واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا13%

واقعۂ کربلا مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 438

واقعۂ کربلا
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 438 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 192981 / ڈاؤنلوڈ: 5407
سائز سائز سائز
واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

حکم رسول(ص) کی اطاعت واجب ہے

شیخ : میں سوچتا ہوں کہ آپ کا یہ بیان حقیقت نہ رکھتا ہوگا اس لیے کہ عقل اس کو نہیں مانتی کہ کوئی شخص رسول خدا(ص) کو روکنے کی طاعت رکھتا ہو جب کہ قرآن کریم صاف صاف کہہ رہا ہے"وماأتاكم‏ الرسول‏ فخذوه ومانهاكم عنه فانتهوا" ( یعنی رسول خدا(ص) تم کو جس چیز کی ہدایت کریں اس کو قبول کرو اور جس چیز سے منع کریں اس سے باز رہو) نیز اور متعدد آیتوں میں آںحضرت(ص) کے احکام کی اطاعت لازمی قرار دی گئی ہے جیسے"أَطِيعُوااللَّهَ‏ وَأَطِيعُواالرَّسُولَ" ( یعنی اللہ اور رسول(ص) کی اطاعت کرو) بدیہی چیز ہے کہ رسول اللہ(ص) کی اطاعت سے انکار کرنا کفر ہے لہذا صحابہ اور آںحضرت(ص) کے ماننے والے ایسا عمل نہیں کرسکتے تھے کہ آپ کو وصیت سے منع کریں۔ ممکن ہے کہ یہ گڑھی ہوئی روایت ہو جس کو امت کی بے اعتنائی ثابت کرنے کے لیے ملحدین کی طرف سے مشہور کردیا گیا ہو۔

پیغمبر(ص) کو وصیت سے روکنا

خیر طلب: میں التماس کرتا ہوں کہ انجان بننے کی کوشش نہ کیجئے! یہ گڑھی ہوئی روایتوں میں سے نہیں ہے بلکہ مسلم الثبوت اخبار صحیح میں سے ہے جس کی صحت پر جملہ اسلامی فرقوں کو اتفاق ہے یہاں تک کہ شیخین بخاری و مسلم نے بھی نقل روایت میں اس قدر سخت احتیاط کے باوجود کہ کوئی ایسی روایت درج نہ ہونے پائے جس سے مخالفین کو گرفت اور استدلال کا موقع ملنے اپنی صحیحین میں اس دردناک واقعے کو نقل کیا ہےکہ رسول اللہ(ص) نے موت کے وقت فرمایا کہ دوات اور کاغذ لائو تمہارے لیے ایسی تحریر لکھ دوں کہ میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہو۔ حاضرین مجلس میں سے کچھ لوگ ایک (سیاسی ) آدمی کے بہکانے میں آکر مانع ہوئے اور اس قدر ہنگامہ برپا کیا کہ آں حضرت بہت دل شکستہ ہوئے اور ناراض ہو کر ان کو اپنے پاس سے نکال دیا۔

شیخ : میں ہرگز اس بات کا یقین نہیں کرسکتا۔ بھلاکون شخص ایسی جرات کرسکتا تھا کہ رسول خدا(ص) کا مد مقابل بنے؟ اگرا یک معمولی انسان بھی وصیت کرنا چاہتا ہے تو کوئی اس کو منع نہیں کرسکتا نہ کہ خدا کے رسول(ص) کو جس کی اطاعت واجب اور جس سے مخالفت و سرکشی باعث کفر ہے۔

چونکہ بزرگحوں کی وصیت ذریعہ ہدایت ہوتی ہے لہذا کوئی اس کی ممانعت نہیں کرتا، چنانچہ خلیفہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے وصیت کی اور کسی نے روک ٹوک نہیں کی۔

میں پھر عرض کرتا ہوں کہ ایسی روایت کو تسلیم نہیں کرسکتا۔

۸۱

خیر طلب: آپ حق رکھتے ہیںکہ یقین نہ کریں۔ اس پر آپ ہی نہیں ہرمسلمان تعجب کرتا ہے بلکہ اس سے بالاتر میں کہتا ہوں کہ ہر قوم وملت کا سننے والا اس قضیہ سے حیرت میں ہے کہ اگر ایک واجب الاطاعت پیغمبر(ص) آخری وقت میں ایسی وصیت کرنا چاہے جس کا مقصد امت کو گمراہی سے بچانا اور راہ سعادت پر لگانا ہو تو کیونکر اس کو منع کریں گے لیکن کیا کیا جائے کہ ایسی حرکت کی گئی ہے اور اس نے مسلمانوںکے غم و مصیبت کو بڑھا دیا ہے۔

پیغمبر(ص) کو وصیت سے باز رکھنے پر ابن عباس(رض) کا گریہ

یہ صدمہ صرف ہمارے ہی اور آپ کے لیے نہیں ہے بلکہ اصحاب رسول(ص) بھی اس غم انگیز حادثے پر گریہ کرتے تھے۔ چنانچہ بخاری و مسلم اور آپکے دوسرے اکابر علماء نے روایت کی ہے کہ عبداللہ ابن عباس ( حبر امت) اکثر روتے تھے اور کہتے تھے" يوم الخميس ما يو الخميس" (1) اس کے بعد اس قدر گریہ کرتے تھے کہ زمین آںسوئوں سےبھیگ جاتی تھی۔

جب لوگ پوچھتے تھے کہ پنچ شنبے کے روز کیا واقعہ ہوا ہے جس پر آپ اس قدر روتے ہیں؟ تو کہتے تھے کہ جب رسول اللہ(ص) پر مرض الموت طاری ہوا تو آپنے حکم دیا کہ دوات اور کاغذ لے آئو تاکہ تمہارے لیے ایسا نوشتہ لکھ دوں جس سے تم لوگ میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہو۔ بعض حاضرین بزم مانع ہوئے اور مزید بر آں یہ کہا کہ محمد(ص) ہذہانبکتے ہیں( معاذ اللہ) وہ جمعرات کا دن تھا جو فراموش نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ قطع نظر اس سے کہ

آں حضرت(ص) کو وصیت نہیں کرنے دی زبان سے بھی تکلیف پہنچائی۔

شیخ : رسول خدا(ص) کو وصیت کرنے سے کس نے منع کیا؟

خیر طلب: یہ خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب تھے جنہوں نے آں حضرت(ص)کو وصیت سے روکا۔

شیخ : میں بہت ممنون ہوں کہ آپ نے جلد ہی میری الجھن رفع کردی۔ چونکہ ان بیانات سے میں بہت پریشان تھا اور یہ کہنا چاہتا تھا کہ اس قسم کی روایتیں شیعہ عوام کی گڑھی ہوئی ہیں لیکن آپ کے لحاظ سے خاموش تھا، اب دل کی بات ظاہر کرتا ہوں اور آپ کو سمجھاتا ہوں کہ اس طرح کے جعلی روایات سے کام نہ لیجئے۔

خیر طلب : میں بھی آپ کو سمجھاتا ہوں کہ بغیر سوچے سمجھے انکار یا اقرار نہ کیا کیجئے کہ حقیقت کھلنے کے بعد (پچھتانا پڑے۔ چنانچہ اس موضوع میں بھی آپ جلدی کر گئے اور اپنی پرانی عادت اور بدگمانی کی بنا پر بغیر سمجھے بوجھے پاکدامن شیعوں پر جعلسازی کی تہمت لگادی۔ حالانکہ میں بار بار عرض کرچکا ہوں کہ ہم شیعوں کو گڑھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کیونکہ خود آپ ہی کی کتابوں میں ہمارے موافق اور ہمارے عقیدے کے ثبوت میں بے شمار دلائل موجود ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ یعنی جمعرات کا دن، کیسا تھا جمعرات کا دن۔

۸۲

حدیث منع وصیت کے ماخذ

اس زیر بحث موضوع میں اگر آپ اپنے علماء کی معتبر کتابیں دیکھئیے تو معلوم ہوگا کہ آپ ہی کےاکابر علماء نے اس قضیہ کو نقل کیا ہے مثلا بخاری نے صحیح بخاری جلد دوم ص118 میں، مسلم نے اپنی صحیح مسلم آخر کتاب وصیت میں، حمیدی نے جمع بین الصحیحین میں، امام احمد بن حنبل نے مسند جلد اول ص222 میں، ابن ابی الحدید نہج البلاغہ جلد دوم ص563 میں، کرمانی نے شرح صحیح بخاری میں، نودی نے شرح صحیح مسلم میں، ابن حجر نے صواعق میں نیز قاضی ابو علی قاضی روز بہان، قاضی عیاض، امام غزالی، قطب الدین شافعی، محمد ابن عبدالکریم شہرستانی، ابن اثیر، حافظ ابونعیم اصفہانی، سبط ابن جوزی، غرض کہ بالعموم آپ کے علماء نے اس المناک وقوعے کی تصدیق کی ہے۔ کہ حجتہ الوداع سے واپسی کے بعد رسول اللہ(ص) بیمار ہوئے اور اصحاب کی ایک جماعت عیادت کے لیے حاضر ہوئی تو آں حضرت(ص) نے فرمایا"ايتونى‏ بدوات‏ وبياض لاكتب لكم كتابالن تضلوابعدي" ( یعنی میرے پاس دوات اور سادہ کاغذ لےآئو میں تمہارے لیے ایسی تحریر لکھ دوں کہ میرے بعد تم لوگ ہرگز گمراہ نہ ہو۔)

امام غزالی نے سر العالمین مقالہ چہارم میں لکھا ہے۔ جس سے سبط ابن جوزی نے بھی تذکرہ ص36 میں نقل کیا ہے نیز آپ کے بعض دوسرے بزرگ علماء نے اس طرح روایت کی ہے کہ فرمایا دوات اور ایک سادہ کاغذ لے آئو" لازيل عنکم اشکال الامر واذکر لکم من المستحق لها بعدی "( اور بعض روایتوں میں ہے کہ فرمایا:)

"لأكتب‏ لكم‏ كتابالاتختلفون فيهبعدي)فقالعمر: عوا الرجل فإنهليهجر،حسبناكتاباللّه"

یعنی تاکہ تم سے (امر خلافت) کا اشکال دفع کردوں، یہ بتادوں کہ میرے بعد اس خلافت کا مستحق کون ہے یا یہ کہ تمہارے لیے ایسا نوشتہ لکھ دوں کہ جس سے تم لوگ میرے بعد اس معاملہ میں اختلاف پیدا نہ کرو۔ پس عمر نے کہا کہ اس شخص ( یعنی رسول اللہ(ص)، کو چھوڑو کیونکہ در حقیقت یہ ہذیان بک رہا ہے( معاذاللہ) کتاب خدا ہمارے لیے کافی ہے۔

اصحاب کا مجمع دو گروہوں میں بٹ گیا، کچھ عمر کے طرفدار ہوگئے ادر ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگے اور کچھ لوگ رسول اللہ(ص) کے حامی رہے یہاں تک کہ آپس میں اس قدر تھکا فضیحتی شور و غوغا ہوا کہ آںحضرت(ص) نے ( جو خلق عظیم کے مجسمہ تھے) غصے میں بھر کر فرمایا "قوموا عنی ولا ينبغی عندی التنازع" ( یعنی میرے پاس سے اٹھ جائو کیونکہ میرے پاس لڑنا جھگڑنا ٹھیک نہیں ہے) یہ وہ پہلا فتنہ و فساد تھا جو پیغمبر(ص) کی تیس سال کیجانگاہ محنتوں کے بعد مسلمانوں کے درمیان خود آنحضرت(ص) کے سامنے رونما ہوا اور اس فتنے اور گروہ بندی کے باعث خلیفہ عمر تھے جنہوں نے اپنی باتوں سے نفاق و اختلاف کا بیج بویا اور در پارٹیاں قائم کر دیں، یہاں تک کہ آجکی رات بھی ہماور آپ دونوں اسلامی بھائیوں کو دو گروہوں میں بانٹ کے ایک دوسرے کے مقابلے پر لا کھڑا کیا۔

شیخ : آپ جیسے مہذب اور با اخلاق آدمی سے ایسی جرات اور جسارت کی امید نہیں تھی کہ خلیفہ کی ایسی بزرگ ہستی پر ایسا الزام لگائیے گا۔

۸۳

خیر طلب : آپ کو خدا کا واسطہ کہ محبت و عداوت کو الگ رکھ کے اور بدگمانی سے ہٹ کے ذرا اںصاف سے بتائیے کہ آپکے انکار کے جواب میں آپ ہی کی کتابوں سے تاریخی واقعات نقلکر کے میں نے جرات و جسارت کی یا خلیفہ عمر نے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت با عظمت میں انتہائی درجے کی گستاخی کی کہ علاوہ وصیت سے روکنے، فتنہ و فساد پیدا کرنے اور بیماری کی حالت میں رسول اللہ(ص) کی ایسی بلند شخصیت کے سرہانے شور و ہنگامہ برپا کرنے کے منہ کے اوپر گالی بھی دی اور کہا کہ یہ شخص ہذیان یعنی پاگل پن کی باتیں بک رہا ہے( معاذ اللہ)؟

اس موقع کی مناسبت سے عرب کے ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے

وتبصرفيالعينمني‏ القذى‏وفيعينكالجذعلاتبصره‏

یعنی میری آنکھ کا تنکا تو ڈھونڈتے ہو اور اپنی آںکھ کا شہتیر تم کو نظر نہیں آتا ( مطلب یہ کہ آپ میرے چھوٹے چھوٹے عیوب کی تاک میں تو رہتے ہیں اور اعتراض کرتے ہیں لیکن اپنے بڑے بڑے عیب نہیں دیکھتے) آیا خدائے تعالی آیت نمبر40 سورہ نمبر33( احزاب) میں ارشاد نہیں فرماتا ہے کہ :

"ماكانَ‏ مُحَمَّدٌأَباأَحَدٍمِنْرِجالِكُمْوَلكِنْرَسُولَاللَّهِوَخاتَمَالنَّبِيِّينَ‏"

یعنی محمد(ص) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ اللہ کے رسول(ص) اور خاتم النبیین ہیں۔

اشارہ یہ ہے کہ آں حضرت(ص) کا ذکر ہمیشہ ادب اور احترام کے ساتھ کرنا چاہئیے اور رسول اللہ(ص) یا خاتم النبیین کہنا چاہئیے۔ یعنی آن حضرت(ص) کو نام لے کر نہ پکارو بلکہ رسول اللہ(ص) کہو۔

لیکن اس موقع پر عمر نے بغیر ادب اور فرمان الہی کا لحاظ کئے ہوئے نام کے ساتھ بھی نہیں بلکہ یہ شخص کہہ کے آں حضرت(ص) کی طرف اشارہ کیا۔

خدا کے لیے انصاف سے کہئے کہ گستاخی میں نے کی یا خلیفہ نے؟

شیخ : یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ ہجر کے معنی ہذیان کے ہیں جس سے بے ادبی اور جسارت کا شبہ کیا جائے؟

تعصب آدمی کو اندھا اور بہرا بنا دیتا ہے

خیر طلب : تمام اہل لغت و تفسیر اور بالخصوص آپ کے اکابرعلماء جیسے ابن اثیر جامع الاصول میں ابن حجر شرح صحیح بخاری میں اور صاحبان صحاح وغیرہ کہتے ہیں کہ ہجر ہذیان کے معنی میں ہے۔ محترم ! انسان کو تعصب وعناد کا لباس اتار دینا چاہئیے تاکہ حقائق بے نقاب ہو کر سامنے آئیں۔جس پیغمبر(ص) کے حق قرآن مجید ہدایتدے رہا ہے کہ ان کو رسول اللہ(ص) اور خاتم النبیین کہو اگر کوئی شخص ان الرجل لیہجرکہہ کے عمدا ان بزرگوار کی شان اس قدر گھٹائے کہ کہے یہ شخص ہذیان بک رہا ہے( معاذ اللہ) تو کیا اس نے ادب اور حکم قرآن کے خلاف بات نہیں کہی؟

اور جس رسول(ص)کی نبوت و عصمت تا دم مرگ زائل نہ ہوئی ہو بالخصوص اس موقع پر جب کہ قوم کی ہدایت اور تبلیغ کی منزل میں ہو

۸۴

اگر کوئی شخص اس کی طرف ہذیان گوئی کی نسبت دے تو کیا یہ اس کی عدم معرفت اور آں حضرت پر ایمان نہ لانے کی دلیل نہیں ہے؟

شیخ : آیا مقام خلافت کے مقابلہ میں ایسا الزام مناسب ہے کہ وہ معرفت اور مرتبہ رسالت پر ایمان نہرکھتے تھے؟

خیر طلب: اول جناب عالی نے جس وقت یہ سنا کہ رسول اللہ(ص) کی طرف ہذیان کی نسبت دی گئی تو کیوں متاثر نہیں ہوئے؟ حالانکہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ آںحضرت کو رو دررو دشنام دینے اور ہذیان سے منسوب کرنے والے سے بیزازی اختیار کرے۔ لیکن جس وقت ایک معمولی آدمی کے لیے جس کا زیادہ سے زیادہ درجہ یہ ہے کہ اصحاب رسول کی ایک فرد ہو افور بعد کو چند اشخاص کے بل پر مسند خلافت تک پہنچ گیا ہو، اس قسم کا اشارہ کیا گیا تو آپ کو نا گوار ہوا۔ در آنحالیکہ یہ خیالات صرف میرے ہی نہیں تھے بلکہ ہر صاحب علم اور معقول انسان ان واقعات کے سننے کے بعد فطری طور پر یہی سوچتا ہے کہ ایک مومن شخص کیا رسول اللہ(ص) کی طرف ایسی نسبت دے گا؟ لہذا ظاہر ہے کہ ایک خوش عقیدہ اور پاک نفس مسلمان کے جذبات کیا ہوں گے۔

علمائے عامہ کا اعتراف کہ لفظ ہذیان کہنے والے کو معرفتِ رسول(ص) نہ تھی

چنانچہ آپ کے منصف اور با فہم علماء جیسے قاضی عیاض شافعی نے کتاب شفاء میں، کرمانی نے شرح صحیح بخاری میں اور نودی نے شرح صحیح مسلم میں لکھا ہے کہ ایسی بات کہنے والا چاہے جو بھی تھا وہ قطعا رسول اللہ(ص) پر ایمان نہیں رکھتا تھا اور آں حضرت(ص) کی منزل اور مرتبے کو پہچاننے سے عاجز تھا، اس لیے کہ ارباب مذاہب کے نزدیک ثابت ہے کہ انبیاء عظام ارشاد و ہدایت خلق کی منزل میں عالم غیب سے اتصال رکھتے ہیں اور تندرستی کا زمانہ ہو یا بیماری کی حالت بہر حال ان کے احکام کی تعمیل واجب ہے پس آں حضرت(ص) کی مخالفت بالخصوص جسارت و دشنام اور کلمہ ہذیان کے ساتھ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کو رسول(ص) کی معرفت حاصل نہ تھی۔ انتہی کلامہم۔

پیغمبر(ص) کے روبرو اسلام کے اندر پہلا فتنہ

دوسرے آپ نے جو یہ فرمایا تھا کہ میں نے فتنہ اور نفاق پیدا کرنے کا الزام کیوں لگایا تو یہ بات بھی میری تنہا میری ہی جانب سے نہیں ہے بلکہ آپ کے انصاف پسند علماء نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔

عالم جلیل حسین میبذی شرح دیوان میں کہتے ہیں کہ پہلا فتنہ جو اسلام کے اندر برپا ہوا وہ مرض الموت میں خود رسول اللہ(ص) کے روبرو ہوا جب کہ آں حضرت(ص) نے وصیت کرنا چاہا اور عمر مانع ہوئے۔ نتیجہ کے طور پر مسلمانوں میں فتنہ، فساد فرقہ بندی اور مذہبی اختلاف پیدا ہوگیا۔

شہرستانی اپنی کتاب ملل و نحل کے مقدمہ چہارم میں کہتے ہیں کہ پہلی مخالفت جو اسلام کے اندر واقع ہوئی وہ رسول اللہ(ص) کے حکم سے وصیت لکھنے کے لیے دوات اور کاغذ لانے سے عمر کا منع کرنا تھا۔

۸۵

اورع ابن ابی الحدید نے بھی شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص563 میں اسی مقصد کی طرف اشارہ کیا ہے۔

شیخ : اگر خلیفہ عمر رضی اللہ نے یہ الفاظ کہے ہوں تو میں اس میں کوئی بے ادبی نہیں سمجھتا بلکہ ایسے امور انسان کے جسمانی عوارض میں سے ہیں۔ جس وقت کسی شخص پر مرض کا غلبہ ہوتا ہے تو وہ بے تک جملہ بولنے لگتا ہے جن کو ہذیان سے تعبیر کرتے ہیں اور جسم کے ان فطری کیفیات میں پیغمبر(ص) اور دوسرے لوگوں کے درمیان کوئی فرق نہ ہو گا۔

خیر طلب : آپ بخوبیجانتے ہیں کہ نبوت کی ایک خاص صفت عصمت بھی ہے جو نبی سے مرتے دمتک سلب نہیں ہوتی، خصوصا جب کہ ارشاد اور ہدایت خلق کی منزل میں ہو اور فرمائے کہ میں تمہارے لیے ایک تحریر لکھنا چاہتا ہوں تاکہ تم گمراہ نہ ہو۔

پس چونکہ آں حضرت(ص) مقام ارشاد و ہدایت میں تھے لہذا قطعا با عصمت اور حق سے متصل تھے۔ اگر آپ آیہ شریفہ "وَمايَنْطِقُ‏ عَنِ‏ الْهَوى‏ إِنْهُوَإِلَّاوَحْيٌيُوحى‏" و آیہ مبارکہ" وماأتاكم‏ الرسول‏ فخذوهومانهاكمعنهفانتهوا" اور آیت " أَطِيعُوااللَّهَ‏ وَأَطِيعُواالرَّسُولَوَأُولِيالْأَمْرِمِنْكُمْ‏" پیغمبر(ص) اپنی خواہش نفس سے نہیںبولتے بلکہ جو کچھ کہتے ہیں وہ صرف خدا کی وحی ہوتی ہے۔ اور تم کو رسول جس چیز کی ہدایت کریں اس کو اختیار کرو۔ اور اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول(ص) کی۔ کی طرف توجہ کریں تو خود ہی حقیقت آپ کے اوپر ظاہر ہوجائے گی اور معلوم ہوجائے گا کہ دوات اور کاغذ لانے سے روکنا اور آںحضرت(ص) کو امت کی ہدایت کے لیے وصیت نامہ لکھنے سے مانع ہونا در حقیقت خدا کی مخالفت تھی۔ طے شدہ چیز ہے کہ لفظ ہذیان کھلی ہوئی گالی تھی، پھر اس کے ساتھ رجل کہہ کے اشارہ کرنا اور بھی سخت توہین ہے۔

حضرات ! اںصاف سے بتائیے گا کہ اگر اس جلسہ میں سے کوئی شخص آپ کی طرف اشارہ کر کے کہے کہ یہ شخص ہذیان بکتا ہے تو آپ کو کیسا معلوم ہوگا؟ حالانکہ ہم اور آپ معصوم نہیں ہیں۔ ہذیان بھی بک سکتے ہیں۔ آیا آپ اس کلام کو ادب و احترام کی کوئی قسم سمجھیں گے یا بے ادبی توہین اور گستاخی؟

اگر یہ گفتگو ادب و احترام کے خلاف ہے تو ماننا پڑے گا کہ حضرت خاتم النبییین (ص) کی شان میں یہ اور زیادہ اہانت و جسارت ہے۔

اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ رسول خدا(ص) کی خدمت میں ایسی توہین آمیز بات کہنے والے سے بیزاری اختیار کرنا ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے۔ جب کہ خدائے تعالی نے قرآن مجید میں آں حضرت کو صاف طور سے رسول(ص) اور خاتم النبیین(ص) کہا ہے۔ اگر جانبداری اور تعصب کو الگ رکھئیے تو آپ کی عقل و حق شناسی ایسے شخص کے بارے میں کیا کہتی ہے جو آں حضرت(ص) کو رسول اللہ(ص) اور خاتم النبیین(ص) کہنے کے عوض کہے یہ شخص ہذیان بک رہا ہے۔

شیخ : فرض کیجئے کہ ہم غلطی کے قابل بھی ہوجائیں تو چونکہ یہ خلیفہ رسول(ص) تھے اور دین و شریعت کی حفاظت کے لیے اجتہاد کیا تھا لہذا قطعا بری الذمہ اور قابل درگزر ہیں۔

خیر طلب : اول تو آپ نے یہی بے محل بات کہی کہ چونکہ خلیفہ رسول(ص) تھے لہذا اجتہاد کیا، کیونکہ جس روز عمر نے یہ الفاظ کہے اس روز وہ

۸۶

خلیفہ تھے ہی نہیں بلکہ شاید خلافت کا خواب بھی نہ دیکھا ہوگا۔ وفات رسول(ص) کے بعد جیسا کہ آپ خود بہتر جانتے ہیں۔ ہنگامی طور پر چند لوگوں نے جلد بازی کر کے ابوبکر کو خلیفہ بنادیا اور بعد کو بھی جبر و تشدد، قتل و اہانت اور دروازےمیں آگ لگانے کے ذرائع سے دوسروں کو قابو میںلائے۔ پھر دو سال تین ماہ کے بعد اپنے مرنے کے وقت ابوبکر نے عمر کو خلافت کی گدی سونپ دی۔

دوسرے آپ کا فرمانا بھی بہت تعجب خیز ہے کہ اجتہاد کیا، کیا آپ نے اتنا بھی غور نہیں کیا کہ ںص اور صریحی حکم کے مقابلہ میں اجتہاد کی کوئی حقیقت ہی نہیں بلکہ یہ ایک ایسی خطا ہے جو معافی اور درگذر کے قابل نہیں۔

تیسرے آپ نے فرمایا ہے کہ دین و شریعت کی حفاظت کے لیے ایسا کیا آپ جیسے علماء سے ایسی غلط بات سن کر سخت حیرت ہوتی ہے کہ آپ کے عدل و اںصاف پر تعصب کس طرح سے غالب آگیا ہے۔

جناب محترم ! دین و شریعت کی حفااظت رسول خدا(ص) کے ذمے تھی یا عمر ابن خطاب کے ؟ آیا آپ کی عقل قبول کرتی ہے کہ رسول اللہ(ص) کو تو اس قید کے باوجود کہ اس تحریر کے بعد تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے ، یہ پتہ نہ ہو کہ امت کے لیے وصیت نامہ لکھنا دین و شریعت کے خلاف ہے لیکن عمر ابن خطاب کو معلوم ہو اور وہ حفاظت دین و شریعت کے لیے آںحضرت(ص) کو وصیت سے روک دیں؟"فَاعْتَبِرُواياأُولِي‏ الْأَبْصارِ"

آپ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ضروریات دین میں خطا کرنا بہت بڑا جرم ہے اور ہرگز اس سے عفو و چشم پوشی نہیں ہوسکتی۔

شیخ : اس میں کوئی شک نہیں کہ خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ نے دینکے حالات و کیفیات سے اندازہ لگایا تھا کہ اگر رسول خدا(ص) کوئی چیز لکھیں گے تو اختلاف پیدا ہوجائے گا اور فتنہ بر پا ہوگا لہذا از روئے خیر خواہی خود پیغمبر(ص) کے فائدے کے لیے دوات اور کاغذ نہیں لانے دیا۔

عذر گناہ بدتر از گناہ

خیر طلب: جو کچھ آپ نے فرمایا ہے، عذر گناہ بدتر از گناہ اسی کو کہتے ہیں مجھ کو یاد ہے کہ طالب العلمی کے زمانہ میں میرے ایک استاد جامع منقول و معقول فاضل قزوینی الحاج شیخ محمد علی تھے جو فرمایا کرتے تھے کہ اگر ایک غلطی کو نبھانے کی کوشش کی جائے تو ہوسکتا ہے کہ ایک کے بجائے سو غلطیان ہوجائیں۔ بعینہ مین اسی طرح دیکھ رہا ہوں کہ آپ خلیفہ کی طرف سے خواہ مخواہ جو دفاع کررہے ہیں وہ ایک خطا اور فاحش غلطی کو بہت سی غلطیوں کا مجموعہ بنا رہا ہے۔

آپ کی اس تقریر سے صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہ(ص) درجہ عصمت ( یعنی خطا سے محفوظ ہونے) اور عالم غیت سے اتصال کے باوجود امت کے ارشاد و ہدایت کے موقع پر خیر و اصلاح اور فتنہ و فساد کیطرف کوئی توجہ نہیں رکھتے تھے لہذا خلیفہ عمر نے آںحضرت(ص) کی خیر خواہی اور رہنمائی کی۔

۸۷

اگر آپ آیت نمبر36 سور نمبر33( احزاب) پر تھوڑا غور کیجئے جس میں ارشاد ہے:

"وَماكانَلِمُؤْمِنٍوَلامُؤْمِنَةٍإِذاقَضَىاللَّهُوَرَسُولُهُأَمْراًأَنْيَكُونَلَهُمُالْخِيَرَةُمِنْأَمْرِهِمْوَمَنْ‏ يَعْصِ‏ اللَّهَ‏وَرَسُولَهُفَقَدْضَلَّضَلالًامُبِيناً"

یعنی جب خدا و رسول(ص) کسی کام کا حکم دیں تو کسی مرد یا عورت کو اس میں اپنے ارادے اور اختیار سے کوئی دخل حاصل نہیں ( یعنی اپنے قول و فعل سے آں حضرت(ص) کو روکنے یا اختلاف رائے کا حق نہیں رکھتے) اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نا فرمانیکرے تو یقینا کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہوا۔

تو یقینا اپنے الفاظ واپس لیجئے گا اور خلیفہ عمر کے اس عمل کی حقیقت سمجھ میں آجائے گی کہ آں حضرت کے حکم سے سرتابی، وصیت سے روکنا اور لفظ ہذیان کے ذریعہ گستاخی کرنا انتہائی شنیع فعل تھا اور اس نے پیغمبر(ص) کو اتنا متاثر کیا کہ ان لوگوں کو اپنے پاس سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔

شیخ : خلیفہ کی نیک نیتی تو ان کے آخری جملے سے ظاہر ہے کہا "حسبنا کتاب اللہ" یعنی خداکی کتاب قرآن کریم ہمارے لیے کافی ہے ہم کو رسول خدا(ص) کے نوشتہ کی ضرورت نہیں ہے۔

خیر طلب: اتفاق سے خود یہی جملے ان کے عدم معرفت اور قرآن مجید پر توجہ نہ ہونے کی بہت بڑی دلیل ہے یا پھر عمدا رسول اللہ(ص) کو رنج پہنچانا اور اس عمل سے روکنا مقصود تھا جو ان لوگوں کے جذبات کےخلاف تھا کیوںکہ اگر قرآن مجید کی پوری معرفت ہوتی تو یہ بھی معلوم ہوتا کہ جملہ امور میں قرآن تنہا کفایت نہیں کرتا۔ اس لیے کہ یہ وہ یکتا کتاب محکم ہے جو مجمل اور مختصر ہے۔ اس نے کلیات احکام تو بیان کر دیے ہیں لیکن ان کے جزئیات کو شارح اور مفسر کی توضیح پر چھوڑ دیا ہے۔کیونکہ ممکن ہے کہ ایک معمولی انسان بغیر فیضان الہی اور بیان عالم ربانی کے اس جمل اور جامع قرآن سے پورا فائدہ اٹھا سکے؟ علاوہ ان باتوں کے اگر تنہا قرآن امت کے امور میں کافی ہوتا تو یہ آیت کیوں نازل ہوتی کہ

"وماأتاكم‏ الرسول‏ فخذوهومانهاكمعنهفانتهوا"

(یعنی رسول اللہ(ص) جس چیز کی ہدایت کریں اس کو اختیار کرو اور جس سے منع کریں اس سےباز رہو) نیز کیا آیت نمبر85 سورہ نمبر4(نساء) میں یہ ارشاد نہیں ہے:

"وَلَوْرَدُّوهُ‏ إِلَى‏ الرَّسُولِ وَإِلى‏ أُولِي الْأَمْرِمِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ‏"

یعنی اگر رسول(ص) اور صاحبان حکم و رسول کے بعد پیشوایان اسلام کی طرف رجوع کرتے تو یقینا جو اہل معرفت ہیں وہ صحیح تدبیر معلوم کر لیتے۔

پر ثابت ہوا کہ قرآن مجید تنہا مفید طلب نہیں ہے جب تک شارحین قرآن یعنی محمد و آل محمد صلواۃ اللہ علیہم اجمعین کی تفسیر بھی ساتھ ساتھ نہ ہو۔

چنانچہ فریقین کی متواتر حدیث میں ( جس کے چنداسناد گذشتہ شبوں میں پیش کرچکا ہوں)(1) وارد ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء نے بار بار یہاں تک کہ وفات کے وقت بھی فرمایا :

"إني‏ تارك‏ فيکم الثقلين كتاباللّهوعترتياهلبيتي لنيتفرّقاحتىيرداعليّالحوض أنتمسكتمبهما فقد نجوتملنتضلواابدا"

یعنی میں ( رسول خدا(ص)) تمہارے درمیان یقینا دو گرانقدر چیزیں چھوڑتا ہوں، اللہ کی کتاب اور میری عترت و اہل بیت، یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ ملاحظہ ہو اسی کتاب کا ص----

۸۸

کے کنارے میرے پاس پہنچ جائیں۔ اگر تم لوگ ان دوںوں سے تمسک رکھو گے تو ضرور نجات پائو گے اور کبھی ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔

صاحبان عقل کی فہم و فراست سے تعجب ہے کہ وہ اس پرغور کیوں نہیں کرتے کہ رسول اللہ(ص) تو ( جن کا ہر قول بحکم آیہ"وَمايَنْطِقُ‏ عَنِ‏ الْهَوى‏ إِنْهُ وَإِلَّاوَحْيٌ يُوحى‏" خدا کی طرفسے ہوتا ہے، ہدایت و نجات امت کے لیے تنہا قرآن کافی نہ سمجھیں اور اس کو اپنی عترت طاہرہ سے وابستہکرتے ہوئے صاف صاف فرمائیں کہ اگر دونوں ( یعنی قرآن و عترت) سے تمسک رکھو گے تب نجات پائو گے اور ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ لیکن خلیفہ عمر یہ کہیں کہ نہیں اکیلا قرآن ہی کافی ہے؟

اب ذرا آپ حضرات اںصاف سے کام لیں اور سچا فیصلہ کریں کہ ایک طرف تو خدا کے بھیجے ہوئے بر حق پیغمبر(ص) کا یہ ارشاد ہے کہ قرآن و اہل بیت(ع) دونوں سے تمسک کرو کیونکہ یہ دونوں تا قیامت ایک دوسرے سے وابستہ ایک دوسرے کی ںظیر اور ایک ساتھ ذریعہ ہدایت ہیں اورکا یہ قول کہ ہم کو صرف قرآن کافی ہے جس کا مطلب یہ کہ انہوں نے فقط عترت ہی کو نہیں ٹھکرایا بلکہ رسول اللہ(ص) کے حکم اور وصیت کو بھی قبول نہیں کیا۔

ایسی صورت میں ہم پر ان دونوں میں سے کس کی اطاعت واجب ہے؟ ہرگز کوئی عقلمند انسان یہ نہیں کہے گا کہ بارگاہ خداوندی سے الحاق رکھنے والے اللہ کے رسول(ص) کا فرمان چھوڑ کے عمر کی بات ماننا چاہئیے۔ تو پھر آپ نے کیوں عمر کا قول لے لیا اور آںحضرت(ص) کا قول پس پشت ڈال دیا؟ اگر فقط کتاب خدا کافی تھی تو آیت نمبر35 سورہ نمبر16 (نحل):"فَسْئَلُواأَهْلَ‏ الذِّكْرِإِنْكُنْتُمْ لاتَعْلَمُونَ‏" (یعنی اگر تم نہیں جانتے ہو تو اہل ذکر( یعنی اہل بیت رسول(ص) ہیں) سے دریافت کرو۔) میں ہم کو کیوں حکم دیا گیا ہے کہ اہل ذکر سے سوال کرو؟ ظاہر ہے کہ ذکر سے مراد قرآن یا رسول خدا(ص) ہیں اور اہل ذکر آںحضرت(ص) کی عترت اور اہل بیت ہیں۔

چنانچہ پچھلی راتون میں دلائل اور اسناد کے ساتھ عرض کرچکا ہوں کہ خود آپ کے بڑے بڑے علماء جیسے سیوطی وغیرہ نے درج کیا ہے کہ اہل ذکر سے رسول اللہ(ص) کے اہل بیت پاک (ع) مراد ہیں جو عدیل قرآن ہیں۔

آپ ہماری باتوں کو بدگمانی کی نگاہ سے نہ دیکھیں اور یہ نہ سمجھیں کہ صرف ہمیں ان چیزوں کی گرفت کرتے ہیں کیوں کہ آپ کے اکابر علماء بھی محل انصاف میں خلیفہ عمر کے اس قول پر مضحکہ کرتے ہیں۔

عمر کے قول پر قطب الدین شیرازی کا اعتراض

آپ کے اکابر علماء میں سے قطب الدین شافعی شیرازی کشف الغیوب میں کہتے ہیں یہ امر مسلم ہے کہ بغیر راہنما کے راستہ طے نہیں کیا جاسکتا ہم کو خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول پر تعجب ہے کہ چونکہ ہمارے درمیان قرآن موجود ہے لہذا ہم کو کسی رہنما کی احتیاج نہیں ہے یہ بات تو ایسی ہے کہ جیسے کوئی شخص کہے چونکہ ہمارے پاس طب کی کتابیں موجود ہیں لہذا ہم کو کسی طبیب کی ضرورت نہیں ---- کہ یہ بات ناقابل قبول اور بالکل غلط ہے اس لیے کہ جو شخص طبی کتابوں سے مطلب حل نہ کرسکے اس گو قطعی طور پر کسی ہوشیار طبیب کی طرف

۸۹

رجوع کرنا چاہئیے۔ یہی صورت قرآن کریم کی ہے کہ جو شخص اپنی عقل کے ذریعے اس سے پورا فائدہ نہ اٹھا سکے اس کو مجبورا ان ہستیوں کی طرف جھکنا پڑے گا جو عالم قرآن ہیں۔ چنانچہ قرآن میں ارشاد ہے :

"وَلَوْرَدُّوهُ‏ إِلَىالرَّسُولِوَإِلى‏ أُولِيالْأَمْرِمِنْهُمْلَعَلِمَهُالَّذِينَيَسْتَنْبِطُونَهُمِنْهُمْ‏"

یعنی اگر یہ لوگ رسول(ص) اور صاحبان امر( پیشوایان اسلام) کی طرف رجوع کرتے تو جو لوگ اہل معرفت ہیں وہ صحیح نتیجے تک پہنچ جاتے۔

آیت نمبر83 سورہ نمبر4(نساء) حقیقی کتاب تو اہل علم کے سینے ہیں جیسا کہ آیت نمبر48 سورہ نمبر29( عنکبوب) میں ارشاد ہے:"هُوَآياتٌ‏ بَيِّناتٌ‏ فِيصُدُورِالَّذِينَأُوتُواالْعِلْمَ‏" ( یعنی بلکہ یہ قرآن و روشن آیتیں ہیں جو ان لوگوں کے سینوں میں ہیں جن کو( من جانب خدا) علم خدا دیا گیا ہے) اسی وجہ سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ہے:"أَنَاكِتَابُ‏ اللَّهِ النَّاطِقُ هوالصَّامِتُ." ( یعنی میں خدا کی بولتی ہوئی کتاب ہوں اور یہ قرآن خاموش کتاب ہے۔ انتہی۔

پس خلیفہ کے کلام کے اول و آخر دونوں حصے نا قابل اعتبار اور علم و عمل اور اںصاف رکھنے والے کے نزدیک لائق نفرت ہیں لہذا آپ بھی تصدیق کیجئے کہ انہوں نے رسول اللہ(ص) پر بہت بڑا ظلم کیا جو وصیت نہیں لکھنے دی۔

ابوبکر کو مرتے دم وصیت لکھنے سے نہ روکنا

رہا آپ کا بار بار یہ فرمانا کہ لوگوں نے ابوبکر و عمر کو صیت کرنے سے نہیں روکا تو یہ درست ہے اور یہی چیز انتہائی حیرت اور تعجب کا باعث ہے جس کو آپ کے تمام مورخین و محدثین نے اپنی معتبر کتابوں میں درج کیا ہے کہ خلیفہ ابوبکر نے اپنے مرنے کے وقت عثمان ابن عفان سےکہا کہ جو کچھ میں کہتا ہوں اس کو لکھ کیوں کہ یہ لوگوں کی طرف میرا وصیت نامہ ہے۔ چنانچہ جو کچھ ابوبکر نے کہا انہوں نے لکھ لیا۔ خلیفہ عمر وغیرہ بھی موجود تھے لیکن کسی نے اس سے انکار نہیں کیا۔

بالخصوص عمر نے اس وقت یہ نہیں کہا " حسبنا کتاب اللہ" ہم کو ابوبکر کے وصیت نامے کی کوئی ضرورت نہیں اس لیے کہ قرآن ہمارے لیے کافی ہے۔ لیکن خاتم الانبیاء کو اسی بہانے سے کہ ہمارے لیے خدا کافی ہے وصیت نہ لکھنے دی۔"فَاعْتَبِرُواياأُولِي‏ الْأَبْصارِ"

اگر اس سازش کے آگےسرنیا زخم کرنے سے ہم کو اور کوئی دلیل مانع نہ ہو تو صرف یہی توہین و جسارت، رسول اکرم(ص) کو دشنام دینا اور اس وصیت سے منع کرنا جو امت کے لیے ہدایت اور ضلالت و گمراہی سے حفاظت کا ذریعہ بنتی، ہر عالم و عاقل اور نکتہ رس منصف کو یہ سمجھا دینے کےلیے کافی ہے کہ اس روز کی یہ کار روائی کسی دلیل و برہان کی بنیاد پر نہ تھی بلکہ محض دھاندلی، ہنگامہ سازی اور سیاسی چالا کی تھی۔

۹۰

مصیبت عظیم وقت آخر اہانت رسول(ص) اور ممانعت ہدایت

ابن عباس گریہ کرنے میں حق بجانب تھے بلکہ میں تو کہتا ہوں سارے مسلمانوں کو خون کے آنسوئوں سے رونا چاہئیے کو خاتم المرسلین کو اتنی مہلت بھی دی کہ وصیت کر کے امت کے لیے دستور العمل معین کر جائیں، اور زندگی کے آخری لمحون میں آںحضرت(ص) کو توہین و دشنام کے ذریعے تبلیغ رسالت کو عوض دیا۔ اگر وصیت کا موقع دے دیا ہوتا تو یقینا امر خلافت بالکل واضح ہوجاتا اور آں حضرت کے پچھلے ارشادات کی تائید ہوجاتی۔ لیکن سیاسی دائو پیچ جاننے والے بغاوت کر کے سد راہ بن گئے۔

شیخ : یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ آں حضرت(ص) خلافت کے بارے میں کچھ فرمانا چاہتے تھے؟

خیر طلب: اولا مطلب بالکل ظاہر ہے کہ وقت وفات تک دین کے احکام و قواعد میں سے کوئی چیز باقی ہی رہ گئی تھی کہ امت کی ہدایت کے لیے اس کی یاد دہانی ضروری ہوتی، کیونکہ آیت اکمال دین نازل ہوچکی تھی، البتہ خلافت کا معاملہ ایسا تھا آں حضرت(ص) نے تئیس سال کی مدت میں اس کے لیے جو کچھ فرمایا تھا چاہتے تھے کہ اس کی تائید میں مزید وضاحت فرمادیں، چنانچہ میں عرض کرچکا ہوں کہ امام غزالی نے سرالعالمین کے مقالہ چہارم میں نقل کیا ہے کہ آں حضرت(ص) نے فرمایا :

"ايتونى‏ بدوات‏ وبياضلاكتبلكمكتابالنتضلوابعدي لازيل عنکم اشکال الامر واذکر لکم من المستحق لها بعدی"

یعنی دوات و کاغذ لے آئو تاکہ تم سے امر خلافت کا اشکال دور کر دوں اور اپنے بعدکے لیے اس کے مستحق کی یاد دہانی کر جائو۔

پھر جملہ"لنتضلوابعدی" بھیثابت کرتا ہے کہ وصیت کا موضوع ہدایت امت تھا۔ اور طرق ہدایت میں سوا امر خلافت و امامت کے اور کسی چیز کی تاکید باقی نہ تھی۔ اس کے علاوہ ہم کو اصرار بھی نہیں ہے کہ آں حضرت(ص) خلافت و امامت کے لیے کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن اتنا تو قطعا چاہتے تھے کہ امت کی ہدایت و رہنمئی کے لیے کوئی تحریر دے دیں۔ تاکہ ضلالت و گمراہی نہ پھیلے تو پھر کیوں ممانعت کی؟ فرض کر لیا جائے کہ ممانعت ہی مناسب تھی تو کیا اس کے لیے فحش و دشنام اور اہانت بھی ضروری تھی؟

چشم باز و گوش باز وایں عمی حیرتم از چشم بندی خدا

فَاعْتَبِرُواياأُولِي‏الْأَبْصارِ

صاف فرمائیے گا سلسلہ کلام ذرا طولانی ہوگیا لیکن یہ میرے اختیار سے نہیں تھا بلکہ درد و دل کا ایک مختصر سا نمونہ تھا جو آپ کی توجہ کے لیے بے ساختہ زبان پر آگیا۔

پس ان مقدمات سے معلوم ہوگیا کہ علی علیہ السلام رسول خدا(ص) کے وصی تھے اور باوجودیکہ آن حضرت(ص) بارہا ہدایات جاری فرماچکے تھےلیکن آخری منزل پر تکمیل وصیت کے لیے چاہا کہ یہ حقائق تحریر کر کے امت کی ذمہ داری کو پختہ فرمادیں سیاسی بازیگر سمجھ رہے تھے لہ کیا لکھنا چاہتے ہیں لہذا شور و غوغا اور اہانت کر کے روک دیا۔

۹۱

اںحضرت(ص) نے اتمام حجت اور رفع شبہات کے لیے بعض احادیث میں خصوصیت کے ساتھ فرمایا ہے کہ جس خدا نے دیگر انبیائے کرام آدم(ع)، نوح(ع)، موسی(ع)، اور عیسی(ع) وغیرہ کے لیے وصی معین فرمائے اس نے میرے لیے بھی علی(ع) کو وصی قرار دیا۔

نیز فرمایا ہے کہ علی میرے اہل بیت اور میری امت میں میرے بعد میرے وصی ہیں۔ اور یہ خود ایک مضبوط دلیل ہے اس بات کی کہ وصایت اس مقام پر خلافت کے معنی میں ہے۔ لہذا علی وصی و خلیفہ رسول(ص) ہیں۔

شیخ : یہ اخبار اگر صحیح بھی ہوں تو متواتر نہیں ہیں لہذا آپ کیونکر ان سے سند لے رہے ہیں؟

خیر طلب : تواتر وصیت کا مسئلہ ہمارے نزدیک تو اہل بیت عترت و طہارت کے طریق سے جو عدیل قرآن ہیں ثابت و مسلم ہے۔ لیکن آپ کو یاد ہوگا میں نے پچھلی راتوں میں عرض کیا ہے کہ آپ کے علماء اپنے علمی بیانات میں خبر واحد کو بحث سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان اخبار میں اگر تواتر لفظی نہ ہو تو تواتر معنوی قطعا موجود ہے۔

ان بے شمار روایتوں سے ( جن کی پوری تفصیل سے اس وقت معذور ہوں کیونکہ اتنا وقت ہے نہ سب حافظے میں محفوظ ہیں لہذا موقع کے لحاظ سے ان میں سے بعض کو جو اس وقت یاد تھیں پیش کر دیا) معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی علیہ السلام کے لیے ایسی وصایت پر نص فرمائی ہے جس سے صاف صاف خلافت کے معنی نکلتے ہیں۔

اس کے علاوہ آپ جو تواتر کو اس قدر اہمیت دیتے ہیں اور جس وقت ہمارے مقابل کوئی حربہ ڈھونڈنا چاہتے ہیں یا جس مقام پر لا جواب ہوجاتے ہیں تواتر کی آڑ لینے لگتے ہیں۔ ذرا یہ فرمائیے کہ حدیث لا نورث کا تواتر کہاں سے ثابت کیجئے گا؟ در آنحالیکہ اس حدیث کے راوی بقول آپ کے ابوبکر یا اوس بن حدثانتھے اور چند معلوم الحال مطلبی اشخاص نے ہاں میں ہاں ملادی لیکن ہر زمانے میں کروڑوں موحد اور پاک نفس مسلمان اس حدیث کے منکر رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کے باب علم رسول علی علیہ السلام اور تمام عترت و اہل بیت پیغمبر(ص) کا انکار جو عدیل قرآن ہیں اس کے باطل ہونے پر ایک بہت بڑی دلیل ہے کیونکہ ان حضرات نے منطقی دلائل کے ساتھ اس کے غلط اور مصنوعی ہونے کو ثابت کیا ہے، جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جا چکا۔ اور ان ساری دلیلوں سے اہم خود ابوبکر کے سامنے صدیق و صدیقہ علی و فاطمہ علیہما السلام کی مخالفت اور انکار تھا۔ اس لیے کہ جس وقت رسول اللہ(ص) کا باب علم اور آں حضرت(ص) کے ارشاد کے مطابق اہل تقوی کا امام کسی حدیث کو جھٹلا دے تو قطعا یہ اس کے مصنوعی او جھوٹ ہونے پر کامل حجت ہوگی۔

اگر تمام انبیاء بالعموم اور خاتم الانبیء بالخصوص اپنا کوئی وارث نہیںرکھتے تھے تو وصی اور وارث کیونکر بنایا؟ جیساکہ عرض کر چکا ہوں کہ آں حضرت نے فرمایا " لکل نبی وصیووارث و ان علیا وصیی ووارثی" ( یعنی ہر پیغمبر کے لیے ایک وصی و وارث ہے اور یقینا علی میرے وصی اور وارث ہیں۔)اور ظاہر ہے کہ بغیر مال و جائداد کی میراث کے وصی اور وارث کے کوئی معنی نہیں۔ اگر آپ کہئے کہ مالی نہیں بلکہ علمی وراثت مراد ہے( حالانکہ عقلی و نقلی اور علمی دلائل و براہین سے ثابت ہے کہ مالی وراثت مراد تھی) تو میرا مطلب اور زیادہ ثابت ہوجاتا ہے کہ سب سے پہلے تو پیغمبر(ص) کے وارث منصب خلافت کے لیے اولی اور حقدار ہوگا تب کہیں ان لوگوں کا نام لیا جاسکتا ہے جو آں حضرت(ص) کے علم سے کورے تھے۔

۹۲

دوسرے یہ کہ یہ ثابت ہوجانے کے بعد کہ رسول خدا(ص) نے علی(ع) کو اپنا وصی اور وارث قرار دیا ہے بلکہ ان احادیث کے حکم سے جو آپ کے علماء نے نقل کئے ہیں( جن میں سے بعض کی طرف اشارہ بھی ہوچکا ہے) خدا ہی نے آپ کو اس درجے پر معین فرمایا ہے یہ کیونکر ممکن ہے ہے اس حدیث کو اپنے وصی اور وارث ( یا بقول آپ کے وارث علمی) سے تو نہ فرمایا ہوتا کہ بعد کو اختلاف نہ پیدا ہو لیکن اس شخص سے فرما دیا جو نہ وصی تھا نہوارث؟

شخت تعجبہے کہ جب دینی احکام میں علی علیہ السلام کوئی فیصلہ فرماتے تھے تو ابوبکر و عمر چونکہ خود ناواقف تھے لہذا آپ کے قول کو حجت سمجھ کے فورا تصدیق کرتے تھے کہ آپ کا فرمانا صیحی ہے اور اسی کے مطابق عمل کرتے تھے چنانچہ آپ کے علماء و مورخین نے ابوبکر عمر او عثمان کے زمانہ خلافت میں حضرت کے فیصلے نقل کئے ہیں۔ لیکن خاص طور سے اس موقع پر حضرت(ع) کے قول کو قبول نہیں کیا بلکہ ایسی رکیک مثالوں کےساتھ اہانت بھی کی کہ ہر عقلمند انسان ان کو نقل کرتے ہوئے شرم محسوس کرتا ہے۔

حافظ : سخت تعجب ہے کہ آپ فرماتے ہیں خلفاء رضی اللہ عنہم دینی احکام نہیں جانتے تھے اور علی کرم اللہ وجہہ ان کو یاد دلاتے تھے۔

خیر طلب : اس میںتعجب کی کوئی بات نہیں ہے اس لیے کہ سارے احکام و قواعد کا جاننا بہت مشکل کام ہے اور سوا اس کے جو پیغمبر(ص) یا باب علم ہو کسی معمولیانسان کے لیے اتنا مکمل علم ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ تنہا میں ہی اس عقیدے کا قائل نہیں ہوں بلکہ آپ کے اکابر علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں اس کو نقل کیا ہے۔ مطلب واضح کرنے کے لیے ایسے اتفاقات میں سے ایک نمونہ پیس کئے دیتا ہوں تاکہ نا واقف لوگوں کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ہم توہیں کے مقصد سے ایسا کہتے ہیں۔

چھ مہینے کا بچہ جننے والی عورت کے حق میں علی(ع) کا حکم

امام احمد بن حنبل مسند میں، امام الحرم احمد بن عبداللہ شافعی ذخائر العقبی می، ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں اور شیخ سلیمان حنفی ینابیع المودۃ باب56 میں احمد بن عبداللہ ، اور احمد بن حنبل، قلعی اور ابن سمان سے روایت کرتے ہیں:

"أنعمرأرادرجمامرأةالتی ولدت لستةأشهرفقاللهعليعليه السلام فیكتاباللهوَحَمْلُهُوَفِصالُهُثَلاثُونَشَهْراً ثمقالو فصاله فی عامين فالحمل ستةأشهرفترکها وقاللولاعلي‏ لهلك‏ عمر"

یعنی عمر نے ایک ایسی عورت کو سنگسار کرنا چاہا جس کے یہاں چھ مہینے کا بچہ پیدا ہوا تھا، تو علی علیہ السلام نے فرمایا خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ حمل و رضاعت سے دودھ بڑھائی تک تیس (30) مہینوں کی مدت ہے اور چونکہ دودھ چھڑا نے تک رضاعت کا زمانہ دو سال ہے لہذا حمل کا زمانہ چھ ماہ رہ جاتا ہے ( خلاصہ یہ کہ چھ ماہ میں ولادت

۹۳

ممکن ہے کیونکہ حمل کی کم سےکم مدت چھ ہی مہینے ہے) پس عمر نے اس عورت کو چھوڑ دیا اور کہا کہ علی(ع) نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوگیا ہوتا نیز اسی باب میں مناقب احمد بن حنبل سے نقل کرتے ہیں۔

"ان عمر بن الخطاب اذا اشکل عليه شئی اخذ من علی رضی الله عنه."

یعنی جس وقت عمر کو کوئی مشکل مرحلہ پیش آتا تھا( اور بات سمجھ میں نہیں آتی تھی) تو علی علیہ السلام سے تعلیم حاصل کرتے تھے۔

اس قسم کے قضیے ابوبکر، عمر اور عثمان کے دور خلافت میں کثرت سے پیش آئے کہ جب یہ لوگ مشکل میں پھنس جاتے تھے تو علی علیہ السلام اصلی حکم بتاتے تھے اور یہ بھی اس کو تسلیم کر کے عمل کرتے تھے۔

ابآپ حضرات غور کیجئے کہ آخر اس مقام پر علی علیہ السلام کی بات کیوں نہیں مانی بلکہ جسارت و اہانت شور و غل اور ہنگامہ آرائی کے ذریعے جناب فاطمہ مظلومہ صلوات اللہ علیہا کا بنیادی حق بھی چھینلیا؟ بات در اصل یہ ہے کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہوتے ہیں دکھانے کے اور

تیسری دلیل اس حدیث کے بطلان پر خود خلیفہ ابوبکر کا قول و فعل ہے کیونکہ اگر حدیث صحیح ہے تو جو کچھ رسول اللہ(ص) نے چھوڑا تھا، سب ضبط کر لینا چاہئیے تھا۔ وارثوں کو آں حضرت کی کسی چیز پر تصرف کا حق نہیں تھا لیکن ابوبکر نے حجرہ فاطمہ ان کو دے دیا، اور ازواج رسول عائشہ و حفصہ وغیرہ کے حجرے بھی میراث کے طور پر ان سب کے عطا کئے۔ یک بامو دو ہوا کی مثل اسی موقع کے لیے ہے ۔يومن ببعض و يکفر ببعض ۔

علاوہ ان چیزوں کے اگر یہ حدیث صحیح تھی اور اس پر ان کا ایمانتھا کہ یہ آل رسول(ص) ہے تو فدک کو ضبط کرنے کےبعد جو ( ان کے خیال میں) صدقہ مسلمین تھا، ابوبکر نے یہتحریر کیوں دی کہ میں نے فدک فاطمہ(ع) کو واپس دیا جس کے بعد عمر مانع ہوئے اور وہ سند لے کر چاک کر ڈالی؟

حافظ ؟ آپ کا یہ بیان انوکھا ہے میں نے تو نہیں سنا کہ خلیفہ نے فدک واپس کیا ہو۔ آخر اس مضمون کی سند کہاں سے ہے؟

ابوبکر کا فاطمہ(ع) کو فدک واپس کرنا اور عمر کا مانع ہونا

خیر طلب : غالبا آپ میرے اس اصول سے واقف ہوں گے کہ بغیر سند کے میں کوئی بات عرض نہیں کرتا۔ نیز میرا اندازہ ہے کہ آپ کے پاس مطالعہ کتب کا وقت بہت کم ہے۔ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں اور علی بن برہان الدین شافعی ، تاریخ سیرۃ اطلبیہ جلد سوم ص391 میں لکھتے ہیں کہ ابوبکر فاطمہ(ع) کی گفتگو سے متاثر ہو کر رونے لگے ( در اصل یہ واقعہ چند روز کے بعد ابوبکر کے مکان پر پیش آیا۔)

"فاستعيرو بکی و کتب لها برد فدک"

۹۴

یعنی حال فاطمہ(ع) پر گریہ کیا اور لکھ دیا کہ میںنے فدک فاطمہ(ع) کو واپس کیا، لیکن عمر نے وہ پروانہ لے کر پھاڑ ٰڈالا۔

تعجب یہ ہے کہ انہیں عمر نے جنہوں نے اس روز تحریر چاک کر ڈالی تھی اور فدک واپس کر نے پر اعتراض کیا تھا خود انے زمانہ خلافت میں اس کو واپس دیا اور اسی طرح بعد کے ( اموی اور عباسی) خلفا نے بھی فاطمہ سلام اللہ علیہا کے وارثوں کو فدک لوٹایا۔

حافظ : آپ کی اس تقریر تو بہت ہی تعجب ہے یہ کیونکر ممکن ہے کہ خلیفہ عمر جو بقول آپ کے فاطمہ(ع) کو فدک واپس دینے میں سختی سے مانع ہوئے تھے کیونکہ یہ صدقہ مسلمین تھا، یہاں تک کہ تحریر کو بھی پھاڑ کے پھینک دیا تھا خود ہی فاطمہ(ع) کے وارثوں کو اسے واپس کردیں؟

خیر طلب : تعجب ہونا بھی چاہئیے۔ ممکن ہے آپ نے نہ دیکھا ہو لہذا اب میں آپ کی اجازت سے ذکر اسناد کے ساتھ آپ کے اکابر علماء سے ان خلفاء کے حوالے نقل کرتا ہوں جنہوں نے واپس دیا اور واپس لیا، تاکہ تعجب نہ کریں اور سمجھ لیں کہ حق ہمارے ساتھ ہے۔

خلفاءکا اولاد فاطمہ(ع) کو فدک لوٹانا

مدینہ منورہ کے مشہور محدث و مورخ علامہ سمہودی متوفی سنہ911ھ تاریخ المدینہ میں اور یاقوت بن عبداللہ رومی حسمومی معجم البلدان میں نقل کرتے ہیں کہ ابوبکر نے اپنے زمانہ خلافت میں فدک پر تصرف کیا اور عمر نے اپنے دور خلافت میں علی علیہ السلام اور عباس کے حق میں واگزار کردیا۔ اگر ابوبکر نے رسول اللہ(ص) کے حکم سے مسلمانوں کا حق سمجھ کے فدک پر قبضہ کیا تھا تو عمر نے کس دلیل سے سارے مسلمانوں کی جائداد کسی ایک فرد کے سپرد کردی؟

شیخ : شاید اس نیت سے ایک مسلمان فرد کے حق میں واگزار کیا ہو کہ مسلمانوں ہی کے تصرف میں رہے۔

خیر طلب : آپ کی توضیح پر تو مدعی سست گواہ چست کی مثل صادق آتی ہے کیونکہ خود خلیفہ کا یہ مقصد نہیں تھا۔ اگر مسلمانوں کے خرچ کے لیے واپس کیا ہوتا توتاریخ میں اس کا تذکرہ ہونا چاہئیے تھا، حالانکہ آپ کے بڑے بڑے مورخین لکھتے ہیں کہ عمر نے علی علیہ السلام اور عباس کے حق میں واگزار کیا۔ اور علی علیہ السلام نے بھی میراث کے طور پر فدک کو قبول کیا تھا نہ کہ ایک مسلمان فرد کی حیثیت سے، ورنہ ایک مسلمان تمام مسلمانوں کے حق پر قابض و متصرف نہیں ہوسکتا ۔

شیخ : شاید عمر ابن عبدالعزیز مراد ہوں۔

عمر ابن عبدالعزیز کا فدک واپس کرنا

خیر طلب : ( مسکراتے ہوئے) علی علیہ السلام اور عباس عمر ابن عبدالعزیز اموی کے زمانے میں نہیں تھے۔ عمر ابن عبدالعزیز کا حکم اس کے علاوہ ہے،چنانچہ علامہ سمہودی تاریخ المدینہ میں اور ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص18 میں ابوبکر جوہری سے نقل کرتے ہیں کہ

۹۵

عوام عمر ابن عبدالعزیز کو خلافت حاصل ہوئی تو مدینے میں اپنے عامل کو لکھا کہ فدک اولاد فاطمہ کو واپس کر دو لہذا اس نے حسن ابن حسن مجتبی اوربعض کا قول ہے کہ حضرت کا قول ہے کہ حضرت علی بن الحسین علیہما السلام کو بلا کر ان کے پسرد کردیا۔

ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد چہارم مطبوعہ مصر کے ص81 سطر اول میں یہ عبارت لکھی ہے کہ کانت اول ظلامہ ردہا ( یعنی یہ وہ پہلی بجز وظلم چھنی ہوئی جائداد تھی جو عمر ابن عبدالعزیز نے اولاد فاطمہ(ع) کو دی، اور یہ ایک مدت تک ان حضرات کے تصرف میں رہی، یہاں تک کہ خلیفہ یزید ابن عبدالملک نے پھر اس کو غصب کر لیا اور اس پر بنی امیہ کا قبضہرہا۔ جب خلافت بنی عباس کا زمانہآیا تو پہلے عباسی خلیفہ عبداللہ سفاح نے اولاد امام حسن علیہ السلام کے سپرد کیا اور وہ حقوق وارثت کی صورت میں آمدنی کو بنی فاطمہ کے درمیان تقسیم کردیتے تھے۔

عبداللہ مہدی، اور مامون عباسی کا نسل فاطمہ(ع) کو فدک واپس دینا

جب اولاد امام حسن(ع) پر مںصور نے خروج کیا تو فدک ان سے چھین لیا، جب اس کا بیٹا مہدی خلیفہہوا تو ان کو لوٹا دیا، موسی بن ہادی خلیفہ ہوا تو اس نے پھر ضبط کر لیا، یہاں تک کہ مامون الرشید عباسی نے اپنی خلافت کے دور میں حکم دیا کہ اس کو اولاد علی اور بنی فاطمہ(ع) کے حق واگزار کر دیا جائے۔

یاقوت حمومی نے معجم البلدان طبع اول ذیل حرف" ف، و" میں مامون کے پروانے کی عبارت درج ہے کہ اس نے اپنے عامل قثم بن جعفر کو لکھا:

انه کان رسول الله صلی اللهعليه وسلم اعطی ابنته فاطمه رضی الله عنها فدک و تصدق عليها بها و ان ذالک کا امرا ظاهرا معروفا عند آلهعليه الصلوة والسلام"

یعنی بتحقیق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فدک اپنی بیٹی فاطمہ(ع) کو عطا فرما دیا تھا اور یہ امر آں حضرت کی اولاد کے نزدیک ظاہر اور معروف تھا۔

مشہور شاعر دعبل خزاعی بھی موجود تھے انہوں نے اٹھ کر کچھ اشعار پڑھے جن کا مطلع یہ تھا

اصبح وجه الزمان قد ضحکا برد مامون هاشم فدکا

یعنی آج زمانہ شاد و خنداں ہے کہ مامون نے بنی ہاشم کو فدک لوٹا دیا۔

۹۶

فدک کے عطیہ ہونے کا ثبوت

یہ قطعی دلیلوں سے ثابت ہوچکا ہے کہ فدک فاطمہ سلام اللہ علیہا کے پاس رسول(ص) کا عطیہ تھا جس کو روز اول ہی بغیر کسی شرعی جواز کے غصب کر لیا گیا، لہذا بعض خلفاء نے انصاف یا سیاست کی بنا پر اس کو ان مظلوم بی بی کی اولاد کی طرف پلٹا دیا۔

حافظ : اگرفدک فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بخش دیا گیا تھا تو انہوں نے وراثت کا دعوی کیوں کیا اور ہبہ کے بارے میں کوئی لفظ کیوں نہیں کیا؟

خیر طلب: پہلی مرتبہ بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا نے ہبہ ہی کا دعوی کیا لیکن جب شارع مقدس اسلام کی ہدایت کے خلاف قابض و متصرف سے گواہ طلب کئے گئے اور انہوں نے گواہ پیش کردئے تو شرع انور کے برخلاف ان شہادتوں کو رد کردیا گیا، لہذا آپ نے مجبورا وراثت کا راستہ اختیار کیا تاکہ احقاق حق ہوجائے۔

حافظ : میراخیال ہے کہ آپ کو دھوکا ہو رہا ہے اس لیے کہ کسی مقام پر یہ نہیں دیکھا گیا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ہبہ کے سلسلے میں ایک حرف بھی کہا ہو۔

خیر طلب: مجھ کو دھوکا نہیں ہوا بلکہ یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ فقط شیعہ میں نہیں بلکہ خود آپ کےاکابر علماء کی کتابوں میں بھی درج ہے چنانچہ سیرۃ الحلبیہ مولفہ علی بن برہان الدین حلبی شافعی متوفی سنہ1044ھ کے ص39 پر لکھا ہوا ہے کہ پہلے فاطمہ(ع) نے ابوبکر سے اس عنوان پر مناظرہ کیا کہ فدک پر ان کا مالکانہ قبضہ ہے اور رسول خدا(ص) نے ان کو عطا کردیا تھا، لیکن چونکہ شرعی گواہ نہیں مل سکے لہذا مجبورا وراثت کے قاعدے سے دعوی کیا پس وراثت کا دعوی ہبہ کےبعد تھا۔

نیز امام فخر الدین تفسیر کبیر ضمن ادعائے فاطمہ(ع) میں ، یاقوب حموی، معجم البلدان میں، ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص80 میں ابوبکر جوہری سے اور ابن حجر متعصب صواعق محرقہ میں آخر صہ21 میں شہبہ ہفتم از شبہات رفضہ کے ضمن میں کلام کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کا پہلا دعوی ہبہ کے متعلق تھا لیکن جب ان کی گواہیاں مسترد کردی گئیں تو رنجیدہ اور ناراض ہو کر فرمایا کہ اب میں آئیندہ تم سے بات نہیں کروں گی۔(1)

اور ہوا بھی یہی کہ پھر نہ ان لوگوں سے ملاقات کی نہ ان سے ہمکلام ہوئیں، یہاں تک کہ آپ کی وفات کا زمانہ آیا تو وصیت کردی کہ ان میں سے کوئی بھی میرے جنازے پر نماز نہ پڑھے۔ آپ کے چچا عباس نے نماز پڑھی اور رات کے وقت دفن کی گئیں۔

(لیکن پر بنائے روایات شیعہ و بیانات ائمہ عترت طاہر حضرت علی علیہ السلام نے جناب معصومہ پر نماز پڑھی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ یہاں تک ابن تیمیہ اور ابن قیم وغیرہ اکابر علمائے اہل سنت نے بھی اقرار کیا ہے کہ بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا نے دعوی کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فدک مجھ کو بخش دیا ہے۔

۹۷

مخالفین کا قول کہ ابوبکر نے آیہ شہادت پر عمل کیا اور اس کا جواب

حافظ : اس میں کوئی شک نہیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بہت دل تنگ اور رنجیدہ خاطر ہوئیں لیکن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بھی زیادہ قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ اس لیے کہ وہ بھی شرع کی ظاہری صورت پر عمل کرنے کے لیے مجبور تھے۔ چونکہ آیت شہادت کا عام حکم ہے کہ مدعی کو اپنے ثبوت میں دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں یا چار عورتیں جو دو مردوں کے برابر ہیں گواہی میں پیش کرنا چاہئیے اور یہاں گواہوں کی تعداد مکمل نہیں ہوسکی لہذا وہ بھی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے موافق کوئی قطعی فیصلہ نہیں دے سکے۔

خیر طلب: ممکن ہے اس مقام پر سلسلہ کلام طولانی ہوجائے اور حضرات حاضرین جلسہ کے لیے باعث زحمت ہو لہذا آگر آپ بھی مناسب سمجھیں تو بہتر ہوگا کہ بقیہ گفتگو کل شب کے لیے اٹھا رکھی جائے؟

نواب : قبلہ صاحب! ہمارے درمیان ایک اہم موضوع یہ بھی زیر بحث تھا اور ہم اس کی حقیقت معلوم کرنے کے از حد مشتاق ہیں، حسن اتفاق سے آج یہ مسئلہ معرض تحقیق میں آگیا ہے لہذا التجا ہے کہ اگر آپ خستگی اور تکان محسوس نہ کر رہے ہوں تو مطلب ادھورا نہ چھوڑئیے کیونکہ بات کٹ جانے سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔یہ گفتگو اگر صبح تک طول کھینچے تب بھی ہم سامعین کی جانب سے کوئی عذر نہیں بلکہ سب اتنہائی شوق و ذوق سے سننے کے لیے تیار ہیں، اور جب تک یہ قضیہ حل نہ ہوجائے یہاں سے واپس نہ جائیں گے۔ آپ پوری وضاحت کےساتھ تقریر فرمائیں۔ البتہ اگر آپ ہی تھک گئے ہوں تو ایسی صورت میں ہم تکلیف نہ دیں گے۔

خیر طلب: مجھ کو علمی اور دینی مباحث میں کبھی زحمت یا خستگی نہیں ہوتی، میں تو صرف آپ حضرات کا خیال کررہا ہوں کیونکہ سبھی کی رعایت ملحوظ رکھنا چاہئیے۔

( سارے اہل جلسہ نے یک زبان ہو کر کہا کہ آپ کے بیانات باعثِ زحمت نہیں ہیں، خصوصا فدک کے موضوع پر جو بہت اہم اور قابل سماعت ہے اور ہم سب اس کے لیے بے چین ہیں۔)

خیر طلب: حافظ صاحب نے فرمایا ہے کہ خلیفہ شرعی قانون پر عمل کرنے کے لیے مجبور تھے۔ چونکہ گواہ پورے نہیں تھے اس لیے حکم صادر نہیں ہوا۔ اس مقام پر چند جملے عرض کرنا ضروری ہیں۔ آپ حضرات انصاف سے فیصلہ کریں۔

قابض و متصرف سے گواہ مانگنا خلافِ شرع تھا

اولا بقول آپ کے حضرات ابوبکر قانون شرع سے مجبور تھے تو یہ فرمائیے کہ شرع میں یہ حکم کہاں پر ہے کہ قبضہ وار سے گواہ طلب کئے جائیں؟ بالاتفاق ثابت ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا قابض و متصرف تھیں لہذا ابوبکر کا یہ عمل جس کو آپ کے

۹۸

تمام علماء نے لکھا ہے کہ ان مظومہ بی بی سے گواہ طلب کئے آخر دین و شریعت کے کس قانون کے مطابق تھا؟ کیا شریعت کا دستور یہ نہیں ہے کہ گواہ مدعی کو پیش کرنا چاہئیے متصرف کو نہیں؟ آیا یہ طریقہ انور کے خلاف تھا یا نہیں؟ ذرا انصاف سے فیصلہ کیجئے۔

ثانیا آیہ شہادت کی عمومیت سے کسی کا انکار نہیں ہے، اس کی عمومیت اپنی جگہ پر باقی ہے لیکن بمقتضائے قاعدہ مسلمہ ما من عام الا و قد خص ، یعنی ہر عام کا ایک خاص ہوتا ہے 12 مترجم) قابل استثناء اور تخصیص کی حامل ضرور ہے۔

حافظ : آپ کس دلیل سے کہتے ہیں کہ آیہ شہادت تخصیص کی حامل ہے؟

خزیمہ ذوالشہادتین

خیر طلب : اس مقصد کی دلیل وہ روایت ہے جو آپ کی معتبر صحاح کے اندر بھی نقل ہوئی ہے کہ جس وقت خزیمہ ابن ثابت نے گھوڑے کی فروخت کے معاملے میں ایک عرب کے مقابل جس نے رسول اللہ(ص) کے خلاف دعوی کیا تھا آں حضرت(ص) کے موافق شہادت دی تو تنہا انہیں کی گواہی کافی سمجھی گئی اور پیغمبر(ص) نے ان کا لقب ذوالشہادتین مقرر فرمایا کیونکہ ان کی ایک شہادت دو عادل گواہوں کے برابر قرار دی گئی پس معلوم ہوا کہ آیہ شہادت کی تخصیص موجود ہے۔ جہاں پر امت کی ایک مومن اور صحابی ذوخزیمہ آیت کے مخصص بن جائیں وہاں علی(ع) و فاطمہ علیہما السلامجو نبض آیہ تطہیر درجہ عصمت پر فائز ہیں بدرجہ اولی مستثنی ہوں گے۔ معصوم و معصومہ اور صدیق و صدیقہ قطعا کذب و دروغ سے مبرا ہیں اور ان کی تردید یقینا خدا کی تردید ہے۔

فاطمہ(ع) کے گواہوں کی تردید

صدیقہ طاہرہ جناب فاطمہ(ع) نے دعوی کیا کہ فدک میرا نحلہ ہے اور میرے باپ نے مجھ کو بخش دیا تھا اور میں خود آں حضرت(ص) کی حیات ہی میں اس پر متصرف تھی۔ اس دستور شرع کے خلاف جناب معصومہ سےگواہ مانگے گئے۔ آپ نے امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام، ام ایمن اور حسنین علیہا السلام کو شہادت میں پیش کیا لیکن ان کو رد کردیا گیا۔ آیا یہ عمل حقیقت اور قواعد شرع کے بر خلاف نہیں تھا اگر فاطمہ کے پاس سوا قبضے کے اور کوئی گواہ نہ ہوتا تب بھی قانون شریعت کے مطابق آپ کی حقانیت کے لیے کافی تھا۔ علاوہ اس کے کہ خدائے تعالی نے آیہ تطہیر میں ان معظمہ کی پاکیزگی کی شہادت دی ہے کہ آپ ہر رجس اور گندگی سے مبرا ہیں جس میں جھوٹ بولنا اور غلط ادعا کرنا بھی شامل ہے۔ بالخصوص ایسی صورت میں کہ امیرالمومنین علی علیہ السلام جیسے کامل گواہ نے ان طاہرہ بی بی کی صداقت پر شہادت دی، جن کی گواہی کو جھٹلانا قطعا خدا کو جھٹلانا ہے، کیونکہ خدائے اعلی نے علی علیہ السلام کو آیات قرآنی میں صادق و صدیق فرمایا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ جس کی تصدیق خدا کرے اس کی بات کو رد کرنے کی جرائت کیونکہ ہوئی؟ حالانکہ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ

۹۹

علی کے ساتھ رہو یعنی ان کی پیروی کرو، اور جیسے زید" عدل" اپنی اتنہائی سچائی کی وجہ سے مجسمہ صدق بن گئے تھے آپ کو بھی صادق فرمایا چنانچہ آیت نمبر120 سورہ نمبر9(توبہ) میں ارشاد ہے۔

"ياأَيُّهَاالَّذِينَآمَنُوااتَّقُوااللَّهَوَكُونُوامَعَ‏ الصَّادِقِينَ‏"

یعنی اے مومنین خدا سے ڈرو اور سچوں کے( جن سے محمدج(ص) و علی(ع) اور اہل رسولی مراد ہیں، ساتھ رہو۔

جیسا کہ اسی کتاب کے ص؟؟؟؟ میں اشارہ ہوچکا ہے۔

حافظ : یہ آیت آپ کے مقصد پر کیونکر دلالت کرتی ہے جس سے علی کرم اللہ وجہہ کی پیروی فرض ہوجائے؟

صادقین سے محمد(ص) و علی(ع) مراد ہیں

خیر طلب : آپ کے اکابر علماء اپنی کتابوں اور تفسیروں میں کہتے ہیں کہ یہ آیت محمد و علی علیہما الصلوۃ والسلام کی شان میں نازل ہوئی ہے کہ صادقین سے یہی دونوں بزرگوار اور بعض اخبار کی بنا پر علی علیہ السلام مراد ہیں، نیز دوسری بعض روایتوں میں ہے کہ عترت رسول(ص) مراد ہے۔

امام ثعلبی تفسیر کشف البیان میں، جلال الدین سیوطی درالمنثور میں ابن عباس سے، حافظ ابوسعید عبدالملک بن محمد خرگوشی کتاب شرف المصطفے میں اصمعی سے اور حافظ ابو نعیم اصفہانی حلیتہ الاولیاء میں روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم نے فرمایا " ہو محمد و علی علیہا السلام " ( یعنی یہ صادق محمد و علی علیہما السلام ہیں 12 مترجم)

شیخ سلمان حنفی ینابیع المودۃ باب 29 ص119 مطبوعہ اسلام بول میں موفق بن احمد خوارزمی۔ حافظ ابونعیم اصفہانی اور حموینی سے بروایت ابن عباس نقل کرتے ہیں کہ

" الصادقون فی هذه الايةمحمد صلی الله عليه و سلم و اهلبيته"

یعنی اس آیت میں صادقین محمد صلی اللہ علیہ و آلہ اور ان کے اہل بیت طاہرین ہیں۔

اور شیخ الاسلام ابراہیم بن محمد حموینی جو آپ کے اجلہ علماء میں سے ہیں فرائد السمطین میں، محمد بن یوسف گنجی کفایت الطالب باب 62 میں، نیز محدث شام اپنی تاریخ میں سند کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ:

"مع الصادقين ای مع علی ابن ابی طالب " (یعنی صادقین کے ساتھ یعنی علی ابن ابی طالب کے ساتھ12 مترجم)

(2) آیت نمبر34 سورہ نمبر39 ( زمر) میں فرماتا ہے۔

"وَالَّذِيجاءَبِالصِّدْقِ‏وَصَدَّقَبِهِأُولئِكَهُمُالْمُتَّقُونَ."

یعنی جو شخص سچی بات لے کر آیا ( پیغمبر(ص)) اور جس نے اس کی تصدیق کی( علی ابن ابی طالب)

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

* سوید خثعمی و بشر حضرمی

* الحملة الثالثہ (تیسرا حملہ)

* اصحاب حسین کے حملے اور نبرد آزمائی

* الحملة الرابعہ (چوتھا حملہ)

* نماز *ہر کی آمادگی

* حبیب بن م*اہر کی شہادت

* حر بن یزید ریاحی کی شہادت

* نماز *ہر

* زہیر بن قین کی شہادت

۳۲۱

آغاز جنگ

پہلا تیر

جب بات یہاں تک پہنچی توعمر بن سعد حسینی سپاہ کی طرف حملہ آورہوا اور آواز دی : اے زوید١(١) پرچم کو اور نزدیک لاؤ تو وہ پرچم کو بالکل قریب لے کر آیا اس وقت عمر بن سعد نے چلہ کمان میں تیر کو جوڑا اور حسینی لشکر کی طرف پھینکتے ہوئے بولا :'' أشھدوا أن أؤّل من رمیٰ ''(٢) تم سب گواہ رہنا کہ سب سے پہلا تیر جس نے پھینکا ہے وہ میں ہوں ۔

جب نزدیک ہوکر پہلاتیر عمر سعد نے پھینکا تو سارے اموی لشکر نے تیر وں کی بارش کردی۔ اس کے بعد زیاد بن ابو سفیان کا غلام یسار اور عبیداللہ بن زیاد کا غلام سالم دونوں میدان جنگ میں آئے اور مبارز طلبی کرتے ہوئے بولے : کوئی ہم رزم ہے جو تم میں سے ہمارے سامنے آئے ؟ یہ سن کر حبیب بن مظاہر اور بریر بن حضیر اٹھے تاکہ اس کا جواب دیں لیکن دونوں سے امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: ''اجلسا'' تم دونوں بیٹھ جاؤ ! اس کے بعد عبداللہ بن عمیرکلبی(٣) اٹھے اور عرض کیا : اے ابو عبداللہ !خدا

____________________

١۔ شیخ مفید نے ارشاد میں '' درید '' لکھاہے، ص٢٣٣و ٢٣٦ ،طبع نجف

٢۔ صقعب بن زہیر اور سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم سے یہ روایت نقل کی ہے۔(طبری، ج٥،ص ٤٢٩ ، ارشاد ، ص ٢٣٦)

٣۔ آپ کوفہ کے رہنے والے تھے۔ قبیلہ ہمدان کے چاہ جعد (جعد کا کنوا ں) میں ان کا گھر تھا۔ ایک دن آپ نے دیکھا کہ عبیداللہ کی طرف سے فوج نخیلہ میں جمع ہے اور حسین علیہ السلام کی طرف روانہ ہورہی ہے۔آپ نے ان لوگو ں سے سوال کیا توجواب دیا گیا کہ یہ لوگ دختر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاطمہ کے فرزند حسین سے جنگ کے لئے جارہے ہیں ۔اس پر عبداللہ بن عمیر کلبی نے کہا میں تو اہل شرک سے جہاد پر حریص تھا لیکن اب میں یہ امید کرتا ہو ں کہ ان لوگو ں سے جہاد کرنا جو اپنے نبی کے نواسے سے جنگ کررہے ہیں خدا کے نزدیک مشرکین سے جہاد کرنے سے کم نہ ہوگا۔ آپ کی زوجہ ام وھب بھی آپ کے ہمراہ تھی ں ۔ آپ ان کے پاس گئے اورساری روداد سنادی اور اپنے ارادہ سے بھی انھی ں آگاہ کردیا ۔سب کچھ سن کر اس نیک سرشت خاتون نے کہا: تمہاری فکر صحیح ہے، خدا تمہاری فکر کو سالم رکھے اور تمہارے امور کو رشد عطا کرے؛ یہ کام ضرور انجام دو اور مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو۔ عبدا للہ راتو ں رات اپنی بیوی کے ہمراہ نکل گئے اور امام حسین علیہ السلام سے ملحق ہوگئے ۔

۳۲۲

آپ پر رحمت نازل کرے ! کیا مجھے اجازت ہے کہ میں ان دونوں کے مقابلہ پر جاؤں ؟ تو امام حسین نے اس جوان کی طرف دیکھا ،وہ ایک طویل القامت ، قوی کلائیوں اور مضبوط بازؤں والا جوان تھا۔ آپ نے فرمایا :''ان لا حسبه للأ قران قتالا! اخرج ان شئت ' 'میں سمجھتا ہوں کہ یہ دونوں کے مقابلہ میں برابر کا جنگجو ثابت ہوگا، اگر تم چاہتے ہو تو جاؤ! یہ سن کر وہ جوان ان دونوں کے سامنے آیا تو ان دونوں نے کہا : تو کون ہے ؟ تو اس جوان مرد نے اپنا حسب و نسب بتادیا۔ اس پر وہ دونوں غلام بولے : ہم تم کو نہیں پہچانتے ہیں ۔ہمارے مقابلے میں تو زہیر بن قین یا حبیب بن مظاہر یا بریر بن حضیر کو آنا چاہیے ۔

زیاد کا غلام یسار ، عبیداللہ بن زیاد کے غلام سالم کے آگے آمادہ جنگ تھا ۔ کلبی نے یسار کو مخاطب کر کے کہا : اے زنا کار عورت کے بچے ، تیری خواہش ہے کہ کوئی اور تیرے مقابلہ پر آئے۔ تیرے مقابلہ پر کوئی نہیں آئے گا مگر جو بھی آئے گا وہ تجھ سے بہتر ہو گا۔ اس کے بعداس پر سخت حملہ کیا اور تلوار کا ایک وار کر کے اسے زمین پر گرا دیا ۔ابھی آپ اپنی تلوار سے اس پر حملہ میں مشغول تھے کہ عبیداللہ کا غلام سالم آپ پر ٹوٹ پڑا ۔ ادھر سے اصحاب امام حسین علیہ السلام نے آواز دی : وہ غلام تم پر حملہ کررہا ہے لیکن عبداللہ نے اس کے حملہ کو اہمیت نہ دی یہاں تک کہ اس نے آپ پر تلوار سے حملہ کردیا؛ کلبی نے اپنے بائیں ہاتھ کو سپر بنایا جس سے آپ کے بائیں ہاتھ کی انگلیاں کٹ گئیں لیکن کلبی زخم کی پرواہ کئے بغیر اس کی طرف مڑے اور اس پر ایسی ضرب لگائی کہ اسے قتل کردیا ۔ ان دونوں کو قتل کرنے کے بعد کلبی رجز خوانی کرتے ہوئے مبارزہ طلبی کر رہے تھے ۔

ان تنکرون فأ نا بن کلب

حسب بیت فی علیم حسبی

ان امرؤ ذومرة وعصب

و لست با لخوّار عند النکب

انزعیم لک أم وهب

با لطعن فیهم مقدماً والضرب

اگر تم مجھے نہیں پہچانتے ہو تو پہچان لو کہ قبیلہ کلب کا فرزند ہوں ، میرا آگاہ اور بیناخاندان میرے لئے کافی ہے، میں بڑا طاقتور اور سخت جاں مرد ہوں ، میدان کارزار میں ناگوار واقعات مجھے متزلزل نہیں کرسکتے، اے ام وھب میں تمہیں وعدہ دیتا ہوں کہ میں ان پر بڑھ بڑ ھ کر حملہ کروں گااور ان کوماروں گا وہ بھی ایسی ضرب لگاؤں گا جو ایک یکتا پرست اور موحد کی ضرب میں اثر ہوتا ہے۔

۳۲۳

یہ سن کر عبداللہ کی زوجہ ام وھب نے عمود خیمہ اٹھایا اور اپنے شوہر کا رخ کرکے آگے بڑھی اور یہ کہے جارہی تھی'' فداک أبی وأمی'' میرے ماں باپ تم پر قربان ہو ں ، تم محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پاک و پاکیزہ ذریت کی طرف سے دفاع میں خوب جنگ کرو ،اس کے بعد عبد اللہ اپنی زوجہ کو مخدرات کی طرف پلٹا نے لگے ،تو اس نے عبداللہ کے کپڑے پکڑ لئے اورکھینچتے ہوئے بولی : میں جب تک کہ تمہارے ساتھ مرنہ جاؤں تمہیں نہیں چھوڑوں گی ،یہ صورت حال دیکھ کر امام حسین علیہ السلام نے اسے پکارا اور فرمایا :''جزیتم من أهل بیت خیراً، ارجع رحمک اللّٰه الی النساء فاجلس معهن فانه لیس علی النساء قتال '' خدا تم لوگوں کو جزائے خیر دے ،اللہ تم پر رحمتوں کی بارش کرے، خواتین کی طرف پلٹ آؤ اور انھیں کے ہمراہ بیٹھو کیونکہ خواتین پر جہاد نہیں ہے ۔

الحملة الا ولی (پہلا حملہ)

اس کے بعداموی لشکر کے میمنہ کے سردار عمروبن حجاج نے لشکر حسینی کے داہنے محاذپر حملہ شروع کر دیا ۔جب یہ لشکر امام حسین علیہ السلام کے سپاہیوں کے نزدیک آیا تو وہ سب کے سب اپنے زانو پر بیٹھ کر دفاع میں مشغول ہو گئے اور نیزوں کو ان کی طرف سیدھا کر کے انھیں نشانہ پر لے لیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ لشکر نیزوں کے سامنے ٹھہر نہ سکا اور واپس لوٹنے لگا۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر حسینی سپاہ نے ان پر تیر چلانا شروع کیا، جس کے نتیجے میں ان میں سے بعض ہلاک ہوئے تو بعض دیگر زخمی۔(١)

کرامت وہدایت

اسی اثنا ء میں قبیلہء بنی تمیم کا ایک شخص جسے عبد اللہ بن حوزہ کہا جاتا ہے سامنے آیا اور امام حسین علیہ السلام کے بالمقابل کھڑا ہو کر بولا : اے حسین ! اے حسین ! تو امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : ''ماتشاء ؟'' تو کیا چاہتا ہے ؟

____________________

١۔ابو مخنف نے بیان کیا ہے کہ ابو جناب نے مجھ سے یہ روایت نقل کی ہے(طبری، ج٥ ، ص٤٢٩ ،الارشاد ، ص ٢٣٦ ،نجف)

۳۲۴

عبد اللہ بن حوزہ نے کہا : ''أبشر بالنار'' تمہیں جہنم کی بشارت ہو، امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : '' کلا ّ ، ان أقدم علی ربّ رحیم وشفیع مطاع، من ھٰذا؟'' نہیں ایسا نہیں ہے، میں اپنے مہربان ورحیم رب کی طرف گا مزن ہوں ، وہی شفیع اور قابل اطاعت ہے پھر امام نے سوال کیا:یہ کون ہے ؟

آپ کے اصحاب نے جواب دیا : یہ ابن حوزہ ہے۔

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :''ربّ حزه الی النار ! ''خدا یا! اسے جہنم کی آگ میں ڈال دے ۔

امام علیہ السلام کی بد دعا کا اثر یہ ہو اکہ ناگا ہ اس کا گھوڑا ایک گڑھے کے پاس بدکا اور وہ گڑھے میں جا گر الیکن اس کا پیر رکاب میں پھنسا رہ گیا اور اس کا سر زمین پر آگیا۔اسی حالت میں گھوڑے نے دوڑنا شروع کیا اور وہ جدھر سے گزرتا تھا زمین کے ہر پتھر اور درخت سے اس کا سر ٹکراتا تھا۔یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ وہ مر گیا ۔(١)

اس سلسلے میں مسروق بن وائل کا بیان ہے : میں اس لشکر کے آگے آگے تھا جو حملہ کے لئے حسین کی طرف آگے بڑھا تھا۔ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ میں لشکر کے بالکل آگے رہوں گا تا کہ جب حسین قتل کر دیئے جا ئیں تو ان کا سر میرے ہاتھ لگے اور وہ سر میں عبید اللہ بن زیاد کی خدمت میں لے جا کر کسی خاص مقام و منزلت پر فائز ہو جاؤں ۔ جب ہم لوگ حسین تک پہنچے تو ہما ری فوج کا ایک شخص جسے ابن حوزہ کہتے ہیں وہ سامنے آیا اور بولا : کیا حسین تمہا رے درمیان موجود ہیں ؟ تو حسین(علیہ السلام) خاموش رہے ۔ اس نے اپنی بات کو دھرایا یہاں تک جب تیسری بار اس نے تکرار کی تو حسین (علیہ السلام) نے فرمایا :''قولوا له : نعم هٰذا الحسین فما حاجتک '' اس سے کہو : ہاں یہ حسین ہیں ، تم کیا چاہتے ہو؟

ابن حوزہ نے کہا : اے حسین !تم کو جہنم کی بشارت ہو!

امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا :''کذبت،بل أقدم علی ربّ غفور وشفیع مطاع، فمن أنت ؟'' تو جھوٹ بولتا ہے، میں تو اپنے پالنے والے اور بخشنے والے، شفیع اور قابل اطاعت مالک کی طرف گا مزن ہوں ، تو کون ہے ؟

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے ابو جعفر حسین نے یہ روایت نقل کی ہے(طبری ،ج٥ ،ص ٤٣٠)

۳۲۵

اس نے کہا : میں ابن حوزہ ہوں ۔

یہ سن کر حسین نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اتنے بلند کئے کہ کپڑے کے اوپر سے ہم نے بغل کی سفیدی دیکھ لی پھر کہا : اللّٰھم حزہ الیٰ النار ! خدا یا! اسے جہنم کی آگ میں ڈال دے ،یہ سن کر وہ غصہ میں آگیا اور وہ نہر جو اس کے اور حسین کے درمیان تھی اسے پار کرکے ان پر حملہ کر نا چاہا تو گھوڑے کے چھلا نگ لگا تے ہی وہ نیچے گر پڑالیکن اس کا پیر رکاب میں پھنس گیا اور گھوڑے نے تیز دوڑنا شروع کر دیا، جس کی وجہ سے وہ نیچے گر گیا اور اس کے قدم ، پنڈلی تک کٹ کر گر گئے اور پیر کا بقیہ حصہ اسی رکاب میں پھنسا رہ گیا ۔

عبد الجباربن وائل حضر می کا بیان ہے : یہ صورت حال دیکھ کر مسروق لوٹ گیا اور لشکر کو اپنے پیچھے چھوڑ دیا تو میں نے اس سے اس کا سبب پوچھا تو وہ بولا :''لقد رأیتُ من أهل هٰذا البیت شیئاًلا أقا تلهم أبداً ''(١) میں نے اس گھر انے سے ایسی چیز دیکھی ہے جس کے بعد میں ان سے کبھی بھی جنگ نہیں کر سکتا ۔

بر یر کا مباہلہ اور ان کی شہادت

یزید بن معقل ، عمر بن سعد کے لشکر سے نکلا اور بولا : اے بریر بن حضیر !(٢) تم نے دیکھا کہ اللہ نے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ تو بریر نے جواب دیا :خدا نے میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا ؛ ہاں تیرا نصیب بہت برا ہے۔

یزید بن معقل:تو جھوٹ بول رہاہے حالانکہ اس کے پہلے تو کبھی جھوٹ نہیں بولتا تھا۔ کیا تجھے وہ موقع یاد ہے جب میں قبیلہ لوذان کے علاقے میں تیرے ساتھ چل رہاتھااور تو کہہ رہا تھا کہ عثمان بن عفان نے اپنی جان کو گنوادیا اور معاویہ بن ابو سفیان گمراہ اور دوسروں کوگمراہ کرنے والا ہے۔ امام ہدایت و حق تو فقط علی بن ابیطالب ہیں ؟

____________________

١۔عطا بن سامت نے عبد الجبار بن وائل حضر می سے اور اس نے اپنے بھائی مسروق بن وائل سے یہ روایت بیان کی ہے۔ (طبری، ج٥ ،ص ٤٢١)

٢۔ آپ کے شرح احوال شب نو محرم کے واقعات میں گزرچکے ہیں ۔

۳۲۶

بریرنے جواب دیا: ہاں میں گواہی دیتا ہوں ، میری رائے اور میرا قول یہی ہے ۔

یزید بن معقل نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرا شمار گمراہوں میں ہے ۔

بریر بن حضیرنے اس کے جواب میں فرمایا: کیا تم اس پر تیار ہوکہ پہلے میں تم سے مباہلہ(١) کروں اور ہم اللہ سے دعاکریں کہ جھوٹے پر اس کی لعنت ہو اور باطل پرست کو موت کے گھاٹ اتار دے؛ اس کے بعد میں میدا ن کارزار میں آکر تم سے نبرد آزمائی کروں ۔

یزیدبن معقل ا س پر راضی ہوگیا دونوں نے میدان میں آکر اللہ کی بارگاہ میں دعا کرنے کے لئے ہاتھ اٹھائے کہ خدایا !کاذب پر لعنت کر اور صاحب حق کے ہاتھ سے باطل پرست کو قتل کرادے۔ اس بد دعا کے بعد دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آئے۔ تلواروں کا آپس میں ٹکراؤ ہوااور یزید بن معقل نے بریر بن حضیر پر ایک ہلکی سی ضرب لگائی جس سے آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچالیکن ادھر بریر بن حضیر نے ایسی کاری ضرب لگائی کہ اس کے ''خود ''کو کاٹتی ہوئی تلوار اس کے سر تک پہنچی اور اسے کاٹتی ہوئی اس کے مغز اور دماغ تک پہنچ گئی وہ زمین پراس طرح گرا جیسے کوئی چیزبلندی سے گررہی ہو؛ ادھر فرزند حضیر کی تلوار اس کے سر میں جاکر رک گئی تھی، گویا میں دیکھ رہا تھا کہ وہ تلوار کو اپنے سرسے باہر نکالنے کے لئے حرکت دے رہا تھا۔اسی دوران عمر بن سعد کے لشکر کے ایک سپاہی رضی بن منقذ عبدی نے جناب بریر پر حملہ کردیا۔ دونوں میں گتھم گتھاہوگئی اوروہ ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے۔ بڑی گھمسان کی لڑائی ہوتی رہی۔ آ خر کار بریراسے گراکر اس کے سینے پر بیٹھ گئے تو رضی چلایا کہاں ہیں اہل رزم اور کہاں ہیں دفاع کرنے والے؟ ! یہ سن کر کعب بن جابر ازدی نے نیزہ سے بریر پر حملہ کردیا اور وہ نیزہ آپ کی پیٹھ میں داخل ہوگیا جب بریر نے نیزہ کی نوک کو محسوس کیا تو رضی بن منقذ عبدی کے چہرے کو دانتوں سے دبالیا اور اس کی ناک کا ایک حصہ کاٹ ڈالا؛ لیکن کعب بن جابرنے مسلسل نیزہ کا وار کرکے'' عبدی ''کو بریر کے چنگل سے نکال دیا اور

____________________

١۔مباہلہ یعنی ملاعنہ جسمیں دونو ں افراد دعا کری ں کہ خدا باطل اور ظالم پر لعنت کرے ۔

۳۲۷

نیزہ کی انی کو بریر کی پشت میں پیوست کردیا پھر اس کے بعد بریر پر تلوار سے حملہ کرکے انھیں شہید کردیا۔ (ان پر خدا کی رحمت ہو)(١) و(٢)

____________________

١۔ ابو مخنف کہتے ہیں کہ مجھ سے یوسف بن یزیدنے عفیف بن زہیر بن ابو اخنس کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے اور وہ حسین علیہ السلام کی شہادت کے وقت وہا ں حاضر تھا ۔(طبری، ج٥، ص ٤٣١) باقیماندہ خبر حاشیہ شمارہ ٢ میں ملاحظہ ہو ۔

٢۔جب کعب بن جابر ازدی لوٹا تو اس کی زوجہ یا بہن نوار بنت جابر نے کہا : تو نے فرزند فاطمہ کے خلاف جنگ کی ہے اور سیدا لقراء (تلاوت و قراء ت قرآن کے سید و سردار) بریرکو قتل کیا ہے، تو نے بہت بڑی خیانت انجام دی ہے۔ خداکی قسم میں اب کبھی بھی تجھ سے بات نہیں کرو ں گی۔ کعب بن جابر نے کہا :

سلی تخبر عنی و أنت ذمیمة

غداة حسین والرماح شوارع

الم آت أقصیٰ ماکرهت ولم يْخل

علیّ غداة الروع ما أنا صانع

مع یز نی لم تخنه کعو به

وأبیض مخشوب الغرارین قاطع

فجر دته فی عصبة لیس دینهم

بدین وان بابن حرب لقانع

ولم تر عین مثلهم فی زما نهم

ولا قبلهم ف الناس اذ أنا یافع

أشدّ قراعاً با لسیوف لدی الوغی

ألا کل من یحمی الذمار مقارع

وقد صبروا للطعن والضرب حُسّرا

وقد نازلوا لوأن ذالک نافع

۳۲۸

فا بلغ (عبید الله) أما لقیته

بأ نی مطیع للخلیفة سا مع

قتلت بر یر اً ثم حملت نعمة

أبا منقذ لما دعی : من یماصع

تو مورد مذمت قرار پاچکی ہے تو مجھ سے حسین کی سپیدہ سحری اور نیزو ں کے سیدھے ہونے کے سلسلے میں سوال کر اور مجھ سے خبر لے ۔ کیا میں اس چیز کی انتہا تجھے نہ بتاؤ ں جو تجھے ناپسند ہے اور جس میدان کارزار کی صبح نے مجھ پر اس امر پرکوئی خلل وارد نہیں کیا جسے میں نے انجام دیا ۔ میرے پاس سیف بن ذی یزن یمنی کا نیزہ تھا جو کبھی ٹیڑھا نہیں ہوا اورجس کی سفید لکڑی کا غلاف دونو ں طرف سے برا ں تھا۔ میں نے اسے اس گروہ کے سامنے بر ہنہ کیا جن کا دین میرا دین نہ تھا اور میں ابو سفیان کے خاندان سے قانع ہو ں ۔میری آنکھو ں نے اپنے زمانے میں ان کے مانندنہیں دیکھااور اس سے قبل کسی نے نہیں دیکھا؛ کیونکہ میں جوان ہو ں ۔ جنگ کے وقت ان کی تلوار میں بڑی کاٹ تھی،آگاہ ہوجاؤکہ جو بھی ذمہ داری سے حمایت کرتا ہے وہ سخت کوش ہوتا ہے ۔ واقعا ان لوگو ں نے نیزو ں اور تلوارو ں کے زخم پر بڑا صبر کیا اور وہ گھوڑے سے نیچے اتر آئے اگریہ ان کے لئے مفید ہوتا ۔اگر عبیداللہ سے ملاقات کرے تو اس کو یہ خبر پہنچادے کہ میں خلیفہ کامطیع اور ان کی باتو ں کا سننے والا ہو ں ۔ میں نے بریر کو قتل کیااور ابو منقذ کو اپنا احسان مند بنا لیا، جب اس نے پکارا کہ میرا مدد گا کون ہے ؟

ابو مخنف کا بیان ہے : رضی بن منقذ عبدی نے اس کے جواب میں یہ کہا :

ولو شاء رب ما شهدت قتالهم

ولا جعل النعماء عند ابن جابر

لقد کان ذاک الیوم عارا وسبّةً

یعیر ه الأ بناء بعد ا لمعا شر

فیالیت ان کنت من قبل قتله

ویوم حسین کنت فی رمس قابر

اگر میرا پروردگار چاہتاتو میں کربلا کی جنگ میں حاضر نہ ہوتا اورنہ جابر کے لڑکے کا مجھ پر احسا ن ہوتا۔ در حقیقت وہ دن تو ننگ وعار کا دن تھا جو نسلو ں تک طعن و تشنیع کا باعث رہے گا ۔ اے کاش بریر کے قتل سے قبل میں مرگیا ہوتا اور حسین کے مقابلہ کے دن سے پہلے میں قبر میں مٹی کے نیچے ہوتا۔

۳۲۹

عمر وبن قرظہ انصاری کی شہادت

جناب بریر کی شہادت کے بعد عمر و بن قرظہ انصاری امام حسین علیہ السلام کی طرف سے دفاع کرتے ہوئے نکلے اور مشغول جہاد ہوگئے ۔آپ وقت قتال ان اشعار کو پڑھ رہے تھے۔

قد علمت کتیبة الأ نصا ر

ان سأحمی حوزة الذمار

ضرب غلا م غیر نکس شار

دون حسین مهجتی ودار(۱)

سپاہ انصار کو معلوم ہے کہ میں اس خاندان کی ایسی حمایت ونصرت کروں گا جو ایک ذمہ دار محافظ کا انداز ہوتا ہے ،میں ایک سر بلند اور سرفراز جوان کی طرح وار کروں گا اور کبھی منہ نہیں موڑوں گا کیونکہ میرا خون اور میرا خاندان حسین پرفدا ہے ۔

اسی حال میں آپ درجۂ شہادت پر فیضیاب ہوگئے۔ آپ پر خدا کی رحمت ہو۔آپ کا بھائی علی بن قرظہ ، عمر بن سعد کی فوج میں تھا ۔یہ منظر دیکھ کر وہ پکارا اے کذاب بن کذاب! (اے جھوٹے باپ کے جھوٹے بیٹے) تو نے میرے بھائی کوگمراہ کیا ، اسے دھوکہ دیا یہاں تک کہ اسے قتل کردیا ! یہ سن کر امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا :

''ان اللّٰه لم یضل أخاک ولکنه هدیٰ أخاک وأضلک'' خدا نے تیرے بھائی کو گمراہ نہیں کیا بلکہ تیرے بھائی کو ہدایت بخش دی، ہاں تجھے گمراہ کردیا ۔

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے عبدالرحمن بن جندب نے یہ روایت نقل کی ہے(طبری ،ج٥، ص ٤٣٣)

۳۳۰

علی بن قرظہ نے کہا خدا مجھے نابود کرے اگر میں تجھے قتل نہ کروں ، یہ کہہ کر امام علیہ السلام پر حملہ کیا۔ نافع بن ہلال مرادی نے آگے بڑھ کے مزاحمت کرتے ہوئے نیزہ لگا کر اسے زمین پر گرا دیا تو اس کے ساتھیوں نے حملہ کیا اور اسے کسی طرح بچاکر لے گئے۔(١) جنگ کا بازار گرم تھا، گھمسان کی لڑائی ہورہی تھی، سپاہ اموی نے چاروں طرف گھوم کر قتل و غارت گری کا بازار گرم کر رکھا تھا۔اس دوران حر بن یزید ریاحی اس فوج پر حملہ آور تھے اور اس شعر سے تمثیل کئے جارہے تھے ۔

مازلت أر میهم بثغر ة نحره

ولبانه حتی تسر بل بالدم

میں ان کی گردن اور سینے پر مسلسل تیر بارانی کرتا رہوں گا یہاں تک کہ وہ لوگ خون کا لباس پہن لیں ۔اس وقت حالت یہ تھی کہ ان کے گھوڑے کے کان اور ابرؤں سے نیزوں کی بارش کی وجہ سے خون جاری تھا۔ یزید بن سفیان تمیمی مسلسل یہ کہہ رہا تھاکہ خدا کی قسم اگر میں '' حر'' کو اس وقت دیکھتا جب وہ ہماری فوج سے نکلا تھا تو اس نیزہ کی نوک سے اس کا پیچھا کرتا۔ یہ سن کر حصین بن تمیم(٢) نے کہا : یہی ہے حر بن یزید جس کی تم تمنا کررہے تھے۔یزید بن سفیان نے کہا : ہاں ! اور حر کی طرف نکل گیا اور آپ سے بولا:کیا تم نبرد آزمائی کے لئے آمادہ ہو ؟ حر نے جواب دیا : ہاں میں ہم رزم ہونا چاہتا ہوں ۔ یہ کہہ کر اس کے مد مقابل آئے ،گویا جان ہتھیلی پر لئے تھے۔ یزید بن سفیان اپنی تمام شرارتوں کے ساتھ سامنے آیا لیکن ابھی حر کو سامنے آئے کچھ دیر بھی نہ ہوئی تھی کہ آپ نے اسے قتل کردیا ۔(٣)

____________________

١۔ ثابت بن ہبیرہ سے یہ روایت مروی ہے۔ (طبری، ج ٥، ص ٤٣٤)

٢۔ یہ شخص عبید اللہ بن زیاد کی پولس کا سر براہ تھا اور عبید اللہ نے اسے عمر بن سعد کے ہمراہ حسین علیہ السلام کی طرف جنگ کے لئے بھیج دیا ۔کربلا میں عمر بن سعد نے اسے مجففہّ فوج کا سر براہ بنا دیا تھا۔ تجفاف زرہ کی قسم کا ایک رزمی لباس ہے ۔

٣۔ابو مخنف کہتے ہیں کہ مجھ سے ابو زہیر نضر بن صالح عبسی نے یہ روایت نقل کی ہے۔(طبری،ج٥،ص ٤٣٤)

۳۳۱

نافع بن ہلال

اسی ہنگا مہ خیز ماحول میں نافع بن ہلال مرادی جملی مصروف جنگ تھے اور کہے جارہے تھے :

'' أنا الجملی أنا علیٰ دین علی (علیہ السلام) ''میں ہلال بن نافع جملی ہوں ، میں دین علی علیہ السلام پر قائم ہوں ۔یہ سن کر فوج اموی کی ایک فرد جسے مزاحم بن حریث کہتے ہیں سامنے آیا اور بولا : میں عثمان کے دین پر قائم ہوں ۔ نافع بن ہلال نے اس سے کہا : تو شیطان کے دین پر بر قرار ہے پھر اس پر حملہ کیا اور اسے قتل کر دیا ۔

یہ صورت حال دیکھ کر عمر وبن حجاج زبیدی چلایا کہ اے احمق اور بے شعور لوگو !تم کو کچھ معلوم ہے کہ تم کس سے لڑ رہے ہو ؟ یہ شہر کے بہادر ،شجاع ، فداکارا ور جانباز ہیں ، تم میں سے کو ئی بھی ان کے مقابلہ میں نہ آئے ۔ یہ دیکھنے میں کم ہیں اور بہت ممکن ہے کہ باقی رہ جائیں ۔ خدا کی قسم اگر تم لوگ(١) ان پر فقط پتھر پھینکو تو ان کو قتل کر دو گے۔یہ سن کر عمر بن سعد بولا تمہارا نظریہ بالکل صحیح ہے اور میری رائے بھی یہی ہے اس وقت اس نے اعلان کیا کہ فوج کہ سب سپاہی اس پر آمادہ ہو جائیں کہ ان لوگوں سے اس طرح جنگ نہ کریں کہ ایک ان کی طرف سے اور ایک تمہاری طرف سے ہو۔(٢)

الحملة الثانےة (دوسرا حملہ)

پھر عمرو بن حجاج زبیدی لشکر امام حسین علیہ السلام سے نزدیک ہوتا ہوا بولا: اے اہل کوفہ ! اپنی اطاعت اور اپنی جماعت کے اتحاد واتفاق پر پا بند رہو اور اس کے قتل میں کوئی شک وشبہ نہ کرو جو دین سے منحرف ہوگیا اور ہمارے پیشوا اور امام کا مخالف ہے۔

یہ سن کر امام حسین علیہ السلام نے اس سے فرمایا :'' یا عمروبن حجاج !أعلّ تحّرض الناس ؟ أنحن مرقنا وأ نتم ثبتُّم علیه ! أما واللّه لتعلمنّ لو قد قُبضت أروا حکم ومُتم علی أعما لکم أيّنا مرق من الدین ومن هو أولی بصل النار''

اے عمروبن حجاج ! کیا تو لوگوں کو میرے خلاف اکسا رہا ہے؟ کیا ہم دین سے منحرف ہیں اور تم

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے ابو زہیر نضربن صالح عبسی نے یہ روایت نقل کی ہے۔(طبری ،ج٥، ص ٤٣٤)

٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ یحٰی بن ہانی بن عروہ مراوی نے مجھ سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥، ص ٤٣٥)

۳۳۲

لوگ اس پر قائم ہو ! خدا کی قسم اگر تمہاری روحیں قبض کرلی جائیں اور تم لوگوں کو انھیں اعمال پر موت آجائے تو تمہیں ضرور معلوم ہو جائے گا کہ منحرف کون اور جہنم میں جلنے کا سزاوار کون ہے ۔

پھر عمروبن حجاج نے عمربن سعد کے داہنے محاذفرات کی جانب سے امام حسین علیہ السلام کے لشکر پر حملہ کر دیا ۔کچھ دیر تک جنگ کا بازار گرم رہا اور اس حملہ میں امام حسین علیہ السلام کے اصحاب کی ایک جماعت شہید ہو گئی جس میں سے ایک مسلم بن عوسجہ ہیں ۔

مسلم بن عوسجہ(١)

عمروبن حجاج کے سپاہیوں میں سے عبد الر حمن بجلی اور مسلم بن عبد اللہ ضبّا بی نے آپ کو شہید کیا۔ آپ کی شہادت پر خوشی سے جھومتے ہوئے عمروبن حجاج کے سپاہیوں نے آواز لگائی :

ہم نے مسلم بن عوسجہ اسدی کو قتل کر دیا۔ اس کے بعد عمروبن حجاج اور اس کے سپا ہی لوٹ گئے اور غبار کا ایک بادل اٹھا۔جب وہ بادل چھٹ گیا تو اصحاب حسین نے مسلم بن عوسجہ کو جانکنی کے عالم میں

____________________

١۔ اس خبر میں آیا ہے کہ اصحاب حسین میں سب سے پہلے مسلم بن عوسجہ اسدی شہید ہوئے جبکہ اس سے پہلے بریر اور عمروبن قرظہ کی شہادت کا تذکرہ گزرچکا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس حملہ کے بعد کچھ دیر کے لئے جنگ بند ہو گئی تھی اس کے بعد جب جنگ شروع ہوئی تو دوسرے حملہ میں سب سے پہلے شہید ہونے والو ں میں آپ کا شمار ہو تا ہے۔ آپ کوفہ میں امام حسین علیہ السلام کے لئے بیعت لے رہے تھے۔ ابن زیاد کا جاسوس معقل آپ ہی کے توسط سے مسلم تک پہنچ سکا تھا۔(طبری، ج٥، ص ٣٦٢) مسلم بن عقیل نے کوفہ میں آپ کو قبیلہء مذحج اور اسد کا سالا ر بنا یا تھا۔ (طبری ،ج٥ ،ص ٣٦٩) آپ ہی وہ ہیں جو کر بلا میں شب عاشور امام حسین علیہ السلام کے خطبہ کے بعد اٹھے اور فرمایا : اگر ہم آپ کو چھوڑ دی ں تو اللہ کی بارگاہ میں آپ کے حق کی ادائیگی میں ہمارا عذر کیا ہوگا؟! خدا کی قسم یہا ں تک کہ میں اپنے نیزہ کو ان کے سینو ں میں تو ڑنہ لو ں اور اپنی تلوار سے جب تک اس کا دستہ میرے ہاتھ میں ہے ان کو مارنہ لو ں میں آپ کو نہیں چھوڑ سکتا اور اگر میرے پاس ان کو قتل کرنے کے لئے کوئی اسلحہ نہ ہو ا تو میں ان کو آپ کے پاس رہ کرپتھر مارو ں گا یہا ں تک کہ آپ کے ہمراہ مجھے موت آجائے۔ (طبری ،ج٥ ،ص ٤١٩) آپ ہی وہ ہیں جنہو ں نے شمر پر تیر چلا نے کی اجازت اس طرح طلب کی تھی : فرزند رسول خدا میری جان آپ پر نثار ہو، کیا میں اس پر ایک تیر نہ چلا دو ں ؟ یہ آدمی بڑا فاسق وفاجر ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے فرما یا تھا : میں جنگ میں ابتدا کرنا نہیں چاہتا ۔(طبری، ج٥، ص ٤٢٤) لیکن آپ کوفہ سے کس طرح امام علیہ السلام سے ملحق ہوئے کچھ پتہ نہیں ، تاریخ اس سلسلہ میں بالکل خاموش ہے ۔

۳۳۳

دیکھا ۔ امام حسین علیہ السلام چل کر آپ کے پاس آئے۔ اس وقت آپ کے جسم میں رمق حیات موجود تھی۔امام علیہ السلام نے مسلم بن عوسجہ کو مخاطب کر کے فرمایا :''رحمک ربک یامسلم بن عوسجه، فمنهم من قضی نحبه و منهم من ینتظر ومابدّلواتبدیلاً '' (١)

اے مسلم بن عوسجہ خدا تم پر رحمت نازل کرے ، ان میں سے بعض وہ ہیں جو اپنا وقت پوراکرگئے اوربعض منتظر ہیں اوران لوگوں نے اپنی بات ذرابھی نہیں بدلی۔ اس کے بعد حبیب بن مظاہر مسلم کے قریب آئے اور فر مایا : ''عزعلّ مصرعک یامسلم ، أبشر بالجنة '' اے مسلم تمہاری شہادت مجھ پر بہت سنگین ہے، جاؤ جنت کی تمہیں بشارت ہو ،یہ سن کر بڑی نحیف آوازمیں مسلم نے حبیب سے کہا : ''بشرک ا للّٰہ بخیر''اللہ تمہیں نیکی و خیر کی بشارت دے، یہ سن کر حبیب نے مسلم بن عوسجہ سے کہا :''لولا ان أعلم أن فی اثرک لاحق بک من ساعت هٰذه لأحببت أن توصین بکل ما أ همک حتی أحفظک فی کل ذالک بما أنت أهل له فی القرا بة والدین'' اگر مجھے معلوم نہ ہوتا کہ میں تمہارے پیچھے پیچھے ابھی آرہاہوں تو میرے لئے یہ بات بڑی محبوب تھی کہ تم مجھ سے ہر اس چیز کی وصیت کرو جو تمہارے لئے اہم ہو تاکہ میں ان میں سے ہرایک کو پورا کرسکوں جو تمہارے قرابت داروں اور دین کے سلسلے میں اہمیت رکھتے ہیں ۔

مسلم بن عوسجہ نے کہا''بل انا اوصیک بهذا رحمک اللّه أن تموت دونه ''میری وصیت تو صرف ان کے سلسلے میں ہے ،خدا تم پر رحمت نازل کرے یہ کہہ کرا پنے ہاتھ سے حسین کی طرف اشارہ کیا کہ تم ان پر قربان ہو جانا ، انھیں کے سامنے موت کو گلے لگا لینا۔حبیب نے کہا : رب کعبہ کی قسم میں ایسا ہی کروں گا؛ پھر دیکھتے ہی دیکھتے بہت جلد مسلم بن عوسجہ نے ان لوگوں کے ہاتھوں پر دم توڑ دیا (خدا ان پر رحمت نازل کر ے) آپ کی موت کا منظر دیکھ کر آپ کی کنیزآہ و فریاد کرنے لگی :''یا بن عوسجتاه یا سیداه'' (٢)

____________________

١۔سورہ احزاب ٢٣

٢۔عمرو بن حجاج کے سپاہیو ں نے جب آوازلگائی کہ ہم نے مسلم بن عوسجہ اسدی کو قتل کردیا تو شبث بن ربعی تمیمی نے اپنے بعض ان

ساتھیو ں سے کہا جو اس کے ہمراہ تھے : تمہاری مائی ں تمہارے غم میں بیٹھی ں ، تم نے اپنے ہاتھو ں سے خود کو قتل کیا ہے اور دوسرو ں کی خاطر خود کوذلیل کیا ہے۔تم اس پر خوش ہورہے ہو کہ مسلم بن عوسجہ کو قتل کردیا۔ قسم اس کی جس پر میں اسلام لایا بارہا میں نے مسلمانو ں کے د رمیان ان کی شخصیت کو بزرگ دیکھا ہے۔ آذر بایجان کے علاقۂ سلقظ میں خود میں نے دیکھا ہے کہ آپ نے ٦ مشرکو ں کو مسلمین کے لشکر کے پہنچنے سے قبل قتل کیا تھا۔ ایسی ذات کو قتل کرکے تم لوگ خوش ہو رہے ہو ۔

۳۳۴

الحملةالثالثة (تیسرا حملہ)

بائیں محاذ سے شمر بن ذی الجوشن نے حسینی سپاہ کے بائیں محاذپر حملہ کیا تو اصحاب حسینی نے دلیرانہ دفاع کیا اور نیزوں سے اس پر اور اس کے سپاہیوں پر حملہ کیا ۔ اسی گیرودار میں ہانی بن ثبیت حضرمی اور بکیر بن حی تمیمی نے عبداللہ بن عمیر کلبی پر حملہ کیا اور ان دونوں نے مل کر آپ کوشہید کر دیا ۔(آپ پر خداکی رحمت ہو)(١)

اصحاب حسین کے حملے اور نبرد آزمائی

اپنے دفاع میں اصحاب امام حسین علیہ السلام نے بڑا سخت جہاد کیا، ان کے سواروں نے جن کی تعداد٣٢ تھی(٢) حملہ شروع کیا ،وہ اہل کوفہ کے جس سوار پر حملہ کررہے تھے اسے رسوا کردے رہے تھے ۔

جب عزرہ بن قیس تمیمی (جو اہل کوفہ کی فوج کا سربراہ تھا) نے دیکھا کہ اس کے لشکر کو ہر طرف سے رسوا ہونا پڑہا ہے تو اس نے عبدالرحمن بن حصین کو عمر بن سعد کے پاس یہ کہہ کر بھیجاکہ کیا تم نہیں دیکھ

____________________

١۔اس خبر میں آیا ہے کہ یہ اصحاب حسین کے دوسرے شھید ہیں لیکن یہ ایک وہم ہے ۔

٢۔ شاید باقیماندہ سوارو ں کا تذکرہ ہو ورنہ مسعودی کا بیان تو یہ ہے کہ آنحضرت جب کربلا وارد ہوئے تو آپ کے اہل بیت اور انصار پانچ سو اسپ سوار تھے اور سو (١٠٠) پیدل ، پھر وہ کہتے ہیں : امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ ان میں سے شہید ہونے والے ٨٧ افراد ہیں ۔(مروج الذہب ،ج٣ ،ص ٨٨) سید بن طاوؤس نے لھوف میں امام باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ ٤٥ اسپ سوار تھے اور سو (١٠٠) پیدل ۔یہی تعداد سبط بن جوزی نے بھی ذکر کی ہے۔(ص ٢٤٦و ٢٥١) تعجب کی بات یہ ہے کہ سبط بن جوزی نے مسعودی سے نقل کیا ہے کہ ایک ہزار پیدل تھے جب کہ مروج الذھب میں ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔

*آذر بایجان کے حدود میں شمال عراق او ر ایران کے مغربی علاقہ میں ایک پہاڑ ہے جیسا کہ قمقام ،ص ٤٩٢میں موجود ہے ۔

۳۳۵

رہے ہو کہ ان چند لوگوں کے ہاتھوں ابھی سے ہمارے سواروں پر کیا گزررہی ہے، جلد از جلد پیدلوں اور تیر اندازوں کو روانہ کروکہ روزگار ہم پر سخت ہوچکا ہے۔عمر بن سعد نے شبث بن ربعی سے کہا : کیا تم ان کی طرف پیش قدمی نہیں کروگے ۔

شبث بن ربعی نے کہا؛ سبحان اللہ ! کیا جان بوجھ کر قبیلہ مضر کے بزرگوں اور سارے شہر کے بوڑھوں کو تیر اندازوں میں بھیجنا چاہتے ہو۔ کیا اس کام کے لئے میرے علاوہ کوئی اور نہیں ہے ؟ تو عمر بن سعد نے حصین بن تمیم کو پکارا اور اس کے ہمراہ زرہ پوشوں اور پانچ سو (٥٠٠) تیراندازوں کو روانہ کیا ۔وہ سب کے سب سپاہ حسینی کے مد مقابل آئے لیکن ابھی وہ سب کے سب حسین اور اصحاب حسین کے نزدیک بھی نہ آئے تھے کہ ان لوگوں نے تیر بارانی شروع کردی ابھی تھوڑی دیر بھی نہ گذری تھی کہ اصحاب حسینی نے گھوڑوں کو پے کردیا اور وہ سب کے سب پیدل ہوگئے۔

اسی گیر ودار میں حر بن یزید ریاحی کاگھوڑا بھی زخمی کر دیا گیا۔ تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ گھوڑا لرزنے لگا اور تڑپتے ہوئے زمین پر گر پڑا'' حر'' بڑی پھرتی سے اس گھوڑے سے نیچے آئے گویا شیر بیشۂ شجاعت کی طرح گھوڑے سے نیچے کو د پڑے درحالیکہ انکے ہاتھوں میں تلوار تھی اور وہ کہے جا رہے تھے :

ان تعقروا بی فانا ابن الحر

اشجع من ذ لبد هزبر(١)

اس میں کوئی شک نہیں کہ اصحاب حسینی نے بڑا سخت جہاد کیا یہاں تک کہ سورج نصف النھارپر آگیا اور گھمسان کی لڑائی ہوتی رہی اور اس طرح ان لوگوں سے نبرد آزمارہے کہ دشمن ایک طرف کے علاوہ دوسری طرف سے ان پر حملہ آور نہ ہوسکے ؛کیونکہ ان کے خیمے ایک دوسرے سے ملے ہوئے اور نزدیک نزدیک تھے ۔

____________________

١۔ ہزبر فارسی کا لفظ ہے جس کا فارسی تلفظ ہزبر ہے جو شیر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی اگر تم نے میرا گھوڑا پے کردیا تو کیا ہوا میں فرزند حر ہو ں ۔ میں شیر بیشہء شجاعت سے بھی زیادہ شجاع ہو ں ۔محترم قاری پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ اس شعر میں '' انا ابن حر'' کہا جارہا ہے جب کہ خود حر اس شعر کے پڑھنے والے ہیں ۔اس مطلب پر نہ تو ابو مخنف نے ،نہ ہی کلبی نے ،نہ ہی طبری نے اور نہ ہی کسی دوسرے نے کوئی بھی حاشیہ لگایا ۔ ممکن ہے کہ جس وقت کہاہو اس وقت ابن حروہا ں موجود ہو ،یعنی توبہ کے وقت اور امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ شہادت کے وقت اور ممکن ہے کہ حر کے دادا یا خاندان کے بزرگ کا نام حر ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ نام کے بجائے معنی اور صفت کاارادہ کیا ہو۔ شیخ مفید نے بھی اس رجز کا ذکر کیا ہے لیکن کوئی حاشیہ نہیں لگایا ہے۔ (ارشاد ،ص ٢٣٧)

۳۳۶

جب عمر سعد نے یہ صورت حال دیکھی تو اس نے اپنے پیدل سپاہیوں کو بھیجا تاکہ ہرچہار جانب سے خیموں کی طنابوں کو اکھاڑ کر ویران کردیں تاکہ حسینی سپاہ کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا جائے لیکن ادھر اصحاب حسینی تین تین چار چارکرکے گروہ میں تقسیم ہوگئے اور خیموں کی طرف بڑھنے والوں پر حملہ کرکے ان کی صفوں کو پراکندہ کرنے لگے، اس کے بعد انھیں قتل کرنے لگے ، تیر چلانے لگے اور ان کے گھو ڑوں کو پے کرنے لگے ۔

اس صورت حال کو دیکھ کر عمر بن سعد نے کہا : انھیں آگ لگا کر جلادو ! تو امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : انھیں چھوڑدو انھیں جلالینے دو ؛کیونکہ اگر یہ خیموں کو جلا بھی لیتے ہیں تب بھی ادھر سے تم پر حملہ نہیں کر پائیں گے اور ویسا ہی ہوا سپاہ اموی ایک طرف کے علاوہ دوسری طرف سے جنگ نہ کر پائی ۔

الحملة الرابعہ (چوتھا حملہ)

اس نا برابر جنگ میں ایک بار پھر بائیں محاذسے شمر بن ذی الجوشن نے امام حسین علیہ السلام کے خیمے پر ایک نیزہ پھینکا اور پکارا میرے پاس آگ لاؤ تا کہ میں اس گھرکو گھر والوں کے ساتھ آگ لگا دوں ، یہ سن کر مخدرات آہ و فریاد کرنے لگیں اور خیمہ سے باہر نکلنے لگیں ۔

ادھر امام حسین علیہ السلام نے آواز دی :''یا بن ذ الجوشن ! أنت تدعوبالنار لتحرق بیت علیٰ أهل ؟ حرقک اللّٰه بالنار ''اے ذی الجوشن کے بیٹے ! تو آگ منگوارہاہے تاکہ میرے گھر کو میرے گھر والوں کے ساتھ جلادے ؟ خدا تجھ کو جہنم کی آگ میں جلائے۔(١) حمید بن مسلم ازدی کا بیان ہے کہ میں نے شمر سے کہا : سبحان اللّٰہ! اس میں صلاح وخیر نہیں ہے کہ تم اپنے لئے دونوں صفتوں کو یکجا کرلو : عذاب خدا کے بھی مستحق ہو اور بچوں اور خواتین کو بھی قتل کر دو، خدا کی قسم ان کے مردوں کو قتل کرنا ہی تمہارے امیر کوخوش کردے گا ۔(٢) اسی اثناء میں شبث بن ربعی تمیمی ،شمر کے پاس آیا

____________________

١۔ طبری ،ج ٥ ، ص ٢٤٧ ، ابو مخنف کابیان ہے : مجھ سے'' نمیر بن وعلة'' نے بیان کیا ہے کہ ایوب مشرخ خیوانی اس روایت کو بیان کرتا تھا۔

٢۔حمید کہتا ہے کہ شمر نے پوچھا :تو کون ہے؟ تو میں ڈر گیا کہ اگر اس نے مجھے پہچان لیا توبادشاہ کے پاس مجھے نقصان پہنچائے گا لہٰذا میں نے کہہ دیا : میں نہیں بتاؤ ں گا کہ میں کون ہو ں ۔

۳۳۷

اور بولا : میں نے گفتگو میں تجھ جیسا بد زبان انسان نہیں دیکھااور تیرے موقف سے قبیح ترین کسی کا موقف نہیں پایا ۔ ان تمام شور و غل کے بعد کیا تو عورتوں کو ڈرانے والابن گیا ہے ۔

عین اسی موقع پر زہیر بن قین اپنے دس(١٠) ساتھیوں کے ہمراہ شمر اوراسکے لشکر پرٹوٹ پڑے اور بڑا سخت حملہ کرکے انھیں خیموں سے دور کر دیا یہاں تک کہ وہ لوگ عقب نشینی پر مجبور ہوگئے ۔

پھر کیاتھا ٹڈی دل لشکر نے حسینی لشکر پر زبردست حملہ کردیا جس کانتیجہ یہ ہواکہ اصحاب حسینی برگ خزاں کی طرح یکے بعد دیگرے جام شہا دت نوش فرمانے لگے۔ اس سپاہ کے ایک یادو سپاہی بھی شہید ہوتے تو واضح ہوجاتا تھالیکن وہ لوگ چونکہ کثیر تعداد میں تھے اس لئے پتہ نہیں چل پاتا تھا کہ ان میں سے کتنے قتل ہوئے ۔

نماز ظہر کی آمادگی

جب ابو ثمامہ عمر و بن عبداللہ صائدی(١) نے یہ منظر دیکھا توامام حسین علیہ السلام سے کہا:'' یا أبا عبدالله !نفس لک الفدا ء انّ أری هٰؤلاء قد اقتربوا منک، ولا واللّٰه لا تقتل حتی أقتل دونک انشاء اللّٰه ،واحب أن ألقی رب وقد صلیت هٰذه الصلاةالتی دنا وقتها'' اے ابوعبداللہ! میری جان آپ پر نثار ہو ! میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ یہ دشمن آپ سے قریب ترہوتے جارہے ہیں ، نہیں خدا کی قسم، آپ اس وقت تک قتل نہیں کئے جاسکتے جب تک انشاء اللہ میں آپ کے قدموں میں قربان نہ ہوجاؤں ، بس میں یہ چاہتا ہوں کہ میں خدا سے اس حا ل میں ملاقات کروں کہ یہ نماز جس کا وقت نزدیک آچکا ہے آپ کے ہمراہ ادا کر لوں ۔

____________________

١۔آپ کا تعلق قبیلہ ہمدان سے ہے۔ آپ کوفہ میں ان اموال کی جمع آوری کررہے تھے جو شیعہ حضرات جناب مسلم کو مدد کے طور پردے رہے تھے اور جناب مسلم ہی کے حکم سے اس سے اسلحے خرید رہے تھے۔(طبری ،ج٥ ،ص ٣٦٤) اپنے قیام کے وقت جناب مسلم نے آپ کو تمیم اور ہمدان کا سربراہ قرار دیا تھا۔(طبری، ج ٥، ص٣٦٩) آپ ہی وہ ہیں جس نے کربلا میں عمر بن سعد کے پیغام رسا ں کو امام حسین علیہ السلام کو پہچنوایا تھا کہ یہ عزرہ بن احمسی ہے اور عرض کیا تھا کہ آپ کے پاس اہل زمین کابد ترین انسان آرہاہے جو خون بہانے میں اور دھوکہ سے قتل کرنے میں بڑا جری ہے اور آپ ہی نے اسے امام حسین علیہ السلام تک آنے سے اس خوف میں روکا تھا کہ کہیں وہ امام علیہ ا لسلام پر حملہ نہ کردے۔(طبری، ج٥ ،ص٤١٠)

۳۳۸

یہ سن کر امام علیہ السلام نے اپنا سر اٹھایا اور پھر فرمایا :'' ذکرت الصلاة ، جعلک اللّٰه من المصلین الذاکرین ! نعم هذا أوّل وقتها'' تم نے نماز کو یاد کیا ، خدا تم کوصاحبان ذکراور نمازگزاروں میں قرار دے !ہاں یہ نماز کا اوّل وقت ہے ۔

پھر فرمایا: ''سلوھم أن یکفوا عنا حتی نصل ''ان سے سوال کرو کہ ہم سے دست بردار ہوجائیں تا کہ ہم نماز ادا کرلیں ۔ یہ سن کر حصین بن تمیم نے کہا : ''انھا لا تقبل! ''تمہاری نماز قبول نہیں ہے !یہ سنکر حبیب بن مظاہر نے فوراً جواب دیا :''زعمت ان الصلاة من آل رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه (وآله وسلم) لا تقبل وتقبل منک یا حمار؟'' اے گدھے توگمان کرتا ہے کہ آل رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز قبول نہیں ہوگی اور تیری نماز قبول ہوجائے گی ؟

۳۳۹

حبیب بن مظاہر کی شہادت(١)

اسی گیرودار میں حصین بن تمیم تمیمی نے حسینی سپاہیوں پر حملہ کردیا۔ادھر سے حبیب بن مظاہر اس کے سامنے آئے اور اس کے گھوڑے کے چہرے پر تلوار کا ایسا وار کیا کہ وہ اچھل پڑا اور وہ گھوڑے سے نیچے گر پڑا تو اس کے ساتھیوں نے حملہ کرکے اسے نجات دلائی ۔

____________________

١۔ آپ کا شمار کوفہ کے ان زعمائے شیعہ میں ہوتا ہے جنہو ں نے امام حسین علیہ السلام کو خط لکھاتھا۔ (طبری ،ج٥ ،ص ٣٥٢) آپ نے مسلم بن عقیل کو امام علیہ السلام کے لئے یہ کہہ کر جواب دیا تھا : قسم ہے اس خدا کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں میں بھی وہی کہتا ہو ں جو انھو ں نے کہا اور عابس بن شبیب شاکری کی کی طرف اشارہ کیاتھا (طبری ،ج٥، ص ٣٥٥) کربلا میں عمر بن سعد کے پیغام رسا ں قرہ بن قیس حنظلی تمیمی سے آپ نے کہا تھا : واے ہو تجھ پر اے قرہ بن قیس ! تو ظالمو ں کی طرف کیو ں کر پلٹ رہاہے، تو اس ذات کی مدد کر جس کے آباء واجداد کی وجہ سے اللہ نے تجھے اور ہمیں دونو ں کو کرامت عطا کی ہے۔(طبری، ج٥،ص ٤١١) جب نو محرم کو شام میں سپاہ اموی عمر بن سعد کی سالاری میں امام حسین علیہ السلام پر حملہ آور ہوئی تھی تو عباس بن علی علیھماالسلام بیس (٢٠)سوارو ں کے ہمراہ ان لوگو ں کے پاس گئے جن بیس میں جناب حبیب بھی تھے۔ حبیب نے اس وقت فرمایاتھا : خدا کی قسم کل قیامت میں وہ قوم بہت بری ہوگی جس نے یہ قدم اٹھایا ہے کہ ذریت و عترت واہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کردیا جو اس شہر ود یار کے بہت عبادت گزار ، سحر خیزی میں کوشا ں اور اللہ کا بہت ذکر کرنے والے ہیں ۔(طبری، ج ٥، ص ٤٢٢) جب آپ مسلم بن عوسجہ کے زخمی جسم پر آئے اور مسلم نے امام علیہ السلام کی نصرت کی وصیت کی تو آپ نے فرمایا : رب کعبہ کی قسم میں اسے انجام دو ں گا ۔(طبری ،ج٥، ص ٤٣٦) امام حسین علیہ السلام نے آپ کو بائی ں محاذ کا سالار بنایا تھا ۔(طبری، ج٥،ص ٤٢٢) حصین بن تمیم آپ کے قتل پر فخر و مباہات کررہا تھا اور آپ کے سر کو گھوڑے کے سینے سے لٹکا دیا تھا۔ آپ کے بیٹے قاسم بن حبیب نے قصاص کے طور پر آپ کے قاتل بدیل بن صریم تمیمی کو قتل کردیا ،یہ دونو ں با جمیرا کی جنگ میں مصعب بن زبیر کی فوج میں تھے ۔

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438