واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا18%

واقعۂ کربلا مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 438

واقعۂ کربلا
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 438 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 192929 / ڈاؤنلوڈ: 5407
سائز سائز سائز
واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

صقعب اور عبداللہ کی شہادت کا تذکرہ ہے ممکن ہے کہ'' ذیل المذیل ''میں طبری نے اسے اپنی ہی تاریخ سے نقل کیا ہو، لیکن مخنف بن سلیم کی شہادت کے سلسلے میں یہ خبر دوسری روایتوں سے منافی اور متعارض ہے، کیونکہ اس عبارت میں طبری نے کہا کہ مخنف بن سلیم جنگ جمل میں شہید ہوگئے ۔طبری کی یہ بات اس روایت کے منافی ہے جسے انھوں نے کلبی کے حوالے سے ابومخنف سے جنگ صفین کے سلسلہ میں نقل کیا ہے :''حدثنی ابی ، یحٰبن سعید عن عمه محمد بن مخنف قال : کنت مع ابی (مخنف بن سلیم) یومئذ و انا ابن سبع عشره سنة'' (١) مجھ سے میرے والد یحٰی بن سعید نے اپنے چچا محمد بن مخنف کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ انھوں نے کہا :''میں جنگ صفین میں اپنے والد (مخنف بن سلیم) کے ہمراہ تھا اس وقت میری عمر سترہ سال تھی''۔ اسی طرح طبری نے ابو مخنف سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا :''مجھ سے حارث بن حصیرہ ازدی نے اپنے اساتید اور بزرگان کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ '' قبیلہ ازد'' جب ایک دوسرے کے آمنے سامنے آئے تو'' مخنف بن سلیم ''پر یہ بڑی سخت گھڑی تھی جس سے وہ کافی ناراض تھے''۔

ا سی طرح طبری نے مدائنی متوفیٰ٢٢٥ھ اور عوانہ بن حکم متوفیٰ ١٥٨ھ سے روایت کی ہے کہ ان لوگوں نے سلسلۂ سند کو قبیلہ بنی فزار کے ایک بزرگ تک پہنچاتے ہوئے کہا : ''معاویہ نے نعمان بن بشیر کو ٢ہزار سپاہیو ں کے ہمراہ امیر المومنین کی طرف روانہ کیا ۔وہ لوگ ایک مقا م تک پہنچے جس کا نام عین التمرتھا۔ وہاں سے ان لوگوں نے حضرت کے لشکر پرحملہ کیا ، اس مقام پر مالک بن کعب ارحبی جو لشکر امیر المومنین کے علمدار تھے ،اپنے تین سو افراد کے ساتھ ان حملہ آورں کے سامنے ڈٹے رہے اورحضرت علی کو خط لکھ کر فوج کی مدد طلب کی ۔مالک بن کعب نے ایک دوسرا خط مخنف بن سلیم کو لکھا کیو نکہ وہ وہاں سے نزدیک تھے اور ان سے مدد کی درخواست کی۔ مخنف نے فوراًاپنے فرزند عبد الرحمن کو پچاس آدمیوں کے ہمراہ ان تک روانہ کیا ؛یہ افراد بلا تاخیر وہاں پہنچ کر مالک کے لشکر سے ملحق ہوگئے ۔

____________________

١۔ طبری ،ج٤، ص٢٤٦

۲۱

جب اہل شام نے یہ منظر دیکھا اور سمجھ گئے کہ مالک بن کعب کی مدد کے لئے لشکر موجود ہے تو وہیں سے ان کے قدم اکھڑگئے اور وہ وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔''(١) ان تمام تاریخی شواہد سے یہ ثابت ہوتاہے کہ مخنف بن سلیم جنگ جمل کے بعد تک با حیات تھے اور نہ فقط بعد از جنگ جمل بلکہ جنگ صفین کے بعد بھی زندہ تھے، کیونکہ جنگ صفین ٣٧ھ میں ختم ہوگئی اور معاویہ کی طرف سے سرحدی علاقوں میں قتل و غارت گری کا سلسلہ ٣٩ ھ سے شروع ہوا ۔اس درمیان فقط وہی ایک روایت ہے جس میں جنگ جمل میں شہادت کا تذکرہ موجو دہے جیسا کہ گذشتہ سطروں میں اس کی وضاحت ہوگئی ہے ،لیکن طبری اس کی طرف با لکل متوجہ نہیں ہوئے، نہ ہی اس کے اوپر کوئی تعلیقہ لگایا، جبکہ انھوں نے''ذیل المذیل ''میں اس کی صراحت کی ہے کہ وہ ٨٠ ھ تک زندہ تھے۔(٢)

نصربن مزاحم اور خاندان ابومخنف

طبر ی کے علاوہ نصر بن مزاحم منقری، متوفیٰ ٢١٢ ھنے بھی اپنی کتاب'' وقعة صفین'' میں اس بات کی صراحت کی ہے کہ مخنف بن سلیم جنگ جمل کے بعد بقید حیات تھے۔ وہ اپنی کتاب میں اس طرح رقمطراز ہیں کہ یحٰبن سعید نے محمد بن مخنف سے نقل کیا ہے کہ محمدبن مخنف کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے بصرہ سے پلٹنے کے بعد میرے والد (مخنف بن سلیم) کی طرف نگاہ کی اور فرمایا :''لیکن مخنف بن سلیم اور ان کی قوم نے جنگ میں شرکت سے سر پیچی نہیں کی...۔''(٣)

محمد بن مخنف اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے اصحاب کا یہ کہنا ہے کہ امیر المو منین نے مخنف بن سلیم کو اصفہان اور ہمدان کی ذمہ داری دیکر گو رنر کے طور پروہاں روانہ کیا اور وہاں کے سابق ذمہ دار جر یربن عبد اللہ بجلی کو معزول کر دیا۔(٤) محمد بن مخنف مزید کہتے ہیں کہ جب حضرت علی علیہ السلام نے شام کا قصد کیا تو اپنے کا رکنوں کو اس سے آگا ہ کیا ؛ منجملہ ایک خط مخنف بن سلیم کو

____________________

١۔ طبری ،ج ٥ ،ص ١٣٣ مطبوعہ دار المعارف

٢۔ ذیل المذیل، ص٥٤٧ ،مطبوعہ دار سویدان؛ تاریخ طبری کی گیارہوی ں جلد

٣۔ وقعة صفین، ص٨ ، طبع مدنی

٤۔ سابقہ حوالہ، ص١١

۲۲

روانہ کیا جسے آپ کے حکم کے مطابق آپ کے کاتب عبداللہ ابی رافع نے تحریر کیا تھاخط ملتے ہی مخنف بن سلیم نے اپنے اہلکاروں میں سے دو آدمیوں کو اپنا نائب مقرر کیا اور خود وہاں سے فوراً حضرت کے لشکر کی طرف روانہ ہوگئے ؛یہاں تک کہ صفین ہی میں حضر ت علی علیہ السلام کی ہمر کا بی میں شہید ہو گئے۔(١) آگے بڑھ کر محمد بن مخنف کہتے ہیں کہ مخنف بن سلیم چار بڑے قبیلے ازد ، بجیلہ ، انصاراور خزاعہ کے سربراہ تھے۔(٢) پھر لکھتے ہیں :مخنف ، بابل کے سفرمیں علی علیہ السلام کے ہمراہ تھے۔(٣)

اسکے علاوہ بزرگان'' ازد'' سے مروی ہے کہ'' قبیلہ ازد'' کا ایک گروہ شام کی طرف سے اور دوسرا گروہ عراق کی طرف سے (جس میں مخنف بھی تھے) جب آمنے سامنے ہوا تو مخنف بن سلیم کے لئے یہ بڑی سخت منزل تھی۔ان کے دل پر اس سے چوٹ لگی اور وہ بے چین ہو گئے؛ لہٰذاانہوں نے ایک تقریر کی اور فر مایا کہ یہ امر میرے لئے بڑاسخت ہے اورمیں اس سے خوش نہیں ہوں ۔(٤)

اس سلسلے میں ابو مخنف کا بیان بھی قابل استفادہ ہے۔ وہ اس واقعہ کو اپنے والد کے چچا محمد بن مخنف سے نقل کر تے ہیں کہ محمدبن مخنف کہتے ہیں :''اس دن میں اپنے والد مخنف بن سلیم کے ہمراہ تھا اوراس وقت میری عمر ٧ا سال کا تھی''۔(٥)

اس جملہ سے کہ '' میری عمر١٧سال تھی '' اندازہ ہوتا ہے کہ سعیداپنے بھائی محمد سے چھوٹے تھے اور وہ جنگ صفین میں حاضر نہ تھے لہٰذا اس جنگ کی روداد کو اپنے بھائی سے نقل کررہے ہیں ۔ یہ خبر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ محمد بن مخنف کی ولادت٢٠ ھ میں ہوئی ۔بنابراین سعید، جو لوط (ابو مخنف) کے دادا ہیں وہ بھی اسی سال کے آس پاس متولد ہوئے ہیں ۔

____________________

١۔سابقہ حوالہ، ص١٠٤

٢۔صفین، ص١١٧

٣۔سابقہ حوالہ، ص١٣٥

٤۔سابقہ حوالہ، ص٢٦٢ ؛کتاب تقریب التہذیب میں مذکو ر ہے کہ ''مخنف بن سلیم ٦٤ھ میں توابین کے ہمراہ عین الوردةمیں شہید ہو ئے لیکن یہ غلط ہے۔

٥۔طبری، ج، ٤ص٤٤٦

۲۳

لوط کے داد ا سعید حضرت علی علیہ السلام کے اصحاب میں شمار ہوتے ہیں جبکہ آپ کے والدیحٰی امیر المو منین کے اصحاب میں شمار نہیں ہوتے ۔.پس ہم اگر کم ترین مدت بھی فرض کریں تو یہی کہا جاسکتاہے کہ سعید کی شادی کے بعد جب یحٰدنیا میں آئے تو اس وقت سعید ٢٠ سال کے تھے ۔(١) اس بنیاد پر لوط کا اصحاب امیر المومنین میں ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہو تا، بلکہ ان کے والد یحٰکو بھی حضرت علی علیہ السلام کے اصحاب میں شمار نہیں کیا جا سکتا ہے۔اب ہم یہ فرض کرتے ہیں کہ یحٰنے شادی کی اور اس سے لوط دنیا میں آئے تو اس وقت ان کا سن ٢٠ سال تھا؛ اس کا مطلب یہ ہو گا ٦٠ ھ گذر گیا تھاجبکہ یہ بہت کم ترین مدت فرض کی گئی ہے۔ اسطرح خود لوط کے بارے میں ہم یہ فرض کر تے ہیں کہ انھوں نے اپنی عمرکے بیسویں سال کے آس پاس حدیث کا سننا اور حاصل کرنا شروع کیا ؛ اس کی بنیاد پر ٨٠ ھسامنے آجا تی ہے ،پھر انھوں نے اس کتاب کی تالیف میں تقریبا٢٠ سال صرف کیے۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ لوط پہلی صدی ہجری کے آخری سالوں یا صدی تمام ہونے کے بعد اس کتاب کی تالیف سے فارغ

____________________

١۔ابو مخنف کے والد یحییٰ کس طرح اصحاب امیر المو منین میں شمار ہو سکتے ہیں ؟اور کس طرح شیخ نے اسے اپنی دونو ں کتا بو ں میں لکھ دیا؟ یہ ایک سوال ہے اور.ہم سے پہلے فاضل حائری نے اپنی کتاب منتہی المقال میں شیخ پر یہی اعتراض کیا ہے۔انہو ں نے اس بات پر استدلا ل قا ئم کیا ہے کہ ابو مخنف نے حضرت علی علیہ السلام کو نہیں دیکھا ہے ؛ اسکے بعد انھو ں نے شیخ طوسی کے قول جو انھو ں نے اپنی دونو ں کتابو ں میں بیان کیا ہے کہ یحٰی نے حضرت علی علیہ السلام کا دیدار کیا ہے ،کو اس دلیل سے ضعیف جانا ہے کہ ان کے پر دادا مخنف بن سلیم حضرت علی کے اصحاب میں تھے، جیسا کہ شیخ وغیرہ نے اس کی تصریح کی ہے۔ فاضل حائر ی کی عبارت اس طرح ہے : اس سے ثابت ہو تا ہے کہ لوط نے حضرت کا دیدار نہیں کیا بلکہ ان کے باپ یحٰکا حضرت کو درک کر نا بھی ضعیف ہے۔ بنا برین ابو مخنف کا اصحاب امیر المو منین میں شما ر ہو نا جیسا کہ کشی نے کہا ہے غیر ممکن ہے اورجو استدلال مقتل ابو مخنف کے مقدمہ پر شیخ غفاری نے تحریر کیا ہے وہ بھی بے جا ہے ۔شیخ غفاری کہتے ہیں کہ ممکن ہے ابو مخنف اپنے پر دادا مخنف بن سلیم کے ہمراہ ہو ں ،اس طرح سے کہ اس وقت لوط ١٥ سال کے ہو ں اور ان کے والد یحٰ٣٥ کے ہو ں اور انکے دادا سعید کی عمر ٥٥سال ہو اور پر دادامخنف بن سلیم کا سن ٧٥ سال ہو۔اس استدلال میں جو اعتراض واردہے وہ واضح ہے، کیو نکہ ابو مخنف اپنے والد کے چچا محمد بن مخنف سے نقل کرتے ہیں کہ وہ جنگ صفین کے موقع پر ١٧ سال کے تھے یعنی ان کے بھائی سعید ان سے بڑے نہیں تھے بلکہ چھوٹے تھے اسی لئے جنگ صفین میں شریک نہیں ہو ئے اور انہو ں نے اس جنگ کی روداد اپنے بھائی سے نقل کی پس اس وقت ان کاسن ١٥سال کے آس پا س ہو گا، نہ کہ ٥٥ سال کا ۔

۲۴

ہوئے ،لیکن یہ بہت بعید ہے کہ انہوں نے اس زمانے میں اسے لکھا ہواور پھر لوگوں کو املا کریا ہو۔کیونکہ اس زمانے میں تدوین حدیث پربڑی سخت پابندی عائد تھی؛ بلکہ سخت ممنوع تھا۔ اس اموی دور سلطنت میں تاریخ نویسی کا کیا سوال پیدا ہو تا ہے اوروہ بھی شیعی تاریخ کا ؟ !جبکہ یہ زمانہ شیعوں کے لئے خوف،تقیہ اور گھٹن کا زمانہ ہے ۔

ابو مخنف نے مسلم بن عقیل کے کوفہ میں وارد ہو کر مختار بن ابو عبید ثقفی کے گھر رہنے کے سلسلے میں جو خبر نقل کی ہے اس میں یہ جملہ موجود ہے :'' یہ گھر آج مسلم بن مسیب کے گھر سے معروف ہے''اس جملہ سے ہمیں ایک فائدہ یہ حاصل ہو تا ہے کہ انھوں نے اس مقتل کی تالیف پہلی صدی ہجری کی تیسری دہائی میں کی ہے ،کیونکہ مسلم بن مسیب ١٢٩ ھمیں شیراز کے عامل تھے جیسا کہ طبری کی ،ج٧،ص٣٧٢ پر مر قوم ہے اور یہ عہد بنی امیہ کے ضعف و شکست اور بنی عباس کے قیام کا دور شمار ہو تا ہے جس میں بنی عباس اہل بیت کی رضایت حاصل کر کے امام حسین اور آپ کے اہل بیت علیہم السلام کے خون کا بدلہ لینا چاہتے تھے لہذا ممکن ہے عباسیوں ہی نے ابو مخنف کومقتل حسین علیہ السلام کی تالیف کی دعوت دی ہو تاکہ ان کے قیام کی تائیدہو سکے پھر جب یہ لوگ زمام حکومت پر قابض ہوگئے تو ابو مخنف اور ان کے مقتل کو تر ک کر دیاجیسا کہ اہل بیت علیہم السلام کو چھوڑ دیا بلکہ ان سے جنگ پر آمادہ ہوگئے ۔

ابومخنف کی کتابیں

(الف)شیخ نجاشی نے ابو مخنف کی مندرجہ ذیل کتابوں کا ذکر کیاہے۔

١۔کتاب المغازی

٢۔کتاب الردّہ

٣۔کتاب فتوح الاسلام

٤۔کتاب فتوح العراق

٥۔کتاب فتوح الخراسان

٦۔کتاب شوریٰ

۲۵

٧۔کتاب قتل عثمان

٨۔کتاب جمل

٩۔کتاب صفین

١٠۔کتاب الحکمین

١١۔ کتاب النہروان

١٢۔کتاب الغارات

١٣۔ کتاب اخبار محمد بن ابی بکر

١٤۔ کتاب مقتل محمدبن ابی بکر

١٥۔ کتاب مقتل امیرالمومنین علیہ السلام

١٦۔کتاب اخبار زیاد

١٧۔ کتاب مقتل حجر بن عدی

١٨۔ کتاب مقتل الحسن

١٩۔کتاب مقتل الحسین علیہ السلام

٢٠۔ کتاب اخبارالمختار

٢١۔کتاب اخبار ابن الحنفیہ

٢٢۔ کتاب اخبارا لحجاج بن یوسف ثقفی

٢٣۔کتاب اخباریوسف بن عمیر

٢٤۔کتاب اخبارشبیب الخارجی

٢٥۔کتاب اخبارمطرف بن مغیرہ بن شعبہ

٢٦۔کتاب اخبارالحریث بن الاسدی الناجی

٢٧۔کتاب اخبارآل مخنف بن سلیم

۲۶

اس کے بعد نجاشی نے اپنے طریق کو اس طرح ذکر کیا ہے :''عن تلمیذہ ہشام الکلبی''ابو مخنف کے شاگرد کلبی سے مروی ہے(١)

(ب) شیخ طوسی نے بھی فہرست میں ان میں سے بعض کتابوں کا تذکرہ کیا ہے اور اس کے بعد فرماتے ہیں کہ ابو مخنف کی ایک کتاب بنام ''کتاب خطبات الزہرائ'' بھی ہے۔ شیخ طوسی روایت میں اپنے طریق کو بیا ن فرماتے ہیں ۔(٢)

(ج)ابن ندیم نے بھی اپنی فہرست میں ان کتابوں میں سے بعض کا ذکر کیا ہے، منجملہ مقتل الحسین کوابو مخنف ہی کی کتابوں میں شمار کیاہے۔

دواہم نکات

ابومخنف کی کتابوں کی فہرست کابغور مطالعہ کرنے کے بعد دو اہم نکات سامنے آتے ہیں :

١۔سب سے پہلی بات یہ کہ ابو مخنف نے اپنی ساری کوششیں اس پر صرف کی ہیں کہ شیعی روایات بالخصوص کوفہ سے متعلق اخبار کو اپنی کتابوں میں درج کریں ۔ ان کتابوں میں کوئی بھی کتاب ایسی نہیں ہے جس میں بنی امیہ یا بنی مروان کا عنوان شامل ہو، اسی طرح ان کتابوں میں ابو مسلم خراسانی کا قیام اوربنی عباس کی تشکیل حکومت کے سلسلے میں بھی کوئی عنوان نظر نہیں آتا جبکہ بنی عباس کی حکومت کی تشکیل کے ٢٥ سال بعد ٥٨ا ہجری میں ابو مخنف کی وفات ہوئی ہے۔ اگر فہرست کتب میں اس مو ضوع پر کوئی کتاب نظر آتی ہے تو وہ فقط ''کتاب حجاج بن یوسف ثقفی ''ہے اور حجاج کی تباہکاریوں کی داستان اس کی موت کے ساتھ ٩٥ ہجری میں ختم ہو جاتی ہے۔ البتہ طبری نے بنی امیہ کے آ خری ایام کی خبروں کو ١٣٢ ہجری کے حوادث میں ابو مخنف ہی سے نقل کیا ہے۔(٣)

٢۔ دو سرا اہم نکتہ یہ ہے کہ ابو مخنف کی روایات کو ان کی کتابوں میں ، خصوصاًطبری کی روایتوں میں ملا حظہ کر نے کے بعد اندازہ ہو تا ہے کہ ابو مخنف نے بہت سارے موارد میں اپنے باپ ،چچا،چچازادبھائیوں یا ''قبیلۂ ازد'' کے وہ بزرگان جو اس وقت زندہ تھے، ان سے رواتیں نقل کی ہیں اوریہ اس بات کی دلیل ہے کہ ابو مخنف کے قبیلہ میں بہت ساری خبر یں موجو دتھیں جس نے ابو مخنف کو ان کی جمع آوری اور تالیف پربر انگیختہ کیا۔ .اسی وجہ سے ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی خبروں میں کوفہ اور اہل کوفہ ہی پر اکتفا کر تے ہیں اور اس فن میں انھوں نے اتنا یدطولیٰ حاصل کیا کہ دوسروں کے مقابلہ میں وہ اس فن میں اعلم شمار ہو تے ہیں ۔

____________________

١۔رجال نجاشی، ص٢٢٤،طبع حجر ہند

٢۔فہرست، ص١٥٥وطبری ،ج٧،ص٤١٧،سال ١٣٢ ہجری فی خروج محمد بن خالد بالکوفہ

٣۔طبری ،ج٥، ص٤١٧

۲۷

مذہب ووثاقت

ابو مخنف کے آثارکو دیکھنے کے بعد اس بات کا بھی اندازہ ہو تا ہے کہ انھوں نے امام زین العابدین علیہ السلام (جنکی شہادت ٩٥ ہجری میں ہو ئی ہے) سے کو ئی روایت بلا واسطہ نقل نہیں کی ہے؛ اسی طرح امام محمد باقر علیہ السلام (جنکی شہادت ١١٥ ہجری میں ہوئی ہے) سے بھی بلا واسطہ ایک روایت موجود نہیں ہے۔(١)

بلکہ وہ امام محمد باقر علیہ السلام سے ایک واسطہ اور امام زین العا بدین علیہ السلام سے دو واسطوں سے روایت نقل کرتے ہیں اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے بلا واسطہ چند ہی روایتں ملتی ہیں ۔(٢) یہ مطلب شیخ نجاشی کی ان باتوں کی تائیدکرتاہے جس میں وہ فرماتے ہیں : ''بعض لوگ کہتے ہیں کہ ابو مخنف نے امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ ''اسی طرح ابوا مخنف نے امام موسی کاظم علیہ السلام سے بھی کوئی روایت نقل نہیں کی ہے جب کہ ابو مخنف امام علیہ السلام کے زمانے میں موجود تھے، کیونکہ امام موسی کاظم علیہ السلام کی شہادت ١٤٨ ہجری میں واقع ہوئی ہے ؛یہی وجہ ہے کہ کسی نے بھی ابو مخنف کو امام علیہ السلام کے صحابیوں میں شمار نہیں کیا ہے ۔

____________________

١۔طبری،ج ٥،ص٤٨٨۔خبر شہادت شیر خوار کو ملا حظہ کیجئے ۔

٢۔خبر شب عا شو راملاحظہ ہو ،ج ٥ ،ص٤٨٨

۲۸

مندرجہ بالا قرینے اس مطلب کی دلیل فراہم کرتے ہیں کہ ابو مخنف شیعہ نہیں تھے اورشیعی اصطلاح کے مطابق ائمہ کے اصحاب میں شمار نہیں ہوتے تھے، جن کو مخالفین اہل بیت رافضی کہا کرتے تھے؛ البتہ اس زمانے میں اہل کوفہ کی طرح ان کا بھی فکری اور نظریاتی میلان تشیع کی طرف تھا لیکن سنی مذہب کوبطور کلی ترک نہیں کیا تھا۔اس کی تائید میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مخالفین اہل بیت میں سے کسی نے بھی رافضی کے تیر سے ان پر حملہ نہیں کیا ہے جیسا کہ وہ ہر شیعہ کے لئے کرتے تھے حتیٰ کہ یہ ایک اصطلاح بن چکی تھی جو ابھی تک باقی ہے۔ بلکہ ابومخنف کے سلسلے میں مخالفین اہل بیت کا نظریہ یہ ہے کہ وہ تشیع اور مذہب اہل بیت کی طرف رجحان رکھتے تھے ، اسی وجہ سے ان کو شیعہ کہا کرتے ہیں ؛ لیکن مخالفین اہل بیت علیہم السلام کوجن کے بارے میں معلوم ہوجاتاتھا کہ یہ مذہب اہل بیت سے وابستہ ہیں ان پر فوراًرافضی ہونے کا تیرچلاتے تھے اور فقط شیعہ کہنے پر اکتفانہیں کرتے تھے۔دشمنان اہل بیت کے نزدیک اصطلاح شیعہ اور رافضی میں اساسی فرق یہی ہے ۔

ذہبی ، اہل سنت کے معروف رجالی ، کہتے ہیں : ''یہ اخباری مذہب کے حامی ہیں اور قابل اعتماد نہیں ہیں ''۔ ابوحاتم وغیرہ نے ان سے روایت نقل نہیں کی ہے اور ان کو ترک کردیا ہے ۔

ابن معین کہتے ہیں :''یہ ثقہ نہیں ہیں '' مرّ ہ کہتے ہیں :'' وہ بہت قابل توجہ نہیں ہیں ''۔ ابن عدی کہتے ہیں : ''وہ متعصب شیعہ تھے ا ان کا شمارشیعہ محدثین و مورخین میں ہوتاہے(١) ان میں سے کسی بھی رجالی نے ابو مخنف پر رافضی کے تیر سے حملہ نہیں کیا ہے جبکہ ان تمام رجالیوں کی سیرت یہ ہے کہ اگر ان کے لئے کسی کے سلسلے میں اہل بیت کی پیروی ثابت ہو جائے تو فوراًرافضی کہہ کر اپنی دریدہ ذ ہنی اور شوریدہ فکر ی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔

ابن ابی الحدید معتزلی نے اس بات کی بالکل صراحت کر دی۔ وہ کہتے ہیں :''ابو مخنف کا شمار محدثین میں ہوتاہے اوران کا تعلق اس گروہ سے ہے جو اس بات کا قائل ہے کہ امامت عوام کے اختیار

____________________

١۔ میزان الاعتدال، ج٣،ص ٤٣،طبع حلبی محترق کے معنی متعصب کے ہیں جیسا کہ میزان الاعتدال میں حارث بن حصیرہ کے سلسلے میں آیا ہے؛ محترق کے وہ معنی نہیں ہیں جو عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔

۲۹

میں ہے ؛عوام جس کو چاہے امام بنادے، لہٰذا وہ نہ توشیعہ تھے اور نہ ہی شیعی رجال میں ان کاشمار ہوتا ہے۔(١)

سیدصدر نے ابن ابی الحدیدکی اس عبارت کو''تاسیس الشیعہ لعلوم الاسلام''میں نقل کیا ہے پھر اس عبارت پرتعلیقہ لگاتے ہوئے کہتے ہیں :''میرے نزدیک تشیع ہی کی بنیاد پر ان کی مذ مت کی گئی ؛اس کے باوجود وہ اہل سنت کے علماء کے نزدیک مورد اطمینان وقابل وثوق ہیں اور ائمہ اہلسنت نے ان پر اعتماد کیا ہے جیسے ابی جریر طبری ،ابن اثیر بالخصوص، ابن جریر طبری جس نے اپنی ضخیم اور عظیم تاریخ کو ابی مخنف ہی کی روایتوں سے پرکر دیا ہے ۔(٢)

علامہ سید شرف الدین موسوی نے اپنی کتاب'' المراجعات'' میں ایک خاص فصل قرار دی ہے جس میں ان سو شیعی رجال کا تذکرہ کیا ہے جو اہل سنت کی سندوں میں بلکہ صحاح میں موجود ہیں ۔ علامہ مرحوم نے ان سندوں کو حوالے کے ساتھ ذکر کیا ہے۔

علامہ شرف الدین موسوی کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے :اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ وہ (ابو مخنف)شیعہ تھے لیکن شیعہ امامی نہیں تھے جیسا کہ ابن ابی الحدید نے بھی اس کی صراحت کی ہے جو ایک متین بیان ہے البتہ بعض اہل سنت نے انہیں اس بنیاد پر شیعہ لکھ دیا کہ محبت و مودت اورافکار میں ان کا میلان اہل بیت اطہار علیہم السلام کی طرف تھا لیکن یہ کہ وہ آج کل کی اصطلاح کے مطابق بطور کامل شیعہ تھے، تو یہ غلط ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ گذشتہ علمائے شیعہ میں سے کسی نے بھی ان کے شیعہ ہونے کی تصریح نہیں فرمائی ہے۔شیخ نجاشی جو اس فن کے استاد تھے انھوں نے اس سلسلے میں بڑی احتیاط سے توصیف فرمائی ہے کہ ''ابو مخنف مورخین کوفہ کے بزرگ اور استاد تھے ''،یہ نہیں فرمایا کہ ہمارے مورخین کے استاد و بزرگ تھے، چہ جائیکہ یہ کہیں کہ ہمارے علماء و دانشوروں کے بزرگ اور استاد تھے ۔

____________________

١۔تاسیس الشیعہ، ص٢٣٥،طبع بغدادمیں آیا ہے کہ میں نے طبری کی سند میں ابو مخنف کی روایت کو شمار کیا تو٤٠٠ روایتو ں کے آس پاس پایا جیسا کہ فہرست اعلام ،ج٧،ص٤١٧،سال ١٣٢ میں محمد بن خالدکے خروج کے سلسلے میں یہ موجود ہے۔

٢۔تاسیس الشیعہ، ص٢٣٥ ،طبع بغداد ،المراجعات،ص١٦ تا١٧ وص،٥٢ تا ١١٨،دار الصادق

۳۰

اس پر تعجب نہ کیجئے کہ ابن ابی الحدید نے اس سلسلے میں کیونکر تصریح کردی، ذرادیکھئے!جب وہ جنگ جمل کے واقعہ میں ابو مخنف سے اس رجز کا تذکرہ کرتے ہیں جس میں مولائے کائنات نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانب سے اپنی وصایت کا تذکرہ کیا ہے تو کہتے ہیں کہ ان رجزوں کے نقل کرنے سے اس سے زیادہ کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ ابو مخنف فکر و نظر کے اعتبار سے شیعہ تھے نہ کہ عقیدئہ امامت میں ، جیسا کہ بہت سارے اہل سنت اس مطلب کی روایت کرتے ہیں ۔الغرض ابو مخنف شیعہ تھے اس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن ان کے امامی مذہب ہونے پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے ،اس بناپر ابومخنف کی توصیف و تمدیح کا بہترین طریقہ وہی ہے جسے شیخ نجاشی نے اپنایا ہے : ''شیخ اصحاب اخبار الکوفہ ووجھہم وکان یسکن الی ما یرویہ''وہ مورخین کوفہ کے بزرگ اور معروف آدمی تھے لوگ ان کی روایتوں پر اعتماد کرتے تھے ۔

نجاشی کا یہ بیان ایک قابل اعتبار مدح وستائش ہے جس کی بنیاد پر ان سے مروی روایتوں کا حسن ہونا ثابت ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی روایتوں کو'' الوجیزہ'' ،''ا لبلغہ'' اور ''الحاوی'' وغیرہ میں حسن شمار کیا گیا ہے ۔

ہشام الکلبی

شیخ نجاشی نے ہشام الکلبی کا ذکر کیا ہے اور ان کا نسب نامہ بھی مرقوم فرمایاہے اس کے بعدفرماتے ہیں : ہشام تاریخ دان ، تاریخ نگار اور علم و فضل میں مشہور تھے۔ وہ پیروان مذہب اہل بیت میں شمار ہو تے ہیں ۔ ان کی ایک حدیث بہت مشہور ہے جس کی داستان بہت ہی دلچسپ ہے ۔ہشام کہتے ہیں : ''میں ایک ایسے مرض میں مبتلا ہوگیا تھا جس کی و جہ سے میں اپنے سارے علم کو فراموش کرچکاتھا لہٰذا میں امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس آیا اور امام سے ساری داستان کہہ سنائی امام نے مجھے جام علم پلایا اس جام کے پیتے ہی میراسارا علم دوبارہ واپس آگیا'' ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام ان کو اپنے قریب رکھتے تھے، ان کا احترام کرتے اور ان کے لئے ترقی و بلندی کے مواقع فراہم کرتے تھے؛ اسی لئے وہ کامیاب رہے اور بہت ساری کتابیں ان کے آثار میں باقی ہیں ۔(١)

____________________

١۔ رجال نجاشی،ص٣٠٥،حجر ہند

۳۱

اس کے بعد نجاشی نے ہشام کی کتابوں کا تذکرہ کیا ہے اور ان کو اپنے طریق میں مرقوم فرمایا؛ منجملہ ان کتب میں '' مقتل الحسین'' کو بھی ہشام کی کتابوں میں شمار کیاہے۔ شاید اس کا سبب یہ ہو کہ ہشام نے کتاب'' مقتل الحسین ''کے تمام حصوں یا اکثر و بیشتر حصوں کو اپنے استاد(ابو مخنف) سے نقل کیا ہے ۔

قابل تعجب بات یہ ہے کہ شیخ طوسی نے اپنی کتاب'' مختار ''میں رجال نجاشی سے نقل کیا ہے نجاشی فرماتے ہیں : ''کلبی کا شمار سنی رجال میں ہوتا ہے ،ہاں ؛ اہل بیت سے انہیں شدت کی محبت تھی، بعض لوگوں نے کہا ہے کہ کلبی تقیہ میں تھے ، مخالف اہل بیت نہیں تھے ۔(١)

____________________

١۔ المختار من رجال ا لکشی، ص ٣٩٠ ،حدیث ٧٣٣ طبع مشہد، یہ بات پوشیدہ نہیں رہنی چاہیئے کہ ہمارے متعدد بزرگ علمائے رجال تعارض کی صورت میں نجاشی کے قول کو مقدم مانتے ہیں ١۔ شہیدثانی مسالک میں فرماتے ہیں :''وظاهر حال النجاشی انه اضبط الجماعه واعرفهم بحال الرواة ''ظاہر یہ ہے کہ نجاشی کا حافظہ سب سے قوی اور راویو ں کے احوال سے سب سے زیادہ باخبر ہیں ۔٢۔ان کے نواسے ''شرح الاستبصار'' میں فرماتے ہیں :''والنجاشی مقدم علی الشیخ فی هٰذه المقامات کما یعلم بالممارسته '' ۔ نجاشی ان موارد میں شیخ پر مقدم ہیں جیسا کہ تحقیق و جستجو سے یہی معلوم ہوتا ہے۔٣۔ان کے استاد محقق استرآبادی کتاب ''الرجال الکبیر'' میں سلیمان بن صالح کے احوال نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :''ولا یخفی تخالف ما بین طریقتی الشیخ والنجاشی ولعل النجاشی اثبت'' ۔ یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ رجال شناسی میں شیخ اور نجاشی کے درمیان اختلاف کی صورت میں نجاشی کا قول مقدم ہے ؛کیونکہ نجاشی کا نظریہ زیادہ محکم ہے ۔٤۔ سید بحر العلوم'' الفوائد الرجالیہ'' میں فرماتے ہیں :'' احمد بن علی نجاشی کا محکم ، استوار اور عادل بزرگو ں میں شمار ہوتا ہے۔ آپ جرح و تعدیل کے عظیم ترین رکن ہیں اور اس راہ کے سب سے بزرگ عالم ہیں '' ہمارے تمام علماء کا اس پر اجماع ہے کہ وہ معتمد ہیں اور سب کے سب احوال رجال میں انہیں کی طرف استناد کرتے ہیں نیزان کے قول کو مقدم جانتے ہیں ۔اصحاب نے ان کی کتاب کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ جس کی کو ئی نظیر نہیں ہے اس باب میں صراحت کی ہے کہ نجاشی کا قول صحیح ہے ۔اس کے علاوہ نجاشی نے اپنی کتاب میں شیخ کشّی کے احوال کو پیش کرتے ہو ئے فرما یا : ''کان ثقةعیناً..''آپ مورد وثوق اور معروف انسان تھے ،رجال کے موضوع پرآپ کی ایک کتاب ہے جو بڑی معلوماتی ہے لیکن اس کتاب میں کافی غلطیا ں ہیں ۔آپ عیاشی کے ساتھ تھے اور انہیں سے روایتی ں نقل کی ہیں ا لبتہ اس کتاب میں ضعیف راویو ں سے بھی روایت نقل کردی ہے (ص٣٦٣) پھر نجاشی ،عیاشی کے سلسلے میں لکھتے ہیں ''ثقة و صدوق'' ، وہ مورد وثوق اوربڑے سچے تھے ''عین من عیون ھٰذہ الطائفہ'' اس گرو ہ شیعہ کی معروف ترین شخصیتو ں میں شمار ہوتے تھے۔ عیاشی پہلے سنی تھے پھر شیعہ ہوئے۔ آپ نے ضعفا سے بہت روایتی ں نقل کی ہیں ۔(ص٢٤٧) شاید کشّی نے یہ قول عیاشی ہی سے حاصل کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کلبی سنی تھے کیونکہ وہ شروع میں سنی تھے۔ ہا ں کلبی اپنے کو چھپا ئے رہتے تھے اور تقیہ پر عمل کرتے تھے جیسا کہ کشی نے ذکر کیاہے۔

۳۲

اسکے بعد شیخ نے ہشام کلبی کا بالکل تذکرہ نہیں کیا ہے؛نہ ہی رجال میں اورنہ ہی فہرست میں ، ہاں اپنے اس طریق میں جس میں ابومخنف کی کتابوں سے روایت نقل کی ہے ہشام کا تذکرہ کیا ہے۔(١)

شاید اس کا سبب یہ ہوکہ کلبی کی جتنی کتابیں تاریخ شیعہ سے مختص ہیں ان سب میں انہوں نے اپنے استاد ابی مخنف سے روایتیں نقل کی ہیں ، لیکن دوسری کتابیں کہ جو شیعوں کی تاریخ سے مخصوص نہیں ہیں دوسرے مورخین سے نقل ہیں ۔ اہل سنت کے سیرو تراجم کے تمام دانشوروں نے ہشام کے علم و حافظہ اور انکے شیعہ ہو نے کی صراحت کی ہے۔ابن خلکان کہتے ہیں : ''تاریخ اور تاریخ نگاری کے سلسلے میں ان کی معلومات بڑی وسیع تھی۔ وہ علم انساب کے سب سے بڑے عالم تھے اور اخباروروایات کے حفظ میں مشہور روزگار تھے ۔آپ کی وفات ٢٠٦ ہجری میں ہوئی ۔(٢)

اہلسنت کے دوسرے بزرگ عالم رجالی ابو احمدبن عدی اپنی کتاب'' کا مل'' میں کہتے ہیں : ''کلبی کی حدیثیں صالح ودرست ہیں ۔ تفسیر میں بھی انکا علم وسیع تھا اور وہ اس علم کے ذریعہ معروف تھے؛ بلکہ تفسیر میں ان سے طولانی اور سیر حاصل بحث کسی نے بھی نہیں کی ہے ۔کلبی تفسیر میں مقاتل بن سلیمان پر برتری اور فضیلت رکھتے ہیں ؛کیو نکہ مقاتل کے یہاں عقیدہ اور مذہب کی سستی وخرابی موجودہے۔ ابن حبان نے کلبی کو ثقات میں شمار کیا ہے'' ۔(٣)

رائج مقتل الحسین

اس زمانے میں متداول، لوگوں کے ہاتھوں اور مطبو عات میں جو مقتل ہے اسے ابو مخنف نے تالیف نہیں کیاہے، بلکہ اسے کسی دوسرے نے جمع کیا ہے، لیکن یہ معلوم نہیں ہے کہ کہاں جمع کیا گیا، کس

____________________

١۔رجال طوسی ،ص١٥٥ ۔

٢۔طبری نے اپنی تاریخ میں کلبی سے ٣٣٠ موارد نقل کئے ہیں ۔ اسکے باوجود اپنی کتاب'' ذیل المذیل ''میں ان کے احوال مر قوم نہیں کئے ہیں ۔ فقط کلبی کے باپ کا تذکرہ(ص١١٠)پر کر تے ہوئے کہا ہے :ان کے دادا بشربن عمرو کلبی ہیں اور انکے فرزند سائب ،عبید او رعبد الرحمن ہیں جو جنگ جمل اور جنگ صفین میں حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ تھے۔

٣۔ لسان المیزان ،ج٢،ص٣٥٩۔

۳۳

نے جمع کیا ،کس کے ہا تھوں یہ کتاب ملی اور سب سے پہلے یہ کتاب کہاں چھپی ہے ؟ کسی کو ان مسائل کا علم نہیں ہے ۔ امام شرف الدین مو سوی رحمةاللہ علیہ فر ماتے ہیں : ''یہ بات مخفی نہیں ہے کہ مقتل امام حسین علیہ السلام میں جو کتاب رائج ہے وہ ابو مخنف کی طرف منسوب ہے جس میں بہت ساری ایسی حد یثیں موجود ہیں جسکا ابو مخنف کو علم بھی نہیں تھا اور یہ سب کی سب حد یثیں جھو ٹی ہیں جو ان کے سر مڑ ھی گئی ہیں ۔جھو ٹوں اور فر یب کاروں نے بہت ساری چیزوں کا اس میں اضافہ کیا ہے۔فر یب کاروں کا جھو ٹی روایتیں گڑھ کر ان کی طرف نسبت دینا خود ان کی عظمت وجلا لت کا بین ثبوت ہے''(١) کیو نکہ جعل ساز کو معلوم ہے کہ تاریخ کے میر کا رواں کا نام ابو مخنف ہے لہذا جھوٹی روایات انہیں کی طرف منسوب کی جائیں تا کہ لوگ صحیح و غلط میں تمییز دیئے بغیر قبول کر لیں ۔

محدث قمی فر ما تے ہیں : یہ بات معلو م ہو نی چاہئے کہ تاریخ و سیر میں ابو مخنف کی کتا بیں کثیر تعدادمیں موجودہیں ، ان میں سے ایک کتاب'' مقتل الحسین'' ہے جسے قدیم بزرگ علماء نے ذکر کیا ہے اور اس پر اعتماد بھی کر تے تھے؛لیکن بہت افسوس کی بات یہ ہے کہ اس وقت اسکا ایک بھی نسخہ مو جو دنہیں ہے۔یہ مقتل جو اس وقت ہما رے ہا تھوں میں ہے اور اسے ابو مخنف کی طرف منسوب کیا جا تاہے در حقیقت ان کا مقتل نہیں ہے بلکہ کسی دوسرے معتمد مورخ کا بھی نہیں ہے ۔اگر کسی کو اس کی تصدیق کر نی ہے تو جو کچھ اس مقتل میں ہے اور جسے طبری وغیرہ نے نقل کیا ہے ان کا مقایسہ کرکے دیکھ لے؛ حقیقت سا منے آجائے گی۔ میں نے اس مطلب کو اپنی کتاب نفس المہموم میں طرماح بن عدی کے واقعہ کے ذیل میں بیان کردیا ہے۔(٢)

اب جبکہ ہم نے اس کتاب کی تحقیق کا بیڑااٹھایا ہے تو ضروری ہے کہ ہم اس کتاب کے جعلی ہونے کی بحث کو غور وخوص کے ساتھ آگے بڑھائیں تاکہ قارئین کرام پر بات واضح سے واضح تر ہوجائے ۔

یہ بات یقینی ہے کہ اس کتاب کی جمع آوری ابو مخنف کے علاوہ کسی اور نے کی ہے لیکن کس نے کی اور کب کی ہے اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا ،اگر چہ اس بات کا اندازہ ضرور ہوتا ہے کے جمع آوری کرنے

____________________

١۔مو لفوا الشیعة فی صدر الا سلام، ص٤٢،طبع النجاح

٢۔ الکنی والالقاب ،ج١ ، ص١٤٨؛نفس المہموم ص١٩٥،اوراس کا مقدمہ، ص٨ ،طبع بصیرتی

۳۴

والا شخص متاخرین میں سے ہے اور عرب زبان ہے لیکن نہ تو تاریخ شناس ہے، نہ حدیث شناس اور نہ ہی علم رجال سے آگاہ ہے حتیٰ عربی ادب سے بھی واقف نہیں ہے کیونکہ کتاب میں اس نے ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں جو جدید عربی کے عام اور بازاری الفاظ ہیں ۔

اس کتاب میں ١٥٠روایات موجود ہیں جن میں سے ٦روایتیں مرسل ہیں ۔

مرسل روایات میں پہلی روایت چوتھے امام حضرت زین العابدین علیہ السلام سے ہے جو ص٤٩ پر موجودہے ۔

دوسری مرسلہ روایت عبداللہ بن عباس سے ہے جو ص٩٤ پرنقل ہوئی ہے ۔

تیسری روایت عمارہ بن سلیمان سے ہے اور وہ حمید بن مسلم سے نقل کرتے ہیں ،ص٨٢۔

چوتھی روایت ایک ایسے شخص سے ہے جس کے بارے میں یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ وہ عبداللہ بن قیس ہے، ص٩٦۔

پانچویں روایت کے بارے میں دعوی کیا جاتا یہ کہ عمار سے نقل ہوئی۔یہ روایت ص٧٠پرکلینی،متوفیٰ ٣٢٩ھسے مرفوعاًمنقول ہے اور اصول کافی میں یہ روایت موجود نہیں ہے۔

جمع آوری کرنے والے نے روایت نمبر١٠٥(١) سے کتاب میں ایک شخص کو داخل کیا ہے جس کا نام سہل شہر زوری ہے اور اس سے بہت ساری حدیثیں نقل کی ہیں ۔مولف نے اس شخص کوکوفہ سے شام ، حتیٰ شا م سے مدینہ تک اہل بیت کے ہمراہ دکھایا ہے اور اس سے ٣١مرسل روایتیں نقل کی ہیں ، منجملہ سہل بن سعد ساعدی کی روایت کو اسی شخص یعنی ''سہل بن سعید شہر زوری ''کے نام سے ذکر کردیا ہے!(٢)

اس کے علاوہ اس کتاب کی بقیہ روایتوں کی نسبت خود ابو مخنف کی طرف دی گئی ہے جو ١٣٨ حدیثیں ہیں ۔

اس کتاب میں بہت ساری واضح اور فاش غلطیاں ہیں جن کی طرف مندرجہ ذیل سطروں میں اشارہ کیا جارہا ہے ۔

____________________

١۔ مقتل ابو مخنف، ص١٠٢،طبع نجف

٢۔مقتل ابو مخنف، ص١٢٣،نجف

۳۵

واضح غلطیاں

اس رائج مقتل میں بہت ساری واضح غلطیاں ہیں :

١۔ ایک صاحب بصیرت قاری اس مقتل کے پہلے صفحے کی پہلی ہی سطر میں واضح غلطی کی طرف متوجہ ہو جائے گاکہ ابو مخنف کہتے ہیں : ''حدثنا ابو المنذرہشام عن محمد بن سائب کلبی'' مجھ سے ابو منذر ہشام نے محمدبن سائب کلبی کے حوالے سے روایت نقل کی ہے ، ذرا غور کیجئے کہ ابو مخنف ہشا م کے استاد ہیں اور وہ اپنے شاگرد ہشام سے روایتیں نقل کررہے ہیں !مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ اس بے اساس مقتل کے مطابق ہشام نے اپنے باپ محمد بن سائب کلبی کے حوالے سے اپنے استاد ابو مخنف کے لئے ان روایات کو نقل کیا ہے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کتاب کو جمع کرنے والا شخص راویوں کے حالات زندگی سے کس قدر نابلد تھا کہ ا س کے اوپر یہ واضح امر بھی مخفی تھا۔(١)

٢۔اس کے بعد جب آپ اس کتاب کے چند اوراق اور پلٹیں گے تو آپ کا اس عبارت سے سامناہو گا '' و روی الکلینی فی حدیث''(٢)

اے کاش معلوم ہوجاتا کہ کلینی سے روایت کرنے والا شخص کون ہے جبکہ کلینی نے ٣٢٩ ہجری میں اس دار فانی کو وداع کیا ہے اور ابو مخنف کی وفات١٥٨ ہجری میں ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ یہ روایت کافی میں بھی موجود نہیں ہے ۔

٣۔کچھ اورورق گردانی کرنے کے بعدآپ کو یہ عبارت ملے گی ؛''فانفذ(یزید)الکتاب الی الولیدوکا ن قد ومه لعشرة ایام خلون من شعبان'' (٣) 'یزید نے خط لکھ کر ولید کی طرف روانہ کیا اور یہ خط دس شعبان کوحاکم مدنیہ کے ہا تھ میں پہنچا '۔جبکہ تمام مورخین کا اس پر اتفاق ہے کہ

____________________

١۔ایسی ہی ایک روایت سید مرتضیٰ نے اپنی کتاب'' تنزیہ الانبیا ئ'' ص ١٧١ میں نقل کی ہے کہ ابن عباس فرزند ہشام نے اپنے والد ہشام سے انھو ں نے ابومخنف سے اور انھو ں نے ابی الکنودعبد الرحمٰن بن عبید سے روایت کی ہے۔شاید اس کتاب کو جمع کرنے والے نے سید کی کتاب یاکسی اور جگہ سے اس بات کو تحریف و تصحیف و زیادتی کے ساتھ نقل کردیا ۔

٢۔ ص٧

٣۔ص١١

۳۶

امام حسین علیہ االسلام ٣ شعبان کو مکہ وارد ہو گئے تھے۔ خود طبری نے ابو مخنف کے حوالے سے بھی یہی لکھا ہے۔اب ذرا غور کیجئے کہ ان دونوں تاریخوں کو کیسے جمع کیا جا سکتا ہے۔

٤۔ سفیر امام حسین جناب مسلم بن عقیل کی شہادت کے سلسلے میں فقط اسی مقتل میں جناب مسلم کے راستے میں گڑھا کھود نے اور انھیں زنجیر میں جکڑ کر عبید اللہ بن زیاد کے دربار میں لے جانے کی خبر ملتی ہے۔کتاب کی عبارت اس طرح ہے : '' ابن زیاد فوج کے پاس آیا اور ان سے کہا : میں نے ایک چال سونچی ہے کہ ہم مسلم کے راستے میں ایک گڑھا کھود دیں اور اسے خس وخا شاک سے چھپا دیں ،پھر حملہ کر کے مسلم کو آگے آنے پر مجبور کریں ۔ جب وہ اس میں گِر جائیں تو ہم انھیں پکڑلیں ۔میں سمجھتا ہوں کہ وہ اس دام میں آکر زندہ نہیں بچ پائیں گے۔(١)

٥۔ اسی طرح یہ خبر بھی فقط اسی کتاب میں موجودہے : ''جب امام حسین علیہ السلام کے دو فدا کا ر ساتھی مسلم و ہانی کو فہ میں شہید کر دیئے گئے اور امام ان دونوں کی خبر سے مطلع نہ ہو سکے تو آپ بہت مضطرب اور پریشان حال نظر آنے لگے لہٰذ ا آپ نے اپنے خاندان والوں کو جمع کرکے سب کو فوراً مدنیہ واپس ہونے کا حکم دیا ۔ امام کے حکم کے مطابق سب کے سب امام کے ہمراہ مدنیہ کی طرف نکل گئے یہاں تک کہ سب لوگ مد نیہ پہنچ گئے۔یہاں پر امام حسین علیہ السلام بنفس نفیس قبر رسو لخدا صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم کے پاس آے اور تعویذقبر سے لپٹ کر زاروقطار رونے لگے اور روتے روتے آپ کی آنکھ لگ گئی ''(٢) جبکہ اس بے بنیاد خبر کا ذکر کسی کتاب یاسفر نامہ میں نہیں ملتا ہے ۔

٦۔تنہا یہی کتاب ہے جس میں یہ خبر ملتی ہے :''جب امام وارد کر بلا ہو ئے تو آپ نے ٧ گھوڑے بدلے؛ لیکن جب کسی گھوڑے نے بھی حرکت نہ کی تو آپ وہیں اترگئے، وہیں پڑاوڈالا اور وہاں سے آگے نہ بڑھے۔''(٣)

٧۔ فقط اسی کتاب میں یہ خبر ملتی ہے کہ امام زین العا بدین علیہ السلام نے نقل فرما یا کہ امام حسین علیہ السلا م شب عاشور کر بلا میں وارد ہو ئے۔(٤)

____________________

١۔ص ٣٠

٢۔ص٣٩

٣۔ ص ٤٨

٤۔ص٤٩

۳۷

٨۔اسی کتاب میں لشکر پسر سعد کی تعداد ٨٠ ہزار بتائی گئی ہے۔(١)

٩۔ تنہا اسی کتاب نے فوج کی آمد پر زہیر بن قین کا خطبہ نقل کیا ہے کہ زہیر بن قین اپنے ساتھیوں کے پاس آئے اور کہا : ''اے گروہ مہاجرو انصار !اس ملعون کتے اور اس جیسے افراد کے کلام تم کو دھو کہ میں نہ ڈالنے پائیں کیو نکہ انھیں محمد صلی اللہ علیہ ولہ وسلم کی شفاعت ملنے والی نہیں ہے، اس لئے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذریت کو قتل کر رہے ہیں اور جو ان کی مددکر رہا ہے اسے بھی قتل کرنے پر آمادہ ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔(٢)

١٠۔ تنہا اسی کتاب میں ہے کہ امام حسین علیہ االسلام نے کنواں کھودا لیکن اس میں پانی نہیں ملا ۔(٣)

١١۔تنہا اسی کتا ب نے شب عا شور اور روز عاشور کے واقعہ کو تین بار بغیر ترتیب کے درہم برہم نقل کیا ہے :

سب سے پہلے امام حسین علیہ السلام کے خطبہ کی خبر نقل کی ہے اور اسکے بعد علمدار کر بلا کی شہادت کی خبر بیان کی ہے۔ تنہا اسی کتاب نے لکھا ہے کہ جب آخری وقت میں حضرت عباس کے ہاتھ کٹ گئے تو انھوں نے تلوار کو منہ سے پکڑ لیا ، اسکے بعد لکھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام خون سے غلطاں لاش پر پہنچے اور ان کی لاش کو گھوڑے کی پشت پر رکھ کرخیمے تک لائے، پھر امام حسین علیہ السلام نے شدید گر یہ کیا اور آپ کے ساتھ جتنے لوگ تھے وہ بھی رونے لگے۔(٤)

اس کے بعد آپ ملا حظہ کریں گے کہ یہ کتاب شب عاشور کے واقعہ کو نقل کر تی ہے جس میں امام حسین اپنے اصحاب کے پاس آئے اور ان سے کہا : ''اے میرے ساتھیوں ،یہ قوم میرے علاوہ کسی اور کو قتل کرنا نہیں چاہتی ہے پس جب شب کا سناٹا چھاجائے تو اس کی تاریکی میں تم سب یہاں سے چلے جاؤ ، پھر آگے بڑھ کر اس طرح رقمطرازہے: اور پھر امام علیہ السلام سو گئے اور جب صبح اٹھے ...۔''(٥)

____________________

١۔ص٥٢

٢۔ ص ٥٦

٣۔ص٥٧

٤۔ ص ٥٩

٥۔ ص ٥٩ ۔ ٦٠

۳۸

پھر وہاں سے پلٹ کر صبح عاشور کی داستان چھیڑ تے ہیں اور امام حسین علیہ االسلام کے ایک دوسرے خطبہ کا ذکر کر تے ہیں ۔تنہا یہی کتا ب ہے جو بیان کر تی ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے پسر سعد کے پاس انس بن کا ہل کو سفیر بنا کر بھیجا۔ جبکہ اس نا مہ بر کا نام انس بن حر ث بن کا ہل اسدی ہے ۔

تیسری بار پھر شب عاشورہ کا تذکر ہ چھیڑ ا اور اس میں امام علیہ االسلام کے ایک دوسرے معروف خطبہ کاذکر کیا جس میں امام نے اپنے اصحاب واہل بیت کو مخا طب کیا ہے۔ اس کے بعد پھر امام حسین علیہ السلام اور پسر سعد کے لشکر کی حکمت عملی کو بیان کیا ہے۔''(١)

١٢۔ تنہا یہی کتاب ہے جس نے امام حسین علیہ السلام کے اصحاب میں ابر اہیم بن حسین کا ذکر کیا ہے۔(٢)

١٣۔ اس کتاب نے طر ماح بن عدی کو شہید کر بلا میں شمار کیا ہے جبکہ طبری نے کلبی کے واسطہ سے ابو مخنف سے نقل کیا ہے کہ طرما ح کر بلا میں موجود نہ تھے اور نہ ہی وہ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ قتل ہوئے ہیں ۔(٣)

محدث قمی نے بھی اپنی کتاب نفس المہموم ص١٩٥ پر اس خبر کے نیچے تعلیقہ لگا یا ہے ۔

١٤۔ جناب حرریا حی کے قصے میں یہ شخص چند اشعار ذکر کر تا ہے جو عبید اللہ بن حر جعفی کے ہیں اور وہ قصر بنی مقاتل کا رہنے والا ہے۔(اس کی قسمت کی خرابی یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے اسے بلا یا تو اس نے مثبت جواب نہیں دیا اور سعادت کی راہ کو خود پر بند کر لیا) لیکن کتاب کی جمع آوری کر نے والے نے ان اشعار کو حر ریاحی سے منسوب کر دیا اور اس پر توجہ بھی نہ کی، کہ یہ اشعارحرریاحی کے حال سے تنا سب نہیں رکھتے، کیو نکہ اس میں ایک شعر کا مصرع یہ ہے :''وقفت علی اجسادہم وقبورہم''(٤)

____________________

١۔ ص ٦١ ٦٢

٢۔ص ٧٠

٣۔ص ٧٢

٤۔ص٧٦ ،طبری نے ج ٥ ص ٤٧٠طبع دار المعارف پر اس شعر کو ابو مخنف سے نقل کیاہے اور انہو ں نے عبد الر حمن بن جندب سے نقل کیا ہے کہ عبید اللہ بن حر نے اس شعر کو مدا ئن میں کہا تھا : یقول امیر غادر وابن غادر۔ ألا کنت قاتلت الشہید ابن فاطمہ ؟ ذرا غور کیجئے کہ اس خیا نت کا ر مؤلف نے کلمات بدل دیے تا کہ یہ شعر حر ریا حی کے حال سے متنا سب ہو جا ئے لیکن پھر بھی متنا سب حال نہ ہو سکا۔ ہا ئے افسوس کہ یہ جمع آوری کر نے والا شخص کتنا نادان تھا ۔

۳۹

١٥۔حر ریاحی کی شہادت پر اما م حسین علیہ السلام کی طرف چند رثائی اشعار منسوب کئے ہیں جبکہ یہ اشعار امام حسین علیہ السلام کی شان امامت سے منا سبت نہیں رکھتے ہیں

نعم الحر اذ واسی حسینا

لقد فازالذی نصرواحسینا!(١)

حر کیا اچھے تھے کہ انھوں نے حسین کی مدد کی حقیقت میں وہی کامیاب ہے جس نے حسین کی مدد کی!

١٦۔نیز اسی کتا ب میں چند اشعار کو امام حسین علیہ السلام کی طرف منسوب کیا گیاہے کہ آپ نے اصحاب کی شہادت پر یہ اشعار کہے جبکہ ان اشعار سے بالکل واضح ہے کہ یہ امام حسین علیہ السلام کے نہیں ہیں بلکہ متا خرین ہی میں سے کسی شاعرکے اشعار ہیں کیو نکہ شاعر اس میں کہتا ہے کہ ''نصرواالحسین فیا لھم من فتےة''اسی طرح کے اور دوسرے اشعاربھی ہیں ۔(٢)

١٧۔ اسی کتاب نے کر بلا میں امام حسین علیہ السلام کے ورود کا دن روز چہار شنبہ لکھا ہے(٣) اور شہادت کا دن روز دوشنبہ تحریر کیا ہے ۔(٤) اس کا مطلب یہ ہوا کہ امام حسین علیہ السلام پانچ محرم کو کر بلا وارد ہو ئے ہیں جبکہ تمام مورخین ، منجملہ تا ریخ طبری کی روایت کے مطابق ابو مخنف کا نظریہ بھی یہی ہے کہ امام علیہ السلام٢ محرم کو وارد کر بلا ہو ئے اور وہ پنجشنبہ کا دن تھا۔(٥)

١٨۔ اس کتا ب کی تدوین کر نے والے نے روایت نمبر ١٠٥(٦) سے مسلسل ایک ہی راوی سے کثرت کے ساتھ روایت نقل کی ہے جس کے بارے میں اس شخص نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کا نام سہل شہر زوری ہے۔ اس شخص کو مؤ لف نے کو فہ سے شام اور وہاں سے مد ینہ تک اہل حرم کے ساتھ دکھا یا

____________________

١۔ص ٧٩

٢۔ص ٨٥

٣۔ص ٤٨

٤۔ ص ٩٣

٥۔ ج ٥، ص ٤٠٩ ،اس مطلب کی تا ئید وہ روایت بھی کر تی ہے جسے اربلی نے کشف الغمہ، ج٢،ص ٥٥٢پرامام جعفر صادق سے نقل کیا ہے کہ'' وقبض یو م عاشورء ، الجمعہ ''جس کانتیجہ یہ ہو گا عاشور جمعہ کو تھا ۔

٦۔ص١٠٢

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

اس سے دل لگانا صحیح ہے ؟

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد ہے :

(مالی وللدنیا،انما مَثَلی کمثل راکبٍ مرّللقیلولة فی ظلّ شجرة فی یوم صائف ثم راح وترکها )( ۱ )

''دنیا سے میرا کیا تعلق ؟میری مثال تو اس سوار کی سی ہے جوتیز ہوائوں کے تھپیڑوں کے درمیان آرام کی خاطر کسی درخت کے نیچے لیٹ جاتا ہے اور پھر اس جگہ کو چھوڑکر چل دیتا ہے ''

امیر المومنین حضرت علی نے اپنے فرزند امام حسن کو یہ وصیت فرمائی ہے :

(یابنیّ انی قدأنباتک عن الدنیا وحالها،وزوالها،وانتقالها،وأنبأتک عن الآخرةومااُعدّ لأهلها فیها،وضربتلک فیهماالأمثال،لتعتبربها، وتحذو علیها،انمامثل من خبرالدنیاکمثل قوم سفرنبا بهم منزل جذیب فأمّوا منزلاًخصیباً، وجناباً مریعاً،فاحتملواوعثاء الطریق،وفراق الصدیق،وخشونةالسفرومَثَل من اغترّبهاکمثل قوم کانوابمنزل خصیب فنبابهم الیٰ منزل جذیب،فلیس شیء أکره الیهم ولاأفضع عندهم من مفارقة ماکانوا فیه الیٰ مایهجمون علیه ویصیرون الیه )( ۲ )

''۔۔۔اے فرزند میں نے تمہیں دنیااوراسکی حالت اوراسکی بے ثباتی و ناپائیداری سے خبردار کردیا ہے ۔اور آخرت اور آخرت والوں کے لئے جو سروسامان عشرت مہیّاہے اس سے بھی آگاہ کردیا ہے اور ان دونوں کی مثالیںبھی تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں تاکہ ان سے عبرت حاصل کرو

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ص۱۱۹۔

(۲)نہج البلاغہ مکتوب ۳۱۔

۲۴۱

اور ان کے تقاضے پر عمل کرو۔جن لوگوں نے دنیا کو خوب سمجھ لیا ہے ان کی مثال ان مسافروںکی سی ہے جن کا قحط زدہ منزل سے دل اچاٹ ہوا،اور انھوں نے راستے کی دشواریوں کو جھیلا، دوستوںکی جدائی برداشت کی،سفر کی صعوبتیںگواراکیں،اور کھانے کی بد مزگیوںپر صبر کیاتاکہ اپنی منزل کی پہنائی اور دائمی قرارگاہ تک پہنچ جائیں ۔اس مقصد کی دھن میں انھیں ان سب چیزوں سے کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔اور جتنا بھی خرچ ہوجائے اس میں نقصان معلوم نہیں ہوتا۔انھیں سب سے زیادہ وہی چیز مرغوب ہے جو انہیں منزل کے قریب اور مقصدسے نزدیک کردے اور اسکے برخلاف ان لوگوں کی مثال جنہوں نے دنیا سے فریب کھایاان لوگوں کی سی ہے جو ایک شاداب سبزہ زار میں ہوں اور وہاں سے دل برداشتہ ہوجائیں اور اس جگہ کا رخ کرلیں جو خشک سالیوں سے تباہ ہو۔ان کے نزدیک سخت ترین حادثہ یہ ہوگا کہ وہ موجودہ حالت کو چھوڑکرادھر جائیںکہ جہاں انھیں اچانک پہنچناہے اور بہر صورت وہاںجاناہے ۔۔۔ ''

حضرت عمر ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا آپ ایک بورئیے پر آرام فرمارہے ہیں اور آپ کے پہلو پر اسکا نشان بن گیاہے توعرض کی اے نبی خدا:

(یانبیّ ﷲ،لواتخذت فراشاً أوثر منه؟فقال صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :مالی وللدنیا،مامَثلی ومثَل الدنیا الاکراکب سارفی یوم صائف فاستظلّ تحت شجرة ساعة من نهار،ثم راح وترکها )( ۱ )

اگر آپ اس سے بہتربستر بچھالیتے تو کیا تھا ؟پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :''دنیا سے میرا کیا تعلق؟میری اور دنیا کی مثال ایک سوار کی سی ہے جوتیز ہوائوں کے درمیان چلا جارہا ہو اور دن میں تھوڑی دیر آرام کرنے کے لئے کسی سایہ داردرخت کے نیچے رک جائے اور پھر اس جگہ کوچھوڑ کرآگے بڑھ جائے''

____________________

(۱)بحارالانوارج ۷۳ص۱۲۳۔

۲۴۲

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(ان الدنیالیست بدارقرارولامحلّ اقامة،انّما أنتم فیهاکرکب عرشوا وارتاحوا،ثم استقلّوا فغدوا وراحوا،دخلوهاخفافاً،وارتحلواعنها ثقالاً،فلم یجدواعنهانزوعاً،ولاالی ما ترکوبهارجوعاً )( ۱ )

''یہ دنیا دار القرار اور دائمی قیام گا ہ نہیں ہے تم یہاں سوار کی مانند ہو 'جنہوں نے کچھ دیرکیلئے خیمہ لگایا اور پھر چل پڑے پھر دوسری منزل پر تھوڑا آرام کیا اور صبح ہوتے ہی کوچ کر گئے ، ہلکے پھلکے (آسانی سے)اترے اور لاد پھاندکر مشکل سے روانہ ہوئے نہ انہیں اسکا کبھی اشتیاق ہوا اور جس کو ترک کرکے آگئے نہ اسکی طرف واپسی ممکن ہوئی ''

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں عرض کیا گیا :انسان دنیا میں کیسے زندگی بسر کرے ؟آپ نے فرمایا جیسے قافلہ گذرتا ہے۔ دریافت کیا گیا اس دنیا میں قیام کتنا ہے ؟آپ نے فرمایا جتنی دیر قافلہ سے چھوٹ جانے والا رہتا ہے ۔دریافت کیا گیا! دنیا وآخرت میں فاصلہ کتنا ہے ؟آپ نے فرمایا پلک جھپکنے کا۔( ۲ ) اور اس آیۂ کریمہ کی تلاوت فرمائی :

(کأنّهم یوم یرون ما یوعدون لم یلبثوا الاساعة من نهار )( ۳ )

''تو ایسا محسوس کرینگے جیسے دنیا میں ایک دن کی ایک گھڑی ہی ٹھہرے ہیں ''

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(الدنیاظلّ الغمام،وحلم المنام )( ۴ )

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۸ص۱۸۔

(۲)بحارالانوار ج۷۳ص۱۲۲۔

(۳)سورئہ احقاف آیت ۳۵۔

(۴)غررالحکم ج۱ص۱۰۲۔

۲۴۳

''دنیا بادل کا سایہ اورسونے والے کا خواب ہے ''

امام محمد باقر نے فرمایا :

(انّ الدنیاعند العلماء مثل الظل )( ۱ )

''اہل علم کے نزدیک دنیا سایہ کے مانند ہے ''

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(ألاوان الدنیادارلایسلم منها الافیها،ولاینجیٰ بشی ء کان لها،اُبتلی الناس فیها فتنة فماأخذوه منهالهاأخرجوامنه وحوسبواعلیه،وماأخذوهُ منها لغیرها، قدموا علیه وأقاموا فیه،فانهاعند ذوی العقول کفیٔ الظلّ بینا تراه سابغاً حتیٰ قلص،وزائداً حتیٰ نقص )( ۲ )

''یاد رکھو یہ دنیا ایسا گھر ہے جس سے سلامتی کا سامان اسی کے اندر سے کیا جاسکتا ہے اور کوئی ایسی شے وسیلہ نجات نہیں ہوسکتی ہے جو دنیا ہی کے لئے ہو۔لوگ اس دنیا کے ذریعہ آزمائے جاتے ہیں جو لوگ دنیا کا سامان دنیا ہی کے لئے حاصل کرتے ہیں وہ وہاں جاکر پالیتے ہیں اور اسی میں مقیم ہوجاتے ہیں ۔یہ دنیا در حقیقت صاحبان عقل کی نظر میں ایک سایہ جیسی ہے جو دیکھتے دیکھتے سمٹ جاتا ہے اور پھیلتے پھیلتے کم ہوجاتا ہے ''

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ص۱۲۶۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ ۶۳۔

۲۴۴

دنیا ایک پل

دین اسلام مسلمان کو دنیا کے بارے میں ایک ایسے نظریہ کا حامل بنانا چاہتا ہے کہ اگر اسکے دل میں یہ عقیدہ و نظریہ راسخ ہوجائے توپھر دنیا کو ایک ایسے پل کے مانند سمجھے گا جس کے اوپر سے گذر کر اسے جانا ہے اور اس مسلمان کی نگاہ میں یہ دنیا دار القرار نہیں ہوگی ۔جب ایسا عقیدہ ہوگا تو خود بخود مسلمان دنیا پرفریفتہ نہ ہوگا اور اسکی عملی زندگی میں بھی اس کے نتائج نمایاں نظر آئیںگے۔

حضرت عیسیٰ کا ارشاد ہے :

(انما الدنیا قنطرة )( ۱ )

''دنیا ایک پل ہے ''

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد گرامی ہے :

(أیهاالناس انماالدنیادارمجازوالآخرة دار قرار،فخذوامن ممرّکم لمقرّکم،ولاتهتکواأستارکم عند من یعلم أسرارکم )( ۲ )

''اے لوگو !یہ دنیا گذر گاہ ہے اور آخرت دار قرارہے لہٰذا اپنے راستہ سے اپنے ٹھکانے کے لئے تو شہ اکٹھا کرلواور جو تمہارے اسرار کو جانتا ہے اس کے سامنے اپنے پردوں کو چاک نہ کرو ''

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے :

(الدنیا دارممرّولادار مقرّ،والناس فیهارجلان:رجل باع نفسه فأوبقها، ورجل ابتاع نفسه فأعتقها )( ۳ )

''دنیا گذرگاہ ہے دارالقرار نہیں اس میں دو طرح کے لوگ رہتے ہیں کچھ وہ ہیں جنھوں نے دنیا کے ہاتھوں اپنا نفس بیچ دیا تو وہ دنیا کے غلام ہوگئے کچھ وہ ہیں جنہوں نے اپنے نفس کوخرید لیااور دنیا کو آزاد کردیا''

____________________

(۱)بحارالانوار ج۱۴ص۳۱۹۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ۲۰۳۔

(۳)شرح نہج البلاغہ ج۱۸ص۳۲۹۔

۲۴۵

اسباب ونتائج کا رابطہ

اسلامی فکر کا امتیاز یہ ہے کہ وہ انسانی مسائل سے متعلق اسباب و نتائج کو ایک دوسرے سے لاتعلق قرار نہیں دیتی بلکہ انھیں آپس میں ملاکر دیکھنے اور پھراس سے نتیجہ اخذ کرنے کی قائل ہے جب ہم انسانی اسباب و نتائج کے بارے میں غورکرتے ہیں تو ان مسائل میں اکثر دو طرفہ رابطہ نظر آتا ہے یعنی دونوں ایک دوسرے پراثر انداز ہوتے ہیں ۔انسانی مسائل میںایسے دوطرفہ رابطوں کی مثالیں بکثرت موجود ہیں مثلاًآپ زہد اور بصیرت کو ہی دیکھئے کہ زہد سے بصیرت اور بصیرت سے زہد میں اضافہ ہوتا ہے ۔

یہاں پر ہم ان دونوں سے متعلق چند روایات پیش کر رہے ہیں ۔

زہد وبصیرت

(أفمن شرح ﷲصدرہ للاسلام فھوعلیٰ نورٍمِن ربَّہِ)کی تفسیر کے ذیل میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :

(ان النوراذاوقع فی القلب انفسح له وانشرح)،قالوا یارسول ﷲ:فهل لذٰلک علامةیعرف بها؟قال:(التجافی من دارالغرور،والانابة الیٰ دارالخلود، والاستعداد للموت قبل نزول الموت )

''قلب پر جب نور کی تابش ہوتی ہے تو قلب کشادہ ہوجاتا ہے اور اس میں وسعت پیدا ہوجاتی ہے عرض کیا گیا یا رسول ﷲ اسکی پہچان کیا ہے ؟

۲۴۶

آپ نے فرمایا :

''دار الغرور(دنیا)سے دوری ،دارالخلود(آخرت)کی طرف رجوع اور موت آنے سے پہلے اسکے لئے آمادہ ہوجانا ہے ''( ۱ )

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(أحقّ الناس بالزهادة،من عرف نقص الدنیا )( ۲ )

''جو دنیا کے نقائص سے آگاہ ہے اسے زیادہ زاہد ہونا چاہئے''

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے :

(من صوّرالموت بین عینیه،هان أمرالدنیا علیه )( ۳ )

''جس کی دونوں آنکھوں کے سامنے موت کھڑی رہتی ہے اس کے لئے دنیا کے امور آسان ہوجاتے ہیں ''

نیز آپ نے فرمایا :(زهدالمرء فیمایفنیٰ،علی قدر یقینه فیما یبقیٰ )( ۴ )

''فانی اشیائ(دنیا)کے بارے میں انسان اتناہی زاہد ہوتا ہے جتنا اسے باقی اشیاء (آخرت )کے بارے میں یقین ہوتا ہے ''

زہدو بصیرت کا رابطہ

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت ابوذر (رح)سے فرمایا :

(یاأباذر:مازهد عبد فی الدنیا،الاأنبت ﷲ الحکمة فی قلبه،وأنطق بهالسانه ،ویبصّره عیوب الدنیا وداء ها ودواء ها،وأخرجه منهاسالماًالی دارالسلام )( ۵ )

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ص۱۲۲۔

(۲)غررالحکم۔

(۳)غررالحکم ۔

(۴)بحارالانوار ج۷۰ص۳۱۹۔

(۵)بحارالانوار ج۷۷ص۸۔

۲۴۷

''اے ابوذر جو شخص بھی زہداختیار کرتاہے ﷲ اس کے قلب میں حکمت کا پودا اگا دیتا ہے اور اسے اسکی زبان پر جاری کر دیتا ہے اسے دنیا کے عیوب ،اوردرد کے ساتھ انکاعلاج بھی دکھا دیتا ہے اور اسے دنیا سے سلامتی کے ساتھ دارالسلام لے جاتا ہے ''

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے :

(من یرغب فی الدنیا فطال فیهاأمله،أعمیٰ ﷲ قلبه علیٰ قدررغبته فیها، ومن زهد فیها فقصُرأمله أعطاه ﷲعلماًبغیرتعلّم،وهدیً بغیرهدایة،وأذهب عنه العماء وجعله بصیراً )( ۱ )

جو دنیا سے رغبت رکھتا ہے اسکی آرزوئیں طویل ہوجاتی ہیں اوروہ جتنا راغب ہوتا ہے اسی مقدار میں خدا اسکے قلب کوا ندھا کر دیتا ہے اور جو زہد اختیار کر تا ہے اسکی آرزوئیں قلیل ہوتی ہیں ﷲ اسے تعلیم کے بغیرعلم اور رہنما ئی کے بغیرہدایت عطا کرتا ہے اور اس کے اند ھے پن کو ختم کر کے اسے بصیر بنا دیتا ہے ''

ایک دن پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں کے درمیان آئے اور فرمایا:

(هل منکم من یریدأن یؤتیه ﷲ علماًبغیرتعلّم،وهدیاًبغیرهدایة؟هل منکم من یریدأن یذهب عنه العمیٰ و یجعله بصیراً؟ألاانه من زهد فی الدنیا،وقصرأمله فیها،أعطاه ﷲعلماًبغیرتعلّم،وهدیاً بغیرهدایة )( ۲ )

''کیا تم میں سے کوئی اس بات کا خواہاں ہے کہ ﷲ اسے تعلیم کے بغیر علم اور رہنمائی کے بغیرہدایت دیدے۔ تم میں سے کوئی اس بات کا خواہاں ہے کہ ﷲ اس کے اندھے پن کو دور کر کے اسے بصیر بنادے ؟آگاہ ہو جائو جو شخص بھی دنیا میں زہدا ختیار کر ے گااور اپنی آرزوئیں قلیل رکھے گا

____________________

(۱)بحارالانوارج۷۷ص۲۶۳۔

(۲)درالمنثورج۱ص۶۷۔

۲۴۸

ﷲاسے تعلیم کے بغیرعلم اور رہنمائی کے بغیرہدایت عطاکر ے گا ''

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

(یاأباذراذارأیت أخاک قدزهد فی الدنیا فاستمع منه،فانه یُلقّیٰ الحکمة )( ۱ )

''اے ابوذراگر تم اپنے کسی بھائی کو دیکھو کہ وہ دنیا میں زاہد ہے تو اسکی باتوںکو(دھیان سے ) سنو کیونکہ اسے حکمت عطا کی گئی ہے ''

ان روایات سے معلوم ہو تا ہے کہ زہد وبصیرت میں دو طرفہ رابطہ ہے ،یعنی زہد کا نتیجہ بصیرت اور بصیرت کا نتیجہ زہد ہے ۔اسی طرح زہد اور قلتِ آرزو کے مابین بھی دو طرفہ رابطہ ہے زہد سے آرزووں میں کمی اور اس کمی سے زہد پیدا ہوتا ہے زہد اورقلت آرزو کے درمیان رابطہ کے بارے میں امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :(الزهدیخلق الابدان،ویحدّدالآمال،ویقرّب المنیة،ویباعدالاُمنیة،من ظفر به نصب،ومن فاته تعب )( ۲ )

'' زہد،بدن کو مناسب اور معتدل ،آرزووں کو محدود،موت کو نگاہوں سے نزدیک اور تمنائوں کو انسان سے دور کردیتا ہے جو اسکو پانے میں کامیاب ہوگیا وہ خوش نصیب ہے اور جو اسے کھو بیٹھا وہ در دسر میں مبتلاہوگیا''

آرزووں کی کمی اورزہد کے رابطہ کے بارے میں امام محمد باقر کا ارشاد ہے:

(استجلب حلاوة الزهادة بقصرالامل )( ۳ )

''آرزو کی قلت سے زہد کی حلاوت حاصل کرو''

ان متضاد صفات کے درمیان دو طرفہ رابطہ کا بیان اسلامی فکر کے امتیازات میں سے ہے

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۷ص۸۰ ۔

(۲)بحارالانوارج ۷۰ص۳۱۷۔

(۳)بحارالانوار ج۷۸ص۱۶۴۔

۲۴۹

زہد وبصیرت یا زہد وقلتِ آرزو کے درمیان دو طرفہ رابطہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ان دونوں چیزوں کے اندر ایک دوسرے کے ذریعہ اضافہ ہوتا رہتا ہے اور اس سے انسان ترقی کرتا رہتا ہے۔ اس طرح کہ بصیرت سے زہد کی کیفیت پیدا ہو تی ہے اور جب انسان زاہد ہو جاتا ہے تو بصیرت کے اعلیٰ مراتب حاصل ہو جاتے ہیں نیزبصیرت کے ان اعلیٰ مراتب سے زہد میں اضافہ ہوتا ہے اور اس زہد سے پھر بصیرت کے مزید اعلیٰ مراتب وجود پاتے ہیں۔اسطرح انسان ان دونوں صفات وکمالات کے ذریعہ بلندیوں تک پہنچ جاتا ہے۔

مذموم دنیا اور ممدوح دنیا

۱۔مذموم دنیا

اس سے قبل ہم نے ذکر کیا تھا کہ دنیا کے دو چہرے ہیں:

( ۱ ) ظاہری

( ۲ ) باطنی

دنیا کا ظاہر ی چہرہ فریب کا سر چشمہ ہے ۔یہ چہرہ انسانی نفس میں حب دنیا کا جذبہ پیدا کرتا ہے جبکہ باطنی چہرہ ذریعۂ عبرت ہے یہ انسان کے نفس میں زہدکا باعث ہوتا ہے روایات کے مطابق دنیا کا ظاہری چہرہ مذموم ہے اور باطنی چہرہ ممدوح ہے ۔

ایسا نہیں ہے کہ واقعاً دنیا کے دو چہرے ہیں یہ فرق در حقیقت دنیا کو دیکھنے کے انداز سے پیدا ہوتا ہے ورنہ دنیا اور اسکی حقیقت ایک ہی ہے ۔فریب خور د ہ نگاہ سے اگر دنیا کو دیکھا جائے تو یہ دنیا مذموم ہوجاتی ہے اور اگر دیدئہ عبرت سے دنیا پر نگاہ کی جائے تو یہی دنیاممدوح قرار پاتی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لذات وخواہشات سے لبریز دنیا کا ظاہری چہرہ ہی مذموم ہے ۔

یہاں پر دنیا کے مذموم رخ کے بارے میں چند روایات پیش کی جارہی ہیں ۔

۲۵۰

امیر المومنین حضرت علی نے فرمایا:

(الدنیا سوق الخسران )( ۱ )

''دنیا گھاٹے کا بازار ہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا مصرع العقول )( ۲ )

''دنیا عقلوں کا میدان جنگ ہے ''

آپ کا ہی ارشاد ہے :

(الدنیا ضحکة مستعبر )( ۳ )

''دنیا چشم گریاں رکھنے والے کے لئے ایک ہنسی ہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا مُطَلَّقةُ الاکیاس )( ۴ )

''دنیاذہین لوگوں کی طلاق شدہ بیوی ہے''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا معدن الشرور،ومحل الغرور )( ۵ )

''دنیا شروفسا دکا معدن اور دھوکے کی جگہ ہے''

____________________

(۱)غررا لحکم ج ۱ص۲۶۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۴۵۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۲۶۔

(۴)غررالحکم ج۱ص۲۸۔

(۵)غررالحکم ج۱ص۷۳۔

۲۵۱

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیالا تصفولشارب،ولا تفی لصاحب )( ۱ )

''دنیا کسی پینے والے کے لئے صاف وشفاف اور کسی کے لئے باوفا ساتھی نہیں ہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا مزرعة الشر )( ۲ )

''دنیا شروفسا دکی کا شت کی جگہ ہے''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا مُنیة الاشقیائ )( ۳ )

''دنیا اشقیا کی آرزوہے''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الد نیا تُسْلِمْ )( ۴ )

''دنیا دوسرے کے حوالے کر دیتی ہے''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا تُذِلّْ )( ۵ )

''دنیا ذلیل کرنے والی ہے''

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص ۸۵۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۲۶۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۳۷۔

(۴)غررالحکم ج۱ص۱۱۔

(۵)غررالحکم ج۱ص۱۱۔

۲۵۲

دنیا سے بچائو

امیر المو منین حضرت علی ہمیں دنیا سے اس انداز سے ڈراتے ہیں :

(أُحذّرکم الدنیافانّهالیست بدارغبطة،قدتزیّنت بغرورها،وغرّت بزینتهالمن ان ینظرالیها )( ۱ )

''میں تمہیں دنیا سے ڈراتا ہوں کیونکہ یہ فخرومباہات کاگھر نہیں ہے ۔یہ اپنے فریب سے مزین ہے اور جو شخص اسکی طرف دیکھتا ہے اسے اپنی زینت سے دھوکے میں مبتلاکردیتی ہے ''

ایک اور مقام پر آپ کا ارشاد گرامی ہے :

(أُحذّرکم الدنیافانها حُلوة خضرة،حُفّت بالشهوات )( ۲ )

''میں تمہیں اس دنیا سے بچنے کی تاکید کرتا ہوں کہ یہ دنیا سرسبز وشیریں اورشہوتوں سے گھری ہوئی ہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(احذروا هذه الدنیا،الخدّاعة الغدّارة،التی قد تزیّنت بحلیّها،وفتنت بغرورها،فأصبحت کالعروسة المجلوة،والعیون الیها ناظرة )( ۳ )

''اس دھو کے باز مکار دنیا سے بچو یہ دنیا زیورات سے آراستہ اور فتنہ ساما نیوں کی وجہ سے سجی سجائی دلہن کی مانندہے کہ آنکھیں اسی کی طرف لگی رہتی ہیں ''

ب :ممدوح دنیا

دنیا کا دوسرا رخ اوراس کے بارے میں جو دوسرانظر یہ ہے وہ قابل مدح وستائش ہے البتہ

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۸ ص۲۱۔

(۲)بحارالانوار ج۷۳ص۹۶۔

(۳)بحارالانوارج۷۳ص۱۰۸۔

۲۵۳

یہ قابل ستائش رخ اس دنیا کے باطن سے نکلتا ہے جو قابل زوال ہے جبکہ مذموم رخ ظاہری دنیا سے متعلق تھا ۔

بہر حال یہ طے شدہ بات ہے کہ دنیا کے دورخ ہیں ایک ممدوح اور دوسرا مذموم ۔ممدوح رخ کے اعتبار سے دنیا نقصان دہ نہیں ہے بلکہ نفع بخش ہے اورمضر ہونے کے بجائے مفید ہے اسی رخ سے دنیا آخرت تک پہو نچانے والی ،مومن کی سواری ،دارصدق اوراولیاء کی تجارت گاہ ہے۔لہٰذادنیا کے اس رخ کی مذمت صحیح نہیں ہے روایات کے آئینہ میں دنیا کے اس رخ کوبھی ملا حظہ فرما ئیں ۔

۱۔دنیا آخرت تک پہو نچانے والی

امام زین العابدین نے فرمایا :

(الدنیا دنیاءان،دنیابلاغ،ودنیاملعونة )( ۱ )

''دنیا کی دو قسمیں ہیں ؟دنیا ئے بلاغ اور دنیا ئے ملعونہ ''

دنیائے بلاغ سے مراد یہ ہے کہ دنیا انسان کو آخرت تک پہو نچاتی ہے اور خدا تک رسائی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ۔بلاغ کے یہی معنی ہیں اوریہ دنیا کی پہلی قسم ہے ۔

دوسری دنیا جو ملعون ہے وہ دنیا وہ ہے جوانسان کو ﷲسے دورکرتی ہے اس لئے کہ لعن بھگانے اور دور کرنے کو کہتے ہیں اب ہرانسان کی دنیااِنھیں دومیں سے کوئی ایک ضرورہے یاوہ دنیا جو خدا تک پہونچاتی ہے یاوہ دنیا جو خدا سے دور کرتی ہے ۔

اسی سے ایک حقیقت اور واضح ہو جاتی ہے کہ انسان دنیا میں کسی ایک مقام پر ٹھہر انہیں رہتا ہے بلکہ یا تووہ قرب خداکی منزلیں طے کرتا رہتا ہے یا پھر اس سے دور ہوتا جاتا ہے ۔

امیر المو منین حضرت علی کا ارشاد ہے :

____________________

(۱)بحارالانوارج۷۳ص۲۰۔

۲۵۴

(لاتسألوافیها فوق الکفاف،ولاتطلبوامنها أکثرمن البلاغ )( ۱ )

''اس دنیا میں ضرورت سے زیادہ کا سوال مت کرو اور نہ ہی کفایت بھر سے زیادہ کا مطالبہ کرو ''

اس طرح اس دنیا کا مقصد (بلاغ)ہے اور انسان دنیا میں جو بھی مال ومتاع حاصل کرتا ہے وہ صرف اس مقصد تک پہونچنے کیلئے ایک ذریعہ اور وسیلہ ہے اس طرح انسان کی ذمہ داری ہے کہ دنیا میں صرف اتنا ہی طلب کرے جس سے اپنے مقصود تک پہنچ سکے لہٰذا اس مقدار سے زیادہ مانگنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی وسیلہ کو مقصد بنانا چا ہئے اور یہ یادر کھنا چاہئے کہ دنیا وسیلہ ہے آخری مقصد نہیں ہے بلکہ آخری مقصد آخرت اور خدا تک رسائی ہے ۔

امیرا لمو منین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(الدنیاخلقت لغیرها،ولم تخلق لنفسها )( ۲ )

''دنیا اپنے لئے نہیں بلکہ اپنے غیر (آخرت تک رسائی )کیلئے خلق کی گئی ہے''

وسیلہ کو مقصد قرار دے دیاجائے یہ بھی غلط ہے اسی طرح واسطہ کو وسیلہ اور مقصد(دونوں ) قرار دینا بھی غلط ہے اسی لئے امیرالمو منین نے فر مایا ہے کہ دنیاکو صرف اس مقدارمیںطلب کرو جس سے آخرت تک پہونچ سکو ۔

لیکن خود حصول دنیا کے سلسلہ میں آپ نے فرمایا کہ صرف بقدر ضرورت سوال کرو ۔امام کے اس مختصر سے جملے میں حصول رزق کے لئے سعی و کو شش کے سلسلہ میں اسلام کا مکمل نظریہ موجود ہے ۔چونکہ مال و متاع ِ دنیا آخرت تک پہنچنے کا ذریعہ ہے لہٰذا کسب معاش اور تحصیل رزق ضروری ہے لیکن اس تلاش و جستجو میں ''بقدر ضرورت ''کا خیال رکھنا ضروری ہے اور ''بقدر ''ضرورت سے مراد وہ

____________________

(۱)بحارالانوارج ۷۳ص۸۱۔

(۲)نہج البلاغہ حکمت ۴۵۵۔

۲۵۵

مقدار ہے کہ جس کے ذریعہ دنیاوی زندگی کی ضرورتیں پوری ہو تی رہیں اور آخرت تک رسائی ہو سکے

انسا نی ضرورت واقعی اور ضروری بھی ہو تی ہے اور غیر واقعی یا وہمی بھی ۔یعنی اسے زندہ رہنے اور آخرت تک رسائی کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ حقیقی ضرورتیں ہیں ۔اوران کے علاوہ کچھ غیر ضروری چیزیں بھی احتیاج وضرورت کی شکل میں انسان کے سامنے آتی ہیںجو در حقیقت حرص و طمع ہے اوران کا سلسلہ کبھی ختم ہو نے والا نہیں ہے اگر انسان ایک مرتبہ ان کی گرفت میں آگیا تو پھر ان کی کو ئی انتہا ء نہیں ہوتی ۔ان کی راہ میں جد وجہد کرتے ہوئے انسان ہلاک ہو جاتا ہے مگر اس جد و جہد سے اذیت و طمع میں اضافہ ہی ہوتا ہے ۔

حضرت امام جعفر صادق نے اپنے جد بزرگوار حضرت علی کا یہ قول نقل فرمایاہے:

یابن آدم:ان کنت ترید من الدنیامایکفیک فان أیسرما فیهایکفیک،و ان کنت انما ترید مالیکفیک فان کل ما فیهایکفیک ( ۱ )

''اے فرزند آدم اگر تو دنیا سے بقدر ضرورت کا خواہاں ہے تو تھوڑا بہت ،جو کچھ تیرے پاس ہے وہی کا فی ہے اور اگر تو اتنی مقدار میں دنیا کا خواہاں ہے جو تیری ضرورت سے زیادہ ہے تو پھر دنیا میں جو کچھ ہے وہ بھی نا کافی ہے ''

دنیا کے بارے میں یہ دقیق نظریہ متعدد اسلامی روایات اور احا دیث میں وارد ہوا ہے ۔

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے:

ألا وان الدنیادار لا یُسلَم منها الا فیها،ولاینجیٰ بشی ء کان لها،ابتلی الناس بها فتنة،فما أخذوه منها لهااُخرجوا منه وحوسبوا علیه،

____________________

(۱)اصول کافی ج۲ص۱۳۸۔

۲۵۶

وما أخذوه منهالغیرها قدمواعلیه وأقاموا فیه )( ۱ )

''آگاہ ہو جا ئو کہ یہ دنیا ایسا گھرہے جس سے سلامتی کا سامان اسی کے اندر سے کیا جاسکتا ہے اور کو ئی ایسی شئے وسیلۂ نجات نہیں ہو سکتی ہے جو دنیا ہی کے لئے ہو ۔لوگ اس دنیا کے ذریعہ آزمائے جاتے ہیں ۔جو لوگ دنیا کا سامان ،دنیا ہی کیلئے حاصل کرتے ہیں وہ اسے چھوڑکر چلے جاتے ہیں اور پھر حساب بھی دینا ہوتا ہے اور جولوگ یہاں سے وہاںکیلئے حاصل کرتے ہیں وہ وہاں جاکر پالیتے ہیں اور اسی میں مقیم ہوجاتے ہے یہ دنیا در حقیقت صاحبان عقل کی نظر میں ایک سایہ جیسی ہے جو دیکھتے دیکھتے سمٹ جاتا ہے اور پھیلتے پھیلتے کم ہوجاتا ہے ''

ان کلمات میں اختصار کے باوجود بے شمار معانی ومطالب پائے جاتے ہیں (دارلایسلم منها اِلا فیها )اس فقرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان سے فرار اور خدا تک رسائی کے لئے دنیا مومن کی سواری ہے اس کے بغیر اسکی بارگاہ میں رسائی ممکن نہیں ہے عجیب وغریب بات ہے کہ دنیا اور لوگوں سے کنا رہ کشی کرنے والا قرب خدا کی منزل مقصود تک نہیں پہونچ سکتا بلکہ ﷲ یہ چاہتا ہے کہ بندہ اسی دنیا میں رہ کر اسی دنیا کے سہارے اپنی منزل مقصود حاصل کرے۔لہٰذا ان کلمات سے پہلی حقیقت تو یہ آشکار ہوئی ہے کہ دنیا واسطہ اور وسیلہ ہے اس کو نظر انداز کرکے مقصدحاصل نہیںکیاجاسکتا۔

لیکن یہ بھی خیال رہے کہ دنیا مقصد نہ بننے پائے۔ اگر انسان دنیا کو وسیلہ کے بجائے ہدف اور مقصد بنالے گا تو ہرگز نجات حاصل نہیں کرسکتا (ولاینجی لشی کان لھا) اس طرح اگر انسان نے دنیا کواس کی اصل حیثیت ''واسطہ ووسیلہ''سے الگ کردیا اور اسی کو ہدف بنالیا تو پھر دنیاشیطان سے نجات اور خدا تک پہنچانے کی صلاحیت کھو بیٹھتی ہے یہ دوسری حقیقت ہے جوان

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۶۲ ۔

۲۵۷

کلمات میں موجود ہے ۔

اور پھراگر انسان دنیا کو خدا ،قرب خدا اور رضائے الٰہی حاصل کرنے کے بجائے خود دنیا کی خاطر اپناتا ہے تو یہی دنیا اسکو خدا سے دور کردیتی ہے ۔اس دنیا کا بھی عجیب و غریب معاملہ ہے یعنی اگر انسان اسے وسیلہ اور خدا تک رسائی کا ذریعہ قرار دیتا ہے تو یہ دنیا اس کے لئے ذخیرہ بن جاتی ہے اور اس کے لئے باقی رہتی ہے نیز دنیا وآخرت میں اس کے کام آتی ہے لیکن اگر وسیلہ کے بجائے اسے مقصد بنالے تو یہ ﷲ سے غافل کرتی ہے ۔خدا سے دور کردیتی ہے موت کے بعدانسان سے جدا ہوجاتی ہے اور بارگاہ الٰہی میں اسکا سخت ترین حساب لیا جاتاہے ۔

یہ بھی پیش نظر رہے کہ یہ فرق کمیت اور مقدار کا نہیں ہے بلکہ کیفیت کا ہے اور عین ممکن ہے کہ انسان وسیع و عریض دنیا کا مالک ہو لیکن اسکا استعمال راہ خدا میں کرتا ہو اس کے ذریعہ قرب خدا کی منزلیں طے کرتا ہو ایسی صورت میں یہ دنیا اس کے لئے ''عمل صالح''شمار ہوگی اس کے برخلاف ہوسکتا ہے کہ مختصر سی دنیا اور اسباب دنیاہی انسان کے پاس ہوں لیکن اسکا مقصد خود وہی دنیا ہو تو یہ دنیا اس سے چھین لی جائے گی اسکا محاسبہ کیا جائے گا ۔یہ ہے ان کلمات کا تیسرا نتیجہ۔

اگر خود یہی دنیا انسان کے مد نظر ہوتو اسکی حیثیت ''عاجل''''نقد''کی سی ہے جو کہ اسی دنیا تک محدود ہے اور اس کا سلسلہ آخرت سے متصل نہ ہوگابلکہ زائل ہو کر جلد ختم ہوجائے گی لیکن اگر دنیا کو دوسرے (آخرت )کے لئے اختیار کیا جائے تو اسکی حیثیت''آجل''''ادھار''کی سی ہوگی کہ جب انسان حضور پروردگار میں پہونچے گا تو وہاںدنیا کو حاضر وموجود پائے گا ۔ایسی دنیا زائل ہونے والی نہیں بلکہ باقی رہے گی''وماعندﷲ خیر وأبقی''امیر المومنین کے اس فقرہ''وماأخذ وہ منھا لغیرھا قدموا علیہ وأقاموا فیہ'' سے یہ چوتھا نتیجہ برآمد ہوتا ہے ۔

۲۵۸

زیارت امام حسین سے متعلق دعا میں نقل ہوا ہے:

(ولاتشغلنی بالاکثارعلیّ من الدنیا،تلهینی عجائب بهجتها،وتفتننی زهرات زینتها،ولا بقلالٍ یضرّ بعملی،ویملأ صدری همّه )( ۱ )

''کثرت دنیا سے میرے قلب کو مشغول نہ کردینا کہ اسکے عجائبات مجھے تیری یاد سے غافل کردیں یا اسکی زینتیں مجھے اپنے فریب میں لے لیں اور نہ ہی دنیا میں میرا حصہ اتنا کم قرار دینا کہ میرے اعمال متاثر ہوجائیں اور میرا دل اسی کے ہم وغم میں مبتلا رہے ''

دنیا اوراس سے انسان کے تعلق، بقاء و زوال ،اسکے مفید ومضر ہونے کے بارے میں اس سے قبل جو کچھ بیان کیا گیا وہ کیفیت کے اعتبار سے تھا کمیت ومقدار سے اسکا تعلق نہیں تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ کمیت و مقدار بھی اس میں دخیل ہے کثرت دنیا اور اسکی آسا ئشیںانسان کو اپنے میں مشغول کرکے یاد خدا سے غافل بنادیتی ہیں بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ دنیا میں بڑاحصہ ہونے کے باوجود انسان دنیا میں گم نہ ہو یا یہ زیادتی اسے خدا سے دور نہ کردے اسکے لئے سخت جد وجہد درکار ہوتی ہے اور اسی طرح اگر دنیا وی حصہ کم ہو،دنیا روگردانی کر رہی ہو تو یہ بھی انسان کی آزمائش کا ایک انداز ہوتا ہے کہ انسان کا ہم وغم اور اس کی فکریں دنیا کے بارے میں ہوتی ہیں اور وہ خدا کو بھول جاتا ہے اسی لئے اس دعا میں حد متوسط کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ نہ تو اتنی کثرت ہو جس سے انسان یاد خدا سے غافل ہوجائے اور نہ اتنی قلت ہوکہ انسان اسی کی تلاش میں سرگرداں رہے اور خدا کو بھول بیٹھے۔

۲۔دنیا مومن کی سواری

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے :

(لاتسبّوا الدنیا فنعمت مطیة المؤمن،فعلیها یبلغ الخیر وبها ینجو من الشر )( ۲ )

____________________

(۱)بحارالانوار ج۱۰۱ ص۲۰۸۔

(۲)بحارالانوار ج۷۷ص۱۷۸۔

۲۵۹

''دنیا کو برا مت کہو یہ مومن کی بہترین سواری ہے اسی پر سوار ہوکر خیر تک پہنچاجاتا ہے اور اسی کے ذریعہ شرسے نجات حاصل ہوتی ہے ''

اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ دنیا سواری کی حیثیت رکھتی ہے جس پر سوار ہوکر انسان خدا تک پہونچتا اور جہنم سے فرار اختیار کرتا ہے ۔

یہ دنیاکاقابل ستائش رخ ہے اگر دنیانہ ہوتی توانسان رضائے الٰہی کے کام کیسے بجالاتا ، کیسے خدا تک پہونچتا ؟اولیاء خدا اگر قرب خداوند ی کے بلند مقامات تک پہونچے ہیں تو وہ بھی اسی دنیا کے سہارے سے پہونچے ہیں ۔

۳۔دنیا صداقت واعتبار کا گھر ہے ۔

۴۔دنیا دار عافیت۔

۵۔دنیا استغنا اور زاد راہ حاصل کرنے کی جگہ ہے ۔

۶۔دنیا موعظہ کا مقام ہے ۔

۷۔دنیا محبان خدا کی مسجدہے ۔

۸۔دنیا اولیاء الٰہی کے لئے محل تجارت ہے ۔

امیر المومنین حضرت علی نے جب ایک شخص کو دنیا کی مذمت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا :

(أیهاالذام للدنیاالمغترّبغرورهاالمنخدع بأباطیلها!أتغتر بالدنیاثم تذمّها،أنت المتجرّم علیهاأم هی المتجرّمةعلیک؟متیٰ استهوتک؟أم متیٰ غرّتک؟ )( ۱ )

''اے دنیا کی مذمت کرنے والے اور اسکے فریب میں مبتلا ہوکر اسکے مہملات میں دھوکا کھا

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت ۱۲۶۔

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438