واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا18%

واقعۂ کربلا مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 438

واقعۂ کربلا
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 438 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 192989 / ڈاؤنلوڈ: 5408
سائز سائز سائز
واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

3 ۔ علم و آگاہی

ظاہر ہے کہ انسان صرف اسی وقت کسی فرض کو ادا کرنے پر قادر ہو سکتا ہے جب وہ اس سے آگاہ ہو یعنی وہ فرض اس تک پہنچا دیا گیا ہو فرض کریں کہ کوئی قانون ساز قانون وضع کر دے لیکن قانون اس شخص تک نہیں پہنچا جس نے اس پر عمل کرنا ہے تو وہ شخص اس قانون کی پابندی کا ذمہ دار نہیں بلکہ وہ اس قانون پر عمل کرنے پر قادر بھی نہیں اور اگر وہ شخص اس قانون کے خلاف عمل کرے تو قانون ساز اس کو سزا نہیں دے سکتا۔

علمائے علم اصول کا نظریہ ہے کہ اس شخص کو سزا دینا قبیح ہے جو فرض سے آگاہ نہیں ہے اور جس نے فرض معلوم کرنے میں کوتاہی بھی نہیں کی اور قانون کی اس شق کو ”عقاب بلا بیان کی قباحت“ کہتے ہیں۔

قرآن حکیم نے مکرر اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ ”ہم کسی قوم کو کسی قانون کی خلاف ورزی کی سزا نہیں دیتے مگر یہ کہ ان لوگوں پر حجت پوری ہو گئی ہو“ یعنی ہم کسی قوم کو ”بلا بیان سزا نہیں دیتے۔

البتہ فرض کے لئے ”علم و آگاہی“ کی جو شرائط اوپر بیان کی گئی ہیں اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ انسان عملاً اپنے آپ کو بے خبری میں رکھے اور اس بے خبری کو اپنے لئے عذر بنائے اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ علم حاصل کرے اور اس علم کی بناء پر عمل کرے۔

۴۱

حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن بعض گناہگاروں کو اللہ کی عدالت میں حاضر کیا جائے گا اور اپنی بعض ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے پر ان کا مواخذہ کیا جائے گا۔ گناہگار سے کہا جائے گا: ”تو نے اپنا فرض کیوں پورا نہیں کیا؟“ وہ جواب دے گا: ”مجھے معلوم نہ تھا۔“ پھر اس سے کہا جائے گا: ”تم نے معلوم کیوں نہ کیا اور علم حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟“

یہ جو ہم کہتے ہیں کہ فرض سے مطلع ہونا ادا کرنے کی شرط ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اگر فرض کا حکم کسی شخص تک نہ پہنچ سکے اور عدم حصول علم میں اس شخص کا کوئی قصور بھی نہ ہو تو وہ شخص قصوروار متصور نہ ہوگا یعنی اس نے علم حاصل کرنے کی ضروری کوشش تو کی لیکن باوجود اس کے وہ معلوم نہیں کر سکتا تو ایسا شخص خدا کے نزدیک معذور قرار پائے گا۔

4 ۔ طاقت و توانائی

اصل میں وہی کام انسان کے لئے فرض قرار پاتا ہے جس کی انجام دہی کی اس میں طاقت ہو لیکن وہ کام جس کی انجام دہی پر انسان قادر نہ ہو فرض قرار نہیں پاتا اس میں شک نہیں کہ انسان کی توانائیاں محدود ہیں چونکہ قوت محدود ہے لہٰذا چاہئے کہ اس کے فرائض اس کی قوت کی حدود کے اندر ہوں مثلاً انسان میں حصول علم و دانش کی قوت ہے لیکن وقت اور معلومات کی مقدار کے لحاظ سے مقرر حدود کے اندر ہے۔ ایک انسان نابغہ روزگار ہی کیوں نہ ہو وہ ایک مدت میں تدریجی طور پر ہی علم و دانش کے مدارج طے کر سکتا ہے۔

اب اگر کسی شخص کو مجبور کیا جائے کہ وہ چند سالوں کا علم ایک رات میں حاصل کر لے تو اصطلاحی زبان میں اسے ”تکلیف بمالایطاق“ یعنی ”اس کام کا حکم جو انسان کی طاقت سے باہر ہو“ کہتے ہیں۔ اسی طرح کسی کو حکم دیا جائے کہ وہ دنیا کے تمام علوم حاصل کرے تو یہ بھی ایسا حکم ہے جو طاقت اور توانائی سے باہر ہے۔

۴۲

قرآن حکیم میں آیا ہے:

لا یکلف الله نفسا الا وسعها

”اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتا مگر اس پر جو اس کی طاقت میں ہو۔“( سورہ بقرہ آیت 286)

اگر کوئی شخص غرق ہو رہا ہو اور ہمارے اندر اس کو بچا لینے کی طاقت ہو تو ہم پر واجب ہے کہ ہم اس کو بچائیں لیکن اگر کوئی ہوائی جہاز گر رہا ہو اور ہم کسی طرح سے بھی اس کو گرنے سے روکنے پر قادر نہ ہوں تو ہماری ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے اور ایسی صورت میں خداوند تعالیٰ ہم سے مواخذہ نہیں کرتا۔

یہاں ایک نکتہ قابل ذکر ہے کہ وہ یہ کہ جیسا کہ ہم نے ”علم و آگاہی“ کے بارے میں کہا کہ فرض اور ذمہ داری کا ”علم و آگاہی“ سے مشروط ہونے سے یہ لازم قرار نہیں پاتا کہ ہم ”علم و آگاہی“ کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں اس طرح ادائیگی فرض کا ”طاقت و توانائی“ کے ساتھ مشروط ہونے سے یہ لازم نہیں قرار پاتا کہ ہم طاقت و توانائی کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں البتہ بعض مواقع میں طاقت کا ضیاع کرنا حرام ہے اور طاقت کا حصول واجب مثلاً ہمیں ایک زبردست طاقت ور دشمن کا سامنا ہے جو ہمارے حقوق یا ہمارے دین اسلام پر حملہ کرنا چاہتا ہے اور ہم موجودہ صورت حال میں مقابلہ نہیں کر سکتے اور اس سے ہر طرح کا مقابلہ بھی اپنی طاقت کا ضیاع ہے جب کہ ہمیں اس وقت یا مستقبل میں اس عمل سے کوئی مثبت نتیجہ بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔

ظاہر ہے ایسی صورت میں ہم دشمن کے مقابلے یا اس کو حملہ کرنے سے روکنے کے ذمہ دار نہیں ہیں لیکن ایک ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ ہم ”طاقت اور توانائی“ حاصل کریں تاکہ ایسے حالات میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے رہیں۔

۴۳

قرآن کریم کا ارشاد ہے:

واعد و الهم استطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون بعدو الله و عدوکم ( سورہ انفال آیت 60)

”جہاں تک ممکن ہو اپنے گھوڑے اور طاقت تیار کرو تاکہ اس طرح تمہارے دشمن اور خدا کے دشمن تم سے ڈریں اور تم پر حملہ کرنے کا خیال اپنے ذہن سے نکال دیں۔“

جیسا کہ ایک فرد یا جاہل معاشرہ جو حصول علم میں کوتاہی کرتا ہے خدا کی طرف سے قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے ”علم و آگاہی“ کیوں حاصل نہیں کی اور اس کی جہالت بطور عذر قبول نہیں کی جاتی اسی طرح ایک کمزور فرد یا معاشرہ بھی جس نے طاقت کے حصول میں کوتاہی کی ہو قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے کیوں طاقت اور قوت حاصل نہ کی اور اس کی کمزوری کو عذر کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔

5 ۔ آزادی و اختیار

ادائیگی فرض کے لئے آزادی اور اختیار بھی ایک شرط ہے یعنی ایک شخص اس وقت ادائیگی فرض کا ذمہ دار ہوتا ہے جب کہ اس کے لئے جبر یا اضطرار کی صورت نہ ہو اگر وہ مجبور یا مضطر ہو تو فرض ساقط ہو جاتا ہے ”جبر“ کی مثال یہ ہے کہ ایک جابر شخص کسی کو دھمکی دے کہ وہ اپنا روزہ توڑ دے اور اگر وہ روزہ نہ توڑے تو وہ اس کو جان سے مار دے گا۔ ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں روزہ رکھنے کا فرض ساقط ہو جاتا ہے یا مثلاً اگر ایک شخص حج کی استطاعت رکھتا ہے اور وہ حج پر جانا چاہتا ہے اب ایک جابر شخص اس کو دھمکی دے کہ اگر وہ حج پر گیا تو اسے یا اس کے متعلقین کو نقصان پہنچائے گا۔

۴۴

حضور نے فرمایا ہے:

رفع ما ستکرهوا علیه (الجامع الصغیر ج 2 ص 16)

”جہاں جبر درمیان میں آ جائے وہاں فرض ساقط ہو جاتا ہے۔“

”اضطرار“ یہ ہے کہ ایک شخص کو کسی فرض کی ادائیگی کے سلسلے میں کسی دوسرے شخص سے دھمکی نہیں ملی بلکہ اس نے خود یہ راستہ انتخاب کیا ہے لیکن اس انتخاب کی وجہ سے وہ سخت ترین حالات ہیں جو اسے پیش آئے ہیں مثلاً اگر ایک شخص کسی بے آب و گیاہ بیابان میں بھوک سے بے حال ہو چکا ہے اور وہاں سوائے مردار کے کوئی اور چیز موجود نہیں جس سے وہ اپنی بھوک مٹا سکے تو ایسی ”حالت اضطرار“ میں مردار کھانے کی حرمت ساقط ہو جاتی ہے۔

”جبر و اضطرار“ کے درمیان فرق یہ ہے کہ ”جبر“ کی صورت میں انسان کو ایک جابر شخص کی طرف سے دھمکی ملتی ہے کہ خلاف شروع کام کرو اور اگر تم نہیں کرو گے تو تمہیں فلاں نقصان پہنچاؤں گا اور وہ مجبور شخص اس بناء پر کہ وہ اس مصیبت اور نقصان سے خود کو نہیں بچا سکتا بحالت مجبوری اپنے فرض کی ادائیگی کے خلاف عمل کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں دھمکی کا کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ کسی شخص کو ایسے سنگین حالات درپیش ہوں جن کی وجہ سے اس کی حالت خراب ہو چکی ہو تو وہ اپنی اس حالت کو دور کرنے کے لئے مجبور ہے کہ اپنے فرض کے خلاف عمل کرے لہٰذا ”جبر“ اور ”اضطرار“ میں فرق کی حسب ذیل دو صورتیں ہیں:

۴۵

1 ۔ ”جبر“ میں برخلاف ”اضطرار“ دھمکی کا دخل ہے۔

2 ۔ ”جبر“ میں انسان کسی آنے والی سخت مصیبت کو روکنے کے لئے چارہ جوئی کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں وہ کسی آئی ہوئی مصیبت کو دور کرنے کے لئے ایسا کرتا ہے۔

لیکن ”جبر“ اور ”اضطرار“ کو کسی فرض کی عدم ادائیگی کی ضروری شرط قرار نہیں دیا جا سکتا یعنی یہ کوئی عمومی اور کلی قانون نہیں ہے بلکہ اولاً یہ اس نقصان کی مقدار سے متعلق ہے۔

ثانیاً اس فرض کی اہمیت سے مربوط ہے جسے انسان اضطرار اور جبر کی وجہ سے ترک کرنا چاہتا ہے۔

ظاہر ہے کہ ”جبر“ یا ”اضطرار“ کو بہانہ بنا کر کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جا سکتا جو دوسروں کے نقصان یا معاشرے کے ضرر یا خود دین اسلام کے نقصان کا سبب بن جائے بعض فرائض ایسے ہیں جن کی ادائیگی کے لئے ہر طرح کا نقصان برداشت کرنا چاہئے۔

درست اعمال کی شرائط

اب تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا تعلق ادائیگی فرض کی شرط سے تھا یعنی انسان ان شرائط کے تحت ہی کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے یعنی ادائیگی فرض کی شرائط سے وہ شرائط مراد ہیں جو اگر موجود نہ ہوں تو انسان پر فرض کی ادائیگی لازم نہیں آتی البتہ بعض شرائط ایسی بھی ہیں جو اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط کہلاتی ہیں۔

جیسا کہ معلوم ہے عبادات اور معاملات کے علاوہ بعض شرعی موضوعات ایسے بھی ہیں جو کچھ شرائط اور خصوصیات کے ساتھ صحیح طریقے سے انجام پا سکتے ہیں لہٰذا درستی اعمال کی شرائط سے مراد وہ شرائط ہیں جو اگر نہ ہوں تو انسان کے اعمال درست تسلیم نہیں کئے جاتے اور ایسے اعمال باطل فرض کئے جاتے ہیں۔ اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط بھی ادائیگی فرائض کی شرائط ہی کی مانند بہت زیادہ ہیں لیکن جس طرح ادائیگی فرض کی شرائط کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اسی طرح سے اعمال کی درستی کی شرائط کی بھی دو قسمیں ہیں: خصوصی شرائط عمومی شرائط۔

۴۶

ہر عمل کی خصوصی شرائط اسی عمل سے مخصوص ہیں اور اسی عمل کے سیکھنے کے دوران یہ شرائط بھی پہچانی جاتی ہیں البتہ عمومی شرائط میں چند چیزیں ہیں جن کی طرف بعد میں اشارہ کیا جائے گا۔

علمائے علم منطق کی اصطلاح میں ادائیگی فرض کی عمومی شرائط اور درستی اعمال کی عمومی شرائط کے مابین ”عموم و خصوص من وجہ“ کی نسبت ہے(پیسے اور سکے کے مابین عموم و خصوص من وجہ کی نسبت ہے بعض سکے پیسہ ہیں بعض سکے پیسہ نہیں اور اسی طرح سے بعض پیسے سکہ نہیں اور بعض پیسے سکہ ہیں) یعنی بعض شرائط ”ادائیگی فرض بھی ہیں“ اور ”شرائط درستی اعمال بھی“۔ بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ نہیں اور بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو نہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ ہیں اور ”درستی اعمال کی شرائط“ کی تین صورتیں ہیں:

بعض شرائط ”درستی عبادات“ اور ”درستی معاملات“ دونوں کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی عبادات“ کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی معاملات“ کی شرائط ہیں۔

وہ امر جو بیک وقت شرائط ادائیگی فرض اور شرط درستی اعمال ہے۔ ”عقل“ ہے اس لئے کہ عقل سے عاری انسان جس پر فرض عائد نہیں ہوتا اس کے اعمال ”عبادات“ سے متعلق ہوں یا معاملات سے درست متصور نہیں ہوں گے مثلاً اگر کوئی پاگل شخص چاہے کسی دوسرے کی نیابت میں حج بجا لائے یا کسی دوسرے کے لئے نماز ادا کرے یا روزہ رکھے یا نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف مقتدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے تو اس کا یہ عمل صحیح نہ ہو گا۔

”عقل“ کی طرح ”طاقت“ بھی شرط ادائیگی فرض ہے اور شرط درستی اعمال بھی ”عدم جبر“ بھی اسی طرح سے ہے یعنی ایک مجبور شخص جس کی ذمہ داری خاص شرائط کے پورا نہ ہونے کی بناء پر ساقط ہو جاتی ہے۔ اگر وہ کوئی معاملہ ”جبر“ کے تحت انجام دے یا مثلاً ”جبر“ کی وجہ سے شادی کرے تو درست نہیں بلکہ باطل متصور ہو گا۔

۴۷

وہ امر جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہے لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں ”بلوغت“ ہے نابالغ لڑکا کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار نہیں لیکن اگر وہ سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچ چکا ہو اور اس قابل ہو کہ ایک بالغ کی طرح کسی شرعی عمل کو درست انجام دے تو اس کا وہ عمل درست ہے اور اسی طرح سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچا ہوا نابالغ لڑکا بھی نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف متقدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے سکتا ہے اور اسی طرح وہ عبادت میں دوسروں کی نیابت بھی کر سکتا ہے البتہ یہ امر مسلم ہے کہ بلوغت ”درست عبادت“ کی شرط نہیں ہے لیکن کیا ”بلوغت“، ”درستی معاملات“ کی بھی شرط ہے یا نہیں؟

بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ بلوغت درستی معاملات کی شرط ہے اور خوب و بد کی پہچان رکھنے والا ایک نابالغ بچہ نہ کسی کی نیابت میں اور نہ ہی اپنے لئے کوئی معاملہ کر سکتا ہے مثلاً خرید و فروخت کرے یا مکان کرایہ پر دے یا خطبہ نکاح پڑھے تو درست نہیں ہو گا اور بعض دوسرے علماء کا نظریہ یہ ہے کہ خوب و بد کی پہچان رکھنے والا نابالغ بچہ اپنے لئے کوئی معاملہ نہیں کر سکتا لیکن دوسروں کی نیابت اور وکالت کر سکتا ہے۔

اسی طرح وہ امور جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں۔ ”علم و آگاہی“ اور ”عدم اضطرار“ ہیں۔ بنابرایں ایک عمل چاہے عبادت ہو یا معاملہ اگر دوسری شرائط کے اعتبار سے مکمل طور پر انجام پائے لیکن عمل کرنے والے کو علم نہ ہو اور اتفاقاً اس کے عمل میں تمام شرائط مکمل ہوں تو اس کا یہ علم درست ہو گا مثلاً ایک شخص ایک ایسے مکان کا مالک ہے جو اسے بہت پسند ہے اور وہ اسے فروخت نہیں کرنا چاہتا لیکن اچانک اسے کوئی حادثہ پیش آتا ہے اور اسے رقم کی سخت ضرورت ہوتی ہے اور وہ ”اضطرار“ کی حالت میں اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کر دیتا ہے تو اس کا یہ معاملہ درست متصور ہو گا۔

۴۸

یا اگر کوئی شخص کسی طرح بھی شادی کرنے پر راضی نہیں ہے لیکن اس کو کوئی ایسی بیماری لاحق ہو جاتی ہے کہ طبیب اس کے لئے شادی ضروری قرار دیتا ہے اور ”اضطرار“ کی حالت میں اس کی شادی ہو جاتی ہے تو اس کی شادی درست متصور ہو گی۔

مذکورہ مباحث سے معلوم ہوتا ہے کہ ”درستی اعمال“ کی شرائط کے لحاظ سے ”جبری“ اور ”اضطراری“ حالات میں ”معاملات“ کی انجام دہی میں فرق ہے۔ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست نہیں لیکن ”اضطراری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست ہے۔

البتہ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست نہیں اور ”ایمرجنسی کی حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست ہے؟ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ ”مجبور اور مضطرب“ دونوں اس لحاظ سے کہ اس عمل کے انجام پر راضی نہیں ہیں باہم برابر ہیں جیسے اگر کوئی شخص کسی دھمکی کی بناء پر اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کرنے پر مجبور ہو جائے اور اس مصیبت کو دور کرنے کے لئے اپنا مکان بیچ دے تو وہ اس واقعہ پر دلی طور پر راضی نہ ہو گا اسی طرح اگر کوئی دوسرا شخص اپنی زندگی کو کسی مصیبت سے بچانے کے لئے (مثلاً اپنی بیماری کے اخراجات کی ضرورت پر) اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے تو وہ بھی ایسی صورت میں قلبی طور پر راضی نہ ہو گا یا اگر کسی شخص کا بیٹا بیمار ہے اور وہ اس کے علاج کے لئے اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرتا ہے لیکن وہ حقیقت میں اس عمل پر راضی نہیں ہے بلکہ وہ اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر بہت زیادہ غمزدہ اور رنجیدہ ہے۔

ایک مجبور انسان اپنے نقصان کو دور کرنے کے لئے مجبوراً کوئی کام کرتا ہے یا کوئی ”مضطر“ نقصان کو روکنے کے لئے کوئی کام کرتا ہے تو دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

اسی طرح ایک ظالم اور جابر شخص ”جبری معاملات“ میں براہ راست ملوث ہوتا ہے ”اضطراری معاملات“ میں کوئی دوسرا شخص ملوث نہیں ہوتا تو ان دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس کے علاوہ غالباً اضطرار کی اصل وجہ دوسروں کی استعماری اور استثماری طریقوں سے مداخلت ہوتی ہے۔ جواب یہ ہے کہ ”مجبور اور مضطرب“ کے معاملات میں شارع اسلام نے مجبور کے معاملات کو باطل قرار دیا ہے اور ”مضطرب“ کے معاملات کو درست دونوں کے احکام میں فرق کی وجہ کچھ اور ہے۔

۴۹

اگرچہ ”مجبور“ کو بھی بحالت کسی عمل کی انجام دہی کی فوری ضرورت پیش آتی ہے اور ”مضطرب“ کو بھی لیکن ”مجبور“ کی فوری ضرورت کا تعلق ”جابر“ کے ”جبر“ کو دور کرنا ہوتا ہے اور مجبور کی ضرورت اس معاملے کے انجام سے پوری ہوتی ہے۔ یہاں قانون مجبور کی مدد کرتا ہے اور ”جابر“ کے ”جبر“ کے خلاف ”مجبور“ کے معاملے کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔

لیکن مضطر کی فوری ضرورت براہ راست اس رقم سے ہے جو وہ اضطراری معاملہ کی صورت میں حاصل کرنا چاہتا ہے اس صورت میں اگر قانون مضطر کی حمایت کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ معاملے کے صحیح اور قانونی ہونے کا اعلان کیا جائے کیوں کہ اگر اس معاملے کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو اس کا نتیجہ ”مضطر“ کے حق میں زیادہ نقصان کی صورت میں نکلے گا۔ مثلاً مندرجہ ذیل بالا مثال میں اگر ”مضطر“ کے مکان کی فروخت کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور معاملے کو باطل قرار دیا گیا تو نہ مکان کی خرید کو ملکیت کا حق حاصل ہو گا اور نہ مکان فروخت کرنے والے کو مطلوبہ رقم ملے گی۔ جس کے نتیجے میں ”مضطر“ اپنے بیٹے کا علاج نہیں کرا سکے گا۔

اسی وجہ سے علمائے فقہ کا نظریہ یہ ہے کہ ”جبر معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دینا خدا کی طرف سے احسان ہے یعنی ”مجبور“ کے فائدے میں ہے لیکن اگر ”اضطراری معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو ”مضطر“ کے حق میں یہ کام احسان ہے نہ اس کے لئے فائدہ مند۔

یہاں ایک اور سوال بھی پیش آتا ہے کیا یہ صحیح ہے کہ دوسرے لوگ ”مضطر“ کے ”اضطرار“ اور پریشانی سے فائدہ اٹھا کر اس کے مال کو مناسب قیمت سے کم قیمت پر خرید لیں اور اس مال کو جائز مال سمجھیں؟ ہرگز نہیں کیا یہ معاملہ جو غیر قانونی ہے صرف حرمت تکلیفی کا باعث ہے؟ اور اصل معاملہ جس طرح ”مضطر“ کے حق میں درست ہے اسی طرح فریق مقابل کے معاملے میں بھی درست ہے؟ یا یہ کہ اس میں کوئی مانع نہیں کہ ایک طرف سے معاملہ درست ہو اور دوسری طرف سے غلط؟ یا دونوں طرف سے معاملہ تو درست ہو لیکن کم قیمت پر مال لینے والے شخص پر لازم ہو جائے کہ وہ مال کی حقیقی قیمت ادا کرے بہرحال ان موضوعات پر بحث ابھی باقی ہے۔

۵۰

وہ امر جو ادائیگی فرض کی شرط تو نہیں لیکن درستی اعمال کی شرط ہے رشد ہے اسلامی قانون میں ہر وہ شخص جو کسی معاشرتی کام کا بیڑا اٹھانا چاہتا ہے مثلاً وہ شادی کرنا چاہتا ہے یا کوئی اور معاملہ کرنا چاہتا ہے یعنی وہ اپنے مال میں سے خرچ کرنا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ دیگر تمام حالت رشد پر بھی پہنچا ہوا ہو یعنی یہ کہ وہ اس کام کے کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو جس کا بیڑا وہ اٹھانا چاہتا ہے۔

اس لئے اسلامی قانون میں صرف بالغ عاقل آگاہ طاقت ور توانا اور مختار ہونا ہی کافی نہیں جو انسان شادی کا ارادہ کر سکے یا اپنے مال میں تصرف کر سکے بلکہ اس کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ وہ شادی کرنے کی معقول صلاحیت بھی رکھتا ہو یعنی لڑکا اور لڑکی کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ شادی کا مفہوم سمجھتے ہوں کہ کیا ہے؟ کس لئے ہے؟ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور یہ کہ شادی ایک فرد کے مستقبل پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟ اور انہیں یہ ادراک ہو کہ اس اہم معاملے میں آنکھ بند کر کے ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا۔

اسی طرح اگر ایک نابالغ لڑکے اور لڑکی کو ورثے میں یا کسی اور ذریعے سے مال و دولت ملی ہو تو اس کا صرف بالغ ہونا ہی کافی نہیں تاکہ اس کا مال اس کو دیا جائے بلکہ ضروری ہے کہ ان دونوں کو آزما لیں اگر بلوغت کے علاوہ وہ فہم و فراست کی حد پر بھی پہنچے ہوئے ہوں یعنی وہ اپنے مال کی حفاظت کرنے اور اس سے مستفید ہونے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں تو ان کا مال ان کو دے دیا جاتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو ان کا شرعی اور قانونی ولی حسب سابق ان کی سرپرستی کو جاری رکھتا ہے۔

وابتلوا الیتامی حتی اذا بلغوا النکاح فان آنستم منهم رشدا فاا دفعوا الیهم اموالهم ( سورہ نساء آیت 6)

”تم یتیموں کو آزما لیا کرو یہاں تک کہ معلوم ہو جائے کہ وہ بالغ ہو چکے ہیں پھر اگر دیکھو کہ وہ رشد پا چکے ہیں تو ان کے اموال ان کے حوالے کر دو۔“

۵۱

11 ۔ اس دنیا کے بعد ایک دوسری دنیا ہے جو ابدی اور جزا و سزا کی دنیا ہے۔

12 ۔ انسان کی روح ایک جاودانی حقیقت ہے۔ انسان قیامت میں صرف ایک زندہ صورت میں ہی محشور نہیں کیا جائے گا بلکہ دنیاوی موت اور قیامت کے درمیان بھی ایک منزل کا فاصلہ ہے جس میں انسان ایک قسم کی زندگی سے جس کو برزخی زندگی کہا جاتا ہے اور جو دنیوی زندگی سے زیادہ قوی اور زیادہ کامل ہے بہرہ مند ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی تقریباً 20 آیتیں انسان کی موت اور قیامت کے درمیان کی مدت اور جسم انسانی کے بوسیدہ ہو کر خاک ہو جانے کی حالت میں بھی انسان کی زندگی پر دلالت کرتی ہیں۔

13 ۔ زندگی اور اس کے بنیادی اصول یعنی انسانیت اور اخلاق کے اصول ابدی اور ناقابل تغیر اصول ہیں اور جو قواعد متغیر اور نسبی ہیں وہ فروعی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ انسانیت کسی زمانے میں کوئی چیز ہو اور دوسرے زمانے میں کوئی دوسری چیز بن جائے جو پہلے کی نسبت بالکل مختلف ہو مثلاً کسی زمانے میں انسانیت ابوذر ہونے میں ہو اور کسی زمانے میں انسانیت معاویہ بن جانے میں ہو بلکہ جن اصولوں کی بناء پر ابوذر ابوذر ہیں اور معاویہ معاویہ موسیٰ موسیٰ ہیں اور فرعون فرعون ہے وہ ہمیشہ رہنے والے اور غیر متغیر اصول ہیں۔

14 ۔ حقیقت بھی ابدی اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ایک علمی حقیقت اگر پورے طور پر حقیقت ہے تو وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور اگر وہ حقیقت بطور کلی خطا ہے تو ہمیشہ کے لئے خطا ہے اگر کسی کا ایک جزو حقیقت ہے اور دوسرا جزو خطا ہے تو جو جزو حقیقت ہے وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور جو جزو خطا ہے وہ ہمیشہ کے لئے خطا ہے اور ہو گا اور جو چیز متغیر و متبدل ہوتی ہے وہ واقعیت ہے اور وہ مادی واقعیت ہے لیکن حقیقت یعنی انسان کے فکری تصورات اور ذہنی افکار واقعیت سے منطبق ہونے اور منطبق نہ ہونے کے لحاظ سے ایک ثابت و قائم اور یکساں حالت رکھتے ہیں۔

۵۲

15 ۔ دنیا اور زمین و آسمان حق و عدالت کے ساتھ قائم ہیں۔

ما خلقنا المسوات والارض وما بینهما الا بالحق ( سورہ احقاف آیت 3)

”ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان چیزوں کو جو ان دونوں کے درمیان ہیں نہیں پیدا کیا مگر حق کے ساتھ۔“

16 ۔ اس دنیا میں الٰہی منت باطل کے خلاف حق کی آخری فتح و کامیابی پر منحصر ہے حق اور اہل حق غالب اور ظفرمند ہیں۔

ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین انهم لهم المنصورون وان جندنا لهم الغالبون

( سورہ الصافات آیت 173)

”ہماری قضا اور ہمارا فیصلہ اس امر پر ہو چکا ہے کہ ہمارے پیغمبر بے شک منصور و ظفرمند ہیں اور بے شک ہماری فوج (لشکر حق) غالب و فاتح ہے۔“

17 ۔ تمام انسان خلقت کے اعتبار سے برابر پیدا کئے گئے ہیں۔ کوئی انسان پیدائش کے اعتبار سے دوسرے انسان پر فوقیت نہیں رکھتا۔ بزرگی اور فضیلت تین چیزوں کی وجہ سے ہوتی ہے:

قلم: ”هل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون ( سورہ زمر آیت 9)

راہ خدا میں جہاد:”فضل الله المجاهدین علی القاعدین اجرا عظیما ( سورہ النساء آیت 95)

تقویٰ و پاکیزگی:”ان اکر مکم عندالله اتقیکم ( سورہ حجرات آیت 130)

۵۳

18 ۔ اصل خلقت کے اعتبار سے انسان بہت سی فطری صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے ان میں دینی اور اخلاقی فطرت بھی ہے انسان کے ضمیر و وجدان کا اصلی سرمایہ اس کی خداداد فطرت ہے نہ کہ طبقاتی محل و مقام یا اجتماعی زندگی یا طبیعت کے ساتھ زورآزمائی کیونکہ یہ سب انسان کے اکتسابی وجدان (ضمیر) میں موثر ہوتے ہیں انسان اپنی انسانی فطرت کے لحاظ سے منفرد ثقافت اور آئیڈیالوجی کا مالک بن سکتا ہے اس کے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ قدرتی ماحول اجتماعی ماحول تاریخی اسباب و عوامل اور اپنے وراثتی عوامل کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہو اور اپنے کو ان سب کی قید سے آزاد کر لے۔

19 ۔ چونکہ ہر فرد بشر فطری طور پر انسان پیدا ہوتا ہے ہر انسان میں (اگرچہ وہ بدترین انسان ہی کیوں نہ ہو) توبہ اور راہ راست کی طرف اس کی واپسی اور نصیحت قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اسی لئے انبیائے الٰہی اس بات پر مامور ہیں کہ حتیٰ بدترین افراد اور اپنے دشمنوں میں سے سخت ترین دشمن کو بھی ابتدائی مرحلے میں وعظ و نصیحت کریں اور اس کی انسانی فطرت کو بیدار کریں پس اگر یہ چیز فائدہ مند نہ ہو تو پھر ان سے مقابلہ و جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔

حضرت موسیٰ کو فرعون کے پاس پہلی مرتبہ جاتے وقت یہ وصیت کی گئی کہ

فقل هل لک الی ان تزکی و اهد یک الی ربک فتخشی ٰ( سورہ النازعات آیت 19)

”کہہ دو کہ کیا تو اپنے کو نجاست کفر سے پاک کرنے پر آمادہ ہے؟ اور کیا میں تجھے تیرے پروردگار کی راہ بتا دوں تاکہ تو اس سے ڈرے؟“

۵۴

20 ۔ انسان ایک حقیقی مرکب اور حقیقی اکائی ہونے کے باوجود قدرتی جمادی اور نباتاتی مرکبات کے برخلاف (کہ ترکیب کی حالت میں جس کے ترکیب دینے والے عناصر جو اپنی ہویت اور مستقل حیثیت کھو دیتے ہیں اور ان کا باہمی تضاد اور ٹکراؤ مکمل طور پر ملائمت اور ہم آہنگی میں تبدیل ہو جاتا ہے انسان کی خلقت میں جو متضاد عناصر استعمال ہوئے ہیں اپنی ہویت کو اور ذاتی حیثیت کو مکمل طور پر نہیں کھو دیتے اور ہمیشہ ایک اندرونی کشمکش انہیں ایک طرف سے دوسری طرف لے جاتی ہے یہ اندرونی تضاد وہی ہے جسے دین کی زبان میں عقل و جہل یا عقل و نفس یا روح و بدن کا تضاد کہا جاتا ہے۔

21 ۔ چونکہ انسان مستقل روحانی جوہر کا مالک ہے اور اس کا ارادہ اس کی روحانی حقیقت کے سرچشمے سے پیدا ہوتا ہے لہٰذا مختار و آزاد ہے کوئی جبر یا کوئی ذاتی احتیاج اس کی آزادی اور اس کے اختیار کو اس سے چھین نہیں سکتی اس لئے وہ اپنا بھی جواب دہ ہے اور اپنے معاشرے کا بھی ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔

22 ۔ انسانی معاشرہ بھی فرد بشر ہی کی طرح ایک حقیقی مرکب ہے اور اپنے قوانین روایات اور نظام رکھتا ہے اور اپنی مجموعی حیثیت میں پوری تاریخ میں کبھی کسی خاص انسان کے ارادے کا تابع نہیں رہا ہے اور اپنے وجود میں (فکری نوعی سیاسی اور اقتصادی گروہوں پر مشتمل متضاد عناصر کے باوجود مکمل طور پر اپنی ہویت کو نہیں کھویا ہے۔ سیاسی اقتصادی فکری اور اعتقادی جنگ کی صورت میں مقابلہ آرائی اور بالآخر رشد و ہدایت پانے والے انسانی کمال پر پہنچنے والے انسانوں کی بلند و برتر خواہشات اور میلانات اور حیوان صفت انسانوں کی پست خواہشات کے درمیان جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک معاشرہ انسانیت کے بام و عروج تک نہیں پہنچ جاتا۔

23 ۔ خداوند عالم کسی انسان یا کسی قوم کی سرنوشت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ آدمی یا وہ قوم خود اپنے حالات کو نہ بدلے۔

ان الله لا یغیر مابقوم حتی یغیروا ما با نفسهم ( سورہ رعد آیت 11)

۵۵

24 ۔ خداوند عالم جو انسان اور سارے جہان کا پیدا کرنے والا ہے غنی بالذات ہے تمام جہات سے بسیط ہے کامل مطلق ہے کسی چیز کا منتظر نہیں ہے اس میں حرکت و ارتقاء محال ہے اس کی صفات اس کی عین ذات ہیں ساری دنیا اسی کی بنائی ہوئی ہے۔ ساری سطح زمین اسی کے ارادے و مشیت کی مظہر ہے اس کے ارادے کا کوئی مقابل نہیں ہے۔ ہر ارادہ اور مشیت اس کے ارادے کے تابع ہے اس کے برابر نہیں ہے۔

25 ۔ چونکہ دنیا کا صدور ایک مبداء سے ہوا ہے اور اسے ایک متناسب اور ہم آہنگ رفتار میں اسی کی طرف واپس جانا ہو گا اور چونکہ مدبر اور باشعور قوت کی تدبیر کے تحت اپنی حرکت اور رفتار کو جاری رکھے ہوئے ہے لہٰذا ایک قسم کی وحدت کی حامل ہے ایسی وحدت جو زندہ موجود کی عضوی وحدت سے مشابہ ہے۔

(ج) آئیڈیالوجی کے لحاظ سے اسلام کی خصوصیات

اسلام کی امتیازی خصوصیات کا بیان آئیڈیالوجی کے لحاظ سے خاص کر آئیڈیالوجی کی وسعت کے لحاظ سے خواہ کلی مشخصات کے اعتبار سے ہو یا آئیڈیالوجی کی ہر شاخ کی خصوصیات کے لحاظ سے بہت مشکل ہے پھر بھی ہم اس اصول کی بناء پر کہ اگر کسی چیز کو مکمل طور پر حاصل نہ کیا جا سکے تو جتنا حاصل کیا جا سکے اسی کو لے لینا چاہئے جو کچھ اس موقع پر فی الحال ہمارے لئے ممکن ہے اس کی ایک فہرست پر نظر ڈال رہے ہیں:

۵۶

1 ۔ ہمہ گیر حیثیت اور کمال و ارتقاء دوسرے ادیان کے مقابلے میں اسلام کے من جملہ امتیازات میں سے ہے اور زیادہ بہتر الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ دین خدا کی ابتدائی صورتوں کی نسبت اس کی مکمل اور جامع صورت کی خصوصیات میں سے اس کی ایک جامعیت اور ہمہ گیر حیثیت ہے۔ اسلام کے چار مآخذ یعنی قرآن سنت اجماع اور عقل اس امر کے لئے کافی ہیں کہ علمائے امت ہر موضوع کے بارے میں اسلامی نظریہ معلوم کر سکیں۔ علمائے اسلام کسی موضوع کو بلا حکم نہیں سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک اسلام میں ہر چیز کے لئے ایک حکم موجود ہے۔

2 ۔ اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت:

اسلام کلیات کو اس طرح سے منظم کیا گیا ہے کہ ان میں اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے۔ اجتہاد یعنی کلی و ثابت اصول کو جزوی اور بدلتے رہنے والے مسائل و امور پر منطبق کرنا اسلامی کلیات کو اس طرح منظم شکل دینے کے علاوہ کہ جس کی وجہ سے ان میں اجتہاد کو قبول کرنے کی خاصیت پیدا ہو گئی ہے اسلامی سرچشمہ اور مآخذوں کی فہرست میں عقل کی موجودگی نے حقیقی اجتہاد کے کام کو آسان کر دیا ہے۔

۵۷

3 ۔ سہولت اور آسانی:

رسول اکرم کے الفاظ میں اسلام ”شریعت سمحہ سہلہ“( 1) ہے۔ ہاتھ پاؤں باندھ دینے والی مشقت میں ڈالنے والی بے حد پریشان کرنے والی تکالیف شرعیہ عائد نہیں کی گئی ہیں۔

ماجعل علیکم فی الدین من حرج

( سورہ حج آیت 87)

”خدا نے تمہارے لئے دین میں تنگی اور دشواری قرار نہیں دی ہے اور اس بناء پر کہ ”سمحہ“ (درگذر کے ہمراہ ہے) جہاں بھی اس حکم شرع کا انجام دینا تنگی و دشواری اور شدید زحمت کا باعث ہو وہاں وہ ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے۔

4 ۔ زندگی کی طرف میلان و رغبت:

اسلام زندگی کی طرف مائل اور راغب کرنے والا دین ہے نہ کہ زندگی سے دور کرنے کا باعث اور اسی لئے اس نے رہبانیت یعنی ترک دنیا سے سختی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ پیغمبر اسلام فرماتے ہیں:

لا رہبانیۃ فی الاسلام

”اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔“

پرانے معاشرے میں دو چیزوں میں سے ایک چیز ہمیشہ موجود رہی ہے یا صرف آخرت کی طرف رغبت اور دنیا سے فرار یا صرف دنیا کی طرف اور آخرت سے گریز (تمدن اور ترقی و توسیع) اسلام نے انسان میں زندگی کی طرف رغبت کے ساتھ ساتھ آخرت کا شوق بھی رکھا ہے۔ اسلام کی نظر میں آخرت کا راستہ زندگی اور اس کی ذمہ داریوں کے درمیان سے گزرتا ہے۔

۵۸

5 ۔ اجتماعی ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام اجتماعی ماہیت کے حامل ہیں یہاں تک کہ وہ احکام جو زیادہ سے زیادہ انفرادی ہیں جیسے نماز روزہ وغیرہ اس میں بھی ایک اجتماعی اور سماجی حسن پیدا کر دیا گیا ہے۔ اسلام کے بہت سے اجتماعی سیاسی اقتصادی اور عدالتی قوانین و احکام اسی خاصیت کے حامل ہیں جیسا کہ جہاد اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کا تعلق اسلام اور اجتماعی ذمہ داری سے ہے۔

6 ۔ انفرادی حقوق اور آزادی:

اسلام جہاں ایک اجتماعی دین ہے اور پورے معاشرے پر اس کی نظر رہتی ہے اور فرد کو معاشرہ کا ذمہ دار سمجھتا ہے وہاں فرد کی آزادی اور اس کے حقوق سے چشم پوشی بھی نہیں کرتا اور فرد کو فرعی حیثیت نہیں دیتا بلکہ اسلام نے فرد کے لئے سیاسی اقتصادی قانونی اور اجتماعی حقوق رکھے ہیں۔

سیاسی لحاظ سے مشورے اور انتخاب کا حق فرد کو حاصل ہے اقتصادی لحاظ سے اپنے کام کے ماحاصل اور حق محنت پر مالکیت کا حق معاوضہ اور مبادلہ صدقہ وقف ہبہ اجارہ مزارعہ اور مضاربہ وغیرہ کا حق اپنی جائز ملکیت میں رکھتا ہے قانونی لحاظ سے اسے دعویٰ دائر کرنے اپنا حق ثابت کرنے اور گواہی دینے کے حقوق دیئے گئے ہیں اور اجتماعی لحاظ سے اسے کام اور جائے سکونت کے انتخاب کا حق تحصیل علم میں مضمون کے انتخاب وغیرہ کا حق اور گھریلو زندگی میں اپنی شریک حیات کے انتخاب کا حق حاصل ہے۔

۵۹

7 ۔ معاشرتی اور اجتماعی حق کی انفرادی حق پر فوقیت:

جس جگہ اجتماعی اور انفرادی حق کے درمیان تزاحم اور تضاد پیدا ہوتا ہے وہاں اجتماعی اور معاشرے کا حق انفرادی حق پر مقدم ہوتا ہے اسی طرح عام حق خاص حق پر فوقیت رکھتا ہے۔ البتہ ان موارد کی تشخیص خود حاکم شرع کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

8 ۔ شوریٰ کا حصول:

اجتماعی نظام میں اسلامی نقطہ نظر سے شوریٰ کی حقیقت اپنی جگہ پر مسلم ہے۔ جن مقامات پر اسلام کی طرف سے کوئی صریح حکم نہیں آیا ہے وہاں مسلمانوں کو چاہئے کہ اجتماعی غور و فکر اور باہمی مشورے سے عمل کریں۔

9 ۔ مضر حکم کا نہ ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام جو مطلق اور عام ہیں اس حد تک ان پر عمل جائز ہے جہاں تک کسی ضرر و نقصان کا باعث نہ ہو قاعدہ ضرر ایک کلی قاعدہ ہے جو ہر اس قانون کے اجراء کے موقع پر ”ویٹو“ یعنی ”تنسیخ“ کا حق رکھتا ہے جب وہ ضرر و نقصان کا باعث ہو۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

حبیب دلیرانہ انداز میں میدان کار زار میں یہ اشعار پڑھ رہے تھے :

أنا حبیب و أب مظاهر

فارس هیجاء وحرب تسعر

أنتم أعدّ عدّ ة و أکثر

و نحن أوفی منکم وأصبر

و نحن أعلی حجة وأظهر

حقاً و أتقیٰ منکم و أعذر

میں حبیب ہوں اورمیرے باپ مظاہر ہیں ۔ جب آتش جنگ بر افروختہ ہوتی ہے تو ہم بڑے بہارد اورمرد میدان ہیں ۔ تم اگر چہ تعداد میں بہت زیادہ ہو لیکن وفاداری میں ہم تم سے بہت آگے ہیں اور مصیبتوں میں بہت صابر ہیں ۔ہم حجت و برہان میں سربلند ،حق و حقیقت میں واضح تر اورتقوا کے میدان میں تم سے بہت بہترہیں اور ہم نے تم پر حجت تمام کردی۔پھر فرمایا :

أقسم لو کنا لکم أعداد

أو شطرکم ولیتم اکتاداً

یا شرقوم حسباًو آدا

خدا کی قسم اگر ہم تعداد میں تمہارے برابر ہوتے یا تم سے کچھ کم ہوتے توپھر دیکھتے کہ تمہاری جماعتوں کو کتنے پیچھے کردیتے ،اے حسب ونسب کے اعتبار سے بدترین لوگو!

۳۴۱

اس کے بعد آپ نے بڑا سخت جہاد کیا۔جنگ کے دوران بنی تمیم کے ایک شخص بدیل بن صریم نے آپ پر حملہ کیا اور ایک نیزہ مار ا جس سے آپ زمین پر گر پڑے اور چاہا کہ اٹھیں لیکن فوراً حصین بن تمیم نے آپ کے سر پرتلوارسے وار کردیا۔ آپ زمین پر گرپڑے، تمیمی نیچے اترا اوراس نے آپ کاسر قلم کردیا۔(١) و(٢)

____________________

١۔ابو مخنف نقل کرتے ہیں کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے ۔

٢۔ جب بدیل نے سر کاٹ لیا تو حصین اس سے بولا : میں بھی اس کے قتل میں شریک ہو ں ۔ بدیل بولا : خدا کی قسم میرے علاوہ کسی دوسرے نے اسے قتل نہیں کیا ہے تو حصین نے کہا اچھا یہ سر مجھے دے دو تاکہ میں اسے گھوڑے کی گردن میں لٹکادو ں تاکہ لوگ اسے دیکھ لی ں اور جان لی ں کہ میں بھی اس کے قتل میں شریک ہو ں پھر تم اسے لے کر عبیداللہ بن زیاد کے پاس چلے جانا۔ وہ جو تمہیں اس کے قتل پر عطایا اور بخشش سے نوازے گا مجھے اس کی کوئی حاجت نہیں ہے لیکن بدیل نے اس سے انکار کیا تو پھر ان کی قوم نے اس مسئلہ میں ان دونو ں کے درمیان صلح کرائی جس کے نتیجے میں اس نے حبیب بن مظاہر کا سر حصین بن تمیم کو سونپ دیا اور حصین

اپنے گھوڑے کی گردن میں جناب حبیب کا سر لٹکائے پوری فوج میں چکر لگانے لگا پھر اس کے بعد یہ سر بدیل کو لوٹا دیا جب یہ لوگ کوفہ لوٹے تو بدیل نے اپنے گھوڑے کے سینے سے حبیب کے سرکو لٹکا دیا اوراسی حال میں ابن زیاد کے محل میں حضوری دی ۔

قاسم بن حبیب جوابھی جوان تھے انہو ں نے یہ منظر دیکھا تواس سوار کے ساتھ ساتھ ہوگئے اوراسے کسی طرح نہیں چھوڑرہے تھے تو بدیل مشکوک ہوگیااور بولا : اے بچے تجھے کیا ہوگیا ہے کہ میرا پیچھا پکڑے ہے ؟ قاسم نے کہا : یہ سر جو تمہارے ساتھ ہے یہ میرے بابا کا سر ہے۔ کیا تم مجھ کو عطا کروگے تاکہ میں اسے دفن کردو ں ؟ بدیل: اے بچے امیر اس سے راضی نہ ہوگا کہ یہ سر دفن کیا جائے۔ میں تو یہ چاہتا ہو ں کہ ان کے قتل پر امیر مجھے اس کی اچھی پاداش دے۔اس نوجوان بچے نے جواب دیا : لیکن خدا اس پر تمہیں بہت برا عذاب دے گا ،خدا کی قسم تم نے اپنی قوم کے بہترین شخص کو قتل کردیا اور پھر وہ بچہ رونے لگا ۔ یہ واقعہ گزر گیا اور روزگار اسی طرح گزرتے رہے یہا ں تک کہ جب مصعب بن زبیر نے'' با جمیرا'' میں جنگ شروع کی تو قاسم بن حبیب بھی اس کے لشکر میں داخل ہوگئے تو وہا ں آپ نے اپنے باپ کے قاتل کو ایک خیمے میں دیکھا۔ جب سورج بالکل نصف النہار پر تھا آپ اس کے خیمے میں داخل ہوئے وہ سورہا تھا تو آپ نے تلوار سے اس پر وارکر کے اس کو قتل کردیا۔ (طبری ،ج٥،ص٤٤٠)

۳۴۲

جب حبیب بن مظاہر شہید ہوگئے تو حسین علیہ السلام کے دل پربڑا دھکا لگا؛ آپ نے فرمایا : ''أحتسب نفس وحماة أصحاب'' خود کو اور اپنی حمایت کرنے والے اصحاب کے حساب کو خدا کے حوالے کرتا ہوں اور وہیں ذخیرہ قرار دیتاہوں ۔

حر بن یزید ریاحی کی شہادت

پھر حر رجز پڑھتے ہوئے سامنے آئے

ان أنا الحر ومأ وی الضیف

أضرب ف أعراضهم با لسیف

عن خیر من حلّ منیٰ والخیف

أضربهم ولا أریٰ من حیف

جان لو کہ میں حر ہوں اور مہمانوں کو پناہ دینے والا ہوں ، میں اس مہمان کی آبرو کی حفاظت کے لئے تلوار سے وار کروں گا، یہ وہ ہیں جوحل و منی و خیف سے بہتر ہیں ، میں ان لوگوں پر حملہ کروں گااور اسے ذرہ برابر بے عدالتی نہیں سمجھتا۔آپ یہ اشعار بھی پڑھ رہے تھے :

آلیت لا أقتل حتی أقتلا

ولن أصاب الیوم الا مقبلاً

أضربهم با لسیف ضرباً مقصلا

لا ناکلا عنهم ولا مهلّلا

میں قسم کھاتا ہوں کہ میں اس وقت تک نہیں قتل ہوں گا جب تک کہ دشمنوں کو قتل نہ کرلوں اور آج کوئی زخم مجھے نہیں لگے گا مگر یہ کہ سامنے سے ،میں ان لوگوں پر تلوار کا بڑا زبردست وار کروں گا جس کا کام فقط کاٹنا ہوگا نہ تو میں اس سے باز آؤں گا نہ پیچھے ہٹوں گا اورنہ مہلت دوں گا ۔

۳۴۳

حر کا دلاورانہ جہاد اپنے اوج و شباب پر تھا کہ زہیر بن قین بھی میدان کارزار میں اتر آئے اور دونوں نے مل کر گھمسان کی جنگ کی۔ جب ان میں سے ایک قلب لشکر پر حملہ کرتا اور وہ دشمنوں کے نرغے میں گھر جاتا تو دوسرا شعلہ جنگ کو برافروختہ کرکے دشمنوں پر عرصہ حیات تنگ کردیتا یہاں تک کہ اپنے ساتھی کو نجات دلادیتا ۔ یہ سلسلہ کچھ دیر تک جاری رہا اور جنگ کا بازارگرم رہا کہ یکایک پیدلوں کی فوج میں سے ایک نے حر بن یزید پر سخت حملہ کردیا جس کے نتیجے میں آپ کی شہادت واقع ہوگئی۔ (آپ پر خدا کادرود و سلام ہو!)

نماز ظہر

پھر امام حسین علیہ السلام نے ان لوگوں کے ہمراہ نماز خوف ادا کی(١) درحالیکہ سعید بن عبداللہ حنفی پیش قدم ہوکر امام علیہ السلام کے آگے آگئے لیکن دشمنوں نے آپ کو تیر کے نشانے پر لے لیا اور ہر دائیں بائیں سے تیر آنے لگے۔ تیروں کا یہ مینہ مسلسل برستا رہا یہاں تک کہ آپ زمین پر گر کر شہید ہوگئے۔ (رحمة اللہ علیہ)

زہیر بن قین کی شہادت

سعید بن عبداللہ حنفی کی شہادت کے بعد زہیر میدان میں آئے ۔آپ نکلتے وقت امام حسین کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہہ رہے تھے :

____________________

١۔ شاید یہ نماز قصر ہو نہ کہ نماز خوف ، شیخ مفید نے اپنی روایت میں فقط نماز کا تذکرہ کیا۔(ارشاد ،ص ٢٣٨ ، تذکرہ ، ص ٥٢ ٢)

۳۴۴

أقدم هدیت هادیاً مهدیاً

فا لیوم تلقی جدک النبيّا

وحسنا و المرتضی عليّاً

وذا الجناحین الفتی الکمیا

واسد اللّٰه الشهید الحیا

اے راہبر ہدایت اورہادی برحق آگے بڑھیئے آج آپ اپنے جد نبی ، بھائی حسن ، اور بابا علی مرتضی سے ملاقات کریں گے۔آج آپ کی ملاقات جعفر طیار سے ہوگی جنہیں دو پر د یئے گئے ہیں اور شیر خدا و شہید زندہ حمزہ کا دیدار ہوگا ۔

پھر آپ نے بڑا سخت جہاد کیا وقت جہاد آپ یہی کہے رہے تھے :

أنا زهیر وأنا بن القین

أذودهم با لسیف عن حسین(١)

میں زہیر ہوں ، میں قین کا فرزند ہوں ،میں تلوار سے ان کے مقابلہ میں حسین کا دفاع کروں گا؛ ناگہاں کثیر بن عبداللہ شعبی اور مھاجر بن اوس نے مل کر ایک سخت حملہ میں آپ کو شہید کر ڈالا۔ (رحمة اللہ علیہ)

نافع بن ہلال جملی کی شہادت(٢)

آپ نے اپنے ہر تیر پر اپنا نام لکھ لیا تھا اور نام لکھے تیر کو پھینکا کرتے تھے اور یہ کہا کرتے تھے: ''أناا لجملی'' میں جملی ہوں '' أناعلیٰ دین علی'' میں علی علیہ السلام کے دین پر قائم ہوں ۔عمربن سعد کے لشکر میں زخمیوں کو چھوڑ کر آپ نے ١٢ لوگوں کو قتل کیا لیکن پھر آپ خود مجروح ہوگئے اور آپ کے دونوں

____________________

١۔ سبط بن جوزی نے اس کی روایت کی ہے۔(تذکرہ، ص ٢٥٣، طبع نجف)

٢۔آپ وہی ہیں جس نے کوفہ کے راستہ میں اپنا گھوڑا طرماح بن عدی کے ہاتھو ں امام علیہ السلام کے پاس روانہ کیا تھا۔(ج ٥، ص ٤٠٥) جب امام اور اصحاب امام علیہ السلام پر پیاس کی شدت ہوئی تو امام نے عباس بن علی علیہما السلام کو بلایا اورآ پ کو ٣٠ سوارو ں اور ٢٠ پیدلو ں کے ہمراہ روانہ کیا، ان کے آگے نافع بن ہلال موجود تھے تو عمر وبن حجاج نے آپ کو مرحبا کہتے ہوئے کہا : پانی پی لو، تمہیں پانی پینا مبارک ہو تو آپ نے کہا نہیں ، خدا کی قسم میں اس میں سے ایک قطرہ بھی نہیں پی سکتا جب کہ حسین ابھی پیاسے ہیں ۔ (طبر،ی ج٥، ص ٤١٢) اور جب علی بن قرظہ ، عمر بن قرظہ کا بھائی حسین علیہ السلام پر حملہ آور ہوا تو نافع بن ہلال مرادی نے اس پر اعتراض کیا اور اس کو ایک ایسا نیزہ مارا کہ وہ وہیں ڈھیر ہوگیا ۔

۳۴۵

بازوٹوٹ گئے تو آپ کو شمر بن ذی الجوشن اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اسیر کرتے ہوئے کھینچتا ہوا عمربن سعد کے پاس لے کر آیا جب کہ آپ کی ڈاڑھی سے خون جاری تھا۔ عمر بن سعد نے آپ سے کہا : وائے ہو تجھ پر اے نافع ! کس چیز نے تمہیں برانگیختہ کیا کہ تم اپنے ساتھ ایسا سلوک کرلو تو نافع بن ہلال جملی نے جواب دیا : میرے رب کو معلوم ہے کہ میرا ارادہ کیا ہے، خدا کی قسم میں نے تمہارے ١٢لوگوں کو قتل کیا ہے، یہ میرے ہاتھوں مجروح اور زخمی ہونے والوں کے علاوہ کی تعداد ہے۔میں اس کوشش پر اپنی ملامت نہیں کرتا ۔اگر میرے بازواور میری کلائی سلامت رہتی تو تم لوگ مجھے اسیر نہیں کرپاتے ۔

شمرنے عمر سعد سے کہا : اللہ آپ کو صحیح و سالم رکھے، اسے قتل کردیجئے ۔

عمربن سعدنے کہا : اگر تم چاہتے ہو تو قتل کردو، پس شمرنے فوراً نیام سے تلوار نکال لی۔

نافع نے اس سے کہا : خدا کی قسم اگر تو مسلمان ہوتا تو تیرے اوپر یہ بڑا سخت ہوتا کہ تو خدا سے اس حال میں ملاقات کرے کہ ہمارا خون تیری گردن پرہو۔خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہماری شہادت اپنی بدترین مخلوق کے ہاتھوں قرار دی۔ یہ سن کر شمر نے آپ کو فوراً قتل کردیا۔(آپ پر خدا کا درود و سلام ہو)

۳۴۶

غفاری برادران

جب اصحاب امام حسین علیہ السلام نے دیکھا کہ وہ اس بات پر قادر نہیں ہیں کہ آپ کی حفاظت کر سکیں تو ان لوگوں نے آپ کے قدموں میں جان دینے کا عمل شروع کردیا اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے لگے۔اسی شہادت کے میدان میں سبقت کے لئے عزرہ غفاری کے دو فرزند عبداللہ اور عبدالرحمن آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:

''یا أباعبداللّٰه! علیک السلام، حازنا العدوّ الیک ،فا حببنا أن نُقتل بین یدیک و ندفع عنک'' اے ابو عبداللہ! آپ پر سلام ہو ،دشمن کی فوج نے آپ کو اپنے گھیرے میں لے لیا اور ہم سب اس کے نرغے میں ہیں لہٰذا ہم یہ چاہتے ہیں کہ آپ کے سامنے ان سے جنگ کریں تاکہ آپ کی حفاظت کر سکیں اور آپ کا دفاع کریں ۔

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: ''مرحباً بکما ادنوامنی'' تم دونوں قابل قدر ہو، میرے نزدیک آؤ تو وہ دونوں امام علیہ السلام کے قریب آئے اور اس کے بعد میدان جنگ کی طرف روانہ ہوگئے۔ ان میں سے ایک یہ کہہ رہا تھا :

قد علمت حقا بنو غفار

وخندف بعد بنی نزار

لنضر بنّ معشر الفجار

بکل عضب صارم بتّار

یا قوم ذودوا عن بن الأحرار

بالمشرف والقناالخطّار

بنی غفار بخوبی جانتے ہیں ، نیز نسل خندف اور خاندان نزار آگاہ ہوجائیں کہ ہم گروہ فجار کو شمشیر براں سے ضرور ماریں گے۔ اے لوگو! فرزندان حریت وآزادی کی حمایت میں اپنے نیزوں اور شمشیروں سے دفا ع کرو۔

ا س کے بعد ان دونوں نے شدید جنگ کی یہاں تک کہ شھید ہوگئے ۔(ان پراللہ کی رحمت ہو)

۳۴۷

قبیلہ جابری کے دو جوان

اس کے بعد قبیلۂ جابری کے دوجوان حارث بن سُریع اور مالک بن عبد بن سریع جو ایک دوسرے کے چچا زاد اورمادری بھائی تھے امام حسین علیہ السلام کے پاس آئے اور آپ سے نزدیک تر ہوئے در حالیکہ وہ گریہ کر رہے تھے ۔امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: ''أی ابن اخ مایبکیکما ؟ فواللّٰہ أنّ لأرجوأن تکونا قریر عین عن ساعة '' اے جان برادر! کس چیزنے تم دونوں کو رلادیا؟ میں امید کرتا ہوں کہ تھوڑی ہی دیر میں تمہاری آنکھوں کو ٹھنڈک ملے گی ۔

ان دونوں نے جواب دیا : خدا ہم کو آپ پر نثار کرے! نہیں خدا کی قسم ہم لوگ اپنے آپ پر آنسو نہیں بہارہے ہیں ۔ ہم لوگ تو آپ پر گریہ کناں ہیں کہ آپ چاروں طرف سے گھیر لئے گئے ہیں اور ہمارے پاس آپ کی حفاظت کے لئے کوئی قدرت نہیں ہے۔یہ سن کر امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :''فجزاکمااللّٰه یا ابن اخ بوجدکما من ذالک و مواساتکما ایا بأنفسکما أحسن جزاء المتقین '' اے جان برادر !خدا تم دونوں کو میرے ساتھ اس مواسات کی بہترین جزادے ،ایسی جزا و پاداش جو متقین اور صاحب تقویٰ افراد کو دیتا ہے ۔

پھر یہ جابری جوان امام حسین علیہ السلام کے پاس آئے اور آپ کی طرف ملتفت ہوکر عرض کیا : ''السلام علیک یا بن رسول اللّٰہ''اے فرزند رسول خدا آپ پر سلام ہو! امام علیہ السلام نے جواب دیا: ''علیکماالسلام ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ'' اس کے بعد ان دونوں نے جم کرجہاد کیا یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔(ان دونوں پر خدا کی رحمت ہو)

۳۴۸

حنظلہ بن اسعد شبامی کی شہادت

اس کے بعد حنظلہ بن اسعد شبامی آئے اور امام حسین علیہ السلام کے سامنے کھڑے ہو کر با آواز بلند کہنے لگے:''يَاْقَوْمِ اِنِّیْ اَخَاْفُ عَلَيْکُمْ مِثْلَ يَوْمِ الْاَحْزَاْبِ مِثْلَ دَاْبِ قَوْمِ نُوْحٍ وَعَادٍ وَ ثَمُوْدَ وَالَّذِيْنَ مِنْ بَعْدِهِمْ ( وَمَا اللّهُ يُرِیدُْ ظُلْماً لِلْعِبَادِ وَ يَا قَوْمِ اِنِّی اَخَافُ عَلَيْکُمْ يَوْمَ التَّنَادِ يَوْمَ تُوَلّْوْنَ مُدْبِرِيْنَ مَالَکُمْ مِنَ اللّٰهِ مِنْ عَاصِمِ وَمَنْ يُضْلِلِ اللّهُ فَمَالَه مِنْ هَاد ) ٍ (١) ( یا قوم لا تقتلوا حسینا فیسحتکم اللّٰه بعذاب وَقَدْ خَاْبَ مَنِ افْتَرَی'' ) ٰ (٢)

اے میری قوم کے لوگو! مجھے تمہاری نسبت اس دن کا اندیشہ ہے جو بہت سی قوموں کو نصیب ہوا۔(کہیں تمہارا بھی ایسا ہی حال نہ ہو) جیسا نوح، عاد ،ثمود اور ان کے بعد آنے والی قوموں کا حال ہوا، اور خدا تو اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا ، اے میری قوم مجھے تمہاری نسبت قیامت کے دن کا اندیشہ ہے جس دن تم پیٹھ پھیر کر (جہنم کی طرف) چل کھڑے ہوگے تو خدا (کے عذاب) سے تم کو کوئی بچانے والا نہ ہوگا اور جسے خدا گمراہی میں چھوڑ دے اس کا کوئی رو براہ کرنے والا نہیں ۔اے قوم حسین کو قتل نہ کروورنہ خدا تم پرعذاب نازل کرے گا اور یاد رکھو جس نے افترا پردازی کی وہ نامراد رہا ۔

حنظلہ کے اس قرآنی سخن کے بعد امام حسین علیہ السلام نے آپ سے فرمایا :''یا بن اسعد ! رحمک اللّٰه ! انهم قد استوجبو ا العذاب حیث رد وا علیک ما دعوتهم الیه من الحق ونهضوا الیک لیستبیحوک و أصحابک فکیف بهم الأن وقد قتلوا أخوانک

____________________

١ ۔سورہ غافر ٣١ و ٣٢

٢۔ سورہ طہ ٦١

۳۴۹

الصالحین '' اے فرزنداسعد!خدا تم پر رحمت نازل کرے ان گمراہوں نے جب سے تمہاری دعوت حق کو ٹھکرادیا اورتمہارے ساتھیوں کی خونریزی کی اسی وقت سے در د ناک عذاب کے مستحق ہوگئے ۔ذراتصور کرو کہ اب ان کا حال کیاہوگا جب کہ ان لوگوں نے تمہارے نیک اورصالح بھائیوں کو قتل کردیاہے!

ابن سعد نے کہاآپ نے سچ فر مایا،میں آپ پر نثار ہو جاؤں ،آپ مجھ سے بہتر سمجھتے ہیں اور اس کے زیادہ حقدارہیں ۔کیامیں آخرت کی طرف نہ جاؤں اور اپنے بھائیوں سے ملحق نہ ہوجاؤں ؟

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:''رح الی خیر من الدنیا ومافیها والی ملک لایبلی'' کیوں نہیں ،جاؤ اس چیز کی طرف جو دنیااور اس کی سار ی چیزوں سے بہتر ہے اوراس مملکت کی طرف روانہ ہوجاؤ جوکبھی فنا ہونے والی نہیں ہے ۔

ابن اسعد نے کہا:''السلام علیک یااباعبداللّٰه ،صلی اللّٰه علیک وعلی أهل بیتک وعرف بینناو بینک '' سلام ہوآپ پر اے ابو عبداللہ،آپ پر اور آپ کے اہل بیت پر خدا کا درود و سلام ہو نیزوہ ہمارے اور آپ کے درمیان آشنائی قائم فرمائے ۔

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : آمین آمین ۔

اس کے بعد حنظلہ شبامی میدان قتال میں آئے اور خوب جہاد کیا یہاں تک کہ شہید ہو گئے ۔(رحمة اللہ علیہ)

۳۵۰

عا بس بن ابی شبیب شاکری اور ان کے غلام شوذب کی شہادت(١)

اس کے بعد عابس بن ابی شبیب شاکری آئے، ان کے ہمراہ ان کے باپ شاکر کے غلام شوذب بھی تھے۔آپ نے اس سے پوچھا :''یا شوذب ! مافی نفسک أن تصنع؟ '' اے شوذب تیرے دل میں کیا ہے ؟ تو کیا کرنا چاہتا ہے ؟ اس نے کہا : میرا ارادہ تو یہی ہے کہ آپ کے ہمراہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسہ کی خدمت میں جنگ کروں یہاں تک کہ قتل ہوجاؤں ۔

یہ سن کر شوذب آگے بڑھے اورامام حسین علیہ السلام کو سلام کیا پھر میدان میں آئے اور خوب جہاد کیا یہاں تک کہ شہید ہوگئے ۔(ان پرخدا کی رحمت ہو)

پھر عابس بن ابی شبیب شاکری نے کہا :''یاأباعبداللّٰه ! أما واللّٰه ما أمسی علی وجه الأرض قریب ولا بعید أعزعلّ وأحب الیّ منک ولو قدرت علی أن أدفع عنک الضیم والقتل بشیء أعز علّ من نفس و دم لعملته، السلام علیک یاأباعبداللّٰه اشهداللّٰه انی علی هدیک و هد أبیک''

اے ابو عبداللہ ! خدا کی قسم روئے زمین پر کوئی نزدیکی اور دوری رشتہ دار آپ سے زیادہ مجھے عزیز و محبوب نہیں ہے۔ اگر میں اس پر قادر ہوتا کہ اس ظلم و دباؤ اور قتل کو کسی ایسی چیز کے ذریعے آپ سے

____________________

١۔ یہ وہی عابس ہیں جو کوفہ میں جناب مسلم بن عقیل کے زبانی امام حسین علیہ السلام کا خط پڑھنے کے بعد اٹھے تھے اور حمد و ثنائے الٰہی کے بعد کہا تھا : اما بعد ، میں آپ کو تما م لوگو ں کے بارے میں کوئی خبر نہیں دے رہا ہو ں ،نہ ہی یہ جانتا ہو ں کہ ان کے عابس نے کہا : تم سے یہی توقع تھی، اب اگر تم جنگ سے منصرف نہیں ہونا چاہتے ہوتو تم آگے بڑھ کر ابوعبداللہ کے سامنے جاؤ تاکہ وہ تمہیں اپنے دیگر اصحاب کی طرح دیکھی ں اورتمہارا حساب ان کی طرح خدا کے حوالے کردی ں اور میں بھی تمہیں خدا اور ان کے حساب میں ڈال دو ں کیو ں کہ اگر اس وقت میرے پاس کوئی اور ہو تاجو تم سے زیادہ مجھ سے قریب ہوتا تو مجھے اس بات کی خوشی ہوتی کہ میں اپنے سامنے اسے میدان جنگ میں بھیجو ں تاکہ وہ میرے حساب میں آئے؛ کیونکہ آج کادن اسی کاسزاوار ہے کہ ہم اپنی پوری قدرت سے اجرو پاداش طلب کری ں اس لئے کہ آج کے بعد کوئی عمل نہیں ہے، بس حساب ہی حساب ہے ۔

دلو ں میں کیا ہے اور نہ ہی ان کی طرف سے آپ کو دھوکہ میں رکھنا چاہتا ہو ں ۔ خدا کی قسم میں وہ کہہ رہا ہو ں جو میرے دل میں ہے۔ خدا کی قسم جب آپ دعوت دی ں گے اور بلائی ں گے تو میں اس کو اجابت کرو ں گااور لبیک کہو ں گا اور آپ کے ہمراہ آپ کے دشمنو ں سے لڑو ں گا اور آپ کے دفاع میں انھی ں اپنی تلوار سے مارو ں گا یہا ں تک کہ میں خدا سے ملاقات کرلو ں اور اس کے عوض میں میرا کوئی ارادہ نہیں ہے مگر وہ کہ جو اللہ کے پاس ہے۔اس پر حبیب بن مظاہر نے کہا تھا : اللہ تم پر رحمت نازل کرے تمہارے دل میں جو تھا اسے مختصر لفظو ں میں تم نے ادا کردیا۔ (. طبری، ج٥،ص ٣٥٥) جب مسلم بن عقیل ہانی بن عروہ کے گھر منتقل ہوئے اور ١٨ ہزار لوگو ں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی تو مسلم نے امام حسین علیہ السلام کوخط لکھ کر عابس بن ابی شبیب شاکری کے ہاتھو ں روانہ کیا تھا کہ آپ جلد آجائی ں ۔(طبری ،ج٥،ص٣٧٥)

۳۵۱

دور کرسکوں جو میری جان اور میرے خون سے بھی عزیز تر ہوتو میں اسے ضرور انجام دیتا ، اے ابوعبد اللہ! آپ پر سلام ہو میں خدا کو گواہ بناتا ہوں کہ میں آپ کے اور آپ کے بابا کے صحیح راستے پرگامزن ہوں ۔

پھرنیام سے تلوار نکال کر دشمنوں کی طرف چلے اور اس سے اپنی پیشانی پرایک ضرب لگائی۔(١) ربیع بن تمیم ہمدانی کا بیان ہے :میں نے جب انھیں آتے دیکھا تو پہچان لیااور میں نے لوگوں سے کہا :''أیهاالناس ! '' یہ شیروں کاشیر ہے ،یہ فرزند ابوشبیب شاکری ہے، اس کے سامنے تم میں سے کوئی نہ نکلے ۔

عابس نے ندا دیناشروع کیا : کوئی مرد ہے جو ایک مرد کے مقابلے میں آئے ؟ لیکن کوئی سامنے نہیں آیا ۔عمر بن سعد نے بوکھلا کرکہا : اس پر سنگباری کردو، پس ہر طرف سے آپ پر پتھر پھینکا جانے لگا ۔ جب آپ نے یہ منظر دیکھا تو اپنی زرہ اور خود اتار کر پھینک دیا اور دشمنوں پر ٹوٹ پڑے۔خدا کی قسم میں نے خود دیکھا کہ آپ نے اموی سپاہ کی فوج میں سے دوسو سے زیادہ لوگوں کو تہہ تیغ کیا۔لیکن اس کے بعد سارا لشکرچاروں طرف سے آپ پر ٹوٹ پڑا اورآپ درجہ شہادت پر فائز ہوگئے۔(٢) و(٣)

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے نمیر بن وعلہ نے بنی ہمدان کے اس شخص سے یہ روایت نقل کی ہے جو اس روز وہ وہا ں موجود تھا۔(طبری، ج٥،ص ٤٤٤)

٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے محمد بن قیس نے یہ روایت نقل کی ہے(طبری ،ج٥،ص ٤٤١)

٣۔ میں نے دیکھا کہ آپ کاسر چندلوگو ں کے ہاتھو ں ادھر ادھر ہورہا ہے اور ہرایک کہہ رہا ہے اسے میں نے قتل کیا تو وہا ں عمر بن سعد آیااور بولا : لڑائی مت کرواسے کسی ایک نیزہ نے قتل نہیں کیا ہے یہ سن کر سب وہا ں سے ایک دوسرے سے جدا ہوگئے ۔

۳۵۲

یزید بن زیاد ابو شعثاء کندی کی شہادت

یزید بن زیاد مھاصر جنہیں ابو شعثاء کندی کہاجاتا ہے، عمربن سعد کے ہمراہ امام حسین علیہ السلام سے جنگ کرنے آئے تھے لیکن جب امام علیہ السلام کی ساری شرطیں رد کردی گئیں تو امام حسین کی طرف چلے آئے اور اس کے بعد دشمنوں سے خوب جنگ کی۔ اس دن آپ کا رجز یہ تھا:

أنا یزید وأب مهاصر---أشجع من لیث بغیل خادر

یا رب ان للحسین ناصر---ولا بن سعد تارک وهاجر(١)

میں یزید ہوں اور میرے باپ ابو مھاصر تھے، میں شیر بیشہ سے زیادہ شجاع ہوں ، پروردگارا میں حسین علیہ السلام کا ناصر ومدد گا ر اور ابن سعد کو ترک کردینے والا اور اس سے دوری اختیار کرنے والا ہوں ۔آپ بڑے ماہر تیر انداز تھے۔مام حسین علیہ السلام کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیک کر دشمن کی طرف سو تیر چلائے جس میں سے فقط پانچ تیروں نے خطاکی تھی۔ جب بھی آپ تیرچلاتے تھے فرمایاکرتے تھے :'' أنا بن بهدلة ، فرسان العرجلة'' میں خاندان بھدلہ کا فرزند اورعرجلہ کا یکہ تاز ہوں اور امام حسین علیہ السلام فرمارہے تھے:'' اللّٰهم سدد رمیته واجعل ثوابه الجنة'' خدا یا!اس کے تیر کو نشانہ تک راہنمائی کر اور اس کا ثواب جنت قراردے، پھرآپ نے بڑا زبردست جہاد کیا یہاں تک کہ شہید ہوگئے ۔(رحمةاللہ علیہ)

چار دوسرے اصحاب کی شہادت

وہ چارافرادجو طرماح بن عدی کے ہمراہ امام حسین علیہ السلام کے پاس آئے تھے اور وہ جابر بن حارث سلیمانی ، مجمع بن عبداللہ عایذی،(٢) عمر بن خالد صیداوی اور عمر بن خالد کے غلام سعد ہیں ،

____________________

١۔ یہ فضیل بن خدیج کندی کی روایت ہے۔ شاید راوی نے پسر سعد کو چھوڑنے اور اس سے دوری اختیار کرنے اور امام حسین علیہ السلام کی مددو نصرت کرنے کی بات اسی شعر سے حاصل کی ہے در حالیکہ اس سے پہلے عبدالرحمن بن جندب کی روایت عقبہ بن سمعان کے حوالے سے گزر چکی ہے کہ ابن زیاد کا خط لے کر کربلا میں جب حر کے پاس مالک بن نسیر بدی کندی آیا تھا تو اس سے یزید بن زیاد نے کہا تھا : تیری ما ں تیرے غم میں بیٹھے تو کیا لے کر آیا ہے ؟ اس نے کہا : میں کچھ لے کر نہیں آیا ،میں نے اپنے پیشوا کی اطاعت اور اپنی بیعت سے وفاداری کی ہے تو ابو شعشاء نے اس سے کہاتھا : تو نے اپنے رب کی نافرمانی اور اپنی ہلاکت میں اپنے پیشوا کی پیروی کی ہے، تو نے ننگ و عار اور جہنم کو کسب کیا ہے، خدا وند عالم فرماتا ہے:'' وجعلنا ھم أئمة یدعون الی النار و یوم القیامة لاینصرون''اور اس نار کی طرف دعوت دینے والا تیرا پیشوا ہے۔ (طبری ،ج٥،ص ٤٠٨) یہ روایت دلالت کرتی ہے کہ کربلا پہنچنے سے پہلے آپ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ تھے بلکہ حرسے ملاقات سے پہلے موجود تھے ۔تعجب ہے کہ طبری اور ابو مخنف اس حقیقت کی طرف متوجہ نہیں ہوئے ۔

٢۔ یہ وہی ہیں جنہو ں نے امام حسین علیہ السلام سے کہا تھا : اشراف کوفہ کے تھیلے رشوت سے بھر چکے ہیں ،ان کی محبت کو اپنی طرف مائل کرلیا گیا ہے اور انکی خیر خواہی کو اپنے لئے خالص کرلیا گیا ہے ۔یہ ایک گروہ کا حال ہے اور اب رہے دوسرے گروہ کے لوگ توان کے دل آپ کی طرف مائل ہیں لیکن ان کی تلواری ں کل آپ کی سمت کھنچی ہو ں گی ۔

۳۵۳

ان لوگوں نے آگے بڑھ کر اپنی تلواروں سے شدید حملہ کیا اور جب وہ دشمن کی فوج میں اندر تک وارد ہوگئے تو سپاہ اموی نے انھیں چاروں طرف سے گھیر لیا اور ان کو اپنے محاصرہ میں لے کر اصحاب حسینی سے ان کارابطہ منقطع کردیا ۔ایسی صورت میں عباس بن علی (علیھما السلام) نے دشمنوں پر حملہ کیااور انھیں دشمنوں کی چنگل سے نکال لیا۔ ان چار جوان مردوں نے اپنی تلوار سے پھر زبردست حملہ کیا اور خوب خوب جہاد کیا یہاں تک کہ چاروں ایک ہی جگہ پر شہید ہوگئے ۔(١)

سوید خثعمی و بشر حضر می

یہ دونوں اصحاب حسینی کی دو آخری نشانیاں ہیں جنہیں سوید بن عمرو بن ابی المطاع خثعمی(٢) اور بشر بن عمرو حضرمی کہا جاتا ہے پہلے بشر سامنے آئے اور میدان قتال میں جاکر داد شجاعت لی اور شہید ہوگئے (رحمة اللہ علیہ) پھر سوید میدان کارزار میں آئے اور خوب جہاد کیا یہاں تک کہ کمزور ہو کر زمین پر گر پڑے۔(٣) آپ اسی طرح شہیدوں کے درمیان کمزور وناتواں پڑے رہے اور آپ کو مردہ سمجھ کر آپ کی تلوار اتار لی گئی لیکن جب امام حسین علیہ السلام شہید کر دئے گئے تو دشمنوں کی آواز آپ کے کانوں میں آئی کہ وہ کہہ رہے ہیں :'' قتل الحسین'' حسین مارڈالے گئے تو آ پ کو غشی سے افاقہ ہوا آپ کے پاس چھری تھی۔آپ کچھ دیر تک اسی چھری سے لڑتے رہے یہاں تک کہ زید بن رقاد جنبی(٤) اور عروہ بن بطار تغلبی نے آپ کو شہید کردیا ،آپ سپاہ حسینی کے آخری شہید ہیں ۔(٥) و(٦)

____________________

١۔ابو مخنف نے بیان کیا ہے کہ مجھ سے فضیل بن خدیج کندی نے یہ روایت نقل کی ہے۔(طبری، ج٥،ص ٤٤٥)

٢۔ابو مخنف کہتے ہیں کہ مجھ سے زہیر بن عبدالرحمن بن زہیر خثعمی نے یہ روایت بیان کی ہے۔(طبری ،ج٥،ص ٤٤٦)

٣۔ ابو مخنف کہتے ہیں کہ مجھ سے عبداللہ بن عاصم نے ضحاک بن عبداللہ مشرقی کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے۔(. طبری ،ج ٥ ، ص ٤٤٤)

٤۔ یہ شخص حضرت عباس بن علی علیہماالسلام کا قاتل ہے۔ (طبری ،ج٥ ،ص ٤٦٨) اسی نے عبداللہ بن مسلم بن عقیل پر تیر چلایا تھا اور کہا کرتاتھا میں نے ان میں کے ایک جوان پر تیر چلایاہے اور اس نے تیر سے بچنے کے لئے اپنی ہتھیلی کو اپنی پیشانی پر رکھا تو میں نے اس پر ایسا تیر چلایا کہ اس کی ہتھیلی اس کی پیشانی سے چپک گئی اور اپنی ہتھیلی کو اپنی پیشانی سے جدا نہ کرسکا ؛ پھر

۳۵۴

اس نے اس نوجوان پر ایک تیر چلاکر اسے شہید کر دیا ۔وہ کہتا ہے : میں جب اس کے پاس آیا تو وہ مر چکا تھا لہذامیں اس تیر کو مسلسل حرکت دیتا رہا تاکہ اسے اس کی پیشانی سے کھینچ لو ں لیکن تیر کی نوک کچھ اس طرح اس کی پیشانی میں پیوست ہوچکی تھی کہ میں اسے نہیں کھینچ پایا۔ روزگار اسی طرح گزر تے رہے اور مختار کی حکومت کازمانہ آگیا تو مختار نے عبداللہ بن کامل شاکری کو اس شخص کی طرف روانہ کیا ۔عبداللہ بن کامل اس کے دروازے پر آئے اور اسے گھیر لیا اور لوگو ں کی وہا ں بھیڑ لگ گئی۔یہ اپنی تلوار سونت کر باہر نکلا تو ابن کامل نے کہا : اس پر تیر چلاؤ اور اسے پتھر مارو، تمام لوگو ں نے ایسا ہی کیا یہا ں تک کہ وہ گر گیا پھر ابن کامل نے آگ منگوائی اور اسے اس آگ میں جلادیا درحالیکہ وہ زندہ تھا اور اس کی روح نہیں نکلی تھی۔(طبری ،ج٦، ص ٦٤)یہ شخص قبیلہ جنب سے متعلق تھا (ج ٦ ،ص ٦٤) طبری کے علاوہ دوسرے لوگو ں نے جہنی حنفی ذکر کیا ہے ۔

٥۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے زہیر بن عبدالرحمن خثعمی نے یہ روایت بیان کی ہے۔(طبری ، ج٥،ص ٤٥٣)

٦۔ ابومخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے عبداللہ بن عاصم نے ضحاک بن عبداللہ مشرقی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتا ہے : میں نے جب دیکھا کہ اصحاب حسین علیہ السلام شھید ہوچکے ہیں اور اب خاندان رسالت کی نوبت ہے اور آپ کے ہمراہ اصحاب میں سوید بن عمر وبن ابی مطاع خثعمی اور بشر بن عمرو حضرمی کے علاوہ کوئی نہیں بچا ہے تو میں اپنے گھوڑے کو لے کر آیا اور چونکہ دشمن ہمارے گھوڑو ں کو پے کررہے تھے لہٰذا ہم نے اپنے ساتھیو ں کے خیمو ں کے درمیان اسے داخل کردیا اور پیدل لڑنا شروع کردیا۔ میں نے اس دن دشمن کے دوآدمیو ں کو قتل کیا اور تیسرے کا ہاتھ کاٹ ڈالا ۔اس دن حسین علیہ السلام مجھ سے بار بار کہہ رہے تھے: تمہارے ہاتھ سالم رہیں ، اللہ تمہارے ہاتھ کو محفوظ رکھے، اللہ تمہیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت کی حفاظت کے لئے جزائے خیر عطاکرے ۔اس کے بعدمیں نے امام کی خدمت میں عرض کیا: اے فرزند رسول خدا آپ کو معلوم ہے کہ میرے اور آپ کے درمیان کیا قرار پایا تھا ۔ میں نے آ پ سے کہا تھا کہ میں آپ کی طرف سے اس وقت تک لڑو ں گا جب تک آپ کے یارو ناصر موجود ہو ں گے اور جب کوئی نہ ہوگا تو مجھے اختیار ہو گا کہ میں پلٹ جاؤ ں تو آپ نے کہا تھا ؛ ہا ں تمہیں اختیار ہوگا ۔ یہ سن کر حسین علیہ السلام نے فرمایا :تم سچ کہہ رہے ہو لیکن تم یہا ں سے کیسے نکل سکو گے اگر تم اس پر قادر ہو تو تم آزاد ہو ۔

جب آپ نے مجھے اجازت دے دی تو میں نے اپنے گھوڑے کو خیمے سے نکالااور اس پر سوار ہو کر اسے ایک ایسی ضرب لگائی کہ وہ اپنے سمو ں پر اچھل پڑا۔ اس کے بعد اسے فوج کے دریا میں ڈال دیا ۔ گھوڑے سے ٹکرانے والے اِدھر اُدھر گرتے ر ہے اورمیں راستہ بناتا نکلتاگیا لیکن پندرہ (١٥) آدمیو ں کے ایک گروہ نے میرا پیچھا کیا یہا ں تک کہ میں فرات کے کنارے ایک دیہات شفیہ تک پہنچ گیا۔ جب وہ لوگ وہا ں تک میرے ساتھ آئے تو میں پلٹ کر ان پر ٹوٹ پڑا اور ان میں سے کثیر بن عبداللہ شعبی ، ایوب بن مشرح خیوانی اور قیس بن عبداللہ صائدی نے مجھ کو پہچان لیا اور بولے : یہ ضحاک بن عبداللہ مشرقی ہے ، یہ ہمارا چچا زاد ہے، ہم تمہیں خدا کا واسطہ دیتے ہیں کہ اس سے دست بردار ہوجاؤ۔اس پر ان میں سے بنی تمیم کے تین لوگو ں نے کہا : ہا ں ہا ں خدا کی قسم ہم اپنے بھائیو ں کی درخواست کو قبول کری ں گے اور جووہ چاہتا ہے اسے انجام دے کر اس سے دست بردار ہوجائی ں گے۔جب ان تین تمیمیو ں نے ہمارے ساتھیو ں کی پیروی کی تو دوسرو ں نے بھی ہاتھ کھینچ لیا اس طرح خدا نے مجھے نجات دی۔ (طبری ،ج٥ ،ص ٤٤٥)

۳۵۵

بنی ہاشم کے شہداء

* علی بن الحسین اکبر کی شہادت

* قاسم بن حسن کی شہادت

* عباس بن علی اور ان کے بھائی

* لشکر حسینی کے سردار

* آپ کے امتیازات و خصوصیات

* حسن و رشاد ت

* معنوی شوکت

* علمدار کربلا

* سقائی

* سالار عشق و ایمان

* اسلام کا غیرتمند سپاہی

* معراج وفا

* حسین علیہ السلام کا شیر خوار

* عبداللہ بن جعفر کے دو فرزندوں کی شہادت

* آل عقیل کی شہادت

* حسن بن علی علیہما السلام کے فرزندوں کی شہادت

۳۵۶

بنی ہاشم کے شہداء

علی بن الحسین اکبر کی شہادت

کربلا میں روز عاشورا اولاد ابو طالب کے سب سے پہلے شہید علی اکبر فرزندحسین بن علی (علیہم السلام) ہیں ۔(١) آپ کی مادر گرامی ابو مر ہ بن عروہ بن مسعودثقفی کی بیٹی جناب لیلیٰ تھیں ۔(٢)

____________________

١۔ ابو مخنف نے اپنی روایت میں جوانھو ں نے سلیمان ابن ابی راشد سے بیان کی ہے اورسلیمان نے حمید بن زیاد سے نقل کی ہے اس میں امام سجاد علیہ السلام کو علی بن حسین اصغر کے وصف سے یاد کیا ہے۔ (طبری ،ج٥ ،ص ٤٥٤) اور جو بچہ امام علیہ السلام کی گود میں شہید ہواتھا اس کا نام اسی سند کے حوالے سے عبداللہ بن حسین ذکر کیا ہے۔ (طبری، ج٥ ، ص ٤٤٨) طبری نے اپنی کتاب ''ذیل المذیل'' میں کہا ہے کہ علی اکبر فرزند حسین اپنے باپ کے ہمراہ کربلا میں ساحل فرات پر شہید ہوئے اور ان کا کوئی بچہ نہیں تھا اور علی بن حسین اصغر اپنے باپ کے ہمراہ کربلا میں موجود تھے۔ اس وقت وہ ٢٣ سال کے تھے اوربیماری کے عالم میں بستر پر پڑے تھے۔ امام سجاد علیہ السلام کا بیان ہے کہ جب میں ابن زیاد کے دربار میں وارد ہوا اور اس نے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے؟ تو میں نے کہا: علی بن الحسین میرا نام سن کر اس نے کہا : کیا اللہ نے علی کو قتل نہیں کیا؟ تو میں نے کہا کہ میرے ایک بھائی تھے جو مجھ سے بڑے تھے ،ان کانام بھی علی تھا، انھی ں لوگو ں نے قتل کردیا ۔ابن زیاد بولا : نہیں بلکہ اللہ نے اسے قتل کیا ہے ۔میں نے کہا :'' اللّٰہ یتوفیٰ الأنفس حین موتھا'' (ذیل المذیل، ص ٦٣٠ ، طبع دارا لمعارف) اس مطلب کو ابو الفرج نے بھی بیان کیا ہے۔ (مقاتل الطالبیین، ص ٨٠ ،طبع نجف) اسی طرح یعقوبی نے بھی علی اکبر ذکر کیا ہے اور امام سجاد علیہ السلام کو علی بن الحسین اصغر ذکر کیا ہے۔ (تاریخ یعقوبی، ج٢،ص ٢٣٣، طبع نجف) مسعودی نے بھی یہی ذکر کیا ہے۔ (مروج الذھب، ج ٣،ص ٧١) نیز سبط بن جوزی کا بھی یہی بیان ہے۔ (تذکرہ، ص ٢٢٥) شیخ مفید نے ارشاد میں فقط علی بن الحسین ذکر کیا ہے اور اکبر کا اضافہ نہیں کیا ہے۔

٢۔ ٦ھ میں عروہ بن مسعود ثقفی نے طائف میں قبیلہ ء ثقیف سے مکہ کی طرف کوچ کیا اور قریش کے تمام اہل و عیال اوران کے اطاعت گزارو ں کا حلیف ہوگیا ۔ صلح حدیبیہ کے سال جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اصحاب کے ہمراہ عمرہ کی غرض سے آئے اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی طرف بدیل بن ورقا ء خزاعی کو پیغام لے کر روانہ کیا جسے پیغام رسا ں کہا جاتا تھااُدھر دوسری طرف عروہ کھڑا ہوااور اس نے قریش کے سربرآوردہ لوگو ں سے کہا : یہ مرد تمہیں رشد و ہدایت کی راہ دکھارہا ہے، اسے تم لوگ قبول کرلو اور مجھے اجازت دو تاکہ میں ان کے پاس جاؤ ں ۔ ان لوگو ں نے کہاجاؤ تو عروہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گفتگو کرنا شروع کیا۔نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے بھی اس قسم کی باتی ں کہیں جو بدیل سے فرمائی تھی کہ ہم یہا ں کسی سے جنگ کے لئے نہیں آئے ہیں ،ہم تو یہا ں فقط عمرہ انجام دینے کے لئے ہیں ۔ جنگ قریش کو رسوا کردے گی اور انھی ں نقصان پہنچائے گی۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ اس دین میں آجائی ں جس میں سب آگئے ہیں تو وہ ایسا کری ں ورنہ آرام کری ں اور اگر وہ اس سے انکار کرتے ہیں تو قسم ہے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اس پر میں ان سے نبرد آزمائی کرو ں گایہا ں تک کہ یا تو میں بالکل تنہا رہ

۳۵۷

جاؤ ں یا اللہ اپنے امر کو نافذکردے ۔ اس وقت عروہ نے کہا اے محمد ! کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اپنی قوم کو محکم کرلیا ہے ؟کیا آپ نے اس سے پہلے کسی عرب سے سنا ہے کہ وہ اپنی قوم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے اور دوسرو ں کا ہوجائے؟ خدا کی قسم میں ان مختلف چہرے اور مختلف طبیعت کے لوگو ں کو دیکھ رہا ہو ں کہ وہ فرار کرجائی ں گے اور آپ کو تنہاچھوڑدی ں گے۔عروہ یہ کہہ رہاتھا اور بڑے غور سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کو دیکھے جارہاتھا، پھر عروہ اپنے ساتھیو ں کی طرف پلٹ گیا اور بولا : اے قوم ! خدا کی قسم میں سارے بادشاہو ں کے پاس گیا ہو ں ،میں قیصر و کسریٰ اورنجاشی کے پاس بھی گیا ہو ں ،خدا کی قسم میں نے کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اس کے اصحاب ا س کی اتنی تعظیم کرتے ہو ں جتنا محمد کے اصحاب محمد کی تعظیم کرتے ہیں ۔ خدا کی قسم اگر وہ لعاب دہن باہر ڈالتے ہیں تو ان میں کا ایک اسے اپنی ہتھیلی پر لے کر اسے اپنے چہرہ اور جسم پر مل لیتا ہے جب وہ کوئی حکم دیتے ہیں اسے فوراً انجام دیتے ہیں اور جب وہ وضو کرتے ہیں تو وضو کے بقیہ پانی کے لئے سب لڑنے لگتے ہیں اور جب وہ کچھ بولتے ہیں تو یہ لوگ بالکل خاموش ہو کر تعظیم میں نظری ں گڑا کر ان کی طرف دیکھنے لگتے ہیں ۔انھو ں نے تمہاری طرف رشد وہدایت کی راہ پیش کی ہے تمہیں چاہیے اسے قبول کرلو! (طبری ،ج٦، ص ٤٢٧) ٨ھ میں یہ جنگ حنین میں ایک گوشے میں منجنیقی ں بنانے کی تعلیم دیا کرتے تھے اور خود جنگ حنین میں موجود نہیں تھے۔ ابوسفیان نے اپنی بیٹی آمنہ کی اس کے ساتھ شادی کی تھی۔ حنین کے دن ابو سفیان ، مغیرہ بن شعبہ کے ہمراہ طائف آیا اوردونو ں نے مل کر قبیلہ ثقیف کو آوازدی کہ ہمیں امن دو تاکہ ہم تم سے کچھ گفتگو کری ں ۔ ان لوگو ں نے ان دونو ں کو امن و امان دے دیا توان لوگو ں نے قریش کی عورتو ں کو اسیر ی کے خوف میں چھوڑ دیا تو ان لوگو ں نے انکار کیا (طبری ،ج٣ ،ص ٨٤) جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل طائف کے پاس سے واپس لوٹنے لگے توعروہ بن مسعود آپ کے پیچھے ہولئے اور مدینے پہنچنے سے پہلے ہی عروہ نے آپ کو درک کرلیا اور آپ کے ہاتھو ں پر اسلام لے آئے۔ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ سے کہا کہ اسی اسلام کے ہمراہ اپنی قوم کی طرف پلٹ جائی ں کیونکہ عروہ بن مسعود اپنی قوم میں بہت محبوب تھے اور آپ کی باتو ں کو لوگ بے چو ں و چرا قبول کرلیتے تھے لہٰذاعروہ بن مسعود اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دینے کے لئے نکل پڑے۔ وہ اس امید میں تھے کہ ان کے مقام و منزلت کے پیش نظر لوگ ان کی مخالفت نہیں کری ں گے لیکن ان کی قوم نے چارو ں طرف سے ان پر تیرو ں کی بارش کردی اور آپ کو شھید کردیا گیا۔ وقت شہادت کسی نے ان سے پوچھا : اپنے خون کے بارے میں آپ کا نظریہ کیا ہے ؟ تو عروہ نے جواب دیا : یہ کرامت اور بزرگی ہے جس سے خدا نے مجھے سرفراز کیا اور ایک جام شہادت ہے جسے خدا نے مجھے نوش کرایا ہے۔ میرا اجر وہی ہو گاجو ان لوگو ں کا اجر ہے جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ جنگ میں شہید ہوئے لہٰذا تم لوگ مجھے انھی ں کے ہمراہ دفن کرنا لہذا۔آپ کو انھی ں لوگو ں کے ہمراہ دفن کیا گیا۔ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے بارے میں فرمایا: ان کی مثال اپنی قوم میں اس طرح ہے جیسے صاحب یسٰین اپنی قوم میں ۔''ان مثله فی قومه کمثل صاحب یسٰین فی قومه'' (طبری، ج٣،ص ٩٧) سیرة بن ہشام، ج٢،ص ٣٢٥)نبی خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کا اور آ کے بھائی اسود بن مسعود کا قرض ادا کیا۔ (طبری، ج٣، ص ١٠٠)

۳۵۸

آپ نے دشمنوں پر سخت حملہ کرنا شروع کیا درحالیکہ آپ یہ کہے جارہے تھے :

أنا علّ بن حسین بن عل

نحن و رب البیت أولیٰ بالنب

تاللّٰه لا یحکم فینا ابن الدّع(١)

میں علی ، حسین بن علی کا فرزند ہوں ، رب کعبہ کی قسم ہم نبی سے سب سے زیادہ نزدیک ہیں ، خدا کی قسم بے حسب ونسب باپ کا لڑکا ہم پر حکمرانی نہیں کرسکتا ۔

آپ نے بارہادشمن کے قلب لشکر پر حملہ کیا اوران رزمیہ اشعار کو دھراتے رہے۔جب مرہ بن منقذعبدی(٢) نے آپ کو دیکھا تو بولا : تمام عرب کا گناہ میرے سر پر ہو !اگر یہ میرے پاس سے گزرا تومیں اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کروں گا جیسا یہ کررہا ہے؛ اس کے باپ کوا س کے غم میں بیٹھادوں گا! اس اثنا ء میں آپ اپنی تلوار سے سخت حملہ کرتے ہوئے ادھر سے گزرے، پس مرہ بن منقذنے نیزہ کاایسا وار کیا کہ آپ زمین پر گرگئے دشمنوں نے آپ کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور اپنی تلواروں سے آپ کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے ۔(٣) و(٤)

____________________

١۔ ابو لفرج اصفہانی نے روایت کی ہے کہ سخت حملے کے بعد علی اکبر اپنے بابا کے پاس آئے اور عرض کیا: بابا پیاس مارے ڈال رہی ہے تو حسین علیہ السلام نے ان سے کہا : ''اصبر حبیبی حتی یسقیک رسول اللّٰہ بکاسہ ''اے میرے لال صبر کرو یہا ں تک کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا تمہیں جام کوثر سے سیراب کری ں اس کے بعد آپ نے دشمنو ں پر پے در پے کئی حملے کئے ۔(مقاتل الطالبیین، ص ٧٧)

٢۔ اس کی نسبت بنی عبد قیس کی طرف ہے۔ یہ جنگ صفین میں اپنے باپ منقذ بن نعمان کے ہمراہ حضرت علی کے ساتھ تھا اور عبد قیس کا پرچم اپنے باپ سے لے لیا پھر وہ اسی کے پاس رہا۔(طبری، ج٤،ص ٥٢٢) ٦٦ھ میں مختار نے عبداللہ بن کامل شاکری کو اس کے پاس روانہ کیا تو وہ اس کے گھر پر آئے اور اسے گھیر لیا تویہ اپنے ہاتھ میں نیزہ لئے تیز گھوڑے پر سوار تھا ۔ ابن کامل نے تلوار سے ایک ضرب لگائی تواس نے بائی ں ہاتھ سے اپنا بچاؤ کیا لیکن تلوار اس پر لگی اور گر پڑا ۔ پھر مصعب بن زبیر سے ملحق ہوگیا درحالیکہ اس کے ہاتھ شل تھے۔ (طبری، ج ٦،ص٦٤)

٣۔ ابو مخنف نے بیان کیا ہے کہ مجھ سے زہیر بن عبدالرحمن بن زہیر خثعمی نے یہ روایت نقل کی ہے (طبری ،ج٥،ص ٤٤٦) اور ابو الفرج نے بھی ابو مخنف سے زہیر بن عبداللہ خثعمی کے حوالے سے روایت کی ہے (مقاتل الطالبیین، ص ٧٦) اورانھو ں

۳۵۹

نے ایک دوسری سند کے حوالے سے روایت کی ہے کہ جب علی بن الحسین میدان جنگ میں دشمن کی طرف آنے لگے تو حسین کی نگاہیں ان کے ساتھ ساتھ تھی ں اور وہ گریہ کنا ں تھے پھر فرمایا :''اللّٰهم کن أنت الشهید علیهم فقد برز الیهم غلام أشبه الخلق برسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وآله وسلم'' خدا یا! تو اس قوم پر گواہ رہنا کہ ان کی طرف اب وہ جوان جارہاہے جو سیرت و صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہ ہے۔

٤۔ ابو الفرج ہی نے روایت کی ہے کہ : زمین پر آتے وقت علی اکبر نے آوازدی : ''یاأبتاہ!علیک السلام '' باباآپ پر میرا سلام ہو،'' هذاجدی رسول اللّٰه یقرئک السلام و یقول: عجل القدوم الینا ثم شهق شهقة و فارق الدنیا'' یہ ہمارے جد رسول خدا ہیں جو آپ کو سلام کہہ رہے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ ہمارے پاس جلدی آئو. پھر ایک چیخ ماری اور دنیا سے رخصت ہو گئے ۔

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438