واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا9%

واقعۂ کربلا مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 438

واقعۂ کربلا
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 438 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 205371 / ڈاؤنلوڈ: 5731
سائز سائز سائز

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

امام علیہ السلام سے کہنے لگے : اپنے ارادہ سے منصرف ہو جائیے! آپ کہاں جارہے ہیں ! امام علیہ السلام نے انکار کیا اور دونوں فریق اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہے یہاں تک کہ انھوں نے تازیانہ بلندکر لیا لیکن امام علیہ السلام اپنی راہ پر گامزن رہے۔ جب امام علیہ السلام کو ان لوگوں نے جاتے ہوئے دیکھاتوبلند آوازمیں پکارکر کہا : اے حسین !کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے جو جماعت سے نکل کر اس امت کے درمیان

تفرقہ اندازی کررہے ہو ! ان لوگوں کی باتیں سن کر امام علیہ السلام نے قران مجید کی اس آیت کی تلاوت فرمائی( : لِیْ عَمَلِیْ وَلَکُمْ عَمَلُکُمْ اَنْتُمْ بَرِيْئُوْنَ مِمَّا اَعْمَلُ وَاَنَا بَرِی ئْ مِمَّا تَعْمَلُوْنَ'' ) (١) و(٢)

اگر وہ تم کو جھٹلائیں تو تم کہہ دو کہ ہمارا عمل ہمارے لئے اور تمہاری کارستانی تمہارے لئے ہے، جو کچھ میں کرتا ہوں اس کے تم ذمہ دار نہیں اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے میں بری ہوں ۔

عبداللہ بن جعفر کاخط

چوتھے امام حضرت علی بن حسین بن علی (علیہم السلام) کا بیان ہے کہ جب ہم مکہ سے نکل رہے تھے تو عبداللہ بن جعفربن ابیطالب(٣) نے ایک خط لکھ کر اپنے دونوں فرزندوں عون و محمد(٤) کے ہمراہ روانہ کیا جس کی عبارت یہ ہے:

____________________

١۔ سورہ ٔیونس ٤١

٢۔ طبری، ج٥، ص ٣٨٥،ابو مخنف کا بیان ہے کہ حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے مجھ سے یہ روایت بیان کی ہے ۔

٣۔ آپ جنگ جمل میں امیر المومنین کے لشکر میں تھے اور عائشہ کو مدینہ پہنچانے میں آپ نے آنحضرت کی مدد فرمائی تھی ۔(طبری، ج٤، ص٥١٠)آپ کی ذات وہ ہے جس سے حضرت امیر المومنین کوفہ میں مشورہ کیا کرتے تھے۔ آ پ ہی نے حضرت کو مشورہ دیا تھا کہ محمد بن ابی بکر جو آپ کے مادری بھائی بھی تھے، کو مصر کا والی بنادیجئے۔ (طبری ،ج٤، ص ٥٥٤)آپ جنگ صفین میں بھی حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ تھے اور آپ کے حق میں بڑھ بڑھ کر حملہ کررہے تھے۔ (طبری ،ج٥ ، ص ١٤٨)بنی امیہ کے خلاف امام حسن علیہ السلام کے قیام میں بھی آپ ان کے مدد گار تھے (طبری ،ج٥،ص ١٦٠) اور جب صلح کے بعد سب مدینہ لوٹنے لگے تو دونو ں امامو ں کے ہمراہ آپ بھی مدینہ لوٹ گئے۔ (طبری ،ج٥ ، ص ١٦٥) آپ کے دونو ں فرزند عون و محمد امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ تھے۔ جب آپ تک ان کی شہادت کی خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا :''واللّه لو شهدته ،لأ حببت الّا أفارقه حتی أقتل معه'' خداکی قسم اگر میں موجود ہوتا تو واقعاً مجھے یہ محبوب تھا کہ میں ان سے جدا نہ ہو ں یہا ں تک کہ ان کے ہمراہ قتل ہوجاؤ ں ۔ (طبری ج٥ ، ص ٤٦٦)

٤۔یہ دونو ں امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ کربلامیں جام شہادت نوش فرماکرسرفراز ہوئے۔ طبری کے بیان کے مطابق عون کی ما ں جمانہ بنت مسیب بن نجبہ بن فزاری ہیں (مسیب بن نجبہ توابین کے زعماء میں شمار ہوتے ہیں ) اور محمد کی ما ں خو صاء بنت خصفہ بنت ثقیف ہیں جو قبیلہ بکربن وائل سے متعلق ہیں ۔

۲۲۱

'' امابعد ، فانّی أسألک باللّه لمّا انصرفت حین تنظر فی کتابی فانّی مشفق علیک من الوجه الذی تتوجه له أن یکون فیه هلاکک واستئصال اهل بیتک ، أن هلکت الیوم طفیٔ نور الارض فانک علم المهتدین ورجاء المؤمنین، فلا تعجل بالسیر فانّی فی أثر الکتاب؛ والسلام ''

اما بعد : جب آپ کی نگاہ میرے خط پر پڑے تو میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ اپنے ارادہ سے منصرف ہو جائیے ؛کیو نکہ آپ نے جس طرف کا رخ کیا ہے مجھے خوف ہے کہ اس میں آپ کی ہلا کت اور آپ کے خاندان کی اسیری ہے اور اگر آپ دنیا سے گذرگئے تو زمین کا نور خاموش ہو جا ئے گا؛ کیوں کہ آپ ہدایت یافتہ افراد کے پر چمدار اور مو منین کی امید ہیں ؛ لہٰذا آپ سفر میں جلدی نہ کریں ۔ میں اس خط کے پہنچتے پہنچتے آپ کی خدمت میں شر فیاب ہو رہا ہوں ۔ والسلام

عبد اللہ بن جعفر اس خط کے فوراًبعد عمرو بن سعید بن عاص کے پاس گئے اور اس سے گفتگو کرتے ہو ئے کہا : حسین (علیہ السلام) کو ایک خط لکھو جس میں تم ان کے امن وامان کا تذکرہ کرو ، اس میں ان سے نیکی اور صلہ رحم کی تمنا وآرزو کرو اور اطمینان دلا ؤ، ان سے پلٹنے کی درخواست کرو، شائد وہ تمہاری باتوں سے مطمئن ہو کر پلٹ آئیں اور اس خط کو اپنے بھائی یحٰی بن سعید کے ہمراہ روانہ کرو؛ کیو نکہ وہ زیادہ سزاوار ہے کہ اس سے وہ مطمئن ہوں اور ان کو یقین ہو جا ئے کہ تم اپنے قصد میں مصمم ہو۔عمر وبن سعید نے عبد اللہ بن جعفر کو جواب دیتے ہو ئے کہا : تم جو چا ہتے ہو لکھ کر میرے پاس لے آؤ میں اس پر مہر لگا دوں گا، بنابر یں عبد اللہ بن جعفر نے اس طرح نامہ لکھا :

بسم اللہ الر حمن الر حیم ،یہ خط عمر وبن سعید کی جانب سے حسین بن علی کے نام ہے ۔

اما بعد : میں خدا وند متعال سے در خواست کر تا ہوں کہ آپ کو ان چیزوں سے منصرف کر دے جس میں آپ کا رنج و ملال ہے اور جس میں آپ کی ہدایت ہے اس طرف آپ کو سر فراز کرے ۔مجھے خبر ملی ہے کہ آپ نے عراق کا رخ کیا ہے ۔

خداوند عالم آپ کو حکومت کی کشمکش او رمخالفت سے محفو ظ رکھے؛ کیونکہ مجھے خوف ہے کہ اس میں آپ کی ہلاکت ہے۔ میں آپ کی طرف عبداللہ بن جعفر اور یحٰبن سعید کوروانہ کررہا ہوں ؛آپ ان دونوں کے ہمراہ میرے پاس تشریف لے آئیے کیونکہ میرے پاس آپ کے لئے امان ، صلہ رحم ، نیکی اورخانہ خداکے پاس بہترین جائیگاہ ہے۔ میں خداوند عالم کو اس سلسلے میں گواہ ، کفیل ، ناظر اور وکیل قر ار دیتاہوں ۔ والسلام

۲۲۲

خط لکھ کر آپ اسے عمر و بن سعید کے پاس لے کر آئے اور اس سے کہا: اس پر مہر لگاؤ تواس نے فوراًاس پر اپنی مہر لگادی اور اس خط کو لے کرعبداللہ بن جعفر اور یحٰی امام علیہ السلام کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر آپ کی خدمت میں یحٰی بن سعیدنے خط پڑھا تو امام حسین علیہ السلام نے عمر و بن سعید کو خط کا جواب اس طرح لکھا:

بسم اللّہ الرحمن الرحیم

امابعد، فانه لم یشاقق الله ورسوله من دعاالی اللّٰه عزَّو جلَّ وعمل صالحاًو قال أنّنی من المسلمین؛وقد دعوت الیٰ الامان والبرّو الصلة فخیرالامان امان الله ولن یؤمّن اللّٰه یوم القیامةمن لم یخفه فی الدنیا، فنسأل اللّٰه مخافة فی الدنیاتوجب لنا أمانه یو م القیامة فان کنت نویت بالکتاب صلتی و برّی فجُزیتَ خیراًفی الدنیاوالآخرة ۔ والسلام

بسم اللّہ الرحمن الرحیم ، امابعد،ہر وہ شخص جو لوگوں کو خدائے عزّو جلّ کی طرف دعوت دیتاہے اور عمل صالح انجام دیتاہے اور کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں تو وہ خدااور رسول کی مخالفت نہیں کرتا ہے اور تم نے جو مجھے امان ، نیکی اور صلہ رحم کی دعوت دی ہے تو جان لو کہ بہترین امان خداوندمتعال کی امان ہے اور قیامت میں وہ شخص اللہ کی امان میں نہیں ہے جو دنیا میں اللہ سے نہیں ڈرتا ۔میں دنیامیں خدا سے اس خوف کی درخواست کرتا ہوں جو آخرت میں قیامت کے دن ہمارے لئے اما ن کا باعث ہو۔اب اگر تم نے اپنے خط کے ذریعہ میر ے ساتھ صلہ رحم اور نیکی کی نیت کی ہے تو تم کو دنیاوآخر ت میں اس کی جزا ملے گی۔

۲۲۳

وہ دونوں امام علیہ السلام کا جواب لے کرعمرو بن سعید کے پاس آئے اور کہنے لگے: ہم دونوں نے تمہارے خط کو ان کے سامنے پڑھا اور اس سلسلے میں بڑی کو شش بھی کی لیکن اس سلسلہ میں ان کا عذر یہ تھا کہ وہ فر ما رہے تھے :'' انّی رأیت رؤیاً فیهارسول اللّٰه صلّی اللّٰه علیه (وآله) وسلم وأُمرتُ فیها بأ مرٍأنا ما ضٍ له، علیّ کان أولٰ''

میں نے ایک ملکو تی خواب دیکھا ہے جس میں رسو ل خدا صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم موجو د تھے۔ اس خوا ب میں آپ نے مجھ کو ایک چیز کا حکم دیا گیا ہے۔میں اس پر ضرور عمل کروں گا اور یہ مجھ پر سب سے زیادہ اولیٰ ہے۔

جب ان دونوں نے امام علیہ السلام سے پوچھا کہ وہ خواب کیا تھا ؟تو آپ نے فر مایا :'' ما حدثت بها أحداً وما أنا محدّ ث بها حتی ألقی ربِّی'' (١) اور(٢) میں یہ خواب کسی سے بیان نہیں کرسکتا اور نہ ہی میں یہ خواب کسی سے بیان کرنے والا ہوں یہاں تک کہ اپنے رب سے ملا قات کر لوں ۔

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ حارث بن کعب والبی نے علی بن الحسین (علیہما السلام) کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥،ص٣٨٨)

٢۔امام علیہ السلام یہ مناسب نہیں دیکھ رہے تھے کہ اپنے سفر کے رازسے سب کو آشنا کر تے کیو نکہ انسان جوکچھ جا نتا ہے وہ سب بیان نہیں کر دیتا ہے خصوصاً جبکہ انسان ظرف و جودکے لحاظ سے مختلف و متفاوت ہو ں اور امام علیہ السلام پر واجب ہے کہ ہر شخص کو اس کے وجود کی وسعت اور معرفت کی گنجا ئش کے اعتبار سے آشنائی بہم پہنچائی ں ، اسی لئے امام علیہ السلام نے ان لوگو ں کو ایک واقعی جو اب دیدیا کہ''لم یشا قق الله ورسوله من دعا الی اللّٰه وعمل صالحاً ...وخیر الا مان أمان اللّٰه و لن یؤمن اللّٰه یوم القیامةمن لم یخفه فی الدنیا فنسأل اللّٰه مخافةفی الدنیا تو جب لنا أما نه یوم القیامه ''

اور جب وہ لوگ اس جواب سے قانع نہ ہو ئے تو امام علیہ السلام نے کہہ دیاکہ آپ کو ایک ایسے خواب میں حکم دیا گیا ہے جس میں خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود تھے کہ آپ اپنے سفر کو جاری رکھی ں ؛ لیکن آپ نے اس خواب کو بیان نہیں کیا اور یہ کہہ کربات تمام کردی : ''وما أنا محدث لها حتی ألقی ربی ''

شاید یہیں پرا حمد بن اعثم کوفی متوفی ٣١٠ ھ نے امام علیہ السلام کے اس خواب کا تذکر ہ کر دیا ہے جو آپ نے اپنے جد کی قبر پر مد ینہ میں دیکھا تھا لیکن یہ کیسے معلوم کہ یہ خواب وہی ہے ؟ جب امام علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ خواب خدا کی ملا قات سے قبل میں کسی سے بھی بیان نہیں کرو ں گا یعنی یہ وہی بات ہے جس کا میں نے عہد کیا ہے ۔ واللہ اعلم بہ ، اللہ اس سے بہتر آگاہ ہے۔

۲۲۴

راستہ کی منزلیں

* پہلی منزل: تنعیم

* دوسری منزل : صفاح

*تیسری منزل : حاجر

* چوتھی منزل:چشمۂ آب

* پانچویں منزل : خزیمیہ

* زہیر بن قین کا امام علیہ السلام سے ملحق ہونا

* ایک اور نامہ

* چھٹی منزل :زرود

* ساتویں منزل :ثعلبیہ

* آٹھویں منزل:زبالہ

* نویں منزل : درّہ عقبہ

* دسویں منزل : شراف

* گیارہویں منزل : ذو حسم

* بارہویں منزل : البیضہ

* تیرہویں منزل : عذیب الھجانات

* چودہویں منزل : قصر بنی مقاتل

* قربان گاہ عشق نینوا

۲۲۵

راستہ کی چودہ (١٤)منزلیں

پہلی منزل :تنعیم(١)

امام حسین علیہ السلام نے اپنے سفرکو جاری رکھااورراستہ میں آپ کا گذرایک ایسی جگہ سے ہوا جسے تنعیم کہتے ہیں ۔ وہاں آپ کی ملاقات ایک قافلہ سے ہوئی جسے بحیر بن ریسان حمیر ی(٢) نے یزید بن معاویہ کی طرف روانہ کیا تھا۔ یہ شخص یمن میں یزید کاکار گزار تھا۔ اس قافلہ کے ہمراہ الورس(٣) اور بہت سارے شاہانہ لباس تھے جسے عامل یمن نے یزید کے پاس روانہ کیا تھا۔امام علیہ السلام نے اس کا روان کے سارے بار کو اپنی گرفت میں لے لیا اور قافلہ والوں سے فرمایا :''لا أکر هکم من أحب أن یمضی معنا الی العراق أوفینا کراء ه وأحسنا صحبته، ومن أحب أن یفارقنا من مکاننا هذا أعطیناه من الکراء علیٰ قدر ماقطع من الارض''

____________________

١۔یہ مکہ سے دوفرسخ پر ایک جگہ ہے جیساکی معجم البلدان ج٢،ص٤١٦پر مرقوم ہے ۔ مکہ کے داہنی جانب ایک پہاڑہے جسے تنعیم کہتے ہیں اور شمالی حصہ میں ایک دوسراپہاڑہے جسے ''ناعم ''کہتے ہیں او راس وادی کو ''نعیمان''کہتے ہیں ۔وہا ں پر ایک مسجد موجود ہے جو قر یب ترین میقات اورحرم سے نزدیک ترین احرام سے باہر آنے کی جگہ ہے آج کل یہ جگہ مکہ کے مرکزی علاقہ سے ٦ کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے جس کا مطلب یہ ہو ا کہ ایک فرسخ ہے نہ کہ دو فرسخ ۔ اس وقت شہر سے لے کر یہا ں تک پورا ایک متصل اور وسیع علاقہ ہے جو مدینہ یا جدہ سے مکہ آنا چاہتا ہے اسے ادھر ہی سے ہو کر گذرنا پڑتا ہے۔

٢۔گویایہ وہی شخص ہے جو علم نجوم میں صاحب نظر تھاکیونکہ اس نے عبداللہ بن مطیع کو بتایا تھا کہ جب ابن زبیر قیام کرے گا تو وہ کوفہ کاوالی بنے گا۔(طبری ،ج٦، ص ٩) طاوؤ س یمانی جو بہت معروف ہیں اس شخص کے آقا تھے۔طاوؤ س یمانی نے مکہ میں ١٠٥ھ میں وفات پائی۔(طبری، ج٦، ص٢٩)

٣۔ الورس؛ یہ خاص قسم کی گھاس ہے جو تل کی طرح ہوتی ہے اور رنگ ریزی کے کام آتی ہے اور اس سے زعفران بھی بنایا جاتا ہے۔ یہ گھاس یمن کے علاوہ کہیں بھی نہیں ملتی ہے۔

ممکن ہے کہ بادی النظر فکر میں کسی کو امام علیہ السلام کا یہ فعل العیاذباللہ نا مناسب لگے کہ آپ نے درمیان سے قافلہ کے بار کو اپنی گرفت میں کیو ں لیا؟ یہ تو غصب ہے لیکن وہ افراد جو تاریخ کی ابجد خوانی سے بھی واقف ہو ں گے وہ بالکل اس کے برعکس فیصلہ کری ں گے۔ ہمارے عقیدہ کے مطابق تو امام علیہ السلام کا کام غلط ہوہی نہیں سکتا، انھو ں نے جو کیا وہی حق ہے لیکن ایک غیر کے لئے تا ریخ کی ورق گردانی کافی ہوگی اور جب وہ تاریخ کے اوراق میں امام حسن علیہ ا لسلام کی صلح کے شرائط پر نگاہ ڈالے گا تو ظاہری اعتبار سے بھی یزید کا تخت حکومت پر براجمان ہونا غلط ثابت ہوگا اور وہ ایک باغی شمار کیا جائے گا جس نے مسلمانو ں کے بیت المال کو غصب کیاہے اور امام حسین علیہ السلام امت مسلمہ کے خلیفہ قرار پائی ں گے جن کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی ہر ممکن کوشش صرف کرکے اس غاصب و باغی تک اموال مسلمین پہنچنے سے مانع ہو ں پس یمن کے اس قافلہ کو روک کر اموال کو اپنی گرفت میں لینا امام علیہ السلام کا اولین فریضہ تھا لہٰذا ہم ملاحظہ کرتے ہیں کہ امام علیہ السلام نے قافلہ والو ں سے بڑی دلنشین گفتگو کی جب کہ ظالم وجابر حکومت کی نگاہ میں ایسے افراد لائق گردن زدنی یا قابل قید و بندہوتے ہیں ۔(مترجم)

۲۲۶

میں تم لوگوں پر کوئی زبر دستی نہیں کرتا لیکن تم میں جو یہ چاہتا ہے کہ ہمارے ساتھ عراق چلے تو ہم اس کو کرایہ سفر بھی دیں گے اور اس کی ہمراہی کو خوش آمدید بھی کہیں گے اور جو ہم سے یہیں سے جدا ہونا چاہتا ہے اسے بھی ہم اتنا کرایہ سفر دے دیں گے کہ وہ اپنے وطن تک پہنچ جائے ۔

امام علیہ السلام کی اس دلنشین گفتار کے بعد جو بھی اس قافلہ نور سے جدا ہوا اسے امام علیہ السلام نے اس کا حق دے دیا اور جس نے رکنا چاہا اسے کرایہ دینے کے علاوہ اما م علیہ السلام نے لباس بھی عطا کیا۔(١)

دوسری منزل : الصفاح(٢)

عبداللہ بن سلیم اسدی اور مذری بن مشمعل اسدی کا بیان ہے کہ پہلی منزل سے چلنے کے بعدہم لوگ امام حسین علیہ السلام کے قافلہ کے ہمراہ دوسری منزل پر پہنچے جسے '' الصفاح '' کہتے ہیں اور وہاں ہماری ملاقات فرزدق بن غالب(٣) شاعر سے ہوئی۔ وہ حسین علیہ السلام کے پاس آئے اور کہا: خدا وند متعال آپ کی حاجت کو پورا کرے اور آ پ کی تمنا و آرزو کو منزل مراد تک پہنچائے ۔

____________________

١۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری،ج٥، ص ٣٨٥)

٢۔یہ جگہ حنین اور انصاب الحرم کے درمیان ہے جو بہت آ سانی سے مکہ میں داخل ہونے کا راستہ ہے ۔

٣۔ اس شخص کا نام ھمام بن غالب بن صعصہ ہے۔ ان کے دونو ں چچا'' ذھیل'' اور ''زحاف ''بصرہ میں زیاد بن سمیہ کے دیوان میں دو دو ہزار بخشش لیا کرتے تھے ۔انھو ں نے بنی نہشل اور فقیم کی ہجو میں اشعار کہے تو ان دونو ں نے زیاد سے جا کر ان کی

۲۲۷

شکایت کی ۔جب اس نے فرزدق کو طلب کیا تویہ وہا ں سے بھاگ گئے۔ اس کے بعد نوبت یہ آ گئی جب زیاد بصرہ آتا تھا تو فرزدق کوفہ آجاتے تھے اور جب وہ کوفہ آتا تھا تو فرزدق بصرہ روانہ ہوجاتے تھے۔ واضح رہے کہ زیاد ٦ مہینہ بصرہ رہتا تھااور ٦ مہینہ کوفہ کے امور سنبھالتا تھا۔ اس کے بعد یہ حجاز چلے گئے اور وہیں مکہ ومدینہ میں رہنے لگے۔اس طرح زیاد کی شرارتو ں سے بچ کر سعید بن عاص کی پناہ میں رہنے لگے یہا ں تک کہ زیاد ہلاک ہوگیا(طبری، ج٥، ص ٢٤٢، ٢٥٠)تو انھو ں نے اس کی ہجو میں مرثیہ کہا :

بکیت امرئً امن آ ل سفیان کافراً ککسری علی عدوانہ أو کقیصراً (طبری، ج٥،ص ٢٩٠)میں نے آل سفیان کے ایک مرد پر گریہ کیا جو کافر تھا جیسے قیصر و کسری اپنے دشمن پر روتے ہیں ۔

ابن زیاد کی ہلاکت کے بعد یہ دوبارہ بصرہ پلٹ گئے اور وہیں رہنے لگے۔ ٦٠ھمیں یہ اپنی ما ں کے ہمراہ حج پر آ رہے تھے جب ان کی امام حسین علیہ السلام سے ملاقات ہوئی شاید اسی لئے حسین علیہ السلام کے ہمراہ کربلا میں حاضری نہ دے سکے۔ (طبری، ج٥، ص ٣٨٦) انھو ں نے حجاج کے لئے بھی شعر کہے ہیں ۔(طبری ،ج٦،ص ٣٨٠و ٩٣٩٤) سلیمان بن عبدالملک کے محل میں بھی ان کی آمد ورفت تھی۔ (طبری ،ج٥، ص ٥٤٨)١٠٢ھ تک یہ شاعر زندہ رہے۔(طبری ،ج٥، ص ٢٤٢ ، ٢٥٠) بنی نہشل کی ہجو میں جب انھو ں نے اشعار کہے تھے تو یہ جوان تھے بلکہ ایک نوجوان اعرابی تھے جو دیہات سے آئے تھے۔ (طبری ،ج٥ ، ص ٢٤٢) ایسی صورت میں امام علیہ السلام سے ملاقات کے وقت ان کی عمر ٣٠سال سے کم تھی۔

امام علیہ السلام نے اس سے کہا :''بيّن لنا نبأ الناس خلفک'' تم جس شہر اور جہا ں کے لوگو ں کو اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو ان کی خبری ں ہمارے لئے بیان کرو ۔فرزدق نے کہا : آ پ نے واقف کار شخص سے سوال کیا ہے تو سنئے :'' قلوب الناس معک ''لوگو ں کے دل آپ کے ساتھ ہیں ''و سیوفهم مع بنی امیه'' اور ان کی تلواری ں بنی امیہ کے ساتھ ہیں'' والقضاء ینزل من السمائ'' لیکن فیصلہ و قضا تو خدا وند عالم کی طرف سے ہے ''واللّہ یفعل ما یشائ'' اور اللہ وہی کرتا ہے جو چاہتا ہے۔

۲۲۸

امام حسین علیہ السلام نے ان سے کہا : تم نے سچ کہا، اللہ جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے ؛ہمارے رب کی روزانہ اپنی ایک خاص شان ہے لہٰذا اگر اس کا فیصلہ ایسا ہوا جو ہمیں محبوب ہے تو اس کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کریں گے اور شکر کی ادائیگی میں وہ ہمارا مدد گا ر ہے اور اگرفیصلہ الہٰی ہماری امیدوں کے درمیان حائل ہوگیا تب بھی اس شخص کے لئے کچھ نہیں ہے جس کی نیت حق اور جس کی سرشت تقویٰ ہے۔ یہ کہہ کر امام علیہ السلام نے اپنی سواری کو حرکت دی تو انھوں نے امام کو سلام کیا اور دونوں جدا ہوگئے۔(١) و(٢) جب عبیداللہ بن زیاد کو خبر ملی کہ امام حسین علیہ السلام مکہ سے عراق کی طرف آرہے ہیں تو اس نے اپنی پولس کے سربراہ حصین بن تمیم تمیمی کو روانہ کیا۔ اس نے مقام قادسیہ میں آکر پڑاؤ ڈالا اور قادسیہ(٣) و خفا ن(٤) کے درمیان اپنی فوج کو منظم کیا اسی طرح قادسیہ اور قطقطانہ(٥) اورلعلع کے درمیان اپنی فوج کو منظم کرکے کمین میں لگادیا۔(٦)

____________________

١۔ ابومخنف کا بیان ہے کہ ابی جناب نے عدی بن حرملہ سے اور اس نے عبداللہ بن سلیم سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥، ص ٣٨٦) یہ بیان اس بیان سے میل نہیں کھاتا جو ان دونو ں سے عنقریب بیان ہو گا کہ یہ دو نو ں کہتے ہیں کہ ہم لوگ مقام '' زرود میں امام علیہ السلام سے ملحق ہوئے اور یہ منزل صفاح کے بعد کوفہ کے راستہ میں چندمنازل کے بعد ہے مگر یہ کہا جائے کہ ان کے قول''اقبلنا حتی انتھینا ''کا مطلب یہ ہوکہ ہم لوگ کوفہ سے روانہ ہوکر صفاح تک پہنچے جو مکہ میں داخل ہونے کا راستہ ہے پھر مناسک حج انجام دینے کے بعد منزل زرود میں امام علیہ السلام سے دوبارہ ملحق ہوگئے ۔

٢۔طبری نے کہا : ہشام نے عوانہ بن حکم کے حوالے سے، اس نے لبطہ بن فرزدق بن غالب سے اور اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ اس کے باپ نے کہا : میں نے ٦٠ھ میں حج انجام دیا اور ایام حج میں حرم میں داخل ہو ا تو دیکھا حسین بن علی مکہ سے نکل رہے ہیں میں ان کے پاس آیا اورعرض کی: بأبی أنت و أمی یا بن رسول اللّٰہ! ما اعجلک عن الحج؟ فرزند رسول خدا میرے ما ں باپ آپ پر قربان ہوجائی ں !آپ کو اتنی بھی کیا جلدی تھی کہ آپ حج چھوڑ کر جارہے ہیں ؟ امام علیہ السلام نے جواب دیا : لو لم أعجل لأْ خذت اگر میں جلدی نہ کرتا تو پکڑ لیا جاتا ۔ فرزدق کہتا ہے کہ پھر آپ نے مجھ سے پوچھا ممن أنت ؟تم کہا ں کے رہنے والے ہو ؟ تو میں نے جواب دیا : میں عراق کا رہنے والا ایک شخص ہو ں ؛ خدا کی قسم !اس سے زیادہ انھو ں نے میرے بارے میں تفتیش نہیں کی ؛ بس اتنا فرمایا : جن لوگو ں کو تم اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو مجھے ان کی خبر بتاؤ تو میں نے کہا: انکے قلوب آپ کے ساتھ ہیں اور تلواری ں بنی امیہ کے ہمراہ ہیں اور قضاء اللہ کے ہاتھ میں ہے۔آپ نے مجھ سے فرمایا : تم نے سچ کہا! پھر میں نے نذر اور مناسک حج کے سلسلہ میں کچھ سوالات کئے تو آپ نے اس کے جواب سے مجھے بہرہ مند فرمایا۔(طبری، ج٥، ص ٣٨٦)

٣۔قادسیہ او ر کوفہ کے درمیان ١٥ فرسخ کی مسافت ہے اور اس کے وعذیب کے درمیان ٤میل کا فاصلہ ہے اور اسے دیوانیہ کہتے ہیں ۔ حجاز کے دیہات کی طرف یہ(قادسیہ) عراق کا سب سے پہلا بڑاشہر ہے۔ اسی جگہ پر عراق کی سب سے پہلی جنگ بنام جنگ قادسیہ سعد بن ابی وقاص کی قیادت میں ہوئی ہے ۔

٤۔ یہ ایک قریہ ہے جو کوفہ سے نزدیک ہے جہا ں بنی عباس کا ایک پانی کاچشمہ ہے جیسا کہ معجم البلدان، ج ٣ ، ص٤٥١ پر موجود ہے ۔

٥۔ قطقطانہ ، رہیمہ سے کوفہ کی طرف تقریباً ٢٠میل کے فاصلہ پرہے۔ (طبری، ج٧ ، ص ١٢٥) یعقوبی کا بیان ہے : جب امام علیہ السلام کومسلم کی شہادت کی خبر ملی تو آپ قطقطانہ میں تھے۔ (طبری، ج٢، ص ٢٣٠)

٦۔ابو مخنف کا بیان ہے : مجھ سے یونس بن ابی اسحاق سبیعی نے اس کی روایت کی ہے۔(طبری ،ج٥،ص٣٩٤)

۲۲۹

تیسری منزل : حاجر(١)

اس کے بعد امام حسین علیہ السلام اپنے مقصد کی طرف روانہ ہوتے ہوئے حاجر بطن رمہ(٢) تک پہنچے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے قیس بن مسہر صیداوی کو اہل کوفہ کی طرف روانہ کیا اور ان کے ہمراہ اہل کوفہ کے نام ایک خط لکھا :

''بسم اللّه الرحمن الرحیم ! من الحسین بن علی الی اخوانه من المومنین و المسلمین، سلام علیکم : فانّی أحمد الیکم اللّٰه الذی لا اله الا هو ، أما بعد ، فان کتاب مسلم بن عقیل جاء ن یخبرن فیه بحسن رأیکم و اجتماع ملئکم علی نصرنا و الطلب بحقنا فسألت اللّٰه أن یحسن لنا الصنع وأن یثیبکم علی ذالک أعظم الاجر ، وقدشخصت من مکة یوم الثلاثاء لثمان مضین من ذی الحجه یوم التروية فاذا قدم علیکم رسول فا کمشوا أمرکم و جدّ وا، فان قادم علیکم فأیام هٰذه، ان شاء اللّٰه؛ والسلام علیکم ورحمة اللّه وبرکا ته ''

بسم اللّہ الرحمن الرحیم ! یہ خط حسین بن علی کی جانب سے اپنے مومنین و مسلمین بھائیوں کے نام، سلام علیکم ، میں اس خدا کی حمد و ثنا کرتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ۔امابعد ، حقیقت یہ ہے کہ مسلم بن عقیل کا خط مجھ تک آچکا ہے، اس خط میں انھوں نے مجھے خبر دی ہے کہ تم لوگوں کی رائے اچھی ہے اور تمہارے بزرگوں نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ وہ ہماری مدد کریں گے اور ہمارے حق کو ہمارے دشمنوں سے واپس لے لیں گے تو میں خدا سے سوال کرتا ہوں کہ وہ ہمارے لئے اچھی راہ قرار دے اور اس کے ثواب میں تم لوگوں کو اجرعظیم سے نوازے ۔

____________________

١ ۔حاجرنجد کی بلند وادی کو کہتے ہیں ۔

٢۔ بطن رمہ وہ جگہ ہے جہا ں اہل کو فہ و بصرہ اس وقت یکجا ہوتے تھے جب وہ مدینہ جانے کا ارادہ کرتے تھے جیسا کہ معجم البلدان، ج ٤،ص ٢٩٠،اور تاج العروس، ج ٣،ص١٣٩پر مرقوم ہے۔

۲۳۰

اس سے تم لوگ آگاہ رہوکہ میں بروز سہ شنبہ ٨ ذی الحجہ یوم الترویہ مکہ سے نکل چکا ہوں لہذا جب میرا نامہ بر تم لوگوں تک پہنچے تو جو کام تم کو کرنا چاہئیے اس کی تدبیر میں لگ جاؤ اور اس مسئلہ میں بھر پور کوشش کرو کیونکہ میں انشا ء اللہ انہی چند دنوں میں تم تک پہنچنے والا ہوں ۔ والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

امام حسین علیہ السلام کا یہ خط لے کر قیس بن مسہر صیداوی کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے۔آپ جب قادسیہ پہنچے تو حصین بن تمیم نے آپ کو گرفتار کر کے عبیداللہ بن زیاد کے پاس بھیج دیا ۔

ابن زیاد نے آپ سے کہا محل کی چھت پر جاؤ اور کذاب بن کذاب کو گالیاں دو !

قیس بن مسہر شجاعت وشہا مت کے ساتھ محل کی چھت پر آئے اور کہا :'' أیھا الناس ! ان الحسین علیہ السلام بن علی خیر خلق اللّٰہ ابن فاطمہ بنت رسول اللہ وأنا رسولہ الیکم وقد فارقتہ بالحاجر فأجیبوہ ثم لعن عبید اللہ بن زیاد وأباہ واستغفر لعلیِّ بن أبی طالب '' اے لوگو ! حسین بن علی خلق خدا میں بہتر ین مخلوق ہیں ، آپ فرزند فاطمہ بنت رسول خدا ہیں اور میں ان کا نامہ بر ہوں ، میں ان کو مقام حاجر میں چھوڑ کر یہاں آیا ہوں ۔ تم لوگ ان کی عدالت خواہ آواز پر لبیک کہنے کے لئے آمادہ ہو جاؤ پھر آپ نے عبید اللہ اور اس کے باپ پر لعنت کی اور علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کے لئے طلب مغفرت کی۔عبید اللہ نے حکم دیا کہ انھیں محل کے اوپر سے نیچے پھینک دیا جائے، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور آپ کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا۔اس طرح آپ شہید ہو گئے ۔] اللہ آپ پر نزول رحمت فر مائے[(١)

چو تھی منزل : چشمۂ آب

امام حسین علیہ السلام کا قافلہ کوفہ کی طرف رواں دواں تھا؛ راستے میں آپ کا قافلہ عرب کے ایک پا نی کے چشمہ کے پاس جا کر ٹھہرا۔ وہاں عبد اللہ بن مطیع عدوی بھی موجود تھے جو پا نی لینے کی غرض سے وہاں اترے تھے۔جیسے ہی عبد اللہ بن مطیع نے امام حسین علیہ السلام کو دیکھا ویسے ہی آپ کی خدمت میں

____________________

١۔ کتاب کے مقدمہ میں شرح احوال موجود ہے۔

۲۳۱

آکر کھڑے ہو گئے اور عرض کی: فرزند رسول خدا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں !کون سا سبب آپ کو یہاں تک لے آیا ؟

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : اہل عراق نے خط لکھ کر مجھے اپنی طرف بلا یا ہے۔عبد اللہ بن مطیع نے آپ سے عرض کیا: فرزند رسول اللہ آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ اس راہ میں آپ اسلام کی ہتک حرمت نہ ہو نے دیں ، میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ(وآلہ) وسلم کی حرمت خطرے میں نہ پڑے ،خدا کے لئے عرب کی حرمت خطرے میں نہ ڈالئے۔خدا کی قسم! اگر حق کو بنی امیہ سے واپس لینا چاہیں گے تو وہ آپ کو قتل کر ڈالیں گے اور اگر ان لوگوں نے آپ کو قتل کردیا تو آپ کے بعد کسی کو نگا ہ میں نہیں لا ئیں گے ۔(١) خدا کی قسم! اسلام کی حرمت، قریش کی حرمت ہے اورعربوں کی حرمت خاک میں مل جائے گی ،پس آپ ایسا نہ کریں اور کوفہ نہ جائیں اور بنی امیہ سے نہ الجھیں !عبد اللہ بن مطیع نے اپنے نظر یہ کو پیش کیا اور امام علیہ السلام اسے بغور سنتے رہے لیکن اپنے راستے پر چلتے رہے۔

پانچو یں منزل:خزیمیہ(٢)

امام حسین علیہ السلام کا سفر اپنے مقصد کی طرف جاری تھا۔ چلتے چلتے پھر ایک منزل پررکے جو مقام '' زرود'' سے پہلے تھی یہاں پر پانی موجود تھا،(٣) اس جگہ کا نام خزیمیہ ہے ۔

____________________

١۔ امام کے عمل سے نہ تو اسلام کی بے حرمتی ہوئی نہ ہی رسول خدا ، عرب اور قریش کی ہتک حرمت ہوئی بلکہ اسلام دشمن عناصر کی کا رستا نیو ں سے یہ سب کچھ ہوا ۔ابن مطیع نے اپنے اس جملہ میں خطا کی ہے جو یہ کہہ دیا کہولئن قتلوک لا یها بون بعد ک احداابدا کیونکہ امام علیہ السلام کے بعد ان لوگو ں کو جرأ ت ملی جو مکہ ومدینہ وکوفہ میں اس سے پہلے اپنے ہاتھو ں میں چوڑیا ں پہنے بیٹھے تھے انھی ں میں سے خود ایک ابن مطیع بھی ہے جو ابن زبیر کے زمانے میں کوفہ کا والی بنا۔ اگر امام حسین علیہ السلام نے قیام نہ کیا ہوتا تو بنی امیہ کے خلا ف کسی میں جرأ ت پیدا نہ ہوتی اور اسلام کو مٹا نے میں وہ جو چاہتے وہی کرتے ۔

٢۔یہ جگہ مقام زرود سے پہلے ہے اس کے بعدکاراستہ کوفہ جانے والو ں کے لئے ہے جیسا کہ معجم البلدان میں آیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے اس کے اورثعلبیہ کے درمیان ٣٢کیلومیٹرکا فاصلہ ہے۔ یہ درحقیقت ثعلبیہ کے بعدحجاج کی پہلی منزل ہے۔

٣۔ طبری ،ج٥،ص ٣٩٤، ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے محمد بن قیس نے یہ روایت بیان کی ہے ۔شاید یہ قیس بن مسہر کے فرزند ہیں ۔

۲۳۲

زہیر بن قین کا امام حسین علیہ السلام سے ملحق ہونا

قبیلہء بنی فنرارہ کے ایک مرد کا بیان ہے : ہم زہیر بن قین بجلی کے ہمراہ تھے اور ہم اسی راستے پر چل رہے تھے جس راستہ پر حسین (علیہ السلام) محو سفر تھے لیکن ہمارے لئے سب سے زیادہ نا پسند امر یہ تھا کہ ہم ان کے ہمراہ ایک ساتھ سفر کریں اور ایک منزل پر ٹھہریں لہٰذ ا زہیر کے حکم کے مطا بق حسین جہاں ٹھہر تے تھے ہم وہاں سے آگے بڑھ جا تے اور وہ جہاں پر آگے بڑھتے ہم وہاں پڑاؤ ڈال کر آرام کرتے تھے؛ لیکن راستے میں ہم ایک ایسی منزل پر پہنچے کہ چارو نا چار ہم کو بھی وہیں پر رکنا پڑا جہاں پر امام حسین نے پڑاؤ ڈالا تھا۔ امام حسین نے ایک طرف اپنا خیمہ لگا یا اور ہم نے اس کے دوسری طرف ؛ ہم لوگ ابھی بیٹھے اپنے خیمے میں کھا نا ہی کھا رہے تھے کہ یکایک حسین کا پیغام رساں حاضر ہوا اور اس نے سلام کیاپھر خیمہ میں داخل ہوا اور کہا : اے زہیر بن قین ! ابو عبد اللہ حسین بن علی نے مجھے تمہاری طرف بھیجا ہے تا کہ تم ان کے پاس چلو۔ اس جملہ کا اثر یہ ہوا کہ حیرت وتعجب سے جس انسان کے ہاتھ میں جو لقمہ تھا وہ نیچے گر گیا؛ سکوت کا یہ عالم تھا کہ ایسا محسوس ہو تا تھا کہ ہم سب کے سروں پر طائر بیٹھے ہیں ۔(١) زہیر بن قین کی زوجہ دلھم بنت عمر کہتی ہے کہ میں نے زہیر سے کہا : فرزند رسول اللہ تمہارے پاس پیغام بھیجے اور تم ان کے پاس نہ جائو !سبحان اللہ! اگر انھوں نے مجھے بلایا ہوتاتو میں ضرور جاتی اور ان کے گہر بار کلام کو ضرور سنتی، پھر میں نے کچھ نہ کہا لیکن زہیر بن قین اٹھے اور امام علیہ السلام کی بارگاہ میں روانہ ہوگئے ۔ابھی کچھ دیر نہ گزری تھی کہ واپس آگئے لیکن اب تو بات ہی کچھ اور تھی؛ چہرے پر خوشی کے آثار تھے اور چہرہ گلاب کی طرح کھلا جارہاتھا۔

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سدّی نے بنی فزارہ کے ایک جوان کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ جب حجاج بن یوسف کے زمانے میں ہم لوگ زہیر بن قیس بجلی کے مکان میں چھپے تھے جہا ں اہل شام داخل نہیں ہو تے تھے تو میں نے فزاری سے پوچھا: ذرا مجھ سے اس واقعہ کو بیان کرو جب تم لوگ حسین بن علی کے ہمراہ، سفر میں تھے تو اس نے یہ روایت بیان کی۔(طبری، ج٥، ص ٣٩٦، ارشاد، ص ٢٢١، خوارزمی، ص٣٢٥)

۲۳۳

اسی عالم میں زہیر نے اپنے ہمراہیوں سے کہا : تم میں سے جو ہمارے ساتھ آناچاہتا ہے آ جائے اور اگر نہیں تو اب اس سے میرا یہ آخری دیدار ہے۔اس کے بعداپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے زہیر نے کہا : میں تم لوگوں سے ایک روایت بیان کرنا چاہتا ہوں ، اسے غور سے سنو !ہم لوگ جب مقام '' بلنجر ''(١) پر لڑنے کے لئے گئے تو خداوندمتعال نے ہم لوگوں کو دشمنوں پر کامیابی عطاکی اور بڑی مقدار میں مال غنیمت بھی ہاتھ آیا۔اس وقت سلمان باہلی(٢) نے ہم لوگوں سے کہا : کیا تم لوگ اس بات پر خوش ہو کہ خدا وند عالم نے تم لوگوں کو فتح و ظفر سے نوازاہے اور کافی مقدار میں مال غنیمت تمہارے ہاتھوں لگاہے ؟ ہم لوگوں نے کہا : ہاں کیوں نہیں !تواس نے ہم لوگوں سے کہا : جب تم لوگ آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کی جوانی دیکھو گے تو تمہاری ان کے ساتھ جنگ کی خوشی اس مال غنیمت ملنے کی خوشی سے زیادہ ہو گی اورجہاں تک میری بات ہے تو اب میں تم لوگوں سے خدا حافظی کر تا ہوں ۔

پھر زہیر بن قین نے اپنی زوجہ کی طرف رخ کرتے ہوئے کہا : اب میں تم کو طلا ق دے رہا ہوں تاکہ تم آزاد ہو جاؤ اورگھروالوں کے پاس جا کر وہیں زندگی بسر کرو؛ کیونکہ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میری وجہ سے تمہیں کوئی نقصان پہنچے۔میں تمہارے لئے بہتری چاہتاہوں ۔(٣) و(٤)

____________________

١۔ یہ تاتا ریو ں (یا خزریو ں) کا شہر ہے جو انہیں کے دروازو ں میں سے ایک دروازے کے نزدیک ہے ٣٣ھ عہد عثمان میں سلمان بن ربیعہ باہلی کے ہاتھو ں یہ جنگ فتح کی گئی جیسا کہ معجم البلدان میں یہی موجود ہے ۔

٢۔ طبری ،ج٤، ص ٣٠٥ پر ہے کہ سلمان فارسی اور ابو ہریرہ اس جنگ میں لشکر کے ہمراہ موجود تھے ۔یہ بیان ابن اثیر کی الکامل میں ہے (ج ٤،ص ١٧)پھریہ بیان ہے کہ جس شخصیت نے ان لوگو ں سے یہ گفتگوکی وہ سلمان فارسی ہیں نہ کہ باہلی۔ ابن اثیر نے ا پنی تاریخ الکامل فی التاریخ میں اس بات کا ارادہ کیا ہے کہ تاریخ طبری کو کامل کری ں لہٰذاوہ اکثرو بیشتر اخبار میں طبری سے ناقل دکھائی دیتے ہیں ۔شیخ مفید نے ارشاد میں اور فتال نے روضة الواعظین میں ص ١٥٣پر ، ابن نمانے مثیر الاحزان میں ص ٢٣پر ، خوارزمی نے اپنے مقتل میں ج١، ص ٢٢٥پر اور البکری نے معجم ج١ ،ص٣٧٦ پر واضح طور سے اس بات کی صراحت کی ہے کہ وہ شخص جناب سلمان فارسی ہی تھے جنہو ں نے یہ جملہ کہا تھا۔ اس بات کی تائید طبری نے بھی کی ہے کیونکہ طبری کے بیان کے مطابق جناب سلمان وہا ں موجود تھے ؛ لیکن ظاہر یہ ہے کہ مدائن فتح ہونے کے بعد جناب سلمان فارسی وہیں کے گورنر رہے اور وہیں اپنی وفات تک قیام پذیر رہے اور کسی بھی جنگ کے لئے وہا ں سے نہیں نکلے؛ بلکہ اس جنگ سے قبل عمر کے عہد حکومت میں آپ نے اس دنیا کو الوداع کہہ دیا تھا ۔

٣۔ ابو مخنف کا بیان ہے : مجھ سے یہ خبر زہیر بن قین کی زوجہ دلھم بنت عمر و نے بیان کی ہے۔(طبری ،ج٥،ص٣٩٦، الارشاد، ص ٢٢١)

٤۔ عنقریب یہ بات کربلامیں زہیر بن قین کے خطبے سے معلوم ہوجائے گی کہ اس سے قبل زہیراس بات پر معاویہ کی مذمت کیا کرتے تھے کہ اس نے زیاد کو کس طرح اپنے سے ملحق کرلیا؛اسی طرح حجر بن عدی کے قتل پر بھی معاویہ سے ناراض تھے ۔

۲۳۴

ایک اور نامہ بر

اسی جگہ سے امام حسین علیہ السلام نے عبداللہ بن بقطر حمیری(١) کو بعض راستوں سے مسلم بن عقیل(٢) کی طرف روانہ کیا۔ سپاہ اموی جو حصین بن تمیم کے سربراہی میں کوفہ کے قریب قادسیہ میں چھاؤنی ڈالے راہوں کو مسدود کئے تھی اور آمد و رفت پر سختی سے نظررکھے ہوئی تھی؛ اس نے عبداللہ بن بقطر کوگرفتار کر کے عبیداللہ بن زیاد کے پاس بھیج دیا۔ جب آپ عبیداللہ کے پاس لائے گئے تو اس نے کہا : محل کے اوپر جاؤ اور کذاب بن کذاب پر لعنت بھیجو پھر نیچے اتر آؤ تاکہ میں تمہارے سلسلے میں اپنانظریہ قائم کرسکوں ۔یہ سن کر عبداللہ بن بقطر محل کے اوپر گئے اور جب دیکھا کہ لوگ تماشابین کھڑے ہیں تو آپ نے فرمایا :

'' أیھاالناس انی رسول الحسین علیہ السلام بن فاطمہ بنت رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم لتنصروہ و توازروہ علی بن مرجانة بن سمیہ الدعی ! ''

اے لوگومیں حسین فرزند فاطمہ بنت رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام رساں ہوں تاکہ تم لوگ ان کی مدد و نصرت کر سکو اور اس مرجانہ بن سمیہ کے بچے جس کی پیدائش کا بستر معلوم نہیں ہے، کے خلاف ان کی پشت پناہی کرو ،یہ سنتے ہی عبیداللہ بن زیادنے حکم دیاکہ انھیں چھت سے پھینک دیاجائے۔ اس کے کارندوں نے آپ کو محل کے اوپر سے نیچے پھینک دیا؛جس کی وجہ سے آ پ کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں ؛ لیکن ابھی رمق حیات باقی تھی۔عبدالملک بن عمیرلخمی(٣) آپ کے پاس آ یا اور آپ کو ذبح کر کے شہید کر ڈالا۔

____________________

١۔ آپ کی ما ں امام حسین علیہ السلام کی دیکھ بھال کیاکرتی تھی ں اسی لئے آپ کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ آ پ حضرت امام حسین علیہ السلام کے رضائی بھائی تھے۔طبری نے بقطر ہی لکھا ہے اسی طرح جزری نے الکامل میں بھی بقطر ہی ذکر کیا ہے؛ لیکن ہمارے بزرگو ں نے(ی) کے ساتھ یعنی یقطر لکھاہے جیسا کہ سماوی نے ابصارالعین، ص٥٢پر یہی لکھا ہے ۔

٢۔ ابومخنف کا بیان ہے : مجھ سے یہ خبرابو علی انصاری نے بکر بن مصعب مزنی کے حوالے سے نقل کی ہے۔(طبری ،ج٥، ص٣٩٨؛ارشاد، ص ٢٢٠) اس خبر کو انھو ں نے قیس بن مسہر صیداوی کی خبرسے خلط ملط کردیا ہے ۔

٣۔ شعبی کے بعد اس نے کوفہ میں قضاوت کا عہدہ سنبھالا۔ ١٣٦ ھ میں وہ ہلاک ہوا ؛اس وقت اس کی عمر ١٠٣ سال تھی جیسا کہ میزان الاعتدال، ج ١، ص ١٥١ ، اور تہذیب الاسمائ، ص٣٠٩ پر تحریرہے۔ عنقریب یہ بات آئے گی کہ منزل زبالہ پر صیداوی کی شہادت کی خبر سے پہلے امام علیہ السلام کو ابن بقطر کی شہادت کی خبر ملی ہے؛ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام نے قیس بن مسہر صیداوی سے پہلے یقطر کو روانہ کیا تھا ۔

۲۳۵

چھٹی منزل: زرود(١)

عبداللہ بن سلیم اسدی اور مذری بن مشمعل سے روایت ہے کہ ان دونوں نے کہا :

جب ہم حج سے فارغ ہوگئے تو ہماری ساری کوشش یہی تھی کہ ہم کسی طرح حسین سے راستے میں ملحق ہو جائیں تاکہ دیکھیں کہ بات کہاں تک پہنچتی ہے؛ لہٰذا ہم لوگوں نے اپنے ناقوں کو سر پٹ دو ڑایا؛ یہاں تک کہ مقام زرود(٢) پر ہم ان سے ملحق ہوگئے۔جب ہم لوگ ان کے قریب گئے تو دیکھا کوفہ کا رہنے والا ایک شخص عراق سے حجاز کی طرف روانہ ہے، جیسے ہی اس نے امام حسین علیہ السلام کو دیکھا اپنے راستے سے پلٹ گیا تاکہ آپ سے اس کی ملاقات نہ ہو لیکن ا مام علیہ السلام وہاں پر کھڑ ے رہے گویا اس کے دیدار کے منتطر تھے لیکن جب دیکھا کہ وہ ملاقات کے لئے مائل نہیں ہے تو اسے چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔

ہم میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا : آؤ اس شخص کے پاس چلیں اور اس سے پوچھیں اگر اس کے پاس کوفہ کی خبر ہو گی تووہ ہم کو اس سے مطلع کرے گا ؛یہ کہہ کر ہم لوگ چلے یہاں تک کہ اس تک پہنچ ہی گئے، پہنچ کر ہم نے کہا : السلام علیک ، تو اس نے جواب دیا: وعلیکم السلام ورحمة اللہ ۔

پھر ہم لوگوں نے پوچھا : تم کس قبیلہ سے ہو ؟ اس شخص نے جواب دیا : ہم قبیلہ بنی اسد سے ہیں ۔

ہم لوگوں نے کہا : ہم لوگ بھی بنی اسد سے متعلق ہیں ؛تمہارا نام کیا ہے ؟

____________________

١۔یہ جگہ خزیمیہ او رثعلبیہ کے درمیان کوفہ کے راستے میں ہے جیسا کہ معجم البلدان، ج٤،ص ٣٢٧میں یہی موجود ہے۔

٢۔ یہ خبر اس خبر سے منافات ر کھتی ہے جوابھی گذرچکی کہ یہ لوگ منزل صفاح پر مقام زرو د سے چند منزل قبل فر زدق والے واقعے میں موجود تھے کیونکہ اس خبر سے یہی ظاہر ہوتاہے بلکہ واضح ہے کہ یہ لوگ امام حسین علیہ السلام سے زرود میں ملحق ہوئے ہیں اور اس سے پہلے یہ لوگ امام کے ساتھ موجود نہیں تھے بلکہ حج کی ادائیگی کے ساتھ یہ ممکن بھی نہیں ہے کیونکہ منزل صفاح اوائل میں ہے جبکہ امام علیہ السلام ''یوم الترویہ'' کو مکہ سے نکلے ہیں ۔ اگر یہ لوگ امام علیہ السلام سے منزل صفاح پر ملحق ہوئے ہیں تو پھر حج کی انجام دہی ممکن نہیں ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ دونو ں خبرو ں کا ایک ہی راوی ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا؛ نہ ہی ابو جناب ، نہ ابو مخنف اورنہ ہی طبری، مگر یہ کہ یہ کہا جائے کہ حج سے پہلے یہ دونو ں منزل صفاح پر امام علیہ السلام سے ملے اور پھر حج کے بعد منزل زرود پر پہنچ کرامام علیہ السلام سے ملحق ہو گئے ۔

اس نے جواب دیا : بکیر بن مثعبہ، ہم لوگو ں نے بھی اپنا نام بتایا اور پھر اس سے پوچھا : کیا تم ہمیں ان لوگو ں کے بارے میں بتاؤ گے جنہیں تم اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو؟

اس نے جواب دیا:ہا ں ! میں جب کوفہ سے نکلاتھا تو مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ قتل کئے جا چکے تھے ۔ ہم نے دیکھا ان دونو ں کے پیرو ں میں رسی باندھ کر انھی ں بازار میں پھرایا جا رہاہے۔ اس خبر کے سننے کے بعد ہم لوگ اس سے جداہوکر اپنے راستے پر چل پڑے یہا ں تک کہ(حسین علیہ السلام) سے ملحق ہوگئے اور ایک دوسری منزل پر ان کے ہمراہ پٹراؤ ڈالا ۔

۲۳۶

ساتویں منزل : ثعلبیہ(١)

شام کا وقت تھا جب امام علیہ السلام نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا جس کا نام'' ثعلبیہ'' تھا۔جب آپ کے خیمہ نصب ہوچکے تو ہم لوگوں نے آپ کی خدمت میں آکر سلام عرض کیا ۔آ پ نے سلام کا جواب دیا تو ہم لوگوں نے آپ سے کہا : اللہ آپ پر رحمت نازل کرے! ہم لوگوں کے پاس ایک اہم خبر ہے۔ اگر آپ چاہیں تو اسے اعلانیہ بیان کریں اوراگر چاہیں ۔ توخفیہ اور پوشیدہ طور پر بیان کریں ۔ امام علیہ السلام نے اپنے اصحاب پر ایک نگاہ ڈالی اور فرمایا: ''مادون ھولاء سر'' ان لوگوں سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ہے جو خبر لائے ہو بیان کردو، ہم لوگوں نے ان سے کہا : آپ نے کل شام اس سوار کو دیکھا تھا جو آپ کے پاس سے گزرا تھا ؟

امام علیہ السلام نے فرمایا : ہاں ! میں اس سے کوفہ کے بارے میں سوال کرناچاہتا تھا۔ ہم نے کہا: ہم نے اس سے آپ کے لئے خبر لے لی ہے اورآپ کے بجائے ہم لوگوں نے کوفہ کے موضوع پر تحقیق کر لی ہے۔ وہ شخص قبیلہ بنی اسد کاایک مرد تھا جو ہمارے ہی قبیلہ سے تھا ۔ وہ صاحب نظر، سچا، اور صاحب عقل و فضل تھا ۔اس نے ہم لوگوں سے بتایا کہ جب وہ وہاں سے نکلا تھا تومسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ قتل ہوچکے تھے حتیٰ اس نے یہ بھی دیکھا تھا کہ ان دونوں کے پیروں میں رسی باندھ کر بازار میں گھسیٹا جارہاہے۔یہ سن کر آپ نے فرمایا :

____________________

١۔ کوفہ سے مکہ جانے کے لئے جو راستہ مڑتا ہے یہ وہی ہے۔ اس کی نسبت بنی اسد کے ایک شخص ثعلبہ کی طرف دی گئی ہے جیسا کہ معجم میں تحریر ہے۔

۲۳۷

'' انّاللّہ وانّاالیہ راجعون'' اس جملہ کی آپ نے چند مرتبہ تکرار فرمائی(١) پھر ہم نے عرض کی : آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ آ پ اپنے گھر والوں کے ہمراہ یہاں سے واپس لوٹ جائیں ؛کیونکہ اب کوفہ میں آپ کا کوئی ناصر ومدد گا ر نہیں ہے بلکہ ہمیں خوف ہے کہ کہیں وہ سب آپ کے مخالف نہ ہوگئے ہو ں ۔ایسے موقع پر فرزندان عقیل بن ابیطالب اٹھے اور انھوں نے اس کی مخالفت کی(٢) اور کہنے لگے : نہیں خدا کی قسم ہم یہاں سے اس وقت تک نہیں جائیں گے۔جب تک ہم ان سے اپنا انتقام نہ لے لیں یا وہی مزہ نہ چکھ لیں جس کاذائقہ ہمارے بھائی نے چکھاہے۔(٣) ان دونوں کا بیان ہے: حسین (علیہ السلام) نے ہم لوگوں پر ایک نگاہ ڈالی اور فرمایا : ''لاخیر فی العیش بعد ھولاء !'' ان لوگوں کے بعد زندگی میں کوئی اچھائی نہیں ہے۔ اس جملہ سے ہم نے بخوبی سمجھ لیا کہ سفر کے ارادے میں یہ مصمم ہیں تو ہم نے کہا : خدا کرے خیر ہو ! آپ نے بھی ہمارے لئے دعا کی اور فرمایا:'' رحمکم اللّہ ''اللہ تم دونوں پر رحمت نازل کرے ۔

رات کا سناٹا چھاچکا تھا، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ آپ سپیدہ سحر کے انتظار میں ہیں ؛جیسے ہی سپیدہ سحر نمودار ہوئی ،آپ نے اپنے جوانوں اور نو جوانوں سے فرمایا :''اکثروا من المائ'' پانی زیادہ سے زیادہ جمع کرلو ، ان لوگوں نے خوب خوب پانی جمع کرلیا اور اپنے سفر پر نکل پڑے یہاں تک کہ ایک دوسری منزل تک پہنچ گئے ۔

____________________

١۔ اس روایت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ جناب مسلم کی شہادت کی خبر یہا ں عام ہوگئی لیکن عنقریب یہ بات آئے گی کہ منزل زبالہ میں پہنچ کر امام علیہ السلام نے یہ خط لکھ کر اپنے اصحاب کے سامنے اس کا اعلان کیا تھا؛ یہا ں سے امام علیہ السلام کے اس جملے کا فلسفہ سمجھ میں آتا ہے کہ'' مادو ں ھولاء سر'' یعنی ان کے علاوہ جو لوگ ہیں ان کے لئے یہ خبر سری ہے اور اسی طرح یہ خبر منزل زبالہ تک پوشیدہ ہی رہی لیکن یعقوبی کا بیان ہے کہ مسلم کی شہادت کی خبر آپ کو مقام'' قطقطانہ'' میں ملی تھی۔ (تاریخ یعقوبی ،ج٦ ، ص ٢٣٠ ،ط، نجف)

٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے : ابو جناب کلبی نے عدی بن حرملہ اسد کے حوالے سے اور اس نے عبداللہ سے اس خبر کو ہمارے لئے بیان کیاہے۔ (طبری ،ج٥، ص٣٩٧) ارشاد میں ،ص ٢٢٢ پر ہے کہ عبداللہ بن سلیمان نے یہ روایت بیان کی ہے۔(ارشاد ، طبع نجف)

٣۔ ابومخنف کا بیان ہے : مجھ سے عمر بن خالد نے یہ خبر بیان کی ہے (لیکن صحیح عمرو بن خالد ہے) اور اس نے زید بن علی بن الحسین سے اور اس نے دائود بن علی بن عبداللہ بن عباس سے نقل کیا ہے ۔(طبری ،ج٥، ص ٣٩٧ ؛ارشاد، ص٢٢٢، مسعودی ،ج٣ ،ص ٧٠، الخواص ، ص ٢٤٥ ، طبع نجف)

۲۳۸

آٹھویں منزل : زبالہ(١)

یہ نورانی قافلہ اپنے سفرکے راستے طے کرتا ہوا زبالہ(٢) کے علاقے میں پہنچا تو وہاں امام حسین علیہ السلام کو اپنے رضائی بھائی عبداللہ بن بقطر(٣) کی شہادت کی خبر ملی۔ آپ نے ایک نوشتہ نکال کر لوگوں کو آواز دی اور فرمایا :'' بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم، أمابعد، فقد أتانا خبر فضیع ! قتل ابن عقیل و هانی بن عروةو عبدالله بن یقطر، وقدخذلتنا شیعتنا (٤) فمن أحب منکم الانصراف فلینصرف لیس علیه منا ذمام ''

بسم اللہ الرحمن الرحیم، امابعد،مجھ تک ایک دل دھلانے والی خبر پہنچی ہے کہ مسلم بن عقیل ، ہانی بن عروہ اور عبداللہ بن یقطر قتل کردئے گئے ہیں اور ہمار ی محبت کا دم بھرنے والوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے لہذا اب تم میں سے جو جانا چاہتا ہے وہ چلاجائے، ہماری جانب سے اس پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔

یہ جملہ سنتے ہی لوگ امام علیہ السلام سے جدا ہونے لگے کوئی داہنی طرف جانے لگاکوئی بائیں طرف؛ نتیجہ یہ ہواکہ فقط وہی ساتھی رہ گئے جو مدینہ سے آئے تھے۔ آپ نے یہ کام فقط اس لئے کیاتھا کہ

____________________

١۔ یہ جگہ کوفہ سے مکہ جاتے وقت مختلف راستے پیداہونے سے قبل ہے۔ یہا ں ایک قلعہ اورجامع مسجد ہے جو بنی اسد کی ہے۔ اس جگہ کا نام عمالقہ کی ایک عورت کے نام پر ہے جیسا کہ معجم البلدان میں یہی ہے ۔

(٢) ابومخنف کا بیان ہے : ابوجناب کلبی نے عدی بن حرملہ سے اور اس نے عبداللہ بن سلیم سے میرے لئے یہ خبر بیان کی ہے۔ (طبری، ج٥، ص ٣٩٨)

٣۔ ان کے شرح احوال گزر چکے ہیں اور وہ یہ کہ ان کی والدہ امام حسین علیہ السلام کی دیکھ بھال کیا کرتی تھی ں اسی لئے ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ امام حسین علیہ السلام کے رضائی بھائی ہیں ۔

٤۔ اس جملہ میں امام علیہ السلام کی تصریح ہے کہ کوفہ کے شیعو ں نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا۔ کوفہ اور جناب مسلم بن عقیل کی شہادت کے سلسلے میں یہ پہلا اعلان ہے اگرچہ اس کی خبر آپ کو اس سے قبل منزل زرود میں مل چکی تھی؛ لیکن ظاہر یہ ہے کہ جو لوگ وہا ں موجود تھے۔ ان کے علاوہ سب پر یہ خبر پوشیدہ تھی کیونکہ یہ امام علیہ السلام کے حکم سے ہوا تھا۔آخر کار آپ نے یہا ں '' زبالہ'' میں تمام حاضرین کے لئے اس خبر کا اعلان کردیا ۔

۲۳۹

باد یہ نشین عرب اس گمان میں آپ کے پیچھے پیچھے ہوئے تھے کہ آپ ایسے شہر میں آئیں گے جوظالم حکمرانوں کی حکومت سے پاک ہوگا اور وہاں کے لوگ آپ کے فرمانبردار ہوں گے لہذا امام علیہ السلام نے ناپسند کیا کہ ایسے لوگ آپ کے ہمسفر ہوں ۔امام چاہتے تھے کہ آپ کے ہمراہ صرف وہ رہیں جنہیں معلوم ہو کہ وہ کہاں جارہے ہیں اور امام علیہ السلام کو معلوم تھا کہ جب ان لوگوں پر بات آشکار ہوجائیگی تو کوئی بھی آپ کے ہمراہ نہیں رہے گا مگر وہ لوگ جو عدالت چاہتے ہوں اور موت ان کے ہمراہ چل رہی ہو۔(١) رات اسی منزل پر گزری ،صبح کو آپ نے اپنے جوانوں کو چلنے کا حکم دیاتو انھوں نے سب کو پانی پلاکر اور خوب اچھی طرح پانی بھر کر اپنا سفر شروع کر دیا یہاں تک کہ درّۂ عقبہ سے آپ کا گزرہوا ۔

نویں منزل : درّہ عقبہ(٢)

یہ نورانی قافلہ اپنے مقصد کی طرف آگے بڑھتا ہوا درّہ عقبہ تک پہنچا۔وہاں اس قافلہ نے اپنا پڑاؤ ڈالا۔(٣) بنی عکرمہ کے ایک شخص نے امام سے عرض کیا: آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ آپ یہیں سے پلٹ جائیے، خداکی قسم !آپ یہاں سے قدم آگے نہیں بڑھائیں گے مگریہ کہ نیزوں کی نوک اور تلواروں کی دھار پر آگے بڑھیں گے ، جن لوگوں نے آپ کو خط لکھا تھا اور آپ کوآنے کی دعوت دی تھی اگر یہ لوگ میدان کارزار کی مصیبتیں برداشت کرکے آپ کے لئے راستہ آسان کردیتے تب آپ وہاں جاتے تو آپ کے لئے بہت اچھا ہوتا لیکن ایسی بحرانی حالت میں جس سے آپ خود آگاہ ہیں ، میں نہیں سمجھتا کہ آپ کوفہ جانے کے سلسلے میں قدم آگے بڑھائیں گے۔

____________________

١۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام نے ان لوگو ں کو جانے کی اجازت دی تو آپ کا مقصد کیا تھا؟ امام علیہ السلام کا یہ بیان تمام چیزو ں پر کافی ہے

٢۔واقصہ کے بعد اور قاع سے پہلے مکہ کے راستے میں یہ ایک منزل ہے۔ یہ منزل ان کے لئے ہے جو مکہ جانا چاہتے ہیں ۔

٣۔ ابومخنف کا بیان ہے : ابوعلی انصاری نے بکر بن مصعب مزنی کے حوالے سے مجھ سے یہ خبر بیان کی ہے۔(طبری ،ج٥، ص ٣٩٨ ، ارشاد ،ص ٢٢٢ ،طبع نجف)

۲۴۰

امام حسین علیہ السلام نے اسے جواب دیا :''یاعبداللّٰہ ! انہ لیس یخفی علیّ ، الرأی ما رأیت ، ولکن اللّٰہ لا یغلب علی أمرہ ''(١) اے بندہ خدا !یہ بات مجھ پر پوشیدہ نہیں ہے ، تمہاری رائے وہی ہے جو تم دیکھ رہے ہو لیکن تمہارانظریہ خدا کے امر پر غالب نہیں آسکتااور خدا اپنے امرپرمغلوب نہیں ہوسکتا۔ یہ کہہ کر آپ نے وہاں سے کوچ کیا ۔(٢)

دسویں منزل : شراف(٣)

آپ کا قافلہ کوفہ کی سمت روانہ تھا کہ راستے میں ایک منزل پر جاکر پھر ٹھہرا جس کا نام شراف ہے۔ جب صبح نمودار ہوئی تو آپ نے اپنے جوانوں کو حکم دیا کہ پانی بھر لیں ! ان لوگوں نے کافی مقدار میں پانی بھرا اور صبح سویرے سفر شروع کردیا تاکہ دن کی گرمی سے محفوظ رہ سکیں ۔ چلتے چلتے دوپہرکاوقت آگیا ابھی قافلہ محو سفر ہی تھا کہ کسی نے کہا:اللّٰہ اکبر ! تو حسین نے بھی اللّٰہ اکبر کہتے ہوئے پوچھا : کس لئے تم نے یکایک تکبیر کہی ؟ اس شخص نے کہا : عراق کے نخلستان دیکھ کر ہم نے خوشی سے تکبیر کہی تو قبیلہ بنی اسد کے ان دونوں لوگوں (عبداللہ بن سلیم اور مذری بن مشمعل) نے کہا : ہم نے اس مقام پر ابھی تک خرمہ اور کھجور کا ایک بھی درخت نہیں دیکھا۔ امام حسین علیہ السلام نے پوچھا : تم کیا سمجھتے ہو اس نے کیا دیکھا ہے ؟ انھوں نے جواب دیا: ہم تو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس نے گھوڑ سواروں کے سرو گردن دیکھے ہیں ،اس پر اس مرد نے کہا : میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ آگے یہی ہوگا نہ کہ کھجوروں کے درخت ۔

____________________

١۔ ارشاد کے ص ٢٢٣ پر ہے کہ اس کے بعد آپ نے فرمایا :'' واللّٰہ لا یدعونی حتی یستخرجوا ھٰذہ العلقہ من جوفی فاذا فعلوا ذالک سلط اللہ علیھم من یذ لّھم حتی یکونوا أذل فرق الامم'' خدا کی قسم یہ مجھے نہیں چھوڑی ں گے یہا ں تک کہ میرے سرو تن میں جدائی کردی ں اور جب یہ ایسا کری ں گے تو اللہ ان پر ایسے لوگو ں کو مسلط کرے گا جو ان کو ذلیل و رسوا کری ں گے اور نوبت یہا ں تک پہنچے گی کہ یہ لوگ امت کے ذلیل ترین افراد ہوجائی ں گے ۔اعلام الوری میں بھی یہی موجود ہے، ص٢٣٢۔

٢۔ابو مخنف کابیان ہے کہ بنی عکرمہ کی ایک فرد'' لوذان'' نے مجھے خبر دی ہے کہ اس کے ایک چچا نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے۔ (طبری، ج٥ ، ص ٣٩٩)

٣۔ اس جگہ اور'' واقصہ'' کے درمیان ٢ میل کا فا صلہ ہے اور یہ عراق سے پہلے ہے ۔قادسیہ سے پہلے سعدبن ابی وقاص یہیں ٹھہرے تھے۔یہ جگہ ایسے شخص سے منسوب ہے جسے شراف کہا جاتا ہے۔ اس جگہ سے پانی کا چشمہ پھوٹتا تھاپھر یہا ں بہت سارے بڑے بڑے میٹھے پانی کے کنوی ں کھودے گئے۔ معجم البلدان میں یہی مرقوم ہے ۔

۲۴۱

گیارہویں منزل : ذوحسم(١)

ان شرائط کو دیکھ کر امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :''أمالناملجأ نلجأ الیه نجعله فی ظهورنا و نستقبل من وجه واحد ؟''کیا کوئی ایسی پناہ گاہ نہیں ہے جس میں پناہ گزیں ہوکر ہم اس فوج کو اپنے پیچھے کردیں اور ان سے دفاع کے لئے فقط ایک ہی طرف سے آمنے سامنے ہوں ؟ ہم لوگوں (بنی اسد کے دونوں افرد) نے عرض کیا : کیوں نہیں ! ذوحسم کا علاقہ آپ کے اس طرف موجودہے، آپ اپنے بائیں جانب اس کی طرف مڑ جائیں ، اگر ہم لوگ جلدی سے ادھر مڑ گئے تو وہی ہوگا جو آپ چاہتے ہیں ۔یہ سن کر امام حسین علیہ السلام نے بائیں جانب کا رخ کیا تو ہم لوگ بھی ان کی طرف مڑ گئے اور ہم نے ذوحسم پہنچنے میں جلدی کی لہذا ان لوگوں سے قبل ہم لوگ ذوحسم میں موجود تھے۔ ان لوگوں نے جب دیکھا کہ ہم لوگوں نے اپناراستہ بدل دیا ہے تو وہ لوگ بھی ہماری جانب آنے لگے ۔

امام حسین علیہ السلام نے وہیں پر پڑاؤ ڈالا اور حکم دیا کہ خیمے نصب کئے جائیں ۔ جوانوں نے خیمہ لگانا شروع کردیا، ابھی تھوڑی دیر بھی نہ گزری تھی کہ گھوڑ سواروں کے سر دکھائی دینے لگے،ان کے پرچم گویاپرندوں کے پروں کی طرح تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ساری فوج پہنچ گئی اور وہ ہزار گھوڑ سوار تھے جن کا سر براہ حر بن یزید تمیمی یربو عی تھا۔ دوپہر کی جھلسا دینے والی گرمی میں حر اپنے رسالے کے ہمراہ امام حسین علیہ السلام کے بالمقابل آکر کھڑا ہو گیا۔ ادھر حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب سروں پر عمامہ رکھے اپنی تلواروں کو نیام میں رکھے ہوئے تھے ۔

فوج کی تشنہ لبی دیکھ کر امام حسین علیہ السلام نے اپنے جوانوں سے فرمایا :'' اسقواالقوم وارووهم من الماء ورشّفوا الخیل ترشیفا'' اس فوج کو پانی پلاؤ اور انھیں سیراب کردو نیز ان کے

____________________

١۔ یہ ایک پہاڑی کا نام ہے۔ نعما ن یہیں آکر شکار کیا کر تا تھا جیسا کہ معجم البلدان میں آیا ہے۔اس کے اور عذیب الہجانات کے درمیان کوفہ تک ٣٣ میل کا فاصلہ ہے جیسا کہ طبری میں بھی یہی ہے ۔سبط بن جوزی نے علما ء سیر کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ (امام) حسین کو جناب مسلم علیہ السلام پر گزرنے والے واقعات کا کچھ بھی علم نہیں تھا یہا ں تک جب قادسیہ سے ٣ میل کے فاصلہ پر حر بن یزید ریاحی کے رسالہ سے سامنا ہوا تو اس نے مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ کے قتل کی خبر امام حسین علیہ السلام کو دی اور مطلع کیا کہ ابن زیاد کوفہ میں آچکا ہے اور ان کوآمادہ کر رہا ہے اور ان سے کہاکہ واپس پلٹ جائی ں ۔(ملا حظہ ہو ص ٢٤٥طبع نجف)

۲۴۲

گھوڑوں کو بھی سیراب کردو۔حکم پاتے ہی حسینی جوا ن ہاتھوں میں مشکیں لئے اٹھے اور سب کو پانی پلانا شروع کر دیا یہاں تک کہ سب کو سیراب کرنے کے بعد بڑے بڑے پیالوں ، طشتوں اور پتھروں کے بڑے بڑے برتن پانی سے بھر کر گھوڑوں کے سامنے رکھ دئے گئے۔ جب وہ جانور تین چار، یاپانچ بار پانی میں منہ ڈال کرپھر اس سے اپنا منہ نکال لیتے تھے(١) تب یہ جوان پانی کے ان برتنوں کودوسرے جانوروں کے پاس لے جاتے تھے؛ ا س طرح سارے کے سارے گھوڑے سیراب ہوگئے ۔(٢) و(٣)

اسی اثنا میں نماز ظہر کا وقت آگیا(٤) تو حسین (علیہ السلام) نے حجاج بن مسروق جعفی کو اذان دینے کا حکم دیا۔ حجاج نے اذان دی، جب اذان ختم ہو گئی اور اقامت کا وقت آیا تو(امام حسین) جسم پر ایک لباس اور دوش پر عبا ڈالے اور پیروں میں نعلین پہنے باہر نکلے اور حمد وثنائے الہٰی کے بعد اس طرح گو یا ہوئے :

____________________

١۔ ترشیف کا حقیقی معنی یہی ہے ۔

٢۔ طبری کا بیان ہے کہ میں نے یہ واقعہ ہشام سے ابومخنف کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ابومخنف کہتے ہیں کہ ابوجناب نے عدی بن حرملہ سے اور اس نے عبداللہ بن سلیم اورمذری سے یہ خبرنقل کی ہے ۔

٣۔طبری کا بیان ہے کہ ہشام نے کہا : مجھ سے لقیط نے علی بن طعان محاربی کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے کہ علی بن طعان بن محاربی کہتا ہے : میں حر کے رسالے میں موجود تھا لیکن میں اپنے لشکروالو ں میں سب سے آخر میں پہنچنے والو ں میں تھا ۔جب حسین نے پیاس کی شدت سے میری اور میرے گھوڑے کی حالت دیکھی تو فرمایا : أنخ الراویہ لیکن چونکہ '' راویہ '' ہم پانی پلانے کے معنی میں سمجھتے تھے لہٰذا ہم کچھ سمجھ نہ سکے تو آپ نے جملہ کو بدلتے ہوئے کہا : یابن أخ أنخ الجمل جان برادر اپنے اونٹ کو نیچے بیٹھاؤ تو میں نے اسے نیچے بیٹھادیا ؛ آپ نے فرمایا: : اشرب پانی پیو!لیکن میں جب بھی پانی پیناچاہتا تھا پانی مشک سے گر جاتا تھا، حسین (علیہ السلام) نے مجھ سے کہاأخنث السقاء چھاگل کو اپنی طرف موڑو! علی بن طعان محاربی کہتاہے کہ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہاتھا کہ میں کیا کرو ں تو خود حسین (علیہ السلام) کھڑے ہوئے اورچھاگل کو موڑ کرمیرے منہ سے لگایا ،میں نے پانی پیا، اس کے بعد اپنے گھوڑے کو پانی پلایا۔(طبری ،ج٥، ص ٤٠١ ؛ارشاد ، ص ٢٢٤ ؛خوارزمی ،ص٢٣٠)

٤۔ یہا ں پر ابو مخنف کے اخبار کا سلسلہ منقطع ہوجاتاہے لہذا چارو ناچار ہمیں اس مطلب کو مکمل کرنے کے لئے ہشام کلبی کی خبر سے مدد لینی پڑی جو اس نے لقیط سے اور اس نے علی بن طعان محاربی کے حوالے سے نقل کی ہے۔(طبری ،ج٥، ص٤٠١، ارشاد، ص ٢٢٤،خوارزمی، ص ٢٣٠١)

۲۴۳

''ایها الناس ! انها معذ رة الیٰ اللّٰه عزّوجل والیکم ، انّ لمء أتیکم حتی أتتنکتبکم وقدّ مت علّ رسلکم ، أن أقدم علینا فا نه لیس لنا امام ، لعلّ اللّٰه یجمعنابک علی الهدیٰ فان کنتم علیٰ ذالک فقد جئتکم ، فان تعطونما أطمئنّْ الیه من عهود کم و مواثیقکم أقدم مصرکم وان لم تفعلو أوکنتم لمقد می کا رهین انصرفت عنکم الیٰ المکان الذی أقبلت منه الیکم ! ''

اے لوگو ! خدا ئے عزوجل اور تم لوگوں کے سامنے میرا عذر یہ ہے کہ میں تمہا رے پاس خود سے نہیں آیا؛ بلکہ ایک کے بعد دوسرے خطوط مسلسل آتے رہے اور میرے پاس تمہارے نامہ بر آتے رہے کہ میں چلا آؤں کیونکہ ہمارے پاس کوئی رہبر موجود نہیں ہے، شاید آپ کی وجہ سے خدا ہمیں ہدایت پر یکجا کردے ۔اب اگر تم لوگ اپنے اس قول پر باقی ہو تو میں آگیا ہوں ۔ اگر تم کوئی قابل اطمینان عہد ومیثاق پیش کرو گے تو میں تمہارے شہر میں آؤں گا اور اگر تم ایسا نہیں کرتے ہو اور میرا آنا تمہیں نا پسند ہے تومیں اسی جگہ پلٹ جاتا ہوں جدھرسے تمہاری طرف آیا ہوں ۔

لیکن ان لوگوں نے امام علیہ السلام کی اس گفتار کا کوئی جواب نہ دیا اور موذن سے کہنے لگے : اقامت کہو تو موذن نے اقامت کہنا شروع کر دی ،حسین (علیہ السلام) نے حر سے کہا :''أتریدأن تصلّ بأ صحابک''کیا تم اپنے ساتھیوں کے ساتھ نماز پڑھنا چاہتے ہو ؟ حر نے جواب دیا :نہیں ! آپ نماز پڑھائیں اور ہم لوگ آپ کے ساتھ نماز پڑھیں گے۔ (امام) حسین (علیہ السلام) نے اور ان لوگوں نے ساتھ ساتھ نماز اداکی۔ نماز کے بعدامام علیہ السلام اپنے خیمے میں چلے گئے۔ خیمے میں پہنچتے ہی آپ کے اصحاب پر وانے کی طرح شمع کے اردگرد آکر بیٹھ گئے ۔ادھر حربھی اپنے خیموں کی طرف روانہ ہو گیا اور وہاں پہنچ کر اس خیمہ میں داخل ہواجو اس کے لئے لگایاگیا تھا ۔جب وہ خیمہ میں آیا تو اس کی فوج کے بعض افراد اس کے پاس آکر بیٹھ گئے اور دیگر فوجی انہیں صفوں میں پلٹ گئے جہاں وہ موجودتھے پھر اس نے ان بقیہ فوجیوں کو بھی وہیں لوٹادیا ۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنے جانور کی لگام سنبھالی اور گرمی کی شدت سے بچنے کے لئے اسی کے سایہ میں بیٹھ گئے۔

۲۴۴

پھر جب عصر کا وقت آیا تو حسین (علیہ السلام) نے حکم دیاکہ کوچ کے لئے آمادہ ہوجائیں ۔ اس حکم کے بعد اپنے مؤذن کو نماز عصر کے لئے اذان دینے کا حکم دیا ۔موذن نے اذان دی اور اقامت کہی،امام حسین (علیہ السلام) آگے بڑھے اور تمام لوگوں نے آپ کی اقتداء میں نماز اداکی۔نماز ختم کرنے کے بعد آپ نے پھر حر کے لشکر کی طرف رخ کیا اور حمد و ثنائے الٰہی کے بعد فرمایا :

''یاایهاالناس ! فانکم ان تتقواوتعرفوا الحق لاهله یکْن أرضیٰ للّه ، ونحن أهل البیت أولیٰ بولايةهٰذالامر علیکم من هٰؤلاء المدعین مالیس لهم ، والسائرین فیکم بالجور والعدوان ! ان أنتم کرهتمونا وجهلتم حقنا ، وکان رأیکم غیر ما آتتن کتبکم وقدمت به علی ّ رسلکم انصرفت عنکم ! ''

اے لوگو! اگر تم تقوی اختیار کرو اور حق کو صاحب حق کے لئے پہچانو توخدا کو یہ چیز سب سے زیادہ راضی کرنے والی ہے ۔ ہم اہل بیت اس نظام کی سربراہی اورولایت کے لئے ان لوگوں سے زیادہ سزاوارہیں جو فقط اس حکومت کا جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں اور تم میں ظلم و جور وستم کو روا رکھتے ہیں ۔ اس کے باوجود بھی اگر ہم تم لوگوں کو ناپسند ہیں اور تم لوگ ہمارے حق سے جاہل ہو اورتم لوگوں کا نظریہ ان لوگوں کے بر خلاف ہے جو اپنے خطوط کے ذریعہ مجھے یہاں تک لائے ہیں اور میرے لئے قاصد بھیجے ہیں تو میں ابھی تم لوگوں کی طرف سے منصرف ہوکر پلٹ جاتا ہوں ۔

حربن یزیدنے کہا : خداکی قسم! ان خطو ط کے بارے میں ہمیں کچھ بھی معلوم نہیں ہے جن کاآ پ تذکرہ کررہے ہیں ۔امام حسین علیہ السلام نے کہا :یا''عقبة بن سِمعان ! أخرج الخْرجین'' (١)

____________________

١۔ یہ بات عنقریب بیان ہوگی کہ امام علیہ السلام جب دشمنو ں کی درمیان روز عاشورا خطبہ دے رہے تھے اور ان پرحجت تمام کررہے تھے کہ ان لوگو ں نے خود امام علیہ السلام علیہ السلا م کو خط لکھا ہے تو ان لوگو ں نے کہا : آپ کیاکہہ رہے ہیں ؟ ہم کچھ نہیں سمجھ رہے ہیں تو اس وقت حر نے کہا تھا : کیو ں نہیں ! خدا کی قسم ہم لوگو ں نے آپ کو خط لکھا تھا اور ہم ہی لوگ آپ کو یہا ں لائے ہیں ، خدا باطل اور اہل باطل کا برا کرے، خدا کی قسم! میں دنیا کو آخرت پر اختیار نہیں کرسکتا یہ کہہ کر حر نے اپنے گھوڑے کو موڑ دیا اور امام حسین علیہ السلام کے لشکر میں داخل ہوگیا۔(ص٢٥١)

۲۴۵

اے عقبہ بن سمعان ! ذراخورجین نکالو! عقبہ بن سمعان نے خورجین نکالی تو وہ خطوط سے بھری تھی۔ امام علیہ السلام نے ان تمام خطوط کو ان لوگوں کے درمیان تقسیم کردیا ۔

حرنے کہا: ہم ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جنہوں نے آپ کوخط لکھا تھا؛ ہم کو تو فقط یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب ہمارا آپ سے سامنا ہو تو ہم کسی طرح آپ سے جدا نہ ہو ں یہاں تک کہ آپ کو عبیداللہ بن زیاد کی خدمت میں پیش کردیں ۔

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:''الموت أدنی الیک من ذالک !'' تمہاری موت اس فکر سے زیادہ نزدیک ہے پھرآپ نے اپنے اصحاب سے کہا :''قوموا فارکبوا ! '' اٹھو اور سوار ہوجاؤ تو وہ سب سوار ہوگئے اور خواتین کے سوار ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ سوار ہوکر جب یہ نورانی قافلہ چلنے لگا اورمدینہ کی طرف پلٹنے لگا تو حر کی فوج راستہ روک کر سامنے آکر کھڑی ہوگئی تو امام حسین علیہ السلام نے حرسے کہا :'' ثکلتک أُمک ! ماترید ؟'' تیری ماں تیرے غم میں عزادار ہو!تو کیا چاہتا ہے ؟

حرنے جواب دیا :''اماواللّه لو غیرک من العرب یقولها لی'' خداکی قسم! اگر آپ کے علاوہ عرب میں کسی اور نے یہ جملہ کہاہوتا جو آپ نے مجھ سے کہا ہے اور اس حال میں ہوتا جس میں ابھی آپ ہیں تو میں بھی اسے نہ چھوڑتا اور اس کی ماں کو اس کے غم میں بیٹھادیتا او ر اس سے وہی کہتا جو مجھے کہناچاہیے لیکن خدا کی قسم! میری قدرت نہیں ہے کہ میں آپ کی مادر گرامی کے سلسلہ میں کچھ کہوں مگر یہ کہ ان کا تذکرہ جس قدر اچھائی سے ہوسکتا ہے وہی کرسکتا ہوں ۔(١) اما م حسین علیہ السلام نے دوبارہ حر سے پوچھا : فما ترید ؟ پس تم کیا چاہتے ہو ؟

حرنے کہا: ''أرید واللّٰه ، أن أنطلق بک الیٰ عبیداللّٰه بن زیاد '' خدا کی قسم میرا ارادہ یہ ہے کہ آپ کو عبیداللہ بن زیاد کے پاس لے چلوں ۔

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :''اذن والله لا أتبعک'' ایسی صورت میں خدا کی قسم میں تمہاری ہمراہی نہیں کروں گا ۔

____________________

١۔ اس واقعہ کو ابوالفرج اصفہانی نے مقاتل الطالبیین کے ص٧٤،طبع نجف پر ابو مخنف سے نقل کیا ہے۔

۲۴۶

حرنے جواب دیا:'' اذن واللّٰه لا أدعک'' ایسی صورت میں خدا کی قسم! میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا ۔

جب بات زیادہ ہوگئی اوردونوں کے درمیان اسی طرح رد وبدل ہونے لگی تو حر نے امام حسین علیہ السلام سے کہا :مجھے آپ سے جنگ کا حکم نہیں دیا گیا ہے، مجھ سے فقط یہ کہا گیا کہ آپ کا ساتھ نہ چھوڑوں اور آپ کو کوفہ تک لے آوں ۔ اب اگر آپ انکار کررہے ہیں تو ایک ایسا راستہ انتخا ب کیجیے جس سے آپ نہ کوفہ جاسکیں اور نہ ہی مدینہ پلٹ سکیں ۔میرے خیال میں آپ کے اور ہمارے درمیان یہی منصفانہ رویہ ہوگا پھر میں عبیداللہ بن زیاد کو خط لکھ کر حالات سے آگاہ کروں گا اور آپ کی مرضی ہو گی تو یزید بن معاویہ کو خط لکھئے گا یا پھر عبیداللہ بن زیاد کو خط لکھئے شاید خداوند عالم کوئی ایسا راستہ نکال دے جس کی وجہ سے مجھ کو آپ سے درگیر ہونے سے نجات مل جائے۔

آپ یہاں سے عْذیب اور قادسیہ کے راستہ سے نکل جائیے (اس وقت آپ لوگ ذوحسم میں موجود تھے) ذوحسم اور عذیب کے درمیان ٣٨میل کا فاصلہ تھا۔امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب اس راستہ پرروانہ ہوگئے اور حر بھی اسی راستہ پر چل پڑا۔(١)

بارہویں منزل : البیضة(٢)

اب یہ نورانی قافلہ نہ تو مدینہ کے راستے پر گامزن تھا۔اورنہ ہی کوفہ کی طرف اپنے قدم بڑھارہا تھابلکہ ایک تیسری طرف رواں دواں تھا ۔چلتے چلتے ایک منزل آئی جسے ''بیضہ '' کہتے ہیں ۔یہاں پر حضرت نے اپنے اصحاب اور حرکے لشکر کو مخاطب کر کے ایک خطبہ دیا۔ حمد و ثنائے الہٰی کے بعد آپ نے فرمایا:

''ایهاالناس! ا نّ رسول اللّٰه صلی الله علیه(وآله) وسلّم قال :'' من رأی سلطاناًجائر اً مستحلاً لحرم اللّٰه،ناکثاً لعهد اللّٰه ، مخالفاًلسنّة رسول اللّٰه، یعمل فی عباداللّٰه با لاثم والعدوان فلم یغيّر علیه بفعل ولا قول ، کان حقاً علی اللّٰه أن یدخله

____________________

١۔ ہشام کے حوالے سے جوباتی ں ہم بیان کررہے ہیں وہ یہا ں پر ختم ہوجاتی ہیں ۔(ارشاد،ص٢٢٥،الخواص ،ص ٢٣٢)

٢۔ یہ جگہ'' واقصہ'' اور'' عذیب الھجانات ''کے درمیان ہے ۔

۲۴۷

مدخله''ألاوانّ هولاء قد لزموا طاعة الشیطان وترکو ا طاعة الرحمٰن و أظهروا الفساد و عطّلواالحدود ، واستأ ثروا بالف ئ، وأحلوا حرام اللّٰه و حرّموا حلال اللّٰه وأنا أحق من غیری''

قد أتتن کتبکم وقد مت علی رسلکم ببیعتکم أنکم لا تسلمونی ولا تخذلون ، فان تممتم علی بیعتکم تصیبوا رشدکم ، فأنا الحسین بن عل وابن فاطمه بنت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه (وآ له) وسلم نفسمع أنفسکم وأهل مع أهلیکم ، فلکم فیّ أسوة ، وان لم تفعلوا و نقضتم عهدکم ، وخلعتم بیعتی من أعناقکم فلعمرما هی لکم بنکر ، لقدفعلتموها بأب و أخ وابن عم مسلم !والمغرور من ا غترّبکم ؛ فحظکم أخطاتم،ونصیبکم ضيّعتم( ''ومن نکث فانما ینکث علی نفسه'' ) (١) وسیغن اللّٰه عنکم والسلام علیکم ورحمةاللّٰه و برکاته''(٢)

اے لوگو! رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص کسی ایسے ستم گر حاکم کو دیکھے جو حرام خدا کو حلال سمجھتا ہو، الہٰی عہد وپیمان کو توڑنے والاہو ، اللہ کے رسول کی سنتوں کا مخالف ہو ، گناہ و ستم کے ساتھ بندگان خداسے پیش آتاہواور وہ ایسے پیکر ظلم وجور کے خلاف اپنے قول و فعل کے ذریعہ کوئی تغیر احوال کا اظہار نہ کرے تو خدا وند عالم کو حق حاصل ہے کہ ایسے شخص کو جہنم میں اسی ظالم کے ہمراہ داخل کردے ؛ آگاہ ہوجاؤ کہ ان لوگوں نے شیطان کی پیروی کرلی ہے اور رحمن کی اطاعت کو ترک کردیا ہے ، فساد کو آشکار ، حدود الٰہی کو معطل، انفال اور عوام الناس کے اموال کو غصب ، حلال خدا کو حرام اور حرام خداکو حلال بنادیا ہے اور میں اس راہ و روش کو بدلنے کے لئے سب سے زیادہ سزاوار ہوں ۔

تم لوگوں نے ہمیں خط لکھ کر بلایا ہے اور تمہارے نامہ بر تمہاری بیعتوں کے ساتھ میرے پاس آئے اور کہا: تم لوگ مجھے کبھی تنہا نہیں چھوڑوگے اور کبھی بھی میری مددو نصرت سے دست بردار نہیں

____________________

١۔سورہ فتح ٨

٢۔ابومخنف نے عقبہ بن ابی عزار کے حوالے سے اس خبر کو نقل کیا ہے۔

۲۴۸

ہوگے۔ اگر تم لوگ اپنے عہد وپیمان پر وفاداری کا ثبوت دیتے ہو تو رشد و سعادت تمہیں نصیب ہوگی کیونکہ میں حسین علی کا لال اور فاطمہ، دختر پیغمبر اسلام کافرزندہوں جس کی جان ،حق کی راہ میں تمہاری جانوں کے ساتھ ہے اور میرا گھرانہ تمہارے گھرانے کے ہمراہ ہے کیونکہ میں تم لوگوں کے لئے نمونہ عمل ہوں اور اگر تم نے اپنے عہد وپیمان کو توڑدیا اور اپنی گردنوں سے ہماری بیعت کے قلادہ کو اتاردیا تو قسم ہے میری جان کی کہ یہ تمہارے لئے کوئی عارکی بات نہیں ہے؛ کیونکہ تم میرے بابا امیر المومنین اور میرے بھائی حسن اور چچا زاد بھائی مسلم کے ساتھ کر چکے ہو۔حقیقت تو یہ ہے کہ وہ شخص سخت فریب خوردہ ہے جو ان سب باتوں کے بعد تم لوگوں پر بھروسہ کرے ؛ تم لوگوں نے اپنی زندگی کے حصہ کو کم اور اپنے حقوق کو ضائع کردیا ہے۔ '' جو عہد کو توڑے گا وہ خوداپنے نقصان کے لئے عہد شکن ہوگا '' اور خدا تم لوگوں کی مددو نصرت سے بے نیاز ہے ۔ والسلام علیکم و رحمة اللہ وبراکاتہ

امام حسین علیه السلام کي اس بصیرت افروز بیان کي بعد حر جو سفر میں آپ کي همراه تهاآپ کي پاس آیا اور کهني لگا :''یاحسین !انی أذکّرک اللّٰه فی نفسک فانی اشهد لئن قاتلت لتُقْتَلَنَّ ولئن قوتلت لتهلکن فیما أریٰ'' اي حسین ! آپ کو خدا کی یاد دلاتا هوں که آپ دوباره اپني باري میں فکر کریں !کیونکه میں گواه هوں که میري نظریه کي مطابق اگر آپ ني ان لوگوں سي جنگ کی تو وه لوگ آپ کو قتل کرالیں گي اور اگر آپ قتل کردئي گئي تو تباه و برباد هوجائیں گي ؛یه سن کر امام حسین ني فرمایا : ''أفبالموت تخوّفن ! وهل یعدوبکم الخطب ان تقتلون ! ماأدری ما أقول لک ! ولکن أقول کما قال أخو الا وس لابن عمه ولقیه وهو یرید نصرة رسول اللّٰه صلّی اللّٰه علیه (وآله) وسلم فقال له : این تذهب ؟ فانک مقتول! فقال:

سأمضی وما بالموت عار علی الفتٰی

اذا ما نوی حقاً وجاهدمسلماً

وآسی الرجال الصالحین بنفسه

وفارق مثبوراً یغش و یرغماً(١)

____________________

١۔ابن اثیر نے الکامل میں اور شیخ مفید نے ارشاد میں ص ٢٢٥پر ان اشعار کے علاوہ ایک شعر کا اور اضافہ کیا ہے ۔

فان عشت لم اندم وان مت لم الم

و کفی بک ذلاًان تعیش و ترغما

اگر میں زندہ رہا تو نادم نہیں ہو ں گا اور اگر دنیا سے گزر گیا تو ملامت نہیں کیا جاؤ ں گا اور ذلت کے لئے یہی کافی ہے کہ تو زندہ رہے اور ذلیل ہو ۔

۲۴۹

کیا تو مجھے موت سے ڈراتاہے ؟ کیا اس سے زیادہ کچھ ہوسکتا ہے کہ تم لوگوں کے بلانے پر میراآنا اور ظلم وستم کے خلاف میرانبرد آزماہونا سبب بنے گا کہ تم لوگ مجھے قتل کردوگے۔میں نہیں سمجھتا کہ میں تم سے کیا کہوں ؛ لیکن میں وہی کہتا ہوں جو قبیلہ اوس کے ایک جوان نے اپنے چچازاد بھائی سے اس وقت کہا تھا جب وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مددونصرت کے لئے جارہا تھا۔ اس کے چچا زاد بھائی نے اس سے ملاقات کرتے ہوئے کہا : تم کہاں جارہے ہو ؟ مجھے یقین ہے کہ تم قتل ہوجاؤگے تو اس جوان مرد نے جواب دیا تھا :

میں تو پیغمبر خدا کی طرف جارہاہوں اور موت اس جوان کے لئے ننگ و عار نہیں ہے جس کی نیت حق اور جو ایک مسلمان کی حیثیت سے جہاد کے لئے جارہا ہو ،وہ نیک وصالح افراد کی مصیبت کا ہمراہی ہے اورا س سے جداہے جو ہلاک ہوچکا ہے اور اس کی زندگی ذلت و رسوائی کے ساتھ بسر ہورہی ہے ۔

جب حر نے یہ کلمات سنے تو کنارہ کش ہوگیا اور اس کے بعد امام حسین علیہ السلام اپنے اصحاب کے ہمراہ ایک سمت میں چلنے لگے اور حر اپنے فوجیوں کے ساتھ دوسری طرف آگے بڑھنے لگا۔ چلتے چلتے یہ لوگ اس منزل تک پہنچ گئے جسے'' عذیب الھجانات'' کہتے ہیں ۔

تیرہویں منزل ؛'' عذیب الھجانات ''(١)

یہ قافلہ اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق ''ذوحسم'' کے بعد ''بیضہ ''سے ہوتے ہوئے'' عذیب الھجانات'' تک پہنچا ۔وہاں یہ قافلہ ان چار سواروں سے روبروہوا جو کوفہ سے آرہے تھے جن کے راہنما طرماح بن عدی تھے۔ جب یہ لوگ امام حسین علیہ السلام کے پاس پہونچے تو اپنے گھوڑے پر سوار یہ اشعار پڑھ رہے تھے :

____________________

١۔'' عذیب'' یہ بنی تمیم کی ایک گھاٹی ہے جو عراق کی سرحدہے۔ یہ جگہ ایرانیو ں کے اسلحہ خانہ کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ اس کے اور ''قادسیہ'' کے درمیان ٦میل کا فاصلہ ہے۔ علاقہ '' حیرہ '' کے سربراہ '' نعمان ''کے گھوڑے اسی جگہ پر چرائے جاتے تھے۔کہا جاتا ہے ھجانات ھجین کی جمع ہے جس کے معنی غیر اصل کے ہیں یعنی جو لوگ نجیب الطرفین نہ ہو ں ۔

۲۵۰

یا ناقتی لا تُذعری من زجری

و شمّری قبل طلوع الفجر

بخیر رکبان و خیر سفر

حتی تحلّی بکر یم النجر

الماجد الحرّ رحیب الصدر

اتنی به اللّه لخیر أ مر

ثمّة أبقاه بقاء الدهر

اے میرے ناقے! میرے جلدی جلدی چلنے پر خوف زدہ نہ ہو بلکہ تو تیز تیز چل تاکہ سپیدہ سحری تک تو بہترین سوار اور بہترین مسافر تک پہنچ جا؛ یہاں تک کہ اس ذات تک رسائی ہوجائے جس کا خاندان کریم ، بزرگ ، آزاد اور فراخ دل ہے؛جسے خداوندمتعال بہترین کام کے لئے یہاں لایا ہے، اسی لئے خدا اسے اس وقت تک باقی رکھے گا جب تک یہ دنیا اور زمانہ باقی ہے ۔

یہ سن کر امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :''أما واللّٰه اِنّ لأ رجوأن یکون خیراً ما أراداللّٰه بنا قُتِلنا أو ظفرنا'' خدا کی قسم خدا وندعالم جو ہمارے لئے چاہتا ہے وہی ہما رے لئے خیر ہے؛ چاہے ہم قتل کر دیئے جائیں یا ظلم وستم کے خلاف ظفر یاب ہو جائیں ۔

یہ چار افراد چونکہ کوفہ سے آئے تھے اور امام حسین علیہ السلام کے ساتھ مددو نصرت کا ارادہ رکھتے تھے لہٰذا حر بن یزیدسامنے آیا اور امام علیہ السلام سے کہا : یہ لوگ جو کوفہ سے آئے ہیں آپ کے ہمراہ نہیں تھے لہٰذا یا تو میں انھیں قید کرلوں یا کوفہ لو ٹا دوں ۔

تو امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا :''لأمنّعنهّم مما أمنع منه نفس، انما هولا ء أنصار وا عوانی وقد کنت أعطیتن ان لا تعرض ل بشیء حتی یاتیک کتاب من ابن زیاد''

میں ان کی جانب سے اسی طرح دفاع اور مما نعت کروں گا جس طرح اپنا دفاع اور اپنے سلسلے میں مما نعت کررہا ہوں ؛ کیونکہ یہ میرے ناصر ومدد گار ہیں اور تم نے عہد وپیمان کیا ہے کہ جب تک تمہارے پاس ابن زیاد کا خط نہیں آجاتا اس وقت تک تم مجھ سے درگیر نہ ہو گے ۔

حرنے کہا: ٹھیک ہے لیکن یہ آپ کے ساتھ نہیں آئے ہیں ۔

۲۵۱

امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا : ''ہم أصحابی وہم بمنزلة من جاء مع فان تممت علیّ ما کان بین وبینک والا نا جز تک '' یہ میرے اصحاب ہیں اورانہیں لوگوں کی طرح ہیں جو میرے ساتھ آئے ہیں ۔اگرتم نے اس عہد وپیمان کو بر قراررکھا جو ہمارے اور تمہارے درمیان ہوا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ ہم تمہارے سامنے میدان کا رزار میں اتر آئیں گے۔یہ سن کر حر ان لوگوں سے دست بردارہو گیا ۔

اس کے بعد امام حسین علیہ السلام ان لوگوں سے مخاطب ہوئے اور فرما یا :''أخبر ونی خبرالناس وراء کم '' جن لوگوں کو تم اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو ان کی خبر سناؤ ۔

تو مجمّع بن عبد اللہ عائذی(١) جو انہیں چار میں سے ایک تھے اور کوفہ سے یہاں آئے تھے، نے آپ سے عرض کیا :'' أما ا شراف الناس فقد اُعظمت رشوتهم ومُلِئَت غرائر هم ، یستمال ودّهم ویستخلص به نصیحتهم فهم ألب واحد علیک ! وأما سائرالناس بعد،فاِنَّ أفئد تهم تهو الیک وسیو فهم غداً مشهورة علیک'' اشراف اور سر برآوردہ افراد کو رشوت کی خطیر رقم دیدی گئی ہے، ان کے تھیلوں کو بھر دیا گیاہے، اس طرح سے ان کی خیر خواہی کواپنی طرف متوجہ کر لیا گیا ہے اور ان کو اپنا محبوب بنا لیا گیاہے۔ یہ گروہ وہ ہے جو آپ کے خلاف دشمن کے ہمراہ ہے اور بقیہ لوگ وہ ہیں جن کے دل تو آپ کے ساتھ ہیں لیکن ان کی تلوار یں کل آپ کے خلاف کھنچی ہوں گی ۔

امام علیہ السلام نے فرمایا :'' أخبرونی فهل لکم برسول الیکم ؟ '' کیا میرا کوئی پیغام رسان تم تک پہنچا ہے ؟ تو ان لوگوں نے پو چھا : کس پیغام رساں کی بات کررہے ہیں ؟ امام حسین نے فر مایا : قیس بن مسہر صیداوی ان لوگوں نے جواب دیا : ہاں !ان کو حصین بن تمیم نے گرفتار کر کے عبید اللہ بن زیاد کے پاس بھیج دیا۔جب وہ وہاں پہنچے تو عبیداللہ نے انھیں حکم دیا کہ وہ آپ اور آپ کے بابا پر لعنت بھیجیں ۔ انھوں نے آپ پر اور آپ کے بابا پر درود سلام بھیجا ، ابن زیاد اور اس کے باپ پر لعنت بھیجی، لوگوں کو آپ کی مدد و نصرت کے لئے بلایا اور انھیں خبر دی کہ آپ آرہے ہیں ۔اس حالت کو دیکھ کر ابن زیاد نے حکم دیا کہ انھیں چھت پر سے نیچے پھینک دیا جائے لہذا آپ کودار الامارہ کے چھت سے نیچے پھینک دیاگیا ۔

____________________

١ ۔شاید یہ چار لوگ ، جابر بن حارث سلمانی ، عمروبن خالد صید اوی اور سعد کا غلام ہو ں جنکے بارے میں ابو مخنف کا بیان ہے کہ ان لوگو ں نے جنگ کے پہلے ہی مرحلہ میں مقاتلہ کیا اور ایک ہی جگہ شہید ہوگئے ۔(طبری، ج٥ ،ص٤٤٦)

۲۵۲

یہ جملہ سننے کے بعد امام حسین علیہ السلام کی آنکھیں آنسؤں سے ڈبڈباگئیں اور آپ کسی طرح اپنے آنسوؤں کو نہ روک سکے پھر آپ نے فرمایا :''مِنْهْمْ مَنْ قَضَیٰ نحبه وَ مِنْهْمْ مَنْ يَنْتَظِرْوَ مَا بَدَّلْوْا تَبْدِيْلَا ً '' (١) اللّهم اجعل لنا ولهم الجنةنزلاً واجمع بینناوبینهم فی مستقر رحمتک ورغائب مذخورثوابک ''ان میں سے بعض وہ ہیں جو (قربانی دے کر)اپنا عہد وفاکرگئے اور ان میں سے بعض (حکم خداکے) انتظار میں بیٹھے ہیں اور ان لوگوں نے (اپنا موقف) ذرا بھی نہیں تبدیل کیا ، خدایا ! بہشت کو ہمارے اور ان کے نزول کی جگہ قرار دے اور اپنی رحمتوں کی جایگاہ میں ہمیں اور انھیں یکجا کردے اوراپنے بہترین ثواب کے ذخیرہ سے بہرہ مند فرما!(٢) اس دعا کے بعد طرماح بن عدی امام حسین علیہ السلام کے قریب آئے اور عرض کی :'' أنّی واللّٰه لا نظر فماأری معک أحداً ولو لم یقاتلک الا هؤلاء الذین أراهم ملا زمیک لکان کفیٰ بهم وقد رأیت قبل خروج من الکوفة الیک بیوم ظهر الکوفة،و فیه من الناس مالم ترعینا فی صعید واحدجمعاًاکثرمنه ، فسألتْ عنهم ، فقیل : اجتمعوا لیعرضوا ثم یسرّحون الی الحسین ، فأنشدک ان قدرت علی أن لا تقدم علیهم شبراً الافعلت ! فان أردت أن تنزل بلداً یمنعک اللّٰه به حتی تری من رأیک و یستبین لک ماأنت صانع ، فسرحتی أنزلک مناع جبلنا الذی یدعی ''أ جا ئ'' (٣) فأسیر معک حتی أنزلک القُرَيّةَ'' (٤)

خدا کی قسم میں جو دیکھ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ آ پ کے سا تھ زیادہ یار و مدد گا ر نہیں ہیں اور اگر انہیں لوگوں کے علاوہ جنہیں میں ساتھ ساتھ دیکھ رہا ہوں کوئی اور نہ ہو ا تو یہی لوگ ان کے لئے کافی ہیں ۔ کوفہ

____________________

١۔سورہ احزاب٢٣

٢۔ ابو مخنف کابیان ہے کہ عقبہ بن ابی عیزار نے یہ واقعہ بیان کیا ہے۔(طبری ،ج٥، ص ٤٠٣ ، ارشاد ، ص ٢٢٥ ، طبع نجف)

٣۔یہ ایک شخص کا نام ہے جس کے نام پرعلاقہ طئی کا پہاڑ موسوم ہے۔ یہ طئی کے مغربی علاقہ میں سمیرا ء پہاڑ کے بائی ں جانب ہے ۔

٤۔یہ قریہ کی اسم تصغیر ہے اور طی کے علاقہ میں ایک جگہ کا نام ہے ۔

۲۵۳

سے نکل کر آپ کی طرف آنے سے ایک دن قبل میں نے کوفہ کے پیچھے بہت سارے لوگوں کودیکھا جس سے پہلے ایک ہی جگہ پرمیں نے اتنا جم غفیر نہیں دیکھا تھا۔میں نے ان لوگوں سے پوچھا کہ یہ مجمع کیسا ہے ؟کسی نے کہا یہ لوگ اس لئے جمع ہوئے ہیں تاکہ فوجی ٹریننگ لے سکیں اور پھر حسین سے جنگ کے لئے کوچ کریں لہٰذا میں آپ کو خدا کا واسطہ دیتا ہوں کہ اگر آپ قادر ہیں تو ایک بالشت بھی ان لوگوں کی طرف نہ بڑھیں ۔ اگر چاہتے ہیں کہ کسی ایسے شہر میں جائیں جہاں خدا آپ کی جان کو ان ظالموں کے چنگل سے نجات دیدے اور پھر آپ دیکھیں کہ آپ کا منشاء کیا ہے اور آپ کے لئے موقعیت پوری طرح واضح ہوجائے تو آپ ہمارے ساتھ چلیں تاکہ ہم آپ کو اپنی طرف ایک پہاڑی علاقہ میں اتار دیں جہاں کوئی پر بھی نہیں مار سکتا، جسے ''آجائ'' کہتے ہیں ۔میں وہاں تک آپ کے ساتھ چلوں گا اور آپ کو وہاں کے ایک گاؤں میں جس کا نام ' ' قر یہّ'' ہے اتار دوں گا ۔

امام حسین علیہ السلام نے ان سے فرمایا :'' جزاک اللّه وقومک خیراً ! انه قد کان بیننا وبین هٰؤ لاء القوم قول لسنا نقدرمعه علی الا نصراف ولا ندری علام تنصرف بنا وبهم الاُمور فی عاقبة !'' خدا تمہیں اور تمہاری قوم کو جزائے خیر دے!حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان ایک قول وقرارہے جس کی وجہ سے ہم ان سے جدا نہیں ہو سکتے اور ہمیں یہ نہیں معلوم کہ عاقبت کار ہمارے اور ان کے امور کو کہاں لے جائے گی۔

طر ّماح کا بیان ہے کہ یہ سننے کے بعد میں نے ان کو الوداع کیا اور کہا: خدا آپ کو جن ّ وانس کے شر سے دور رکھے(١) اور حسین(علیہ ا لسلام) آگے بڑھ گئے یہاں تک کہ قصر بنی مقاتل تک پہنچ گئے ۔

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ جمیل بن مرید نے طر مّاح کے حوالے سے مجھ کو یہ خبر دی ہے۔(طبری ،ج٥، ص٤٠٦) اور پوری خبر یہ ہے کہ طرمّاح کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : میں نے کوفہ سے اپنے گھر والو ں کے لئے کچھ آذوقہ فراہم کیا ہے جن کا نفقہ مجھ پر واجب ہے لہذامیں وہا ں پہنچ کر اسے رکھ کر انشاء اللہ فوراً آپ کی طرف پلٹ رہا ہو ں ۔اگر میں آپ سے ملحق ہو گیا تو خدا کی قسم میں ضرور آپ کی مدد کرنے والا ہو ں گا ۔ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : ایسا کرناچاہتے ہو تو جلدی کرو اللہ تم پر رحمت نازل فرمائے ! طر ماح کہتے ہیں : جب میں اپنے گھر والو ں کے پاس پہنچا تو آذوقہ ان کے پاس رکھا ، جو چیز ان کے لئے ضروری اور ان کی بہتری میں تھی اسے وہا ں فراہم کیا اور ان سے وصیت کی پھر اپنے ارادہ کو ان کے سامنے پیش کر کے فوراً لوٹ گیا یہا ں تک کہ جب میں '' عذیب الہجانات'' تک پہنچا تو سماعہ بن بدر نے امام علیہ السلام کی شہادت کی خبر سنائی تو میں واپس پلٹ گیا۔ (طبری ،ج٥ ، ٤٠٦)

۲۵۴

چودہویں منزل : قصر بنی مقاتل(١)

''عذیب الہجا نات ''سے چل کر حسین بن علی علیہ الصلوٰة والسلام قصر بنی مقاتل تک پہنچے۔ وہاں آپ نے پڑاؤ ڈالاتو دیکھاکہ وہاں ایک خیمہ لگا ہواہے،(٢) امام علیہ السلام نے فرمایا :''لمن هٰذا الفسطاط ''یہ خیمہ کس کا ہے ؟ تو کسی نے کہا : عبید اللہ بن حر جعفی(٣) کا خیمہ ہے ۔ امام علیہ السلا م نے فرمایا :''ادعو ه ل ی'' اسے میرے پاس بلاؤ، پھر ایک پیغام ر ساں کو اس کے پاس روانہ کیا ،جب وہ پیغام رساں وہاں پہنچا تو اس نے کہا : یہ حسین بن علی ہیں جو تم کو بلارہے ہیں ، عبیداللہ بن حر جعفی نے کہا :'' انّاللّٰہ واناالیہ راجعون '' خدا کی قسم میں کوفہ سے نکلا تو مجھے یہ گوارا نہیں تھا کہ کسی جگہ حسین سے ملاقات ہو ، واللہ میں نہیں چاہتا کہ وہ مجھے دیکھیں یا میں ان کو دیکھوں ۔ پیغام رساں واپس پلٹا اور اس نے آکر امام کو اس کے بارے میں خبر دی۔

اس کے بعد امام حسین علیہ السلام خود اٹھے، نعلین منگوائی،اسے پہن کر کھڑے ہوئے اوربنفس نفیس اس کے پاس گئے ،خیمہ میں داخل ہوکر اسے سلام کیا پھر اسے اپنے ساتھ قیام کی دعوت د ی تو ابن حرنے اپنی با توں کو پھردھرایا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا :'' فان لا تنصرنا فاتّق اللّٰه أن تکون ممن یقاتلنا فواللّٰه لا یسمع واعیتنا أحد ثم لا ینصرنا الا هلک'' اگر تم میری مدد نہیں کرناچاہتے ہوتو خدا سے خوف کھا ؤ کہ کہیں مجھ سے جنگ کرنے والوں میں نہ ہو جاؤ ؛کیو نکہ خدا کی قسم کو ئی بھی ایسا شخص نہیں ہے جو میری فریا دسن کر میری مدد نہ کرے مگر یہ کہ وہ ہلاک ہو جائے گا ۔یہ کہہ کر آپ اس کے پاس سے اٹھ کر چلے آئے۔(٤)

____________________

١۔ معجم میں ہے کہ یہ جگہ چند دیہا تو ں اور'' قطقطا نہ'' اور'' عین التمر'' کے درمیان واقع ہے۔

٢۔ ابو مخنف نے اس طرح بیان کیا ہے۔ (طبری ،ج٥،ص٤٠٧)

٣۔اس شخص کے حالات کتاب کے آخری حصہ میں بیان کئے جائی ں گے۔

٤۔ ابو مخنف کا بیان ہے : مجھ سے مجالد بن سعید نے عامر شعبی سے یہ روایت بیان کی ہے۔ (طبری، ج٥، ص٤٠٧ ، ارشاد ص، ٢٢٦)

۲۵۵

عقبہ بن سمعان کا بیان ہے کہ رات کے آخری حصہ میں امام حسین (علیہ السلام) نے پا نی بھر نے کا حکم دیا اور جب چھاگلیں بھری جا چکیں تو آپ نے ہم لوگوں کو کوچ کر نے کا حکم دیا اور ہم نے وہی کیا۔ جب ہم لوگ'' قصر بنی مقاتل ''سے کوچ کررہے تھے اور ہمارا سفر جاری تھا تو کچھ دیر کے لئے حسین کی آنکھ لگ گئی ،جب آنکھ کھلی تو آپ یہ فر مارہے تھے:'' انا للّٰہ واناالیہ راجعون والحمد للّٰہ رب العا لمین'' اس جملہ کی آپ نے دو یا تین مرتبہ تکر ار فرما ئی ، یہ سن کر آپ کے فرزند علی بن حسین (علیہ السلام) آگے بڑھے جو اپنے گھوڑے پر سوارتھے اور آپ نے بھی اپنے بابا کے جملہ کی تکرار''اناللّٰه واناالیه راجعون والحمد للّه رب العالمین'' کرتے ہوئے فرمایا :''یا ابت جُعلت فداک ممّ حمد ت واستر جعت''ب ابا جان! آپ پر میری جان قربان ہو،کیا سبب ہو اکہ آپ نے یکبارگی حمد الہٰی کی اور زبان پر کلمۂ استرجاع جاری کیا ؟

امام علیہ السلام نے جواب دیا:''یا بُن ان خفقت برأس خفقة فعنّ ل فارس علی فرس فقال : القوم یسیرون والمنایا تسر الیهم ، فعلمت أنها أنفسنا نعیت الینا !'' اے میرے لال !تھوڑی دیر کے لئے میری آنکھ لگ گئی تھی تو میں نے خواب کے عالم میں دیکھا کہ ایک گھوڑ سوار میرے سامنے نمودارہوا اور اس نے کہا یہ قوم آگے بڑھ رہی ہے اور موت ان کے پیچھے پیچھے چل رہی ہے ،اس سے مجھ کو معلوم ہوگیا یہ مجھے میری شہادت کی خبر دے رہاہے۔

علی بن حسین علیہ السلام :''یاأبت لا أراک اللّٰه سوئً السنا علی الحق؟ ''اے بابا ! میں نہیں سمجھتا کہ اللہ آپ کے لئے برا کرے گا کیا ہم حق پر نہیں ہیں ؟

امام حسین علیہ السلام :''بلیٰ والذی الیه مرجع العباد ! ''کیوں نہیں (ہم ہی حق پر ہیں ) قسم ہے اس ذات کی جس کی طرف سب کو پلٹنا ہے۔

علی بن الحسین :''یاأبت اذاًلا نبالی ، نموت محقین' 'بابا جان ایسی صورت میں ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہے کیوں کہ ہماری موت حق پر ہے ۔

امام حسین :جزاک اللّٰه من ولد خیر ماجزی ولداً عن والده ، خداوند متعال تمہیں وہ بہترین جزا دے جو باپ کی دعا سے بیٹے کو نصیب ہوتی ہے ۔

۲۵۶

اسی گفتگو کے درمیان کچھ دیر کے بعد سپیدہ سحری نمودار ہوئی ۔ آپ نے صبح کی نماز ادا کی اور دوبارہ جلدی سے سب اپنی اپنی سواریوں پر بیٹھ گئے اورآپ اپنے اصحاب کو اس سر زمین کے بائیں جانب چلنے کا اشارہ کیا تاکہ انہیں لشکر حر سے جدا اور متفرق کر سکیں لیکن حر بن یزید کی جستجو یہ تھی کہ آپ کوکسی طرح کوفہ سے نزدیک کردے لہٰذا وہ آپ لوگوں کو پراکندہ ہونے سے روک کر واپس پلٹانے لگا اور کوفہ کی طرف شدت سے نزدیک کرنے لگا،اصحاب حسینی نے اس سے ممانعت کی اوران لوگوں کو دور ہٹاتے رہے اور آپ اسی طرح اپنے چاہنے والوں کو بائیں طرف کرتے رہے اور اسی کشمکش میں نینوا آگیا ۔

قربان گاہ عشق :نینوا(١)

چودہ منزلیں ختم ہوچکی تھیں حسین بن علی (علیہما السلام) نینوامیں اترچکے تھے کہ یکایک ایک سوار اصیل و نجیب گھوڑے پر سوار ، اسلحوں سے لیث اور دوش پر کمان ڈالے کوفہ کی طرف سے نمودار ہوا سب کے سب کھڑے اس کاانتظار کرنے لگے؛ جب وہ نزدیک آیا تو اس نے حر اور اس کے لشکر والوں کو سلام کیا لیکن حسین اور ان کے اصحاب کو سلام نہیں کیا پھر اس نے عبیداللہ بن زیا دکا خط حر کو پیش کردیا اس خط میں یہ عبارت موجود تھی ۔

اما بعد، فجعجع (٢) بالحسین حین یبلغک کتاب ویقدم علیک رسول ، فلا تنزله الا بالعراء فی غیر حصن وعلی غیر ما ء و قد امرت رسول أن یلزمک ولا یفارقک حتی یاتین بأنفاذک امر، والسلام ''

____________________

١۔ یہ کربلا کاایک علاقہ ہے جو اواخر قرن دوم تک آباد رہا۔

٢۔ ابن منظور نے لسان العرب میں اصمعی سے نقل کیا ہے :'' جعجع ای احبسہ'' جعجع کے معنی یہ ہیں کہ قید کرلو اور ابن فارس نے مقاییس اللغة، ج ١ ،ص ٤١٦ پر لکھا ہے : ''ای الجئہ الی مکان خشن'' یعنی انھی ں ایک بے آب و گیاہ علاقہ میں ٹھہراؤ ۔

۲۵۷

اما بعد، جیسے ہی نامہ برتمہارے پاس یہ خط لے کر میرا پہنچے حسین کو ایک بے آب و گیاہ صحرا میں روک لو اور میں نے اپنے فرستادہ کو حکم دیا ہے کہ وہ تم سے جدا نہ ہو اور تمہاری مراقبت میں رہے یہاں تک کہ واپس لوٹ کر مجھے خبر دے کے تم نے میرے حکم کو نافذ کیا ہے۔ والسلام

جب حر نے خط پڑھا تو یہ خط لے کر وہ اس نورانی قافلہ کے پاس آیا اور کہنے لگا : یہ امیر عبیداللہ بن زیاد کا خط ہے جس میں اس نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپ کو وہیں پر قید رکھوں جہاں پر اس کا خط مجھے ملا ہے اور یہ اس کا قاصداور فرستادہ ہے جسے اس نے حکم دیا ہے کہ وہ مجھ سے جدا نہ ہو یہاں تک کہ میں اس کے منشاء اور حکم کو نافذ کردوں ۔

یہ سن کر یزید بن زیاد مہاصر کندی بہدلی(١) معروف بہ شعثاء نے عبیداللہ بن زیاد کے پیغام رساں کو غورسے دیکھااور اس کے سا منے خود کونمایاں کر کے کہا : کیا تو مالک بنُ نسیر بدّی(٢) ہے !(جس کاتعلق قبیلۂ کندہ سے ہے) ؟ اس شخص نے جواب دیا : ہاں ! اس پر یزید بن زیا د معروف بہ شعثاء نے اس سے کہا : تیری ماں تیرے غم میں بیٹھے ! یہ تو کیا لے کر آیا ہے ؟

____________________

١۔ آپ کا شمار امام حسین علیہ السلام کے لشکر کے تیر اندزو ں میں ہوتا ہے اورآپ حملۂ اولی میں شہید ہونے والو ں میں سے ہیں ۔ آپ نے سو تیر چلائے اور اس کے بعد کھڑے ہوکر کہنے لگے : ان تیرو ں میں سے ابھی فقط پانچ ہی تیر ہدف پر لگے ہیں اور میرے لئے واضح یہی ہے کہ میں نے پانچ لوگو ں کوقتل کیا ہے۔ ابو مخنف ہی نے فضیل بن خدیج کندی سے روایت نقل کی ہے کہ یزید بن زیاد عمر بن سعد کے ہمراہ نکلا تھا لیکن جب حسین علیہ السلام کے ساتھ صلح کی پیش کش ان لوگو ں نے ٹھکرادی تو یہ امام علیہ السلام کی طرف چلے آئے اور دشمنو ں سے خوب خوب دادشجاعت لی یہا ں تک کہ شہید ہوگئے لیکن یہ خبر اوپروالی خبر سے موافقت نہیں رکھتی ۔

٢۔ مالک بن نسیر قبیلہء بنی بْداَء سے متعلق تھا۔ یہ کربلا میں موجود تھا ۔ اس نے امام علیہ السلام کے سر پر تلوار سے ضربت لگائی جس سے آپ کی برنس کٹ گئی اور تلوار آپ کے سر تک پہنچ گئی جس نے آپ کو خون میں غلطا ں کردیا ۔اس حالت میں امام حسین علیہ السلام نے اس سے فرمایا :''لا أکلت بها ولا شربت بها وحشرک الله مع الظالمیں '' تو اس کی وجہ سے نہ کھا پائے اورنہ پی پائے اور خدا تجھے ظالمو ں کے ساتھ محشور کرے ۔

شہادت کے بعد مالک بن نسیر آپ کی برنس لے کر چلا گیا تو اس کا اثر یہ ہوا کہ ساری زندگی فقیر رہا یہاں تک کہ مرگیا ۔(طبری ،ج٥ ،ص ٤٤٨) یہ واقعہ ابی مخنف سے مروی ہے۔ '' برنس '' عربی کا ایک غیر مانوس کلمہ ہے۔ یہ ایک لمبی ٹوپی ہے جو روئی سے بنتی ہے اسے نصاریٰ کے عبادت گزار افراد پہنا کرتے تھے۔ صد ر اسلام میں مسلمان عبادت گزار افراد بھی اسے پہنا کرتے تھے جیسا کہ مجمع البحرین میں ہے نیز ابو مخنف نے روایت کی ہے کہ عبد اللہ بن دبّا س نے مختار کو ان لوگوں کا پتہ بتا یا جنھوں نے امام حسین علیہ السلام کو قتل کیا تھا۔انھیں میں سے ایک مالک بن نسیر َبدّی بھی تھا۔ مختار نے فوراً ان قاتلوں کی سمت مالک بن عمرو نہدی کو بھیجا ۔جب مالک بن عمر ووہاں آئے اور وہ سب کے سب قادسیہ میں موجود تھے مالک بن عمرونے ان سب کو گرفتار کرلیا اور ان کو لے کر مختار کے پاس آئے۔ جب یہ قاتلین وہاں پہنچے تو رات ہو چکی تھی۔ مختار نے اس بدّی سے پوچھا : تو ہی وہ ہے جو امام کی برنس لے گیا تھا ؟ تو عبد اللہ بن کامل نے کہا : ہاں یہ وہی ہے یہ سن کر مختار نے کہا : اس کے دونوں ہاتھ پیر کاٹ دو اور چھوڑ دو تاکہ یہ تڑپے اور مضطرب ہو یہاں تک کہ مرجائے۔ اس کے ساتھ ایسا ہی کیا گیا اور اسے چھوڑ دیا گیا تو اس کا خون مسلسل بہتا رہا یہاں تک کہ وہ مرگیا ۔یہ ٦٦ھ کا زمانہ تھا۔ (طبری، ج٦، ص ٥٧)

۲۵۸

مالک بن نسیرنے کہا : میں کچھ بھی لے کر نہیں آیا،میں نے توفقط اپنے امام کی اطاعت اور اپنی بیعت پر وفاداری کا ثبوت پیش کیا ہے ۔

شعثاء نے اس کا جواب دیا : تو نے اپنے رب کی معصیت اور اپنے نفس کی ہلا کت میں اپنے رہبر کی اطاعت کی ہے اور یہ فعل انجام دے کر تو نے ذلت ورسوائی اور جہنم کی آگ کو حاصل کیا ہے کیو نکہ خدا وند متعال فرماتا ہے:( '' وَ جَعَلْنَاهْمْ اَ ئِمَّةً يَدْعْوْنَ اِلیَ النَّارِ وَيَوْمَ القِيَامَةِ لَايْنْصَرْوْنَ'' ) (١)

ہم نے ان کو گمراہوں کا پیشوا بنایاجو لوگو ں کو جہنم کی طرف بلا تے ہیں اور قیامت کے دن (ایسے بے کس ہوں گے کہ) ان کو (کسی طرح) کی مدد نہ دی جائے گی۔ اور وہ تیرا پیشوا ہے ۔

اس کے بعد حر بن یزید ریاحی حسینی قافلہ کو ایسی ہی جگہ پرا تارنے کی کوشش کرنے لگاجہاں نہ پانی تھا اور نہ ہی کوئی قریہ و دیہات(٢) لہذا ان لوگوں نے فرمایا کہ ہمیں چھوڑ دو تاکہ ہم اس قریہ میں چلے

____________________

١۔ سورہ قصص آیت ٤١

٢۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کر بلا کسی ایک دیہات اور قریہ کا نام نہیں تھا بلکہ یہ ایک علاقہ تھا جس کے تحت چند قریہ اور دیہات آتے تھے جیسا کہ کتاب '' الدلا ئل والمسائل ''(سید ہبة الدین شہر ستانی) میں موجود ہے۔سبط بن جوزی نے کہا : پھر (امام) حسین (علیہ السلام) نے فرمایا :'' ما یقول ھٰذہ الارض'' اس زمین کو کیا کہتے ہیں تو لوگو ں نے کہا : اسے کربلا کہتے ہیں اوراسے نینوی بھی کہا جاتا ہے جو اسی کا ایک قریہ ہے۔ یہ سن کر آپ رو نے لگے اور فرمایا:'' کرب وبلا ''یہ کرب وبلا ہے پھر فرمایا : ''اخبرتن ِام سلمة قالت'' مجھ کو ام سلمیٰ نے خبر دی ہے وہ کہتی ہیں کہ'' کان جبرئیل عند رسول اللّہ وانت مع''جبرئیل رسول اللہ کے پاس تھے اور تم میرے ہمراہ تھے'' فبکیت فقال رسول اللّہ : دع ابن فترکتک فاخذک ومنعک فی حجر ہ ''تو تم رونے لگے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : میرے فرزند کو چھوڑ دو۔ میں نے تم کو چھوڑ دیا تونبی اللہ نے تم کو پکڑا اور اپنی گودی میں بیٹھا لیا۔'' فقال جبرئیل : أتحبہ ؟ قال : نعم ! قال : فان أ متک ستقتلہ'' جبرئیل نے پوچھا : کیا آپ اس بچے سے محبت کرتے ہیں تو خدا کے نبی نے جواب دیا : ہا ں ! جبرئیل نے کہا : آپ کی امت اس بچے کو شہید کردے گی ۔'' وان شئت أن اْریک تربة أرضہ الت یقتل فیھا ؟ قال : نعم'' اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو اس زمیں کی مٹی دکھا دو ں جس میں یہ قتل کئے جائی ں گے توخدا کے نبی نے فرمایا : ہا ں ! ام سلمیٰ کہتی ہیں :'' فبسط جبرئیل جنا حہ علی أرض کربلا ء فأراہ ایاہ ثم شمھا وقال: ھٰذہ واللّٰہ ھی الارض التی أخبر بھا جبرئیل رسول اللّٰہ وانن اقتل فیھا''جبرئیل نے زمین کربلا پر اپنے پر پھیلا ئے اور وہ زمین نبی خدا کو دکھا دی ؛. پھر امام حسین علیہ السلام نے اس مٹی کو سونگھا اور فرمایا : خدا کی قسم یہی وہ زمین ہے جس

۲۵۹

کی خبر جبرئیل نے رسول اللہ کو دی تھی اور میں یہیں قتل کیا جاؤ ں گا۔سبط بن جوزی کہتے ہیں : ابن سعد نے طبقات میں واقدی کے حوالے سے اسی معنی کو ذکر کیا ہے پھرسبط بن جوزی نے کہا : ابن سعدنے شعبی کے حوالے سے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ اس نے کہا : جب صفین کے راستے میں علی علیہ السلام کا کربلا سے گزر ہوا اور آ پ نینوا(فرات کے نزدیک قریہ ہے) کے قریب پہنچے تو وہا ں رکے اور اپنے پانی لانے والے اور طہارت کے امور انجام دینے والے فرد کو آواز دی اور فرمایا : اے ابو عبداللہ مجھے خبر دو کہ اس زمین کوکیا کہتے ہیں ؟ اس نے جواب دیا : اسے کربلاکہتے ہیں ، یہ سن کر آپ کی آنکھو ں سے آنسو نکل پڑے اور آپ اتنا روئے کہ وہا ں کی زمین آپ کے آنسوؤ ں سے تر ہوگئی پھر فرمایا :'' دخلت علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وھو یبک فقلت لہ : ما یبکیک؟'' میں ایک دن رسولخدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں حا ضر ہواتو دیکھا رورہے ہیں ؛ میں نے فوراً آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا : آپ کو کس چیز نے رلادیا ؟ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب دیا : ''کان عندی جبرئیل آنفاً و اخبر نی ؛ ان ولدی الحسین علیہ السلام یقتل بشط الفرات بموضع یقال لہ کربلا ئ'' ابھی ابھی جبرئیل میرے پاس موجود تھے، انھو ں نے مجھے خبر دی کہ میرافرزند حسین فرات کے کنارے اس جگہ پر قتل کیا جائے گا جسے کربلاکہتے ہیں ۔'' ثم قبض جبرئیل قبضة من تراب فشمنی ایاھا فلم أملک عینی ان فا ضتا ''پھر جبرئیل نے وہا ں کی ایک مٹھی خاک اٹھائی جس کو میں نے سونگھا اس کا اثر یہ ہوا کہ میں اپنی آنکھو ں پر قابو نہ پا سکا اور سیل اشک جاری ہوگئے ، پھر کہتے ہیں :'' حسن بن کثیر'' اور'' عبد خیر'' نے روایت کرتے ہوئے کہا ہے: جب علی علیہ السلام کربلا پہنچے تو وہا ں رکے اور گریہ کیا اور فرمایا : ''بابی اغلیمة یقتلون ھاھنا،ھٰذا مناخ رکابھم ، ھٰذا موضع رحالھم ، ھٰذا مصرع الرجال ثم ازداد بکاء ہ'' میرے باپ ان جوانو ں پر قربان ہوجائی ں جو یہا ں قتل کئے جائی ں گے ۔یہیں پر ان کی قیام گاہ ہوگی اور وہ اپنی رکابو ں سے نیچے آئی ں گے، یہی ان کے ٹھہرنے کی جگہ ہے، یہی ان کے مردو ں کی قتل گاہ ہے، یہ کہتے کہتے آپ کی آنکھو ں سے آنسوابل پڑے اور آپ شدت سے رونے لگے۔(تذکرة الخواص ،ص ٢٥٠ ،طبع نجف) نصربن مزاحم نے اس خبر کو چار طریقو ں سے بیان کیا ہے۔ (صفین ،ص٢٤٠ ، ١٤٢ ،طبع ہارون)

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438