واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا13%

واقعۂ کربلا مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 438

واقعۂ کربلا
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 438 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 192976 / ڈاؤنلوڈ: 5407
سائز سائز سائز
واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

امام علیہ السلام سے کہنے لگے : اپنے ارادہ سے منصرف ہو جائیے! آپ کہاں جارہے ہیں ! امام علیہ السلام نے انکار کیا اور دونوں فریق اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہے یہاں تک کہ انھوں نے تازیانہ بلندکر لیا لیکن امام علیہ السلام اپنی راہ پر گامزن رہے۔ جب امام علیہ السلام کو ان لوگوں نے جاتے ہوئے دیکھاتوبلند آوازمیں پکارکر کہا : اے حسین !کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے جو جماعت سے نکل کر اس امت کے درمیان

تفرقہ اندازی کررہے ہو ! ان لوگوں کی باتیں سن کر امام علیہ السلام نے قران مجید کی اس آیت کی تلاوت فرمائی( : لِیْ عَمَلِیْ وَلَکُمْ عَمَلُکُمْ اَنْتُمْ بَرِيْئُوْنَ مِمَّا اَعْمَلُ وَاَنَا بَرِی ئْ مِمَّا تَعْمَلُوْنَ'' ) (١) و(٢)

اگر وہ تم کو جھٹلائیں تو تم کہہ دو کہ ہمارا عمل ہمارے لئے اور تمہاری کارستانی تمہارے لئے ہے، جو کچھ میں کرتا ہوں اس کے تم ذمہ دار نہیں اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے میں بری ہوں ۔

عبداللہ بن جعفر کاخط

چوتھے امام حضرت علی بن حسین بن علی (علیہم السلام) کا بیان ہے کہ جب ہم مکہ سے نکل رہے تھے تو عبداللہ بن جعفربن ابیطالب(٣) نے ایک خط لکھ کر اپنے دونوں فرزندوں عون و محمد(٤) کے ہمراہ روانہ کیا جس کی عبارت یہ ہے:

____________________

١۔ سورہ ٔیونس ٤١

٢۔ طبری، ج٥، ص ٣٨٥،ابو مخنف کا بیان ہے کہ حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے مجھ سے یہ روایت بیان کی ہے ۔

٣۔ آپ جنگ جمل میں امیر المومنین کے لشکر میں تھے اور عائشہ کو مدینہ پہنچانے میں آپ نے آنحضرت کی مدد فرمائی تھی ۔(طبری، ج٤، ص٥١٠)آپ کی ذات وہ ہے جس سے حضرت امیر المومنین کوفہ میں مشورہ کیا کرتے تھے۔ آ پ ہی نے حضرت کو مشورہ دیا تھا کہ محمد بن ابی بکر جو آپ کے مادری بھائی بھی تھے، کو مصر کا والی بنادیجئے۔ (طبری ،ج٤، ص ٥٥٤)آپ جنگ صفین میں بھی حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ تھے اور آپ کے حق میں بڑھ بڑھ کر حملہ کررہے تھے۔ (طبری ،ج٥ ، ص ١٤٨)بنی امیہ کے خلاف امام حسن علیہ السلام کے قیام میں بھی آپ ان کے مدد گار تھے (طبری ،ج٥،ص ١٦٠) اور جب صلح کے بعد سب مدینہ لوٹنے لگے تو دونو ں امامو ں کے ہمراہ آپ بھی مدینہ لوٹ گئے۔ (طبری ،ج٥ ، ص ١٦٥) آپ کے دونو ں فرزند عون و محمد امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ تھے۔ جب آپ تک ان کی شہادت کی خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا :''واللّه لو شهدته ،لأ حببت الّا أفارقه حتی أقتل معه'' خداکی قسم اگر میں موجود ہوتا تو واقعاً مجھے یہ محبوب تھا کہ میں ان سے جدا نہ ہو ں یہا ں تک کہ ان کے ہمراہ قتل ہوجاؤ ں ۔ (طبری ج٥ ، ص ٤٦٦)

٤۔یہ دونو ں امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ کربلامیں جام شہادت نوش فرماکرسرفراز ہوئے۔ طبری کے بیان کے مطابق عون کی ما ں جمانہ بنت مسیب بن نجبہ بن فزاری ہیں (مسیب بن نجبہ توابین کے زعماء میں شمار ہوتے ہیں ) اور محمد کی ما ں خو صاء بنت خصفہ بنت ثقیف ہیں جو قبیلہ بکربن وائل سے متعلق ہیں ۔

۲۲۱

'' امابعد ، فانّی أسألک باللّه لمّا انصرفت حین تنظر فی کتابی فانّی مشفق علیک من الوجه الذی تتوجه له أن یکون فیه هلاکک واستئصال اهل بیتک ، أن هلکت الیوم طفیٔ نور الارض فانک علم المهتدین ورجاء المؤمنین، فلا تعجل بالسیر فانّی فی أثر الکتاب؛ والسلام ''

اما بعد : جب آپ کی نگاہ میرے خط پر پڑے تو میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ اپنے ارادہ سے منصرف ہو جائیے ؛کیو نکہ آپ نے جس طرف کا رخ کیا ہے مجھے خوف ہے کہ اس میں آپ کی ہلا کت اور آپ کے خاندان کی اسیری ہے اور اگر آپ دنیا سے گذرگئے تو زمین کا نور خاموش ہو جا ئے گا؛ کیوں کہ آپ ہدایت یافتہ افراد کے پر چمدار اور مو منین کی امید ہیں ؛ لہٰذا آپ سفر میں جلدی نہ کریں ۔ میں اس خط کے پہنچتے پہنچتے آپ کی خدمت میں شر فیاب ہو رہا ہوں ۔ والسلام

عبد اللہ بن جعفر اس خط کے فوراًبعد عمرو بن سعید بن عاص کے پاس گئے اور اس سے گفتگو کرتے ہو ئے کہا : حسین (علیہ السلام) کو ایک خط لکھو جس میں تم ان کے امن وامان کا تذکرہ کرو ، اس میں ان سے نیکی اور صلہ رحم کی تمنا وآرزو کرو اور اطمینان دلا ؤ، ان سے پلٹنے کی درخواست کرو، شائد وہ تمہاری باتوں سے مطمئن ہو کر پلٹ آئیں اور اس خط کو اپنے بھائی یحٰی بن سعید کے ہمراہ روانہ کرو؛ کیو نکہ وہ زیادہ سزاوار ہے کہ اس سے وہ مطمئن ہوں اور ان کو یقین ہو جا ئے کہ تم اپنے قصد میں مصمم ہو۔عمر وبن سعید نے عبد اللہ بن جعفر کو جواب دیتے ہو ئے کہا : تم جو چا ہتے ہو لکھ کر میرے پاس لے آؤ میں اس پر مہر لگا دوں گا، بنابر یں عبد اللہ بن جعفر نے اس طرح نامہ لکھا :

بسم اللہ الر حمن الر حیم ،یہ خط عمر وبن سعید کی جانب سے حسین بن علی کے نام ہے ۔

اما بعد : میں خدا وند متعال سے در خواست کر تا ہوں کہ آپ کو ان چیزوں سے منصرف کر دے جس میں آپ کا رنج و ملال ہے اور جس میں آپ کی ہدایت ہے اس طرف آپ کو سر فراز کرے ۔مجھے خبر ملی ہے کہ آپ نے عراق کا رخ کیا ہے ۔

خداوند عالم آپ کو حکومت کی کشمکش او رمخالفت سے محفو ظ رکھے؛ کیونکہ مجھے خوف ہے کہ اس میں آپ کی ہلاکت ہے۔ میں آپ کی طرف عبداللہ بن جعفر اور یحٰبن سعید کوروانہ کررہا ہوں ؛آپ ان دونوں کے ہمراہ میرے پاس تشریف لے آئیے کیونکہ میرے پاس آپ کے لئے امان ، صلہ رحم ، نیکی اورخانہ خداکے پاس بہترین جائیگاہ ہے۔ میں خداوند عالم کو اس سلسلے میں گواہ ، کفیل ، ناظر اور وکیل قر ار دیتاہوں ۔ والسلام

۲۲۲

خط لکھ کر آپ اسے عمر و بن سعید کے پاس لے کر آئے اور اس سے کہا: اس پر مہر لگاؤ تواس نے فوراًاس پر اپنی مہر لگادی اور اس خط کو لے کرعبداللہ بن جعفر اور یحٰی امام علیہ السلام کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر آپ کی خدمت میں یحٰی بن سعیدنے خط پڑھا تو امام حسین علیہ السلام نے عمر و بن سعید کو خط کا جواب اس طرح لکھا:

بسم اللّہ الرحمن الرحیم

امابعد، فانه لم یشاقق الله ورسوله من دعاالی اللّٰه عزَّو جلَّ وعمل صالحاًو قال أنّنی من المسلمین؛وقد دعوت الیٰ الامان والبرّو الصلة فخیرالامان امان الله ولن یؤمّن اللّٰه یوم القیامةمن لم یخفه فی الدنیا، فنسأل اللّٰه مخافة فی الدنیاتوجب لنا أمانه یو م القیامة فان کنت نویت بالکتاب صلتی و برّی فجُزیتَ خیراًفی الدنیاوالآخرة ۔ والسلام

بسم اللّہ الرحمن الرحیم ، امابعد،ہر وہ شخص جو لوگوں کو خدائے عزّو جلّ کی طرف دعوت دیتاہے اور عمل صالح انجام دیتاہے اور کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں تو وہ خدااور رسول کی مخالفت نہیں کرتا ہے اور تم نے جو مجھے امان ، نیکی اور صلہ رحم کی دعوت دی ہے تو جان لو کہ بہترین امان خداوندمتعال کی امان ہے اور قیامت میں وہ شخص اللہ کی امان میں نہیں ہے جو دنیا میں اللہ سے نہیں ڈرتا ۔میں دنیامیں خدا سے اس خوف کی درخواست کرتا ہوں جو آخرت میں قیامت کے دن ہمارے لئے اما ن کا باعث ہو۔اب اگر تم نے اپنے خط کے ذریعہ میر ے ساتھ صلہ رحم اور نیکی کی نیت کی ہے تو تم کو دنیاوآخر ت میں اس کی جزا ملے گی۔

۲۲۳

وہ دونوں امام علیہ السلام کا جواب لے کرعمرو بن سعید کے پاس آئے اور کہنے لگے: ہم دونوں نے تمہارے خط کو ان کے سامنے پڑھا اور اس سلسلے میں بڑی کو شش بھی کی لیکن اس سلسلہ میں ان کا عذر یہ تھا کہ وہ فر ما رہے تھے :'' انّی رأیت رؤیاً فیهارسول اللّٰه صلّی اللّٰه علیه (وآله) وسلم وأُمرتُ فیها بأ مرٍأنا ما ضٍ له، علیّ کان أولٰ''

میں نے ایک ملکو تی خواب دیکھا ہے جس میں رسو ل خدا صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم موجو د تھے۔ اس خوا ب میں آپ نے مجھ کو ایک چیز کا حکم دیا گیا ہے۔میں اس پر ضرور عمل کروں گا اور یہ مجھ پر سب سے زیادہ اولیٰ ہے۔

جب ان دونوں نے امام علیہ السلام سے پوچھا کہ وہ خواب کیا تھا ؟تو آپ نے فر مایا :'' ما حدثت بها أحداً وما أنا محدّ ث بها حتی ألقی ربِّی'' (١) اور(٢) میں یہ خواب کسی سے بیان نہیں کرسکتا اور نہ ہی میں یہ خواب کسی سے بیان کرنے والا ہوں یہاں تک کہ اپنے رب سے ملا قات کر لوں ۔

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ حارث بن کعب والبی نے علی بن الحسین (علیہما السلام) کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥،ص٣٨٨)

٢۔امام علیہ السلام یہ مناسب نہیں دیکھ رہے تھے کہ اپنے سفر کے رازسے سب کو آشنا کر تے کیو نکہ انسان جوکچھ جا نتا ہے وہ سب بیان نہیں کر دیتا ہے خصوصاً جبکہ انسان ظرف و جودکے لحاظ سے مختلف و متفاوت ہو ں اور امام علیہ السلام پر واجب ہے کہ ہر شخص کو اس کے وجود کی وسعت اور معرفت کی گنجا ئش کے اعتبار سے آشنائی بہم پہنچائی ں ، اسی لئے امام علیہ السلام نے ان لوگو ں کو ایک واقعی جو اب دیدیا کہ''لم یشا قق الله ورسوله من دعا الی اللّٰه وعمل صالحاً ...وخیر الا مان أمان اللّٰه و لن یؤمن اللّٰه یوم القیامةمن لم یخفه فی الدنیا فنسأل اللّٰه مخافةفی الدنیا تو جب لنا أما نه یوم القیامه ''

اور جب وہ لوگ اس جواب سے قانع نہ ہو ئے تو امام علیہ السلام نے کہہ دیاکہ آپ کو ایک ایسے خواب میں حکم دیا گیا ہے جس میں خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود تھے کہ آپ اپنے سفر کو جاری رکھی ں ؛ لیکن آپ نے اس خواب کو بیان نہیں کیا اور یہ کہہ کربات تمام کردی : ''وما أنا محدث لها حتی ألقی ربی ''

شاید یہیں پرا حمد بن اعثم کوفی متوفی ٣١٠ ھ نے امام علیہ السلام کے اس خواب کا تذکر ہ کر دیا ہے جو آپ نے اپنے جد کی قبر پر مد ینہ میں دیکھا تھا لیکن یہ کیسے معلوم کہ یہ خواب وہی ہے ؟ جب امام علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ خواب خدا کی ملا قات سے قبل میں کسی سے بھی بیان نہیں کرو ں گا یعنی یہ وہی بات ہے جس کا میں نے عہد کیا ہے ۔ واللہ اعلم بہ ، اللہ اس سے بہتر آگاہ ہے۔

۲۲۴

راستہ کی منزلیں

* پہلی منزل: تنعیم

* دوسری منزل : صفاح

*تیسری منزل : حاجر

* چوتھی منزل:چشمۂ آب

* پانچویں منزل : خزیمیہ

* زہیر بن قین کا امام علیہ السلام سے ملحق ہونا

* ایک اور نامہ

* چھٹی منزل :زرود

* ساتویں منزل :ثعلبیہ

* آٹھویں منزل:زبالہ

* نویں منزل : درّہ عقبہ

* دسویں منزل : شراف

* گیارہویں منزل : ذو حسم

* بارہویں منزل : البیضہ

* تیرہویں منزل : عذیب الھجانات

* چودہویں منزل : قصر بنی مقاتل

* قربان گاہ عشق نینوا

۲۲۵

راستہ کی چودہ (١٤)منزلیں

پہلی منزل :تنعیم(١)

امام حسین علیہ السلام نے اپنے سفرکو جاری رکھااورراستہ میں آپ کا گذرایک ایسی جگہ سے ہوا جسے تنعیم کہتے ہیں ۔ وہاں آپ کی ملاقات ایک قافلہ سے ہوئی جسے بحیر بن ریسان حمیر ی(٢) نے یزید بن معاویہ کی طرف روانہ کیا تھا۔ یہ شخص یمن میں یزید کاکار گزار تھا۔ اس قافلہ کے ہمراہ الورس(٣) اور بہت سارے شاہانہ لباس تھے جسے عامل یمن نے یزید کے پاس روانہ کیا تھا۔امام علیہ السلام نے اس کا روان کے سارے بار کو اپنی گرفت میں لے لیا اور قافلہ والوں سے فرمایا :''لا أکر هکم من أحب أن یمضی معنا الی العراق أوفینا کراء ه وأحسنا صحبته، ومن أحب أن یفارقنا من مکاننا هذا أعطیناه من الکراء علیٰ قدر ماقطع من الارض''

____________________

١۔یہ مکہ سے دوفرسخ پر ایک جگہ ہے جیساکی معجم البلدان ج٢،ص٤١٦پر مرقوم ہے ۔ مکہ کے داہنی جانب ایک پہاڑہے جسے تنعیم کہتے ہیں اور شمالی حصہ میں ایک دوسراپہاڑہے جسے ''ناعم ''کہتے ہیں او راس وادی کو ''نعیمان''کہتے ہیں ۔وہا ں پر ایک مسجد موجود ہے جو قر یب ترین میقات اورحرم سے نزدیک ترین احرام سے باہر آنے کی جگہ ہے آج کل یہ جگہ مکہ کے مرکزی علاقہ سے ٦ کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے جس کا مطلب یہ ہو ا کہ ایک فرسخ ہے نہ کہ دو فرسخ ۔ اس وقت شہر سے لے کر یہا ں تک پورا ایک متصل اور وسیع علاقہ ہے جو مدینہ یا جدہ سے مکہ آنا چاہتا ہے اسے ادھر ہی سے ہو کر گذرنا پڑتا ہے۔

٢۔گویایہ وہی شخص ہے جو علم نجوم میں صاحب نظر تھاکیونکہ اس نے عبداللہ بن مطیع کو بتایا تھا کہ جب ابن زبیر قیام کرے گا تو وہ کوفہ کاوالی بنے گا۔(طبری ،ج٦، ص ٩) طاوؤ س یمانی جو بہت معروف ہیں اس شخص کے آقا تھے۔طاوؤ س یمانی نے مکہ میں ١٠٥ھ میں وفات پائی۔(طبری، ج٦، ص٢٩)

٣۔ الورس؛ یہ خاص قسم کی گھاس ہے جو تل کی طرح ہوتی ہے اور رنگ ریزی کے کام آتی ہے اور اس سے زعفران بھی بنایا جاتا ہے۔ یہ گھاس یمن کے علاوہ کہیں بھی نہیں ملتی ہے۔

ممکن ہے کہ بادی النظر فکر میں کسی کو امام علیہ السلام کا یہ فعل العیاذباللہ نا مناسب لگے کہ آپ نے درمیان سے قافلہ کے بار کو اپنی گرفت میں کیو ں لیا؟ یہ تو غصب ہے لیکن وہ افراد جو تاریخ کی ابجد خوانی سے بھی واقف ہو ں گے وہ بالکل اس کے برعکس فیصلہ کری ں گے۔ ہمارے عقیدہ کے مطابق تو امام علیہ السلام کا کام غلط ہوہی نہیں سکتا، انھو ں نے جو کیا وہی حق ہے لیکن ایک غیر کے لئے تا ریخ کی ورق گردانی کافی ہوگی اور جب وہ تاریخ کے اوراق میں امام حسن علیہ ا لسلام کی صلح کے شرائط پر نگاہ ڈالے گا تو ظاہری اعتبار سے بھی یزید کا تخت حکومت پر براجمان ہونا غلط ثابت ہوگا اور وہ ایک باغی شمار کیا جائے گا جس نے مسلمانو ں کے بیت المال کو غصب کیاہے اور امام حسین علیہ السلام امت مسلمہ کے خلیفہ قرار پائی ں گے جن کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی ہر ممکن کوشش صرف کرکے اس غاصب و باغی تک اموال مسلمین پہنچنے سے مانع ہو ں پس یمن کے اس قافلہ کو روک کر اموال کو اپنی گرفت میں لینا امام علیہ السلام کا اولین فریضہ تھا لہٰذا ہم ملاحظہ کرتے ہیں کہ امام علیہ السلام نے قافلہ والو ں سے بڑی دلنشین گفتگو کی جب کہ ظالم وجابر حکومت کی نگاہ میں ایسے افراد لائق گردن زدنی یا قابل قید و بندہوتے ہیں ۔(مترجم)

۲۲۶

میں تم لوگوں پر کوئی زبر دستی نہیں کرتا لیکن تم میں جو یہ چاہتا ہے کہ ہمارے ساتھ عراق چلے تو ہم اس کو کرایہ سفر بھی دیں گے اور اس کی ہمراہی کو خوش آمدید بھی کہیں گے اور جو ہم سے یہیں سے جدا ہونا چاہتا ہے اسے بھی ہم اتنا کرایہ سفر دے دیں گے کہ وہ اپنے وطن تک پہنچ جائے ۔

امام علیہ السلام کی اس دلنشین گفتار کے بعد جو بھی اس قافلہ نور سے جدا ہوا اسے امام علیہ السلام نے اس کا حق دے دیا اور جس نے رکنا چاہا اسے کرایہ دینے کے علاوہ اما م علیہ السلام نے لباس بھی عطا کیا۔(١)

دوسری منزل : الصفاح(٢)

عبداللہ بن سلیم اسدی اور مذری بن مشمعل اسدی کا بیان ہے کہ پہلی منزل سے چلنے کے بعدہم لوگ امام حسین علیہ السلام کے قافلہ کے ہمراہ دوسری منزل پر پہنچے جسے '' الصفاح '' کہتے ہیں اور وہاں ہماری ملاقات فرزدق بن غالب(٣) شاعر سے ہوئی۔ وہ حسین علیہ السلام کے پاس آئے اور کہا: خدا وند متعال آپ کی حاجت کو پورا کرے اور آ پ کی تمنا و آرزو کو منزل مراد تک پہنچائے ۔

____________________

١۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری،ج٥، ص ٣٨٥)

٢۔یہ جگہ حنین اور انصاب الحرم کے درمیان ہے جو بہت آ سانی سے مکہ میں داخل ہونے کا راستہ ہے ۔

٣۔ اس شخص کا نام ھمام بن غالب بن صعصہ ہے۔ ان کے دونو ں چچا'' ذھیل'' اور ''زحاف ''بصرہ میں زیاد بن سمیہ کے دیوان میں دو دو ہزار بخشش لیا کرتے تھے ۔انھو ں نے بنی نہشل اور فقیم کی ہجو میں اشعار کہے تو ان دونو ں نے زیاد سے جا کر ان کی

۲۲۷

شکایت کی ۔جب اس نے فرزدق کو طلب کیا تویہ وہا ں سے بھاگ گئے۔ اس کے بعد نوبت یہ آ گئی جب زیاد بصرہ آتا تھا تو فرزدق کوفہ آجاتے تھے اور جب وہ کوفہ آتا تھا تو فرزدق بصرہ روانہ ہوجاتے تھے۔ واضح رہے کہ زیاد ٦ مہینہ بصرہ رہتا تھااور ٦ مہینہ کوفہ کے امور سنبھالتا تھا۔ اس کے بعد یہ حجاز چلے گئے اور وہیں مکہ ومدینہ میں رہنے لگے۔اس طرح زیاد کی شرارتو ں سے بچ کر سعید بن عاص کی پناہ میں رہنے لگے یہا ں تک کہ زیاد ہلاک ہوگیا(طبری، ج٥، ص ٢٤٢، ٢٥٠)تو انھو ں نے اس کی ہجو میں مرثیہ کہا :

بکیت امرئً امن آ ل سفیان کافراً ککسری علی عدوانہ أو کقیصراً (طبری، ج٥،ص ٢٩٠)میں نے آل سفیان کے ایک مرد پر گریہ کیا جو کافر تھا جیسے قیصر و کسری اپنے دشمن پر روتے ہیں ۔

ابن زیاد کی ہلاکت کے بعد یہ دوبارہ بصرہ پلٹ گئے اور وہیں رہنے لگے۔ ٦٠ھمیں یہ اپنی ما ں کے ہمراہ حج پر آ رہے تھے جب ان کی امام حسین علیہ السلام سے ملاقات ہوئی شاید اسی لئے حسین علیہ السلام کے ہمراہ کربلا میں حاضری نہ دے سکے۔ (طبری، ج٥، ص ٣٨٦) انھو ں نے حجاج کے لئے بھی شعر کہے ہیں ۔(طبری ،ج٦،ص ٣٨٠و ٩٣٩٤) سلیمان بن عبدالملک کے محل میں بھی ان کی آمد ورفت تھی۔ (طبری ،ج٥، ص ٥٤٨)١٠٢ھ تک یہ شاعر زندہ رہے۔(طبری ،ج٥، ص ٢٤٢ ، ٢٥٠) بنی نہشل کی ہجو میں جب انھو ں نے اشعار کہے تھے تو یہ جوان تھے بلکہ ایک نوجوان اعرابی تھے جو دیہات سے آئے تھے۔ (طبری ،ج٥ ، ص ٢٤٢) ایسی صورت میں امام علیہ السلام سے ملاقات کے وقت ان کی عمر ٣٠سال سے کم تھی۔

امام علیہ السلام نے اس سے کہا :''بيّن لنا نبأ الناس خلفک'' تم جس شہر اور جہا ں کے لوگو ں کو اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو ان کی خبری ں ہمارے لئے بیان کرو ۔فرزدق نے کہا : آ پ نے واقف کار شخص سے سوال کیا ہے تو سنئے :'' قلوب الناس معک ''لوگو ں کے دل آپ کے ساتھ ہیں ''و سیوفهم مع بنی امیه'' اور ان کی تلواری ں بنی امیہ کے ساتھ ہیں'' والقضاء ینزل من السمائ'' لیکن فیصلہ و قضا تو خدا وند عالم کی طرف سے ہے ''واللّہ یفعل ما یشائ'' اور اللہ وہی کرتا ہے جو چاہتا ہے۔

۲۲۸

امام حسین علیہ السلام نے ان سے کہا : تم نے سچ کہا، اللہ جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے ؛ہمارے رب کی روزانہ اپنی ایک خاص شان ہے لہٰذا اگر اس کا فیصلہ ایسا ہوا جو ہمیں محبوب ہے تو اس کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کریں گے اور شکر کی ادائیگی میں وہ ہمارا مدد گا ر ہے اور اگرفیصلہ الہٰی ہماری امیدوں کے درمیان حائل ہوگیا تب بھی اس شخص کے لئے کچھ نہیں ہے جس کی نیت حق اور جس کی سرشت تقویٰ ہے۔ یہ کہہ کر امام علیہ السلام نے اپنی سواری کو حرکت دی تو انھوں نے امام کو سلام کیا اور دونوں جدا ہوگئے۔(١) و(٢) جب عبیداللہ بن زیاد کو خبر ملی کہ امام حسین علیہ السلام مکہ سے عراق کی طرف آرہے ہیں تو اس نے اپنی پولس کے سربراہ حصین بن تمیم تمیمی کو روانہ کیا۔ اس نے مقام قادسیہ میں آکر پڑاؤ ڈالا اور قادسیہ(٣) و خفا ن(٤) کے درمیان اپنی فوج کو منظم کیا اسی طرح قادسیہ اور قطقطانہ(٥) اورلعلع کے درمیان اپنی فوج کو منظم کرکے کمین میں لگادیا۔(٦)

____________________

١۔ ابومخنف کا بیان ہے کہ ابی جناب نے عدی بن حرملہ سے اور اس نے عبداللہ بن سلیم سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥، ص ٣٨٦) یہ بیان اس بیان سے میل نہیں کھاتا جو ان دونو ں سے عنقریب بیان ہو گا کہ یہ دو نو ں کہتے ہیں کہ ہم لوگ مقام '' زرود میں امام علیہ السلام سے ملحق ہوئے اور یہ منزل صفاح کے بعد کوفہ کے راستہ میں چندمنازل کے بعد ہے مگر یہ کہا جائے کہ ان کے قول''اقبلنا حتی انتھینا ''کا مطلب یہ ہوکہ ہم لوگ کوفہ سے روانہ ہوکر صفاح تک پہنچے جو مکہ میں داخل ہونے کا راستہ ہے پھر مناسک حج انجام دینے کے بعد منزل زرود میں امام علیہ السلام سے دوبارہ ملحق ہوگئے ۔

٢۔طبری نے کہا : ہشام نے عوانہ بن حکم کے حوالے سے، اس نے لبطہ بن فرزدق بن غالب سے اور اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ اس کے باپ نے کہا : میں نے ٦٠ھ میں حج انجام دیا اور ایام حج میں حرم میں داخل ہو ا تو دیکھا حسین بن علی مکہ سے نکل رہے ہیں میں ان کے پاس آیا اورعرض کی: بأبی أنت و أمی یا بن رسول اللّٰہ! ما اعجلک عن الحج؟ فرزند رسول خدا میرے ما ں باپ آپ پر قربان ہوجائی ں !آپ کو اتنی بھی کیا جلدی تھی کہ آپ حج چھوڑ کر جارہے ہیں ؟ امام علیہ السلام نے جواب دیا : لو لم أعجل لأْ خذت اگر میں جلدی نہ کرتا تو پکڑ لیا جاتا ۔ فرزدق کہتا ہے کہ پھر آپ نے مجھ سے پوچھا ممن أنت ؟تم کہا ں کے رہنے والے ہو ؟ تو میں نے جواب دیا : میں عراق کا رہنے والا ایک شخص ہو ں ؛ خدا کی قسم !اس سے زیادہ انھو ں نے میرے بارے میں تفتیش نہیں کی ؛ بس اتنا فرمایا : جن لوگو ں کو تم اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو مجھے ان کی خبر بتاؤ تو میں نے کہا: انکے قلوب آپ کے ساتھ ہیں اور تلواری ں بنی امیہ کے ہمراہ ہیں اور قضاء اللہ کے ہاتھ میں ہے۔آپ نے مجھ سے فرمایا : تم نے سچ کہا! پھر میں نے نذر اور مناسک حج کے سلسلہ میں کچھ سوالات کئے تو آپ نے اس کے جواب سے مجھے بہرہ مند فرمایا۔(طبری، ج٥، ص ٣٨٦)

٣۔قادسیہ او ر کوفہ کے درمیان ١٥ فرسخ کی مسافت ہے اور اس کے وعذیب کے درمیان ٤میل کا فاصلہ ہے اور اسے دیوانیہ کہتے ہیں ۔ حجاز کے دیہات کی طرف یہ(قادسیہ) عراق کا سب سے پہلا بڑاشہر ہے۔ اسی جگہ پر عراق کی سب سے پہلی جنگ بنام جنگ قادسیہ سعد بن ابی وقاص کی قیادت میں ہوئی ہے ۔

٤۔ یہ ایک قریہ ہے جو کوفہ سے نزدیک ہے جہا ں بنی عباس کا ایک پانی کاچشمہ ہے جیسا کہ معجم البلدان، ج ٣ ، ص٤٥١ پر موجود ہے ۔

٥۔ قطقطانہ ، رہیمہ سے کوفہ کی طرف تقریباً ٢٠میل کے فاصلہ پرہے۔ (طبری، ج٧ ، ص ١٢٥) یعقوبی کا بیان ہے : جب امام علیہ السلام کومسلم کی شہادت کی خبر ملی تو آپ قطقطانہ میں تھے۔ (طبری، ج٢، ص ٢٣٠)

٦۔ابو مخنف کا بیان ہے : مجھ سے یونس بن ابی اسحاق سبیعی نے اس کی روایت کی ہے۔(طبری ،ج٥،ص٣٩٤)

۲۲۹

تیسری منزل : حاجر(١)

اس کے بعد امام حسین علیہ السلام اپنے مقصد کی طرف روانہ ہوتے ہوئے حاجر بطن رمہ(٢) تک پہنچے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے قیس بن مسہر صیداوی کو اہل کوفہ کی طرف روانہ کیا اور ان کے ہمراہ اہل کوفہ کے نام ایک خط لکھا :

''بسم اللّه الرحمن الرحیم ! من الحسین بن علی الی اخوانه من المومنین و المسلمین، سلام علیکم : فانّی أحمد الیکم اللّٰه الذی لا اله الا هو ، أما بعد ، فان کتاب مسلم بن عقیل جاء ن یخبرن فیه بحسن رأیکم و اجتماع ملئکم علی نصرنا و الطلب بحقنا فسألت اللّٰه أن یحسن لنا الصنع وأن یثیبکم علی ذالک أعظم الاجر ، وقدشخصت من مکة یوم الثلاثاء لثمان مضین من ذی الحجه یوم التروية فاذا قدم علیکم رسول فا کمشوا أمرکم و جدّ وا، فان قادم علیکم فأیام هٰذه، ان شاء اللّٰه؛ والسلام علیکم ورحمة اللّه وبرکا ته ''

بسم اللّہ الرحمن الرحیم ! یہ خط حسین بن علی کی جانب سے اپنے مومنین و مسلمین بھائیوں کے نام، سلام علیکم ، میں اس خدا کی حمد و ثنا کرتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ۔امابعد ، حقیقت یہ ہے کہ مسلم بن عقیل کا خط مجھ تک آچکا ہے، اس خط میں انھوں نے مجھے خبر دی ہے کہ تم لوگوں کی رائے اچھی ہے اور تمہارے بزرگوں نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ وہ ہماری مدد کریں گے اور ہمارے حق کو ہمارے دشمنوں سے واپس لے لیں گے تو میں خدا سے سوال کرتا ہوں کہ وہ ہمارے لئے اچھی راہ قرار دے اور اس کے ثواب میں تم لوگوں کو اجرعظیم سے نوازے ۔

____________________

١ ۔حاجرنجد کی بلند وادی کو کہتے ہیں ۔

٢۔ بطن رمہ وہ جگہ ہے جہا ں اہل کو فہ و بصرہ اس وقت یکجا ہوتے تھے جب وہ مدینہ جانے کا ارادہ کرتے تھے جیسا کہ معجم البلدان، ج ٤،ص ٢٩٠،اور تاج العروس، ج ٣،ص١٣٩پر مرقوم ہے۔

۲۳۰

اس سے تم لوگ آگاہ رہوکہ میں بروز سہ شنبہ ٨ ذی الحجہ یوم الترویہ مکہ سے نکل چکا ہوں لہذا جب میرا نامہ بر تم لوگوں تک پہنچے تو جو کام تم کو کرنا چاہئیے اس کی تدبیر میں لگ جاؤ اور اس مسئلہ میں بھر پور کوشش کرو کیونکہ میں انشا ء اللہ انہی چند دنوں میں تم تک پہنچنے والا ہوں ۔ والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

امام حسین علیہ السلام کا یہ خط لے کر قیس بن مسہر صیداوی کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے۔آپ جب قادسیہ پہنچے تو حصین بن تمیم نے آپ کو گرفتار کر کے عبیداللہ بن زیاد کے پاس بھیج دیا ۔

ابن زیاد نے آپ سے کہا محل کی چھت پر جاؤ اور کذاب بن کذاب کو گالیاں دو !

قیس بن مسہر شجاعت وشہا مت کے ساتھ محل کی چھت پر آئے اور کہا :'' أیھا الناس ! ان الحسین علیہ السلام بن علی خیر خلق اللّٰہ ابن فاطمہ بنت رسول اللہ وأنا رسولہ الیکم وقد فارقتہ بالحاجر فأجیبوہ ثم لعن عبید اللہ بن زیاد وأباہ واستغفر لعلیِّ بن أبی طالب '' اے لوگو ! حسین بن علی خلق خدا میں بہتر ین مخلوق ہیں ، آپ فرزند فاطمہ بنت رسول خدا ہیں اور میں ان کا نامہ بر ہوں ، میں ان کو مقام حاجر میں چھوڑ کر یہاں آیا ہوں ۔ تم لوگ ان کی عدالت خواہ آواز پر لبیک کہنے کے لئے آمادہ ہو جاؤ پھر آپ نے عبید اللہ اور اس کے باپ پر لعنت کی اور علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کے لئے طلب مغفرت کی۔عبید اللہ نے حکم دیا کہ انھیں محل کے اوپر سے نیچے پھینک دیا جائے، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور آپ کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا۔اس طرح آپ شہید ہو گئے ۔] اللہ آپ پر نزول رحمت فر مائے[(١)

چو تھی منزل : چشمۂ آب

امام حسین علیہ السلام کا قافلہ کوفہ کی طرف رواں دواں تھا؛ راستے میں آپ کا قافلہ عرب کے ایک پا نی کے چشمہ کے پاس جا کر ٹھہرا۔ وہاں عبد اللہ بن مطیع عدوی بھی موجود تھے جو پا نی لینے کی غرض سے وہاں اترے تھے۔جیسے ہی عبد اللہ بن مطیع نے امام حسین علیہ السلام کو دیکھا ویسے ہی آپ کی خدمت میں

____________________

١۔ کتاب کے مقدمہ میں شرح احوال موجود ہے۔

۲۳۱

آکر کھڑے ہو گئے اور عرض کی: فرزند رسول خدا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں !کون سا سبب آپ کو یہاں تک لے آیا ؟

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : اہل عراق نے خط لکھ کر مجھے اپنی طرف بلا یا ہے۔عبد اللہ بن مطیع نے آپ سے عرض کیا: فرزند رسول اللہ آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ اس راہ میں آپ اسلام کی ہتک حرمت نہ ہو نے دیں ، میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ(وآلہ) وسلم کی حرمت خطرے میں نہ پڑے ،خدا کے لئے عرب کی حرمت خطرے میں نہ ڈالئے۔خدا کی قسم! اگر حق کو بنی امیہ سے واپس لینا چاہیں گے تو وہ آپ کو قتل کر ڈالیں گے اور اگر ان لوگوں نے آپ کو قتل کردیا تو آپ کے بعد کسی کو نگا ہ میں نہیں لا ئیں گے ۔(١) خدا کی قسم! اسلام کی حرمت، قریش کی حرمت ہے اورعربوں کی حرمت خاک میں مل جائے گی ،پس آپ ایسا نہ کریں اور کوفہ نہ جائیں اور بنی امیہ سے نہ الجھیں !عبد اللہ بن مطیع نے اپنے نظر یہ کو پیش کیا اور امام علیہ السلام اسے بغور سنتے رہے لیکن اپنے راستے پر چلتے رہے۔

پانچو یں منزل:خزیمیہ(٢)

امام حسین علیہ السلام کا سفر اپنے مقصد کی طرف جاری تھا۔ چلتے چلتے پھر ایک منزل پررکے جو مقام '' زرود'' سے پہلے تھی یہاں پر پانی موجود تھا،(٣) اس جگہ کا نام خزیمیہ ہے ۔

____________________

١۔ امام کے عمل سے نہ تو اسلام کی بے حرمتی ہوئی نہ ہی رسول خدا ، عرب اور قریش کی ہتک حرمت ہوئی بلکہ اسلام دشمن عناصر کی کا رستا نیو ں سے یہ سب کچھ ہوا ۔ابن مطیع نے اپنے اس جملہ میں خطا کی ہے جو یہ کہہ دیا کہولئن قتلوک لا یها بون بعد ک احداابدا کیونکہ امام علیہ السلام کے بعد ان لوگو ں کو جرأ ت ملی جو مکہ ومدینہ وکوفہ میں اس سے پہلے اپنے ہاتھو ں میں چوڑیا ں پہنے بیٹھے تھے انھی ں میں سے خود ایک ابن مطیع بھی ہے جو ابن زبیر کے زمانے میں کوفہ کا والی بنا۔ اگر امام حسین علیہ السلام نے قیام نہ کیا ہوتا تو بنی امیہ کے خلا ف کسی میں جرأ ت پیدا نہ ہوتی اور اسلام کو مٹا نے میں وہ جو چاہتے وہی کرتے ۔

٢۔یہ جگہ مقام زرود سے پہلے ہے اس کے بعدکاراستہ کوفہ جانے والو ں کے لئے ہے جیسا کہ معجم البلدان میں آیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے اس کے اورثعلبیہ کے درمیان ٣٢کیلومیٹرکا فاصلہ ہے۔ یہ درحقیقت ثعلبیہ کے بعدحجاج کی پہلی منزل ہے۔

٣۔ طبری ،ج٥،ص ٣٩٤، ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے محمد بن قیس نے یہ روایت بیان کی ہے ۔شاید یہ قیس بن مسہر کے فرزند ہیں ۔

۲۳۲

زہیر بن قین کا امام حسین علیہ السلام سے ملحق ہونا

قبیلہء بنی فنرارہ کے ایک مرد کا بیان ہے : ہم زہیر بن قین بجلی کے ہمراہ تھے اور ہم اسی راستے پر چل رہے تھے جس راستہ پر حسین (علیہ السلام) محو سفر تھے لیکن ہمارے لئے سب سے زیادہ نا پسند امر یہ تھا کہ ہم ان کے ہمراہ ایک ساتھ سفر کریں اور ایک منزل پر ٹھہریں لہٰذ ا زہیر کے حکم کے مطا بق حسین جہاں ٹھہر تے تھے ہم وہاں سے آگے بڑھ جا تے اور وہ جہاں پر آگے بڑھتے ہم وہاں پڑاؤ ڈال کر آرام کرتے تھے؛ لیکن راستے میں ہم ایک ایسی منزل پر پہنچے کہ چارو نا چار ہم کو بھی وہیں پر رکنا پڑا جہاں پر امام حسین نے پڑاؤ ڈالا تھا۔ امام حسین نے ایک طرف اپنا خیمہ لگا یا اور ہم نے اس کے دوسری طرف ؛ ہم لوگ ابھی بیٹھے اپنے خیمے میں کھا نا ہی کھا رہے تھے کہ یکایک حسین کا پیغام رساں حاضر ہوا اور اس نے سلام کیاپھر خیمہ میں داخل ہوا اور کہا : اے زہیر بن قین ! ابو عبد اللہ حسین بن علی نے مجھے تمہاری طرف بھیجا ہے تا کہ تم ان کے پاس چلو۔ اس جملہ کا اثر یہ ہوا کہ حیرت وتعجب سے جس انسان کے ہاتھ میں جو لقمہ تھا وہ نیچے گر گیا؛ سکوت کا یہ عالم تھا کہ ایسا محسوس ہو تا تھا کہ ہم سب کے سروں پر طائر بیٹھے ہیں ۔(١) زہیر بن قین کی زوجہ دلھم بنت عمر کہتی ہے کہ میں نے زہیر سے کہا : فرزند رسول اللہ تمہارے پاس پیغام بھیجے اور تم ان کے پاس نہ جائو !سبحان اللہ! اگر انھوں نے مجھے بلایا ہوتاتو میں ضرور جاتی اور ان کے گہر بار کلام کو ضرور سنتی، پھر میں نے کچھ نہ کہا لیکن زہیر بن قین اٹھے اور امام علیہ السلام کی بارگاہ میں روانہ ہوگئے ۔ابھی کچھ دیر نہ گزری تھی کہ واپس آگئے لیکن اب تو بات ہی کچھ اور تھی؛ چہرے پر خوشی کے آثار تھے اور چہرہ گلاب کی طرح کھلا جارہاتھا۔

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سدّی نے بنی فزارہ کے ایک جوان کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ جب حجاج بن یوسف کے زمانے میں ہم لوگ زہیر بن قیس بجلی کے مکان میں چھپے تھے جہا ں اہل شام داخل نہیں ہو تے تھے تو میں نے فزاری سے پوچھا: ذرا مجھ سے اس واقعہ کو بیان کرو جب تم لوگ حسین بن علی کے ہمراہ، سفر میں تھے تو اس نے یہ روایت بیان کی۔(طبری، ج٥، ص ٣٩٦، ارشاد، ص ٢٢١، خوارزمی، ص٣٢٥)

۲۳۳

اسی عالم میں زہیر نے اپنے ہمراہیوں سے کہا : تم میں سے جو ہمارے ساتھ آناچاہتا ہے آ جائے اور اگر نہیں تو اب اس سے میرا یہ آخری دیدار ہے۔اس کے بعداپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے زہیر نے کہا : میں تم لوگوں سے ایک روایت بیان کرنا چاہتا ہوں ، اسے غور سے سنو !ہم لوگ جب مقام '' بلنجر ''(١) پر لڑنے کے لئے گئے تو خداوندمتعال نے ہم لوگوں کو دشمنوں پر کامیابی عطاکی اور بڑی مقدار میں مال غنیمت بھی ہاتھ آیا۔اس وقت سلمان باہلی(٢) نے ہم لوگوں سے کہا : کیا تم لوگ اس بات پر خوش ہو کہ خدا وند عالم نے تم لوگوں کو فتح و ظفر سے نوازاہے اور کافی مقدار میں مال غنیمت تمہارے ہاتھوں لگاہے ؟ ہم لوگوں نے کہا : ہاں کیوں نہیں !تواس نے ہم لوگوں سے کہا : جب تم لوگ آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کی جوانی دیکھو گے تو تمہاری ان کے ساتھ جنگ کی خوشی اس مال غنیمت ملنے کی خوشی سے زیادہ ہو گی اورجہاں تک میری بات ہے تو اب میں تم لوگوں سے خدا حافظی کر تا ہوں ۔

پھر زہیر بن قین نے اپنی زوجہ کی طرف رخ کرتے ہوئے کہا : اب میں تم کو طلا ق دے رہا ہوں تاکہ تم آزاد ہو جاؤ اورگھروالوں کے پاس جا کر وہیں زندگی بسر کرو؛ کیونکہ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میری وجہ سے تمہیں کوئی نقصان پہنچے۔میں تمہارے لئے بہتری چاہتاہوں ۔(٣) و(٤)

____________________

١۔ یہ تاتا ریو ں (یا خزریو ں) کا شہر ہے جو انہیں کے دروازو ں میں سے ایک دروازے کے نزدیک ہے ٣٣ھ عہد عثمان میں سلمان بن ربیعہ باہلی کے ہاتھو ں یہ جنگ فتح کی گئی جیسا کہ معجم البلدان میں یہی موجود ہے ۔

٢۔ طبری ،ج٤، ص ٣٠٥ پر ہے کہ سلمان فارسی اور ابو ہریرہ اس جنگ میں لشکر کے ہمراہ موجود تھے ۔یہ بیان ابن اثیر کی الکامل میں ہے (ج ٤،ص ١٧)پھریہ بیان ہے کہ جس شخصیت نے ان لوگو ں سے یہ گفتگوکی وہ سلمان فارسی ہیں نہ کہ باہلی۔ ابن اثیر نے ا پنی تاریخ الکامل فی التاریخ میں اس بات کا ارادہ کیا ہے کہ تاریخ طبری کو کامل کری ں لہٰذاوہ اکثرو بیشتر اخبار میں طبری سے ناقل دکھائی دیتے ہیں ۔شیخ مفید نے ارشاد میں اور فتال نے روضة الواعظین میں ص ١٥٣پر ، ابن نمانے مثیر الاحزان میں ص ٢٣پر ، خوارزمی نے اپنے مقتل میں ج١، ص ٢٢٥پر اور البکری نے معجم ج١ ،ص٣٧٦ پر واضح طور سے اس بات کی صراحت کی ہے کہ وہ شخص جناب سلمان فارسی ہی تھے جنہو ں نے یہ جملہ کہا تھا۔ اس بات کی تائید طبری نے بھی کی ہے کیونکہ طبری کے بیان کے مطابق جناب سلمان وہا ں موجود تھے ؛ لیکن ظاہر یہ ہے کہ مدائن فتح ہونے کے بعد جناب سلمان فارسی وہیں کے گورنر رہے اور وہیں اپنی وفات تک قیام پذیر رہے اور کسی بھی جنگ کے لئے وہا ں سے نہیں نکلے؛ بلکہ اس جنگ سے قبل عمر کے عہد حکومت میں آپ نے اس دنیا کو الوداع کہہ دیا تھا ۔

٣۔ ابو مخنف کا بیان ہے : مجھ سے یہ خبر زہیر بن قین کی زوجہ دلھم بنت عمر و نے بیان کی ہے۔(طبری ،ج٥،ص٣٩٦، الارشاد، ص ٢٢١)

٤۔ عنقریب یہ بات کربلامیں زہیر بن قین کے خطبے سے معلوم ہوجائے گی کہ اس سے قبل زہیراس بات پر معاویہ کی مذمت کیا کرتے تھے کہ اس نے زیاد کو کس طرح اپنے سے ملحق کرلیا؛اسی طرح حجر بن عدی کے قتل پر بھی معاویہ سے ناراض تھے ۔

۲۳۴

ایک اور نامہ بر

اسی جگہ سے امام حسین علیہ السلام نے عبداللہ بن بقطر حمیری(١) کو بعض راستوں سے مسلم بن عقیل(٢) کی طرف روانہ کیا۔ سپاہ اموی جو حصین بن تمیم کے سربراہی میں کوفہ کے قریب قادسیہ میں چھاؤنی ڈالے راہوں کو مسدود کئے تھی اور آمد و رفت پر سختی سے نظررکھے ہوئی تھی؛ اس نے عبداللہ بن بقطر کوگرفتار کر کے عبیداللہ بن زیاد کے پاس بھیج دیا۔ جب آپ عبیداللہ کے پاس لائے گئے تو اس نے کہا : محل کے اوپر جاؤ اور کذاب بن کذاب پر لعنت بھیجو پھر نیچے اتر آؤ تاکہ میں تمہارے سلسلے میں اپنانظریہ قائم کرسکوں ۔یہ سن کر عبداللہ بن بقطر محل کے اوپر گئے اور جب دیکھا کہ لوگ تماشابین کھڑے ہیں تو آپ نے فرمایا :

'' أیھاالناس انی رسول الحسین علیہ السلام بن فاطمہ بنت رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم لتنصروہ و توازروہ علی بن مرجانة بن سمیہ الدعی ! ''

اے لوگومیں حسین فرزند فاطمہ بنت رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام رساں ہوں تاکہ تم لوگ ان کی مدد و نصرت کر سکو اور اس مرجانہ بن سمیہ کے بچے جس کی پیدائش کا بستر معلوم نہیں ہے، کے خلاف ان کی پشت پناہی کرو ،یہ سنتے ہی عبیداللہ بن زیادنے حکم دیاکہ انھیں چھت سے پھینک دیاجائے۔ اس کے کارندوں نے آپ کو محل کے اوپر سے نیچے پھینک دیا؛جس کی وجہ سے آ پ کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں ؛ لیکن ابھی رمق حیات باقی تھی۔عبدالملک بن عمیرلخمی(٣) آپ کے پاس آ یا اور آپ کو ذبح کر کے شہید کر ڈالا۔

____________________

١۔ آپ کی ما ں امام حسین علیہ السلام کی دیکھ بھال کیاکرتی تھی ں اسی لئے آپ کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ آ پ حضرت امام حسین علیہ السلام کے رضائی بھائی تھے۔طبری نے بقطر ہی لکھا ہے اسی طرح جزری نے الکامل میں بھی بقطر ہی ذکر کیا ہے؛ لیکن ہمارے بزرگو ں نے(ی) کے ساتھ یعنی یقطر لکھاہے جیسا کہ سماوی نے ابصارالعین، ص٥٢پر یہی لکھا ہے ۔

٢۔ ابومخنف کا بیان ہے : مجھ سے یہ خبرابو علی انصاری نے بکر بن مصعب مزنی کے حوالے سے نقل کی ہے۔(طبری ،ج٥، ص٣٩٨؛ارشاد، ص ٢٢٠) اس خبر کو انھو ں نے قیس بن مسہر صیداوی کی خبرسے خلط ملط کردیا ہے ۔

٣۔ شعبی کے بعد اس نے کوفہ میں قضاوت کا عہدہ سنبھالا۔ ١٣٦ ھ میں وہ ہلاک ہوا ؛اس وقت اس کی عمر ١٠٣ سال تھی جیسا کہ میزان الاعتدال، ج ١، ص ١٥١ ، اور تہذیب الاسمائ، ص٣٠٩ پر تحریرہے۔ عنقریب یہ بات آئے گی کہ منزل زبالہ پر صیداوی کی شہادت کی خبر سے پہلے امام علیہ السلام کو ابن بقطر کی شہادت کی خبر ملی ہے؛ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام نے قیس بن مسہر صیداوی سے پہلے یقطر کو روانہ کیا تھا ۔

۲۳۵

چھٹی منزل: زرود(١)

عبداللہ بن سلیم اسدی اور مذری بن مشمعل سے روایت ہے کہ ان دونوں نے کہا :

جب ہم حج سے فارغ ہوگئے تو ہماری ساری کوشش یہی تھی کہ ہم کسی طرح حسین سے راستے میں ملحق ہو جائیں تاکہ دیکھیں کہ بات کہاں تک پہنچتی ہے؛ لہٰذا ہم لوگوں نے اپنے ناقوں کو سر پٹ دو ڑایا؛ یہاں تک کہ مقام زرود(٢) پر ہم ان سے ملحق ہوگئے۔جب ہم لوگ ان کے قریب گئے تو دیکھا کوفہ کا رہنے والا ایک شخص عراق سے حجاز کی طرف روانہ ہے، جیسے ہی اس نے امام حسین علیہ السلام کو دیکھا اپنے راستے سے پلٹ گیا تاکہ آپ سے اس کی ملاقات نہ ہو لیکن ا مام علیہ السلام وہاں پر کھڑ ے رہے گویا اس کے دیدار کے منتطر تھے لیکن جب دیکھا کہ وہ ملاقات کے لئے مائل نہیں ہے تو اسے چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔

ہم میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا : آؤ اس شخص کے پاس چلیں اور اس سے پوچھیں اگر اس کے پاس کوفہ کی خبر ہو گی تووہ ہم کو اس سے مطلع کرے گا ؛یہ کہہ کر ہم لوگ چلے یہاں تک کہ اس تک پہنچ ہی گئے، پہنچ کر ہم نے کہا : السلام علیک ، تو اس نے جواب دیا: وعلیکم السلام ورحمة اللہ ۔

پھر ہم لوگوں نے پوچھا : تم کس قبیلہ سے ہو ؟ اس شخص نے جواب دیا : ہم قبیلہ بنی اسد سے ہیں ۔

ہم لوگوں نے کہا : ہم لوگ بھی بنی اسد سے متعلق ہیں ؛تمہارا نام کیا ہے ؟

____________________

١۔یہ جگہ خزیمیہ او رثعلبیہ کے درمیان کوفہ کے راستے میں ہے جیسا کہ معجم البلدان، ج٤،ص ٣٢٧میں یہی موجود ہے۔

٢۔ یہ خبر اس خبر سے منافات ر کھتی ہے جوابھی گذرچکی کہ یہ لوگ منزل صفاح پر مقام زرو د سے چند منزل قبل فر زدق والے واقعے میں موجود تھے کیونکہ اس خبر سے یہی ظاہر ہوتاہے بلکہ واضح ہے کہ یہ لوگ امام حسین علیہ السلام سے زرود میں ملحق ہوئے ہیں اور اس سے پہلے یہ لوگ امام کے ساتھ موجود نہیں تھے بلکہ حج کی ادائیگی کے ساتھ یہ ممکن بھی نہیں ہے کیونکہ منزل صفاح اوائل میں ہے جبکہ امام علیہ السلام ''یوم الترویہ'' کو مکہ سے نکلے ہیں ۔ اگر یہ لوگ امام علیہ السلام سے منزل صفاح پر ملحق ہوئے ہیں تو پھر حج کی انجام دہی ممکن نہیں ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ دونو ں خبرو ں کا ایک ہی راوی ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا؛ نہ ہی ابو جناب ، نہ ابو مخنف اورنہ ہی طبری، مگر یہ کہ یہ کہا جائے کہ حج سے پہلے یہ دونو ں منزل صفاح پر امام علیہ السلام سے ملے اور پھر حج کے بعد منزل زرود پر پہنچ کرامام علیہ السلام سے ملحق ہو گئے ۔

اس نے جواب دیا : بکیر بن مثعبہ، ہم لوگو ں نے بھی اپنا نام بتایا اور پھر اس سے پوچھا : کیا تم ہمیں ان لوگو ں کے بارے میں بتاؤ گے جنہیں تم اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو؟

اس نے جواب دیا:ہا ں ! میں جب کوفہ سے نکلاتھا تو مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ قتل کئے جا چکے تھے ۔ ہم نے دیکھا ان دونو ں کے پیرو ں میں رسی باندھ کر انھی ں بازار میں پھرایا جا رہاہے۔ اس خبر کے سننے کے بعد ہم لوگ اس سے جداہوکر اپنے راستے پر چل پڑے یہا ں تک کہ(حسین علیہ السلام) سے ملحق ہوگئے اور ایک دوسری منزل پر ان کے ہمراہ پٹراؤ ڈالا ۔

۲۳۶

ساتویں منزل : ثعلبیہ(١)

شام کا وقت تھا جب امام علیہ السلام نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا جس کا نام'' ثعلبیہ'' تھا۔جب آپ کے خیمہ نصب ہوچکے تو ہم لوگوں نے آپ کی خدمت میں آکر سلام عرض کیا ۔آ پ نے سلام کا جواب دیا تو ہم لوگوں نے آپ سے کہا : اللہ آپ پر رحمت نازل کرے! ہم لوگوں کے پاس ایک اہم خبر ہے۔ اگر آپ چاہیں تو اسے اعلانیہ بیان کریں اوراگر چاہیں ۔ توخفیہ اور پوشیدہ طور پر بیان کریں ۔ امام علیہ السلام نے اپنے اصحاب پر ایک نگاہ ڈالی اور فرمایا: ''مادون ھولاء سر'' ان لوگوں سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ہے جو خبر لائے ہو بیان کردو، ہم لوگوں نے ان سے کہا : آپ نے کل شام اس سوار کو دیکھا تھا جو آپ کے پاس سے گزرا تھا ؟

امام علیہ السلام نے فرمایا : ہاں ! میں اس سے کوفہ کے بارے میں سوال کرناچاہتا تھا۔ ہم نے کہا: ہم نے اس سے آپ کے لئے خبر لے لی ہے اورآپ کے بجائے ہم لوگوں نے کوفہ کے موضوع پر تحقیق کر لی ہے۔ وہ شخص قبیلہ بنی اسد کاایک مرد تھا جو ہمارے ہی قبیلہ سے تھا ۔ وہ صاحب نظر، سچا، اور صاحب عقل و فضل تھا ۔اس نے ہم لوگوں سے بتایا کہ جب وہ وہاں سے نکلا تھا تومسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ قتل ہوچکے تھے حتیٰ اس نے یہ بھی دیکھا تھا کہ ان دونوں کے پیروں میں رسی باندھ کر بازار میں گھسیٹا جارہاہے۔یہ سن کر آپ نے فرمایا :

____________________

١۔ کوفہ سے مکہ جانے کے لئے جو راستہ مڑتا ہے یہ وہی ہے۔ اس کی نسبت بنی اسد کے ایک شخص ثعلبہ کی طرف دی گئی ہے جیسا کہ معجم میں تحریر ہے۔

۲۳۷

'' انّاللّہ وانّاالیہ راجعون'' اس جملہ کی آپ نے چند مرتبہ تکرار فرمائی(١) پھر ہم نے عرض کی : آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ آ پ اپنے گھر والوں کے ہمراہ یہاں سے واپس لوٹ جائیں ؛کیونکہ اب کوفہ میں آپ کا کوئی ناصر ومدد گا ر نہیں ہے بلکہ ہمیں خوف ہے کہ کہیں وہ سب آپ کے مخالف نہ ہوگئے ہو ں ۔ایسے موقع پر فرزندان عقیل بن ابیطالب اٹھے اور انھوں نے اس کی مخالفت کی(٢) اور کہنے لگے : نہیں خدا کی قسم ہم یہاں سے اس وقت تک نہیں جائیں گے۔جب تک ہم ان سے اپنا انتقام نہ لے لیں یا وہی مزہ نہ چکھ لیں جس کاذائقہ ہمارے بھائی نے چکھاہے۔(٣) ان دونوں کا بیان ہے: حسین (علیہ السلام) نے ہم لوگوں پر ایک نگاہ ڈالی اور فرمایا : ''لاخیر فی العیش بعد ھولاء !'' ان لوگوں کے بعد زندگی میں کوئی اچھائی نہیں ہے۔ اس جملہ سے ہم نے بخوبی سمجھ لیا کہ سفر کے ارادے میں یہ مصمم ہیں تو ہم نے کہا : خدا کرے خیر ہو ! آپ نے بھی ہمارے لئے دعا کی اور فرمایا:'' رحمکم اللّہ ''اللہ تم دونوں پر رحمت نازل کرے ۔

رات کا سناٹا چھاچکا تھا، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ آپ سپیدہ سحر کے انتظار میں ہیں ؛جیسے ہی سپیدہ سحر نمودار ہوئی ،آپ نے اپنے جوانوں اور نو جوانوں سے فرمایا :''اکثروا من المائ'' پانی زیادہ سے زیادہ جمع کرلو ، ان لوگوں نے خوب خوب پانی جمع کرلیا اور اپنے سفر پر نکل پڑے یہاں تک کہ ایک دوسری منزل تک پہنچ گئے ۔

____________________

١۔ اس روایت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ جناب مسلم کی شہادت کی خبر یہا ں عام ہوگئی لیکن عنقریب یہ بات آئے گی کہ منزل زبالہ میں پہنچ کر امام علیہ السلام نے یہ خط لکھ کر اپنے اصحاب کے سامنے اس کا اعلان کیا تھا؛ یہا ں سے امام علیہ السلام کے اس جملے کا فلسفہ سمجھ میں آتا ہے کہ'' مادو ں ھولاء سر'' یعنی ان کے علاوہ جو لوگ ہیں ان کے لئے یہ خبر سری ہے اور اسی طرح یہ خبر منزل زبالہ تک پوشیدہ ہی رہی لیکن یعقوبی کا بیان ہے کہ مسلم کی شہادت کی خبر آپ کو مقام'' قطقطانہ'' میں ملی تھی۔ (تاریخ یعقوبی ،ج٦ ، ص ٢٣٠ ،ط، نجف)

٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے : ابو جناب کلبی نے عدی بن حرملہ اسد کے حوالے سے اور اس نے عبداللہ سے اس خبر کو ہمارے لئے بیان کیاہے۔ (طبری ،ج٥، ص٣٩٧) ارشاد میں ،ص ٢٢٢ پر ہے کہ عبداللہ بن سلیمان نے یہ روایت بیان کی ہے۔(ارشاد ، طبع نجف)

٣۔ ابومخنف کا بیان ہے : مجھ سے عمر بن خالد نے یہ خبر بیان کی ہے (لیکن صحیح عمرو بن خالد ہے) اور اس نے زید بن علی بن الحسین سے اور اس نے دائود بن علی بن عبداللہ بن عباس سے نقل کیا ہے ۔(طبری ،ج٥، ص ٣٩٧ ؛ارشاد، ص٢٢٢، مسعودی ،ج٣ ،ص ٧٠، الخواص ، ص ٢٤٥ ، طبع نجف)

۲۳۸

آٹھویں منزل : زبالہ(١)

یہ نورانی قافلہ اپنے سفرکے راستے طے کرتا ہوا زبالہ(٢) کے علاقے میں پہنچا تو وہاں امام حسین علیہ السلام کو اپنے رضائی بھائی عبداللہ بن بقطر(٣) کی شہادت کی خبر ملی۔ آپ نے ایک نوشتہ نکال کر لوگوں کو آواز دی اور فرمایا :'' بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم، أمابعد، فقد أتانا خبر فضیع ! قتل ابن عقیل و هانی بن عروةو عبدالله بن یقطر، وقدخذلتنا شیعتنا (٤) فمن أحب منکم الانصراف فلینصرف لیس علیه منا ذمام ''

بسم اللہ الرحمن الرحیم، امابعد،مجھ تک ایک دل دھلانے والی خبر پہنچی ہے کہ مسلم بن عقیل ، ہانی بن عروہ اور عبداللہ بن یقطر قتل کردئے گئے ہیں اور ہمار ی محبت کا دم بھرنے والوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے لہذا اب تم میں سے جو جانا چاہتا ہے وہ چلاجائے، ہماری جانب سے اس پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔

یہ جملہ سنتے ہی لوگ امام علیہ السلام سے جدا ہونے لگے کوئی داہنی طرف جانے لگاکوئی بائیں طرف؛ نتیجہ یہ ہواکہ فقط وہی ساتھی رہ گئے جو مدینہ سے آئے تھے۔ آپ نے یہ کام فقط اس لئے کیاتھا کہ

____________________

١۔ یہ جگہ کوفہ سے مکہ جاتے وقت مختلف راستے پیداہونے سے قبل ہے۔ یہا ں ایک قلعہ اورجامع مسجد ہے جو بنی اسد کی ہے۔ اس جگہ کا نام عمالقہ کی ایک عورت کے نام پر ہے جیسا کہ معجم البلدان میں یہی ہے ۔

(٢) ابومخنف کا بیان ہے : ابوجناب کلبی نے عدی بن حرملہ سے اور اس نے عبداللہ بن سلیم سے میرے لئے یہ خبر بیان کی ہے۔ (طبری، ج٥، ص ٣٩٨)

٣۔ ان کے شرح احوال گزر چکے ہیں اور وہ یہ کہ ان کی والدہ امام حسین علیہ السلام کی دیکھ بھال کیا کرتی تھی ں اسی لئے ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ امام حسین علیہ السلام کے رضائی بھائی ہیں ۔

٤۔ اس جملہ میں امام علیہ السلام کی تصریح ہے کہ کوفہ کے شیعو ں نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا۔ کوفہ اور جناب مسلم بن عقیل کی شہادت کے سلسلے میں یہ پہلا اعلان ہے اگرچہ اس کی خبر آپ کو اس سے قبل منزل زرود میں مل چکی تھی؛ لیکن ظاہر یہ ہے کہ جو لوگ وہا ں موجود تھے۔ ان کے علاوہ سب پر یہ خبر پوشیدہ تھی کیونکہ یہ امام علیہ السلام کے حکم سے ہوا تھا۔آخر کار آپ نے یہا ں '' زبالہ'' میں تمام حاضرین کے لئے اس خبر کا اعلان کردیا ۔

۲۳۹

باد یہ نشین عرب اس گمان میں آپ کے پیچھے پیچھے ہوئے تھے کہ آپ ایسے شہر میں آئیں گے جوظالم حکمرانوں کی حکومت سے پاک ہوگا اور وہاں کے لوگ آپ کے فرمانبردار ہوں گے لہذا امام علیہ السلام نے ناپسند کیا کہ ایسے لوگ آپ کے ہمسفر ہوں ۔امام چاہتے تھے کہ آپ کے ہمراہ صرف وہ رہیں جنہیں معلوم ہو کہ وہ کہاں جارہے ہیں اور امام علیہ السلام کو معلوم تھا کہ جب ان لوگوں پر بات آشکار ہوجائیگی تو کوئی بھی آپ کے ہمراہ نہیں رہے گا مگر وہ لوگ جو عدالت چاہتے ہوں اور موت ان کے ہمراہ چل رہی ہو۔(١) رات اسی منزل پر گزری ،صبح کو آپ نے اپنے جوانوں کو چلنے کا حکم دیاتو انھوں نے سب کو پانی پلاکر اور خوب اچھی طرح پانی بھر کر اپنا سفر شروع کر دیا یہاں تک کہ درّۂ عقبہ سے آپ کا گزرہوا ۔

نویں منزل : درّہ عقبہ(٢)

یہ نورانی قافلہ اپنے مقصد کی طرف آگے بڑھتا ہوا درّہ عقبہ تک پہنچا۔وہاں اس قافلہ نے اپنا پڑاؤ ڈالا۔(٣) بنی عکرمہ کے ایک شخص نے امام سے عرض کیا: آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ آپ یہیں سے پلٹ جائیے، خداکی قسم !آپ یہاں سے قدم آگے نہیں بڑھائیں گے مگریہ کہ نیزوں کی نوک اور تلواروں کی دھار پر آگے بڑھیں گے ، جن لوگوں نے آپ کو خط لکھا تھا اور آپ کوآنے کی دعوت دی تھی اگر یہ لوگ میدان کارزار کی مصیبتیں برداشت کرکے آپ کے لئے راستہ آسان کردیتے تب آپ وہاں جاتے تو آپ کے لئے بہت اچھا ہوتا لیکن ایسی بحرانی حالت میں جس سے آپ خود آگاہ ہیں ، میں نہیں سمجھتا کہ آپ کوفہ جانے کے سلسلے میں قدم آگے بڑھائیں گے۔

____________________

١۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام نے ان لوگو ں کو جانے کی اجازت دی تو آپ کا مقصد کیا تھا؟ امام علیہ السلام کا یہ بیان تمام چیزو ں پر کافی ہے

٢۔واقصہ کے بعد اور قاع سے پہلے مکہ کے راستے میں یہ ایک منزل ہے۔ یہ منزل ان کے لئے ہے جو مکہ جانا چاہتے ہیں ۔

٣۔ ابومخنف کا بیان ہے : ابوعلی انصاری نے بکر بن مصعب مزنی کے حوالے سے مجھ سے یہ خبر بیان کی ہے۔(طبری ،ج٥، ص ٣٩٨ ، ارشاد ،ص ٢٢٢ ،طبع نجف)

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

امام حسین علیہ السلام کی شہادت

سر کا رسید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے جب فقط تین یاچار ساتھی رہ گئے تو آپ نے اپنا یمنی لباس منگوا یا جو مضبوط بناوٹ کا صاف وشفاف کپڑا تھا اسے آپ نے جا بجا سے پھاڑدیا اور الٹ دیا تاکہ اسے کوئی غارت نہ کرے ۔(١) ا ور(٢)

اس بھری دوپہر میں آپ کافی دیر تک اپنی جگہ پرٹھہرے رہے۔ دشمنوں کی فوج کا جو شخص بھی آپ تک آتا تھا وہ پلٹ جاتا تھا کیونکہ کوئی بھی آپ کے قتل کی ذمہ داری اوریہ عظیم گناہ اپنے سر پر لینا پسند نہیں کررہا تھا۔ آخر کار مالک بن نسیربدّی کندی(٣) آنحضرت کے قریب آیا اور تلوار سے آپ کے سر پر ایسی ضرب لگائی کہ وہ برنس (ایک قسم کی ٹوپی جو آغاز اسلام میں پہنی جا تی تھی) جو آپ کے سر پر تھی شگافتہ ہوگئی اور ضرب کا اثر آپ کے سر تک پہنچا اور آپ کے سر سے خون جاری ہوگیا ، برنس خون آلود ہوگئی ، تو حسین علیہ السلام نے اس سے کہا : ''لا أکلت بھا ولا شربت وحشرک اللّٰہ مع الظالمین'' تجھے کھانا ، پینا نصیب نہ ہو،اور اللہ تجھے ظالموں کے ساتھ محشور کرے ۔

____________________

١۔ آپ کے اصحاب نے آپ سے کہا : اگر آپ اس کے نیچے ایک چھوٹا سا کپڑاپہن لیتے تو بہتر ہوتا۔ آپ نے جواب دیا:'' ثوب مذلہ ولا ینبغی لی أن البسہ '' یہ ذلت ورسوائی کا لباس ہے اور میرے لئے مناسب نہیں ہے کہ میں اسے پہنو ں ۔ جب آپ شہید ہوگئے تو بحر بن کعب وہ یمنی لباس لوٹ کے لے گیا ۔(طبری ،ج٥،ص٤٥١) ابو مخنف کا بیان ہے : مجھ سے عمروبن شعیب نے محمد بن عبدالرحمن سے روایت کی ہے کہ بحر بن کعب کے دونو ں ہاتھو ں سے سردی میں پانی ٹپکتا تھا اور گرمی وہ بالکل سوکھی لکڑی کی طرح خشک ہوجاتا تھا۔ (طبری ،ج٥،ص ٤٥١)

٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم سے یہ روایت کی ہے۔(طبری ،ج٥ ،ص ٤٥١وارشاد، ص ٢٤١)

٣۔ یہ وہی شخص ہے جو راستے میں حر کے پاس ابن زیاد کا خط لے کر آیا تھا جس میں یہ لکھاتھا کہ حسین(علیہ السلام) کو بے آب وگیاہ صحرا میں اتارلو ؛امام حسین علیہ السلام کے قافلہ کے اس صحرا میں وارد ہونے کے ذیل میں اس کے احوال گزرچکے ہیں ۔

پھر آپ نے اس برنس کوالگ کیا اور ایک دوسری ٹوپی منگوا کر اسے پہنا اور اس پر عمامہ باندھا۔(١) اسی طرح سیاہ ریشمی ٹوپی پر آپ نے عمامہ باندھا۔ آپ کے جسم پر ایک قمیص(٢) یاایک ریشمی جبہ تھا ،آپ کی ڈاڑھی خضاب سے ر نگین تھی، اس حال میں آ پ میدان جنگ میں آئے اورشیربیشۂ

۳۸۱

____________________

١۔ وہ برنس ریشمی تھا ۔ مالک بن نسیر کندی آیا اور اسے اٹھا لے گیا، پھر جب اس کے بعد وہ اپنے گھر آیا تو اس برنس سے خون کو دھونا شروع کیا۔ اس کی بیوی نے اسے دیکھ لیا اور وہ سمجھ گئی تو بولی : نواسئہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سامان لوٹ کر لا تا ہے اور میرے گھر میں داخل ہوتا ہے ! میرے پاس سے اسے فوراً نکال لے جا! اس کے ساتھیو ں کا کہنا تھا کہ اس کے بعد سے وہ ہمیشہ فقیر رہا یہا ں تک کہ مر گیا۔ (طبری، ج٥،ص ٤٤٨، ارشاد ،ص ٢٤١) ارشاد میں شیخ مفید نے مالک بن یسر لکھا ہے۔ ہشام اپنے باپ محمد بن سائب سے اور وہ قاسم بن اصبغ بن نباتہ سے بیان کرتے ہیں کہ انھو ں نے کہا : مجھ سے اس شخص نے بیان کیا جو اپنے لشکر میں حسین علیہ السلام کی جنگ کا گواہ ہے وہ کہتا ہے : جب حسین کے سارے سپاہی شہید کردیئے گئے تو آپ نے گھوڑے پر سوار ہو کر فرات کا رخ کیا اور اپنے گھوڑے کو ایک ضرب لگائی ۔یہ دیکھ کر قبیلہ بنی آبان بن دارم کے ایک شخص نے کہا : وائے ہو تم پر ان کے اور پانی کے درمیان حائل ہو جاؤ توان لوگو ں نے اس کے حکم کی پیروی کی اور ان کے اور فرات کے درمیان حائل ہوگئے اور'' اباتی'' نے ایک تیر چلا یا جو آپ کی ٹھڈی میں پیوست ہوگیا ۔امام حسین علیہ السلام نے اس تیر کو کھینچا اور اپنی دونو ں ہتھیلیا ں پھیلا دی ں تو وہ خون سے بھر گئی ں پھر آپ نے فرمایا :'' اللّٰھم ان أشکو الیک ما یفعل بابن بنت نبیک،اللّٰھم اظمہ''خدا یا! میں تیری بارگاہ میں اس چیز کی شکایت کر تا ہو ں جو تیرے نبی کے نواسہ کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ خدا یا! اسے ہمیشہ پیاسا رکھ۔ قاسم بن اصبغ کا بیان ہے : میں نے اسے اس حال میں دیکھا کہ اس کے پاس دودھ سے بھرے بڑے بڑے برتن اور کوزو ں میں ٹھنڈے ٹھنڈے شربت رکھے ہوئے تھے لیکن وہ کہہ رہا تھا : وائے ہو تم لوگو ں پر مجھے پانی پلا ؤ ،پیاس مجھے مارے ڈال رہی ہے پھر بڑا برتن اور کوزہ لا یا جاتا اور وہ سب پی جاتا اور جب سب پی جاتا تو پھر تھوڑی ہی دیر میں فریاد کرنے لگتا اور پھر کہنے لگتا : وائے ہو تم لوگو ں پر ! مجھے پانی پلا ؤ پیاس مجھے مارے ڈال رہی ہے، خدا کی قسم تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ اس کا پیٹ اونٹ کے پیٹ کی طرح پھٹ گیا۔ ابو الفرج نے اسے ابو مخنف کے حوالہ سے لکھا ہے۔(ص ٧٨، طبع نجف)

ہشام کا بیان ہے : مجھ سے عمروبن شمر نے جابر جعفی کے حوالے سے روایت کی ہے کہ ان کا بیان ہے : حسین کی پیاس شدید سے شدید تر ہو رہی تھی لہٰذاآپ فرات کے نزدیک پانی کی غرض سے آئے لیکن ادھر سے حصین بن تمیم نے ایک تیر چلا یا جو آپ کے دہن مبارک پر لگا ، آپ نے اپنے دہن سے اس خون کو ہاتھ میں لیا اور آسمان کی طرف پھینک دیا اور فرمایا :'' اللّٰھم أحصھم عدداً واقتلھم بدداً ولا تذرعلی الارض منھم أحداً''(طبری ،ج ٥،ص٤٤٩و٠ ٤٥) خدا یا!ان کی تعدادکو کم کردے ،انھی ں نابود کردے اور ان میں سے کسی ایک کوروئے زمین پرباقی نہ رکھ ۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥،ص٤٤٧و ٤٤٨)

٢۔ابو مخنف نے کہا:مجھ سے صقعب بن زہیرنے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥،ص٤٥٢)

۳۸۲

شجاعت جیساقتال شر وع کیا،دشمنو ں کے ہر تیر سے خود کوماہرانہ اندازمیں بچا رہے تھے ، دشمن کی ہر کمی اورضعف سے فائدہ اٹھارہے تھے اور اسے غنیمت و فرصت شمار کررتے ہوئے اور دشمن پر بڑازبردست حملہ کررہے تھے۔(١)

اسی دوران شمراہل کوفہ کے دس پیدلوں کے ساتھ حسین علیہ السلام کے خیموں کی طرف بڑھنے لگا جن میں آپ کے اثاثہ اور گھر والے تھے۔ آپ ان لوگوں کی طرف بڑھے تو ان لوگوں نے آپ اورآپ کے گھر والوں کے درمیان فاصلہ پیدا کردیا۔یہ وہ موقع تھا جب آپ نے فرمایا:''ویلکم !ان لم یکن لکم دین ،وکنتم لاتخافون یوم المعادفکونواف أمردنیاکم أحراراًذوی أحساب ! امنعوارحلی وأهل من طغامکم وجهالکم ! ''

وائے ہو تم پر !اگر تمہارے پاس دین نہیں ہے اورتمہیں قیامت کا خوف نہیں ہے توکم ازکم دنیاوی امور میں تو اپنی شرافت اور خاندانی آبرو کا لحاظ رکھو ؛ ان اراذل واوباشوں کو ہمارے خیموں اور گھر والوں سے دور کرو۔ یہ سن کرشمر بن ذی الجوشن بولا : اے فرزندفاطمہ یہ تمہاراحق ہے ! یہ کہہ کر اس نے آپ پر حملہ کردیا، حسین (علیہ السلام) نے بھی ان لوگوں پر زبر دست حملہ کیاتووہ لوگ ذلیل ورسواہوکر وہاں سے پیچھے ہٹ گئے۔(٢) عبداللہ بن عمار بارقی(٣) کابیا ن ہے : پھر پیدلو ں کی فوج پر چپ وراست سے آپ نے زبردست حملہ کیا ؛پہلے آپ ان پر حملہ آور ہوئے جوداہنی طرف سے یلغار کررہے تھے اورایسی تلوار چلا ئی کہ وہ خوف زدہ ہوکر بھاگ گھڑے ہوئے پھر بائیں جانب حملہ کیا یہاں تک وہ بھی خوف زدہ ہوکر بھاگ گئے۔خداکی قسم میں نے کبھی ایسا ٹوٹاہوا انسان نہیں دیکھا جس کے سارے اہل بیت، انصار اورساتھی قتل کئے جاچکے ہوں اس کا دل اتنامستحکم، اس کاقلب اتنامطمئن اور اپنے دشمن کے مقابلہ میں اس قدرشجاع ہو جتنے کہ حسین علیہ السلام تھے۔ خداکی قسم میں نے ان سے پہلے اور ان کے بعد کسی کو ان کے

____________________

١۔ابومخنف نے حجاج سے اور اس نے عبداللہ بن عمار بارقی سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری، ج٥،ص٤٥٢)

٢۔یہ ابو مخنف کی روایت میں ہے۔(طبری ،ج٥،ص٤٥٠) ابوالفرج نے بھی اس کی روایت کی ہے۔(ص٧٩)

٣۔ یہی شخص امیرالمومنین علیہ السلا م کی اس خبر کا بھی راوی ہے جس میں آپ ٢٦ھ میں صفین کی طرف جارہے تھے تو فرات پر پل بنانے کی بات ہوئی تھی۔(طبری ،ج٥،ص ٥٦٥)

۳۸۳

جیسانہیں دیکھا۔اگرپیدل کی فوج ہوتی تھی تو چپ وراست سے ایساذلیل ورسواہو کے بھاگتی تھی جیسے شیر کودیکھ کرہرن بھاگتے ہیں ۔(١) اسی دوران عمر بن سعد ، امام حسین علیہ السلام کے قریب آیا، اسی اثناء میں امام کی بہن زینب بنت فاطمہ علیھاالسلام خیمہ سے باہرنکلیں اورآوازدی : ''یاعمر بن سعد ! أیقتل أبو عبداللّٰہ وأنت تنظر الیہ '' اے عمر بن سعد ! کیاابو عبداللہ الحسین قتل کئے جارہے ہیں اور توکھڑادیکھ رہا ہے۔ تو اس نے اپنا چہرہ ان کی طرف سے پھیرلیا(٢) گو یا میں عمر کے آنسوؤں کو دیکھ رہاتھا جو اس کے رخسار اور ڈاڑھی پر بہہ رہے تھے ۔(٣)

ادھر آپ دشمنوں کی فوج پر بڑھ بڑھ کر حملہ کرتے ہوئے فرمارہے تھے :'' أعلی قتل تحاثون ؟اما والله لا تقتلو ن بعد عبدا من عباداللّٰه أسخط علیکم لقتله من !و أیم الله ان لأرجو أن یکرمنی اللّٰه بهوا نکم ثم ینتقم ل منکم من حیث لا تشعرون (٤)

أماواللّٰه لو قد قتلتمون لقد ألقی اللّٰه بأسکم بینکم وسفک دمائکم ثم لا یرضی لکم حتی یضاعف لکم العذاب الألیم ! ''(٥)

____________________

١۔روایت میں معزیٰ اور ذئب استعمال ہوا ہے جس کے معنی گلہء گوسفند اور بھیڑئیے کے ہیں عرب تہذیب اور کلچر میں کسی کی شجاعت ثابت کرنے کی یہ بہترین مثال ہے لیکن ہماری ثقافت میں بزرگ شخصیتو ں کو بھیڑئیے سے تعبیر کرنا ان کی توہین ہے اور قاری پر بھی گرا ں ہے لہٰذا محققین کرام نے مترجمین کو اس بات کی پوری اجازت دی ہے کہ وہ تشبیہات کے ترجمہ میں اپنی تہذیب اور کلچر ( culture )کا پورا پورا لحاظ رکھی ں ، اسی بنیاد پر ترجمہ میں شیر اور ہرن استعمال کیا گیا ہے جو شجاعت اور خوف کی تشبیہات ہیں ۔ (مترجم)

٢۔ شیخ مفید نے ارشاد میں یہ روایت بیان کی ہے۔(الارشاد ،ص٢٤٢، طبع نجف)

٣) یہ روایت'' حجاج ''سے ہے۔ اس نے اسے عبداللہ بن عمار بارقی سے نقل کیا ہے۔(طبری ،ج٥،ص ٤٥١) شیخ مفید نے ارشاد میں حمید بن مسلم سے روایت کی ہے۔(ص ٢٤١)

٤۔امام علیہ السلام کی دعا مستجاب ہوئی اور کچھ زمانے کے بعد مختار نے قیام کیا اور اپنی سپاہ کی ایک فرد ابا عمرہ کو عمربن سعد کی طرف روانہ کیا اور حکم دیا کہ اسے لے کرآ۔ وہ گیا یہا ں تک کہ اس کے پاس وارد ہوا اور کہا : امیر نے تم کو طلب کیا ہے۔ عمر بن سعد اٹھا لیکن اپنے جبہ ہی میں پھنس گیا تو ابو عمرہ نے اپنی تلوار سے اس پر وار کرکے اسے قتل کر دیا اور اس کے سر کو اپنی قبا کے نچلے حصے میں رکھا اور اس کو مختار کے سامنے لاکر پیش کردیا ۔حفص بن عمر بن سعد، مختار کے پاس ہی بیٹھا تھا ۔مختار نے اس سے کہا : کیا تم اس سر کو پہچانتے ہو ؟ تو اس نے انا للّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور کہاکہ اس کے بعد زندگی میں کوئی اچھا ئی نہیں ہے ! تو مختار نے کہا : تم اس کے بعد زندہ نہیں رہوگے ! اور حکم دیا کہ اسے بھی قتل کردیا جائے۔ اسے قتل کردیا گیا اور اس کا سر اس کے باپ کے ہمراہ رکھ دیا گیا۔ (. طبری ،ج ٦، ص ٦١)

٥۔ مجھ سے صقعب بن زہیر نے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے۔(طبری ،ج ٥، ص ٤٥٢)

۳۸۴

کیا تم لوگ میرے قتل پر(لوگوں کو) بر انگیختہ کررہے ہو ؟خدا کی قسم میرے بعد خدا تمہارے ہاتھوں کسی کے قتل پر اس حد تک غضبناک نہیں ہوگا جتنا میرے قتل پروہ تم سے غضبناک ہوگا ،خدا کی قسم میں امید رکھتا ہوں کہ تمہارے ذلیل قرار دینے کی وجہ سے خدا مجھے صاحب عزت و کرامت قرار دے گاپھر تم سے ایسا انتقام لے گا کہ تم لوگ سمجھ بھی نہ پاؤ گے خدا کی قسم اگر تم لوگوں نے مجھے قتل کردیا تو خدا تمہاری شرارتوں کو تمہارے ہی درمیان ڈال دے گا ، تمہارے خون تمہارے ہی ہاتھوں سے زمین پر بہا کریں گے اس پر بھی وہ تم سے راضی نہ ہوگا یہاں تک کہ درد ناک عذاب میں تمہارے لئے چند گُنا اضافہ کردے گا ۔

پھر پیدلوں کی فوج کے ہمراہ جس میں سنان بن انس نخعی ، خولی بن یزید اصبحی(١) صالح بن وہب یزنی ، خشم بن عمرو جعفی اور عبدالرحمن جعفی(٢) موجود تھے شمر ملعون امام حسین علیہ السلام کی طرف آگے بڑھا اور لوگوں کوامام حسین علیہ السلام کے قتل پر اُکسانے لگا تو ان لوگوں نے حسین علیہ السلام کو پوری طرح اپنے گھیرے میں لے لیا ۔ اسی اثنا ء میں امام حسین علیہ السلام کی طرف سے آپ کے خاندان کاایک بچہ(٣) میدان میں آنکلا۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنی بہن زینب بنت علی (علیہماالسلام) سے کہا:''احبسیہ'' بہن اسے روکو، تو آپ کی بہن زینب بنت علی(علیہما السلام) نے روکنے کے لئے اس بچے کو پکڑا لیکن اس بچہ نے خود کو چھڑا لیا اور دوڑتے ہوئے جاکر خود کو حسین علیہ السلام پر گرادیا ۔

____________________

١۔مختار نے اس کی طرف معاذ بن ہانی بن عدی کندی جناب حجر کے بھتیجے کو روانہ کیا،نیز اس کے ہمراہ ابو عمرہ ، اپنے نگہبانو ں کے سردار کو بھی اس کی طرف بھیجا تو خولی اپنے گھر کی دہلیز میں جا کر چھپ گیا۔ '' معاذ'' نے ابو عمرہ کو حکم دیا کہ اس کے گھر کی تلاشی لے۔ وہ سب کے سب گھر میں داخل ہوئے، اس کی بیوی باہر نکلی، ان لوگو ں نے اس سے پوچھا : تیرا شوہر کہا ں ہے ؟ تو اس نے جواب دیا : میں نہیں جانتی اور اپنے ہاتھ سے دہلیز کی طرف اشارہ کردیا تو وہ لوگ اس میں داخل ہوگئے۔ اسے وہا ں اس حال میں پایا کہ وہ اپنے سر کو کھجور کی ٹوکری میں ڈالے ہوئے ہے۔ ان لوگو ں نے اسے وہا ں سے نکالا اور جلادیا۔(طبری، ج٦، ص ٥٩)

٢۔ یہ حجر بن عدی کے خلاف گواہی دینے والو ں میں سے ہے ۔(طبری ،ج٥،ص ٢٧٠) روز عاشوراعمربن سعد کے لشکر میں یہ قبیلہ مذحج و اسدکا سالار تھا جیسا کہ اس سے قبل یہ بات گزر چکی ہے۔ (طبری، ج ٥، ص ٤٤٢)

٣۔ شیخ مفید نے ارشاد کے ص ٢٤١ پر لکھا ہے کہ وہ بچہ عبداللہ بن حسن تھا اورارشاد میں مختلف جگہو ں پر اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ابو مخنف کے حوالے سے یہ بات گزر چکی ہے کہ حرملہ بن کاہل اسدی نے تیر چلاکر اس بچہ کو شہید کردیا ۔ یہا ں یہ روایت ابوالفرج نے ابو مخنف سے نقل کی ہے اور انھو ں نے سلیمان بن ابی راشد سے اور اس نے حمید بن مسلم سے روایت کی ہے ۔(ص ٧٧ ،طبع نجف)

۳۸۵

اسی وقت بحر بن کعب نے ام حسین علیہ السلام پر تلوارچلائی تو اس بچہ نے کہا : ''یابن الخبیثہ ! أ تقتل عم'' اے پلید عورت کے لڑکے ! کیا تومیرے چچا کوقتل کر رہا ہے ؟(١) تو اس نے تلوار سے اس بچہ پر وار کردیا۔ اس بچے نے اپنے ہاتھ کو سپر قرار دیا اور بچہ کا ہاتھ کٹ کر لٹکنے لگا تو اس بچے نے آواز دی:'' یا أمتاہ'' اے مادر گرامی مدد کیجیے۔ حسین علیہ السلام نے فوراً اسے سینے سے لگالیا اور فرمایا:

'' یابن أخ(٢) اصبر علی مانزل بک واحتسب فی ذالک الخیر ، فان اللّٰه یلحقک بآبائک الصالحین برسول اللّٰه وعلی بن أبی طالب و حمزة والحسن بن علی صلی اللّٰه علیهم أجمعین''(٣) و(٤)

''اللهم امسک عنهم قطر السماء وامنعهم برکات الارض اللّٰهم فان متعتهم الی حین ففرقهم فرقاواجعلهم طرائق قددا ً ولاترضی عنهم الولاة أبداً فانهم دعونا لینصرو نا فعد وا علینا فقتلونا''(٥)

جان برادر !اس مصیبت پر صبر کرو جو تم پر نازل ہوئی اوراس کو راہ خدا میں خیر شمار کرو، کیونکہ خدا تم کو تمہارے صالح اور نیکو کار آباء و اجداد رسول خدا ، علی بن ابیطالب ،حمزہ اور حسن بن علی، ان سب پر خد ا کا در ود و سلام ہو،کے ساتھ ملحق کرے گا ۔خدایا !آسمان سے با رش کو ان کے لئے روک دے اورزمین کی برکتوں سے انھیں محرو م کردے! خدایا!اگرا پنی حکمت کی بنیاد پر تونے اب تک انھیں بہرہ مند کیاہے تواب ان کے درمیان جدائی اورپراکندگی قرار دے اور ان کے راستوں کو جداجداکردے اور ان کے حکمرانوں کو کبھی بھی ان سے راضی نہ رکھناکیونکہ انھوں نے ہمیں بلایاتاکہ ہماری مددکریں لیکن ہم پر حملہ کردیااور ہمیں قتل کر دیا۔پھر اس بھری دوپہر میں کافی دیر تک حسین علیہ السلام آستانہ ٔ شہادت پر پڑے رہے کہ اگر دشمنوں میں سے کوئی بھی آپ کو قتل کرنا چاہتا تو قتل کردیتالیکن ان میں سے ہر ایک اس عظیم گناہ سے کنارہ کشی اختیار کر رہا تھا اور اسے دوسرے پر ڈال رہا تھا ۔ہر گر وہ چاہ رہا تھا کہ دوسرا گروہ یہ کام انجام دے کہ اسی اثناء میں شمر چلّایا :وائے ہو تم لوگوں پر! اس مردکے سلسلے میں کیاانتظارکررہے ہو، اسے قتل کرڈالو، تمہاری مائیں تمہارے غم میں بیٹھیں ! اس جملہ کااثر یہ ہوا کہ چاروں طرف سے دشمن آ پ پر حملے کرنے لگے ۔

____________________

ا، ٢، ٣۔ گزشتہ صفحہ کا حاشیہ نمبر ٥ ملاحظہ ہو ۔

٤۔ابو مخنف نے اپنی روایت میں بیان کیا ہے۔ (طبری، ج٥،ص ٤٥٠) ابوالفرج نے ابومخنف سے سلیمان بن ابی راشد کے حوالے سے اوراس نے حمید بن مسلم سے روایت نقل کی ہے۔ (ص٧٧،طبع نجف)

٥۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشدنے حمید بن مسلم سے یہ روایت نقل کی ہے۔(طبری، ج٥،ص ٤٥١وارشاد ،ص ٢٤١)

۳۸۶

آخری لمحات

اب آپ پر چاروں طرف سے حملے ہونے لگے۔زرعہ بن شریک تمیمی نے آپ کی بائیں ہتھیلی پر ایک ضرب لگائی(١) اور ایک ضرب آپ کے شانے پر لگائی۔ یہ وہ موقع تھاجب آپ کے بیٹھنے کی تاب ختم ہوچکی تھی۔ آپ منہ کے بل زمین پرآئے اسی حال میں سنان بن انس نخعی آگے بڑھا اور آپ پر ایک نیزہ مارا جو آپ کے جسم میں پیوست ہوگیا لیکن اب کوئی بھی امام حسین علیہ السلام کے نزدیک نہیں ہورہاتھا مگر یہ کہ سنان بن انس ہی آگے بڑھا اور اس خوف میں کہ کہیں کوئی دوسرا شخص حسین علیہ السلام کے سر کو امیر کے پاس نہ لے جائے؛ لہٰذا وہ آپ کی شہادت گاہ کے پاس آیا اورآپ کو ذبح کردیا اورآپ کے سر کو کاٹ ڈالا(٢) اور اسے خولی بن یزید اصبحی کی طرف پھینک دیا ۔اب لباس اور اسباب لوٹنے کی نوبت آئی تو آپ کے جسم پر جو کچھ بھی تھا کوئی نہ کوئی لوٹ کر لے گیا۔ آپ کی اس یمانی چادر کو جسے قطیفہ(٣) کہاجاتا ہے قیس بن اشعث نے لے لیا۔(٤) اسحاق بن حیوة بن حضرمی نے امام حسین علیہ السلام کی قمیص کو لوٹ لیا(٥) قبیلۂ بنی نہشل کے ایک شخص نے آپ کی تلوار لے لی، آپ کی نعلین کو ''اسود اودی'' نے اٹھا لیا۔آپ کے پاجامہ کو'' بحر بن کعب ''لے گیا(٦) اور آپ کو برہنہ چھوڑ دیا ۔(٧)

____________________

١ ۔ارشاد میں بایا ں بازو ہے۔(ص ٢٤٢) تذکرة الخواص میں بھی یہی ہے۔(ص ٢٥٣) مقرم نے اسے الا تحاف بحب الاشراف سے نقل کیا ہے۔(ص ١٦)

٢۔ امام حسین کے قاتل کے سلسلے میں سبط بن جوزی نے پانچ اقوال ذکر کئے ہیں ۔ آخر میں ترجیح دی ہے کہ سنان بن انس ہی آپ کا قاتل تھا پھرروایت کی ہے کہ یہ حجاج کے پاس گیا تواس نے پوچھا کہ تو ہی قاتل حسین ہے؟ اس نے کہا ہا ں ! تو حجاج نے کہا : بشارت ہو کہ تواور وہ کبھی ایک گھر میں یکجا نہیں ہو ں گے ۔ لوگو ں کا کہنا ہے حجاج سے اس سے اچھا جملہ کبھی بھی اس کے علاوہ نہیں سناگیا۔ ا س کا بیان ہے کہ شہادت کے بعد حسین کے جسم کے زخم شمار کئے گئے تو ٣٣ نیزہ کے زخم اور ٣٤ تلوار کے زخم تھے اور ان لوگو ں نے آپ کے کپڑے میں ایک سو بیس (١٢٠) تیر کے نشان پائے ۔

٣۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے صقعب بن زہیر نے حمید کے مسلم کے حوالے سے روایت کی ہے(طبری ،ج٥، ص ٤٥٣)

٤۔ شب عاشور کی بحث میں اس کے احوال گزر چکے ہیں ۔

٥۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے روایت کی ہے۔ (طبری، ج٥،ص ٤٥٥)

٦۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے صقعب بن زہیر نے حمید بن مسلم کے حوالے سے روایت کی ہے۔(طبری، ج٥، ص ٤٥٢)

٧۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے ر وایت کی ہے۔(طبری، ج٥،ص ٤٥١) اسی طرح سبط بن جوزی نے بھی صرا حت کی ہے کہ وہ لوگ وہ سب کچھ لوٹ لے گئے جوآپ کے جسم پر تھا حتی یہ کہ'' بحر بن کعب تمیمی'' آپ کاپاجامہ بھی لے گیا۔ (طبری، ج٥،ص ٢٥٣) ارشاد میں شیخ مفید نے اضافہ کیا ہے کہ بحربن کعب لعنة اللہ علیہ کے دونو ں ہاتھ اس واقعہ کے بعد گرمی میں سوکھی لکڑی کی طرح خشک ہوجاتے تھے اورسردی میں مرطوب ہوجاتے تھے اور اس سے بد بو دار خون ٹپکتا تھا یہا ں تک کہ خدا نے اسے ہلا ک کردیا ۔(ص ٢٤١ ، ٢٤٢)

۳۸۷

خیموں کی تا راجی

امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد دشمنوں نے آپ کی خواتین ، مال واسباب ، ورس(١) وزیورات اور اونٹوں کی طرف رخ کیا۔ اگر کوئی خاتون اپنے پردہ اور چادر سے دفاع کرتی تووہ زور و غلبہ کے ذریعہ چادر یں چھینے لئے جا رہے تھے۔(٢) لشکریوں نے سنان بن انس سے کہا : تونے حسین فرزند علی وفاطمہ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کیا ،تو نے عرب کی اس سب سے بزرگ وباعزت شخصیت کو قتل کیا جو یہاں ان لوگوں کے پاس آئے تھے تاکہ تمہارے حاکموں کو ان کی حکومت سے ہٹا دیں تو اب تم اپنے حاکموں کے پاس جاؤ اور ان سے اپنی پاداش لو۔ اگر وہ حسین کے قتل کے بدلے میں اپنے گھر کا سارا مال بھی دیدیں تب بھی کم ہے ۔

____________________

١۔ ورس ایک قسم کا پیلا پھول ہے جو زعفران کی طرح ہوتا ہے۔یہ خوشبودار ہوتا ہے اور رنگنے میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ یمن سے لا یا گیا تھا جسے امام علیہ السلام نے مکہ سے نکلنے کے بعد منزل'' تنعیم'' میں ان لوگو ں سے اپنے قبضہ میں لے لیا تھا جو اسے یزید کی طرف لے جارہے تھے۔ روز عاشورا یہ ورس زیاد بن مالک صبیعی ،عمران بن خالد وعنزی ، عبد الرحمن بجلی اور عبد اللہ بن قیس خولانی کے ہاتھو ں لگا تھا۔ جب مختار کو ان سب کا پتہ معلوم ہوگیا تو ان سب کو طلب کیا۔ سب وہا ں مختار کے پاس لائے گئے۔ مختار نے ان لوگو ں سے کہا : اے نیکو کارو ں کے قاتلو؛اے جو انان جنت کے سردار کے قاتلو ! کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ خدا نے تم سے آج انتقام لینے کے لئے تمہیں یہا ں بھیجا ہے ! تم لوگ اس برے دن میں ورس لے کر آئے تھے ! پھر ان لوگو ں کو بازا ر میں لے جایا گیا اور ان کی گرد نی ں اڑادی گئی ں ۔

٢۔ ابو مخنف کہتے ہیں کہ مجھ سے صقعب بن زہیر نے حمید بن مسلم سے یہ روایت کی ہے۔(طبری ،ج٥، ص ٤٥٣) یعقوبی کا بیا ن ہے : دشمنو ں نے آپ کے خیمو ں کو تاراج کردیا اور آپ کی حرمت شکنی کی۔(ج٢،ص ٢٣٢) شیخ مفید نے بھی اس کی روایت کی ہے۔(ارشاد ،ص ٢٤٢) سبط بن جوزی کا بیان ہے : دشمنو ں نے آپ کی عورتو ں اور بیٹیو ں کی چادر ی ں اتار کرا نھی ں برہنہ کردیا ۔(ص ٢٥٤)

۳۸۸

چونکہ وہ ایک کم عقل وبے خرد انسان تھا لہٰذا اپنے گھوڑے پر بیٹھا اور عمر بن سعد کے خیمہ کے پاس آکر باآواز بلند چلا یا :

أو قر رکا بی فضة وذهباً

أنا قتلت الملک المحجّبا

قتلت خیر الناس أماً وأباً

وخیر هم اذ ینسبون نسباً(١)

میری رکاب کو سونے چاندی سے بھر دو کیونکہ میں نے شاہو ں کے شاہ کو تمہاے لئے قتل کر دیا، میں نے اسے قتل کیا جو ماں باپ کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بہتر انسان تھے اور جب نسب کی بات آئے تو ان کا نسب سب سے اچھا ہے ۔

یہ سن کر عمر بن سعد نے کہا : اس کو میرے پاس لاؤ ۔جب اسے ابن سعد کے پاس لایا گیا تواس نے اپنی چھڑی سے مارکر اس سے کہا : اے دیوانہ ! میں گواہی دیتا ہوں کہ تو ایسا مجنوں ہے کہ کبھی صحت یاب نہیں ہو سکتا ۔ تو کیسی باتیں کر رہا ہے کیا تجھے اس قسم کی باتیں کر نی چاہیے ؟ خدا کی قسم اگر تیری ان باتوں کو ابن زیادنے سن لیا تو تیری گردن اڑادے گا۔

ادھر شمر بن ذی الجوشن جو پیدلوں کی فوج کے ہمراہ خیموں کی تاراجی میں مشغول تھا خیموں کو لوٹتے ہو ئے علی بن الحسین اصغر کی طرف پہنچاجو بستر پربیماری کے عالم میں پڑے تھے اس وقت پید لوں کی فوج جو اس کے ہمراہ تھی، میں سے ایک نے کہا کیا ہم اسے قتل نہ کردیں ؟ حمید بن مسلم کہتا ہے : میں نے کہا سبحان اللہ ! کیا ہم بچوں کو بھی قتل کریں گے ؟ یہ بچہ ہی تو ہے!(٢)

____________________

١۔ابو الفرج نے اس کی روایت کی ہے۔(ص ٨٠ ،طبع نجف ، تذکرة الخواص ،ص ٢٥٤،نجف ومروج الذہب ، مسعودی ،ج٣،ص٧٠)

٢۔ طبری نے اپنی کتاب ''ذیل المذیل'' میں بیان کیا ہے : علی بن حسین اصغر اپنے بابا کے ہمراہ کربلا میں موجود تھے۔ اس وقت آپ ٢٣ سال کے تھے اور بستر پر بیماری کے عالم میں پڑے تھے ۔ جب حسین (علیہ السلام) شہید ہوگئے تو شمر بن ذی الجوشن نے کہا : تم لوگ اسے قتل کر دو ! تو اسی کے لشکر یو ں میں سے ایک نے کہا : سبحان اللّٰہ ! ایک ایسے نوجوان کو قتل کرو گے جو مریض ہے اور تم سے لڑبھی نہیں رہا ہے پھر عمر بن سعد آگیا اور اس نے کہا : آگاہ ہو جاؤ کہ کوئی بھی تم میں سے نہ تو ان عورتو ں کو نقصان پہنچا ئے ،نہ ہی اس مریض کو۔(ذیل المذیل ،ص ٦٣٠، طبع دار المعارف ،تحقیق محمد ابو الفضل ابرا ہیمی) اسی سے ملتی جلتی بات شیخ مفید نے لکھی ہے۔(ص ٢٤٤، تذکرہ ،ص ٢٥٦، ٢٥٨،طبع نجف)

۳۸۹

اسی اثناء میں عمر بن سعد وہاں پہنچ گیا اور اس نے کہا آگاہ ہو جاؤ کہ کوئی بھی اس نوجوان مریض کو کسی بھی طرح کوئی نقصان نہیں پہنچا ئے گا اور نہ تم لوگوں میں سے کوئی بھی کسی بھی صورت میں عورتوں کے خیموں میں داخل ہوگا اور جس نے جو مال واسباب لوٹا ہے وہ فوراً انھیں لوٹا دے لیکن کسی نے شمہ برابر بھی کچھ نہ لوٹا یا ۔

پھر عمر بن سعد نے عقبہ بن سمعان کو پکڑا اور اس سے پوچھا تو کون ہے تو اس نے جواب دیا : میں ایک زرخرید غلام ہوں تو عمر بن سعد نے اسے بھی چھوڑ دیا اس طرح سپاہ حسینی میں اس غلام کے علاوہ کو ئی اور زندہ باقی نہ بچا۔(١)

____________________

١۔ اس کے علا وہ چند افرادہیں اور جو زندہ بچے ہیں ۔ ١۔مرقع بن ثمامہ اسدی آپ اپنے زانو ں پر بیٹھ کر تیر پھینک رہے تھے تو ان کی قوم کا ایک گروہ ان کے سامنے آیا اور ان لوگو ں نے اس سے کہا : تو امان میں ہے ہماری طرف چلا آتو وہ چلا آیا ۔جب عمر بن سعد ان لوگو ں کے ہمراہ ابن زیاد کے پاس آیا اور اس شخص کی خبر سنائی تو ابن زیاد نے اسے شہر'' زرارہ'' شہربدر کردیا جو عمان کے خلیج میں ایک گرم سیر علا قہ ہے۔ اس جگہ ان لوگو ں کو شہر بدر کیا جاتا تھا جوحکومت کے مجرم ہوتے تھے۔

٢۔اس سے قبل ضحاک بن عبد اللہ مشرقی ہمدانی کا واقعہ گزر چکا ہے کہ وہ اپنی شرط کے مطابق امام علیہ السلام سے اجازت لے کر آپ کو تنہاچھوڑکر چلا گیا تھا ۔قتل سے بچ جانے والو ں میں بھی ایک سے زیادہ لوگ ہیں ۔ اس سلسلے میں ابو مخنف کے الفاظ یہ ہیں کہ علی بن الحسین اپنی صغر سنی کی وجہ سے بچ گئے اور قتل نہ ہوئے ۔(طبری ،ج٥، ص ٤٦٨) اسی طرح امام حسن کے دو فرزند حسن بن حسن بن علی اور عمر بن حسن بھی صغر سنی کی وجہ سے چھوڑ دئے گئے اور قتل نہیں ہوئے (طبری، ج٥،ص ٤٦٩) لیکن عبد اللہ بن حسن شہید ہوگئے۔ (طبری ،ج٥،ص٤٦٨) ابو الفرج کا بیا ن ہے : حسن بن حسن بن علی زخمو ں کی وجہ سے سست ہو گئے تو انھی ں اٹھا کر دوسری جگہ چھوڑ دیا گیا۔(ص ١٧٩،طبع نجف)

۳۹۰

پامالی

پھر عمر بن سعد نے اپنے لشکر والوں کو آوازدی کہ تم میں سے کون آمادہ ہے جو لاش حسین پر گھوڑے دوڑائے ۔اس کے جواب میں دس (١٠) آدمیوں نے آمادہ گی کا ظہار کیا جن میں اسحاق بن حیوة حضرمی اور احبش بن مر ثد حضرمی قابل ذکر ہیں ۔ یہ دس افراد آئے اور اپنے گھوڑوں سے امام حسین کی لاش کو روند ڈالا یہاں تک کہ آپ کے سینہ اور پشت کی ہڈیاں چور چور ہوگئیں(١) پھر عمر بن سعد نے اپنے لشکرکے کشتوں کی نماز جنازہ پڑھی اور انھیں دفن کر دیا اوراسی دن خولی بن یزید کے ہاتھوں امام علیہ السلام کا سر عبیداللہ بن زیاد کے پاس روانہ کیا گیا۔ جب وہ محل تک پہنچا تو دیکھا محل کا دروازہ بند ہے لہذا اپنے گھر آیا اور اس سر مقدس کو اپنے گھر میں ایک طشت میں چھپادیا(٢) جب صبح ہوئی تو سر کے ہمراہ عبیداللہ بن زیاد کی خدمت میں حاضر ہو ا۔

____________________

١۔ اسحاق بن حیوة حضرمی سفید داغ کے مرض میں مبتلا ہو گیا اور مجھے خبر ملی ہے کہ احبش بن مرثد حضرمی اس کے بعد کسی جنگ میں کھڑا تھا کہ پچھم کی طرف سے ایک تیر آیا (پتہ نہیں چلاکہ تیر انداز کون ہے) اور اس کے سینے میں پیوست ہو گیا اوروہ وہیں ہلاک ہوگیا۔ پامالی کی روایت کو ا بوالفرج نے ص ٧٩پر تحریر کیا ہے ۔اس طرح مروج الذہب ،ج ٣ ، ص ٧٢ ، ارشاد، ص ٢٤٢ ، طبع نجف اور تذکرة الخواص ،ص ٢٥٤ پر بھی یہ روایت موجود ہے ۔ سبط بن جوزی کا بیان ہے کہ ان لوگو ں نے آپ کی پشت پر سیاہ نشانات دیکھے اوراس کے بارے میں دریافت کیا تو کسی نے کہا : آپ رات کو اپنی پیٹھ پر کھانا رکھ کر مدینہ کے مساکین میں تقسیم کیا کرتے تھے ۔ پسر سعد نے اس عظیم شقاوت کا ارتکاب ابن زیاد کے قول کی پیروی کرتے ہوئے کیا تھا کیونکہ اس نے کہا تھا جب حسین قتل ہوجائی ں توگھوڑے دوڑاکہ کر ان کے سینہ اور پیٹھ کو روند ڈالنا کیونکہ یہ دوری پیدا کرنے والے اور جدائی ڈالنے والے ہیں ،بڑے ظالم اور رشتہ دارو ں سے قطع تعلق کرنے والے ہیں میری آرزو یہ نہیں ہے کہ مرنے کے بعد انھی ں کوئی نقصان پہنچاؤ ں لیکن میں نے قسم کھائی ہے کہ اگر میں انھی ں قتل کردو ں تو ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرو ں ۔(طبری، ج ٥ ،ص ٤١٥)

٢۔ ہشام کا بیا ن ہے : مجھ سے میرے باپ نے حدیث بیان کی ہے اور انہو ں نے ''نوار بنت مالک بن عقرب'' جو ''حضرمی''قبیلہ سے تعلق رکھتی تھی (خولی کی بیوی تھی) سے روایت کی ہے کہ وہ کہتی ہے : خولی امام حسین علیہ السلام کے سرکو لے کر گھرآیااور اسے گھر میں ایک طشت کے اندر چھپا کے رکھ دیا پھر کمرے میں داخل ہوا اور اپنے بستر پر آگیا تو میں نے ا س سے پوچھا کیا خبرہے ؟ تیرے پاس کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا:'' جئتکِ بغنی الدھر، ھذا رأس الحسین معک فی الدار'' میں تیرے لئے دنیا اور روزگار کی بے نیازی لے کر آیا ہو ں یہ حسین کا سر ہے جو تیرے ساتھ گھر میں ہے۔یہ سن کر میں نے کہا:'' ویلک جاء الناس با لذھب والفضةو جئت برأس ابن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ(وآلہ) وسلم، لا واللّٰہ لا یجمع رأسی و رأسک بیت أبداً'' وائے ہو تجھ پر ! لوگ سونا اور چاندی لے کر آتے ہیں اور تو فرزند رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر لے کر آیا ہے ،نہیں خدا کی قسم اس گھر میں آج کے بعد کبھی بھی میرا اور تیرا سر یکجا نہیں ہوگا ۔ پھراپنے بستر سے اتری اور کمرے سے باہر آئی اور گھر کے اس حصہ میں گئی جہا ں وہ سر موجود تھا اور بیٹھ کر اسے دیکھنے لگی ۔خدا کی قسم میں دیکھ رہی تھی کہ مسلسل ستون کی طرح ایک نور آسمان تک اس طشت کی طرف چمک رہا ہے اور ایک سفید پرندہ اس کے ارد گرد پرواز کررہا ہے۔ (. طبری ،ج٥ ،ص ٤٥٥)

۳۹۱

اہل حرم کی کوفہ کی طرف روانگی

* امام علیہ السلام کا سر ابن زیاد کے پاس

* دربار ابن زیاد میں اسیروں کی آمد

* عبداللہ بن عفیف کا جہاد

۳۹۲

اہل حرم کی کوفہ کی طرف روانگی

روز عاشورااور اس کی دوسری صبح تک عمر بن سعد نے کربلا میں قیام کیا(١) اور حکم دیا کہ بقیہ شہداء کے بھی سر وتن میں جدائی کردی جائے۔حکم کی تعمیل ہوئی اور بہتر سروں کو(٢) شمر بن ذی الجوشن، قیس بن اشعث ، عمرو بن حجاج اور عزرہ بن قیس کے ہاتھوں کوفہ کی طرف روانہ کیا ۔ یہ سب کے سب وہاں سے چلے اور ان مقدس سروں کے ہمراہ عبیداللہ بن زیاد کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔

پھر اس نے حمید بن بکیر احمری(٣) کو حکم دیا کہ لوگوں کے درمیان اعلان کرے کہ کوفہ کی طرف کوچ کرنے کے لئے آمادہ ہوجائیں ۔وہ اپنے ہمراہ امام حسین علیہ السلام کی بیٹیوں ،بہنوں ، بچوں اور مریض و ناتواں علی بن حسین (علیہ السلام) کو بھی لے کرچلا۔(٤)

____________________

١۔ارشاد میں یہی مرقوم ہے۔(ص٢٤٣)

٢۔ ارشاد، ص ٢٤٣لیکن سبط بن جوزی کا بیان ہے کہ ٩٢ سر تھے(ص ٢٥٦)شاید سبعین اور تسعین میں تصحیف ہو گئی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ خود سبط بن جوزی کابیان ہے:'' کانت زیادہ علی سبعین رأساً'' سرو ں کی تعداد ستر (٧٠) سرو ں سے زیادہ تھی۔(ص ٢٥٩ ،طبع نجف)

٣۔ یہ شخص ابن زیاد کے محافظو ں میں تھا۔ اسی کو ابن زیاد نے قاضی شریح کے ہمراہ اس وقت نگاہ رکھنے کے لئے روانہ کیا جب وہ ہانی کو دیکھنے گیا تھا اور ان کے قبیلے کو باخبرکرنے کے لئے روانہ ہواتھا کہ ہانی صحیح و سالم ہیں ۔شریح یہ کہا کرتا تھاخدا کی قسم اگر وہ میرے ساتھ نہ ہوتا تو میں ہانی کے قبیلے والو ں کووہ با تی ں بتادیتا جس کا حکم ہانی نے مجھے دیا تھا۔(طبری ،ج٥، ص ٢٦٨)

٤۔طبری ،ج٥ ،ص ٤٥٣۔ ٤٥٥ ،مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے ۔

۳۹۳

قرّہ بن قیس تمیمی کا بیان ہے کہ میں زینب بنت علی کو اس وقت فراموش نہیں کرسکتا جب وہ اپنے بھائی کے خون آلودہ جسم کے پاس سے گزررہی تھیں اور یہ فریاد کر رہی تھیں :'' یا محمد اه ! یا محمداه صلی علیک ملائکة السماء ، هذاالحسین بالعراء مرمَّل بالدماء مقطع الأعضاء ، یا محمدا ه! و بناتک سبایا ، و ذریتک مقتلة تسغ علیها الصبا! ''

اے (نانا) محمد اے (نانا) محمد ! آپ پر تو آسمان کے فرشتوں نے نماز پڑھی ، لیکن یہ حسین ہیں جو اس دشت میں خون میں غلطاں ہیں ، جسم کا ہر ہرعضو ٹکڑے ٹکڑے ہے ۔ (اے جد بزرگوار) اے محمد ! (ذرا دیکھئے تو) آپ کی بیٹیاں اسیر ہیں اور آپ کی پاک نسل اپنے خون میں نہائے سورہی ہے جن پر باد صبا چل رہی ہے۔ خدا کی قسم زینب نے ہر دوست ودشمن کو رلا دیا(١) اور مخدرات عصمت آہ و فریاد کرنے لگیں اور اپنے چہروں پر طما نچے لگا نے لگیں ۔(٢) حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کی شہادت کے ایک دن(٣) بعد محلہ غاضر یہ میں رہنے والے بنی اسد نے آپ لوگوں کے جسم کو سپردلحد کیا ۔(٤)

امام حسین علیہ السلام کا سر ابن زیاد کے دربار میں

حمید بن مسلم کا بیان ہے : عمر بن سعد نے مجھے بلا یا اور اپنے گھر والوں کے پاس مجھے روانہ کیا تا کہ میں ان لوگوں کو خو ش خبری دوں کہ اللہ نے اسے سلا متی کے ساتھ فتحیاب کیا ۔ میں آیا اور اس کے گھر والوں کو اس سے باخبر کیا ۔ پھر میں پلٹ کر محل آیا تو دیکھا کہ ابن زیاد بیٹھا ہے اور اس وقت وہ لوگ جو سروں

____________________

١۔ سبط بن جوزی نے اس کی روایت کی ہے۔(ص ٢٥٦)

٢۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے ابو زہیر عبسی نے قرہ بن قیس تمیمی سے روایت کی ہے۔(طبری ،ج٥ ،ص ٤٥٥)

٣۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥ ،ص ٤٥٣، ٤٥٥)

٤۔ شیخ مفید نے ارشاد ،ص ٢٤٣ و ص ٢٤٩ پر اسی طرح مسعودی نے مروج الذہب، ج٣، ص ٧٢ پر لکھا ہے : مشہور یہ ہے کہ شہادت کے تین دن بعد دفن کئے گئے اور یہ دفن کی انجام دہی امام سجاد علیہ السلا م کی موجود گی میں ہوئی ہے جیسا کہ امام رضا علیہ السلام کے ہمراہ علی بن حمزہ کا مناظرہ اس پر گواہ ہے ۔مقتل الحسین مقرم ،ص ٤١٥ کی طرف رجوع کری ں ۔

۳۹۴

کو لے کر کر بلا سے چلے تھے گروہ گروہ اس کے پاس آرہے ہیں ۔ قبیلہ ٔ کندہ ٣١ سروں کے ہمراہ آیا جس کا سر براہ قیس بن اشعث تھا۔ ہوازن ٢٠ سروں کے ہمراہ آئے جن کا سر براہ شمر بن ذی الجوشن تھا۔ قبیلۂ تمیم ١٧ سروں کے ساتھ وارد ہوا ، بنی اسد ٦ سروں کے ہمراہ ، مذحج ٧ سراور بقیہ ٧ ٧ سر لے کر وا رد ہوئے۔ اس طرح ستر (٧٠) سر ہو گئے۔ وہ سب کے سب عبید اللہ کے پاس آئے اور عام لوگوں کو بھی دربار میں آنے کی اجازت ملی تو داخل ہونے والوں کے ساتھ میں بھی داخل ہوا۔میں نے دیکھا امام حسین علیہ السلام کا سر اس کے سا منے رکھا ہے اور وہ چھڑی سے دونوں دانتوں کے درمیان آپ کے لبوں سے بے ادبی کر رہا ہے۔جب زید بن ارقم(١) نے اسے دیکھا اور غور کیا کہ وہ اپنی شقاوتوں سے باز نہیں آرہا ہے اور چھڑی سے دندان مبارک کو چھیڑ ے جا رہا ہے تو انھوں نے ابن زیاد سے کہا :''اُعل بهٰذا القضیب عن ها تین الشفتین فوالذ لا اله غیره لقد رأیت شفت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وآله وسلم علی ها تین الشفتین یقبلهما ! ''اس چھڑی کو ان دونوں لبوں سے ہٹالے، قسم ہے اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ،میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خود دیکھا ہے کہ آپ اپنے دونوں لبوں سے ان لبوں کو بوسہ دیا کر تے تھے۔

پھر وہ ضعیف العمر صحابی ٔرسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چیخ مار کر رونے لگا تو ابن زیاد نے کہا : خدا تمہاری آنکھوں کو گریاں رکھے!اگر بڑھاپے کی وجہ سے تیری عقل فاسد اور تو بے عقل و بے خرد نہ ہو گیا ہوتا تو میں تیری گردن اڑادیتا ۔ یہ سن کر زید بن ار قم وہاں سے اٹھے اور فوراً باہر نکل گئے۔(٢)

____________________

١۔ اہل کوفہ سے مخاطب ہوکر روز عاشورا امام حسین علیہ السلام کے خطبہ کے ذیل میں ان کے احوال گزر چکے ہیں ۔سبط بن جوزی نے بخاری سے اور انھو ں نے ابن سیر ین سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں : جب حسین کا سر ابن زیاد کے سامنے طشت میں رکھا گیا تو اس نے آپ کے لبو ں پر چھڑی مار نا شروع کیا ۔اس وقت وہا ں پر انس بن مالک موجود تھے، وہ رونے لگے اور کہا : یہ رسول خدا سے سب سے زیاد مشابہ تھے۔(ص ٢٥٧)

٢۔شیخ مفید نے ارشاد ، ص ٢٤٣ پر اس کی روایت کی ہے ۔

۳۹۵

نکلتے وقت و ہ یہی کہے جارہے تھے :''ملّک عبد عبداً فاتخذهم تلداً ! أنتم یا معشر العرب العبید بعد الیوم قتلتم ابن فا طمه و أمّر تم بن مرجانة ! فهو یقتل خیارکم ویستعبد شرارکم فرضیتم بالذل ! فبعد ًالمن رض بالذل ! ''(١) ایک غلام نے د وسرے غلام کو تخت حکومت پربٹھا یا اور ان لوگوں نے تمامچیزوں کو اپنا بنالیا اے گروہ عرب آج کے بعد تم لوگ غلام ہو کیونکہ تم نے فرزند فاطمہ کو قتل کردیا اور مرجانہ کے بیٹے کو اپنا امیر بنالیا ۔وہ تمہارے اچھوں کو قتل کرے گا اورتمہارے بروں کو غلام بنالے گا، تم لوگ اپنی ذلت و رسوائی پرراضی و خوشنود ہو، برا ہو اس کا جو رسوائی پر راضی ہوجائے۔راوی کا بیان ہے کہ جب زید بن ارقم باہر نکلے اور لوگوں نے ان کی گفتار سنی تو کہنے لگے : خدا کی قسم زید بن ارقم نے ایسی بات کہی ہے کہ اگر ابن زیا د اسے سن لے تو انھیں قتل کردے گا۔

____________________

١۔ سبط بن جوزی نے ص ٢٥٧ پر اس کی روایت کی ہے اور وہا ں اضافہ کیا ہے کہ زید بن ارقم نے کہا : اے ابن زیاد ! میں اس حدیث سے زیادہ سنگین حدیث تجھ سے بیان کررہا ہو ں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو اس حال میں دیکھا کہ حسن کو اپنے داہنے زانوپرا ور حسین کو اپنے بائی ں زانو پر بٹھا ئے ہوئے تھے اور اپنے ہاتھ کوان کے سر پر رکھ کر فرمارہے تھے:'' اللّٰھم انی استودعک ایاھما و صالح المومنین'' خدا یا! میں ان دونو ں کو اور ان کے باپ صالح المومنین کو تیری امانت میں سپرد کررہاہو ں '' فکیف کان ودیعہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم عندک یابن زیاد ؟'' اے ابن زیاد ! پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ امانت تیرے پاس کس طرح موجود ہے ؟ سبط بن جوزی نے پھربیان کیا کہ ہشام بن محمد کابیان ہے : جب ابن زیاد کے سامنے حسین علیہ السلام کا سر رکھا گیا تو کاہن اور پیشنگوئی کرنے والو ں نے اس سے کہا: اٹھو اور اپنے قدم ان کے منہ پر رکھو، وہ اٹھا اور اس نے اپنے قدم آپ کے دہن مبارک پررکھ دیا، پھر زید بن ارقم سے کہا: تم کیسا دیکھ رہے ہو ؟ تو زید بن ارقم نے کہا : خدا کی قسم میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہا ں اپنے لب رکھتے دیکھا ہے جہا ں تو نے قدم رکھاہے۔ سبط بن جوزی کا پھر بیان ہے کہ شبعی نے کہا: ابن زیاد کے پاس قیس بن عباد موجود تھا ؛ابن زیاد نے اس سے کہا میرے اور حسین علیہ السلام کے بارے میں تمہارا نظریہ کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا : قیامت کے دن ان کے جد ، والد اور ان کی والدہ آکر ان کی شفاعت کری ں گے اورتمہارا دادا ، باپ اور تمہاری ما ں آکر تمہاری سفارش کری ں گی ۔یہ سن کر ابن زیاد غضب ناک ہوگیا اور اسے دربار سے اٹھا دیا۔سبط بن جوزی ہی نے طبقات ابن سعد سے روایت کی ہے کہ صاحب طبقات بن سعد کا بیان ہے : ابن زیاد کی ما ں مرجانہ نے اپنے بیٹے سے کہا: اے خبیث تو نے فرزند رسول اللہ کو قتل کیا ہے؛ خدا کی قسم تو کبھی بھی جنت نہیں دیکھ پائے گا۔ (تذکرہ ، ص ٢٥٩ والکامل فی التاریخ، ج٤، ص ٢٦٥)

۳۹۶

دربار ابن زیاد میں اسیروں کی آمد

جب امام حسین علیہ السلام کی بہنیں ، خواتین اور بچے عبیداللہ بن زیاد کے دربار میں پہنچے تو زینب بنت فاطمہ بہت ہی معمولی لباس پہنے ہوئے تھیں اور غیر معروف انداز میں دربار میں وارد ہوئیں ۔ کنیزیں اور خواتین آپ کو چاروں طرف سے اپنی جھرمٹ میں لئے تھیں تاکہ کوئی آپ کو پہچان نہ سکے پھر آپ انھیں کے درمیان بیٹھ گئیں ۔عبیداللہ بن زیاد نے پوچھا : یہ بیٹھی ہوئی خاتون کون ہے ؟ آپ نے کوئی جواب نہیں دیا توا س نے تین بار اس سوال کی تکرار کی اور تینوں بار آپ نے اس سے تکلم نہیں کیاپھر آپ کی بعض کنیزوں نے کہاکہ یہ زینب بنت فاطمہ ہیں ۔یہ سن کر اس نے کہا :''الحمد للّٰه الذی فضحکم و قتلکم وأکذب أحدوثتکم !''شکر ہے اس خدا کا جس نے تم لوگوں کو ذلیل کیا ، قتل کیا اور تمہاری باتوں کو جھوٹاثابت کیا! زینب کبریٰ نے جواب دیا :'' الحمد للّٰه الذی أکرمنا بمحمد صلی اللّٰه علیه وآله وسلم و طهّرنا تطهیراًلاکما تقول أنت انما یفتضح الفاسق و یکذب الفاجر''شکر ہے اس خدا کا جس نے ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے عزت وکرامت عطافرمائی اور ہمیں اس طرح پاک و پاکیزہ رکھا جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق تھا؛ ایسا نہیں ہے جیسا تو کہہ رہا ہے ،بے شک ذلیل فاسق ہے اور جھوٹ فاجر کا ثابت ہوتا ہے۔

ابن زیادنے کہا :'' کیف رأیت صنع اللّٰه بأ هل بیتک ؟ '' اپنے اہل بیت کے سلسلے میں اللہ کے سلوک کو کیسا محسوس کیا؟

زینب(علیہا السلام) نے جواب دیا:'' کتب علیهم القتل فبرزوا الی مضا جعهم ، و سیجمع اللّٰه بینک و بینهم فتحاجون الیه و تخا صمون عنده'' (١) خدا وند عالم نے اپنی راہ میں افتخار شہادت ان کے لئے مقرر کر دیا تھا تو ان لوگوں نے راہ حق میں اپنی جان نثار کردی ، اور عنقریب خدا تجھے اور ان کو یکجا اور تمہیں ان کے مد مقابل لا کر کھڑا کرے گا تو وہاں تم اس کے پاس دلیل پیش کرنا اور اس کے نزدیک مخاصمہ کرنا ۔

____________________

١۔ شیخ مفید نے ارشاد ص ٢٤٣ پر یہ روایت بیان کی ہے۔اسی طرح سبط ابن جوزی نے تذکرہ ، ص ٢٥٨ ۔ ٢٥٩،طبع نجف میں یہ روایت بیان کی ہے۔

۳۹۷

ابن زیاد رسوا ہو چکا تھا اور اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا لہٰذا وہ غضبناک اور ہیجان زدہ ہوکر بولا:'' قد أشفی اللّه نفس من طاغیتک والعصاة المرده من أهل بیتک ! ''خدا نے تمہارے طغیان گر بھائی اور تمہارے خاندان کے سر کش باغیوں کو قتل کر کے میرے دل کو ٹھنڈا کر دیا ۔

یہ سن کر فاطمہ کی لخت جگر رونے لگیں پھر فرمایا :'' لعمری لقد قتلت کھل وأبرت اھل وقطعت فرع واجتثثت أصل ! فان یشفیک ھٰذافقد اشتفیت! ''قسم ہے میری جان کی تو نے ہمارے خاندان کے بزرگ کو قتل کیا ہے ، ہمارے عزیزوں کے خو ن کو زمین پر بہایا، ہماری شاخوں کو کاٹ ڈالا اور ہماری بنیادوں کو جڑ سے اکھاڑپھینکنے کی کوشش کی ، اگر اس سے تجھے خوشی ملی ہے تو خوش ہولے۔

عبیداللہ بن زیاداحساس شکست کرتے ہوئے بولا: یہ تو بڑی قافیہ باز عورت ہے۔(١) میری جان کی قسم تیرا باپ بھی قافیہ باز شاعر تھا ۔

اس کے جواب میں زینب سلام اللہ علیہا نے فرمایا : عورت کو قافیہ بازی سے کیا مطلب! ہمیں اس کی فرصت ہی کہاں ہے لیکن یہ دل کادرد اور اندوہ ہے جو زبان پر جاری ہو گیا۔

پھر ابن زیاد نے علی بن حسین علیہاالسلام کی طرف نگاہ کی اور آپ سے بولا : تمہارا نام کیاے ؟(٢) امام علی بن الحسین (زین العابدین) نے جواب دیا :''أنا علی بن الحسین'' میں علی فرزند حسین ہوں ۔

ابن زیادنے کہا : کیا اللہ نے حسین کے بیٹے علی کو قتل نہیں کیا ؟

یہ سن کر آپ خاموش ہوگئے تو ابن زیاد نے کہا : تمہیں کیا ہوگیا ہے، بولتے کیوں نہیں ؟

علی بن الحسین نے فرمایا : میرے ایک بھائی تھے ان کا نا م بھی علی تھا جنہیں دشمنوں نے قتل کردیا ۔

ابن زیادنے کہا: اسے اللہ ہی نے قتل کیا ہے یہ سن کر پھرآپ خاموش ہوگئے تو ابن زیاد نے کہا: تمہیں کیا ہو گیا ہے بولتے کیوں نہیں ؟

____________________

١۔ طبری میں کلمئہ شجاعة و شجاعاآیا ہے یعنی بڑی بہادر خاتون ہے لیکن شیخ مفید نے ارشاد میں وہی لکھاہے جو ہم نے یہا ں ذکر کیا ہے۔(ص ٢٤٢ ،طبع نجف) اور گفتگو کے سیاق و سباق سے یہی مناسب بھی ہے ۔

٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے۔ (طبری ،ج٥،ص ٤٥٦۔ ٤٥٧)

۳۹۸

علی بن الحسین نے فرمایا:''اللّٰه یتوفی الانفس حین موتها (١) وما کان لنفس أن تموت الا باذن اللّٰ ہ''(٢) خدا وند متعال لوگوں کے مرتے وقت ان کی روحیں (اپنی طرف) کھینچ لیتا ہے اور بغیر حکم خدا کے تو کوئی شخص مر ہی نہیں سکتا ۔

ابن زیادخجل ہو کر بولا : خدا کی قسم تو بھی انھیں میں کا ایک ہے، پھر اپنے دربار کے ایک جلاد مری بن معاذ احمری سے کہا: وائے ہو تجھ پر اس کو قتل کردے ، یہ سنتے ہی آپ کی پھوپھی زینب آپ سے لپٹ گئیں اور فرمایا :'' یابن زیاد ! حسبک منّا أما رویت من دمائنا ؟ وهل أبقیت منا أحداً و اعتنقته وقالت : أسالک باللّٰه ۔ ان کنت مومنا ۔ ان قتلتہ لمّا قتلتن معہ ! '' اے ابن زیاد !کیا ہمارے خاندان کی اس قدر تاراجی تیرے لئے کافی نہیں ہے؟ کیا تو ہمارے خون سے ابھی تک سیراب نہیں ہوا ؟ کیا تو نے ہم میں سے کسی ایک کو بھی باقی رکھا ہے، پھرآپ نے اپنے بھتیجے کو گلے سے لگا لیا اور فرمایا: تجھ کو خدا کا واسطہ دیتی ہوں اگر تجھ میں ایمان کی بو باس ہے اور اگر تو انھیں قتل کرنا چاہتا ہے تو مجھے بھی ان کے ساتھ قتل کردے۔

علی بن الحسین علیہ السلام نے آواز دی: ''ان کانت بینک و بینهن قرابة فابعث معهن ّ رجلاً تقیا یصحَبَهُنَّ بصحبة الاسلام '' اگر تو مجھے قتل کرنا چاہتا ہے تو اگر تیرے اور ان کے درمیان کوئی قرابت باقی ہے تو انھیں کسی متقی مرد کے ساتھ مدینہ روانہ کردے ۔

پھر ابن زیاد نے جناب زینب اور امام سجاد کی طرف بڑے غور سے دیکھا اور بولا: تعجب ہے اس رشتہ داری اور قرابتداری پر ،خدا کی قسم یہ چاہتی ہے کہ اگر میں اسے قتل کروں تو اس کے ساتھ اس کو بھی قتل کردوں !اس جوان کو چھوڑ دو ۔(٣) و(٤)

پھر ابن زیاد نے امام حسین علیہ السلام کے سر کو نیزہ پر نصب کردیا اور کوفہ میں اسے گھمایا جانے لگا ۔(٥)

____________________

١۔ سورۂ زمر، آیت ٤٢

٢۔سورۂ آل عمران، آ یت ١٤٥

٣۔ ابو مخنف کہتے ہیں :سلیمان بن ابی راشد نے مجھ سے حمید بن مسلم کے حوالے سے روایت بیان کی ہے۔(طبری، ج٥ ، ص ٤٥٧)

۳۹۹

٤۔ طبری نے ذیل المذیل میں بیان کیا ہے : علی بن الحسین جو (کربلامیں شہید ہونے والے علی بن الحسین سے) چھوٹے تھے نے فرمایا:جب مجھے ابن زیاد کے پاس لے جایا گیا تو اس نے کہا : تمہارا نام کیا ہے ؟ میں نے جواب دیا: : علی بن الحسین تو اس نے کہا : کیا علی بن الحسین کو اللہ نے قتل نہیں کیا ؟ میں نے جواب دیا : میرے ایک بھائی تھے جو مجھ سے بڑے تھے، دشمنو ں نے انھی ں قتل کردیا ۔ اس نے کہا: نہیں بلکہ اللہ نے اسے قتل کیا ! میں نے کہا: '' اللّٰہ یتوفی الأنفس حین موتھا '' یہ سن کر اس نے میرے قتل کا حکم نافذ کردیا تو زینب بنت علی علیھما السلام نے کہا : اے ابن زیاد ! ہمارے خاندان کا اتنا ہی خون تیرے لئے کافی ہے ! میں تجھے خدا کا واسطہ دیتی ہو ں کہ اگر انھی ں قتل کرنا ہی چاہتا ہے تو ان کے ساتھ مجھے بھی قتل کردے ! یہ سن کر اس نے یہ ارادہ ترک کردیا ۔ طبری نے ابن سعد (صاحب طبقات) سے نقل کیا ہے کہ انھو ں نے مالک بن اسماعیل سے روایت کی ہے اور انھو ں نے اپنے باپ شعیب سے اور انھو ں نے منہال بن عمرو سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں : میں علی بن الحسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی : آپ نے صبح کس حال میں کی؛خدا آپ کو صحیح و سالم رکھے! انھو ں نے جواب دیا : میں نے اس شہر میں تجھ جیسا بوڑھا اور بزرگ نہیں دیکھا جسے یہ معلوم نہ ہو کہ ہماری صبح کیسی ہوئی! اب جب کہ تمہیں کچھ نہیں معلوم ہے تو میں بتائے دیتا ہو ں کہ ہم نے اپنی قوم میں اسی طرح صبح کی جس طرح فرعون کے زمانے آل فرعون کے درمیان بنی اسرائیل نے صبح کی۔ وہ ان کے لڑکو ں کو قتل کردیتا تھا اور عورتو ں کو زندہ رکھتا تھا۔ ہمارے بزرگ اورسید و سردار علی بن ابیطالب نے اس حال میں صبح کی کہ لوگ ہمارے دشمن کے دربار میں مقرب بارگاہ ہونے کے لئے منبرو ں سے ان پر سب وشتم کررہے تھے ۔ (اے منہال) قریش نے اس حال میں صبح کی کہ سارے عرب پر وہ صاحب فضیلت شمار ہورہے تھے کیونکہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان میں سے تھے۔ اس کے علاوہ ان کے پاس فضیلت کی کوئی چیز نہ تھی اور سارے عرب اس فضیلت کے معترف تھے اور سارے عرب تمام غیر عرب سے صاحب فضیلت شمار کئے جانے لگے کیونکہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عربی ان میں سے تھے ؛اس کے علاوہ ان کے پاس فضیلت کا کوئی ذریعہ نہیں تھا اور سارے عجم ان کی اس فضیلت کے معترف تھے۔اب اگر عرب سچ بولتے ہیں کہ انھی ں عجم پر فضیلت حاصل ہے کیونکہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان میں سے تھے اور اگر قریش سچے ہیں کہ انھی ں عرب پر فضیلت حاصل ہے کیونکہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان میں سے ہیں تو اس اعتبار سے ہم اہل بیت ہیں اور ہمیں قریش پر فضیلت حاصل ہے کیونکہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمارے ہیں لیکن ہم لوگو ں نے اس حال میں صبح کی کہ ہمارے حق کو چھین لیاگیا اور ہمارے حقوق کی کوئی رعایت نہ کی گئی۔ یہ ہمارا روزگار اور ہماری زندگی ہے، اگر تم نہیں جانتے ہو کہ ہم نے کیسے صبح کی تو ہم نے اس حال میں صبح کی ۔

ابن سعد کا بیان ہے : مجھے عبدالرحمن بن یونس نے سفیان سے اور اس نے جعفر بن محمد علیہ السلام سے خبر نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا : علی بن الحسین (علیہ السلام) نے٥٨سال کی عمر میں دار فانی سے کوچ کیا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ علی بن الحسین کربلا میں اپنے باپ کے ہمراہ ٢٣یا ٢٤ سال کے تھے۔ لہٰذا کہنے والے کا یہ قول صحیح نہیں ہے کہ وہ بچہ تھے اور ابھی ان کے چہرے پر ڈاڑھی بھی نہیں آئی تھی ؛ لیکن وہ اس دن مریض تھے لہٰذا جنگ میں شرکت نہیں کی۔ کیسے ممکن ہے کہ ان کو ڈاڑھی تک نہ آئی ہو جب کہ ان کے فرزند ابو جعفر محمد بن علی (علیھما السلام) دنیا میں آچکے تھے۔ (ذیل المذیل ،ص ٦٣٠ ،طبع دار المعارف بحوالہ طبقات ابن سعد ،ج ٥ ص ٢١١ ۔ ٢١٨وارشاد ، ص ٢٤٤) سبط بن جوزی نے اصل خبر کو بطور مختصر بیان کیا ہے۔(ص ٢٥٨ ،طبع نجف)

٥۔ ابو مخنف نے اس طرح روایت کی ہے۔ (طبری ، ج٥ ، ص ٤٥٩)

۴۰۰

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438