڑھیں گے ، جن لوگوں نے آپ کو خط لکھا تھا اور آپ کوآنے کی دعوت دی تھی اگر یہ لوگ میدان کارزار کی مصیبتیں برداشت کرکے آپ کے لئے راستہ آسان کردیتے تب آپ وہاں جاتے تو آپ کے لئے بہت اچھا ہوتا لیکن ایسی بحرانی حالت میں جس سے آپ خود آگاہ ہیں ، میں نہیں سمجھتا کہ آپ کوفہ جانے کے سلسلے میں قدم آگے بڑھائیں گے۔

____________________

١۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام نے ان لوگو ں کو جانے کی اجازت دی تو آپ کا مقصد کیا تھا؟ امام علیہ السلام کا یہ بیان تمام چیزو ں پر کافی ہے

٢۔واقصہ کے بعد اور قاع سے پہلے مکہ کے راستے میں یہ ایک منزل ہے۔ یہ منزل ان کے لئے ہے جو مکہ جانا چاہتے ہیں ۔

٣۔ ابومخنف کا بیان ہے : ابوعلی انصاری نے بکر بن مصعب مزنی کے حوالے سے مجھ سے یہ خبر بیان کی ہے۔(طبری ،ج٥، ص ٣٩٨ ، ارشاد ،ص ٢٢٢ ،طبع نجف)

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438