واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا13%

واقعۂ کربلا مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 438

واقعۂ کربلا
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 438 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 192930 / ڈاؤنلوڈ: 5407
سائز سائز سائز
واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

اس سے دل لگانا صحیح ہے ؟

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد ہے :

(مالی وللدنیا،انما مَثَلی کمثل راکبٍ مرّللقیلولة فی ظلّ شجرة فی یوم صائف ثم راح وترکها )( ۱ )

''دنیا سے میرا کیا تعلق ؟میری مثال تو اس سوار کی سی ہے جوتیز ہوائوں کے تھپیڑوں کے درمیان آرام کی خاطر کسی درخت کے نیچے لیٹ جاتا ہے اور پھر اس جگہ کو چھوڑکر چل دیتا ہے ''

امیر المومنین حضرت علی نے اپنے فرزند امام حسن کو یہ وصیت فرمائی ہے :

(یابنیّ انی قدأنباتک عن الدنیا وحالها،وزوالها،وانتقالها،وأنبأتک عن الآخرةومااُعدّ لأهلها فیها،وضربتلک فیهماالأمثال،لتعتبربها، وتحذو علیها،انمامثل من خبرالدنیاکمثل قوم سفرنبا بهم منزل جذیب فأمّوا منزلاًخصیباً، وجناباً مریعاً،فاحتملواوعثاء الطریق،وفراق الصدیق،وخشونةالسفرومَثَل من اغترّبهاکمثل قوم کانوابمنزل خصیب فنبابهم الیٰ منزل جذیب،فلیس شیء أکره الیهم ولاأفضع عندهم من مفارقة ماکانوا فیه الیٰ مایهجمون علیه ویصیرون الیه )( ۲ )

''۔۔۔اے فرزند میں نے تمہیں دنیااوراسکی حالت اوراسکی بے ثباتی و ناپائیداری سے خبردار کردیا ہے ۔اور آخرت اور آخرت والوں کے لئے جو سروسامان عشرت مہیّاہے اس سے بھی آگاہ کردیا ہے اور ان دونوں کی مثالیںبھی تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں تاکہ ان سے عبرت حاصل کرو

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ص۱۱۹۔

(۲)نہج البلاغہ مکتوب ۳۱۔

۲۴۱

اور ان کے تقاضے پر عمل کرو۔جن لوگوں نے دنیا کو خوب سمجھ لیا ہے ان کی مثال ان مسافروںکی سی ہے جن کا قحط زدہ منزل سے دل اچاٹ ہوا،اور انھوں نے راستے کی دشواریوں کو جھیلا، دوستوںکی جدائی برداشت کی،سفر کی صعوبتیںگواراکیں،اور کھانے کی بد مزگیوںپر صبر کیاتاکہ اپنی منزل کی پہنائی اور دائمی قرارگاہ تک پہنچ جائیں ۔اس مقصد کی دھن میں انھیں ان سب چیزوں سے کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔اور جتنا بھی خرچ ہوجائے اس میں نقصان معلوم نہیں ہوتا۔انھیں سب سے زیادہ وہی چیز مرغوب ہے جو انہیں منزل کے قریب اور مقصدسے نزدیک کردے اور اسکے برخلاف ان لوگوں کی مثال جنہوں نے دنیا سے فریب کھایاان لوگوں کی سی ہے جو ایک شاداب سبزہ زار میں ہوں اور وہاں سے دل برداشتہ ہوجائیں اور اس جگہ کا رخ کرلیں جو خشک سالیوں سے تباہ ہو۔ان کے نزدیک سخت ترین حادثہ یہ ہوگا کہ وہ موجودہ حالت کو چھوڑکرادھر جائیںکہ جہاں انھیں اچانک پہنچناہے اور بہر صورت وہاںجاناہے ۔۔۔ ''

حضرت عمر ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا آپ ایک بورئیے پر آرام فرمارہے ہیں اور آپ کے پہلو پر اسکا نشان بن گیاہے توعرض کی اے نبی خدا:

(یانبیّ ﷲ،لواتخذت فراشاً أوثر منه؟فقال صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :مالی وللدنیا،مامَثلی ومثَل الدنیا الاکراکب سارفی یوم صائف فاستظلّ تحت شجرة ساعة من نهار،ثم راح وترکها )( ۱ )

اگر آپ اس سے بہتربستر بچھالیتے تو کیا تھا ؟پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :''دنیا سے میرا کیا تعلق؟میری اور دنیا کی مثال ایک سوار کی سی ہے جوتیز ہوائوں کے درمیان چلا جارہا ہو اور دن میں تھوڑی دیر آرام کرنے کے لئے کسی سایہ داردرخت کے نیچے رک جائے اور پھر اس جگہ کوچھوڑ کرآگے بڑھ جائے''

____________________

(۱)بحارالانوارج ۷۳ص۱۲۳۔

۲۴۲

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(ان الدنیالیست بدارقرارولامحلّ اقامة،انّما أنتم فیهاکرکب عرشوا وارتاحوا،ثم استقلّوا فغدوا وراحوا،دخلوهاخفافاً،وارتحلواعنها ثقالاً،فلم یجدواعنهانزوعاً،ولاالی ما ترکوبهارجوعاً )( ۱ )

''یہ دنیا دار القرار اور دائمی قیام گا ہ نہیں ہے تم یہاں سوار کی مانند ہو 'جنہوں نے کچھ دیرکیلئے خیمہ لگایا اور پھر چل پڑے پھر دوسری منزل پر تھوڑا آرام کیا اور صبح ہوتے ہی کوچ کر گئے ، ہلکے پھلکے (آسانی سے)اترے اور لاد پھاندکر مشکل سے روانہ ہوئے نہ انہیں اسکا کبھی اشتیاق ہوا اور جس کو ترک کرکے آگئے نہ اسکی طرف واپسی ممکن ہوئی ''

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں عرض کیا گیا :انسان دنیا میں کیسے زندگی بسر کرے ؟آپ نے فرمایا جیسے قافلہ گذرتا ہے۔ دریافت کیا گیا اس دنیا میں قیام کتنا ہے ؟آپ نے فرمایا جتنی دیر قافلہ سے چھوٹ جانے والا رہتا ہے ۔دریافت کیا گیا! دنیا وآخرت میں فاصلہ کتنا ہے ؟آپ نے فرمایا پلک جھپکنے کا۔( ۲ ) اور اس آیۂ کریمہ کی تلاوت فرمائی :

(کأنّهم یوم یرون ما یوعدون لم یلبثوا الاساعة من نهار )( ۳ )

''تو ایسا محسوس کرینگے جیسے دنیا میں ایک دن کی ایک گھڑی ہی ٹھہرے ہیں ''

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(الدنیاظلّ الغمام،وحلم المنام )( ۴ )

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۸ص۱۸۔

(۲)بحارالانوار ج۷۳ص۱۲۲۔

(۳)سورئہ احقاف آیت ۳۵۔

(۴)غررالحکم ج۱ص۱۰۲۔

۲۴۳

''دنیا بادل کا سایہ اورسونے والے کا خواب ہے ''

امام محمد باقر نے فرمایا :

(انّ الدنیاعند العلماء مثل الظل )( ۱ )

''اہل علم کے نزدیک دنیا سایہ کے مانند ہے ''

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(ألاوان الدنیادارلایسلم منها الافیها،ولاینجیٰ بشی ء کان لها،اُبتلی الناس فیها فتنة فماأخذوه منهالهاأخرجوامنه وحوسبواعلیه،وماأخذوهُ منها لغیرها، قدموا علیه وأقاموا فیه،فانهاعند ذوی العقول کفیٔ الظلّ بینا تراه سابغاً حتیٰ قلص،وزائداً حتیٰ نقص )( ۲ )

''یاد رکھو یہ دنیا ایسا گھر ہے جس سے سلامتی کا سامان اسی کے اندر سے کیا جاسکتا ہے اور کوئی ایسی شے وسیلہ نجات نہیں ہوسکتی ہے جو دنیا ہی کے لئے ہو۔لوگ اس دنیا کے ذریعہ آزمائے جاتے ہیں جو لوگ دنیا کا سامان دنیا ہی کے لئے حاصل کرتے ہیں وہ وہاں جاکر پالیتے ہیں اور اسی میں مقیم ہوجاتے ہیں ۔یہ دنیا در حقیقت صاحبان عقل کی نظر میں ایک سایہ جیسی ہے جو دیکھتے دیکھتے سمٹ جاتا ہے اور پھیلتے پھیلتے کم ہوجاتا ہے ''

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ص۱۲۶۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ ۶۳۔

۲۴۴

دنیا ایک پل

دین اسلام مسلمان کو دنیا کے بارے میں ایک ایسے نظریہ کا حامل بنانا چاہتا ہے کہ اگر اسکے دل میں یہ عقیدہ و نظریہ راسخ ہوجائے توپھر دنیا کو ایک ایسے پل کے مانند سمجھے گا جس کے اوپر سے گذر کر اسے جانا ہے اور اس مسلمان کی نگاہ میں یہ دنیا دار القرار نہیں ہوگی ۔جب ایسا عقیدہ ہوگا تو خود بخود مسلمان دنیا پرفریفتہ نہ ہوگا اور اسکی عملی زندگی میں بھی اس کے نتائج نمایاں نظر آئیںگے۔

حضرت عیسیٰ کا ارشاد ہے :

(انما الدنیا قنطرة )( ۱ )

''دنیا ایک پل ہے ''

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد گرامی ہے :

(أیهاالناس انماالدنیادارمجازوالآخرة دار قرار،فخذوامن ممرّکم لمقرّکم،ولاتهتکواأستارکم عند من یعلم أسرارکم )( ۲ )

''اے لوگو !یہ دنیا گذر گاہ ہے اور آخرت دار قرارہے لہٰذا اپنے راستہ سے اپنے ٹھکانے کے لئے تو شہ اکٹھا کرلواور جو تمہارے اسرار کو جانتا ہے اس کے سامنے اپنے پردوں کو چاک نہ کرو ''

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے :

(الدنیا دارممرّولادار مقرّ،والناس فیهارجلان:رجل باع نفسه فأوبقها، ورجل ابتاع نفسه فأعتقها )( ۳ )

''دنیا گذرگاہ ہے دارالقرار نہیں اس میں دو طرح کے لوگ رہتے ہیں کچھ وہ ہیں جنھوں نے دنیا کے ہاتھوں اپنا نفس بیچ دیا تو وہ دنیا کے غلام ہوگئے کچھ وہ ہیں جنہوں نے اپنے نفس کوخرید لیااور دنیا کو آزاد کردیا''

____________________

(۱)بحارالانوار ج۱۴ص۳۱۹۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ۲۰۳۔

(۳)شرح نہج البلاغہ ج۱۸ص۳۲۹۔

۲۴۵

اسباب ونتائج کا رابطہ

اسلامی فکر کا امتیاز یہ ہے کہ وہ انسانی مسائل سے متعلق اسباب و نتائج کو ایک دوسرے سے لاتعلق قرار نہیں دیتی بلکہ انھیں آپس میں ملاکر دیکھنے اور پھراس سے نتیجہ اخذ کرنے کی قائل ہے جب ہم انسانی اسباب و نتائج کے بارے میں غورکرتے ہیں تو ان مسائل میں اکثر دو طرفہ رابطہ نظر آتا ہے یعنی دونوں ایک دوسرے پراثر انداز ہوتے ہیں ۔انسانی مسائل میںایسے دوطرفہ رابطوں کی مثالیں بکثرت موجود ہیں مثلاًآپ زہد اور بصیرت کو ہی دیکھئے کہ زہد سے بصیرت اور بصیرت سے زہد میں اضافہ ہوتا ہے ۔

یہاں پر ہم ان دونوں سے متعلق چند روایات پیش کر رہے ہیں ۔

زہد وبصیرت

(أفمن شرح ﷲصدرہ للاسلام فھوعلیٰ نورٍمِن ربَّہِ)کی تفسیر کے ذیل میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :

(ان النوراذاوقع فی القلب انفسح له وانشرح)،قالوا یارسول ﷲ:فهل لذٰلک علامةیعرف بها؟قال:(التجافی من دارالغرور،والانابة الیٰ دارالخلود، والاستعداد للموت قبل نزول الموت )

''قلب پر جب نور کی تابش ہوتی ہے تو قلب کشادہ ہوجاتا ہے اور اس میں وسعت پیدا ہوجاتی ہے عرض کیا گیا یا رسول ﷲ اسکی پہچان کیا ہے ؟

۲۴۶

آپ نے فرمایا :

''دار الغرور(دنیا)سے دوری ،دارالخلود(آخرت)کی طرف رجوع اور موت آنے سے پہلے اسکے لئے آمادہ ہوجانا ہے ''( ۱ )

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(أحقّ الناس بالزهادة،من عرف نقص الدنیا )( ۲ )

''جو دنیا کے نقائص سے آگاہ ہے اسے زیادہ زاہد ہونا چاہئے''

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے :

(من صوّرالموت بین عینیه،هان أمرالدنیا علیه )( ۳ )

''جس کی دونوں آنکھوں کے سامنے موت کھڑی رہتی ہے اس کے لئے دنیا کے امور آسان ہوجاتے ہیں ''

نیز آپ نے فرمایا :(زهدالمرء فیمایفنیٰ،علی قدر یقینه فیما یبقیٰ )( ۴ )

''فانی اشیائ(دنیا)کے بارے میں انسان اتناہی زاہد ہوتا ہے جتنا اسے باقی اشیاء (آخرت )کے بارے میں یقین ہوتا ہے ''

زہدو بصیرت کا رابطہ

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت ابوذر (رح)سے فرمایا :

(یاأباذر:مازهد عبد فی الدنیا،الاأنبت ﷲ الحکمة فی قلبه،وأنطق بهالسانه ،ویبصّره عیوب الدنیا وداء ها ودواء ها،وأخرجه منهاسالماًالی دارالسلام )( ۵ )

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ص۱۲۲۔

(۲)غررالحکم۔

(۳)غررالحکم ۔

(۴)بحارالانوار ج۷۰ص۳۱۹۔

(۵)بحارالانوار ج۷۷ص۸۔

۲۴۷

''اے ابوذر جو شخص بھی زہداختیار کرتاہے ﷲ اس کے قلب میں حکمت کا پودا اگا دیتا ہے اور اسے اسکی زبان پر جاری کر دیتا ہے اسے دنیا کے عیوب ،اوردرد کے ساتھ انکاعلاج بھی دکھا دیتا ہے اور اسے دنیا سے سلامتی کے ساتھ دارالسلام لے جاتا ہے ''

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے :

(من یرغب فی الدنیا فطال فیهاأمله،أعمیٰ ﷲ قلبه علیٰ قدررغبته فیها، ومن زهد فیها فقصُرأمله أعطاه ﷲعلماًبغیرتعلّم،وهدیً بغیرهدایة،وأذهب عنه العماء وجعله بصیراً )( ۱ )

جو دنیا سے رغبت رکھتا ہے اسکی آرزوئیں طویل ہوجاتی ہیں اوروہ جتنا راغب ہوتا ہے اسی مقدار میں خدا اسکے قلب کوا ندھا کر دیتا ہے اور جو زہد اختیار کر تا ہے اسکی آرزوئیں قلیل ہوتی ہیں ﷲ اسے تعلیم کے بغیرعلم اور رہنما ئی کے بغیرہدایت عطا کرتا ہے اور اس کے اند ھے پن کو ختم کر کے اسے بصیر بنا دیتا ہے ''

ایک دن پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں کے درمیان آئے اور فرمایا:

(هل منکم من یریدأن یؤتیه ﷲ علماًبغیرتعلّم،وهدیاًبغیرهدایة؟هل منکم من یریدأن یذهب عنه العمیٰ و یجعله بصیراً؟ألاانه من زهد فی الدنیا،وقصرأمله فیها،أعطاه ﷲعلماًبغیرتعلّم،وهدیاً بغیرهدایة )( ۲ )

''کیا تم میں سے کوئی اس بات کا خواہاں ہے کہ ﷲ اسے تعلیم کے بغیر علم اور رہنمائی کے بغیرہدایت دیدے۔ تم میں سے کوئی اس بات کا خواہاں ہے کہ ﷲ اس کے اندھے پن کو دور کر کے اسے بصیر بنادے ؟آگاہ ہو جائو جو شخص بھی دنیا میں زہدا ختیار کر ے گااور اپنی آرزوئیں قلیل رکھے گا

____________________

(۱)بحارالانوارج۷۷ص۲۶۳۔

(۲)درالمنثورج۱ص۶۷۔

۲۴۸

ﷲاسے تعلیم کے بغیرعلم اور رہنمائی کے بغیرہدایت عطاکر ے گا ''

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

(یاأباذراذارأیت أخاک قدزهد فی الدنیا فاستمع منه،فانه یُلقّیٰ الحکمة )( ۱ )

''اے ابوذراگر تم اپنے کسی بھائی کو دیکھو کہ وہ دنیا میں زاہد ہے تو اسکی باتوںکو(دھیان سے ) سنو کیونکہ اسے حکمت عطا کی گئی ہے ''

ان روایات سے معلوم ہو تا ہے کہ زہد وبصیرت میں دو طرفہ رابطہ ہے ،یعنی زہد کا نتیجہ بصیرت اور بصیرت کا نتیجہ زہد ہے ۔اسی طرح زہد اور قلتِ آرزو کے مابین بھی دو طرفہ رابطہ ہے زہد سے آرزووں میں کمی اور اس کمی سے زہد پیدا ہوتا ہے زہد اورقلت آرزو کے درمیان رابطہ کے بارے میں امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :(الزهدیخلق الابدان،ویحدّدالآمال،ویقرّب المنیة،ویباعدالاُمنیة،من ظفر به نصب،ومن فاته تعب )( ۲ )

'' زہد،بدن کو مناسب اور معتدل ،آرزووں کو محدود،موت کو نگاہوں سے نزدیک اور تمنائوں کو انسان سے دور کردیتا ہے جو اسکو پانے میں کامیاب ہوگیا وہ خوش نصیب ہے اور جو اسے کھو بیٹھا وہ در دسر میں مبتلاہوگیا''

آرزووں کی کمی اورزہد کے رابطہ کے بارے میں امام محمد باقر کا ارشاد ہے:

(استجلب حلاوة الزهادة بقصرالامل )( ۳ )

''آرزو کی قلت سے زہد کی حلاوت حاصل کرو''

ان متضاد صفات کے درمیان دو طرفہ رابطہ کا بیان اسلامی فکر کے امتیازات میں سے ہے

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۷ص۸۰ ۔

(۲)بحارالانوارج ۷۰ص۳۱۷۔

(۳)بحارالانوار ج۷۸ص۱۶۴۔

۲۴۹

زہد وبصیرت یا زہد وقلتِ آرزو کے درمیان دو طرفہ رابطہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ان دونوں چیزوں کے اندر ایک دوسرے کے ذریعہ اضافہ ہوتا رہتا ہے اور اس سے انسان ترقی کرتا رہتا ہے۔ اس طرح کہ بصیرت سے زہد کی کیفیت پیدا ہو تی ہے اور جب انسان زاہد ہو جاتا ہے تو بصیرت کے اعلیٰ مراتب حاصل ہو جاتے ہیں نیزبصیرت کے ان اعلیٰ مراتب سے زہد میں اضافہ ہوتا ہے اور اس زہد سے پھر بصیرت کے مزید اعلیٰ مراتب وجود پاتے ہیں۔اسطرح انسان ان دونوں صفات وکمالات کے ذریعہ بلندیوں تک پہنچ جاتا ہے۔

مذموم دنیا اور ممدوح دنیا

۱۔مذموم دنیا

اس سے قبل ہم نے ذکر کیا تھا کہ دنیا کے دو چہرے ہیں:

( ۱ ) ظاہری

( ۲ ) باطنی

دنیا کا ظاہر ی چہرہ فریب کا سر چشمہ ہے ۔یہ چہرہ انسانی نفس میں حب دنیا کا جذبہ پیدا کرتا ہے جبکہ باطنی چہرہ ذریعۂ عبرت ہے یہ انسان کے نفس میں زہدکا باعث ہوتا ہے روایات کے مطابق دنیا کا ظاہری چہرہ مذموم ہے اور باطنی چہرہ ممدوح ہے ۔

ایسا نہیں ہے کہ واقعاً دنیا کے دو چہرے ہیں یہ فرق در حقیقت دنیا کو دیکھنے کے انداز سے پیدا ہوتا ہے ورنہ دنیا اور اسکی حقیقت ایک ہی ہے ۔فریب خور د ہ نگاہ سے اگر دنیا کو دیکھا جائے تو یہ دنیا مذموم ہوجاتی ہے اور اگر دیدئہ عبرت سے دنیا پر نگاہ کی جائے تو یہی دنیاممدوح قرار پاتی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لذات وخواہشات سے لبریز دنیا کا ظاہری چہرہ ہی مذموم ہے ۔

یہاں پر دنیا کے مذموم رخ کے بارے میں چند روایات پیش کی جارہی ہیں ۔

۲۵۰

امیر المومنین حضرت علی نے فرمایا:

(الدنیا سوق الخسران )( ۱ )

''دنیا گھاٹے کا بازار ہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا مصرع العقول )( ۲ )

''دنیا عقلوں کا میدان جنگ ہے ''

آپ کا ہی ارشاد ہے :

(الدنیا ضحکة مستعبر )( ۳ )

''دنیا چشم گریاں رکھنے والے کے لئے ایک ہنسی ہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا مُطَلَّقةُ الاکیاس )( ۴ )

''دنیاذہین لوگوں کی طلاق شدہ بیوی ہے''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا معدن الشرور،ومحل الغرور )( ۵ )

''دنیا شروفسا دکا معدن اور دھوکے کی جگہ ہے''

____________________

(۱)غررا لحکم ج ۱ص۲۶۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۴۵۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۲۶۔

(۴)غررالحکم ج۱ص۲۸۔

(۵)غررالحکم ج۱ص۷۳۔

۲۵۱

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیالا تصفولشارب،ولا تفی لصاحب )( ۱ )

''دنیا کسی پینے والے کے لئے صاف وشفاف اور کسی کے لئے باوفا ساتھی نہیں ہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا مزرعة الشر )( ۲ )

''دنیا شروفسا دکی کا شت کی جگہ ہے''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا مُنیة الاشقیائ )( ۳ )

''دنیا اشقیا کی آرزوہے''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الد نیا تُسْلِمْ )( ۴ )

''دنیا دوسرے کے حوالے کر دیتی ہے''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا تُذِلّْ )( ۵ )

''دنیا ذلیل کرنے والی ہے''

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص ۸۵۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۲۶۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۳۷۔

(۴)غررالحکم ج۱ص۱۱۔

(۵)غررالحکم ج۱ص۱۱۔

۲۵۲

دنیا سے بچائو

امیر المو منین حضرت علی ہمیں دنیا سے اس انداز سے ڈراتے ہیں :

(أُحذّرکم الدنیافانّهالیست بدارغبطة،قدتزیّنت بغرورها،وغرّت بزینتهالمن ان ینظرالیها )( ۱ )

''میں تمہیں دنیا سے ڈراتا ہوں کیونکہ یہ فخرومباہات کاگھر نہیں ہے ۔یہ اپنے فریب سے مزین ہے اور جو شخص اسکی طرف دیکھتا ہے اسے اپنی زینت سے دھوکے میں مبتلاکردیتی ہے ''

ایک اور مقام پر آپ کا ارشاد گرامی ہے :

(أُحذّرکم الدنیافانها حُلوة خضرة،حُفّت بالشهوات )( ۲ )

''میں تمہیں اس دنیا سے بچنے کی تاکید کرتا ہوں کہ یہ دنیا سرسبز وشیریں اورشہوتوں سے گھری ہوئی ہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(احذروا هذه الدنیا،الخدّاعة الغدّارة،التی قد تزیّنت بحلیّها،وفتنت بغرورها،فأصبحت کالعروسة المجلوة،والعیون الیها ناظرة )( ۳ )

''اس دھو کے باز مکار دنیا سے بچو یہ دنیا زیورات سے آراستہ اور فتنہ ساما نیوں کی وجہ سے سجی سجائی دلہن کی مانندہے کہ آنکھیں اسی کی طرف لگی رہتی ہیں ''

ب :ممدوح دنیا

دنیا کا دوسرا رخ اوراس کے بارے میں جو دوسرانظر یہ ہے وہ قابل مدح وستائش ہے البتہ

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۸ ص۲۱۔

(۲)بحارالانوار ج۷۳ص۹۶۔

(۳)بحارالانوارج۷۳ص۱۰۸۔

۲۵۳

یہ قابل ستائش رخ اس دنیا کے باطن سے نکلتا ہے جو قابل زوال ہے جبکہ مذموم رخ ظاہری دنیا سے متعلق تھا ۔

بہر حال یہ طے شدہ بات ہے کہ دنیا کے دورخ ہیں ایک ممدوح اور دوسرا مذموم ۔ممدوح رخ کے اعتبار سے دنیا نقصان دہ نہیں ہے بلکہ نفع بخش ہے اورمضر ہونے کے بجائے مفید ہے اسی رخ سے دنیا آخرت تک پہو نچانے والی ،مومن کی سواری ،دارصدق اوراولیاء کی تجارت گاہ ہے۔لہٰذادنیا کے اس رخ کی مذمت صحیح نہیں ہے روایات کے آئینہ میں دنیا کے اس رخ کوبھی ملا حظہ فرما ئیں ۔

۱۔دنیا آخرت تک پہو نچانے والی

امام زین العابدین نے فرمایا :

(الدنیا دنیاءان،دنیابلاغ،ودنیاملعونة )( ۱ )

''دنیا کی دو قسمیں ہیں ؟دنیا ئے بلاغ اور دنیا ئے ملعونہ ''

دنیائے بلاغ سے مراد یہ ہے کہ دنیا انسان کو آخرت تک پہو نچاتی ہے اور خدا تک رسائی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ۔بلاغ کے یہی معنی ہیں اوریہ دنیا کی پہلی قسم ہے ۔

دوسری دنیا جو ملعون ہے وہ دنیا وہ ہے جوانسان کو ﷲسے دورکرتی ہے اس لئے کہ لعن بھگانے اور دور کرنے کو کہتے ہیں اب ہرانسان کی دنیااِنھیں دومیں سے کوئی ایک ضرورہے یاوہ دنیا جو خدا تک پہونچاتی ہے یاوہ دنیا جو خدا سے دور کرتی ہے ۔

اسی سے ایک حقیقت اور واضح ہو جاتی ہے کہ انسان دنیا میں کسی ایک مقام پر ٹھہر انہیں رہتا ہے بلکہ یا تووہ قرب خداکی منزلیں طے کرتا رہتا ہے یا پھر اس سے دور ہوتا جاتا ہے ۔

امیر المو منین حضرت علی کا ارشاد ہے :

____________________

(۱)بحارالانوارج۷۳ص۲۰۔

۲۵۴

(لاتسألوافیها فوق الکفاف،ولاتطلبوامنها أکثرمن البلاغ )( ۱ )

''اس دنیا میں ضرورت سے زیادہ کا سوال مت کرو اور نہ ہی کفایت بھر سے زیادہ کا مطالبہ کرو ''

اس طرح اس دنیا کا مقصد (بلاغ)ہے اور انسان دنیا میں جو بھی مال ومتاع حاصل کرتا ہے وہ صرف اس مقصد تک پہونچنے کیلئے ایک ذریعہ اور وسیلہ ہے اس طرح انسان کی ذمہ داری ہے کہ دنیا میں صرف اتنا ہی طلب کرے جس سے اپنے مقصود تک پہنچ سکے لہٰذا اس مقدار سے زیادہ مانگنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی وسیلہ کو مقصد بنانا چا ہئے اور یہ یادر کھنا چاہئے کہ دنیا وسیلہ ہے آخری مقصد نہیں ہے بلکہ آخری مقصد آخرت اور خدا تک رسائی ہے ۔

امیرا لمو منین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(الدنیاخلقت لغیرها،ولم تخلق لنفسها )( ۲ )

''دنیا اپنے لئے نہیں بلکہ اپنے غیر (آخرت تک رسائی )کیلئے خلق کی گئی ہے''

وسیلہ کو مقصد قرار دے دیاجائے یہ بھی غلط ہے اسی طرح واسطہ کو وسیلہ اور مقصد(دونوں ) قرار دینا بھی غلط ہے اسی لئے امیرالمو منین نے فر مایا ہے کہ دنیاکو صرف اس مقدارمیںطلب کرو جس سے آخرت تک پہونچ سکو ۔

لیکن خود حصول دنیا کے سلسلہ میں آپ نے فرمایا کہ صرف بقدر ضرورت سوال کرو ۔امام کے اس مختصر سے جملے میں حصول رزق کے لئے سعی و کو شش کے سلسلہ میں اسلام کا مکمل نظریہ موجود ہے ۔چونکہ مال و متاع ِ دنیا آخرت تک پہنچنے کا ذریعہ ہے لہٰذا کسب معاش اور تحصیل رزق ضروری ہے لیکن اس تلاش و جستجو میں ''بقدر ضرورت ''کا خیال رکھنا ضروری ہے اور ''بقدر ''ضرورت سے مراد وہ

____________________

(۱)بحارالانوارج ۷۳ص۸۱۔

(۲)نہج البلاغہ حکمت ۴۵۵۔

۲۵۵

مقدار ہے کہ جس کے ذریعہ دنیاوی زندگی کی ضرورتیں پوری ہو تی رہیں اور آخرت تک رسائی ہو سکے

انسا نی ضرورت واقعی اور ضروری بھی ہو تی ہے اور غیر واقعی یا وہمی بھی ۔یعنی اسے زندہ رہنے اور آخرت تک رسائی کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ حقیقی ضرورتیں ہیں ۔اوران کے علاوہ کچھ غیر ضروری چیزیں بھی احتیاج وضرورت کی شکل میں انسان کے سامنے آتی ہیںجو در حقیقت حرص و طمع ہے اوران کا سلسلہ کبھی ختم ہو نے والا نہیں ہے اگر انسان ایک مرتبہ ان کی گرفت میں آگیا تو پھر ان کی کو ئی انتہا ء نہیں ہوتی ۔ان کی راہ میں جد وجہد کرتے ہوئے انسان ہلاک ہو جاتا ہے مگر اس جد و جہد سے اذیت و طمع میں اضافہ ہی ہوتا ہے ۔

حضرت امام جعفر صادق نے اپنے جد بزرگوار حضرت علی کا یہ قول نقل فرمایاہے:

یابن آدم:ان کنت ترید من الدنیامایکفیک فان أیسرما فیهایکفیک،و ان کنت انما ترید مالیکفیک فان کل ما فیهایکفیک ( ۱ )

''اے فرزند آدم اگر تو دنیا سے بقدر ضرورت کا خواہاں ہے تو تھوڑا بہت ،جو کچھ تیرے پاس ہے وہی کا فی ہے اور اگر تو اتنی مقدار میں دنیا کا خواہاں ہے جو تیری ضرورت سے زیادہ ہے تو پھر دنیا میں جو کچھ ہے وہ بھی نا کافی ہے ''

دنیا کے بارے میں یہ دقیق نظریہ متعدد اسلامی روایات اور احا دیث میں وارد ہوا ہے ۔

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے:

ألا وان الدنیادار لا یُسلَم منها الا فیها،ولاینجیٰ بشی ء کان لها،ابتلی الناس بها فتنة،فما أخذوه منها لهااُخرجوا منه وحوسبوا علیه،

____________________

(۱)اصول کافی ج۲ص۱۳۸۔

۲۵۶

وما أخذوه منهالغیرها قدمواعلیه وأقاموا فیه )( ۱ )

''آگاہ ہو جا ئو کہ یہ دنیا ایسا گھرہے جس سے سلامتی کا سامان اسی کے اندر سے کیا جاسکتا ہے اور کو ئی ایسی شئے وسیلۂ نجات نہیں ہو سکتی ہے جو دنیا ہی کے لئے ہو ۔لوگ اس دنیا کے ذریعہ آزمائے جاتے ہیں ۔جو لوگ دنیا کا سامان ،دنیا ہی کیلئے حاصل کرتے ہیں وہ اسے چھوڑکر چلے جاتے ہیں اور پھر حساب بھی دینا ہوتا ہے اور جولوگ یہاں سے وہاںکیلئے حاصل کرتے ہیں وہ وہاں جاکر پالیتے ہیں اور اسی میں مقیم ہوجاتے ہے یہ دنیا در حقیقت صاحبان عقل کی نظر میں ایک سایہ جیسی ہے جو دیکھتے دیکھتے سمٹ جاتا ہے اور پھیلتے پھیلتے کم ہوجاتا ہے ''

ان کلمات میں اختصار کے باوجود بے شمار معانی ومطالب پائے جاتے ہیں (دارلایسلم منها اِلا فیها )اس فقرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان سے فرار اور خدا تک رسائی کے لئے دنیا مومن کی سواری ہے اس کے بغیر اسکی بارگاہ میں رسائی ممکن نہیں ہے عجیب وغریب بات ہے کہ دنیا اور لوگوں سے کنا رہ کشی کرنے والا قرب خدا کی منزل مقصود تک نہیں پہونچ سکتا بلکہ ﷲ یہ چاہتا ہے کہ بندہ اسی دنیا میں رہ کر اسی دنیا کے سہارے اپنی منزل مقصود حاصل کرے۔لہٰذا ان کلمات سے پہلی حقیقت تو یہ آشکار ہوئی ہے کہ دنیا واسطہ اور وسیلہ ہے اس کو نظر انداز کرکے مقصدحاصل نہیںکیاجاسکتا۔

لیکن یہ بھی خیال رہے کہ دنیا مقصد نہ بننے پائے۔ اگر انسان دنیا کو وسیلہ کے بجائے ہدف اور مقصد بنالے گا تو ہرگز نجات حاصل نہیں کرسکتا (ولاینجی لشی کان لھا) اس طرح اگر انسان نے دنیا کواس کی اصل حیثیت ''واسطہ ووسیلہ''سے الگ کردیا اور اسی کو ہدف بنالیا تو پھر دنیاشیطان سے نجات اور خدا تک پہنچانے کی صلاحیت کھو بیٹھتی ہے یہ دوسری حقیقت ہے جوان

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۶۲ ۔

۲۵۷

کلمات میں موجود ہے ۔

اور پھراگر انسان دنیا کو خدا ،قرب خدا اور رضائے الٰہی حاصل کرنے کے بجائے خود دنیا کی خاطر اپناتا ہے تو یہی دنیا اسکو خدا سے دور کردیتی ہے ۔اس دنیا کا بھی عجیب و غریب معاملہ ہے یعنی اگر انسان اسے وسیلہ اور خدا تک رسائی کا ذریعہ قرار دیتا ہے تو یہ دنیا اس کے لئے ذخیرہ بن جاتی ہے اور اس کے لئے باقی رہتی ہے نیز دنیا وآخرت میں اس کے کام آتی ہے لیکن اگر وسیلہ کے بجائے اسے مقصد بنالے تو یہ ﷲ سے غافل کرتی ہے ۔خدا سے دور کردیتی ہے موت کے بعدانسان سے جدا ہوجاتی ہے اور بارگاہ الٰہی میں اسکا سخت ترین حساب لیا جاتاہے ۔

یہ بھی پیش نظر رہے کہ یہ فرق کمیت اور مقدار کا نہیں ہے بلکہ کیفیت کا ہے اور عین ممکن ہے کہ انسان وسیع و عریض دنیا کا مالک ہو لیکن اسکا استعمال راہ خدا میں کرتا ہو اس کے ذریعہ قرب خدا کی منزلیں طے کرتا ہو ایسی صورت میں یہ دنیا اس کے لئے ''عمل صالح''شمار ہوگی اس کے برخلاف ہوسکتا ہے کہ مختصر سی دنیا اور اسباب دنیاہی انسان کے پاس ہوں لیکن اسکا مقصد خود وہی دنیا ہو تو یہ دنیا اس سے چھین لی جائے گی اسکا محاسبہ کیا جائے گا ۔یہ ہے ان کلمات کا تیسرا نتیجہ۔

اگر خود یہی دنیا انسان کے مد نظر ہوتو اسکی حیثیت ''عاجل''''نقد''کی سی ہے جو کہ اسی دنیا تک محدود ہے اور اس کا سلسلہ آخرت سے متصل نہ ہوگابلکہ زائل ہو کر جلد ختم ہوجائے گی لیکن اگر دنیا کو دوسرے (آخرت )کے لئے اختیار کیا جائے تو اسکی حیثیت''آجل''''ادھار''کی سی ہوگی کہ جب انسان حضور پروردگار میں پہونچے گا تو وہاںدنیا کو حاضر وموجود پائے گا ۔ایسی دنیا زائل ہونے والی نہیں بلکہ باقی رہے گی''وماعندﷲ خیر وأبقی''امیر المومنین کے اس فقرہ''وماأخذ وہ منھا لغیرھا قدموا علیہ وأقاموا فیہ'' سے یہ چوتھا نتیجہ برآمد ہوتا ہے ۔

۲۵۸

زیارت امام حسین سے متعلق دعا میں نقل ہوا ہے:

(ولاتشغلنی بالاکثارعلیّ من الدنیا،تلهینی عجائب بهجتها،وتفتننی زهرات زینتها،ولا بقلالٍ یضرّ بعملی،ویملأ صدری همّه )( ۱ )

''کثرت دنیا سے میرے قلب کو مشغول نہ کردینا کہ اسکے عجائبات مجھے تیری یاد سے غافل کردیں یا اسکی زینتیں مجھے اپنے فریب میں لے لیں اور نہ ہی دنیا میں میرا حصہ اتنا کم قرار دینا کہ میرے اعمال متاثر ہوجائیں اور میرا دل اسی کے ہم وغم میں مبتلا رہے ''

دنیا اوراس سے انسان کے تعلق، بقاء و زوال ،اسکے مفید ومضر ہونے کے بارے میں اس سے قبل جو کچھ بیان کیا گیا وہ کیفیت کے اعتبار سے تھا کمیت ومقدار سے اسکا تعلق نہیں تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ کمیت و مقدار بھی اس میں دخیل ہے کثرت دنیا اور اسکی آسا ئشیںانسان کو اپنے میں مشغول کرکے یاد خدا سے غافل بنادیتی ہیں بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ دنیا میں بڑاحصہ ہونے کے باوجود انسان دنیا میں گم نہ ہو یا یہ زیادتی اسے خدا سے دور نہ کردے اسکے لئے سخت جد وجہد درکار ہوتی ہے اور اسی طرح اگر دنیا وی حصہ کم ہو،دنیا روگردانی کر رہی ہو تو یہ بھی انسان کی آزمائش کا ایک انداز ہوتا ہے کہ انسان کا ہم وغم اور اس کی فکریں دنیا کے بارے میں ہوتی ہیں اور وہ خدا کو بھول جاتا ہے اسی لئے اس دعا میں حد متوسط کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ نہ تو اتنی کثرت ہو جس سے انسان یاد خدا سے غافل ہوجائے اور نہ اتنی قلت ہوکہ انسان اسی کی تلاش میں سرگرداں رہے اور خدا کو بھول بیٹھے۔

۲۔دنیا مومن کی سواری

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے :

(لاتسبّوا الدنیا فنعمت مطیة المؤمن،فعلیها یبلغ الخیر وبها ینجو من الشر )( ۲ )

____________________

(۱)بحارالانوار ج۱۰۱ ص۲۰۸۔

(۲)بحارالانوار ج۷۷ص۱۷۸۔

۲۵۹

''دنیا کو برا مت کہو یہ مومن کی بہترین سواری ہے اسی پر سوار ہوکر خیر تک پہنچاجاتا ہے اور اسی کے ذریعہ شرسے نجات حاصل ہوتی ہے ''

اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ دنیا سواری کی حیثیت رکھتی ہے جس پر سوار ہوکر انسان خدا تک پہونچتا اور جہنم سے فرار اختیار کرتا ہے ۔

یہ دنیاکاقابل ستائش رخ ہے اگر دنیانہ ہوتی توانسان رضائے الٰہی کے کام کیسے بجالاتا ، کیسے خدا تک پہونچتا ؟اولیاء خدا اگر قرب خداوند ی کے بلند مقامات تک پہونچے ہیں تو وہ بھی اسی دنیا کے سہارے سے پہونچے ہیں ۔

۳۔دنیا صداقت واعتبار کا گھر ہے ۔

۴۔دنیا دار عافیت۔

۵۔دنیا استغنا اور زاد راہ حاصل کرنے کی جگہ ہے ۔

۶۔دنیا موعظہ کا مقام ہے ۔

۷۔دنیا محبان خدا کی مسجدہے ۔

۸۔دنیا اولیاء الٰہی کے لئے محل تجارت ہے ۔

امیر المومنین حضرت علی نے جب ایک شخص کو دنیا کی مذمت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا :

(أیهاالذام للدنیاالمغترّبغرورهاالمنخدع بأباطیلها!أتغتر بالدنیاثم تذمّها،أنت المتجرّم علیهاأم هی المتجرّمةعلیک؟متیٰ استهوتک؟أم متیٰ غرّتک؟ )( ۱ )

''اے دنیا کی مذمت کرنے والے اور اسکے فریب میں مبتلا ہوکر اسکے مہملات میں دھوکا کھا

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت ۱۲۶۔

۲۶۰

جائیں جسے نینوا کہتے ہیں یا اس دیہات میں چلے جائیں جسے غاضر یہ(١) کہتے ہیں یاایک دوسرے قریہ میں جانے دو جسے شفیہ کہتے ہیں(٢) لیکن حرنے تمام درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا : نہیں خدا کی قسم میں ایسا کرنے پر قادر نہیں ہوں ، یہ شخص میرے پاس جاسوس بناکر بھیجا گیا ہے ۔

____________________

١۔ غاضریہ، غاضر کی طرف منسوب ہے جو قبیلہ بنی اسد کا ایک شخص ہے۔ یہ زمین ابھی عون کی قبر کے آس پاس ہے جو کربلا سے ایک فرسخ کے فاصلہ پر ہے وہا ں ایک قلعہ کے آثار موجود ہیں جو قلعہ بنی اسد کے نام سے معروف ہے ۔

٢۔ یہ بھی کربلا کے نزدیک بنی اسد کے کنوی ں کا مقام ہے ۔

۲۶۱

اس بے ادبی پرزہیر بن قین ، امام علیہ السلام سے مخاطب ہو کر کہنے لگے :''یابن رسول اللّٰہ، ان قتال ھولاء أھون من قتال مَن یاتینا من بعدھم ، فلعمری لیاتینا من بعد من تری مالا قبل لنا بہ'' اے فرزند رسولخدا ! ان لوگوں سے ابھی جنگ آسان ہوگی بہ نسبت اُن لوگوں کے جو اِن کے بعد آئیں گے۔ قسم ہے مجھے اپنی جان کی اس کے بعدہماری طرف اتنے لوگ آئیں گے جن کا اس سے پہلے ہم سے کوئی سابقہ نہ ہواہو گا ۔زہیر کے یہ جملے سن کر امام علیہ السلام نے ا ن سے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا جوان کے سابقہ بزرگوں کی سیرت کا بیان گر ہے۔ آپ نے فرمایا : ''ماکنت لٔابدأ ھم با لقتال'' میں ان سے جنگ کی ابتداء کرنا نہیں چاہتا اس پر زہیر بن قین نے کہا : تو پھر اس کی اجازت فرمائیے کہ ہم اس قریہ کی طرف چلیں اور وہاں پہنچ کر پڑاؤ ڈالیں کیونکہ یہ قریہ سرسبزو شاداب ہے اور دریائے فرات کے کنارے ہے۔ اگران لوگوں نے ہمیں روکا تو ہم ان سے نبرد آزمائی کریں گے کیونکہ ان سے نبرد آزماہونا آسان ہے بہ نسبت ان لوگوں کے جو ان کے بعد آئیں گے۔ اس پر امام علیہ السلام نے پوچھا :''وأےة قرےة ھی ؟ ''یہ کون سا قریہ ہے ؟ زہیر نے کہا : ''ھی العقر''اس کانام عقر ہے(١) تو امام علیہ السلام نے ان سے فرمایا : ''اللّٰھم انی أعوذبک من العقر'' خدا یا !میں عقر سے تیری پناہ مانگتاہوں ، پھر آپ نے وہیں اپنے قافلہ کو اتارا۔ یہ جمعرات دوسری محرم ٦١ ھ کا واقعہ ہے جب دوسرا دن نمودار ہواتو سعد بن ابی وقاص(٢) کا بیٹاعمر کوفہ سے چار ہزار فوج لے کر کربلا پہنچ گیا ۔

____________________

١۔ بابل کے دیہات میں ایک جگہ ہے جہا ں بنو خذنصر(یہ وہی بخت النصر معروف ہے جس کا صحیح تلفظ بنو خذ نصر ہے) رہاکرتے تھے اس علاقہ کو شروع میں کوربابل کے نام سے یاد کیا جاتا تھا بعد میں کثرت استعمال کی وجہ سے تصحیف ہو کر کربلا کہا جانے لگا ۔

٢۔ مذکورہ شخص کے احوال گذر چکے ہیں ۔

۲۶۲

امام حسین علیہ السلام کی جانب پسر سعد کی روانگی

* ابن زیاد کے نام عمر بن سعد کا خط

* ابن زیاد کا جواب

* پسر سعد اور امام علیہ السلام کی ملاقات

* ابن زیاد کے نام عمر بن سعد کا دوسرا خط

* ابن زیاد کا پسر سعد کے نام دوسرا خط

* خط کے ہمراہ شمر کا کربلا میں ورود

* جناب عباس اور ان کے بھائیوں کے نام امان نامہ

* امام علیہ السلام اور ان کے اصحاب پر پانی کی بندش

۲۶۳

امام حسین علیہ السلام کی جانب پسر سعد کی روانگی

امام حسین علیہ السلام کی طرف پسر سعد کی روانگی کا سبب یہ تھا کہ عبیداللہ بن زیاد نے اسے اہل کوفہ کی چارہزار فوج کے ہمراہ ''ہمدان ''اور'' ری'' کے درمیان ایک علا قہ کی طرف روانہ کیا تھا جسے دشتبہ(١) کہتے ہیں جہاں دیلمیوں نے حکومت کے خلاف خروج کر کے غلبہ حاصل کر لیا تھا ۔ ابن زیاد نے خط لکھ کر ''ری'' کی حکومت اس کے سپردکی اور اسے روانگی کا حکم دیا ۔

عمر بن سعد اپنی فوج کے ہمراہ روانہ ہو گیا۔'' حمام اعین ''(٢) کے پاس جا کر پڑاؤ ڈالا لیکن جب امام حسین علیہ السلام کامسئلہ سامنے آیا کہ وہ کو فہ کی طرف آرہے ہیں تو ابن زیاد نے عمر سعد کو بلا یا اور کہا : تم حسین کی طرف روانہ ہو جاؤ اور جب ہمارے اور اس کے درمیان کی مشکل حل ہو جائے تب تم اپنے کام کی طرف جانا۔ اس پر عمر بن سعد نے کہا : اللہ آپ پر رحم کرے اگر آپ بہتر سمجھیں تو مجھے اس سے معاف فرمائیں اور یہ کام خود انجام دیں ۔ یہ سن کر ابن زیاد نے کہا : ہاں یہ ممکن ہے لیکن اس شرط پر کہ تم وہ عہد نا مہ واپس کر دو جو میں نے تم کو'' ری'' کے سلسلے میں دیا ہے۔جیسے ہی ابن زیاد نے یہ کہا ویسے ہی عمر بن سعد بولا:مجھے ایک دن کی مہلت دیجئے تاکہ میں خوب فکر کرسکوں اور وہاں سے اٹھ کر اپنے خیر خوا ہوں کے پاس مشورہ کرنے کے لئے آیا۔تمام مشورہ دینے والوں نے اسے اس کام میں ہا تھ ڈالنے سے منع کیا ۔

____________________

١۔عربی میں اس کو دستبی کہتے ہیں جو فارسی میں دشتبہ کہا جاتا ہے۔ یہ ایک خوبصورت، سر سبز وشاداب اور بہت بڑاعلا قہ ہے جو ہمدان اور ری کے درمیان ہے۔ بعد میں یہ قزوین سے منسوب ہوگیا جیسا کہ معجم البلدان ،ج٤، ص ٥٨میں ذکر ہوا ہے۔

٢۔ یہ کوفہ کے دیہاتو ں میں سے ایک دیہات ہے جہا ں عمر بن سعد کا ایک حمام تھا جو اس کے غلام'' اعین'' کے ہاتھ میں تھا۔ اسی کے نام پر اس علا قہ کا نام'' حمام اعین'' ہو گیا۔(القمقام ،ص٤٨٦)

۲۶۴

اس کا بھا نجا حمزہ بن مغیرہ بن شعبہ(١) اس کے پاس آیا اور کہنے لگا : اے ماموں ! میں آپ کو خدا کی قسم دیتا ہوں کہ آپ حسین کی طرف نہ جائیں ورنہ آپ اپنے رب کے گناہ گار اور اپنے نزدیکی رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے والے ہوں گے۔ خدا کی قسم اگر آپ دنیا سے اس حال میں کوچ کریں کہ آپ تمام دنیا کے مالک ومختار ہوں اور وہ آپ کے ہاتھ سے نکل جائے تو یہ آپ کے لئے اس سے بہتر ہے کہ آپ اللہ سے اس حال میں ملا قات کریں کہ حسین کے خون کا دھبہ آپ کے دامن پر ہو !اس پر ابن سعد نے کہا : انشا ء اللہ میں ایسا ہی کروں گا ۔(٢)

یہاں سے طبری کی روایت میں ابومخنف کی خبروں کے سلسلہ میں انقطاع پایا جاتا ہے اور ابن سعد کے کربلا میں وارد ہونے کی داستان کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس خلاء کو طبری نے ''عوانہ بن حکم'' کی خبر سے پُر کیا ہے۔ چار وناچا ربط بر قرار رکھنے کے لئے ہمیں اسی سلسلے سے متصل ہونا پڑرہا ہے ۔

ہشام کابیان ہے :مجھ سے'' عوانہ بن حکم'' نے عمار ابن عبداللہ بن یسارجہنی کے حوالے سے بیان کیا ہے اور اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ میرے والد نے کہا :میں عمر بن سعدکے پاس حاضر ہواتواس کو امام حسین علیہ السلام کی طرف روانگی کا حکم مل چکا تھا۔مجھے دیکھ کر اس نے فوراًکہا :امیر نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں حسین کی طرف روانہ ہوجاؤں لیکن میں نے اس مہم سے انکا رکر دیا ۔ میں نے اس سے کہا: اللہ تمہارا مدد گا ہے، اس نے تم کو صحیح راستہ دکھا یاہے۔ تم یہیں رہو اور یہ کام انجام نہ دو اور نہ ہی حسین کی طرف جاؤ! یسار جھنی کہتا ہے: یہ کہہ کر میں پسر سعد کے پاس سے نکل آیا توکہنے والے نے آکر مجھے خبر

____________________

١۔ ٧٧ھ میں حجاج بن یوسف ثقفی نے اسے ہمدان کا عامل بنا یا (طبری ،ج٥،ص ٢٨٤) اور اس کا بھائی مطرف بن مغیرہ مدائن میں تھا۔ اس نے حجاج کے خلا ف خروج کیا تو اس کے بھائی حمزہ نے خاموشی کے ساتھ مال اور اسلحے سے اس کی مدد کی (طبری ،ج٥، ص ٢٩٢)لہذا حجاج نے قیس بن سعد عجلی کو (جو ان دنو ں حمزہ بن مغیرہ کی پو لس کا سر براہ تھا۔ حمزہ کے عہدہ پرمعین کر کے ہمدان روانہ کیا اور حکم دیا کہ حمزہ بن مغیرہ کو زنجیر و ں سے جکڑ کر قید کر لو۔ اس نے ایسا ہی کیا اور اسے زنجیرمیں جکڑ کر قید کردیا۔ (طبری، ج٥ ،ص ٢٩٤)

٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے : مجھ سے عبد الرحمن بن جندب نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے۔ (طبری، ج٥،ص ٤٠٧) اسی سند کے ساتھ ابو الفرج اصفہانی نے مقاتل الطالبیین میں اس واقعہ کو بیان کیا ہے ۔(ص٧٤) لیکن عقبہ کی جگہ پر عتبہ بن سمعان ذکر کیا ہے۔ شیخ مفید نے بھی اس خبر کو الارشاد، ص ٢٢٦ پر ذکر کیا ہے ۔

۲۶۵

دی کہ عمر بن سعد لوگوں کو حسین کے خلاف جنگ کر نے کے لئے بلا رہا ہے ؛ یہ سن کر میں حیرت زدہ ہو گیا! فوراً اس کے پاس آیا، وہ اس وقت بیٹھا ہوا تھا ااورمجھے دیکھ کر اپنا چہرہ فوراً موڑ لیا۔میں سمجھ گیا کہ اس نے جانے کا مصمم ارادہ کر لیا ہے اور میں فوراً اس کے پاس سے نکل آیا۔ راوی کا بیان ہے : وہاں سے عمر بن سعد ، ابن زیاد کے پاس آیا اور کہا : اللہ آپ کو سلامت رکھے !آپ نے ایک کام میرے سپرد کیا ہے اور اس کا عہد نامہ بھی میرے لئے لکھ دیا ہے۔ لوگوں نے اس بات کو سن بھی لیا ہے (کہ میں ''ری'' جا رہا ہوں) تو اب اگر آپ بہتر سمجھیں تو ہمارے لئے اسی حکم کو نافذ رکھیں اورحسین کی طرف اس لشکر میں سے کوفہ کے کسی سر برآوردہ شخص کو بھیج دیں کیونکہ میں فنون جنگ کے لحاظ سے ان سے زیادہ ماہر اور تجربہ کار نہیں ہوں ۔اس کے بعد پسر سعد نے چند لوگوں کے نام ابن زیاد کی خدمت میں پیش کئے تو ابن زیاد نے اس سے کہا : تم مجھے اشراف کوفہ کے سلسلے میں سبق مت سکھاؤ اور حسین کی طرف کس کو روانہ کیا جائے اس سلسلہ میں میں نے تم سے کوئی مشورہ نہیں چاہا ہے۔ اگر تم چاہتے ہو تو ہمارے لشکر کے ساتھ روانہ ہو جاؤورنہ ہمارے عہد نامہ کو ہمیں لوٹا دو ! جب پسر سعد نے دیکھا کہ ابن زیاد ہٹ دھرمی پر آچکا ہے تو اس نے کہا : ٹھیک ہے میں ر وانہ ہورہاہوں ۔ یسار جھنی کا بیان ہے : وہاں سے نکل کر پسر سعد چار ہزار(١) فوج کے ساتھ حسین کی طرف روانہ ہوا اور حسین کے نینوا وارد ہونے کے دوسرے دن کربلا میں وارد ہو گیا۔ راوی کا بیان ہے

____________________

١۔ یہی روایت'' الارشاد'' کے ص ٢٢٧ پر بھی موجودہے نیز مقتل محمد بن ابی طالب سے ایک روایت منقول ہے جس کا خلا صہ یہ ہے : پسر سعد ٩ ہزار کے لشکر کے ہمراہ امام حسین علیہ السلام کی طرف روانہ ہوا ۔ اس کے بعد یزید بن رکاب کلبی ٢ ہزار کی فوج کے ہمراہ ، حصین بن تمیم سکونی ٤ ہزارکی فوج ، فلان مازنی ٣ ہزارکی فوج اور نصر بن فلان ٢ہزار کے لشکر کے ہمراہ حسین کی طرف روانہ ہوئے۔ اس طرح سوار اور پیدل ملا کر ٢٠ ہزار کا لشکر کربلا میں پہنچ گیا۔ شافعی نے اپنی کتاب مطالب السئول میں ذکر کیا ہے کہ وہ ٢٢ ہزار افراد تھے اور شیخ صدوق نے اپنی امالی میں امام جعفر صادق کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ وہ ٣٠ ہزار افراد تھے۔(الامالی، ص ١٠١، طبع بیروت) سبط بن جوزی نے محمد بن سیرین سے روایت نقل کی ہے کہ وہ کہا کرتے تھے : اس پسر سعد کے سلسلے میں علی بن ابی طالب علیہ السلام کی کرامت آشکار ہوگئی کیونکہ آپ کی عمر بن سعد سے اس وقت ملا قات ہوئی جب وہ جوان تھااور آپ نے اس سے فر مایا : ''ویحک یابن سعد کیف بک اِذااقمت یوما مقاماً تخیر فیہ بین الجنة والنار فتختار النار'' (تذکرہ ،ص٢٤٧،ط نجف) اے پسر سعد تیرا حال اس وقت کیا ہوگا جب ایک دن تو ایسی جگہ کھڑا ہوگا جہاں تجھے جنت و جہنم کے درمیان مختار بنایا جائے گااور تو جہنم کو چن لے گا ۔

۲۶۶

کہ وہاں پہنچ کر عمر بن سعد نے عزرہ بن قیس احمسی(١) کو حسین (علیہ السلام) کی طرف روانہ کیا اور کہا : ان کے پاس جاؤ اور پوچھو کہ کون سی چیز ان کو یہاں لائی ہے اور وہ کیا چاہتے ہیں ؟ یہ عزرہ ان لوگوں میں سے ایک ہے جنہوں نے حسین علیہ السلام کو خط لکھا تھا لہٰذا اسے شرم آئی کہ وہ یہ پیغام لے کر وہاں جائے ؛ جب اس نے انکار کردیا تو پسر سعد نے ان تمام سربر آوردہ افراد کے سامنے یہ پیش کش رکھی جن لوگوں نے حسین علیہ السلام کو خط لکھا تھالیکن ان تمام لوگوں نے جانے سے انکار کردیا اور اس بات کو پسندنہیں کیا یہاں تک کہ ان کے درمیان ایک شخص کثیر بن عبداللہ شعبی اٹھا (جو بڑا بے باک رزم آور تھا اور اس کے چہرے پر کوئی تاثّر نہیں تھا) اور کہنے لگا : میں ان کے پاس جاؤں گا خدا کی قسم اگر میں چاہو ں تو انھیں دھوکہ سے قتل بھی کرسکتا ہوں ۔(٢) عمر بن سعد نے کہا : میں یہ نہیں چاہتا کہ تم ان کو قتل کرو ،بس تم جاؤ اور یہ پوچھوکہ وہ کس لئے آئے ہیں ؟

راوی کا بیان ہے : وہ اٹھا اور حسین کی طرف آیا۔ جیسے ہی ابو ثمامہ صا ئدی(٣) نے اسے دیکھا امام حسین علیہ السلام سے عرض کیا : اے ابو عبداللہ خدا آپ کو سلامت رکھے! آپ کی طرف وہ شخص آرہا ہے جو روئے زمین پر شریرترین اور بد ترین شخص ہے، جو خون بہانے اور دھوکے سے قتل کرنے میں بڑا بے باک ہے؛ یہ کہہ کر ابو ثمامہ اس کی طرف بڑھے اور فرمایا: اپنی تلوارخود سے الگ کرو ! اس نے کہا : نہیں خدا کی قسم یہ میری کرامت کے خلاف ہے۔ میں تو ایک پیغام رساں ہوں ،اگر تم لوگوں نے چاہا تو میں اس پیغام کو تم تک پہنچادوں گا جو تمہارے لئے لے کر آیا ہوں اور اگرانکا رکیا تو واپس چلاجاؤں گا۔

____________________

١۔ شیخ مفید نے الارشاد میں عروہ بن قیس لکھا ہے۔ اس شخص کے شرح احوال اس سے پہلے گذر چکے جہا ں ان لوگو ں کا تذکرہ ہوا ہے جنہو ں نے امام حسین علیہ السلام کو خط لکھا تھا ۔ یہ کوفہ کا ایک منافق ہے جو اموی مسلک تھا ۔

٢۔ یہ شخص امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے وقت وہا ں موجود تھا ۔ زہیر بن قین کے خطبہ کی روایت بھی اسی سے منقول ہے۔ (طبری ،ج٥،ص٤٢٦) یہ وہی شخص ہے جو مہاجر بن اوس کے ہمراہ آپ کے قتل میں شریک تھا۔ (طبری ، ج٥، ص ٤٤١)اور یہ وہی شخص ہے جس نے ضحاک بن عبداللہ مشرقی ہمدانی کا پیچھا کیا تا کہ اسے قتل کردے لیکن جب اسے پہچان لیا کہ یہ ہمدان سے متعلق ہے تو کہا : یہ ہمارا چچا زادبھائی ہے ،یہ کہہ کر اس سے دست بردار ہوگیا ۔(طبری، ج٥، ص ٤٤٥)

٣۔ ان کے شرح احوال اس سے قبل گذر چکے ہیں ۔

۲۶۷

ابو ثمامہ : ٹھیک ہے پھر میں تمہارے قبضۂ شمشیر کو اپنے ہاتھوں میں لے لوں گا اس کے بعد تم جو کچھ بیان کرنا چاہتے ہو بیان کرلینا ۔

کثیر بن عبداللہ : نہیں خدا کی قسم تم اسے چھوبھی نہیں سکتے ۔

ابو ثمامہ صائدی : تم جو پیغام لے کر آئے ہو اس سے مجھ کو خبر دار کردو ،میں تمہار ی طرف سے امام تک پہنچادوں گا اورمیں تم کو اجا زت نہیں دے سکتا کہ آنحضرت کے قریب جاؤ کیونکہ تم فاجرو دھوکہ باز ہو ۔کثیر بن عبداللہ نے ابو ثمامہ کی بات قبول کرنے سے انکار کردیا اور عمر بن سعد کی طرف روانہ ہوگیا ، وہاں جا کراس نے عمر بن سعد کو ساری خبر سے مطلع کردیا ۔اس کے بعد پسر سعد نے قرہ بن قیس حنظلی کو بلایا اور اس سے کہا : وائے ہو تجھ پر اے قرّہ ! جا حسین سے ملاقات کراور ان سے پوچھ کہ وہ کس لئے آئے ہیں اور ان کا ارادہ کیا ہے ؟ یہ سن کر قرّہ بن قیس آپ کے پاس آیا۔ جیسے ہی حسین نے اسے سامنے دیکھااپنے اصحاب سے دریافت کیاکہ کیاتم لوگ اسے پہچانتے ہو ؟ حبیب بن مظاہر(١) نے کہا : ہاں ! یہ قبیلۂ حنظلہ تمیمی سے تعلق رکھتاہے اور ہماری بہن کا لڑکا ہے۔ ہم تو اسے صحیح فکرو عقیدہ کا سمجھتے تھے اور میں نہیں سمجھ پارہاہوں کہ یہ یہاں کیسے موجود ہے۔(٢) قرّہ بن قیس نزدیک آیا ،امام حسین علیہ السلام کوسلام کیا اور

____________________

١۔ کربلا کی خبر میں یہا ں حبیب بن مظاہر کا پہلی بار تذکرہ ملتا ہے اور راوی نے یہ ذکر نہیں کیا ہے کہ آپ یہا ں کس طرح پہنچے۔ آپ کے احوال گذرچکے ہیں کہ آپ ان شیعی زعماء میں شمار ہوتے ہیں جنہو ں نے کوفہ سے امام علیہ السلام کو خط لکھا تھا ۔ عنقریب آپ کی شہادت کے حالات بیان کرتے وقت آپ کی زندگی کے بعض رخ پیش کئے جائی ں گے ۔

٢۔ یہ حر بن یزیدریاحی کے لشکر میں تھا ۔عدی بن حرملہ اسدی اس روایت کونقل کرتا ہے کہ یہ کہا کرتا تھا : خدا کی قسم اگر حر نے مجھے اس بات پر مطلع کیا ہوتا جس کا ان کے دل میں ارادہ تھا تو میں بھی ان کے ہمراہ حسین علیہ السلام کی طرف نکل جاتا۔ (طبری ، ج٥،ص٤٢٧) اسی شخص سے ابو زہیر عبسی اس خبر کو نقل کرتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی مخدرات کو امام حسین علیہ السلام اور ان کے اہلبیت کی قتل گاہ کی طرف سے لے جایا گیا اور وہیں پر زینب نے اپنے بھائی حسین بن علی علیھما السلام پر مرثیہ پڑھا۔ (طبری ،ج٥، ص ٤٥٦) حبیب بن مظاہر نے اسے امام حسین علیہ السلام کی مدد کے لئے بلایا اور کہا کہ ظالمین کی طرف نہ جاؤ تو قرّہ نے ان سے کہا : ابھی میں اپنے امیر کی طرف پلٹ رہاہو ں اور ان کے پیغام کا جواب دے کر اپنی رائے بیان کردو ں گا لیکن وہ عمر بن سعد کی طرف جا کر وہا ں سے پلٹ کر حسین کی طرف نہیں آیایہا ں تک کہ آپ شہید ہوگئے۔ (طبری ،ج٥، ص٤١١؛ ارشاد ،ص٢٢٨)

۲۶۸

عمر سعد کا پیغام آپ تک پہنچادیا تو حسین علیہ السلام نے فرمایا:''کتب الیّ أهل مصرکم هٰذا : أن أقدم ، فأمَّااذکرهون فأنا أنصرف عنهم '' تمہارے شہر کے لوگوں نے مجھے یہ خط لکھا کہ میں چلاآؤں ، اب اگر وہ لوگ ناپسند کرتے ہیں تو میں ان کے درمیان سے چلاجاؤں گا۔

راوی کہتا ہے کہ نامہ بر عمر بن سعد کی طرف پلٹ گیا اور ساری خبر اس کے گوش گزار کردی۔ پسر سعدنے اس سے کہا : میں یہ امید کرتا ہوں کہ خداہمیں ان سے جنگ وقتال کرنے سے عافیت میں رکھے اور اسی مطلب کو اس نے لکھ کر ابن زیاد کے پاس روانہ کردیا۔ ابو مخنف کے بجائے دیگر راویوں کی روایت یہاں پر آکر ختم ہوجاتی ہے ۔

ابن زیاد کے نام عمر بن سعد کا خط

عمر بن سعد کا خط عبید اللہ بن زیاد کو پہنچا جس میں مر قوم تھا :

''بسم اللّٰه الر حمٰن الر حیم أما بعد فانّی حیث نزلت بالحسین بعثت الیه رسولی ، فسأ لته : عمّا أقد مه ، وما ذایطلب ویسأ ل ؟ فقال : کتب الّ أهل هٰذه البلاد وأتتن رسلهم فسألون القدوم ففعلت ، فأمَّا اِذ کر هون فبدا لهم غیر ما أتتن رسلهم فأنا منصرف عنهم ''

بسم اللہ الرحمن الر حیم ، اما بعد، میں جیسے ہی حسین کے نزدیک پہنچا میں نے ان کی طرف اپنے ایک پیغام رساں کو بھیجا اور ان سے پوچھا کہ وہ یہاں کس لئے آئے ہیں اور کیا چاہتے ہیں ؟ انھوں نے جواب دیا کہ اس شہر کے لوگوں نے مجھے خط لکھا تھا اور ان کے نامہ بر میرے پاس آئے تھے انھوں نے مجھ سے در خواست کی تھی کہ میں چلا آؤں تو میں چلا آیا لیکن اب اگر انھیں میرا آنانا پسند ہے اور نامہ بروں کو بھیج کر انھوں نے جومجھے بلا یا تھا اب اگر اس سے پلٹ گئے ہیں تو میں ان کے درمیان سے چلا جاتا ہوں ۔

جب ابن زیاد تک یہ خط پہنچاتو اس نے اسے پڑھنے کے بعد یہ شعر پڑھا۔

الا ن اِذ علقت مخا لبنا به

یرجو النجاة ولات حین مناص!

جب ہمارے چنگل میں پھنس گیا ہے تو نجات کی امید کرتا ہے لیکن اب کوئی راہ فرار نہیں ہے۔

۲۶۹

ابن زیاد کا جواب

خط پڑھنے کے بعد ابن زیاد نے عمر بن سعد کے نام جواب کے طور پرخط لکھا :

بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم ، اما بعد ، فقد بلغن کتا بک وفهمت ماذکرت ، فأعرض علی الحسین أن یبایع لیزید بن معاویه هو وجمیع أصحابه ، فاذافعل ذالک رأینا رأيَنا، والسلام ۔

بسم اللہ الر حمن الر حیم ، اما بعد، تمہارا خط مجھے موصول ہوا اور تم نے جو ذکر کیا ہے اسے میں نے سمجھ لیا اب حسین سے کہو کہ وہ اور ان کے تما م اصحاب یزید بن معاویہ کی بیعت کر لیں ۔ اگر انھوں نے ایسا کر لیا تو پھر ان کے سلسلے میں ہم تم کو اپنا نظریہ بتائیں گے ۔ والسلام

جب عمر بن سعد کے پاس وہ خط آیا تو اس نے کہا : میں اسی گمان میں تھا کہ ابن زیاد عافیت کو قبول نہیں کرے گا۔(١)

پسر سعد کی امام علیہ السلام سے ملاقات

جب بات یہاں تک پہنچ گئی تو حسین علیہ السلام نے عمر بن سعد کی جانب عمروبن قرظة بن کعب انصاری(٢) کو بھیجا کہ وہ آپ سے دونوں لشکروں کے درمیان ملا قات کرے۔

وقت مقررہ پر عمر بن سعد اپنے تقریبا ً ٢٠ سواروں کے ہمراہ باہر نکلا تو امام حسین علیہ السلام بھی اسی انداز میں نکلے لیکن جب وہ لوگ ملے تو امام حسین علیہ السلام نے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ وہ کنارے

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے نضربن صالح بن حبیب بن زہیر عبسی نے حسان بن فائد بن بکیر عبسی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا : میں گواہی دیتا ہو ں کے عمر سعد کا خط آیا تھا۔(طبری، ج٥، ص ٤١١و ارشاد ،ص٢٢٨)

٢۔عمر و بن قرظة حسین علیہ السلام کے ساتھ تھے لیکن انکا بھائی علی بن قرظہ ،عمربن سعد کے ہمراہ تھا ۔جب اس کے بھائی عمرو شہید ہوگئے تو اس نے اصحاب حسین علیہ السلام پر حملہ کر دیا تاکہ اپنے بھائی کا انتقام لے سکے۔نافع بن ہلال مرادی نے اس پر نیزہ سے حملہ کیا اور اس کو زمین پر گرادیا ۔دوسری طرف نافع پر اس کے ساتھیو ں نے حملہ کیا ۔ اس کے بعد اس کا علاج کیا گیاتو وہ ٹھیک ہوگیا۔ (طبری، ج٥، ص ٤٣٤)

۲۷۰

ہوجائیں اور عمربن سعد نے بھی اپنے سپاہیوں کو یہی حکم دیا پھر دونوں کے درمیان گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ گفتگو بڑی طولانی تھی یہاں تک کہ رات کا کچھ حصہ گذرگیا۔ اس کے بعد دونوں اپنے اصحاب کے ہمراہ اپنے لشکر کی طرف واپس لوٹ گئے اس گفتگو کے درمیان جیسا کہ لوگ گما ن کرتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام نے عمرسعد سے کہا کہ آؤ میرے ساتھ یزید بن معاویہ کے پاس چلو اور ہم لوگ دونوں لشکروں کو چھوڑ دیتے ہیں ۔ عمر سعد نے کہا: ایسی صورت میں تو میرا گھر منہدم کردیا جائے گا ۔حسین نے کہا : میں تمہارا گھر بنوا دوں گا ۔ عمر سعد نے کہا : میرے مال ومنال اور باغ وبوستان لوٹ لئے جائیں گے، حسین نے کہا: میں تم کو حجاز میں اپنے مال میں سے اس سے زیادہ دے دوں گا لیکن عمر سعد نے اسے قبول نہیں کیا اور انکار کردیا ۔

اس طرح لوگوں نے آپس میں گفتگو کی اور یہ بات پھیل گئی جبکہ ان میں سے کسی نے بھی کچھ نہیں سنا تھا اور انھیں کسی بات کا علم نہیں تھا۔(١) اسی طرح اپنے وہم وگمان کے مطابق لوگ یہ کہنے لگے کہ حسین نے کہا تھا کہ تم لوگ میری تین باتوں میں سے کوئی ایک بات قبول کرلو:

١۔ میں اسی جگہ پلٹ جاؤں جہاں سے آیا ہوں ۔

٢۔ میں یزید بن معاویہ کے ہاتھ میں ہاتھ دے دوں تو وہ میرے اور اپنے درمیان اپنی رائے کا اظہار خیال کرے۔

٣۔ یا تم لوگ مجھے کسی بھی اسلامی حدود میں بھیج دو تاکہ میں انھیں کا ایک فرد ہو جاؤں اور میرے لئے و ہ تما م چیزیں ہوں جو ان لوگوں کے لئے ہیں ۔(٢)

____________________

١۔ ابو جناب نے ہانی بن ثبیت حضر می کے حوالے سے مجھ سے روایت کی ہے اور وہ عمربن سعد کے ہمراہ امام حسین علیہ السلام کے قتل کے وقت موجود تھا۔ اسی خبر سے یہ ظاہر ہو تا ہے کہ وہ شخص ان ہی ٢٠ سوارو ں میں تھا جو رات کے وقت ملا قات کے ہنگام پسرسعدکے ہمراہ تھے۔ وہ کہتا ہے ہم نے اس گفتگو سے اندازہ لگایا ہے کیونکہ ہم ان دونو ں کی آواز ی ں نہیں سن رہے تھے ۔(طبری ،ج٥،ص ٤١٣، الارشاد ،ص ٢٢٩)سبط بن جوزی کا بیان ہے : یہ عمروہی ہے جس کی طرف پیغام رسا ں کوبھیجاگیا تھا کہ وہ اور حسین علیہ السلام یکجا ہو ں تو عمر بن سعد اور امام حسین علیہ السلام تنہائی میں ایک جگہ جمع ہوئے۔ (تذ کرہ ،ص٢٤٨،ط نجف)

٢۔ یہ وہ مطلب جس پر محدثین کا ایک گروہ متفق ہے اور ہم سے مجالد بن سعید اور صقعب بن زہیر ازدی اور ان کے علاوہ دوسرے لوگو ں نے یہ روایت نقل کی ہے۔(طبری، ج٥، ص٤١٣، ابو الفرج ،ص ٧٥،ط نجف)

۲۷۱

عقبہ بن سمعان کا اس سلسلے میں بیان ہے کہ میں حسین کے ساتھ تھا ؛آپ کے ہمراہ میں مدینہ سے مکہ اور مکہ سے عراق آیا اور میں آپ سے پل بھر کے لئے بھی جدا نہیں ہو ایہاں تک کہ آپ شہید کر دیئے گئے۔اس کا کہنا ہے کہ خدا کی قسم مدینہ، مکہ ،دوران سفر اور عراق میں حتیٰ کہ شہادت کے وقت تک امام کا کوئی خطبہ اور کلام ایسا نہیں تھا جسے میں نے نہ سنا ہواور خدا کی قسم لوگ جو ذکر کرتے ہیں اورگمان کر تے ہیں کہ آپ نے یہ کہا کہ میں یزید بن معاویہ کے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ دیدوں گایہ سر اسر غلط ہے اورآپ نے یہ بھی نہیں کہا کہ ہمیں کسی اسلامی حدود میں بھیج دیا جائے، ہاں آپ نے یہ فرمایا تھا : ''دعونی فلأذهب فی هٰذه الارض العریضة حتی ننظر ما یصیر أمر الناس'' (١) مجھے چھوڑدوتاکہ میں اس وسیع وعریض زمین پر کہیں بھی چلاجاؤں تاکہ دیکھو ں کہ لوگوں کا انجام کار کہاں پہنچتا ہے ۔

ابن زیاد کے نام عمر بن سعد کا دوسرا خط

امام علیہ السلام سے مخفیانہ گفتگوکے بعد عمر سعد نے ابن زیاد کے نام ایک دوسراخط لکھا:

''اما بعد ، فان اﷲقدأطفاالنائرة ، وجمع الکلمةو أصلح أمرالا مة، هٰذا حسین قدأعطان ان یرجع الی المکان الذی منه أتی أوأن نسيّره الی أیّ ثغر من ثغور المسلمین شئنا فیکون رجلا من المسلمین له مالهم وعلیه ما علیهم أوأن یات یزید أمیر المومنین فیضع یده ف یده فیریٰ فیما بینه وبین رأیه ،وف هٰذالکم رضاً وللأمةصلاح''

اما بعد، اﷲ نے فتنہ کی آگ کو بجھا دیا، ہماہنگی واتحاد کو ایجاد کردیا ہے اور امت کے امور کو صلح و خیر کی طرف موڑدیاہے۔ یہ حسین ہیں جو مجھے وعدہ دے رہے ہیں کہ یاوہ اسی جگہ پلٹ جائیں گے جہاں سے آئے ہیں یاہم انھیں جہاں مناسب سمجھیں کسی اسلامی حدود میں روانہ کردیں کہ وہ انھیں کا جز قرار پائیں تا کہ جو ان لوگوں کے لئے ہو و ہی ان کے لئے ہو اور جوان لوگوں کے ضرر میں ہو وہی ان کے ضرر

____________________

١ ۔اس مطلب کو ابو مخنف نے عبد الرحمن بن جندب کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے عبد الرحمن بن جندب نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے نقل کیا ہے۔(طبری ،ج٥، ص ٤١٣، الخواص ،ص ٢٤٨)

۲۷۲

میں ہو یا یہ کہ وہ یزید امیر المومنین کے پاس جاکر اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دیدیں اور وہ ان کے اور اپنے درمیان جو فیصلہ کرنا چاہیں کریں ، یہ بات ایسی ہے جس میں آپ کی رضایت اور امت کی خیر و صلاح ہے ۔

جب عبیداللہ بن زیا د نے اس خط کوپڑھا تووہ بولا : یہ اپنے امیر کے لئے ایک خیر خواہ شخص کا خط ہے جو اپنی قوم پر شفیق ہے؛ ہاں ہم نے اسے قبول کرلیا ۔ اس وقت شمر بن ذی الجوشن(١) وہیں پرموجود تھا۔وہ فوراً کھڑا ہو ا اور بولا : کیا تم اس شخص سے اس بات کو قبو ل کرلوگے !جب کہ وہ تمہاری زمین پر آچکاہے اور بالکل تمہارے پہلو میں ہے ؛ خدا کی قسم اگروہ تمہارے شہر وحکومت سے باہرنکل گیا اور تمہارے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دیا توقدرت و اقتدارا ورشان و شوکت اس کے ہاتھ میں ہوگی اور تم ناتواں و عاجزہوجاؤگے۔میرا نظریہ تو یہ ہے تم یہ وعدہ نہ دو کیونکہ یہ باعث توہین ہے۔ہاں اگروہ اوراس کے اصحاب تمہارے حکم(٢) کے تابع ہوجائیں تو اب اگر تم چاہو ان کوسزا دو کیونکہ وہ تمہارے ہاتھ میں ہے اور اگرتم معاف کرناچاہو؛ تو یہ بھی تمہارے دست قدرت میں ہے۔امیر ! مجھے خبر ملی ہے کہ حسین اور عمر سعد دونوں اپنے اپنے لشکر کے درمیان بیٹھ کر کافی رات تک گفتگو کیاکرتے ہیں ۔

یہ سن کر ابن زیاد نے کہا : تمہاری رائے اچھی اور تمہارا نظریہ صحیح ہے۔(٣)

____________________

١۔ اس کے تفصیلی حالات گذر چکے ہیں کہ اشراف کوفہ میں سے ایک یہ بھی ابن زیاد کے ہمراہ قصر میں تھا ۔

٢۔سبط بن جوزی نے ص ٢٤٨ پراس واقعہ کو بطور مختصر لکھاہے اور اضافہ کیاہے کہ اس نے اپنے جوابی خط کے نیچے یہ شعرلکھا :

الآ ن حین تعلقته حبالنا

یرجوا لنجاةولات حین مناص

اب جب وہ ہمارے پھندے میں آچکاہے تو نجات کی امید رکھتا ہے اب کوئی راہ فرار نہیں ہے۔

٣۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے مجالد بن سعید ہمدانی اور صقعب بن زہیر نے یہ روایت نقل کی ہے ۔ (طبری ،ج٥،ص٤١٤ ، ارشاد ، ص٢٢٩)

۲۷۳

ابن زیاد کا پسر سعد کے نام دوسرا جواب

اس کے بعدعبیداللہ بن زیاد نے عمر بن سعد کے نام خط لکھا ۔

''امابعد ، فان لم أبعثک الی حسین لتکف عنه ، ولتطاوله ولالتمنیه السلامة والبقاء ،ولالتقعد له عند شافعاً... أنظر فان نزل حسین و أصحابه علی الحکم واستسلموا ، فابعث بهم الّسلماًوان أبوا فا زحف الیهم حتی تقتلهم و تمثل بهم فَاِنهم لذالک مستحقون ! فان قتل حسین فأوطی الخیل صدره وظهره ! فانه عاق شاق قاطع ظلوم ولیس دهر فی هٰذا أن یضرّ بعد الموت شیئاً ،ولکن علّ قول لوقدقتلته فعلت هٰذابه ! ان أنت مضیت لا مرنافیه جزیناک جزاء السامع المطیع ، وان أبیت فاعتزل عملنا وجند نا، و خل ّ بین شمر بن ذی الجو شن و بین العسکر،فانّاقدأمرنابأمرنا والسلام ''(١)

امابعد ، میں نے تم کو اس لئے نہیں بھیجا ہے کہ تم ان سے دستبردار ہوجاؤ اور نہ اس لئے بھیجا ہے کہ مسئلہ کو پھیلا کرطولانی بنادو اور نہ ہی اس لئے کہ ان کی سلامتی و بقاکے خواہاں رہو اور نہ ہی اس لئے کہ وہاں بیٹھ کر مجھ سے حسین کے لئے شفاعت کی درخواست کرو دیکھو ! اگر حسین اور ان کے اصحاب نے ہمارے حکم پر گردن جھکادی اورسر تسلیم خم کر دیا تو سلامتی کے ساتھ انھیں میرے پاس بھیج دو اور اگر وہ انکار کریں تو ان پر حملہ کرکے انھیں قتل کردو اور ان کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے اور مثلہ کردو کیونکہ یہ لوگ اسی کے حق دار ہیں ۔

قتل حسین کے بعد ان کی پشت اور ان کے سینہ کو گھوڑوں سے پامال کر دو کیونکہ انہوں نے دوری اختیار کی ہے وہ ناسپاس ہیں ۔انہوں نے اختلاف پھیلایاہے، وہ حق ناشناس اور ظلم کے خو گرہیں ۔ میری یہ تمنا اور آرزو نہیں ہے کہ موت کے بعد انہیں کوئی نقصان پہنچایا جائے لیکن میں نے عہد کیا ہے کہ مرنے کے بعد ان کے ساتھ ایسا ہی کروں گا لہذا اب اگر تم نے ہمارے حکم پر عمل کیا تو ہم تم کو وہی جزا و

____________________

١۔ابو مخنف کا کہنا ہے کہ مجھ سے ابو جناب کلبی نے یہ روایت بیان کی ہے۔(طبری ، ج ٥ ، ص ٤١٥ ارشاد ، ص ٢٢٩و الخواص، ٨ ٢٤)

۲۷۴

پاداش دیں گے جو ایک مطیع وفرمانبردار کی جزاہوتی ہے اوراگر تم نے انکار کیا تو تم ہمارے عہدے اور فوج سے کنارہ کش ہوجاؤ اور فوج کو شمر بن ذی الجوشن کے حوالے کردو کہ ہمیں جو فرمان دینا تھا وہ ہم اسے دے چکے ہیں ۔ والسلام

خط لکھنے کے بعد عبید اللہ بن زیاد نے شمر بن الجوشن کو بلا یا اور اس سے کہا : عمر بن سعد کے پاس یہ خط لے کر جاؤ ۔ میں نے اسے لکھا ہے کہ حسین اور ان کے اصحاب سے کہے کہ وہ میرے فرمان پر تسلیم محض ہو جائیں ! اگر ان لوگو ں نے ایسا کیا تو فوراً ان لوگوں کو میرے پاس صحیح وسالم روانہ کردو اور اگر انکار کریں تو ان سے نبردآزما ہوجاؤ ۔اگر عمر بن سعد نے ایسا کیا تو تم اس کی بات سن کر اس کی اطاعت کر نا اور اگر اس نے انکار کیا تو تم ان لوگوں سے جنگ کرنا اور ایسے میں تم اس لشکر کے امیر ہوگے اور اس پر حملہ کر کے اس کی گر دن مار دینا اور اس کا (یعنی پسر سعد) سر میرے پاس بھیج دینا ۔(١) جب شمر نے وہ خط اپنے ہاتھوں میں لیا اور اس کے ساتھ عبد اللہ بن ابی المحل بن حزام (کلابی) جانے کے لئے اٹھاتو عبد اللہ نے کہا: خدا امیر کو سلامت رکھے حقیقت یہ ہے کہ عباس ، عبد اللہ ، جعفر اور عثمان یہ سب ہماری بہن ام البنین کے صاجزادے ہیں جو حسین کے ہمراہ ہیں ۔ اگر آپ بہتر سمجھیں تو ان کے لئے ایک امان نامہ لکھ دیں ۔

ابن زیاد نے جواب دیا : ہاں سر آنکھوں پر، اس کے بعد اپنے کاتب کو بلا یا اور اس نے ان لوگوں کے لئے امان نامہ لکھ دیا ۔ عبد اللہ بن ابی المحل بن حزام کلا بی نے اس امان نامہ کو اپنے غلام کْزمان کے ہمراہ روانہ کیا ۔

خط کے ہمراہ شمر کا کر بلا میں ورود

عبید اللہ بن زیاد کاخط لے کر شمر بن ذی الجوشن عمر بن سعد کے پاس پہنچا جب وہ اس کے قریب آیا اور خط پڑھ کر اس کو سنایاتو خط سن کر عمر بن سعد نے اس سے کہا :

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری، ج٥ ،ص ٤١٤و ارشاد ،ص ٩ ٩٢)

۲۷۵

''ویلک مالک ! لا قرّ ب اللّٰه دارک ، وقبّح اللّٰه ماقدّ مت به علّ ! واللّٰه لَاَظنک أنت ثنیته أن یقبل ماکتبت به الیه أفسدت علینا أمراًکنّارجوناأن یصلح ، لایستسلم واللّٰه حسین أن نفساً ابيّة (١) لبین جنبیه ''

وائے ہو تجھ پر تو نے یہ کیا کیا !خدا تجھے غارت کرے اللہ تیرا برا کرے! تو میرے پاس کیا لے کر آیا ہے۔ خدا کی قسم مجھے یقین ہے کہ تو نے چاپلوسی کے ذریعہ اسے میری تحریر پر عمل کرنے سے بازر کھا ہو گا ۔تو نے کام خراب کر دیا ۔ہم تو اس امید میں تھے کہ صلح ہوجائے گی۔ خدا کی قسم حسین کبھی بھی خود کو ابن زیاد کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑ یں گے کیونکہ یقینا حسین کے سینے میں ایک غیور دل ہے۔

شمر کا دل سیاہ ہو چکا تھا اس کو ان سب چیزوں سے کیا مطلب تھا۔ اس نے فوراً پوچھا : تم اتنا بتاؤ کہ تم کیا کر نا چاہتے ہو ؟ کیا تم امیر کے فرمان کو اجراء کروگے اور ان کے دشمن کو قتل کروگے ؟ اگر نہیں تو ہمارے اور اس لشکر کے درمیان سے ہٹ جاؤ ۔

عمر بن سعد : نہیں اور نہ ہی تیرے لئے کوئی کرامت ہے ۔ میں خود ہی اس عہدہ پر باقی رہوں گا۔ تو جا اور پیدلوں کی فوج کی سر براہی انجام دے ۔

جناب عباس اور ان کے بھائیوں کے نام امان نامہ

ایسے بحرانی حالات میں شمر اصحاب امام حسین علیہ السلام کے پاس آیا اور بولا : ہماری بہن کے بیٹے کہاں ہیں ؟ تو امیر المومنین علی علیہ السلام کے فرزند عباس ، عبد اللہ جعفر اور عثمان علیہم السلام اس کے پاس آئے اور فرمایا :''مالک وما ترید ؟ ''کیا کام ہے اور تو کیا چاہتا ہے ؟

شمرنے کہا : اے میری بہن کے صاحبزادو تم سب کے سب امان میں ہو۔

یہ سن کر ان غیر تمند جوانوں نے جواب دیا :'' لعنک اللّہ ولعن أمانک ]لئن کنت خالنا [ أتوْ مننا وابن رسول اللّٰہ لا أمان لہ ! ''

____________________

١۔ شیخ مفید نے ارشاد میں ص٢١٣ یہ جملہ اس طرح لکھا ہے:'' ان نفس أبیه لبین حبنبیه'' یقیناً حسین کے سینے میں ان کے باپ کا دل ہے۔

۲۷۶

خداتجھ پر لعنت کرے اور تیرے امان پر بھی لعنت ہو (اگر تو ہمارا ماموں ہے تو) کیا تو ہمیں امان دے رہا ہے لیکن فرزند رسو لخدا کے لئے کوئی امان نہیں ہے!

اور جب عبد اللہ بن ابی المحل بن حزام کلا بی کا غلام کْز مان امان نامہ لے کر کربلا پہنچا اور ان غیرتمندوں کے پاس جا کر انھیں آوازدی اور کہا : یہ امان نامہ ہے جو تمہارے ماموں نے تمہیں بھیجا ہے تو انھوں نے کہا :'' أقریٔ خالنا السلام وقل له : أن لا حاجة لنا فی أما نکم، أمان اللّٰه خیر من أمان بن سميّة ! ''(١) ہمارے ماموں سے ہمارا سلام کہنا اور ان سے کہد ینا کہ ہم کو تم لوگوں کے امان کی کوئی حاجت نہیں ہے ، اللہ کی امان فرزندسمیہ کی امان سے زیادہ بہتر ہے ۔

امام علیہ السلام اور ان کے اصحاب پر پانی کی بندش

عبید اللہ بن زیاد کا ایک اورخط عمر بن سعد تک پہنچا :

اما بعد ، حسین اور ان کے اصحاب اور پانی کے درمیان اس طرح حائل ہو جاؤ کہ ایک قطرہ بھی ان تک نہ پہونچ سکے ؛ٹھیک اسی طرح جس طرح تقی وزکی و مظلوم امیر المومنین عثمان بن عفان کے ساتھ کیا گیا تھا ۔

راوی کہتا ہے کہ اس خط کا آنا تھا کہا عمر سعد نے فوراً عمرو بن حجاج(٢) کو پانچ سو سواروں کے ہمراہ فرات کی طرف روانہ کر دیا۔ وہ سب کے سب پانی پر پہنچ کرحسین اور ان کے اصحاب اور پانی کے درمیان حائل ہو گئے تا کہ کو ئی ایک قطرہ بھی پانی نہ پی سکے۔ یہ امام حسین کی شہادت سے ٣ دن پہلے کا واقعہ ہے ۔

راوی کہتا ہے کہ جب حسین اور ان کے اصحاب کی پیاس میں شدت واقع ہوئی تو آپ نے اپنے بھائی عباس بن علی بن ابی طالب (علیہم السلام) کو بلا یا اور انہیں تیس(٣٠) سوار اور بیس(٢٠) پیدل افراد کے ہمراہ فرات کی طرف روانہ کیا اور ان کے ساتھ بیس (٢٠) مشکیں بھی بھیجیں ۔ وہ لوگ گئے یہاں

____________________

١۔الا رشاد ،ص٢٣٠،التذکرہ ،ص ٢٤٩

٢۔ اس کے حالات بھی گذر چکے ہیں کہ یہ بھی انہیں اشراف میں سے ہے جو ابن زیاد کے ساتھ قصر میں موجود تھے۔

۲۷۷

تک کہ پانی کے قریب پہنچے۔ن لوگوں کے آگے پر چم لئے نافع بن ہلال جملی(١) رواں دواں تھے۔ یہ دیکھ کر عمر وبن حجاج زبیدی نے کہا :

کون ہے ؟ جواب ملا : نافع بن ہلال

عمر وبن حجاج نے سوا ل کیا : کس لئے آئے ہو ؟

نافع بن ہلال نے جواب دیا : ہم اس پانی میں سے کچھ پینے کے لئے آئے جس سے تم لوگوں نے ہمیں دورکردیا ہے ۔

عمرو بن حجاج نے کہا : پیو تمہارے لئے یہ پانی مبارک ہو۔

نافع بن ہلال نے فرمایا: نہیں خدا کی قسم ہم اس وقت تک پانی نہیں پی سکتے جب تک حسین اور ان کے اصحاب پیاسے ہیں جنہیں تم دیکھ رہے ہو (یہ کہہ کر ان اصحاب کی طرف اشارہ کیا) اسی اثنا میں وہ اصحاب آشکار ہو گئے اور پانی تک پہنچ گئے ۔

عمرو بن حجاج نے کہا : ان لوگوں کے پانی پینے کی کوئی سبیل نہیں ہے ،ہم لوگوں کو یہاں اسی لئے رکھا گیا ہے تاکہ ان لوگوں کو پانی پینے سے روکیں ۔

جب نافع کے دیگر پیدل ساتھی پانی کے پاس پہنچ گئے تونافع نے کہا : اپنی مشکوں کوبھرو وہ لوگ بھی آگے بڑھے اور مشکیزوں کو پانی سے بھر لیا ۔

لیکن عمر وبن حجاج اور اس کی فوج نے ان پیدلوں پر حملہ کردیا ۔ادھر سے عباس بن علی اور نافع بن ہلال نے ان پر حملہ کیا اور انہیں روکے رکھا، پھر اپنے سپاہیوں کی طرف آئے تو ان لوگوں نے کہا :

____________________

١۔ آپ ہی نے اپنے گھوڑے کے ہمراہ کوفہ سے ٤آدمیو ں کوراستے میں امام علیہ السلام کے پاس بھیجا تھاجن میں طرماح بن عدی بھی تھے۔ یہ پہلی خبر ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ کربلامیں آپ امام علیہ السلام سے آکر مل گئے تھے اور آپ ہی وہ ہیں جنہو ں نے علی بن قرظہ انصاری، عمر و بن قرظہ کے بھائی پر نیزہ چلایاتھا جو عمر سعد کے ساتھ تھا۔(طبری،ج٥،ص ٣٣٤) آپ نے اس کانا م اپنی تیر کے اوپر لکھ لیا تھا ۔ آپ نے اپنے تیرو ں سے ١٢ لوگو ں کو مارا یہا ں تک کہ آپ کا ہاتھ ٹوٹ گیا اور شمر نے آپ کو اسیر بنالیا پھر پسر سعد کے پاس لے جانے کے بعد آپ کو قتل کر دیا۔(ج٥،ص٤٤٣)

۲۷۸

آپ لوگ اسی طرح ان لوگوں کو کوروکئے اور ان کے نزدیک کھڑے رہئے تاکہ ہم خیموں تک پانی پہنچاسکیں ۔

ادھر عمروبن حجاج اور اس کے سپاہیوں نے پھر حملہ کیا تو ان لوگوں نے بھی دلیری سے دفاع کیا اور آخر کار حسین علیہ السلام کے فداکار اصحاب پانی کومنزلگاہ تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئے۔ اسی شب نافع بن ہلال نے عمر وبن حجاج کی فوج کے ایک سپاہی کو نیزہ مارا جس سے وہ نیزہ ٹوٹ گیا اور بعد میں وہ مر گیا۔(١) دشمن کی فوج کا یہ پہلا مقتول ہے جو اس شب مجروح ہوا تھا ۔

____________________

١۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم ازدی کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ، ج٥ ص ٢١٢) ابو الفرج نے ابو مخنف سے اسی سند کوذکر کیا ہے۔(ص ٧٨) ارشاد میں شیخ مفید نے حمید بن مسلم سے یہی روایت نقل کی ہے۔(ص ٢٢٨)

۲۷۹

امام علیہ السلام کی طرف پسر سعد کا ہجوم

* ایک شب کی مہلت

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438