واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا22%

واقعۂ کربلا مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 438

واقعۂ کربلا
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 438 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 192895 / ڈاؤنلوڈ: 5406
سائز سائز سائز
واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

اس کے علاوہ کتاب بخاری ، شرح فتح الباری '' کتاب الاعتصام بالکتاب و السنة ' پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی فرمائش :

لتتبعن سنن من کان قبلکم '' (١٧ ٦٣ ۔ ٦٤)

٥۔ کنز ل العمال '' ( ١٢٣١١)

حدیث ابو ہریرہ :

١۔ '' فتح الباری '' در شرح صحیح بخاری ( ٦٣١٧)

٢۔ '' سنن '' ابن ماجہ ، حدیث نمبر : ٣٩٩٤۔

٣۔ '' مسند '' احمد بن حنبل (٢ ٣٢٧ ، ٣٦٧، ٤٥٠، ٥١١، ٥٢٧)

٤۔ کنز العمال (١١ ١٢٣)

ابو واقد لیثی کی حدیث:

١۔'' سنن'' ترمذی ( ٩ ٢٧ ۔٢٨)

٢۔ '' مسند '' طیالسی ، حدیث نمبر ١٣٤٦۔

٣۔ '' مسند '' احمد ( ٥ ٢١٨)

٤۔ '' کنز ل العمال '' ( ١٢٣١١) باب ( الاقوال من کتاب الفتن)

عبدا للہ بن عمرو کی حدیث :

١۔ '' سنن'' ترمذی ( ١٠ ١٠٩) ابواب الایمان۔

٢۔ '' در المنثور '' سیوطی ( ٤ ٦٢) تفسیر آیۂ ' ' وَلَا تَکُونوا کَالَّذِین تَفَرَّقُوا '' آل عمران مستدرک حاکم کے مطابق ۔

۶۱

ابن عباس کی حدیث :

١۔ '' مجمع الزوائد'' ( ٧ ٢٦١) بزاز اور حاکم سے روایت کی ہے۔

٢۔ '' کنزل العمال '' ( ١١ ١٢٣) مستدرک حاکم سے نقل کیا ہے۔

سہل بن سعد کی حدیث :

١۔ '' مسند'' احمد بن حنبل ( ٥ ٢٤٠)

٢۔ '' مجمع الزوائد'' (٧ ٢٦١) طبرانی سے نقل کرکے۔

عبد اللہ مسعود کی حدیث :

١۔ '' مجمع الزوائد'' ( ٢٦١٧) طبرانی سے نقل کرکے۔

مستورد کی حدیث :

١۔ '' مجمع الزوائد'' ( ٧ ٢٦١)

٢۔ کنز ل العمال ( ١١ ١٢٣) طبرانی کی '' اوسط '' سے نقل کرکے ۔

شداد بن اوس کی حدیث:

١۔ '' مسند '' احمد ( ٤ ١٢٥)

٢۔ '' مجمع الزوائد '' ( ٧ ٢٦١)

٣۔ قاموس الکتاب المقدس '' تالیف: مسٹر ماکس ، امریکی ، طبع امریکی مطبع، بیروت١٩٢٨ ئ

٤۔ '' توریت'' ، طبع ، امریکی مطبع، بیروت ، ١٩٠٧ ء

۶۲

آیۂ رجم کے بارے میں عمر کی روایت :

١۔ '' صحیح '' بخاری ( ٤ ١٢٠) کتاب حدود۔

٢۔ '' صحیح'' مسلم ( ٥ ١١٦)

٣۔ '' سنن '' ابی داؤد ( ٢ ٢٢٩) باب رجم ، کتاب حدود۔

٤۔ '' صحیح '' ترمذی ( ٢٠٤٦)باب '' ما جاء فی تحقیق الرجم '' کتاب حدود

٥۔'' سنن '' ابن ماجہ ، باب رجم ، کتاب حدود، نمبر: ٢٥٥٣

٦۔ '' سنن'' دارمی( ٢ ١٧٩) باب حد زنائے محصنہ ، کتاب حدود۔

٧۔ ''موطاء مالک'' ( ٣ ٤٢) کتاب حدود۔

٨۔ '' مسند'' احمد ( ١ ٤٠) : ٢٧٦،نمبر ( ١ ٤٧) ٣٣١ ، نمبر : (٥٥١)٣٩١' نمبر

بناوٹی آیت لا تَرغبُو عَنْ آبَائِکُمْ کی روایت:

١۔ '' مسند'' احمد ( ١ ٤٧) نمبر: ٣٣١

٢۔ ''مسند '' احمد (٥٥١) نمبر ٣٩١

'' دس مرتبہ دودھ پلانے '' کے بارے میں عائشہ کی روایت :

١۔'' صحیح'' مسلم (٤ ١٦٧) باب '' التحریم بخمس رضعات '' کتاب رضاع

٢۔ '' سنن'' ابی داؤد ١ ٢٧٩ ) باب '' ھل یحرم ما دون خمس رضعات؟'' کتاب نکاح

٣۔ '' سنن '' نسائی ( ٢ ٨٢) باب '' القدر الذی یحرم من الرضاعة '' کتاب نکاح سے ۔

٤۔ سنن ابن ماجہ ( ١ ٦٢٦ ) باب '' رضاع الکبیر '' کتاب نکاح ، نمبر ١٩٤٤۔

٥۔ سنن دارمی ( ١ ١٥٧) باب '' کم رضعة ترحم '' کتاب نکاح

٦۔ '' موطأ '' مالک ( ٢ ١١٨) باب '' جامع ما جاء فی الرضاعة '' کتاب نکاح

دو خیالی سورتوں کے بارے میں ابو موسیٰ کی روایت

١۔'' صحیح '' مسلم ( ٣ ١٠٠) باب '' لو ان لابن آدم '' کتاب زکات۔

٣۔ '' حلیہ'' ابو نعیم ، '' ابو موسی'' کے حالات کی تشریح میں ۔

۶۳

دوسرا حصہ

سیف بن عمر تمیمی کا تحفہ

*سیف کے جعلی اصحاب کا ایک اور گروہ۔

*رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے والے نمائندے

*رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابو بکر کے گماشتے اور کارندے

*پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چند ایلچی

*ہم نام اصحاب

*گروہ انصار سے چند اصحاب

۶۴

سیف کے جعلی اصحاب کا ایک اور گروہ

ہم نے اس کتاب کی پہلی اور دوسری جلد کو سیف کے قبیلۂ تمیم سے جعل کئے گئے اصحاب اور ان کے بارے میں خیالی عظمت و افتخارات کیلئے مخصوص کیا ، اور اس کے افسانوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیف کی نظر میں پوری دنیا قبیلۂ تمیم میں خلاصہ ہوتی ہے ۔ کیونکہ سیف کی باتوں سے ایسا لگتا ہے کہ صرف اسی خاندان کے افراد تھے جنہوں نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گرد جمع ہو کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت اور اطاعت کا شرف حاصل کیا ہے۔ حد یہ ہے کہ سیف کے خیال میں رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پروردہ ، گماشتے اور کارندے ، نمائندے اور ایلچی بھی قبیلۂ تمیم سے تعلق رکھتے تھے !

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد بھی اسی قبیلہ کی معروف شخصیتیں تھیں جنہوں نے سقیفۂ بنی ساعدہ کی میٹینگ میں شریک ہوکر ، ابو بکر کی بیعت کی اور اس سلسلے میں اپنے نظریات پیش کئے !!

ارتداد کی جنگوں میں بھی ، تمیمیوں کی ایک جماعت دین سے منحرف ہوکر مرتد ہو گئی تھی۔ اورانہوں نے اپنے عقائدکے دفاع میں سخت جنگ کرکے اپنی پائیداری کا ثبوت دیا ہے ۔

اور اس خاندان کے ان لوگوں نے بھی اپنے ایمان و عقیدہ کے دفاع میں مجاہدانہ طور پر تلوار کھینچ کر شجاعت کے جوہر دکھائے ہیں ، جو اسلام پر باقی اور پائندہ رہے تھے۔

اسی قبیلۂ تمیم کے افراد تھے ، جنہوں نے جنگوں اور لشکر کشیوں میں سپہ سالاری کے عہدے سنبھال کر میدان کارزار میں شجاعت ، بہادری اور دلاوریوں کے جوہر دکھائے ہیں اور کافی رجز خوانیاں کی ہیں ۔

خلاصہ کے طور پر یہ تمیمی ہی تھے جنہوں نے رزم و بزم کے تمام میدانوں میں دوسروں پر سبقت حاصل کرکے پہلا مقام حاصل کیا ہے :

٭پہلا شخص جس نے راہ خدا میں مکہ میں شہادت پائی تمیمی تھا۔

٭پہلا شہسوار جس نے جنگ اور کشور گشائی کیلئے ایران کی سرزمین پر قدم رکھا اسی قبیلہ سے تھا ۔

٭پہلا شخص اور دلاور جس نے دمشق کے قلعہ کی سر بفلک دیوار پر کمند ڈالکر اوپر چڑھنے کے بعد اسے فتح کیا ، ایک تمیمی سردار تھا۔

٭پہلا شخص جس نے سرزمیں '' رہا '' پر قدم رکھا انہی میں سے تھا۔

٭پہلا بہادر جس نے گھوڑے پر سوار ہوکر دریائے دجلہ کو عبور کرکے اسلامی فوج کے حوصلے بلند کئے تا کہ اس کی اطاعت کریں ، تمیمی تھا ۔

۶۵

٭پہلا سورما جو فاتح کی حیثیت سے مدائن میں داخل ہوا انہی میں سے تھا ۔

٭پہلا بہادر جو کسی خوف و وحشت کے بغیر جلولا کی جنگ میں دشمن کے مورچوں پر حملہ کرکے انھیں شکست دینے میں کامیاب ہوا، تمیمی تھا۔

''ارماث ، اغواث و عماس '' کے خونین دنوں کو خلق کرنے والے یہی ہیں ۔ یہی ہیں جنہوں نے اس وقت کے دنیا کے پادشاہوں ، جیسے کسریٰ ، ہرمز ، قباد ، فیروز، ہراکلیوس ، چین کے خاقان ، ہندوستان کے پادشاہ داہر ، بہرام ، سیاوش ،نعمان اور دیگر عرب پادشاہوں کے جنگی ساز و سامان کو غنیمت کے طور پر حاصل کیا ہے ۔

انہوں نے ہی علاقوں اور شہروں پر حکومت اور فوجی کیمپوں اور چھاؤنیوں کی کمانڈ سنبھالی ہے

عمر کے قاتل کو موت کی سزا دینے والے بھی یہی ہیں ۔

خلافتِ عثمان کے دوران کوفیوں کی بغاوت کو کچلنے والے بھی یہی ہیں ۔

یہی تھے جو عثمان کی مدد کیلئے دوڑپڑے۔

انہوں نے ہی جنگِ جمل میں امیر المؤمنین علی اور عائشہ ، طلحہ و زیبر کے درمیان صلح کرنے کی کوشش کی ۔

جنگِ جمل میں عام معافی کا اعلان کرکے جنگ کے شعلوں کو خاموش کرنے والا بھی انہی میں سے تھا ۔

جنگلی جانوروں نے جس سے فصیح زبان میں گفتگو کی ہے وہ ان ہی میں سے تھا ۔

جس کی زبان پر فرشتوں نے فارسی کے کلمات جاری کئے اور وہ ایک بڑی فتح کا سبب بنا ، ان ہی میں سے تھا۔

جی ہاں ! یہی خیالی خصوصیات سبب بنی ہیں کہ فرشتے اور جنات یک زبان ہوکر قبیلۂ تمیم کے فضائل اور افتخارات کے نغموں کو سیف کے خیالی راویوں کے کانوں تک پہنچائیں تا کہ وہ بھی اپنی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے ان افسانوں کو سیف کے کان میں گنگنائیں ۔

جو کچھ ہم نے یہاں تک بیان کیاہے اسے بلکہ اور بھی بہت سی چیزیں ہم نے سیف کے تئیس (٢٣) جعلی اصحاب کی زندگی کے حالات کا مطالعہ کرنے کے دوران حاصل کی ہیں ۔

اب ہم اس جلد میں بھی خاندان تمیم سے متعلق سیف کے چھ جعلی اصحاب کے علاوہ دیگر عرب قبائل سے خلق کئے گئے سیف کے انیس جعلی اصحاب کے سلسلہ میں حسب ذیل مطالعہ اور بحث وتحقیق کریں گے :

۶۶

تیسرا حصہ: رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے والے نمائندے :

٢٤ ۔ عبدة بن قرط تمیمی عنبری ۔

٢٥۔ عبدا ﷲ بن حکیم ضبی

٢٦۔ حارث بن حکیم ضبی

٢٧۔ حلیس بن زید ضبی

٢٨۔ حر ، یا حارث بن حکیم خضرامہ ضبی

٢٩۔ کبیس بن ہوذہ ، سدوسی ۔

چوتھا حصہ : رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابو بکر کے گماشتے اور کارندے

٣٠۔ عبید بن صخر بن لوذان ، انصاری۔

٣١۔ صخر بن لوذان انصاری۔

٣٢ عکاشہ بن ثور ، الغوثی۔

٣٣۔ عبدا ﷲ بن ثور، الغوثی۔

٣٤۔ عبید اللہ بن ثور الغوثی

پانچواں حصہ : رسول خدا کے ایلچی اور کارندے

٣٥۔ وبرة بن یحنس خزاعی

٣٦۔ اقرع بن عبد اللہ ، حمیری۔

٣٧۔ جریر بن عبدا للہ حمیری ۔

٣٨۔ صلصل بن شرحبیل

٣٩۔ عمرو بن محجوب عامری

٤٠۔ عمرو بن خفاجی عامری

۶۷

٤١۔ عمر بن خفاجی عامری

٤٢۔ عوف ورکانی

٤٣۔ عویف ، زرقانی۔

٤٤۔ قحیف بن سلیک ،ہالکی۔

٤٥۔ عمر وبن حکیم ، قضاعی ، قینی۔

٤٦۔ امرؤ القیس ، از بنی عبدا للہ۔

چھٹا حصہ : ہم نام اصحاب

٤٧۔ خزیمة بن ثابت انصاری ( غیو از ذی شہادتین )

٤٨۔ سماک بن خرشہ ، انصاری ( غیر از ابی دجانہ )

ساتواں حصہ : گروہ انصار سے چند اصحاب

٤٩۔ ابو بصیرہ

٥٠۔ حاجب بن زید۔

٥١۔ سہل بن مالک

٥٢۔ سہل بن یربوع

٥٣۔ ام زُمل ، سلمیٰ بنت حضیفہ

۶۸

تیسرا حصہ :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے والے مختلف قبائل کے منتخب نمائندے

*٢٤ ۔ عبدة بن قرط تمیمی عنبری

*٢٥۔ عبدا ﷲ بن حکیم ضبی

*٢٦۔ حارث بن حکیم ضبی

*٢٧۔ حلیس بن زید ضبی

*٢٨۔حر، یا حارث بن خضرامہ ضبی

*٢٩۔کبیس بن ہوذہ ، سدوسی۔

۶۹

چوبیسواں جعلی صحابی عبدة بن قرط تمیمی

اس نام کا ابن حجر کی '' الاصابہ'' میں یوں تعارف ہوا ہے :

عبدة بن قرط، خباب بن حرث تمیمی عنبری کا پوتا ہے ۔ ابن شاہین نے سیف بن عمر سے نقل کرکے ، قیس بن سلیمان بن عبدہ عنبری سے اس نے اپنے باپ اور جد سے ، انہوں نے عبدة بن قرط سے ۔۔ جو بنی عنبر کے نمائندوں کے ساتھ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ہے ۔۔ روایت کی ہے :

'' وردان '' اور '' حیدہ '' ، محزم بن مخرمہ بن قرط کے بیٹے نمائندہ کی حیثیت سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے حق میں دعائے خیر فرمائی ہے ۔

میں ۔۔ ابن حجر ۔۔ نے '' حیدہ '' کے حالات کی تشریح میں اس موضوع کی طرف اشارہ کیا ہے ۔

ابن حجر نے اس سے قبل '' حیدہ '' کے حالات کی تشریح میں یوں لکھا ہے :

انشاء اللہ اس کے حالات کی تشریح حرف '' ع'' میں '' عبدہ '' کی تشریح کے دوران آئے گی ۔ یہ بھی کہدوں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے حق میں دعا کی ہے ۔

عبدہ کا خاندان اور اس کی داستان کا آغاز

سیف نے عبدہ کو ' عمرو بن تمیم '' کے خاندان ِبنی عنبر سے خلق کیا ہے ۔ اس کی داستان کے آغاز کو یوں جعل کیاہے کہ بنی عنبر کے نمائندوں کا ایک گروہ ، جس میں ' ' حیدہ'' اور '' وردان '' کے علاوہ عبدة بن قرط بھی تھا ، پیغمبر خدا کی خدمت میں پہنچے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' حیدہ '' اور '' وردان '' کے لئے مخصوص دعائے خیر کی ۔

۷۰

داستان کے مآخذ کی تحقیق

سیف کہتا ہے کہ مذکورہ داستان عبدة بن قرط نے اپنے بیٹے عبدہ سے اور اس نے اپنے بیٹے سلیمان سے اور سلیمان نے بھی اپنے بیٹے قیس سے بیان کی ہے ۔ جبکہ جس عبدة بن قرط کو ۔۔ سیف نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی خدمت میں قبیلے کے سفیر کے عنوان سے پہنچوایا ہے اس کا حقیقت میں کوئی وجود تھا اور نہ اس کے ان بیٹوں کا جن کی فہرست سیف نے مرتب کی ہے۔

بلکہ عبدة بن قرط نامی سیف کا صحابی۔ جسے اس نے نمایندہ کی حیثیت سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچایاہے ۔ اور اس کے بیٹے '' عبدہ ، سلیمان ، اور قیس'' سب کے سب سیف کی تخلیق ہیں ۔

روایت کی تحقیق

ہم نے اس کتاب کی دوسری جلد میں ،جہاں '' اسود بن ربیعہ '' کے بارے میں گفتگو کی ہے ، تمیم کے نمائندوں کے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے تاریخی حقائق بیان کئے ہیں اور واضح کیا ہے کہ سیف نے مذکورہ روایت میں کیوں اور کس طرح تحریف کی ہے !! یہاں پر اس کی تکرار ضروری نہیں سمجھتے ۔

یہ بھی ہم بتادیں کہ تمیم کے نمائندوں کے بارے میں سیف کے علاوہ دوسروں کی روایتوں میں نہ تو عبدة بن قرط کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا ہے اور نہ ہی اس کی روایت کے راویوں کے سلسلہ کا سراغ ملتا ہے ، کیونکہ یہ صرف سیف بن عمر ہے جس نے یہ داستان خلق کی ہے اور ابن حجرنے بھی اس پر اعتماد کرکے عبدة بن قرط کے نام کو حرف '' ع'' میں اپنی کتاب '' الاصابة '' میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پہلے درجے کے اصحاب میں درج کیا ہے ۔

مصادر و مآخذ

'' عبدة بن قرط '' کے حالات :

١۔الاصابتہ' ابن حجر' (٤٢٧٢) نمبر ٥٢٨٦ کے نیچے

۷۱

حیدہ کے حالات

١۔ الاصابة '' ابن حجر ، ( ٢ ٣٦٤)

بنی عنبر کا شجرۂ نسب :

١۔ '' جمہرۂ انساب '' ابن حزم ( ٢٠٨ ۔ ٢٠٩)

اقرع بن حابس اور قعقاع بن معبدکے حالات :

١۔ '' الاصابة'' ابن حجر اور اس کے علاوہ دیگر منابع میں بھی آئے ہیں ۔

۷۲

پچیسواں جعلی صحابی عبد اللہ بن حکیم ضبی

ابن اثیر نے اپنی کتاب '' اسد الغابہ'' میں اس صحابی کا یوں تعارف کرایا ہے :

سیف بن عمر نے صعب بن عطیہ بن بلال بن ہلال سے ، اس نے اپنے باپ سے اس نے '' عبد الحارث بن حکیم '' سے روایت کی ہے کہ وہ ۔۔ عبد الحارث بن حکیم ۔۔ جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے پوچھا :

تمہارا نام کیا ہے ؟

اس نے جواب دیا: عبدا لحارث بن حکیم

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: آج کے بعد تمہارا نام عبد اللہ ہوگا۔

اس کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے اپنے قبیلہ '' بنی ضبہ''کے صدقات جمع کرنے کے لئے ممور فرمایا:

ابو موسیٰ نے اس صحابی کو ابن مندہ سمجھ لیا ہے

ابن حجر نے بھی اپنی کتاب '' الاصابة'' میں یوں بیان کیا ہے :

دار قطنی نے سیف کی کتاب '' فتوح '' سے نقل کرکے صعب ابن عطیہ سے روایت کی ہے ...اور اسی مذکورہ داستان کونقل کیا ہے

اس صحابی کی زندگی کے حالات کی تشریح کرتے ہوئے کتاب '' التجرید'' میں اس طرح درج کئے گئے ہیں :

سیف بن عمر کے ذریعہ نقل ہوا ہے کہ وہ ۔۔ عبد الحارث بن حکیم ۔۔ نمائندہ کی حیثیت سے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ہے۔

چھبیسواں جعلی صحابی حارث بن حکیم ضبی

ابن اثیر نے کتاب '' اسد الغابہ '' میں اس صحابی کا تعارف یوں کرایا ہے :

ابو موسیٰ کی کتاب میں آیا ہے ( اس کے بعد عبد الحارث کی وہی داستان اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں نمائندہ کے طور پر پہنچنے کا موضوع بیان کیا ہے !)

۷۳

کتاب ' ' الاصابة'' میں یوں آیا ہے :

ابن شاہین اور ابو موسیٰ دونوں نے سیف سے نقل کیا ہے ( یہاں پر عبدا لحارث کی وہی مذکورہ داستان بیان ہوئی ہے )

ذہبی بھی اپنی '' التجرید'' میں لکھتا ہے :

ناقابل اطمینان طریقے سے روایت کی گئی ہے کہ اس کا نام عبد الحارث تھا اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا نام بدل کر عبد اللہ رکھا ۔

ہم نے سیف کی گزشتہ روایت میں دیکھا کہ اس نے ایک نمائندہ کے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے کی خبر دی ہے اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا نام عبد الحارث بن حکیم سے بدل کر '' عبداللہ بن حکیم '' رکھا ہے۔

لیکن دانشوروں نے سیف کے تخلیق کردہ اسی ایک آدمی کو دو آدمیوں میں تبدیل کرکے صحابی رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عنوان سے زندگی کے حالات پر الگ الگ روشنی ڈالی ہے۔

لیکن '' اسد الغابہ '' کے مطابق سیف نے دوسری روایت میں ان کی اس داستان کو '' عبدا للہ بن زید بن صفوان '' سے ٍمنسوب کیا ہے ۔ ابن اثیر لکھتا ہے :

دارقطنی نے سیف بن عمر سے اس نے صعب بن عطیہ سے ، اس نے بلال بن ابی بلال ضبی سے اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ عبد الحارث بن زید ضبی نمائندہ کی حیثیت سے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں اس نے اپنا تعارف کرایا، اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے حق میں دعا کی ۔

یہ صحابی نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے کے بعد اسلام لایا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے فرمایا:کہ

اس کے بعد تمہارا نام '' عبدا للہ '' ہوگا نہ عبد الحارث۔ اس نے جواب میں کہا :

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حق پر ہیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا اچھا فرمایا ہے ۔ کیونکہ کسی بھی قسم کی پرہیز گاری اور تقویٰ تائید الٰہی کے بغیر میسر نہیں ہوتی اور کوئی بھی کام توفیق الٰہی کے بغیر ممکن نہیں ہے ، شائستہ ترین کام وہ ہے جس کی انجام دہی میں ثواب ہو اور جس چیز سے دوری اختیار کرنا چاہئے وہ ایسا کام ہے جس کے پیچھے عذاب الٰہی ہوتا ہے۔

اللہ جیسے خدا کو رکھتے ہوئے ہم خوش ہیں ، ہم اس کے حکم کی اطاعت کرتے ہیں تاکہ اس کے اچھے اور خیر خواہانہ وعدوں سے استفادہ کرسکیں اور اس کے غضب اور عذاب سے امان میں رہیں !

عبد الحارث جو '' عبدا للہ '' بن چکا تھا اپنے قبیلے کی طرف لوٹا اور اس نے ہجرت نہیں کی۔

۷۴

اس مطلب کو ابو موسیٰ نے بھی ذکر کیا ہے

ابن حجر کی '' الاصابة'' میں بھی آیا ہے :

دار قطنی نے سیف بن عمر سے اس نے بلال بن ابی بلال سے اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ ( یہاں پر مذکورہ داستان کو نقل کرتا ہے )

مذکورہ روایت ابن کلبی کی '' جمہرہ '' میں یوں آئی ہے :

عبد الحارث بن زید... ( اس کا نسب بیان کرنے کے بعد لکھتا ہے :)

وہ نمائندہ کی حیثیت سے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے نام کو بدل کر '' عبداللہ '' رکھا۔

ابن حزم نے بھی اپنی کتاب '' جمہرہ''' میں ان ہی مطالب کو بیان کیا ہے ۔

مذکورہ داستان کو ابن عبدا لبر نے '' استیعاب '' میں ، ابن اثیر نے '' اسدا لغابہ'' میں اور ابن حجر نے ''الاصابہ'' میں ابن کلبی ، محمد بن حبیب اور ابن ماکولا جیسے دانشوروں سے نقل کیا ہے۔

اس بناء پر اس روایت کی سند ابن کلبی پر ختم ہوتی ہے ۔ کیونکہ ابن حبیب ابن حزم اور ابن ماکولا سب کے سب ابن کلبی سے روایت کرنے والے تھے۔ اور چونکہ اس دانشور نے ٢٠٤ ھ میں وفات پائی ہے اور سیف کی کتاب '' فتوح'' بھی اس تاریخ سے آدھی صدی سے زیادہ پہلے لکھی جا چکی ہے ۔ لہذا یہ اطلاعات ہمیں یہ حق دیتے ہیں کہ ہم یہ کہیں کہ : ابن کلبی نے مذکورہ خبر کو سیف سے نقل کرکے اسے خلاصہ کیا ہے ۔

بہر حال ہم زید بن صفوان کو سیف کی تخلیق شمار نہیں کرتے ہیں ، کیونکہ ہمیں ابن کلبی کی کتاب '' جمہرہ'' نہیں ملی جس کے ذریعہ ہم اس کی خبر کی یقینی طور پر تائید کرتے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہی ایک شخص ۔۔۔ زید بن صفوان ۔۔ رجال کی تشریح میں لکھی گئی کتابوں میں حسب ذیل تین روپوں میں درج ہوا ہے :

۷۵

١۔ عبدا للہ بن حارث بن زید بن صفوان '' جو '' اسد الغابہ'' ، '' تجرید'' ، '' الاصابہ'' اور ابو موسی کے ذیل میں اسی نام سے آیا ہے۔

٢۔ '' عبد اللہ بن حارث بن زید بن صفوان '' جو '' استیعاب '' ، '' اسد الغابہ'' ، '' تجرید'' اور ابو موسیٰ ذیل میں اسی نام سے ذکر ہوا ہے۔

٣۔ ابن حجر کی '' الاصابہ'' میں عبدا للہ بن حارث کا دو شخصیتوں کے عنوان سے دوجگہ پر تعارف کیا گیا ہے ۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے ہوئے نمائندہ '' عبدا للہ بن حارث'' کے نام میں تعدّد کا سر چشمہ شاید پہلی بار '' استیعاب '' میں واقع ہونے والی تحریف جس کے نتیجہ میں ابو موسیٰ ہے نے بھی غلطی کی ہے اور اپنی کتاب ذیل میں ایک بار '' عبد اللہ بن حارث بن زید '' دوسری بار '' عبد اللہ بن زید '' کی زندگی کے حالات لکھے ہیں اور اس کے بعد دانشوروں نے اس کی پیروی کی ہے۔

ابن حجر اس غلطی کے علاوہ ایک دوسری غلطی کا بھی مرتکب ہوا ہے اور '' عبد اللہ بن حارث بن زید''کی زندگی کے حالات پر دوبار' دو جگہوں پر اپنی کتاب میں روشنی ڈالی ہے۔ اس طرح ایک جعلی شخص تین روپوں میں نمودار ہوا ہے۔

ستائیسواں جعلی صحابی حلیس بن زید بن صفوان

اس صحابی کا ' ' اسد الغابہ '' میں یوں تعارف کیا گیا ہے :

ابو موسیٰ نے ابن شاہین سے نقل کرکے ذکر کیا ہے کہ سیف بن عمر نے روایت کی ہے کہ وہ حلیس بن زید بن صفوان اپنے بھائی ' ' حارث'' کی وفات کے بعد نمائندہ کی حیثیت سے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے سر پر دست شفقت پھیرنے کے بعدا س کے حق میں د عا فرمائی ہے ۔

حلیس نے اس ملاقات میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا :

اگر مجھ پر کسی قسم کا ظلم ہوتو اس کی تلافی کیلئے اٹھتا ہوں تا کہ اپنا حق حاصل کرسکوں ۔

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب میں فرمایا:

۷۶

شائستہ ترین کا م جسے انجام دیا جا سکتا ہے ، عفو و بخشش ہے ۔

حلیس نے کہا:

اگر کوئی حسد کرے گا تو اس سے زبردست مقابلہ کرکے تلافی کروں گا۔

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

کون ہے جو کرم کرنے والوں کے لطف و کرم کا برا جواب دے ؟! جو بھی لوگوں سے حسدکرتا ہے اس کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا اور اس کا دل آرام نہیں پاتا۔یہ مطالب ابو موسی نے بیان کئے ہیں ( ابن اثیر کی بات کا خاتمہ )

کتاب '' اصابہ'' میں ہم یوں پڑھتے ہیں :

ابن شاہین نے اس کا نام لیا ہے اور سیف بن عمر سے نقل کرکے روایت کی ہے کہ ( یہاں پر مندرجہ بالا داستان نقل کی گئی ہے )

لیکن کتاب '' تجرید'' میں اس صحابی '' حلیس بن زید '' ۔۔ کے تعارف اور زندگی کے حالات کے بارے میں حسب ذیل مطالب پر اکتفا کی گئی ہے :

غیر مطمئن طریقہ سے روایت ہوئی ہے کہ وہ ۔۔ حلیس ۔۔ نمائندہ کی حیثیت سے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ہے۔

اٹھائیسواں جعلی صحابی حر، یا حارث بن خضرامہ ، ضبی

'' اسدا لغابہ'' میں یوں ذکر ہوا ہے:

حارث بن خصرامہ ضبی ہلالی کے بارے میں '' حارث بن حکیم '' کے سلسلے میں بیان کئے گئے مآخذ کے مطابق آیا ہے کہ سیف بن عمر نے صعب بن ہلال ضبی اور اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:

حر، پیغمبر خدا کی خدمت میں پہنچا ( تا آخر )

۷۷

حر بن خضرامہ ضبی یا ہلالی :

ابن حجر کی کتاب '' اصابہ'' میں حر کی داستان یوں درج ہوئی ہے :

ابن شاہین نے سیف سے نقل کرکے صعب بن ہلال ضبی سے اور اس نے اپنے باپ سے یوں روات کی ہے :

حر بن خضرامہ بنی عباس کا ہم پیمان تھا ۔ گوسفندوں کے ایک ریوڈ اور چند غلاموں کے ہمراہ مدینہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے ایک کفن اور قدرے حنوط عنایت فرمایا ! اس کے بعد زیادہ وقت نہ گزرا کہ حر مدینہ میں فوت ہوگیا ۔ اس کے پسماندگان مدینہ آگئے ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے گوسفندوں کو انھیں لوٹا دیا اور حکم دیا کہ غلاموں کو مدینہ میں بیچ کر انکی قیمت انہیں دی جائے۔ابو موسی مدائنی نے دار قطنی سے ابن شاہین کے راوی سے روایت کی ہے کہ اس نے اس صحابی کے بارے میں کہا ہے : حارث بن خضرامہ ، ! اور خدا زیادہ جاننے والا ہے !

ضبّہ کا شجرۂ نسب

ضبی ، یہ ایک نسبتی لفظ ہے اور یہ نسبت تمیم کے چچا ''صنبتہ بن ادبن طابختہ بن الیاس بن مضر '' تک پہنچتیہے ۔

داستان کے مآخذ کی تحقیق:

علماء نے سیف کے اسنادحلیس کی داستان میں ذکر نہیں کئے ہیں ۔ لیکن باقی حدیث کو سیف کے ذریعہ ، صعب سے، بلال بن ابی بلال اور اس کے باپ سے نقل کیا ہے۔

یعنی حقیقت میں ایک بناوٹی راوی نے دوسرے جعلی اور خیالی راوی سے اور اس نے بھی ایک جعلی شخص سے نقلِ قول اور روایت کی ہے۔

ساتھ ہی سیف نے اپنے افسانوں میں سے ایک افسانہ کو اسی ماخذ کے ذریعہ اپنے جعلی صحابی تک ربط دیکر نقل کیا ہے ۔ ہم نے اس موضوع کے بارے میں ا پنی کتاب '' رواة مخلتقون'' میں اشارہ کیا ہے ۔

۷۸

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ

سیف تنہا شخص ہے جس نے مذکورہ داستانوں کی روایت کی ہے ۔ جبکہ جن افراد نے انتہائی دقت اور احتیاط کے ساتھ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی خدمت میں پہنچے وفود اورنمائندوں کے بارے میں تفصیلات لکھے ہیں ،ان میں سیف کے مذکورہ مطالب کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ابن سعد جیسے عالم نے اپنی کتاب ''طبقات'' میں سیف کی روایتوں پر کوئی توجہ نہیں کی ہے اور ان پر اعتماد بھی نہیں کیا ہے۔

بلاذری نے بھی ۔۔ اپنی کتاب ' ' انساب '' کے پہلے حصہ میں ، جو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت سے مخصوص ہے ۔۔ سیف کی روایتوں پر کوئی اعتماد نہیں کیا ہے اور اسی طرح یعقوبی نے بھی اپنی تاریخ میں سیف کی روایتوں پر بھروسہ نہیں کیا ہے۔

جیسا کہ ہم نے کہا کہ '' عبدا للہ بن زید صفوان '' کے بارے میں نمائندگی کی روایت کو ہم نے ابن کلبی کے ہاں پایا ۔ مگر خود ابن کلبی نے اس روایت کو کہاں سے حاصل کیا ہے ، ہمیں اب تک اس کے مآخذ کا پتہ نہ مل سکا۔

خلاصہ :

سیف نے قبیلہ بنی ضبّہ کے چند افراد کے نمائندہ کے طور پر پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے کی داستان کو چار روایتوں میں بیان کیا ہے ۔علماء نے بھی دیگر صحابیوں کے ضمن میں ان کی زندگی کے حالات پر حسب ذیل روشنی ڈالی ہے :

١۔ سیف کی روایت کے پیش نظر '' عبد الحارث بن حکیم ضبی'' کی نمایندگی ، رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اس کا نام بدل کر '' عبدا للہ '' رکھنے اور اسے اپنے قبیلہ کے صدقات جمع کرنے کی ماموریت دینے کے مسئلہ کو علماء نے دو صحابیوں کے حق میں الگ الگ بیان کیا ہے :

الف : حارث بن حکیم ضبی

ب: عبد اللہ بن حکیم ضبی

اور اسی ترتیب سے مذکورہ دو صحابی پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی فہرست میں ثبت ہوئے ہیں ۔

۷۹

٢۔ سیف' عبد الحارث بن زید بن صفوان کے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں بعنوان نمایندہ پہنچنے کی روایت نقل کرکے مدعی ہوا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا نام بدل کر '' عبد اللہ بن زید '' رکھا ہے ، اور نام بدلنے کے بعد یہ نیا عبد اللہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تعلیم و نصیحت کرنے پر اتر کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہتا ہے:

کوئی پرہیز گاری و تقویٰ خدا کی توفیق حفاظت کے بغیر ممکن نہیں ہے اور کوئی بھی کام توفیق الٰہی کے بغیر انجام نہیں پاسکتا ۔ بہترین اور شائشتہ ترین کام جسے انجام دیا جاسکتا ہے وہ ہے جس میں ثواب ہو اور جس کام سے پرہیز کرنا چاہئے وہ ایسا کام ہے جس پر پروردگار غصہ اور غضب کرے

اس طرح یہ عبدا للہ بن زید صفوان ہے جو خود رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تعلیم اور درس دیتا ہیچہ جائے کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسے درس دیں !!!

اس کے علاوہ اس صحابی کی نمائندگی کی خبر ' اس کی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نصیحت اور تعلیم کے ذکر کے بغیر ہمیں ابن کلبی اور اس کی حدیث کے راویوں کے ہاں ملی ہے۔ چونکہ سیف زمانہ ابن کلبی سے پہلے ہے لہذا ہمیں یہ کہنے کا حق ہے کہ ابن کلبی نے بھی اس خبر کو سیف سے نقل کیا ہوگا!

ہم نے مشاہدہ کیا کہ یہی ایک شخص، اصحابِ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حالات لکھنے والوں کے ہاں تین روپوں میں ظاہر ہوا ہے !!!

٣۔ سیف بن عمر نے حلیس بن زید کی نمائندگی کا ذکر اس کے بھائی '' حارث بن زید '' کی وفات کے بعد کیا ہے اور اس امر کی تاکید کی ہے کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے سر پر دستِ شفقت پھیر کہ اس کیلئے دعا کی پھر نصیحت کی ہے۔

علماء نے اسی روایت کے پیش نظر اور اسی پر اعتماد کرکے حلیس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوسرے اور حقیقی صحابیوں کی فہرست میں قرار دیا ہے ۔

٤۔ سیف نے حر یا حارث بن خضرامہ کی گوسفندوں کے ریوڑ اور چند غلاموں کے ہمراہ پیغمبر خدا کی خدمت میں نمائندگی کو بیان کیا ہے لیکن اتنی طاقت نہیں رکھتا تھا کہ اپنے اس نئے خلق کئے ہوئے صحابی کو صحیح و سالم اپنے وطن اور اہل و عیال کے پاس لوٹا دے ، بلکہ اس کے بر عکس رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس کیلئے کفن اور قدرے حنوط لے لیتا ہے اور اس مفلس کو وہیں پر مسافرت میں مار ڈالتا ہے اور وہیں پر اسے دفن کرتا ہے ! پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی ایسی شخصیت کے مرنے کے بعد حکم دیتے ہیں کہ اس کے غلاموں کے بیچنے کے بعد ان کی قیمت اور گوسفندوں کے ریوڑ کو مرحوم کے پسماندگان کے حوالے کردیں ۔ اس طرح اسے اصحاب کی فہرست میں قرار دیکر اس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

امام حسین علیہ السلام نے اسے جواب دیا :''یاعبداللّٰہ ! انہ لیس یخفی علیّ ، الرأی ما رأیت ، ولکن اللّٰہ لا یغلب علی أمرہ ''(١) اے بندہ خدا !یہ بات مجھ پر پوشیدہ نہیں ہے ، تمہاری رائے وہی ہے جو تم دیکھ رہے ہو لیکن تمہارانظریہ خدا کے امر پر غالب نہیں آسکتااور خدا اپنے امرپرمغلوب نہیں ہوسکتا۔ یہ کہہ کر آپ نے وہاں سے کوچ کیا ۔(٢)

دسویں منزل : شراف(٣)

آپ کا قافلہ کوفہ کی سمت روانہ تھا کہ راستے میں ایک منزل پر جاکر پھر ٹھہرا جس کا نام شراف ہے۔ جب صبح نمودار ہوئی تو آپ نے اپنے جوانوں کو حکم دیا کہ پانی بھر لیں ! ان لوگوں نے کافی مقدار میں پانی بھرا اور صبح سویرے سفر شروع کردیا تاکہ دن کی گرمی سے محفوظ رہ سکیں ۔ چلتے چلتے دوپہرکاوقت آگیا ابھی قافلہ محو سفر ہی تھا کہ کسی نے کہا:اللّٰہ اکبر ! تو حسین نے بھی اللّٰہ اکبر کہتے ہوئے پوچھا : کس لئے تم نے یکایک تکبیر کہی ؟ اس شخص نے کہا : عراق کے نخلستان دیکھ کر ہم نے خوشی سے تکبیر کہی تو قبیلہ بنی اسد کے ان دونوں لوگوں (عبداللہ بن سلیم اور مذری بن مشمعل) نے کہا : ہم نے اس مقام پر ابھی تک خرمہ اور کھجور کا ایک بھی درخت نہیں دیکھا۔ امام حسین علیہ السلام نے پوچھا : تم کیا سمجھتے ہو اس نے کیا دیکھا ہے ؟ انھوں نے جواب دیا: ہم تو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس نے گھوڑ سواروں کے سرو گردن دیکھے ہیں ،اس پر اس مرد نے کہا : میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ آگے یہی ہوگا نہ کہ کھجوروں کے درخت ۔

____________________

١۔ ارشاد کے ص ٢٢٣ پر ہے کہ اس کے بعد آپ نے فرمایا :'' واللّٰہ لا یدعونی حتی یستخرجوا ھٰذہ العلقہ من جوفی فاذا فعلوا ذالک سلط اللہ علیھم من یذ لّھم حتی یکونوا أذل فرق الامم'' خدا کی قسم یہ مجھے نہیں چھوڑی ں گے یہا ں تک کہ میرے سرو تن میں جدائی کردی ں اور جب یہ ایسا کری ں گے تو اللہ ان پر ایسے لوگو ں کو مسلط کرے گا جو ان کو ذلیل و رسوا کری ں گے اور نوبت یہا ں تک پہنچے گی کہ یہ لوگ امت کے ذلیل ترین افراد ہوجائی ں گے ۔اعلام الوری میں بھی یہی موجود ہے، ص٢٣٢۔

٢۔ابو مخنف کابیان ہے کہ بنی عکرمہ کی ایک فرد'' لوذان'' نے مجھے خبر دی ہے کہ اس کے ایک چچا نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے۔ (طبری، ج٥ ، ص ٣٩٩)

٣۔ اس جگہ اور'' واقصہ'' کے درمیان ٢ میل کا فا صلہ ہے اور یہ عراق سے پہلے ہے ۔قادسیہ سے پہلے سعدبن ابی وقاص یہیں ٹھہرے تھے۔یہ جگہ ایسے شخص سے منسوب ہے جسے شراف کہا جاتا ہے۔ اس جگہ سے پانی کا چشمہ پھوٹتا تھاپھر یہا ں بہت سارے بڑے بڑے میٹھے پانی کے کنوی ں کھودے گئے۔ معجم البلدان میں یہی مرقوم ہے ۔

۲۴۱

گیارہویں منزل : ذوحسم(١)

ان شرائط کو دیکھ کر امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :''أمالناملجأ نلجأ الیه نجعله فی ظهورنا و نستقبل من وجه واحد ؟''کیا کوئی ایسی پناہ گاہ نہیں ہے جس میں پناہ گزیں ہوکر ہم اس فوج کو اپنے پیچھے کردیں اور ان سے دفاع کے لئے فقط ایک ہی طرف سے آمنے سامنے ہوں ؟ ہم لوگوں (بنی اسد کے دونوں افرد) نے عرض کیا : کیوں نہیں ! ذوحسم کا علاقہ آپ کے اس طرف موجودہے، آپ اپنے بائیں جانب اس کی طرف مڑ جائیں ، اگر ہم لوگ جلدی سے ادھر مڑ گئے تو وہی ہوگا جو آپ چاہتے ہیں ۔یہ سن کر امام حسین علیہ السلام نے بائیں جانب کا رخ کیا تو ہم لوگ بھی ان کی طرف مڑ گئے اور ہم نے ذوحسم پہنچنے میں جلدی کی لہذا ان لوگوں سے قبل ہم لوگ ذوحسم میں موجود تھے۔ ان لوگوں نے جب دیکھا کہ ہم لوگوں نے اپناراستہ بدل دیا ہے تو وہ لوگ بھی ہماری جانب آنے لگے ۔

امام حسین علیہ السلام نے وہیں پر پڑاؤ ڈالا اور حکم دیا کہ خیمے نصب کئے جائیں ۔ جوانوں نے خیمہ لگانا شروع کردیا، ابھی تھوڑی دیر بھی نہ گزری تھی کہ گھوڑ سواروں کے سر دکھائی دینے لگے،ان کے پرچم گویاپرندوں کے پروں کی طرح تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ساری فوج پہنچ گئی اور وہ ہزار گھوڑ سوار تھے جن کا سر براہ حر بن یزید تمیمی یربو عی تھا۔ دوپہر کی جھلسا دینے والی گرمی میں حر اپنے رسالے کے ہمراہ امام حسین علیہ السلام کے بالمقابل آکر کھڑا ہو گیا۔ ادھر حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب سروں پر عمامہ رکھے اپنی تلواروں کو نیام میں رکھے ہوئے تھے ۔

فوج کی تشنہ لبی دیکھ کر امام حسین علیہ السلام نے اپنے جوانوں سے فرمایا :'' اسقواالقوم وارووهم من الماء ورشّفوا الخیل ترشیفا'' اس فوج کو پانی پلاؤ اور انھیں سیراب کردو نیز ان کے

____________________

١۔ یہ ایک پہاڑی کا نام ہے۔ نعما ن یہیں آکر شکار کیا کر تا تھا جیسا کہ معجم البلدان میں آیا ہے۔اس کے اور عذیب الہجانات کے درمیان کوفہ تک ٣٣ میل کا فاصلہ ہے جیسا کہ طبری میں بھی یہی ہے ۔سبط بن جوزی نے علما ء سیر کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ (امام) حسین کو جناب مسلم علیہ السلام پر گزرنے والے واقعات کا کچھ بھی علم نہیں تھا یہا ں تک جب قادسیہ سے ٣ میل کے فاصلہ پر حر بن یزید ریاحی کے رسالہ سے سامنا ہوا تو اس نے مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ کے قتل کی خبر امام حسین علیہ السلام کو دی اور مطلع کیا کہ ابن زیاد کوفہ میں آچکا ہے اور ان کوآمادہ کر رہا ہے اور ان سے کہاکہ واپس پلٹ جائی ں ۔(ملا حظہ ہو ص ٢٤٥طبع نجف)

۲۴۲

گھوڑوں کو بھی سیراب کردو۔حکم پاتے ہی حسینی جوا ن ہاتھوں میں مشکیں لئے اٹھے اور سب کو پانی پلانا شروع کر دیا یہاں تک کہ سب کو سیراب کرنے کے بعد بڑے بڑے پیالوں ، طشتوں اور پتھروں کے بڑے بڑے برتن پانی سے بھر کر گھوڑوں کے سامنے رکھ دئے گئے۔ جب وہ جانور تین چار، یاپانچ بار پانی میں منہ ڈال کرپھر اس سے اپنا منہ نکال لیتے تھے(١) تب یہ جوان پانی کے ان برتنوں کودوسرے جانوروں کے پاس لے جاتے تھے؛ ا س طرح سارے کے سارے گھوڑے سیراب ہوگئے ۔(٢) و(٣)

اسی اثنا میں نماز ظہر کا وقت آگیا(٤) تو حسین (علیہ السلام) نے حجاج بن مسروق جعفی کو اذان دینے کا حکم دیا۔ حجاج نے اذان دی، جب اذان ختم ہو گئی اور اقامت کا وقت آیا تو(امام حسین) جسم پر ایک لباس اور دوش پر عبا ڈالے اور پیروں میں نعلین پہنے باہر نکلے اور حمد وثنائے الہٰی کے بعد اس طرح گو یا ہوئے :

____________________

١۔ ترشیف کا حقیقی معنی یہی ہے ۔

٢۔ طبری کا بیان ہے کہ میں نے یہ واقعہ ہشام سے ابومخنف کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ابومخنف کہتے ہیں کہ ابوجناب نے عدی بن حرملہ سے اور اس نے عبداللہ بن سلیم اورمذری سے یہ خبرنقل کی ہے ۔

٣۔طبری کا بیان ہے کہ ہشام نے کہا : مجھ سے لقیط نے علی بن طعان محاربی کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے کہ علی بن طعان بن محاربی کہتا ہے : میں حر کے رسالے میں موجود تھا لیکن میں اپنے لشکروالو ں میں سب سے آخر میں پہنچنے والو ں میں تھا ۔جب حسین نے پیاس کی شدت سے میری اور میرے گھوڑے کی حالت دیکھی تو فرمایا : أنخ الراویہ لیکن چونکہ '' راویہ '' ہم پانی پلانے کے معنی میں سمجھتے تھے لہٰذا ہم کچھ سمجھ نہ سکے تو آپ نے جملہ کو بدلتے ہوئے کہا : یابن أخ أنخ الجمل جان برادر اپنے اونٹ کو نیچے بیٹھاؤ تو میں نے اسے نیچے بیٹھادیا ؛ آپ نے فرمایا: : اشرب پانی پیو!لیکن میں جب بھی پانی پیناچاہتا تھا پانی مشک سے گر جاتا تھا، حسین (علیہ السلام) نے مجھ سے کہاأخنث السقاء چھاگل کو اپنی طرف موڑو! علی بن طعان محاربی کہتاہے کہ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہاتھا کہ میں کیا کرو ں تو خود حسین (علیہ السلام) کھڑے ہوئے اورچھاگل کو موڑ کرمیرے منہ سے لگایا ،میں نے پانی پیا، اس کے بعد اپنے گھوڑے کو پانی پلایا۔(طبری ،ج٥، ص ٤٠١ ؛ارشاد ، ص ٢٢٤ ؛خوارزمی ،ص٢٣٠)

٤۔ یہا ں پر ابو مخنف کے اخبار کا سلسلہ منقطع ہوجاتاہے لہذا چارو ناچار ہمیں اس مطلب کو مکمل کرنے کے لئے ہشام کلبی کی خبر سے مدد لینی پڑی جو اس نے لقیط سے اور اس نے علی بن طعان محاربی کے حوالے سے نقل کی ہے۔(طبری ،ج٥، ص٤٠١، ارشاد، ص ٢٢٤،خوارزمی، ص ٢٣٠١)

۲۴۳

''ایها الناس ! انها معذ رة الیٰ اللّٰه عزّوجل والیکم ، انّ لمء أتیکم حتی أتتنکتبکم وقدّ مت علّ رسلکم ، أن أقدم علینا فا نه لیس لنا امام ، لعلّ اللّٰه یجمعنابک علی الهدیٰ فان کنتم علیٰ ذالک فقد جئتکم ، فان تعطونما أطمئنّْ الیه من عهود کم و مواثیقکم أقدم مصرکم وان لم تفعلو أوکنتم لمقد می کا رهین انصرفت عنکم الیٰ المکان الذی أقبلت منه الیکم ! ''

اے لوگو ! خدا ئے عزوجل اور تم لوگوں کے سامنے میرا عذر یہ ہے کہ میں تمہا رے پاس خود سے نہیں آیا؛ بلکہ ایک کے بعد دوسرے خطوط مسلسل آتے رہے اور میرے پاس تمہارے نامہ بر آتے رہے کہ میں چلا آؤں کیونکہ ہمارے پاس کوئی رہبر موجود نہیں ہے، شاید آپ کی وجہ سے خدا ہمیں ہدایت پر یکجا کردے ۔اب اگر تم لوگ اپنے اس قول پر باقی ہو تو میں آگیا ہوں ۔ اگر تم کوئی قابل اطمینان عہد ومیثاق پیش کرو گے تو میں تمہارے شہر میں آؤں گا اور اگر تم ایسا نہیں کرتے ہو اور میرا آنا تمہیں نا پسند ہے تومیں اسی جگہ پلٹ جاتا ہوں جدھرسے تمہاری طرف آیا ہوں ۔

لیکن ان لوگوں نے امام علیہ السلام کی اس گفتار کا کوئی جواب نہ دیا اور موذن سے کہنے لگے : اقامت کہو تو موذن نے اقامت کہنا شروع کر دی ،حسین (علیہ السلام) نے حر سے کہا :''أتریدأن تصلّ بأ صحابک''کیا تم اپنے ساتھیوں کے ساتھ نماز پڑھنا چاہتے ہو ؟ حر نے جواب دیا :نہیں ! آپ نماز پڑھائیں اور ہم لوگ آپ کے ساتھ نماز پڑھیں گے۔ (امام) حسین (علیہ السلام) نے اور ان لوگوں نے ساتھ ساتھ نماز اداکی۔ نماز کے بعدامام علیہ السلام اپنے خیمے میں چلے گئے۔ خیمے میں پہنچتے ہی آپ کے اصحاب پر وانے کی طرح شمع کے اردگرد آکر بیٹھ گئے ۔ادھر حربھی اپنے خیموں کی طرف روانہ ہو گیا اور وہاں پہنچ کر اس خیمہ میں داخل ہواجو اس کے لئے لگایاگیا تھا ۔جب وہ خیمہ میں آیا تو اس کی فوج کے بعض افراد اس کے پاس آکر بیٹھ گئے اور دیگر فوجی انہیں صفوں میں پلٹ گئے جہاں وہ موجودتھے پھر اس نے ان بقیہ فوجیوں کو بھی وہیں لوٹادیا ۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنے جانور کی لگام سنبھالی اور گرمی کی شدت سے بچنے کے لئے اسی کے سایہ میں بیٹھ گئے۔

۲۴۴

پھر جب عصر کا وقت آیا تو حسین (علیہ السلام) نے حکم دیاکہ کوچ کے لئے آمادہ ہوجائیں ۔ اس حکم کے بعد اپنے مؤذن کو نماز عصر کے لئے اذان دینے کا حکم دیا ۔موذن نے اذان دی اور اقامت کہی،امام حسین (علیہ السلام) آگے بڑھے اور تمام لوگوں نے آپ کی اقتداء میں نماز اداکی۔نماز ختم کرنے کے بعد آپ نے پھر حر کے لشکر کی طرف رخ کیا اور حمد و ثنائے الٰہی کے بعد فرمایا :

''یاایهاالناس ! فانکم ان تتقواوتعرفوا الحق لاهله یکْن أرضیٰ للّه ، ونحن أهل البیت أولیٰ بولايةهٰذالامر علیکم من هٰؤلاء المدعین مالیس لهم ، والسائرین فیکم بالجور والعدوان ! ان أنتم کرهتمونا وجهلتم حقنا ، وکان رأیکم غیر ما آتتن کتبکم وقدمت به علی ّ رسلکم انصرفت عنکم ! ''

اے لوگو! اگر تم تقوی اختیار کرو اور حق کو صاحب حق کے لئے پہچانو توخدا کو یہ چیز سب سے زیادہ راضی کرنے والی ہے ۔ ہم اہل بیت اس نظام کی سربراہی اورولایت کے لئے ان لوگوں سے زیادہ سزاوارہیں جو فقط اس حکومت کا جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں اور تم میں ظلم و جور وستم کو روا رکھتے ہیں ۔ اس کے باوجود بھی اگر ہم تم لوگوں کو ناپسند ہیں اور تم لوگ ہمارے حق سے جاہل ہو اورتم لوگوں کا نظریہ ان لوگوں کے بر خلاف ہے جو اپنے خطوط کے ذریعہ مجھے یہاں تک لائے ہیں اور میرے لئے قاصد بھیجے ہیں تو میں ابھی تم لوگوں کی طرف سے منصرف ہوکر پلٹ جاتا ہوں ۔

حربن یزیدنے کہا : خداکی قسم! ان خطو ط کے بارے میں ہمیں کچھ بھی معلوم نہیں ہے جن کاآ پ تذکرہ کررہے ہیں ۔امام حسین علیہ السلام نے کہا :یا''عقبة بن سِمعان ! أخرج الخْرجین'' (١)

____________________

١۔ یہ بات عنقریب بیان ہوگی کہ امام علیہ السلام جب دشمنو ں کی درمیان روز عاشورا خطبہ دے رہے تھے اور ان پرحجت تمام کررہے تھے کہ ان لوگو ں نے خود امام علیہ السلام علیہ السلا م کو خط لکھا ہے تو ان لوگو ں نے کہا : آپ کیاکہہ رہے ہیں ؟ ہم کچھ نہیں سمجھ رہے ہیں تو اس وقت حر نے کہا تھا : کیو ں نہیں ! خدا کی قسم ہم لوگو ں نے آپ کو خط لکھا تھا اور ہم ہی لوگ آپ کو یہا ں لائے ہیں ، خدا باطل اور اہل باطل کا برا کرے، خدا کی قسم! میں دنیا کو آخرت پر اختیار نہیں کرسکتا یہ کہہ کر حر نے اپنے گھوڑے کو موڑ دیا اور امام حسین علیہ السلام کے لشکر میں داخل ہوگیا۔(ص٢٥١)

۲۴۵

اے عقبہ بن سمعان ! ذراخورجین نکالو! عقبہ بن سمعان نے خورجین نکالی تو وہ خطوط سے بھری تھی۔ امام علیہ السلام نے ان تمام خطوط کو ان لوگوں کے درمیان تقسیم کردیا ۔

حرنے کہا: ہم ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جنہوں نے آپ کوخط لکھا تھا؛ ہم کو تو فقط یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب ہمارا آپ سے سامنا ہو تو ہم کسی طرح آپ سے جدا نہ ہو ں یہاں تک کہ آپ کو عبیداللہ بن زیاد کی خدمت میں پیش کردیں ۔

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:''الموت أدنی الیک من ذالک !'' تمہاری موت اس فکر سے زیادہ نزدیک ہے پھرآپ نے اپنے اصحاب سے کہا :''قوموا فارکبوا ! '' اٹھو اور سوار ہوجاؤ تو وہ سب سوار ہوگئے اور خواتین کے سوار ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ سوار ہوکر جب یہ نورانی قافلہ چلنے لگا اورمدینہ کی طرف پلٹنے لگا تو حر کی فوج راستہ روک کر سامنے آکر کھڑی ہوگئی تو امام حسین علیہ السلام نے حرسے کہا :'' ثکلتک أُمک ! ماترید ؟'' تیری ماں تیرے غم میں عزادار ہو!تو کیا چاہتا ہے ؟

حرنے جواب دیا :''اماواللّه لو غیرک من العرب یقولها لی'' خداکی قسم! اگر آپ کے علاوہ عرب میں کسی اور نے یہ جملہ کہاہوتا جو آپ نے مجھ سے کہا ہے اور اس حال میں ہوتا جس میں ابھی آپ ہیں تو میں بھی اسے نہ چھوڑتا اور اس کی ماں کو اس کے غم میں بیٹھادیتا او ر اس سے وہی کہتا جو مجھے کہناچاہیے لیکن خدا کی قسم! میری قدرت نہیں ہے کہ میں آپ کی مادر گرامی کے سلسلہ میں کچھ کہوں مگر یہ کہ ان کا تذکرہ جس قدر اچھائی سے ہوسکتا ہے وہی کرسکتا ہوں ۔(١) اما م حسین علیہ السلام نے دوبارہ حر سے پوچھا : فما ترید ؟ پس تم کیا چاہتے ہو ؟

حرنے کہا: ''أرید واللّٰه ، أن أنطلق بک الیٰ عبیداللّٰه بن زیاد '' خدا کی قسم میرا ارادہ یہ ہے کہ آپ کو عبیداللہ بن زیاد کے پاس لے چلوں ۔

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :''اذن والله لا أتبعک'' ایسی صورت میں خدا کی قسم میں تمہاری ہمراہی نہیں کروں گا ۔

____________________

١۔ اس واقعہ کو ابوالفرج اصفہانی نے مقاتل الطالبیین کے ص٧٤،طبع نجف پر ابو مخنف سے نقل کیا ہے۔

۲۴۶

حرنے جواب دیا:'' اذن واللّٰه لا أدعک'' ایسی صورت میں خدا کی قسم! میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا ۔

جب بات زیادہ ہوگئی اوردونوں کے درمیان اسی طرح رد وبدل ہونے لگی تو حر نے امام حسین علیہ السلام سے کہا :مجھے آپ سے جنگ کا حکم نہیں دیا گیا ہے، مجھ سے فقط یہ کہا گیا کہ آپ کا ساتھ نہ چھوڑوں اور آپ کو کوفہ تک لے آوں ۔ اب اگر آپ انکار کررہے ہیں تو ایک ایسا راستہ انتخا ب کیجیے جس سے آپ نہ کوفہ جاسکیں اور نہ ہی مدینہ پلٹ سکیں ۔میرے خیال میں آپ کے اور ہمارے درمیان یہی منصفانہ رویہ ہوگا پھر میں عبیداللہ بن زیاد کو خط لکھ کر حالات سے آگاہ کروں گا اور آپ کی مرضی ہو گی تو یزید بن معاویہ کو خط لکھئے گا یا پھر عبیداللہ بن زیاد کو خط لکھئے شاید خداوند عالم کوئی ایسا راستہ نکال دے جس کی وجہ سے مجھ کو آپ سے درگیر ہونے سے نجات مل جائے۔

آپ یہاں سے عْذیب اور قادسیہ کے راستہ سے نکل جائیے (اس وقت آپ لوگ ذوحسم میں موجود تھے) ذوحسم اور عذیب کے درمیان ٣٨میل کا فاصلہ تھا۔امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب اس راستہ پرروانہ ہوگئے اور حر بھی اسی راستہ پر چل پڑا۔(١)

بارہویں منزل : البیضة(٢)

اب یہ نورانی قافلہ نہ تو مدینہ کے راستے پر گامزن تھا۔اورنہ ہی کوفہ کی طرف اپنے قدم بڑھارہا تھابلکہ ایک تیسری طرف رواں دواں تھا ۔چلتے چلتے ایک منزل آئی جسے ''بیضہ '' کہتے ہیں ۔یہاں پر حضرت نے اپنے اصحاب اور حرکے لشکر کو مخاطب کر کے ایک خطبہ دیا۔ حمد و ثنائے الہٰی کے بعد آپ نے فرمایا:

''ایهاالناس! ا نّ رسول اللّٰه صلی الله علیه(وآله) وسلّم قال :'' من رأی سلطاناًجائر اً مستحلاً لحرم اللّٰه،ناکثاً لعهد اللّٰه ، مخالفاًلسنّة رسول اللّٰه، یعمل فی عباداللّٰه با لاثم والعدوان فلم یغيّر علیه بفعل ولا قول ، کان حقاً علی اللّٰه أن یدخله

____________________

١۔ ہشام کے حوالے سے جوباتی ں ہم بیان کررہے ہیں وہ یہا ں پر ختم ہوجاتی ہیں ۔(ارشاد،ص٢٢٥،الخواص ،ص ٢٣٢)

٢۔ یہ جگہ'' واقصہ'' اور'' عذیب الھجانات ''کے درمیان ہے ۔

۲۴۷

مدخله''ألاوانّ هولاء قد لزموا طاعة الشیطان وترکو ا طاعة الرحمٰن و أظهروا الفساد و عطّلواالحدود ، واستأ ثروا بالف ئ، وأحلوا حرام اللّٰه و حرّموا حلال اللّٰه وأنا أحق من غیری''

قد أتتن کتبکم وقد مت علی رسلکم ببیعتکم أنکم لا تسلمونی ولا تخذلون ، فان تممتم علی بیعتکم تصیبوا رشدکم ، فأنا الحسین بن عل وابن فاطمه بنت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه (وآ له) وسلم نفسمع أنفسکم وأهل مع أهلیکم ، فلکم فیّ أسوة ، وان لم تفعلوا و نقضتم عهدکم ، وخلعتم بیعتی من أعناقکم فلعمرما هی لکم بنکر ، لقدفعلتموها بأب و أخ وابن عم مسلم !والمغرور من ا غترّبکم ؛ فحظکم أخطاتم،ونصیبکم ضيّعتم( ''ومن نکث فانما ینکث علی نفسه'' ) (١) وسیغن اللّٰه عنکم والسلام علیکم ورحمةاللّٰه و برکاته''(٢)

اے لوگو! رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص کسی ایسے ستم گر حاکم کو دیکھے جو حرام خدا کو حلال سمجھتا ہو، الہٰی عہد وپیمان کو توڑنے والاہو ، اللہ کے رسول کی سنتوں کا مخالف ہو ، گناہ و ستم کے ساتھ بندگان خداسے پیش آتاہواور وہ ایسے پیکر ظلم وجور کے خلاف اپنے قول و فعل کے ذریعہ کوئی تغیر احوال کا اظہار نہ کرے تو خدا وند عالم کو حق حاصل ہے کہ ایسے شخص کو جہنم میں اسی ظالم کے ہمراہ داخل کردے ؛ آگاہ ہوجاؤ کہ ان لوگوں نے شیطان کی پیروی کرلی ہے اور رحمن کی اطاعت کو ترک کردیا ہے ، فساد کو آشکار ، حدود الٰہی کو معطل، انفال اور عوام الناس کے اموال کو غصب ، حلال خدا کو حرام اور حرام خداکو حلال بنادیا ہے اور میں اس راہ و روش کو بدلنے کے لئے سب سے زیادہ سزاوار ہوں ۔

تم لوگوں نے ہمیں خط لکھ کر بلایا ہے اور تمہارے نامہ بر تمہاری بیعتوں کے ساتھ میرے پاس آئے اور کہا: تم لوگ مجھے کبھی تنہا نہیں چھوڑوگے اور کبھی بھی میری مددو نصرت سے دست بردار نہیں

____________________

١۔سورہ فتح ٨

٢۔ابومخنف نے عقبہ بن ابی عزار کے حوالے سے اس خبر کو نقل کیا ہے۔

۲۴۸

ہوگے۔ اگر تم لوگ اپنے عہد وپیمان پر وفاداری کا ثبوت دیتے ہو تو رشد و سعادت تمہیں نصیب ہوگی کیونکہ میں حسین علی کا لال اور فاطمہ، دختر پیغمبر اسلام کافرزندہوں جس کی جان ،حق کی راہ میں تمہاری جانوں کے ساتھ ہے اور میرا گھرانہ تمہارے گھرانے کے ہمراہ ہے کیونکہ میں تم لوگوں کے لئے نمونہ عمل ہوں اور اگر تم نے اپنے عہد وپیمان کو توڑدیا اور اپنی گردنوں سے ہماری بیعت کے قلادہ کو اتاردیا تو قسم ہے میری جان کی کہ یہ تمہارے لئے کوئی عارکی بات نہیں ہے؛ کیونکہ تم میرے بابا امیر المومنین اور میرے بھائی حسن اور چچا زاد بھائی مسلم کے ساتھ کر چکے ہو۔حقیقت تو یہ ہے کہ وہ شخص سخت فریب خوردہ ہے جو ان سب باتوں کے بعد تم لوگوں پر بھروسہ کرے ؛ تم لوگوں نے اپنی زندگی کے حصہ کو کم اور اپنے حقوق کو ضائع کردیا ہے۔ '' جو عہد کو توڑے گا وہ خوداپنے نقصان کے لئے عہد شکن ہوگا '' اور خدا تم لوگوں کی مددو نصرت سے بے نیاز ہے ۔ والسلام علیکم و رحمة اللہ وبراکاتہ

امام حسین علیه السلام کي اس بصیرت افروز بیان کي بعد حر جو سفر میں آپ کي همراه تهاآپ کي پاس آیا اور کهني لگا :''یاحسین !انی أذکّرک اللّٰه فی نفسک فانی اشهد لئن قاتلت لتُقْتَلَنَّ ولئن قوتلت لتهلکن فیما أریٰ'' اي حسین ! آپ کو خدا کی یاد دلاتا هوں که آپ دوباره اپني باري میں فکر کریں !کیونکه میں گواه هوں که میري نظریه کي مطابق اگر آپ ني ان لوگوں سي جنگ کی تو وه لوگ آپ کو قتل کرالیں گي اور اگر آپ قتل کردئي گئي تو تباه و برباد هوجائیں گي ؛یه سن کر امام حسین ني فرمایا : ''أفبالموت تخوّفن ! وهل یعدوبکم الخطب ان تقتلون ! ماأدری ما أقول لک ! ولکن أقول کما قال أخو الا وس لابن عمه ولقیه وهو یرید نصرة رسول اللّٰه صلّی اللّٰه علیه (وآله) وسلم فقال له : این تذهب ؟ فانک مقتول! فقال:

سأمضی وما بالموت عار علی الفتٰی

اذا ما نوی حقاً وجاهدمسلماً

وآسی الرجال الصالحین بنفسه

وفارق مثبوراً یغش و یرغماً(١)

____________________

١۔ابن اثیر نے الکامل میں اور شیخ مفید نے ارشاد میں ص ٢٢٥پر ان اشعار کے علاوہ ایک شعر کا اور اضافہ کیا ہے ۔

فان عشت لم اندم وان مت لم الم

و کفی بک ذلاًان تعیش و ترغما

اگر میں زندہ رہا تو نادم نہیں ہو ں گا اور اگر دنیا سے گزر گیا تو ملامت نہیں کیا جاؤ ں گا اور ذلت کے لئے یہی کافی ہے کہ تو زندہ رہے اور ذلیل ہو ۔

۲۴۹

کیا تو مجھے موت سے ڈراتاہے ؟ کیا اس سے زیادہ کچھ ہوسکتا ہے کہ تم لوگوں کے بلانے پر میراآنا اور ظلم وستم کے خلاف میرانبرد آزماہونا سبب بنے گا کہ تم لوگ مجھے قتل کردوگے۔میں نہیں سمجھتا کہ میں تم سے کیا کہوں ؛ لیکن میں وہی کہتا ہوں جو قبیلہ اوس کے ایک جوان نے اپنے چچازاد بھائی سے اس وقت کہا تھا جب وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مددونصرت کے لئے جارہا تھا۔ اس کے چچا زاد بھائی نے اس سے ملاقات کرتے ہوئے کہا : تم کہاں جارہے ہو ؟ مجھے یقین ہے کہ تم قتل ہوجاؤگے تو اس جوان مرد نے جواب دیا تھا :

میں تو پیغمبر خدا کی طرف جارہاہوں اور موت اس جوان کے لئے ننگ و عار نہیں ہے جس کی نیت حق اور جو ایک مسلمان کی حیثیت سے جہاد کے لئے جارہا ہو ،وہ نیک وصالح افراد کی مصیبت کا ہمراہی ہے اورا س سے جداہے جو ہلاک ہوچکا ہے اور اس کی زندگی ذلت و رسوائی کے ساتھ بسر ہورہی ہے ۔

جب حر نے یہ کلمات سنے تو کنارہ کش ہوگیا اور اس کے بعد امام حسین علیہ السلام اپنے اصحاب کے ہمراہ ایک سمت میں چلنے لگے اور حر اپنے فوجیوں کے ساتھ دوسری طرف آگے بڑھنے لگا۔ چلتے چلتے یہ لوگ اس منزل تک پہنچ گئے جسے'' عذیب الھجانات'' کہتے ہیں ۔

تیرہویں منزل ؛'' عذیب الھجانات ''(١)

یہ قافلہ اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق ''ذوحسم'' کے بعد ''بیضہ ''سے ہوتے ہوئے'' عذیب الھجانات'' تک پہنچا ۔وہاں یہ قافلہ ان چار سواروں سے روبروہوا جو کوفہ سے آرہے تھے جن کے راہنما طرماح بن عدی تھے۔ جب یہ لوگ امام حسین علیہ السلام کے پاس پہونچے تو اپنے گھوڑے پر سوار یہ اشعار پڑھ رہے تھے :

____________________

١۔'' عذیب'' یہ بنی تمیم کی ایک گھاٹی ہے جو عراق کی سرحدہے۔ یہ جگہ ایرانیو ں کے اسلحہ خانہ کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ اس کے اور ''قادسیہ'' کے درمیان ٦میل کا فاصلہ ہے۔ علاقہ '' حیرہ '' کے سربراہ '' نعمان ''کے گھوڑے اسی جگہ پر چرائے جاتے تھے۔کہا جاتا ہے ھجانات ھجین کی جمع ہے جس کے معنی غیر اصل کے ہیں یعنی جو لوگ نجیب الطرفین نہ ہو ں ۔

۲۵۰

یا ناقتی لا تُذعری من زجری

و شمّری قبل طلوع الفجر

بخیر رکبان و خیر سفر

حتی تحلّی بکر یم النجر

الماجد الحرّ رحیب الصدر

اتنی به اللّه لخیر أ مر

ثمّة أبقاه بقاء الدهر

اے میرے ناقے! میرے جلدی جلدی چلنے پر خوف زدہ نہ ہو بلکہ تو تیز تیز چل تاکہ سپیدہ سحری تک تو بہترین سوار اور بہترین مسافر تک پہنچ جا؛ یہاں تک کہ اس ذات تک رسائی ہوجائے جس کا خاندان کریم ، بزرگ ، آزاد اور فراخ دل ہے؛جسے خداوندمتعال بہترین کام کے لئے یہاں لایا ہے، اسی لئے خدا اسے اس وقت تک باقی رکھے گا جب تک یہ دنیا اور زمانہ باقی ہے ۔

یہ سن کر امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :''أما واللّٰه اِنّ لأ رجوأن یکون خیراً ما أراداللّٰه بنا قُتِلنا أو ظفرنا'' خدا کی قسم خدا وندعالم جو ہمارے لئے چاہتا ہے وہی ہما رے لئے خیر ہے؛ چاہے ہم قتل کر دیئے جائیں یا ظلم وستم کے خلاف ظفر یاب ہو جائیں ۔

یہ چار افراد چونکہ کوفہ سے آئے تھے اور امام حسین علیہ السلام کے ساتھ مددو نصرت کا ارادہ رکھتے تھے لہٰذا حر بن یزیدسامنے آیا اور امام علیہ السلام سے کہا : یہ لوگ جو کوفہ سے آئے ہیں آپ کے ہمراہ نہیں تھے لہٰذا یا تو میں انھیں قید کرلوں یا کوفہ لو ٹا دوں ۔

تو امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا :''لأمنّعنهّم مما أمنع منه نفس، انما هولا ء أنصار وا عوانی وقد کنت أعطیتن ان لا تعرض ل بشیء حتی یاتیک کتاب من ابن زیاد''

میں ان کی جانب سے اسی طرح دفاع اور مما نعت کروں گا جس طرح اپنا دفاع اور اپنے سلسلے میں مما نعت کررہا ہوں ؛ کیونکہ یہ میرے ناصر ومدد گار ہیں اور تم نے عہد وپیمان کیا ہے کہ جب تک تمہارے پاس ابن زیاد کا خط نہیں آجاتا اس وقت تک تم مجھ سے درگیر نہ ہو گے ۔

حرنے کہا: ٹھیک ہے لیکن یہ آپ کے ساتھ نہیں آئے ہیں ۔

۲۵۱

امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا : ''ہم أصحابی وہم بمنزلة من جاء مع فان تممت علیّ ما کان بین وبینک والا نا جز تک '' یہ میرے اصحاب ہیں اورانہیں لوگوں کی طرح ہیں جو میرے ساتھ آئے ہیں ۔اگرتم نے اس عہد وپیمان کو بر قراررکھا جو ہمارے اور تمہارے درمیان ہوا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ ہم تمہارے سامنے میدان کا رزار میں اتر آئیں گے۔یہ سن کر حر ان لوگوں سے دست بردارہو گیا ۔

اس کے بعد امام حسین علیہ السلام ان لوگوں سے مخاطب ہوئے اور فرما یا :''أخبر ونی خبرالناس وراء کم '' جن لوگوں کو تم اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو ان کی خبر سناؤ ۔

تو مجمّع بن عبد اللہ عائذی(١) جو انہیں چار میں سے ایک تھے اور کوفہ سے یہاں آئے تھے، نے آپ سے عرض کیا :'' أما ا شراف الناس فقد اُعظمت رشوتهم ومُلِئَت غرائر هم ، یستمال ودّهم ویستخلص به نصیحتهم فهم ألب واحد علیک ! وأما سائرالناس بعد،فاِنَّ أفئد تهم تهو الیک وسیو فهم غداً مشهورة علیک'' اشراف اور سر برآوردہ افراد کو رشوت کی خطیر رقم دیدی گئی ہے، ان کے تھیلوں کو بھر دیا گیاہے، اس طرح سے ان کی خیر خواہی کواپنی طرف متوجہ کر لیا گیا ہے اور ان کو اپنا محبوب بنا لیا گیاہے۔ یہ گروہ وہ ہے جو آپ کے خلاف دشمن کے ہمراہ ہے اور بقیہ لوگ وہ ہیں جن کے دل تو آپ کے ساتھ ہیں لیکن ان کی تلوار یں کل آپ کے خلاف کھنچی ہوں گی ۔

امام علیہ السلام نے فرمایا :'' أخبرونی فهل لکم برسول الیکم ؟ '' کیا میرا کوئی پیغام رسان تم تک پہنچا ہے ؟ تو ان لوگوں نے پو چھا : کس پیغام رساں کی بات کررہے ہیں ؟ امام حسین نے فر مایا : قیس بن مسہر صیداوی ان لوگوں نے جواب دیا : ہاں !ان کو حصین بن تمیم نے گرفتار کر کے عبید اللہ بن زیاد کے پاس بھیج دیا۔جب وہ وہاں پہنچے تو عبیداللہ نے انھیں حکم دیا کہ وہ آپ اور آپ کے بابا پر لعنت بھیجیں ۔ انھوں نے آپ پر اور آپ کے بابا پر درود سلام بھیجا ، ابن زیاد اور اس کے باپ پر لعنت بھیجی، لوگوں کو آپ کی مدد و نصرت کے لئے بلایا اور انھیں خبر دی کہ آپ آرہے ہیں ۔اس حالت کو دیکھ کر ابن زیاد نے حکم دیا کہ انھیں چھت پر سے نیچے پھینک دیا جائے لہذا آپ کودار الامارہ کے چھت سے نیچے پھینک دیاگیا ۔

____________________

١ ۔شاید یہ چار لوگ ، جابر بن حارث سلمانی ، عمروبن خالد صید اوی اور سعد کا غلام ہو ں جنکے بارے میں ابو مخنف کا بیان ہے کہ ان لوگو ں نے جنگ کے پہلے ہی مرحلہ میں مقاتلہ کیا اور ایک ہی جگہ شہید ہوگئے ۔(طبری، ج٥ ،ص٤٤٦)

۲۵۲

یہ جملہ سننے کے بعد امام حسین علیہ السلام کی آنکھیں آنسؤں سے ڈبڈباگئیں اور آپ کسی طرح اپنے آنسوؤں کو نہ روک سکے پھر آپ نے فرمایا :''مِنْهْمْ مَنْ قَضَیٰ نحبه وَ مِنْهْمْ مَنْ يَنْتَظِرْوَ مَا بَدَّلْوْا تَبْدِيْلَا ً '' (١) اللّهم اجعل لنا ولهم الجنةنزلاً واجمع بینناوبینهم فی مستقر رحمتک ورغائب مذخورثوابک ''ان میں سے بعض وہ ہیں جو (قربانی دے کر)اپنا عہد وفاکرگئے اور ان میں سے بعض (حکم خداکے) انتظار میں بیٹھے ہیں اور ان لوگوں نے (اپنا موقف) ذرا بھی نہیں تبدیل کیا ، خدایا ! بہشت کو ہمارے اور ان کے نزول کی جگہ قرار دے اور اپنی رحمتوں کی جایگاہ میں ہمیں اور انھیں یکجا کردے اوراپنے بہترین ثواب کے ذخیرہ سے بہرہ مند فرما!(٢) اس دعا کے بعد طرماح بن عدی امام حسین علیہ السلام کے قریب آئے اور عرض کی :'' أنّی واللّٰه لا نظر فماأری معک أحداً ولو لم یقاتلک الا هؤلاء الذین أراهم ملا زمیک لکان کفیٰ بهم وقد رأیت قبل خروج من الکوفة الیک بیوم ظهر الکوفة،و فیه من الناس مالم ترعینا فی صعید واحدجمعاًاکثرمنه ، فسألتْ عنهم ، فقیل : اجتمعوا لیعرضوا ثم یسرّحون الی الحسین ، فأنشدک ان قدرت علی أن لا تقدم علیهم شبراً الافعلت ! فان أردت أن تنزل بلداً یمنعک اللّٰه به حتی تری من رأیک و یستبین لک ماأنت صانع ، فسرحتی أنزلک مناع جبلنا الذی یدعی ''أ جا ئ'' (٣) فأسیر معک حتی أنزلک القُرَيّةَ'' (٤)

خدا کی قسم میں جو دیکھ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ آ پ کے سا تھ زیادہ یار و مدد گا ر نہیں ہیں اور اگر انہیں لوگوں کے علاوہ جنہیں میں ساتھ ساتھ دیکھ رہا ہوں کوئی اور نہ ہو ا تو یہی لوگ ان کے لئے کافی ہیں ۔ کوفہ

____________________

١۔سورہ احزاب٢٣

٢۔ ابو مخنف کابیان ہے کہ عقبہ بن ابی عیزار نے یہ واقعہ بیان کیا ہے۔(طبری ،ج٥، ص ٤٠٣ ، ارشاد ، ص ٢٢٥ ، طبع نجف)

٣۔یہ ایک شخص کا نام ہے جس کے نام پرعلاقہ طئی کا پہاڑ موسوم ہے۔ یہ طئی کے مغربی علاقہ میں سمیرا ء پہاڑ کے بائی ں جانب ہے ۔

٤۔یہ قریہ کی اسم تصغیر ہے اور طی کے علاقہ میں ایک جگہ کا نام ہے ۔

۲۵۳

سے نکل کر آپ کی طرف آنے سے ایک دن قبل میں نے کوفہ کے پیچھے بہت سارے لوگوں کودیکھا جس سے پہلے ایک ہی جگہ پرمیں نے اتنا جم غفیر نہیں دیکھا تھا۔میں نے ان لوگوں سے پوچھا کہ یہ مجمع کیسا ہے ؟کسی نے کہا یہ لوگ اس لئے جمع ہوئے ہیں تاکہ فوجی ٹریننگ لے سکیں اور پھر حسین سے جنگ کے لئے کوچ کریں لہٰذا میں آپ کو خدا کا واسطہ دیتا ہوں کہ اگر آپ قادر ہیں تو ایک بالشت بھی ان لوگوں کی طرف نہ بڑھیں ۔ اگر چاہتے ہیں کہ کسی ایسے شہر میں جائیں جہاں خدا آپ کی جان کو ان ظالموں کے چنگل سے نجات دیدے اور پھر آپ دیکھیں کہ آپ کا منشاء کیا ہے اور آپ کے لئے موقعیت پوری طرح واضح ہوجائے تو آپ ہمارے ساتھ چلیں تاکہ ہم آپ کو اپنی طرف ایک پہاڑی علاقہ میں اتار دیں جہاں کوئی پر بھی نہیں مار سکتا، جسے ''آجائ'' کہتے ہیں ۔میں وہاں تک آپ کے ساتھ چلوں گا اور آپ کو وہاں کے ایک گاؤں میں جس کا نام ' ' قر یہّ'' ہے اتار دوں گا ۔

امام حسین علیہ السلام نے ان سے فرمایا :'' جزاک اللّه وقومک خیراً ! انه قد کان بیننا وبین هٰؤ لاء القوم قول لسنا نقدرمعه علی الا نصراف ولا ندری علام تنصرف بنا وبهم الاُمور فی عاقبة !'' خدا تمہیں اور تمہاری قوم کو جزائے خیر دے!حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان ایک قول وقرارہے جس کی وجہ سے ہم ان سے جدا نہیں ہو سکتے اور ہمیں یہ نہیں معلوم کہ عاقبت کار ہمارے اور ان کے امور کو کہاں لے جائے گی۔

طر ّماح کا بیان ہے کہ یہ سننے کے بعد میں نے ان کو الوداع کیا اور کہا: خدا آپ کو جن ّ وانس کے شر سے دور رکھے(١) اور حسین(علیہ ا لسلام) آگے بڑھ گئے یہاں تک کہ قصر بنی مقاتل تک پہنچ گئے ۔

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ جمیل بن مرید نے طر مّاح کے حوالے سے مجھ کو یہ خبر دی ہے۔(طبری ،ج٥، ص٤٠٦) اور پوری خبر یہ ہے کہ طرمّاح کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : میں نے کوفہ سے اپنے گھر والو ں کے لئے کچھ آذوقہ فراہم کیا ہے جن کا نفقہ مجھ پر واجب ہے لہذامیں وہا ں پہنچ کر اسے رکھ کر انشاء اللہ فوراً آپ کی طرف پلٹ رہا ہو ں ۔اگر میں آپ سے ملحق ہو گیا تو خدا کی قسم میں ضرور آپ کی مدد کرنے والا ہو ں گا ۔ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : ایسا کرناچاہتے ہو تو جلدی کرو اللہ تم پر رحمت نازل فرمائے ! طر ماح کہتے ہیں : جب میں اپنے گھر والو ں کے پاس پہنچا تو آذوقہ ان کے پاس رکھا ، جو چیز ان کے لئے ضروری اور ان کی بہتری میں تھی اسے وہا ں فراہم کیا اور ان سے وصیت کی پھر اپنے ارادہ کو ان کے سامنے پیش کر کے فوراً لوٹ گیا یہا ں تک کہ جب میں '' عذیب الہجانات'' تک پہنچا تو سماعہ بن بدر نے امام علیہ السلام کی شہادت کی خبر سنائی تو میں واپس پلٹ گیا۔ (طبری ،ج٥ ، ٤٠٦)

۲۵۴

چودہویں منزل : قصر بنی مقاتل(١)

''عذیب الہجا نات ''سے چل کر حسین بن علی علیہ الصلوٰة والسلام قصر بنی مقاتل تک پہنچے۔ وہاں آپ نے پڑاؤ ڈالاتو دیکھاکہ وہاں ایک خیمہ لگا ہواہے،(٢) امام علیہ السلام نے فرمایا :''لمن هٰذا الفسطاط ''یہ خیمہ کس کا ہے ؟ تو کسی نے کہا : عبید اللہ بن حر جعفی(٣) کا خیمہ ہے ۔ امام علیہ السلا م نے فرمایا :''ادعو ه ل ی'' اسے میرے پاس بلاؤ، پھر ایک پیغام ر ساں کو اس کے پاس روانہ کیا ،جب وہ پیغام رساں وہاں پہنچا تو اس نے کہا : یہ حسین بن علی ہیں جو تم کو بلارہے ہیں ، عبیداللہ بن حر جعفی نے کہا :'' انّاللّٰہ واناالیہ راجعون '' خدا کی قسم میں کوفہ سے نکلا تو مجھے یہ گوارا نہیں تھا کہ کسی جگہ حسین سے ملاقات ہو ، واللہ میں نہیں چاہتا کہ وہ مجھے دیکھیں یا میں ان کو دیکھوں ۔ پیغام رساں واپس پلٹا اور اس نے آکر امام کو اس کے بارے میں خبر دی۔

اس کے بعد امام حسین علیہ السلام خود اٹھے، نعلین منگوائی،اسے پہن کر کھڑے ہوئے اوربنفس نفیس اس کے پاس گئے ،خیمہ میں داخل ہوکر اسے سلام کیا پھر اسے اپنے ساتھ قیام کی دعوت د ی تو ابن حرنے اپنی با توں کو پھردھرایا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا :'' فان لا تنصرنا فاتّق اللّٰه أن تکون ممن یقاتلنا فواللّٰه لا یسمع واعیتنا أحد ثم لا ینصرنا الا هلک'' اگر تم میری مدد نہیں کرناچاہتے ہوتو خدا سے خوف کھا ؤ کہ کہیں مجھ سے جنگ کرنے والوں میں نہ ہو جاؤ ؛کیو نکہ خدا کی قسم کو ئی بھی ایسا شخص نہیں ہے جو میری فریا دسن کر میری مدد نہ کرے مگر یہ کہ وہ ہلاک ہو جائے گا ۔یہ کہہ کر آپ اس کے پاس سے اٹھ کر چلے آئے۔(٤)

____________________

١۔ معجم میں ہے کہ یہ جگہ چند دیہا تو ں اور'' قطقطا نہ'' اور'' عین التمر'' کے درمیان واقع ہے۔

٢۔ ابو مخنف نے اس طرح بیان کیا ہے۔ (طبری ،ج٥،ص٤٠٧)

٣۔اس شخص کے حالات کتاب کے آخری حصہ میں بیان کئے جائی ں گے۔

٤۔ ابو مخنف کا بیان ہے : مجھ سے مجالد بن سعید نے عامر شعبی سے یہ روایت بیان کی ہے۔ (طبری، ج٥، ص٤٠٧ ، ارشاد ص، ٢٢٦)

۲۵۵

عقبہ بن سمعان کا بیان ہے کہ رات کے آخری حصہ میں امام حسین (علیہ السلام) نے پا نی بھر نے کا حکم دیا اور جب چھاگلیں بھری جا چکیں تو آپ نے ہم لوگوں کو کوچ کر نے کا حکم دیا اور ہم نے وہی کیا۔ جب ہم لوگ'' قصر بنی مقاتل ''سے کوچ کررہے تھے اور ہمارا سفر جاری تھا تو کچھ دیر کے لئے حسین کی آنکھ لگ گئی ،جب آنکھ کھلی تو آپ یہ فر مارہے تھے:'' انا للّٰہ واناالیہ راجعون والحمد للّٰہ رب العا لمین'' اس جملہ کی آپ نے دو یا تین مرتبہ تکر ار فرما ئی ، یہ سن کر آپ کے فرزند علی بن حسین (علیہ السلام) آگے بڑھے جو اپنے گھوڑے پر سوارتھے اور آپ نے بھی اپنے بابا کے جملہ کی تکرار''اناللّٰه واناالیه راجعون والحمد للّه رب العالمین'' کرتے ہوئے فرمایا :''یا ابت جُعلت فداک ممّ حمد ت واستر جعت''ب ابا جان! آپ پر میری جان قربان ہو،کیا سبب ہو اکہ آپ نے یکبارگی حمد الہٰی کی اور زبان پر کلمۂ استرجاع جاری کیا ؟

امام علیہ السلام نے جواب دیا:''یا بُن ان خفقت برأس خفقة فعنّ ل فارس علی فرس فقال : القوم یسیرون والمنایا تسر الیهم ، فعلمت أنها أنفسنا نعیت الینا !'' اے میرے لال !تھوڑی دیر کے لئے میری آنکھ لگ گئی تھی تو میں نے خواب کے عالم میں دیکھا کہ ایک گھوڑ سوار میرے سامنے نمودارہوا اور اس نے کہا یہ قوم آگے بڑھ رہی ہے اور موت ان کے پیچھے پیچھے چل رہی ہے ،اس سے مجھ کو معلوم ہوگیا یہ مجھے میری شہادت کی خبر دے رہاہے۔

علی بن حسین علیہ السلام :''یاأبت لا أراک اللّٰه سوئً السنا علی الحق؟ ''اے بابا ! میں نہیں سمجھتا کہ اللہ آپ کے لئے برا کرے گا کیا ہم حق پر نہیں ہیں ؟

امام حسین علیہ السلام :''بلیٰ والذی الیه مرجع العباد ! ''کیوں نہیں (ہم ہی حق پر ہیں ) قسم ہے اس ذات کی جس کی طرف سب کو پلٹنا ہے۔

علی بن الحسین :''یاأبت اذاًلا نبالی ، نموت محقین' 'بابا جان ایسی صورت میں ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہے کیوں کہ ہماری موت حق پر ہے ۔

امام حسین :جزاک اللّٰه من ولد خیر ماجزی ولداً عن والده ، خداوند متعال تمہیں وہ بہترین جزا دے جو باپ کی دعا سے بیٹے کو نصیب ہوتی ہے ۔

۲۵۶

اسی گفتگو کے درمیان کچھ دیر کے بعد سپیدہ سحری نمودار ہوئی ۔ آپ نے صبح کی نماز ادا کی اور دوبارہ جلدی سے سب اپنی اپنی سواریوں پر بیٹھ گئے اورآپ اپنے اصحاب کو اس سر زمین کے بائیں جانب چلنے کا اشارہ کیا تاکہ انہیں لشکر حر سے جدا اور متفرق کر سکیں لیکن حر بن یزید کی جستجو یہ تھی کہ آپ کوکسی طرح کوفہ سے نزدیک کردے لہٰذا وہ آپ لوگوں کو پراکندہ ہونے سے روک کر واپس پلٹانے لگا اور کوفہ کی طرف شدت سے نزدیک کرنے لگا،اصحاب حسینی نے اس سے ممانعت کی اوران لوگوں کو دور ہٹاتے رہے اور آپ اسی طرح اپنے چاہنے والوں کو بائیں طرف کرتے رہے اور اسی کشمکش میں نینوا آگیا ۔

قربان گاہ عشق :نینوا(١)

چودہ منزلیں ختم ہوچکی تھیں حسین بن علی (علیہما السلام) نینوامیں اترچکے تھے کہ یکایک ایک سوار اصیل و نجیب گھوڑے پر سوار ، اسلحوں سے لیث اور دوش پر کمان ڈالے کوفہ کی طرف سے نمودار ہوا سب کے سب کھڑے اس کاانتظار کرنے لگے؛ جب وہ نزدیک آیا تو اس نے حر اور اس کے لشکر والوں کو سلام کیا لیکن حسین اور ان کے اصحاب کو سلام نہیں کیا پھر اس نے عبیداللہ بن زیا دکا خط حر کو پیش کردیا اس خط میں یہ عبارت موجود تھی ۔

اما بعد، فجعجع (٢) بالحسین حین یبلغک کتاب ویقدم علیک رسول ، فلا تنزله الا بالعراء فی غیر حصن وعلی غیر ما ء و قد امرت رسول أن یلزمک ولا یفارقک حتی یاتین بأنفاذک امر، والسلام ''

____________________

١۔ یہ کربلا کاایک علاقہ ہے جو اواخر قرن دوم تک آباد رہا۔

٢۔ ابن منظور نے لسان العرب میں اصمعی سے نقل کیا ہے :'' جعجع ای احبسہ'' جعجع کے معنی یہ ہیں کہ قید کرلو اور ابن فارس نے مقاییس اللغة، ج ١ ،ص ٤١٦ پر لکھا ہے : ''ای الجئہ الی مکان خشن'' یعنی انھی ں ایک بے آب و گیاہ علاقہ میں ٹھہراؤ ۔

۲۵۷

اما بعد، جیسے ہی نامہ برتمہارے پاس یہ خط لے کر میرا پہنچے حسین کو ایک بے آب و گیاہ صحرا میں روک لو اور میں نے اپنے فرستادہ کو حکم دیا ہے کہ وہ تم سے جدا نہ ہو اور تمہاری مراقبت میں رہے یہاں تک کہ واپس لوٹ کر مجھے خبر دے کے تم نے میرے حکم کو نافذ کیا ہے۔ والسلام

جب حر نے خط پڑھا تو یہ خط لے کر وہ اس نورانی قافلہ کے پاس آیا اور کہنے لگا : یہ امیر عبیداللہ بن زیاد کا خط ہے جس میں اس نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپ کو وہیں پر قید رکھوں جہاں پر اس کا خط مجھے ملا ہے اور یہ اس کا قاصداور فرستادہ ہے جسے اس نے حکم دیا ہے کہ وہ مجھ سے جدا نہ ہو یہاں تک کہ میں اس کے منشاء اور حکم کو نافذ کردوں ۔

یہ سن کر یزید بن زیاد مہاصر کندی بہدلی(١) معروف بہ شعثاء نے عبیداللہ بن زیاد کے پیغام رساں کو غورسے دیکھااور اس کے سا منے خود کونمایاں کر کے کہا : کیا تو مالک بنُ نسیر بدّی(٢) ہے !(جس کاتعلق قبیلۂ کندہ سے ہے) ؟ اس شخص نے جواب دیا : ہاں ! اس پر یزید بن زیا د معروف بہ شعثاء نے اس سے کہا : تیری ماں تیرے غم میں بیٹھے ! یہ تو کیا لے کر آیا ہے ؟

____________________

١۔ آپ کا شمار امام حسین علیہ السلام کے لشکر کے تیر اندزو ں میں ہوتا ہے اورآپ حملۂ اولی میں شہید ہونے والو ں میں سے ہیں ۔ آپ نے سو تیر چلائے اور اس کے بعد کھڑے ہوکر کہنے لگے : ان تیرو ں میں سے ابھی فقط پانچ ہی تیر ہدف پر لگے ہیں اور میرے لئے واضح یہی ہے کہ میں نے پانچ لوگو ں کوقتل کیا ہے۔ ابو مخنف ہی نے فضیل بن خدیج کندی سے روایت نقل کی ہے کہ یزید بن زیاد عمر بن سعد کے ہمراہ نکلا تھا لیکن جب حسین علیہ السلام کے ساتھ صلح کی پیش کش ان لوگو ں نے ٹھکرادی تو یہ امام علیہ السلام کی طرف چلے آئے اور دشمنو ں سے خوب خوب دادشجاعت لی یہا ں تک کہ شہید ہوگئے لیکن یہ خبر اوپروالی خبر سے موافقت نہیں رکھتی ۔

٢۔ مالک بن نسیر قبیلہء بنی بْداَء سے متعلق تھا۔ یہ کربلا میں موجود تھا ۔ اس نے امام علیہ السلام کے سر پر تلوار سے ضربت لگائی جس سے آپ کی برنس کٹ گئی اور تلوار آپ کے سر تک پہنچ گئی جس نے آپ کو خون میں غلطا ں کردیا ۔اس حالت میں امام حسین علیہ السلام نے اس سے فرمایا :''لا أکلت بها ولا شربت بها وحشرک الله مع الظالمیں '' تو اس کی وجہ سے نہ کھا پائے اورنہ پی پائے اور خدا تجھے ظالمو ں کے ساتھ محشور کرے ۔

شہادت کے بعد مالک بن نسیر آپ کی برنس لے کر چلا گیا تو اس کا اثر یہ ہوا کہ ساری زندگی فقیر رہا یہاں تک کہ مرگیا ۔(طبری ،ج٥ ،ص ٤٤٨) یہ واقعہ ابی مخنف سے مروی ہے۔ '' برنس '' عربی کا ایک غیر مانوس کلمہ ہے۔ یہ ایک لمبی ٹوپی ہے جو روئی سے بنتی ہے اسے نصاریٰ کے عبادت گزار افراد پہنا کرتے تھے۔ صد ر اسلام میں مسلمان عبادت گزار افراد بھی اسے پہنا کرتے تھے جیسا کہ مجمع البحرین میں ہے نیز ابو مخنف نے روایت کی ہے کہ عبد اللہ بن دبّا س نے مختار کو ان لوگوں کا پتہ بتا یا جنھوں نے امام حسین علیہ السلام کو قتل کیا تھا۔انھیں میں سے ایک مالک بن نسیر َبدّی بھی تھا۔ مختار نے فوراً ان قاتلوں کی سمت مالک بن عمرو نہدی کو بھیجا ۔جب مالک بن عمر ووہاں آئے اور وہ سب کے سب قادسیہ میں موجود تھے مالک بن عمرونے ان سب کو گرفتار کرلیا اور ان کو لے کر مختار کے پاس آئے۔ جب یہ قاتلین وہاں پہنچے تو رات ہو چکی تھی۔ مختار نے اس بدّی سے پوچھا : تو ہی وہ ہے جو امام کی برنس لے گیا تھا ؟ تو عبد اللہ بن کامل نے کہا : ہاں یہ وہی ہے یہ سن کر مختار نے کہا : اس کے دونوں ہاتھ پیر کاٹ دو اور چھوڑ دو تاکہ یہ تڑپے اور مضطرب ہو یہاں تک کہ مرجائے۔ اس کے ساتھ ایسا ہی کیا گیا اور اسے چھوڑ دیا گیا تو اس کا خون مسلسل بہتا رہا یہاں تک کہ وہ مرگیا ۔یہ ٦٦ھ کا زمانہ تھا۔ (طبری، ج٦، ص ٥٧)

۲۵۸

مالک بن نسیرنے کہا : میں کچھ بھی لے کر نہیں آیا،میں نے توفقط اپنے امام کی اطاعت اور اپنی بیعت پر وفاداری کا ثبوت پیش کیا ہے ۔

شعثاء نے اس کا جواب دیا : تو نے اپنے رب کی معصیت اور اپنے نفس کی ہلا کت میں اپنے رہبر کی اطاعت کی ہے اور یہ فعل انجام دے کر تو نے ذلت ورسوائی اور جہنم کی آگ کو حاصل کیا ہے کیو نکہ خدا وند متعال فرماتا ہے:( '' وَ جَعَلْنَاهْمْ اَ ئِمَّةً يَدْعْوْنَ اِلیَ النَّارِ وَيَوْمَ القِيَامَةِ لَايْنْصَرْوْنَ'' ) (١)

ہم نے ان کو گمراہوں کا پیشوا بنایاجو لوگو ں کو جہنم کی طرف بلا تے ہیں اور قیامت کے دن (ایسے بے کس ہوں گے کہ) ان کو (کسی طرح) کی مدد نہ دی جائے گی۔ اور وہ تیرا پیشوا ہے ۔

اس کے بعد حر بن یزید ریاحی حسینی قافلہ کو ایسی ہی جگہ پرا تارنے کی کوشش کرنے لگاجہاں نہ پانی تھا اور نہ ہی کوئی قریہ و دیہات(٢) لہذا ان لوگوں نے فرمایا کہ ہمیں چھوڑ دو تاکہ ہم اس قریہ میں چلے

____________________

١۔ سورہ قصص آیت ٤١

٢۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کر بلا کسی ایک دیہات اور قریہ کا نام نہیں تھا بلکہ یہ ایک علاقہ تھا جس کے تحت چند قریہ اور دیہات آتے تھے جیسا کہ کتاب '' الدلا ئل والمسائل ''(سید ہبة الدین شہر ستانی) میں موجود ہے۔سبط بن جوزی نے کہا : پھر (امام) حسین (علیہ السلام) نے فرمایا :'' ما یقول ھٰذہ الارض'' اس زمین کو کیا کہتے ہیں تو لوگو ں نے کہا : اسے کربلا کہتے ہیں اوراسے نینوی بھی کہا جاتا ہے جو اسی کا ایک قریہ ہے۔ یہ سن کر آپ رو نے لگے اور فرمایا:'' کرب وبلا ''یہ کرب وبلا ہے پھر فرمایا : ''اخبرتن ِام سلمة قالت'' مجھ کو ام سلمیٰ نے خبر دی ہے وہ کہتی ہیں کہ'' کان جبرئیل عند رسول اللّہ وانت مع''جبرئیل رسول اللہ کے پاس تھے اور تم میرے ہمراہ تھے'' فبکیت فقال رسول اللّہ : دع ابن فترکتک فاخذک ومنعک فی حجر ہ ''تو تم رونے لگے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : میرے فرزند کو چھوڑ دو۔ میں نے تم کو چھوڑ دیا تونبی اللہ نے تم کو پکڑا اور اپنی گودی میں بیٹھا لیا۔'' فقال جبرئیل : أتحبہ ؟ قال : نعم ! قال : فان أ متک ستقتلہ'' جبرئیل نے پوچھا : کیا آپ اس بچے سے محبت کرتے ہیں تو خدا کے نبی نے جواب دیا : ہا ں ! جبرئیل نے کہا : آپ کی امت اس بچے کو شہید کردے گی ۔'' وان شئت أن اْریک تربة أرضہ الت یقتل فیھا ؟ قال : نعم'' اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو اس زمیں کی مٹی دکھا دو ں جس میں یہ قتل کئے جائی ں گے توخدا کے نبی نے فرمایا : ہا ں ! ام سلمیٰ کہتی ہیں :'' فبسط جبرئیل جنا حہ علی أرض کربلا ء فأراہ ایاہ ثم شمھا وقال: ھٰذہ واللّٰہ ھی الارض التی أخبر بھا جبرئیل رسول اللّٰہ وانن اقتل فیھا''جبرئیل نے زمین کربلا پر اپنے پر پھیلا ئے اور وہ زمین نبی خدا کو دکھا دی ؛. پھر امام حسین علیہ السلام نے اس مٹی کو سونگھا اور فرمایا : خدا کی قسم یہی وہ زمین ہے جس

۲۵۹

کی خبر جبرئیل نے رسول اللہ کو دی تھی اور میں یہیں قتل کیا جاؤ ں گا۔سبط بن جوزی کہتے ہیں : ابن سعد نے طبقات میں واقدی کے حوالے سے اسی معنی کو ذکر کیا ہے پھرسبط بن جوزی نے کہا : ابن سعدنے شعبی کے حوالے سے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ اس نے کہا : جب صفین کے راستے میں علی علیہ السلام کا کربلا سے گزر ہوا اور آ پ نینوا(فرات کے نزدیک قریہ ہے) کے قریب پہنچے تو وہا ں رکے اور اپنے پانی لانے والے اور طہارت کے امور انجام دینے والے فرد کو آواز دی اور فرمایا : اے ابو عبداللہ مجھے خبر دو کہ اس زمین کوکیا کہتے ہیں ؟ اس نے جواب دیا : اسے کربلاکہتے ہیں ، یہ سن کر آپ کی آنکھو ں سے آنسو نکل پڑے اور آپ اتنا روئے کہ وہا ں کی زمین آپ کے آنسوؤ ں سے تر ہوگئی پھر فرمایا :'' دخلت علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وھو یبک فقلت لہ : ما یبکیک؟'' میں ایک دن رسولخدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں حا ضر ہواتو دیکھا رورہے ہیں ؛ میں نے فوراً آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا : آپ کو کس چیز نے رلادیا ؟ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب دیا : ''کان عندی جبرئیل آنفاً و اخبر نی ؛ ان ولدی الحسین علیہ السلام یقتل بشط الفرات بموضع یقال لہ کربلا ئ'' ابھی ابھی جبرئیل میرے پاس موجود تھے، انھو ں نے مجھے خبر دی کہ میرافرزند حسین فرات کے کنارے اس جگہ پر قتل کیا جائے گا جسے کربلاکہتے ہیں ۔'' ثم قبض جبرئیل قبضة من تراب فشمنی ایاھا فلم أملک عینی ان فا ضتا ''پھر جبرئیل نے وہا ں کی ایک مٹھی خاک اٹھائی جس کو میں نے سونگھا اس کا اثر یہ ہوا کہ میں اپنی آنکھو ں پر قابو نہ پا سکا اور سیل اشک جاری ہوگئے ، پھر کہتے ہیں :'' حسن بن کثیر'' اور'' عبد خیر'' نے روایت کرتے ہوئے کہا ہے: جب علی علیہ السلام کربلا پہنچے تو وہا ں رکے اور گریہ کیا اور فرمایا : ''بابی اغلیمة یقتلون ھاھنا،ھٰذا مناخ رکابھم ، ھٰذا موضع رحالھم ، ھٰذا مصرع الرجال ثم ازداد بکاء ہ'' میرے باپ ان جوانو ں پر قربان ہوجائی ں جو یہا ں قتل کئے جائی ں گے ۔یہیں پر ان کی قیام گاہ ہوگی اور وہ اپنی رکابو ں سے نیچے آئی ں گے، یہی ان کے ٹھہرنے کی جگہ ہے، یہی ان کے مردو ں کی قتل گاہ ہے، یہ کہتے کہتے آپ کی آنکھو ں سے آنسوابل پڑے اور آپ شدت سے رونے لگے۔(تذکرة الخواص ،ص ٢٥٠ ،طبع نجف) نصربن مزاحم نے اس خبر کو چار طریقو ں سے بیان کیا ہے۔ (صفین ،ص٢٤٠ ، ١٤٢ ،طبع ہارون)

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438