واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا9%

واقعۂ کربلا مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 438

واقعۂ کربلا
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 438 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 205502 / ڈاؤنلوڈ: 5734
سائز سائز سائز

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

امام حسین علیہ السلا م خو ن میں ڈوبے فرزند کے پاس یہ کہتے ہوئے آئے:'' قتل اللّٰه قوماً قتلوک یا بن'' اے میرے لال !خدا اس قوم کو قتل کرے جس نے تجھے قتل کیاہے،''ماأجرأهم علیٰ الرّحمٰن وعلی انتهاک حرمة الرسول ''یہ لوگ مہربان خدا پر اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہتک حرمت پر کتنے بے باک ہیں ،''علی الدنیا بعدک العفا'' . میرے لا ل تمہارے بعد اس دنیا کی زندگی پر خاک ہو. ناگاہ اس اثناء میں ایک بی بی شتاباں خیمے سے باہر نکلی وہ آوز دے رہی تھی :'' یاأخےّاہ ! و یابن أخیاہ '' اے میرے بھائی اے جان برادر!وہ آئیں اور خود کو علی اکبر پر گرادیا تو حسین علیہ السلام ان کے پاس آئے اور ان کا ہاتھ پکڑ کر انھیں خیمے میں لوٹا دیا اور خود ہاشمی جوانوں کی طرف رخ کر کے کہا :'' احملوا أخاکم الی الفسطاط'' اپنے بھائی کو اٹھاکر خیمے میں لے جاؤ''فحملوه من مصرعه حتی و ضعوه بین یدی الفسطاط الذی کانوا یقاتلون أمامه' '(١)

ان جوانوں نے لاشہ علی اکبر کو مقتل سے اٹھا کراس خیمے کے پاس رکھ دیا جس کے آگے وہ لوگ مشغول جہاد تھے ۔

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥، ص ٤٤٦) اور ابو الفرج نے بھی اسی سند کو ذکر کیا ہے ۔(مقاتل الطالبیین، ص ٧٦و٧٧)

۳۶۱

قاسم بن حسن کی شہادت

حمید بن مسلم کا بیان ہے : ہماری جانب ایک نو جوان نکل کر آیا ،اس کا چہرہ گویا چاند کا ٹکڑا تھا، اس کے ہاتھ میں تلوار تھی، جسم پر ایک کرتہ اور پائجامہ تھا،پیروں میں نعلین تھی جس میں سے ایک کا تسمہ ٹوٹا ہو ا تھا اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وہ بائیں طرف والی نعلین تھی۔

عمر وبن سعد بن نفیل ازدی(١) نے مجھ سے کہا :خدا کی قسم میں اس بچہ پر ضرور حملہ کروں گا تو میں نے کہا : ''سبحان اللّٰہ'' تو اپنے اس کام سے کیاچاہتا ہے۔لشکر کا یہ انبوہ جو اس کو اپنے گھیرے میں لئے ہے تیری خواہش پوری کرنے کے لئے کافی ہے لیکن اس نے اپنی بات پھر دھرائی : خدا کی قسم میں اس پر ضرور حملہ کروں گا، یہ کہہ کر اس نے اس جوان پر زبردست حملہ کردیا اورتھوڑی دیرنہ گزری تھی کہ تلوار سے اس کے سر پر ایک ایسی ضرب لگائی کہ وہ منہ کے بھل زمین پرگر پڑا اور آواز دی :'' یا عماہ ! ''اے چچا مدد کو آیئے۔

یہ سن کر امام حسین علیہ السلام شکاری پرندے کی طرح وہاں نمودار ہوئے اور غضب ناک و خشمگین شیر کی طرح دشمن کی فوج پر ٹوٹ پڑے اور عمرو پر تلوار سے حملہ کیا۔ اس نے بچاؤ کے لئے ہاتھ اٹھا یا تو کہنیوں سے اس کے ہاتھ کٹ گئے یہ حال دیکھ کر لشکر ادھر ادھر ہونے لگا اور وہ شقی (عمر و بن سعد) پامال ہو کر مر گیا۔ جب غبار چھٹا تو امام حسین علیہ السلام قاسم کے بالین پر موجود تھے اور وہ ایڑیاں رگڑ رہے تھے ۔

اور حسین علیہ السلام یہ کہہ رہے تھے :بعداً لقوم قتلوک ومن خصمهم یوم القیامة فیک جدک ، عزّ واللّٰه علیٰ عمک أن تدعوه فلا یجیبک أو یجیبک ثم لا ینفعک صوت واللّٰه کثر واتره و قل ناصره'' برا ہو اُس قوم کا جس نے تجھے قتل کردیا اور قیامت کے دن تمہارے دادااس کے خلاف دعو یدار ہوں گے۔تمہارے چچا پر یہ بہت سخت ہے کہ تم انھیں بلاؤ اور وہ تمہاری مدد کو نہ آسکیں اور آئے بھی تو تجھے کوئی فائدہ نہ پہنچا سکے۔خدا کی قسم تمہاری مد د کی آواز آج ایسی ہے کہ جس کی غربت و تنہائی زیادہ اور اس پر مدد کرنے والے کم ہیں ۔

____________________

١۔ طبری، ج٥،ص ٤٦٨ ، اس شخص کا نام سعد بن عمرو بن نفیل ازدی لکھا ہے اور دونو ں خبر ابو مخنف ہی سے مروی ہے ۔

۳۶۲

پھر حسین نے اس نوجوان کو اٹھایا گویا میں دیکھ رہا تھا کہ اس نوجوان کے دونوں پیر زمین پر خط دے رہے ہیں جبکہ حسین نے اس کا سینہ اپنے سینے سے لگارکھا تھا پھر اس نوجوان کو لے کر آئے اور اپنے بیٹے علی بن الحسین کی لاش کے پاس رکھ دیا اور ان کے اردگرد آپ کے اہل بیت کے دوسرے شہید تھے، میں نے پوچھا یہ جوان کون تھا ؟ تو مجھے جواب ملا : یہ قاسم بن حسن بن علی بن ابیطالب (علیہم السلام) تھے۔(١)

____________________

١۔ ابو مخنف نے بیان کیا ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری، ج٥،ص ٤٤٧ و ارشاد ، ص ٢٣٩)

۳۶۳

عباس بن علی اور ان کے بھائی

پھر عباس بن علی (علیہما السلام) نے اپنے بھایئوں : عبد اللہ ، جعفر اور عثمان سے کہا : یا بن أم ! تقد مواحتی أرثیکم فانہ لا ولد لکم ! اے مرے ماں جایو ! آگے بڑھو تاکہ میں تم پر مرثیہ پڑھ سکوں کیونکہ تمہاراکوئی بچہ نہیں ہے جو تم پر نوحہ کرے ۔

ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور میدان جنگ میں آئے اور بڑا زبر دست جہاد کیا یہاں تک کہ سب کے سب شہید ہوگئے ۔(خدا ان سب پر رحمت نازل کرے)(٢)

____________________

٢۔ ابو مخنف نے حضرت عباس بن علی علیہما السلام کا مقتل اور ان کی شہادت کا تذکرہ نہیں کیاہے لہٰذا ہم اسے مختلف مقاتل کی زبانی ذکر کرتے ہیں ۔ارشاد میں شیخ مفید فرما تے ہیں : جب حسین علیہ السلام پر پیاس کا غلبہ ہوا تو آپ نے اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر فرات کا ارادہ کیا، آپ کے ساتھ ساتھ آپ کے بھائی عباس بھی تھے۔ ابن سعد لعنة اللّٰہ علیہ کا لشکرآپ کے لئے مانع ہوا اور اس لشکرمیں '' بنی دارم'' کا ایک شخص بھی تھا جس نے اپنی فوج سے کہا : وائے ہو تم پر ان کے اور فرات کے درمیان حائل ہو جاؤ اور انھی ں پانی تک نہ پہنچنے دو، اس پر حسین علیہ السلام نے بددعا کی''اللّٰهم أظمئه '' خدا یا! اسے پیاسا رکھ ! یہ سن کر''دارمی'' کو غصہ آگیا اور اس نے تیر چلادیا جو آپ کی ٹھڈی میں لگا ۔حسین علیہ السلام نے اس تیر کو نکالا اور ٹھڈی کے نیچے اپنا ہاتھ لگا یا تو خون سے آپ کی دونو ں ہتھیلیا ں بھر گئی ں ۔آپ نے اس خون کو زمین پر ڈال دیا اور فرمایا :''اللّٰهم انی أشکوا الیک ما یفعل بابن بنت نبیک'' خدا یا !میں تجھ سے شکوہ کرتا ہو ں کہ تیرے نبی کے نواسے کے ساتھ کیا کیا جا رہا ہے پھرآپ اپنی جگہ لوٹ آئے؛ لیکن پیاس میں اضافہ ہورہاتھا۔ ادھر دشمنو ں نے عباس کو اس طرح اپنے گھیرے میں لے لیا کہ آپ کا رابطہ امام حسین علیہ السلام سے منقطع ہو گیا۔ آپ تنہا دشمنو ں سے مقابلہ کرنے لگے یہا ں تک کہ آپ شھید ہوگئے ،آپ پر اللہ کی رحمت ہو۔ زید بن ورقاء حنفی(١) اور

۳۶۴

حکیم بن طفیل سنسبی نے آپ کو اس وقت شہید کیا جب آپ زخمو ں سے چور ہوچکے تھے اور حرکت کی طاقت نہ تھی۔ (ارشاد، ص ٢٤٠ ، طبع نجف اشرف) یہا ں سے ہم مقتل الحسین مقرم ، مقتل الحسین امین، ابصارالعین سماوی،فاجعةالطف علامہ قزوینی ، عمدة الطالب اورخصال صدوق، ج١،ص ٦٨، اور تاریخ طبری کی مدد سے حضرت ابو الفضل العباس کی شخصیت پر تھوڑی سی روشنی ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں ؛ شاید بارگاہ ایزدی میں یہ کوشش آخرت کی رسوائی سے نجات دلائے اور سقائے سکینہ کی خدمت اقدس میں یہ سعی ناچیز تحفہ قرار پائے۔

____________________

(١) طبری نے زید بن رقاد جنبی لکھا ہے۔ (ج٥،ص ٤٦٨) اور جلد ٦ ،صفحہ ٦٤ پر لکھا ہے کہ یہ جَنَب کا ایک شخص تھا۔ یہ شخص عبد اللہ بن مسلم بن عقیل اور سویدبن عمرو خثعمی صحابی امام حسین علیہ السلام کا بھی قاتل ہے۔ اس کے احوال سوید کی شہادت کے ذیل میں گزر چکے ہیں ۔مختار نے اسے زندہ جلا دیا تھا۔ اسے حنفی کہنا واضح تحریف ہے ۔

۳۶۵

لشکر حسینی کے سردار

علمدار حسینی عباس(علیہ السلا م)آخر میں امام حسین علیہ السلام کی مدد و نصرت اورآ پ کے حقوق و بلند مقاصد کے دفاع میں تنہا رہ گئے تھے ؛کیوں کہ تمام یاور و انصار اور بھائی بھتیجے اور فرزند شہید ہو چکے تھے ۔آپ نا قابل توصیف شجاعت و شہامت کے ساتھ اپنے آقا حسین علیہ السلام کی حفاظت میں پہاڑ کی طرح مستحکم تھے۔ حوادث کی تند وتیز ہوائیں آپ کے وجود پر اثر انداز نہیں ہورہی تھیں ۔ آپ قابل افتخارشخصیت کے مالک تھے کیونکہ علم وعقل ، ایمان و عمل اور جہادو شہادت میں یکتائے تاز روزگار تھے۔ ان خصوصیات کو ہم آپ کے رجز ، آپ کے اعمال اور آ پ کے بیانات میں واضح طور پر مشاہدہ کرسکتے ہیں ۔

آپ کے امتیازات و خصوصیات

حقیقت میں آپ فضیلتوں کے سر چشمہ اور انسانی قدروں کے سربراہ تھے۔ آپ کے امتیازو خصوصیات قابل قدر و تحسین اور انسان ساز ہیں ، وہ اوصاف و خصوصیات جو فردی و اجتماعی زندگی کو نیک بختی اور نجات کے معراجی مراحل تک پہنچاتے ہیں ۔ یہاں پر آپ کے بعض اوصاف کا تذکرہ منظور نظر ہے ۔

١۔ حسن ورشاد ت

آپ بلند قامت ، خوش سیما اور خوب رو تھے ۔ خاندان کے درمیان ایک خاص عظمت و شکوہ کے حامل تھے لہٰذا قمربنی ہاشم یعنی بنی ہاشم کے چاند کہلاتے تھے جب آ پ حق و عدالت سے دفاع کے لئے مرکب پر سوار ہوتے تھے تو آپ کی صولت و ہیبت سے شیر دل افراد خوف زدہ ہوجاتے تھے اور رزم آورو دلیرافرادترس و خوف میں مبتلا ہو کر لرزہ براندام ہوجاتے تھے ۔

حق و عدالت کی راہ میں جاں نثاری ، دلاوری اور شجاعت آپ کا طرۂ امتیاز تھا ۔یہ صفت آپ نے اپنے شہسوار باپ امیرا لمومنین علی علیہ السلام سے حاصل کی تھی۔ اگر چہ آپ کی مادر گرامی بھی علم ومعنویت کی پیکر اور عرب کی ایک شجاع خاندان سے تعلق رکھتی تھیں ۔حضرت علی علیہ ا لسلام نے بڑے ہی اہتمام سے آپ کی مادر گرامی کا انتخاب کیا تھا اور جب اس اہتمام کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا :''لتلدلی فارساً شجاعاً'' میں چاہتا ہوں کہ وہ خاتون میرے لئے ایک شجاع بچہ دنیا میں لے کر آئے۔ یہ سبب تھا کہ افق علوی سے بنی ہاشم کا چاند خورشید فاطمی کی حفاظت کے لئے آسمان ام البنین پر طلوع ہوا ۔

۳۶۶

٢۔معنوی شوکت

دنیا میں ایک سے ایک بہادر ، پہلوان ، شجاع اور خوبصورت گزرے ہیں ۔ اگر ہم ابو الفضل عباس کو فقط اس نگاہ سے دیکھیں کہ آپ رشید قامت ، ہلالی ابرو ، ستواں ناک اور گلابی ہونٹوں والے تھے تو تاریخ کے پاس ایسے سینکڑوں نمونے ہیں جو خوبصورت بھی تھے اور بہادر بھی لیکن ابولفضل العباس علیہ السلام کی خصوصیت فقط یہ نہ تھی کہ آپ فقط خوبصورت اور بہادر تھے بلکہ آپ کی اہم خصوصیت جو آپ کو گوہر نایاب بناتی ہے وہ آپ کا باطنی جوہر اور باطنی حسن ہے یعنی آپ کا ایمان ، اخلاص ، مردانگی ، انسان دوستی ، سچائی ، امانت داری ، آزادی ، عدالت خواہی ، تقویٰ ، حلم ، جانثاری اور وہ پیروی محض ہے جو اپنے امام علیہ السلام کے سامنے پیش کی ہے ۔ تاریخ میں ایک بہادر ، دلیر اور شجاع کا اتنے سخت اور دل ہلادینے والے حوادث میں اس قدر تابع اور مطیع ہونا کہیں نہیں ملتا اور نہ ملے گا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے آپ کی بلند و بالا شخصیت کی اس طرح منظر کشی کی ہے:''کان عمنا العباس نافذ البصیرة ، صلب الایمان ، جاهد مع اخیه الحسین علیه السلام وأبلی بلاء حسناًو مضی شهیداً ''(عمدة الطالب، ٣٥٦) ہمارے چچا عباس عمیق بصیرت والے اور محکم صاحب ایمان تھے جس میں کوئی تزلزل نہ تھا، آپ نے اپنے بھائی حسین علیہ السلام کے ہمراہ جہاد کیا اور بلاؤں کی آماجگاہ میں بہتر ین امتیاز حاصل کیا اور شہید ہو گئے ۔امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں :'' رحم اللّٰه العباس فلقد آثر وابلیٰ وفدا أخاه بنفسه حتی قطعت یداه فأبدله اللّٰه عزو جل بهما جناحین یطیر بهما مع الملائکة فی الجنة کما جعل لجعفر بن ابیطالب وان للعباس عنداللّٰه تبارک وتعالٰی منزلة یغبطه بها جمیع الشهداء یوم القیامة'' (خصال شیخ صدوق ج١؛ ص ٦٨)

خدا (ہمارے چچا) عباس پر رحمت نازل کرے، حقیقت تو یہ ہے کہ آپ نے نا قابل وصف ایثار کا ثبوت دیا

۳۶۷

اور بزرگ ترین آزمائش میں کامیاب ہوکر سر بلند و سرفراز ہوگئے اور آخر کار اپنی جان کو اپنے بھائی پر نثار کردیا یہاں تک کہ آپ کے دونوں ہاتھ کٹ گئے تو اللہ عز و جل نے اس کے بدلے آپ کو دو پر عطا کئے جس کی مدد سے آپ جنت میں فرشتوں کے ہمراہ پرواز کرتے ہیں جس طرح خدا نے جعفر بن ابوطالب کو پر عطا کئے تھے ۔

اللہ تباک و تعالی کے نزدیک جناب عباس کی وہ قدر و منزلت ہے کہ قیامت کے دن تمام شہداء آپ پر رشک کریں گے ۔

٣۔ علمدار کربلا

آپ کی ایک اہم فضیلت یہ ہے کہ روز عاشوراآپ حسینی لشکر کے علمدار تھے اور یہ اتنا بلند و بالا مرتبہ ہے کہ آسانی سے کسی کو نہیں ملتا ۔

جنگ کے بدترین ماحول میں آپ اجازت لے کر میدان کارزار میں آئے لیکن سرکار سیدالشھداء کو آپ سے اتنی محبت تھی کہ فقط فراق و جدائی کے تصور نے امام کی آنکھوں کے جام کو لبریز کردیا اور سیل اشک جاری ہوگئے؛ یہاں تک کہ آپ کی ریش مبارک آنسوؤ ں سے ترہوگئی پھر فرمایا :'' اخی أنت العلامة من عسکری''میرے بھائی تم تو میرے لشکر کے علمدار ہوتو حضرت عباس علیہ السلام نے فرمایا :''فداک روح أخیک لقد ضاق صدری من حیاة الدنیا وأرید آخذ الثار من هولاء المنافقین'' آپ کے بھائی کی جان آپ پر نثار ہو ، حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی زندگی سے میرا سینہ تنگ ہوچکا ہے میں چاہتا ہوں کہ ان منافقوں سے انتقام لوں ۔

۳۶۸

٤۔ سقائی

آپ کی ایک فضیلت یہ ہے کہ آپ سقا کے لقب سے نوازے گئے اور حسینی لشکر کی پیاس بجھانے کے لئے پانی کی سبیل کی خاطر نہر فرات کی طرف دشمنوں کے نرغے میں چل پڑے ،۔بچوں کی تشنگی نے آپ کے دل کو برمادیا۔ امام حسین علیہ السلام سے میدان جنگ کی اجازت چاہی تو آپ نے فرمایا :''فاطلب لهولاء الأطفال قلیلاً من المائ'' بھائی اگر میدان میں جانا چاہتے ہو تو ان بچوں کے لئے دشمنوں سے تھوڑا سا پانی طلب کرو ۔

٥۔سالار عشق و ایمان

عبا س غازی کی یہی وہ صفت ہے جو آپ کو دوسرے ساونت اوردلیروں سے جدا کرکے بہادری اور شجاعت کا حقیقی پیکر بناتی ہے۔ آپ کی جگہ پر کوئی بھی بہادر ہوتا تو وہ میدان جنگ میں آتے ہی تلوار سونت کر جنگ میں مشغول ہوجاتا لیکن یہ عباس پروردہ ٔآغوش تربیت علی مرتضیٰ ہیں جسمی توانائی کے علاوہ ان کا قلب تقویٰ ، اخلاق ، علم وحلم سے معمور ہے، اسی لئے

۳۶۹

جب میدان میں آئے تو پہلے سردار لشکر عمر بن سعد کو ہدایت کی، راہ دکھائی اور اس سے مخاطب ہو کر کہا :''یا عمر بن سعد ! هٰذا الحسین ابن بنت رسول اللّٰه قد قتلتم أصحابه و أخوته وبنی عمه وبقی فریداً مع أولاده و عیاله وهم عطاشا، قد أحرق الظماء قلوبهم فاسقوهم شربة من الماء لأن أولاده و أطفاله قد و صلوا الی الهلاک'' .اے عمر بن سعد ! یہ حسین نواسہ رسول ہیں جن کے اصحاب ، بھائیوں اور چچا زادگان کو تم لوگوں نے قتل کردیا ہے اور وہ اپنی اولاد اور عیال کے ہمراہ تنہارہ گئے ہیں اور بہت پیاسے ہیں پیاس سے ان کا کلیجہ بھنا جا رہا ہے لہٰذاانھیں تھوڑا ساپانی پلادو؛ کیوں کہ ان کی اولاد اور بچے پیاس سے جاں بہ لب ہیں ۔ آپ کے ان جملوں کا اثر یہ ہواکہ بعض بالکل خاموش ہوگئے ، بعض بے حد متاثر ہو کر رونے لگے لیکن شمر و شبث جیسے شقاوت پیکروں نے تعصب کی آگ میں جل کر کہا :'' یابن أبی تراب ! قل لأ خیک : لو کان کل وجہ الارض مائً وھوتحت أید ینا ما سقیناکم منہ قطرة حتی تدخلوا فی بیعة یزید'' اے ابو تراب کے فرزند ! اپنے بھائی سے کہہ دوکہ اگر ساری زمین پانی پانی ہوجائے اور وہ ہمارے دست قدرت میں ہو تب بھی ہم تم کو ایک قطرہ پانی نہیں پلائیں گے یہاں تک کہ تم لوگ یزید کی بیعت کرلو۔

۳۷۰

٦۔ اسلام کا غیرت مند سپاہی

حضرت عباس علیہ السلام اموی سپاہ کی غیر عاقلانہ اور جاہلانہ گفتگوپر افسوس کر کے اپنے آقا کے پاس لوٹ آئے اور سارے واقعات سے آگاہ کردیا ۔

امام حسین علیہ السلام قرآن اور خاندان رسالت کی تنہائی پر آنسو بہا نے لگے اور اتنا روئے کہ یہ آنسو آپ کے سینے اور لباس پر ٹپکنے لگے ۔دوسری طرف ننھے بچوں کی صدائے العطش بار بار حضرت عباس کے کانوں سے ٹکرا رہی تھی۔ یہ وہ موقع تھا جب اسلام کا یہ غیر تمند سپاہی اپنے گھوڑے پرسوار ہوا اور خیمہ سے مشکیزہ لے کر دلیرانہ اور صفدرانہ انداز میں لشکر پر ٹوٹ پڑا۔عمر بن سعد نے خاندان رسالت پر پانی بند کرنے کے لئے چار (٤) ہزار کا رسالہ فرات کے کنارے تعینات کر رکھا تھا اور وہ کسی طرح اصحاب واولاد حسین علیہ السلام کو پانی تک پہنچنے نہیں دے رہے تھے ۔علمدار لشکر حسینی نے اسی رسالہ پر حملہ کیا۔ آپ جو امیر المو منین علیہ السلام کی ایک نشانی تھے اپنی ناقابل وصف شجاعت وشہامت کے ساتھ دشمن کی فوج کوتتر بتر کردیا ،فوج کے پہرے کو بالکل تو ڑدیا اور ان میں سے اسی (٨٠) لوگوں کو قتل کردیا جوان میں سب سے زیادہ شریر تھے ۔

آپ کی شجا عانہ آوازفضا میں گونج رہی تھی :

لا أرهب الموت اذاالموت رقا

حتی أواری فی المصالیت لقی

انّ أنا العباس أعدوا با لسقّا

ولا أخاف الشرّ یوم الملتقی

موت جب میری طرف رخ کرتی ہے تو میں اس سے نہیں ڈرتا یہاں تک کہ خدا کی مدد سے آتش افروز اور جنگجوؤں کے سروں کو خاک میں ملا دوں ،میں عباس ہوں جسے سقائیت کا رتبہ ملا ہے اور میں پانی ضرور پہنچاؤں گا ،میں حق وباطل سے مڈبھیڑ کے دن کبھی بھی باطل کی شرانگیز یوں سے نہیں ڈرتا ۔

۳۷۱

٧۔معراج وفا

حضرت ابو الفصل نے اپنی ناقابل وصف شجاعت سے دشمن کی صفوں کو تتر بتر کردیا اور خود فرات میں داخل ہوگئے ۔پیاس کی شدت کی وجہ سے چلو میں پانی لیاتا کہ تھوڑا ساپی لیں لیکن اسی پانی میں حسین علیہ السلام کی پیاس کا عکس جھلکنے لگا ؛پانی کو فرات کے منہ پر مار دیا اور اپنی روح کو مخاطب کرکے فرمایا:

یانفس من بعد الحسین هون

وبعد ه لا کنت ان تکون

هٰذا الحسین شارب المنون

وتشر بین بارد المعین

هیها ت ما هٰذ ا فعال دین

ولا فعال صادق الیقین

اے نفس تو حسین کے بعد ذلیل ورسوا ہے اور ان کے بعد زندگی کی تمنا نہیں ہے ،یہ حسین ہیں جو جام شہادت نوش فرما رہے ہیں اور تو صاف و خوش گوار پانی پیئے گا ، یہ ہم سے بہت دور ہے، یہ ہمارے دین کا کام نہیں ہے اور نہ ہی یہ کام سچے یقین رکھنے والے کا ہو سکتا ہے ۔

اس کے بعد مشک کو پانی سے بھرکردوش پر رکھا اور خیام حسینی کا رخ کیا۔ وہ تتربتر فوج جس نے اتنی مدت میں خود کو آمادہ کرلیا تھا آپ پر راستہ کو بند کر دیا اور ہزاروں لوگوں نے آپ کو تیروں کی باڑہ پر لے لیا؛ جس کے نیتجے میں آپ کا پورا جسم تیروں کی آماجگاہ ہوگیا اور تیروں نے آپ کے سارے بدن کوچھلنی کرد یا لیکن آپ شجاعت وشہامت کے ساتھ ان پر وار کرتے رہے اور خیموں تک پہنچنے کا راستہ بناتے رہے کہ اسی درمیان ایک پلیدشخص'' زید بن ورقاء ''جو ایک خرمہ کے درخت کے پیچھے چھپا تھا ایک دوسرے ظالم حکیم بن طفیل کی مدد سے پیچھے سے آپ کے داہنے ہاتھ پر ایسا وار کیا کہ آپ کا ہاتھ کٹ گیا ۔ آپ نے پر چم کو بائیں ہاتھ میں لے لیا اور پر جوش انداز میں یہ رزمیہ اشعارپڑھنے لگے :

۳۷۲

واللّه ان قطعتم یمنی

انی أحامی أبد ً اعن دینی

وعن امام صادق الیقین

نجل النبی الطاهر الأ مین

خدا کی قسم اگر چہ تم نے میرا داہنا ہاتھ کاٹ دیا ہے لیکن میں ہمیشہ اپنے دین اور اپنے سچے یقین والے امام کی حمایت کرتا رہا ہوں گا جو طاہر وامین بنی کے نواسے ہیں ۔

اپنے اس شور انگیز اشعار کے ساتھ آپ نے خیمہ تک پہنچنے کی کوشش کو جاری رکھا یہاں تک کہ مسلسل خون بہنے سے آپ پر نقاہت طاری ہوگئی لیکن آپ اپنی طرف تو جہ کئے بغیر خیمہ کی طرف رواں دواں تھے کہ کسی نے آپ کا بایاں ہاتھ بھی کمین گاہ سے کاٹ دیا لیکن پھربھی آپ نے اپنے جہاد کو جاری رکھا اور یہ اشعار پڑھنے لگے :

یا نفس لا تخش من الکفار

وابشر برحمة الجبار

قد قطعواببغیهم یسار

فأ صلهم یا رب حرّ النار

اے نفس کفار سے نہ ڈر ؛تجھے رحمت جبار کی بشارت ہو ؛ انھوں نے دھوکہ سے میرا بایاں ہاتھ بھی کاٹ دیا تو پروردگار اتو انھیں جہنم کی آگ کی گرمی میں واصل کردے ۔

آپ کے دونوں ہاتھ کٹ چکے تھے لیکن آپ کی شجاعت میں کوئی کمی نہیں آئی تھی آپ اس امید میں تھے کہ پانی خیمہ تک پہنچ جائے گا لیکن نا گہاں دشمنوں کی طرف سے ایک تیر آیا اور مشک پر لگا مشک کا سا راپانی زمین پربہہ گیا ۔ اب عباس علیہ السلا م کی فکر بدل گئی ،اب کیا کیا جائے ؟ نہ تو ہاتھ باقی ہیں کہ دوبارہ دشمن کی صفوں پر حملہ کیا جائے اور نہ ہی پانی بچا کہ خیمہ کی طرف جائیں ۔ابھی آپ اسی فکر میں تھے کہ ایک لعین نے ایک گرز آہنی آپ کے سر پر مارا ،عباس زمین پر آئے صدادی: ''یا أخاہ أدرک أخاک'' بھائی ، اپنے بھائی کی مدد کو پہونچئے ۔

۳۷۳

اب میری کمر ٹوٹ گئی : علمدار کی آواز سنتے ہی امام حسین علیہ السلام ایک غضباک شیر کی طرح دشمن کی فوج پرٹوٹ پڑے اور خود کو بھائی تک پہنچا دیا لیکن جب دیکھا کہ ہاتھ قلم ہو چکے ہیں پیشانی زخمی ہو چکی ہے اور تیر عباس کی آنکھوں میں پیوست ہے تو حسین علیہ السلام خمیدہ کمر لئے بھائی کہ پاس آئے اور خون میں غلطیدہ علمدار کے پاس بیٹھ گئے، سر زانو پر رکھا اسی اثنا میں عباس ہمیشہ کے لئے سوگئے اور حسین علیہ السلام نے مرثیہ شروع کیا:''أخی الأن انکسر ظھر و قلت حیلت و شمت ب عدوّ'' اے میرے بھائی اب میری کمر ٹوٹ گئی، راہ وچارہ تدبیر مسدود ہوگئی اور دشمن مجھ پر خندہ زن ہے ،پھر فرمایا :

الیوم نامت أعین بک لم تنم

وتسهدت أخری فعزمنامها

اب وہ انکھیں سوئیں گی جو تمہارے خوف سے نہیں سوتی تھیں اور وہ آنکھیں بیدار رہیں گی جو تمہارے وجود

سے آرام سے سوتی تھیں ۔ایک شاعر نے امام حسین علیہ السلام کی زبانی اہل حرم کے محافظ کو اس طرح یاد کیا ہے :

عباس تسمع زینبا تدعوک من

ل یا حما اذا العدی سلبون ؟

أولست تسمع ماتقول سکینة

عماه یوم الأ سر من یحمین؟

اے عبا س! تم سن رہے ہوزینب تم کو مخاطب کر کے کہہ رہی ہے کہ اے زینب کے محافظ و حامی تمہاری شہادت کے بعد دشمنوں کے حملہ کے مقا بلہ اب ہماری حفاظت کون کرے گا ؟

کیا تم نہیں سن رہے ہوکہ سکینہ کیا کہہ رہی ہے چچا جان آپ کی شہادت کے بعد اسیری کے دنوں میں ہماری حفاظت و حمایت کون کرے گا ؟

اس کے بعد غم و اندوہ کی ایک دنیا لے کر آپ خیمے کی طرف پلٹے، سکینہ نے جیسے ہی بابا کو آتے دیکھا دوڑتی ہوئی گئیں اور پوچھا :'' أبتاہ ھل لک علم بعم العباس ؟'' بابا ! آپ کو چچا کی کوئی خبر ہے ؟ یہ سن کر مولا رونے لگے اور فرمایا : ''یا بنتاہ أن عمک قد قتل'' بیٹی تیرے چچامارڈالے گئے ۔

۳۷۴

حسین علیہ السلام کا شیر خوار

اس کے بعد حسین علیہ السلام اپنے خیمے کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک چھوٹا سا بچہ جو ابھی شیر خوار تھا یا اس سے تھوڑا سا بڑا تھا جسے عبد اللہ بن حسین(١) کے نام سے یاد کیا جاتاہے آپ کو دیا گیااور آپ نے اس بچہ کو اپنی گود میں بیٹھایا ۔(٢)

ناگہاں قبیلہ بنی اسد کی ایک فرد حرملہ بن کاہل یا ہانی بن ثبیث حضرمی نے ایک تیر چلایااور وہ بچہ اس تیر سے ذبح ہو گیا ۔حسین علیہ السلام نے اس کے خون کواپنے ہاتھوں میں لیا اور جب آپ کی ہتھیلی خون سے بھر گئی تو اسے ز مین پرڈال دیا اور فرمایا :'' رب ان تک حبست عنا النصر من السماء فاجعل ذالک لما هو خیر ، وانتقم لنا من هٰؤ لا ء الظالمین'' خدا یا اگر اپنی حکمت کے پیش نظر تو نے آسمان سے اپنی مدد ونصرت کو ہم سے روک لیا ہے تو اس سے بہتر چیز ہمارے لئے قرار دے اور ان ظالموں سے ہمارا انتقام لے۔

____________________

١۔ ابو مخنف نے نقل کیا ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے۔ (طبری ،ج٥،ص ٤٤٨)

٢۔ طبری نے عماردہنی کے حوالے سے امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : ایک تیر آیا اور اس بچہ کو لگا جو آپ کی آغوش میں تھا تواور آپ اس کے خون کو ہاتھ میں لے کر فرمارہے تھے :''اللهم احکم بیننا و بین قو م دعونا لینصرونا فقتلونا' 'خدا یا تو ہمارے اور اس قوم کے درمیان فیصلہ کر جس نے ہمیں بلایا تاکہ ہماری مدد کرے اور پھر ہمیں قتل کردیا۔ (طبری، ج٥ ،ص ٣٨٩)

یعقو بی کا بیان ہے : آغاز جنگ کے بعد ایک کے بعد ایک جام شہادت نوش فرمانے لگے یہا ں تک کہ حسین علیہ السلام تنہا رہ گئے۔ آپ کے اصحاب ،فرزند اور رشتہ دارو ں میں کوئی باقی نہ رہا؛ آپ تنہا اپنے گھوڑ ے پر بیٹھے تھے کہ ایک بچہ نے اسی وقت دنیامیں آنکھ کھو لی۔ آپ نے اس کے کان میں اذان دی اور ابھی اسکی تحنیک (تالو اور زبان کے درمیان جدائی کرنے) میں ہی مشغول تھے کہ ایک تیر آیا اور بچہ کے حلق میں پیو ست ہو گیا اور اس نے اسے ذبح کردیا۔اما م حسین علیہ السلام نے اس کے حلق سے تیر نکا لا اور وہ خون میں لت پت ہو گیا۔ اس وقت آپ فر مارہے تھے''واللّٰه لأ نت أکرم علی اللّٰه من الناقة ولمحمد أکرم من الصالح'' خدا کی قسم تو خدا کے سامنے ناقہ (صالح) سے زیادہ ارزش مند ہے اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صالح سے زیادہ باکر امت ہیں پھر اس کے بعد آکر اس نو نہال کو اپنے فرزند و ں اور بھتیجو ں کے پاس لٹا دیا۔ (تاریخ یعقوبی، ج٦،ص٢٣٢،طبع نجف)

۳۷۵

سبط بن جو زی کا بیان ہے کہ پھر حسین ملتفت ہو ئے کہ ایک بچہ پیاس کی شدت سے رورہا ہے تو آپ اسے اپنے ہاتھ پر لے کر دشمنو ں کے سامنے گئے اور فر مایا :''یا قوم ان لم تر حمو ن فارحمواهٰذا الطفل'' اے قوم ! اگر تم لوگو ں کو مجھ پر رحم نہیں آتاتو اس بچہ پر رحم کرولیکن اس کے جواب میں دشمن کی فوج میں سے ایک نے اس بچہ پر تیر چلادیا جس سے وہ ذبح ہوگیا ۔یہ صورت حال دیکھ کر حسین علیہ السلام رودیئے اور کہنے لگے :''اللّٰهم احکم بیننا وبین القوم دعونا لینصرونا فقتلونا' ' خدایا!تو ہمارے اور اس قوم کے درمیان فیصلہ کر جس نے ہمیں دعوت دی کہ ہم آپ کی نصرت و مدد کری ں گے لیکن اس نے ہمیں قتل کردیا۔ اسی درمیان فضامیں ایک آوازگونجی'' دعہ یا حسین! فان لہ مرضعاً فی الجنة'' اے حسین ! اس بچہ کو چھوڑ دو کیونکہ جنت میں اسے دودھ پلانے والی موجود ہے۔ (تذکرہ ،ص ٢٥٢، طبع نجف)

ان تینو ں روایتو ں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کربلا میں ایسے تین بچے شھید ہوئے ہیں جو شیر خوار یا اس سے کچھ بڑے تھے اور ابو مخنف نے فقط ایک شیر خوار کا تذکرہ کیا ہے جسے طبری نے ذکر کیا ہے۔اس روایت کی بنیاد پر جناب علی اصغر کی روایت اور امام حسین علیہ السلام کا انہیں میدان میں لے جانے سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ واقعہ سبط بن جوزی کی زبانی ثابت ہے لہٰذا اگر کوئی آغوش میں شہید ہونے والے واقعہ کو پڑھتا ہے یا لکھتا ہے تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ حضرت علی اصغر کی شہادت کا منکر ہے اور نہ ہی حضرت علی اصغر کی شہادت کا ذکر کرنے والو ں کو اس پر مصر ہونا چاہیے کہ شیر خوار بچے کے عنوان سے فقط یہی شہید ہوئے ہیں ۔ان کے علاوہ دو بچے اور بھی ہیں جو تیر ستم کا نشانہ بنے ہیں ۔ (مترجم)

۳۷۶

عبداللہ بن جعفر کے دو فرزندوں کی شہادت

پھر عبداللہ بن جعفر کے فرزند میدان نبرد میں آئے اور دشمن کی فوج نے انھیں چاروں طرف سے گھیر لیا۔ عبد اللہ بن قطبہ نبہانی طائی نے عون بن عبداللہ بن جعفر بن ابوطالب پر حملہ کرکے انھیں شہید کردیا(١) اور عامر بن نہشل تیمی نے محمد بن عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب پر حملہ کرکے انھیں شھید کردیا ۔(٢)

آل عقیل کی شہادت

''عثمان بن خالد بن اسیر جہنی'' اور'' بشر بن حوط قابضی ھمدانی'' نے ایک زبردست حملہ میں عبدالرحمن بن عقیل بن ابیطالب کو شہیدکردیا۔(٣) اوردونوں نے مل کر ان کے لباس وغیرہ لوٹ لئے اور عبداللہ بن عزرہ خثعمی(٤) نے جعفر بن عقیل بن ابیطالب کو تیر مار کر شہید کردیا ،پھر عمروبن صبیح صدائی(٥)

____________________

١۔آپ کی مادر گرامی جمانة بنت مسیب بن نجبۂ غزاری تھی ں ۔ (طبری ،ج ٥، ص ٤٦٩) مسیب بن نجبہ کا شمار کوفہ کے شیعو ں میں توابین کے زعماء میں ہوتا ہے۔ ابو الفرج اصفہانی کا بیان ہے کہ آپ کی مادر گرا می عقیلہ بنی ہاشم زینب بنت علی بن ابی طالب (علیہم السلام) تھی ں (ص٦٠ ،طبع نجف) ۔

٢۔ آپ کی مادر گرامی خوصاء بنت خصفہ بن ثقیف تیمی خاندان بکر بن وائل سے متعلق تھی ں ۔(طبری ،ج٥،ص ٤٦٩) ابوالفرج نے بھی یہی لکھا ہے (ص ٦٠ ،طبع نجف) لیکن سبط بن جوزی نے حوط بنت حفصہ التمیمی لکھاہے۔ (تذکرہ، ص ٢٥٥ ، ط نجف)

٣۔ مختار نے ان دونو ں کی طرف عبداللہ بن کامل کو روانہ کیا۔ ادھر یہ دونو ں جزیرہ یعنی موصل کی طرف نکلنے کا ارادہ کررہے تھے تو عبداللہ بن کامل اور دوسرے لوگ ان دونو ں کی تلاش میں نکلے اورمقام جبانہ میں انھی ں پالیا۔ وہا ں سے ان دونو ں کو لے کر آئے اور جعد کے کنوی ں کے پاس لے گئے اور وہیں ان دونو ں کی گردن ماردی اور آگ میں جلادیا ۔ اعشی ہمدان نے ان دونو ں پر مرثیہ کہا ہے (طبری، ج٦، ص ٥٩) لیکن طبری نے جلد ٥، ص ٤٦٩ پر لکھا ہے کہ عبدالرحمن بن عقیل کو فقط عثمان بن خالد جہنی نے قتل کیا ہے اوربشر بن حوط ہمدانی ان کے ہمراہ اس کے قتل میں شریک نہ تھا لیکن اسی سند سے ابوالفرج نے دونو ں کو ذکر کیا۔ (ص، ٦١،طبع نجف)

٤۔ طبری نے ج٥، ص ٤٦٩ پر لکھ اہے کہ آپ کو بشر بن حوط بن ہمدانی نے شہید کیا اور ج٦، ص ٦٦٥ پر عبداللہ بن عروہ خثعمی لکھا ہے۔ مختار نے اس شخص کو طلب کیا تو یہ آپ کے ہاتھ سے نکل کر مصعب سے ملحق ہوگیا۔ابولفرج نے بعینہ اسی سند کے حوالے سے عبداللہ بن عروہ خثعمی لکھا ہے۔ (ص ٦١طبع نجف)

٥۔ مختار نے اسے طلب کیا تو یہ رات میں اس وقت لایا گیا جب آنکھی ں نیند کا مزہ لے رہی تھی۔ اس وقت یہ چھت

۳۷۷

پر تھا تاکہ پہچانا نہ جا سکے۔ اسے پکڑا گیا درحالیکہ اس کی تلوار اسکے سر کے نیچے تھی ۔ پکڑنے والے نے اس سے کہا خدا تیری تلوار کا برا کرے جو تجھ سے کتنی دور ہے اور کتنی نزدیک ۔ وہ کہہ رہاتھا کہ میں نے ان لوگو ں پر نیزہ چلایا ہے مجروح کیا ہے لیکن کسی کو قتل نہیں کیا ہے۔ اسے مختار کے پاس لایا گیا، مختار نے اسے اسی قصر میں قید کر دیا جب صبح ہوئی تو لوگو ں کو دربارمیں آنے کی اجازت ملی اور لوگ دربار میں داخل ہونے لگے تو وہ قیدی بھی لایا گیا۔ اس نے کہا : اے گرو ہ کفار و فجار ! اگر میرے ہاتھ میں تلوار ہوتی تو تمہیں معلوم ہوجاتا کہ میں تلوار کی نوک سے لرزہ براندام نہیں ہوتا اورنہ ہی خوف زدہ ہوتا ہو ں ۔ میرے لئے کتنا باعث سرور ہے کہ میری موت قتل ہے۔ خلق خدا میں مجھے تم لوگو ں کے علاوہ کوئی اور قتل کرے گا ۔ میں جانتا ہو ں کہ تم لوگ بد ترین مخلوق خدا ہو مگر مجھے اس کی آرزو تھی کہ میرے ہاتھ میں تلوار ہوتی تو میں اس سے تم لوگو ں کو کچھ دیر تک مارتا ،پھر اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور ابن کامل جو اس کے پہلو میں تھے اس کی آنکھ پر طمانچہ لگایا،اس پرابن کامل ہنس پڑااور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روک دیا پھر گویا ہوا : اس کا گمان یہ ہے کہ اس نے آل محمد کو زخمی کیا ہے اور نیزہ چلایا ہے لہٰذا اس کے فیصلہ کو ہم نے آپ پرچھوڑ دیا ہے۔ مختار نے کہا : میرا نیزہ لاؤ ! فوراً نیزہ لایا گیا، مختار بولے : اس پر نیزہ سے وار کرو یہا ں تک کہ یہ مرجائے پس اتنا وار ہوا کہ وہ مرگیا ۔(طبری ،ج٦، ص ٦٥)لیکن طبری نے ج٥،ص ٤٦٩ پر ابو مخنف سے روایت کی ہے کہ اس نے عبداللہ بن عقیل بن ابیطالب علیہم السلام کو قتل کیا ہے اور ج٦،ص ٦٤ پر روایت کی ہے کہ جس نے عبداللہ بن مسلم بن عقیل کو قتل کیا وہ زید بن رقاد جنبی ہے اور وہ یہ کہا کرتا تھا کہ میں نے تمہارے ایک جوان پر تیر چلایا جب کہ وہ اپنی ہتھیلی کو اپنی پیشانی پر رکھے ہوئے تھا اور میں نے اس کی ہتھیلی کو اس کی پیشانی سے چپکا دیا اس طرح سے کہ وہ اپنی ہتھیلی کو اپنی پیشانی سے جدا نہ کرسکا جب اس کی پیشانی اس طرح ہتھیلی سے چپک گئی تو اس جوان نے کہا :''اللّٰهم انهم استقلونا واستذلونا اللهم فاقتلهم کماقتلونا و اذلهم کما استذلونا'' خدا یا !ان لوگو ں نے ہماری تعداد کم کردی اور ہمیں ذلیل کرنے کی کوشش کی خدا یا! توبھی ان لوگو ں کو اسی طرح قتل کرجیسے انھو ں نے ہمیں قتل کیا ہے اور انھی ں اسی طرح ذلیل و رسوا کر جیسے انھو ں نے ہمیں ذلیل و رسوا کر نے کی کوشش کی ہے؛ پھر اس جنبی نے ایک تیراورچلاکر آپ کو شہید کر دیا۔ وہ کہتاہے:جب میں اس جوان کے پاس آیاتووہ مرچکاتھا۔ میں نے اس تیر کو حرکت دیا تاکہ اسے باہر نکال دو ں لیکن اس کا پھل کچھ اس طریقے سے پیشانی میں پیوست ہوچکا تھا کہ میں اسے نکالنے سے عاجز ہوگیا۔ اپنے زمانے میں مختار نے عبداللہ بن کامل شاکری کو اس کے سراغ میں روانہ کیا،عبداللہ نے آکراس کے گھر کو گھیر لیا اور وہا ں لوگو ں کی ایک بھیڑ لگ گئی تو وہ شخص تلوار سونتے باہر نکلا۔ ابن کامل نے کہا : اس پر تیر چلاؤ اور اسے پتھر مارو،لوگو ں نے ایسا ہی کیا یہا ں تک کہ وہ زمین پر گر پڑا لیکن اس کے جسم میں ابھی جان باقی تھی۔اس کے بعد ابن کامل نے آگ منگوائی اوراسے زندہ جلادیا۔(طبری، ج٦،ص ٦٤)

۳۷۸

نے عبداللہ بن مسلم بن عقیل(١) پرایک تیر چلایا ۔آپ اپنا ہاتھ پیشانی پر لے گئے تاکہ تیر نکال لیں لیکن پھر ہتھیلیوں کو حرکت دینے کی طاقت نہ رہی،اسی دوران ایک دوسرا تیرچلا جو آپ کے سینے میں پیوست ہو گیا(٢) اور بسیط بن یاسر جہنی نے محمد بن ابوسعید بن عقیل کو شہید کر دیا۔(٣)

حسن بن علی علیہما السلام کے فر زندوں کی شہادت

عبد اللہ بن عقبہ غنوی(٤) نے ابو بکر بن حسن بن علی علیہماالسلام(٥) پر تیر چلا کر انھیں شہید کر دیا(٦) اور عبداللہ بن حسن بن علی(علیہماالسلام) کوحرملہ بن کاہل اسدی(٧) نے تیر چلاکر شہید کردیا ۔(٨)

____________________

١۔ آپ کی مادر گرامی کانام رقیہ بنت علی بن ابیطالب علیہم السلام ہے۔(طبری، ج٥،ص٤٦٩،ابوالفرج ،ص٦٢ ،طبع نجف)

٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے۔(طبری، ج٥،ص٤٦٩ ، ابو الفرج ،ص ٦٢، طبع نجف)

٣۔ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم ازدی سے یہ روایت نقل کی ہے۔(طبری، ج٥ ،ص٤٤٧)

٤۔ ٤٣ھ میں یہ مستوردبن عقبہ کے ہمراہ نکلنے والو ں میں شمار ہوتا ہے جو کوفہ میں مغیرہ بن شعبہ کی حکومت کا زمانہ تھا۔یہ وہا ں کاتب تھا ۔'' مستورد ''نے حکم دیا کہ یہ اس کے لئے ایک خط لکھے پھر اس خط کو لے کر سماک بن عبید والی مدائن کے پاس لے جائے اور اس کو اپنی طرف بلائے تو اس نے ایسا ہی کیا۔(طبری ،ج٥ ،ص ١٩٠) جب مستورد کی حکومت مصیبت میں گرفتار ہوئی تو غنوی وہا ں سے بھاگ کر کوفہ روانہ ہوگیا اور وہا ں شریک بن نملہ کے گھر پہنچا اور اس سے پوچھا کہ مغیرہ سے کہا ں ملاقات ہوگی تاکہ یہ اس سے امان لے سکے(طبری، ج٥ ،ص ٩٠) اس نے مغیرہ سے امان طلب کی اور مغیرہ نے اسے امان دے دیا۔(طبری، ج٥،ص ٢٠٦) کربلا کے بعد یہ مختار کے خوف سے بھاگ کر مصعب بن زبیر سے ملحق ہو گیا پھر عبدالرحمن بن محمد بن اشعث کے ہمراہ ہوگیا۔ (طبری ،ج٥ ، ص ٢٠٥) مختار نے اس کی جستجو کرائی تو معلوم ہوا کہ فرار ہے تومختار نے اس کا گھر منہدم کردیا۔ (طبری ،ج٦،ص ٦٥) ْ

٥۔ طبری نے جلد ٥، ص ٤٦٨ پر یہی لکھا ہے مگر ص ٤٤٨ پر ابوبکر بن حسین بن علی لکھ دیا ہے جو غلط ہے ۔

٦۔ عقبہ بن بشیر اسدی کا بیان ہے کہ مجھ سے ابو جعفر محمد بن علی بن حسین علیہم السلام نے بیان کیا ہے۔ (طبری، ج٥، ص ٤٤٨) ابوالفرج نے مدائنی سے اس نے ابو مخنف سے اس نے سلیمان بن ابی راشد اور عمرو بن شمر سے اس نے جابرسے انھو ں نے ابو جعفر امام باقر علیہ السلام سے یہ روایت بیان کی ہے۔(مقاتل الطالبیین، ص ٥٧ ،طبع نجف)

٧۔ طبری نے ج٦،ص ٦٥ پر یہی لکھا ہے لیکن یہا ں ج٥ ،ص ٤٦٨ پر حرملہ بن کاہن لکھا ہے جو غلط ہے۔اس کے سلسلے میں مختار کی جستجو اور کیفیت قتل کو بھی ذکر نہیں کیا ہے ۔ہشام کا بیان ہے کہ مجھ سے ابو ہذیل'' سکون '' کے رہنے والے ایک شخص نے بیان کیا ہے کہ وہ کہتا ہے :خالد بن عبداللہ کے زمانے میں حضرمیو ں کی نشست میں ،میں نے ہانی بن ثبیت حضرمی کو دیکھا جو

۳۷۹

بہت بوڑھا ہو چکا تھا۔ میں نے سنا کہ وہ کہہ رہاتھا : میں ان لوگو ں میں سے ہو ں جو حسین کے قتل کے وقت وہا ں موجودتھے۔ خدا کی قسم میں ان دس (١٠) میں کا ایک تھا جو ہمیشہ گھوڑے پر تھے اور میں پورے لشکر میں گھوم رہا تھا اور ان کے روز گار کو بگاڑ رہاتھا اسی اثنا میں ان خیمو ں سے ایک نوجوان نکلا جس کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی اس کے جسم پر ایک کرتا اور پاجامہ تھا اور وہ بہت خوفزدہ تھا اور وہ ادھرادھر دیکھ رہا تھا گویا میں دیکھ رہا تھا کہ اس کے کان میں دو درتھے جب وہ ادھر ادھر دیکھ رہاتھا تو وہ در ہل رہے تھے ۔

ناگہا ں ایک شخص گھوڑے کو سر پٹ دوڑا تاہوا سامنے آیا یہا ں تک کہ اس کے نزدیک ہوگیا پھر جب وہ اپنے گھوڑے سے مڑا تو اس نے اس نوجوان کو تلوار سے دو نیم کردیا۔ ابولفرج مدائنی نے اس کی روایت کی ہے۔(ص ٧٩ ،طبع نجف) ابو مخنف کا بیان ہے کہ حسن بن حسن اور عمر بن حسن چھوٹے تھے لہٰذا قتل نہ ہوئے۔ (طبری، ج٥ ،ص ٤٤٩) حسین علیہ السلام کے غلامو ں میں سے دو غلام سلیمان اور منجح بھی جام شہادت نوش فرماکر راہی ملک جاودا ں ہوگئے ۔(طبری ،ج٥، ص ٤٦٩)

٨۔طبری نے ج٥، ص٤٦٨ پر یہی لکھاہے اور ابو الفرج نے ص ٥٨ ،طبع نجف پر مدائنی کے حوالے سے یہی لکھا ہے لیکن مشہور یہ ہے کہ یہ بچہ وہی ہے جو خیمہ سے نکل کر اپنے چچا کی شہادت گاہ کی طرف بھاگا تھا اور وہیں پر ان کے پاس شہید کردیا گیا جیسا کہ عنقریب اس کا بیان آئے گا ۔ ارشاد میں مفید نے اس روایت کو صراحت کے ساتھ لکھا ہے۔(ص ٢٤١ ،طبع نجف)

۳۸۰

امام حسین علیہ السلام کی شہادت

سر کا رسید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے جب فقط تین یاچار ساتھی رہ گئے تو آپ نے اپنا یمنی لباس منگوا یا جو مضبوط بناوٹ کا صاف وشفاف کپڑا تھا اسے آپ نے جا بجا سے پھاڑدیا اور الٹ دیا تاکہ اسے کوئی غارت نہ کرے ۔(١) ا ور(٢)

اس بھری دوپہر میں آپ کافی دیر تک اپنی جگہ پرٹھہرے رہے۔ دشمنوں کی فوج کا جو شخص بھی آپ تک آتا تھا وہ پلٹ جاتا تھا کیونکہ کوئی بھی آپ کے قتل کی ذمہ داری اوریہ عظیم گناہ اپنے سر پر لینا پسند نہیں کررہا تھا۔ آخر کار مالک بن نسیربدّی کندی(٣) آنحضرت کے قریب آیا اور تلوار سے آپ کے سر پر ایسی ضرب لگائی کہ وہ برنس (ایک قسم کی ٹوپی جو آغاز اسلام میں پہنی جا تی تھی) جو آپ کے سر پر تھی شگافتہ ہوگئی اور ضرب کا اثر آپ کے سر تک پہنچا اور آپ کے سر سے خون جاری ہوگیا ، برنس خون آلود ہوگئی ، تو حسین علیہ السلام نے اس سے کہا : ''لا أکلت بھا ولا شربت وحشرک اللّٰہ مع الظالمین'' تجھے کھانا ، پینا نصیب نہ ہو،اور اللہ تجھے ظالموں کے ساتھ محشور کرے ۔

____________________

١۔ آپ کے اصحاب نے آپ سے کہا : اگر آپ اس کے نیچے ایک چھوٹا سا کپڑاپہن لیتے تو بہتر ہوتا۔ آپ نے جواب دیا:'' ثوب مذلہ ولا ینبغی لی أن البسہ '' یہ ذلت ورسوائی کا لباس ہے اور میرے لئے مناسب نہیں ہے کہ میں اسے پہنو ں ۔ جب آپ شہید ہوگئے تو بحر بن کعب وہ یمنی لباس لوٹ کے لے گیا ۔(طبری ،ج٥،ص٤٥١) ابو مخنف کا بیان ہے : مجھ سے عمروبن شعیب نے محمد بن عبدالرحمن سے روایت کی ہے کہ بحر بن کعب کے دونو ں ہاتھو ں سے سردی میں پانی ٹپکتا تھا اور گرمی وہ بالکل سوکھی لکڑی کی طرح خشک ہوجاتا تھا۔ (طبری ،ج٥،ص ٤٥١)

٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم سے یہ روایت کی ہے۔(طبری ،ج٥ ،ص ٤٥١وارشاد، ص ٢٤١)

٣۔ یہ وہی شخص ہے جو راستے میں حر کے پاس ابن زیاد کا خط لے کر آیا تھا جس میں یہ لکھاتھا کہ حسین(علیہ السلام) کو بے آب وگیاہ صحرا میں اتارلو ؛امام حسین علیہ السلام کے قافلہ کے اس صحرا میں وارد ہونے کے ذیل میں اس کے احوال گزرچکے ہیں ۔

پھر آپ نے اس برنس کوالگ کیا اور ایک دوسری ٹوپی منگوا کر اسے پہنا اور اس پر عمامہ باندھا۔(١) اسی طرح سیاہ ریشمی ٹوپی پر آپ نے عمامہ باندھا۔ آپ کے جسم پر ایک قمیص(٢) یاایک ریشمی جبہ تھا ،آپ کی ڈاڑھی خضاب سے ر نگین تھی، اس حال میں آ پ میدان جنگ میں آئے اورشیربیشۂ

۳۸۱

____________________

١۔ وہ برنس ریشمی تھا ۔ مالک بن نسیر کندی آیا اور اسے اٹھا لے گیا، پھر جب اس کے بعد وہ اپنے گھر آیا تو اس برنس سے خون کو دھونا شروع کیا۔ اس کی بیوی نے اسے دیکھ لیا اور وہ سمجھ گئی تو بولی : نواسئہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سامان لوٹ کر لا تا ہے اور میرے گھر میں داخل ہوتا ہے ! میرے پاس سے اسے فوراً نکال لے جا! اس کے ساتھیو ں کا کہنا تھا کہ اس کے بعد سے وہ ہمیشہ فقیر رہا یہا ں تک کہ مر گیا۔ (طبری، ج٥،ص ٤٤٨، ارشاد ،ص ٢٤١) ارشاد میں شیخ مفید نے مالک بن یسر لکھا ہے۔ ہشام اپنے باپ محمد بن سائب سے اور وہ قاسم بن اصبغ بن نباتہ سے بیان کرتے ہیں کہ انھو ں نے کہا : مجھ سے اس شخص نے بیان کیا جو اپنے لشکر میں حسین علیہ السلام کی جنگ کا گواہ ہے وہ کہتا ہے : جب حسین کے سارے سپاہی شہید کردیئے گئے تو آپ نے گھوڑے پر سوار ہو کر فرات کا رخ کیا اور اپنے گھوڑے کو ایک ضرب لگائی ۔یہ دیکھ کر قبیلہ بنی آبان بن دارم کے ایک شخص نے کہا : وائے ہو تم پر ان کے اور پانی کے درمیان حائل ہو جاؤ توان لوگو ں نے اس کے حکم کی پیروی کی اور ان کے اور فرات کے درمیان حائل ہوگئے اور'' اباتی'' نے ایک تیر چلا یا جو آپ کی ٹھڈی میں پیوست ہوگیا ۔امام حسین علیہ السلام نے اس تیر کو کھینچا اور اپنی دونو ں ہتھیلیا ں پھیلا دی ں تو وہ خون سے بھر گئی ں پھر آپ نے فرمایا :'' اللّٰھم ان أشکو الیک ما یفعل بابن بنت نبیک،اللّٰھم اظمہ''خدا یا! میں تیری بارگاہ میں اس چیز کی شکایت کر تا ہو ں جو تیرے نبی کے نواسہ کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ خدا یا! اسے ہمیشہ پیاسا رکھ۔ قاسم بن اصبغ کا بیان ہے : میں نے اسے اس حال میں دیکھا کہ اس کے پاس دودھ سے بھرے بڑے بڑے برتن اور کوزو ں میں ٹھنڈے ٹھنڈے شربت رکھے ہوئے تھے لیکن وہ کہہ رہا تھا : وائے ہو تم لوگو ں پر مجھے پانی پلا ؤ ،پیاس مجھے مارے ڈال رہی ہے پھر بڑا برتن اور کوزہ لا یا جاتا اور وہ سب پی جاتا اور جب سب پی جاتا تو پھر تھوڑی ہی دیر میں فریاد کرنے لگتا اور پھر کہنے لگتا : وائے ہو تم لوگو ں پر ! مجھے پانی پلا ؤ پیاس مجھے مارے ڈال رہی ہے، خدا کی قسم تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ اس کا پیٹ اونٹ کے پیٹ کی طرح پھٹ گیا۔ ابو الفرج نے اسے ابو مخنف کے حوالہ سے لکھا ہے۔(ص ٧٨، طبع نجف)

ہشام کا بیان ہے : مجھ سے عمروبن شمر نے جابر جعفی کے حوالے سے روایت کی ہے کہ ان کا بیان ہے : حسین کی پیاس شدید سے شدید تر ہو رہی تھی لہٰذاآپ فرات کے نزدیک پانی کی غرض سے آئے لیکن ادھر سے حصین بن تمیم نے ایک تیر چلا یا جو آپ کے دہن مبارک پر لگا ، آپ نے اپنے دہن سے اس خون کو ہاتھ میں لیا اور آسمان کی طرف پھینک دیا اور فرمایا :'' اللّٰھم أحصھم عدداً واقتلھم بدداً ولا تذرعلی الارض منھم أحداً''(طبری ،ج ٥،ص٤٤٩و٠ ٤٥) خدا یا!ان کی تعدادکو کم کردے ،انھی ں نابود کردے اور ان میں سے کسی ایک کوروئے زمین پرباقی نہ رکھ ۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥،ص٤٤٧و ٤٤٨)

٢۔ابو مخنف نے کہا:مجھ سے صقعب بن زہیرنے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥،ص٤٥٢)

۳۸۲

شجاعت جیساقتال شر وع کیا،دشمنو ں کے ہر تیر سے خود کوماہرانہ اندازمیں بچا رہے تھے ، دشمن کی ہر کمی اورضعف سے فائدہ اٹھارہے تھے اور اسے غنیمت و فرصت شمار کررتے ہوئے اور دشمن پر بڑازبردست حملہ کررہے تھے۔(١)

اسی دوران شمراہل کوفہ کے دس پیدلوں کے ساتھ حسین علیہ السلام کے خیموں کی طرف بڑھنے لگا جن میں آپ کے اثاثہ اور گھر والے تھے۔ آپ ان لوگوں کی طرف بڑھے تو ان لوگوں نے آپ اورآپ کے گھر والوں کے درمیان فاصلہ پیدا کردیا۔یہ وہ موقع تھا جب آپ نے فرمایا:''ویلکم !ان لم یکن لکم دین ،وکنتم لاتخافون یوم المعادفکونواف أمردنیاکم أحراراًذوی أحساب ! امنعوارحلی وأهل من طغامکم وجهالکم ! ''

وائے ہو تم پر !اگر تمہارے پاس دین نہیں ہے اورتمہیں قیامت کا خوف نہیں ہے توکم ازکم دنیاوی امور میں تو اپنی شرافت اور خاندانی آبرو کا لحاظ رکھو ؛ ان اراذل واوباشوں کو ہمارے خیموں اور گھر والوں سے دور کرو۔ یہ سن کرشمر بن ذی الجوشن بولا : اے فرزندفاطمہ یہ تمہاراحق ہے ! یہ کہہ کر اس نے آپ پر حملہ کردیا، حسین (علیہ السلام) نے بھی ان لوگوں پر زبر دست حملہ کیاتووہ لوگ ذلیل ورسواہوکر وہاں سے پیچھے ہٹ گئے۔(٢) عبداللہ بن عمار بارقی(٣) کابیا ن ہے : پھر پیدلو ں کی فوج پر چپ وراست سے آپ نے زبردست حملہ کیا ؛پہلے آپ ان پر حملہ آور ہوئے جوداہنی طرف سے یلغار کررہے تھے اورایسی تلوار چلا ئی کہ وہ خوف زدہ ہوکر بھاگ گھڑے ہوئے پھر بائیں جانب حملہ کیا یہاں تک وہ بھی خوف زدہ ہوکر بھاگ گئے۔خداکی قسم میں نے کبھی ایسا ٹوٹاہوا انسان نہیں دیکھا جس کے سارے اہل بیت، انصار اورساتھی قتل کئے جاچکے ہوں اس کا دل اتنامستحکم، اس کاقلب اتنامطمئن اور اپنے دشمن کے مقابلہ میں اس قدرشجاع ہو جتنے کہ حسین علیہ السلام تھے۔ خداکی قسم میں نے ان سے پہلے اور ان کے بعد کسی کو ان کے

____________________

١۔ابومخنف نے حجاج سے اور اس نے عبداللہ بن عمار بارقی سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری، ج٥،ص٤٥٢)

٢۔یہ ابو مخنف کی روایت میں ہے۔(طبری ،ج٥،ص٤٥٠) ابوالفرج نے بھی اس کی روایت کی ہے۔(ص٧٩)

٣۔ یہی شخص امیرالمومنین علیہ السلا م کی اس خبر کا بھی راوی ہے جس میں آپ ٢٦ھ میں صفین کی طرف جارہے تھے تو فرات پر پل بنانے کی بات ہوئی تھی۔(طبری ،ج٥،ص ٥٦٥)

۳۸۳

جیسانہیں دیکھا۔اگرپیدل کی فوج ہوتی تھی تو چپ وراست سے ایساذلیل ورسواہو کے بھاگتی تھی جیسے شیر کودیکھ کرہرن بھاگتے ہیں ۔(١) اسی دوران عمر بن سعد ، امام حسین علیہ السلام کے قریب آیا، اسی اثناء میں امام کی بہن زینب بنت فاطمہ علیھاالسلام خیمہ سے باہرنکلیں اورآوازدی : ''یاعمر بن سعد ! أیقتل أبو عبداللّٰہ وأنت تنظر الیہ '' اے عمر بن سعد ! کیاابو عبداللہ الحسین قتل کئے جارہے ہیں اور توکھڑادیکھ رہا ہے۔ تو اس نے اپنا چہرہ ان کی طرف سے پھیرلیا(٢) گو یا میں عمر کے آنسوؤں کو دیکھ رہاتھا جو اس کے رخسار اور ڈاڑھی پر بہہ رہے تھے ۔(٣)

ادھر آپ دشمنوں کی فوج پر بڑھ بڑھ کر حملہ کرتے ہوئے فرمارہے تھے :'' أعلی قتل تحاثون ؟اما والله لا تقتلو ن بعد عبدا من عباداللّٰه أسخط علیکم لقتله من !و أیم الله ان لأرجو أن یکرمنی اللّٰه بهوا نکم ثم ینتقم ل منکم من حیث لا تشعرون (٤)

أماواللّٰه لو قد قتلتمون لقد ألقی اللّٰه بأسکم بینکم وسفک دمائکم ثم لا یرضی لکم حتی یضاعف لکم العذاب الألیم ! ''(٥)

____________________

١۔روایت میں معزیٰ اور ذئب استعمال ہوا ہے جس کے معنی گلہء گوسفند اور بھیڑئیے کے ہیں عرب تہذیب اور کلچر میں کسی کی شجاعت ثابت کرنے کی یہ بہترین مثال ہے لیکن ہماری ثقافت میں بزرگ شخصیتو ں کو بھیڑئیے سے تعبیر کرنا ان کی توہین ہے اور قاری پر بھی گرا ں ہے لہٰذا محققین کرام نے مترجمین کو اس بات کی پوری اجازت دی ہے کہ وہ تشبیہات کے ترجمہ میں اپنی تہذیب اور کلچر ( culture )کا پورا پورا لحاظ رکھی ں ، اسی بنیاد پر ترجمہ میں شیر اور ہرن استعمال کیا گیا ہے جو شجاعت اور خوف کی تشبیہات ہیں ۔ (مترجم)

٢۔ شیخ مفید نے ارشاد میں یہ روایت بیان کی ہے۔(الارشاد ،ص٢٤٢، طبع نجف)

٣) یہ روایت'' حجاج ''سے ہے۔ اس نے اسے عبداللہ بن عمار بارقی سے نقل کیا ہے۔(طبری ،ج٥،ص ٤٥١) شیخ مفید نے ارشاد میں حمید بن مسلم سے روایت کی ہے۔(ص ٢٤١)

٤۔امام علیہ السلام کی دعا مستجاب ہوئی اور کچھ زمانے کے بعد مختار نے قیام کیا اور اپنی سپاہ کی ایک فرد ابا عمرہ کو عمربن سعد کی طرف روانہ کیا اور حکم دیا کہ اسے لے کرآ۔ وہ گیا یہا ں تک کہ اس کے پاس وارد ہوا اور کہا : امیر نے تم کو طلب کیا ہے۔ عمر بن سعد اٹھا لیکن اپنے جبہ ہی میں پھنس گیا تو ابو عمرہ نے اپنی تلوار سے اس پر وار کرکے اسے قتل کر دیا اور اس کے سر کو اپنی قبا کے نچلے حصے میں رکھا اور اس کو مختار کے سامنے لاکر پیش کردیا ۔حفص بن عمر بن سعد، مختار کے پاس ہی بیٹھا تھا ۔مختار نے اس سے کہا : کیا تم اس سر کو پہچانتے ہو ؟ تو اس نے انا للّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور کہاکہ اس کے بعد زندگی میں کوئی اچھا ئی نہیں ہے ! تو مختار نے کہا : تم اس کے بعد زندہ نہیں رہوگے ! اور حکم دیا کہ اسے بھی قتل کردیا جائے۔ اسے قتل کردیا گیا اور اس کا سر اس کے باپ کے ہمراہ رکھ دیا گیا۔ (. طبری ،ج ٦، ص ٦١)

٥۔ مجھ سے صقعب بن زہیر نے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے۔(طبری ،ج ٥، ص ٤٥٢)

۳۸۴

کیا تم لوگ میرے قتل پر(لوگوں کو) بر انگیختہ کررہے ہو ؟خدا کی قسم میرے بعد خدا تمہارے ہاتھوں کسی کے قتل پر اس حد تک غضبناک نہیں ہوگا جتنا میرے قتل پروہ تم سے غضبناک ہوگا ،خدا کی قسم میں امید رکھتا ہوں کہ تمہارے ذلیل قرار دینے کی وجہ سے خدا مجھے صاحب عزت و کرامت قرار دے گاپھر تم سے ایسا انتقام لے گا کہ تم لوگ سمجھ بھی نہ پاؤ گے خدا کی قسم اگر تم لوگوں نے مجھے قتل کردیا تو خدا تمہاری شرارتوں کو تمہارے ہی درمیان ڈال دے گا ، تمہارے خون تمہارے ہی ہاتھوں سے زمین پر بہا کریں گے اس پر بھی وہ تم سے راضی نہ ہوگا یہاں تک کہ درد ناک عذاب میں تمہارے لئے چند گُنا اضافہ کردے گا ۔

پھر پیدلوں کی فوج کے ہمراہ جس میں سنان بن انس نخعی ، خولی بن یزید اصبحی(١) صالح بن وہب یزنی ، خشم بن عمرو جعفی اور عبدالرحمن جعفی(٢) موجود تھے شمر ملعون امام حسین علیہ السلام کی طرف آگے بڑھا اور لوگوں کوامام حسین علیہ السلام کے قتل پر اُکسانے لگا تو ان لوگوں نے حسین علیہ السلام کو پوری طرح اپنے گھیرے میں لے لیا ۔ اسی اثنا ء میں امام حسین علیہ السلام کی طرف سے آپ کے خاندان کاایک بچہ(٣) میدان میں آنکلا۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنی بہن زینب بنت علی (علیہماالسلام) سے کہا:''احبسیہ'' بہن اسے روکو، تو آپ کی بہن زینب بنت علی(علیہما السلام) نے روکنے کے لئے اس بچے کو پکڑا لیکن اس بچہ نے خود کو چھڑا لیا اور دوڑتے ہوئے جاکر خود کو حسین علیہ السلام پر گرادیا ۔

____________________

١۔مختار نے اس کی طرف معاذ بن ہانی بن عدی کندی جناب حجر کے بھتیجے کو روانہ کیا،نیز اس کے ہمراہ ابو عمرہ ، اپنے نگہبانو ں کے سردار کو بھی اس کی طرف بھیجا تو خولی اپنے گھر کی دہلیز میں جا کر چھپ گیا۔ '' معاذ'' نے ابو عمرہ کو حکم دیا کہ اس کے گھر کی تلاشی لے۔ وہ سب کے سب گھر میں داخل ہوئے، اس کی بیوی باہر نکلی، ان لوگو ں نے اس سے پوچھا : تیرا شوہر کہا ں ہے ؟ تو اس نے جواب دیا : میں نہیں جانتی اور اپنے ہاتھ سے دہلیز کی طرف اشارہ کردیا تو وہ لوگ اس میں داخل ہوگئے۔ اسے وہا ں اس حال میں پایا کہ وہ اپنے سر کو کھجور کی ٹوکری میں ڈالے ہوئے ہے۔ ان لوگو ں نے اسے وہا ں سے نکالا اور جلادیا۔(طبری، ج٦، ص ٥٩)

٢۔ یہ حجر بن عدی کے خلاف گواہی دینے والو ں میں سے ہے ۔(طبری ،ج٥،ص ٢٧٠) روز عاشوراعمربن سعد کے لشکر میں یہ قبیلہ مذحج و اسدکا سالار تھا جیسا کہ اس سے قبل یہ بات گزر چکی ہے۔ (طبری، ج ٥، ص ٤٤٢)

٣۔ شیخ مفید نے ارشاد کے ص ٢٤١ پر لکھا ہے کہ وہ بچہ عبداللہ بن حسن تھا اورارشاد میں مختلف جگہو ں پر اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ابو مخنف کے حوالے سے یہ بات گزر چکی ہے کہ حرملہ بن کاہل اسدی نے تیر چلاکر اس بچہ کو شہید کردیا ۔ یہا ں یہ روایت ابوالفرج نے ابو مخنف سے نقل کی ہے اور انھو ں نے سلیمان بن ابی راشد سے اور اس نے حمید بن مسلم سے روایت کی ہے ۔(ص ٧٧ ،طبع نجف)

۳۸۵

اسی وقت بحر بن کعب نے ام حسین علیہ السلام پر تلوارچلائی تو اس بچہ نے کہا : ''یابن الخبیثہ ! أ تقتل عم'' اے پلید عورت کے لڑکے ! کیا تومیرے چچا کوقتل کر رہا ہے ؟(١) تو اس نے تلوار سے اس بچہ پر وار کردیا۔ اس بچے نے اپنے ہاتھ کو سپر قرار دیا اور بچہ کا ہاتھ کٹ کر لٹکنے لگا تو اس بچے نے آواز دی:'' یا أمتاہ'' اے مادر گرامی مدد کیجیے۔ حسین علیہ السلام نے فوراً اسے سینے سے لگالیا اور فرمایا:

'' یابن أخ(٢) اصبر علی مانزل بک واحتسب فی ذالک الخیر ، فان اللّٰه یلحقک بآبائک الصالحین برسول اللّٰه وعلی بن أبی طالب و حمزة والحسن بن علی صلی اللّٰه علیهم أجمعین''(٣) و(٤)

''اللهم امسک عنهم قطر السماء وامنعهم برکات الارض اللّٰهم فان متعتهم الی حین ففرقهم فرقاواجعلهم طرائق قددا ً ولاترضی عنهم الولاة أبداً فانهم دعونا لینصرو نا فعد وا علینا فقتلونا''(٥)

جان برادر !اس مصیبت پر صبر کرو جو تم پر نازل ہوئی اوراس کو راہ خدا میں خیر شمار کرو، کیونکہ خدا تم کو تمہارے صالح اور نیکو کار آباء و اجداد رسول خدا ، علی بن ابیطالب ،حمزہ اور حسن بن علی، ان سب پر خد ا کا در ود و سلام ہو،کے ساتھ ملحق کرے گا ۔خدایا !آسمان سے با رش کو ان کے لئے روک دے اورزمین کی برکتوں سے انھیں محرو م کردے! خدایا!اگرا پنی حکمت کی بنیاد پر تونے اب تک انھیں بہرہ مند کیاہے تواب ان کے درمیان جدائی اورپراکندگی قرار دے اور ان کے راستوں کو جداجداکردے اور ان کے حکمرانوں کو کبھی بھی ان سے راضی نہ رکھناکیونکہ انھوں نے ہمیں بلایاتاکہ ہماری مددکریں لیکن ہم پر حملہ کردیااور ہمیں قتل کر دیا۔پھر اس بھری دوپہر میں کافی دیر تک حسین علیہ السلام آستانہ ٔ شہادت پر پڑے رہے کہ اگر دشمنوں میں سے کوئی بھی آپ کو قتل کرنا چاہتا تو قتل کردیتالیکن ان میں سے ہر ایک اس عظیم گناہ سے کنارہ کشی اختیار کر رہا تھا اور اسے دوسرے پر ڈال رہا تھا ۔ہر گر وہ چاہ رہا تھا کہ دوسرا گروہ یہ کام انجام دے کہ اسی اثناء میں شمر چلّایا :وائے ہو تم لوگوں پر! اس مردکے سلسلے میں کیاانتظارکررہے ہو، اسے قتل کرڈالو، تمہاری مائیں تمہارے غم میں بیٹھیں ! اس جملہ کااثر یہ ہوا کہ چاروں طرف سے دشمن آ پ پر حملے کرنے لگے ۔

____________________

ا، ٢، ٣۔ گزشتہ صفحہ کا حاشیہ نمبر ٥ ملاحظہ ہو ۔

٤۔ابو مخنف نے اپنی روایت میں بیان کیا ہے۔ (طبری، ج٥،ص ٤٥٠) ابوالفرج نے ابومخنف سے سلیمان بن ابی راشد کے حوالے سے اوراس نے حمید بن مسلم سے روایت نقل کی ہے۔ (ص٧٧،طبع نجف)

٥۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشدنے حمید بن مسلم سے یہ روایت نقل کی ہے۔(طبری، ج٥،ص ٤٥١وارشاد ،ص ٢٤١)

۳۸۶

آخری لمحات

اب آپ پر چاروں طرف سے حملے ہونے لگے۔زرعہ بن شریک تمیمی نے آپ کی بائیں ہتھیلی پر ایک ضرب لگائی(١) اور ایک ضرب آپ کے شانے پر لگائی۔ یہ وہ موقع تھاجب آپ کے بیٹھنے کی تاب ختم ہوچکی تھی۔ آپ منہ کے بل زمین پرآئے اسی حال میں سنان بن انس نخعی آگے بڑھا اور آپ پر ایک نیزہ مارا جو آپ کے جسم میں پیوست ہوگیا لیکن اب کوئی بھی امام حسین علیہ السلام کے نزدیک نہیں ہورہاتھا مگر یہ کہ سنان بن انس ہی آگے بڑھا اور اس خوف میں کہ کہیں کوئی دوسرا شخص حسین علیہ السلام کے سر کو امیر کے پاس نہ لے جائے؛ لہٰذا وہ آپ کی شہادت گاہ کے پاس آیا اورآپ کو ذبح کردیا اورآپ کے سر کو کاٹ ڈالا(٢) اور اسے خولی بن یزید اصبحی کی طرف پھینک دیا ۔اب لباس اور اسباب لوٹنے کی نوبت آئی تو آپ کے جسم پر جو کچھ بھی تھا کوئی نہ کوئی لوٹ کر لے گیا۔ آپ کی اس یمانی چادر کو جسے قطیفہ(٣) کہاجاتا ہے قیس بن اشعث نے لے لیا۔(٤) اسحاق بن حیوة بن حضرمی نے امام حسین علیہ السلام کی قمیص کو لوٹ لیا(٥) قبیلۂ بنی نہشل کے ایک شخص نے آپ کی تلوار لے لی، آپ کی نعلین کو ''اسود اودی'' نے اٹھا لیا۔آپ کے پاجامہ کو'' بحر بن کعب ''لے گیا(٦) اور آپ کو برہنہ چھوڑ دیا ۔(٧)

____________________

١ ۔ارشاد میں بایا ں بازو ہے۔(ص ٢٤٢) تذکرة الخواص میں بھی یہی ہے۔(ص ٢٥٣) مقرم نے اسے الا تحاف بحب الاشراف سے نقل کیا ہے۔(ص ١٦)

٢۔ امام حسین کے قاتل کے سلسلے میں سبط بن جوزی نے پانچ اقوال ذکر کئے ہیں ۔ آخر میں ترجیح دی ہے کہ سنان بن انس ہی آپ کا قاتل تھا پھرروایت کی ہے کہ یہ حجاج کے پاس گیا تواس نے پوچھا کہ تو ہی قاتل حسین ہے؟ اس نے کہا ہا ں ! تو حجاج نے کہا : بشارت ہو کہ تواور وہ کبھی ایک گھر میں یکجا نہیں ہو ں گے ۔ لوگو ں کا کہنا ہے حجاج سے اس سے اچھا جملہ کبھی بھی اس کے علاوہ نہیں سناگیا۔ ا س کا بیان ہے کہ شہادت کے بعد حسین کے جسم کے زخم شمار کئے گئے تو ٣٣ نیزہ کے زخم اور ٣٤ تلوار کے زخم تھے اور ان لوگو ں نے آپ کے کپڑے میں ایک سو بیس (١٢٠) تیر کے نشان پائے ۔

٣۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے صقعب بن زہیر نے حمید کے مسلم کے حوالے سے روایت کی ہے(طبری ،ج٥، ص ٤٥٣)

٤۔ شب عاشور کی بحث میں اس کے احوال گزر چکے ہیں ۔

٥۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے روایت کی ہے۔ (طبری، ج٥،ص ٤٥٥)

٦۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے صقعب بن زہیر نے حمید بن مسلم کے حوالے سے روایت کی ہے۔(طبری، ج٥، ص ٤٥٢)

٧۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے ر وایت کی ہے۔(طبری، ج٥،ص ٤٥١) اسی طرح سبط بن جوزی نے بھی صرا حت کی ہے کہ وہ لوگ وہ سب کچھ لوٹ لے گئے جوآپ کے جسم پر تھا حتی یہ کہ'' بحر بن کعب تمیمی'' آپ کاپاجامہ بھی لے گیا۔ (طبری، ج٥،ص ٢٥٣) ارشاد میں شیخ مفید نے اضافہ کیا ہے کہ بحربن کعب لعنة اللہ علیہ کے دونو ں ہاتھ اس واقعہ کے بعد گرمی میں سوکھی لکڑی کی طرح خشک ہوجاتے تھے اورسردی میں مرطوب ہوجاتے تھے اور اس سے بد بو دار خون ٹپکتا تھا یہا ں تک کہ خدا نے اسے ہلا ک کردیا ۔(ص ٢٤١ ، ٢٤٢)

۳۸۷

خیموں کی تا راجی

امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد دشمنوں نے آپ کی خواتین ، مال واسباب ، ورس(١) وزیورات اور اونٹوں کی طرف رخ کیا۔ اگر کوئی خاتون اپنے پردہ اور چادر سے دفاع کرتی تووہ زور و غلبہ کے ذریعہ چادر یں چھینے لئے جا رہے تھے۔(٢) لشکریوں نے سنان بن انس سے کہا : تونے حسین فرزند علی وفاطمہ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کیا ،تو نے عرب کی اس سب سے بزرگ وباعزت شخصیت کو قتل کیا جو یہاں ان لوگوں کے پاس آئے تھے تاکہ تمہارے حاکموں کو ان کی حکومت سے ہٹا دیں تو اب تم اپنے حاکموں کے پاس جاؤ اور ان سے اپنی پاداش لو۔ اگر وہ حسین کے قتل کے بدلے میں اپنے گھر کا سارا مال بھی دیدیں تب بھی کم ہے ۔

____________________

١۔ ورس ایک قسم کا پیلا پھول ہے جو زعفران کی طرح ہوتا ہے۔یہ خوشبودار ہوتا ہے اور رنگنے میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ یمن سے لا یا گیا تھا جسے امام علیہ السلام نے مکہ سے نکلنے کے بعد منزل'' تنعیم'' میں ان لوگو ں سے اپنے قبضہ میں لے لیا تھا جو اسے یزید کی طرف لے جارہے تھے۔ روز عاشورا یہ ورس زیاد بن مالک صبیعی ،عمران بن خالد وعنزی ، عبد الرحمن بجلی اور عبد اللہ بن قیس خولانی کے ہاتھو ں لگا تھا۔ جب مختار کو ان سب کا پتہ معلوم ہوگیا تو ان سب کو طلب کیا۔ سب وہا ں مختار کے پاس لائے گئے۔ مختار نے ان لوگو ں سے کہا : اے نیکو کارو ں کے قاتلو؛اے جو انان جنت کے سردار کے قاتلو ! کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ خدا نے تم سے آج انتقام لینے کے لئے تمہیں یہا ں بھیجا ہے ! تم لوگ اس برے دن میں ورس لے کر آئے تھے ! پھر ان لوگو ں کو بازا ر میں لے جایا گیا اور ان کی گرد نی ں اڑادی گئی ں ۔

٢۔ ابو مخنف کہتے ہیں کہ مجھ سے صقعب بن زہیر نے حمید بن مسلم سے یہ روایت کی ہے۔(طبری ،ج٥، ص ٤٥٣) یعقوبی کا بیا ن ہے : دشمنو ں نے آپ کے خیمو ں کو تاراج کردیا اور آپ کی حرمت شکنی کی۔(ج٢،ص ٢٣٢) شیخ مفید نے بھی اس کی روایت کی ہے۔(ارشاد ،ص ٢٤٢) سبط بن جوزی کا بیان ہے : دشمنو ں نے آپ کی عورتو ں اور بیٹیو ں کی چادر ی ں اتار کرا نھی ں برہنہ کردیا ۔(ص ٢٥٤)

۳۸۸

چونکہ وہ ایک کم عقل وبے خرد انسان تھا لہٰذا اپنے گھوڑے پر بیٹھا اور عمر بن سعد کے خیمہ کے پاس آکر باآواز بلند چلا یا :

أو قر رکا بی فضة وذهباً

أنا قتلت الملک المحجّبا

قتلت خیر الناس أماً وأباً

وخیر هم اذ ینسبون نسباً(١)

میری رکاب کو سونے چاندی سے بھر دو کیونکہ میں نے شاہو ں کے شاہ کو تمہاے لئے قتل کر دیا، میں نے اسے قتل کیا جو ماں باپ کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بہتر انسان تھے اور جب نسب کی بات آئے تو ان کا نسب سب سے اچھا ہے ۔

یہ سن کر عمر بن سعد نے کہا : اس کو میرے پاس لاؤ ۔جب اسے ابن سعد کے پاس لایا گیا تواس نے اپنی چھڑی سے مارکر اس سے کہا : اے دیوانہ ! میں گواہی دیتا ہوں کہ تو ایسا مجنوں ہے کہ کبھی صحت یاب نہیں ہو سکتا ۔ تو کیسی باتیں کر رہا ہے کیا تجھے اس قسم کی باتیں کر نی چاہیے ؟ خدا کی قسم اگر تیری ان باتوں کو ابن زیادنے سن لیا تو تیری گردن اڑادے گا۔

ادھر شمر بن ذی الجوشن جو پیدلوں کی فوج کے ہمراہ خیموں کی تاراجی میں مشغول تھا خیموں کو لوٹتے ہو ئے علی بن الحسین اصغر کی طرف پہنچاجو بستر پربیماری کے عالم میں پڑے تھے اس وقت پید لوں کی فوج جو اس کے ہمراہ تھی، میں سے ایک نے کہا کیا ہم اسے قتل نہ کردیں ؟ حمید بن مسلم کہتا ہے : میں نے کہا سبحان اللہ ! کیا ہم بچوں کو بھی قتل کریں گے ؟ یہ بچہ ہی تو ہے!(٢)

____________________

١۔ابو الفرج نے اس کی روایت کی ہے۔(ص ٨٠ ،طبع نجف ، تذکرة الخواص ،ص ٢٥٤،نجف ومروج الذہب ، مسعودی ،ج٣،ص٧٠)

٢۔ طبری نے اپنی کتاب ''ذیل المذیل'' میں بیان کیا ہے : علی بن حسین اصغر اپنے بابا کے ہمراہ کربلا میں موجود تھے۔ اس وقت آپ ٢٣ سال کے تھے اور بستر پر بیماری کے عالم میں پڑے تھے ۔ جب حسین (علیہ السلام) شہید ہوگئے تو شمر بن ذی الجوشن نے کہا : تم لوگ اسے قتل کر دو ! تو اسی کے لشکر یو ں میں سے ایک نے کہا : سبحان اللّٰہ ! ایک ایسے نوجوان کو قتل کرو گے جو مریض ہے اور تم سے لڑبھی نہیں رہا ہے پھر عمر بن سعد آگیا اور اس نے کہا : آگاہ ہو جاؤ کہ کوئی بھی تم میں سے نہ تو ان عورتو ں کو نقصان پہنچا ئے ،نہ ہی اس مریض کو۔(ذیل المذیل ،ص ٦٣٠، طبع دار المعارف ،تحقیق محمد ابو الفضل ابرا ہیمی) اسی سے ملتی جلتی بات شیخ مفید نے لکھی ہے۔(ص ٢٤٤، تذکرہ ،ص ٢٥٦، ٢٥٨،طبع نجف)

۳۸۹

اسی اثناء میں عمر بن سعد وہاں پہنچ گیا اور اس نے کہا آگاہ ہو جاؤ کہ کوئی بھی اس نوجوان مریض کو کسی بھی طرح کوئی نقصان نہیں پہنچا ئے گا اور نہ تم لوگوں میں سے کوئی بھی کسی بھی صورت میں عورتوں کے خیموں میں داخل ہوگا اور جس نے جو مال واسباب لوٹا ہے وہ فوراً انھیں لوٹا دے لیکن کسی نے شمہ برابر بھی کچھ نہ لوٹا یا ۔

پھر عمر بن سعد نے عقبہ بن سمعان کو پکڑا اور اس سے پوچھا تو کون ہے تو اس نے جواب دیا : میں ایک زرخرید غلام ہوں تو عمر بن سعد نے اسے بھی چھوڑ دیا اس طرح سپاہ حسینی میں اس غلام کے علاوہ کو ئی اور زندہ باقی نہ بچا۔(١)

____________________

١۔ اس کے علا وہ چند افرادہیں اور جو زندہ بچے ہیں ۔ ١۔مرقع بن ثمامہ اسدی آپ اپنے زانو ں پر بیٹھ کر تیر پھینک رہے تھے تو ان کی قوم کا ایک گروہ ان کے سامنے آیا اور ان لوگو ں نے اس سے کہا : تو امان میں ہے ہماری طرف چلا آتو وہ چلا آیا ۔جب عمر بن سعد ان لوگو ں کے ہمراہ ابن زیاد کے پاس آیا اور اس شخص کی خبر سنائی تو ابن زیاد نے اسے شہر'' زرارہ'' شہربدر کردیا جو عمان کے خلیج میں ایک گرم سیر علا قہ ہے۔ اس جگہ ان لوگو ں کو شہر بدر کیا جاتا تھا جوحکومت کے مجرم ہوتے تھے۔

٢۔اس سے قبل ضحاک بن عبد اللہ مشرقی ہمدانی کا واقعہ گزر چکا ہے کہ وہ اپنی شرط کے مطابق امام علیہ السلام سے اجازت لے کر آپ کو تنہاچھوڑکر چلا گیا تھا ۔قتل سے بچ جانے والو ں میں بھی ایک سے زیادہ لوگ ہیں ۔ اس سلسلے میں ابو مخنف کے الفاظ یہ ہیں کہ علی بن الحسین اپنی صغر سنی کی وجہ سے بچ گئے اور قتل نہ ہوئے ۔(طبری ،ج٥، ص ٤٦٨) اسی طرح امام حسن کے دو فرزند حسن بن حسن بن علی اور عمر بن حسن بھی صغر سنی کی وجہ سے چھوڑ دئے گئے اور قتل نہیں ہوئے (طبری، ج٥،ص ٤٦٩) لیکن عبد اللہ بن حسن شہید ہوگئے۔ (طبری ،ج٥،ص٤٦٨) ابو الفرج کا بیا ن ہے : حسن بن حسن بن علی زخمو ں کی وجہ سے سست ہو گئے تو انھی ں اٹھا کر دوسری جگہ چھوڑ دیا گیا۔(ص ١٧٩،طبع نجف)

۳۹۰

پامالی

پھر عمر بن سعد نے اپنے لشکر والوں کو آوازدی کہ تم میں سے کون آمادہ ہے جو لاش حسین پر گھوڑے دوڑائے ۔اس کے جواب میں دس (١٠) آدمیوں نے آمادہ گی کا ظہار کیا جن میں اسحاق بن حیوة حضرمی اور احبش بن مر ثد حضرمی قابل ذکر ہیں ۔ یہ دس افراد آئے اور اپنے گھوڑوں سے امام حسین کی لاش کو روند ڈالا یہاں تک کہ آپ کے سینہ اور پشت کی ہڈیاں چور چور ہوگئیں(١) پھر عمر بن سعد نے اپنے لشکرکے کشتوں کی نماز جنازہ پڑھی اور انھیں دفن کر دیا اوراسی دن خولی بن یزید کے ہاتھوں امام علیہ السلام کا سر عبیداللہ بن زیاد کے پاس روانہ کیا گیا۔ جب وہ محل تک پہنچا تو دیکھا محل کا دروازہ بند ہے لہذا اپنے گھر آیا اور اس سر مقدس کو اپنے گھر میں ایک طشت میں چھپادیا(٢) جب صبح ہوئی تو سر کے ہمراہ عبیداللہ بن زیاد کی خدمت میں حاضر ہو ا۔

____________________

١۔ اسحاق بن حیوة حضرمی سفید داغ کے مرض میں مبتلا ہو گیا اور مجھے خبر ملی ہے کہ احبش بن مرثد حضرمی اس کے بعد کسی جنگ میں کھڑا تھا کہ پچھم کی طرف سے ایک تیر آیا (پتہ نہیں چلاکہ تیر انداز کون ہے) اور اس کے سینے میں پیوست ہو گیا اوروہ وہیں ہلاک ہوگیا۔ پامالی کی روایت کو ا بوالفرج نے ص ٧٩پر تحریر کیا ہے ۔اس طرح مروج الذہب ،ج ٣ ، ص ٧٢ ، ارشاد، ص ٢٤٢ ، طبع نجف اور تذکرة الخواص ،ص ٢٥٤ پر بھی یہ روایت موجود ہے ۔ سبط بن جوزی کا بیان ہے کہ ان لوگو ں نے آپ کی پشت پر سیاہ نشانات دیکھے اوراس کے بارے میں دریافت کیا تو کسی نے کہا : آپ رات کو اپنی پیٹھ پر کھانا رکھ کر مدینہ کے مساکین میں تقسیم کیا کرتے تھے ۔ پسر سعد نے اس عظیم شقاوت کا ارتکاب ابن زیاد کے قول کی پیروی کرتے ہوئے کیا تھا کیونکہ اس نے کہا تھا جب حسین قتل ہوجائی ں توگھوڑے دوڑاکہ کر ان کے سینہ اور پیٹھ کو روند ڈالنا کیونکہ یہ دوری پیدا کرنے والے اور جدائی ڈالنے والے ہیں ،بڑے ظالم اور رشتہ دارو ں سے قطع تعلق کرنے والے ہیں میری آرزو یہ نہیں ہے کہ مرنے کے بعد انھی ں کوئی نقصان پہنچاؤ ں لیکن میں نے قسم کھائی ہے کہ اگر میں انھی ں قتل کردو ں تو ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرو ں ۔(طبری، ج ٥ ،ص ٤١٥)

٢۔ ہشام کا بیا ن ہے : مجھ سے میرے باپ نے حدیث بیان کی ہے اور انہو ں نے ''نوار بنت مالک بن عقرب'' جو ''حضرمی''قبیلہ سے تعلق رکھتی تھی (خولی کی بیوی تھی) سے روایت کی ہے کہ وہ کہتی ہے : خولی امام حسین علیہ السلام کے سرکو لے کر گھرآیااور اسے گھر میں ایک طشت کے اندر چھپا کے رکھ دیا پھر کمرے میں داخل ہوا اور اپنے بستر پر آگیا تو میں نے ا س سے پوچھا کیا خبرہے ؟ تیرے پاس کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا:'' جئتکِ بغنی الدھر، ھذا رأس الحسین معک فی الدار'' میں تیرے لئے دنیا اور روزگار کی بے نیازی لے کر آیا ہو ں یہ حسین کا سر ہے جو تیرے ساتھ گھر میں ہے۔یہ سن کر میں نے کہا:'' ویلک جاء الناس با لذھب والفضةو جئت برأس ابن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ(وآلہ) وسلم، لا واللّٰہ لا یجمع رأسی و رأسک بیت أبداً'' وائے ہو تجھ پر ! لوگ سونا اور چاندی لے کر آتے ہیں اور تو فرزند رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر لے کر آیا ہے ،نہیں خدا کی قسم اس گھر میں آج کے بعد کبھی بھی میرا اور تیرا سر یکجا نہیں ہوگا ۔ پھراپنے بستر سے اتری اور کمرے سے باہر آئی اور گھر کے اس حصہ میں گئی جہا ں وہ سر موجود تھا اور بیٹھ کر اسے دیکھنے لگی ۔خدا کی قسم میں دیکھ رہی تھی کہ مسلسل ستون کی طرح ایک نور آسمان تک اس طشت کی طرف چمک رہا ہے اور ایک سفید پرندہ اس کے ارد گرد پرواز کررہا ہے۔ (. طبری ،ج٥ ،ص ٤٥٥)

۳۹۱

اہل حرم کی کوفہ کی طرف روانگی

* امام علیہ السلام کا سر ابن زیاد کے پاس

* دربار ابن زیاد میں اسیروں کی آمد

* عبداللہ بن عفیف کا جہاد

۳۹۲

اہل حرم کی کوفہ کی طرف روانگی

روز عاشورااور اس کی دوسری صبح تک عمر بن سعد نے کربلا میں قیام کیا(١) اور حکم دیا کہ بقیہ شہداء کے بھی سر وتن میں جدائی کردی جائے۔حکم کی تعمیل ہوئی اور بہتر سروں کو(٢) شمر بن ذی الجوشن، قیس بن اشعث ، عمرو بن حجاج اور عزرہ بن قیس کے ہاتھوں کوفہ کی طرف روانہ کیا ۔ یہ سب کے سب وہاں سے چلے اور ان مقدس سروں کے ہمراہ عبیداللہ بن زیاد کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔

پھر اس نے حمید بن بکیر احمری(٣) کو حکم دیا کہ لوگوں کے درمیان اعلان کرے کہ کوفہ کی طرف کوچ کرنے کے لئے آمادہ ہوجائیں ۔وہ اپنے ہمراہ امام حسین علیہ السلام کی بیٹیوں ،بہنوں ، بچوں اور مریض و ناتواں علی بن حسین (علیہ السلام) کو بھی لے کرچلا۔(٤)

____________________

١۔ارشاد میں یہی مرقوم ہے۔(ص٢٤٣)

٢۔ ارشاد، ص ٢٤٣لیکن سبط بن جوزی کا بیان ہے کہ ٩٢ سر تھے(ص ٢٥٦)شاید سبعین اور تسعین میں تصحیف ہو گئی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ خود سبط بن جوزی کابیان ہے:'' کانت زیادہ علی سبعین رأساً'' سرو ں کی تعداد ستر (٧٠) سرو ں سے زیادہ تھی۔(ص ٢٥٩ ،طبع نجف)

٣۔ یہ شخص ابن زیاد کے محافظو ں میں تھا۔ اسی کو ابن زیاد نے قاضی شریح کے ہمراہ اس وقت نگاہ رکھنے کے لئے روانہ کیا جب وہ ہانی کو دیکھنے گیا تھا اور ان کے قبیلے کو باخبرکرنے کے لئے روانہ ہواتھا کہ ہانی صحیح و سالم ہیں ۔شریح یہ کہا کرتا تھاخدا کی قسم اگر وہ میرے ساتھ نہ ہوتا تو میں ہانی کے قبیلے والو ں کووہ با تی ں بتادیتا جس کا حکم ہانی نے مجھے دیا تھا۔(طبری ،ج٥، ص ٢٦٨)

٤۔طبری ،ج٥ ،ص ٤٥٣۔ ٤٥٥ ،مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے ۔

۳۹۳

قرّہ بن قیس تمیمی کا بیان ہے کہ میں زینب بنت علی کو اس وقت فراموش نہیں کرسکتا جب وہ اپنے بھائی کے خون آلودہ جسم کے پاس سے گزررہی تھیں اور یہ فریاد کر رہی تھیں :'' یا محمد اه ! یا محمداه صلی علیک ملائکة السماء ، هذاالحسین بالعراء مرمَّل بالدماء مقطع الأعضاء ، یا محمدا ه! و بناتک سبایا ، و ذریتک مقتلة تسغ علیها الصبا! ''

اے (نانا) محمد اے (نانا) محمد ! آپ پر تو آسمان کے فرشتوں نے نماز پڑھی ، لیکن یہ حسین ہیں جو اس دشت میں خون میں غلطاں ہیں ، جسم کا ہر ہرعضو ٹکڑے ٹکڑے ہے ۔ (اے جد بزرگوار) اے محمد ! (ذرا دیکھئے تو) آپ کی بیٹیاں اسیر ہیں اور آپ کی پاک نسل اپنے خون میں نہائے سورہی ہے جن پر باد صبا چل رہی ہے۔ خدا کی قسم زینب نے ہر دوست ودشمن کو رلا دیا(١) اور مخدرات عصمت آہ و فریاد کرنے لگیں اور اپنے چہروں پر طما نچے لگا نے لگیں ۔(٢) حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کی شہادت کے ایک دن(٣) بعد محلہ غاضر یہ میں رہنے والے بنی اسد نے آپ لوگوں کے جسم کو سپردلحد کیا ۔(٤)

امام حسین علیہ السلام کا سر ابن زیاد کے دربار میں

حمید بن مسلم کا بیان ہے : عمر بن سعد نے مجھے بلا یا اور اپنے گھر والوں کے پاس مجھے روانہ کیا تا کہ میں ان لوگوں کو خو ش خبری دوں کہ اللہ نے اسے سلا متی کے ساتھ فتحیاب کیا ۔ میں آیا اور اس کے گھر والوں کو اس سے باخبر کیا ۔ پھر میں پلٹ کر محل آیا تو دیکھا کہ ابن زیاد بیٹھا ہے اور اس وقت وہ لوگ جو سروں

____________________

١۔ سبط بن جوزی نے اس کی روایت کی ہے۔(ص ٢٥٦)

٢۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے ابو زہیر عبسی نے قرہ بن قیس تمیمی سے روایت کی ہے۔(طبری ،ج٥ ،ص ٤٥٥)

٣۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥ ،ص ٤٥٣، ٤٥٥)

٤۔ شیخ مفید نے ارشاد ،ص ٢٤٣ و ص ٢٤٩ پر اسی طرح مسعودی نے مروج الذہب، ج٣، ص ٧٢ پر لکھا ہے : مشہور یہ ہے کہ شہادت کے تین دن بعد دفن کئے گئے اور یہ دفن کی انجام دہی امام سجاد علیہ السلا م کی موجود گی میں ہوئی ہے جیسا کہ امام رضا علیہ السلام کے ہمراہ علی بن حمزہ کا مناظرہ اس پر گواہ ہے ۔مقتل الحسین مقرم ،ص ٤١٥ کی طرف رجوع کری ں ۔

۳۹۴

کو لے کر کر بلا سے چلے تھے گروہ گروہ اس کے پاس آرہے ہیں ۔ قبیلہ ٔ کندہ ٣١ سروں کے ہمراہ آیا جس کا سر براہ قیس بن اشعث تھا۔ ہوازن ٢٠ سروں کے ہمراہ آئے جن کا سر براہ شمر بن ذی الجوشن تھا۔ قبیلۂ تمیم ١٧ سروں کے ساتھ وارد ہوا ، بنی اسد ٦ سروں کے ہمراہ ، مذحج ٧ سراور بقیہ ٧ ٧ سر لے کر وا رد ہوئے۔ اس طرح ستر (٧٠) سر ہو گئے۔ وہ سب کے سب عبید اللہ کے پاس آئے اور عام لوگوں کو بھی دربار میں آنے کی اجازت ملی تو داخل ہونے والوں کے ساتھ میں بھی داخل ہوا۔میں نے دیکھا امام حسین علیہ السلام کا سر اس کے سا منے رکھا ہے اور وہ چھڑی سے دونوں دانتوں کے درمیان آپ کے لبوں سے بے ادبی کر رہا ہے۔جب زید بن ارقم(١) نے اسے دیکھا اور غور کیا کہ وہ اپنی شقاوتوں سے باز نہیں آرہا ہے اور چھڑی سے دندان مبارک کو چھیڑ ے جا رہا ہے تو انھوں نے ابن زیاد سے کہا :''اُعل بهٰذا القضیب عن ها تین الشفتین فوالذ لا اله غیره لقد رأیت شفت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وآله وسلم علی ها تین الشفتین یقبلهما ! ''اس چھڑی کو ان دونوں لبوں سے ہٹالے، قسم ہے اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ،میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خود دیکھا ہے کہ آپ اپنے دونوں لبوں سے ان لبوں کو بوسہ دیا کر تے تھے۔

پھر وہ ضعیف العمر صحابی ٔرسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چیخ مار کر رونے لگا تو ابن زیاد نے کہا : خدا تمہاری آنکھوں کو گریاں رکھے!اگر بڑھاپے کی وجہ سے تیری عقل فاسد اور تو بے عقل و بے خرد نہ ہو گیا ہوتا تو میں تیری گردن اڑادیتا ۔ یہ سن کر زید بن ار قم وہاں سے اٹھے اور فوراً باہر نکل گئے۔(٢)

____________________

١۔ اہل کوفہ سے مخاطب ہوکر روز عاشورا امام حسین علیہ السلام کے خطبہ کے ذیل میں ان کے احوال گزر چکے ہیں ۔سبط بن جوزی نے بخاری سے اور انھو ں نے ابن سیر ین سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں : جب حسین کا سر ابن زیاد کے سامنے طشت میں رکھا گیا تو اس نے آپ کے لبو ں پر چھڑی مار نا شروع کیا ۔اس وقت وہا ں پر انس بن مالک موجود تھے، وہ رونے لگے اور کہا : یہ رسول خدا سے سب سے زیاد مشابہ تھے۔(ص ٢٥٧)

٢۔شیخ مفید نے ارشاد ، ص ٢٤٣ پر اس کی روایت کی ہے ۔

۳۹۵

نکلتے وقت و ہ یہی کہے جارہے تھے :''ملّک عبد عبداً فاتخذهم تلداً ! أنتم یا معشر العرب العبید بعد الیوم قتلتم ابن فا طمه و أمّر تم بن مرجانة ! فهو یقتل خیارکم ویستعبد شرارکم فرضیتم بالذل ! فبعد ًالمن رض بالذل ! ''(١) ایک غلام نے د وسرے غلام کو تخت حکومت پربٹھا یا اور ان لوگوں نے تمامچیزوں کو اپنا بنالیا اے گروہ عرب آج کے بعد تم لوگ غلام ہو کیونکہ تم نے فرزند فاطمہ کو قتل کردیا اور مرجانہ کے بیٹے کو اپنا امیر بنالیا ۔وہ تمہارے اچھوں کو قتل کرے گا اورتمہارے بروں کو غلام بنالے گا، تم لوگ اپنی ذلت و رسوائی پرراضی و خوشنود ہو، برا ہو اس کا جو رسوائی پر راضی ہوجائے۔راوی کا بیان ہے کہ جب زید بن ارقم باہر نکلے اور لوگوں نے ان کی گفتار سنی تو کہنے لگے : خدا کی قسم زید بن ارقم نے ایسی بات کہی ہے کہ اگر ابن زیا د اسے سن لے تو انھیں قتل کردے گا۔

____________________

١۔ سبط بن جوزی نے ص ٢٥٧ پر اس کی روایت کی ہے اور وہا ں اضافہ کیا ہے کہ زید بن ارقم نے کہا : اے ابن زیاد ! میں اس حدیث سے زیادہ سنگین حدیث تجھ سے بیان کررہا ہو ں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو اس حال میں دیکھا کہ حسن کو اپنے داہنے زانوپرا ور حسین کو اپنے بائی ں زانو پر بٹھا ئے ہوئے تھے اور اپنے ہاتھ کوان کے سر پر رکھ کر فرمارہے تھے:'' اللّٰھم انی استودعک ایاھما و صالح المومنین'' خدا یا! میں ان دونو ں کو اور ان کے باپ صالح المومنین کو تیری امانت میں سپرد کررہاہو ں '' فکیف کان ودیعہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم عندک یابن زیاد ؟'' اے ابن زیاد ! پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ امانت تیرے پاس کس طرح موجود ہے ؟ سبط بن جوزی نے پھربیان کیا کہ ہشام بن محمد کابیان ہے : جب ابن زیاد کے سامنے حسین علیہ السلام کا سر رکھا گیا تو کاہن اور پیشنگوئی کرنے والو ں نے اس سے کہا: اٹھو اور اپنے قدم ان کے منہ پر رکھو، وہ اٹھا اور اس نے اپنے قدم آپ کے دہن مبارک پررکھ دیا، پھر زید بن ارقم سے کہا: تم کیسا دیکھ رہے ہو ؟ تو زید بن ارقم نے کہا : خدا کی قسم میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہا ں اپنے لب رکھتے دیکھا ہے جہا ں تو نے قدم رکھاہے۔ سبط بن جوزی کا پھر بیان ہے کہ شبعی نے کہا: ابن زیاد کے پاس قیس بن عباد موجود تھا ؛ابن زیاد نے اس سے کہا میرے اور حسین علیہ السلام کے بارے میں تمہارا نظریہ کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا : قیامت کے دن ان کے جد ، والد اور ان کی والدہ آکر ان کی شفاعت کری ں گے اورتمہارا دادا ، باپ اور تمہاری ما ں آکر تمہاری سفارش کری ں گی ۔یہ سن کر ابن زیاد غضب ناک ہوگیا اور اسے دربار سے اٹھا دیا۔سبط بن جوزی ہی نے طبقات ابن سعد سے روایت کی ہے کہ صاحب طبقات بن سعد کا بیان ہے : ابن زیاد کی ما ں مرجانہ نے اپنے بیٹے سے کہا: اے خبیث تو نے فرزند رسول اللہ کو قتل کیا ہے؛ خدا کی قسم تو کبھی بھی جنت نہیں دیکھ پائے گا۔ (تذکرہ ، ص ٢٥٩ والکامل فی التاریخ، ج٤، ص ٢٦٥)

۳۹۶

دربار ابن زیاد میں اسیروں کی آمد

جب امام حسین علیہ السلام کی بہنیں ، خواتین اور بچے عبیداللہ بن زیاد کے دربار میں پہنچے تو زینب بنت فاطمہ بہت ہی معمولی لباس پہنے ہوئے تھیں اور غیر معروف انداز میں دربار میں وارد ہوئیں ۔ کنیزیں اور خواتین آپ کو چاروں طرف سے اپنی جھرمٹ میں لئے تھیں تاکہ کوئی آپ کو پہچان نہ سکے پھر آپ انھیں کے درمیان بیٹھ گئیں ۔عبیداللہ بن زیاد نے پوچھا : یہ بیٹھی ہوئی خاتون کون ہے ؟ آپ نے کوئی جواب نہیں دیا توا س نے تین بار اس سوال کی تکرار کی اور تینوں بار آپ نے اس سے تکلم نہیں کیاپھر آپ کی بعض کنیزوں نے کہاکہ یہ زینب بنت فاطمہ ہیں ۔یہ سن کر اس نے کہا :''الحمد للّٰه الذی فضحکم و قتلکم وأکذب أحدوثتکم !''شکر ہے اس خدا کا جس نے تم لوگوں کو ذلیل کیا ، قتل کیا اور تمہاری باتوں کو جھوٹاثابت کیا! زینب کبریٰ نے جواب دیا :'' الحمد للّٰه الذی أکرمنا بمحمد صلی اللّٰه علیه وآله وسلم و طهّرنا تطهیراًلاکما تقول أنت انما یفتضح الفاسق و یکذب الفاجر''شکر ہے اس خدا کا جس نے ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے عزت وکرامت عطافرمائی اور ہمیں اس طرح پاک و پاکیزہ رکھا جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق تھا؛ ایسا نہیں ہے جیسا تو کہہ رہا ہے ،بے شک ذلیل فاسق ہے اور جھوٹ فاجر کا ثابت ہوتا ہے۔

ابن زیادنے کہا :'' کیف رأیت صنع اللّٰه بأ هل بیتک ؟ '' اپنے اہل بیت کے سلسلے میں اللہ کے سلوک کو کیسا محسوس کیا؟

زینب(علیہا السلام) نے جواب دیا:'' کتب علیهم القتل فبرزوا الی مضا جعهم ، و سیجمع اللّٰه بینک و بینهم فتحاجون الیه و تخا صمون عنده'' (١) خدا وند عالم نے اپنی راہ میں افتخار شہادت ان کے لئے مقرر کر دیا تھا تو ان لوگوں نے راہ حق میں اپنی جان نثار کردی ، اور عنقریب خدا تجھے اور ان کو یکجا اور تمہیں ان کے مد مقابل لا کر کھڑا کرے گا تو وہاں تم اس کے پاس دلیل پیش کرنا اور اس کے نزدیک مخاصمہ کرنا ۔

____________________

١۔ شیخ مفید نے ارشاد ص ٢٤٣ پر یہ روایت بیان کی ہے۔اسی طرح سبط ابن جوزی نے تذکرہ ، ص ٢٥٨ ۔ ٢٥٩،طبع نجف میں یہ روایت بیان کی ہے۔

۳۹۷

ابن زیاد رسوا ہو چکا تھا اور اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا لہٰذا وہ غضبناک اور ہیجان زدہ ہوکر بولا:'' قد أشفی اللّه نفس من طاغیتک والعصاة المرده من أهل بیتک ! ''خدا نے تمہارے طغیان گر بھائی اور تمہارے خاندان کے سر کش باغیوں کو قتل کر کے میرے دل کو ٹھنڈا کر دیا ۔

یہ سن کر فاطمہ کی لخت جگر رونے لگیں پھر فرمایا :'' لعمری لقد قتلت کھل وأبرت اھل وقطعت فرع واجتثثت أصل ! فان یشفیک ھٰذافقد اشتفیت! ''قسم ہے میری جان کی تو نے ہمارے خاندان کے بزرگ کو قتل کیا ہے ، ہمارے عزیزوں کے خو ن کو زمین پر بہایا، ہماری شاخوں کو کاٹ ڈالا اور ہماری بنیادوں کو جڑ سے اکھاڑپھینکنے کی کوشش کی ، اگر اس سے تجھے خوشی ملی ہے تو خوش ہولے۔

عبیداللہ بن زیاداحساس شکست کرتے ہوئے بولا: یہ تو بڑی قافیہ باز عورت ہے۔(١) میری جان کی قسم تیرا باپ بھی قافیہ باز شاعر تھا ۔

اس کے جواب میں زینب سلام اللہ علیہا نے فرمایا : عورت کو قافیہ بازی سے کیا مطلب! ہمیں اس کی فرصت ہی کہاں ہے لیکن یہ دل کادرد اور اندوہ ہے جو زبان پر جاری ہو گیا۔

پھر ابن زیاد نے علی بن حسین علیہاالسلام کی طرف نگاہ کی اور آپ سے بولا : تمہارا نام کیاے ؟(٢) امام علی بن الحسین (زین العابدین) نے جواب دیا :''أنا علی بن الحسین'' میں علی فرزند حسین ہوں ۔

ابن زیادنے کہا : کیا اللہ نے حسین کے بیٹے علی کو قتل نہیں کیا ؟

یہ سن کر آپ خاموش ہوگئے تو ابن زیاد نے کہا : تمہیں کیا ہوگیا ہے، بولتے کیوں نہیں ؟

علی بن الحسین نے فرمایا : میرے ایک بھائی تھے ان کا نا م بھی علی تھا جنہیں دشمنوں نے قتل کردیا ۔

ابن زیادنے کہا: اسے اللہ ہی نے قتل کیا ہے یہ سن کر پھرآپ خاموش ہوگئے تو ابن زیاد نے کہا: تمہیں کیا ہو گیا ہے بولتے کیوں نہیں ؟

____________________

١۔ طبری میں کلمئہ شجاعة و شجاعاآیا ہے یعنی بڑی بہادر خاتون ہے لیکن شیخ مفید نے ارشاد میں وہی لکھاہے جو ہم نے یہا ں ذکر کیا ہے۔(ص ٢٤٢ ،طبع نجف) اور گفتگو کے سیاق و سباق سے یہی مناسب بھی ہے ۔

٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے۔ (طبری ،ج٥،ص ٤٥٦۔ ٤٥٧)

۳۹۸

علی بن الحسین نے فرمایا:''اللّٰه یتوفی الانفس حین موتها (١) وما کان لنفس أن تموت الا باذن اللّٰ ہ''(٢) خدا وند متعال لوگوں کے مرتے وقت ان کی روحیں (اپنی طرف) کھینچ لیتا ہے اور بغیر حکم خدا کے تو کوئی شخص مر ہی نہیں سکتا ۔

ابن زیادخجل ہو کر بولا : خدا کی قسم تو بھی انھیں میں کا ایک ہے، پھر اپنے دربار کے ایک جلاد مری بن معاذ احمری سے کہا: وائے ہو تجھ پر اس کو قتل کردے ، یہ سنتے ہی آپ کی پھوپھی زینب آپ سے لپٹ گئیں اور فرمایا :'' یابن زیاد ! حسبک منّا أما رویت من دمائنا ؟ وهل أبقیت منا أحداً و اعتنقته وقالت : أسالک باللّٰه ۔ ان کنت مومنا ۔ ان قتلتہ لمّا قتلتن معہ ! '' اے ابن زیاد !کیا ہمارے خاندان کی اس قدر تاراجی تیرے لئے کافی نہیں ہے؟ کیا تو ہمارے خون سے ابھی تک سیراب نہیں ہوا ؟ کیا تو نے ہم میں سے کسی ایک کو بھی باقی رکھا ہے، پھرآپ نے اپنے بھتیجے کو گلے سے لگا لیا اور فرمایا: تجھ کو خدا کا واسطہ دیتی ہوں اگر تجھ میں ایمان کی بو باس ہے اور اگر تو انھیں قتل کرنا چاہتا ہے تو مجھے بھی ان کے ساتھ قتل کردے۔

علی بن الحسین علیہ السلام نے آواز دی: ''ان کانت بینک و بینهن قرابة فابعث معهن ّ رجلاً تقیا یصحَبَهُنَّ بصحبة الاسلام '' اگر تو مجھے قتل کرنا چاہتا ہے تو اگر تیرے اور ان کے درمیان کوئی قرابت باقی ہے تو انھیں کسی متقی مرد کے ساتھ مدینہ روانہ کردے ۔

پھر ابن زیاد نے جناب زینب اور امام سجاد کی طرف بڑے غور سے دیکھا اور بولا: تعجب ہے اس رشتہ داری اور قرابتداری پر ،خدا کی قسم یہ چاہتی ہے کہ اگر میں اسے قتل کروں تو اس کے ساتھ اس کو بھی قتل کردوں !اس جوان کو چھوڑ دو ۔(٣) و(٤)

پھر ابن زیاد نے امام حسین علیہ السلام کے سر کو نیزہ پر نصب کردیا اور کوفہ میں اسے گھمایا جانے لگا ۔(٥)

____________________

١۔ سورۂ زمر، آیت ٤٢

٢۔سورۂ آل عمران، آ یت ١٤٥

٣۔ ابو مخنف کہتے ہیں :سلیمان بن ابی راشد نے مجھ سے حمید بن مسلم کے حوالے سے روایت بیان کی ہے۔(طبری، ج٥ ، ص ٤٥٧)

۳۹۹

٤۔ طبری نے ذیل المذیل میں بیان کیا ہے : علی بن الحسین جو (کربلامیں شہید ہونے والے علی بن الحسین سے) چھوٹے تھے نے فرمایا:جب مجھے ابن زیاد کے پاس لے جایا گیا تو اس نے کہا : تمہارا نام کیا ہے ؟ میں نے جواب دیا: : علی بن الحسین تو اس نے کہا : کیا علی بن الحسین کو اللہ نے قتل نہیں کیا ؟ میں نے جواب دیا : میرے ایک بھائی تھے جو مجھ سے بڑے تھے، دشمنو ں نے انھی ں قتل کردیا ۔ اس نے کہا: نہیں بلکہ اللہ نے اسے قتل کیا ! میں نے کہا: '' اللّٰہ یتوفی الأنفس حین موتھا '' یہ سن کر اس نے میرے قتل کا حکم نافذ کردیا تو زینب بنت علی علیھما السلام نے کہا : اے ابن زیاد ! ہمارے خاندان کا اتنا ہی خون تیرے لئے کافی ہے ! میں تجھے خدا کا واسطہ دیتی ہو ں کہ اگر انھی ں قتل کرنا ہی چاہتا ہے تو ان کے ساتھ مجھے بھی قتل کردے ! یہ سن کر اس نے یہ ارادہ ترک کردیا ۔ طبری نے ابن سعد (صاحب طبقات) سے نقل کیا ہے کہ انھو ں نے مالک بن اسماعیل سے روایت کی ہے اور انھو ں نے اپنے باپ شعیب سے اور انھو ں نے منہال بن عمرو سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں : میں علی بن الحسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی : آپ نے صبح کس حال میں کی؛خدا آپ کو صحیح و سالم رکھے! انھو ں نے جواب دیا : میں نے اس شہر میں تجھ جیسا بوڑھا اور بزرگ نہیں دیکھا جسے یہ معلوم نہ ہو کہ ہماری صبح کیسی ہوئی! اب جب کہ تمہیں کچھ نہیں معلوم ہے تو میں بتائے دیتا ہو ں کہ ہم نے اپنی قوم میں اسی طرح صبح کی جس طرح فرعون کے زمانے آل فرعون کے درمیان بنی اسرائیل نے صبح کی۔ وہ ان کے لڑکو ں کو قتل کردیتا تھا اور عورتو ں کو زندہ رکھتا تھا۔ ہمارے بزرگ اورسید و سردار علی بن ابیطالب نے اس حال میں صبح کی کہ لوگ ہمارے دشمن کے دربار میں مقرب بارگاہ ہونے کے لئے منبرو ں سے ان پر سب وشتم کررہے تھے ۔ (اے منہال) قریش نے اس حال میں صبح کی کہ سارے عرب پر وہ صاحب فضیلت شمار ہورہے تھے کیونکہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان میں سے تھے۔ اس کے علاوہ ان کے پاس فضیلت کی کوئی چیز نہ تھی اور سارے عرب اس فضیلت کے معترف تھے اور سارے عرب تمام غیر عرب سے صاحب فضیلت شمار کئے جانے لگے کیونکہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عربی ان میں سے تھے ؛اس کے علاوہ ان کے پاس فضیلت کا کوئی ذریعہ نہیں تھا اور سارے عجم ان کی اس فضیلت کے معترف تھے۔اب اگر عرب سچ بولتے ہیں کہ انھی ں عجم پر فضیلت حاصل ہے کیونکہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان میں سے تھے اور اگر قریش سچے ہیں کہ انھی ں عرب پر فضیلت حاصل ہے کیونکہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان میں سے ہیں تو اس اعتبار سے ہم اہل بیت ہیں اور ہمیں قریش پر فضیلت حاصل ہے کیونکہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمارے ہیں لیکن ہم لوگو ں نے اس حال میں صبح کی کہ ہمارے حق کو چھین لیاگیا اور ہمارے حقوق کی کوئی رعایت نہ کی گئی۔ یہ ہمارا روزگار اور ہماری زندگی ہے، اگر تم نہیں جانتے ہو کہ ہم نے کیسے صبح کی تو ہم نے اس حال میں صبح کی ۔

ابن سعد کا بیان ہے : مجھے عبدالرحمن بن یونس نے سفیان سے اور اس نے جعفر بن محمد علیہ السلام سے خبر نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا : علی بن الحسین (علیہ السلام) نے٥٨سال کی عمر میں دار فانی سے کوچ کیا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ علی بن الحسین کربلا میں اپنے باپ کے ہمراہ ٢٣یا ٢٤ سال کے تھے۔ لہٰذا کہنے والے کا یہ قول صحیح نہیں ہے کہ وہ بچہ تھے اور ابھی ان کے چہرے پر ڈاڑھی بھی نہیں آئی تھی ؛ لیکن وہ اس دن مریض تھے لہٰذا جنگ میں شرکت نہیں کی۔ کیسے ممکن ہے کہ ان کو ڈاڑھی تک نہ آئی ہو جب کہ ان کے فرزند ابو جعفر محمد بن علی (علیھما السلام) دنیا میں آچکے تھے۔ (ذیل المذیل ،ص ٦٣٠ ،طبع دار المعارف بحوالہ طبقات ابن سعد ،ج ٥ ص ٢١١ ۔ ٢١٨وارشاد ، ص ٢٤٤) سبط بن جوزی نے اصل خبر کو بطور مختصر بیان کیا ہے۔(ص ٢٥٨ ،طبع نجف)

٥۔ ابو مخنف نے اس طرح روایت کی ہے۔ (طبری ، ج٥ ، ص ٤٥٩)

۴۰۰

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438