واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا18%

واقعۂ کربلا مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 438

واقعۂ کربلا
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 438 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 192928 / ڈاؤنلوڈ: 5407
سائز سائز سائز
واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

اس سے دل لگانا صحیح ہے ؟

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد ہے :

(مالی وللدنیا،انما مَثَلی کمثل راکبٍ مرّللقیلولة فی ظلّ شجرة فی یوم صائف ثم راح وترکها )( ۱ )

''دنیا سے میرا کیا تعلق ؟میری مثال تو اس سوار کی سی ہے جوتیز ہوائوں کے تھپیڑوں کے درمیان آرام کی خاطر کسی درخت کے نیچے لیٹ جاتا ہے اور پھر اس جگہ کو چھوڑکر چل دیتا ہے ''

امیر المومنین حضرت علی نے اپنے فرزند امام حسن کو یہ وصیت فرمائی ہے :

(یابنیّ انی قدأنباتک عن الدنیا وحالها،وزوالها،وانتقالها،وأنبأتک عن الآخرةومااُعدّ لأهلها فیها،وضربتلک فیهماالأمثال،لتعتبربها، وتحذو علیها،انمامثل من خبرالدنیاکمثل قوم سفرنبا بهم منزل جذیب فأمّوا منزلاًخصیباً، وجناباً مریعاً،فاحتملواوعثاء الطریق،وفراق الصدیق،وخشونةالسفرومَثَل من اغترّبهاکمثل قوم کانوابمنزل خصیب فنبابهم الیٰ منزل جذیب،فلیس شیء أکره الیهم ولاأفضع عندهم من مفارقة ماکانوا فیه الیٰ مایهجمون علیه ویصیرون الیه )( ۲ )

''۔۔۔اے فرزند میں نے تمہیں دنیااوراسکی حالت اوراسکی بے ثباتی و ناپائیداری سے خبردار کردیا ہے ۔اور آخرت اور آخرت والوں کے لئے جو سروسامان عشرت مہیّاہے اس سے بھی آگاہ کردیا ہے اور ان دونوں کی مثالیںبھی تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں تاکہ ان سے عبرت حاصل کرو

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ص۱۱۹۔

(۲)نہج البلاغہ مکتوب ۳۱۔

۲۴۱

اور ان کے تقاضے پر عمل کرو۔جن لوگوں نے دنیا کو خوب سمجھ لیا ہے ان کی مثال ان مسافروںکی سی ہے جن کا قحط زدہ منزل سے دل اچاٹ ہوا،اور انھوں نے راستے کی دشواریوں کو جھیلا، دوستوںکی جدائی برداشت کی،سفر کی صعوبتیںگواراکیں،اور کھانے کی بد مزگیوںپر صبر کیاتاکہ اپنی منزل کی پہنائی اور دائمی قرارگاہ تک پہنچ جائیں ۔اس مقصد کی دھن میں انھیں ان سب چیزوں سے کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔اور جتنا بھی خرچ ہوجائے اس میں نقصان معلوم نہیں ہوتا۔انھیں سب سے زیادہ وہی چیز مرغوب ہے جو انہیں منزل کے قریب اور مقصدسے نزدیک کردے اور اسکے برخلاف ان لوگوں کی مثال جنہوں نے دنیا سے فریب کھایاان لوگوں کی سی ہے جو ایک شاداب سبزہ زار میں ہوں اور وہاں سے دل برداشتہ ہوجائیں اور اس جگہ کا رخ کرلیں جو خشک سالیوں سے تباہ ہو۔ان کے نزدیک سخت ترین حادثہ یہ ہوگا کہ وہ موجودہ حالت کو چھوڑکرادھر جائیںکہ جہاں انھیں اچانک پہنچناہے اور بہر صورت وہاںجاناہے ۔۔۔ ''

حضرت عمر ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا آپ ایک بورئیے پر آرام فرمارہے ہیں اور آپ کے پہلو پر اسکا نشان بن گیاہے توعرض کی اے نبی خدا:

(یانبیّ ﷲ،لواتخذت فراشاً أوثر منه؟فقال صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :مالی وللدنیا،مامَثلی ومثَل الدنیا الاکراکب سارفی یوم صائف فاستظلّ تحت شجرة ساعة من نهار،ثم راح وترکها )( ۱ )

اگر آپ اس سے بہتربستر بچھالیتے تو کیا تھا ؟پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :''دنیا سے میرا کیا تعلق؟میری اور دنیا کی مثال ایک سوار کی سی ہے جوتیز ہوائوں کے درمیان چلا جارہا ہو اور دن میں تھوڑی دیر آرام کرنے کے لئے کسی سایہ داردرخت کے نیچے رک جائے اور پھر اس جگہ کوچھوڑ کرآگے بڑھ جائے''

____________________

(۱)بحارالانوارج ۷۳ص۱۲۳۔

۲۴۲

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(ان الدنیالیست بدارقرارولامحلّ اقامة،انّما أنتم فیهاکرکب عرشوا وارتاحوا،ثم استقلّوا فغدوا وراحوا،دخلوهاخفافاً،وارتحلواعنها ثقالاً،فلم یجدواعنهانزوعاً،ولاالی ما ترکوبهارجوعاً )( ۱ )

''یہ دنیا دار القرار اور دائمی قیام گا ہ نہیں ہے تم یہاں سوار کی مانند ہو 'جنہوں نے کچھ دیرکیلئے خیمہ لگایا اور پھر چل پڑے پھر دوسری منزل پر تھوڑا آرام کیا اور صبح ہوتے ہی کوچ کر گئے ، ہلکے پھلکے (آسانی سے)اترے اور لاد پھاندکر مشکل سے روانہ ہوئے نہ انہیں اسکا کبھی اشتیاق ہوا اور جس کو ترک کرکے آگئے نہ اسکی طرف واپسی ممکن ہوئی ''

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں عرض کیا گیا :انسان دنیا میں کیسے زندگی بسر کرے ؟آپ نے فرمایا جیسے قافلہ گذرتا ہے۔ دریافت کیا گیا اس دنیا میں قیام کتنا ہے ؟آپ نے فرمایا جتنی دیر قافلہ سے چھوٹ جانے والا رہتا ہے ۔دریافت کیا گیا! دنیا وآخرت میں فاصلہ کتنا ہے ؟آپ نے فرمایا پلک جھپکنے کا۔( ۲ ) اور اس آیۂ کریمہ کی تلاوت فرمائی :

(کأنّهم یوم یرون ما یوعدون لم یلبثوا الاساعة من نهار )( ۳ )

''تو ایسا محسوس کرینگے جیسے دنیا میں ایک دن کی ایک گھڑی ہی ٹھہرے ہیں ''

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(الدنیاظلّ الغمام،وحلم المنام )( ۴ )

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۸ص۱۸۔

(۲)بحارالانوار ج۷۳ص۱۲۲۔

(۳)سورئہ احقاف آیت ۳۵۔

(۴)غررالحکم ج۱ص۱۰۲۔

۲۴۳

''دنیا بادل کا سایہ اورسونے والے کا خواب ہے ''

امام محمد باقر نے فرمایا :

(انّ الدنیاعند العلماء مثل الظل )( ۱ )

''اہل علم کے نزدیک دنیا سایہ کے مانند ہے ''

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(ألاوان الدنیادارلایسلم منها الافیها،ولاینجیٰ بشی ء کان لها،اُبتلی الناس فیها فتنة فماأخذوه منهالهاأخرجوامنه وحوسبواعلیه،وماأخذوهُ منها لغیرها، قدموا علیه وأقاموا فیه،فانهاعند ذوی العقول کفیٔ الظلّ بینا تراه سابغاً حتیٰ قلص،وزائداً حتیٰ نقص )( ۲ )

''یاد رکھو یہ دنیا ایسا گھر ہے جس سے سلامتی کا سامان اسی کے اندر سے کیا جاسکتا ہے اور کوئی ایسی شے وسیلہ نجات نہیں ہوسکتی ہے جو دنیا ہی کے لئے ہو۔لوگ اس دنیا کے ذریعہ آزمائے جاتے ہیں جو لوگ دنیا کا سامان دنیا ہی کے لئے حاصل کرتے ہیں وہ وہاں جاکر پالیتے ہیں اور اسی میں مقیم ہوجاتے ہیں ۔یہ دنیا در حقیقت صاحبان عقل کی نظر میں ایک سایہ جیسی ہے جو دیکھتے دیکھتے سمٹ جاتا ہے اور پھیلتے پھیلتے کم ہوجاتا ہے ''

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ص۱۲۶۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ ۶۳۔

۲۴۴

دنیا ایک پل

دین اسلام مسلمان کو دنیا کے بارے میں ایک ایسے نظریہ کا حامل بنانا چاہتا ہے کہ اگر اسکے دل میں یہ عقیدہ و نظریہ راسخ ہوجائے توپھر دنیا کو ایک ایسے پل کے مانند سمجھے گا جس کے اوپر سے گذر کر اسے جانا ہے اور اس مسلمان کی نگاہ میں یہ دنیا دار القرار نہیں ہوگی ۔جب ایسا عقیدہ ہوگا تو خود بخود مسلمان دنیا پرفریفتہ نہ ہوگا اور اسکی عملی زندگی میں بھی اس کے نتائج نمایاں نظر آئیںگے۔

حضرت عیسیٰ کا ارشاد ہے :

(انما الدنیا قنطرة )( ۱ )

''دنیا ایک پل ہے ''

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد گرامی ہے :

(أیهاالناس انماالدنیادارمجازوالآخرة دار قرار،فخذوامن ممرّکم لمقرّکم،ولاتهتکواأستارکم عند من یعلم أسرارکم )( ۲ )

''اے لوگو !یہ دنیا گذر گاہ ہے اور آخرت دار قرارہے لہٰذا اپنے راستہ سے اپنے ٹھکانے کے لئے تو شہ اکٹھا کرلواور جو تمہارے اسرار کو جانتا ہے اس کے سامنے اپنے پردوں کو چاک نہ کرو ''

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے :

(الدنیا دارممرّولادار مقرّ،والناس فیهارجلان:رجل باع نفسه فأوبقها، ورجل ابتاع نفسه فأعتقها )( ۳ )

''دنیا گذرگاہ ہے دارالقرار نہیں اس میں دو طرح کے لوگ رہتے ہیں کچھ وہ ہیں جنھوں نے دنیا کے ہاتھوں اپنا نفس بیچ دیا تو وہ دنیا کے غلام ہوگئے کچھ وہ ہیں جنہوں نے اپنے نفس کوخرید لیااور دنیا کو آزاد کردیا''

____________________

(۱)بحارالانوار ج۱۴ص۳۱۹۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ۲۰۳۔

(۳)شرح نہج البلاغہ ج۱۸ص۳۲۹۔

۲۴۵

اسباب ونتائج کا رابطہ

اسلامی فکر کا امتیاز یہ ہے کہ وہ انسانی مسائل سے متعلق اسباب و نتائج کو ایک دوسرے سے لاتعلق قرار نہیں دیتی بلکہ انھیں آپس میں ملاکر دیکھنے اور پھراس سے نتیجہ اخذ کرنے کی قائل ہے جب ہم انسانی اسباب و نتائج کے بارے میں غورکرتے ہیں تو ان مسائل میں اکثر دو طرفہ رابطہ نظر آتا ہے یعنی دونوں ایک دوسرے پراثر انداز ہوتے ہیں ۔انسانی مسائل میںایسے دوطرفہ رابطوں کی مثالیں بکثرت موجود ہیں مثلاًآپ زہد اور بصیرت کو ہی دیکھئے کہ زہد سے بصیرت اور بصیرت سے زہد میں اضافہ ہوتا ہے ۔

یہاں پر ہم ان دونوں سے متعلق چند روایات پیش کر رہے ہیں ۔

زہد وبصیرت

(أفمن شرح ﷲصدرہ للاسلام فھوعلیٰ نورٍمِن ربَّہِ)کی تفسیر کے ذیل میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :

(ان النوراذاوقع فی القلب انفسح له وانشرح)،قالوا یارسول ﷲ:فهل لذٰلک علامةیعرف بها؟قال:(التجافی من دارالغرور،والانابة الیٰ دارالخلود، والاستعداد للموت قبل نزول الموت )

''قلب پر جب نور کی تابش ہوتی ہے تو قلب کشادہ ہوجاتا ہے اور اس میں وسعت پیدا ہوجاتی ہے عرض کیا گیا یا رسول ﷲ اسکی پہچان کیا ہے ؟

۲۴۶

آپ نے فرمایا :

''دار الغرور(دنیا)سے دوری ،دارالخلود(آخرت)کی طرف رجوع اور موت آنے سے پہلے اسکے لئے آمادہ ہوجانا ہے ''( ۱ )

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(أحقّ الناس بالزهادة،من عرف نقص الدنیا )( ۲ )

''جو دنیا کے نقائص سے آگاہ ہے اسے زیادہ زاہد ہونا چاہئے''

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے :

(من صوّرالموت بین عینیه،هان أمرالدنیا علیه )( ۳ )

''جس کی دونوں آنکھوں کے سامنے موت کھڑی رہتی ہے اس کے لئے دنیا کے امور آسان ہوجاتے ہیں ''

نیز آپ نے فرمایا :(زهدالمرء فیمایفنیٰ،علی قدر یقینه فیما یبقیٰ )( ۴ )

''فانی اشیائ(دنیا)کے بارے میں انسان اتناہی زاہد ہوتا ہے جتنا اسے باقی اشیاء (آخرت )کے بارے میں یقین ہوتا ہے ''

زہدو بصیرت کا رابطہ

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت ابوذر (رح)سے فرمایا :

(یاأباذر:مازهد عبد فی الدنیا،الاأنبت ﷲ الحکمة فی قلبه،وأنطق بهالسانه ،ویبصّره عیوب الدنیا وداء ها ودواء ها،وأخرجه منهاسالماًالی دارالسلام )( ۵ )

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ص۱۲۲۔

(۲)غررالحکم۔

(۳)غررالحکم ۔

(۴)بحارالانوار ج۷۰ص۳۱۹۔

(۵)بحارالانوار ج۷۷ص۸۔

۲۴۷

''اے ابوذر جو شخص بھی زہداختیار کرتاہے ﷲ اس کے قلب میں حکمت کا پودا اگا دیتا ہے اور اسے اسکی زبان پر جاری کر دیتا ہے اسے دنیا کے عیوب ،اوردرد کے ساتھ انکاعلاج بھی دکھا دیتا ہے اور اسے دنیا سے سلامتی کے ساتھ دارالسلام لے جاتا ہے ''

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے :

(من یرغب فی الدنیا فطال فیهاأمله،أعمیٰ ﷲ قلبه علیٰ قدررغبته فیها، ومن زهد فیها فقصُرأمله أعطاه ﷲعلماًبغیرتعلّم،وهدیً بغیرهدایة،وأذهب عنه العماء وجعله بصیراً )( ۱ )

جو دنیا سے رغبت رکھتا ہے اسکی آرزوئیں طویل ہوجاتی ہیں اوروہ جتنا راغب ہوتا ہے اسی مقدار میں خدا اسکے قلب کوا ندھا کر دیتا ہے اور جو زہد اختیار کر تا ہے اسکی آرزوئیں قلیل ہوتی ہیں ﷲ اسے تعلیم کے بغیرعلم اور رہنما ئی کے بغیرہدایت عطا کرتا ہے اور اس کے اند ھے پن کو ختم کر کے اسے بصیر بنا دیتا ہے ''

ایک دن پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں کے درمیان آئے اور فرمایا:

(هل منکم من یریدأن یؤتیه ﷲ علماًبغیرتعلّم،وهدیاًبغیرهدایة؟هل منکم من یریدأن یذهب عنه العمیٰ و یجعله بصیراً؟ألاانه من زهد فی الدنیا،وقصرأمله فیها،أعطاه ﷲعلماًبغیرتعلّم،وهدیاً بغیرهدایة )( ۲ )

''کیا تم میں سے کوئی اس بات کا خواہاں ہے کہ ﷲ اسے تعلیم کے بغیر علم اور رہنمائی کے بغیرہدایت دیدے۔ تم میں سے کوئی اس بات کا خواہاں ہے کہ ﷲ اس کے اندھے پن کو دور کر کے اسے بصیر بنادے ؟آگاہ ہو جائو جو شخص بھی دنیا میں زہدا ختیار کر ے گااور اپنی آرزوئیں قلیل رکھے گا

____________________

(۱)بحارالانوارج۷۷ص۲۶۳۔

(۲)درالمنثورج۱ص۶۷۔

۲۴۸

ﷲاسے تعلیم کے بغیرعلم اور رہنمائی کے بغیرہدایت عطاکر ے گا ''

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

(یاأباذراذارأیت أخاک قدزهد فی الدنیا فاستمع منه،فانه یُلقّیٰ الحکمة )( ۱ )

''اے ابوذراگر تم اپنے کسی بھائی کو دیکھو کہ وہ دنیا میں زاہد ہے تو اسکی باتوںکو(دھیان سے ) سنو کیونکہ اسے حکمت عطا کی گئی ہے ''

ان روایات سے معلوم ہو تا ہے کہ زہد وبصیرت میں دو طرفہ رابطہ ہے ،یعنی زہد کا نتیجہ بصیرت اور بصیرت کا نتیجہ زہد ہے ۔اسی طرح زہد اور قلتِ آرزو کے مابین بھی دو طرفہ رابطہ ہے زہد سے آرزووں میں کمی اور اس کمی سے زہد پیدا ہوتا ہے زہد اورقلت آرزو کے درمیان رابطہ کے بارے میں امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :(الزهدیخلق الابدان،ویحدّدالآمال،ویقرّب المنیة،ویباعدالاُمنیة،من ظفر به نصب،ومن فاته تعب )( ۲ )

'' زہد،بدن کو مناسب اور معتدل ،آرزووں کو محدود،موت کو نگاہوں سے نزدیک اور تمنائوں کو انسان سے دور کردیتا ہے جو اسکو پانے میں کامیاب ہوگیا وہ خوش نصیب ہے اور جو اسے کھو بیٹھا وہ در دسر میں مبتلاہوگیا''

آرزووں کی کمی اورزہد کے رابطہ کے بارے میں امام محمد باقر کا ارشاد ہے:

(استجلب حلاوة الزهادة بقصرالامل )( ۳ )

''آرزو کی قلت سے زہد کی حلاوت حاصل کرو''

ان متضاد صفات کے درمیان دو طرفہ رابطہ کا بیان اسلامی فکر کے امتیازات میں سے ہے

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۷ص۸۰ ۔

(۲)بحارالانوارج ۷۰ص۳۱۷۔

(۳)بحارالانوار ج۷۸ص۱۶۴۔

۲۴۹

زہد وبصیرت یا زہد وقلتِ آرزو کے درمیان دو طرفہ رابطہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ان دونوں چیزوں کے اندر ایک دوسرے کے ذریعہ اضافہ ہوتا رہتا ہے اور اس سے انسان ترقی کرتا رہتا ہے۔ اس طرح کہ بصیرت سے زہد کی کیفیت پیدا ہو تی ہے اور جب انسان زاہد ہو جاتا ہے تو بصیرت کے اعلیٰ مراتب حاصل ہو جاتے ہیں نیزبصیرت کے ان اعلیٰ مراتب سے زہد میں اضافہ ہوتا ہے اور اس زہد سے پھر بصیرت کے مزید اعلیٰ مراتب وجود پاتے ہیں۔اسطرح انسان ان دونوں صفات وکمالات کے ذریعہ بلندیوں تک پہنچ جاتا ہے۔

مذموم دنیا اور ممدوح دنیا

۱۔مذموم دنیا

اس سے قبل ہم نے ذکر کیا تھا کہ دنیا کے دو چہرے ہیں:

( ۱ ) ظاہری

( ۲ ) باطنی

دنیا کا ظاہر ی چہرہ فریب کا سر چشمہ ہے ۔یہ چہرہ انسانی نفس میں حب دنیا کا جذبہ پیدا کرتا ہے جبکہ باطنی چہرہ ذریعۂ عبرت ہے یہ انسان کے نفس میں زہدکا باعث ہوتا ہے روایات کے مطابق دنیا کا ظاہری چہرہ مذموم ہے اور باطنی چہرہ ممدوح ہے ۔

ایسا نہیں ہے کہ واقعاً دنیا کے دو چہرے ہیں یہ فرق در حقیقت دنیا کو دیکھنے کے انداز سے پیدا ہوتا ہے ورنہ دنیا اور اسکی حقیقت ایک ہی ہے ۔فریب خور د ہ نگاہ سے اگر دنیا کو دیکھا جائے تو یہ دنیا مذموم ہوجاتی ہے اور اگر دیدئہ عبرت سے دنیا پر نگاہ کی جائے تو یہی دنیاممدوح قرار پاتی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لذات وخواہشات سے لبریز دنیا کا ظاہری چہرہ ہی مذموم ہے ۔

یہاں پر دنیا کے مذموم رخ کے بارے میں چند روایات پیش کی جارہی ہیں ۔

۲۵۰

امیر المومنین حضرت علی نے فرمایا:

(الدنیا سوق الخسران )( ۱ )

''دنیا گھاٹے کا بازار ہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا مصرع العقول )( ۲ )

''دنیا عقلوں کا میدان جنگ ہے ''

آپ کا ہی ارشاد ہے :

(الدنیا ضحکة مستعبر )( ۳ )

''دنیا چشم گریاں رکھنے والے کے لئے ایک ہنسی ہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا مُطَلَّقةُ الاکیاس )( ۴ )

''دنیاذہین لوگوں کی طلاق شدہ بیوی ہے''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا معدن الشرور،ومحل الغرور )( ۵ )

''دنیا شروفسا دکا معدن اور دھوکے کی جگہ ہے''

____________________

(۱)غررا لحکم ج ۱ص۲۶۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۴۵۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۲۶۔

(۴)غررالحکم ج۱ص۲۸۔

(۵)غررالحکم ج۱ص۷۳۔

۲۵۱

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیالا تصفولشارب،ولا تفی لصاحب )( ۱ )

''دنیا کسی پینے والے کے لئے صاف وشفاف اور کسی کے لئے باوفا ساتھی نہیں ہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا مزرعة الشر )( ۲ )

''دنیا شروفسا دکی کا شت کی جگہ ہے''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا مُنیة الاشقیائ )( ۳ )

''دنیا اشقیا کی آرزوہے''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الد نیا تُسْلِمْ )( ۴ )

''دنیا دوسرے کے حوالے کر دیتی ہے''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا تُذِلّْ )( ۵ )

''دنیا ذلیل کرنے والی ہے''

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص ۸۵۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۲۶۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۳۷۔

(۴)غررالحکم ج۱ص۱۱۔

(۵)غررالحکم ج۱ص۱۱۔

۲۵۲

دنیا سے بچائو

امیر المو منین حضرت علی ہمیں دنیا سے اس انداز سے ڈراتے ہیں :

(أُحذّرکم الدنیافانّهالیست بدارغبطة،قدتزیّنت بغرورها،وغرّت بزینتهالمن ان ینظرالیها )( ۱ )

''میں تمہیں دنیا سے ڈراتا ہوں کیونکہ یہ فخرومباہات کاگھر نہیں ہے ۔یہ اپنے فریب سے مزین ہے اور جو شخص اسکی طرف دیکھتا ہے اسے اپنی زینت سے دھوکے میں مبتلاکردیتی ہے ''

ایک اور مقام پر آپ کا ارشاد گرامی ہے :

(أُحذّرکم الدنیافانها حُلوة خضرة،حُفّت بالشهوات )( ۲ )

''میں تمہیں اس دنیا سے بچنے کی تاکید کرتا ہوں کہ یہ دنیا سرسبز وشیریں اورشہوتوں سے گھری ہوئی ہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(احذروا هذه الدنیا،الخدّاعة الغدّارة،التی قد تزیّنت بحلیّها،وفتنت بغرورها،فأصبحت کالعروسة المجلوة،والعیون الیها ناظرة )( ۳ )

''اس دھو کے باز مکار دنیا سے بچو یہ دنیا زیورات سے آراستہ اور فتنہ ساما نیوں کی وجہ سے سجی سجائی دلہن کی مانندہے کہ آنکھیں اسی کی طرف لگی رہتی ہیں ''

ب :ممدوح دنیا

دنیا کا دوسرا رخ اوراس کے بارے میں جو دوسرانظر یہ ہے وہ قابل مدح وستائش ہے البتہ

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۸ ص۲۱۔

(۲)بحارالانوار ج۷۳ص۹۶۔

(۳)بحارالانوارج۷۳ص۱۰۸۔

۲۵۳

یہ قابل ستائش رخ اس دنیا کے باطن سے نکلتا ہے جو قابل زوال ہے جبکہ مذموم رخ ظاہری دنیا سے متعلق تھا ۔

بہر حال یہ طے شدہ بات ہے کہ دنیا کے دورخ ہیں ایک ممدوح اور دوسرا مذموم ۔ممدوح رخ کے اعتبار سے دنیا نقصان دہ نہیں ہے بلکہ نفع بخش ہے اورمضر ہونے کے بجائے مفید ہے اسی رخ سے دنیا آخرت تک پہو نچانے والی ،مومن کی سواری ،دارصدق اوراولیاء کی تجارت گاہ ہے۔لہٰذادنیا کے اس رخ کی مذمت صحیح نہیں ہے روایات کے آئینہ میں دنیا کے اس رخ کوبھی ملا حظہ فرما ئیں ۔

۱۔دنیا آخرت تک پہو نچانے والی

امام زین العابدین نے فرمایا :

(الدنیا دنیاءان،دنیابلاغ،ودنیاملعونة )( ۱ )

''دنیا کی دو قسمیں ہیں ؟دنیا ئے بلاغ اور دنیا ئے ملعونہ ''

دنیائے بلاغ سے مراد یہ ہے کہ دنیا انسان کو آخرت تک پہو نچاتی ہے اور خدا تک رسائی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ۔بلاغ کے یہی معنی ہیں اوریہ دنیا کی پہلی قسم ہے ۔

دوسری دنیا جو ملعون ہے وہ دنیا وہ ہے جوانسان کو ﷲسے دورکرتی ہے اس لئے کہ لعن بھگانے اور دور کرنے کو کہتے ہیں اب ہرانسان کی دنیااِنھیں دومیں سے کوئی ایک ضرورہے یاوہ دنیا جو خدا تک پہونچاتی ہے یاوہ دنیا جو خدا سے دور کرتی ہے ۔

اسی سے ایک حقیقت اور واضح ہو جاتی ہے کہ انسان دنیا میں کسی ایک مقام پر ٹھہر انہیں رہتا ہے بلکہ یا تووہ قرب خداکی منزلیں طے کرتا رہتا ہے یا پھر اس سے دور ہوتا جاتا ہے ۔

امیر المو منین حضرت علی کا ارشاد ہے :

____________________

(۱)بحارالانوارج۷۳ص۲۰۔

۲۵۴

(لاتسألوافیها فوق الکفاف،ولاتطلبوامنها أکثرمن البلاغ )( ۱ )

''اس دنیا میں ضرورت سے زیادہ کا سوال مت کرو اور نہ ہی کفایت بھر سے زیادہ کا مطالبہ کرو ''

اس طرح اس دنیا کا مقصد (بلاغ)ہے اور انسان دنیا میں جو بھی مال ومتاع حاصل کرتا ہے وہ صرف اس مقصد تک پہونچنے کیلئے ایک ذریعہ اور وسیلہ ہے اس طرح انسان کی ذمہ داری ہے کہ دنیا میں صرف اتنا ہی طلب کرے جس سے اپنے مقصود تک پہنچ سکے لہٰذا اس مقدار سے زیادہ مانگنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی وسیلہ کو مقصد بنانا چا ہئے اور یہ یادر کھنا چاہئے کہ دنیا وسیلہ ہے آخری مقصد نہیں ہے بلکہ آخری مقصد آخرت اور خدا تک رسائی ہے ۔

امیرا لمو منین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(الدنیاخلقت لغیرها،ولم تخلق لنفسها )( ۲ )

''دنیا اپنے لئے نہیں بلکہ اپنے غیر (آخرت تک رسائی )کیلئے خلق کی گئی ہے''

وسیلہ کو مقصد قرار دے دیاجائے یہ بھی غلط ہے اسی طرح واسطہ کو وسیلہ اور مقصد(دونوں ) قرار دینا بھی غلط ہے اسی لئے امیرالمو منین نے فر مایا ہے کہ دنیاکو صرف اس مقدارمیںطلب کرو جس سے آخرت تک پہونچ سکو ۔

لیکن خود حصول دنیا کے سلسلہ میں آپ نے فرمایا کہ صرف بقدر ضرورت سوال کرو ۔امام کے اس مختصر سے جملے میں حصول رزق کے لئے سعی و کو شش کے سلسلہ میں اسلام کا مکمل نظریہ موجود ہے ۔چونکہ مال و متاع ِ دنیا آخرت تک پہنچنے کا ذریعہ ہے لہٰذا کسب معاش اور تحصیل رزق ضروری ہے لیکن اس تلاش و جستجو میں ''بقدر ضرورت ''کا خیال رکھنا ضروری ہے اور ''بقدر ''ضرورت سے مراد وہ

____________________

(۱)بحارالانوارج ۷۳ص۸۱۔

(۲)نہج البلاغہ حکمت ۴۵۵۔

۲۵۵

مقدار ہے کہ جس کے ذریعہ دنیاوی زندگی کی ضرورتیں پوری ہو تی رہیں اور آخرت تک رسائی ہو سکے

انسا نی ضرورت واقعی اور ضروری بھی ہو تی ہے اور غیر واقعی یا وہمی بھی ۔یعنی اسے زندہ رہنے اور آخرت تک رسائی کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ حقیقی ضرورتیں ہیں ۔اوران کے علاوہ کچھ غیر ضروری چیزیں بھی احتیاج وضرورت کی شکل میں انسان کے سامنے آتی ہیںجو در حقیقت حرص و طمع ہے اوران کا سلسلہ کبھی ختم ہو نے والا نہیں ہے اگر انسان ایک مرتبہ ان کی گرفت میں آگیا تو پھر ان کی کو ئی انتہا ء نہیں ہوتی ۔ان کی راہ میں جد وجہد کرتے ہوئے انسان ہلاک ہو جاتا ہے مگر اس جد و جہد سے اذیت و طمع میں اضافہ ہی ہوتا ہے ۔

حضرت امام جعفر صادق نے اپنے جد بزرگوار حضرت علی کا یہ قول نقل فرمایاہے:

یابن آدم:ان کنت ترید من الدنیامایکفیک فان أیسرما فیهایکفیک،و ان کنت انما ترید مالیکفیک فان کل ما فیهایکفیک ( ۱ )

''اے فرزند آدم اگر تو دنیا سے بقدر ضرورت کا خواہاں ہے تو تھوڑا بہت ،جو کچھ تیرے پاس ہے وہی کا فی ہے اور اگر تو اتنی مقدار میں دنیا کا خواہاں ہے جو تیری ضرورت سے زیادہ ہے تو پھر دنیا میں جو کچھ ہے وہ بھی نا کافی ہے ''

دنیا کے بارے میں یہ دقیق نظریہ متعدد اسلامی روایات اور احا دیث میں وارد ہوا ہے ۔

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے:

ألا وان الدنیادار لا یُسلَم منها الا فیها،ولاینجیٰ بشی ء کان لها،ابتلی الناس بها فتنة،فما أخذوه منها لهااُخرجوا منه وحوسبوا علیه،

____________________

(۱)اصول کافی ج۲ص۱۳۸۔

۲۵۶

وما أخذوه منهالغیرها قدمواعلیه وأقاموا فیه )( ۱ )

''آگاہ ہو جا ئو کہ یہ دنیا ایسا گھرہے جس سے سلامتی کا سامان اسی کے اندر سے کیا جاسکتا ہے اور کو ئی ایسی شئے وسیلۂ نجات نہیں ہو سکتی ہے جو دنیا ہی کے لئے ہو ۔لوگ اس دنیا کے ذریعہ آزمائے جاتے ہیں ۔جو لوگ دنیا کا سامان ،دنیا ہی کیلئے حاصل کرتے ہیں وہ اسے چھوڑکر چلے جاتے ہیں اور پھر حساب بھی دینا ہوتا ہے اور جولوگ یہاں سے وہاںکیلئے حاصل کرتے ہیں وہ وہاں جاکر پالیتے ہیں اور اسی میں مقیم ہوجاتے ہے یہ دنیا در حقیقت صاحبان عقل کی نظر میں ایک سایہ جیسی ہے جو دیکھتے دیکھتے سمٹ جاتا ہے اور پھیلتے پھیلتے کم ہوجاتا ہے ''

ان کلمات میں اختصار کے باوجود بے شمار معانی ومطالب پائے جاتے ہیں (دارلایسلم منها اِلا فیها )اس فقرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان سے فرار اور خدا تک رسائی کے لئے دنیا مومن کی سواری ہے اس کے بغیر اسکی بارگاہ میں رسائی ممکن نہیں ہے عجیب وغریب بات ہے کہ دنیا اور لوگوں سے کنا رہ کشی کرنے والا قرب خدا کی منزل مقصود تک نہیں پہونچ سکتا بلکہ ﷲ یہ چاہتا ہے کہ بندہ اسی دنیا میں رہ کر اسی دنیا کے سہارے اپنی منزل مقصود حاصل کرے۔لہٰذا ان کلمات سے پہلی حقیقت تو یہ آشکار ہوئی ہے کہ دنیا واسطہ اور وسیلہ ہے اس کو نظر انداز کرکے مقصدحاصل نہیںکیاجاسکتا۔

لیکن یہ بھی خیال رہے کہ دنیا مقصد نہ بننے پائے۔ اگر انسان دنیا کو وسیلہ کے بجائے ہدف اور مقصد بنالے گا تو ہرگز نجات حاصل نہیں کرسکتا (ولاینجی لشی کان لھا) اس طرح اگر انسان نے دنیا کواس کی اصل حیثیت ''واسطہ ووسیلہ''سے الگ کردیا اور اسی کو ہدف بنالیا تو پھر دنیاشیطان سے نجات اور خدا تک پہنچانے کی صلاحیت کھو بیٹھتی ہے یہ دوسری حقیقت ہے جوان

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۶۲ ۔

۲۵۷

کلمات میں موجود ہے ۔

اور پھراگر انسان دنیا کو خدا ،قرب خدا اور رضائے الٰہی حاصل کرنے کے بجائے خود دنیا کی خاطر اپناتا ہے تو یہی دنیا اسکو خدا سے دور کردیتی ہے ۔اس دنیا کا بھی عجیب و غریب معاملہ ہے یعنی اگر انسان اسے وسیلہ اور خدا تک رسائی کا ذریعہ قرار دیتا ہے تو یہ دنیا اس کے لئے ذخیرہ بن جاتی ہے اور اس کے لئے باقی رہتی ہے نیز دنیا وآخرت میں اس کے کام آتی ہے لیکن اگر وسیلہ کے بجائے اسے مقصد بنالے تو یہ ﷲ سے غافل کرتی ہے ۔خدا سے دور کردیتی ہے موت کے بعدانسان سے جدا ہوجاتی ہے اور بارگاہ الٰہی میں اسکا سخت ترین حساب لیا جاتاہے ۔

یہ بھی پیش نظر رہے کہ یہ فرق کمیت اور مقدار کا نہیں ہے بلکہ کیفیت کا ہے اور عین ممکن ہے کہ انسان وسیع و عریض دنیا کا مالک ہو لیکن اسکا استعمال راہ خدا میں کرتا ہو اس کے ذریعہ قرب خدا کی منزلیں طے کرتا ہو ایسی صورت میں یہ دنیا اس کے لئے ''عمل صالح''شمار ہوگی اس کے برخلاف ہوسکتا ہے کہ مختصر سی دنیا اور اسباب دنیاہی انسان کے پاس ہوں لیکن اسکا مقصد خود وہی دنیا ہو تو یہ دنیا اس سے چھین لی جائے گی اسکا محاسبہ کیا جائے گا ۔یہ ہے ان کلمات کا تیسرا نتیجہ۔

اگر خود یہی دنیا انسان کے مد نظر ہوتو اسکی حیثیت ''عاجل''''نقد''کی سی ہے جو کہ اسی دنیا تک محدود ہے اور اس کا سلسلہ آخرت سے متصل نہ ہوگابلکہ زائل ہو کر جلد ختم ہوجائے گی لیکن اگر دنیا کو دوسرے (آخرت )کے لئے اختیار کیا جائے تو اسکی حیثیت''آجل''''ادھار''کی سی ہوگی کہ جب انسان حضور پروردگار میں پہونچے گا تو وہاںدنیا کو حاضر وموجود پائے گا ۔ایسی دنیا زائل ہونے والی نہیں بلکہ باقی رہے گی''وماعندﷲ خیر وأبقی''امیر المومنین کے اس فقرہ''وماأخذ وہ منھا لغیرھا قدموا علیہ وأقاموا فیہ'' سے یہ چوتھا نتیجہ برآمد ہوتا ہے ۔

۲۵۸

زیارت امام حسین سے متعلق دعا میں نقل ہوا ہے:

(ولاتشغلنی بالاکثارعلیّ من الدنیا،تلهینی عجائب بهجتها،وتفتننی زهرات زینتها،ولا بقلالٍ یضرّ بعملی،ویملأ صدری همّه )( ۱ )

''کثرت دنیا سے میرے قلب کو مشغول نہ کردینا کہ اسکے عجائبات مجھے تیری یاد سے غافل کردیں یا اسکی زینتیں مجھے اپنے فریب میں لے لیں اور نہ ہی دنیا میں میرا حصہ اتنا کم قرار دینا کہ میرے اعمال متاثر ہوجائیں اور میرا دل اسی کے ہم وغم میں مبتلا رہے ''

دنیا اوراس سے انسان کے تعلق، بقاء و زوال ،اسکے مفید ومضر ہونے کے بارے میں اس سے قبل جو کچھ بیان کیا گیا وہ کیفیت کے اعتبار سے تھا کمیت ومقدار سے اسکا تعلق نہیں تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ کمیت و مقدار بھی اس میں دخیل ہے کثرت دنیا اور اسکی آسا ئشیںانسان کو اپنے میں مشغول کرکے یاد خدا سے غافل بنادیتی ہیں بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ دنیا میں بڑاحصہ ہونے کے باوجود انسان دنیا میں گم نہ ہو یا یہ زیادتی اسے خدا سے دور نہ کردے اسکے لئے سخت جد وجہد درکار ہوتی ہے اور اسی طرح اگر دنیا وی حصہ کم ہو،دنیا روگردانی کر رہی ہو تو یہ بھی انسان کی آزمائش کا ایک انداز ہوتا ہے کہ انسان کا ہم وغم اور اس کی فکریں دنیا کے بارے میں ہوتی ہیں اور وہ خدا کو بھول جاتا ہے اسی لئے اس دعا میں حد متوسط کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ نہ تو اتنی کثرت ہو جس سے انسان یاد خدا سے غافل ہوجائے اور نہ اتنی قلت ہوکہ انسان اسی کی تلاش میں سرگرداں رہے اور خدا کو بھول بیٹھے۔

۲۔دنیا مومن کی سواری

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے :

(لاتسبّوا الدنیا فنعمت مطیة المؤمن،فعلیها یبلغ الخیر وبها ینجو من الشر )( ۲ )

____________________

(۱)بحارالانوار ج۱۰۱ ص۲۰۸۔

(۲)بحارالانوار ج۷۷ص۱۷۸۔

۲۵۹

''دنیا کو برا مت کہو یہ مومن کی بہترین سواری ہے اسی پر سوار ہوکر خیر تک پہنچاجاتا ہے اور اسی کے ذریعہ شرسے نجات حاصل ہوتی ہے ''

اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ دنیا سواری کی حیثیت رکھتی ہے جس پر سوار ہوکر انسان خدا تک پہونچتا اور جہنم سے فرار اختیار کرتا ہے ۔

یہ دنیاکاقابل ستائش رخ ہے اگر دنیانہ ہوتی توانسان رضائے الٰہی کے کام کیسے بجالاتا ، کیسے خدا تک پہونچتا ؟اولیاء خدا اگر قرب خداوند ی کے بلند مقامات تک پہونچے ہیں تو وہ بھی اسی دنیا کے سہارے سے پہونچے ہیں ۔

۳۔دنیا صداقت واعتبار کا گھر ہے ۔

۴۔دنیا دار عافیت۔

۵۔دنیا استغنا اور زاد راہ حاصل کرنے کی جگہ ہے ۔

۶۔دنیا موعظہ کا مقام ہے ۔

۷۔دنیا محبان خدا کی مسجدہے ۔

۸۔دنیا اولیاء الٰہی کے لئے محل تجارت ہے ۔

امیر المومنین حضرت علی نے جب ایک شخص کو دنیا کی مذمت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا :

(أیهاالذام للدنیاالمغترّبغرورهاالمنخدع بأباطیلها!أتغتر بالدنیاثم تذمّها،أنت المتجرّم علیهاأم هی المتجرّمةعلیک؟متیٰ استهوتک؟أم متیٰ غرّتک؟ )( ۱ )

''اے دنیا کی مذمت کرنے والے اور اسکے فریب میں مبتلا ہوکر اسکے مہملات میں دھوکا کھا

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت ۱۲۶۔

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

امام حسین علیہ السلا م خو ن میں ڈوبے فرزند کے پاس یہ کہتے ہوئے آئے:'' قتل اللّٰه قوماً قتلوک یا بن'' اے میرے لال !خدا اس قوم کو قتل کرے جس نے تجھے قتل کیاہے،''ماأجرأهم علیٰ الرّحمٰن وعلی انتهاک حرمة الرسول ''یہ لوگ مہربان خدا پر اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہتک حرمت پر کتنے بے باک ہیں ،''علی الدنیا بعدک العفا'' . میرے لا ل تمہارے بعد اس دنیا کی زندگی پر خاک ہو. ناگاہ اس اثناء میں ایک بی بی شتاباں خیمے سے باہر نکلی وہ آوز دے رہی تھی :'' یاأخےّاہ ! و یابن أخیاہ '' اے میرے بھائی اے جان برادر!وہ آئیں اور خود کو علی اکبر پر گرادیا تو حسین علیہ السلام ان کے پاس آئے اور ان کا ہاتھ پکڑ کر انھیں خیمے میں لوٹا دیا اور خود ہاشمی جوانوں کی طرف رخ کر کے کہا :'' احملوا أخاکم الی الفسطاط'' اپنے بھائی کو اٹھاکر خیمے میں لے جاؤ''فحملوه من مصرعه حتی و ضعوه بین یدی الفسطاط الذی کانوا یقاتلون أمامه' '(١)

ان جوانوں نے لاشہ علی اکبر کو مقتل سے اٹھا کراس خیمے کے پاس رکھ دیا جس کے آگے وہ لوگ مشغول جہاد تھے ۔

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥، ص ٤٤٦) اور ابو الفرج نے بھی اسی سند کو ذکر کیا ہے ۔(مقاتل الطالبیین، ص ٧٦و٧٧)

۳۶۱

قاسم بن حسن کی شہادت

حمید بن مسلم کا بیان ہے : ہماری جانب ایک نو جوان نکل کر آیا ،اس کا چہرہ گویا چاند کا ٹکڑا تھا، اس کے ہاتھ میں تلوار تھی، جسم پر ایک کرتہ اور پائجامہ تھا،پیروں میں نعلین تھی جس میں سے ایک کا تسمہ ٹوٹا ہو ا تھا اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وہ بائیں طرف والی نعلین تھی۔

عمر وبن سعد بن نفیل ازدی(١) نے مجھ سے کہا :خدا کی قسم میں اس بچہ پر ضرور حملہ کروں گا تو میں نے کہا : ''سبحان اللّٰہ'' تو اپنے اس کام سے کیاچاہتا ہے۔لشکر کا یہ انبوہ جو اس کو اپنے گھیرے میں لئے ہے تیری خواہش پوری کرنے کے لئے کافی ہے لیکن اس نے اپنی بات پھر دھرائی : خدا کی قسم میں اس پر ضرور حملہ کروں گا، یہ کہہ کر اس نے اس جوان پر زبردست حملہ کردیا اورتھوڑی دیرنہ گزری تھی کہ تلوار سے اس کے سر پر ایک ایسی ضرب لگائی کہ وہ منہ کے بھل زمین پرگر پڑا اور آواز دی :'' یا عماہ ! ''اے چچا مدد کو آیئے۔

یہ سن کر امام حسین علیہ السلام شکاری پرندے کی طرح وہاں نمودار ہوئے اور غضب ناک و خشمگین شیر کی طرح دشمن کی فوج پر ٹوٹ پڑے اور عمرو پر تلوار سے حملہ کیا۔ اس نے بچاؤ کے لئے ہاتھ اٹھا یا تو کہنیوں سے اس کے ہاتھ کٹ گئے یہ حال دیکھ کر لشکر ادھر ادھر ہونے لگا اور وہ شقی (عمر و بن سعد) پامال ہو کر مر گیا۔ جب غبار چھٹا تو امام حسین علیہ السلام قاسم کے بالین پر موجود تھے اور وہ ایڑیاں رگڑ رہے تھے ۔

اور حسین علیہ السلام یہ کہہ رہے تھے :بعداً لقوم قتلوک ومن خصمهم یوم القیامة فیک جدک ، عزّ واللّٰه علیٰ عمک أن تدعوه فلا یجیبک أو یجیبک ثم لا ینفعک صوت واللّٰه کثر واتره و قل ناصره'' برا ہو اُس قوم کا جس نے تجھے قتل کردیا اور قیامت کے دن تمہارے دادااس کے خلاف دعو یدار ہوں گے۔تمہارے چچا پر یہ بہت سخت ہے کہ تم انھیں بلاؤ اور وہ تمہاری مدد کو نہ آسکیں اور آئے بھی تو تجھے کوئی فائدہ نہ پہنچا سکے۔خدا کی قسم تمہاری مد د کی آواز آج ایسی ہے کہ جس کی غربت و تنہائی زیادہ اور اس پر مدد کرنے والے کم ہیں ۔

____________________

١۔ طبری، ج٥،ص ٤٦٨ ، اس شخص کا نام سعد بن عمرو بن نفیل ازدی لکھا ہے اور دونو ں خبر ابو مخنف ہی سے مروی ہے ۔

۳۶۲

پھر حسین نے اس نوجوان کو اٹھایا گویا میں دیکھ رہا تھا کہ اس نوجوان کے دونوں پیر زمین پر خط دے رہے ہیں جبکہ حسین نے اس کا سینہ اپنے سینے سے لگارکھا تھا پھر اس نوجوان کو لے کر آئے اور اپنے بیٹے علی بن الحسین کی لاش کے پاس رکھ دیا اور ان کے اردگرد آپ کے اہل بیت کے دوسرے شہید تھے، میں نے پوچھا یہ جوان کون تھا ؟ تو مجھے جواب ملا : یہ قاسم بن حسن بن علی بن ابیطالب (علیہم السلام) تھے۔(١)

____________________

١۔ ابو مخنف نے بیان کیا ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری، ج٥،ص ٤٤٧ و ارشاد ، ص ٢٣٩)

۳۶۳

عباس بن علی اور ان کے بھائی

پھر عباس بن علی (علیہما السلام) نے اپنے بھایئوں : عبد اللہ ، جعفر اور عثمان سے کہا : یا بن أم ! تقد مواحتی أرثیکم فانہ لا ولد لکم ! اے مرے ماں جایو ! آگے بڑھو تاکہ میں تم پر مرثیہ پڑھ سکوں کیونکہ تمہاراکوئی بچہ نہیں ہے جو تم پر نوحہ کرے ۔

ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور میدان جنگ میں آئے اور بڑا زبر دست جہاد کیا یہاں تک کہ سب کے سب شہید ہوگئے ۔(خدا ان سب پر رحمت نازل کرے)(٢)

____________________

٢۔ ابو مخنف نے حضرت عباس بن علی علیہما السلام کا مقتل اور ان کی شہادت کا تذکرہ نہیں کیاہے لہٰذا ہم اسے مختلف مقاتل کی زبانی ذکر کرتے ہیں ۔ارشاد میں شیخ مفید فرما تے ہیں : جب حسین علیہ السلام پر پیاس کا غلبہ ہوا تو آپ نے اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر فرات کا ارادہ کیا، آپ کے ساتھ ساتھ آپ کے بھائی عباس بھی تھے۔ ابن سعد لعنة اللّٰہ علیہ کا لشکرآپ کے لئے مانع ہوا اور اس لشکرمیں '' بنی دارم'' کا ایک شخص بھی تھا جس نے اپنی فوج سے کہا : وائے ہو تم پر ان کے اور فرات کے درمیان حائل ہو جاؤ اور انھی ں پانی تک نہ پہنچنے دو، اس پر حسین علیہ السلام نے بددعا کی''اللّٰهم أظمئه '' خدا یا! اسے پیاسا رکھ ! یہ سن کر''دارمی'' کو غصہ آگیا اور اس نے تیر چلادیا جو آپ کی ٹھڈی میں لگا ۔حسین علیہ السلام نے اس تیر کو نکالا اور ٹھڈی کے نیچے اپنا ہاتھ لگا یا تو خون سے آپ کی دونو ں ہتھیلیا ں بھر گئی ں ۔آپ نے اس خون کو زمین پر ڈال دیا اور فرمایا :''اللّٰهم انی أشکوا الیک ما یفعل بابن بنت نبیک'' خدا یا !میں تجھ سے شکوہ کرتا ہو ں کہ تیرے نبی کے نواسے کے ساتھ کیا کیا جا رہا ہے پھرآپ اپنی جگہ لوٹ آئے؛ لیکن پیاس میں اضافہ ہورہاتھا۔ ادھر دشمنو ں نے عباس کو اس طرح اپنے گھیرے میں لے لیا کہ آپ کا رابطہ امام حسین علیہ السلام سے منقطع ہو گیا۔ آپ تنہا دشمنو ں سے مقابلہ کرنے لگے یہا ں تک کہ آپ شھید ہوگئے ،آپ پر اللہ کی رحمت ہو۔ زید بن ورقاء حنفی(١) اور

۳۶۴

حکیم بن طفیل سنسبی نے آپ کو اس وقت شہید کیا جب آپ زخمو ں سے چور ہوچکے تھے اور حرکت کی طاقت نہ تھی۔ (ارشاد، ص ٢٤٠ ، طبع نجف اشرف) یہا ں سے ہم مقتل الحسین مقرم ، مقتل الحسین امین، ابصارالعین سماوی،فاجعةالطف علامہ قزوینی ، عمدة الطالب اورخصال صدوق، ج١،ص ٦٨، اور تاریخ طبری کی مدد سے حضرت ابو الفضل العباس کی شخصیت پر تھوڑی سی روشنی ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں ؛ شاید بارگاہ ایزدی میں یہ کوشش آخرت کی رسوائی سے نجات دلائے اور سقائے سکینہ کی خدمت اقدس میں یہ سعی ناچیز تحفہ قرار پائے۔

____________________

(١) طبری نے زید بن رقاد جنبی لکھا ہے۔ (ج٥،ص ٤٦٨) اور جلد ٦ ،صفحہ ٦٤ پر لکھا ہے کہ یہ جَنَب کا ایک شخص تھا۔ یہ شخص عبد اللہ بن مسلم بن عقیل اور سویدبن عمرو خثعمی صحابی امام حسین علیہ السلام کا بھی قاتل ہے۔ اس کے احوال سوید کی شہادت کے ذیل میں گزر چکے ہیں ۔مختار نے اسے زندہ جلا دیا تھا۔ اسے حنفی کہنا واضح تحریف ہے ۔

۳۶۵

لشکر حسینی کے سردار

علمدار حسینی عباس(علیہ السلا م)آخر میں امام حسین علیہ السلام کی مدد و نصرت اورآ پ کے حقوق و بلند مقاصد کے دفاع میں تنہا رہ گئے تھے ؛کیوں کہ تمام یاور و انصار اور بھائی بھتیجے اور فرزند شہید ہو چکے تھے ۔آپ نا قابل توصیف شجاعت و شہامت کے ساتھ اپنے آقا حسین علیہ السلام کی حفاظت میں پہاڑ کی طرح مستحکم تھے۔ حوادث کی تند وتیز ہوائیں آپ کے وجود پر اثر انداز نہیں ہورہی تھیں ۔ آپ قابل افتخارشخصیت کے مالک تھے کیونکہ علم وعقل ، ایمان و عمل اور جہادو شہادت میں یکتائے تاز روزگار تھے۔ ان خصوصیات کو ہم آپ کے رجز ، آپ کے اعمال اور آ پ کے بیانات میں واضح طور پر مشاہدہ کرسکتے ہیں ۔

آپ کے امتیازات و خصوصیات

حقیقت میں آپ فضیلتوں کے سر چشمہ اور انسانی قدروں کے سربراہ تھے۔ آپ کے امتیازو خصوصیات قابل قدر و تحسین اور انسان ساز ہیں ، وہ اوصاف و خصوصیات جو فردی و اجتماعی زندگی کو نیک بختی اور نجات کے معراجی مراحل تک پہنچاتے ہیں ۔ یہاں پر آپ کے بعض اوصاف کا تذکرہ منظور نظر ہے ۔

١۔ حسن ورشاد ت

آپ بلند قامت ، خوش سیما اور خوب رو تھے ۔ خاندان کے درمیان ایک خاص عظمت و شکوہ کے حامل تھے لہٰذا قمربنی ہاشم یعنی بنی ہاشم کے چاند کہلاتے تھے جب آ پ حق و عدالت سے دفاع کے لئے مرکب پر سوار ہوتے تھے تو آپ کی صولت و ہیبت سے شیر دل افراد خوف زدہ ہوجاتے تھے اور رزم آورو دلیرافرادترس و خوف میں مبتلا ہو کر لرزہ براندام ہوجاتے تھے ۔

حق و عدالت کی راہ میں جاں نثاری ، دلاوری اور شجاعت آپ کا طرۂ امتیاز تھا ۔یہ صفت آپ نے اپنے شہسوار باپ امیرا لمومنین علی علیہ السلام سے حاصل کی تھی۔ اگر چہ آپ کی مادر گرامی بھی علم ومعنویت کی پیکر اور عرب کی ایک شجاع خاندان سے تعلق رکھتی تھیں ۔حضرت علی علیہ ا لسلام نے بڑے ہی اہتمام سے آپ کی مادر گرامی کا انتخاب کیا تھا اور جب اس اہتمام کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا :''لتلدلی فارساً شجاعاً'' میں چاہتا ہوں کہ وہ خاتون میرے لئے ایک شجاع بچہ دنیا میں لے کر آئے۔ یہ سبب تھا کہ افق علوی سے بنی ہاشم کا چاند خورشید فاطمی کی حفاظت کے لئے آسمان ام البنین پر طلوع ہوا ۔

۳۶۶

٢۔معنوی شوکت

دنیا میں ایک سے ایک بہادر ، پہلوان ، شجاع اور خوبصورت گزرے ہیں ۔ اگر ہم ابو الفضل عباس کو فقط اس نگاہ سے دیکھیں کہ آپ رشید قامت ، ہلالی ابرو ، ستواں ناک اور گلابی ہونٹوں والے تھے تو تاریخ کے پاس ایسے سینکڑوں نمونے ہیں جو خوبصورت بھی تھے اور بہادر بھی لیکن ابولفضل العباس علیہ السلام کی خصوصیت فقط یہ نہ تھی کہ آپ فقط خوبصورت اور بہادر تھے بلکہ آپ کی اہم خصوصیت جو آپ کو گوہر نایاب بناتی ہے وہ آپ کا باطنی جوہر اور باطنی حسن ہے یعنی آپ کا ایمان ، اخلاص ، مردانگی ، انسان دوستی ، سچائی ، امانت داری ، آزادی ، عدالت خواہی ، تقویٰ ، حلم ، جانثاری اور وہ پیروی محض ہے جو اپنے امام علیہ السلام کے سامنے پیش کی ہے ۔ تاریخ میں ایک بہادر ، دلیر اور شجاع کا اتنے سخت اور دل ہلادینے والے حوادث میں اس قدر تابع اور مطیع ہونا کہیں نہیں ملتا اور نہ ملے گا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے آپ کی بلند و بالا شخصیت کی اس طرح منظر کشی کی ہے:''کان عمنا العباس نافذ البصیرة ، صلب الایمان ، جاهد مع اخیه الحسین علیه السلام وأبلی بلاء حسناًو مضی شهیداً ''(عمدة الطالب، ٣٥٦) ہمارے چچا عباس عمیق بصیرت والے اور محکم صاحب ایمان تھے جس میں کوئی تزلزل نہ تھا، آپ نے اپنے بھائی حسین علیہ السلام کے ہمراہ جہاد کیا اور بلاؤں کی آماجگاہ میں بہتر ین امتیاز حاصل کیا اور شہید ہو گئے ۔امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں :'' رحم اللّٰه العباس فلقد آثر وابلیٰ وفدا أخاه بنفسه حتی قطعت یداه فأبدله اللّٰه عزو جل بهما جناحین یطیر بهما مع الملائکة فی الجنة کما جعل لجعفر بن ابیطالب وان للعباس عنداللّٰه تبارک وتعالٰی منزلة یغبطه بها جمیع الشهداء یوم القیامة'' (خصال شیخ صدوق ج١؛ ص ٦٨)

خدا (ہمارے چچا) عباس پر رحمت نازل کرے، حقیقت تو یہ ہے کہ آپ نے نا قابل وصف ایثار کا ثبوت دیا

۳۶۷

اور بزرگ ترین آزمائش میں کامیاب ہوکر سر بلند و سرفراز ہوگئے اور آخر کار اپنی جان کو اپنے بھائی پر نثار کردیا یہاں تک کہ آپ کے دونوں ہاتھ کٹ گئے تو اللہ عز و جل نے اس کے بدلے آپ کو دو پر عطا کئے جس کی مدد سے آپ جنت میں فرشتوں کے ہمراہ پرواز کرتے ہیں جس طرح خدا نے جعفر بن ابوطالب کو پر عطا کئے تھے ۔

اللہ تباک و تعالی کے نزدیک جناب عباس کی وہ قدر و منزلت ہے کہ قیامت کے دن تمام شہداء آپ پر رشک کریں گے ۔

٣۔ علمدار کربلا

آپ کی ایک اہم فضیلت یہ ہے کہ روز عاشوراآپ حسینی لشکر کے علمدار تھے اور یہ اتنا بلند و بالا مرتبہ ہے کہ آسانی سے کسی کو نہیں ملتا ۔

جنگ کے بدترین ماحول میں آپ اجازت لے کر میدان کارزار میں آئے لیکن سرکار سیدالشھداء کو آپ سے اتنی محبت تھی کہ فقط فراق و جدائی کے تصور نے امام کی آنکھوں کے جام کو لبریز کردیا اور سیل اشک جاری ہوگئے؛ یہاں تک کہ آپ کی ریش مبارک آنسوؤ ں سے ترہوگئی پھر فرمایا :'' اخی أنت العلامة من عسکری''میرے بھائی تم تو میرے لشکر کے علمدار ہوتو حضرت عباس علیہ السلام نے فرمایا :''فداک روح أخیک لقد ضاق صدری من حیاة الدنیا وأرید آخذ الثار من هولاء المنافقین'' آپ کے بھائی کی جان آپ پر نثار ہو ، حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی زندگی سے میرا سینہ تنگ ہوچکا ہے میں چاہتا ہوں کہ ان منافقوں سے انتقام لوں ۔

۳۶۸

٤۔ سقائی

آپ کی ایک فضیلت یہ ہے کہ آپ سقا کے لقب سے نوازے گئے اور حسینی لشکر کی پیاس بجھانے کے لئے پانی کی سبیل کی خاطر نہر فرات کی طرف دشمنوں کے نرغے میں چل پڑے ،۔بچوں کی تشنگی نے آپ کے دل کو برمادیا۔ امام حسین علیہ السلام سے میدان جنگ کی اجازت چاہی تو آپ نے فرمایا :''فاطلب لهولاء الأطفال قلیلاً من المائ'' بھائی اگر میدان میں جانا چاہتے ہو تو ان بچوں کے لئے دشمنوں سے تھوڑا سا پانی طلب کرو ۔

٥۔سالار عشق و ایمان

عبا س غازی کی یہی وہ صفت ہے جو آپ کو دوسرے ساونت اوردلیروں سے جدا کرکے بہادری اور شجاعت کا حقیقی پیکر بناتی ہے۔ آپ کی جگہ پر کوئی بھی بہادر ہوتا تو وہ میدان جنگ میں آتے ہی تلوار سونت کر جنگ میں مشغول ہوجاتا لیکن یہ عباس پروردہ ٔآغوش تربیت علی مرتضیٰ ہیں جسمی توانائی کے علاوہ ان کا قلب تقویٰ ، اخلاق ، علم وحلم سے معمور ہے، اسی لئے

۳۶۹

جب میدان میں آئے تو پہلے سردار لشکر عمر بن سعد کو ہدایت کی، راہ دکھائی اور اس سے مخاطب ہو کر کہا :''یا عمر بن سعد ! هٰذا الحسین ابن بنت رسول اللّٰه قد قتلتم أصحابه و أخوته وبنی عمه وبقی فریداً مع أولاده و عیاله وهم عطاشا، قد أحرق الظماء قلوبهم فاسقوهم شربة من الماء لأن أولاده و أطفاله قد و صلوا الی الهلاک'' .اے عمر بن سعد ! یہ حسین نواسہ رسول ہیں جن کے اصحاب ، بھائیوں اور چچا زادگان کو تم لوگوں نے قتل کردیا ہے اور وہ اپنی اولاد اور عیال کے ہمراہ تنہارہ گئے ہیں اور بہت پیاسے ہیں پیاس سے ان کا کلیجہ بھنا جا رہا ہے لہٰذاانھیں تھوڑا ساپانی پلادو؛ کیوں کہ ان کی اولاد اور بچے پیاس سے جاں بہ لب ہیں ۔ آپ کے ان جملوں کا اثر یہ ہواکہ بعض بالکل خاموش ہوگئے ، بعض بے حد متاثر ہو کر رونے لگے لیکن شمر و شبث جیسے شقاوت پیکروں نے تعصب کی آگ میں جل کر کہا :'' یابن أبی تراب ! قل لأ خیک : لو کان کل وجہ الارض مائً وھوتحت أید ینا ما سقیناکم منہ قطرة حتی تدخلوا فی بیعة یزید'' اے ابو تراب کے فرزند ! اپنے بھائی سے کہہ دوکہ اگر ساری زمین پانی پانی ہوجائے اور وہ ہمارے دست قدرت میں ہو تب بھی ہم تم کو ایک قطرہ پانی نہیں پلائیں گے یہاں تک کہ تم لوگ یزید کی بیعت کرلو۔

۳۷۰

٦۔ اسلام کا غیرت مند سپاہی

حضرت عباس علیہ السلام اموی سپاہ کی غیر عاقلانہ اور جاہلانہ گفتگوپر افسوس کر کے اپنے آقا کے پاس لوٹ آئے اور سارے واقعات سے آگاہ کردیا ۔

امام حسین علیہ السلام قرآن اور خاندان رسالت کی تنہائی پر آنسو بہا نے لگے اور اتنا روئے کہ یہ آنسو آپ کے سینے اور لباس پر ٹپکنے لگے ۔دوسری طرف ننھے بچوں کی صدائے العطش بار بار حضرت عباس کے کانوں سے ٹکرا رہی تھی۔ یہ وہ موقع تھا جب اسلام کا یہ غیر تمند سپاہی اپنے گھوڑے پرسوار ہوا اور خیمہ سے مشکیزہ لے کر دلیرانہ اور صفدرانہ انداز میں لشکر پر ٹوٹ پڑا۔عمر بن سعد نے خاندان رسالت پر پانی بند کرنے کے لئے چار (٤) ہزار کا رسالہ فرات کے کنارے تعینات کر رکھا تھا اور وہ کسی طرح اصحاب واولاد حسین علیہ السلام کو پانی تک پہنچنے نہیں دے رہے تھے ۔علمدار لشکر حسینی نے اسی رسالہ پر حملہ کیا۔ آپ جو امیر المو منین علیہ السلام کی ایک نشانی تھے اپنی ناقابل وصف شجاعت وشہامت کے ساتھ دشمن کی فوج کوتتر بتر کردیا ،فوج کے پہرے کو بالکل تو ڑدیا اور ان میں سے اسی (٨٠) لوگوں کو قتل کردیا جوان میں سب سے زیادہ شریر تھے ۔

آپ کی شجا عانہ آوازفضا میں گونج رہی تھی :

لا أرهب الموت اذاالموت رقا

حتی أواری فی المصالیت لقی

انّ أنا العباس أعدوا با لسقّا

ولا أخاف الشرّ یوم الملتقی

موت جب میری طرف رخ کرتی ہے تو میں اس سے نہیں ڈرتا یہاں تک کہ خدا کی مدد سے آتش افروز اور جنگجوؤں کے سروں کو خاک میں ملا دوں ،میں عباس ہوں جسے سقائیت کا رتبہ ملا ہے اور میں پانی ضرور پہنچاؤں گا ،میں حق وباطل سے مڈبھیڑ کے دن کبھی بھی باطل کی شرانگیز یوں سے نہیں ڈرتا ۔

۳۷۱

٧۔معراج وفا

حضرت ابو الفصل نے اپنی ناقابل وصف شجاعت سے دشمن کی صفوں کو تتر بتر کردیا اور خود فرات میں داخل ہوگئے ۔پیاس کی شدت کی وجہ سے چلو میں پانی لیاتا کہ تھوڑا ساپی لیں لیکن اسی پانی میں حسین علیہ السلام کی پیاس کا عکس جھلکنے لگا ؛پانی کو فرات کے منہ پر مار دیا اور اپنی روح کو مخاطب کرکے فرمایا:

یانفس من بعد الحسین هون

وبعد ه لا کنت ان تکون

هٰذا الحسین شارب المنون

وتشر بین بارد المعین

هیها ت ما هٰذ ا فعال دین

ولا فعال صادق الیقین

اے نفس تو حسین کے بعد ذلیل ورسوا ہے اور ان کے بعد زندگی کی تمنا نہیں ہے ،یہ حسین ہیں جو جام شہادت نوش فرما رہے ہیں اور تو صاف و خوش گوار پانی پیئے گا ، یہ ہم سے بہت دور ہے، یہ ہمارے دین کا کام نہیں ہے اور نہ ہی یہ کام سچے یقین رکھنے والے کا ہو سکتا ہے ۔

اس کے بعد مشک کو پانی سے بھرکردوش پر رکھا اور خیام حسینی کا رخ کیا۔ وہ تتربتر فوج جس نے اتنی مدت میں خود کو آمادہ کرلیا تھا آپ پر راستہ کو بند کر دیا اور ہزاروں لوگوں نے آپ کو تیروں کی باڑہ پر لے لیا؛ جس کے نیتجے میں آپ کا پورا جسم تیروں کی آماجگاہ ہوگیا اور تیروں نے آپ کے سارے بدن کوچھلنی کرد یا لیکن آپ شجاعت وشہامت کے ساتھ ان پر وار کرتے رہے اور خیموں تک پہنچنے کا راستہ بناتے رہے کہ اسی درمیان ایک پلیدشخص'' زید بن ورقاء ''جو ایک خرمہ کے درخت کے پیچھے چھپا تھا ایک دوسرے ظالم حکیم بن طفیل کی مدد سے پیچھے سے آپ کے داہنے ہاتھ پر ایسا وار کیا کہ آپ کا ہاتھ کٹ گیا ۔ آپ نے پر چم کو بائیں ہاتھ میں لے لیا اور پر جوش انداز میں یہ رزمیہ اشعارپڑھنے لگے :

۳۷۲

واللّه ان قطعتم یمنی

انی أحامی أبد ً اعن دینی

وعن امام صادق الیقین

نجل النبی الطاهر الأ مین

خدا کی قسم اگر چہ تم نے میرا داہنا ہاتھ کاٹ دیا ہے لیکن میں ہمیشہ اپنے دین اور اپنے سچے یقین والے امام کی حمایت کرتا رہا ہوں گا جو طاہر وامین بنی کے نواسے ہیں ۔

اپنے اس شور انگیز اشعار کے ساتھ آپ نے خیمہ تک پہنچنے کی کوشش کو جاری رکھا یہاں تک کہ مسلسل خون بہنے سے آپ پر نقاہت طاری ہوگئی لیکن آپ اپنی طرف تو جہ کئے بغیر خیمہ کی طرف رواں دواں تھے کہ کسی نے آپ کا بایاں ہاتھ بھی کمین گاہ سے کاٹ دیا لیکن پھربھی آپ نے اپنے جہاد کو جاری رکھا اور یہ اشعار پڑھنے لگے :

یا نفس لا تخش من الکفار

وابشر برحمة الجبار

قد قطعواببغیهم یسار

فأ صلهم یا رب حرّ النار

اے نفس کفار سے نہ ڈر ؛تجھے رحمت جبار کی بشارت ہو ؛ انھوں نے دھوکہ سے میرا بایاں ہاتھ بھی کاٹ دیا تو پروردگار اتو انھیں جہنم کی آگ کی گرمی میں واصل کردے ۔

آپ کے دونوں ہاتھ کٹ چکے تھے لیکن آپ کی شجاعت میں کوئی کمی نہیں آئی تھی آپ اس امید میں تھے کہ پانی خیمہ تک پہنچ جائے گا لیکن نا گہاں دشمنوں کی طرف سے ایک تیر آیا اور مشک پر لگا مشک کا سا راپانی زمین پربہہ گیا ۔ اب عباس علیہ السلا م کی فکر بدل گئی ،اب کیا کیا جائے ؟ نہ تو ہاتھ باقی ہیں کہ دوبارہ دشمن کی صفوں پر حملہ کیا جائے اور نہ ہی پانی بچا کہ خیمہ کی طرف جائیں ۔ابھی آپ اسی فکر میں تھے کہ ایک لعین نے ایک گرز آہنی آپ کے سر پر مارا ،عباس زمین پر آئے صدادی: ''یا أخاہ أدرک أخاک'' بھائی ، اپنے بھائی کی مدد کو پہونچئے ۔

۳۷۳

اب میری کمر ٹوٹ گئی : علمدار کی آواز سنتے ہی امام حسین علیہ السلام ایک غضباک شیر کی طرح دشمن کی فوج پرٹوٹ پڑے اور خود کو بھائی تک پہنچا دیا لیکن جب دیکھا کہ ہاتھ قلم ہو چکے ہیں پیشانی زخمی ہو چکی ہے اور تیر عباس کی آنکھوں میں پیوست ہے تو حسین علیہ السلام خمیدہ کمر لئے بھائی کہ پاس آئے اور خون میں غلطیدہ علمدار کے پاس بیٹھ گئے، سر زانو پر رکھا اسی اثنا میں عباس ہمیشہ کے لئے سوگئے اور حسین علیہ السلام نے مرثیہ شروع کیا:''أخی الأن انکسر ظھر و قلت حیلت و شمت ب عدوّ'' اے میرے بھائی اب میری کمر ٹوٹ گئی، راہ وچارہ تدبیر مسدود ہوگئی اور دشمن مجھ پر خندہ زن ہے ،پھر فرمایا :

الیوم نامت أعین بک لم تنم

وتسهدت أخری فعزمنامها

اب وہ انکھیں سوئیں گی جو تمہارے خوف سے نہیں سوتی تھیں اور وہ آنکھیں بیدار رہیں گی جو تمہارے وجود

سے آرام سے سوتی تھیں ۔ایک شاعر نے امام حسین علیہ السلام کی زبانی اہل حرم کے محافظ کو اس طرح یاد کیا ہے :

عباس تسمع زینبا تدعوک من

ل یا حما اذا العدی سلبون ؟

أولست تسمع ماتقول سکینة

عماه یوم الأ سر من یحمین؟

اے عبا س! تم سن رہے ہوزینب تم کو مخاطب کر کے کہہ رہی ہے کہ اے زینب کے محافظ و حامی تمہاری شہادت کے بعد دشمنوں کے حملہ کے مقا بلہ اب ہماری حفاظت کون کرے گا ؟

کیا تم نہیں سن رہے ہوکہ سکینہ کیا کہہ رہی ہے چچا جان آپ کی شہادت کے بعد اسیری کے دنوں میں ہماری حفاظت و حمایت کون کرے گا ؟

اس کے بعد غم و اندوہ کی ایک دنیا لے کر آپ خیمے کی طرف پلٹے، سکینہ نے جیسے ہی بابا کو آتے دیکھا دوڑتی ہوئی گئیں اور پوچھا :'' أبتاہ ھل لک علم بعم العباس ؟'' بابا ! آپ کو چچا کی کوئی خبر ہے ؟ یہ سن کر مولا رونے لگے اور فرمایا : ''یا بنتاہ أن عمک قد قتل'' بیٹی تیرے چچامارڈالے گئے ۔

۳۷۴

حسین علیہ السلام کا شیر خوار

اس کے بعد حسین علیہ السلام اپنے خیمے کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک چھوٹا سا بچہ جو ابھی شیر خوار تھا یا اس سے تھوڑا سا بڑا تھا جسے عبد اللہ بن حسین(١) کے نام سے یاد کیا جاتاہے آپ کو دیا گیااور آپ نے اس بچہ کو اپنی گود میں بیٹھایا ۔(٢)

ناگہاں قبیلہ بنی اسد کی ایک فرد حرملہ بن کاہل یا ہانی بن ثبیث حضرمی نے ایک تیر چلایااور وہ بچہ اس تیر سے ذبح ہو گیا ۔حسین علیہ السلام نے اس کے خون کواپنے ہاتھوں میں لیا اور جب آپ کی ہتھیلی خون سے بھر گئی تو اسے ز مین پرڈال دیا اور فرمایا :'' رب ان تک حبست عنا النصر من السماء فاجعل ذالک لما هو خیر ، وانتقم لنا من هٰؤ لا ء الظالمین'' خدا یا اگر اپنی حکمت کے پیش نظر تو نے آسمان سے اپنی مدد ونصرت کو ہم سے روک لیا ہے تو اس سے بہتر چیز ہمارے لئے قرار دے اور ان ظالموں سے ہمارا انتقام لے۔

____________________

١۔ ابو مخنف نے نقل کیا ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے۔ (طبری ،ج٥،ص ٤٤٨)

٢۔ طبری نے عماردہنی کے حوالے سے امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : ایک تیر آیا اور اس بچہ کو لگا جو آپ کی آغوش میں تھا تواور آپ اس کے خون کو ہاتھ میں لے کر فرمارہے تھے :''اللهم احکم بیننا و بین قو م دعونا لینصرونا فقتلونا' 'خدا یا تو ہمارے اور اس قوم کے درمیان فیصلہ کر جس نے ہمیں بلایا تاکہ ہماری مدد کرے اور پھر ہمیں قتل کردیا۔ (طبری، ج٥ ،ص ٣٨٩)

یعقو بی کا بیان ہے : آغاز جنگ کے بعد ایک کے بعد ایک جام شہادت نوش فرمانے لگے یہا ں تک کہ حسین علیہ السلام تنہا رہ گئے۔ آپ کے اصحاب ،فرزند اور رشتہ دارو ں میں کوئی باقی نہ رہا؛ آپ تنہا اپنے گھوڑ ے پر بیٹھے تھے کہ ایک بچہ نے اسی وقت دنیامیں آنکھ کھو لی۔ آپ نے اس کے کان میں اذان دی اور ابھی اسکی تحنیک (تالو اور زبان کے درمیان جدائی کرنے) میں ہی مشغول تھے کہ ایک تیر آیا اور بچہ کے حلق میں پیو ست ہو گیا اور اس نے اسے ذبح کردیا۔اما م حسین علیہ السلام نے اس کے حلق سے تیر نکا لا اور وہ خون میں لت پت ہو گیا۔ اس وقت آپ فر مارہے تھے''واللّٰه لأ نت أکرم علی اللّٰه من الناقة ولمحمد أکرم من الصالح'' خدا کی قسم تو خدا کے سامنے ناقہ (صالح) سے زیادہ ارزش مند ہے اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صالح سے زیادہ باکر امت ہیں پھر اس کے بعد آکر اس نو نہال کو اپنے فرزند و ں اور بھتیجو ں کے پاس لٹا دیا۔ (تاریخ یعقوبی، ج٦،ص٢٣٢،طبع نجف)

۳۷۵

سبط بن جو زی کا بیان ہے کہ پھر حسین ملتفت ہو ئے کہ ایک بچہ پیاس کی شدت سے رورہا ہے تو آپ اسے اپنے ہاتھ پر لے کر دشمنو ں کے سامنے گئے اور فر مایا :''یا قوم ان لم تر حمو ن فارحمواهٰذا الطفل'' اے قوم ! اگر تم لوگو ں کو مجھ پر رحم نہیں آتاتو اس بچہ پر رحم کرولیکن اس کے جواب میں دشمن کی فوج میں سے ایک نے اس بچہ پر تیر چلادیا جس سے وہ ذبح ہوگیا ۔یہ صورت حال دیکھ کر حسین علیہ السلام رودیئے اور کہنے لگے :''اللّٰهم احکم بیننا وبین القوم دعونا لینصرونا فقتلونا' ' خدایا!تو ہمارے اور اس قوم کے درمیان فیصلہ کر جس نے ہمیں دعوت دی کہ ہم آپ کی نصرت و مدد کری ں گے لیکن اس نے ہمیں قتل کردیا۔ اسی درمیان فضامیں ایک آوازگونجی'' دعہ یا حسین! فان لہ مرضعاً فی الجنة'' اے حسین ! اس بچہ کو چھوڑ دو کیونکہ جنت میں اسے دودھ پلانے والی موجود ہے۔ (تذکرہ ،ص ٢٥٢، طبع نجف)

ان تینو ں روایتو ں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کربلا میں ایسے تین بچے شھید ہوئے ہیں جو شیر خوار یا اس سے کچھ بڑے تھے اور ابو مخنف نے فقط ایک شیر خوار کا تذکرہ کیا ہے جسے طبری نے ذکر کیا ہے۔اس روایت کی بنیاد پر جناب علی اصغر کی روایت اور امام حسین علیہ السلام کا انہیں میدان میں لے جانے سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ واقعہ سبط بن جوزی کی زبانی ثابت ہے لہٰذا اگر کوئی آغوش میں شہید ہونے والے واقعہ کو پڑھتا ہے یا لکھتا ہے تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ حضرت علی اصغر کی شہادت کا منکر ہے اور نہ ہی حضرت علی اصغر کی شہادت کا ذکر کرنے والو ں کو اس پر مصر ہونا چاہیے کہ شیر خوار بچے کے عنوان سے فقط یہی شہید ہوئے ہیں ۔ان کے علاوہ دو بچے اور بھی ہیں جو تیر ستم کا نشانہ بنے ہیں ۔ (مترجم)

۳۷۶

عبداللہ بن جعفر کے دو فرزندوں کی شہادت

پھر عبداللہ بن جعفر کے فرزند میدان نبرد میں آئے اور دشمن کی فوج نے انھیں چاروں طرف سے گھیر لیا۔ عبد اللہ بن قطبہ نبہانی طائی نے عون بن عبداللہ بن جعفر بن ابوطالب پر حملہ کرکے انھیں شہید کردیا(١) اور عامر بن نہشل تیمی نے محمد بن عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب پر حملہ کرکے انھیں شھید کردیا ۔(٢)

آل عقیل کی شہادت

''عثمان بن خالد بن اسیر جہنی'' اور'' بشر بن حوط قابضی ھمدانی'' نے ایک زبردست حملہ میں عبدالرحمن بن عقیل بن ابیطالب کو شہیدکردیا۔(٣) اوردونوں نے مل کر ان کے لباس وغیرہ لوٹ لئے اور عبداللہ بن عزرہ خثعمی(٤) نے جعفر بن عقیل بن ابیطالب کو تیر مار کر شہید کردیا ،پھر عمروبن صبیح صدائی(٥)

____________________

١۔آپ کی مادر گرامی جمانة بنت مسیب بن نجبۂ غزاری تھی ں ۔ (طبری ،ج ٥، ص ٤٦٩) مسیب بن نجبہ کا شمار کوفہ کے شیعو ں میں توابین کے زعماء میں ہوتا ہے۔ ابو الفرج اصفہانی کا بیان ہے کہ آپ کی مادر گرا می عقیلہ بنی ہاشم زینب بنت علی بن ابی طالب (علیہم السلام) تھی ں (ص٦٠ ،طبع نجف) ۔

٢۔ آپ کی مادر گرامی خوصاء بنت خصفہ بن ثقیف تیمی خاندان بکر بن وائل سے متعلق تھی ں ۔(طبری ،ج٥،ص ٤٦٩) ابوالفرج نے بھی یہی لکھا ہے (ص ٦٠ ،طبع نجف) لیکن سبط بن جوزی نے حوط بنت حفصہ التمیمی لکھاہے۔ (تذکرہ، ص ٢٥٥ ، ط نجف)

٣۔ مختار نے ان دونو ں کی طرف عبداللہ بن کامل کو روانہ کیا۔ ادھر یہ دونو ں جزیرہ یعنی موصل کی طرف نکلنے کا ارادہ کررہے تھے تو عبداللہ بن کامل اور دوسرے لوگ ان دونو ں کی تلاش میں نکلے اورمقام جبانہ میں انھی ں پالیا۔ وہا ں سے ان دونو ں کو لے کر آئے اور جعد کے کنوی ں کے پاس لے گئے اور وہیں ان دونو ں کی گردن ماردی اور آگ میں جلادیا ۔ اعشی ہمدان نے ان دونو ں پر مرثیہ کہا ہے (طبری، ج٦، ص ٥٩) لیکن طبری نے جلد ٥، ص ٤٦٩ پر لکھا ہے کہ عبدالرحمن بن عقیل کو فقط عثمان بن خالد جہنی نے قتل کیا ہے اوربشر بن حوط ہمدانی ان کے ہمراہ اس کے قتل میں شریک نہ تھا لیکن اسی سند سے ابوالفرج نے دونو ں کو ذکر کیا۔ (ص، ٦١،طبع نجف)

٤۔ طبری نے ج٥، ص ٤٦٩ پر لکھ اہے کہ آپ کو بشر بن حوط بن ہمدانی نے شہید کیا اور ج٦، ص ٦٦٥ پر عبداللہ بن عروہ خثعمی لکھا ہے۔ مختار نے اس شخص کو طلب کیا تو یہ آپ کے ہاتھ سے نکل کر مصعب سے ملحق ہوگیا۔ابولفرج نے بعینہ اسی سند کے حوالے سے عبداللہ بن عروہ خثعمی لکھا ہے۔ (ص ٦١طبع نجف)

٥۔ مختار نے اسے طلب کیا تو یہ رات میں اس وقت لایا گیا جب آنکھی ں نیند کا مزہ لے رہی تھی۔ اس وقت یہ چھت

۳۷۷

پر تھا تاکہ پہچانا نہ جا سکے۔ اسے پکڑا گیا درحالیکہ اس کی تلوار اسکے سر کے نیچے تھی ۔ پکڑنے والے نے اس سے کہا خدا تیری تلوار کا برا کرے جو تجھ سے کتنی دور ہے اور کتنی نزدیک ۔ وہ کہہ رہاتھا کہ میں نے ان لوگو ں پر نیزہ چلایا ہے مجروح کیا ہے لیکن کسی کو قتل نہیں کیا ہے۔ اسے مختار کے پاس لایا گیا، مختار نے اسے اسی قصر میں قید کر دیا جب صبح ہوئی تو لوگو ں کو دربارمیں آنے کی اجازت ملی اور لوگ دربار میں داخل ہونے لگے تو وہ قیدی بھی لایا گیا۔ اس نے کہا : اے گرو ہ کفار و فجار ! اگر میرے ہاتھ میں تلوار ہوتی تو تمہیں معلوم ہوجاتا کہ میں تلوار کی نوک سے لرزہ براندام نہیں ہوتا اورنہ ہی خوف زدہ ہوتا ہو ں ۔ میرے لئے کتنا باعث سرور ہے کہ میری موت قتل ہے۔ خلق خدا میں مجھے تم لوگو ں کے علاوہ کوئی اور قتل کرے گا ۔ میں جانتا ہو ں کہ تم لوگ بد ترین مخلوق خدا ہو مگر مجھے اس کی آرزو تھی کہ میرے ہاتھ میں تلوار ہوتی تو میں اس سے تم لوگو ں کو کچھ دیر تک مارتا ،پھر اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور ابن کامل جو اس کے پہلو میں تھے اس کی آنکھ پر طمانچہ لگایا،اس پرابن کامل ہنس پڑااور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روک دیا پھر گویا ہوا : اس کا گمان یہ ہے کہ اس نے آل محمد کو زخمی کیا ہے اور نیزہ چلایا ہے لہٰذا اس کے فیصلہ کو ہم نے آپ پرچھوڑ دیا ہے۔ مختار نے کہا : میرا نیزہ لاؤ ! فوراً نیزہ لایا گیا، مختار بولے : اس پر نیزہ سے وار کرو یہا ں تک کہ یہ مرجائے پس اتنا وار ہوا کہ وہ مرگیا ۔(طبری ،ج٦، ص ٦٥)لیکن طبری نے ج٥،ص ٤٦٩ پر ابو مخنف سے روایت کی ہے کہ اس نے عبداللہ بن عقیل بن ابیطالب علیہم السلام کو قتل کیا ہے اور ج٦،ص ٦٤ پر روایت کی ہے کہ جس نے عبداللہ بن مسلم بن عقیل کو قتل کیا وہ زید بن رقاد جنبی ہے اور وہ یہ کہا کرتا تھا کہ میں نے تمہارے ایک جوان پر تیر چلایا جب کہ وہ اپنی ہتھیلی کو اپنی پیشانی پر رکھے ہوئے تھا اور میں نے اس کی ہتھیلی کو اس کی پیشانی سے چپکا دیا اس طرح سے کہ وہ اپنی ہتھیلی کو اپنی پیشانی سے جدا نہ کرسکا جب اس کی پیشانی اس طرح ہتھیلی سے چپک گئی تو اس جوان نے کہا :''اللّٰهم انهم استقلونا واستذلونا اللهم فاقتلهم کماقتلونا و اذلهم کما استذلونا'' خدا یا !ان لوگو ں نے ہماری تعداد کم کردی اور ہمیں ذلیل کرنے کی کوشش کی خدا یا! توبھی ان لوگو ں کو اسی طرح قتل کرجیسے انھو ں نے ہمیں قتل کیا ہے اور انھی ں اسی طرح ذلیل و رسوا کر جیسے انھو ں نے ہمیں ذلیل و رسوا کر نے کی کوشش کی ہے؛ پھر اس جنبی نے ایک تیراورچلاکر آپ کو شہید کر دیا۔ وہ کہتاہے:جب میں اس جوان کے پاس آیاتووہ مرچکاتھا۔ میں نے اس تیر کو حرکت دیا تاکہ اسے باہر نکال دو ں لیکن اس کا پھل کچھ اس طریقے سے پیشانی میں پیوست ہوچکا تھا کہ میں اسے نکالنے سے عاجز ہوگیا۔ اپنے زمانے میں مختار نے عبداللہ بن کامل شاکری کو اس کے سراغ میں روانہ کیا،عبداللہ نے آکراس کے گھر کو گھیر لیا اور وہا ں لوگو ں کی ایک بھیڑ لگ گئی تو وہ شخص تلوار سونتے باہر نکلا۔ ابن کامل نے کہا : اس پر تیر چلاؤ اور اسے پتھر مارو،لوگو ں نے ایسا ہی کیا یہا ں تک کہ وہ زمین پر گر پڑا لیکن اس کے جسم میں ابھی جان باقی تھی۔اس کے بعد ابن کامل نے آگ منگوائی اوراسے زندہ جلادیا۔(طبری، ج٦،ص ٦٤)

۳۷۸

نے عبداللہ بن مسلم بن عقیل(١) پرایک تیر چلایا ۔آپ اپنا ہاتھ پیشانی پر لے گئے تاکہ تیر نکال لیں لیکن پھر ہتھیلیوں کو حرکت دینے کی طاقت نہ رہی،اسی دوران ایک دوسرا تیرچلا جو آپ کے سینے میں پیوست ہو گیا(٢) اور بسیط بن یاسر جہنی نے محمد بن ابوسعید بن عقیل کو شہید کر دیا۔(٣)

حسن بن علی علیہما السلام کے فر زندوں کی شہادت

عبد اللہ بن عقبہ غنوی(٤) نے ابو بکر بن حسن بن علی علیہماالسلام(٥) پر تیر چلا کر انھیں شہید کر دیا(٦) اور عبداللہ بن حسن بن علی(علیہماالسلام) کوحرملہ بن کاہل اسدی(٧) نے تیر چلاکر شہید کردیا ۔(٨)

____________________

١۔ آپ کی مادر گرامی کانام رقیہ بنت علی بن ابیطالب علیہم السلام ہے۔(طبری، ج٥،ص٤٦٩،ابوالفرج ،ص٦٢ ،طبع نجف)

٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے۔(طبری، ج٥،ص٤٦٩ ، ابو الفرج ،ص ٦٢، طبع نجف)

٣۔ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم ازدی سے یہ روایت نقل کی ہے۔(طبری، ج٥ ،ص٤٤٧)

٤۔ ٤٣ھ میں یہ مستوردبن عقبہ کے ہمراہ نکلنے والو ں میں شمار ہوتا ہے جو کوفہ میں مغیرہ بن شعبہ کی حکومت کا زمانہ تھا۔یہ وہا ں کاتب تھا ۔'' مستورد ''نے حکم دیا کہ یہ اس کے لئے ایک خط لکھے پھر اس خط کو لے کر سماک بن عبید والی مدائن کے پاس لے جائے اور اس کو اپنی طرف بلائے تو اس نے ایسا ہی کیا۔(طبری ،ج٥ ،ص ١٩٠) جب مستورد کی حکومت مصیبت میں گرفتار ہوئی تو غنوی وہا ں سے بھاگ کر کوفہ روانہ ہوگیا اور وہا ں شریک بن نملہ کے گھر پہنچا اور اس سے پوچھا کہ مغیرہ سے کہا ں ملاقات ہوگی تاکہ یہ اس سے امان لے سکے(طبری، ج٥ ،ص ٩٠) اس نے مغیرہ سے امان طلب کی اور مغیرہ نے اسے امان دے دیا۔(طبری، ج٥،ص ٢٠٦) کربلا کے بعد یہ مختار کے خوف سے بھاگ کر مصعب بن زبیر سے ملحق ہو گیا پھر عبدالرحمن بن محمد بن اشعث کے ہمراہ ہوگیا۔ (طبری ،ج٥ ، ص ٢٠٥) مختار نے اس کی جستجو کرائی تو معلوم ہوا کہ فرار ہے تومختار نے اس کا گھر منہدم کردیا۔ (طبری ،ج٦،ص ٦٥) ْ

٥۔ طبری نے جلد ٥، ص ٤٦٨ پر یہی لکھا ہے مگر ص ٤٤٨ پر ابوبکر بن حسین بن علی لکھ دیا ہے جو غلط ہے ۔

٦۔ عقبہ بن بشیر اسدی کا بیان ہے کہ مجھ سے ابو جعفر محمد بن علی بن حسین علیہم السلام نے بیان کیا ہے۔ (طبری، ج٥، ص ٤٤٨) ابوالفرج نے مدائنی سے اس نے ابو مخنف سے اس نے سلیمان بن ابی راشد اور عمرو بن شمر سے اس نے جابرسے انھو ں نے ابو جعفر امام باقر علیہ السلام سے یہ روایت بیان کی ہے۔(مقاتل الطالبیین، ص ٥٧ ،طبع نجف)

٧۔ طبری نے ج٦،ص ٦٥ پر یہی لکھا ہے لیکن یہا ں ج٥ ،ص ٤٦٨ پر حرملہ بن کاہن لکھا ہے جو غلط ہے۔اس کے سلسلے میں مختار کی جستجو اور کیفیت قتل کو بھی ذکر نہیں کیا ہے ۔ہشام کا بیان ہے کہ مجھ سے ابو ہذیل'' سکون '' کے رہنے والے ایک شخص نے بیان کیا ہے کہ وہ کہتا ہے :خالد بن عبداللہ کے زمانے میں حضرمیو ں کی نشست میں ،میں نے ہانی بن ثبیت حضرمی کو دیکھا جو

۳۷۹

بہت بوڑھا ہو چکا تھا۔ میں نے سنا کہ وہ کہہ رہاتھا : میں ان لوگو ں میں سے ہو ں جو حسین کے قتل کے وقت وہا ں موجودتھے۔ خدا کی قسم میں ان دس (١٠) میں کا ایک تھا جو ہمیشہ گھوڑے پر تھے اور میں پورے لشکر میں گھوم رہا تھا اور ان کے روز گار کو بگاڑ رہاتھا اسی اثنا میں ان خیمو ں سے ایک نوجوان نکلا جس کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی اس کے جسم پر ایک کرتا اور پاجامہ تھا اور وہ بہت خوفزدہ تھا اور وہ ادھرادھر دیکھ رہا تھا گویا میں دیکھ رہا تھا کہ اس کے کان میں دو درتھے جب وہ ادھر ادھر دیکھ رہاتھا تو وہ در ہل رہے تھے ۔

ناگہا ں ایک شخص گھوڑے کو سر پٹ دوڑا تاہوا سامنے آیا یہا ں تک کہ اس کے نزدیک ہوگیا پھر جب وہ اپنے گھوڑے سے مڑا تو اس نے اس نوجوان کو تلوار سے دو نیم کردیا۔ ابولفرج مدائنی نے اس کی روایت کی ہے۔(ص ٧٩ ،طبع نجف) ابو مخنف کا بیان ہے کہ حسن بن حسن اور عمر بن حسن چھوٹے تھے لہٰذا قتل نہ ہوئے۔ (طبری، ج٥ ،ص ٤٤٩) حسین علیہ السلام کے غلامو ں میں سے دو غلام سلیمان اور منجح بھی جام شہادت نوش فرماکر راہی ملک جاودا ں ہوگئے ۔(طبری ،ج٥، ص ٤٦٩)

٨۔طبری نے ج٥، ص٤٦٨ پر یہی لکھاہے اور ابو الفرج نے ص ٥٨ ،طبع نجف پر مدائنی کے حوالے سے یہی لکھا ہے لیکن مشہور یہ ہے کہ یہ بچہ وہی ہے جو خیمہ سے نکل کر اپنے چچا کی شہادت گاہ کی طرف بھاگا تھا اور وہیں پر ان کے پاس شہید کردیا گیا جیسا کہ عنقریب اس کا بیان آئے گا ۔ ارشاد میں مفید نے اس روایت کو صراحت کے ساتھ لکھا ہے۔(ص ٢٤١ ،طبع نجف)

۳۸۰

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438