واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا9%

واقعۂ کربلا مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 438

واقعۂ کربلا
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 438 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 201743 / ڈاؤنلوڈ: 5679
سائز سائز سائز

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

صقعب اور عبداللہ کی شہادت کا تذکرہ ہے ممکن ہے کہ'' ذیل المذیل ''میں طبری نے اسے اپنی ہی تاریخ سے نقل کیا ہو، لیکن مخنف بن سلیم کی شہادت کے سلسلے میں یہ خبر دوسری روایتوں سے منافی اور متعارض ہے، کیونکہ اس عبارت میں طبری نے کہا کہ مخنف بن سلیم جنگ جمل میں شہید ہوگئے ۔طبری کی یہ بات اس روایت کے منافی ہے جسے انھوں نے کلبی کے حوالے سے ابومخنف سے جنگ صفین کے سلسلہ میں نقل کیا ہے :''حدثنی ابی ، یحٰبن سعید عن عمه محمد بن مخنف قال : کنت مع ابی (مخنف بن سلیم) یومئذ و انا ابن سبع عشره سنة'' (١) مجھ سے میرے والد یحٰی بن سعید نے اپنے چچا محمد بن مخنف کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ انھوں نے کہا :''میں جنگ صفین میں اپنے والد (مخنف بن سلیم) کے ہمراہ تھا اس وقت میری عمر سترہ سال تھی''۔ اسی طرح طبری نے ابو مخنف سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا :''مجھ سے حارث بن حصیرہ ازدی نے اپنے اساتید اور بزرگان کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ '' قبیلہ ازد'' جب ایک دوسرے کے آمنے سامنے آئے تو'' مخنف بن سلیم ''پر یہ بڑی سخت گھڑی تھی جس سے وہ کافی ناراض تھے''۔

ا سی طرح طبری نے مدائنی متوفیٰ٢٢٥ھ اور عوانہ بن حکم متوفیٰ ١٥٨ھ سے روایت کی ہے کہ ان لوگوں نے سلسلۂ سند کو قبیلہ بنی فزار کے ایک بزرگ تک پہنچاتے ہوئے کہا : ''معاویہ نے نعمان بن بشیر کو ٢ہزار سپاہیو ں کے ہمراہ امیر المومنین کی طرف روانہ کیا ۔وہ لوگ ایک مقا م تک پہنچے جس کا نام عین التمرتھا۔ وہاں سے ان لوگوں نے حضرت کے لشکر پرحملہ کیا ، اس مقام پر مالک بن کعب ارحبی جو لشکر امیر المومنین کے علمدار تھے ،اپنے تین سو افراد کے ساتھ ان حملہ آورں کے سامنے ڈٹے رہے اورحضرت علی کو خط لکھ کر فوج کی مدد طلب کی ۔مالک بن کعب نے ایک دوسرا خط مخنف بن سلیم کو لکھا کیو نکہ وہ وہاں سے نزدیک تھے اور ان سے مدد کی درخواست کی۔ مخنف نے فوراًاپنے فرزند عبد الرحمن کو پچاس آدمیوں کے ہمراہ ان تک روانہ کیا ؛یہ افراد بلا تاخیر وہاں پہنچ کر مالک کے لشکر سے ملحق ہوگئے ۔

____________________

١۔ طبری ،ج٤، ص٢٤٦

۲۱

جب اہل شام نے یہ منظر دیکھا اور سمجھ گئے کہ مالک بن کعب کی مدد کے لئے لشکر موجود ہے تو وہیں سے ان کے قدم اکھڑگئے اور وہ وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔''(١) ان تمام تاریخی شواہد سے یہ ثابت ہوتاہے کہ مخنف بن سلیم جنگ جمل کے بعد تک با حیات تھے اور نہ فقط بعد از جنگ جمل بلکہ جنگ صفین کے بعد بھی زندہ تھے، کیونکہ جنگ صفین ٣٧ھ میں ختم ہوگئی اور معاویہ کی طرف سے سرحدی علاقوں میں قتل و غارت گری کا سلسلہ ٣٩ ھ سے شروع ہوا ۔اس درمیان فقط وہی ایک روایت ہے جس میں جنگ جمل میں شہادت کا تذکرہ موجو دہے جیسا کہ گذشتہ سطروں میں اس کی وضاحت ہوگئی ہے ،لیکن طبری اس کی طرف با لکل متوجہ نہیں ہوئے، نہ ہی اس کے اوپر کوئی تعلیقہ لگایا، جبکہ انھوں نے''ذیل المذیل ''میں اس کی صراحت کی ہے کہ وہ ٨٠ ھ تک زندہ تھے۔(٢)

نصربن مزاحم اور خاندان ابومخنف

طبر ی کے علاوہ نصر بن مزاحم منقری، متوفیٰ ٢١٢ ھنے بھی اپنی کتاب'' وقعة صفین'' میں اس بات کی صراحت کی ہے کہ مخنف بن سلیم جنگ جمل کے بعد بقید حیات تھے۔ وہ اپنی کتاب میں اس طرح رقمطراز ہیں کہ یحٰبن سعید نے محمد بن مخنف سے نقل کیا ہے کہ محمدبن مخنف کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے بصرہ سے پلٹنے کے بعد میرے والد (مخنف بن سلیم) کی طرف نگاہ کی اور فرمایا :''لیکن مخنف بن سلیم اور ان کی قوم نے جنگ میں شرکت سے سر پیچی نہیں کی...۔''(٣)

محمد بن مخنف اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے اصحاب کا یہ کہنا ہے کہ امیر المو منین نے مخنف بن سلیم کو اصفہان اور ہمدان کی ذمہ داری دیکر گو رنر کے طور پروہاں روانہ کیا اور وہاں کے سابق ذمہ دار جر یربن عبد اللہ بجلی کو معزول کر دیا۔(٤) محمد بن مخنف مزید کہتے ہیں کہ جب حضرت علی علیہ السلام نے شام کا قصد کیا تو اپنے کا رکنوں کو اس سے آگا ہ کیا ؛ منجملہ ایک خط مخنف بن سلیم کو

____________________

١۔ طبری ،ج ٥ ،ص ١٣٣ مطبوعہ دار المعارف

٢۔ ذیل المذیل، ص٥٤٧ ،مطبوعہ دار سویدان؛ تاریخ طبری کی گیارہوی ں جلد

٣۔ وقعة صفین، ص٨ ، طبع مدنی

٤۔ سابقہ حوالہ، ص١١

۲۲

روانہ کیا جسے آپ کے حکم کے مطابق آپ کے کاتب عبداللہ ابی رافع نے تحریر کیا تھاخط ملتے ہی مخنف بن سلیم نے اپنے اہلکاروں میں سے دو آدمیوں کو اپنا نائب مقرر کیا اور خود وہاں سے فوراً حضرت کے لشکر کی طرف روانہ ہوگئے ؛یہاں تک کہ صفین ہی میں حضر ت علی علیہ السلام کی ہمر کا بی میں شہید ہو گئے۔(١) آگے بڑھ کر محمد بن مخنف کہتے ہیں کہ مخنف بن سلیم چار بڑے قبیلے ازد ، بجیلہ ، انصاراور خزاعہ کے سربراہ تھے۔(٢) پھر لکھتے ہیں :مخنف ، بابل کے سفرمیں علی علیہ السلام کے ہمراہ تھے۔(٣)

اسکے علاوہ بزرگان'' ازد'' سے مروی ہے کہ'' قبیلہ ازد'' کا ایک گروہ شام کی طرف سے اور دوسرا گروہ عراق کی طرف سے (جس میں مخنف بھی تھے) جب آمنے سامنے ہوا تو مخنف بن سلیم کے لئے یہ بڑی سخت منزل تھی۔ان کے دل پر اس سے چوٹ لگی اور وہ بے چین ہو گئے؛ لہٰذاانہوں نے ایک تقریر کی اور فر مایا کہ یہ امر میرے لئے بڑاسخت ہے اورمیں اس سے خوش نہیں ہوں ۔(٤)

اس سلسلے میں ابو مخنف کا بیان بھی قابل استفادہ ہے۔ وہ اس واقعہ کو اپنے والد کے چچا محمد بن مخنف سے نقل کر تے ہیں کہ محمدبن مخنف کہتے ہیں :''اس دن میں اپنے والد مخنف بن سلیم کے ہمراہ تھا اوراس وقت میری عمر ٧ا سال کا تھی''۔(٥)

اس جملہ سے کہ '' میری عمر١٧سال تھی '' اندازہ ہوتا ہے کہ سعیداپنے بھائی محمد سے چھوٹے تھے اور وہ جنگ صفین میں حاضر نہ تھے لہٰذا اس جنگ کی روداد کو اپنے بھائی سے نقل کررہے ہیں ۔ یہ خبر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ محمد بن مخنف کی ولادت٢٠ ھ میں ہوئی ۔بنابراین سعید، جو لوط (ابو مخنف) کے دادا ہیں وہ بھی اسی سال کے آس پاس متولد ہوئے ہیں ۔

____________________

١۔سابقہ حوالہ، ص١٠٤

٢۔صفین، ص١١٧

٣۔سابقہ حوالہ، ص١٣٥

٤۔سابقہ حوالہ، ص٢٦٢ ؛کتاب تقریب التہذیب میں مذکو ر ہے کہ ''مخنف بن سلیم ٦٤ھ میں توابین کے ہمراہ عین الوردةمیں شہید ہو ئے لیکن یہ غلط ہے۔

٥۔طبری، ج، ٤ص٤٤٦

۲۳

لوط کے داد ا سعید حضرت علی علیہ السلام کے اصحاب میں شمار ہوتے ہیں جبکہ آپ کے والدیحٰی امیر المو منین کے اصحاب میں شمار نہیں ہوتے ۔.پس ہم اگر کم ترین مدت بھی فرض کریں تو یہی کہا جاسکتاہے کہ سعید کی شادی کے بعد جب یحٰدنیا میں آئے تو اس وقت سعید ٢٠ سال کے تھے ۔(١) اس بنیاد پر لوط کا اصحاب امیر المومنین میں ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہو تا، بلکہ ان کے والد یحٰکو بھی حضرت علی علیہ السلام کے اصحاب میں شمار نہیں کیا جا سکتا ہے۔اب ہم یہ فرض کرتے ہیں کہ یحٰنے شادی کی اور اس سے لوط دنیا میں آئے تو اس وقت ان کا سن ٢٠ سال تھا؛ اس کا مطلب یہ ہو گا ٦٠ ھ گذر گیا تھاجبکہ یہ بہت کم ترین مدت فرض کی گئی ہے۔ اسطرح خود لوط کے بارے میں ہم یہ فرض کر تے ہیں کہ انھوں نے اپنی عمرکے بیسویں سال کے آس پاس حدیث کا سننا اور حاصل کرنا شروع کیا ؛ اس کی بنیاد پر ٨٠ ھسامنے آجا تی ہے ،پھر انھوں نے اس کتاب کی تالیف میں تقریبا٢٠ سال صرف کیے۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ لوط پہلی صدی ہجری کے آخری سالوں یا صدی تمام ہونے کے بعد اس کتاب کی تالیف سے فارغ

____________________

١۔ابو مخنف کے والد یحییٰ کس طرح اصحاب امیر المو منین میں شمار ہو سکتے ہیں ؟اور کس طرح شیخ نے اسے اپنی دونو ں کتا بو ں میں لکھ دیا؟ یہ ایک سوال ہے اور.ہم سے پہلے فاضل حائری نے اپنی کتاب منتہی المقال میں شیخ پر یہی اعتراض کیا ہے۔انہو ں نے اس بات پر استدلا ل قا ئم کیا ہے کہ ابو مخنف نے حضرت علی علیہ السلام کو نہیں دیکھا ہے ؛ اسکے بعد انھو ں نے شیخ طوسی کے قول جو انھو ں نے اپنی دونو ں کتابو ں میں بیان کیا ہے کہ یحٰی نے حضرت علی علیہ السلام کا دیدار کیا ہے ،کو اس دلیل سے ضعیف جانا ہے کہ ان کے پر دادا مخنف بن سلیم حضرت علی کے اصحاب میں تھے، جیسا کہ شیخ وغیرہ نے اس کی تصریح کی ہے۔ فاضل حائر ی کی عبارت اس طرح ہے : اس سے ثابت ہو تا ہے کہ لوط نے حضرت کا دیدار نہیں کیا بلکہ ان کے باپ یحٰکا حضرت کو درک کر نا بھی ضعیف ہے۔ بنا برین ابو مخنف کا اصحاب امیر المو منین میں شما ر ہو نا جیسا کہ کشی نے کہا ہے غیر ممکن ہے اورجو استدلال مقتل ابو مخنف کے مقدمہ پر شیخ غفاری نے تحریر کیا ہے وہ بھی بے جا ہے ۔شیخ غفاری کہتے ہیں کہ ممکن ہے ابو مخنف اپنے پر دادا مخنف بن سلیم کے ہمراہ ہو ں ،اس طرح سے کہ اس وقت لوط ١٥ سال کے ہو ں اور ان کے والد یحٰ٣٥ کے ہو ں اور انکے دادا سعید کی عمر ٥٥سال ہو اور پر دادامخنف بن سلیم کا سن ٧٥ سال ہو۔اس استدلال میں جو اعتراض واردہے وہ واضح ہے، کیو نکہ ابو مخنف اپنے والد کے چچا محمد بن مخنف سے نقل کرتے ہیں کہ وہ جنگ صفین کے موقع پر ١٧ سال کے تھے یعنی ان کے بھائی سعید ان سے بڑے نہیں تھے بلکہ چھوٹے تھے اسی لئے جنگ صفین میں شریک نہیں ہو ئے اور انہو ں نے اس جنگ کی روداد اپنے بھائی سے نقل کی پس اس وقت ان کاسن ١٥سال کے آس پا س ہو گا، نہ کہ ٥٥ سال کا ۔

۲۴

ہوئے ،لیکن یہ بہت بعید ہے کہ انہوں نے اس زمانے میں اسے لکھا ہواور پھر لوگوں کو املا کریا ہو۔کیونکہ اس زمانے میں تدوین حدیث پربڑی سخت پابندی عائد تھی؛ بلکہ سخت ممنوع تھا۔ اس اموی دور سلطنت میں تاریخ نویسی کا کیا سوال پیدا ہو تا ہے اوروہ بھی شیعی تاریخ کا ؟ !جبکہ یہ زمانہ شیعوں کے لئے خوف،تقیہ اور گھٹن کا زمانہ ہے ۔

ابو مخنف نے مسلم بن عقیل کے کوفہ میں وارد ہو کر مختار بن ابو عبید ثقفی کے گھر رہنے کے سلسلے میں جو خبر نقل کی ہے اس میں یہ جملہ موجود ہے :'' یہ گھر آج مسلم بن مسیب کے گھر سے معروف ہے''اس جملہ سے ہمیں ایک فائدہ یہ حاصل ہو تا ہے کہ انھوں نے اس مقتل کی تالیف پہلی صدی ہجری کی تیسری دہائی میں کی ہے ،کیونکہ مسلم بن مسیب ١٢٩ ھمیں شیراز کے عامل تھے جیسا کہ طبری کی ،ج٧،ص٣٧٢ پر مر قوم ہے اور یہ عہد بنی امیہ کے ضعف و شکست اور بنی عباس کے قیام کا دور شمار ہو تا ہے جس میں بنی عباس اہل بیت کی رضایت حاصل کر کے امام حسین اور آپ کے اہل بیت علیہم السلام کے خون کا بدلہ لینا چاہتے تھے لہذا ممکن ہے عباسیوں ہی نے ابو مخنف کومقتل حسین علیہ السلام کی تالیف کی دعوت دی ہو تاکہ ان کے قیام کی تائیدہو سکے پھر جب یہ لوگ زمام حکومت پر قابض ہوگئے تو ابو مخنف اور ان کے مقتل کو تر ک کر دیاجیسا کہ اہل بیت علیہم السلام کو چھوڑ دیا بلکہ ان سے جنگ پر آمادہ ہوگئے ۔

ابومخنف کی کتابیں

(الف)شیخ نجاشی نے ابو مخنف کی مندرجہ ذیل کتابوں کا ذکر کیاہے۔

١۔کتاب المغازی

٢۔کتاب الردّہ

٣۔کتاب فتوح الاسلام

٤۔کتاب فتوح العراق

٥۔کتاب فتوح الخراسان

٦۔کتاب شوریٰ

۲۵

٧۔کتاب قتل عثمان

٨۔کتاب جمل

٩۔کتاب صفین

١٠۔کتاب الحکمین

١١۔ کتاب النہروان

١٢۔کتاب الغارات

١٣۔ کتاب اخبار محمد بن ابی بکر

١٤۔ کتاب مقتل محمدبن ابی بکر

١٥۔ کتاب مقتل امیرالمومنین علیہ السلام

١٦۔کتاب اخبار زیاد

١٧۔ کتاب مقتل حجر بن عدی

١٨۔ کتاب مقتل الحسن

١٩۔کتاب مقتل الحسین علیہ السلام

٢٠۔ کتاب اخبارالمختار

٢١۔کتاب اخبار ابن الحنفیہ

٢٢۔ کتاب اخبارا لحجاج بن یوسف ثقفی

٢٣۔کتاب اخباریوسف بن عمیر

٢٤۔کتاب اخبارشبیب الخارجی

٢٥۔کتاب اخبارمطرف بن مغیرہ بن شعبہ

٢٦۔کتاب اخبارالحریث بن الاسدی الناجی

٢٧۔کتاب اخبارآل مخنف بن سلیم

۲۶

اس کے بعد نجاشی نے اپنے طریق کو اس طرح ذکر کیا ہے :''عن تلمیذہ ہشام الکلبی''ابو مخنف کے شاگرد کلبی سے مروی ہے(١)

(ب) شیخ طوسی نے بھی فہرست میں ان میں سے بعض کتابوں کا تذکرہ کیا ہے اور اس کے بعد فرماتے ہیں کہ ابو مخنف کی ایک کتاب بنام ''کتاب خطبات الزہرائ'' بھی ہے۔ شیخ طوسی روایت میں اپنے طریق کو بیا ن فرماتے ہیں ۔(٢)

(ج)ابن ندیم نے بھی اپنی فہرست میں ان کتابوں میں سے بعض کا ذکر کیا ہے، منجملہ مقتل الحسین کوابو مخنف ہی کی کتابوں میں شمار کیاہے۔

دواہم نکات

ابومخنف کی کتابوں کی فہرست کابغور مطالعہ کرنے کے بعد دو اہم نکات سامنے آتے ہیں :

١۔سب سے پہلی بات یہ کہ ابو مخنف نے اپنی ساری کوششیں اس پر صرف کی ہیں کہ شیعی روایات بالخصوص کوفہ سے متعلق اخبار کو اپنی کتابوں میں درج کریں ۔ ان کتابوں میں کوئی بھی کتاب ایسی نہیں ہے جس میں بنی امیہ یا بنی مروان کا عنوان شامل ہو، اسی طرح ان کتابوں میں ابو مسلم خراسانی کا قیام اوربنی عباس کی تشکیل حکومت کے سلسلے میں بھی کوئی عنوان نظر نہیں آتا جبکہ بنی عباس کی حکومت کی تشکیل کے ٢٥ سال بعد ٥٨ا ہجری میں ابو مخنف کی وفات ہوئی ہے۔ اگر فہرست کتب میں اس مو ضوع پر کوئی کتاب نظر آتی ہے تو وہ فقط ''کتاب حجاج بن یوسف ثقفی ''ہے اور حجاج کی تباہکاریوں کی داستان اس کی موت کے ساتھ ٩٥ ہجری میں ختم ہو جاتی ہے۔ البتہ طبری نے بنی امیہ کے آ خری ایام کی خبروں کو ١٣٢ ہجری کے حوادث میں ابو مخنف ہی سے نقل کیا ہے۔(٣)

٢۔ دو سرا اہم نکتہ یہ ہے کہ ابو مخنف کی روایات کو ان کی کتابوں میں ، خصوصاًطبری کی روایتوں میں ملا حظہ کر نے کے بعد اندازہ ہو تا ہے کہ ابو مخنف نے بہت سارے موارد میں اپنے باپ ،چچا،چچازادبھائیوں یا ''قبیلۂ ازد'' کے وہ بزرگان جو اس وقت زندہ تھے، ان سے رواتیں نقل کی ہیں اوریہ اس بات کی دلیل ہے کہ ابو مخنف کے قبیلہ میں بہت ساری خبر یں موجو دتھیں جس نے ابو مخنف کو ان کی جمع آوری اور تالیف پربر انگیختہ کیا۔ .اسی وجہ سے ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی خبروں میں کوفہ اور اہل کوفہ ہی پر اکتفا کر تے ہیں اور اس فن میں انھوں نے اتنا یدطولیٰ حاصل کیا کہ دوسروں کے مقابلہ میں وہ اس فن میں اعلم شمار ہو تے ہیں ۔

____________________

١۔رجال نجاشی، ص٢٢٤،طبع حجر ہند

٢۔فہرست، ص١٥٥وطبری ،ج٧،ص٤١٧،سال ١٣٢ ہجری فی خروج محمد بن خالد بالکوفہ

٣۔طبری ،ج٥، ص٤١٧

۲۷

مذہب ووثاقت

ابو مخنف کے آثارکو دیکھنے کے بعد اس بات کا بھی اندازہ ہو تا ہے کہ انھوں نے امام زین العابدین علیہ السلام (جنکی شہادت ٩٥ ہجری میں ہو ئی ہے) سے کو ئی روایت بلا واسطہ نقل نہیں کی ہے؛ اسی طرح امام محمد باقر علیہ السلام (جنکی شہادت ١١٥ ہجری میں ہوئی ہے) سے بھی بلا واسطہ ایک روایت موجود نہیں ہے۔(١)

بلکہ وہ امام محمد باقر علیہ السلام سے ایک واسطہ اور امام زین العا بدین علیہ السلام سے دو واسطوں سے روایت نقل کرتے ہیں اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے بلا واسطہ چند ہی روایتں ملتی ہیں ۔(٢) یہ مطلب شیخ نجاشی کی ان باتوں کی تائیدکرتاہے جس میں وہ فرماتے ہیں : ''بعض لوگ کہتے ہیں کہ ابو مخنف نے امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ ''اسی طرح ابوا مخنف نے امام موسی کاظم علیہ السلام سے بھی کوئی روایت نقل نہیں کی ہے جب کہ ابو مخنف امام علیہ السلام کے زمانے میں موجود تھے، کیونکہ امام موسی کاظم علیہ السلام کی شہادت ١٤٨ ہجری میں واقع ہوئی ہے ؛یہی وجہ ہے کہ کسی نے بھی ابو مخنف کو امام علیہ السلام کے صحابیوں میں شمار نہیں کیا ہے ۔

____________________

١۔طبری،ج ٥،ص٤٨٨۔خبر شہادت شیر خوار کو ملا حظہ کیجئے ۔

٢۔خبر شب عا شو راملاحظہ ہو ،ج ٥ ،ص٤٨٨

۲۸

مندرجہ بالا قرینے اس مطلب کی دلیل فراہم کرتے ہیں کہ ابو مخنف شیعہ نہیں تھے اورشیعی اصطلاح کے مطابق ائمہ کے اصحاب میں شمار نہیں ہوتے تھے، جن کو مخالفین اہل بیت رافضی کہا کرتے تھے؛ البتہ اس زمانے میں اہل کوفہ کی طرح ان کا بھی فکری اور نظریاتی میلان تشیع کی طرف تھا لیکن سنی مذہب کوبطور کلی ترک نہیں کیا تھا۔اس کی تائید میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مخالفین اہل بیت میں سے کسی نے بھی رافضی کے تیر سے ان پر حملہ نہیں کیا ہے جیسا کہ وہ ہر شیعہ کے لئے کرتے تھے حتیٰ کہ یہ ایک اصطلاح بن چکی تھی جو ابھی تک باقی ہے۔ بلکہ ابومخنف کے سلسلے میں مخالفین اہل بیت کا نظریہ یہ ہے کہ وہ تشیع اور مذہب اہل بیت کی طرف رجحان رکھتے تھے ، اسی وجہ سے ان کو شیعہ کہا کرتے ہیں ؛ لیکن مخالفین اہل بیت علیہم السلام کوجن کے بارے میں معلوم ہوجاتاتھا کہ یہ مذہب اہل بیت سے وابستہ ہیں ان پر فوراًرافضی ہونے کا تیرچلاتے تھے اور فقط شیعہ کہنے پر اکتفانہیں کرتے تھے۔دشمنان اہل بیت کے نزدیک اصطلاح شیعہ اور رافضی میں اساسی فرق یہی ہے ۔

ذہبی ، اہل سنت کے معروف رجالی ، کہتے ہیں : ''یہ اخباری مذہب کے حامی ہیں اور قابل اعتماد نہیں ہیں ''۔ ابوحاتم وغیرہ نے ان سے روایت نقل نہیں کی ہے اور ان کو ترک کردیا ہے ۔

ابن معین کہتے ہیں :''یہ ثقہ نہیں ہیں '' مرّ ہ کہتے ہیں :'' وہ بہت قابل توجہ نہیں ہیں ''۔ ابن عدی کہتے ہیں : ''وہ متعصب شیعہ تھے ا ان کا شمارشیعہ محدثین و مورخین میں ہوتاہے(١) ان میں سے کسی بھی رجالی نے ابو مخنف پر رافضی کے تیر سے حملہ نہیں کیا ہے جبکہ ان تمام رجالیوں کی سیرت یہ ہے کہ اگر ان کے لئے کسی کے سلسلے میں اہل بیت کی پیروی ثابت ہو جائے تو فوراًرافضی کہہ کر اپنی دریدہ ذ ہنی اور شوریدہ فکر ی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔

ابن ابی الحدید معتزلی نے اس بات کی بالکل صراحت کر دی۔ وہ کہتے ہیں :''ابو مخنف کا شمار محدثین میں ہوتاہے اوران کا تعلق اس گروہ سے ہے جو اس بات کا قائل ہے کہ امامت عوام کے اختیار

____________________

١۔ میزان الاعتدال، ج٣،ص ٤٣،طبع حلبی محترق کے معنی متعصب کے ہیں جیسا کہ میزان الاعتدال میں حارث بن حصیرہ کے سلسلے میں آیا ہے؛ محترق کے وہ معنی نہیں ہیں جو عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔

۲۹

میں ہے ؛عوام جس کو چاہے امام بنادے، لہٰذا وہ نہ توشیعہ تھے اور نہ ہی شیعی رجال میں ان کاشمار ہوتا ہے۔(١)

سیدصدر نے ابن ابی الحدیدکی اس عبارت کو''تاسیس الشیعہ لعلوم الاسلام''میں نقل کیا ہے پھر اس عبارت پرتعلیقہ لگاتے ہوئے کہتے ہیں :''میرے نزدیک تشیع ہی کی بنیاد پر ان کی مذ مت کی گئی ؛اس کے باوجود وہ اہل سنت کے علماء کے نزدیک مورد اطمینان وقابل وثوق ہیں اور ائمہ اہلسنت نے ان پر اعتماد کیا ہے جیسے ابی جریر طبری ،ابن اثیر بالخصوص، ابن جریر طبری جس نے اپنی ضخیم اور عظیم تاریخ کو ابی مخنف ہی کی روایتوں سے پرکر دیا ہے ۔(٢)

علامہ سید شرف الدین موسوی نے اپنی کتاب'' المراجعات'' میں ایک خاص فصل قرار دی ہے جس میں ان سو شیعی رجال کا تذکرہ کیا ہے جو اہل سنت کی سندوں میں بلکہ صحاح میں موجود ہیں ۔ علامہ مرحوم نے ان سندوں کو حوالے کے ساتھ ذکر کیا ہے۔

علامہ شرف الدین موسوی کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے :اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ وہ (ابو مخنف)شیعہ تھے لیکن شیعہ امامی نہیں تھے جیسا کہ ابن ابی الحدید نے بھی اس کی صراحت کی ہے جو ایک متین بیان ہے البتہ بعض اہل سنت نے انہیں اس بنیاد پر شیعہ لکھ دیا کہ محبت و مودت اورافکار میں ان کا میلان اہل بیت اطہار علیہم السلام کی طرف تھا لیکن یہ کہ وہ آج کل کی اصطلاح کے مطابق بطور کامل شیعہ تھے، تو یہ غلط ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ گذشتہ علمائے شیعہ میں سے کسی نے بھی ان کے شیعہ ہونے کی تصریح نہیں فرمائی ہے۔شیخ نجاشی جو اس فن کے استاد تھے انھوں نے اس سلسلے میں بڑی احتیاط سے توصیف فرمائی ہے کہ ''ابو مخنف مورخین کوفہ کے بزرگ اور استاد تھے ''،یہ نہیں فرمایا کہ ہمارے مورخین کے استاد و بزرگ تھے، چہ جائیکہ یہ کہیں کہ ہمارے علماء و دانشوروں کے بزرگ اور استاد تھے ۔

____________________

١۔تاسیس الشیعہ، ص٢٣٥،طبع بغدادمیں آیا ہے کہ میں نے طبری کی سند میں ابو مخنف کی روایت کو شمار کیا تو٤٠٠ روایتو ں کے آس پاس پایا جیسا کہ فہرست اعلام ،ج٧،ص٤١٧،سال ١٣٢ میں محمد بن خالدکے خروج کے سلسلے میں یہ موجود ہے۔

٢۔تاسیس الشیعہ، ص٢٣٥ ،طبع بغداد ،المراجعات،ص١٦ تا١٧ وص،٥٢ تا ١١٨،دار الصادق

۳۰

اس پر تعجب نہ کیجئے کہ ابن ابی الحدید نے اس سلسلے میں کیونکر تصریح کردی، ذرادیکھئے!جب وہ جنگ جمل کے واقعہ میں ابو مخنف سے اس رجز کا تذکرہ کرتے ہیں جس میں مولائے کائنات نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانب سے اپنی وصایت کا تذکرہ کیا ہے تو کہتے ہیں کہ ان رجزوں کے نقل کرنے سے اس سے زیادہ کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ ابو مخنف فکر و نظر کے اعتبار سے شیعہ تھے نہ کہ عقیدئہ امامت میں ، جیسا کہ بہت سارے اہل سنت اس مطلب کی روایت کرتے ہیں ۔الغرض ابو مخنف شیعہ تھے اس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن ان کے امامی مذہب ہونے پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے ،اس بناپر ابومخنف کی توصیف و تمدیح کا بہترین طریقہ وہی ہے جسے شیخ نجاشی نے اپنایا ہے : ''شیخ اصحاب اخبار الکوفہ ووجھہم وکان یسکن الی ما یرویہ''وہ مورخین کوفہ کے بزرگ اور معروف آدمی تھے لوگ ان کی روایتوں پر اعتماد کرتے تھے ۔

نجاشی کا یہ بیان ایک قابل اعتبار مدح وستائش ہے جس کی بنیاد پر ان سے مروی روایتوں کا حسن ہونا ثابت ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی روایتوں کو'' الوجیزہ'' ،''ا لبلغہ'' اور ''الحاوی'' وغیرہ میں حسن شمار کیا گیا ہے ۔

ہشام الکلبی

شیخ نجاشی نے ہشام الکلبی کا ذکر کیا ہے اور ان کا نسب نامہ بھی مرقوم فرمایاہے اس کے بعدفرماتے ہیں : ہشام تاریخ دان ، تاریخ نگار اور علم و فضل میں مشہور تھے۔ وہ پیروان مذہب اہل بیت میں شمار ہو تے ہیں ۔ ان کی ایک حدیث بہت مشہور ہے جس کی داستان بہت ہی دلچسپ ہے ۔ہشام کہتے ہیں : ''میں ایک ایسے مرض میں مبتلا ہوگیا تھا جس کی و جہ سے میں اپنے سارے علم کو فراموش کرچکاتھا لہٰذا میں امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس آیا اور امام سے ساری داستان کہہ سنائی امام نے مجھے جام علم پلایا اس جام کے پیتے ہی میراسارا علم دوبارہ واپس آگیا'' ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام ان کو اپنے قریب رکھتے تھے، ان کا احترام کرتے اور ان کے لئے ترقی و بلندی کے مواقع فراہم کرتے تھے؛ اسی لئے وہ کامیاب رہے اور بہت ساری کتابیں ان کے آثار میں باقی ہیں ۔(١)

____________________

١۔ رجال نجاشی،ص٣٠٥،حجر ہند

۳۱

اس کے بعد نجاشی نے ہشام کی کتابوں کا تذکرہ کیا ہے اور ان کو اپنے طریق میں مرقوم فرمایا؛ منجملہ ان کتب میں '' مقتل الحسین'' کو بھی ہشام کی کتابوں میں شمار کیاہے۔ شاید اس کا سبب یہ ہو کہ ہشام نے کتاب'' مقتل الحسین ''کے تمام حصوں یا اکثر و بیشتر حصوں کو اپنے استاد(ابو مخنف) سے نقل کیا ہے ۔

قابل تعجب بات یہ ہے کہ شیخ طوسی نے اپنی کتاب'' مختار ''میں رجال نجاشی سے نقل کیا ہے نجاشی فرماتے ہیں : ''کلبی کا شمار سنی رجال میں ہوتا ہے ،ہاں ؛ اہل بیت سے انہیں شدت کی محبت تھی، بعض لوگوں نے کہا ہے کہ کلبی تقیہ میں تھے ، مخالف اہل بیت نہیں تھے ۔(١)

____________________

١۔ المختار من رجال ا لکشی، ص ٣٩٠ ،حدیث ٧٣٣ طبع مشہد، یہ بات پوشیدہ نہیں رہنی چاہیئے کہ ہمارے متعدد بزرگ علمائے رجال تعارض کی صورت میں نجاشی کے قول کو مقدم مانتے ہیں ١۔ شہیدثانی مسالک میں فرماتے ہیں :''وظاهر حال النجاشی انه اضبط الجماعه واعرفهم بحال الرواة ''ظاہر یہ ہے کہ نجاشی کا حافظہ سب سے قوی اور راویو ں کے احوال سے سب سے زیادہ باخبر ہیں ۔٢۔ان کے نواسے ''شرح الاستبصار'' میں فرماتے ہیں :''والنجاشی مقدم علی الشیخ فی هٰذه المقامات کما یعلم بالممارسته '' ۔ نجاشی ان موارد میں شیخ پر مقدم ہیں جیسا کہ تحقیق و جستجو سے یہی معلوم ہوتا ہے۔٣۔ان کے استاد محقق استرآبادی کتاب ''الرجال الکبیر'' میں سلیمان بن صالح کے احوال نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :''ولا یخفی تخالف ما بین طریقتی الشیخ والنجاشی ولعل النجاشی اثبت'' ۔ یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ رجال شناسی میں شیخ اور نجاشی کے درمیان اختلاف کی صورت میں نجاشی کا قول مقدم ہے ؛کیونکہ نجاشی کا نظریہ زیادہ محکم ہے ۔٤۔ سید بحر العلوم'' الفوائد الرجالیہ'' میں فرماتے ہیں :'' احمد بن علی نجاشی کا محکم ، استوار اور عادل بزرگو ں میں شمار ہوتا ہے۔ آپ جرح و تعدیل کے عظیم ترین رکن ہیں اور اس راہ کے سب سے بزرگ عالم ہیں '' ہمارے تمام علماء کا اس پر اجماع ہے کہ وہ معتمد ہیں اور سب کے سب احوال رجال میں انہیں کی طرف استناد کرتے ہیں نیزان کے قول کو مقدم جانتے ہیں ۔اصحاب نے ان کی کتاب کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ جس کی کو ئی نظیر نہیں ہے اس باب میں صراحت کی ہے کہ نجاشی کا قول صحیح ہے ۔اس کے علاوہ نجاشی نے اپنی کتاب میں شیخ کشّی کے احوال کو پیش کرتے ہو ئے فرما یا : ''کان ثقةعیناً..''آپ مورد وثوق اور معروف انسان تھے ،رجال کے موضوع پرآپ کی ایک کتاب ہے جو بڑی معلوماتی ہے لیکن اس کتاب میں کافی غلطیا ں ہیں ۔آپ عیاشی کے ساتھ تھے اور انہیں سے روایتی ں نقل کی ہیں ا لبتہ اس کتاب میں ضعیف راویو ں سے بھی روایت نقل کردی ہے (ص٣٦٣) پھر نجاشی ،عیاشی کے سلسلے میں لکھتے ہیں ''ثقة و صدوق'' ، وہ مورد وثوق اوربڑے سچے تھے ''عین من عیون ھٰذہ الطائفہ'' اس گرو ہ شیعہ کی معروف ترین شخصیتو ں میں شمار ہوتے تھے۔ عیاشی پہلے سنی تھے پھر شیعہ ہوئے۔ آپ نے ضعفا سے بہت روایتی ں نقل کی ہیں ۔(ص٢٤٧) شاید کشّی نے یہ قول عیاشی ہی سے حاصل کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کلبی سنی تھے کیونکہ وہ شروع میں سنی تھے۔ ہا ں کلبی اپنے کو چھپا ئے رہتے تھے اور تقیہ پر عمل کرتے تھے جیسا کہ کشی نے ذکر کیاہے۔

۳۲

اسکے بعد شیخ نے ہشام کلبی کا بالکل تذکرہ نہیں کیا ہے؛نہ ہی رجال میں اورنہ ہی فہرست میں ، ہاں اپنے اس طریق میں جس میں ابومخنف کی کتابوں سے روایت نقل کی ہے ہشام کا تذکرہ کیا ہے۔(١)

شاید اس کا سبب یہ ہوکہ کلبی کی جتنی کتابیں تاریخ شیعہ سے مختص ہیں ان سب میں انہوں نے اپنے استاد ابی مخنف سے روایتیں نقل کی ہیں ، لیکن دوسری کتابیں کہ جو شیعوں کی تاریخ سے مخصوص نہیں ہیں دوسرے مورخین سے نقل ہیں ۔ اہل سنت کے سیرو تراجم کے تمام دانشوروں نے ہشام کے علم و حافظہ اور انکے شیعہ ہو نے کی صراحت کی ہے۔ابن خلکان کہتے ہیں : ''تاریخ اور تاریخ نگاری کے سلسلے میں ان کی معلومات بڑی وسیع تھی۔ وہ علم انساب کے سب سے بڑے عالم تھے اور اخباروروایات کے حفظ میں مشہور روزگار تھے ۔آپ کی وفات ٢٠٦ ہجری میں ہوئی ۔(٢)

اہلسنت کے دوسرے بزرگ عالم رجالی ابو احمدبن عدی اپنی کتاب'' کا مل'' میں کہتے ہیں : ''کلبی کی حدیثیں صالح ودرست ہیں ۔ تفسیر میں بھی انکا علم وسیع تھا اور وہ اس علم کے ذریعہ معروف تھے؛ بلکہ تفسیر میں ان سے طولانی اور سیر حاصل بحث کسی نے بھی نہیں کی ہے ۔کلبی تفسیر میں مقاتل بن سلیمان پر برتری اور فضیلت رکھتے ہیں ؛کیو نکہ مقاتل کے یہاں عقیدہ اور مذہب کی سستی وخرابی موجودہے۔ ابن حبان نے کلبی کو ثقات میں شمار کیا ہے'' ۔(٣)

رائج مقتل الحسین

اس زمانے میں متداول، لوگوں کے ہاتھوں اور مطبو عات میں جو مقتل ہے اسے ابو مخنف نے تالیف نہیں کیاہے، بلکہ اسے کسی دوسرے نے جمع کیا ہے، لیکن یہ معلوم نہیں ہے کہ کہاں جمع کیا گیا، کس

____________________

١۔رجال طوسی ،ص١٥٥ ۔

٢۔طبری نے اپنی تاریخ میں کلبی سے ٣٣٠ موارد نقل کئے ہیں ۔ اسکے باوجود اپنی کتاب'' ذیل المذیل ''میں ان کے احوال مر قوم نہیں کئے ہیں ۔ فقط کلبی کے باپ کا تذکرہ(ص١١٠)پر کر تے ہوئے کہا ہے :ان کے دادا بشربن عمرو کلبی ہیں اور انکے فرزند سائب ،عبید او رعبد الرحمن ہیں جو جنگ جمل اور جنگ صفین میں حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ تھے۔

٣۔ لسان المیزان ،ج٢،ص٣٥٩۔

۳۳

نے جمع کیا ،کس کے ہا تھوں یہ کتاب ملی اور سب سے پہلے یہ کتاب کہاں چھپی ہے ؟ کسی کو ان مسائل کا علم نہیں ہے ۔ امام شرف الدین مو سوی رحمةاللہ علیہ فر ماتے ہیں : ''یہ بات مخفی نہیں ہے کہ مقتل امام حسین علیہ السلام میں جو کتاب رائج ہے وہ ابو مخنف کی طرف منسوب ہے جس میں بہت ساری ایسی حد یثیں موجود ہیں جسکا ابو مخنف کو علم بھی نہیں تھا اور یہ سب کی سب حد یثیں جھو ٹی ہیں جو ان کے سر مڑ ھی گئی ہیں ۔جھو ٹوں اور فر یب کاروں نے بہت ساری چیزوں کا اس میں اضافہ کیا ہے۔فر یب کاروں کا جھو ٹی روایتیں گڑھ کر ان کی طرف نسبت دینا خود ان کی عظمت وجلا لت کا بین ثبوت ہے''(١) کیو نکہ جعل ساز کو معلوم ہے کہ تاریخ کے میر کا رواں کا نام ابو مخنف ہے لہذا جھوٹی روایات انہیں کی طرف منسوب کی جائیں تا کہ لوگ صحیح و غلط میں تمییز دیئے بغیر قبول کر لیں ۔

محدث قمی فر ما تے ہیں : یہ بات معلو م ہو نی چاہئے کہ تاریخ و سیر میں ابو مخنف کی کتا بیں کثیر تعدادمیں موجودہیں ، ان میں سے ایک کتاب'' مقتل الحسین'' ہے جسے قدیم بزرگ علماء نے ذکر کیا ہے اور اس پر اعتماد بھی کر تے تھے؛لیکن بہت افسوس کی بات یہ ہے کہ اس وقت اسکا ایک بھی نسخہ مو جو دنہیں ہے۔یہ مقتل جو اس وقت ہما رے ہا تھوں میں ہے اور اسے ابو مخنف کی طرف منسوب کیا جا تاہے در حقیقت ان کا مقتل نہیں ہے بلکہ کسی دوسرے معتمد مورخ کا بھی نہیں ہے ۔اگر کسی کو اس کی تصدیق کر نی ہے تو جو کچھ اس مقتل میں ہے اور جسے طبری وغیرہ نے نقل کیا ہے ان کا مقایسہ کرکے دیکھ لے؛ حقیقت سا منے آجائے گی۔ میں نے اس مطلب کو اپنی کتاب نفس المہموم میں طرماح بن عدی کے واقعہ کے ذیل میں بیان کردیا ہے۔(٢)

اب جبکہ ہم نے اس کتاب کی تحقیق کا بیڑااٹھایا ہے تو ضروری ہے کہ ہم اس کتاب کے جعلی ہونے کی بحث کو غور وخوص کے ساتھ آگے بڑھائیں تاکہ قارئین کرام پر بات واضح سے واضح تر ہوجائے ۔

یہ بات یقینی ہے کہ اس کتاب کی جمع آوری ابو مخنف کے علاوہ کسی اور نے کی ہے لیکن کس نے کی اور کب کی ہے اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا ،اگر چہ اس بات کا اندازہ ضرور ہوتا ہے کے جمع آوری کرنے

____________________

١۔مو لفوا الشیعة فی صدر الا سلام، ص٤٢،طبع النجاح

٢۔ الکنی والالقاب ،ج١ ، ص١٤٨؛نفس المہموم ص١٩٥،اوراس کا مقدمہ، ص٨ ،طبع بصیرتی

۳۴

والا شخص متاخرین میں سے ہے اور عرب زبان ہے لیکن نہ تو تاریخ شناس ہے، نہ حدیث شناس اور نہ ہی علم رجال سے آگاہ ہے حتیٰ عربی ادب سے بھی واقف نہیں ہے کیونکہ کتاب میں اس نے ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں جو جدید عربی کے عام اور بازاری الفاظ ہیں ۔

اس کتاب میں ١٥٠روایات موجود ہیں جن میں سے ٦روایتیں مرسل ہیں ۔

مرسل روایات میں پہلی روایت چوتھے امام حضرت زین العابدین علیہ السلام سے ہے جو ص٤٩ پر موجودہے ۔

دوسری مرسلہ روایت عبداللہ بن عباس سے ہے جو ص٩٤ پرنقل ہوئی ہے ۔

تیسری روایت عمارہ بن سلیمان سے ہے اور وہ حمید بن مسلم سے نقل کرتے ہیں ،ص٨٢۔

چوتھی روایت ایک ایسے شخص سے ہے جس کے بارے میں یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ وہ عبداللہ بن قیس ہے، ص٩٦۔

پانچویں روایت کے بارے میں دعوی کیا جاتا یہ کہ عمار سے نقل ہوئی۔یہ روایت ص٧٠پرکلینی،متوفیٰ ٣٢٩ھسے مرفوعاًمنقول ہے اور اصول کافی میں یہ روایت موجود نہیں ہے۔

جمع آوری کرنے والے نے روایت نمبر١٠٥(١) سے کتاب میں ایک شخص کو داخل کیا ہے جس کا نام سہل شہر زوری ہے اور اس سے بہت ساری حدیثیں نقل کی ہیں ۔مولف نے اس شخص کوکوفہ سے شام ، حتیٰ شا م سے مدینہ تک اہل بیت کے ہمراہ دکھایا ہے اور اس سے ٣١مرسل روایتیں نقل کی ہیں ، منجملہ سہل بن سعد ساعدی کی روایت کو اسی شخص یعنی ''سہل بن سعید شہر زوری ''کے نام سے ذکر کردیا ہے!(٢)

اس کے علاوہ اس کتاب کی بقیہ روایتوں کی نسبت خود ابو مخنف کی طرف دی گئی ہے جو ١٣٨ حدیثیں ہیں ۔

اس کتاب میں بہت ساری واضح اور فاش غلطیاں ہیں جن کی طرف مندرجہ ذیل سطروں میں اشارہ کیا جارہا ہے ۔

____________________

١۔ مقتل ابو مخنف، ص١٠٢،طبع نجف

٢۔مقتل ابو مخنف، ص١٢٣،نجف

۳۵

واضح غلطیاں

اس رائج مقتل میں بہت ساری واضح غلطیاں ہیں :

١۔ ایک صاحب بصیرت قاری اس مقتل کے پہلے صفحے کی پہلی ہی سطر میں واضح غلطی کی طرف متوجہ ہو جائے گاکہ ابو مخنف کہتے ہیں : ''حدثنا ابو المنذرہشام عن محمد بن سائب کلبی'' مجھ سے ابو منذر ہشام نے محمدبن سائب کلبی کے حوالے سے روایت نقل کی ہے ، ذرا غور کیجئے کہ ابو مخنف ہشا م کے استاد ہیں اور وہ اپنے شاگرد ہشام سے روایتیں نقل کررہے ہیں !مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ اس بے اساس مقتل کے مطابق ہشام نے اپنے باپ محمد بن سائب کلبی کے حوالے سے اپنے استاد ابو مخنف کے لئے ان روایات کو نقل کیا ہے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کتاب کو جمع کرنے والا شخص راویوں کے حالات زندگی سے کس قدر نابلد تھا کہ ا س کے اوپر یہ واضح امر بھی مخفی تھا۔(١)

٢۔اس کے بعد جب آپ اس کتاب کے چند اوراق اور پلٹیں گے تو آپ کا اس عبارت سے سامناہو گا '' و روی الکلینی فی حدیث''(٢)

اے کاش معلوم ہوجاتا کہ کلینی سے روایت کرنے والا شخص کون ہے جبکہ کلینی نے ٣٢٩ ہجری میں اس دار فانی کو وداع کیا ہے اور ابو مخنف کی وفات١٥٨ ہجری میں ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ یہ روایت کافی میں بھی موجود نہیں ہے ۔

٣۔کچھ اورورق گردانی کرنے کے بعدآپ کو یہ عبارت ملے گی ؛''فانفذ(یزید)الکتاب الی الولیدوکا ن قد ومه لعشرة ایام خلون من شعبان'' (٣) 'یزید نے خط لکھ کر ولید کی طرف روانہ کیا اور یہ خط دس شعبان کوحاکم مدنیہ کے ہا تھ میں پہنچا '۔جبکہ تمام مورخین کا اس پر اتفاق ہے کہ

____________________

١۔ایسی ہی ایک روایت سید مرتضیٰ نے اپنی کتاب'' تنزیہ الانبیا ئ'' ص ١٧١ میں نقل کی ہے کہ ابن عباس فرزند ہشام نے اپنے والد ہشام سے انھو ں نے ابومخنف سے اور انھو ں نے ابی الکنودعبد الرحمٰن بن عبید سے روایت کی ہے۔شاید اس کتاب کو جمع کرنے والے نے سید کی کتاب یاکسی اور جگہ سے اس بات کو تحریف و تصحیف و زیادتی کے ساتھ نقل کردیا ۔

٢۔ ص٧

٣۔ص١١

۳۶

امام حسین علیہ االسلام ٣ شعبان کو مکہ وارد ہو گئے تھے۔ خود طبری نے ابو مخنف کے حوالے سے بھی یہی لکھا ہے۔اب ذرا غور کیجئے کہ ان دونوں تاریخوں کو کیسے جمع کیا جا سکتا ہے۔

٤۔ سفیر امام حسین جناب مسلم بن عقیل کی شہادت کے سلسلے میں فقط اسی مقتل میں جناب مسلم کے راستے میں گڑھا کھود نے اور انھیں زنجیر میں جکڑ کر عبید اللہ بن زیاد کے دربار میں لے جانے کی خبر ملتی ہے۔کتاب کی عبارت اس طرح ہے : '' ابن زیاد فوج کے پاس آیا اور ان سے کہا : میں نے ایک چال سونچی ہے کہ ہم مسلم کے راستے میں ایک گڑھا کھود دیں اور اسے خس وخا شاک سے چھپا دیں ،پھر حملہ کر کے مسلم کو آگے آنے پر مجبور کریں ۔ جب وہ اس میں گِر جائیں تو ہم انھیں پکڑلیں ۔میں سمجھتا ہوں کہ وہ اس دام میں آکر زندہ نہیں بچ پائیں گے۔(١)

٥۔ اسی طرح یہ خبر بھی فقط اسی کتاب میں موجودہے : ''جب امام حسین علیہ السلام کے دو فدا کا ر ساتھی مسلم و ہانی کو فہ میں شہید کر دیئے گئے اور امام ان دونوں کی خبر سے مطلع نہ ہو سکے تو آپ بہت مضطرب اور پریشان حال نظر آنے لگے لہٰذ ا آپ نے اپنے خاندان والوں کو جمع کرکے سب کو فوراً مدنیہ واپس ہونے کا حکم دیا ۔ امام کے حکم کے مطابق سب کے سب امام کے ہمراہ مدنیہ کی طرف نکل گئے یہاں تک کہ سب لوگ مد نیہ پہنچ گئے۔یہاں پر امام حسین علیہ السلام بنفس نفیس قبر رسو لخدا صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم کے پاس آے اور تعویذقبر سے لپٹ کر زاروقطار رونے لگے اور روتے روتے آپ کی آنکھ لگ گئی ''(٢) جبکہ اس بے بنیاد خبر کا ذکر کسی کتاب یاسفر نامہ میں نہیں ملتا ہے ۔

٦۔تنہا یہی کتاب ہے جس میں یہ خبر ملتی ہے :''جب امام وارد کر بلا ہو ئے تو آپ نے ٧ گھوڑے بدلے؛ لیکن جب کسی گھوڑے نے بھی حرکت نہ کی تو آپ وہیں اترگئے، وہیں پڑاوڈالا اور وہاں سے آگے نہ بڑھے۔''(٣)

٧۔ فقط اسی کتاب میں یہ خبر ملتی ہے کہ امام زین العا بدین علیہ السلام نے نقل فرما یا کہ امام حسین علیہ السلا م شب عاشور کر بلا میں وارد ہو ئے۔(٤)

____________________

١۔ص ٣٠

٢۔ص٣٩

٣۔ ص ٤٨

٤۔ص٤٩

۳۷

٨۔اسی کتاب میں لشکر پسر سعد کی تعداد ٨٠ ہزار بتائی گئی ہے۔(١)

٩۔ تنہا اسی کتاب نے فوج کی آمد پر زہیر بن قین کا خطبہ نقل کیا ہے کہ زہیر بن قین اپنے ساتھیوں کے پاس آئے اور کہا : ''اے گروہ مہاجرو انصار !اس ملعون کتے اور اس جیسے افراد کے کلام تم کو دھو کہ میں نہ ڈالنے پائیں کیو نکہ انھیں محمد صلی اللہ علیہ ولہ وسلم کی شفاعت ملنے والی نہیں ہے، اس لئے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذریت کو قتل کر رہے ہیں اور جو ان کی مددکر رہا ہے اسے بھی قتل کرنے پر آمادہ ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔(٢)

١٠۔ تنہا اسی کتاب میں ہے کہ امام حسین علیہ االسلام نے کنواں کھودا لیکن اس میں پانی نہیں ملا ۔(٣)

١١۔تنہا اسی کتا ب نے شب عا شور اور روز عاشور کے واقعہ کو تین بار بغیر ترتیب کے درہم برہم نقل کیا ہے :

سب سے پہلے امام حسین علیہ السلام کے خطبہ کی خبر نقل کی ہے اور اسکے بعد علمدار کر بلا کی شہادت کی خبر بیان کی ہے۔ تنہا اسی کتاب نے لکھا ہے کہ جب آخری وقت میں حضرت عباس کے ہاتھ کٹ گئے تو انھوں نے تلوار کو منہ سے پکڑ لیا ، اسکے بعد لکھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام خون سے غلطاں لاش پر پہنچے اور ان کی لاش کو گھوڑے کی پشت پر رکھ کرخیمے تک لائے، پھر امام حسین علیہ السلام نے شدید گر یہ کیا اور آپ کے ساتھ جتنے لوگ تھے وہ بھی رونے لگے۔(٤)

اس کے بعد آپ ملا حظہ کریں گے کہ یہ کتاب شب عاشور کے واقعہ کو نقل کر تی ہے جس میں امام حسین اپنے اصحاب کے پاس آئے اور ان سے کہا : ''اے میرے ساتھیوں ،یہ قوم میرے علاوہ کسی اور کو قتل کرنا نہیں چاہتی ہے پس جب شب کا سناٹا چھاجائے تو اس کی تاریکی میں تم سب یہاں سے چلے جاؤ ، پھر آگے بڑھ کر اس طرح رقمطرازہے: اور پھر امام علیہ السلام سو گئے اور جب صبح اٹھے ...۔''(٥)

____________________

١۔ص٥٢

٢۔ ص ٥٦

٣۔ص٥٧

٤۔ ص ٥٩

٥۔ ص ٥٩ ۔ ٦٠

۳۸

پھر وہاں سے پلٹ کر صبح عاشور کی داستان چھیڑ تے ہیں اور امام حسین علیہ االسلام کے ایک دوسرے خطبہ کا ذکر کر تے ہیں ۔تنہا یہی کتا ب ہے جو بیان کر تی ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے پسر سعد کے پاس انس بن کا ہل کو سفیر بنا کر بھیجا۔ جبکہ اس نا مہ بر کا نام انس بن حر ث بن کا ہل اسدی ہے ۔

تیسری بار پھر شب عاشورہ کا تذکر ہ چھیڑ ا اور اس میں امام علیہ االسلام کے ایک دوسرے معروف خطبہ کاذکر کیا جس میں امام نے اپنے اصحاب واہل بیت کو مخا طب کیا ہے۔ اس کے بعد پھر امام حسین علیہ السلام اور پسر سعد کے لشکر کی حکمت عملی کو بیان کیا ہے۔''(١)

١٢۔ تنہا یہی کتاب ہے جس نے امام حسین علیہ السلام کے اصحاب میں ابر اہیم بن حسین کا ذکر کیا ہے۔(٢)

١٣۔ اس کتاب نے طر ماح بن عدی کو شہید کر بلا میں شمار کیا ہے جبکہ طبری نے کلبی کے واسطہ سے ابو مخنف سے نقل کیا ہے کہ طرما ح کر بلا میں موجود نہ تھے اور نہ ہی وہ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ قتل ہوئے ہیں ۔(٣)

محدث قمی نے بھی اپنی کتاب نفس المہموم ص١٩٥ پر اس خبر کے نیچے تعلیقہ لگا یا ہے ۔

١٤۔ جناب حرریا حی کے قصے میں یہ شخص چند اشعار ذکر کر تا ہے جو عبید اللہ بن حر جعفی کے ہیں اور وہ قصر بنی مقاتل کا رہنے والا ہے۔(اس کی قسمت کی خرابی یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے اسے بلا یا تو اس نے مثبت جواب نہیں دیا اور سعادت کی راہ کو خود پر بند کر لیا) لیکن کتاب کی جمع آوری کر نے والے نے ان اشعار کو حر ریاحی سے منسوب کر دیا اور اس پر توجہ بھی نہ کی، کہ یہ اشعارحرریاحی کے حال سے تنا سب نہیں رکھتے، کیو نکہ اس میں ایک شعر کا مصرع یہ ہے :''وقفت علی اجسادہم وقبورہم''(٤)

____________________

١۔ ص ٦١ ٦٢

٢۔ص ٧٠

٣۔ص ٧٢

٤۔ص٧٦ ،طبری نے ج ٥ ص ٤٧٠طبع دار المعارف پر اس شعر کو ابو مخنف سے نقل کیاہے اور انہو ں نے عبد الر حمن بن جندب سے نقل کیا ہے کہ عبید اللہ بن حر نے اس شعر کو مدا ئن میں کہا تھا : یقول امیر غادر وابن غادر۔ ألا کنت قاتلت الشہید ابن فاطمہ ؟ ذرا غور کیجئے کہ اس خیا نت کا ر مؤلف نے کلمات بدل دیے تا کہ یہ شعر حر ریا حی کے حال سے متنا سب ہو جا ئے لیکن پھر بھی متنا سب حال نہ ہو سکا۔ ہا ئے افسوس کہ یہ جمع آوری کر نے والا شخص کتنا نادان تھا ۔

۳۹

١٥۔حر ریاحی کی شہادت پر اما م حسین علیہ السلام کی طرف چند رثائی اشعار منسوب کئے ہیں جبکہ یہ اشعار امام حسین علیہ السلام کی شان امامت سے منا سبت نہیں رکھتے ہیں

نعم الحر اذ واسی حسینا

لقد فازالذی نصرواحسینا!(١)

حر کیا اچھے تھے کہ انھوں نے حسین کی مدد کی حقیقت میں وہی کامیاب ہے جس نے حسین کی مدد کی!

١٦۔نیز اسی کتا ب میں چند اشعار کو امام حسین علیہ السلام کی طرف منسوب کیا گیاہے کہ آپ نے اصحاب کی شہادت پر یہ اشعار کہے جبکہ ان اشعار سے بالکل واضح ہے کہ یہ امام حسین علیہ السلام کے نہیں ہیں بلکہ متا خرین ہی میں سے کسی شاعرکے اشعار ہیں کیو نکہ شاعر اس میں کہتا ہے کہ ''نصرواالحسین فیا لھم من فتےة''اسی طرح کے اور دوسرے اشعاربھی ہیں ۔(٢)

١٧۔ اسی کتاب نے کر بلا میں امام حسین علیہ السلام کے ورود کا دن روز چہار شنبہ لکھا ہے(٣) اور شہادت کا دن روز دوشنبہ تحریر کیا ہے ۔(٤) اس کا مطلب یہ ہوا کہ امام حسین علیہ السلام پانچ محرم کو کر بلا وارد ہو ئے ہیں جبکہ تمام مورخین ، منجملہ تا ریخ طبری کی روایت کے مطابق ابو مخنف کا نظریہ بھی یہی ہے کہ امام علیہ السلام٢ محرم کو وارد کر بلا ہو ئے اور وہ پنجشنبہ کا دن تھا۔(٥)

١٨۔ اس کتا ب کی تدوین کر نے والے نے روایت نمبر ١٠٥(٦) سے مسلسل ایک ہی راوی سے کثرت کے ساتھ روایت نقل کی ہے جس کے بارے میں اس شخص نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کا نام سہل شہر زوری ہے۔ اس شخص کو مؤ لف نے کو فہ سے شام اور وہاں سے مد ینہ تک اہل حرم کے ساتھ دکھا یا

____________________

١۔ص ٧٩

٢۔ص ٨٥

٣۔ص ٤٨

٤۔ ص ٩٣

٥۔ ج ٥، ص ٤٠٩ ،اس مطلب کی تا ئید وہ روایت بھی کر تی ہے جسے اربلی نے کشف الغمہ، ج٢،ص ٥٥٢پرامام جعفر صادق سے نقل کیا ہے کہ'' وقبض یو م عاشورء ، الجمعہ ''جس کانتیجہ یہ ہو گا عاشور جمعہ کو تھا ۔

٦۔ص١٠٢

۴۰

ہے۔ کو فہ میں سلیمان بن قتّہ ہاشمی(١) کے ان اشعار کو جو اس نے امام حسین علیہ السلام کی قبر پر کہے تھے : '' مررت علیٰ ابیات آل محمدٍ ''(٢) مولف نے اسی شہر زوری کی طرف منسوب کر دیا ہے۔ اسی طرح شام میں سہل بن سعد ساعدی کی خبر کو اسی سہل بن سعید شہر زوری کے نام سے منسوب کر دیا ،(٣) گویا مؤلف نے گمان کیا ہے کہ یہ شخص وہی سھل ساعدی ہے۔

١٩۔اس کتاب میں امام حسین علیہ السلام سے رزمیہ اشعار اور رجز کو منسوب کیا گیا ہے جو تقریباً تیس اشعار پر مشتمل ہیں ۔(٤) اسی طرح عبید اللہ بن زیاد کے نزدیک عبداللہ بن عفیف ازدی کے قصید ہ کو بیان کیا ہے جو تقر یباً ٣٠ اشعار پر مشتمل ہے۔(٥)

٢٠۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کتاب میں ایسے الفاظ کی بہتات ہے جسے بعد میں آ نے والوں نے عربی میں داخل کر دیا ہے جب کہ وہ کو چہ و بازارکے الفاظ ہیں اور ایسے جملے ابو مخنف کی زبان سے اداہی نہیں ہو سکتے ، مثلا جناب مسلم کے لئے گڑھا کھودنے کے سلسلے میں یہ جملے ہیں :''واقبل علیهم لعین! وقال لهم... ونطمّها با لد غل و التراب ...وننهز م قدامه '' وہ لعین ان لوگوں کے پاس آیا اور ان سے کہا :'' اور اسے خس و خاشاک اور مٹی سے بھر دو ...اور ہم آگے سے ان پر حملہ کریں گے۔'' (ص ٣٥) دوسری جگہ یہ جملہ ہے:''راحت انصاره ''اس کے ساتھی ان کے پاس گئے۔(ص ١٣٥) تیسری جگہ یہ جملہ ہے :'' ویقظا نہ'' ان کو بیدار کیا ۔

____________________

١۔ شیخ محمد سماوی نے اس پر تعلیقہ لگا یا ہے کہ وہ شخص خاندان بنی ہا شم کا چاہنے والا تھا ۔ اس کی والدہ کا نام قتہ اور باپ کا نام حبیب تھا۔اس نے ١٢٦ ہجری میں دمشق میں وفات پائی ۔مسعودی نے انساب قر یش جو زبیر بن بکار کی کتاب ہے ، سے استفادہ کیا ہے کہ اس کا نام ابن قتتہ تھا (ج٤،ص٧٤)

٢۔ص١٠٢، ١٠٣

٣۔ص ١٢٣

٤۔ ص ٨٦ ۔٨٧، ان میں سے ١٧ بیتی ں علی بن عیسیٰ اربلی متوفی ٦٩٣ نے اپنی کتاب کشف الغمہ ، ج٢، ص ٢٣٨،طبع تبریزپر احمدبن ا عثم کوفی متوفی ٣١٤ھ کی کتاب الفتوح کے حوالے سے ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ امام علیہ السلام کا شیر خوار جب شہید ہو گیا تو آپ نے اپنے ننھے بچے کی قبر کھو دتے وقت یہ اشعار پڑھے تھے۔ اسی طرح اسی کتاب نے اس مو قع پر امام کے اشعار کو ذکر کیا ہے کہ جب آپ نے دشمن کی فوج پر زبر دست حملہ کیا تھا اور وہ فوج بھاگ گئی در حالیکہ ان میں سے ١٥٠٠ افراد فی النار ہو گئے امام یہ اشعار پڑھتے ہو ئے خیمے کی طرف بڑھے ۔ اربلی نے ص ٢٥٠پر اس بات کی صراحت کی ہے کہ یہ ابیات جس کا پہلا جملہ ''غدرالقوم''ہے جو بہت مشہور ہے اسے ابو مخنف نے ذکر نہیں کیا ہے، واللہ اعلم ۔ خو ارزمی ،متوفی ٥٦٨ہجری نے ابن اعثم ہی کے حوالے سے ان میں سے ٣ اشعار ذکر کئے ہیں ۔ (ج٦،ص٣٣)

٥۔ص١٠٨۔١٠٩

(ص ١٢٩) چو تھی جگہ جملہ یہ ہے : ''ویتحر ش''وہ دھوکہ دے رہا تھا۔ (ص١٣٦)

۴۱

ان تمام محذورات اورمشکلات کے باوجود میں تصور نہیں کرتا کہ کسی واقف کا ر انسان کے لئے اس کا احتمال بھی درست ہو کہ یہ کتاب ابو مخنف کی ہے بلکہ اس میں کو ئی شک نہیں ہے کہ یہ کتا ب جعلی ہے ۔

اسناد ابی مخنف

اب ہم آپ کے لئے تفصیلی طور پر ان راویوں کے اسماء کی فہر ست پیش کر تے ہیں جو ابو مخنف اور اس جانسوز واقعہ کے درمیان واسطہ ہیں ۔ہم ہر راوی کے نام کے سامنے اس روایت کو بھی ذکر کر یں گے جو انھوں نے نقل کی ہے۔ اس صورت میں خود کتاب کی احادیث کی فہرست بھی سامنے آ جا ئے گی۔

راویوں کے اختلاف، روایت کے کوائف اور ابی مخنف نے جن لوگوں سے روایتیں نقل کی ہیں ان کے اختلاف کے اعتبار سے ان اسماء کی فہرست چھ٦گروہ پر تقسیم ہوتی ہے ۔

راویوں کے اسماء

١۔پہلا گرو ہ وہ ہے جو اس جانسوزواقعہ کا عینی شاہد ہے اور اس نے ابی مخنف سے بلا واسطہ بطورمستقیم ان واقعات کو بیان کیا ہے؛ اس طرح ابو مخنف نے فقط ایک واسطہ سے معرکۂ کربلا کو صفحہ قرطاس پر تحریر کیا ہے۔ یہ گروہ تین افراد پر مشتمل ہے ۔

٢۔دوسرا گروہ بھی وہی ہے جو اس واقعہ کا عینی گواہ ہے لیکن اس نے اس واقعہ کوابومخنف سے بلا واسطہ نقل نہیں کیا ہے بلکہ ابو مخنف نے ایک یا دو واسطوں سے ان لوگوں سے واقعات نقل کئے ہیں یعنی معرکۂ کربلا کو دو یاتین واسطوں سے نقل کیا ہے۔اس گروہ میں ١٥افرادہیں ۔اس طرح کربلا کے روح فرسا واقعات کے عینی شاہدین کی تعداد١٨ہوتی ہے ۔

٣۔تیسرا گروہ وہ ہے جو واقعہ کربلا سے قبل یا بعد کسی نہ کسی طرح اس واقعہ میں شریک تھا ۔ان لوگوں نے ابو مخنف سے ان واقعات کی حکایت بلا واسطہ کی ہے اور ابو مخنف نے ان لوگوں سے ایک واسطہ سے اس معرکہ کا نقشہ پیش کیا ہے۔ یہ گروہ پانچ افراد پر مشتمل ہے ۔

۴۲

٤۔ چوتھے گروہ میں بھی وہی لوگ ہیں جو کسی نہ کسی طرح واقعہ کر بلا کے پہلے یا بعد اس جا نسوز واقعہ میں شریک تھے لیکن ابو مخنف نے ایک یا دو واسطہ سے ان لوگوں سے روایت نقل کی ہے اور وہ ١ ٢افراد ہیں ۔

٥۔ پانچواں گروہ وہ ہے جو نہ تو اس واقعہ کا عینی شاہد ہے اور نہ ہی اس واقعہ میں شریک ہے یہ افر اد ابو مخنف کی روایت اور ان راویوں کے در میان واسطہ ہیں ۔ اس بنا پر ابو مخنف نے معرکہ کربلا اور وہاں گزرنے والے واقعات کو ان لوگوں سے ایک یا چند واسطوں سے نقل کیا ہے اور وہ ٢٩ افراد ہیں ۔

٦۔چھٹاگروہ وہ ہے جو عادل اور نیک کردار ہے، جس میں ائمہ کے اصحاب یا خود ائمہ علیہم السلام موجود ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جو نہ تو اس معرکہ کے عینی شاہد ہیں نہ ہی العیاذ باللہ اس واقعہ میں شامل تھے۔ اس طرح یہ افراد بھی وسائط ہی میں شمار ہوتے ہیں لیکن ان لوگوں نے واسطہ سے حدیثیں نہیں بیان فرمائی ہیں یا واسطہ کی صراحت نہیں کی ہے اور یہ ١٤افراد ہیں ۔

اس جدول سے یہ روشن ہوجا تا ہے کہ جن لوگوں نے بالواسطہ یا بلا واسطہ ابو مخنف سے حدیثیں نقل کی ہیں وہ کل انتالیس(٣٩) افراد ہیں جنھوں نے سند کے ساتھ٦٥ روایات نقل کی ہیں اور کتاب ابو مخنف کل انھیں روایتوں کا مجموعہ ہے جو فی الوقت ہماری دست رس میں نہیں ہے۔ ہم نے ان افراد کی شرح احوال یا تو کتب رجالی سے حاصل کی ہے یا تاریخ طبری میں ان کی روایت کے سلسلے میں تحقیق کے ذریعہ حاصل کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بعض لوگوں کاکوئی پتہ نہ چل سکا۔ اب ہم تفصیلی طور پرمذکورہ فہرست کو بیان کررہے ہیں ۔

پہلی فہرست

وہ لوگ جو واقعہ کربلاکے عینی شاہد ہیں اور انھوں نے ابو مخنف سے بلا واسطہ روایتیں نقل کی ہیں جن کی تعداد تین ٣افراد پر مشتمل ہے۔

۴۳

١۔ ثابت بن ہبیرہ :

اس شخص نے عمرو بن قرظہ بن کعب انصار ی اور اس کے بھائی علی بن قرظہ کی شہادت کا تذکرہ کیا ہے۔پورے مقتل میں اس راوی سے فقط یہی ایک روایت نقل ہوئی ہے اور مجھے رجال کی کسی کتاب میں اس کا تذکرہ نہیں ملا۔، کتاب کی عبارت اس طرح ہے :'' قال ابومخنف عن ثابت بن هبیره : فقتل عمرو بن قرظه بن کعب...'' (١) ابومخنف ، ثابت بن ہبیرہ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ عمر وبن قرظةبن کعب نے جام شہادت نوش فرمایااس عبارت سے ظا ہر ہوتا ہے کہ راوی کربلا میں تھا اور اس نے اس روایت کو بلا واسطہ نقل کیا ہے ۔

٢۔ یحٰی بن ہانی بن عروة المرادی المذحجی:

اس نے نافع بن ہلال جملی کی شہادت کا تذکرہ کیا ہے۔ متن روایت اس طرح ہے : ''حدثنی یحٰی ان نافع ...''(٢) مجھ سے یحٰی نے بیان کیا ہے کہ نافع ۔واضح ہے کہ راوی نے بلا واسطہ نقل کیاہے۔

یحٰی کی ماں کا نام روعہ بنت حجاج زبیدی ہے جو عمرو بن حجاج زبیدی کی بہن ہے یعنی مذکورہ شخص یحٰی کا ماموں ہے۔(٣) یہ ملعون اپنے ماموں عمر وبن حجاج کے ساتھ عمر بن سعد کے لشکر میں تھا اور اس نے نافع بن ہلال جملی کی شہادت کا تذکرہ کیا ہے۔اسی ملعون نے نقل کیا ہے کہ میں نے اپنے ماموں عمروبن حجاج زبیدی کو نافع بن ہلال کی شہادت کے بعد یہ کہتے سنا کہ وہ اپنے لشکر کو جنگ سے روک رہا تھا اور حکم دے رہا تھا کہ حسین اور اصحاب حسین(علیہم السلام) پر پتھر برسائیں ۔ اس کے بعد یحٰی نے اپنے ماموں سے اس واقعہ کے بارے میں کچھ نقل نہیں کیا ہے۔(٤) اسی یحٰی نے ابن زبیر کی طرف سے منسوب والیٔ کوفہ عبداللہ بن مطیع عدوی کے لئے اپنے ماموں کی اس گفتار کو بھی نقل کیا ہے کہ جوعبد اللہ بن مطیع کو مختار بن ابو عبید ثقفی کے خلاف جنگ کرنے پر بھڑ کا رہی تھی۔ خود یحٰی مختار کے خلاف جنگ میں اپنے ماموں کے ہمراہ شریک تھا۔(٥)

ا بن حباّن نے یحٰی کو ثقات میں شمار کیا ہے۔ دار قطنی نے کہاکہ اس کی باتوں کے ذریعہ استدلال کیا جاسکتا ہے۔نسائی کہتے ہیں :یہ ثقہ ہے اور ابو حاتم نے اضافہ کیا ہے کہ یہ بزرگان کوفہ میں شمار

____________________

١۔تاریخ طبری، ج٥،ص٤٣٤

٢۔ طبری ،ج٥ ،ص٤٣٥

٣۔ طبری ،ج٥، ص٣٦٣

٤۔ طبری ،ج٥ ،ص٤٣٥

٥۔طبری،ج٦ ،ص٢٨

۴۴

ہوتا ہے۔ شعبہ نے کہا : ''کان سید اہل الکوفة''یہ اہل کوفہ کا سید و سردار ہے ، جیسا کہ تہذیب التہذیب میں بھی یہی مرقوم ہے۔

٣۔ زہیربن عبدالرحمن بن زہیر خثعمی :

اسی نے سوید بن عمروبن ابی مطاع خثعمی کی شہادت کاذکر کیا ہے متن روایت اس طرح ہے :''حدثنی ...قال ...کان ''اس نے مجھ سے بیان کیا ہے ...اسی نے کہا(١) اس شخص سے فقط یہی ایک روایت نقل ہوئی ہے اورکتب رجالی میں ہم کو کہیں بھی اس کا تذکرہ نہیں ملا ۔

دوسری فہرست

یہ گر وہ بھی کر بلا کے دلسوز واقعہ کا چشم دید گواہ ہے لیکن ابو مخنف نے ان لو گوں سے ایک یا دو واسطوں سے واقعات کر بلا کو نقل کیا ہے اور یہ ١٥ افراد ہیں ۔

١۔ عقبیٰ بن سمعان:(٢)

اس شخص نے امام حسین علیہ السلام کے کربلا پہنچنے کی روایت کو نقل کیا ہے نیز ابن زیاد کی طرف سے حر کو خط لکھنے کی خبر بھی اسی نے بیان کی ہے۔ (ج٥،ص٤٠٧)اس شخص سے ابو مخنف ایک واسطہ سے روایت نقل کر تے ہیں ۔

٢۔ ہانی بن ثبیت حضرمی سکونی :

اسی شخص نے کر بلا میں امام حسین علیہ السلام کے وارد ہو نے کے بعد دونوں لشکر کے درمیا ن امام حسین علیہ السلام اور پسر سعد کی ملا قات کو نقل کیا ہے۔اسی طر ح عاشورا سے قبل بھی ایک ملا قات کو نقل کیا ہے ۔ روایت کامتن اس طرح ہے :''حدّ ثنی ابو جناب عن ها نی وکا ن قد شهد قتل الحسین'' مجھ سے ابو جناب نے ہا نی کے حوالے سے نقل کیا ہے در حا لیکہ وہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا عینی شاہدہے۔ (ج٥ ، ص٤١٣) یہی شخص عبداللہ بن عمیر کلبی کی شہادت میں شریک ہے جو سپا ہ امام حسین علیہ السلام کے دوسرے شہید ہیں ۔ (ج٥، ص ٤٣٦) اسی

____________________

١۔ طبری، ج٥، ص٤٤٦

٢۔یہ شخص سکینہ بنت الحسین علیہ السلام کی ما ں جناب رباب بنت امر ء القیس کلبیہ کا خد مت گذار ہے عاشور کے دن اسے پکڑ کر عمر بن سعد کے پاس لایا گیا اور اس سے پو چھاگیا کہ تو کون ہے؟ تو اس نے جواب دیا : ''انا عبد مملوک'' میں ایک مملوک (غلام) ہو ں ، تو پسر سعد نے اسے چھوڑ دیا ۔ طبری (ج٥ ، ص ٤٥٤)

۴۵

ملعون نے امیر المو منین کے دو فر زند عبد اللہ اور جعفر کو شہید کیا۔ اسی طرح خا ندان امام حسین علیہ السلام کے ایک نوجوان کو قتل کیا ، نیز اسی گمراہ شخص نے امام حسین علیہ السلام کے فرزند عبداللہ کو شہید کر کے جناب رباب کی آغوش کو ویران کر دیا ۔ (ج٥، ص ٤٦٨)

٣۔حمید بن مسلم ازدی :

اس شخص سے مندرجہ ذیل خبریں نقل ہوئی ہیں :

(الف) ابن زیاد نے پسر سعد کو خط لکھا کہ حسین اور اصحاب حسین علیہم السلام پر فوراً پانی بند کر دیا جائے اورشب ٧ محرم کو حضر ت ابو الفضل العباس پانی کی غرض سے باہر نکلے۔(ج٥، ص ٤١٢)

(ب) شمر ملعون کو کر بلا بھیجا گیا۔ (ج٥،ص ٤١٤)

(ج) امام حسین علیہ السلام کی سپاہ پر یزید ی فوج نے حملہ کر دیا ۔(ج٥،ص٤٦٩)

(د)امام حسین علیہ السلام کی شہادت سے قبل جب شمر نے مخدارت عصمت کے خیمہ پر حملہ کیا تو امام حسین علیہ السلام نے اسے للکا را اور فرمایا:'' شیعہ آل ابی سفیان''نیز نماز ظہر اور جناب حبیب بن مظاہر کی شہادت ۔(ج٥،ص٤٣٩)

(ھ) جناب علی اکبر کی شہادت پر امام حسین علیہ السلام کا بیان ، آپ کی شہادت پر حضرت زینب کبری کا خیمہ سے باہر نکل آنا، جناب قاسم بن حسن علیہ السلام کی شہادت اور امام حسین علیہ السلام کی آغوش میں آپ کے نو نہال عبداللہ کی شہادت ۔(ج٥، ص ٤٤٦۔ ٤٤٨)

(و) اپنے تمام اصحاب وانصار کی شہادت کے بعد سے لے کر اپنی شہادت تک سر کا ر سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام کی حالت ۔(ج٥، ص٥٥١۔ ٤٥٢)

(ز) امام کی شہادت کے بعد آپ کے فرزند امام زین العابدین علیہ السلام کے قتل پر لشکر میں اختلاف عقبیٰ بن سمعان کی گر فتاری اور رہائی کی خبر ، امام حسین علیہ السلام کے جسم مبارک پر گھوڑے دوڑانا اور حمیدبن مسلم کا خولی بن یزید اصبحی کے ہمراہ امام حسین علیہ السلام کے سر کو ابن زیادکے پاس لے جا نا۔ (ج٥، ص ٤٥٥)

۴۶

(ح)ابن زیاد کا خولی کو اپنے گھر کی طرف روانہ کرنا تاکہ وہ ابن زیاد کے اہل وعیال تک اس کی خیریت کی خبر پہنچا دے ، ابن زیاد کا دربارمیں چھڑی کے ذریعہ امام حسین علیہ السلام کے لبوں سے بے ادبی کر نا ، اس جانکاہ منظر کو دیکھ کر زید بن ارقم کا ابن زیاد کو حدیث نبوی کی طرف متوجہ کرانا، اس پر ابن زیاد کا زید کو جواب دینا ، پلٹ کر زید بن ارقم کا ابن زیاد کو جواب دینا، حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا دربارابن زیاد میں وارد ہو نا ،نیز اس ملعون کا ستانے کی غرض سے حضرت سے ہم کلام ہو نا ،اس پر حضرت زینب کبریٰ کا ابن زیاد کو مسکت جواب دینا ،پر یشان ہو کر ابن زیاد کا دوبارہ چھڑی کے ذریعہ اما م حسین کے لبوں سے بے ادبی کر نا ، عمرو بن حریث اور ابن زیاد کا امام زین العابدین علیہ السلام سے ہم کلام ہو نا ، اس پرامام علیہ السلام کا اسے جواب دینا ، اس جواب سے غصہ میں آکرابن زیادکا امام علیہ السلام کو قتل کر دینے کا ارادہ کرنا، اس پر آپ کی پھو پھی زینب کا امام علیہ السلام سے لپٹ جانا اور آخرمیں ابن زیاد کا مسجد میں خطبہ دینا ،اس پر عبداللہ بن عفیف کا اعتراض اور ان کی شہادت کی روداد، یہ سب حمید بن مسلم نے نقل کیا ہے ۔

روایات کی سند

ان تمام روایات میں ابو مخنف کے لئے حمید بن مسلم سے روایت نقل کرنے کا واسطہ سلیمان بن ابی راشد ہیں ۔جستجو کر نے والے پر یہ بات روشن ہے کہ مختلف منا سبتوں کے اعتبارسے اس سند میں تقطیع (درمیان سے حذف کرنا) کی گئی ہے۔ان اخبار کو ملا حظہ کر نے کے بعد اندازہ ہو تا ہے کہ یہ پورا واقعہ شمرکے بھیجے جانے سے شروع ہو تاہے اور ابن زیاد کے درباراور عبداللہ بن عفیف کی شہاد ت پر تمام ہو تا ہے ۔

۴۷

یہیں سے دقت کر نے پر یہ بات بھی واضح ہو جا تی ہے کہ حمید بن مسلم ، شمر بن ذ ی الجوشن کلا بی کے لشکر کے ہمراہ تھا ، خصوصاًیہ بات وہاں پر اور واضح ہو جاتی ہے جب یہ دیکھتے ہیں کہ حمید نے متعددمر تبہ شمر سے گفتگوکی ہے اور بہت سارے مواردمیں اسی نے شمر کی سرزنش کی ہے۔ اسی طرح حمید بن مسلم کا امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد خیموں میں موجود ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ شخص شمر کے لشکر میں تھاکیو نکہ امام کی شہا دت کے بعد اسی ملعون نے اپنے اوباش ساتھیوں کے ساتھ خیمے پر حملہ کیا تھا اور اس کے علاوہ کسی نے بھی یہ قبیح فعل انجام نہیں دیا ہے۔

اسکے بعد یہی حمید بن مسلم تو ابین کے انقلاب میں بھی ہمیں شر یک نظر آتا ہے ، (ج ٥، ص٥٥٥)نیز قید خانے میں حمید نے مختار سے بھی ملا قات کی ہے لیکن سلیما ن کو مختا ر سے برحذر کیا اور انھیں خبری دی کہ مختار لو گو ں کو تمہاری مدد کرنے سے روک رہے ہیں ۔یہ سنتے ہی حمید ، مختار سے منہ موڑ لیتا ہے(ج٥، ص٥٨١۔ ٨٥٤)اور تو ابین کے ساتھ شکست کھا کر لوٹ جا تاہے۔ (ج٥، ص٦٠٦) حمید بن مسلم ، ابرا ہیم بن مالک اشتر نخعی کا دوست تھا اور اس کا ابراہیم کے یہاں آنا جانا تھا لہٰذاتو ابین کے انقلاب کے بعد وہ ہرشب ابر اہیم کے ہمراہ مختار کے پاس جا یا کر تاتھا ، صبح تک تدبیر امور میں مشغول رہتااور صبح ہو تے ہی لوٹ آتا تھا۔ (ج٦،ص ١٨) حمید بن مسلم شب سہ شنبہ شب قیام مختار ابر اہیم کے ہمراہ ان کے گھر سے نکلا اور سو(١٠٠) برہنہ شمشیر سپا ہیوں کے ہمراہ جو اپنی قباؤں کے اندر زرہ پوش تھے (ج٦،ص١٩) مختار کے گھر پہنچا (ج٦،ص٣٦)لیکن جب اس کو معلوم ہو اکہ مختار کا مصمم ارادہ یہ ہے کہ قاتلین امام حسین علیہ السلام سے انتقام لیں گے تو اس نے عبدالرحمن بن مخنف ازدی (ابو مخنف کے چچا) کے ہمراہ مختار کے خلاف خروج کر دیا۔اس مڈبھیڑ میں جب عبدالرحمن زخمی ہو اتو حمید نے چند رثائی اشعار کہے (ج٦،ص٥١) اور جب عبدالرحمن بن مخنف نے کو فہ سے فرار کر کے بصرہ میں مصعب بن زبیرکے یہاں پناہ لی تو حمید بھی اس سے ملحق ہو گیا۔ (ج٦،ص٥٨) تاریخ طبری میں اس کا آخری تذکرہ اس طرح سے ملتا ہے (ج٦،ص٢١٣)کہ اس نے عبد الرحمن بن مخنف پر اس وقت مرثیہ سرائی کی جب '' کا زرون'' کے نزدیک خوارج کے ایک گروہ نے ٧٥ ہجری میں اسے اس وقت قتل کردیا جب وہ مھلب بن صفرہ کے ہمراہ حجاج بن یوسف ثقفی کی طرف سے گروہ خوارج کے ساتھ جنگ کر رہا تھا۔ذہبی نے میزان الاعتدل (ج١،ص ٦١٦)میں اور ابن قدامہ نے مغنی (ج١،ص١٩٥) میں اس مطلب کا ذکر کیا ہے ۔

۴۸

٤۔ضحاک بن عبداللہ مشرقی ہمدانی:

شب عاشور اور روز عاشور کا واقعہ اسی شخص کی زبانی نقل ہوا ہے نیز لشکر کا مقابلہ اورروزعاشور امام علیہ السلام کا مفصل خطبہ بھی اسی راوی نے نقل کیا ہے (ج٥،ص٤١٨۔٤١٩، اور٤٢١،٤٢٣،٤٢٥،٤٤٤)

ابو مخنف نے ان واقعات کو ایک واسطہ سے ضحاک بن عبد اللہ سے نقل کیا ہے اور اس واسطہ کا نام عبد اللہ بن عاصم فائشی ہمدانی ہے ۔یہ بات پو شیدہ نہیں ہے کہ یہ شخص بھی ہمدانی ہے اور یہ وہی شخص ہے جس نے امام حسین علیہ السلام سے اس شرط پر ساتھ رہنے کا عہد کیا تھا کہ اگر آپ کے اصحا ب شہید ہو گئے تو میں نکل بھا گوں گا؛ امام علیہ السلام نے بھی اسے قبول کر لیا اور وہی ہوا کہ جب اصحاب وانصار شہید ہو گئے تو یہ شخص اپنی جان بچا کرعین معرکہ سے بھا گ گیا۔ (ج٥،ص ٤١٨، ٤٤٤) شیخ طوسی نے اپنی کتاب رجال میں اسے امام زین العابدین علیہ السلام کے اصحاب میں شمار کیا ہے! ۔

٥۔ امام زین العابدین :

امام علیہ السلام سے شب عاشورکا واقعہ دو واسطوں سے نقل کیا گیاہے ۔

(الف) حار ث بن حصیرہ نے عبداللہ بن شریک عامر ی سے اورعامری نے امام سجاد سے روایت نقل کی ہے۔ (ج٥،ص٤١٨)

(ب) حارث بن کعب والبی ازدی کو فی اور ابو ضحاک بصری دونوں نے امام علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے۔ (ج٥،ص٤٢٠)

٦۔ عمرو حضرمی :

یہ شخص عمر بن سعد کے لشکر کا کا تب تھا۔ (ج٥،ص٤٢٢) عمرو حضرمی دو و اسطوں سے حدیث بیان کر تا ہے۔ لیکن اہل رجال کے نزدیک یہ شخص غیر معروف ہے ۔

٧۔ غلام عبد الر حمن انصاری :

عبد الرحمن بن عبد ربّہ انصاری کے غلام سے شب عاشور بریر بن خضیر ہمدانی کے مزاح کا واقعہ منقول ہے۔ ابو مخنف نے یہ واقعہ دو واسطوں سے نقل کیا ہے اور وہ دونوں واسطے اس طرح ہیں : ''عمروبن مرّہ جملی نے ابی صالح حنفی سے نقل کیاہے'' دو سری خبر میں اس طر ح آیا: ''جب میں نے ان لو گو ں کو تیزی کے ساتھ آتے ہو ئے دیکھا تو پیچھے ہو گیا اور ان کو چھوڑ دیا''۔ (ج٥،ص٤٢١و٤٢٢)

۴۹

٨۔ مسروق بن وائل حضرمی :

جنگ شروع ہوتے وقت ابن حوزہ کی روایت اسی شخص سے دو واسطوں (عطاء بن سائب اور عبد الجبار بن وائل حضرمی) کے ذریعہ نقل ہوئی ہے۔اس نے کہا :''کنت فی اوائل الخیل ممن سارالی الحسین ''میں اس لشکر میں آگے آگے تھا جو امام حسین کی طرف روانہ کیا گیا تھا میں اس آرزو میں تھا کہ حسین کا سر کا ٹ کر ابن زیاد کے پاس لیجاؤں تا کہ اس کے دربار میں مجھے کو ئی مقام حاصل ہو سکے۔''...فرجع مسروق وقال لقد رایت من اهل هذالبیت شیئاًلا اقاتلهم ابداً'' (ج٥، ص ٤٢١)

پھر مسروق وہاں سے پلٹ آیا اور اس نے کہا : میں نے اس خاندان میں ایسی چیزدیکھی ہے کہ میں کبھی بھی ان سے نہیں لڑوں گا ۔

٩۔ کیثر بن عبداللہ شعبی ہمدانی :

ابو مخنف نے زہیربن قین کا خطبہ علی بن حنظلہ بن اسعد شبامی کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔ شبامی نے اس خطبہ کو اپنے ہی قبیلہ کے ایک شخص سے نقل کیا ہے جو امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا شاہد تھا ،اس کانام کثیر بن عبداللہ شعبی ہے۔ (ج٥،ص ٤٢٦) طبری نے ہشام سے اوراس نے عوانہ سے نقل کیا ہے کہ وہ بڑا شجاع اور بے باک تھا کبھی بھی پیٹھ نہیں دکھا تاتھا۔ جب عمر بن سعد نے اپنے لشکر کے سپہ سالاروں سے چاہاکہ وہ امام حسین علیہ السلام کے پاس جائیں اوران سے سوال کریں کہ وہ کیوں آئے ہیں اور کیا چاہتے ہیں ؟ تو تمام لوگوں نے انکارکردیا اور امام حسین کے سامنے جانے میں جھجھک کا اظہار کیا ،کوئی بھی جانے کے لئے تیار نہیں ہوا۔ اسی اثنا میں کثیر بن عبداللہ شعبی اٹھا اور بولا : میں حسین کی طرف جاؤں گا ، خدا کی قسم اگر آپ چاہیں تو غافل گیر کر کے میں ان کا خاتمہ بھی کر سکتا ہوں یہ شخص اسلحے سے لیس ہو کر وہاں پہنچا تو زہیر قین نے کہا : اپنی تلوار اپنے جسم سے جدا کر کے آئو ! اس ملعون نے کہا : ہر گز نہیں !خد ا کی قسم یہ میری کرامت کے منافی ہے۔ اس کے بعد دونوں میں نوک جھونک ہو نے لگی ...۔(ج٥ ،ص٤١٠)

یہی وہ شخص ہے جس نے مہاجر بن اوس کے ہمراہ زہیر بن قین بجلی پرحملہ کیا اور ان دونوں ملعونوں نے مل کر اس شجاع اور پاک طینت انسان کو شہید کر دیا(ج٥، ص ٤٤١)

۵۰

١٠۔ زبیدی :

یہ شخص دوسرے حملہ کی خبر نقل کر تاہے۔(ج٥، س٤٣٥) یہ یمن کے قبیلہ زبید کا ایک فرد ہے جو اپنے قبیلہ کے سردار عمروبن حجاج زبیدی کی سپہ سالا ری کے واقعات کی روایت کر تا ہے۔

١١۔ ایو ب بن مشر ح خیوانی:

اس شخص نے مادروہب کلبی کی جانثاری ، فداکاری اور خلوص کا تذکرہ کیا ہے۔اس کے علاوہ جناب حر کے گھوڑے کو اسی نے پئے کیا تھا ۔ جب جناب حر کی شہادت کے بعد قبیلہ والوں نے اسے للکارا اور آپ کی شہادت کے سلسلے میں اسے متہم کیا تو اس نے کہا :''لا واللّه ما انا قتلته ولکن قتله غیری'' نہیں خدا کی قسم میں نے انہیں قتل نہیں کیاہے ، انہیں تو میرے علاوہ کسی دوسرے نے قتل کیا ہے''وما احبّانی قتلته'' : نہ فقط یہ کہ میں نے انہیں قتل نہیں کیابلکہ میں تواس بات کو پسند بھی نہیں کرتا تھاکہ میں ان کے قتل میں شرکت کرو ں ۔اس پر'' ابو ودّاک جبر بن نوف ہمدانی ''نے کہا :ولم لا ترضی بقتله ،تم ا ن کے قتل سے کیوں راضی نہیں تھے ؟ اس نے کہا :''زعموا انہ کان من الصا لحین'' لوگ یہ سمجھتے تھے کہ وہ نیک سرشت ہیں ''فو اللّه لئن کان آثما... ''خدا کی قسم اگروہ گناہگار تھے اورخداوندعالم اگر مجھے جہنم میں ان کوزخمی کرنے کے گناہ میں ڈالنا چاہتاتو اس موقف کو پسند کرتا بجائے اس کے کہ مجھے ان میں سے کسی ایک کے قتل کردینے کے عذاب میں مبتلاکردے،ا س پر ابوودّاک نے کہا:''مااراک الا ستلقی اللّه بأثم قتلهم اجمعین...انتم شرکاء کلکم فی دمائهم ''میں تو اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں سمجھتا کہ عنقریب خدائے متعال تم کو ان سب کے قتل کے عذاب میں مبتلاکرے گا...تم سب کے سب ان کے خون میں شریک ہو۔ (ج٥،ص٤٣٧)

١٢۔ عفیف بن زہیر بن ا بی الاخنس :

یہ شخص بریر بن خضیر ہمدانی کی شہادت کو بیان کرتا ہے ، وہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا عینی گواہ ہے۔وہ اپنی اس روایت میں یہ کہتا ہے کہ واقعہ کربلا سے قبل بریر مسجد کوفہ میں ان ظالموں کو قرآن مجید کا درس دیا کرتے تھے ۔ (ج٥ ،ص ٤٣١)

١٣۔ ربیع بن تمیم ہمدانی :

اس شخص نے عابس بن شبیب شاکری کے مقتل کو بیان کیا ہے اور وہ کربلا کے جانسوز واقعے کا عینی شاہد ہے ۔(ج ٥، ص٤٤٤)

۵۱

١٤۔ عبداللہ بن عمار با رقی :

اس نے دشمنوں پر حملہ کے وقت امام حسین علیہ السلام کی حالت کو بیان کیاہے اور یہ شخص بھی امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا عینی گواہ ہے۔ لوگوں نے جب اس بات پر اس کی ملامت کی کہ تو امام حسین کی شہادت کے وقت وہاں موجود تھا تو اس ملعون نے اپنی جنایت کاریوں کی توجیہ کرتے ہوئے کہا :''ان لی عند بنی ہاشم لَےَداً ''میں نے بنی ہاشم کی خدمت کی ہے اس سلسلے میں کسی حد تک ان پر حق رکھتا ہوں ۔لوگوں نے اس سے پوچھا : بنی ہاشم کے پاس تمہارا کونسا حق ہے ؟ تو اس ملعون نے کہا : میں نے نیزوں سے حسین پر حملہ کیا یہاں تک کہ بالکل ان کے نزدیک پہنچ گیا لیکن وہاں پہنچ کر میں اپنے ارادہ سے منصرف ہو گیااور تھوڑی دور پر جا کرکھڑا ہوگیا ۔(ج٥ ، ص٤٥١)

١٥۔ قرة بن قیس حنظلی تمیمی :

اس شخص نے شہداء کے سرکو تن سے جداکئے جانے اور اہل بیت اطہار کی اسیری کی غم انگیز اور جگر سوز داستان کو بیا ن کیا ہے ۔ (ج٥ ، ص ٤٥٥)یہ شخص اپنے قبیلہ کے سر دار حر بن یزید ریاحی تمیمی کے ہمراہ اس لشکرمیں تھا جو امام حسین علیہ السلام کاراستہ روکنے کے لئے آیا تھا ۔ (ج٥،ص٤٢٧) یہ وہی شخص ہے جسے پسر سعد نے امام حسین علیہ السلام کے پاس بھیجا تھا تاکہ وہ آپ سے سوال کرے کہ آپ کس لئے آئے ہیں اور کیا چاہتے ہیں ؟ جب یہ شخص امام حسین علیہ السلام کے پاس آیا تو اس نے امام علیہ السلام کو سلام کیا ۔حبیب بن مظاہر اسدی نے اس کو امام حسین علیہ السلام کی نصرت و مددکی طرف دعوت دی لیکن اس نے انکار کردیا۔ (ج٥ ،ص ٤١١) یہی وہ شخص ہے جس نے روایت نقل کی ہے کہ جب حر نے امام حسین علیہ السلام کی طرف جانے کاارادہ کیا تو مجھ سے پوچھا : کیا تم اپنے گھوڑے کوپانی پلانا نہیں چاہتے ہو ؟ یہ کہہ کر حر اس سے دور ہوگئے اور امام حسین علیہ السلام سے ملحق ہوگئے ۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اگر حر نے مجھے اپنے ارادے سے آگا ہ کردیا ہوتاتو میں بھی ان کے ہمراہ حسین سے ملحق ہوجاتا ۔(ج٥ ، ص٤٢٧)

جی ہاں یہی وہ ١٥افراد ہیں جو کربلا کے دلسوز اور غمناک واقعہ کے عینی شاہد ہیں اور ابومخنف نے ان لوگوں سے ایک یا دو واسطوں سے روایت نقل کی ہے ۔

۵۲

تیسری فہرست

تیسری فہرست میں وہ لوگ ہیں جو ان واقعات کے شاہد ہیں اور وہاں حاضر تھے۔ ان لوگوں نے بغیر کسی واسطے کے خود ابو مخنف سے واقعات بیان کئے ہیں اور یہ چارافراد ہیں :

١۔ ابو جناب یحٰی بن ابی حیہّ الوداعی کلبی :

اس شخص نے ا بن زیاد سے جناب مسلم بن عقیل کے ساتھیوں کے مقابلہ کو نقل کیا ہے (ج٥ ص ٣٦٩ و ٣٧٠) نیز جناب مسلم اور ہانی بن عروہ کے سر کو یزید کی طرف بھیجے جانے اور خط لکھ کر اس خبر سے آگاہ کرنے کی روایت بھی اسی شخص سے ملتی ہے۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ ابو جناب ان خبروں کو اپنے بھائی ہانی بن ابی حیہ وداعی کلبی کے حوالے سے نقل کرتا ہے ، کیونکہ ہانی بن ابی حیہ کے ہاتھوں ابن زیاد نے یزید کو خط روانہ کیا تھا۔

تاریخ طبری میں اس شخص سے ٢٣ روایتیں منقول ہیں ، جن میں سے ٩روایتیں جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان سے متعلق ہیں جو بالواسطہ ہیں اور ٩روایتیں کربلا سے متعلق ہیں جن میں سے پانچ بالواسطہ ہیں اور چار مرسل ہیں (یعنی درمیان سے راوی حذف ہے) ۔آخری روایت جو میرے ذہن میں ہے اورمرسل ہے وہ مصعب بن زبیر کا ابراہیم بن مالک اشتر کو خط لکھنے کا واقعہ ہے جس میں مصعب نے ابراہیم کو مختار کے بعد ٦٧ ہجری میں اپنی طرف بلایا تھا۔ (ج٦ص١١١) تہذیب التہذیب (ج١١،ص٢٠١)پر اس کی پوری بایو گرافی موجود ہے۔ اس میں راوی کے سلسلے میں یہ جملہ ملتا ہے : ''کوفی صدق مات ٤٧ھ ''یہ شخص کوفی تھا ،سچا تھا اور ١٤٧ ہجری میں اس کی وفات ہوئی۔

۵۳

٢۔ جعفر بن حذیفہ طائی:

جناب مسلم نے اپنی شہادت سے پہلے امام حسین علیہ السلام کو اہل کوفہ کی بیعت کے سلسلے میں جو خط لکھا ہے اس کی روایت اسی شخص سے نقل ہوئی ہے، نیز محمد بن اشعث بن قیس کندی اور ایاس بن عثل طائی کے خط کاراوی بھی یہی شخص ہے جس میں ان لو گو ں نے امام حسین کو جناب مسلم کی گر فتاری اور ان کی شہادت کی خبر پہنچائی تھی۔ (ج ٥، ص٣٧٥)

ذہبی نے میزان الاعتدال میں اس کا تذکر ہ کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ شخص علی سے روایت نقل کرتا ہے اور اس سے ابومخنف نے روایت نقل کی ہے۔جنگ صفین میں یہ شخص علی علیہ السلام کے ہمراہ تھا ۔ ابن حبان نے اسے ثقات(معتبر وثقہ راویوں) میں شمار کیا ہے ، پھر کہا ہے کہ معلوم نہیں ہے کہ یہ کون ہے ؟

طبری نے اس شخص سے ٥روایتیں نقل کی ہیں ،جن میں سے دو روایتیں جنگ صفین سے متعلق ہیں ،دوروایتیں خوارج کے ایک گروہ جس کا تعلق قبیلہ طئی سے تھا، کے سلسلے میں اورایک واقعہ کر بلا کے ذیل میں و ہی مسلم بن عقیل کی خبر ہے جو گزشتہ سطروں میں بیان ہوچکی ہے ۔

٣۔ دلہم بنت عمرو :

یہ خاتون، زہیربن قین کی زوجہ ہیں ۔ جناب زہیر بن قین کا امام حسین کے لشکر میں ملحق ہو نے کا واقعہ انھیں خاتون سے مروی ہے۔ روایت کا جملہ اس طرح ہے کہ ابو مخنف کہتے ہیں دلہم نے مجھ سے اس طرح روایت نقل کی ہے ۔(ج٥، ص٣٩٦)

۵۴

٤۔ عقبہ بن ابی العیزار :

امام حسین علیہ السلام کی دواہم خطبے جسے آپ نے مقام '' بیضہ'' اور مقام ذی حسم میں پیش کیا تھا اسی شخص سے مروی ہیں ،نیز امام حسین علیہ السلام کے جواب میں زہیر بن قین کی گفتگو،امام حسین علیہ السلام کے اشعار اور طرماح بن عدی کے اشعار کی بھی اسی شخص سے روایت نقل ہوئی ہے ۔(ج٥ ، ص٤٠٣) ایسا لگتا ہے کہ یہ شخص حر کے لشکر میں تھالہٰذانجات پا گیا۔ اپنی رجالی کتا بوں میں ہمیں اس کا تذکرہ کہیں نہیں ملا۔ ہاں لسان المیزان میں اس کا ذکر موجود ہے۔لسان المیزان کے الفاظ اس طرح ہیں :'' یعتبر حدیثہ'' اس کی حدیث معتبر ہے، نیز وہیں اس بات کی بھی یاد آوری کی گئی ہے کہ ابن حبان نے اسے ثقات میں شمار کیا ہے ۔

یہی وہ چار افراد ہیں جو ظاہراً ان واقعات کے شاہد ہیں اورابو مخنف نے ان سے بلا واسطہ حدیثیں نقل کی ہیں ۔

چو تھی فہرست

یہ وہ لوگ ہیں جو اس جانسوزواقعہ میں موجود تھے یا اس دلسوزحادثہ کے معاصر تھے لہٰذا انہوں نے ان واقعات کو نقل کیا ہے ۔ ابومخنف نے ان لوگوں سے ایک یا دو واسطوں سے روایت نقل کی ہے۔ یہ ٢١افراد ہیں ۔

١۔ ابو سعید دینار:

اس شخص کو'' کیسان''یا '' عقیصامقبری ''بھی کہا جا تا ہے۔مدینہ سے نکلتے وقت امام حسین علیہ السلام کے اشعارکو اسی شخص نے ایک واسطہ سے عبدالملک بن نوفل بن مساحق بن مخرمہ سے نقل کئے ہیں ۔(ج٥، ص٣٤٢) ذہبی نے اس کا ذکر میزان الاعتدال میں کیا ہے۔ ذہبی کہتا ہے: وہ ابو ہریر ہ کے ہمنشین اور اس کے بیٹے کے دوست تھے۔ وہ ثقہ اور حجت ہیں ۔پیرانہ سالی کے باوجودذہن مختل نہیں ہوا تھا ۔آپ کی وفات ١٢٥ ہجری میں ہوئی ۔آپ کا شمار بنی تمیم کے طر فداروں میں ہوتا ہے۔ابن حبان نے بھی ان کو ثقات میں شمارکیا ہے اور حاکم نے کہا ہے کہ یہ مورداعتماد اور بھروسہ مند ہیں ۔ (لسا ن المیزان، ج٢،ص١٣٩)

۵۵

تہذیب التہذیب میں لکھاہے کہ واقدی نے کہا : یہ ثقہ ہیں اور ان سے بہت زیادہ حدیثیں مروی ہیں ۔پہلی صدی ہجری میں آپ کی وفات ہوئی ۔ بعضوں کا کہنا ہے کہ ولید بن عبدالملک کی خلا فت کے عہد میں وفات پائی۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ عمر نے انھیں قبر کھود نے کے کام پر مامور کیا تھا لہذا وہ قبروں کو کھود ا کر تے تھے اور مردوں کو قبروں میں اتار تے تھے لہٰذا ''المقبری'' کے نام سے مشہور ہو گئے ''۔ (تہذیب التہذیب، ج٨، ص ٤٥٣)شیخ طوسی نے اپنی کتاب ''الرجال''میں ان کا تذکرہ حضرت علی علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے اصحاب میں ''دینار ''کے نام سے کیا ہے ان کی کنیت ابو سعید اور لقب عقیصاذکر کیا ہے۔ اس لقب کا سبب وہ شعر ہے جسے ''دینار ''نے کہا تھا۔(رجال شیخ طوسی ، ص٤٠ ،ط نجف) شیخ صدوق ابو سعید عقیصا کے حوالے سے اپنی ''امالی ''میں امام حسین علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ وہ اپنے والد سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کر تے ہیں کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فر مایا :''یاعلی!انت اخی و انا اخوک، اناالمصطفیٰ النبوة، وانت المجتبیٰ للامامة ، وانا صاحب التنزیل ، وانت صاحب التاویل ،واناوانت ابواهذه الامة،انت وصيّوخلیفتی ووزیری و وارثی وابو ولدوشیعتک شیعتی''اي علی!تم میرے بھائی ہو اور میں تمہارا بھائی ہوں ، خدا نے مجھ کو نبوت کے لئے منتخب کیا اور تم کو امامت کیلئے چن لیا،میں صاحب تنزیل (قرآن)ہوں تم صاحب تاویل ہو ،میں اور تم دونوں اس امت کے باپ ہیں ،تم میرے وصی،خلیفہ،وزیر،میرے وارث اورمیرے فرزندں کے باپ ہو،تمہارے شیعہ اورپیروکارمیرے شیعہ وپیرو کارہیں ۔

٢۔عقبہ بن سمعان :

مدینہ سے امام حسین علیہ السلام کے نکلنے کی خبر ، عبداللہ بن مطیع عدوی سے آپ کی ملاقات ، مکہ پہنچنے کی خبر، (ج٥،ص ٥٣١)مکہ سے نکلتے وقت ابن عباس اور ابن زبیر کی امام علیہ السلام سے گفتگو، (ج٥ ، ص٣٨٣) والی مکہ عمرو بن سعید بن عاص اشدق کے قاصد کاامام حسین تک پہنچنا اور حاکم مکہ کی جانب سے امام حسین علیہ السلام کو مکہ واپس لوٹانے کی خبر، منزل تنعیم پر '' ورس الیمن ''کی خبر ، قصر بنی مقاتل سے گذرنے کے بعد حضرت علی اکبر علیہ السلام کی اپنے بابا سے گفتگو ، نینوا میں اس نورانی کارواں کا ورود ،ابن زیاد کے پیغامبر کا حر تک ابن زیاد کا خط لیکر پہنچنا امام علیہ السلام اور پسر سعد کا کربلا میں وارد ہونا (ج٥،ص٤٠٧ ۔٤٠٩) اور وہ شرطیں جو امام حسین نے پسر سعد کے سامنے پیش کی تھیں اسی شخص سے مروی ہیں ۔ (ج٥ ،ص٤١٣)یہ تمام روایتیں اس نے ایک واسطہ سے حارث بن کعب و البی ہمدانی سے نقل کی ہیں ۔ یہ اس بات کی تائید ہے کہ ابو مخنف نے مناسبتوں کے مطابق روایتوں کی اسناد میں تقطیع (درمیان سے راوی کو حذف کردینا) کی ہے۔ عقبہ بن سمعان کی سوانح زندگی گذشتہ صفحات پر گذرچکی ہے لہٰذ ا اسے وہاں دیکھا جا سکتا ہے ۔

۵۶

٣۔محمد بن بشر ہمدانی :

معاویہ کی موت کے بعد کوفہ کے شیعوں کا سلیمان بن صرد خزاعی کے گھر اجتماع ، سلیمان بن صرد کا خطبہ اور اجتماعی طور سے سب کاامام حسین علیہ السلام کو خط لکھنا ، مسلم بن عقیل کے ہمراہ امام حسین علیہ السلام کا ان لوگوں کو جواب، (ج٥ ،ص٣۔ ٣٥٢)راستے ہی سے جناب مسلم کا امام حسین علیہ السلام کو خط لکھنا ، پھر امام علیہ السلام کا جواب دینا ، مسلم کا کوفہ پہنچنا اور کوفہ کے شیعوں کا جناب مختار کے گھر میں مسلم کے پاس آناجانا (ج٥ص٣٥٤۔ ٣٥٥) اورہانی بن عروہ کی شہادت کے بعد ابن زیاد کا خطبہ،ان تمام روایتوں کو محمد بن بشیر ہمدانی نے ایک واسطہ سے حجاج بن علی بارقی ہمدانی کے حوالے سے نقل کیا ہے ۔

یہ شخص سلیمان بن صرد کے گھر میں شیعوں کے اس اجتماع میں حاضر تھا ،کیونکہ وہ کہتا ہے :''فذکرنا هلاک معاویه فحمد نا الله علیه فقال لنا سلیمان بن صرد ''تو ہم نے معایہ کی ہلاکت کا تذکرہ کیا او راس پر خدا کا شکر ادا کیا تو سلیما ن بن صرد نے ہم سے کہا ''ثم سرحنابالکتاب ...''پھر خط لے کر ہم لوگ نکلے ،''وامر نا هما با لنجاء ''اور ہم نے ان دونوں کو کاملاًرازداری کا حکم دیا،'' ...ثم سرحنا الیہ ..''.پھر ہم لوگ اس کی طرف گئے''ثم لبثنا یومین آخرین ثم سرحنا الیه ...''پھر ہم لوگ دو دنوں تک ٹھہرتے رہے پھر اس کی طرف گئے ''...وکتبنا معھما ..''اور ہم نے ان دونوں کے ساتھ لکھا۔ (ج٥، ص٣٥٤ ۔ ٣٥٥)یہ شخص مختار کے گھر میں مسلم کے سامنے اس شیعی اجتماع میں حاضر تھا لیکن جنگ و جدال سے بچے رہنے کی غرض سے مسلم کی بیعت نہ کی، کیونکہ راوی حجاج بن علی کا بیان ہے کہ میں نے محمد بن بشیر سے کہا :''فھل کان منک ان تقول''؟کیا تم اس مورد میں کوئی عہد پیمان کروگے تو محمد بن بشیر نے جواب دیا:''ان کنت لأ حب ان یعز اللّه أصحابی با لظفر'' اگرچہ میں چاہتاہوں کہ خدا ہمارے ساتھیوں کو فتح وظفر کی عزت سے سر فراز کرے ''وما کنت احب ان اقتل !وکر هت ان اکذب'' (ج٥، ص٣٥٥) لیکن میں قتل ہو نا نہیں چاہتااور میں جھوٹ بولنا بھی پسند نہیں کر تا ۔

۵۷

لسان المیزان میں ابو حاتم کے حوالے سے اس کا ذکر ہے کہ ابو حاتم کہتے ہیں :''یہ شخص محمد بن سائب کلبی کو فی ہے۔اسے اس کے جد محمد بن سائب بن بشر کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے۔(١) شیخ طوسی نے اپنی کتاب رجال میں اس شخص کو امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہما السلام کے اصحاب میں شمار کیا ہے ۔(٢)

٤۔ ابو الودّاک جبربن نوف ہمدانی :

کوفہ میں نعمان بن بشیر انصاری (معاویہ اوریزید دونوں کی جانب سے کوفہ کاحاکم) کا خطبہ ، کو فیوں کا خط یزیدکے نام ،(ج٥، ص٣٥٥۔٣٥٦) کوفہ میں ابن زیاد کا خطبہ، (ج٥،ص٣٥٨۔ ٣٥٩)مسلم کا ہانی کے گھر منتقل ہو نا ، ابن زیاد کی طرف سے معقل شامی کا جاسوسی کے ذریعہ مسلم کا سراغ پانا ، ابن زیاد کا ہانی کی عیادت کو آنا اور عمارہ بن عبید سلولی کا اشارہ کرنا کہ ابن زیاد کو قتل کردیں ، لیکن ہانی کا اس مشورہ کو پسند نہ کرنا ، ہانی کے گھر ابن زیاد کا شریک بن اعور حارثی ہمدانی کی عیادت کو آنا اور شریک کا مسلم کو اشارہ کرنا کہ ابن زیادکو قتل کر دیں لیکن مسلم کا انکار کر نا،جس پر ہانی کا کبیدہ خاطر ہونا ، ابن زیاد کا ہانی کو طلب کر نا اور انہیں زدو کوب کرنااور قید کردینا ،اس پر عمروبن حجاج زبید ی کا قبیلہ کے جوانوں اور بہادروں کو لے کر دارالامارہ کے ارد گردہانی کی رہائی کے لئے ہجوم کرنا، اس پر دھوکہ اور فریب کے ساتھ قاضی شریح کا ہانی کے پاس جانااور واپس لوٹ کر جھوٹی خبر دینا کہ ہانی صحیح سالم ہیں ، اس پر قبیلہ والوں کاواپس پلٹ جا نا ،مندرجہ بالا تمام خبریں اسی ابو ودّاک سے مروی ہیں ۔اس نے ان تمام اخبار کو نمیر بن وعلہ ہمدانی کے حوالے سے نقل کیا ہے، فقط آخری خبر معلی بن کلیب سے نقل کی ہے ۔

____________________

١۔لسان المیزان ،ج٥، ص٩٤

٢۔ رجال الشیخ ،ص ١٣٦۔٢٨٩ ط نجف ،طبری نے ''ذیل المذیل'' ،ص٦٥١مطبوعہ دارسویدان پر طبقات بن سعدج ،٦ ،ص٣٥٨، کے حوالے سے ذکر کیا ہے منصورکی خلا فت کے زمانے میں ،١٤٦، ہجری میں شہر کو فہ اس کی وفات ہوئی ۔

۵۸

ابو ودّاک کا پورا نام امیر المومنین کے اس خطبہ میں ملتا ہے جس کی روایت خود اس نے کی ہے کہ'' نخیلہ'' میں خوارج کی ہدایت سے مایوس ہونے کے بعد حضرت علی علیہ السلام نے ایک خطبہ دیا۔ (ج٥،ص٧٨) ظاہراًامام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد یہ شخص کوفہ ہی میں تھا ۔ ایک دن اس نے ایوب بن مشرح خیوانی کی اس بات پر بڑی مذمت کی کہ اس نے حر کے گھوڑے کو کیوں پئے کیا ؛اس نے ایوب سے کہا : ''میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ خدا تم کو ان سب کے قتل کے عذاب میں واصل جہنم کرے گا،کیا تو نہیں جانتا ہے کہ اگر تو نے ان میں سے کسی پر تیر نہ چلایا ہوتا ، کسی کے گھوڑے کو پئے نہ کیا ہوتا ، کسی پرتیر بارانی نہ کی ہوتی، کسی کے روبرو نہ آیا ہوتا ، کسی پر ہجوم نہ کیا ہو تا ، کسی پر اپنے ساتھیوں کو بر انگیختہ نہ کیا ہوتا ، کسی پر اپنے ساتھیوں کی کثرت کے ساتھ حملہ آ ور نہ ہوا ہوتا ، جب تجھ پر حملہ ہواہوتا تو مقابلہ کرنے کے بجا ئے اگر تو عقب نشینی کرلیتا اور تیرے دوسرے ساتھی بھی ایسا ہی کرتے تو کیا حسین اور ان کے اصحاب شہید ہوجاتے ؟ تم سب کے سب ان پاک سرشت اور نیک طینت افراد کے خون میں شریک ہو۔ (ج٥،ص٣٥٧، ٣٥٨) ذہبی نے ان کا تذکرہ میزان الاعتدال میں کیا ہے۔،ذہبی کا بیان ہے: ''صاحب ابی سعید الغدری صدوق مشہور'' یہ ابو سعید غدری کے ساتھی اور صداقت میں مشہور تھے۔(١) تہذیب میں اس طرح ہے :''ابن حبان نے ان کا ذکر ثقات میں کیا ہے اور ابن معین نے کہا ہے کہ یہ ثقہ ہیں ۔نسائی نے کہا ہے کہ صالح ہیں اور اپنی کتاب سنن میں ان سے روایت نقل کی ہے۔''(٢)

٥۔ ابو عثمان نہدی :

اہل بصرہ کے نام امام حسین علیہ السلام کا خط اور ابن زیاد کا اپنے بھائی عثمان کو بصرہ کا والی بنا کر کوفہ کی طرف روانہ ہونے کی خبر اسی شخص نے ایک واسطہ صقعب بن زہیر کے حوالے سے نقل کی ہے۔ یہ شخص مختار کے ساتھیوں میں تھا؛ جب یہ ابن مطیع کی حکومت میں کوفہ وارد ہواتو اسے ناداروں کی دادرسی کے امور پر مقرر کیا گیا۔ (ج٥، ص٢٢و٢٩)

____________________

١۔میزان الاعتدال، ج٤، ص٥٨٤ ،ط حلبی ۔

٢۔تہذیب التہذیب، ج٢،ص٦٠وتنقیح المقال ،ج٣،ص٢٧

۵۹

تہذیب التہذیب میں اس کا ذکرملتا ہے۔روایت میں ہے کہ وہ قبیلہ قضاعہ سے تھا۔ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا زمانہ درک کیا ہے لیکن آپ کے دیدار کا شرف اسے حاصل نہ ہوا ۔یہ شخص کوفہ کا باشندہ تھا ۔جب امام حسین علیہ السلام شہید ہوگئے تو اس نے بصرہ کو اپنا مسکن بنا لیا۔ یہ شخص اپنی قوم میں معروف آدمی تھا، ٦٠حج انجام دئے، اس کا شمارصائم النہار اورقائم اللیل میں ہوتا تھا(یعنی دن روزں میں گذرتا تھا اور شب عبادت میں ) اس پر لوگ بھروسہ کیا کرتے تھے، ایک سو تیس(١٣٠)سا ل کے سن میں ٩٥ھ میں وفات پائی ۔(١)

٦۔ عبداللہ بن خازم کثیری ازدی :

یہ شخص یوسف بن یزید کے حوالے سے حضرت مسلم بن عقیل کی جنگ کا تذکرہ کرتا ہے اور سلیمان بن ابی راشد کے واسطہ سے لوگوں کے مسلم کو دھوکہ دینے کے واقعہ کو نقل کرتا ہے۔ اس شخص نے پہلے مسلم بن عقیل علیہ السلام کی بیعت کی۔ جناب مسلم نے اسے ابن زیاد کے قصر کی طرف بھیجا تاکہ ہانی کا حال معلوم کرکے آئے ، پھر اس شخص نے جناب مسلم اورامام حسین علیہما السلام دونوں کو دھوکہ دیا ۔ (ج٥، ص٣٦٨۔٣٦٩)آخر کار اپنے کئے پر نادم ہوا اورتوابین کے ساتھ ہوگیا اور انھیں کے ہمراہ خروج کیا۔ (ج٥،ص٥٨٣) یہاں تک کہ قتل ہوگیا ۔(ج٥، ص٦٠١)

٧۔ عباس بن جعدہ جُدلی :

اس شخص کو عیاش بن جعدہ جُدلی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ جناب مسلم کا اموی حاکم کے خلاف قیام ، کوفیوں کی مسلم کے ساتھ دغااور ابن زیادکا موقف اسی شخص نے یونس بن ابی اسحاق سبیعہمدانی کے واسطہ سے نقل کیا ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس نے حضرت مسلم کے ہاتھوں پر بیعت کی اور ان کے ہمراہ نبرد میں شریک رہا، پھر درمیان جنگ سے غائب ہوگیا اوردکھائی نہ دیا ، روایت کا جملہ اس طرح ہے۔'' خرجنا مع مسلم..''.ہم لوگ مسلم کے ہمراہ سپاہ سے نبرد آزمائی کے لئے نکل پڑے ۔

٨۔عبدالرحمن بن ابی عمیر ثقفی :

مختار کو ابن زیا د کے پرچم امان کے تلے آنے کی دعوت دینااسی شخص سے منقول ہے ۔

٩۔ زائد ہ بن قدامہ ثقفی :

جناب مسلم بن عقیل سے جنگ کے لئے محمد بن اشعث کا میدان نبرد

____________________

١۔تہذیب التہذیب، ج٦،ص٢٧٧

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438