واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا0%

واقعۂ کربلا مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 438

واقعۂ کربلا

مؤلف: لوط بن یحییٰ بن سعید ( ابومخنف)
زمرہ جات:

صفحے: 438
مشاہدے: 168248
ڈاؤنلوڈ: 4281

تبصرے:

واقعۂ کربلا
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 438 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 168248 / ڈاؤنلوڈ: 4281
سائز سائز سائز
واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا

مؤلف:
اردو

روز عاشورا امام حسین علیہ السلام کا پہلا خطبہ

جب فوج آپ سے نزدیک ہونے لگی تو آپ نے اپنا ناقہ منگوا یا اور اس پر سوار ہو کرلشکر میں آئے اور با آواز بلند اس طرح تقریر شروع کی جسے اکثر وبیشتر لوگ سن رہے تھے :

''أیها الناس ! اسمعو ا قول ولاتعجلو ن حتی أعظکم بما یحق لکم علّ وحتی أعتذر لکم من مقدم الیکم ، فان قبلتم عذر وصدقتم قول وأعطتیتمو ن النصف ، کنتم بذالک أسعد ولم یکن لکم علّ سبیل ، وان لم تقبلوا منّ العذرولم تعطوا النصف من أنفسکم ( فَاَجْمَعْوْا أمْرَ کْمْ وَشْرَکَا ئَ کْمْ ثْمَّ لَا يْکْنْ اَمْرَکْمْ عَلَيْکْمْ غْمَّة ثْمَّ اقْضْوْا اِلََّ وَلَا تُنْظِرُوْنَ ) (٢) ( اِنَّ وَلَِّ اللّهُ الَّذِیْ نَزّلَ الْکِتَابَ وَهْوْ يَتَوَلََّی الصَّا لِحِيْنَ'' ) (٣)

ایھا الناس ! میری بات، سنو جلدی نہ کرو !یہاں تک کہ میں تم کو اس حد تک نصیحت کردوں جو مجھ پر تمہارا حق ہے، یعنی تمہیں بے خبر نہ رہنے دوں اور حقیقت حال سے مطلع کر دوں تاکہ حجت تمام ہوجائے۔میں چاہتا ہوں کہ تمارے سامنے اپنا عذر پیش کردوں کہ میں کیوں آیا ہوں اور تمہارے شہر کا رخ کیوں کیا ۔ اگر تم نے میرے عذر کو قبول کرلیا اور میرے کہے کی تصدیق کر کے میری بات مان لی اور میرے ساتھ انصاف کیاتو یہ تمہارے لئے خوش قسمتی ہوگی اور اگر تم نے میرے عذرکو نہ مانااور انصاف کرنانہ چاہا تو مجھ کو کوئی پروا نہیں ہے۔تم اور جس جس کو چاہو تمام جماعت کو اپنے ساتھ متفق کرلو اور میری مخالفت پر ہم آہنگ ہوجاؤ پھر دیکھو کوئی حسرت تمہارے دل میں نہ رہ جائے اور پوری طاقت سے میرا خاتمہ کردو، مجھے ایک لحظہ کے لئے بھی مہلت نہ دو۔میرا بھروسہ تو بس خدا پر ہے جس نے کتاب نازل فرمائی ہے اور وہی صالحین کا مددگار ہے ۔

____________________

١۔ابو مخنف کا کہنا ہے کہ مجھ سے عبد اللہ بن عاصم نے بیان کیا ہے کہ وہ کہتا ہے : مجھ سے ضحاک مشرقی نے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری، ج٥، ص ٤٢٣وارشاد ، ص٢٣٤)

٢۔ سورہ یونس ،آیت ٧١

٣۔ سورہ اعراف، آیت ١٩٦

۳۰۱

یہ وہ دلسوز تقریر تھی جسے سن کر مخدرات کا دامن صبر لبریز ہوگیا اور آپ کی بہنیں نالہ و شیون کرنے لگیں ؛اسی طرح آپ کی صاحبزادیاں بھی آنسوبہانے لگیں ۔جب رونے کی آواز آئی تو آپ نے اپنے بھائی عباس بن علی علیھما السلام اور اپنے فرزند جناب علی اکبر کو ان لوگوں کے پاس روانہ کیا اور ان دونوں سے فرمایا : جاؤ ان لوگوں کو چپ کراؤ!قسم ہے میری جان کی انھیں ابھی بہت زیادہ آنسوبہاناہے ۔

جب وہ مخدرات خاموش ہوگئیں تو آپ نے حمد و ثنائے الہٰی اور خدا کا تذکرہ اسطرح کیا جس کا وہ اہل تھا پھر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود و سلام بھیجا ، خدا کے ملائکہ اور اس کے پیغمبر وں پر بھی درود و سلام بھیجا۔ (اس کے بعد بحر ذخار فصاحت و بلاغت میں ایسا تموج آیا کہ راوی کہتا ہے) خدا کی قسم !اس دن سے پہلے اور اس دن کے بعد میں نے حضرت کے مانند فصیح البیان مقرر نہیں دیکھا ۔

اس کے بعد امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :

'' اما بعد : فانسبونی فا نظر وا من أنا ؟ ثم ارجعو ا الی أنفسکم وعا تبوها فأ نظروا هل یحل لکم قتل وانتهاک حرمت؟ ألست ابن بنت نبیکم صلی اللّه علیه (و آله) وسلّم وابن وصيّه وابن عمّه وأوّل المؤمنین باللّه والمصدّق لرسوله بما جاء به من عند ربه ، أو لیس حمزة سید الشهداء عم اب ؟ أو لیس جعفر الشهید الطیار ذوالجناحین عم ؟! أولم یبلغکم قول مستفیض فیکم : أن رسول اللّه صلّی اللّٰه علیه وآله وسلّم قال لی و أخی : '' هذان سيّدا شباب أهل الجنّة '' ؟

فان صدّقتمونی بماأقول ، فهو الحق فو اللّٰه ما تعمّدت کذباً مذعلمت أن اللّٰه یمقت علیه أهله و یضر به من ا ختلقه...

وان کذبتمونی فانّ فیکم من ان سالتموه عن ذالک أخبرکم سلوا جابر بن عبداللّه الانصاری(١) أو ابا سعید الخدری(٢) أو سهل بن سعد الساعدی(٣)

____________________

١۔ امیرا لمومنین علیہ السلام کی شہادت سے پہلے ٤٠ ھ میں بسر بن ارطاة کے ہاتھو ں پر معاویہ کی بیعت کرنے سے آپ نے انکار کردیا تھا اور کہا تھاکہ یہ گمراہی کی بیعت ہے۔ یہا ں تک کہ بسر بن ارطاہ نے آپ کو بیعت کرنے پر مجبورکیا تو جان کے خوف سے آپ نے بیعت کر لی۔ (طبری ، ج٥، ص ١٣٩) ٥٠ھ میں جب معاویہ نے حج کی انجام دہی کے بعدرسول کا منبر اور عصا

۳۰۲

مدینہ سے شام منتقل کرنا چاہا تو آپ نے اسے اس فعل سے روکا اور وہ رک گیا۔ (طبری، ج٥،ص ٢٣٩) ٧٤ھ میں جب عبدا لملک کی جانب سے ''حجاج'' مدینہ آیا تواس نے اصحاب رسول کی توہین اور سر کوبی کرناشروع کردی اور انھی ں زنجیرو ں میں جکڑ دیا۔ انہیں میں سے ایک جابر بھی تھے ۔

٢۔ رسوالخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ احد میں اپنے اصحاب کو میدان جنگ کی طرف لے جاتے وقت آپ کو بچپنے کی وجہ سے لوٹادیا تھا۔ (طبری، ج٢، ص ٥٠٥) آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت علی علیہ السلام کی شان میں حدیثی ں نقل کیا کرتے تھے (طبری،ج٣ ،ص ١٤٩)لیکن عثمان کے قتل کے بعد ان کا شمار ان لوگو ں میں ہوتا ہے جنہو ں نے حضرت علی علیہ السلام کی بیعت سے انکار کیا تھا۔ یہ عثمانی مذہب تھے۔ (طبری ، ج٤،ص ٤٣٠)

٣۔ یہ بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت علی علیہ السلام کی شان میں حدیثی ں نقل کیا کرتے تھے۔ (طبری ج ،٣،ص ٤١٩) انھو ں نے ہی روایت کی ہے کہ بصرہ کے فتنہ میں عایشہ نے پہلے عثمان بن حنیف کے قتل کا حکم دیا پھر قید کرنے کا حکم دیا ۔(طبری، ج ٤،ص ٤٦٨) یہ علی علیہ السلام کی ر وایتو ں کو بیان کر تے ہیں ۔ (طبری ،ج٤ ،ص ٥٤٧) ٧٤ھ میں عبدالملک کی جانب سے ''حجاج'' جب مدینہ میں وارد ہوا تو اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین اور سر کوبی کی اور انہیں زنجیرو ں میں جکڑ دیا ۔ ان بلا و ں اور مصیبتو ں میں گرفتار ہونے والو ں میں ایک سھل بن سعد بھی تھے۔ ان لوگو ں پر حجاج نے عثمان کا ساتھ نہ دینے کی تہمت لگائی تھی ۔(طبری ،ج ٦،ص ١٩٥)

۳۰۳

أو زید بن ارقم (١) أوانس بن مالک (٢)

یخبروکم : انهم سمعوا هٰذه المقالة من رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وآله وسلم ل ولا خ ، أفما فی هٰذا حاجز لکم عن سفک دم ؟''

____________________

١۔ یہ بھی علی علیہ السلام کے فضائل میں روایتی ں نقل کیا کرتے تھے۔ (طبری، ج٢،ص٣١) آپ ہی وہ ہیں جنہو ں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عبداللہ بن ابی بن سلول منافق کی باتو ں کی خبر دی تھی ۔(طبری ،ج٢،ص٦٠٥) زید بن ارقم ہی نے ابن زیاد پر اعتراض کیا تھا اور ابو عبداللہ علیہ السلام کے دو لبو ں پر چھڑی مارنے سے منع کیا تھا۔ (طبری ،ج ٥ ،ص ٤٥٦) الاعلام ،ج ٤، ص ١٨٨ کے بیان کے مطابق ٦٨ھ میں وفات پائی ۔

٢۔ جب ١٧ھمیں عمر نے ابو موسی اشعری کو بصرہ کا گورنر بنایا تو انس بن مالک سے مدد طلب کی (طبری ج٤ ص ٧١) اور شوستر کی فتح میں اس کو شریک کیا ۔(طبری ،ج٤، ص ٨٦) ٣٥ھ میں یہ بصرہ میں لوگو ں کو عثمان کی مدد کے لئے بر انگیختہ کررہے تھے۔(طبری، ج٤ ،ص ٣٥٢) ان کا شمار انہی لوگو ں میں ہوتاہے جن سے ٤٥ھ میں زیاد بن ابیہ نے بصرہ میں مدد طلب کی تھی۔ (طبری ،ج ٥، ص ٢٢٤) عاشورا کے دن یہ بصرہ میں تھے۔ ٦٤ھ میں ابن زیاد کی ہلاکت کے بعد ابن زبیر نے ان کو بصرہ کاامیر بنادیا تو انہو ں نے ٤٠ دنو ں تک نماز پڑھائی (طبری ،ج٥،ص ٥٢٨) اور ٦٤ ھمیں جب عبد الملک کی جانب سے ''حجاج ''مدینہ آیا اور اصحاب رسول خدا کی سر کوبی اور توہین کرنے لگا اور انہیں زنجیرو ں میں جکڑنے لگا تو انس کی گردن میں زنجیر ڈالی، اس طرح وہ چاہتا تھا کہ ان کو ذلیل کرے اور اس کا انتقام لے کہ اس نے ابن زبیر کی ولایت کیو ں قبول کی تھی۔ (طبری ،ج ٦، ص ١٩٥)

۳۰۴

تم ذرا میرا نسب بیان کرو اوریکھو کہ میں کون ہوں ؟ پھر خود اپنے نفسوں کی طرف رجوع کرو، اپنے گریبان میں منہ ڈالوا ور خود اپنے آپ سے جواب طلب کرو اور غور کرو کہ تمہارے لئے میرا خون بہانا اور میری ہتک حرمت کرناکہاں تک جائز ہے ؟ کیا میں تمہارے نبی کا نواسہ نہیں ہوں ؟ اور آپ کے وصی ، آپ کے چچا زاد بھائی ، ان پر سب سے پہلے ایمان لانے والے اور ہر اس چیز کی تصدیق کرنے والے جو خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہے کا فرزند نہیں ہوں ؟ کیا حمزہ سید الشہداء میرے باپ کے چچا نہیں ہیں ؟ کیا جعفر طیار جنہیں شہادت کے بعدخدا نے دو پر پرواز عطا کئے ،میرے چچا نہیں ہیں ؟ کیا یہ حدیث تمہارے گوش زد نہیں ہوئی جو زبان زد خلائق ہے کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں فرمایا : یہ دونوں جوانان جنت کے سردار ہیں ۔ اب اگر تم مجھے سچا سمجھتے ہو اور میری بات کو سچ جانتے ہو کہ حقیقتاًیہ بات سچی ہے کیونکہ خدا کی قسم جب سے مجھے معلوم ہوا کہ جھوٹ بولنے پر اللہ عذاب نازل کرتاہے اور ساختہ اور پرداختہ باتیں کرنے والا ضرر و نقصان اٹھاتا ہے اسی وقت سے میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا؛اور اگر تم مجھے جھٹلاتے ہو تو اسلامی دنیا میں ابھی ایسے افراد موجود ہیں کہ اگر تم ان سے دریافت کرو تو وہ تم کو بتلائیں گے؛تم جابر بن عبداللہ انصاری ، ابو سعید خدری، سہل بن سعد ساعدی، زید بن ارقم ، یا انس بن مالک سے پوچھ لو، وہ تمہیں بتائیں گے کہ انھوں نے اس حدیث کو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں سنا ہے۔کیا رسالتمآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ حدیث تم کو میری خونریزی سے روکنے کے لئے کافی نہیں ہے؟

جب تقریر یہاں تک پہنچی تو شمر بن ذی الجوشن بیچ میں بول پڑا :

''هو یعبد اللّٰه علی حرف ان کان یدر ما تقول !''(١) اگر کوئی یہ درک کرلے کہ تم کیا کہہ ر ہے تو اس نے خدا کی ایک پہلو میں عبادت کی ہے ۔

شمر کے یہ جسارت آمیز کلمات سن کر حبیب بن مظاہر رطب اللسان ہوئے :''واللّٰه ان لاراک تعبد الله علی سبعین حرفا و أنا أشهد أنک صادق ما تدر ما یقول قد طبع اللّٰه علی قلبک''

____________________

١۔ سبط بن جوزی نے ص ٢٥٢ ،طبع نجف میں اس روایت کو نقل کیا ہے۔

۳۰۵

خدا کی قسم میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ تو خدا کی ستر(٧٠) حرفوں اور تمام جوانب میں عبادت کرتا ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ تو سچ کہہ رہاہے کہ تو نہیں سمجھ پارہاہے وہ کیا کہہ رہے ہیں ، حقیقت تو یہ ہے کہ خدانے تیرے قلب پر مہر لگادی ہے ۔

اس کي بعد امام حسین علیه السلام ني اپنی تقریر پهر شروع کی :'' فان کنتم ف شک من هٰذا القول أفتشکون أثراً بعد؟ أما ان ابن بنت نبیکم فواللّٰه مابین المشرق والمغرب ابن بنت نبّ غیر منکم ولا من غیرکم ، انا ابن بنت نبیکم خا صة''

''ٔاخبرون أتطلبون بقتیل منکم قتلته ؟ أو مال استهلکته أو بقصاص من جراحة ؟ فأ خذوا لا یکلّمونه ''

فنادی : یا شبث بن رِبعی ویا حجّار بن ابجَر و یا قیس بن الاشعث ویا یزید بن الحارث(١) ألم تکتبوا اِلَّ : أن قد أینعت الثمار و اخضرّ الجناب و طمّت الجمام وانما تقدم علی جند لک مجند فا قبل ؟!

قالوا له : لم نفعل !(٢) فقال : سبحان اللّٰه !بلیٰ واللّه لقد فعلتم،ثم قال : ایهاالناس ! اذاکرهتمون فد عونأنصرف عنکم الیٰ مامنمن الارض

فقال له قیس بن اشعث : أولا تنزل علی حکم بن عمّک ! فانهم لن یروک الاما تحب ولن یصل الیک منهم مکروه!

فقال الحسین علیه السلام :أنت اخوأخیک(محمد بن اشعث ) أتریدأن یطلبک بنو هاشم بأکثر من دم مسلم بن عقیل ؟ لا واللّٰه لا أعطیهم بیداعطائ

____________________

١۔ ان لوگو ں کے حالات وہا ں گزر چکے ہیں جہا ں یہ بیان کیا گیا کہ اہل کوفہ نے امام کو خط لکھا اور یہ اس گروہ کے منافقین میں سے تھے ۔

٢۔ سبط بن جوزی کا بیان ہے : ان لوگو ں نے کہا ہمیں نہیں معلوم کہ تم کیا کہہ رہے ہو تو حر بن یزید یربوعی جوان کے لشکر کا سپہ سالار تھا اس نے کہا : کیو ں نہیں خدا کی قسم ہم لوگو ں نے آپ کو خط لکھا تھا اور ہم ہی آپ کو یہا ں لائے ہیں ۔ خدا باطل اور اہل باطل کا برا کرے میں دنیا کو آخرت پر اختیار نہیں کر سکتا۔(ص ٢٥١)

۳۰۶

الذلیل ولا أقرّ ا قرار العبید!(١)

عباداللّه ''وَاِنِّْ عْذْتْ بِرَبِّیْ وَ رَبِّکُمْ اَنْ تَرْجُمُوْنَ(٢) أعُوذُبِرَبِّی وَرَبِّکُمْ مِنْ کُلِّ مُتَکَبِّرٍ لا يُوْمِنُ بِيَوْمِ الْحِسَاب''(٣)

اور اگر تمہیں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیث میں شک ہے تو کیا اس میں بھی شک ہے کہ میں تمہارے نبی کا نوسہ ہوں ؟ خدا کی قسم مشرق و مغرب میں میرے سوا کوئی نبی کا نواسہ نہیں ہے،فقط میں ہی ہوں جو تمہارے نبی کا نواسہ ہوں ۔ذرا بتاؤ تو سہی میرے قتل پر کیوں آمادہ ہو ؟ کیا اپنے کسی مقتول کا بدلہ لے رہے ہو جو میرے ہاتھوں قتل ہوا ہے یا اپنے کسی مال کا مطالبہ رکھتے ہو جسے میں نے تلف کردیا ہے ؟ یا کسی زخم کا قصاص چاہتے ہو ؟

لشکر پر خا موشی چھائی تھی، کسی نے کوئی جواب نہیں دیا، پھر حضرت نے خاص طور پر لوگوں کو آواز دی : اے شبث بن ربعی ، اے حجار بن ابجر ، اے قیس بن اشعث اور اے یزید بن حارث کیا تم لوگوں نے مجھے یہ نہیں لکھا تھا کہ میوے پختہ اور رسیدہ ہیں ، کھیتیاں لہلہارہی ہیں ، چشمے پُر آب اور لشکر آپ کی مدد کے لئے تیار ہیں ، آپ چلے آئیے ؟ ان سب نے امام علیہ السلام کو جواب دیا : ہم نے تو ایسا کچھ بھی نہیں لکھا تھا ، توامام علیہ السلام نے فرمایا : سبحان اللہ ! کیوں نہیں خدا کی قسم تم لوگوں نے لکھا تھا اور ضرور لکھا تھا؛پھر عام لشکر کی طرف مخاطب ہوکر گویا ہوئے : جب تمہیں میرا آنا ناگوار ہے تو مجھے واپس ایسی جگہ چلے جانے دو جہاں امن وامان کے ساتھ زندگی گذار سکوں ۔

یہ سن کر قیس بن اشعث بولا : آپ اپنے چچا زادبھائیوں کے حکم کے آ گے سر تسلیم کیوں خم نہیں کردیتے ۔وہ لوگ ہرگز آپ کے ساتھ کچھ بھی نہیں کریں گے مگر یہ کہ وہی جو آپ کوپسند ہوگا اور ان کی جانب سے آپ کو کوئی ناپسندامر نہیں دکھائی دے گا ۔

____________________

١۔ شیخ مفید نے ارشاد کے ص ٢٣٥ پرا ور ابن نما نے مثیرالاحزا ن کے ص ٢٦ پر'' ولا افرفرار العبید'' لکھا ہے ۔مقرم نے اپنے مقتل ص ٢٨٠ پر اسی کو ترجیح دی ہے لیکن ابن اشعث کے جواب میں اقرار زیادہ مناسب ہے، نہ کہ فرار کیونکہ ابن اشعث نے آپ کے سامنے فرار کی پیشکش نہیں کی تھی بلکہ اقرار کی گزارش کررہا تھا۔مقرم نے اپنے قول کی دلیل کے لئے'' مصقلہ بن ہبیرہ'' کے سلسلے میں امیرالمومنین کا جملہ : وفر ّ فرار العبد (وہ غلام کی طرح بھاگ گیا) پیش کیا ہے لیکن مصقلہ کا فعل امام حسین علیہ السلام کے احوال سے متناسب نہیں ہے جیسا کہ یہ واضح ہے۔ ٢۔ دخان آیت ٢٠ ٣۔ سورۂ مومن آیت٢٧

۳۰۷

امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا : تو اپنے بھائی (محمد بن اشعث) کا بھائی ہے ؛کیا توچاہتا ہے کہ بنی ہاشم ،مسلم بن عقیل کے علاوہ مزید خون کے تجھ سے طلبگار ہوں ؟ خدا کی قسم ایسا تو نہ ہوگا کہ میں ذلت کے ساتھ خود کو اس کے سپرد کردوں اور غلامانہ زندگی کااپنے لئے اقرار کرلوں ۔ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ میرے دامن پر کوئی دھبہ رہے۔ میں پناہ مانگتا ہوں اس جابر و سرکش سے جو روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتا ۔ اس کے بعد آپ پلٹ آئے اور اپنے ناقہ کو بٹھادیا اور عقبہ بن سمعان کو حکم دیا کہ اسے زانو بند لگادے۔(١)

____________________

١۔طبری ،ج٥ ،ص ٤٢٣، ٤٢٦،ابومخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے عبداللہ بن عاصم نے یہ روایت نقل کی ہے اور ابن عا صم کا بیان ہے کہ مجھ سے ضحاک مشرقی نے یہ روایت بیان کی ہے ۔

۳۰۸

زہیر بن قین کا خطبہ

اس کے بعد زہیر بن قین اپنے گھوڑے پر جس کی دم پر بہت سارے بال تھے اسلحوں سے لیس سوار ہوکر نکلے اور فرمایا :

'' یا أهل الکوفة! نذارلکم من عذا ب اللّه نذار ! انّ حقاً علی المسلم نصیحة أخیه المسلم ،و نحن حتی الآن أخوة وعلی دین واحد و ملة واحد ة مالم یقع بیننا وبیکم السیف ، وأنتم للنصحية مناّ أهل ، فاذا وقع السیف انقطعت العصمة وکُنّا أمة وانتم اُمّة

ان اللّٰه قد ابتلانا وایاکم بذرّية نبیه محمد صلی اللّٰه علیه]( وآله ) و سلم لینظر مانحن وأنتم عاملون ، أنا ندعوکم الی نصرهم و خذلان الطاغية عبیداللّه بن زیاد ، فانکم لاتدرکون منهما الا بسوء عمر سلطانهما کلّه ، لیسملان أعینکم، و یقطعان أیدیکم وأرجلکم ، ویمثّلان بکم ، ویرفعانکم علی جذوع النخل ، ویقتلان أما ثلکم وقرّاء کم : أمثال حجر بن عد وأصحابه ،وهان بن عروه وأشباهه.

فسبّوه واثنوا علی عبیدالله بن زیاد ودعوا له وقالوا : واللّٰه لا نبرح حتی نقتل صاحبک ومن معه ، أو نبعث به وبأصحابه الی الامیر عبیداللّٰه سلماً !فقال لهم :

عباداللّٰه،انّ ولد فاطمة رضوان اللّٰه علیها أحق بالود ّ والنصر من ابن سميّة فان لم تنصروهم فاعیذکم باللّٰه أن تقتلوهم ،فخلوا بین الرجل و بین ابن عمّه یزید بن معاوية ، فلعمری أن یزید لیرض من طاعتکم بدون قتل الحسین (علیه السلام )

فرماه شمر بن ذ الجوشن بسهم وقال : اسکت ، اسکت الله نامتک ابرمتنابکثرة کلامک !

فقال له زهیر : یا بن البوّال علی عقبیه ماایاک أخاطب ، انما أنت بهیمة! واللّٰه ماأظنّک تحکم من کتاب اللّٰه آیتین ! فابشر با لخز یوم القیامة والعذاب الالیم !

فقال له شمر: ان اللّه قاتلک و صاحبک عن ساعة!

قال : أفبا لموت تخوّفن ! فواللّٰه للموت معه أحب الی من الخلد معکم ! ثم أقبل علی الناس رافعاً صوته فقال :

عباد اللّه ! لا یغرنکم من دینکم هٰذا الجلف الجافی و أشباهه، فواللّٰه لا تنال شفاعة ْ محمد صلی اللّٰه علیه (وآله) وسلم قوماً هراقوا دماء ذرّیته وأهل بیته ، وقتلوا من نصرهم وذبّ عن حریمهم !

فناداه رجل فقال له : انّ أبا عبداللّٰه یقول لک : أقبل ، فلعمر لئن کان مومن آل فرعون نصح لقومه وأبلغ فی الدعا ء ، لقد نصحت لهٰؤلاء وأبلغت ، لو نفع النصح والا بلاغ

۳۰۹

''اے اہل کوفہ ! میں تم کو خدا کے عذاب سے ہوشیار کررہاہوں ! کیونکہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلما ن بھائی کو نصیحت کرناایک اسلامی حق ہے اور جب تک ہمارے اور تمہارے درمیان تلوار نہیں چلی ہے ہم لوگ ایک دوسرے کے بھائی اور ایک دین و ملت کے پیرو ہیں ، لہذاہماری جانب سے تم لوگ نصیحت کے اہل اور حقدار ہو ؛ہاں جب تلوار اٹھ جائے گی تو پھر یہ حق و حرمت خود بخود منقطع ہوجائے گا اور ہم ایک امت ہوں گے اور تم دوسری امت و گروہ ہوجاؤگے ۔

حقیقت تو یہ ہے کہ خدا نے ہمیں اور تم لوگوں کو اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذریت کے سلسلے میں مورد آزمائش قرار دیا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ ہم اور تم ان کے سلسلے میں کیا کرتے ہیں ، لہذا ہم تم کو ان کی مدد و نصرت اور سرکش عبیداللہ بن زیاد کو چھوڑدینے کی دعوت دیتے ہیں ؛ کیونکہ تم لوگ ان دونوں باپ بیٹوں سے ان کے دوران حکومت میں برائی کے علاوہ کچھ بھی نہیں پاؤ گے۔ یہ دونوں تمہاری آنکھیں پھوڑتے رہیں گے ، تمہارے ہاتھوں اور پیروں کو کاٹتے رہیں گے اور تم کو مثلہ کرکے کھجور کے درخت پر لٹکاتے رہیں گے اور تمہارے بزرگوں اور قاریان قرآن کو اسی طرح قتل کرتے رہیں گے جس طرح حجر بن عدی ،(١) ان کے اصحاب ، ہانی بن عروہ(٢) اور ان جیسے دوسرے افرادکو قتل کیا۔

اس پر ان لوگوں نے زہیر بن قین کو گالیاں دیں اور عبیداللہ بن زیاد کی تعریف و تمجید کرتے رہے؛ اس کے لئے دعائیں کیں اور بولے : خدا کی قسم ہم اس وقت تک یہاں سے نہیں جائیں گے جب تک تمہارے سالار اور جو لوگ ان کے ہمراہ ہیں ان کو قتل نہ کرلیں یا امیر عبیداللہ بن زیاد کی خدمت میں

____________________

١۔ آپ یمن کے رہنے والے تھے۔ ١٦ھ میں جنگ قادسیہ میں مدد گار کے عنوان سے شریک تھے۔ (طبری ،ج ٤ ،ص٢٧٠) کوفہ سے بصرہ کی جنگ میں حضرت علی علیہ السلام کی نصرت کے لئے سب سے پہلے آپ نے مثبت جواب دیا تھا۔ (طبری، ج٤،ص ٤٨٥) اس سے پہلے یہ عثمان کے خلاف لوگو ں کو بر انگیختہ کر نے والو ں میں شمار ہوتے تھے۔ (طبری، ج٤ ،ص ٤٨٨)آپ کوفہ میں قبیلہ مذحج اور اہل یمن کے اشعری قبیلہ والو ں کے سربراہ تھے۔ (طبری، ج٤، ص ٥٠٠) جنگ صفین میں آپ حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ جنگ کے لئے نکلتے تھے۔ (طبری ،ج٤،ص ٥٧٤) آپ کا شمار ان لوگو ں میں ہوتا ہے جنہو ں نے صفین میں تحکیم حکمین کے صحیفہ کے خلاف گواہی دی تھی ۔(طبری، ج٥ ،ص ٥٤)خوارج سے جنگ کے موقع پر نہروان میں آپ میمنہ کے سربراہ تھے۔ (طبری، ج٥،ص٨٥) ٣٩ھ میں علی علیہ السلام نے آپ کو چار ہزار لشکر کے ہمراہ کوفہ سے ضحاک بن قیس کے ٣ ہزار کے لشکر سے مقابلہ کے لئے روانہ کیا تھا تو حدود شام میں مقام '' تدمر'' میں آپ اس سے ملحق ہوگئے اور آپ نے اس کے ٢٠ آدمیو ں کو قتل کردیا یہا ں تک رات ہوگئی تو ضحاک بھاگ کھڑا ہوا اور حجر لوٹ آئے۔ (طبری، ج٥، ص ١٣٥) جب عام الجماعة میں معاویہ کوفہ آیا تو اس نے مغیرہ بن شعبہ کو وہا ں کا والی بنادیا اور مغیرہ نے حضرت علی علیہ السلام کو گا لیا ں دینے کابد ترین عمل شروع کر دیا؛ اس پر حجر نے مغیرہ کا زبردست مقابلہ کیا یہا ں تک کہ وہ ہلاک ہوگیا۔ معاویہ نے زیاد بن ابیہ کو وہا ں کا گورنر بنادیا تو اس نے بھی وہی رویہّ اپنا یا اور حجر نے بھی اپنی رفتار کو برقرار رکھا تو زیاد بن ابیہ نے انہیں گرفتار کرکے معاویہ کے پاس بھیج دیا اور معاویہ نے آپ کو قتل کردیا۔ (طبری ،ج٥،ص٢٧٠)

٢۔مسلم بن عقیل علیہ السلام کے بارے میں گفتگوکے دوران آپ کے شرح احوال گذر چکی ہے ۔

۳۱۰

تسلیم محض کر کے نہ بھیج دیں ۔اس پر زہیر بن قین نے ان لوگوں سے کہا : بندگان خدا ! فرزند فاطمہ رضوان اللہ علیھا ، ابن سمیہ(١) سے زیادہ مدد و نصرت کے سزاوار ہیں ۔اگر تم ان کی مدد کرنا نہیں چاہتے ہو تو میں تم کو خدا کاواسطہ دیتا ہوں اور اس کی پناہ میں دیتا ہوں کہ تم انھیں قتل نہ کرو ، تم لوگ اس مرد بزرگوار اوران کے ابن عم یزید بن معاویہ کے درمیان سے ہٹ جاؤ؛ قسم ہے میری جان کی کہ یزید قتل حسین (علیہ السلام) کے بغیر بھی تمہاری اطاعت سے راضی رہے گا ۔

جب زہیر بن قین کی تقریر یہاں تک پہنچی تو شمر بن ذی الجوشن نے آپ کی طرف ایک تیر پھینکااور بولا خاموش ہوجا ! خدا تیری آواز کو خاموش کردے، اپنی زیادہ گوئی سے تو نے ہمارے دل کو برمادیا ہے۔اس جسارت پر زہیر بن قین نے شمر سے کہا : اے بے حیااور بد چلن ماں کے بیٹے جو اپنے پیروں کے پیچھے پیشاب کرتی رہتی تھی!میں تجھ سے مخا طب نہیں ہوں ، تو توجانور ہے۔میں نہیں سمجھتا کہ تو کتاب خدا کی دو آیتوں سے بھی واقف ہوگا ؛ قیامت کے دن ذلت و خواری اور درد ناک عذاب کی تجھے بشارت ہو۔یہ سن کر شمر نے کہا : خدا تجھے اور تیرے سالار کو ابھی موت دیدے !

____________________

١۔ سمیہ ایک زنا کار کنیزتھی۔ زمان جاہلیت میں اس کا شمار برے کام کی پرچمدار عورتو ں میں ہوتا تھا ۔اس سے قریش کے چھ مردو ں نے زنا کیاجس کے نتیجہ میں زیاد دنیا میں آیا۔اس کے بعد ان چھ لوگو ں میں تنازعہ اور جھگڑا شروع ہو گیا کہ یہ کس کا بچہ ہے؟ جب اس کے اصلی باپ کاپتہ نہ چل سکا تواسے زیاد ابن ابیہ یعنی زیاد اپنے باپ کا بیٹا یا زیاد بن عبید یا زیاد بن سمیہ کہا جانے لگا یہا ں تک کہ معاویہ نے اسے اپنے باپ سے ملحق کرلیاتو اسے بعض لوگ زیاد بن ابی سفیان کہنے لگے ۔

جب معاویہ نے اسے کوفہ کا والی بنایا اور اس نے حجر بن عدی کو گرفتار کیااوران کے خلاف گواہوں کو جمع کرناشروع کیا تو اس فہرست میں شداد بن بزیعہ کے نام پر اس کی نگاہ گئی تو وہ بولا : اس کاکوئی باپ نہیں ہے جس کی طرف نسبت دی جائے ! اسے گواہوں کی فہرست سے نکالو، اس پر کسی نے کہا : یہ حصین کا بھائی ہے جو منذر کالڑکا ہے،تو زیاد بولا: پھر اسے اسی کے باپ کی طرف منسوب کرو ، اس سفارش کے بعد اس کا نام گواہوں کی فہرست میں لکھا گیااور اسے منذر کی طرف منسوب کیا گیا۔جب شداد تک یہ خبر پہنچی تو وہ بولا : وائے ہو اس پسر زنا کارپر ! کیا اس کی ماں اس کے باپ سے زیادہ معروف نہیں ہے؟ خدا کی قسم اسے فقط اسکی ماں سمیہ سے منسوب کیاجاتا ہے۔ (طبری ،ج٥،ص ٢٧٠)یزید بن مفرغ حمیری سجستان کی جنگ میں عبیداللہ کے بھائی عباد بن زیاد کے ہمراہ تھا وہاں ان لوگوں پر جب سختی کی زندگی گزرنے لگی تو ابن مفرغ نے عباد کی ہجو میں اشعار کہے

اذا أودی معاویه بن حرب

فبشرشِعب قعبک بانصداع

فاشهد ان امک لم تباشر

أبا سفیان و اضعة القناع

ولکن کان أمرا ً فیه لبس

علی وجل شدید وا ر تیاع

۳۱۱

جب معاویہ بن حرب مرجائے گاتو تجھے بشارت ہو کہ تیرا پیالہ ٹوٹ جائے گا ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ پردہ ہٹا کر تیری ماں نے ابو سفیان سے مباشرت نہیں کی تھی ۔لیکن یہ امر ایسا تھا کہ جس میں زیادہ خوف اوردہشت سے بات مشتبہ ہوگئی ۔

اس نے پھر کہا

أ لا أ بلغ معا و ية بن حرب

مغلغلة من ا لر جل ا لیما نی

أتغضب أن یقال:أبو ک عف

وترضٰی أن یقال: أبوک زان

فا شهد أن رحمک من زیاد

کر حم ا لفیل من و لد ا لا تا ن

(طبری، ج٥،ص ٣١٧) کیا میں معاویہ بن حرب تک یمانی مرد کا قصیدہ مغلغلہ نہ پہنچا ؤں کیا تو اس سے غضبناک ہوتا ہے کہ کہا جائے : تیرا باپ پاک دامن تھا ؟ اور اس سے راضی ہوتا ہے کہ کہا جائے : تیرا باپ زنا کار تھا ؟ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو زیاد کا بچہ اسی طرح ہے جس طرح گدھی کا بچہ ہاتھی ہو ۔

خاندان زیادکی ایک فرد جسے صغدی بن سلم بن حرب کے نام سے یاد کیاجاتا تھا مھدی عباسی کے پاس حاضر ہوا جو اس وقت کے مظالم پر نگاہ رکھے ہوئے تھا ۔ اس شخص کو دیکھ کرمہدی عباسی نے پوچھا : تو کون ہے ؟ اس نے جواب دیا : میں آپ کا چچا زاد رشتہ دار ہوں ! مھدی عباسی نے پوچھا : تم ہمارے کس چچا کے خاندان سے ہو ؟ تو اس نے خود کو زیاد سے نسبت دی ۔ یہ سن کر مہدی نے کہا : اے زناکا ر سمیہ کے بچہ ! تو کب سے ہمارا ابن عم ہوگیا ؟ اس کے بعد اسے باہر نکالنے کا حکم دیا گیا۔ اس کی گردن پکڑ کر اسے باہر نکال دیا گیا۔ اس کے بعدمہدی عباسی حاضرین کی طرف ملتفت ہوا اور کہا : خاندان زیاد کے بارے میں کسی کو کچھ علم ہے ؟ تو ان میں سے کسی کوکچھ معلوم نہ تھا ۔ اسی اثناء میں ایک مرد جسے عیسیٰ بن موسیٰ یا موسیٰ بن عیسیٰ کہتے ہیں ابو علی سلیمان سے ملا تو ابو علی سلیمان نے اس سے درخواست کی کہ زیاد اورآل زیاد کے بارے میں جوکچھ کہاجاتا ہے اسے مکتوب کردو تاکہ میں اسے مھدی عباسی تک لے جاؤں ۔ اس نے ساری روداد لکھ دی اور اس نے اس مکتوب کو وہاں بھیج دیا۔

ہارون الرشید اس زمانے میں مھدی کی جانب سے بصرہ کا والی تھا ، پس مھدی نے حکم دیا کہ ہارون کوایک خط لکھا جائے۔ اس خط میں مھدی نے حکم دیا کہ آل زیاد کا نام قریش و عرب کے دیوان سے نکال دیا جائے۔ مہدی کے خط کا متن یہ تھا : قبیلہ ثقیف کے خاندان عبد آل علاج کی ایک فرد عبید کے لڑکے زیاد کو خود سے ملحق کرنے کی معاویہ بن ابی سفیان کی رائے اور اس کا دعو یٰ ایسا تھا جس سے اس کے مرنے کے بعد تمام مسلمانوں نے اوراس کے زمانے میں بھی کافی لوگوں نے انکار کیاکیونکہ وہ لوگ اہل فضل

۳۱۲

ورضا اور صاحبان علم وتقویٰ تھے اور انہیں زیاد ،زیاد کے باپ اور اس کی ماں کے بارے میں سب کچھ معلوم تھا ۔

معاویہ کے لئے اس کام کا باعث ورع و ہدایت یا ہدایت گر سنت کی اتباع نہیں تھی اور نہ ہی گزشتہ ائمہ حق کی پیروی نے اسے اس بات کی دعوت دی تھی؛ اسے توبس اپنے دین اور اپنی آخرت کو خراب کرنے کا شوق تھا اور وہ کتاب و سنت کی مخا لفت پر مصمم ارادہ کرچکا تھا۔ زیاد کے سلسلہ میں خوش بینی سے پھولانہیں سماتا تھا کہ زیاد اپنے کام میں جلد باز نہیں ہے، وہ نافذالقول ہے اور باطل پر معاویہ کی مدد اور پشت پناہی میں اس کی امیدوں پر کھرا اترتا ہے جب کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم نے فرمایاتھا : بچہ جس بستر پرپیدا ہو اسی کا ہے اور زناکارکا حق سنگ سار ہونا ہے اور آپ نے فرمایا: جو اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کے نام سے پکارا جائے اور جو اپنے موالی کے علاوہ کسی دوسرے سے منسوب ہو تو اس پر خدا، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہو؛ خدا وند عالم نہ تو اس کی توبہ قبول کرے گااورنہ ہی اس کا فدیہ قبول ہوگا۔قسم ہے میری جان کی کہ زیاد نہ تو ابوسفیان کی گود میں پیدا ہوا نہ ہی اس کے بستر پر ، نہ ہی عبید ابوسفیان کا غلام تھا ، نہ سمیہ اس کی کنیز تھی ، نہ ہی یہ دونوں اس کی ملک میں تھے اور نہ ہی یہ دونوں کسی اور سبب کی بنیاد پر اس کی طرف منتقل ہوئے تھے لہذا معاویہ نے زیاد کو اپنے سے ملحق کرنے کے سلسلہ میں جو کچھ بھی انجام دیا اور جو اقدامات کئے سب میں اس نے امر خدا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم کی مخالفت کی ہے اور اپنی ہواو ہوس کی پیروی، حق سے روگردانی اور جانب داری کا ثبوت دیا ہے۔ خدا وند متعال فرماتا ہے:'' ومن أضل ممن اتبع هواه بغیرهدی من اللّٰه ان اللّٰه لایهدی القوم الظالمین '' (قصص ٥٠)اور اس نے جناب داود علیہ السلام کو جب حکم، نبوت، مال اور خلافت عطا کیا تو فرمایا:'' یاداؤد اناجعلناک خلیفةً فی الارض فاحکم بین الناس بالحق''ْْ (ص ٢٦) اور جب معاویہ نے (جسے اہل حفظ احادیث بخوبی جانتے ہیں ) موالی بنی مغیرہ مخزومین سے مکالمہ کیا جب وہ لوگ نصر بن حجاج سلمی کو خو د سے ملحق کرنا چاہتے تھے اور اسے اپنے قبیلے والا کہنا چاہتے تھے تو معاویہ نے اپنے بستر کے نیچے پتھرآمادہ کرکے رکھا تھا جو ان کی طرف رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے قول للعاھرالحجرکی بنیاد پر پھینکنے لگا۔ تو ان لوگوں نے کہا ہم نے توتجھے زیاد کے سلسلے میں جو تو نے کیا اس میں حق جو ازدید یا کیا تو ہمیں ہمارے فعل میں جو ہم اپنے ساتھی کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں حق جواز نہیں دے گا ؟ تو معاویہ نے کہا : رسول خدا صلی اللہ علیہ(وآلہ) وسلم کا فیصلہ تم لوگوں کے لئے معاویہ کے فیصلہ سے بہتر ہے۔(طبری ،ج١ ،ص ١٣١) یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت اور امام علیہ السلام کی دعوت کا مثبت جواب دینے سے قبل اگر چہ زہیر بن قین عثمانی تھے؛ لیکن زیاد کو خود سے ملحق کر نے اور حجر بن عدی کو قتل کرنے پر وہ معاویہ سے ناراض تھے لہٰذا ان کا نفس آمادہ تھا کہ وہ عثمانی مذہب سے نکل جائیں نیز اس کی بھی آماد گی تھی کہ معاویہ اور اس کے بیٹے یزید اور ا س کے گرگوں کے خلاف اظہار ناراضگی کریں اور امام علیہ السلام کی دعوت قبول کریں اور وہ راستہ ترک کر دیں جس پر ابھی تک چل رہے تھے۔

۳۱۳

زہیر بن قین نے کہا کہ تو مجھے موت سے ڈراتا ہے۔ خد اکی قسم ان کے ساتھ موت میرے لئے تم لوگوں کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہنے سے بہتر ہے،پھر اپنا رخ لشکر کی طرف کر کے بلند آواز میں کہا:

بندگان خدا ! یہ اجڈ ، اکھڑ، خشک مغز اور اس جیسے افراد تم کو تمہارے دین سے دھوکہ میں نہ رکھیں ۔ خدا کی قسم وہ قوم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت نہیں حاصل کرپائے گی جس نے ان کی ذریت اور اہل بیت کا خون بہایا ہے اور انھیں قتل کیا ہے جو ان کی مدد و نصرت اور ان کے حریم کی پاسبانی کررہے تھے ۔

یہ وہ موقع تھا جب حسینی سپاہ کے ایک شخص نے زہیر کو آواز دے کر کہا :ابو عبداللہ فرمارہے ہیں کہ آجاؤ خدا کی قسم! اگر مومن آل فرعون(١) نے اپنی قوم کو نصیحت کی تھی اور اپنی آخری کو شش ان کو بلانے میں صرف کر دی تھی تو تم نے بھی اس قوم کو نصیحت کردی اور پیغام پہنچادیاہے۔ اگرنصیحت و تبلیغ ان کے لئے نفع بخش ہوتی تو یہ نصیحت ان کے لئے کافی ہے۔(٢)

____________________

١۔امام علیہ السلام نے مومن آل فرعون کی تشبیہ اس لئے دی کہ آپ پہلے عثمانی تھے گویا قوم بنی امیہ سے متعلق تھے۔

٢۔ابو مخنف کہتے ہیں کہ مجھ سے علی بن حنظلہ بن اسعد شبامی نے اپنی ہی قوم کے ایک فرد سے یہ روایت نقل کی ہے جو امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے وقت وہا ں حاضر تھا ،جسے کثیر بن عبداللہ شعبی کہتے ہیں ؛ اس کا بیان ہے : جب ہم حسین کی طرف ہجوم آور ہوئے تو زہیر بن قین ہماری طرف آئے اور خطبہ دیا۔ (طبری ،ج٥ ،ص ٤٢٦) یعقوبی نے بھی اس خطبہ کو ج٢،ص ٢٣٠ ،طبع نجف پر ذکر کیا ہے ۔

۳۱۴

حر ریاحی کی بازگشت

جب عمر بن سعد اپنے لشکر کے ہمراہ امام حسین علیہ السلام پر ہجو م آو رہو رہاتھا تو حر بن یزید نے عمر بن سعد سے کہا: اللہ تمہارا بھلا کرے !کیاتم اس مرد سے ضرور جنگ کرو گے ؟

عمر بن سعدنے جواب دیا:''أی واللّه قتالاً أیسره أن تسقط الروؤس تطیح الایدی! ''ہاں !خد ا کی قسم ایسی جنگ ہوگی جس کاآسان ترین مرحلہ یہ ہوگا کہ (درختوں کے پتوں کی طرح) سر تن سے جداہوں گے اورہاتھ کٹ کٹ کر گریں گے ۔

حرنے سوال کیا :''أفمالکم ف واحد ة من الخصال التی عرض علیکم رضا !'' کیاان مشورں میں سے کوئی ایک بھی تمہارے لئے قابل قبول نہیں ہے ۔

عمربن سعد نے جواب دیا:''أماواللّٰه لوکان الامر الّلفعلت ولکن أمیرک قدأبیٰ ذالک'' خداکی قسم اگر یہ کام میرے ہاتھ میں ہوتا تومیں اسے ضرورقبول کرتا لیکن میں کیاکروں کہ تمہار اامیر اس سے انکا ر کرتاہے ۔یہ سن کر حر نے کنارہ کشی اختیار کرلی او رایک جگہ پر جاکر کھڑاہوگیااس کے ہمراہ ا موی فوج کا ایک سپاہی قرہ بن قیس(١) بھی تھا ۔حر نے قرّہ سے کہا:''یاقرّہ ! ھل سقیت فرسک الیوم ؟''اے قرہ ! کیاتو نے آج اپنے گھوڑے کو پانی پلایا؟ قرہ نے جواب دیا : نہیں ! حر نے کہا : پھر تو ضرور پلانے کا ارادہ رکھتاہوگا ؟ قرہ کا بیان ہے : خدا کی قسم میں یہ سمجھا کہ وہ وہاں سے دور ہونا چاہتا ہے اور جنگ میں شریک ہونانہیں چاہتا اور اسے بھی ناپسند کرتا ہے کہ جب وہ یہ کام انجام دے تو میں وہاں موجود رہوں کیونکہ اسے خوف تھا کہ کہیں میں اس کی خبر وہاں نہ پہنچادوں ۔بہر حال میں نے اس سے کہا: میں نے تو ابھی اسے پانی نہیں پلایا ہے ؛اب اسے لے جارہاہوں تاکہ پانی پلادوں ؛ یہ کہہ کر میں نے اس جگہ کوچھوڑ دیا جہاں وہ موجود تھا۔ خدا کی قسم! اگر مجھے اس کے ارادہ کی اطلاع ہوتی تو میں اس کے ہمراہ حسین(علیہ السلام) کے ہم رکاب ہوجاتا ۔ادھر حر نے آہستہ آہستہ امام حسین علیہ السلام کی طرف نزدیک ہوناشروع کیا۔حر کی یہ کیفیت دیکھ کر اموی لشکر کے ایک فوجی مہاجر بن اوس(٢) نے آپ سے کہا : اے فرزند یزید تمہارا ارادہ کیا ہے ؟ کیا توکسی پر حملہ کرنا چاہتا ہے ؟ تو حر خاموش رہا اور وہ اس طرح لرزہ بر اندام تھا جیسے بجلی کڑکتی ہو۔ مہاجر بن اوس نے پھر کہا: اے فرزند یزید تمہارا ارادہ کیا ہے ؟ خدا کی قسم تمہارا کام شک میں ڈالنے والا ہے۔ خدا کی

____________________

١۔امام حسین کے کربلامیں واردہونے کے بیان میں اس شخص کے حالات گزرچکے ہیں اوریہ کہ حبیب بن مظاہر نے اسے امام علیہ السلام کی نصرت و مدد کی دعوت دی تھی تو اس نے سونچنے کا وعدہ دیاتھالیکن واپس نہیں پلٹا۔ ظاہر ہے کہ ناقل خبر یہی ہے اور اپنے سلسلہ میں خود ہی مدعی ہے ۔

٢۔ شعبی کے ہمراہ یہ زہیر بن قین کا قاتل ہے۔(طبری ،ج٥، ص ٤٤١)

۳۱۵

قسم جنگ کے وقت میں نے کبھی بھی تمہاری ایسی حالت نہیں دیکھی جیسی ابھی دیکھ رہاہوں ، اگر مجھ سے پوچھا جاتا کہ اہل کوفہ میں سب سے شجاع اور دلیر کون ہے تو میں تیرا نام لیتالیکن اس وقت میں جوتیری حالت دیکھ رہاہوں وہ کیا ہے ؟

حرنے کہا :''انّواللّه أخيّر نفس بین الجنة والنار ، واللّٰه لا اختار علی الجنة شیئاً ولو قطعت وحرّقت ! ''خدا کی قسم میں خود کو جنت و جہنم کے درمیان مختار دیکھ رہاہوں اور خدا کی قسم میں جنت پر کسی دوسری چیز کو اختیار نہیں کروں گا چاہے مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے یا جلا دیا جائے۔

پھر حر نے اپنے گھوڑے پر ایک ضرب لگائی اور خود کو حسینی لشکر تک پہنچادیا اور امام حسین کی خدمت میں عرض کیا :''جعلنی اللّٰه فداک یا بن رسول اللّٰه ! أنا صاحبک الذی حبستک عن الرجوع وسایرتک فی الطریق ، و جعجعت بک فی هذاالمکان ، واللّٰه الذ لااله الا هو ما ظننت أن القوم یردون علیک ما عرضت علیهم أبداً ولا یبلغون منک هذه المنزلة فقلت ف نفس : لا أبا ل أن أطیع القوم فی بعض أمرهم ، ولا یرون ان خرجت من طاعتهم ، وأما هم فسیقبلون من حسین علیه السلام هذه الخصال التی یعرض علیهم ، واللّٰه لو ظننت أنهم لا یقبلونها منک ما رکبتها منک ، وان قد جئتک تائباً مما کان من الی ربّ ومواسیاًلک بنفس حتی أموت بین یدیک ، أفَتَریٰ ذلک ل توبة ؟! ''

اے فرزند رسول خدا ! میری جان آپ پر نثار ہو ! میں ہی وہ ہوں جس نے آپ کو پلٹنے سے روکا اور آپ کے ہمراہ راستے میں یہاں تک چل کر آیا ، میں ہی وہ ہوں جو آپ کو اس خشک اور جلتے ہوئے صحرا میں لے کر آیا۔قسم ہے اس خدا کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ، میں گمان بھی نہیں کر رہاتھا کہ یہ لوگ آپ کے منطقی مشورہ اور صلح آمیز گفتگوکو قبول نہیں کریں گے، میرے تصور میں بھی یہ نہ تھا کہ یہ لوگ آپ کو اس منزل تک پہنچادیں گے میں اپنے آپ میں کہہ رہاتھا چلو کوئی بات نہیں ہے کہ اس قوم کی اس کے بعض امرمیں اطاعت کر لیتا ہوں تاکہ وہ لوگ یہ سمجھیں کہ میں ان کی اطاعت سے باہر نہیں نکل آیا ہوں ۔میں ہمیشہ اسی فکر میں تھا کہ آپ جو مشورہ دیں گے اسے یہ لوگ ضرور قبول کرلیں گے۔خدا کی قسم اگر مجھے معلوم ہوتا کہ یہ لوگ آپ سے کچھ بھی قبول نہیں کریں گے تو میں کبھی بھی اس کا مرتکب نہ ہوتا۔اے فرزند پیغمبر ! اب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں اور ہر اس چیز سے خدا کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں جو میں نے انجام دیا ہے اور اپنے تمام وجود کے ساتھ آپ کی مدد کروں گا ؛یہاں تک کہ مجھے آپ کے سامنے موت آجائے۔ کیا آپ کی نگاہ میں میری توبہ قابل قبول ہے ؟

۳۱۶

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :''نعم ، یتوب اللّٰه علیک و یغفر لک! مااسمک ؟'' ہاں تمہاری توبہ قبول ہے، اللہ بھی تمہاری توبہ قبول کرے اور تمہیں بخش دے ! تمہارا نام کیا ہے ؟

حرنے جواب دیا : میں حر بن یزید ہوں ۔(١) امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :''أنت الحر کما سمتک أمّک أنت الحر ان شاء اللّٰه فی الدنیا والآ خرة انزل '' تو حر ہے جیسا کہ تیری ماں نے تیرا نام رکھاہے،ان شاء اللہ تو دنیا و آخرت دونوں میں حر اور آزاد ہے، نیچے اتر آ ۔

حرنے عرض کیا:'' أنالک فارساً خیر منی لک راجلاً ، أقاتلهم علی فرس ساعة والی النزول ما یصیر آ خر أمر ''میں آپ کی بارگاہ میں سوار رہوں یہ میرے لئے نیچے آنے سے بہتر ہے تاکہ کچھ دیر اپنے گھوڑے پر ان سے جنگ کرسکوں اور جب میں نیچے اتروں تو یہ میری زندگی کے آخری لمحات ہوں ۔

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :'' فاصنع ما بدا لک'' تم جس فکر میں ہو اسے انجام دو ۔ اس گفتگو کے بعدحر اپنے لشکر کے سامنے آئے اور اس سے مخاطب ہوکر کہا :

____________________

١۔ ایک احتمال تو یہ ہے کہ چونکہ حر اسلحہ سے لیس تھا اور شرم سے اپنا سر جھکائے تھا لہذا امام علیہ السلام نے اسے نہیں پہچانا اور سوال کیا ورنہ آپ حر کو پہلے سے پہچانتے تھے۔ دوسرا احتمال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ حر کے نام سے صفت کا استفادہ کرنا چاہتے تھے لہٰذا نام پوچھا ورنہ جو اوصاف اس نے بتائے تھے اس سے تو ہر آدمی سمجھ سکتا ہے کہ آنے والا حر ہی تھا۔ (مترجم)

۳۱۷

حر بن یزید ریاحی کا خطبہ

''ایها القوم ! ألا تقبلون من حسین علیه السلام خصلة من هذه الخصال التی عرض علیکم فیعافیکم اللّٰه من حربه و قتاله ؟

قالوا: هذا الامیر عمر بن سعد فکلّمه

فکلّمه بمثل ما کلّمه به قبل ، و بمثل ما کلّم به أصحابه

قال عمر (بن سعد) قد حرصتُ ، لو وجدت الی ذالک سبیلاً فعلتُ

فقال ؛ یا اهل الکوفة ! لاُمکم الهبل والعبر اذا دعوتموه حتی اذا أتاکم أسلمتموه ! وزعمتم أنکم قاتلوا أنفسکم دونه ، ثم عدوتم علیه لتقتلوه ! أمسکتم بنفسه و أخذتم بکظمه ، وأحطتم به من کل جانب ، فمنعتموه التوجّه فی بلاد اللّه العریضة حتی یأمن و یأمن أهل بیته ، و أصبح فی أیدیکم کالاسیر ، لا یملک لنفسه نفعاً و لا یدفع ضراً ، وحلا تموه و نساء ه و صبیته و أصحابه عن ماء الفرات الجاری ، الذ یشربه الیهود والمجوس والنصران ، وتمرغ فیه خنازیر السواد و کلابه ، هاهم أولاء قد صرعهم العطش ، بئسما خلفتم محمداً فی ذریته ! لاسقاکم اللّه یوم الظماء ان لم تتوبوا و تنزعوا عما أنتم علیه من یومکم هذا فی ساعتکم هذه''

اے قوم ! حسین کی بتائی ہوئی راہوں میں سے کسی ایک راہ کو کیوں نہیں قبول کرلیتے تاکہ خدا تمہیں ان سے جنگ اور ان کے قتل سے معاف فرمادے ۔

لشکر نے کہا : یہ امیر عمر بن سعد ہیں انھیں سے بات کرو ۔.

تو حر نے عمر بن سعد سے بھی وہی بات کی جو اس سے پہلے کی تھی اور جو باتیں ابھی لشکر سے کی تھیں ۔عمر بن سعد نے جواب دیا :میں اس کا بڑا حریص تھا کہ اگر میں کوئی بھی راستہ پاتا تو ضرور یہ کام انجام دیتا ۔

۳۱۸

یہ سن کر حر نے لشکر کو مخاطب کر کے کہا :اے اہل کوفہ! تمہاری مائیں تمہارے غم میں روئیں ؛کیونکہ تم ہی لوگوں نے ان کو یہاں آنے کی دعوت دی تھی اور جب وہ چلے آئے تو تم لوگ انھیں اس ظالم کے سپرد کرناچاہتے ہو۔ پہلے تم اس کے مدعی تھے کہ ان پر اپنی جان نثار کردوگے پھر اپنی بات سے پلٹ کر انھیں قتل کرنا چاہتے ہو۔ تم لوگوں نے یہاں ان کو روک رکھا اور ان کی بزرگواری اور کظم غیظ کے مقابلہ میں ان پر پہرہ ڈال دیا اور انھیں چاروں طرف سے گھیر لیا ہے اور اللہ کی اس وسیع و عریض زمین میں ان کو کہیں جانے بھی نہیں دیتے کہ وہ اور ان کے اہل بیت امن و امان کی زندگی گزار سکیں ۔یہ تمہارے ہاتھوں میں اسیروں کی طرح ہوگئے ہیں جو نہ تو خود کو کوئی نفع پہنچاسکتے ہیں اورنہ ہی خود سے ضرر و نقصان کو دور کر سکتے ہیں ۔ تم لوگوں نے ان پر، ان کی عورتوں پر ، ان کے بچے اوران کے اصحاب پر اس فرات کے بہتے پانی کو روک دیا ہے جس سے یہود و مجوسی اور نصرانی سیراب ہورہے ہیں ، جس میں کالے سور اور کتے لوٹ رہے ہیں ؛ لیکن یہی پانی ہے جو ان پر بند ہے اور پیاس سے یہ لوگ جاں بلب ہیں ۔ حقیقت میں تم لوگوں نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعدان کی ذریت کے ساتھ بڑا برا سلوک کیا ہے۔ خدا قیامت کے دن ،جس دن شدت کی پیاس ہوگی تم لوگوں کو سیراب نہ کرے۔اگر تم اپنے افعال سے آج اسی وقت توبہ نہ کرلو۔(١)

جب حر کی تقریر یہاں تک پہنچی تو پیدلوں کی فوج میں سے ایک نے آپ پر حملہ کردیا اور تیر بارانی شروع کردی(٢) لیکن حر پلٹ کر امام حسین علیہ السلام کے پاس آکر کھڑے ہوگئے ۔

حر کی اس دلسوز تقریر کا بعض دلوں پریہ اثرہوا کہ وہ حسین بن علی علیہما السلام کی طر ف چلے آئے ان میں سے ایک یزید بن یزید مھاصر ہیں جو عمر بن سعد کے ہمراہ حسین سے جنگ کے لئے آئے تھے۔ جب امام حسین علیہ السلام کی تما م شرطوں کو رد کردیا گیا اور جنگ کا بازار گرم ہوگیا تو آپ حسینی لشکر کی طرف چلے آئے(٣) آپ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو حر کی تقریر سے راہ حسین کے سالک ہوئے ہیں ۔

____________________

١۔ الارشاد ، ص ٢٣٥، ا لتذکرہ ،ص ٢٥٢

٢۔ ابو جناب کلبی اور عدی بن حرملہ سے یہ روایت منقول ہے۔(طبری ، ج٥ ،ص ٤٢٧، ارشاد، ص ٢٣٥)

٣۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے فضیل بن خدیج کندی نے یہ روایت نقل کی ہے کہ یزید بن زیاد وہی ابو شعشاء کندی ہے جو قبیلہ بہدلہ سے متعلق تھا۔ (طبری، ج٥ ،ص ٤٤٥)

۳۱۹

آغاز جنگ

*پہلا تیر

* نافع بن ہلال جملی کی شہادت

* الحملة الاولی (پہلا حملہ)

* غفاری برادران

* کرامت و ہدایت

* قبیلہ ٔجابری کے دو جوان

* بریر کا مباہلہ اوران کی شہادت

* حن*لہ بن اسعد شبامی کی شہادت

* عمرو بن قر*ہ انصاری کی شہادت

* عابس بن ابی شبیب شاکری اور انکے غلام کی شہادت

* نافع بن ہلال

* یزید بن زیاد ابو شعشاء کندی کی شہادت

* الحملة الثانیہ (دوسرا حملہ)

* چار دوسرے اصحاب کی شہادت

* مسلم بن عوسجہ

۳۲۰