واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا13%

واقعۂ کربلا مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 438

واقعۂ کربلا
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 438 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 192987 / ڈاؤنلوڈ: 5407
سائز سائز سائز
واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

كے عنوان سے معروف ہوا _ وہ ابوحنيفہ كى آراء بالخصوص احكام شرعى كى تشخيص كے سلسلے ميں ابوحنيفہ كے فقہى قياس اور نظريات كے مد مقابل اپنے مخصوص نظريات ركھتے تھے انہوں نے سعى كى كہ فقہى روش پر حديث كى كتاب لكھ كر اپنى آراء پيش كريں اس كتاب ميں جس كا نام مؤطا ہے مالك سب سے پہلے حديث نقل كرتے ہيں پھر مدينہ كے فقہاء كا فتوى ذكر كرتے ہيں اسكے بعد اپنى فقہى نظر پيش كرتے ہيں انكا نظريہ يہ تھا كہ احكام شرعى كيلئے روايات جيسى مستند دليل كے ہوتے ہوئے قياس يا اپنى رائے كى طرف نہيں آنا چاہيے_ مالكى مذہب بتدريج شمالى آفريقا ، مصر اور اندلس ميں رواج پاگيا(۱)

اہل سنت كے تيسرے فقہى مكتب كو ابوعبداللہ محمد بن ادريس شافعى(۲) (۲۰۴ _ ۱۵۰ قمرى ) نے تشكيل ديا وہ چونكہ دونوں حنفى اور مالكى مذاہب كے بارے ميں معلومات ركھتے تھے اسى ليے انہوں نے كوشش كہ ان دو مذاہب ميں اساسى امتزاج پيدا كيا جائے اور اس امتزاج اور وحدت پر جديد فقہ كو تشكيل ديا جائے(۳) ليكن اسكے ساتھ ساتھ انہوں نے حنفى مكتب كے استحسان اور مالكى مكتب كى استصلاح كى بھى مخالفت كي_ انہوں نے اپنى فقہى آراء كے اساسى قواعد كو اصول الفقہ كے متعلق ايك رسالہ ميں تحرير كيا _ مصر ميں صلاح الدين ايوبى كے ذريعے فقہ شافى رائج ہوئي(۴) اور اس فقہ كے عراق اور مكہ ميں بھى حامى موجودہيں(۵)

اہل سنت كا چوتھا فقہى مكتب احمد بن حنبل(۶) (۲۴۱ _ ۱۶۴ قمري) كى طرف منسوب ہے جو فقہ حنبلى كے عنوان سے مشہور ہے _ احمد بن حنبل علماء حديث كے بڑے مفكرين ميں سے شمار ہوتے ہيں انہوں نے شافعى

____________________

۱)كاظم مدير شانہ چى ، علم الحديث، مشہد ص ۳۶_

۲)محمد ابوزہرہ ، امام شافعى حياتہ و عصرہ و آرا و فقہہ ، قاہرہ_

۳) ج م عبدالجليل ، تاريخ ادبيات عرب، ترجمہ آذر تاش آذرنوش ، تہران ص ۱۷۵_

۴)قيس آل متين ، سابقہ ما خذ ، ج ۵ ص ۵_

۵) بوجينا غيانة ، سابقہ ما خذص ۱۷۴_

۶)ذائرة المعارف بزرگ اسلامى ج ۶ ، ذيل احمد بن حنبل_

۱۰۱

كے ہاں درس پڑھا(۱) تيس ہزار احاديث پر مشتمل حديث كى مسند لكھ كر دوسروں كو اپنى طرف متوجہ كرليا(۲) انكى فقہ كى بنياديں كتاب ، سنت ، صحابہ كے فتاوى ، قياس، استحسان ، مصالح او رذرايع سے تشكيل پائيں انكے مذہب كے سب سے زيادہ پيروكار حجاز ميں ہيں(۳)

فقہ حنبلى كے حوالے سے ايك نكتہ يہ ہے كہ چونكہ احمد بن حنبل آراء او رنظريات كے مكتوب شكل ميں جمع كرنے كے مخالف تھے اسى ليے انكے شاگردوں اور بعد ميں آنے والے حنبلى مسلك افراد كى آراء ميں جو احمد بن حنبل سے نقل كى گئي ہيں خاص فرق حتى كہ تضاد بھى نظر آتا ہے اور كبھى تو كسى ايك مسئلہ ہيں انكا نام ليكر نقل ہونے والے متضاد اقوال چار يا پانچ كى تعداد تك بھى ہيں(۴)

اہل سنت كے ان چار اماموں كے بعد سنى فقہ نے اپنى جدت اور تحرك كو كھوديا_ چوتھى صدى سے تيرھويں صدى تك ان آئمہ كے آثار پرصرف حاشيہ يا انكى شرح و تفسير كى حد تك كام ہوا ان مذاہب كے فقہاء نے انكى آراء كے ساتھ تقريبا كوئي نئے نكتے كا اضافہ نہ كيا اسى ليے اہل سنت كى فقہ ميں اجتہاد ان چار اشخاص كى تقليد ميں تبديل ہوكر رہ گيا اگر چہ ان چار آئمہ ميں اجتہاد كو منحصر كرنے پر كوئي بھى عقلى اور نقلى دليل موجود نہ تھى ليكن بتدريج اور حاكموں كے سياسى مقاصد اور كاموں كى بناء پر اس مسئلہ ميں اجماع كى كيفيت پيدا ہوگى كہ اب اسكے خلاف آواز بلند كرنا آسان كام نہ تھا(۵) ليكن تيرھويں صدى ہجرى سے عالم اسلام ميں واضح تبديلياں پيدا ہوئيں _ عصرى تقاضوں ، زندگى اور معاشرتى روابط ميں گہرى اور وسيع تبديليوں كے پيش نظر اہل سنت كے بعض فقہاء فقط ان چار آئمہ كى تقليد ميں منحصر ہونے كے مسئلہ ميں شك و ترديد كا شكار ہوگئے_

____________________

۱)وحينا غيانة ، سابقہ ما خذص ۱۷۷ _

۲)كاظم مدير شانہ چي، سابقہ ما خذص ۵۵_

۳)دائرة المعارف بزرگ اسلامي، سابقہ ما خذ_

۴)رجوع كريں ، ابن حبيرہ الافصاح عن معافى الصحاح، حلب ج ۱ ص ۵۴_

۵) ابوالفضل عزتى ، سابقہ ما خذص ۸۳ _ ۷۱ _

۱۰۲

بتدريج اہل سنت كے فقہاء يہ بات سمجھ گئے كہ ان آئمہ كى تقليد پر كوئي عقلى و نقلى حكم اور معتبر دليل موجود نہيں ہے وہ بھى ان چار فقہاء كى مانند شرعى مسائل ميں اجتہاد كرسكتے ہيں اس حوالے سے مصر كے عظيم مفتى شيخ محمود شلتوت نے شيعہ فقہاء كى آراء پر توجہ كرتے ہوئے شيعہ فقہا كى آرا كى پيروى كے جواز كا اعلان كر كے ايك اہم ترين قدم اٹھايا _ (يہ بات قابل ذكر ہے كہ ان مندرجہ بالا چارمسالك كے علاوہ ديگر مسلك اور مكاتب بھى دائرہ وجود ميں آئے جن ميں سے بعض مسالك مثلا زيديہ اور اسماعيليہ شيعہ مسالك ميں شمارہوتے ہيں اور اپنى فقہ اور پيروكاروں كے ساتھ عہد حاضر ميں موجود ہيں اور بعض مسالك جو كسى سے وابستہ نہيں ہيں مثلا اباضى مسلك كہ جو خوارج كے مسلك ميں سے ابھى تك اپنا وجود برقرار ركھے ہوئے ہے(۱) يا ديگر مسالك مثلا مسلك اوزاعى (متوفى ۱۵۰ قمري) اور مسلك سفيان ثورى (متوفى ۱۶۱ قمري) اور مسلك داود بن على ظاہرى (متوفى ۲۷۰ قمري) كہ يہ سب سنى مسالك ميں سے شمار ہوتے ہيں ليكن بہت كم پيروكاروں كى بناء پر زيادہ عرصہ تك نہ چل سكے(۲)

ليكن ان تمام مسالك ميں ايك معمولى ساموازنہ كرتے ہوئے ہم ديكھتے ہيں كہ زيدى مسلك بہت زيادہ پيروكاروں اور بے شمار علما، محدثين ، معروف فقہاء اور مؤلفين كى بناء ايك ممتاز مقام كا حامل ہے اس مذہب كى بعض كتب مندرج ذيل ہيں :

زيد بن على بن الحسين (ع) سے منسوب '' المجموع''(۳) يحيى بن حسين (۹۸_ ۲۴۵قمري) كى جامع الاحكام فى الحلال و الحرام احمد بن يحيى المرتضى (۸۴۰ _ ۷۷۵قمري) كى البحر الزخار، ابراہيم بن محمد كى الروض فى الحامل شرح الكافل حسن بن احمد (متوفى ۱۰۴۸) كى ضوء النہار فى شرح الازہار اور محمد بن على الشوكانى (متوفى ۱۲۲۱)

____________________

۱)رجوع كيجئے : موسوعة الفقہ الاسلامى ج ۱ ص ۳۲ ، صبحى الصالح ، انظم الاسلامية ، نشا تہا و تطورہا ص ۲۰۷ ، صبحى رجب محمصانى ، فلسفة التشريع فى الاسلام ج ۵ ص ۶۹ _۷۰_

۲)عبدالكريم زيدان، المدخل لدراسة الشريعة الاسلامية ، بيروت ج ۱۱ ص ۱۴۸_

۳) سابقہ ما خذ_

۱۰۳

كى الدرر البھية والسيل الجرار و نيل الاوطار(۱) (زيدى مذہب سے كافى عرصہ كے بعد ہم داود بن على الظاہرى سے منسوب ظاہرى مذہب كا نام لے سكتے ہيں كيونكہ اسكے پيروكار بہت ہى كم تھے اور آج تقريباً موجود نہيں ہيں اس مذہب كى بنيادى فقہى كتا ب'' المحلى '' ہے كہ جسے ابن حزم ظاہرى نے تحرير كيا اس مذہب كے استحكام اور بقاء كا باعث تھى اسى شخص كى خدمات جانى گئيں(۲)

۵_ اصول

اسلامى علوم ميں وہ علم كہ جو اصلى منابع اور مصادر سے اسلامى احكام اور قوانين كے استنباط كيلئے تدوين ہوا علم اصول ہے يہ علم وجود ميں آنے كے بعد سے اب تك نو مراحل سے گزرا:_

۱)وجود ميں آنے كا دور: اس دور ميں اس علم كى تدوين اور اسكے مقدمات بيان كرنے كيلئے سب سے پہلى كوششيں ہوئيں _ شيعہ محققين كى رائے كے مطابق اس علم كے خالق امام باقر (ع) اور امام صادق (عليہما السلام ) ہيں _ اگر چہ عصر حاضر كے كچھ محققين كا خيال ہے كہ اصلى قواعد كا سادہ انداز ميں استعمال صدر اسلام سے ہى رائج تھا(۳)

۲) تصنيف كے دور كا آغاز: اس دور ميں علم اصول جس كا ذكر فقہى مسائل كے درميان ہوتا تھا جداگانہ شكل ميں سامنے آيا_ ميرے خيال ميں علم اصول كى سب سے پہلى تصنيف جناب حشام بن حكم كى ہے كہ جواماميہ متكلمين كے سربراہ شمار ہوتے ہيں انہوں نے كتاب '' الفاظ و مباحثہا'' تحرير كى(۴)

____________________

۱) موسوعة الفقہ الاسلام ، سابقہ ما خذ، الحليمي، الروض النضير ، مقدمہ ، دائرة المعارف بزرگ اسلام ج ۲ ص ۵۹ _۱۶۴ ، على بن عبدالكريم شرف الدين ، الزيدية نظريہ و تطبيق ، العصر الحديث ج ۲ ص ۱_۳ اور اسكے بعد ، فواد سزگين ، تاريخ التراث العربى ج ۱ ، جزء ۳ عربى ، ص ۳۵۳_

۲)مصطفى الزلمى ، اسباب اختلاف الفقہاء فى احكام الشريعة ص ۵۶_

۳)حسن شفايي، ملاك اصول استنباط، ص ۹ ، حسن ہادى الصدر، تاسيس الشيعہ لعلوم الاسلام بغداد ، ابولاقاسم گرجى ، مقالات حقوقى ،ج۲ ص ۱۱۷، ۱۱۳_

۴) ابوالقاسم گرجي، سابقہ ما خذص ۱۱۹ _ ۱۱۸_

۱۰۴

۳)علم اصول كے علم كلام كے ساتھ ملاپ كا دور: يہ دور جو كہ زيادہ تر اہل سنت كے حوالے سے ہے ، اہل سنت كے متكلمين بالخصوص معتزلہ علم اصول ميں داخل ہوئے اور اسے اسكے اصلى راہ '' فرعى و فقہى احكام كے استنباط'' سے ہٹا ديا_ اس دور ميں اہل سنت كے مولفين ميں سے ''كتاب آراء اصولى ابوعلي'' كے مصنف محمد بن عبدالوہاب بن سلام جبائي ( متوفى ۳۰۳ قمرى )كتاب التحصيل كے مصنف ابو منصور عبدالقاہر بن طاہر تميمى اسفراينى (متوفى ۴۲۹ قمري) اور كتاب '' المستصفى ''كے مصنف ابوحامد غزالى (متوفى ۵۰۵ قمرى ) قابل ذكر ہيں _

۴)علم اصول كے كمال اور دوبارہ جدا ہونے كا دور : يہ دور جو كہ مكتب شيعہ كے حوالے سے ہے علم اصول بتدريج پختگى كى منازل طے كر گيا اور كافى حد تك علم كلام كے مسائل سے جدا ہوگيااس دور كے اہم ترين آثار كے جنہوں نے علم اصول كو ترقى كى انتہائي بلنديوں تك پہنچا ديا وہ ابن ابى عقيل ، شيخ مفيد اور شيخ طوسى كى تصنيفات و تاليفات ہيں _

۵)استنباط كے جمود اور علم اصول ميں ٹھہراؤ كا دور: شيخ طوسى كے علمى نبوغ اور عظمت كى بناء پر تقريباً ايك صدى تك مختلف علوم بالخصوص اصول فقہ ميں انكى آرا، اور نظريات بغير كسى علمى تنقيد كے باقى رہے اور اس دور كے مولفين كى كتب پر انكے آثار كى تقليد كى چھاپ باقى رہى _ مثلا سديد الدين حمصى رازى كى كتاب مصادر اور حمزہ بن عبدالعزيز المعروف سلار كى كتاب '' التقريب'' ميں يہ تقليد ديكھى جاسكتى ہے مجموعى طور پر اس دور كے تمام فقہى استنباط اور نتائج شدت كے ساتھ شيخ طوسى كى آراء سے متاثر تھے_

۶) تجديد حيات كى تحريك: اس دور كى خصوصيات ميں سے يہ ہيں كہ ايك طرف روح اجتہاد دوبارہ زندہ ہوئي اور دوسرى طرف گذشتہ بزرگان دين كى كتب كى شرح ، حاشيہ اور تلخيص كى گئي اور فن منطق كے بعض مسائل علم اصول ميں داخل ہوئے اس دور كے علما اور بزرگ محققين ميں سے محمد بن ادريس حلى (متوفى ۵۹۸ قمرى )محقق حلى ، علامہ حلي، فاضل مقداد اور شيخ بہائي قابل ذكر ہيں(۱)

____________________

۱)سابقہ ما خذ ص ۱۲۱ ، ۱۳۰ ، ۱۳۵_

۱۰۵

۷)علم اصول ميں ضعف كا دور : تشيع كى علمى محافل اور حوزات ميں اخبارى مكتب فكر كى طرف ميلان بڑھنے سے علم اصول كى گذشتہ ادوار كى مانند رونق ختم ہوگئي اس دور ميں اخباريوں اور اصوليوں ميں شديد نزاع رہا، اس دور كى اخبارى مكتب فكر ميں اہم ترين تاليف '' كتاب فوائد المدنيہ'' ہے كہ جو محمد امين استر آبادى (متوفى ۱۰۳۳) نے تاليف كي_

۸)علم اصول كا جديدد ور: جناب وحيد بہبہانى كے علمى حوزات ميں ظاہر ہونے سے علم اصول بتدريج دوبارہ ترقى كے زينوں كى طرف بڑھنے لگا، آپ اور آپكے شاگردوں نے اپنى حيرت انگيز صلاحيتوں سے مالامال علمى طاقت سے اخبارى مكتب فكروالوں كے تمام شبہات اور تہمتوں كا جواب ديا اور يہ ثابت كرنے كيلئے بہت زيادہ كوشش كى كہ فقہى مسائل تك پہنچنے كيلئے ہم سب فقط اصولى قواعد كے محتاج ہيں اس دور ميں علامہ وحيد بہبہانى كے علاوہ عظيم علمى شخصيات ميں سے سيد مہدى بحر العلوم (متوفى ۱۲۱۲ قمري) كاشف الغطاء (متوفى ۱۲۲۷قمري) اور سيد على طباطبائي (متوفى ۱۲۲۱ قمري) قابل ذكر ہيں(۱)

۹)عصر حاضر : يہ دور جو كہ حقيقت ميں علم اصول كى معراج كا دور شمار ہوتاہے شيخ مرتضى انصارى (متوفى ۱۲۸) كے ظہور سے شروع ہوا اور انكے بعد انكے شاگردوں كى كوششوں سے جارى رہا _ واقعى بات تو يہى ہے كہ اس دور ميں علم اصول كى ترقى كاگذشتہ ادوار ميں كسى دور سے موازنہ نہيں كياجاسكتا اس دور ميں علم اصول ميں تحقيقات كيفيت اور كميت كے اعتبار سے وسيع ہونے كے ساتھ ساتھ انتہائي عميق بھى ہيں(۲)

۶_ كلام

اسلامى تمدن كے زير سايہ علم كلام كى پيدائشے كى كچھ وجوہات تھيں ان ميں سے ايك مسلمانوں كا غير مسلم اقوام مثلا ايرانيوں ، روميوں اورمصريوں سے تعلقات تھے ان روابط اور تعلقات كى بناء پر عقائد و نظريات

____________________

۱)سابقہ ما خذ ص ۱۳۸_

۲)مرتضى مطہري، آشنائي با علوم اسلامى ، بخش اصول فقہ ص ۲۶۳_

۱۰۶

ميں اختلاف آشكار ہوا _ مسلمانوں نے دين اسلام كے دفاع كيلئے نئي فكرى اور استدلالى روشوں كو سيكھا_ اسى طرح اس علم كے وجود ميں آنے كى دوسرى وجہ ايسى اقوام كا اسلام قبول كرنا قرار پائي كہ جو اپنے مذاہب ميں اللہ تعالى كى صفات، توحيد ، قضا و قدر اور جزا و سزا و غيرہ كے مسائل ميں مخصوص عقائد و نظريات كے حامل تھے_ اسى بناء پہ نئے مسلمان لوگ اسى كوشش ميں رہتے تھے كہ اپنے سابقہ دينى عقائد كو دين اسلام كے سانچے ميں ڈھال كر پيش كريں اسى ليے مسلمانوں نے بھر پور كوشش كى كہ عقلى دلائل سے بہرہ مند ہوكر اسلام كے بنياد ى عقايد كو مستحكم اور پائيدار بنائيں(۱)

علم كلام اپنے آغاز ميں فقط عقائدى مسائل بالخصوص توحيد و غيرہ پر بحث كرتا تھا اور جو شخص عقائد كے امور ميں دليل سے بات كرتا اسے متكلم كہا جاتاتھا اور خود دينى عقائد اور اصول ميں بحث اور جدل كرنے كو علم كلام كا نام دياگيا _ اسلام كے بڑے متكلمين ميں سے جنہوں نے كلامى نظريات اور مسالك كى تشكيل ميں اہم كردار ادا كيا حسن بصرى (۱۱۰ _ ۲۱ قمري) كى طرف اشارہ كيا جاسكتاہے كہ جو گناہوں كے حوالے سے بہت سخت موقف ركھتے تھے _ انكا عقيدہ تھا كہ تمام افعال فقط انسانى مرضى كى بناء پر انجام پاتے ہيں

دوسرى صدى ہجرى ہيں ابو محرز جھم بن صفوان نے مسلك جھميہ كو تشكيل ديا _ اس مسلك كے ماننے والوں كا نظريہ يہ ہے كہ اللہ تعالى كى شناخت كيلئے فقط ايمان كافى ہے ديگر عبادات سے اس كا كوئي ربط نہيں ہے اور كوئي بھى اللہ تعالى كے ارادے كے سوا فعل انجام نہيں ديتا_ پس انسان اپنے افعال ميں مجبور ہے(۲)

تيسرى صدى ہجرى ميں ابو سہل بشر بن معتمر ہلالى كوفى بغدادى (متوفى ۲۱۰قمري) نے مسلك بشرية كو تشكيل ديا _ اسكا نظريہ يہ تھا كہ اللہ تعالى قادر ہے اور اس نے اپنے بندوں كو اپنے كام كرنے پر قادر كيا ہے ليكن يہ مناسب نہ سمجھا كہ حيات، موت اور قدرت جيسے امور بھى انسانوں كے سپرد كرے(۳)

____________________

۱) علامہ شبلى نعماني، تاريخ علم كلام، ترجمہ داعى گيلاني، ص ۸_

۲)خير الدين زركلى ، الاعلام ، ج ۲ ص ۲۲۶_

۳) محمد شہرستاني، الملل و النحل، محمد جواد شكور كى سعى سے ، ج۱، ص ۷۲_

۱۰۷

چوتھى صدى ميں ہم چند مشہور و معروف متكلمين كا عرصہ وجود ميں ظہور كا مشاہدہ كرتے ہيں ان ميں سے ايك شيخ مفيد ہيں انكى تقريباً دو سو كے قريب تاليفات تھيں كہ جن ميں سے اكثر مختلف كلامى مسالك كے عقائد كى رد پر لكھى گئيں _ اسى صدى كے دوسرے مشہور متكلم شيخ الطايفہ ابوجعفر محمد بن حسن طوسى ہيں وہ سب سے پہلے شخص تھے كہ جنہوں نے نجف كو شيعہ مكتب كے علمى اور دينى مركز ميں تبديل كيا انكى كلام ميں مشہور كتابوں كے نام مندرجہ ذيل ہيں :الشافي، الاقتصادالہادى الى الرشاد اورتمھيد الاصول_

پانچويں صدى ميں مشہور متكلم ابوحامد محمد غزالى پيدا ہوئے_ غزالى كا عقيدہ تھا كہ متكلمين نے اس زمانہ ميں دين كى نصرت كيلئے قيام كيا كہ جب دينى فرقوں ميں اختلاف بڑھ گيا تھا اور لوگوں كے دلوں ميں ايمان متزلزل ہوچكا تھا انہوں نے عقلى اور منطقى دلائل كے ساتھ شبہات پيدا كرنے كا راستہ بند كرديا تھا نيز انكا عقيدہ تھا كہ عوام كو علم كلام سے دور كرنا چاہيے كہ اگر ان ميں سے كوئي ''يد'' ، '' فوق'' اور عرش پر استوار'' كا معنى پوچھيں تو بھى انہيں نہ بتائيں خواہ انہيں تازيانے مارنا پڑيں(۱) جس طرح كہ خليفہ دوم حضرت عمرہر اس شخص سے ايسا سلوك كيا كرتے تھے كہ جو تشابہ آيات كے بارے ميں سوال كرتا پانچويں صدى كے ايك اور معروف متكلم ابوالفتح محمد بن عبدالكريم بن احمد شہرستانى ہيں انكى علم كلام ميں معتبرترين كتاب كا نام نہاية الاقدام فى علم الكلام ہے جو علم كلام كے بيس قواعد اور اس علم كے مسائل كى فروع پر تشريح كى حامل ہے(۲)

چھٹى صدى ہجرى كے مشہورترين متكلم امام فخر رازى ياامام المشككين ہيں وہ علم اصول و كلام ميں مكتب اشعرى پر اور فروع دين ميں شافعى مسلك پر تھے انكے بيشتر اعتراضات اورتشكيكات فلسفي، كلامى اور علمى مسائل ميں تھے_ وہ اسلامى عقايد كى تشريح اشعرى مكتب كے اصولوں كى بناء پر كيا كرتے تھے اور فقہ اہل سنت پر عمل پيرا تھے_

____________________

۱)ابوحامد محمد غزالي، المنقد من اللال والمفصح عن الاحوال، محمدحابر كى كوشش سے _ دہر، عبدالكريم گيلانى حاشيہ الانسان الكامل ، قاہرہ_

۲)ابراہيم مذكور، فى الفلسفة الاسلامية، قاہرہ_

۱۰۸

ساتويں صدى ہجرى كے عظيم ترين متكلم خواجہ نصير الدين طوسى ہيں چونكہ خواجہ شيعہ ہونے كے ساتھ ساتھ منگولوں كے بادشاہ ہلاكوخان كى نگاہ ميں اہم مقام كے حامل تھے لہذا اہل سنت كے بہت سے علماء ان سے حسد كيا كرتے تھے اور انہيں سب و شتم كيا كرتے تھے انكى علم كلام ميں اہم ترين كتاب '' تجريد الاعتقاد'' ہے(۱)

ساتويں صدى ميں ابن تيميہ پيدا ہوئے وہ قرآنى علوم، حديث، فقہ، كلام ، فلسفہ اور ہندسہ ميں مہارت ركھتے تھے، وہ مسلمانوں كى سنت كا دفاع كيا كرتے تھے كہ جسكى وجہ سے اہل سنت كے ديگر مسالك كے بہت سے پيروكاروں نے انكى مخالفت كى _ اگر چہ انكا حنبلى مسلك سے تعلق تھا ليكن اس مسلك كے اصول كو اجتہاد كے ذريعہ قبول كرتے تھے اور بدعات كى مخالفت كرتے تھے اور اولياء خدا سے تمسك كرنے اور انبياء كى قبور كى زيارت پر تنقيد كيا كرتے تھے _ علماء اسلام كے ايك گروہ نے انكى مذمت كى جبكہ ايك گروہ نے انكى تعريف كي(۲)

ان تمام گذشتہ صديوں ميں علماء اسلام ميں سے فقط علامہ حلى ہيں كہ جنہيں آيت اللہ كے لقب سے نوازا گيا آپ ساتويں صدى ميں پيدا ہوئے، آپكى چار سو سے زيادہ تاليفات ہيں انہوں نے اپنى علم كلام كے بارے ميں تاليفات ميں سياست كى بحث بھى كي_ وہ سياست كوعين دين سمجھتے تھے انكى علم كلام كى مباحث ميں شيعہ سياسى افكار جلوہ گر ہيں _ انكى علم كلام ميں اہم ترين كتا ب الباب الحادى عشر ہے اسكے ابواب ميں مذہب شيعہ كے مختلف كلامى موضوعات مثلا نبوت، عصمت پيغمبر(ص) كا ضرورى ہونا، پيغمبر (ص) كى افضليت ، پيغمبر(ص) كا نقص سے دور ہونا، امامت ، امام كا معصوم ہونا اور حضرت على (ع) كى امامت كے حوالے سے بحث اور تجزيہ و تحليل كياگيا ہے_(۳)

____________________

۱)ميان محمد شريف، تاريخ فلسفہ در اسلام تہران_

۲)دائرة المعارف بزرگ اسلامى ج ۳ ، ذيل ابن تيميہ_

۳)خوانسارى ، روضات الجنات، لقرآن ص ۴۲۱ _۴۱۹_

۱۰۹

۷_ تصوف، عرفان اورفتوت

تصوف كا لغت ميں معنى '' صوفى بننا'' ہے ، بظاہر سب سے قديمى كتاب كہ جسميں كلمہ صوفى اور صوفيہ استعمال ہوا وہ جاحظ (متوفى ۲۵۵ قمرى ) كى البيان و التبين ہے(۱) ابن خلدون نے اپنے مقدمہ ميں تصوف كو صحابہ ، تابعين اور انكے بزرگان كى روش كے طور پر ذكر كيا(۲) بعض نے لفظ صوفى كو صفا سے ليا كہ جسكا معنى روشنى اور پاكيزگى ہے اور صفوت سے مرادمنتخب ہے ليكن شہرت يہى ہے كہ صوفى صوف سے ليا گيا ہے كہ جسكا معنى پشم ہے اور صوفى يعنى پشم پوش (پشم پہننے والا)(۳)

عرفان كو يورپى زبانوں ميں '' مَيسٹك'' Mystics(۴) كا نام ديا گيا ہے كہ جو يونانى لفظ ميسٹيكوس( Mistikos ) سے ليا گياتھا(۵) اور اسكا مفہوم و معنى ايك مرموز ، پنہان اور مخفى امر ہے_

اور اصطلاح ميں ايسے خاص دينى پہلو پر دلالت كرتاہے كہ جس ميں كسى انسانى فرد كا كائنات كے رب كے ساتھ بلاواسطہ رابطہ اور اتصال پيدا ہونا ممكن ہے اور يہ علم انسان كو خالق كائنات كےساتھ كشف و شہود اور باطنى تجربات كے ذريعے متصل كرتا ہے دوسرے الفاظ ميں عرفان سے مراد وہ روش اور طريقہ كہ جو نظرياتى طورپر علم حضورى كہلاتاہے اور عملى حوالے سے عبادت، كوشش اور زہد و رياضت سے لولگانے كو كہتے ہيں(۶)

دوسرى صدى ہجرى ميں وہ خاص لوگ كہ جو دينى مسائل كى طرف بہت زيادہ توجہ ديتے تھے زاہد، عابد اورمتصوف كہلاتے تھے_ اس دور ميں ہميشہ ميں عبادت ميں مصروف ہونا ، اللہ تعالى كے ليے ترك دنيا،

____________________

۱)عمرو بن بحر حاحظ، البيان و التبين چاپ حسن سندولى قاہرہ ، ج۱ ص ۲۸۳_

۲)ابن خلدون، مقدمہ ، ج۱ ص ۶۱۱_

۳)منصور بن اردشير عبادي، مناقب الصوفيہ ص ۳، ۳۱_

۴) mystic

۵) mistikos

۶)نورالدين كيائي ناد، سير عرفان در اسلام، ص ۷_۶۵_

۱۱۰

دنياوى لذتوں سے دورى اختيار كرنا ، زہد اور ہر وہ چيز كہ جسے لوگ برا سمجھتے ہيں مثلا ثروت جمع كرنے اور جاہ طلبى و غيرہ سے پرہيز كرنا تصوف كہلا تا تھا(۱)

جاحظ اور ابن جوزى نے تقريباً ابتدا كے صوفيوں ميں سے چاليس افر اد كا تعارف كرواياہے جن ميں ابوذر، حذيفہ بن يمان، خباب بن ارث و بلال حبشي، سلمان فارسي، عمار ياسر ، مقداد اور ديگر وہ لوگ كہ جو عبادت اور زہد ميں معروف تھے انكا ذكر ہوا، اسى طرح وہ اشخاص كہ جو صدر اسلام كے شيعوں ميں سے شمار ہوتے ہيں(۲)

تيسرى صدى كے وسط سے صوفى حضرات گروہى اعتبار سے بتدريج منظم ہوگئے_ انكا اہم ترين گروہ بغداد ميں تھا_معروف صوفى مثلا ابوسعيد خرّاز (متوفى ۲۷۷ قمري) جنيد بغدادى (متوفى ۲۹۸قمري) اور ابوبكر شبلى (متوفى ۳۳۴ قمرى ) وہاں زندگى گذارتے تھے(۳) كلامى اوراعتقاد كے اعتبار سے صوفيوں ميں پائے جانے والے مختلف نظريات انكے فكرى اور باطنى مكتبوں اور فرقوں ميں اختلاف كا باعث تھے _ مثلا خواجہ عبداللہ انصارى اور ابوسعيد ابو الخير آپس ميں اختلاف رائے ركھتے تھے(۴)

تيسرى صدى ہجرى سے دوسرے علاقوں كے صوفيوں كا مركز سے رابطہ اور نظم بڑھ گيا يہانتك كہ بغداد ميں - ۳۰۹ قمرى ميں حلاج قتل ہوا _ يہ چيز باعث بنى كہ بغداد بتدريج صوفيوں كا محور اور مركزنہ رہا_ اسى صدى كے وسط سے ہى بغداد كے بڑے صوفى حضرات نے تاليف كا آغاز كيا اس دور كى اہم ترين كتابيں مندرجہ ذيل ہيں : خرگوشى نيشابورى (متوفى ۴۰۶ قمري) كى تہذيب الاسرار، ابوبكر كلا بازى كى

____________________

۱)عبداللہ بن محمد ارضاري، طبقات الصوفيہ ج ۱۲ ، ص ۵ _۱۹۴_

۲)رينولد'' نيكلسون'' پيدائشے و سير تصوف ترجمہ محمد باقر معين، ص ۱۴_۱۱، مانرى كورين ، تاريخ فلسفہ اسلامى ، ترجمہ جواد طباطبائي ص ۷۳_۲۶۵_

۳)ابوبكر محمد بن ابراہيم كلاباذي، التعرف لمذہب اہل التصوف ، دمشق ص ۳۰ _ ۲۸_

۴)احمد جامى ، مقامات شيخ الاسلام حضرت خواجہ عبداللہ انصارى طروى ، چاپ فكرى سلجوقى تہران ص ۳۴_ ۳۱_

۱۱۱

تصنيف ''التعرف لمذھب اہل التصوف ''اور ابونصر سراج طوسى كى تاليف'' كتاب اللمع فى التصوف'' چوتھى صدى ميں اور اس كے بعد بھى تاليف كى يہ روايت جارى رہي_ كتاب ''التعرف كلا بازى ''كو ابواسماعيل مستملى نے فارسى زبان ميں ترجمہ كيا_ ابو حامد غزالى (متوفى ۵۰۵ قمري) نے كتاب ''كيمياى سعادت ''كو عربى زبان ميں تحرير كيا اسى طرح شہاب الدين عمر سہروردى نے ساتويں صدى ہجرى ميں تصوف كے حوالے عربى ميں كتاب'' عوارف المعارف ''تاليف كى _

چوتھى صدى كے دوسرے نصف حصہ سے صوفيوں كى تاريخ خاص اہميت كى حامل ہے ابو عبدالرحمان سلمى نيشابورى نے كتاب طبقات الصوفيہ ميں ۱۰۳ معروف صوفيوں كا پہلى بار اپنى كتاب ميں تعارف كروايا نيز انكى كچھ باتوں كو بھى ذكر كيا_ اسى كتاب طبقات الصوفيہ كى مانند ابونعيم اصفہانى نے بھى كتاب حلية الاولياء تاليف كى جو ''طبقات الصوفيہ ''كا تقريباً چربہ تھى(۱)

چھٹى صدى ہجرى كے بعد سے صوفيوں ميں گوناگوں سلسلے تشكيل پائے ہر سلسلے كا نام اس طريقت كے بانى كے نام پر ہوتا مثلا سلسلہ سہرورديہ ، شہاب الدين عمر سہروردى كے ساتھ منسوب ہے اور سلسلہ مولويہ مولانا جلال الدين بلخى كے ساتھ منسوب ہے ان سلسلوں كو مختلف واسطوں كے ساتھ صدر اسلام اور حضرت رسول اكرم(ص) سے ملايا جاتا تھا كہ اس قسم كى نسبت مستحكم دليل و بنياد سے خالى ہوتى ہے(۲)

مجموعى طور پر پانچويں ، چھٹى اور ساتويں صدى ہجرى ميں شيعہ اور سنى ميں اختلاف نظر ، سنى مذاہب بالخصوص حنفيوں اور شافعيوں ميں مذہبى مجادلے ، فقہاء اور فلاسفہ ميں نظرياتى اختلاف اور مختلف جنگيں مثلا منگولوں كے حملے باعث بنے كہ تصوف لوگوں كيلئے بہت زيادہ پر كشش بن جائے، اس دور ميں بزرگ ، صوفى ظاہر ہوئے مثلا ابوالحسن فرقاني، ابوسعيد ابو الخير(۳) بابا طاہر عريان، ابوالقاسم قشيري، حجت الاسلام

____________________

۱)نصر اللہ پور جوادي، ابو منصور اصفہانى كى سير السلف و نصحات الانس كے حوالے سے معلومات ، معارف دورہ ۱۴ ش ۳ _

۲)احمد بن عبداللہ ابونعيم اصفہاني، سابقہ ماخذج ۱۰ ص ۳ _۴۲۰_

۳)فريش ماير، ابوسعيد ابو الخير ، حقيقت و افسانہ، ترجمہ مہر آفاق بايبوردي_

۱۱۲

غزالى(۱) ابونعيم اصفہانى(۲) ، احمد غزالى ، عين القضات ہمدانى(۳) احمد جامى(۴) عبدالقادر گيلاني، سہروردى(۵) ، نجم الدين كبري، فريد الدين عطار نيشابورى(۶) شمس تبريزي، جلال الدين مولوي(۷) اور بالخصوص محى الدين ابن عربي_

پانچويں اور چھٹى صدى ميں تصوف ادب ميں سرايت كرگيا _اكثرشعراء حضرات عرفان اور تصوف كى طرف مائل ہوگئے مثلا مولوى نے عرفانى اشعار كو معراج پر پہنچا ديا_ اس سے بڑھ كر غزالى اور سہروردى كى مانند افراد كے ظاہر ہونے سے تصوف كا فلسفى پہلو بھى ترقى كرگيا_ اس پہلو اور نظريہ كے سربراہ محى الدين ابن عربى ہيں انكے معروف ترين آثار'' فتوحات مكيہ اورفصوص الحكم ہيں انہوں نے تصوف ، عرفان اور حكمت اشراق كو اپنى كتب ميں استدلالى اور برہانى روش كے ساتھ پيش كيا اور وہ اسلام ميں وحدت وجود كے مكتب كے حقيقى بانى بھى ہيں(۸)

چھٹى صدى ہجرى ميں عين القضات ہمدانى (متوفى ۵۲۵ قمري) جو ايك عظيم عارف اورفقيہ تھے ، پيدا ہوئے انہوں نے اپنے اوپر لگائے ہوئے الزامات كے مقابلے ميں اللہ تعالى پراپنے ايمان اورنبوت و آخرت پر ايمان كا مناسب انداز سے دفاع كيا ليكن ان پر كفر اور زندقہ كى تہمت لگاتے ہوئے انہيں تينتيس

____________________

۱)محمد بن محمد غزالي، احياء علوم الدين ، بيروت_

۲)احمد بن عبداللہ ابونعيم اصفہاني، سابقہ ما خذ_

۳)عبداللہ بن محمد عين القضاة ، دفاعيات عين القضاة ہمداني، ترجمہ رسالہ شكورى الغريب ، ترجمہ و حاشيہ قاسم انصاري، تہران_

۴) عبدالرحمان بن احمد جامي،نفحات الانس، محمود عابدى كى كوشش كے ساتھ _تہران_

۵)يحيى بن جبش سہروردى ، مجموعہ مصنفات شيخ اشراق ، كوربن كى كوشش كے ساتھ، تہران ، محمد بن مسعود قطب الدين شيرازى شرح كلمة الاشراق سہروردى عبداللہ نورانى و مہدى محقق كى كوشش كے ساتھ تہران_

۶)محمد بن ابراہيم عطا، تذكرة الاولياء ،محمد استعلامى كى كوشش كے ساتھ ، تہران_

۷)جلال الدين محمد بن محمد مولوى ، مثنوى معنوي، تصحيح و ترجمہ رينو الاولين ينكلسون، تہران_

۸)رينو اور نيكلسون، سابقہ ما خذص ۴ _ ۳۲_

۱۱۳

۳۳ سال كى عمر ميں قتل كرديا گيا يہ واقعہ حسين بن منصور حلاج كے قتل كے بعد اسلامى تصوف كى تاريخ ميں انتہائي جانگداز واقعہ شمار ہوتاہے(۱)

اسى صدى ميں اس قسم كے خشك تعصب كا ايك اور مظاہرہ ايران كے مشہور فلسفى شہاب الدين سہروردى كے قتل كى شكل ميں سامنے آيا وہ ۵۴۹ قمرى ميں سہرورد زنجان ميں پيدا ہوئے اور ۵۸۷ قمرى ميں صلاح الدين ايوبى كے حكم اور حلب شہر كے متعصب لوگوں كے بھڑكانے پر اٹھتيس سال كى عمر ميں قتل ہوئے ساتويں صدى ہجرى ميں سہروردى كا مكتب تشكيل پايا اسى صدى ميں تصوف وجد اور حال كے مرحلہ سے '' قال'' كے مرحلہ تك پہنچا اور علمى فلسفى صورت ميں سامنے آنے لگا(۲)

آٹھويں صدى ميں سہروردى ، ابن عربى اور ابن فارض كا عرفانى مكتب شہرت پانے لگا اور تصوف اور عرفان آپس مخلوط ہوگئے_ عرفانى علوم اور خانقاہوں كى راہ و رسم كو ايك جگہ پڑھايا جانے لگا اسى صدى ميں ايران كے عظيم ترين عارف اور سخن سرا حافظ شيرازى پيدا ہوئے اسى طرح شيخ صفى الدين اردبيلى (۷۳۵ _ ۶۵۰ قمري) ، ابوالوفاء (متوفى ۸۳۵ قمري) زين الدين ابوبكر تايبادى (متوفى ۷۹۱) اور زين الدين ابوبكر محمود خوافى (متوفى ۸۳۸ قمري) كہ جو ايران كے آٹھويں صدى اور نويں صدى كے آغاز ميں بزرگ عرفا ميں شمار ہوتے تھے ظاہر ہوئے يہ سب سہرورديہ طريقت كے پيروكار اور شيخ نور الدين عبدالرحمان قريشى مصرى كے مريد تھے _ اس دور كے اور اسكے كچھ عرصہ بعد كے بڑے عرفاء ميں سے جامع الاسرار كے مصنف سيد حيدر آملي، علاء الدين سمنانى ( ۷۳۶ _۶۵۹ قمري) گلشن راز كے مصنف شيخ محمود شبسترى (متوفى ۷۲۰ قمري) نعمت اللہى سلسلہ كے بانى شاہ نعمت اللہ ماہانى كرمانى المعروف شاہ نعمت اللہ ولى اور مختلف كتب اور عرفانى نظموں كے خالق نور الدين عبدالرحمان جامى (متوفى ۹۱۲ قمري) قابل ذكر ہيں تصوف نے در حققت آٹھويں صدى ہجرى ميں اپنے كمال كے تمام مراحل طے كرليے تھے كيونكہ اس تاريخ كے بعد يہ زوال كاشكار ہوا(۳)

____________________

۱)زين الدين كيائي ناد ، سابقہ ما خذص ۴۲ _۱۳۱_

۲)قمر گيلانى ، فى التصوف الاسلامي، مفہومہ و نظورہ و اعلامہ ، بيروت_

۳)زين الدين كيانى ناد ، سابقہ ما خذص ۲ ، ۲۳۱_

۱۱۴

صفوى دورميں تصوف ايك نئے مرحلہ ميں داخل ہوا گذشتہ قرون ميں صوفى راہنماؤں كى ذمہ دارى يہ تھى كہ اپنے مريدوں كى راہنمائي اور تہذيب نفس كريں اسى ليے وہ دنيا كى كوئي پرواہ نہ كرتے تھے اور حق تك وصل اور كمال انسانى ميں سعادت حاصل كرنے كى كوشش ميں رہتے تھے_ نويں صدى ہجرى ميں صوفى مشايخ ميں سے ايك شيخ يعنى شيخ جنيد جو كہ شاہ اسماعيل كے جد تھے انہوں نے طاقت و قدرت اپنے ہاتھوں ميں لينے كيلئے صوفى گروہ اور اپنے مريدوں كو تيار كيا اور اسى ہدف كے پيش نظر صوفيوں كو كفار سے جہاد كيلئے مجبور كيا اور اپنے آپ كو سلطان جنيد كہلايا اس تاريخ كے بعد صوفى لوگ جنگى لباس ميں آگئے_

شاہ اسماعيل كے ابتدائي زمانہ حكومت ميں اسكے مريد اور پيروكار ايك مدت تك اسے صوفى كہتے رہے پھر صوفى اور قزلباش كا عنوان ايك دوسرے كيلئے لازم و ملزم ہوگيا _ شاہ تہماسب كے زمانہ ميں شيعوں اور قديم صوفى مريدوں كى اولاد كا ايك گروہ ديار بكر اور ايشيا ئے كوچك كے كچھ علاقوں سے ايران ميں داخل ہوا اور صوفى گروہ ميں شامل ہوگئے شاہ تہماسب كى وفات كے وقت قزوين ميں صوفيوں كى تعداد دس ہزار تك پہنچ گئي صوفى لوگ قزلباشوں كے ديگر گروہوں كى نسبت بادشاہ كے زيادہ قريب ہوتے تھے صوفيوں كے ہرگروہ كے سربراہ كو خليفہ كا نام ديا جاتا تھا اور تمام صوفيوں كے سربراہ كوخليفةالخلفاء كہا جاتا تھا(۱)

شاہ عباس نے صوفيوں كو نظرانداز كرديا اوروہ تمام اہم امور جو انكے ہاتھوں ميں تھے ان سے لے ليے_ جو كچھ بھى صفويہ دور ميں صوفيوں كے حوالے سے لكھا گيا وہ فقط شيخ صفى الدين اور انكے جانشينوں كے پيروكاروں كے بارے ميں ہے صفوى حكومت كے وسطى زمانہ سے علماء شريعت كى قوت بڑھنے لگى اور اسى نسبت كے ساتھ صوفى لوگ زوال كا شكار ہونے لگے اور انكى مخالفت بڑھنے لگى يہانتك كہ انكے حوالے سے مرتد كافراور زنديق ہونے كى باتيں ہونے لگيں ، قاجارى دورميں اگر چہ صوفيوں كے كام كچھ زيادہ لوگوں كى توجہ كا مركز قرار نہ پائے ليكن حكومت كے استحكام سے معمولى آسايش حاصل ہونے كے ساتھ ساتھ حملہ اور

____________________

۱)نور الدين مدرسى چہاردہي، سلسلہ ہاى صوفيہ ايران ، تہران_

۱۱۵

اذيت سے محفوظ ہوگئے ليكن خانقاہيں پھر منظم اور پرجوش نہ رہيں (۱)

فتوت، عربى زبان ميں ايسى صفت ہے كہ جو كلمہ '' فتي'' سے مشتق ہوئي ہے اور اس شخص كى صفت ہے كہ جس نے جوانى اور شباب ميں قدم ركھا ہويہ كتاب منتھى الارب ميں جوانمردى اور عوامى كے معنى ميں ذكر ہوئي ہے زمانہ جاہليت ميں يہ كلمہ دو مجازى معانى '' شجاعت اور سخاوت'' ميں استعمال ہوا كلمہ فتوت كے مشتقات قرآن مجيد كى سورتوں كہف،يوسف، نساء اورنور ميں ذكر ہوئے ہيں كہ دو يا تين مقامات سے ہٹ كر باقى تمام جگہوں پر جوانمرد يا جوانمردى كے علاوہ معانى ميں انكى تفسير ذكر ہوئي ہے(۲) جنگ احد ميں پيغمبر اكرم نے حضرت على (ع) كو كفار سے دليرى كے ساتھ جنگ كرنے كى بناپر فتى كا لقب ديا اور فرمايا : لا فتى الا علي_(۳) اموى دور ميں فتوت كے معنى ميں وسعت پيدا ہوئي اور مردانگى اور مروت كے مختلف موضوعات اس كے معنى ميں داخل ہوئے ليكن اسكا اساسى ركن ايثار كہلايا كہ جو صوفيانہ فتوت كى سب سے پہلى خصوصيت تھى _

صدر اسلام ميں زاہدين اور سچے مسلمان جہاد اور راہ اسلام ميں جنگ كى مانند اس چيز كواپنى ذمہ دارى سمجھتے تھے _ اس دور كے بعد صوفى حضرات خانقاہوں ميں بسيرا كرنے لگے اور جہاد اصغر سے جہاد اكبر يعنى نفس سے جنگ كى تعليم ميں مشغول ہوئے اسى ليے فتوت كہ جو شجاعت اور كرامت كے مترادف تھا اخلاق حسنہ اور ايثار كے معنى ميں تبديل ہوگيا اور صاحب فتوت كى تين علامات قرار پائيں : (۱_) ايسى وفا كہ جسميں بد عہدى نہ ہو (۲_) بغير توقع كے تعريف كرنا (۳_) بغير مانگے دينا_(۴)

فتوت كى بھى تصوف كى مانند كوئي جامع تعريف موجود نہيں ہے_(۵)

____________________

۱)زين الدين كيانى ناد، سابقہ ما خذص ۲۳۲_

۲)يوسف ۳۰ ، ۳۶ ، ۶۱، ۶۲ ، كہف ۱۰ ، ۱۳، ۵۹ ، ۶۱ ، نساء ۲۹ ، نور ۳۳ ، نيز رجوع كريں محمد جعفر محجوب '' مقدمہ فتوت نامہ سلطانى ، نوشتہ مولانا حسين واعظ كاشفى سبزوارى ص ۹_۷_

۳)سابقہ ما خذمقدمہ ص ۹ _

۴)سابقہ ما خذص ۱۱ _ ۹_

۵) سابقہ ماخذ، ص ۱۱

۱۱۶

فتوت كے حوالے سے ابن عمار حنبلى بغدادى جو اس موضوع پر قديمى ترين كتاب '' كتاب الفتوة'' كے مصنف ہيں اس ميں لكھتے ہيں كہ سنت ميں فتوت كے حوالے سے احاديث بيان ہوئيں ہيں كہ جن ميں سے بہترين احاديث امام جعفر صادق (ع) سے نقل ہوئيں جو انہوں نے اپنے والد اورجد مبارك سے روايت كى ہيں كہ رسول اكرم(ص) نے فرمايا: كہ ميرى امت كے جوانمردوں كى دس علامات ہيں : سچائي ، تعہد سے وفا، امانت ادا كرنا ، كذب سے پرہيز، يتيم پر سخاوت ، سائل كى مدد كرنا ، جو مال پہنچے اللہ كى راہ ميں دينا، بہت زيادہ احسان كرنا، مہمان بلانا اور ان سب سے بڑھ كر حيا ركھنا(۱)

مختلف كتابوں سے تصوف اور فتوت كے حوالے سے بہت سى تعريفيں ملتى ہيں كہ ان كتابوں ميں سے اہم ترين كتابيں '' الفتوة الصوفية اور طبقات الصوفيہ'' مصنف ابو عبدالرحمان سلمى نيشابورى اور سالہ قشيريہ كہ جسكے مصنف ابوالقاسم قشيرى ہيں _(۲)

مسلم بات يہ ہے كہ ان تمام كتب كے مطالعہ سے يہ استنباط ہوتاہے كہ فتوت شروع ميں تصوف كے مسالك ميں سے ايك مسلك كے طور جانا گيا ، عام طورپر يہ جوانمرد لوگ اپنے ''سراويل يا كسوت'' نامى لباس يا حليے كے حامل تھے جس كا عملى سرچشمہ حضرت على كى سيرت اوركردار كو جانتے تھے(۳)

تيسرى صدى كے بعد فتوت صوفيوں كى مذہبى و دينى كتابوں كے علاوہ فتوت ناموں ، عوامى داستانوں ، اشعار اور فارسى ادب كى صورت ميں شاعروں اور اہل سخن و كلام كى تعريف و ستائشے كا محور قرار پايا(۴)

____________________

۱)ابن عمار حنبلى بغدادي، الفتة ص ۲۳۳_ ۱۳۲ صالح بن جناح ، كتاب الادب و المروة ، ترجمہ و تصحيح سيد محمد دامادى ، پوہشگاہ علوم انسانى و مطالعات فرہنگى تہران ص ۸_

۲)فتوت نامہ سلطنى ، سابقہ ما خذص ۱۲ مقدمہ _

۳)محمد جعفر محجوب ، سابقہ ما خذص ۱۳ _ ۱۲_

۴)فتوت نامہ سلطانى ص ۱۳ تا ۱۵ ، على اكبر دہخدا ، امثال و حكم ج ۲_

۱۱۷

فتوت كے حوالے سے قديمى اور معتبر مصادر ميں سے عنصر المعانى كيكاووس بن اسكندر بن قابوس كى كتاب قابو سنامہ ہے كہ جس كے آخرى باب (چواليسواں باب ) ميں جوانمرد ہونے كيلئے قانون كاذكر ہے _ قابوسنامہ كى تفضيلات سے يہ معلوم ہوتاہے كہ اس زمانہ ميں اور اس سے قبل فتوت معاشرہ كے تمام طبقات ميں عملى اور اخلاقى احكام كى شكل ميں رائج تھا ہر كوئي اپنے كاموں ميں جوانمرد ہو اور فتوت كے قوانين كى پابندى كرتا تھا_

دوسرى صدى سے فتوت كا مكتب عياري(۱) كے ساتھ مخلوط ہوا اور اسكے خاص آداب اور رسوم تشكيل پائيں اسى ليے پہلوان لوگ ، ورزش كرنےوالے ، طاقتور لوگ، سپاہى اورعيار لوگ اپنے آپ كو جوانمرد كہنے لگے اور دوسرى طرف سے پيشہ ور اورسوداگر و تاجر لوگ اپنى جوانمردى كيلئے مخصوص آداب اور رسوم ركھنے لگے صوفى اور خانقاہ نشين لوگ بھى اپنے مكتب ميں جوانمردى كى رسوم و آداب كا خيال ركھنے لگے اور جو اس راہ ميں دوسروں سے بڑھ كر كوشش كرتا وہ فتوت ميں برتر سمجھا جاتا تھا(۲)

بلا شبہ فتوت كى گروہى صورت ميں فعاليت ايران كے علاوہ ديگر تمام اسلامى علاقوں مثلا شام اور مصر و غيرہ ميں بھى موجود تھى _ اس سے بڑھ كر تمام صليبى جنگوں كے دوران بيت المقدس سے شواليہ نام كے سواروں كا گروہ فرانس اور ديگر يورپى ممالك ميں ان مسلمانوں جوانمردوں ، سواروں كى تقليد كرتے ہوئے يورپ ميں داخل ہوئے كہ جو كرد، لر، فارس، ترك اور عرب قوميتوں سے مخلوط تھے_ بعض مورخين كا عقيدہ ہے كہ يورپ ميں اخلاقى بالخصوص فرانس ميں اخلاقى تربيت اور اصلاح شواليوں كے ان ممالك ميں جانے سے ہوئي كہ انہوں نے ان ممالك ميں جوانمردى ، اصيل زادگى ( ذات كے حوالے سے نجيب ) اور شجاعت كے قانون كو رائج كيا(۳)

____________________

۱) عيارى (پہلوانى كى طرح) قديم زمانے ميں ٹريننگ اور رياضت كى بعض انواع ميں سے ايك تھى جو دوسرى صدى ہجرى كے اواخر سے اسلامى معاشرے ميں پائي جاتى ہے_ عيار اپنى زندگى ميں كچھ خاص طريقوں اور اصولوں كے پابند ہوتے تھے_ بعد ميں عيارى تصوف سے مخلوط ہوگئي_(مصحح)

۲)فتوت نامہ سلطانى ، ص ۱۷ ، ۱۸ ، مقدمہ_

۳) ہانرى كربن ، سابقہ ما خذص ۱۱۹_

۱۱۸

ملك الشعرا بہار نے سيستان كى تاريخ پر حاشيہ ميں لكھا عرب لوگ اپنے جنگجو ، زيرك اور ہوشيار اشخاص كہ جو ہنگاموں ،شورشوں يا جنگوں ميں شجاعت اور ذھانت دكھاتے انہيں عيار كا نام ديتے تھے _ بنى عباس كے دور ميں خراسان اور بغداد ميں عيار لوگ تعداد ميں بڑھ گئے تھے_ سيستان اور نيشابور ميں خاصہ (بادشاہوں يا امراء كے اصحاب و مقربين) اور يعقوب ليث صفار اس طايفہ كے سرداروں ميں سے تھے ہر شہر ميں عياروں كے سر براہ ہوتے تھے كہ جنہيں وہ ''سرہنگ ''كہا كرتے تھے اور كبھى تو ايك شہر ميں كئي سرہنگ اور چند ہزار عيار موجود ہوتے تھے(۱)

غزنوى اور سلجوى ادوار ميں عيار لوگ شہرى معاشرے كا ايك مخصوص طبقہ ہوتے تھے كہ يہ لوگ شہروں ميں عام لوگوں كى مانند يا مشرقى مصادر كى اصطلاح ميں ''اوباش'' كى صورت ميں ہوتے تھے يہ لوگ كفار كے ساتھ جہاد كيلئے مسلح گروہ تشكيل ديتے تھے جنہيں عيار كہا جاتا تھا(۲)

عباسى خليفہ '' الناصر لدين اللہ كا جوانمردوں كے گروہ ميں شامل ہونا اور فتوت كى ''سراويل ''پہننا چھٹى صدى ہجرى كے آخرى سالوں ميں ايك بڑا واقعہ تھا كہ جو فتوت كى تاريخ كے بہت بڑے واقعات ميں شمار ہوتا تھا_ چونكہ وہ جوانمردى كے مكتب كا اسلامى معاشرے ميں نفوذسے باخبر ہوچكا تھا اس ليے اس نے اسے عباسى حكومت كے ستونوں كو مستحكم كرنے كے ليے بہت مفيد جانا تا كہ اس كے ذريعے عباسى حكومت كو زوال سے بچالے اور عباسى حكومت كى عہد رفتہ كى شان و شوكت كودوبارہ زندہ كرے(۳) ۶۵۶ قمرى ميں منگولوں كے حاكم ہلاكو خان كے بغداد پر قابض ہونے اور بغداد ميں عباسى حكومت كے ختم ہونے كے ساتھ فتوت كى فعاليت ميں جمود پيدا ہوگيا چند سال كے بعد حكومت مماليك (سفيد فام غلام جو گردونواح كے مختلف علاقوں پر فرمانروائي كرتے تھے) كى حمايت كے ساتھ مصر ميں برائے نام عباسى خلافت ظاہر ہوئي كہ جن كے ساتھ

____________________

۱)تاريخ سيستان ص ۶_ ۱۷۵_

۲)مجلہ دانشكدہ ادبيات تہران ، س ۴ ، ش ۲ دى ۱۳۲۵ ص ۸۲_

۳)كاظم كاظمينى ، عياران ص ۱۴_ ۱۳ ، حائرى كوربن ، آئين جوانمردى ص ۱۸۰ ، ۱۷۵_

۱۱۹

فتوت بھى ظاہر ہوئے اور انكا مكتب مصر اور شام ميں رائج ہونے لگا اور يہ رواج بعد كے ادوار ميں بھى جارى رہا ليكن عراق ميں عباسى حكومت كے خاتمہ سے يہ مكتب زوال پذير ہوگيا اگر چہ اسكى جڑيں باقى رہيں(۱)

ناصر نے فتوت ناصرى كے طريقہ كو سلجوقيان كى رومى مملكت ميں رواج ديا _ عثمانيوں نے بھى طاقت اور حكومت تك پہنچے كيلئے ''اَخي'' اور اناطولى كے اہل فتوت كو پل كے طور پر استعمال كيا_

اہل فتوت كے ''اخيوں ''كا شيخ صفى الدين اردبيلى كے گرد موجود ہونا اور شاہ اسماعيل صفوى كا اپنے تركى اشعار كے ديوان ميں اپنے مددگاروں اور تابعين كيلئے عنوان ''اخى ''كا استعمال فتيان، قزلباشوں اور شيعوں كے درميان رابطے سے بڑھ كر ان لوگوں كے حكومتى انتظامى امور ميں ناقابل انكار سياسى اور معاشرتى كردار كو ظاہر كرتاہے _ خصوصاً يہ كہ وہ كسوت (صوفيا كا خاص لباس ) پوش اور پاكيزہ صوفيوں يعنى شاہ كے فدائيوں ميں سے شمار ہوتے تھے(۲)

ايرانى خاندانوں كے ايران پر حكومت كے دوران عيار لوگ كشتى كرنے والے پہلوانوں كے بھيس ميں سلاطين كے دربار ميں موجود ہوتے تھے يافوج ميں جنگجو كى صورت ميں اپنے وطن كى خدمت ميں مشغول تھے_ اور جب غير ايران پر قابض ہوئے تو يہ عيارى شكل و شمائل ميں انكے ساتھ جہاد كرتے جيسا كہ منگولوں كے تسلط كے آخرى دور ميں عياروں كى جماعت نے عبد الرزاق بن خواجہ شہاب الدين بيہقى كى سربراہى ميں قيام كيا اور سربداران كى تحريك كو وجودميں لائے_ يہ لوگ اپنے آپ كو شيعوں اور حضرت على (ع) كے جانثاروں ميں شمار كرتے تھے اور فتيان كے مكتب پر عياروں كى ماند عمل پيرا ہوكر لڑتے تھے_

مشہور ہے كہ چنگيز خان نے كسى كو سلسلہ كبرويہ كے چھٹى اور ساتويں صدى كے مشہور عارف اور بزرگ صوفى شيخ نجم الدين كبرى كے پاس (اس پيغام كے ساتھ) بھيجا كہ : '' ميں نے حكم دياہے كہ خوارزم ميں قتل

____________________

۱)جواد مصطفي، مقدمة الفتوة ، تاليف ، ابن عمار حنفى بغدادي، ہانرى كوربن، سابقہ ما خذص ۱۸۳_

۲)عباس اقبال آشتياني،فتوت و خلافت عباسي، محلہ شرق، دورہ يكم ، ش خرداد ۱۳۱۰ ص ۱۰۵ ،۱۰۱_

۳)صالح بن جناح، كتاب الاب والمروة ص ۹ _ ۷۹_

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

جائیں جسے نینوا کہتے ہیں یا اس دیہات میں چلے جائیں جسے غاضر یہ(١) کہتے ہیں یاایک دوسرے قریہ میں جانے دو جسے شفیہ کہتے ہیں(٢) لیکن حرنے تمام درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا : نہیں خدا کی قسم میں ایسا کرنے پر قادر نہیں ہوں ، یہ شخص میرے پاس جاسوس بناکر بھیجا گیا ہے ۔

____________________

١۔ غاضریہ، غاضر کی طرف منسوب ہے جو قبیلہ بنی اسد کا ایک شخص ہے۔ یہ زمین ابھی عون کی قبر کے آس پاس ہے جو کربلا سے ایک فرسخ کے فاصلہ پر ہے وہا ں ایک قلعہ کے آثار موجود ہیں جو قلعہ بنی اسد کے نام سے معروف ہے ۔

٢۔ یہ بھی کربلا کے نزدیک بنی اسد کے کنوی ں کا مقام ہے ۔

۲۶۱

اس بے ادبی پرزہیر بن قین ، امام علیہ السلام سے مخاطب ہو کر کہنے لگے :''یابن رسول اللّٰہ، ان قتال ھولاء أھون من قتال مَن یاتینا من بعدھم ، فلعمری لیاتینا من بعد من تری مالا قبل لنا بہ'' اے فرزند رسولخدا ! ان لوگوں سے ابھی جنگ آسان ہوگی بہ نسبت اُن لوگوں کے جو اِن کے بعد آئیں گے۔ قسم ہے مجھے اپنی جان کی اس کے بعدہماری طرف اتنے لوگ آئیں گے جن کا اس سے پہلے ہم سے کوئی سابقہ نہ ہواہو گا ۔زہیر کے یہ جملے سن کر امام علیہ السلام نے ا ن سے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا جوان کے سابقہ بزرگوں کی سیرت کا بیان گر ہے۔ آپ نے فرمایا : ''ماکنت لٔابدأ ھم با لقتال'' میں ان سے جنگ کی ابتداء کرنا نہیں چاہتا اس پر زہیر بن قین نے کہا : تو پھر اس کی اجازت فرمائیے کہ ہم اس قریہ کی طرف چلیں اور وہاں پہنچ کر پڑاؤ ڈالیں کیونکہ یہ قریہ سرسبزو شاداب ہے اور دریائے فرات کے کنارے ہے۔ اگران لوگوں نے ہمیں روکا تو ہم ان سے نبرد آزمائی کریں گے کیونکہ ان سے نبرد آزماہونا آسان ہے بہ نسبت ان لوگوں کے جو ان کے بعد آئیں گے۔ اس پر امام علیہ السلام نے پوچھا :''وأےة قرےة ھی ؟ ''یہ کون سا قریہ ہے ؟ زہیر نے کہا : ''ھی العقر''اس کانام عقر ہے(١) تو امام علیہ السلام نے ان سے فرمایا : ''اللّٰھم انی أعوذبک من العقر'' خدا یا !میں عقر سے تیری پناہ مانگتاہوں ، پھر آپ نے وہیں اپنے قافلہ کو اتارا۔ یہ جمعرات دوسری محرم ٦١ ھ کا واقعہ ہے جب دوسرا دن نمودار ہواتو سعد بن ابی وقاص(٢) کا بیٹاعمر کوفہ سے چار ہزار فوج لے کر کربلا پہنچ گیا ۔

____________________

١۔ بابل کے دیہات میں ایک جگہ ہے جہا ں بنو خذنصر(یہ وہی بخت النصر معروف ہے جس کا صحیح تلفظ بنو خذ نصر ہے) رہاکرتے تھے اس علاقہ کو شروع میں کوربابل کے نام سے یاد کیا جاتا تھا بعد میں کثرت استعمال کی وجہ سے تصحیف ہو کر کربلا کہا جانے لگا ۔

٢۔ مذکورہ شخص کے احوال گذر چکے ہیں ۔

۲۶۲

امام حسین علیہ السلام کی جانب پسر سعد کی روانگی

* ابن زیاد کے نام عمر بن سعد کا خط

* ابن زیاد کا جواب

* پسر سعد اور امام علیہ السلام کی ملاقات

* ابن زیاد کے نام عمر بن سعد کا دوسرا خط

* ابن زیاد کا پسر سعد کے نام دوسرا خط

* خط کے ہمراہ شمر کا کربلا میں ورود

* جناب عباس اور ان کے بھائیوں کے نام امان نامہ

* امام علیہ السلام اور ان کے اصحاب پر پانی کی بندش

۲۶۳

امام حسین علیہ السلام کی جانب پسر سعد کی روانگی

امام حسین علیہ السلام کی طرف پسر سعد کی روانگی کا سبب یہ تھا کہ عبیداللہ بن زیاد نے اسے اہل کوفہ کی چارہزار فوج کے ہمراہ ''ہمدان ''اور'' ری'' کے درمیان ایک علا قہ کی طرف روانہ کیا تھا جسے دشتبہ(١) کہتے ہیں جہاں دیلمیوں نے حکومت کے خلاف خروج کر کے غلبہ حاصل کر لیا تھا ۔ ابن زیاد نے خط لکھ کر ''ری'' کی حکومت اس کے سپردکی اور اسے روانگی کا حکم دیا ۔

عمر بن سعد اپنی فوج کے ہمراہ روانہ ہو گیا۔'' حمام اعین ''(٢) کے پاس جا کر پڑاؤ ڈالا لیکن جب امام حسین علیہ السلام کامسئلہ سامنے آیا کہ وہ کو فہ کی طرف آرہے ہیں تو ابن زیاد نے عمر سعد کو بلا یا اور کہا : تم حسین کی طرف روانہ ہو جاؤ اور جب ہمارے اور اس کے درمیان کی مشکل حل ہو جائے تب تم اپنے کام کی طرف جانا۔ اس پر عمر بن سعد نے کہا : اللہ آپ پر رحم کرے اگر آپ بہتر سمجھیں تو مجھے اس سے معاف فرمائیں اور یہ کام خود انجام دیں ۔ یہ سن کر ابن زیاد نے کہا : ہاں یہ ممکن ہے لیکن اس شرط پر کہ تم وہ عہد نا مہ واپس کر دو جو میں نے تم کو'' ری'' کے سلسلے میں دیا ہے۔جیسے ہی ابن زیاد نے یہ کہا ویسے ہی عمر بن سعد بولا:مجھے ایک دن کی مہلت دیجئے تاکہ میں خوب فکر کرسکوں اور وہاں سے اٹھ کر اپنے خیر خوا ہوں کے پاس مشورہ کرنے کے لئے آیا۔تمام مشورہ دینے والوں نے اسے اس کام میں ہا تھ ڈالنے سے منع کیا ۔

____________________

١۔عربی میں اس کو دستبی کہتے ہیں جو فارسی میں دشتبہ کہا جاتا ہے۔ یہ ایک خوبصورت، سر سبز وشاداب اور بہت بڑاعلا قہ ہے جو ہمدان اور ری کے درمیان ہے۔ بعد میں یہ قزوین سے منسوب ہوگیا جیسا کہ معجم البلدان ،ج٤، ص ٥٨میں ذکر ہوا ہے۔

٢۔ یہ کوفہ کے دیہاتو ں میں سے ایک دیہات ہے جہا ں عمر بن سعد کا ایک حمام تھا جو اس کے غلام'' اعین'' کے ہاتھ میں تھا۔ اسی کے نام پر اس علا قہ کا نام'' حمام اعین'' ہو گیا۔(القمقام ،ص٤٨٦)

۲۶۴

اس کا بھا نجا حمزہ بن مغیرہ بن شعبہ(١) اس کے پاس آیا اور کہنے لگا : اے ماموں ! میں آپ کو خدا کی قسم دیتا ہوں کہ آپ حسین کی طرف نہ جائیں ورنہ آپ اپنے رب کے گناہ گار اور اپنے نزدیکی رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے والے ہوں گے۔ خدا کی قسم اگر آپ دنیا سے اس حال میں کوچ کریں کہ آپ تمام دنیا کے مالک ومختار ہوں اور وہ آپ کے ہاتھ سے نکل جائے تو یہ آپ کے لئے اس سے بہتر ہے کہ آپ اللہ سے اس حال میں ملا قات کریں کہ حسین کے خون کا دھبہ آپ کے دامن پر ہو !اس پر ابن سعد نے کہا : انشا ء اللہ میں ایسا ہی کروں گا ۔(٢)

یہاں سے طبری کی روایت میں ابومخنف کی خبروں کے سلسلہ میں انقطاع پایا جاتا ہے اور ابن سعد کے کربلا میں وارد ہونے کی داستان کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس خلاء کو طبری نے ''عوانہ بن حکم'' کی خبر سے پُر کیا ہے۔ چار وناچا ربط بر قرار رکھنے کے لئے ہمیں اسی سلسلے سے متصل ہونا پڑرہا ہے ۔

ہشام کابیان ہے :مجھ سے'' عوانہ بن حکم'' نے عمار ابن عبداللہ بن یسارجہنی کے حوالے سے بیان کیا ہے اور اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ میرے والد نے کہا :میں عمر بن سعدکے پاس حاضر ہواتواس کو امام حسین علیہ السلام کی طرف روانگی کا حکم مل چکا تھا۔مجھے دیکھ کر اس نے فوراًکہا :امیر نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں حسین کی طرف روانہ ہوجاؤں لیکن میں نے اس مہم سے انکا رکر دیا ۔ میں نے اس سے کہا: اللہ تمہارا مدد گا ہے، اس نے تم کو صحیح راستہ دکھا یاہے۔ تم یہیں رہو اور یہ کام انجام نہ دو اور نہ ہی حسین کی طرف جاؤ! یسار جھنی کہتا ہے: یہ کہہ کر میں پسر سعد کے پاس سے نکل آیا توکہنے والے نے آکر مجھے خبر

____________________

١۔ ٧٧ھ میں حجاج بن یوسف ثقفی نے اسے ہمدان کا عامل بنا یا (طبری ،ج٥،ص ٢٨٤) اور اس کا بھائی مطرف بن مغیرہ مدائن میں تھا۔ اس نے حجاج کے خلا ف خروج کیا تو اس کے بھائی حمزہ نے خاموشی کے ساتھ مال اور اسلحے سے اس کی مدد کی (طبری ،ج٥، ص ٢٩٢)لہذا حجاج نے قیس بن سعد عجلی کو (جو ان دنو ں حمزہ بن مغیرہ کی پو لس کا سر براہ تھا۔ حمزہ کے عہدہ پرمعین کر کے ہمدان روانہ کیا اور حکم دیا کہ حمزہ بن مغیرہ کو زنجیر و ں سے جکڑ کر قید کر لو۔ اس نے ایسا ہی کیا اور اسے زنجیرمیں جکڑ کر قید کردیا۔ (طبری، ج٥ ،ص ٢٩٤)

٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے : مجھ سے عبد الرحمن بن جندب نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے۔ (طبری، ج٥،ص ٤٠٧) اسی سند کے ساتھ ابو الفرج اصفہانی نے مقاتل الطالبیین میں اس واقعہ کو بیان کیا ہے ۔(ص٧٤) لیکن عقبہ کی جگہ پر عتبہ بن سمعان ذکر کیا ہے۔ شیخ مفید نے بھی اس خبر کو الارشاد، ص ٢٢٦ پر ذکر کیا ہے ۔

۲۶۵

دی کہ عمر بن سعد لوگوں کو حسین کے خلاف جنگ کر نے کے لئے بلا رہا ہے ؛ یہ سن کر میں حیرت زدہ ہو گیا! فوراً اس کے پاس آیا، وہ اس وقت بیٹھا ہوا تھا ااورمجھے دیکھ کر اپنا چہرہ فوراً موڑ لیا۔میں سمجھ گیا کہ اس نے جانے کا مصمم ارادہ کر لیا ہے اور میں فوراً اس کے پاس سے نکل آیا۔ راوی کا بیان ہے : وہاں سے عمر بن سعد ، ابن زیاد کے پاس آیا اور کہا : اللہ آپ کو سلامت رکھے !آپ نے ایک کام میرے سپرد کیا ہے اور اس کا عہد نامہ بھی میرے لئے لکھ دیا ہے۔ لوگوں نے اس بات کو سن بھی لیا ہے (کہ میں ''ری'' جا رہا ہوں) تو اب اگر آپ بہتر سمجھیں تو ہمارے لئے اسی حکم کو نافذ رکھیں اورحسین کی طرف اس لشکر میں سے کوفہ کے کسی سر برآوردہ شخص کو بھیج دیں کیونکہ میں فنون جنگ کے لحاظ سے ان سے زیادہ ماہر اور تجربہ کار نہیں ہوں ۔اس کے بعد پسر سعد نے چند لوگوں کے نام ابن زیاد کی خدمت میں پیش کئے تو ابن زیاد نے اس سے کہا : تم مجھے اشراف کوفہ کے سلسلے میں سبق مت سکھاؤ اور حسین کی طرف کس کو روانہ کیا جائے اس سلسلہ میں میں نے تم سے کوئی مشورہ نہیں چاہا ہے۔ اگر تم چاہتے ہو تو ہمارے لشکر کے ساتھ روانہ ہو جاؤورنہ ہمارے عہد نامہ کو ہمیں لوٹا دو ! جب پسر سعد نے دیکھا کہ ابن زیاد ہٹ دھرمی پر آچکا ہے تو اس نے کہا : ٹھیک ہے میں ر وانہ ہورہاہوں ۔ یسار جھنی کا بیان ہے : وہاں سے نکل کر پسر سعد چار ہزار(١) فوج کے ساتھ حسین کی طرف روانہ ہوا اور حسین کے نینوا وارد ہونے کے دوسرے دن کربلا میں وارد ہو گیا۔ راوی کا بیان ہے

____________________

١۔ یہی روایت'' الارشاد'' کے ص ٢٢٧ پر بھی موجودہے نیز مقتل محمد بن ابی طالب سے ایک روایت منقول ہے جس کا خلا صہ یہ ہے : پسر سعد ٩ ہزار کے لشکر کے ہمراہ امام حسین علیہ السلام کی طرف روانہ ہوا ۔ اس کے بعد یزید بن رکاب کلبی ٢ ہزار کی فوج کے ہمراہ ، حصین بن تمیم سکونی ٤ ہزارکی فوج ، فلان مازنی ٣ ہزارکی فوج اور نصر بن فلان ٢ہزار کے لشکر کے ہمراہ حسین کی طرف روانہ ہوئے۔ اس طرح سوار اور پیدل ملا کر ٢٠ ہزار کا لشکر کربلا میں پہنچ گیا۔ شافعی نے اپنی کتاب مطالب السئول میں ذکر کیا ہے کہ وہ ٢٢ ہزار افراد تھے اور شیخ صدوق نے اپنی امالی میں امام جعفر صادق کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ وہ ٣٠ ہزار افراد تھے۔(الامالی، ص ١٠١، طبع بیروت) سبط بن جوزی نے محمد بن سیرین سے روایت نقل کی ہے کہ وہ کہا کرتے تھے : اس پسر سعد کے سلسلے میں علی بن ابی طالب علیہ السلام کی کرامت آشکار ہوگئی کیونکہ آپ کی عمر بن سعد سے اس وقت ملا قات ہوئی جب وہ جوان تھااور آپ نے اس سے فر مایا : ''ویحک یابن سعد کیف بک اِذااقمت یوما مقاماً تخیر فیہ بین الجنة والنار فتختار النار'' (تذکرہ ،ص٢٤٧،ط نجف) اے پسر سعد تیرا حال اس وقت کیا ہوگا جب ایک دن تو ایسی جگہ کھڑا ہوگا جہاں تجھے جنت و جہنم کے درمیان مختار بنایا جائے گااور تو جہنم کو چن لے گا ۔

۲۶۶

کہ وہاں پہنچ کر عمر بن سعد نے عزرہ بن قیس احمسی(١) کو حسین (علیہ السلام) کی طرف روانہ کیا اور کہا : ان کے پاس جاؤ اور پوچھو کہ کون سی چیز ان کو یہاں لائی ہے اور وہ کیا چاہتے ہیں ؟ یہ عزرہ ان لوگوں میں سے ایک ہے جنہوں نے حسین علیہ السلام کو خط لکھا تھا لہٰذا اسے شرم آئی کہ وہ یہ پیغام لے کر وہاں جائے ؛ جب اس نے انکار کردیا تو پسر سعد نے ان تمام سربر آوردہ افراد کے سامنے یہ پیش کش رکھی جن لوگوں نے حسین علیہ السلام کو خط لکھا تھالیکن ان تمام لوگوں نے جانے سے انکار کردیا اور اس بات کو پسندنہیں کیا یہاں تک کہ ان کے درمیان ایک شخص کثیر بن عبداللہ شعبی اٹھا (جو بڑا بے باک رزم آور تھا اور اس کے چہرے پر کوئی تاثّر نہیں تھا) اور کہنے لگا : میں ان کے پاس جاؤں گا خدا کی قسم اگر میں چاہو ں تو انھیں دھوکہ سے قتل بھی کرسکتا ہوں ۔(٢) عمر بن سعد نے کہا : میں یہ نہیں چاہتا کہ تم ان کو قتل کرو ،بس تم جاؤ اور یہ پوچھوکہ وہ کس لئے آئے ہیں ؟

راوی کا بیان ہے : وہ اٹھا اور حسین کی طرف آیا۔ جیسے ہی ابو ثمامہ صا ئدی(٣) نے اسے دیکھا امام حسین علیہ السلام سے عرض کیا : اے ابو عبداللہ خدا آپ کو سلامت رکھے! آپ کی طرف وہ شخص آرہا ہے جو روئے زمین پر شریرترین اور بد ترین شخص ہے، جو خون بہانے اور دھوکے سے قتل کرنے میں بڑا بے باک ہے؛ یہ کہہ کر ابو ثمامہ اس کی طرف بڑھے اور فرمایا: اپنی تلوارخود سے الگ کرو ! اس نے کہا : نہیں خدا کی قسم یہ میری کرامت کے خلاف ہے۔ میں تو ایک پیغام رساں ہوں ،اگر تم لوگوں نے چاہا تو میں اس پیغام کو تم تک پہنچادوں گا جو تمہارے لئے لے کر آیا ہوں اور اگرانکا رکیا تو واپس چلاجاؤں گا۔

____________________

١۔ شیخ مفید نے الارشاد میں عروہ بن قیس لکھا ہے۔ اس شخص کے شرح احوال اس سے پہلے گذر چکے جہا ں ان لوگو ں کا تذکرہ ہوا ہے جنہو ں نے امام حسین علیہ السلام کو خط لکھا تھا ۔ یہ کوفہ کا ایک منافق ہے جو اموی مسلک تھا ۔

٢۔ یہ شخص امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے وقت وہا ں موجود تھا ۔ زہیر بن قین کے خطبہ کی روایت بھی اسی سے منقول ہے۔ (طبری ،ج٥،ص٤٢٦) یہ وہی شخص ہے جو مہاجر بن اوس کے ہمراہ آپ کے قتل میں شریک تھا۔ (طبری ، ج٥، ص ٤٤١)اور یہ وہی شخص ہے جس نے ضحاک بن عبداللہ مشرقی ہمدانی کا پیچھا کیا تا کہ اسے قتل کردے لیکن جب اسے پہچان لیا کہ یہ ہمدان سے متعلق ہے تو کہا : یہ ہمارا چچا زادبھائی ہے ،یہ کہہ کر اس سے دست بردار ہوگیا ۔(طبری، ج٥، ص ٤٤٥)

٣۔ ان کے شرح احوال اس سے قبل گذر چکے ہیں ۔

۲۶۷

ابو ثمامہ : ٹھیک ہے پھر میں تمہارے قبضۂ شمشیر کو اپنے ہاتھوں میں لے لوں گا اس کے بعد تم جو کچھ بیان کرنا چاہتے ہو بیان کرلینا ۔

کثیر بن عبداللہ : نہیں خدا کی قسم تم اسے چھوبھی نہیں سکتے ۔

ابو ثمامہ صائدی : تم جو پیغام لے کر آئے ہو اس سے مجھ کو خبر دار کردو ،میں تمہار ی طرف سے امام تک پہنچادوں گا اورمیں تم کو اجا زت نہیں دے سکتا کہ آنحضرت کے قریب جاؤ کیونکہ تم فاجرو دھوکہ باز ہو ۔کثیر بن عبداللہ نے ابو ثمامہ کی بات قبول کرنے سے انکار کردیا اور عمر بن سعد کی طرف روانہ ہوگیا ، وہاں جا کراس نے عمر بن سعد کو ساری خبر سے مطلع کردیا ۔اس کے بعد پسر سعد نے قرہ بن قیس حنظلی کو بلایا اور اس سے کہا : وائے ہو تجھ پر اے قرّہ ! جا حسین سے ملاقات کراور ان سے پوچھ کہ وہ کس لئے آئے ہیں اور ان کا ارادہ کیا ہے ؟ یہ سن کر قرّہ بن قیس آپ کے پاس آیا۔ جیسے ہی حسین نے اسے سامنے دیکھااپنے اصحاب سے دریافت کیاکہ کیاتم لوگ اسے پہچانتے ہو ؟ حبیب بن مظاہر(١) نے کہا : ہاں ! یہ قبیلۂ حنظلہ تمیمی سے تعلق رکھتاہے اور ہماری بہن کا لڑکا ہے۔ ہم تو اسے صحیح فکرو عقیدہ کا سمجھتے تھے اور میں نہیں سمجھ پارہاہوں کہ یہ یہاں کیسے موجود ہے۔(٢) قرّہ بن قیس نزدیک آیا ،امام حسین علیہ السلام کوسلام کیا اور

____________________

١۔ کربلا کی خبر میں یہا ں حبیب بن مظاہر کا پہلی بار تذکرہ ملتا ہے اور راوی نے یہ ذکر نہیں کیا ہے کہ آپ یہا ں کس طرح پہنچے۔ آپ کے احوال گذرچکے ہیں کہ آپ ان شیعی زعماء میں شمار ہوتے ہیں جنہو ں نے کوفہ سے امام علیہ السلام کو خط لکھا تھا ۔ عنقریب آپ کی شہادت کے حالات بیان کرتے وقت آپ کی زندگی کے بعض رخ پیش کئے جائی ں گے ۔

٢۔ یہ حر بن یزیدریاحی کے لشکر میں تھا ۔عدی بن حرملہ اسدی اس روایت کونقل کرتا ہے کہ یہ کہا کرتا تھا : خدا کی قسم اگر حر نے مجھے اس بات پر مطلع کیا ہوتا جس کا ان کے دل میں ارادہ تھا تو میں بھی ان کے ہمراہ حسین علیہ السلام کی طرف نکل جاتا۔ (طبری ، ج٥،ص٤٢٧) اسی شخص سے ابو زہیر عبسی اس خبر کو نقل کرتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی مخدرات کو امام حسین علیہ السلام اور ان کے اہلبیت کی قتل گاہ کی طرف سے لے جایا گیا اور وہیں پر زینب نے اپنے بھائی حسین بن علی علیھما السلام پر مرثیہ پڑھا۔ (طبری ،ج٥، ص ٤٥٦) حبیب بن مظاہر نے اسے امام حسین علیہ السلام کی مدد کے لئے بلایا اور کہا کہ ظالمین کی طرف نہ جاؤ تو قرّہ نے ان سے کہا : ابھی میں اپنے امیر کی طرف پلٹ رہاہو ں اور ان کے پیغام کا جواب دے کر اپنی رائے بیان کردو ں گا لیکن وہ عمر بن سعد کی طرف جا کر وہا ں سے پلٹ کر حسین کی طرف نہیں آیایہا ں تک کہ آپ شہید ہوگئے۔ (طبری ،ج٥، ص٤١١؛ ارشاد ،ص٢٢٨)

۲۶۸

عمر سعد کا پیغام آپ تک پہنچادیا تو حسین علیہ السلام نے فرمایا:''کتب الیّ أهل مصرکم هٰذا : أن أقدم ، فأمَّااذکرهون فأنا أنصرف عنهم '' تمہارے شہر کے لوگوں نے مجھے یہ خط لکھا کہ میں چلاآؤں ، اب اگر وہ لوگ ناپسند کرتے ہیں تو میں ان کے درمیان سے چلاجاؤں گا۔

راوی کہتا ہے کہ نامہ بر عمر بن سعد کی طرف پلٹ گیا اور ساری خبر اس کے گوش گزار کردی۔ پسر سعدنے اس سے کہا : میں یہ امید کرتا ہوں کہ خداہمیں ان سے جنگ وقتال کرنے سے عافیت میں رکھے اور اسی مطلب کو اس نے لکھ کر ابن زیاد کے پاس روانہ کردیا۔ ابو مخنف کے بجائے دیگر راویوں کی روایت یہاں پر آکر ختم ہوجاتی ہے ۔

ابن زیاد کے نام عمر بن سعد کا خط

عمر بن سعد کا خط عبید اللہ بن زیاد کو پہنچا جس میں مر قوم تھا :

''بسم اللّٰه الر حمٰن الر حیم أما بعد فانّی حیث نزلت بالحسین بعثت الیه رسولی ، فسأ لته : عمّا أقد مه ، وما ذایطلب ویسأ ل ؟ فقال : کتب الّ أهل هٰذه البلاد وأتتن رسلهم فسألون القدوم ففعلت ، فأمَّا اِذ کر هون فبدا لهم غیر ما أتتن رسلهم فأنا منصرف عنهم ''

بسم اللہ الرحمن الر حیم ، اما بعد، میں جیسے ہی حسین کے نزدیک پہنچا میں نے ان کی طرف اپنے ایک پیغام رساں کو بھیجا اور ان سے پوچھا کہ وہ یہاں کس لئے آئے ہیں اور کیا چاہتے ہیں ؟ انھوں نے جواب دیا کہ اس شہر کے لوگوں نے مجھے خط لکھا تھا اور ان کے نامہ بر میرے پاس آئے تھے انھوں نے مجھ سے در خواست کی تھی کہ میں چلا آؤں تو میں چلا آیا لیکن اب اگر انھیں میرا آنانا پسند ہے اور نامہ بروں کو بھیج کر انھوں نے جومجھے بلا یا تھا اب اگر اس سے پلٹ گئے ہیں تو میں ان کے درمیان سے چلا جاتا ہوں ۔

جب ابن زیاد تک یہ خط پہنچاتو اس نے اسے پڑھنے کے بعد یہ شعر پڑھا۔

الا ن اِذ علقت مخا لبنا به

یرجو النجاة ولات حین مناص!

جب ہمارے چنگل میں پھنس گیا ہے تو نجات کی امید کرتا ہے لیکن اب کوئی راہ فرار نہیں ہے۔

۲۶۹

ابن زیاد کا جواب

خط پڑھنے کے بعد ابن زیاد نے عمر بن سعد کے نام جواب کے طور پرخط لکھا :

بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم ، اما بعد ، فقد بلغن کتا بک وفهمت ماذکرت ، فأعرض علی الحسین أن یبایع لیزید بن معاویه هو وجمیع أصحابه ، فاذافعل ذالک رأینا رأيَنا، والسلام ۔

بسم اللہ الر حمن الر حیم ، اما بعد، تمہارا خط مجھے موصول ہوا اور تم نے جو ذکر کیا ہے اسے میں نے سمجھ لیا اب حسین سے کہو کہ وہ اور ان کے تما م اصحاب یزید بن معاویہ کی بیعت کر لیں ۔ اگر انھوں نے ایسا کر لیا تو پھر ان کے سلسلے میں ہم تم کو اپنا نظریہ بتائیں گے ۔ والسلام

جب عمر بن سعد کے پاس وہ خط آیا تو اس نے کہا : میں اسی گمان میں تھا کہ ابن زیاد عافیت کو قبول نہیں کرے گا۔(١)

پسر سعد کی امام علیہ السلام سے ملاقات

جب بات یہاں تک پہنچ گئی تو حسین علیہ السلام نے عمر بن سعد کی جانب عمروبن قرظة بن کعب انصاری(٢) کو بھیجا کہ وہ آپ سے دونوں لشکروں کے درمیان ملا قات کرے۔

وقت مقررہ پر عمر بن سعد اپنے تقریبا ً ٢٠ سواروں کے ہمراہ باہر نکلا تو امام حسین علیہ السلام بھی اسی انداز میں نکلے لیکن جب وہ لوگ ملے تو امام حسین علیہ السلام نے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ وہ کنارے

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے نضربن صالح بن حبیب بن زہیر عبسی نے حسان بن فائد بن بکیر عبسی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا : میں گواہی دیتا ہو ں کے عمر سعد کا خط آیا تھا۔(طبری، ج٥، ص ٤١١و ارشاد ،ص٢٢٨)

٢۔عمر و بن قرظة حسین علیہ السلام کے ساتھ تھے لیکن انکا بھائی علی بن قرظہ ،عمربن سعد کے ہمراہ تھا ۔جب اس کے بھائی عمرو شہید ہوگئے تو اس نے اصحاب حسین علیہ السلام پر حملہ کر دیا تاکہ اپنے بھائی کا انتقام لے سکے۔نافع بن ہلال مرادی نے اس پر نیزہ سے حملہ کیا اور اس کو زمین پر گرادیا ۔دوسری طرف نافع پر اس کے ساتھیو ں نے حملہ کیا ۔ اس کے بعد اس کا علاج کیا گیاتو وہ ٹھیک ہوگیا۔ (طبری، ج٥، ص ٤٣٤)

۲۷۰

ہوجائیں اور عمربن سعد نے بھی اپنے سپاہیوں کو یہی حکم دیا پھر دونوں کے درمیان گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ گفتگو بڑی طولانی تھی یہاں تک کہ رات کا کچھ حصہ گذرگیا۔ اس کے بعد دونوں اپنے اصحاب کے ہمراہ اپنے لشکر کی طرف واپس لوٹ گئے اس گفتگو کے درمیان جیسا کہ لوگ گما ن کرتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام نے عمرسعد سے کہا کہ آؤ میرے ساتھ یزید بن معاویہ کے پاس چلو اور ہم لوگ دونوں لشکروں کو چھوڑ دیتے ہیں ۔ عمر سعد نے کہا: ایسی صورت میں تو میرا گھر منہدم کردیا جائے گا ۔حسین نے کہا : میں تمہارا گھر بنوا دوں گا ۔ عمر سعد نے کہا : میرے مال ومنال اور باغ وبوستان لوٹ لئے جائیں گے، حسین نے کہا: میں تم کو حجاز میں اپنے مال میں سے اس سے زیادہ دے دوں گا لیکن عمر سعد نے اسے قبول نہیں کیا اور انکار کردیا ۔

اس طرح لوگوں نے آپس میں گفتگو کی اور یہ بات پھیل گئی جبکہ ان میں سے کسی نے بھی کچھ نہیں سنا تھا اور انھیں کسی بات کا علم نہیں تھا۔(١) اسی طرح اپنے وہم وگمان کے مطابق لوگ یہ کہنے لگے کہ حسین نے کہا تھا کہ تم لوگ میری تین باتوں میں سے کوئی ایک بات قبول کرلو:

١۔ میں اسی جگہ پلٹ جاؤں جہاں سے آیا ہوں ۔

٢۔ میں یزید بن معاویہ کے ہاتھ میں ہاتھ دے دوں تو وہ میرے اور اپنے درمیان اپنی رائے کا اظہار خیال کرے۔

٣۔ یا تم لوگ مجھے کسی بھی اسلامی حدود میں بھیج دو تاکہ میں انھیں کا ایک فرد ہو جاؤں اور میرے لئے و ہ تما م چیزیں ہوں جو ان لوگوں کے لئے ہیں ۔(٢)

____________________

١۔ ابو جناب نے ہانی بن ثبیت حضر می کے حوالے سے مجھ سے روایت کی ہے اور وہ عمربن سعد کے ہمراہ امام حسین علیہ السلام کے قتل کے وقت موجود تھا۔ اسی خبر سے یہ ظاہر ہو تا ہے کہ وہ شخص ان ہی ٢٠ سوارو ں میں تھا جو رات کے وقت ملا قات کے ہنگام پسرسعدکے ہمراہ تھے۔ وہ کہتا ہے ہم نے اس گفتگو سے اندازہ لگایا ہے کیونکہ ہم ان دونو ں کی آواز ی ں نہیں سن رہے تھے ۔(طبری ،ج٥،ص ٤١٣، الارشاد ،ص ٢٢٩)سبط بن جوزی کا بیان ہے : یہ عمروہی ہے جس کی طرف پیغام رسا ں کوبھیجاگیا تھا کہ وہ اور حسین علیہ السلام یکجا ہو ں تو عمر بن سعد اور امام حسین علیہ السلام تنہائی میں ایک جگہ جمع ہوئے۔ (تذ کرہ ،ص٢٤٨،ط نجف)

٢۔ یہ وہ مطلب جس پر محدثین کا ایک گروہ متفق ہے اور ہم سے مجالد بن سعید اور صقعب بن زہیر ازدی اور ان کے علاوہ دوسرے لوگو ں نے یہ روایت نقل کی ہے۔(طبری، ج٥، ص٤١٣، ابو الفرج ،ص ٧٥،ط نجف)

۲۷۱

عقبہ بن سمعان کا اس سلسلے میں بیان ہے کہ میں حسین کے ساتھ تھا ؛آپ کے ہمراہ میں مدینہ سے مکہ اور مکہ سے عراق آیا اور میں آپ سے پل بھر کے لئے بھی جدا نہیں ہو ایہاں تک کہ آپ شہید کر دیئے گئے۔اس کا کہنا ہے کہ خدا کی قسم مدینہ، مکہ ،دوران سفر اور عراق میں حتیٰ کہ شہادت کے وقت تک امام کا کوئی خطبہ اور کلام ایسا نہیں تھا جسے میں نے نہ سنا ہواور خدا کی قسم لوگ جو ذکر کرتے ہیں اورگمان کر تے ہیں کہ آپ نے یہ کہا کہ میں یزید بن معاویہ کے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ دیدوں گایہ سر اسر غلط ہے اورآپ نے یہ بھی نہیں کہا کہ ہمیں کسی اسلامی حدود میں بھیج دیا جائے، ہاں آپ نے یہ فرمایا تھا : ''دعونی فلأذهب فی هٰذه الارض العریضة حتی ننظر ما یصیر أمر الناس'' (١) مجھے چھوڑدوتاکہ میں اس وسیع وعریض زمین پر کہیں بھی چلاجاؤں تاکہ دیکھو ں کہ لوگوں کا انجام کار کہاں پہنچتا ہے ۔

ابن زیاد کے نام عمر بن سعد کا دوسرا خط

امام علیہ السلام سے مخفیانہ گفتگوکے بعد عمر سعد نے ابن زیاد کے نام ایک دوسراخط لکھا:

''اما بعد ، فان اﷲقدأطفاالنائرة ، وجمع الکلمةو أصلح أمرالا مة، هٰذا حسین قدأعطان ان یرجع الی المکان الذی منه أتی أوأن نسيّره الی أیّ ثغر من ثغور المسلمین شئنا فیکون رجلا من المسلمین له مالهم وعلیه ما علیهم أوأن یات یزید أمیر المومنین فیضع یده ف یده فیریٰ فیما بینه وبین رأیه ،وف هٰذالکم رضاً وللأمةصلاح''

اما بعد، اﷲ نے فتنہ کی آگ کو بجھا دیا، ہماہنگی واتحاد کو ایجاد کردیا ہے اور امت کے امور کو صلح و خیر کی طرف موڑدیاہے۔ یہ حسین ہیں جو مجھے وعدہ دے رہے ہیں کہ یاوہ اسی جگہ پلٹ جائیں گے جہاں سے آئے ہیں یاہم انھیں جہاں مناسب سمجھیں کسی اسلامی حدود میں روانہ کردیں کہ وہ انھیں کا جز قرار پائیں تا کہ جو ان لوگوں کے لئے ہو و ہی ان کے لئے ہو اور جوان لوگوں کے ضرر میں ہو وہی ان کے ضرر

____________________

١ ۔اس مطلب کو ابو مخنف نے عبد الرحمن بن جندب کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے عبد الرحمن بن جندب نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے نقل کیا ہے۔(طبری ،ج٥، ص ٤١٣، الخواص ،ص ٢٤٨)

۲۷۲

میں ہو یا یہ کہ وہ یزید امیر المومنین کے پاس جاکر اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دیدیں اور وہ ان کے اور اپنے درمیان جو فیصلہ کرنا چاہیں کریں ، یہ بات ایسی ہے جس میں آپ کی رضایت اور امت کی خیر و صلاح ہے ۔

جب عبیداللہ بن زیا د نے اس خط کوپڑھا تووہ بولا : یہ اپنے امیر کے لئے ایک خیر خواہ شخص کا خط ہے جو اپنی قوم پر شفیق ہے؛ ہاں ہم نے اسے قبول کرلیا ۔ اس وقت شمر بن ذی الجوشن(١) وہیں پرموجود تھا۔وہ فوراً کھڑا ہو ا اور بولا : کیا تم اس شخص سے اس بات کو قبو ل کرلوگے !جب کہ وہ تمہاری زمین پر آچکاہے اور بالکل تمہارے پہلو میں ہے ؛ خدا کی قسم اگروہ تمہارے شہر وحکومت سے باہرنکل گیا اور تمہارے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دیا توقدرت و اقتدارا ورشان و شوکت اس کے ہاتھ میں ہوگی اور تم ناتواں و عاجزہوجاؤگے۔میرا نظریہ تو یہ ہے تم یہ وعدہ نہ دو کیونکہ یہ باعث توہین ہے۔ہاں اگروہ اوراس کے اصحاب تمہارے حکم(٢) کے تابع ہوجائیں تو اب اگر تم چاہو ان کوسزا دو کیونکہ وہ تمہارے ہاتھ میں ہے اور اگرتم معاف کرناچاہو؛ تو یہ بھی تمہارے دست قدرت میں ہے۔امیر ! مجھے خبر ملی ہے کہ حسین اور عمر سعد دونوں اپنے اپنے لشکر کے درمیان بیٹھ کر کافی رات تک گفتگو کیاکرتے ہیں ۔

یہ سن کر ابن زیاد نے کہا : تمہاری رائے اچھی اور تمہارا نظریہ صحیح ہے۔(٣)

____________________

١۔ اس کے تفصیلی حالات گذر چکے ہیں کہ اشراف کوفہ میں سے ایک یہ بھی ابن زیاد کے ہمراہ قصر میں تھا ۔

٢۔سبط بن جوزی نے ص ٢٤٨ پراس واقعہ کو بطور مختصر لکھاہے اور اضافہ کیاہے کہ اس نے اپنے جوابی خط کے نیچے یہ شعرلکھا :

الآ ن حین تعلقته حبالنا

یرجوا لنجاةولات حین مناص

اب جب وہ ہمارے پھندے میں آچکاہے تو نجات کی امید رکھتا ہے اب کوئی راہ فرار نہیں ہے۔

٣۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے مجالد بن سعید ہمدانی اور صقعب بن زہیر نے یہ روایت نقل کی ہے ۔ (طبری ،ج٥،ص٤١٤ ، ارشاد ، ص٢٢٩)

۲۷۳

ابن زیاد کا پسر سعد کے نام دوسرا جواب

اس کے بعدعبیداللہ بن زیاد نے عمر بن سعد کے نام خط لکھا ۔

''امابعد ، فان لم أبعثک الی حسین لتکف عنه ، ولتطاوله ولالتمنیه السلامة والبقاء ،ولالتقعد له عند شافعاً... أنظر فان نزل حسین و أصحابه علی الحکم واستسلموا ، فابعث بهم الّسلماًوان أبوا فا زحف الیهم حتی تقتلهم و تمثل بهم فَاِنهم لذالک مستحقون ! فان قتل حسین فأوطی الخیل صدره وظهره ! فانه عاق شاق قاطع ظلوم ولیس دهر فی هٰذا أن یضرّ بعد الموت شیئاً ،ولکن علّ قول لوقدقتلته فعلت هٰذابه ! ان أنت مضیت لا مرنافیه جزیناک جزاء السامع المطیع ، وان أبیت فاعتزل عملنا وجند نا، و خل ّ بین شمر بن ذی الجو شن و بین العسکر،فانّاقدأمرنابأمرنا والسلام ''(١)

امابعد ، میں نے تم کو اس لئے نہیں بھیجا ہے کہ تم ان سے دستبردار ہوجاؤ اور نہ اس لئے بھیجا ہے کہ مسئلہ کو پھیلا کرطولانی بنادو اور نہ ہی اس لئے کہ ان کی سلامتی و بقاکے خواہاں رہو اور نہ ہی اس لئے کہ وہاں بیٹھ کر مجھ سے حسین کے لئے شفاعت کی درخواست کرو دیکھو ! اگر حسین اور ان کے اصحاب نے ہمارے حکم پر گردن جھکادی اورسر تسلیم خم کر دیا تو سلامتی کے ساتھ انھیں میرے پاس بھیج دو اور اگر وہ انکار کریں تو ان پر حملہ کرکے انھیں قتل کردو اور ان کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے اور مثلہ کردو کیونکہ یہ لوگ اسی کے حق دار ہیں ۔

قتل حسین کے بعد ان کی پشت اور ان کے سینہ کو گھوڑوں سے پامال کر دو کیونکہ انہوں نے دوری اختیار کی ہے وہ ناسپاس ہیں ۔انہوں نے اختلاف پھیلایاہے، وہ حق ناشناس اور ظلم کے خو گرہیں ۔ میری یہ تمنا اور آرزو نہیں ہے کہ موت کے بعد انہیں کوئی نقصان پہنچایا جائے لیکن میں نے عہد کیا ہے کہ مرنے کے بعد ان کے ساتھ ایسا ہی کروں گا لہذا اب اگر تم نے ہمارے حکم پر عمل کیا تو ہم تم کو وہی جزا و

____________________

١۔ابو مخنف کا کہنا ہے کہ مجھ سے ابو جناب کلبی نے یہ روایت بیان کی ہے۔(طبری ، ج ٥ ، ص ٤١٥ ارشاد ، ص ٢٢٩و الخواص، ٨ ٢٤)

۲۷۴

پاداش دیں گے جو ایک مطیع وفرمانبردار کی جزاہوتی ہے اوراگر تم نے انکار کیا تو تم ہمارے عہدے اور فوج سے کنارہ کش ہوجاؤ اور فوج کو شمر بن ذی الجوشن کے حوالے کردو کہ ہمیں جو فرمان دینا تھا وہ ہم اسے دے چکے ہیں ۔ والسلام

خط لکھنے کے بعد عبید اللہ بن زیاد نے شمر بن الجوشن کو بلا یا اور اس سے کہا : عمر بن سعد کے پاس یہ خط لے کر جاؤ ۔ میں نے اسے لکھا ہے کہ حسین اور ان کے اصحاب سے کہے کہ وہ میرے فرمان پر تسلیم محض ہو جائیں ! اگر ان لوگو ں نے ایسا کیا تو فوراً ان لوگوں کو میرے پاس صحیح وسالم روانہ کردو اور اگر انکار کریں تو ان سے نبردآزما ہوجاؤ ۔اگر عمر بن سعد نے ایسا کیا تو تم اس کی بات سن کر اس کی اطاعت کر نا اور اگر اس نے انکار کیا تو تم ان لوگوں سے جنگ کرنا اور ایسے میں تم اس لشکر کے امیر ہوگے اور اس پر حملہ کر کے اس کی گر دن مار دینا اور اس کا (یعنی پسر سعد) سر میرے پاس بھیج دینا ۔(١) جب شمر نے وہ خط اپنے ہاتھوں میں لیا اور اس کے ساتھ عبد اللہ بن ابی المحل بن حزام (کلابی) جانے کے لئے اٹھاتو عبد اللہ نے کہا: خدا امیر کو سلامت رکھے حقیقت یہ ہے کہ عباس ، عبد اللہ ، جعفر اور عثمان یہ سب ہماری بہن ام البنین کے صاجزادے ہیں جو حسین کے ہمراہ ہیں ۔ اگر آپ بہتر سمجھیں تو ان کے لئے ایک امان نامہ لکھ دیں ۔

ابن زیاد نے جواب دیا : ہاں سر آنکھوں پر، اس کے بعد اپنے کاتب کو بلا یا اور اس نے ان لوگوں کے لئے امان نامہ لکھ دیا ۔ عبد اللہ بن ابی المحل بن حزام کلا بی نے اس امان نامہ کو اپنے غلام کْزمان کے ہمراہ روانہ کیا ۔

خط کے ہمراہ شمر کا کر بلا میں ورود

عبید اللہ بن زیاد کاخط لے کر شمر بن ذی الجوشن عمر بن سعد کے پاس پہنچا جب وہ اس کے قریب آیا اور خط پڑھ کر اس کو سنایاتو خط سن کر عمر بن سعد نے اس سے کہا :

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری، ج٥ ،ص ٤١٤و ارشاد ،ص ٩ ٩٢)

۲۷۵

''ویلک مالک ! لا قرّ ب اللّٰه دارک ، وقبّح اللّٰه ماقدّ مت به علّ ! واللّٰه لَاَظنک أنت ثنیته أن یقبل ماکتبت به الیه أفسدت علینا أمراًکنّارجوناأن یصلح ، لایستسلم واللّٰه حسین أن نفساً ابيّة (١) لبین جنبیه ''

وائے ہو تجھ پر تو نے یہ کیا کیا !خدا تجھے غارت کرے اللہ تیرا برا کرے! تو میرے پاس کیا لے کر آیا ہے۔ خدا کی قسم مجھے یقین ہے کہ تو نے چاپلوسی کے ذریعہ اسے میری تحریر پر عمل کرنے سے بازر کھا ہو گا ۔تو نے کام خراب کر دیا ۔ہم تو اس امید میں تھے کہ صلح ہوجائے گی۔ خدا کی قسم حسین کبھی بھی خود کو ابن زیاد کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑ یں گے کیونکہ یقینا حسین کے سینے میں ایک غیور دل ہے۔

شمر کا دل سیاہ ہو چکا تھا اس کو ان سب چیزوں سے کیا مطلب تھا۔ اس نے فوراً پوچھا : تم اتنا بتاؤ کہ تم کیا کر نا چاہتے ہو ؟ کیا تم امیر کے فرمان کو اجراء کروگے اور ان کے دشمن کو قتل کروگے ؟ اگر نہیں تو ہمارے اور اس لشکر کے درمیان سے ہٹ جاؤ ۔

عمر بن سعد : نہیں اور نہ ہی تیرے لئے کوئی کرامت ہے ۔ میں خود ہی اس عہدہ پر باقی رہوں گا۔ تو جا اور پیدلوں کی فوج کی سر براہی انجام دے ۔

جناب عباس اور ان کے بھائیوں کے نام امان نامہ

ایسے بحرانی حالات میں شمر اصحاب امام حسین علیہ السلام کے پاس آیا اور بولا : ہماری بہن کے بیٹے کہاں ہیں ؟ تو امیر المومنین علی علیہ السلام کے فرزند عباس ، عبد اللہ جعفر اور عثمان علیہم السلام اس کے پاس آئے اور فرمایا :''مالک وما ترید ؟ ''کیا کام ہے اور تو کیا چاہتا ہے ؟

شمرنے کہا : اے میری بہن کے صاحبزادو تم سب کے سب امان میں ہو۔

یہ سن کر ان غیر تمند جوانوں نے جواب دیا :'' لعنک اللّہ ولعن أمانک ]لئن کنت خالنا [ أتوْ مننا وابن رسول اللّٰہ لا أمان لہ ! ''

____________________

١۔ شیخ مفید نے ارشاد میں ص٢١٣ یہ جملہ اس طرح لکھا ہے:'' ان نفس أبیه لبین حبنبیه'' یقیناً حسین کے سینے میں ان کے باپ کا دل ہے۔

۲۷۶

خداتجھ پر لعنت کرے اور تیرے امان پر بھی لعنت ہو (اگر تو ہمارا ماموں ہے تو) کیا تو ہمیں امان دے رہا ہے لیکن فرزند رسو لخدا کے لئے کوئی امان نہیں ہے!

اور جب عبد اللہ بن ابی المحل بن حزام کلا بی کا غلام کْز مان امان نامہ لے کر کربلا پہنچا اور ان غیرتمندوں کے پاس جا کر انھیں آوازدی اور کہا : یہ امان نامہ ہے جو تمہارے ماموں نے تمہیں بھیجا ہے تو انھوں نے کہا :'' أقریٔ خالنا السلام وقل له : أن لا حاجة لنا فی أما نکم، أمان اللّٰه خیر من أمان بن سميّة ! ''(١) ہمارے ماموں سے ہمارا سلام کہنا اور ان سے کہد ینا کہ ہم کو تم لوگوں کے امان کی کوئی حاجت نہیں ہے ، اللہ کی امان فرزندسمیہ کی امان سے زیادہ بہتر ہے ۔

امام علیہ السلام اور ان کے اصحاب پر پانی کی بندش

عبید اللہ بن زیاد کا ایک اورخط عمر بن سعد تک پہنچا :

اما بعد ، حسین اور ان کے اصحاب اور پانی کے درمیان اس طرح حائل ہو جاؤ کہ ایک قطرہ بھی ان تک نہ پہونچ سکے ؛ٹھیک اسی طرح جس طرح تقی وزکی و مظلوم امیر المومنین عثمان بن عفان کے ساتھ کیا گیا تھا ۔

راوی کہتا ہے کہ اس خط کا آنا تھا کہا عمر سعد نے فوراً عمرو بن حجاج(٢) کو پانچ سو سواروں کے ہمراہ فرات کی طرف روانہ کر دیا۔ وہ سب کے سب پانی پر پہنچ کرحسین اور ان کے اصحاب اور پانی کے درمیان حائل ہو گئے تا کہ کو ئی ایک قطرہ بھی پانی نہ پی سکے۔ یہ امام حسین کی شہادت سے ٣ دن پہلے کا واقعہ ہے ۔

راوی کہتا ہے کہ جب حسین اور ان کے اصحاب کی پیاس میں شدت واقع ہوئی تو آپ نے اپنے بھائی عباس بن علی بن ابی طالب (علیہم السلام) کو بلا یا اور انہیں تیس(٣٠) سوار اور بیس(٢٠) پیدل افراد کے ہمراہ فرات کی طرف روانہ کیا اور ان کے ساتھ بیس (٢٠) مشکیں بھی بھیجیں ۔ وہ لوگ گئے یہاں

____________________

١۔الا رشاد ،ص٢٣٠،التذکرہ ،ص ٢٤٩

٢۔ اس کے حالات بھی گذر چکے ہیں کہ یہ بھی انہیں اشراف میں سے ہے جو ابن زیاد کے ساتھ قصر میں موجود تھے۔

۲۷۷

تک کہ پانی کے قریب پہنچے۔ن لوگوں کے آگے پر چم لئے نافع بن ہلال جملی(١) رواں دواں تھے۔ یہ دیکھ کر عمر وبن حجاج زبیدی نے کہا :

کون ہے ؟ جواب ملا : نافع بن ہلال

عمر وبن حجاج نے سوا ل کیا : کس لئے آئے ہو ؟

نافع بن ہلال نے جواب دیا : ہم اس پانی میں سے کچھ پینے کے لئے آئے جس سے تم لوگوں نے ہمیں دورکردیا ہے ۔

عمرو بن حجاج نے کہا : پیو تمہارے لئے یہ پانی مبارک ہو۔

نافع بن ہلال نے فرمایا: نہیں خدا کی قسم ہم اس وقت تک پانی نہیں پی سکتے جب تک حسین اور ان کے اصحاب پیاسے ہیں جنہیں تم دیکھ رہے ہو (یہ کہہ کر ان اصحاب کی طرف اشارہ کیا) اسی اثنا میں وہ اصحاب آشکار ہو گئے اور پانی تک پہنچ گئے ۔

عمرو بن حجاج نے کہا : ان لوگوں کے پانی پینے کی کوئی سبیل نہیں ہے ،ہم لوگوں کو یہاں اسی لئے رکھا گیا ہے تاکہ ان لوگوں کو پانی پینے سے روکیں ۔

جب نافع کے دیگر پیدل ساتھی پانی کے پاس پہنچ گئے تونافع نے کہا : اپنی مشکوں کوبھرو وہ لوگ بھی آگے بڑھے اور مشکیزوں کو پانی سے بھر لیا ۔

لیکن عمر وبن حجاج اور اس کی فوج نے ان پیدلوں پر حملہ کردیا ۔ادھر سے عباس بن علی اور نافع بن ہلال نے ان پر حملہ کیا اور انہیں روکے رکھا، پھر اپنے سپاہیوں کی طرف آئے تو ان لوگوں نے کہا :

____________________

١۔ آپ ہی نے اپنے گھوڑے کے ہمراہ کوفہ سے ٤آدمیو ں کوراستے میں امام علیہ السلام کے پاس بھیجا تھاجن میں طرماح بن عدی بھی تھے۔ یہ پہلی خبر ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ کربلامیں آپ امام علیہ السلام سے آکر مل گئے تھے اور آپ ہی وہ ہیں جنہو ں نے علی بن قرظہ انصاری، عمر و بن قرظہ کے بھائی پر نیزہ چلایاتھا جو عمر سعد کے ساتھ تھا۔(طبری،ج٥،ص ٣٣٤) آپ نے اس کانا م اپنی تیر کے اوپر لکھ لیا تھا ۔ آپ نے اپنے تیرو ں سے ١٢ لوگو ں کو مارا یہا ں تک کہ آپ کا ہاتھ ٹوٹ گیا اور شمر نے آپ کو اسیر بنالیا پھر پسر سعد کے پاس لے جانے کے بعد آپ کو قتل کر دیا۔(ج٥،ص٤٤٣)

۲۷۸

آپ لوگ اسی طرح ان لوگوں کو کوروکئے اور ان کے نزدیک کھڑے رہئے تاکہ ہم خیموں تک پانی پہنچاسکیں ۔

ادھر عمروبن حجاج اور اس کے سپاہیوں نے پھر حملہ کیا تو ان لوگوں نے بھی دلیری سے دفاع کیا اور آخر کار حسین علیہ السلام کے فداکار اصحاب پانی کومنزلگاہ تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئے۔ اسی شب نافع بن ہلال نے عمر وبن حجاج کی فوج کے ایک سپاہی کو نیزہ مارا جس سے وہ نیزہ ٹوٹ گیا اور بعد میں وہ مر گیا۔(١) دشمن کی فوج کا یہ پہلا مقتول ہے جو اس شب مجروح ہوا تھا ۔

____________________

١۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم ازدی کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ، ج٥ ص ٢١٢) ابو الفرج نے ابو مخنف سے اسی سند کوذکر کیا ہے۔(ص ٧٨) ارشاد میں شیخ مفید نے حمید بن مسلم سے یہی روایت نقل کی ہے۔(ص ٢٢٨)

۲۷۹

امام علیہ السلام کی طرف پسر سعد کا ہجوم

* ایک شب کی مہلت

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438