واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا9%

واقعۂ کربلا مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 438

واقعۂ کربلا
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 438 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 192982 / ڈاؤنلوڈ: 5407
سائز سائز سائز
واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

کی اس شاہی نسل سے تھا جس کا مورث اعلی منوچہر ہے لیکن حضرت سلمان نے اس بات کو اپنے لئے باعث فخر نہ سمجھا ۔نسبی کرید کو پسند نہ فرماتے تھے ۔ایک مرتبہ کسی نے ان کے نسب سے متعلق سوال کیا تو جواب دیا کہ میں مسلمان فرزند اسلام ہوں ۔میں ایک غلام تھا اللہ نے مجھے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ آزاد کرایا میں بے حیثییت شخص تھا اللہ نے مجھے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ عزت بخشی۔میں ایک فقیر تھا خدا نے مجھے اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ غنی کردیا اور یہی میرا حسب نسب ہے ۔صاحب طبقات کے بیان کے مطابق ابن عباس کی روایت ہے کہ حضرت سلمان نے خود پتہ دیا کہ وہ اصفہان کے گاؤں "حئ " کے رہنے والے تھے ۔آپ کے والد ایک زمیندار تھے اور اپنے فرزند سے بہت محبت رکھتے تھے اور ان کو جدا نہ کرتے تھے ان کو گھر میں اس طرح قید رکھا تھا جس طرح لڑکی کو قید کیا جاتا ہے ۔آپ کے والدین مجوس پر تھے اور ان کی یہ خواہش تھی کہ سلمان بالغ ہونے سے قبل اپنے دین کی معرفت حاصل کرے لیکن سلمان کی طبیعت فطرتا مشاہدات قدرت پر غور وفکر کرنے پر مائل تھی اور دین مجوس کے نقائص اکثر ان کے دماغ میں تجسس پیدا کرتے تھے گھر اپنے والد کے احترام میں زبان بند رکھتے تھے ایک دن بوذ خشان اپنے ایک مکان کی بنیاد مرمت کرنے کی غرض سے گھر سے باہر گئے اور سلمان کو اپنی جگہ کھیتوں کے کا م پر روانہ کیا ۔راستے میں آپ کو ایک گرجا دکھائی دیا جہاں لوگ عبادت کررہے تھے اور توحید خداوندی اور رسالت عیسی علیہ السلام علیہ السلام کا ورد کررہے تھے ۔عیسا ئیوں کی یہ عبادت ان کو پسند آئی تحقیق

۱۴۱

کاشوق ہوا عیسائیوں سے مذہبی معلومات کی ۔روایت میں ہے کہ وہ عیسا ئی صحیح دین پر تھے ۔ وہ توحید خداوندی رسالت عیسی علیہ السلام کے اقرار کے ساتھ یہ بھی شہادت دیتے تھے کہ تحقیق محمد اللہ کے حبیب ہیں ۔ مسلمان کے خدا ،عیسی علیہ السلام او رمحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں دریافت کیا ۔ انھوں نے کہا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی سارے جہاں کا خالق وپروردگار ہے ۔اور عیسی بن مریم علیھما السلام اللہ کے برگزیدہ رسول ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ رسول مبشر ہے جو رسالت ونبوت کو ختم کرے گا ۔حضرت سلمان پر ان باتوں کا اثر ہوا اور تین دن متواتر معلومات میں اضافہ کیا ادھر ان کے والد ان کو تلاش کرتے تھے ۔سلمان پر جو نظر پڑی تو پکڑ لیا اور پوچھا کہ کہاں تھے ؟ آپ نے صاف صاف بتا دیا ۔ باپ نے بھانپ لیا کہ لڑکا اپنے آبائی دین سے باغی ہے ۔لہذا تھوڑا تشدد کیا اور انھیں بیڑیاں پہنا کر قید کرلیا ۔مگر تلاش حق کا جذبہ مضبوط ہوگیا ۔بود خشان کا خیال تھا یہ سختی بیٹے کو نئے عقیدے سے دستبردار کردے گی لیکن انھوں نے آزمایا کہ اذیت کی زیادتی ان کے عقیدے کو مزید سخت کررہی ہے لہذا آپ پر اور تشدد کیاجانے لگا ۔حتی کہ کوڑے تک لگائے گئے اپنے والد کے اس ظالمانہ رویہ سے عاجز آگئے ۔آدھی رات کو انھوں نے اپنے خدا واحد کی بارگاہ میں م اپنی حالت زار خضوع وخشوع سے عرض کی اور دعا مانگی کہ "اے خداوند! میرے دل کو شرک وبت پرستی کی کدورت سے پاک رکھ ۔میں تجھے تیرے حبیب کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھے اس حبس سے رہا کر ۔ اپنے حبیب تک پہنچادے " خلوص دل سے دعا فرمائی تھی مستجاب ہوئی ۔ایک غیبی ندا آئی کہ روزبہ اٹھ

۱۴۲

اور قید خانہ سے نکل جا۔ آپ نے تعمیل کی اور اسی گرجا میں آئے ۔ایک عمر رسیدہ راہب چرچ سے باہر آیا اور اس نے خود ہی پوچھا کہ کیا تم ہی روزبہ ہو ؟آپ نے اثبات میں جواب دیا اور وہ بزرگ ان کو گرجا کے اندر لےگئے ۔اگر چہ سلمان دین مجوس کو شروع ہی سے ناقص سمجھتے تھے مگر ڈانوا ڈول تھے ۔اب عیسائیت کی پناہ میں انھیں کچھ قرار محسوس ہوا۔ آپ دن رات عیسائی علماء کی خدمت کرتے اور زہد وتقوی کی تعلیم دل لگا کرحاصل کرتے ۔آپ نے جس بزرگ کو روحانی سرپرست پسند کیا تھا وہ بھی ان کو بہت قریب رکھتے تھے ۔ان کی ذہانت وخدمت کے باعث جب اس کاآخری وقت آیا تو اس نے اپنے شاگرد رشید حضرت سلمان کو بلاکر کہا کہ موت برحق ہے اب میرا انتقال قریب ہے ۔حضرت سلمان نے عاجزانہ عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا لائحہ عمل کی تعلیم فرما جائیں جو مستقبل میں میری رہبری کے لئے مشعل راہ ہو ۔اس بزرگ نے نصیحت کی کہ تم میری ایک لوح لے کر انطاکیہ چلے جاؤ وہاں ایک راہب ہے وہ عموما شہر سے باہر رہتا ہے اس کو تلاش کرو اسے یہ لوح دے دینا اور اس کی خدمت میں میرا سلام پہنچا کر اس کے حلقہ ارادت میں شامل ہوجانا ۔اور جو وہ تمھیں حکم دیے اس کی تعمیل کرنا ۔اس نصیحت کے بعد راہب کی روح پرواز کرگئی اور سلمان انطاکیہ روانہ ہوگئے ۔

جب سلمان انطاکیہ پہنچے تو انھوں نے تلاش کیا کہ شہر کے باہر ایک "دیر" ہے اس کے دروازے پر ایک بوڑھا بیٹھا ہے شکل ولباس سے راہب دکھائی دیتا ہے ۔سلمان نے قریب ہو کر باآواز بلند فرمایا "لا الہ الا اللہ عیسی روح اللہ ومحمد حبیب اللہ"یا یہ کہا

۱۴۳

"اشهد ان لا اله الا الله و ان عیسی روح الله و ان محمد حبیب الله " جب راہب نے سنا تو چونک کر دریافت کیا کہ تم کون ہو ۔سلمان نے نزدیک جک کر لوح اس راہب کے سپرد کردی۔لوح لینے پر راہب نے ان کو اپنے پاس ٹھہرالیا ۔ یہ بزرگ راہب تارک الدنیا اور عبادت گزار بندہ خدا تھا ۔دن رات عبادت الہی یمں مشغول رہتا تھا لہذا سلمان کو اس سے محبت ہوگئی ۔اور وہ ان کی خدمت کرنے لگے ۔ اور ساتھ ساتھ علمی و روحانی پیاس بھی بجھاتے رہے ۔سلمان اس بزرگ سے علمی اور عملی استفادہ حاصل کرنے کا کوئی موقعہ بھی ضائع نہ جانے دیتے تھے یہاں تک کہ اس راہب کا وقت آخر قریب ہوا۔اور اس نے سلمان کو نصیحت کی اب اس جگہ عیسائی کوئی نہیں رہا ہے تم یہ لوح لیکر سکندریہ کے راہب کے پاچلے جانا اور اس کی خدمت میں مشغول ہوجانا ۔چنانچہ اس راہب کی وفات کے بعد حضرت سلمان سکندریہ آئے اور اس راہب کی خدمت میں کافی عرصہ گزارا ۔مورخین کے بیان کے مطابق اسی طرح راہب در راہب حضرت سلمان جاتے رہے اور لوح منتقل ہوتی رہی ۔یہاں تک کہ آخری راہب تک پہنچے ۔اوراس کے آخری وقت پر اس سے التجا کی میں بہت دروازوں پر جاچکا ہوں اب تو آپ مجھے کسی ایسے کے ہاں روانہ کریں جس کے بعد کسی او رکی حاجت نہ ہو ۔راہیب نے کہا بس اب میری نظر میں کوئی ایسا شخص باقی نہیں ہے جس کے پاس تمھیں روانہ کروں ۔لہذا تمھیں مشورہ دیتا ہوں کہ محمد بن عبد اللہ بن

۱۴۴

عبد المطلب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ظہور کا وقت قریب ہے وہ ریگستان میں ظہور کرے گا اور کھجوروں والی زمین کی ہجرت کرےگا یہ وہ ہی آخری رسول ہے جس کی خبر وبشارت بنی اسرائیل کے نبیوں نے دی ہے ۔اور اس کاذکر کتابوں میں موجود ہے اس کی علامتیں یہ ہیں کہ جو ہدیہ کو قبول کرے گا اور صدقہ کو رد کردے گا ۔ اس کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی تم اس کی خدمت میں حاضر ہوکریہ لوح اسے پیش کردینا ۔

چنانچہ اس راہب کی وفات کے بعد حضرت سلمان اس نبی مبشر کی تلاش میں ریگستانوں کی خاک چھانتے رہے ۔یہاں تک کہ فقر وفاقے کی نوبت آگئی کہ تنگ آکر کچھ آدمیوں کے ایک مجمع میں اعلان کیا کہ جو شخص بھی میرے اخراجات کو برداشت کرے گا میں اس کی غلامی قبول کرلوں گا ۔ مدینہ میں ایک متمول زمیندار اس بات پر آمادہ ہوگیا مگر اس نے شرط عائد کی میں تمھیں مدینہ لے جاؤں گا اور تم وہاں میرے غلام بنکر میری خدمت کروگے عشق رسول کے سامنے یہ سود ا سلمان کوسستا نظر آیا ۔فورا آمادہ ہوگئے ۔جب دوران سفر لوگوں کو سلمان کے عقیدے اور مقصد سفر کی معلومات ہوئیں تو انھوں نے ان کا تمسخر اڑایا اور تکالیف پہنچا ئیں ۔مگر آتش عشق بجھنے کی بجائے بھڑکتی رہی ۔

سلمان مدینہ پہنچ گئے لیکن انھیں اپنے آقا کی خدمت سے اتنی فرصت وفراغت میسر نہ آسکی وہ خود اس رسول کا پتہ چلا تے ۔ایک دن وہ باغ میں کوئی خدمت انجام دے رہے تھے کہ

۱۴۵

کچھ لوگ باغ کے چشمے کے قریب آکر بیٹھ گئے چونکہ سلمان طبعا مہمان نواز اور تواضع کش تھے لہذا ایک تھا ل میں کچھ کھجوریں لیکر ان کے پاس پہنچے اور عیسائی طریقہ پر سلام کیا اور دعوت طعام کی خواہش فرمائی ۔ انھوں نے سلمان کی دعوت کو قبول کیا اور کھانا شروع کیا مگر ان میں سے ایک صاحب نے ان خرموں کو ہاتھ نہ لگایا ۔سلمان نے وجہ دریافت کی تو جواب پایا کہ "صدقہ مجھ پر اور میرے اہلبیت پر حرام ہے " سلمان نے پوچھا تم کون ہو " جواب دیا میں اللہ کا رسول ہوں " یہ سنکر سلمان واپس ہوئے اور خرمہ کا ایک دوسرا طبق لے کرآئے اور رسول کی خدمت میں ہدیہ کیا ۔آپ نے اس میں تناول فرمایا ۔سلمان کی دلی مراد پوری ہوئی۔پروانہ وار شمع رسالت کا طواف کرتے رہے ۔اور پشت مبارک پر ثبت مہر نبوت کی زیارت کاشرف پاتے ہی قدموں میں گرگئے اور فرمایا " اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد انک رسول اللہ " میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں اس کے بعد حضرت سلمان نے راہب کی دی ہوئی لوح رسول خدا کے سپرد کردی ۔حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سلمان کے آقا کے پاس تشریف لےگئے ۔اور سلمان کو خرید کر آزاد کردیا ۔اور ارشاد فرمایا کہ تم "سلمان الخیر "ہو۔

حضرت سلمان کے ابتدا ئی حالات کو کئی طریقوں اور اختلافات سےبیان کیا گیا ہے تاہم ہمارے لئے سرکار خاتم النبین صادق وامین رسول کی زبان وحی بیان کا یہ ارشاد کافی ہے کہ حضور نے فرمایا ۔

"سلمان مجوسی نہیں تھے بلکہ وہ شرک کا اظہار کرتے تھے اور ایمان کو دل میں پوشیدہ کھے ہوئے تھے "

۱۴۶

حضور کی یہ شہادت سلمان کے ابتدائی حالات ایمان کی بحث کو ختم کردینے کے لئے کافی ہے ۔

روایات امامیہ سےیہ بات عیاں ہوتی ہے کہ حضرت سلمان فارسی کو حضرت عیسی علیہ السلام کے "وصی" ہونے کا روحانی اعزاز حاصل تھا ۔شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں کہ ایک روز حضرت سلمان نے اپنے گھر کی چھت میں ایک تحریر لٹکی ہوئی دیکھی اپنی والدہ سے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ ہم بھی جب گھر واپس آئے تو اسے ایسے ہی لٹکا پایا ہے ۔تم اس کو مت چھونا ورنہ تمھارے والد تمھیں سزادیں گے ۔حضرت سلمان اس وقت خاموش ہورہے مگر رات کو جب تمام گھر والے سوگئے تو آپ نے اٹھ کر اس کامطالعہ فرمالیا لکھاتھا کہ ۔

"بسم اللہ الرحمان الرحیم ۔

یہ اللہ کاعہد ہے ۔آدم سے کہ وہ ان کے صلب سے ایک نبی خلق کرے گا جس کا نام محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوگا وہ اخلاقی بلندیوں کو حاصل کرنے کا حکم دےگا ۔ اور اصنام کی پر ستش سے منع کرے گا ۔ اے روزبہ ! تم عیسی ابن مریم کے وصی ہو اس لئے ایمان لاؤ اور مجوسیت سے دور رہو ۔اور اس سے بے زاری کا اعلان کرو۔"

اما م جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ عیسی او محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان پانچسو سال کا عرصہ ہے جس میں ڈھائی سو سال ایسے ہیں جن میں نہ تو کوئی نبی تھا اور نہ ظاہری عالم ۔راوی نے عرض کیا پھر لوگ کس دین پر تھے ؟ فرمایا وہ دین عیسوی پر تھے ۔ پوچھا وہ لوگ کیا تھے ؟ فرمایا وہ مومن تھے پھر ارشاد کیا کہ زمین اس وقت تک قائم نہیں رہ سکتی جب تک اس میں عالم موجود نہ ہو ۔ شیخ صدوق فرماتے ہیں کہ جو لوگ حجت خدا کی تلاش میں جگہ بجگہ منتقل ہوتے رہے ان میں سلمان بھی ہیں ۔وہ ایک عالم سے دوسرے عالم اور ایک فقیہ سے دوسرے فقیہ تک پہنچے

۱۴۷

رہے اور اسرار واخبار میں تدبر کرتے رہے اور حضور کے ظہور کے منتظر رہے ۔ پھر لکھا ہے کہ جناب سلمان حضرت عیسی کے وصی کے وصی تھے اسی طرح ابن طاؤس فرماتے ہیں کہ سلمان حضرت عیسی کے آخری چند اوصیاء میں سے تھے ۔ اس کے ثبوت میں ملا حسین نوری طبرسی نے ایک دلیل پیش کی ہے جو قابل غور ہے ، سلمان کی وفات کے بعد سید الاوصیاء امیر المومنین علیہ السلام نے انھیں غسل دیا حالانکہ بظاہر سلمان مدائن میں تھے اور جناب امیر مدینہ میں تھے کرامت کے ذریعہ اتنی دور تشریف لے جانے کی غالبا وجہ یہی تھی کہ وصی کو نبی یا وصی غسل دے سکتا ہے ۔پھر لوح کا مختلف وسائل کے ذریعے آنحضرت تک پہنچا نا بھی اس بات کا امکانی ثبوت ہے ۔

بہر حال قبل از اسلام کے حالات سے سلمان کو ایک مسلم دینی حیثیت ضرور حاصل تھی اور اس منزل تک پہنچنے کے لئے ان کو ایک طرف شدائد ومصائب کا مقابلہ کرنا پڑا تو دوسری طرف سنگین دشوار یوں سے دوچار ہوئے ۔یہ تمام آلام اور ناگواریاں انتہائی صبر وتحمل سے برداشت کرنا حضرت سلمان کے جذبہ حب دین ومعرفت الہی کے ذوق اور شوق زیارت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاآئنہ دار ہے ۔حقیقی دین عیسوی سے وابستہ علماء کی صحبت او رفیض ربّانی نے یوں تو حضرت سلمان کو سونا بنا دیا تھا مگر جب آپ کو کائنات کے سب سے بڑے ہادی رحمۃ العالمین کا سایہ رحمت وشفقت نصیب ہوا تو آپ پارس ہوگئے ۔سرور کائنات کی صحبت کا رنگ ایسا پکڑا کہ صحابی سے "منّا اهلبیت " قرار پائے ۔آپ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر قول وعمل کو اپنی زندگی کا جزو لا ینفک بنائے رکھا ۔سلمان کا منشور زندگی صرف سنت رسول کی پیروی ۔آل رسول (ع) کی محبت واتباع اور کتاب الہی کی مطابقت تھی ۔ اسی وجہ سے

۱۴۸

جو فضائل ان کو نصیب ہوئے کسی دوسرے صحابی کو حاصل نہ ہوسکے ۔حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا کہ میں سلمان کے بارے میں کیا کہوں وہ ہماری طینت سے خلق ہوئے ہیں جس کی روح ہماری روح سے ہم آہنگ ہے ۔خداوند تعالی نے سلمان کو علوم اول وآخر اور ظاہر وباطن سے سرفراز کیا ہے ۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سلمان مجلس رسول مقبولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں حاضر تھے کہ اچانک ایک عربی آیا ۔ اس نے حضرت سلمان کا ہاتھے پکڑا اور انھیں اٹھا کر ان کی جگہ پر بیٹھ گیا آنحضرت یہ منظر دیکھکر اتنے آزردہ خاطر ہوئے کہ چہرہ مبارک کا رنگ متغیر ہوگیا اور پیشانی اقدس پر قطرات عرق نمودار ہوئے اور اس حالت میں ارشاد فرمایا کہ" تم اس شخص کو مجھ سے دور کررہے ہو جسے خدا دوست رکھتا ہے تم اس شخص کو مجھ سے دور کررہے ہو جسے میں دوست رکھتا ہوں تو اس شخص کو مجھ سے دور کر رہے ہو جس کی منزلت یہ کہ جب بھی جبرئیل مجھ پر نازل ہوتا ہے تو خدا کا سلام اس کے لئے لاتا ہے ۔یقینا سلمان مجھ سے ہے ۔خبردار! تم سلمان کے بارے میں غلط خیال نہ قائم کرو ۔خدا نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں سلمان کو لوگوں کی اموات اور بلاوؤں اور ان کے نسب ناموں کا علم دے دوں ۔اور انھیں ان چیزوں سے آگاہ کردوں جو حق وباطل کو جدا کرنے والی ہیں "۔

وہ عرب (ممکن ہے کہ وہ صحابی حضرت عمر ہو) صحابی جس نے حضرت سلمان کو اپنے زعم میں سمجھ کر اٹھایا تھا ۔ارشاد ات پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سنکر گھبراگیا اور عرض کی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )میں یہ گمان بھی نہ کرسکتا تھا کہ سلمان ان مراتب جلیلہ پر فائز ہے ۔

۱۴۹

کیا وہ مجوسی نہیں جو بعد میں مسلمان ہوا ۔ حضو ر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " میں تو خدا کی نظر میں سلمان کے درجے کوبیان کررہا ہوں اور تم خیال کررہے ہوکہ وہ مجوسی تھا ۔وہ (ہرگز ) مجوسی نہ تھا ۔ صرف اس کا اظہار کرتا تھا (تقیہ میں تھا)اور ایمان اس کے دل میں پوشیدہ تھا "

علمی مقام:-

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک دن حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا میں نے ایک روز آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سلمان کے بارے میں سوال کیا حضور نے فرمایا ۔

"سلمان دریائے علم میں کوئی اس کی تھاہ تک نہیں پہنچ سکتا اس کو اول وآخر کے علم سے مخصوص کیا گیا ہے خدا اسے دشمن رکھے جو سلمان کو دشمن رکھتا ہے اور خدا اس کو دوست رکھے جو سلمان کو دوست رکھتا ہے "

اما م محمد باقر علیہ السلام نے فضیل بن یسار سے پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو کہ سلمان اوّل وآخر علم کو جانتے تھے اس سے کیا مطلب ہے ؟۔فضیل نے جواب دیا یعنی وہ علم بنی اسرائیل اور علم رسالت مآب سے آگاہ ہوگئۓ تھے ۔ امام معصوم نے فرمایا نہیں یہ مطلب نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ علم پیغمبر اور امیر المومنین اور آنحضرت اور امیر المومینین کے عجیب وغریب امور سے آگاہ تھے ۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام س ے مروی ہے سلمان نے علم اوّل اور علم آخر معلوم کیا اور وہ دریا علم تھے کہ جن کا علم ختم ہونے والا نہ تھا اور وہ ہم اہل بیت سے ہیں ۔ان کا علم اس درجہ پر پہنچا ہوا تھا کہ ایک روز ان کا گزر ایک شخص کی طرف ہوا جو ایک مجمع میں کھڑا تھا ۔سلمان نے اس شخص سے کہا اے بندہ خدا !پروردگار

۱۵۰

عالم سے توبہ کر اس فعل سے جو کل رات تو نے اپنے مکان میں کیا ہے یہ کہکر سلمان چلے گئے ۔لوگوں نے اس شخص کو ابھارنا چاہا کہ سلمان نے تم پر ایک بدی کی تہمت باندھی ہے اور تونے بھی اس کی تردید نہ کی اس نے جواب دیا کہ سلمان نے مجھے اس امر سے آگاہ کیا ہے جس کو میرے اور خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا ۔(علمائے کے نزدیک یہ شخص اول خلیفہ اہلسنت حضرت ابو صدیق تھے )۔

روایت ہے کہ جب سلمان ایک اونٹ کو دیکھتے (جس کو لوگ عسکر کہتے تھے اور حضرت عائشہ جمل کے دن اس پر سوار ہوکر تازیانہ مارتی تھیں )تو اس اونٹ سے اظہار نفرت کرتے تھے لوگوں نے "سلمان " سے کہا کہ اس جانور سے آپ کو کیا پرخاش ہے ۔آپ نے جواب دیا یہ جانور نہیں بلکہ عسکر پسر کنعان جنی ہے ۔ جس نے یہ صورت اختیار کی ہے تاکہ لوگوں کو گمراہ کرے ۔پھر اس اورنٹ کے مالک اعرابی س کہا کہ تیرا یہ اونٹ یہاں بے قدر ہے ۔اس جو "حواب" کی سرحد پر لے جا ۔اگر وہاں لے جائے گا تو جو قیمت چاہے گا مل جائے گی ۔امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ لشکر عائشہ نے اس اونٹ کو سات سو درہم میں خرید کیا ۔جبکہ وہ لوگ حضرت علی علیہ السلام سے جنگ کے لئے جارہے تھے ۔یہ واقعہ بھی حضرت سلمان کے علمی کی تائید کرتا ہے کہ جنگ جمل سے برسوں قبل اس کی اطلاع کردی ۔

امیر المومنین علیہ السلام سے روایت ہے کہ سلمان فارسی حکیم لقمان کے مانند ہیں ۔

ابن بابویہ نے بسند معتبر امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ ایک روز جناب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ تم میں کون ہے جو تمام سال روزہ رکھتا ہے ۔سلمان

۱۵۱

نے کہا میں ہوں ۔حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پھرمایا تم میں کون ہے جو ہمیشہ شب بیدار رہے ؟۔ سلمان نے عرض کی میں ہوں ۔پھر حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پوچھا تم میں کون ہے جوہر روز ایک قرآن ختم کرتا ہے ۔سلمان نے کہا میں ہوں ۔یہ سنکر حضرت عمر بن خطاب کو غصہ آیا اور بولے یہ شخص فارس کا رہنے والا یہ چاہتا ہے کہ ہم قریشیوں پر فخر کرے ۔ یہ جھوٹ بولتاہے اکثر دنوں کو روزہ سے نہیں تھا ۔اکثر راتوں کو سویا کرتا ہے ۔اور اکثر دن اس نے تلاوت نہیں کی ۔ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا وہ لقمان حکیم کے مانند ومثل ہے ۔تم اس سے پوچھو وہ جواب دیں گے ۔ حضرت عمر نے پوچھا تو حضرت سلمان نے جواب دیک کہ تمام سال روزہ کے بارے میں یہ ہے کہ ہر مہینے میں تین روزے رکھتا ہوں ۔اور خدا فرماتا ہے کہ جو شخص ایک نیکی کرتا ہے تو اس کو دس گنا ثواب دیتا ہوں ۔اس لئے یہ تمام سال کے روزوں کے برابر ہوا ۔باوجود اس کے ماہ شعبان میں بھی روزے رکھتا ہوں ۔اور ماہ مبارک رمضان سے ملا دیتا ہوں ۔اور ہر رات شب بیداری کے یہ معنی ہیں کہ ہر رات با وضو سوتا ہوں ۔اور میں نے حضور سے سنا ہے کہ جو شخص باوضو سوتا ہے ایسا ہے کہ تمام رات عبادت میں بسر کی اور ہر روز ختم قرآن کے بارے میں یہ ہے کہ ہرروز میں تین مرتبہ سورہ اخلاص پڑھ لیتا ہوں اور میں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے امیر المومنین (ع) سے فرمایا کہ اے علی تمھاری مثال میری امت میں "قل ھو اللہ احد " کی مثال ہے جس نے سورہ قل ھو اللہ ایک مرتبہ پڑھا ایسا ہے کہ اس نے ثلث (ایک تہائی )قرآن کی تلاوت کی جس نے دومر تبہ پڑھا تو اس نے دوتہائی کی تلاوت کی اور جس نے تین مرتبہ پڑھا تو ایسا ہے کہ اس نے قرآن ختم کرلیا ہے اور اے علی (ع) جو شخص تم کو زبان سے دوست رکھتا ہے اس کو

۱۵۲

ثلث(ایک تہائی)ایمان حاصل ہوتا ہے ۔اورجو شخص زبان اور دل سے تمھیں دوست رکھتا ہے اس کو دو ثلث ایمان مل گیا ۔اور جو شخص زبان ودل سے تم کو دوست رکھتا ہے اور اپنے ہاتھوں سے تمھاری مدد کرتا ہے تو تمام ایمان اس کو حاصل ہوگیا ۔اے علی اس خدا کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے ۔اگر تم اہل زمین بھی اسی طرح دوست رکھتے جس طرح اہل اسمان دوست رکھتے ہیں تو خدا کسی قسم جہنم میں عذاب نہ کرتا ۔یہ سنکر حضرت عمر خاموش ہوگئے جیسے ان کے منہ میں خاک بھر گئی ہو۔

حضرت یعقوب کلینی نے امام جعفر صادق سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سلمان اور ابوذر کے درمیان صیغہ اخوت پڑھا تھا اور ابوذر پر یہ شرط عائد کی تھی وہ کبھی سلمان کی مخالفت نہ کریں گے اس لئے کہ سلمان کو ان علوم میں دسترس حاصل ہے جن کا ابوذر کو علم نہیں ۔

روایت ہے کہا ایک روز حضرت ابوذر اپنے بھائی حضرت سلمان کےگھر آئے ۔سلمان کا پیالہ شوربہ اور چربی سے بھر ہوا تھا دوران گفتگو یہ پیالہ الٹا ہوگیا مگر اس میں سے کچھ نہ گرا ۔سلمان نے اسے سیدھا کیا اور پھر مصروف گفتگو ہوئے ۔ابوذر کو یہ دیکھکر حیرت ہوئی اچانک پیالہ پھر اوندھا ہوا ۔لیکن پھر شوربا وغیرہ نہ گرا۔ اس سے ابوذر کا تعجب دہشت میں تبدیل ہوگیا ۔وہان سے اٹھے اور غور کرنے لگے کہ اچانک وہاں امیر المومنین علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ۔ جناب امیر (علیہ السلام ) نے ابوذر سے پوچھا کہ تم سلمان کے ہاں سے واپس کیوں آگئے اور گھبرائے ہوئے کیوں ہو؟ ابوذر نے ماجرا بیان کیا حضرت امیر (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا "اے ابوذر ! اگر سلمان تم کو وہ امور

۱۵۳

بتادیں جو وہ جانتے ہیں تو یقینا تم کہوگے کہ سلمان کےقاتل پر خدا رحمت نہ کرے ۔اے ابوذر بے شک سلمان زمین میں خدا کی درگاہ ہیں جو ان کو پہچانے وہ مومن ہے ۔جو ان سے انکار کرے وہ کافر ہے بے شک سلمان ہم اہل بیت میں سے ہیں ۔

شیخ مفید لکھتے ہیں کہ جناب امیر حضرت سلمان کے پاس تشریف لائے اور ان سے فرمایا کہ اے سلمان اپنے مصاحب کے ساتھ مدارات کرو اور ان کے سامنے وہ امور ظاہر نہ کرو جس کے وہ متحمل نہیں ہوسکتے "

حضرت امام باقر سے روایت ہے کہ علی علیہ السلام محدث تھے اور سلمان محدث یعنی ملائکہ دونوں حضرات سے باتیں کرتے تھے ۔ امام جعفر صادق فرماتے ہیں کہ سلمان کا محدث ہونا یہ کہ ان کے امام ان سے حدیث بیان کرتے اور اپنے اسرار ان کو تعلیم کرتے تھے نہ یہ کہ براہ راست خدا کی جانب سے ان کو کلام پہنچتا تھا ۔ کیوں کہ حجت خدا کے علاوہ کسی دوسرے کو خدا کی جانب سے کوئی بات نہیں پہنچتی ۔علامہ مجلسی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد تحریر کرتے ہیں کہ یہاں جس امر سے نفی کی گئی ہے ممکن ہے وہ خداکا بے واسطہ ملک کلام کرنا ہو اور فرشتے جناب سلمان سے گفتگو کرتے تھے ۔

چنانچہ ایک مقام پر حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ حضرت سلمان کے محدث ہونے کا مطلب یہ کہ ایک فرشتہ ان کے کان میں باتیں کرتا تھا دوسری جگہ ہے کہ ایک بڑا فرشتہ ان سے باتیں کرتا تھا ۔ ایک شخص نے تعجب سے دریافت کیا کہ جب سلمان ایسے تھے تو پھر امیر المومنین علیہ السلام کیسے رہے ہونگے ۔حضرت نے جواب دیا اپنے کام سے سروکار رکھو اور ایسی باتوں سے غرض مت رکھو (یعنی کرید نہ کرو)ایک موقعہ

۱۵۴

پر فرمایا کہ ایک فرشتہ ان کے دل میں ایسا اور ویسا نقش کرتا تھا ۔ایک حدیث میں ہے ک سلمان متمو سمین میں سے تھے کہ لوگوں کے احوال فراست سے معلوم کرلیا کرتے تھے ۔ایک حدیث معتبر میں ہے کہ امام صادق نے ارشاد فرمایا کہ سلمان اسم اعظم جانتے تھے ۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت علی علیہ السلام کے سامنے تقیہ کا ذکر آیا ۔جناب امیر نےفرمایا اگر ابوذر سلمان کے دل میں جوکچھ جان لیتے تو یقینا ان کو قتل کردیتے ۔حالانکہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا تھا ۔پھر دیگر تمام لوگوں کے بارے میں کیا گمان کرتے ہو۔

یہ حدیث بھی جناب سلمان کے بلند مرتبہ عملی کی تائید میں ہے کہ جناب ابوذر پر جناب سلمان کی علمی فوقیت ثابت کرتی ہے کہ حضرت ابوذر ان علوم واسرار الہی کے متحمل نہیں ہوسکتے جو کہ سلمان پر منکشف تھے ۔

شیخ طوسی نے معتبر سند کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت سلمان کے اصحاب میں سے ایک صاحب بیمار ہوئے چند روز تک اس سے ملا قات نہ ہوئی تو اس کا حال دریافت کیا کہ وہ کہاں ہے ۔لوگوں نے بتایاوہ بیمار ہے ۔سلمان نے فرمایا چلو اس کی عیادت کریں ۔غرض لوگ ان کے ہمراہ چلے اور اس شخص کے گھر پر پہنچے ۔اس وقت وہ عالم جان کنی میں تھا ۔جناب سلمان رحمۃ اللہ علیہ نے ملک الموت سے خطاب کیا کہ خدا کے دوست کے ساتھ نرمی اور مہربانی کرو ملک الموت نے جواب دیا جسے تمام حاضرین نے سنا کہ اے ابو عبداللہ

۱۵۵

میں تمام مومنین کے ساتھ نرمی کرتا ہوں اور اگر کسی کے سامنے اس طرح آؤں گا کہ وہ مجھے دیکھے تو بے شک وہ تم ہوگے ۔

ایک روز سلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں داخل ہوئے ۔صحابہ نے ان کی تعظیم فرمائی اور ان کو اپنے اوپر مقدم کرکے صدر مجلس میں ان کے حق کو بلند کیا او ران کی پیروی وتعظیم کی ۔برائے اختصاص جو ان کو حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آل سے تھا ۔ جگہ دی پھر حضرت عمر آئے اور دیکھا کہ وہ صدر مجلس میں بٹھائے گئے ہیں ۔یہ دیکھ کر وہ بولے یہ عجمی کون ہے ؟ جو عربوں کے درمیان صدر مجلس میں بیٹھاہے یہ سنکر حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم منبر پر تشریف لے گۓ ۔اور خطبہ ارشاد فرمایا کہ حضرت آدم کے زمانہ سے اس وقت تک کہ تما آدمی کنگھی کے دندانوں کف مثل برابر ہیں کوئی فضلیت نہیں ہے عربی کو عجمی پر ،نہ کسی سرخ وسفید کو کسی سیاہ پر مگر تقوی او رپرہیزگاری کے سبب سے ۔

سلمان ایک دریا ہے جو ختم نہیں ہوتا اور ایک خزانہ ہے جو تما م نہیں ہوتا ۔سلمان ہم اہلبیت سے ہیں سلمان حکمت عطاکرتے ہیں اور حق کی دلیلیں ظاہر کرتے ہیں ۔

استیعاب میں معرفۃ الاصحاب میں ہے کہ حضور نے فرمایا " اگر دین ثریا میں ہوتا تو سلمان یقینا وہاں تک پہنچ کر اسے حاصل کرلیتا"

جہاد:-

حضرت سلمان فارسی رحمۃ اللہ علیہ کی قبل از اسلام زندگی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی طبیعت روحانیت ۔زہد عبادت اور معرفت کی طرف مائل رہی ۔ اور جنگ وجدل یا سپاہ گری سے ان کا کسی طرح سےبھی کوئی تعلق نہ رہا انھوں نے کسی جنگ یا

۱۵۶

لڑائی میں شرکت نہ کی بلکہ گھر س ے نکل کر عبادت خانوں میں گوشہ نشین یا تارک الدنیا بنکر اپنی روح کو مفرح ومنور کرنے کی کوشش میں مصروف رہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کے پر چم تلے آتے ہی وہ ایک ممتاز مجاہد اور کہنہ مشق سپاہی ثابت ہوتے ہیں ۔ آپ کی اسلامی زندگی میں ایسے واقعات بھی ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلمان نے نہ صرف جہادوں میں شرکت ہی کی بلکہ بعض موقعوں پر ان کو سپہ سالار مقرر کیا گیا ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو خاص علم وتفضل کی بدولت فنون حرب اور علم معرکہ آرائی سے بخوبی واقفیت اور کامل دسترس حاصل تھی بدر واحد کی لڑائیوں میں سلمان شریک نہ ہوئے ۔مگر سنہ ۵ ھجری میں جنگ خندق میں آپ کو بڑی نمایاں حیثیت حاصل ہوئی ۔ حضرت سلمان پہلی مرتبہ جنگ میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ شریک ہوئے ۔اس جنگ میں پورا عرب مسلمانوں کے مقابلہ میں آیا تھا اور شہر مدینہ کا محاصرہ کرنے کی سرتوڑ کوشش کررہا تھا ۔ شہر کی نہ ہی کوئی شہرپناہ تھی اور نہ ہی فصیل ۔لشکر کی تعداد بھی قلیل تھی جبکہ دشمن کی فوج کے غول سرپر منڈلا رہے تھے مسلمانوں کی نبض ڈوبی ہوئی تھیں اور کافر متکبر انہ آواز یں کس رہے تھے حضور کو حضرت سلمان نے مشورہ دیا کہ ایرانی طرز کی ایک خندق کھودلی جائے اسے قبول کر لیاگیا اور بمطابق وحی حضور نے خندق کھودنے کا حکم زیر نگرانی حضرت سلمان صادر فرمایا ۔اس خندق کا کھودنا کفار کے ارادوں کو دفن کرنے کی تعبیر ثابت ہوا ۔جب انھوں نے یہ نئی چیز دیکھی تو ششدر رہ گئے ۔عمرہ بن عبدود جیسے بہادر جس کا نام سنکر حضرت عمر جیسے بہادر کا دل ڈوب جاتا تھا ۔خندق کے کنارے ڈھاریں

۱۵۷

مارتا اور دیگر پہلوان باتیں بنارہے تھے کہ مسلمانوں نس یہ ایسا حیلہ کیا ہے کہ ہم عرب اس سے قطعی ناواقف ہیں انھوں نے بائیس روز سرتوڑ کوشش کی کہ کسی طرح مدینہ تک پہنچ سیکیں لیکن ایک نہ چلی آخر تنگ آکرطعن وتشیع پر اتر آئے حضور کو گستاخانہ طریقوں سے مبارزہ طلبی کی ۔آخر حضرت علی علیہ السلام نے عمروبن عبدود کو واصل جہنم کیا اور یہ فوج کثیر دم دبا کر طائف کی طرف بھگ گئی ۔جنگ فتح ہوئی ‏غزوہ خندق کے بعد کوئی ایسی جنگ نہیں ہوئی جس میں حضرت سلمان رضی اللہ عنہ شریک نہ ہوئے ۔پیران سالی کے باوجود آپ نس ہرلڑائی یمں داد شجاعت دی ۔

جب جنگ احزاب کے موقعہ پر خندق کھودی جارہی تھی تو مسلمان مختلف ٹکڑوں میں بٹ کر کام کر رہے تھے ۔خود سرورکائینات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دست مبارک سے کھدائی کا کام کررہے تھے آپ کا جسم مبارک مٹی سےاٹا ہوا تھا اور آپ کی زبان وحی بیان پر رجز جاری تھا سلمان ضعیف العمری کے باوجود تنومند اور قوی الجثہ تھے ۔ انصارو مہاجرین دونوں ان کے ساتھ کام کرنے کے خواہشمند تھے مہاجر کہتے تھے کہ سلمان ہم میں سے ہے ۔جب اس بات کا چرچا حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک پہونچا تو سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سلمان کا ہاتھ تھام کر فرمایا "سلمان منا اھل البیت " سلمان ہم اہلبیت میں سے ہیں ۔ اس موقعہ کے بعد متعدد بار یہ جملہ ارشاد فرمایا ۔

اہل سنۃ کے جلیل القدر امام محی الدین ابن عربی نے اس حدیث سے حضرت سلمان کی عصمت وطہارت پر استلال کیا ہے اور کہتے ہیں کہ چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ایک بندہ خاص ومخلص تھے اس لئے اللہ نے ان کے اہل بیت کی ایسی تطہیر کی جو تطہیر کا حق تھا ۔ اور ان سے رجس

۱۵۸

اور ہرعیب کودوررکھا اور رجس عربی زبان میں گندگی کو کہا جاتا ہے پھر آیت تطہیر "انما یرید اللہ لیذھب ۔۔الخ" کے بعد کہا کہ جس شخص کو بھی اہلبیت کی طرف نسبت دی جائے گی ۔اس کا مظہر ہونا ضروری ہے اس کے بعد تحریر کیا کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سلمان کو اہلبیت میں شامل کرنا انکی طہارت ۔خدائی حفاظت اور عصمت کی گواہی دیتا ہے ۔"

علامہ مجلسی نے بصائر الدرجات سے فضل بن عیسی کی ایک روایت حیات القلوب میں نقل کیا ہے کہ فضل کہتے ہیں ایک مرتبہ میں اور میرے والد حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔میرے والد بزرگوار نے عرض کی کیا ہے صحیح ہے جناب رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہر کہ سلمان ہم اہلبیت میں سے ہیں ۔ امام نے فرمایا ہاں ۔میرے والد نے پوچھا کیا وہ عبد المطلب کی اولاد میں سے ہیں ؟ حضرت نے جواب دیا وہ اہلبیت میں سے ہیں ۔میرے والد نے عرض کیا کہ کیا وہ ابوطالب (علیہ السلام )کی اولاد میں ہیں ؟ حضرت نے فرمایا کہ وہ ہم اہلبیت میں سے ہیں ۔میرے پدر بزرگوار نے کہا کہ میں سرکار کا مطلب نہیں سمجھ سکا ۔ حضرت صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ ایسا نہیں ہے ۔جیسا کہ تم نے سمجھا ہے ۔بے شک خدا نے ہماری طینت علیین سے خلق فرمائی اور ہمارے شیعوں کی طینت اس سے ایک درجہ پست خلق فرمائی لہذا وہ ہم میں سے ہیں اور ہمارے دشمنوں کی طینت سجین سے خلق فرمائی اور ان کے دوستوں کی طینت ان سے ایک درجہ پست خلق کی لہذا وہ لوگ ان سے ہیں اور سلمان حضرت لقمان سے بہتر ہیں ۔

اسلامی نقطہ نظر سے جب قتال ناگزیر ہوتو اہل کتاب سے لڑائی کرنے سے قبل دعوت اسلام دی جاتی ہے اگر وہ مسلمان ہونا

۱۵۹

پسند نہ کریں تو ان سے جزیہ طلب کیا جاتا ہے اور اگر وہ انکار کرکے آمادہ جنگ ہوجائیں تو تلوار ہاتھ میں لینا پڑتا ہے ۔چنانچہ چنگ خیبر کے موقعہ پر حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو یہی ہدایت کی تھی کہ ہم پہلے انھیں خدا کی توحید اور اور میری رسالت کی دعوت دینا بصورت انکار مطالبہ جزیہ کرنا اور اگر وہ پھر بھی لڑائی پر مصر رہیں تو ان سے جنگ کرنا ۔چنانچہ حضرت سلمان ان جنگی اخلاق سے بخوبی واقف تھے ۔ لہذا ہمیشہ اس پرعامل رہے ۔ چنانچہ ایک موقعہ پر وہ ایک لشکر کے امیر مقرر کئے گئے اور ان کو فارس کے ایک قلعہ کو فتح کرنے کی مہم پر مامور کیا گیا ۔جب آپ اپنی سپاہ کے ساتھ قلعہ کے نزدیک گئے تو تامل فرمایا ۔لوگوں نے پوچھا کیا آپ اس قلعہ پر حملہ نہیں کریں گے فرمایا نہیں جس طرح رسول خدا پہلے دعوت اسلام دیتے تھے اسی طرح میں بھی ان کو دعوت دوں گا پھر سلمان ان کے پاس تشریف لےگئے اور کہا کہ میں بھی تمھاری طرح فارس کا باشندہ ہوں تم دیکھ سکتے ہو کہ عرب میری اطاعت کر رہے ہیں اگر تم دل سے اسلام لےآؤ گے تو میری طرح تمھیں بھی عزت نصیب ہوگی اور اگر تم ہمارا دین قبول نہ کروگے تو میری طرح تمھیں بھی عزت نصیب ہوگی اور اگر تم ہمارا دین قبول نہ کروگے تو ہم تم پر کوئی زبردستی نہیں کریں گے صرف تم سے جزطلب کریں گے ۔اور اگر پھر بھی تم بر سر جنگ نظر آؤگے تو پھر میرے لئۓ جنگ ضروری ہوگی ۔اہل قلعہ نے جواب دیا کہ نہ ہی ہم تمھارا دین قبو ل کریں گے اور نہ ہی کوئی جزیہ دینا منظور کریں گے بلکہ تمھارا مقابلہ کریں گے ۔ اس پر لشکر سلمان نے حملہ کرنے کا اذن طلب کیا مگر آپ نے جواب دیا نہیں ابھی رک جاؤ ۔ان کو غور کرنے کا موقعہ دو ۔ آپ نے تین روز انتظار کیا اور پھرچوتھے دن حملے کا حکم دیا ۔اور قلعہ فتح کیا ۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

روز عاشورا امام حسین علیہ السلام کا پہلا خطبہ

جب فوج آپ سے نزدیک ہونے لگی تو آپ نے اپنا ناقہ منگوا یا اور اس پر سوار ہو کرلشکر میں آئے اور با آواز بلند اس طرح تقریر شروع کی جسے اکثر وبیشتر لوگ سن رہے تھے :

''أیها الناس ! اسمعو ا قول ولاتعجلو ن حتی أعظکم بما یحق لکم علّ وحتی أعتذر لکم من مقدم الیکم ، فان قبلتم عذر وصدقتم قول وأعطتیتمو ن النصف ، کنتم بذالک أسعد ولم یکن لکم علّ سبیل ، وان لم تقبلوا منّ العذرولم تعطوا النصف من أنفسکم ( فَاَجْمَعْوْا أمْرَ کْمْ وَشْرَکَا ئَ کْمْ ثْمَّ لَا يْکْنْ اَمْرَکْمْ عَلَيْکْمْ غْمَّة ثْمَّ اقْضْوْا اِلََّ وَلَا تُنْظِرُوْنَ ) (٢) ( اِنَّ وَلَِّ اللّهُ الَّذِیْ نَزّلَ الْکِتَابَ وَهْوْ يَتَوَلََّی الصَّا لِحِيْنَ'' ) (٣)

ایھا الناس ! میری بات، سنو جلدی نہ کرو !یہاں تک کہ میں تم کو اس حد تک نصیحت کردوں جو مجھ پر تمہارا حق ہے، یعنی تمہیں بے خبر نہ رہنے دوں اور حقیقت حال سے مطلع کر دوں تاکہ حجت تمام ہوجائے۔میں چاہتا ہوں کہ تمارے سامنے اپنا عذر پیش کردوں کہ میں کیوں آیا ہوں اور تمہارے شہر کا رخ کیوں کیا ۔ اگر تم نے میرے عذر کو قبول کرلیا اور میرے کہے کی تصدیق کر کے میری بات مان لی اور میرے ساتھ انصاف کیاتو یہ تمہارے لئے خوش قسمتی ہوگی اور اگر تم نے میرے عذرکو نہ مانااور انصاف کرنانہ چاہا تو مجھ کو کوئی پروا نہیں ہے۔تم اور جس جس کو چاہو تمام جماعت کو اپنے ساتھ متفق کرلو اور میری مخالفت پر ہم آہنگ ہوجاؤ پھر دیکھو کوئی حسرت تمہارے دل میں نہ رہ جائے اور پوری طاقت سے میرا خاتمہ کردو، مجھے ایک لحظہ کے لئے بھی مہلت نہ دو۔میرا بھروسہ تو بس خدا پر ہے جس نے کتاب نازل فرمائی ہے اور وہی صالحین کا مددگار ہے ۔

____________________

١۔ابو مخنف کا کہنا ہے کہ مجھ سے عبد اللہ بن عاصم نے بیان کیا ہے کہ وہ کہتا ہے : مجھ سے ضحاک مشرقی نے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری، ج٥، ص ٤٢٣وارشاد ، ص٢٣٤)

٢۔ سورہ یونس ،آیت ٧١

٣۔ سورہ اعراف، آیت ١٩٦

۳۰۱

یہ وہ دلسوز تقریر تھی جسے سن کر مخدرات کا دامن صبر لبریز ہوگیا اور آپ کی بہنیں نالہ و شیون کرنے لگیں ؛اسی طرح آپ کی صاحبزادیاں بھی آنسوبہانے لگیں ۔جب رونے کی آواز آئی تو آپ نے اپنے بھائی عباس بن علی علیھما السلام اور اپنے فرزند جناب علی اکبر کو ان لوگوں کے پاس روانہ کیا اور ان دونوں سے فرمایا : جاؤ ان لوگوں کو چپ کراؤ!قسم ہے میری جان کی انھیں ابھی بہت زیادہ آنسوبہاناہے ۔

جب وہ مخدرات خاموش ہوگئیں تو آپ نے حمد و ثنائے الہٰی اور خدا کا تذکرہ اسطرح کیا جس کا وہ اہل تھا پھر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود و سلام بھیجا ، خدا کے ملائکہ اور اس کے پیغمبر وں پر بھی درود و سلام بھیجا۔ (اس کے بعد بحر ذخار فصاحت و بلاغت میں ایسا تموج آیا کہ راوی کہتا ہے) خدا کی قسم !اس دن سے پہلے اور اس دن کے بعد میں نے حضرت کے مانند فصیح البیان مقرر نہیں دیکھا ۔

اس کے بعد امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :

'' اما بعد : فانسبونی فا نظر وا من أنا ؟ ثم ارجعو ا الی أنفسکم وعا تبوها فأ نظروا هل یحل لکم قتل وانتهاک حرمت؟ ألست ابن بنت نبیکم صلی اللّه علیه (و آله) وسلّم وابن وصيّه وابن عمّه وأوّل المؤمنین باللّه والمصدّق لرسوله بما جاء به من عند ربه ، أو لیس حمزة سید الشهداء عم اب ؟ أو لیس جعفر الشهید الطیار ذوالجناحین عم ؟! أولم یبلغکم قول مستفیض فیکم : أن رسول اللّه صلّی اللّٰه علیه وآله وسلّم قال لی و أخی : '' هذان سيّدا شباب أهل الجنّة '' ؟

فان صدّقتمونی بماأقول ، فهو الحق فو اللّٰه ما تعمّدت کذباً مذعلمت أن اللّٰه یمقت علیه أهله و یضر به من ا ختلقه...

وان کذبتمونی فانّ فیکم من ان سالتموه عن ذالک أخبرکم سلوا جابر بن عبداللّه الانصاری(١) أو ابا سعید الخدری(٢) أو سهل بن سعد الساعدی(٣)

____________________

١۔ امیرا لمومنین علیہ السلام کی شہادت سے پہلے ٤٠ ھ میں بسر بن ارطاة کے ہاتھو ں پر معاویہ کی بیعت کرنے سے آپ نے انکار کردیا تھا اور کہا تھاکہ یہ گمراہی کی بیعت ہے۔ یہا ں تک کہ بسر بن ارطاہ نے آپ کو بیعت کرنے پر مجبورکیا تو جان کے خوف سے آپ نے بیعت کر لی۔ (طبری ، ج٥، ص ١٣٩) ٥٠ھ میں جب معاویہ نے حج کی انجام دہی کے بعدرسول کا منبر اور عصا

۳۰۲

مدینہ سے شام منتقل کرنا چاہا تو آپ نے اسے اس فعل سے روکا اور وہ رک گیا۔ (طبری، ج٥،ص ٢٣٩) ٧٤ھ میں جب عبدا لملک کی جانب سے ''حجاج'' مدینہ آیا تواس نے اصحاب رسول کی توہین اور سر کوبی کرناشروع کردی اور انھی ں زنجیرو ں میں جکڑ دیا۔ انہیں میں سے ایک جابر بھی تھے ۔

٢۔ رسوالخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ احد میں اپنے اصحاب کو میدان جنگ کی طرف لے جاتے وقت آپ کو بچپنے کی وجہ سے لوٹادیا تھا۔ (طبری، ج٢، ص ٥٠٥) آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت علی علیہ السلام کی شان میں حدیثی ں نقل کیا کرتے تھے (طبری،ج٣ ،ص ١٤٩)لیکن عثمان کے قتل کے بعد ان کا شمار ان لوگو ں میں ہوتا ہے جنہو ں نے حضرت علی علیہ السلام کی بیعت سے انکار کیا تھا۔ یہ عثمانی مذہب تھے۔ (طبری ، ج٤،ص ٤٣٠)

٣۔ یہ بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت علی علیہ السلام کی شان میں حدیثی ں نقل کیا کرتے تھے۔ (طبری ج ،٣،ص ٤١٩) انھو ں نے ہی روایت کی ہے کہ بصرہ کے فتنہ میں عایشہ نے پہلے عثمان بن حنیف کے قتل کا حکم دیا پھر قید کرنے کا حکم دیا ۔(طبری، ج ٤،ص ٤٦٨) یہ علی علیہ السلام کی ر وایتو ں کو بیان کر تے ہیں ۔ (طبری ،ج٤ ،ص ٥٤٧) ٧٤ھ میں عبدالملک کی جانب سے ''حجاج'' جب مدینہ میں وارد ہوا تو اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین اور سر کوبی کی اور انہیں زنجیرو ں میں جکڑ دیا ۔ ان بلا و ں اور مصیبتو ں میں گرفتار ہونے والو ں میں ایک سھل بن سعد بھی تھے۔ ان لوگو ں پر حجاج نے عثمان کا ساتھ نہ دینے کی تہمت لگائی تھی ۔(طبری ،ج ٦،ص ١٩٥)

۳۰۳

أو زید بن ارقم (١) أوانس بن مالک (٢)

یخبروکم : انهم سمعوا هٰذه المقالة من رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وآله وسلم ل ولا خ ، أفما فی هٰذا حاجز لکم عن سفک دم ؟''

____________________

١۔ یہ بھی علی علیہ السلام کے فضائل میں روایتی ں نقل کیا کرتے تھے۔ (طبری، ج٢،ص٣١) آپ ہی وہ ہیں جنہو ں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عبداللہ بن ابی بن سلول منافق کی باتو ں کی خبر دی تھی ۔(طبری ،ج٢،ص٦٠٥) زید بن ارقم ہی نے ابن زیاد پر اعتراض کیا تھا اور ابو عبداللہ علیہ السلام کے دو لبو ں پر چھڑی مارنے سے منع کیا تھا۔ (طبری ،ج ٥ ،ص ٤٥٦) الاعلام ،ج ٤، ص ١٨٨ کے بیان کے مطابق ٦٨ھ میں وفات پائی ۔

٢۔ جب ١٧ھمیں عمر نے ابو موسی اشعری کو بصرہ کا گورنر بنایا تو انس بن مالک سے مدد طلب کی (طبری ج٤ ص ٧١) اور شوستر کی فتح میں اس کو شریک کیا ۔(طبری ،ج٤، ص ٨٦) ٣٥ھ میں یہ بصرہ میں لوگو ں کو عثمان کی مدد کے لئے بر انگیختہ کررہے تھے۔(طبری، ج٤ ،ص ٣٥٢) ان کا شمار انہی لوگو ں میں ہوتاہے جن سے ٤٥ھ میں زیاد بن ابیہ نے بصرہ میں مدد طلب کی تھی۔ (طبری ،ج ٥، ص ٢٢٤) عاشورا کے دن یہ بصرہ میں تھے۔ ٦٤ھ میں ابن زیاد کی ہلاکت کے بعد ابن زبیر نے ان کو بصرہ کاامیر بنادیا تو انہو ں نے ٤٠ دنو ں تک نماز پڑھائی (طبری ،ج٥،ص ٥٢٨) اور ٦٤ ھمیں جب عبد الملک کی جانب سے ''حجاج ''مدینہ آیا اور اصحاب رسول خدا کی سر کوبی اور توہین کرنے لگا اور انہیں زنجیرو ں میں جکڑنے لگا تو انس کی گردن میں زنجیر ڈالی، اس طرح وہ چاہتا تھا کہ ان کو ذلیل کرے اور اس کا انتقام لے کہ اس نے ابن زبیر کی ولایت کیو ں قبول کی تھی۔ (طبری ،ج ٦، ص ١٩٥)

۳۰۴

تم ذرا میرا نسب بیان کرو اوریکھو کہ میں کون ہوں ؟ پھر خود اپنے نفسوں کی طرف رجوع کرو، اپنے گریبان میں منہ ڈالوا ور خود اپنے آپ سے جواب طلب کرو اور غور کرو کہ تمہارے لئے میرا خون بہانا اور میری ہتک حرمت کرناکہاں تک جائز ہے ؟ کیا میں تمہارے نبی کا نواسہ نہیں ہوں ؟ اور آپ کے وصی ، آپ کے چچا زاد بھائی ، ان پر سب سے پہلے ایمان لانے والے اور ہر اس چیز کی تصدیق کرنے والے جو خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہے کا فرزند نہیں ہوں ؟ کیا حمزہ سید الشہداء میرے باپ کے چچا نہیں ہیں ؟ کیا جعفر طیار جنہیں شہادت کے بعدخدا نے دو پر پرواز عطا کئے ،میرے چچا نہیں ہیں ؟ کیا یہ حدیث تمہارے گوش زد نہیں ہوئی جو زبان زد خلائق ہے کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں فرمایا : یہ دونوں جوانان جنت کے سردار ہیں ۔ اب اگر تم مجھے سچا سمجھتے ہو اور میری بات کو سچ جانتے ہو کہ حقیقتاًیہ بات سچی ہے کیونکہ خدا کی قسم جب سے مجھے معلوم ہوا کہ جھوٹ بولنے پر اللہ عذاب نازل کرتاہے اور ساختہ اور پرداختہ باتیں کرنے والا ضرر و نقصان اٹھاتا ہے اسی وقت سے میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا؛اور اگر تم مجھے جھٹلاتے ہو تو اسلامی دنیا میں ابھی ایسے افراد موجود ہیں کہ اگر تم ان سے دریافت کرو تو وہ تم کو بتلائیں گے؛تم جابر بن عبداللہ انصاری ، ابو سعید خدری، سہل بن سعد ساعدی، زید بن ارقم ، یا انس بن مالک سے پوچھ لو، وہ تمہیں بتائیں گے کہ انھوں نے اس حدیث کو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں سنا ہے۔کیا رسالتمآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ حدیث تم کو میری خونریزی سے روکنے کے لئے کافی نہیں ہے؟

جب تقریر یہاں تک پہنچی تو شمر بن ذی الجوشن بیچ میں بول پڑا :

''هو یعبد اللّٰه علی حرف ان کان یدر ما تقول !''(١) اگر کوئی یہ درک کرلے کہ تم کیا کہہ ر ہے تو اس نے خدا کی ایک پہلو میں عبادت کی ہے ۔

شمر کے یہ جسارت آمیز کلمات سن کر حبیب بن مظاہر رطب اللسان ہوئے :''واللّٰه ان لاراک تعبد الله علی سبعین حرفا و أنا أشهد أنک صادق ما تدر ما یقول قد طبع اللّٰه علی قلبک''

____________________

١۔ سبط بن جوزی نے ص ٢٥٢ ،طبع نجف میں اس روایت کو نقل کیا ہے۔

۳۰۵

خدا کی قسم میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ تو خدا کی ستر(٧٠) حرفوں اور تمام جوانب میں عبادت کرتا ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ تو سچ کہہ رہاہے کہ تو نہیں سمجھ پارہاہے وہ کیا کہہ رہے ہیں ، حقیقت تو یہ ہے کہ خدانے تیرے قلب پر مہر لگادی ہے ۔

اس کي بعد امام حسین علیه السلام ني اپنی تقریر پهر شروع کی :'' فان کنتم ف شک من هٰذا القول أفتشکون أثراً بعد؟ أما ان ابن بنت نبیکم فواللّٰه مابین المشرق والمغرب ابن بنت نبّ غیر منکم ولا من غیرکم ، انا ابن بنت نبیکم خا صة''

''ٔاخبرون أتطلبون بقتیل منکم قتلته ؟ أو مال استهلکته أو بقصاص من جراحة ؟ فأ خذوا لا یکلّمونه ''

فنادی : یا شبث بن رِبعی ویا حجّار بن ابجَر و یا قیس بن الاشعث ویا یزید بن الحارث(١) ألم تکتبوا اِلَّ : أن قد أینعت الثمار و اخضرّ الجناب و طمّت الجمام وانما تقدم علی جند لک مجند فا قبل ؟!

قالوا له : لم نفعل !(٢) فقال : سبحان اللّٰه !بلیٰ واللّه لقد فعلتم،ثم قال : ایهاالناس ! اذاکرهتمون فد عونأنصرف عنکم الیٰ مامنمن الارض

فقال له قیس بن اشعث : أولا تنزل علی حکم بن عمّک ! فانهم لن یروک الاما تحب ولن یصل الیک منهم مکروه!

فقال الحسین علیه السلام :أنت اخوأخیک(محمد بن اشعث ) أتریدأن یطلبک بنو هاشم بأکثر من دم مسلم بن عقیل ؟ لا واللّٰه لا أعطیهم بیداعطائ

____________________

١۔ ان لوگو ں کے حالات وہا ں گزر چکے ہیں جہا ں یہ بیان کیا گیا کہ اہل کوفہ نے امام کو خط لکھا اور یہ اس گروہ کے منافقین میں سے تھے ۔

٢۔ سبط بن جوزی کا بیان ہے : ان لوگو ں نے کہا ہمیں نہیں معلوم کہ تم کیا کہہ رہے ہو تو حر بن یزید یربوعی جوان کے لشکر کا سپہ سالار تھا اس نے کہا : کیو ں نہیں خدا کی قسم ہم لوگو ں نے آپ کو خط لکھا تھا اور ہم ہی آپ کو یہا ں لائے ہیں ۔ خدا باطل اور اہل باطل کا برا کرے میں دنیا کو آخرت پر اختیار نہیں کر سکتا۔(ص ٢٥١)

۳۰۶

الذلیل ولا أقرّ ا قرار العبید!(١)

عباداللّه ''وَاِنِّْ عْذْتْ بِرَبِّیْ وَ رَبِّکُمْ اَنْ تَرْجُمُوْنَ(٢) أعُوذُبِرَبِّی وَرَبِّکُمْ مِنْ کُلِّ مُتَکَبِّرٍ لا يُوْمِنُ بِيَوْمِ الْحِسَاب''(٣)

اور اگر تمہیں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیث میں شک ہے تو کیا اس میں بھی شک ہے کہ میں تمہارے نبی کا نوسہ ہوں ؟ خدا کی قسم مشرق و مغرب میں میرے سوا کوئی نبی کا نواسہ نہیں ہے،فقط میں ہی ہوں جو تمہارے نبی کا نواسہ ہوں ۔ذرا بتاؤ تو سہی میرے قتل پر کیوں آمادہ ہو ؟ کیا اپنے کسی مقتول کا بدلہ لے رہے ہو جو میرے ہاتھوں قتل ہوا ہے یا اپنے کسی مال کا مطالبہ رکھتے ہو جسے میں نے تلف کردیا ہے ؟ یا کسی زخم کا قصاص چاہتے ہو ؟

لشکر پر خا موشی چھائی تھی، کسی نے کوئی جواب نہیں دیا، پھر حضرت نے خاص طور پر لوگوں کو آواز دی : اے شبث بن ربعی ، اے حجار بن ابجر ، اے قیس بن اشعث اور اے یزید بن حارث کیا تم لوگوں نے مجھے یہ نہیں لکھا تھا کہ میوے پختہ اور رسیدہ ہیں ، کھیتیاں لہلہارہی ہیں ، چشمے پُر آب اور لشکر آپ کی مدد کے لئے تیار ہیں ، آپ چلے آئیے ؟ ان سب نے امام علیہ السلام کو جواب دیا : ہم نے تو ایسا کچھ بھی نہیں لکھا تھا ، توامام علیہ السلام نے فرمایا : سبحان اللہ ! کیوں نہیں خدا کی قسم تم لوگوں نے لکھا تھا اور ضرور لکھا تھا؛پھر عام لشکر کی طرف مخاطب ہوکر گویا ہوئے : جب تمہیں میرا آنا ناگوار ہے تو مجھے واپس ایسی جگہ چلے جانے دو جہاں امن وامان کے ساتھ زندگی گذار سکوں ۔

یہ سن کر قیس بن اشعث بولا : آپ اپنے چچا زادبھائیوں کے حکم کے آ گے سر تسلیم کیوں خم نہیں کردیتے ۔وہ لوگ ہرگز آپ کے ساتھ کچھ بھی نہیں کریں گے مگر یہ کہ وہی جو آپ کوپسند ہوگا اور ان کی جانب سے آپ کو کوئی ناپسندامر نہیں دکھائی دے گا ۔

____________________

١۔ شیخ مفید نے ارشاد کے ص ٢٣٥ پرا ور ابن نما نے مثیرالاحزا ن کے ص ٢٦ پر'' ولا افرفرار العبید'' لکھا ہے ۔مقرم نے اپنے مقتل ص ٢٨٠ پر اسی کو ترجیح دی ہے لیکن ابن اشعث کے جواب میں اقرار زیادہ مناسب ہے، نہ کہ فرار کیونکہ ابن اشعث نے آپ کے سامنے فرار کی پیشکش نہیں کی تھی بلکہ اقرار کی گزارش کررہا تھا۔مقرم نے اپنے قول کی دلیل کے لئے'' مصقلہ بن ہبیرہ'' کے سلسلے میں امیرالمومنین کا جملہ : وفر ّ فرار العبد (وہ غلام کی طرح بھاگ گیا) پیش کیا ہے لیکن مصقلہ کا فعل امام حسین علیہ السلام کے احوال سے متناسب نہیں ہے جیسا کہ یہ واضح ہے۔ ٢۔ دخان آیت ٢٠ ٣۔ سورۂ مومن آیت٢٧

۳۰۷

امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا : تو اپنے بھائی (محمد بن اشعث) کا بھائی ہے ؛کیا توچاہتا ہے کہ بنی ہاشم ،مسلم بن عقیل کے علاوہ مزید خون کے تجھ سے طلبگار ہوں ؟ خدا کی قسم ایسا تو نہ ہوگا کہ میں ذلت کے ساتھ خود کو اس کے سپرد کردوں اور غلامانہ زندگی کااپنے لئے اقرار کرلوں ۔ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ میرے دامن پر کوئی دھبہ رہے۔ میں پناہ مانگتا ہوں اس جابر و سرکش سے جو روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتا ۔ اس کے بعد آپ پلٹ آئے اور اپنے ناقہ کو بٹھادیا اور عقبہ بن سمعان کو حکم دیا کہ اسے زانو بند لگادے۔(١)

____________________

١۔طبری ،ج٥ ،ص ٤٢٣، ٤٢٦،ابومخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے عبداللہ بن عاصم نے یہ روایت نقل کی ہے اور ابن عا صم کا بیان ہے کہ مجھ سے ضحاک مشرقی نے یہ روایت بیان کی ہے ۔

۳۰۸

زہیر بن قین کا خطبہ

اس کے بعد زہیر بن قین اپنے گھوڑے پر جس کی دم پر بہت سارے بال تھے اسلحوں سے لیس سوار ہوکر نکلے اور فرمایا :

'' یا أهل الکوفة! نذارلکم من عذا ب اللّه نذار ! انّ حقاً علی المسلم نصیحة أخیه المسلم ،و نحن حتی الآن أخوة وعلی دین واحد و ملة واحد ة مالم یقع بیننا وبیکم السیف ، وأنتم للنصحية مناّ أهل ، فاذا وقع السیف انقطعت العصمة وکُنّا أمة وانتم اُمّة

ان اللّٰه قد ابتلانا وایاکم بذرّية نبیه محمد صلی اللّٰه علیه]( وآله ) و سلم لینظر مانحن وأنتم عاملون ، أنا ندعوکم الی نصرهم و خذلان الطاغية عبیداللّه بن زیاد ، فانکم لاتدرکون منهما الا بسوء عمر سلطانهما کلّه ، لیسملان أعینکم، و یقطعان أیدیکم وأرجلکم ، ویمثّلان بکم ، ویرفعانکم علی جذوع النخل ، ویقتلان أما ثلکم وقرّاء کم : أمثال حجر بن عد وأصحابه ،وهان بن عروه وأشباهه.

فسبّوه واثنوا علی عبیدالله بن زیاد ودعوا له وقالوا : واللّٰه لا نبرح حتی نقتل صاحبک ومن معه ، أو نبعث به وبأصحابه الی الامیر عبیداللّٰه سلماً !فقال لهم :

عباداللّٰه،انّ ولد فاطمة رضوان اللّٰه علیها أحق بالود ّ والنصر من ابن سميّة فان لم تنصروهم فاعیذکم باللّٰه أن تقتلوهم ،فخلوا بین الرجل و بین ابن عمّه یزید بن معاوية ، فلعمری أن یزید لیرض من طاعتکم بدون قتل الحسین (علیه السلام )

فرماه شمر بن ذ الجوشن بسهم وقال : اسکت ، اسکت الله نامتک ابرمتنابکثرة کلامک !

فقال له زهیر : یا بن البوّال علی عقبیه ماایاک أخاطب ، انما أنت بهیمة! واللّٰه ماأظنّک تحکم من کتاب اللّٰه آیتین ! فابشر با لخز یوم القیامة والعذاب الالیم !

فقال له شمر: ان اللّه قاتلک و صاحبک عن ساعة!

قال : أفبا لموت تخوّفن ! فواللّٰه للموت معه أحب الی من الخلد معکم ! ثم أقبل علی الناس رافعاً صوته فقال :

عباد اللّه ! لا یغرنکم من دینکم هٰذا الجلف الجافی و أشباهه، فواللّٰه لا تنال شفاعة ْ محمد صلی اللّٰه علیه (وآله) وسلم قوماً هراقوا دماء ذرّیته وأهل بیته ، وقتلوا من نصرهم وذبّ عن حریمهم !

فناداه رجل فقال له : انّ أبا عبداللّٰه یقول لک : أقبل ، فلعمر لئن کان مومن آل فرعون نصح لقومه وأبلغ فی الدعا ء ، لقد نصحت لهٰؤلاء وأبلغت ، لو نفع النصح والا بلاغ

۳۰۹

''اے اہل کوفہ ! میں تم کو خدا کے عذاب سے ہوشیار کررہاہوں ! کیونکہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلما ن بھائی کو نصیحت کرناایک اسلامی حق ہے اور جب تک ہمارے اور تمہارے درمیان تلوار نہیں چلی ہے ہم لوگ ایک دوسرے کے بھائی اور ایک دین و ملت کے پیرو ہیں ، لہذاہماری جانب سے تم لوگ نصیحت کے اہل اور حقدار ہو ؛ہاں جب تلوار اٹھ جائے گی تو پھر یہ حق و حرمت خود بخود منقطع ہوجائے گا اور ہم ایک امت ہوں گے اور تم دوسری امت و گروہ ہوجاؤگے ۔

حقیقت تو یہ ہے کہ خدا نے ہمیں اور تم لوگوں کو اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذریت کے سلسلے میں مورد آزمائش قرار دیا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ ہم اور تم ان کے سلسلے میں کیا کرتے ہیں ، لہذا ہم تم کو ان کی مدد و نصرت اور سرکش عبیداللہ بن زیاد کو چھوڑدینے کی دعوت دیتے ہیں ؛ کیونکہ تم لوگ ان دونوں باپ بیٹوں سے ان کے دوران حکومت میں برائی کے علاوہ کچھ بھی نہیں پاؤ گے۔ یہ دونوں تمہاری آنکھیں پھوڑتے رہیں گے ، تمہارے ہاتھوں اور پیروں کو کاٹتے رہیں گے اور تم کو مثلہ کرکے کھجور کے درخت پر لٹکاتے رہیں گے اور تمہارے بزرگوں اور قاریان قرآن کو اسی طرح قتل کرتے رہیں گے جس طرح حجر بن عدی ،(١) ان کے اصحاب ، ہانی بن عروہ(٢) اور ان جیسے دوسرے افرادکو قتل کیا۔

اس پر ان لوگوں نے زہیر بن قین کو گالیاں دیں اور عبیداللہ بن زیاد کی تعریف و تمجید کرتے رہے؛ اس کے لئے دعائیں کیں اور بولے : خدا کی قسم ہم اس وقت تک یہاں سے نہیں جائیں گے جب تک تمہارے سالار اور جو لوگ ان کے ہمراہ ہیں ان کو قتل نہ کرلیں یا امیر عبیداللہ بن زیاد کی خدمت میں

____________________

١۔ آپ یمن کے رہنے والے تھے۔ ١٦ھ میں جنگ قادسیہ میں مدد گار کے عنوان سے شریک تھے۔ (طبری ،ج ٤ ،ص٢٧٠) کوفہ سے بصرہ کی جنگ میں حضرت علی علیہ السلام کی نصرت کے لئے سب سے پہلے آپ نے مثبت جواب دیا تھا۔ (طبری، ج٤،ص ٤٨٥) اس سے پہلے یہ عثمان کے خلاف لوگو ں کو بر انگیختہ کر نے والو ں میں شمار ہوتے تھے۔ (طبری، ج٤ ،ص ٤٨٨)آپ کوفہ میں قبیلہ مذحج اور اہل یمن کے اشعری قبیلہ والو ں کے سربراہ تھے۔ (طبری، ج٤، ص ٥٠٠) جنگ صفین میں آپ حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ جنگ کے لئے نکلتے تھے۔ (طبری ،ج٤،ص ٥٧٤) آپ کا شمار ان لوگو ں میں ہوتا ہے جنہو ں نے صفین میں تحکیم حکمین کے صحیفہ کے خلاف گواہی دی تھی ۔(طبری، ج٥ ،ص ٥٤)خوارج سے جنگ کے موقع پر نہروان میں آپ میمنہ کے سربراہ تھے۔ (طبری، ج٥،ص٨٥) ٣٩ھ میں علی علیہ السلام نے آپ کو چار ہزار لشکر کے ہمراہ کوفہ سے ضحاک بن قیس کے ٣ ہزار کے لشکر سے مقابلہ کے لئے روانہ کیا تھا تو حدود شام میں مقام '' تدمر'' میں آپ اس سے ملحق ہوگئے اور آپ نے اس کے ٢٠ آدمیو ں کو قتل کردیا یہا ں تک رات ہوگئی تو ضحاک بھاگ کھڑا ہوا اور حجر لوٹ آئے۔ (طبری، ج٥، ص ١٣٥) جب عام الجماعة میں معاویہ کوفہ آیا تو اس نے مغیرہ بن شعبہ کو وہا ں کا والی بنادیا اور مغیرہ نے حضرت علی علیہ السلام کو گا لیا ں دینے کابد ترین عمل شروع کر دیا؛ اس پر حجر نے مغیرہ کا زبردست مقابلہ کیا یہا ں تک کہ وہ ہلاک ہوگیا۔ معاویہ نے زیاد بن ابیہ کو وہا ں کا گورنر بنادیا تو اس نے بھی وہی رویہّ اپنا یا اور حجر نے بھی اپنی رفتار کو برقرار رکھا تو زیاد بن ابیہ نے انہیں گرفتار کرکے معاویہ کے پاس بھیج دیا اور معاویہ نے آپ کو قتل کردیا۔ (طبری ،ج٥،ص٢٧٠)

٢۔مسلم بن عقیل علیہ السلام کے بارے میں گفتگوکے دوران آپ کے شرح احوال گذر چکی ہے ۔

۳۱۰

تسلیم محض کر کے نہ بھیج دیں ۔اس پر زہیر بن قین نے ان لوگوں سے کہا : بندگان خدا ! فرزند فاطمہ رضوان اللہ علیھا ، ابن سمیہ(١) سے زیادہ مدد و نصرت کے سزاوار ہیں ۔اگر تم ان کی مدد کرنا نہیں چاہتے ہو تو میں تم کو خدا کاواسطہ دیتا ہوں اور اس کی پناہ میں دیتا ہوں کہ تم انھیں قتل نہ کرو ، تم لوگ اس مرد بزرگوار اوران کے ابن عم یزید بن معاویہ کے درمیان سے ہٹ جاؤ؛ قسم ہے میری جان کی کہ یزید قتل حسین (علیہ السلام) کے بغیر بھی تمہاری اطاعت سے راضی رہے گا ۔

جب زہیر بن قین کی تقریر یہاں تک پہنچی تو شمر بن ذی الجوشن نے آپ کی طرف ایک تیر پھینکااور بولا خاموش ہوجا ! خدا تیری آواز کو خاموش کردے، اپنی زیادہ گوئی سے تو نے ہمارے دل کو برمادیا ہے۔اس جسارت پر زہیر بن قین نے شمر سے کہا : اے بے حیااور بد چلن ماں کے بیٹے جو اپنے پیروں کے پیچھے پیشاب کرتی رہتی تھی!میں تجھ سے مخا طب نہیں ہوں ، تو توجانور ہے۔میں نہیں سمجھتا کہ تو کتاب خدا کی دو آیتوں سے بھی واقف ہوگا ؛ قیامت کے دن ذلت و خواری اور درد ناک عذاب کی تجھے بشارت ہو۔یہ سن کر شمر نے کہا : خدا تجھے اور تیرے سالار کو ابھی موت دیدے !

____________________

١۔ سمیہ ایک زنا کار کنیزتھی۔ زمان جاہلیت میں اس کا شمار برے کام کی پرچمدار عورتو ں میں ہوتا تھا ۔اس سے قریش کے چھ مردو ں نے زنا کیاجس کے نتیجہ میں زیاد دنیا میں آیا۔اس کے بعد ان چھ لوگو ں میں تنازعہ اور جھگڑا شروع ہو گیا کہ یہ کس کا بچہ ہے؟ جب اس کے اصلی باپ کاپتہ نہ چل سکا تواسے زیاد ابن ابیہ یعنی زیاد اپنے باپ کا بیٹا یا زیاد بن عبید یا زیاد بن سمیہ کہا جانے لگا یہا ں تک کہ معاویہ نے اسے اپنے باپ سے ملحق کرلیاتو اسے بعض لوگ زیاد بن ابی سفیان کہنے لگے ۔

جب معاویہ نے اسے کوفہ کا والی بنایا اور اس نے حجر بن عدی کو گرفتار کیااوران کے خلاف گواہوں کو جمع کرناشروع کیا تو اس فہرست میں شداد بن بزیعہ کے نام پر اس کی نگاہ گئی تو وہ بولا : اس کاکوئی باپ نہیں ہے جس کی طرف نسبت دی جائے ! اسے گواہوں کی فہرست سے نکالو، اس پر کسی نے کہا : یہ حصین کا بھائی ہے جو منذر کالڑکا ہے،تو زیاد بولا: پھر اسے اسی کے باپ کی طرف منسوب کرو ، اس سفارش کے بعد اس کا نام گواہوں کی فہرست میں لکھا گیااور اسے منذر کی طرف منسوب کیا گیا۔جب شداد تک یہ خبر پہنچی تو وہ بولا : وائے ہو اس پسر زنا کارپر ! کیا اس کی ماں اس کے باپ سے زیادہ معروف نہیں ہے؟ خدا کی قسم اسے فقط اسکی ماں سمیہ سے منسوب کیاجاتا ہے۔ (طبری ،ج٥،ص ٢٧٠)یزید بن مفرغ حمیری سجستان کی جنگ میں عبیداللہ کے بھائی عباد بن زیاد کے ہمراہ تھا وہاں ان لوگوں پر جب سختی کی زندگی گزرنے لگی تو ابن مفرغ نے عباد کی ہجو میں اشعار کہے

اذا أودی معاویه بن حرب

فبشرشِعب قعبک بانصداع

فاشهد ان امک لم تباشر

أبا سفیان و اضعة القناع

ولکن کان أمرا ً فیه لبس

علی وجل شدید وا ر تیاع

۳۱۱

جب معاویہ بن حرب مرجائے گاتو تجھے بشارت ہو کہ تیرا پیالہ ٹوٹ جائے گا ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ پردہ ہٹا کر تیری ماں نے ابو سفیان سے مباشرت نہیں کی تھی ۔لیکن یہ امر ایسا تھا کہ جس میں زیادہ خوف اوردہشت سے بات مشتبہ ہوگئی ۔

اس نے پھر کہا

أ لا أ بلغ معا و ية بن حرب

مغلغلة من ا لر جل ا لیما نی

أتغضب أن یقال:أبو ک عف

وترضٰی أن یقال: أبوک زان

فا شهد أن رحمک من زیاد

کر حم ا لفیل من و لد ا لا تا ن

(طبری، ج٥،ص ٣١٧) کیا میں معاویہ بن حرب تک یمانی مرد کا قصیدہ مغلغلہ نہ پہنچا ؤں کیا تو اس سے غضبناک ہوتا ہے کہ کہا جائے : تیرا باپ پاک دامن تھا ؟ اور اس سے راضی ہوتا ہے کہ کہا جائے : تیرا باپ زنا کار تھا ؟ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو زیاد کا بچہ اسی طرح ہے جس طرح گدھی کا بچہ ہاتھی ہو ۔

خاندان زیادکی ایک فرد جسے صغدی بن سلم بن حرب کے نام سے یاد کیاجاتا تھا مھدی عباسی کے پاس حاضر ہوا جو اس وقت کے مظالم پر نگاہ رکھے ہوئے تھا ۔ اس شخص کو دیکھ کرمہدی عباسی نے پوچھا : تو کون ہے ؟ اس نے جواب دیا : میں آپ کا چچا زاد رشتہ دار ہوں ! مھدی عباسی نے پوچھا : تم ہمارے کس چچا کے خاندان سے ہو ؟ تو اس نے خود کو زیاد سے نسبت دی ۔ یہ سن کر مہدی نے کہا : اے زناکا ر سمیہ کے بچہ ! تو کب سے ہمارا ابن عم ہوگیا ؟ اس کے بعد اسے باہر نکالنے کا حکم دیا گیا۔ اس کی گردن پکڑ کر اسے باہر نکال دیا گیا۔ اس کے بعدمہدی عباسی حاضرین کی طرف ملتفت ہوا اور کہا : خاندان زیاد کے بارے میں کسی کو کچھ علم ہے ؟ تو ان میں سے کسی کوکچھ معلوم نہ تھا ۔ اسی اثناء میں ایک مرد جسے عیسیٰ بن موسیٰ یا موسیٰ بن عیسیٰ کہتے ہیں ابو علی سلیمان سے ملا تو ابو علی سلیمان نے اس سے درخواست کی کہ زیاد اورآل زیاد کے بارے میں جوکچھ کہاجاتا ہے اسے مکتوب کردو تاکہ میں اسے مھدی عباسی تک لے جاؤں ۔ اس نے ساری روداد لکھ دی اور اس نے اس مکتوب کو وہاں بھیج دیا۔

ہارون الرشید اس زمانے میں مھدی کی جانب سے بصرہ کا والی تھا ، پس مھدی نے حکم دیا کہ ہارون کوایک خط لکھا جائے۔ اس خط میں مھدی نے حکم دیا کہ آل زیاد کا نام قریش و عرب کے دیوان سے نکال دیا جائے۔ مہدی کے خط کا متن یہ تھا : قبیلہ ثقیف کے خاندان عبد آل علاج کی ایک فرد عبید کے لڑکے زیاد کو خود سے ملحق کرنے کی معاویہ بن ابی سفیان کی رائے اور اس کا دعو یٰ ایسا تھا جس سے اس کے مرنے کے بعد تمام مسلمانوں نے اوراس کے زمانے میں بھی کافی لوگوں نے انکار کیاکیونکہ وہ لوگ اہل فضل

۳۱۲

ورضا اور صاحبان علم وتقویٰ تھے اور انہیں زیاد ،زیاد کے باپ اور اس کی ماں کے بارے میں سب کچھ معلوم تھا ۔

معاویہ کے لئے اس کام کا باعث ورع و ہدایت یا ہدایت گر سنت کی اتباع نہیں تھی اور نہ ہی گزشتہ ائمہ حق کی پیروی نے اسے اس بات کی دعوت دی تھی؛ اسے توبس اپنے دین اور اپنی آخرت کو خراب کرنے کا شوق تھا اور وہ کتاب و سنت کی مخا لفت پر مصمم ارادہ کرچکا تھا۔ زیاد کے سلسلہ میں خوش بینی سے پھولانہیں سماتا تھا کہ زیاد اپنے کام میں جلد باز نہیں ہے، وہ نافذالقول ہے اور باطل پر معاویہ کی مدد اور پشت پناہی میں اس کی امیدوں پر کھرا اترتا ہے جب کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم نے فرمایاتھا : بچہ جس بستر پرپیدا ہو اسی کا ہے اور زناکارکا حق سنگ سار ہونا ہے اور آپ نے فرمایا: جو اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کے نام سے پکارا جائے اور جو اپنے موالی کے علاوہ کسی دوسرے سے منسوب ہو تو اس پر خدا، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہو؛ خدا وند عالم نہ تو اس کی توبہ قبول کرے گااورنہ ہی اس کا فدیہ قبول ہوگا۔قسم ہے میری جان کی کہ زیاد نہ تو ابوسفیان کی گود میں پیدا ہوا نہ ہی اس کے بستر پر ، نہ ہی عبید ابوسفیان کا غلام تھا ، نہ سمیہ اس کی کنیز تھی ، نہ ہی یہ دونوں اس کی ملک میں تھے اور نہ ہی یہ دونوں کسی اور سبب کی بنیاد پر اس کی طرف منتقل ہوئے تھے لہذا معاویہ نے زیاد کو اپنے سے ملحق کرنے کے سلسلہ میں جو کچھ بھی انجام دیا اور جو اقدامات کئے سب میں اس نے امر خدا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم کی مخالفت کی ہے اور اپنی ہواو ہوس کی پیروی، حق سے روگردانی اور جانب داری کا ثبوت دیا ہے۔ خدا وند متعال فرماتا ہے:'' ومن أضل ممن اتبع هواه بغیرهدی من اللّٰه ان اللّٰه لایهدی القوم الظالمین '' (قصص ٥٠)اور اس نے جناب داود علیہ السلام کو جب حکم، نبوت، مال اور خلافت عطا کیا تو فرمایا:'' یاداؤد اناجعلناک خلیفةً فی الارض فاحکم بین الناس بالحق''ْْ (ص ٢٦) اور جب معاویہ نے (جسے اہل حفظ احادیث بخوبی جانتے ہیں ) موالی بنی مغیرہ مخزومین سے مکالمہ کیا جب وہ لوگ نصر بن حجاج سلمی کو خو د سے ملحق کرنا چاہتے تھے اور اسے اپنے قبیلے والا کہنا چاہتے تھے تو معاویہ نے اپنے بستر کے نیچے پتھرآمادہ کرکے رکھا تھا جو ان کی طرف رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے قول للعاھرالحجرکی بنیاد پر پھینکنے لگا۔ تو ان لوگوں نے کہا ہم نے توتجھے زیاد کے سلسلے میں جو تو نے کیا اس میں حق جو ازدید یا کیا تو ہمیں ہمارے فعل میں جو ہم اپنے ساتھی کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں حق جواز نہیں دے گا ؟ تو معاویہ نے کہا : رسول خدا صلی اللہ علیہ(وآلہ) وسلم کا فیصلہ تم لوگوں کے لئے معاویہ کے فیصلہ سے بہتر ہے۔(طبری ،ج١ ،ص ١٣١) یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت اور امام علیہ السلام کی دعوت کا مثبت جواب دینے سے قبل اگر چہ زہیر بن قین عثمانی تھے؛ لیکن زیاد کو خود سے ملحق کر نے اور حجر بن عدی کو قتل کرنے پر وہ معاویہ سے ناراض تھے لہٰذا ان کا نفس آمادہ تھا کہ وہ عثمانی مذہب سے نکل جائیں نیز اس کی بھی آماد گی تھی کہ معاویہ اور اس کے بیٹے یزید اور ا س کے گرگوں کے خلاف اظہار ناراضگی کریں اور امام علیہ السلام کی دعوت قبول کریں اور وہ راستہ ترک کر دیں جس پر ابھی تک چل رہے تھے۔

۳۱۳

زہیر بن قین نے کہا کہ تو مجھے موت سے ڈراتا ہے۔ خد اکی قسم ان کے ساتھ موت میرے لئے تم لوگوں کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہنے سے بہتر ہے،پھر اپنا رخ لشکر کی طرف کر کے بلند آواز میں کہا:

بندگان خدا ! یہ اجڈ ، اکھڑ، خشک مغز اور اس جیسے افراد تم کو تمہارے دین سے دھوکہ میں نہ رکھیں ۔ خدا کی قسم وہ قوم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت نہیں حاصل کرپائے گی جس نے ان کی ذریت اور اہل بیت کا خون بہایا ہے اور انھیں قتل کیا ہے جو ان کی مدد و نصرت اور ان کے حریم کی پاسبانی کررہے تھے ۔

یہ وہ موقع تھا جب حسینی سپاہ کے ایک شخص نے زہیر کو آواز دے کر کہا :ابو عبداللہ فرمارہے ہیں کہ آجاؤ خدا کی قسم! اگر مومن آل فرعون(١) نے اپنی قوم کو نصیحت کی تھی اور اپنی آخری کو شش ان کو بلانے میں صرف کر دی تھی تو تم نے بھی اس قوم کو نصیحت کردی اور پیغام پہنچادیاہے۔ اگرنصیحت و تبلیغ ان کے لئے نفع بخش ہوتی تو یہ نصیحت ان کے لئے کافی ہے۔(٢)

____________________

١۔امام علیہ السلام نے مومن آل فرعون کی تشبیہ اس لئے دی کہ آپ پہلے عثمانی تھے گویا قوم بنی امیہ سے متعلق تھے۔

٢۔ابو مخنف کہتے ہیں کہ مجھ سے علی بن حنظلہ بن اسعد شبامی نے اپنی ہی قوم کے ایک فرد سے یہ روایت نقل کی ہے جو امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے وقت وہا ں حاضر تھا ،جسے کثیر بن عبداللہ شعبی کہتے ہیں ؛ اس کا بیان ہے : جب ہم حسین کی طرف ہجوم آور ہوئے تو زہیر بن قین ہماری طرف آئے اور خطبہ دیا۔ (طبری ،ج٥ ،ص ٤٢٦) یعقوبی نے بھی اس خطبہ کو ج٢،ص ٢٣٠ ،طبع نجف پر ذکر کیا ہے ۔

۳۱۴

حر ریاحی کی بازگشت

جب عمر بن سعد اپنے لشکر کے ہمراہ امام حسین علیہ السلام پر ہجو م آو رہو رہاتھا تو حر بن یزید نے عمر بن سعد سے کہا: اللہ تمہارا بھلا کرے !کیاتم اس مرد سے ضرور جنگ کرو گے ؟

عمر بن سعدنے جواب دیا:''أی واللّه قتالاً أیسره أن تسقط الروؤس تطیح الایدی! ''ہاں !خد ا کی قسم ایسی جنگ ہوگی جس کاآسان ترین مرحلہ یہ ہوگا کہ (درختوں کے پتوں کی طرح) سر تن سے جداہوں گے اورہاتھ کٹ کٹ کر گریں گے ۔

حرنے سوال کیا :''أفمالکم ف واحد ة من الخصال التی عرض علیکم رضا !'' کیاان مشورں میں سے کوئی ایک بھی تمہارے لئے قابل قبول نہیں ہے ۔

عمربن سعد نے جواب دیا:''أماواللّٰه لوکان الامر الّلفعلت ولکن أمیرک قدأبیٰ ذالک'' خداکی قسم اگر یہ کام میرے ہاتھ میں ہوتا تومیں اسے ضرورقبول کرتا لیکن میں کیاکروں کہ تمہار اامیر اس سے انکا ر کرتاہے ۔یہ سن کر حر نے کنارہ کشی اختیار کرلی او رایک جگہ پر جاکر کھڑاہوگیااس کے ہمراہ ا موی فوج کا ایک سپاہی قرہ بن قیس(١) بھی تھا ۔حر نے قرّہ سے کہا:''یاقرّہ ! ھل سقیت فرسک الیوم ؟''اے قرہ ! کیاتو نے آج اپنے گھوڑے کو پانی پلایا؟ قرہ نے جواب دیا : نہیں ! حر نے کہا : پھر تو ضرور پلانے کا ارادہ رکھتاہوگا ؟ قرہ کا بیان ہے : خدا کی قسم میں یہ سمجھا کہ وہ وہاں سے دور ہونا چاہتا ہے اور جنگ میں شریک ہونانہیں چاہتا اور اسے بھی ناپسند کرتا ہے کہ جب وہ یہ کام انجام دے تو میں وہاں موجود رہوں کیونکہ اسے خوف تھا کہ کہیں میں اس کی خبر وہاں نہ پہنچادوں ۔بہر حال میں نے اس سے کہا: میں نے تو ابھی اسے پانی نہیں پلایا ہے ؛اب اسے لے جارہاہوں تاکہ پانی پلادوں ؛ یہ کہہ کر میں نے اس جگہ کوچھوڑ دیا جہاں وہ موجود تھا۔ خدا کی قسم! اگر مجھے اس کے ارادہ کی اطلاع ہوتی تو میں اس کے ہمراہ حسین(علیہ السلام) کے ہم رکاب ہوجاتا ۔ادھر حر نے آہستہ آہستہ امام حسین علیہ السلام کی طرف نزدیک ہوناشروع کیا۔حر کی یہ کیفیت دیکھ کر اموی لشکر کے ایک فوجی مہاجر بن اوس(٢) نے آپ سے کہا : اے فرزند یزید تمہارا ارادہ کیا ہے ؟ کیا توکسی پر حملہ کرنا چاہتا ہے ؟ تو حر خاموش رہا اور وہ اس طرح لرزہ بر اندام تھا جیسے بجلی کڑکتی ہو۔ مہاجر بن اوس نے پھر کہا: اے فرزند یزید تمہارا ارادہ کیا ہے ؟ خدا کی قسم تمہارا کام شک میں ڈالنے والا ہے۔ خدا کی

____________________

١۔امام حسین کے کربلامیں واردہونے کے بیان میں اس شخص کے حالات گزرچکے ہیں اوریہ کہ حبیب بن مظاہر نے اسے امام علیہ السلام کی نصرت و مدد کی دعوت دی تھی تو اس نے سونچنے کا وعدہ دیاتھالیکن واپس نہیں پلٹا۔ ظاہر ہے کہ ناقل خبر یہی ہے اور اپنے سلسلہ میں خود ہی مدعی ہے ۔

٢۔ شعبی کے ہمراہ یہ زہیر بن قین کا قاتل ہے۔(طبری ،ج٥، ص ٤٤١)

۳۱۵

قسم جنگ کے وقت میں نے کبھی بھی تمہاری ایسی حالت نہیں دیکھی جیسی ابھی دیکھ رہاہوں ، اگر مجھ سے پوچھا جاتا کہ اہل کوفہ میں سب سے شجاع اور دلیر کون ہے تو میں تیرا نام لیتالیکن اس وقت میں جوتیری حالت دیکھ رہاہوں وہ کیا ہے ؟

حرنے کہا :''انّواللّه أخيّر نفس بین الجنة والنار ، واللّٰه لا اختار علی الجنة شیئاً ولو قطعت وحرّقت ! ''خدا کی قسم میں خود کو جنت و جہنم کے درمیان مختار دیکھ رہاہوں اور خدا کی قسم میں جنت پر کسی دوسری چیز کو اختیار نہیں کروں گا چاہے مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے یا جلا دیا جائے۔

پھر حر نے اپنے گھوڑے پر ایک ضرب لگائی اور خود کو حسینی لشکر تک پہنچادیا اور امام حسین کی خدمت میں عرض کیا :''جعلنی اللّٰه فداک یا بن رسول اللّٰه ! أنا صاحبک الذی حبستک عن الرجوع وسایرتک فی الطریق ، و جعجعت بک فی هذاالمکان ، واللّٰه الذ لااله الا هو ما ظننت أن القوم یردون علیک ما عرضت علیهم أبداً ولا یبلغون منک هذه المنزلة فقلت ف نفس : لا أبا ل أن أطیع القوم فی بعض أمرهم ، ولا یرون ان خرجت من طاعتهم ، وأما هم فسیقبلون من حسین علیه السلام هذه الخصال التی یعرض علیهم ، واللّٰه لو ظننت أنهم لا یقبلونها منک ما رکبتها منک ، وان قد جئتک تائباً مما کان من الی ربّ ومواسیاًلک بنفس حتی أموت بین یدیک ، أفَتَریٰ ذلک ل توبة ؟! ''

اے فرزند رسول خدا ! میری جان آپ پر نثار ہو ! میں ہی وہ ہوں جس نے آپ کو پلٹنے سے روکا اور آپ کے ہمراہ راستے میں یہاں تک چل کر آیا ، میں ہی وہ ہوں جو آپ کو اس خشک اور جلتے ہوئے صحرا میں لے کر آیا۔قسم ہے اس خدا کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ، میں گمان بھی نہیں کر رہاتھا کہ یہ لوگ آپ کے منطقی مشورہ اور صلح آمیز گفتگوکو قبول نہیں کریں گے، میرے تصور میں بھی یہ نہ تھا کہ یہ لوگ آپ کو اس منزل تک پہنچادیں گے میں اپنے آپ میں کہہ رہاتھا چلو کوئی بات نہیں ہے کہ اس قوم کی اس کے بعض امرمیں اطاعت کر لیتا ہوں تاکہ وہ لوگ یہ سمجھیں کہ میں ان کی اطاعت سے باہر نہیں نکل آیا ہوں ۔میں ہمیشہ اسی فکر میں تھا کہ آپ جو مشورہ دیں گے اسے یہ لوگ ضرور قبول کرلیں گے۔خدا کی قسم اگر مجھے معلوم ہوتا کہ یہ لوگ آپ سے کچھ بھی قبول نہیں کریں گے تو میں کبھی بھی اس کا مرتکب نہ ہوتا۔اے فرزند پیغمبر ! اب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں اور ہر اس چیز سے خدا کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں جو میں نے انجام دیا ہے اور اپنے تمام وجود کے ساتھ آپ کی مدد کروں گا ؛یہاں تک کہ مجھے آپ کے سامنے موت آجائے۔ کیا آپ کی نگاہ میں میری توبہ قابل قبول ہے ؟

۳۱۶

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :''نعم ، یتوب اللّٰه علیک و یغفر لک! مااسمک ؟'' ہاں تمہاری توبہ قبول ہے، اللہ بھی تمہاری توبہ قبول کرے اور تمہیں بخش دے ! تمہارا نام کیا ہے ؟

حرنے جواب دیا : میں حر بن یزید ہوں ۔(١) امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :''أنت الحر کما سمتک أمّک أنت الحر ان شاء اللّٰه فی الدنیا والآ خرة انزل '' تو حر ہے جیسا کہ تیری ماں نے تیرا نام رکھاہے،ان شاء اللہ تو دنیا و آخرت دونوں میں حر اور آزاد ہے، نیچے اتر آ ۔

حرنے عرض کیا:'' أنالک فارساً خیر منی لک راجلاً ، أقاتلهم علی فرس ساعة والی النزول ما یصیر آ خر أمر ''میں آپ کی بارگاہ میں سوار رہوں یہ میرے لئے نیچے آنے سے بہتر ہے تاکہ کچھ دیر اپنے گھوڑے پر ان سے جنگ کرسکوں اور جب میں نیچے اتروں تو یہ میری زندگی کے آخری لمحات ہوں ۔

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :'' فاصنع ما بدا لک'' تم جس فکر میں ہو اسے انجام دو ۔ اس گفتگو کے بعدحر اپنے لشکر کے سامنے آئے اور اس سے مخاطب ہوکر کہا :

____________________

١۔ ایک احتمال تو یہ ہے کہ چونکہ حر اسلحہ سے لیس تھا اور شرم سے اپنا سر جھکائے تھا لہذا امام علیہ السلام نے اسے نہیں پہچانا اور سوال کیا ورنہ آپ حر کو پہلے سے پہچانتے تھے۔ دوسرا احتمال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ حر کے نام سے صفت کا استفادہ کرنا چاہتے تھے لہٰذا نام پوچھا ورنہ جو اوصاف اس نے بتائے تھے اس سے تو ہر آدمی سمجھ سکتا ہے کہ آنے والا حر ہی تھا۔ (مترجم)

۳۱۷

حر بن یزید ریاحی کا خطبہ

''ایها القوم ! ألا تقبلون من حسین علیه السلام خصلة من هذه الخصال التی عرض علیکم فیعافیکم اللّٰه من حربه و قتاله ؟

قالوا: هذا الامیر عمر بن سعد فکلّمه

فکلّمه بمثل ما کلّمه به قبل ، و بمثل ما کلّم به أصحابه

قال عمر (بن سعد) قد حرصتُ ، لو وجدت الی ذالک سبیلاً فعلتُ

فقال ؛ یا اهل الکوفة ! لاُمکم الهبل والعبر اذا دعوتموه حتی اذا أتاکم أسلمتموه ! وزعمتم أنکم قاتلوا أنفسکم دونه ، ثم عدوتم علیه لتقتلوه ! أمسکتم بنفسه و أخذتم بکظمه ، وأحطتم به من کل جانب ، فمنعتموه التوجّه فی بلاد اللّه العریضة حتی یأمن و یأمن أهل بیته ، و أصبح فی أیدیکم کالاسیر ، لا یملک لنفسه نفعاً و لا یدفع ضراً ، وحلا تموه و نساء ه و صبیته و أصحابه عن ماء الفرات الجاری ، الذ یشربه الیهود والمجوس والنصران ، وتمرغ فیه خنازیر السواد و کلابه ، هاهم أولاء قد صرعهم العطش ، بئسما خلفتم محمداً فی ذریته ! لاسقاکم اللّه یوم الظماء ان لم تتوبوا و تنزعوا عما أنتم علیه من یومکم هذا فی ساعتکم هذه''

اے قوم ! حسین کی بتائی ہوئی راہوں میں سے کسی ایک راہ کو کیوں نہیں قبول کرلیتے تاکہ خدا تمہیں ان سے جنگ اور ان کے قتل سے معاف فرمادے ۔

لشکر نے کہا : یہ امیر عمر بن سعد ہیں انھیں سے بات کرو ۔.

تو حر نے عمر بن سعد سے بھی وہی بات کی جو اس سے پہلے کی تھی اور جو باتیں ابھی لشکر سے کی تھیں ۔عمر بن سعد نے جواب دیا :میں اس کا بڑا حریص تھا کہ اگر میں کوئی بھی راستہ پاتا تو ضرور یہ کام انجام دیتا ۔

۳۱۸

یہ سن کر حر نے لشکر کو مخاطب کر کے کہا :اے اہل کوفہ! تمہاری مائیں تمہارے غم میں روئیں ؛کیونکہ تم ہی لوگوں نے ان کو یہاں آنے کی دعوت دی تھی اور جب وہ چلے آئے تو تم لوگ انھیں اس ظالم کے سپرد کرناچاہتے ہو۔ پہلے تم اس کے مدعی تھے کہ ان پر اپنی جان نثار کردوگے پھر اپنی بات سے پلٹ کر انھیں قتل کرنا چاہتے ہو۔ تم لوگوں نے یہاں ان کو روک رکھا اور ان کی بزرگواری اور کظم غیظ کے مقابلہ میں ان پر پہرہ ڈال دیا اور انھیں چاروں طرف سے گھیر لیا ہے اور اللہ کی اس وسیع و عریض زمین میں ان کو کہیں جانے بھی نہیں دیتے کہ وہ اور ان کے اہل بیت امن و امان کی زندگی گزار سکیں ۔یہ تمہارے ہاتھوں میں اسیروں کی طرح ہوگئے ہیں جو نہ تو خود کو کوئی نفع پہنچاسکتے ہیں اورنہ ہی خود سے ضرر و نقصان کو دور کر سکتے ہیں ۔ تم لوگوں نے ان پر، ان کی عورتوں پر ، ان کے بچے اوران کے اصحاب پر اس فرات کے بہتے پانی کو روک دیا ہے جس سے یہود و مجوسی اور نصرانی سیراب ہورہے ہیں ، جس میں کالے سور اور کتے لوٹ رہے ہیں ؛ لیکن یہی پانی ہے جو ان پر بند ہے اور پیاس سے یہ لوگ جاں بلب ہیں ۔ حقیقت میں تم لوگوں نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعدان کی ذریت کے ساتھ بڑا برا سلوک کیا ہے۔ خدا قیامت کے دن ،جس دن شدت کی پیاس ہوگی تم لوگوں کو سیراب نہ کرے۔اگر تم اپنے افعال سے آج اسی وقت توبہ نہ کرلو۔(١)

جب حر کی تقریر یہاں تک پہنچی تو پیدلوں کی فوج میں سے ایک نے آپ پر حملہ کردیا اور تیر بارانی شروع کردی(٢) لیکن حر پلٹ کر امام حسین علیہ السلام کے پاس آکر کھڑے ہوگئے ۔

حر کی اس دلسوز تقریر کا بعض دلوں پریہ اثرہوا کہ وہ حسین بن علی علیہما السلام کی طر ف چلے آئے ان میں سے ایک یزید بن یزید مھاصر ہیں جو عمر بن سعد کے ہمراہ حسین سے جنگ کے لئے آئے تھے۔ جب امام حسین علیہ السلام کی تما م شرطوں کو رد کردیا گیا اور جنگ کا بازار گرم ہوگیا تو آپ حسینی لشکر کی طرف چلے آئے(٣) آپ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو حر کی تقریر سے راہ حسین کے سالک ہوئے ہیں ۔

____________________

١۔ الارشاد ، ص ٢٣٥، ا لتذکرہ ،ص ٢٥٢

٢۔ ابو جناب کلبی اور عدی بن حرملہ سے یہ روایت منقول ہے۔(طبری ، ج٥ ،ص ٤٢٧، ارشاد، ص ٢٣٥)

٣۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے فضیل بن خدیج کندی نے یہ روایت نقل کی ہے کہ یزید بن زیاد وہی ابو شعشاء کندی ہے جو قبیلہ بہدلہ سے متعلق تھا۔ (طبری، ج٥ ،ص ٤٤٥)

۳۱۹

آغاز جنگ

*پہلا تیر

* نافع بن ہلال جملی کی شہادت

* الحملة الاولی (پہلا حملہ)

* غفاری برادران

* کرامت و ہدایت

* قبیلہ ٔجابری کے دو جوان

* بریر کا مباہلہ اوران کی شہادت

* حن*لہ بن اسعد شبامی کی شہادت

* عمرو بن قر*ہ انصاری کی شہادت

* عابس بن ابی شبیب شاکری اور انکے غلام کی شہادت

* نافع بن ہلال

* یزید بن زیاد ابو شعشاء کندی کی شہادت

* الحملة الثانیہ (دوسرا حملہ)

* چار دوسرے اصحاب کی شہادت

* مسلم بن عوسجہ

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438