واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا0%

واقعۂ کربلا مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 438

واقعۂ کربلا

مؤلف: لوط بن یحییٰ بن سعید ( ابومخنف)
زمرہ جات:

صفحے: 438
مشاہدے: 165500
ڈاؤنلوڈ: 4174

تبصرے:

واقعۂ کربلا
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 438 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 165500 / ڈاؤنلوڈ: 4174
سائز سائز سائز
واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا

مؤلف:
اردو

امام حسین علیہ السلام کی طرف پسر سعد کا ہجوم

راوی کہتا ہے : نماز عصر کے بعد عمر بن سعد نے آوازبلند کی:'' یا خیل اللّٰه ارکبی وأبشری'' اے لشکر خدا سوار ہوجاؤاور تم کو بشارت ہو!یہ سن کر سارا لشکر سوار ہوگیا اور پھر سب کے سب حسین علیہ السلام اور ان کے اصحا ب کی طرف ٹوٹ پڑے ۔

ادھر امام حسین علیہ السلام اپنے خیمہ کے سامنے اپنی تلوار پر تکیہ دئے بیٹھے تھے کہ اسی اثنامیں در حالیکہ آپ اپنے گھٹنے پر سر رکھے ہوئے تھے ، آپ کی آنکھ لگ گئی لیکن آپ کی بہن حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے چیخ پکار کی آواز سنی تو اپنے بھائی کے قریب گئیں اور عرض کی اے بھیا ! کیا ان آوازوں کو سن رہے ہیں جو اتنے قریب سے آرہی ہیں ؟ حسین علیہ السلام نے اپنے سر کو اٹھایا اور فرمایا:

''انی رأیت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه (وآله) وسلم فی المنام فقال لی : انک تروح الینا ! ''میں نے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ مجھ سے کہہ رہے ہیں : تم میری طرف آنے والے ہو ، یہ کلمات سن کر آپ کی بہن نے اپنے چہرہ پیٹ لیااور کہا : ''یا ویلتا '' واے ہو مجھ پر ، یہ سن کر امام علیہ السلام نے فرمایا : ''لیس لک الویل یا اخےّة، اسکتی رحمک الرحمن '' اے میری بہن! تمہارے لئے کوئی وائے نہیں ہے ، خاموش ہوجاؤ، خدائے رحمن تم پر رحمت نازل کرے !

اسی اثناء میں آپ کے بھائی عباس بن علی علیہماالسلام سامنے آئے اور عرض کیا : اے بھائی ! دشمن کی فوج آپ کے سامنے آچکی ہے۔یہ سن کر امام حسین علیہ السلام اٹھے اور فرمایا:

'' یاعباس ارکب بنفس أنت یاأخ حتی تلقاهم فتقول لهم : مالکم ؟ وما بدأ لکم و تسأ لهم عما جاء بهم ؟ ''

اے عباس ! تم پر میری جان نثار ہو ،میرے بھائی تم ذرا سوار ہوکر ان لوگوں کے پاس جاؤ اور ان سے کہو : تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے ؟ اور کیا واقعہ پیش آگیا ہے ؟ اور ان سے سوال کرو کہ کس لئے آ ئے ہیں ؟

۲۸۱

یہ سن کر حضرت عباس ٢٠ سواروں کے ہمراہ جن میں زہیر بن قین اور حبیب بن مظاہر(١) بھی تھے دشمن کی فوج کے پاس گئے اور ان سے آپ نے فرمایا : تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ اور تم لوگ کیا چاہتے ہو ؟ ان لوگوں نے جواب دیا : امیر کا فرمان آیا ہے کہ ہم آپ کے سامنے یہ معروضہ رکھیں کہ آپ لوگ سر تسلیم خم کر دیں ورنہ ہم تم سے جنگ کریں گے ۔حضرت عباس نے کہا : ''فلا تعجلوا حتی ارجع الی أبی عبداللّٰہ فأعرض علیہ ما ذکر تم'' تم لوگ اتنی جلدی نہ کرو ،میں ابھی پلٹ کر ابوعبداللہ کے پاس جاتا ہوں اور ان کے سامنے تمہاری باتوں کو پیش کرتا ہوں ۔اس پر وہ لوگ رک گئے اور کہنے لگے ٹھیک ہے تم ان کے پاس جاؤ اور ان کوساری رو دا د سے آگاہ کر دو پھر وہ جو کہیں اسے ہمیں آکربتاؤ۔ یہ سن کر حضرت عباس پلٹے اور اپنے گھوڑ ے کو سر پٹ دو ڑاتے ہوئے امام کی خدمت میں حاضر ہوئے تا کہ آپ کے سامنے صورت حا ل کو بیان کریں ۔

حضرت عباس کے ساتھ جانے والے دیگر بیس افراد وہیں پر ٹھہرے رہے اور دشمن کی فوج سے گفتگو کرنے لگے ۔حبیب بن مظاہر نے زہیر بن قین سے کہا: اگر آپ چاہیں تو اس فوج سے گفتگو کریں اور اگر چاہیں تو میں بات کروں زہیر بن قین نے کہا :آپ شروع کریں اور آپ ہی ان سے بات کریں تو حبیب بن مظاہر نے کہا : خدا کی قسم کل وہ قوم خداکے نزدیک بڑی بدتر ین قوم ہو گی جو اللہ کے نبی کی ذریت اور پیغمبرخداصلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے اہل بیت کو قتل کر نے کا ار ادہ رکھتی ہے، جو اس شہر میں سب سے زیادہ عبادت گزار ہیں ،سپیدہ سحر ی تک عبادتوں میں مشغول رہتے ہیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کیاکر تے ہیں ۔حبیب بن مظاہر، زہیر بن قین سے اس بات کو اس طرح کہہ رہے تھے کہ اموی فوج اسے سن

____________________

١۔ آ پ کے شرح احوال ان لوگو ں کے تذکرے میں گذر چکے ہیں جنھو ں نے کوفہ سے حسین علیہ السلام کو خط لکھا تھا ۔

۲۸۲

لے۔ عزرہ بن قیس(١) نے یہ گفتگو سنی تو وہ حبیب سے کہنے لگا : تم نے خود کو پاک و پاکیزہ ثابت کرنے میں اپنی ساری طاقت صرف کر دی۔ زہیر بن قین نے عزرہ سے کہا: اے عزرہ !اللہ نے انھیں پاک و پاکیزہ اور ہدایت یافتہ قرار دیا ہے؛ اے عزرہ !تم تقوائے الہٰی اختیار کرو کیونکہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں ؛ اے عزرہ !میں تم کو خدا کا واسطہ دیتا ہوں کہ تم پاک و پاکیزہ نفو س کے قتل میں گمراہو ں کے معین و مددگار نہ بنو !

عزرہ بن قیس نے جو اب دیا : اے زہیر!ہمارے نزدیک تو تم اس خاندان کے پیرونہ تھے، تم تو عثمانی مذہب تھے۔(٢)

زہیر بن قین نے کہا : کیا ہمارا موقف تمہارے لئے دلیل نہیں ہے کہ میں پہلے عثمانی تھا! خداکی قسم! میں نے ان کو کوئی خط نہیں لکھا تھا اور نہ کوئی پیغام رساں بھیجا تھا اور نہ ہی انھیں وعدہ دیا تھا کہ میں ان کی مدد و نصرت کروں گا ، بس راستے نے ہمیں اور ان کو یکجاکردیاتو میں نے ان کو جیسے ہی دیکھا ان کے رخ انور نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد دلادی اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ان کی نسبت بھی میرے ذہن میں آگئی اور میں یہ سمجھ گیا کہ وہ اپنے دشمن اور تمہارے حزب وگروہ کی طرف جارہے ہیں ؛ یہ وہ موقع تھا جہاں میں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ میں ان کی مدد کروں گا اور ان کے حزب و گروہ میں رہوں گا؛ نیز اپنی جان ان کی جان پر قربان کردوں گا تاکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس حق کی حفاظت کرسکوں جسے تم لوگوں نے ضائع کردیا ہے ۔

____________________

١۔ اس شخص کے شرح احوال وہا ں پر گذر چکے ہیں جہا ں امام علیہ السلام کے نام اہل کوفہ کے خط لکھنے کا تذکرہ ہوا ہے کہ یہ اہل کوفہ کے منافقین میں سے ہے ۔

٢۔ یہ پہلی مرتبہ ہے جہا ں زہیر بن قین کو واقعہ کربلا میں اس لقب سے یاد کیا گیا ہے۔ مسلمانو ں کے درمیان تفرقہ کا یہ پہلا عنوان ہے جو عثمان بن عفان کے سلسلہ میں مورد اختلاف قرار پایا کہ آیا وہ حق پر تھا یا باطل پر۔اس وقت جو علی علیہ السلام کو اپنا مولا سمجھتا تھا وہ علوی اور شیعی کہا جانے لگا اور جو عثمان کو مولا سمجھتا تھا اور یہ کہتا تھا کہ عثمان حق پر ہے وہ مظلوم قتل کیا گیا ہے وہ عثمانی کہلاتا تھا ۔

۲۸۳

ایک شب کی مہلت

ادھر عباس بن علی(علیہماالسلام) امام حسین علیہ السلام کے پاس آئے اور عمر سعد کا پیغام آپ کو سنادیا۔اسے سن کر حضرت نے فرمایا :''ارجع الیهم فان استطعت أن تؤخر هم الیٰ غدوة و تد فعهم عنا العشیه ، لعلنا نصل لربنا اللیلة و ندعوه و نستغفره فهو یعلم ان کنت أحب الصلاة و تلاوة کتابه و کثرة الدعا والاستغفار''

(میرے بھائی عباس) تم ان لوگوں کی طرف پلٹ کر جاؤ اور اگرہو سکے تو کل صبح تک کے لئے اس جنگ کو ٹال دواور آج کی شب ان لوگوں کو ہم سے دور کردو تاکہ آج کی شب ہم اپنے رب کی بارگاہ میں نمازادا کریں اوردعاواستغفار کریں کیونکہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ مجھے نماز ، تلاوت کلام مجید ، کثرت دعا اور استغفار سے بڑی محبت ہے ۔

اس مہلت سے امام حسین کا مقصد یہ تھا کہ عبادت کے ساتھ ساتھ کل کے امور کی تدبیر کرسکیں اور اپنے گھر والوں سے وصیت وغیرہ کرسکیں ۔

حضرت عباس بن علی علیہماالسلام اپنے گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتے ہوئے فوج دشمن کی طرف آئے اور فرمایا :'' یا ھولاء ! ان أباعبداللّٰہ یسألکم أن تنصرفوا ھٰذہ العشےة حتی ینظر فی ھٰذا الامر فان ھٰذا أمر لم یجر بینکم و بینہ فیہ منطق فاذا أصبحنا التقینا ان شاء اللّٰہ فأمارضینا ہ فأتینا بالامر الذی تسألونہ و تسمونہ ، أو کرھنا فرددنا ہ '' اے قوم ! ابو عبداللہ کی تم لوگوں سے درخواست ہے کہ آج رات تم لوگ ان سے منصرف ہوجاؤ تاکہ وہ اس سلسلے میں فکر کرسکیں کیونکہ اس سلسلے میں ان کے اور تم لوگوں کے درمیان کوئی ایسی بات چیت نہیں ہوئی ہے۔ جب صبح ہوگی تو انشاء اللہ ہم لوگ ملاقات کریں گے۔اس وقت یاتو ہم لوگ اس بات پر راضی ہوجائیں گے اور اس بات کو قبول کرلیں گے جس کا تم لوگ ان سے تقاضا کررہے اور اس پر ان سے زبر دستی کررہے ہو یا اگر ہم ناپسند کریں گے تو رد کردیں گے ۔

۲۸۴

عمر بن سعد نے یہ سن کر کہا : یا شمر ماتری ؟ شمر تیری رائے کیا ہے ؟

شمرنے جواب دیا : تمہاری کیا رائے ہے ؟ امیر تم ہو اور تمہاری بات نافذہے ۔

عمر بن سعد : میں تو یہ چاہتا ہو ں کہ ایسا نہ ہونے دوں پھر اپنی فوج کی طرف رخ کرکے پوچھا تم لوگ کیا چاہتے ہو ؟ تو عمرو بن حجاج بن سلمہ زبیدی نے کہا : سبحان اللّٰہ! خدا کی قسم اگر وہ لوگ دیلم کے رہنے والے ہوتے اور تم سے یہ سوال کرتے تو تمہارے لئے سزاوار تھا کہ تم اس کا مثبت جواب دیتے ۔

قیس بن اشعث(١) بولا :تم سے یہ لوگ جو سوال کررہے ہیں اس کا انھیں مثبت جواب دو !قسم ہے میری جان کی کہ کل صبح یہ لوگ ضرور تمہارے سامنے میدان کارزار میں آئیں گے ۔

یہ سن کر پسر سعد نے کہا: خداکی قسم اگرمجھے یہ معلوم ہو جائے کہ یہ لوگ نبرد آزماہوں گے تو میں آج کی شب کی مہلت کبھی نہ دوں گا(٢) علی بن الحسین کا بیان ہے کہ اس کے بعد عمر بن سعد کی جانب سے ایک پیغام رساں آیا اور آکر ایسی جگہ پرکھڑا ہوا جہاں سے اس کی آواز سنائی دے رہی تھی اس نے کہا : ہم نے تم لوگوں کو کل تک کی مہلت دی ہے کل تک اگر تم لوگوں نے سر تسلیم خم کردیا تو ہم لوگ تم لوگوں کو اپنے امیر عبیداللہ بن زیاد کے پاس لے جائیں گے اور اگر انکا ر کیا توتمھیں ہم نہیں چھوڑیں گے(٣)

____________________

١۔یہ شخص روز عاشورہ قبیلہ ربیعہ اور کندہ کی فوج کا سر براہ تھا ۔(طبری ، ج٥،ص ٤٢٢) یہی امام حسین علیہ السلام کی اونی ریشمی چادر لوٹ کر لے گیا تھا جسے عربی میں '' قطیفہ '' کہتے ہیں اس کے بعد یہ قیس قطیفہ کے نام سے مشہور ہوگیا۔ (طبری، ج٥ ، ص ٥٣)اصحاب امام حسین علیہ السلام کے سرو ں کو کوفہ ابن زیاد کے پاس لے جانے والو ں میں شمربن ذی الجوشن ، عمرو بن حجاج اور عزرہ بن قیس کے ہمراہ یہ بھی موجود تھا ۔ ان میں سے ١٣ سر یہ اپنے قبیلہ کندہ لے کر روانہ ہوگیا(طبری ، ج٥ ،ص ٤٦٨) یہ شخص محمد بن اشعث جناب مسلم کے قاتل اور جعدہ بنت اشعث امام حسن علیہ السلام کی قاتلہ کا بھائی ہے ۔

٢۔ حارث بن حصیرہ نے عبداللہ بن شریک عامری سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری، ج٥،ص ٤١٥ ، ارشاد ،ص ٢٣٠)

٣۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے حارث بن حصیرہ نے عبداللہ بن شریک عامری سے اور اس نے علی بن الحسین سے یہ روایت بیان کی ہے۔(طبری ، ج٥ ،ص ٤١٧)

۲۸۵

شب عاشور کی روداد

* شب عاشور امام حسین علیہ السلام کا خطبہ

* ہاشمی جوانوں کا موقف

* اصحاب کا موقف

* امام حسین علیہ السلام اور شب عاشور

* شب عاشور امام حسین اور آپ کے اصحاب مشغول عبادت

۲۸۶

شب عاشور کی روداد

شب عاشور امام حسین علیہ السلام کا خطبہ

چوتھے امام حضرت علی بن الحسین علیہما السلام سے روایت ہے کہ آپ فرماتے ہیں : جب عمر سعد کی فوج پلٹ گئی تو حسین علیہ السلام نے اپنے اصحاب کو جمع کیا(یہ بالکل غروب کا وقت تھا) میں نے خود کو ان سے نزدیک کیا؛ کیونکہ میں مریض تھا۔ میں نے سنا کہ میرے بابا اپنے اصحاب سے فرمارہے ہیں :

''أثنی علیٰ اللّٰه تبارک و تعالی أحسن الثنا ء و أحمد ه علی السرّا ء و الضرّا ء ؛اللّٰهم ان أحمدک علی أن أکرمتنا با لنبوة و علمتنا القرآن و فقهتنا ف الدین و جعلت لنا أسما عاً وابصاراً و أفئدة ولم تجعلنا من المشرکین.

اما بعد ؛ فان لا أعلم أصحاباً أولیٰ و لا خیراً من أصحابی ولا أهل بیت أبرّ وأوصل من أهل بیت فجزاکم اللّٰه عن جمیعاً خیرا.

ألا وانّ اظن یومنا من هٰولاء الاعدا ء غداً ألا وان قد رأیت لکم فانطلقوا جمیعاً ف حِل ، لیس علیکم من ذمام ، هٰذا لیل قد غشیکم فاتخذوه جملا !(١) ثم لیأ خذ کلُ رجل منکم بید رجل من أهل بیت؛تفرقوا ف سوادکم و مدائنکم حتی یفرّج اللّٰه ، فان القوم انما یطلبون، ولو قد أصابون لَهَوا عن طلب غیر.''

میں اللہ تبارک و تعالی کی بہترین ستائش کرتا ہوں اور ہر خوشی و آسائش اور رنج و مصیبت میں

____________________

١۔ ابو مخنف کہتے ہیں کہ مجھ سے حارث بن حصیرہ نے عبداللہ بن شریک عامری سے اور اس نے علی بن حسین علیہ السلام سے یہ روایت بیان کی ہے۔ (طبری ،ج٥،ص ٤١٨) ابو الفرج نے ص ٧٤ پر اور شیخ مفید نے ص ٢٣١ پر علی بن حسین کے بجائے امام سجاد علیہ السلام لکھا ہے جو ایک ہی شخصیت کے نام اور لقب ہیں ۔

۲۸۷

اس کی حمد کرتا ہوں ۔خدایا! اس بات پرمیں تیری حمد کرتا ہوں کہ تو نے ہمیں نبوت کے ذریعہ کرامت عطاکی ، ہمیں قران کا علم عنایت فرمایا اور دین میں گہرائی و گیرائی عطافرمائی اور ہمیں حق کو سننے والے کان ، حق نگر آنکھیں او ر حق پذیر دل عطا فرمائے اور تونے ہمیں مشرکین میں سے قرار نہیں دیا ۔

اما بعد! حقیقت یہ ہے کہ میں اپنے اصحاب سے بہتر و برتر کسی کے اصحاب کاسراغ نہیں رکھتا، نہ ہی ہمارے گھرانے سے زیادہ نیکو کار اور مہر بان کسی گھرانے کا مجھے علم ہے ؛خدا وند متعال میری طرف سے تم سب کو اس کی بہترین جزاعطاکرے ۔

آگاہ ہوجاؤ! میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان دشمنوں کی شر انگیزیوں کی بنیاد پر کل ہماری زندگی کا آخری دن ہے۔ آگاہ ہوجاؤ! کہ میں نے اسی لئے تم لوگوں کے سلسلے میں یہ نظریہ قائم کیا ہے کہ تم سب کے سب ہماری بیعت سے آزاد ہو اورمیری طرف سے تم لوگوں پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہ رات ہے جس نے تم سب کواپنے اندر ڈھانپ لیا ہے؛ تم لوگ اس سے فائدہ اٹھاکر اپنے لئے اسے حجاب و مرکب قرار دو اور تم میں سے ہر ایک ہمارے خاندان کی ایک ایک فرد کا ہاتھ پکڑ کر اپنے اپنے ملک اور شہر کی طرف نکل جائے یہاں تک کہ خدا گشائش کی راہ نکال دے ؛کیونکہ یہ قوم فقط میرے خون کی پیاسی ہے لہٰذا اگر وہ مجھے پالیتی ہے تو میرے علاوہ دوسروں سے غافل ہوجائے گی۔

ہاشمی جوانوں کا موقف

امام حسین علیہ السلام کی تقریر ختم ہوچکی تو عباس بن علی علیھما السلام نے کلام کی ابتداء کی اور فرمایا :'' لِمَ نفعل ذالک؟ ألنبقی بعدک ؟ لاأرانا اللّٰه ذالک أبداً !'' ہم ایسا کیوں کریں ؟ کیا فقط اس لئے کہ ہم آپ کے بعد زندہ و سلامت رہیں ؟ !خدا کبھی ہمیں ایسا دن نہ دکھائے ۔

اس کے بعد حضرت عباس کے بھائی ، امام حسین علیہ السلام کے فرزندان ، آپ کے بھائی امام حسن علیہ السلام کی اولاد ،عبداللہ بن جعفر کے فرزند (محمد و عبداللہ) سب کے سب نے اسی قسم کے کلمات سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔

۲۸۸

یہ سن کر امام حسین علیہ السلام فرزندان جناب عقیل کی طرف مخاطب ہوئے اور فرمایا : اے فرزندان عقیل ! مسلم کا قتل تم لوگوں کے لئے کافی ہے، تم سب چلے جاؤ ،میں تم کو اجازت دیتا ہوں ۔یہ سن کر ان سبھوں نے عرض کیا:

''فما یقول الناس ! یقولون انّا ترکنا شیخنا و سیدنا و بن عمومتنا خیر الاعمام ولم نرم معهم بسهم ، ولم نطعن معهم برمح ولم نضرب معهم بسیف ، ولا ندر ما صنعوا ! لا واللّٰه لا نفعل ولکن تفدیک أنفسْنا و أموالنا وأهلونا ، ونقاتل معک حتی نرد موردک ! فقبح اللّٰه العیش بعدک'' (١)

اگر ہم چلیں جائیں تو لوگ کیا کہیں گے ! یہی تو کہیں گے کہ ہم نے اپنے بزرگ اور سید و سردار اور اپنے چچا کے فرزندان کو (نرغہ اعداء میں تنہا) چھوڑ دیا جبکہ وہ ہمارے بہتر ین چچا تھے۔ہم نے ان کے ہمراہ دشمن کی طرف تیر نہیں چلا یا ، نیز وں سے دشمنوں کو زخمی نہیں کیا اور ان کے ہمراہ تلوار سے حملہ نہیں کیا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ لوگ ہمارے ساتھ کیا کریں گے۔نہیں خد اکی قسم ہم ایسا نہیں کر سکتے ؛ ہم اپنی جان ، مال اور اپنے گھر والوں کو آپ پر قربان کردیں گے؛ ہم آپ کے ساتھ ساتھ دشمن سے مقابلہ کرتے رہیں گے یہاں تک کہ جہاں آپ وارد ہوں ۔ وہیں ہم بھی وارد ہوں اللہ اس زندگی کا برا کرے جو آپ کے بعد باقی رہے!

اصحاب کا موقف

جب بنی ہاشم اظہارخیال کر چکے تو اصحاب کی نوبت آئی تو۔ (حسینی سپاہ کے سب سے بوڑھے صحابی) مسلم بن عوسجہ( ٢) اٹھے اور عرض کی :'' أنحن نخل و لمانعذر الی اللّٰه فی أداء حقک ! أماواللّٰه حتی أکسر فی صدورهم رمح ، وأضربهم بسیف ما ثبت قائمة فی ید ،ولا أفارقک ، ولو لم یکن مع سلاح أقاتلهم به لقذفتهم بالحجارة دونک حتی أموت معک''

____________________

١۔مقاتل الطالبیین، ابو الفرج،ص٧٤ ،ارشاد،ص٢٣١، خواص۔ ص ٢٤٩

٢۔جو اشراف کوفہ جناب مسلم بن عقیل کے ساتھ تھے۔ ان کے ہمراہ آپ کے احوال گزر چکے ہیں ۔واقعہ کربلا میں یہ آپ کا پہلا تذکرہ ہے آپ کربلا کیسے پہنچے اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

۲۸۹

اگر ہم آپ کو تنہا چھوڑدیں ؟تو آپ کے حق کی ادئیگی میں اللہ کے سامنے ہمارے پاس کیا عذر ہوگا؟ خدا کی قسم! جب تک کہ میں اپنا نیزہ ان کے سینے میں نہ تو ڑلوں اور جب تک قبضۂ شمشیر میرے ہاتھ میں ہے میں ان کو نہ مار تا رہوں میں آپ سے جدا نہ ہوں گا اور اگر میرے پاس کوئی اسلحہ نہ ہوا جس سے میں ان لوگوں سے مقابلہ کر سکوں تو میں آپ کی حمایت میں ان پر پتھر مارتا رہوں گا یہاں تک مجھے آپ کے ہمراہ موت آجائے۔مسلم بن عوسجہ کے بعد سعید بن عبد اللہ حنفی اٹھے اور عرض کیا :

'' واللّٰه لا نخّلیک حتی یعلم اللّٰه أنا حفظنا غیبة رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وآله وسلم فیک واللّٰه لو علمت ان أقتل ثم أحیا ثم احرق حيّاثم أذّر ، یفعل ذالک ب سبعین مرّ ة ما فا رقتک حتی ألقی حِما م دونک فکیف لاأفعل ذالک وانما ه قتلة واحد ة ثم ه الکرامة التی لا انقضاء لها ابداً''

خدا کی قسم! ہم آپ کو تنہا نہیں چھوڑ یں گے یہاں تک کہ خدا ہمیں یہ بتادے کہ ہم نے رسول خدا صلی اللہ وآلہ وسلم کے پس پشت آپ کی حفاظت ونگرانی کرلی، خدا کی قسم! اگر مجھے معلوم ہو کہ مجھے قتل کیا جائے گا اور پھر زندہ کیا جائے گا اور پھر زندہ کر نے کے بعد مجھے زندہ جلا دیا جائے اور میری راکھ کو ہوا ؤں میں اڑادیا جائے گااور یہ کام میرے ساتھ ستّر (٧٠) مرتبہ بھی کیا جائے تب بھی میں آپ سے جدا ئی اختیار نہیں کروں گا یہاں تک کہ میں آپ کے سامنے قربان ہو جاؤں ۔ اور میں ایسا کیوں نہ کروں جب کہ ایک ہی بار قتل ہونا ہے اور اسکے بعد ایسی کرامت ہے جو کبھی بھی ختم ہونے والی نہیں ہے ۔

اسکے بعد زہیر بن قین بولے :'' واللّٰه لوددت ان قتلت ثم نشرت ثم قتلت حتی أقتل کذ األف قتلة، وان اللّٰه ید فع بذالک القتل عن نفسک وعن أنفس هو لا ء الفتية من أهل بیتک ''

خدا کی قسم! میرا دل تو یہی چاہتا ہے کہ میں قتل کیا جاؤں پھر مجھے زندہ کیا جائے پھر قتل کیا جائے یہاں تک کہ ایک ہزار مرتبہ ایسا کیا جائے اور اللہ میرے اس قتل کے ذریعہ آپ کے اور آپ کے گھر انے کے ان جوانوں سے بلا کو ٹال دے ۔

اسکے بعد اصحاب کی ایک جماعت گویا ہوئی :''واللّٰه لا نفارقک ، ولکن أنفسنا لک الفداء نقیک بنحور نا وجباهنا وأید ینا .فاذانحن قتلنا کنا وفیناوقضینا ماعلینا''

۲۹۰

خداکی قسم ہم آپ سے جدانہیں ہوسکتے ۔ ہماری جانیں آپ پر قربان ہیں ۔ ہم اپنی گردنوں ، پیشانیوں اور ہاتھوں سے آپ پر قربان ہیں ۔جب ہم قتل ہو جائیں گے تب ہم اس حق کوادااور اس عہد کو وفاکریں گے جوہماری گردن پر ہے ۔

اس کے بعد اصحاب کے گروہ گروہ نے اسی قسم کے فقروں سے اپنے خیالات کااظہار کیا۔(١)

امام حسین علیہ السلا م اورشب عاشور

حضرت علی بن حسین علیھما السلام سے روایت ہے کہ آپ فرماتے ہیں : جس شام کی صبح کو میرے باباشھید کردئے گئے اسی شب میں بیٹھا تھا اور میری پھوپھی زینب میری تیمارداری کررہی تھیں ۔ اسی اثنا میں میرے بابا اصحاب سے جدا ہوکر اپنے خیمے میں آئے۔ آپ کے پاس ''جون ''(٢) ابوذر کے غلام بھی موجود تھے جو اپنی تلوار کو آمادہ کررہے تھے اور اس کی دھار کو ٹھیک کر رہے تھے۔اس وقت میرے بابا یہ اشعار پڑھ رہے تھے :

یا دهر اف ّ لک من خلیل

کم لک بالِاشراق والاصیل

من صاحب أو طالب قتیل

وا لد هر لا یقنع با لبدیل

وانما الا مر الیٰ الجلیل

وکل ّ ح سا لک سبیل

____________________

١۔ابو مخنف نے بیان کیا ہے کہ مجھ سے عبداللہ بن عاصم فایشی نے ضحاک بن عبداللہ مشرقی ہمدانی کے حوالے سے اس روایت کو نقل کیاہے۔ (طبری، ج٥ ،ص ٤١٨؛ابوالفرج ،ص ٧٤ ، ط نجف ؛ تاریخ یعقوبی، ج ٢، ص ٢٣١ ، ارشاد، ص ٢٣١)

٢۔ طبری نے حوَلکھا ہے۔ ارشاد، ص ٢٣٢ میں ''جوین '' اور مقاتل الطالبیین، ص ٧٥ ، مناقب بن شہر آشوب، ج٢، ص ٢١٨، تذکرة الخواص، ص ٢١٩ ، اور خوارزمی، ج١ ،ص ٢٣٧ پر ''جون '' مرقوم ہے ۔ تاریخ طبری میں آپ کا تذکرہ اس سے قبل اور اس کے بعد بالکل موجود نہیں ہے نہ ہی امام علیہ السلام کے ہمراہ آپ کی شہادت کا تذکرہ موجود ہے۔

۲۹۱

اے دنیا! اُف اور وائے ہو تیری دوستی پر، کتنی صبح و شام تو نے اپنے دوستوں اور حق طلب انسانوں کو قتل کیا ہے، اور ان کے بغیر زندگی گزاری ہے ،ہاں روزگاربدیل ونظیر پر قناعت نہیں کرتا، حقیقت تو یہ ہے کہ تمام امور خدا ئے جلیل کے دست قدرت میں ہیں اور ہر زندہ موجود اسی کی طرف گامزن ہے۔

بابانے ان اشعار کی دو یا تین مرتبہ تکرار فرمائی تو میں آپ کے اشعار کے پیغام اور آپ کے مقصد کو سمجھ گیا لہذا میری آنکھوں میں اشکوں کے سیلاب جوش مارنے لگے اور میرے آنسو بہنے لگے لیکن میں نے بڑے ضبط کے ساتھ اسے سنبھالامیں یہ سمجھ چکاتھا کہ بلا نازل ہوچکی ہے ۔

ہماری پھوپھی نے بھی وہی سنا جو میں نے سنا تھا لیکن چونکہ وہ خاتون تھیں اور خواتین کے دل نرم و نازک ہوا کرتے ہیں لہٰذا آپ خود پر قابو نہ پاسکیں اور اٹھ کھڑی ہوئیں اور سر برہنہ دوڑتی ہوئی اس حال میں بھائی کے خیمہ تک پہنچیں کہ آپ کا لباس زمین پر خط دے رہا تھا،وہاں پہنچ کر آپ نے فرمایا :''واثکلاه ! لیت الموت أعد من الحیاة ! الیوم ماتت فاطمة أمّ و علی أب ، وحسن أخ یا خلیفةالماض وثمال الباق'' (١) آہ یہ جانسوز مصیبت ! اے کاش موت نے میری حیات کو عدم میں تبدیل کردیا ہوتا! آج ہی میری ماں فاطمہ ، میرے بابا علی اور میرے بھائی حسن دنیا سے گزر گئے۔ اے گذشتگان کے جانشین اور اے پسماندگان کی پناہ ، یہ میں کیا سن رہی ہوں ؟

یہ سن کر حسین علیہ السلام نے آپ کو غور سے دیکھااور فرمایا:'' یا أخےّة لا یذھبن بحلمک الشیطان'' اے میری بہن مبادا تمہارے حلم و برد باری کو شیطان چھین لے۔ یہ سن کر حضرت زینب نے کہا :'' بأبی أنت و أمی یا أبا عبداللہ ! أستقتلت ؟ نفسی فداک '' میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوجائیں اے ابو عبداللہ! کیا آپ اپنے قتل و شہادت کے لئے لحظہ شماری کررہے ہیں ؟ میری جان آپ پر قربان ہوجائے۔

____________________

١۔ ارشاد میں یہ جملہ اس طرح ہے''یا خلیفة الماضین و ثمال الباقین'' (ص٢٣٢) تذکرہ میں اس جملہ کا اضافہ ہے'' ثم لطمت وجھھا''(ص٢٥٠ ،طبع نجف)

۲۹۲

یہ سن کر امام حسین علیہ السلام کو تاب ضبط نہ رہی؛ آنکھوں سے سیل اشک جاری ہوگیااور آپ نے فرمایا :'' لو ترک القطا لیلاً لنام !'' اگر پرندہ کو رات میں اس کی حالت پر چھوڑ دیا جائے تو وہ سورہے گا ۔

یہ سن کر پھوپھی نے فرمایا :'' یا ویلتی ! أفتغصب نفسک اغتصاباً ؟ فذالک أقرح لقلب وأشد علیٰ نفس''اے وائے کیا آپ آخری لمحہ تک مقابلہ کریں گے اور یہ دشمن آپ کو زبردستی شہید کردیں گے ؟ یہ تو میرے قلب کو اور زیادہ زخمی اور میری روح کے لئے اور زیادہ سخت ہے ،یہ کہہ کر آپ اپنا چہرہ پیٹنے لگیں اور اپنے گریبان چاک کردئے اور دیکھتے ہی دیکھتے آپ بے ہوش ہوگئیں ۔

امام حسین علیہ السلام اٹھے اورکسی طرح آپ کو ہوش میں لا کر تسکین خاطر کے لئے فرمایا :'' یا أخيّة ! ا تق اللّٰه و تعز بعزاء اللّٰه و اعلم ان أهل الارض یموتون و أن أهل السماء لایبقون وأن کل شی هالک الا وجه الذی خلق الارض بقدرته و یبعث الخلق فیعودون وهو فرد وحده، أب خیر من، و أم خیر من ، و أخ خیر من ول ولهم ولکل مسلم برسول اللّٰه أسوة .''

اے میری بہن !تقوائے الہٰی پر گامزن رہو اور اس سے اپنی ذات کو سکون پہنچاؤ اور جان لو کہ اہل زمین کو مرنا ہی مرنا ہے اور آسمان والے بھی باقی نہیں رہیں گے۔ جس ذات نے اپنی قدرت سے زمین کو خلق کیاہے اس کے علاوہ ہر چیزکوفنا ہوناہے۔اس کی ذات مخلوقات کو مبعوث کرنے والی ہے، وہ دوبارہ پلٹیں گے، بس وہی اکیلا و تنہا زندہ ہے۔ میرے بابا مجھ سے بہتر تھے ، میری مادر گرامی مجھ سے بہتر تھیں اور میرے بھائی مجھ سے بہتر تھے، میرے لئے اور ان لوگوں کے لئے بلکہ تمام مسلمانوں کے لئے رسول خدا کی زندگی اور موت نمونۂ عمل ہے۔

اس قسم کے جملوں سے آپ نے بہن کے دل میں امنڈ تے ہوئے سیلاب کو روکا اورانھیں تسلی دی اور پھرفرمایا:

''یاأخية ! انی أقسم علیک فأبّری قسمی : لا تشقی عل جیباً ولا تخمشی علّ وجها ولا تد ع علّ بالویل والثبور اذا أنا هلکت'' اے میری بہن !میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ میری شہادت کے بعد تم اپنے گریبان چاک نہ کرنا، نہ ہی اپنے چہرے کو پیٹنا اورنہ اس پر خراش لگانا اور نہ ہی واے کہنا اور نہ موت کی خواہش کرنا۔

۲۹۳

پھربابا نے پھوپھی زینب کو میرے پاس لاکر اور بٹھایا اور ان کے دل کو آرام و سکون بخشنے کے بعد اپنے اصحاب کی طرف چلے گئے۔ وہاں پہنچ کرانھیں حکم دیا کہ وہ ا پنے خیموں کو ایک دوسرے سے نزدیک کرلیں ، اس کی طناب کو ایک دوسرے سے جوڑ لیں اور اپنے خیموں کے درمیان اس طرح رہیں کہ دشمنوں کو آتے دیکھ سکیں ۔(١) اس کے بعد امام حسین علیہ السلام بانس اور لکڑیاں لے کر ان لوگوں کے خیموں کے پیچھے آئے جہاں پتلی سی خندق نما بنائی گئی پھر وہ بانس اورلکڑیاں اسی خندق میں ڈال دی گئیں ۔ اسکے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا: جب وہ لوگ صبح میں ہم لوگوں پر حملہ کریں گے تو ہم اس میں آگ لگادیں گے تا کہ ہمارے پیچھے سے وہ لوگ حملہ آور نہ ہوسکیں اور ہم لوگ اس قوم سے ایک ہی طرف سے مقابلہ کریں ۔(٢)

شب عاشورامام حسین اور آپ کے اصحاب مشغول عبادت

جب رات ہوگئی تو حسین علیہ السلام اوراصحاب حسین علیہم السلام تمام رات نماز پڑھتے رہے اور استغفار کرتے رہے۔وہ کبھی دعا کرتے اور کبھی تضرع و زاری میں مشغول ہوجاتے تھے ۔

ضحاک بن عبد اللہ مشرقی ہمدانی اصحاب حسین علیہ السلام میں سے تھے جو دشمنوں کے چنگل سے نجات پاگئے تھے،وہ کہتے ہیں : سواروں کا لشکر جو ہماری نگرانی کر رہا تھا اور ہم پر نگاہ رکھے ہوئے تھا وہ ہمارے پاس سے گزرا؛اس وقت امام حسین علیہ السلام قرآن مجید کی ان آتیوں کی تلاوت فرما رہے تھے :( ''وَلاَيَحْسَبَنَّ اَلذِّینَ کَفَرُوْ اَنَّمَا نُمْلِْ لَهُمْ خَیراً لانفسهم اِنَّمَا نُمْلِْ لَهْمْ لَيَزْدَادُوْا اِثْماً وَلَهُمْ عَذَاب مُهِيْن. مَا کَاْنَ اللّهُ لِيَذَرَ الْمُؤمِنِيْنَ عَلَی مَا أنْتُمْ عَلَيْهِ حَتَی يَمِيْزَ الْخَبِیث مِنَ الطَّيِّب''ِ ) (٣)

____________________

١۔ حارث بن کعب اور ابو ضحاک نے مجھ سے علی بن الحسین کے حوالے سے حدیث بیان کی ہے(طبری ،ج٥، ص٤٢٠ ؛ ابو الفرج ، ص ٧٥ ،ط نجف ،یعقوبی، ج٢،ص ٢٣٠ ؛ ارشاد ،ص ٢٣٢ ، طبع نجف) آپ نے تمام روایتی ں امام سجاد علیہ السلام سے نقل کی ہیں ۔

٢۔ عبد اللہ بن عاصم نے ضحاک بن عبداللہ مشرقی سے روایت کی ہے۔ طبری ، ج٥ ،ص ٤٢١، ارشاد ، ص ٢٣٣ ، پر فقط ضحا ک بن عبداللہ لکھا ہے۔

٣۔ آل عمران، آیت ١٧٨و ١٧٩

۲۹۴

جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ہے وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہم نے جو انھیں مہلت دی ہے وہ ان کے لئے بہتر ہے، ہم نے تو انھیں اس لئے مہلت دی ہے تا کہ وہ اور زیادہ گناہ کریں اور ان کے لئے رسوا کنندہ عذاب ہے۔ خدا وندعالم ایسانہیں ہے کہ مومنین کو اسی حالت پر رکھے جس پر تم لوگ ہو بلکہ ی اس لئے ہے کہ وہ پلید کو پاک سے جداکر ے ۔

اس وقت لشکر عمر بن سعد کے کچھ سوار ہمارے اردگرد چکّر لگا رہے تھے ۔ان میں سے ایک سوار یہ آیتیں سن کرکہنے لگا رب کعبہ کی قسم !ہم لوگ پاک ہیں ، ہم لوگوں کو تم لوگوں سے جدا کر دیا گیا ہے۔ میں نے اس شخص کو پہچان لیا اور بریر بن حضیر ہمدانی(١) سے کہا کہ آپ اسے پہچانتے ہیں یہ کون ہے ؟

بریر نے جواب دیا: نہیں ! اس پر میں نے کہا :یہ ابو حرب سبیع ہمدانی عبداللہ بن شہر ہے، یہ مسخرہ کرنے والااور بیہودہ ہے،بڑا بے باک اور دھوکہ سے قتل کرنے والا ہے۔ سعید بن قیس(٢) نے بارہا اس کی بد اعمالیوں اور جنایت کاریوں کی بنیاد پر اسے قید کیا ہے ۔

____________________

١۔ ارشاد ،ص ٢٣٣، اور دیگر کتب میں خضیر مرقوم ہے اور یہی مشہور ہے ۔ آپ کوفہ کے قاریو ں میں ان کے سید و سر دار شمار ہوتے تھے۔ (طبری ، ج٥، ص٤٣١) آپ بڑے عبادت گزار تھے۔ واقعہ کربلا میں یہ آپ کا پہلا ذکر ہے۔ آپ امام علیہ السلام تک کس طرح پہنچے اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ آپ وہ ہیں جو جنگ شروع ہوتے ہی سب سے پہلے مقابلہ اور مبارزہ کے لئے اٹھے تو امام علیہ السلام نے آپ کو بٹھا دیا۔(طبری ،ج٥ ،ص ٤٢٩) آپ وہی ہیں جنہو ں نے عبدالرحمن بن عبد ربہ انصاری سے کہا تھا : خدا کی قسم! میری قوم جانتی ہے کہ مجھے نہ تو جوانی میں ،نہ ہی بوڑھاپے میں باطل ہنسی مذاق سے کبھی محبت رہی ہے لیکن خداکی قسم جو میں دیکھ رہا ہو ں اس سے میں بہت خوش ہو ں ۔ خدا کی قسم! ہمارے اور حور العین کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ یہ لوگ ہم پر تلوار سے حملہ کری ں ۔میں تو یہی چاہتا ہو ں کہ یہ لوگ حملہ آور ہو ں ۔(ج٥ ،ص ٤٢٣) آپ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ عثمان نے اپنی جان کو برباد کردیا۔ معاویہ بن ابو سفیان گمراہ اور گمراہ کرنے والا تھا امام و پیشوای ہدایت اور حق تو بس علی بن ابیطالب علیہ السلام تھے۔ اس کے بعد آپ نے عمر بن سعد کے ایک فوجی سے جس کا نام یزید بن معقل تھا اس بات پر مباہلہ کیا کہ یہ مفاہیم و معانی حق ہیں اور یہ کہا کہ ہم میں سے جو حق پر ہے وہ باطل کو قتل کردے گا یہ کہہ کر آپ نے اس سے مبارزہ و مقابلہ کیا اور اسے قتل کردیا۔ (طبری ،ج٥ ،ص ٤٣١)

٢۔ سعید بن قیس ہمدانی ،ہمدان کا والی تھاجسے والی کوفہ سعید بن عاص اشرق نے معزول کر کے ٣٣ ھمیں ''ری'' کا والی بنا دیا تھا۔(طبری، ج٥ ، ص ٣٣٠) امیر المومنین علیہ السلام نے مذکورہ شخص کو شبث بن ربیعی اور بشیر بن عمرو کے ہمراہ معاویہ کے پاس جنگ سے پہلے بھیجا تاکہ وہ سر تسلیم خم کر لے اور جما عت کے ہمراہ ہو جائے۔ (طبری، ج٥ ، ص ٥٧٣) صفین میں یہ شخص علی کے ہمراہ جنگ میں مشغول تھا۔(طبری، ج٤، ص ٥٧٤)یہ وہ سب سے پہلی ذات ہے جس نے امیر المومنین کے مقاصد کا مثبت جواب دیا تھا۔ (ج٥، ص ٩)امیر المومنین نے آپ کو انبار اور ہیت کی طرف سفیان بن عوف کے قتل و غارت گری کے سلسلے میں روانہ کیا تو آپ ان لوگو ں کے سراغ میں نکلے یہا ں تک کہ'' ہیت ''پہنچے مگر ان لوگو ں سے ملحق نہ ہوسکے ۔(طبری، ج٥، ص ١٣٤)ا س کے بعد تاریخ میں ہمیں ان کا کوئی ذکر اور اثر دکھائی نہیں دیتا ،شائد جب آپ عثمان کے زمانے میں '' ری'' اور'' ہمدان ''کے والی تھے تو اسی زمانے میں ابو حرب کو قید کیا ہو۔

۲۹۵

یہ سن کر بریر بن حضیر نے اسے آواز دی اور کہا: اے فاسق ! تجھے اللہ نے پاک لوگوں میں قرار دیا ہے ؟! تو ابو حرب نے بریر سے پوچھا : تو کون ہے ؟

بریرنے جواب دیا : میں بریر بن حضیر ہوں ۔

ابو حرب نے یہ سن کر کہا : انّاللّہ ! یہ میرے لئے بڑا سخت مرحلہ ہے کہ تم بریر ہو، خدا کی قسم! تم ہلاک ہوگئے، خدا کی قسم تم ہلاک ہوگئے اے بریر !

بریرنے کہا : اے بو حرب ! کیا تو اپنے اتنے بڑے گناہ سے توبہ کرسکتا ہے ؟ خدا کی قسم! ہم لوگ پاک ہیں اور تم خبیثوں میں ہو۔

اس پر ابو حرب نے بریر کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا: اور میں اس پر گواہ ہوں !

میں (ضحاک بن عبداللہ مشرقی) نے اس سے کہا : تیری معرفت تیرے لئے نفع بخش کیوں نہیں ہورہی ہے ؟

ابو حرب نے جواب دیا : میں تم پر قربان ہوجاؤں ! تو پھر یز ید بن عذرہ عنزیّ کا ندیم کون ہوگا جو ہمارے ساتھ ہے ۔

یہ سن کربریرنے کہا : خدا تیرا برا کرے! تو ہر حال میں نادان کا نادان ہی رہے گا ۔یہ سن کر وہ ہم سے دور ہوگیا۔(١)

____________________

١۔ طبری، ج٥ ،ص ٤٢١ ،ابو مخنف کا بیان ہے : عبد اللہ بن عاصم نے ضحاک بن عبد اللہ مشرقی کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے۔

۲۹۶

صبح عاشور ا

* سپاہ حسین میں صبح کا منظر

* روز عاشورا امام علیہ السلام کا پہلا خطبہ

* زہیر بن قین کا خطبہ

* حر ریاحی کی باز گشت

* حر بن یزید ریاحی کا خطبہ

۲۹۷

صبح عاشورا

روز شنبہ کی صبح محرم کی دسویں تاریخ تھی، اذان صبح ہوتے ہی عمر بن سعد نے نماز صبح پڑھی، اپنے فوجیوں کے ہمراہ باہر آیا(١) اور اپنی فوج کو اس طرح ترتیب دیا :

(١) عبد اللہ بن زہیر ازدی(٢) کو اہل مدینہ کا سربراہ قرار دیا ۔

(٢) عبدالرحمن بن ابی سبرہ جعفی کو قبیلہ مذحج و اسد کا سالار قرار دیا ۔(٣)

(٣) قیس بن اشعث بن قیس کندی کو قبیلہ ربیعہ و کندہ کا سالار قرار دیا ۔

(٤) حر بن یزید ریاحی (تمیمی یربوعی) کو قبیلہ تمیم و ہمدان کا سربراہ بنایا ۔

(٥) عمرو بن حجاج زبیدی کومیمنہ کا سردار بنایا ۔

(٦) شمر بن ذی الجوشن (خبابی کلابی) کو میسرہ کا سردار بنایا۔

____________________

١۔ طبری ج٦ ،ص ٤٢١و٤٢٢، ابو مخنف کا بیان ہے : عبد اللہ بن عاصم نے ضحاک بن عبد اللہ مشرقی سے یہ روایت بیان کی ہے۔ ارشاد ،ص ٢٣٣ پر فقط ضحاک بن عبد اللہ مرقوم ہے ۔

امانت کی خاطر روز شنبہ روز عاشورا لکھ دیا گیا جبکہ یہ تاریخ اور یہ دن امام حسین علیہ السلام کے کربلا وارد ہونے کی تاریخ اور دن کے منافی ہے جو خود طبری نے ذکر کیا ہے کہ امام علیہ السلام ٢ محرم بروز پنجشنبہ وارد کربلا ہوئے اس بنیا د پر عاشورا روز جمعہ ہوتا ہے نہ کہ شنبہ۔حسن ظن کی بنیا د پر ہم یہ توجیہ کرسکتے ہیں کہ یہ دوروایتی ں دوراویو ں سے ہیں لہٰذا یہ اختلاف ہے۔ بہر حال روز جمعہ عاشورا کا ہونا مشہور ہے۔(مترجم)

٢۔ حجاج کے زمانے میں ری کے امیر عدی بن وتاّد کے ہمراہ مطرف بن مغیرہ بن شعبہ سے اصفہا ن میں جنگ کے دوران یہ میمنہ کا سردار تھا۔ (طبری ،ج٦ ،ص ٢٩٦) طبری میں اس کا آخری تذکرہ یہ ملتا ہے کہ ١٠٢ ھ میں یہ سعد کے نگہبانو ں میں تھا ۔ اس پر تیرو ں سے اتنی جراحت وزخم پہنچے کہ اس کا جسم سیہی (ایک جانور جسکے جسم پر کانٹے ہی کا نٹے ہوتے ہیں ) کی طرح ہو گیا ۔(طبری ،ج٦ ،ص ٦١٣) کربلا سے پہلے اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا ۔

٣۔ یہ وہ شخص ہے جس نے ٥١ھ حجر بن عدی کندی کے خلاف گواہی دی تھی۔(طبری، ج٥،ص ٢٧٠) یہ قبیلہ مذحج اور اسد کے پیدلو ں پر سربراہ تھا۔ شمر بن ذی الجوشن نے اسے امام حسین علیہ السلام کے قتل پر بر انگیختہ کیا تو اس نے انکار کیا اور شمرکو گالیا ں دی ں ۔ (طبری ،ج٥،ص ٤٥٠)

۲۹۸

(٧) عزرہ بن قیس احمسی کو سواروں کا سپہ سالار بنایا۔

(٨) شبث بن ربعی ریاحی تمیمی کو پیدلوں کا سربراہ قرار دیا۔

(٩) پرچم اپنے غلام ذوید(١) کے ہاتھوں میں دیا ۔

(١٠) اور خود سارے لشکر کا سربراہ بن کر قلب لشکر میں حملہ کے لئے آمادہ ہوگیا ۔

سپاہ حسینی میں صبح کا منظر

ادھر سپیدہ سحری نمودار ہوئی اور ادھر لشکر نور میں خورشید عاشورا امام حسین علیہ السلام نے آسمان کی طرف اپنے ہاتھ بلند کرکے دعا کی :'' اللّٰهم أنت ثقت فی کل کرب و رجائ ف کل شدة و أنت ل فی کل أمر نزل ب ثقة و عدّة ، کم من هم یضعّف فیه الفؤاد ، و تقلّ فیه الحیلة ، و یخذل فیه الصدیق ویشمت فیه العدوّ، أنزلته بک و شکوته الیک ، رغبة من عمن سواک ، ففرّجته ، و کشفته ، فأنت ولّ کل نعمة، صاحب کل حسنة ومنتهی کل رغبة'' (٢)

خدا یا! توہی کرب و تکلیف میں میری تکیہ گاہ اور ہر سختی میں میری امید ہے۔ ہر وہ مصیبت جو مجھ پر نازل ہوئی اس میں تو ہی میری تکیہ گاہ اور پناہ گاہ ہے ؛ کتنی ایسی مصیبتیں اورکتنے ایسے غم و اندوہ ہیں جس میں دل کمزور اور راہ چارہ و تدبیر مسدود ہوجاتی ہے، دوست وآشنا تنہا چھوڑ دیتے ہیں اور دشمن برا بھلا کہتے ہیں لیکن میں ان تمام مصیبتوں میں تیری بارگاہ میں حاضر ہوں اور تجھ ہی سے اس(امت) کا گلہ ہے اور

____________________

١۔ابو مخنف نے بیان کیا ہے کہ مجھ سے فضیل بن خدیج کندی نے، اس سے محمدبن بشر نے اور اس سے عمر وبن حضرمی نے یہ روایت کی ہے۔(طبری ، ج٥ ، ص ٤٢٢)

٢۔ اس روایت کو ابو مخنف نے اپنے بعض ساتھیو ں سے اور ان لوگو ں نے ابو خالد کاہلی سے بیان کیا ہے (طبری ،ج٥،ص ٤٢٣) شیخ مفید نے ارشاد کے ص ٢٣٣ پر فرمایا ہے : ابو مخنف ، علی بن الحسین علیہ السلام سے اورابو خالد سے روایت کرتے ہیں جو ان کے ساتھیو ں میں تھا اور ابو خالد نے اس خبر کو امام علی بن الحسین علیہ السلام سے نقل کیا ہے۔ اگر چہ طبری نے اس کی وضاحت نہیں کی ہے ۔

۲۹۹

تیرے علاوہ سب سے امیدیں توڑ لی ہیں ؛ تو نے گشائش پیدا کی ہے اور مصیبتوں کے سیاہ بادل کو چھانٹ دیا ہے پس تو ہی ہر نعمت کا ولی ، ہرنیکی کا مالک اورتمام امیدوں اور رغبتوں کی انتہا ہے ۔

ضحاک بن عبداللہ مشرقی ہمدانی کا بیان ہے:(یہ اصحاب حسین میں سے وہیں جو زخمی ہونے کے بعد دشمنوں کے ہاتھوں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے تھے) جب اموی فوج ہماری طرف بڑھی تو ان لوگوں نے دیکھا کہ بانس اور لکڑی سے آگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں ۔یہ وہی آگ تھی جسے ہم لوگوں نے اپنے خیموں کے پیچھے جلایا تھا تاکہ پیچھے سے یہ لوگ ہم پرحملہ آور نہ ہوسکیں ۔اسی اثنا ء میں دشمن فوج کا ایک سپاہی اپنے گھوڑے کو سر پٹ دوڑاتا ہوا میری طرف آیا ،وہ اسلحہ سے پوری طرح لیث تھا ،وہ ہم لوگوں سے کچھ نہ بولا یہاں تک کہ ہمارے خیموں سے گزرنے لگا اور غور سے ہمارے خیموں کو دیکھنے لگا لیکن اسے پیچھے کچھ دیکھائی نہ پڑافقط بھڑ کتے ہوئے شعلے تھے جواسے دکھائی دے رہے تھے؛ وہ پلٹا اور چیخ کر بولا :'' یا حسین! استعجلت النار فی الدنیا قبل یوم القیامة. '' اے حسین! قیامت سے پہلے ہی دنیا میں آگ کے لئے جلدی کردی ؟

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :''من ھٰذا کأنہ شمر بن ذی الجوشن؟'' یہ کون ہے ؟ گویا یہ شمر بن ذی الجوشن ہے ؟ جواب ملا : خدا آپ کو سلامت رکھے !ہاں یہ وہی ہے۔

امام حسین علیہ السلام نے یہ سن کر جواب دیا :''یا بن راعية المعزیٰ أنت أولی بها صلیا ! ''اے بیابان زادہ، بے ثقافت اوربد چلن! آگ میں جلنے کا حق دار تو ہے نہ کہ میں ۔

امام حسین علیہ السلام کے جواب کے بعد مسلم بن عوسجہ نے آپ سے عرض کیا :''یابن رسول اللّٰه جعلت فداک ألاأرمیه بسهم فانه قد أمکننی ولیس یسقط سهم منی فالفاسق من أعظم الجبارین'' میری جان آپ پر نثار ہو، کیا اجازت ہے کہ ایک تیر چلادوں ، اس وقت یہ بالکل میری زد پر آگیا ہے میراتیر خطا نہیں کرے گا اوریہ آدمی بہت فاسق و فاجر ہے۔

امام حسین علیہ السلام نے مسلم بن عوسجہ کو جواب دیا :'' لا ترمه ، فانی أکره أن أبد أهم'' (١) نہیں ایسا نہیں کر نا؛ میں جنگ میں ابتدا ء کر نا نہیں چاہتا ۔

۳۰۰