واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا13%

واقعۂ کربلا مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 438

واقعۂ کربلا
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 438 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 192950 / ڈاؤنلوڈ: 5407
سائز سائز سائز
واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

۱۔ﷲ نے بندوں کوجو معین عمرعطا فرمائی ہے اس میں انسان مسلسل روزے رکھ سکتا ہے روزہ اگر چہ صرف ماہ رمضان میں ہی واجب ہے لیکن سال کے بقیہ دنوں میں مستحب ہی نہیں بلکہ''مستحب مؤکد ''ہے ۔

امام محمد باقر نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حوالہ سے خداوند عالم کا یہ قول نقل کیا ہے ۔

(الصوم لی وأنا اجزی به )( ۱ )

''روزہ میرے لئے ہے اورمیں ہی اسکی جزادوں گا ''

اس طرح سال کے دوران روزہ چھوڑدینے سے انسان کتنے عظیم ثواب سے محروم ہوتا ہے ؟ اسے خدا کے علاوہ کوئی نہیںجانتا ۔اب انسان جس دن بھی روزہ نہ رکھکرﷲکی جائزاور حلال نعمتیں استعمال کرتا ہے اس کی وجہ سے وہ جنت کی کتنی نعمتوںسے محروم ہواہے ؟اسکا علم خدا کے علاوہ کسی کو نہیں ہے اگر چہ یہ طے ہے کہ جو کچھ اس نے کھایا وہ رزق حلال ہی تھا لیکن اس تھوڑے سے رزق کے باعث بہر حال آخرت کی نعمتیں حاصل کرنے کا موقع اسکے ہاتھ سے جاتا رہا ۔حلال لذتوں کے باعث دنیا و آخرت کے درمیان ٹکرائو کی یہ ایک مثال ہے ۔

۲۔جب انسان رات میں نیند کی لذت سے لطف اندوز ہوتا ہے تو بلا شبہ یہ زندگانی دنیا کی حلال اور بہترین لذت ہے لیکن جب انسان پوری رات سوتے ہوئے گذاردیتا ہے تو اس رات نماز شب اور تہجد کے ثواب سے محروم رہتا ہے ۔

فرض کیجئے خدا نے کسی کو ستر برس کی حیات عطا کی ہو تو اس کے لئے ستر سال تک یہ ثواب ممکن ہے لیکن جس رات بھی نماز شب قضا ہوجاتی ہے آخرت کی نعمتوں میں سے ایک حصہ کم ہوجاتاہے اگر (خدا نخواستہ )پورے ستر سال اسی طرح غفلت میں بسر ہوجائیں تو نعمات اخروی

____________________

(۱)بحارالانوار ج۹۶ص ۲۵۴ ،۲۵۵، ۲۴۹ ۔

۲۲۱

حاصل کرنے کا موقع بھی ختم ہوجائے گا اور پھر انسان افسوس کرے گا کہ ''اے کاش میں نے اپنی پوری عمر عبادت الٰہی میں بسر کی ہوتی ''

۳۔اگر خداوند عالم کسی انسان کومال عطا کرے تو اس مال کو راہ خدا میں خرچ کرکے کافی مقدار میں اخروی نعمتیں حاصل کرنے کاامکان ہے انسان جس مقدار میںدنیاوی لذتوں کی خاطرمال خرچ کرتا ہے اتنی ہی مقدار میںآخرت کی نعمتوں سے محروم ہوسکتا ہے کہ اسی مال کو راہ خدا میں خرچ کرکے دنیا کے بجائے آخرت کی لذتیں اور نعمتیں حاصل کرسکتا تھا لہٰذا اگر انسان اپنا پورا مال دنیاوی کاموں کے لئے خرچ کردے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ اس نے اس مال سے اخروی نعمتیں حاصل کرنے کا موقع گنوادیا ۔چاہے اس نے یہ مال حرام لذتوں میں خرچ نہ کیا ہو ۔

اسی طرح انسان کے پاس آخرت کی لذتیں اورنعمتیں حاصل کرنے کے بے شمار مواقع ہوتے ہیں ۔مال ،دولت، عمر، شباب، صحت ،ذہانت ،سماجی حیثیت اور علم جیسی خداداد نعمتوں کے ذریعہ انسان آخرت کی طیب وطاہر نعمتیں کما سکتا ہے لیکن جیسے ہی اس سلسلہ میں کو تاہی کرتا ہے اپنا گھاٹا کر لیتا ہے خدا وندعالم نے ارشاد فرما یا ہے :

( والعصرِ٭انّ الا نسان لفی خسر ) ( ۱ )

''قسم ہے عصر کی بیشک انسان خسارہ میں ہے ''

آیۂ کر یمہ نے جس گھا ٹے کا اعلان کیا ہے وہ اس اعتبار سے ہے کہ آخرت کی نعمتیں حاصل کرنے کے لئے جن چیز وں کی ضرورت ہے خداوندعالم نے وہ تمام چیزیں اپنے بندوں کو (مفت ) عطا کردی ہیں اور انھیں خدا داد نعمتوں سے آخرت کی نعمتیں حاصل کرنے کا بھی انتظام کردیا ہے اس کے باوجود انسان کوتاہی کرتا ہے اور ان نعمتوں کو خواہشات دنیا کے لئے صرف کر کے آخرت کما نے کا

____________________

(۱)سورئہ عصر آیت۱۔۲۔

۲۲۲

موقع کھودیتا ہے تو یقیناگھاٹے میں ہے ۔

اس صور ت حال کی منظر کشی امیر المو منین حضرت علی نے بہت ہی بلیغ انداز میں فرمائی ہے آپ کا ارشاد ہے :

(واعلم أن الد نیاداربلیّة،لم یفرغ صاحبها فیها قط ساعة لاکانت فرغته علیه حسرة یوم القیامة )( ۱ )

''آگاہ ہو جا ئو یہ دنیا دار ابتلاہے اس میںا گر کوئی ایک ساعت بے کار رہتا ہے تو یہ ایک ساعت کی بے کاری روز قیامت حسرت کا باعث ہوگی''

یہاں بے کاری کا مطلب یہ ہے کہ انسان ذکر خدا نہ کرے اور اسکی خوشنودی کے لئے کوئی عمل نہ بجالا ئے اور اسکے اعضاء وجوارح بھی قربت خدا کے لئے کوئی کام نہ کر رہے ہوں یا یاد خدا میں مشغول نہ ہوں ۔

اب اگر ایک گھنٹہ بھی اس طرح خالی اوربے کار رہے چاہے اس دوران کوئی گنا ہ بھی نہ کرے تواسکی بناپر قیامت کے دن اسے حسرت کا سامناکرنا ہوگا اس لئے کہ اس نے عمر ،شعور اور قلب جیسی نعمتوں کو معطل رکھا اورانہیں ذکرو اطاعت خدا میں مشغول نہ رکھ کر اس نے رضا ئے خدا اور نعمات اخروی حاصل کرنے کا وہ موقع گنوادیا ہے جسکا تدارک قطعا ممکن نہیں ہے بعد میں چاہے وہ جتنی اخروی نعمتیں حاصل کرلے لیکن یہ ضائع ہوجانے والا موقع بہر حال نصیب نہ ہوگا ۔

۳۔سنت الٰہی یہ ہے کہ انسان ترقی وتکامل اور قرب الٰہی کی منزلیں سختیوں اورمصائب کے ذریعہ طے کر تا ہے ۔ارشاد الٰہی ہے :

( أحَسِبَ الناس أن یُترکوا أن یقولواآمنّا وهم لایُفتنون ) ( ۲ )

____________________

(۱) نہج البلاغہ مکتوب ۵۹۔

(۲)سورئہ عنکبوت آیت۲۔

۲۲۳

''کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دئے جائیں گے کہ و ہ یہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور ان کا امتحان نہیں ہوگا''

دوسرے مقام پرارشاد ہوتا ہے :

( ولنبلونّکم بشیٔ من الخوف والجوع ونقصٍ من الأموال والأنفس والثمرات ) ( ۱ )

''اور ہم یقیناتمہیں تھوڑاخوف تھوڑی بھوک اور اموال ونفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے ۔۔۔''

نیزارشاد خداوندی ہے :

( فأخذناهم بالبأساء والضرّاء لعلهم یتضرّعون ) ( ۲ )

''۔۔۔اسکے بعد ہم نے انہیں سختی اور تکلیف میں مبتلا کیا کہ شاید ہم سے گڑگڑائیں''

یہ آخری آیت واضح الفاظ میں ہمارے لئے خدا کی طرف انسانی قافلہ کی حرکت اور ابتلاء وآز مائش ،خوف، بھوک اور جان ومال کی کمی کے درمیان موجود رابطہ کی تفسیر کر رہی ہے کیونکہ تضرع وزاری قرب الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے اور تضرع کی کیفیت اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان جان ومال کی کمی، بھوک ،خوف اور شدائد ومصائب میں گرفتار ہوتاہے اس طرح انسان کے پاس دنیاوی نعمتیں جتنی زیادہ ہو ں گی اسی مقدار میں اسے تضرع سے محرومی کاخسارہ اٹھانا پڑے گا اور نتیجتاً وہ قرب الٰہی کی سعادتوں اور اخروی نعمتوں سے محروم ہوجا ئے گا ۔

زندگانی دنیا کے مصائب ومشکلات کبھی تو خدا اپنے صالح بندوں کو مرحمت فرماتا ہے تا کہ وہ تضرع وزاری کیلئے آمادہ ہوسکیں اور کبھی اولیائے الٰہی اوربند گان صالح خود ہی ایسی سخت زندگی

____________________

(۱)سورئہ بقرہ آیت۱۵۵۔

(۲)سورئہ انعام آیت ۴۲۔

۲۲۴

کواختیار کر لیتے ہیں ۔

۴۔لذائذ دنیا سے کنار کشی کا ایک سبب یہ ہو تا ہے کہ انسان کبھی یہ خوف محسوس کرتا ہے کہ کہیں لذائذ دنیا کا عادی ہوکر وہ بتدریج حب دنیا میں مبتلا نہ ہو جا ئے اوریہ حب دنیاا سے خدا اور نعمات اخروی سے دور نہ کردے ۔اس لئے کہ لذائذ دنیا اورحب دنیا میں دوطرفہ رابطہ پایا جاتا ہے یہ لذ تین انسان میںحب دنیا کا جذبہ پیدا کر تی ہیں یااس میں شدت پیدا کر دیتی ہیں اس کے بر عکس حب دنیا انسان کودنیاوی لذتوں کو آخرت پر ترجیح دینے اوران سے بھر پور استفادہ کرنے بلکہ اسکی لذتوں میںبالکل ڈوب جانے کی دعوت دیتی ہے ۔

کہیں ایسا نہ ہو کہ انسان لا شعوری طور پر حب دنیا کا شکار ہو جائے لہٰذا لذائذ دنیاسے ہو شیار رہنا چاہئے کیونکہ عین ممکن ہے کہ یہ لذتین اسے اسکے مقصد سے دور کردیں ۔

۵۔کبھی ہمیں روایات میں ایسی بات بھی نظر آتی ہے کہ جو مذ کور ہ وضاحتوں سے الگ ہے جیسا کہ مولا ئے کائنات حضرت علی نے جناب محمدبن ابی بکر کو مصر کا حاکم مقرر کرتے وقت (عہد نامہ میں)ان کے لئے یہ تحریر فرما یاتھا:

(واعلمواعبادﷲأن المتّقین ذهبوا بعاجل الدنیا وآجل الآخرة ،۔۔۔)( ۱ )

''بندگان خدا !یا د رکھو کہ پرہیزگار افراد دنیا اور آخرت کے فوائد لے کرآگے بڑھ گئے ۔وہ اہل دنیا کے ساتھ ان کی دنیا میں شریک رہے لیکن اہل دنیا ان کی آخرت میں شریک نہ ہوسکے۔وہ دنیا میں بہترین انداز سے زندگی گذار تے رہے جو سب نے کھایا اس سے اچھاپاکیزہ کھانا کھایااور وہ تمام لذتیںحاصل کرلیں جو عیش پرست حاصل کرتے ہیں اور وہ سب کچھ پالیا جو جابراور متکبر افراد کے حصہ میں آتا ہے ۔اسکے بعد وہ زادراہ لے کر گئے جو منزل تک پہونچادے اور وہ تجارت کرکے گئے

____________________

(۱)نہج البلا غہ مکتوب ۲۷۔

۲۲۵

جس میں فائدہ ہو۔دنیا میں رہ کر دنیا کی لذت حاصل کی اور یقین رکھے رہے کہ آخرت میں پروردگار کے جوار رحمت میں ہوںگے۔جہاں نہ ان کی آواز ٹھکرائی جائے گی اور نہ کسی لذت میں ان کے حصہ میں کوئی کمی ہوگی''

ان جملات میں متقین اور غیر متقین کا مواز نہ کیا گیا ہے جبکہ جن روایات کا ہم تجز یہ پیش کررہے تھے انمیں درجات متقین کا مو از نہ ہے،نہ کہ متقین اور غیر متقین کا!ظا ہر ہے کہ یہ دو نوں الگ ا لگ چیزیں ہیں لہٰذا ان دو نوں کا حکم بھی الگ ہو گا ۔

۲۲۶

با طن بیں نگاہ

دنیا کے بارے میں سر سری اور سطحی نگاہ سے ہٹ کر ہم دنیا پر زیادہ گہرائی اور سنجیدگی کے سا تھ نظر کر سکتے ہیں ۔جسے ہم (الرؤ یة النافذة) کا نام دے سکتے ہیں اس رویت میں ہم دنیا کے ظاہر سے بڑ ھ کر اس کے با طن کا نظارہ کر سکتے ہیں ۔ جس سے ہمیں معلوم ہوگا کہ دنیا کا ظا ہراگر حبّ دنیا کی طرف لے جا تا ہے اور انسان کو فر یب دیتا ہے تو اس کے بر خلا ف دنیا کا باطن انسان کو زہداور دنیا سے کنارہ کشی کی دعوت دیتا ہے ۔باطن بیں نگاہ ظا ہر سے بڑھکر دنیا کی اندرو نی حقیقت کو عیاں کر کے یہ بتا تی ہے کہ متاع دنیا بہر حال فنا ہو جا نے والی ہے نیز یہ کہ انسان کا دنیا میں انجام کیا ہو گا ؟ یوں انسان خو د بخود زہدا ختیار کر لیتا ہے ۔

روایات میںکثرت سے یہ تا کید کی گئی ہے کہ دنیا کو اس (نظر) سے دیکھنا چا ہئے، انسان مو ت کی طرف متو جہ رہے اورہمیشہ مو ت کو یاد رکھے، طویل آرزووں اور مو ت کی طرف سے غا فل ہو نے سے منع کیا گیاہے ۔

مو ت در اصل اس با طنی دنیا کا چہرہ ہے جس سے انسان فرار کرکے موت کو بھلا نا چا ہتا ہے چنا نچہ روایت میں وارد ہو ا ہے کہ (موت سے بڑھ کر کو ئی یقین ، شک سے مشا بہ نہیں ہے ) اس لئے کہ موت یقینی ہے ،اسمیں شک و شبہ کی گنجائش نہیں اس کے با وجود انسان اس سے گر یزاں ہے

۲۲۷

اور اسے بھلا ئے رکھنا چا ہتا ہے ۔

حا لا نکہ روایات میں اس کے با لکل بر عکس نظر آتا ہے امام محمد با قر کا ارشاد ہے:

(أکثروا ذکرالموت، فانه لم یُکثرالانسان ذکرالموت الازهد فی الدنیا )( ۱ )

'' مو ت کو کثرت سے یا د کرو کیو نکہ انسان جتنا کثرت سے موت کو یا د کر تا ہے اس کے زہد میں اتنا ہی اضا فہ ہو تا ہے''

امیر امو منین حضرت علی کا ار شاد گر امی ہے :

(من صوّرالموتَ بین عینیه هان أمرالدنیا علیه )( ۲ )

''جس کی نگا ہوں کے سا منے مو ت ہو تی ہے دنیا کا مسئلہ اس کے لئے آسان ہو تا ہے''

آپ ہی کا ار شاد ہے :

(أحقّ الناس بالزهادة من عرف نقص الدنیا )( ۳ )

''جو دنیا کے نقائص سے آگاہ ہے وہ زہد کا زیادہ حقدار ہے ''

امام مو سیٰ کا ظم کا ارشاد ہے:

(ان العقلاء زهدوا فی الدنیا،ورغبوا فی الآخرة ۔۔۔)( ۴ )

''بے شک صاحبان عقل دنیا میں زاہد اور آخرت کی جا نب راغب ہو تے ہیں انھیں معلوم ہے کہ دنیا طالب بھی ہے مطلوب بھی ،اسی طرح آخرت بھی طالب اور مطلوب ہو تی ہے ۔جو آخرت کا طلبگار ہو تا ہے اسے دنیا طلب کرتی ہے اور اپنا حصہ لے لیتی ہے ۔جو دنیا کا طلبگار ہو تا ہے آخرت اس

____________________

(۱) بحارالانوار ج۷۳ص۶۴۔

(۲)غرر الحکم ج۲ص۲۰۱۔

(۳) غرر الحکم ج۱ص۱۹۹۔

(۴)بحارالانوار ج ۷۸ ص ۳۰۱۔

۲۲۸

کی طالب ہو تی ہے پھر جب مو ت آتی ہے تو اس کی دنیا و آخرت دونوں خراب ہو جا تی ہیں ''

روا یت میں ہے کہ امام مو سی ٰ کا ظم ایک جنا زہ کے سر ہا نے تشریف لا ئے تو فر ما یا:

(ان شیئاً هذا أوّله لحقیق أن یُخاف آخره )( ۱ )

''جس چیز کا آ غازیہ (مر دہ لاش )ہو اس کے انجام کا خوف حق بجا نب ہے ''

ان روا یات میں ذکر مو ت اور زہد کے در میان واضح تعلق نظر آ تا ہے بالفاظ دیگران روایات میںنظر یہ یاتھیوری اورپریکٹیکل کے در میان تعلق کو ظاہر کیا گیا ہے کیونکہ موت کا ذکر اور اسے یاد رکھنا ایک قسم کا نظر یہ اور تھیوری ہے اور زھد اس نظریہ کے مطابق راہ وردش یاپر یکٹیکل کی حیثیت رکھتا ہے امیر المو منین حضرت علی لوگوں کو دنیا کے بارے میں صحیح اور حقیقی نظریہ سے روشناس کراتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :

(کونواعن الدنیا نُزّاها،والیٰ الآخرة ولّاهاولاتشیموا بٰارقها،ولا تسمعواناطقها،ولاتجیبواناعقها،ولاتستضیئواباشراقها،ولاتفتنواباعلاقها،فن برقهاخالب،ونطقهاکاذب ،واموالها محروبة،واعلاقها مسلوبة )( ۲ )

''دنیا سے پاکیزگی اختیار کرو اور آخرت کے عاشق بن جائو۔۔۔ اس دنیا کے چمکنے والے بادل پر نظر نہ کرو اور اسکے ترجمان کی بات مت سنو ،اسکے منادی کی بات پر لبیک مت کہو اور اسکی چمک د مک سے روشنی مت حاصل کرو اور اسکی قیمتی چیزوں پر جان مت دو اس لئے کہ اسکی بجلی فقط چمک دمک ہے اور اسکی باتیں سراسر غلط ہیں اسکے اموال لٹنے والے ہیں اور اسکا سامان چھننے والا ہے ''

آپ ہی کاارشاد گرامی ہے:

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۸ ص۳۲۰ ۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۱ ۔

۲۲۹

(وأخرجوا من الدنیا قلوبکم من قبل ان تخرج منها ابدانکم )( ۱ )

''دنیا سے اپنے دلوں کو نکال لو قبل اس کے کہ تمہارے بدن دنیا سے نکالے جائیں ''

دنیا سے دل نکال لینے کا مطلب ،دنیا سے قطع تعلق کرنا ہے جسے ہم (ارادی اور اختیاری موت)کا نام دے سکتے ہیں اس کے بالمقابل( قہری اور غیر اختیاری موت )ہے جسمیں ہمارے بدن دنیا سے نکالے جائیں گے ۔امام نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم قہری موت سے پہلے ارادی موت اختیارکرلیں اور دنیا سے قطع تعلق کا ہی دوسرا نام ''زہد''ہے ۔۔۔دنیا کے باطن کو دیکھنے والی نظر اور زہد سے اسکے رابطہ کو سمجھنے کے لئے خود زہد کے بارے میںجاننااور گفتگوکرنا ضروری ہے ۔

زہد

زہد،حب دنیا کے مقابل حالت ہے ۔طور وطریقہ اور سلوک کی یہ دونوں حالتیں دو الگ الگ نظریوں سے پیداہوتی ہیں ۔

حب دنیا کی کیفیت اس وقت نمودار ہوتی ہے کہ جب انسان دنیا کے فقط ظاہرپر نظر رکھتا ہے اس کے بر خلاف اگر انسان کی نظر دنیا کے باطن کو بھی دیکھ رہی ہے تو اس سے زہد کی کیفیت جنم لیتی ہے ۔

چونکہ حب دنیا کا مطلب دنیا سے تعلق رکھنا ہے اور زہد اس کے مقابل کیفیت کا نام ہے تو زہد کا مطلب ہوگا دنیا سے آزاد البتہ اس کے معنی کی وضاحت ضروری ہے ۔حب دنیا کے مفہوم کو سمیٹ کر دو لفظوں میںیوں بیان کیا جاسکتا ہے :

۱۔فرحت ومسرت

۲۔حزن وملال

حب دنیا کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان کولذائذ دنیا میں جب کچھ بھی نصیب ہو تا ہے تووہ خوش

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۴۔

۲۳۰

ہوجاتا ہے اور جب وہ کسی نعمت سے محروم رہتا ہے یااس سے کوئی نعمت چھن جاتی ہے تووہ محزون ہوجاتاہے چونکہ زہد حب دنیا کے مقابل کیفیت کا نام ہے لہٰذا زہد کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ انسان دنیا سے اتنا آزاداور بے پرواہ ہوکہ دنیا میں سب کچھ مل جانے پربھی خوشی محسوس نہ کرے اور کچھ بھی نہ ملنے پر مغموم و محزون نہ ہو ۔

خدا وند عالم فر ماتا ہے :

(۔۔۔لکیلا تحزنوا علیٰ مافاتکم ولامااصابکم ۔۔۔)( ۱ )

''۔۔۔تاکہ تم نہ اس پر رنجیدہ ہو جو چیز ہاتھ سے نکل گئی ہے اور نہ اس مصیبت پر جو نازل ہوگئی ہے ۔۔۔''

دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے :

(۔۔۔لکیلا تاسوا علیٰ مافاتکم ولا تفرحوا بماآتاکم ۔۔۔)( ۲ )

''تاکہ جو تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اسکا افسوس نہ کرو اور جو مل جائے اس پر غروراور فخر نہ کرو ۔۔۔''

امیر المو منین حضرت علی سے مروی ہے :

(الزهدکله فی کلمتین من القرآن )

''پورا زہد قرآن کے دو لفظوں میں سمٹا ہوا ہے جیسا کہ خدا کا ارشاد ہے :

(لکیلا تأسواعلیٰ مافاتکم )( ۳ )

''تاکہ جو تمہارے ہاتھ سے نکل گیا ہے اسکا افسوس نہ کرو''

____________________

(۱)سورئہ آل عمران آیت ۱۵۳۔

(۲)سورئہ حدید آیت۲۳۔

(۳)سورئہ حدید آیت ۲۳۔

۲۳۱

(فمن لم یأس علی الماضی ولم یفرح بالآ تی فهوالزاهد )( ۱ )

جو انسان ماضی پرافسوس نہ کرے اور ہاتھ آجانے والی چیز پر خوش نہ ہووہ زاہد ہے ''

ایک دوسرے مقام پر آپ سے روایت ہے :

''الزهدکلمة بین کلمتین من القرآن قال اللّٰه:(لکیلا تأسوا)فمن لم یأس علیٰ الماضی،ولم یفرح بالآ تی،فقد اخذ الزهد بطرفیه ''( ۲ )

''زہد قرآن کے دو لفظوں کا مجمو عہ ہے خدا وند عالم فر ماتا ہے :

(لکیلا تأسوا ۔۔۔)''تاکہ جو تمہارے ہاتھ سے نکل گیا ہے اسکا افسوس نہ کرو''

لہٰذاجو انسان ماضی پر افسوس نہ کرے اور ہاتھ آجانے والی چیز پر خوش نہ ہو اس نے پورا زہد حاصل کرلیا ہے ''

امیرالمو منین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(من اصبح علی الدنیا حزیناً،فقد أصبح لقضاء اللّٰه ساخطاً،ومن لهج قلبه بحب الدنیاالتاط قبله منها بثلاث:همّ لایُغِبُّه،وحرص لایترکه،وأمل لایدرکه )( ۳ )

''جو دنیا کے بارے میں محزون ہو گا وہ قضا و قدر الٰہی سے ناراض ہو گا جس کا دل محبت دنیا کا دلدادہ ہوجائے اسکے دل میں یہ تین چیزیں پیوست ہوجاتی ہیں وہ غم جو اس سے جدا نہیں ہوتا ہے ،وہ لالچ جو اسکا پیچھا نہیں چھوڑتی ہے وہ امید جسے وہ کبھی حاصل نہیں کرسکتا ہے ''

یہ بھی حزن و فر حت سے آزادی کا ایک رخ ہے کہ دنیا کے بارے میں حزن وملال ،قضا وقدر الٰہی سے ناراضگی کے باعث ہوتا ہے اس لئے کہ انسان دنیا میں جن چیزوں سے بھی محروم ہوتا

____________________

(۱)بحا ر الانوار ج ۷۸ ص ۷۰۔

(۲)بحارالانوار ج ۷۰ ص ۳۲۔

(۳)نہج البلاغہ حکمت ۲۲۸۔

۲۳۲

ہے وہ در حقیقت قضا وقدر الٰہی کے تحت ہی ہوتا ہے نیز حب دنیا انسان میں تین صفتیں پیدا کرتی ہے ہم وغم ،حرص وطمع، آرزو۔ اس طرح وہ انسان کو ظلم وستم اور عذاب کے پنجوں میں جکڑدیتی ہے ۔

امیر المومنین حضرت علی سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :

(ایهاالناس انماالدنیا ثلا ثة:زاهدوراغب وصابر،فأماالزاهدفلا یفرح بشیٔ من الدنیا أتاه،ولایحزن علیٰ شیٔ منها فاته وامّاالصابرفیتمنّاها بقلبه،فان ادرک منهاشیئاصرف عنها نفسه،لما یعلم من سوء عاقبتها وامّا الراغب فلایبالی من حِلٍّ اصابها أم من حرام )( ۱ )

''اے لوگو: دنیا کے افرادتین قسم کے ہیں :۱۔زاہد ۲۔صابر ۳۔راغب

۱۔زاہد وہ ہے جو کسی بھی چیز کے مل جانے سے خوش یا کسی بھی شے کے نہ ملنے سے محزون نہیں ہوتا ۔صابر وہ ہے جو دل ہی دل میں دنیا کی تمنا تو کرتا ہے لیکن اگر اسے دنیا مل جاتی ہے تو چونکہ اسکے برے انجام سے واقف ہے لہٰذا اپنامنھ اس سے پھیر لیتا ہے اور راغب وہ ہے کہ جسے یہ پروا نہیں ہے کہ اسے دنیا حلال راستہ سے مل رہی ہے یا حرام راستہ سے ''

زہدکے معنی ،لوگوں کی تین قسموںاور ان قسموں پر زاہد ین کی تقسیم کے سلسلہ میں یہ حدیث عالی ترین مطالب کی حامل ہے ۔اسکے مطابق لوگوں کی تین قسمیں ہیں :

زاہد ،صابر اور راغب۔

زاہد وہ ہے کہ جو دنیا اور اسکی فرحت وملال سے آزاد ہو۔

صابر وہ ہے کہ جو ان چیزوں سے آزاد تو نہیں ہے مگر حب دنیا ،دنیاوی فرحت ومسرت اور حزن وملال سے نجات پانے کے لئے کوشاںہے ۔

____________________

(۱)بحارالانوار ج۱ص۱۲۱۔

۲۳۳

راغب وہ ہے کہ جو دنیا کا اسیر اور اسکی فرحت ومسرت اور حزن و ملال کے آگے سرتسلیم خم کئے ہوئے ہے۔

ان میں پہلا اور تیسراگروہ ایک دوسرے کے بالکل مقابل ہے کہ ایک مکمل طریقہ سے آزاد اور دوسراہر اعتبار سے مطیع و اسیرجبکہ تیسرا گروہ درمیانی ہے ۔

امیر المومنین حضرت علی لوگوں کو اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی فرحت و ملال کا رخ دنیا سے آخرت کی جانب موڑدیں یہی بہترین چیز ہے کیونکہ اگر ہماری کیفیت یہ ہوکہ ہم اطاعت خدا کرکے خوشی محسوس کریں اور اطاعت سے محرومی پر محزون ہوں تو یہ بہترین بات ہے اس لئے کہ اس خوشی اورغم کا تعلق آخرت سے ہے ۔

مولائے کائنات حضرت علی، ا بن عباس کے نام اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں:

''اما بعد !انسان کبھی کبھی ایسی چیز کو پاکر بھی خوش ہوجاتا ہے جو ہاتھ سے جانے والی نہیںتھی اور ایسی چیز کو کھوکر رنجیدہ ہوجاتا ہے جو ملنے والی نہیں تھی لہٰذا خبر دار تمہارے لئے دنیا کی سب سے بڑی نعمت، کسی لذت کا حصول یا جذبۂ انتقام ہی نہ بن جائے بلکہ بہترین نعمت باطل کو مٹانے اور حق کو زندہ کرنے کو سمجھو اور تمہیں ان اعمال سے خوشی ہو جنہیں پہلے بھیج دیا ہے اور تمہارا افسوس ان امور پر ہو جنہیں چھوڑکر چلے گئے ہو اور تمام تر فکر موت کے مرحلہ کے بارے میں ہونی چاہئیے''( ۱ )

زہد،تمام نیکیوں کا سرچشمہ

جس طرح حیات انسانی میں حب دنیا تمام برائیوں کی جڑہے اسی طرح تمام نیکیوں اور اچھائیوں کا سرچشمہ ''زہد''ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حب دنیا انسان کو دنیا اور اسکی خواہشات کا اسیر بنادیتی ہے اور دنیا خود تمام برائیوں اور پستیوں کی بنیاد ہے لہٰذا حب دنیابھی انسان کو برائیوںاور

____________________

(۱)نہج البلاغہ مکتوب ۶۶۔

۲۳۴

پستیوں کی طرف لے جاتی ہے جبکہ زہد کا مطلب ہے دنیااور خواہشات دنیا سے آزاد ہونا اور جب انسان برائیوں کی طرف لے جانے والی دنیا سے آزاد ہوگا تو اسکی زندگی خود بخود نیکیوں اور اچھائیوں کا سرچشمہ بن جائے گی ۔

روایات معصومین میں اس چیز کی طرف متعدد مقامات پر مختلف اندازسے اشارہ کیا گیا ہے بطور نمونہ ہم یہاں چند احادیث پیش کر رہے ہیں۔

امام صادق کا ارشاد ہے:

(جُعل الخیرکله فی بیت وجُعل مفتاحه الزهد فی الدنیا )( ۱ )

''تمام نیکیاں ایک گھر میں قرار دی گئی ہیں اور اسکی کنجی دنیا کے سلسلہ میں زہد اختیار کرنا ہے ''

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(الزهد أصل الدین )( ۲ )

''دین کی اصل، زہد ہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الزهد اساس الدین )( ۳ )

''دین کی اساس اور بنیاد، زہد ہے ''

امام جعفر صادق کا ارشاد ہے :

(الزهد مفتاح باب الآخرة،والبرا ئة من النار،وهو ترکک کل شیٔ

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ص۴۹۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۲۹۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۳۰۔

۲۳۵

یشغلک عن اللّٰه من غیرتأسف علیٰ فوتها ولا أعجاب فی ترکها،ولاانتظارفرج منها،ولاطلب محمدة علیها،ولاعوض منهابل تریٰ فواتهاراحة،وکونهاآفة،وتکون أبداً هارباً من الآفة،معتصماً بالراحة )( ۱ )

''زہد،باب آخرت کی کنجی اورجہنم سے نجات کا پروانہ ہے ۔زہد کا مطلب یہ ہے کہ تم ہراس چیز کو ترک کردو جو تمہیں یاد خدا سے غافل کردے اور تمہیں اسکے چھوٹ جانے کا نہ کوئی افسوس ہو اور نہ اسے ترک کرنے میں کوئی زحمت ہو ۔اس کے ذریعہ تمہاری کشادگی کی توقع نہ ہو،نہ ہی اس پر تعریف کی امید رکھو، نہ اسکا بدلہ چاہو بلکہ اسکے فوت ہوجانے میں ہی راحت اور اسکی موجود گی کو آفت سمجھوایسی صورت میں تم ہمیشہ آفت سے دوراورراحت وآرام کے حصارمیںرہو گے''

حضرت علی نے فرمایا ہے :

(الزهد مفتاح الصلاح )( ۲ )

''زہد صلاح کی کنجی ہے ''

زہد کے آثار

حیات انسانی میں زہد کے بہت عظیم آثار و نتائج پائے جاتے ہیں جنہیں زاہد کے نفس اور اسکے طرز زندگی میں بخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے ۔

۱۔آرزووں میں کمی

حب دنیا کا نتیجہ آرزووں کی کثرت ہے اور زہد کا نتیجہ آرزووں میں کمی۔ جب انسان کا تعلق دنیا سے کم ہو اوروہ خواہشات دنیا سے آزاد ہوتو طبیعی طور پر اسکی آرزوئیں بھی مختصر ہوںگی وہ دنیا میں

____________________

(۱) بحا ر الا نو ا ر ج ۰ ۷ ص۳۱۵۔

(۲)غررالحکم ص۹۹،۳۷۔۸۔

۲۳۶

زندگی بسر کرے گا متاع زندگانی اوردنیاوی لذتوںسے استفادہ کرے گا لیکن ہمیشہ موت کو بھی یاد رکھے گا اور اسی طرح یہ بات بھی اسکے پیش نظر رہے گی کہ ان چیز وں کا سلسلہ کسی بھی وقت اچانک ختم ہوجائے گا۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد ہے :

(من یرغب فی الدنیا فطال فیها أمله،أعمیٰ ﷲ قلبه علیٰ قدررغبته فیها، ومن زهد فیها فقصرفیهاأمله،أعطاه ﷲعلماًبغیرتعلّم،وهدیً بغیرهدایة،وأذهب عنه العمائ،وجعله بصیرا )( ۱ )

''جو شخص دنیا کی طرف راغب ہوتاہے اسکی آرزوئیں طولانی ہوتی ہیں اور دنیا کی طرف اسکی رغبت کے مطابق ﷲ اسکے قلب کو اندھا کردیتاہے اور جو دنیا میں زاہد ہوتاہے اسکی آرزوئیں مختصر ہوتی ہیں اور ﷲ اسے تعلیم کے بغیر علم اوراسباب ہدایت کے بغیر ہدایت عطا کرتاہے۔اوراس سے اندھے پن کو دور کرکے اسکو بصیر بنا دیتاہے ''

اس روایت سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ زہد ،سے آرزوئیںکم ہوجاتی ہیں اور اس کمی سے بصیرت اورہدایت ملتی ہے اسکے برعکس دنیا کی جانب رغبت سے آرزووں میں کثرت پیدا ہوتی ہے اور یہ کثرت اندھے پن کا سبب ہے تو آخر آرزووں کی قلت اور بصیرت کے درمیان کیا تعلق ہے ؟

اسکا راز یہ ہے کہ طویل آرزوئیںانسان کو دنیا میں اس طرح جکڑدیتی ہیں کہ انسان اس سے بیحدمحبت کرنے لگتا ہے اوردنیاکی محبت ا انسان اور خدا کے درمیان حجاب بن جاتی ہے اور جب آرزوئیں مختصر ہوتی ہیں تو یہ حجاب اٹھ جاتا ہے۔اور ظاہر ہے کہ جب قلب کے حجابات دور ہوجائیں گے تواس میں بصیرت پیدا ہوجائے گی ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۷ص۲۶۳۔

۲۳۷

(الزهد فی الدنیا قصرالأمل،وشکرکل نعمة،والورع عن کل ماحرّم ﷲ )( ۱ )

''دنیا میں زہد کا مطلب یہ ہے کہ آرزوئیں قلیل ہوں،ہر نعمت کا شکر ادا کیا جائے اور محرمات الٰہی سے پرہیز کیا جائے''

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(الزهد تقصیرالآمال،واخلاص الاعمال )( ۲ )

''آرزووںمیںکمی اور اعمال میں خلوص کا نام زہد ہے ''

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے :

(أیهاالناس،الزهادة قصرالأمل،والشکرعندالنعم،والتورع عندالمحارم،فانْ عزب ذلک عنکم،فلایغلب الحرام صبرکم،ولاتنسواعندالنعم شکرکم،فقدأعذرﷲالیکم بحججٍ مسفرةظاهرة،وکتبٍ بارزةالعذرواضحة )( ۳ )

''اے لوگوں:زہد امیدوں کے کم کرنے ،نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے اور محرمات سے پرہیز کرنے کا نام ہے ۔اب اگر یہ کام تمہارے لئے مشکل ہوجائے تو کم ازکم اتنا کرناکہ حرام تمہاری قوت برداشت پر غالب نہ آنے پائے اور نعمتوں کے موقع پر شکر کو فراموش نہ کردینا کہ پروردگار نے نہایت درجہ واضح اور روشن دلیلوں اور حجت تمام کرنے والی کتابوں کے ذریعہ تمہارے ہر عذر کا خاتمہ کردیا ہے ''

۲۔دنیاوی تاثرات سے نجات اورآزادی

دنیاوی نعمتیں ملنے سے نہ انسان خوشی محسوس کرے گا اور نہ ان سے محرومی پر محزون ہوگا ۔

امیرالمومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

____________________

(۱)بحارالانوارج۷۷ص۱۶۶۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۹۳۔

(۳)نہج البلاغہ خطبہ ۸۱۔

۲۳۸

(فمن لم یأس علیٰ الماضی،ولم یفرح بالآ تی فقد أخذ الزهد بطرفیه )( ۱ )

''جو شخص ماضی پر افسوس نہ کرے اور ہاتھ آنے والی چیزوں سے مغرور نہ ہوجائے اس نے سارا زہدسمیٹ لیا ہے ''

امیر المومنین کے ہر کلام کی مانند حیات انسانی میں زہد کے نتائج کے بارے میں شاہکار کلام پایا جاتا ہے ہم یہاں اس کلام کو نہج البلاغہ سے نقل کر رہے ہیں ۔''اپنے کانوں کو موت کی آواز سنادو قبل اسکے کہ تمہیں بلالیاجائے دنیا میں زاہدوں کی شان یہی ہوتی ہے کہ وہ خوش بھی ہوتے ہیں تو ان کا دل روتا رہتاہے اور وہ ہنستے بھی ہیںتوان کا رنج و اندوہ شدیدہوتاہے۔وہ خود اپنے نفس سے بیزاررہتے ہیںچاہے لوگ ان کے رزق سے غبطہ ہی کیوں نہ کریں ۔افسوس تمہارے دلوں سے موت کی یاد نکل گئی ہے اور جھوٹی امیدوں نے ان پر قبضہ کرلیا ہے۔اب دنیا کا اختیار تمہارے اوپر آخرت سے زیادہ ہے اور وہ عاقبت سے زیادہ تمہیں کھینچ رہی ہے ۔تم دین خدا کے اعتبار سے بھائی بھائی تھے۔ لیکن تمہیں باطن کی خباثت اور ضمیر کی خرابی نے الگ الگ کردیا ہے کہ اب نہ کسی کا بوجھ بٹاتے ہو۔نہ نصیحت کرتے ہو۔نہ ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہواور نہ ایک دوسرے سے واقعاًمحبت کرتے ہو۔آخر تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ معمولی سی دنیا کو پاکر خوش ہوجاتے ہو اور مکمل آخرت سے محروم ہوکر رنجیدہ نہیں ہوتے ہو۔تھوڑی سی دنیا ہاتھ سے نکل جائے تو پریشان ہوجاتے ہو اور اسکا اثر تمہارے چہروں سے ظاہر ہوجاتاہے اور اس کی علیٰحدگی پر صبر نہیں کرپاتے ہو جیسے وہی تمہاری منزل ہے اور جیسے اس کا سرمایہ واقعی باقی رہنے والا ہے۔تمہاری حالت یہ ہے کہ کوئی شخص بھی دوسرے کے عیب کے اظہارسے باز نہیں آتا ہے مگر صرف اس خوف سے کہ وہ بھی اسی طرح پیش آئے گا ۔تم سب نے آخرت کو نظر انداز کرنے اور دنیا کی محبت پر اتحاد کرلیاہے اور ہر ایک کا دین زبان کی چٹنی بن کر رہ گیا

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۰ص۳۲۰،نہج البلاغہ حکمت ۴۳۹۔

۲۳۹

ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ جیسے سب نے اپنا عمل مکمل کرلیا ہے اور اپنے مالک کو واقعا خوش کرلیا ہے۔''( ۱ )

۳۔دنیاپرعدم اعتماد

انسانی نفس کے اوپر زہد کے آثار میں سے ایک اثریہ بھی ہوتا ہے کہ زاہد کبھی بھی دنیا پر اعتماد نہیں کرتا ۔انسان جب دنیا سے محبت کرنے لگتا ہے اور اس کا نفس دنیا میں الجھ جاتا ہے تو وہ دنیا پر بھروسہ کرتا ہے اوردنیا کو ہی اپناٹھکانہ اوردائمی قیام گا ہ مان لیتا ہے لیکن جب انسان کے اندر زہد کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اوروہ اپنے دل سے حب دنیا کونکال دیتا ہے تو پھراسے دنیا پر اعتبار بھی نہیں رہ جاتا اور وہ دنیا کو محض ایک گذرگاہ اور آخرت کے لئے ایک پُل تصور کرتاہے ۔

دنیا کے بارے میں لوگوں کے درمیان دو طرح کے تصورات پائے جاتے ہیں ۔کچھ افراد دنیا کو قیام گاہ مان کر اس سے دل لگالیتے ہیں اور کچھ لوگ دنیا کو گذر گاہ اور آخرت کے لئے ایک پل سمجھ کر اس سے دل نہیں لگاتے ۔دو نوںقسم کے افراد اسی دنیا میں رہتے ہیں اورخدا کی نعمتوں سے استفادہ کرتے ہیں مگر ان کے درمیان فر ق یہ ہے کہ پہلے گروہ کامنظور نظر خود دنیا ہوتی ہے اور وہ اسی کو سب کچھ مانتے ہیں یہاںتک کہ موت ان سے دنیا کو الگ کردیتی ہے۔ دوسرا گروہ وہ ہے کہ جو دنیا کو سب کچھ سمجھ کر اس سے دل نہیں لگاتا بلکہ اسے گذر گاہ اور پل کی حیثیت سے دیکھتا ہے لہٰذا جب موت آتی ہے تو دنیا کی مفارقت ان پر گراں نہیں گذرتی ہے۔

دنیا میں انسان کی حالت او راس میں اسکے قیام کی مدت کو روایات میں بہترین مثالوں کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے ایک مثال کے بموجب دنیامیں انسان کا قیام ایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی سوار راستہ میںسورج کی گرمی سے پریشان ہوکر کسی سایہ داردرخت کے نیچے بیٹھ جاتا ہے اور تھوڑی دیر آرام کے بعد پھر اپنے کام کے لئے چل پڑتا ہے ۔ کیا ایسی صورت میں دنیا کو اپنا ٹھکانہ، دائمی قیام گاہ سمجھنا اور

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۱۱۳

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

فہرست منابع

١۔ ابصار العین فی انصا ر الحسین ،شیخ محمد بن شیخ طاہر سماوی نجفی، طبع نجف

٢۔ الارشاد لمعرفةحجج اللہ علی العباد،محمد بن محمد بن نعمان العکبر ی بغدادی ابن المعلم معروف بہ شیخ مفید، متوفی٤١٣ھ، طبع نجف

٣ ۔اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ،شیخ عزالدین ابن اثیر جزری موصلی، متوفی ساتویں صدی ہجری

٤۔ الاصابہ فی تمیز صحابہ،ابن حجر عسقلانی فلسطینی ،نویں صدی ہجری

٥۔ الاعلام،خیر الدین زر کلی

٦۔ اعلام الوری با لا علام الھدی ،فضل بن حسن طبرسی، متوفی ٥٤٨ھ ق

٧۔ الاغانی ، ابوالفرج اصفہانی

٨۔ امالی شیخ صدوق ، محمد بن علی بن الحسین بن بابویہ قمی، متوفی ٣٨١ ھ، طبع بیروت

٩۔ بصائر الدرجات، محمد بن حسن صفار قمی

١٠۔ تاریخ امم والرسل والملوک (معروف بہ تاریخ طبری) ،ابو جعفر محمد بن جریر طبری، متوفی٣١٠ھ، طبع دارالمعارف قاہرہ

١١۔ تاریخ یعقوبی ، احمد بن واضح بن یعقوب، متوفی ٢٨٤،طبع نجف

١٢۔ تاسیس الشیعة الکرام لعلوم الاسلام ، سید محمد حسن صدر کاظمینی، طبع بغداد

١٣۔ تذکرة الحفاظ، ذہبی ، ابو عبداللہ محمدبن احمد بن عثمان قایماز تر کمانی، متوفی ٧٤٨ھ

١٤۔ تذکرة خواص الامة بخصائص الائمة(معروف بہ تذکرة الخواص) ،سبط بن جوزی حنبلی، متوفی ساتویں صدی ہجری، طبع نجف

١٥۔تفصیل وسائل الشیعہ الی تحصیل مسائل ا لشریعة،محمدبن حسن حر عاملی ، متوفی ١١٠٤ھ ق

١٦۔تقریب التہذیب،ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی مصری شافعی، ٨٥٢ ھ

١٧۔ تنزیہ الانبیائ، محمدبن علی بن حسین موسوی بغدادی معروف بہ سید مرتضیٰ، متوفی ٤٣٦ ،طبع بغداد، آفسٹ بصیرتی

١٨۔ تنقیح المقال ،شیخ عبداللہ مامقانی، طبع نجف

١٩ ۔ تہذیب التہذیب،ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، متوفی ٨٥٢ ھ

۴۲۱

٢٠۔ جامع الرواة وازاحة الاشتباھات عن الطریق و الاسناد، محمد بن علی اردبیلی غروی حائری

٢١۔ الجرح و التعدیل ،محمد بن ادریس رازی

٢٢۔ خصائص الحسینیہ ،شیخ جعفر بن حسین شوشتری

٢٣ ۔ الخلاصہ،محمد بن حسن بن یوسف بن مطہر اسدی حلی، طبع نجف

٢٤۔خصال،شیخ صدوق، محمد بن علی ،متوفی ٣٨١

٢٥ ۔ خلاصة تذھیب تہذیب الکمال

٢٦۔الدلایل والمسائل،ھبة الدین شہرستانی، ١٩٦٧م

٢٧۔ ذیل المذیل ،ابو جعفر محمد بن جریر طبری، متوفی ٣١٠ ھ تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، طبع آستانہ

٢٨۔رجال الشیخ،شیخ ابو جعفرمحمد بن حسن بن علی طوسی خراسانی، متوفی ٤٦٠ ھ، طبع نجف

٢٩۔ رجال کشی (اختیار معرفة الر جال، اصل کتاب بنام معرفة الرجال شیخ کشی کی جو تیسری صدی ہجری کے عالم تھے اور اس کا اختیار شیخ طوسی کے رشحات قلم میں شمار ہوتا ہے)، طبع نجف

٣٠۔سیرة رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مشہور بہ سیرة النبی، عبدالملک بن ہشام ،متوفی٢١٣ق

٣١۔شرح نہج البلاغہ ،عز الدین عبدالحمید بن ابی الحدید مداینی بغدادی معتزلی شافعی ،متوفی٦٥٦ ،طبع قاہرہ مصر

٣٢۔الشیعہ و فنون الاسلام ،سید محمد حسن صدر کاظمینی، طبع قاہرہ ، مصر

٣٣۔ صحیح بخاری ، محمد بن اسماعیل بخاری ،متوفی ٢٥٦ ھ

٣٤۔ طبقات الکبری ، محمدبن سعید کاتب واقدی ،متوفی ٢٢٠

٣٥۔ عمدة الطالب فی انساب آل ابی طالب، احمد بن علی بن عنبہ، متوفی ٨٢٨ق

٣٦۔ فرج المہموم،علی بن موسیٰ بن جعفر بن طاووس حسنی حلی، متوفی ساتویں صدی ہجری، طبع نجف

٣٧۔ فوات الوفیات،محمدبن شاکر کتبی ، متوفی ٧٦٤ ھ

٣٨۔ الفہرست ، شیخ ابو جعفر محمد بن حسن بن علی طوسی خراسانی ،متوفی ٤٦٠ ھ، طبع نجف

۴۲۲

٣٩۔ فہرست لابن الندیم ،محمد بن اسحاق بن ندیم بغدادی، متوفی چوتھی صدی ہجری ،طبع رضا تجدد ،تہران

٤٠۔ فہرست اسماء مصنفی الشیعہ، احمد بن عباس نجاشی ،متوفی ٤٥٠ ھ، طبع حجر بمبئی، آفسٹ داوری

٤١۔ کافی، محمدبن یعقوب کلینی رازی ،متوفی ٣٢٩ ھ، طبع آخوندی

٤٢ ۔ کامل الزیارات ، ابو القاسم جعفر بن قولویہ ،متوفی چوتھی صدی ہجری، طبع حجر ،نجف

٤٣ ۔ الکامل فی التاریخ ، شیخ عزالدین ابن اثیر جزری موصلی ،ساتویں صدی ہجری

٤٤۔ الکتاب الکامل ،مبرد ابو العباس محمدبن یزید، متوفی حدود ٢٦٧ ھ

٤٥۔کشف الغمہ فی معرفة الائمہ،شیخ علی بن عیسیٰ اربلی بغدادی، متوفی ساتویں صدی ہجری ،طبع تبریز

٤٦۔ الکنی والالقاب ،شیخ عباس بن محمد رضا قمی، طبع نجف

٤٧۔ لسان العرب ، محمدبن مکرم بن منظور، ١١ ٧ق

٤٨ ۔ لسان المیزان ،سبط بن جوزی ،متوفی ٦٥٤ ھ

٤٩۔ مثیرا لاحزان،شیخ ابن نما حلی، متوفی٦٤٥ھ ،طبع نجف

٥٠۔ مجمع البحرین ،فخر الدین طریحی نجفی، متوفی ١١٥٠ ھ

٥١۔المراجعات،الامام عبدالحسین شرف الدین موسوی ،متوفی ١٣٧٠ ،طبع دار صادر ،لبنان، شہید حسن شیرازی کے مقدمہ کے ساتھ

٥٢۔ مرو ج الذھب،علی بن حسین مسعودی بغدادی ،متوفی ٣٥٦ ، تحقیق محمد محی الدین عبدالحمید، طبع قاہرہ ،مصر

٥٣۔مسند احمد،احمد بن حنبل ،متوفی ٢٤٠ ھ

٥٤۔مطالب السوأل فی مناقب آل الرسول،محمد بن طلحہ شافعی مصری ،طبع مصر

٥٥۔ المطبوع مع التاریخ

٥٦۔معالم العلمائ، محمد بن علی بن شہر آشوب حلبی ساروی مازندرانی، متوفی ٥٨٥ ھ،طبع نجف

٥٧۔ معجم البلدان ،یاقوت حموی ،متوفی پانچویں صدی ہجری

٥٨ ۔معجم مقاییس اللغة،ابو الحسن احمد بن فارس بن زکریا، متوفی ٣٩٥ھ

٥٩۔ المغنی، ابن قدامہ حنبلی

۴۲۳

٦٠۔مقاتل الطالبیین،ابو الفرج اصفہانی، طبع نجف

٦١ ۔ مقتل الحسین،ابو الموید موفق بن احمد خوارزمی، متوفی چھٹی صدی ہجری ،طبع نجف

٦٢۔ مقتل الحسین وحدیث کربلا ،سید عبدالرزاق موسوی مقرم نجفی، متوفی ١٣٩٠ ھ ،طبع سوم، آفسٹ بصیرتی

٦٣۔ مولفو االشیعہ فی صدر الاسلام،الامام عبدالحسین شرف الدین موسوی، متوفی ١٣٧٠ ھ، طبع صید، لبنان

٦٤۔ میزان الاعتدال،ذہبی ،متوفی پانچویں صدی ہجری ،طبع قاہرہ ،مصر

٦٥۔نفس المہموم، شیخ عباس بن محمد رضا قمی، طبع قم، بصیرتی

٦٦۔وقعة صفین، نصر بن مزاحم منقری تمیمی، متوفی ٢١٩ ھ، تحقیق ڈاکٹر عبد السلام ہارون، طبع قاہرہ مصر، آفسٹ بصیرتی

۴۲۴

فہرست

حرف آغاز ۴

گفتار مترجم ۷

مقد مۂ مو لف ۱۰

اسلام کا پہلا تاریخ نگار ۱۲

کربلا ۱۳

دوسری تاریخ ۱۴

قدیم ترین سند ۱۶

ابو مخنف ۱۸

طبری اور خاندان ابومخنف ۲۰

نصربن مزاحم اور خاندان ابومخنف ۲۲

ابومخنف کی کتابیں ۲۵

دواہم نکات ۲۷

مذہب ووثاقت ۲۸

ہشام الکلبی ۳۱

رائج مقتل الحسین ۳۳

واضح غلطیاں ۳۶

اسناد ابی مخنف ۴۲

راویوں کے اسماء ۴۲

پہلی فہرست ۴۳

۴۲۵

١۔ ثابت بن ہبیرہ : ۴۴

٢۔ یحٰی بن ہانی بن عروة المرادی المذحجی: ۴۴

٣۔ زہیربن عبدالرحمن بن زہیر خثعمی : ۴۵

دوسری فہرست ۴۵

١۔ عقبیٰ بن سمعان:(٢) ۴۵

٢۔ ہانی بن ثبیت حضرمی سکونی : ۴۵

٣۔حمید بن مسلم ازدی : ۴۶

روایات کی سند ۴۷

٤۔ضحاک بن عبداللہ مشرقی ہمدانی: ۴۹

٥۔ امام زین العابدین : ۴۹

٦۔ عمرو حضرمی : ۴۹

٧۔ غلام عبد الر حمن انصاری : ۴۹

٨۔ مسروق بن وائل حضرمی : ۵۰

٩۔ کیثر بن عبداللہ شعبی ہمدانی : ۵۰

١٠۔ زبیدی : ۵۱

١١۔ ایو ب بن مشر ح خیوانی: ۵۱

١٢۔ عفیف بن زہیر بن ا بی الاخنس : ۵۱

١٣۔ ربیع بن تمیم ہمدانی : ۵۱

١٤۔ عبداللہ بن عمار با رقی : ۵۲

١٥۔ قرة بن قیس حنظلی تمیمی : ۵۲

۴۲۶

تیسری فہرست ۵۳

١۔ ابو جناب یحٰی بن ابی حیہّ الوداعی کلبی : ۵۳

٢۔ جعفر بن حذیفہ طائی: ۵۴

٣۔ دلہم بنت عمرو : ۵۴

٤۔ عقبہ بن ابی العیزار : ۵۵

چو تھی فہرست ۵۵

١۔ ابو سعید دینار: ۵۵

٢۔عقبہ بن سمعان : ۵۶

٣۔محمد بن بشر ہمدانی : ۵۷

٤۔ ابو الودّاک جبربن نوف ہمدانی : ۵۸

٥۔ ابو عثمان نہدی : ۵۹

٦۔ عبداللہ بن خازم کثیری ازدی : ۶۰

٧۔ عباس بن جعدہ جُدلی : ۶۰

٨۔عبدالرحمن بن ابی عمیر ثقفی : ۶۰

٩۔ زائد ہ بن قدامہ ثقفی : ۶۰

١٠۔عمارہ بن عقبہ بن ابی معیط اموی: ۶۲

١١۔عمر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام مخزومی : ۶۲

١٢۔ عبداللہ اور مذری : ۶۳

١٣۔امام علی بن الحسین بن علی علیہماالسلام : ۶۳

١٤۔ بکر بن مصعب مزنی : ۶۳

۴۲۷

١٥۔ فزّاری : ۶۳

١٦۔ طرماح بن عدی : ۶۳

١٧۔ عامر بن شراحیل بن عبد الشعبی ہمدانی : ۶۴

١٨۔ حسان بن فائدبن ۶۵

١٩۔ ابوعمار ہ عبسی : ۶۶

٢٠۔قاسم بن بخیت : ۶۶

٢١۔'' ابو الکنودعبدالرحمن بن عبید'' : ۶۶

٢٢۔ فاطمہ بنت علی : ۶۶

پا نچویں فہرست ۶۷

١۔ عبد الملک بن نوفل بن عبداللہ بن مخرمہ: ۶۷

٢۔ ابو سعید عقیصا : ۶۸

٣۔ عبد الرحمن بن جندب ازدی : ۶۹

٤۔حجاج بن علی بارقی ہمدانی : ۶۹

٥۔ نمیر بن وعلة الہمدانی ینا عی : ۶۹

٦۔ صقعب بن زہیرازدی : ۷۰

٧۔ معلی بن کلیب ہمدانی : ۷۰

٨۔ یوسف بن یزید بن بکر ازدی : ۷۰

٩۔یونس بن ابی اسحاق : ۷۱

١٠۔ سلیمان بن راشدازدی : ۷۳

١١۔ مجالد بن سعید ہمدانی : ۷۳

۴۲۸

١٢۔ قدامہ بن سعید بن زائدہ بن قدامہ ثقفی : ۷۴

١٣۔ سعید بن مدرک بن عمارہ بن عقبہ بن ابی معیط اموی : ۷۵

١٤۔ ابو جناب یحٰی بن ابی حیہ وداعی کلبی : ۷۵

١٥۔ حارث بن کعب بن فقیم والبی ازدی کوفی : ۷۶

١٦ ۔ اسما عیل بن عبد الرحمن بن ابی کریمہ سدّی کو فی : ۷۷

١٧۔ ابو علی انصاری : ۷۷

١٨۔ لو ذان : ۷۷

١٩۔ جمیل بن مر ثدی غنوی : ۷۷

٢٠ ۔ ابو زہیر نضربن صالح بن حبیب عبسی : ۷۸

٢١۔ حارث بن حصیرہ ازدی : ۷۸

٢٢۔ عبداللہ بن عاصم فائشی ہمدانی : ۷۹

٢٣۔ ابو ضحاک : ۸۰

٢٤۔ عمرو بن مرّہ الجملی : ۸۰

٢٥۔ عطأ بن سائب : ۸۰

٢٦۔ علی بن حنظلہ بن اسعد شبامی ہمدانی : ۸۱

٢٧۔ حسین بن عقبہ مرادی : ۸۱

٢٨۔ ابو حمزہ ثابت بن دینار ثمالی : ۸۱

٢٩۔ ابو جعفر عبسی : ۸۱

چھٹی فہرست ۸۲

١۔ امام زین العابدین علیہ السلام: ۸۲

۴۲۹

٢۔ اما م محمد باقر علیہ السلام : ۸۳

٣۔ امام جعفر صادق علیہ السلام : ۸۳

٤۔ زید بن علی بن حسین علیہماالسلام : ۸۳

٥۔ فاطمہ بنت علی : ۸۳

٦۔ ابو سعید عقیصا: ۸۴

٧۔محمد بن قیس : ۸۴

٨۔ عبداللہ بن شریک عامری نہدی : ۸۵

٩۔ ابو خالد کابلی : ۸۵

١٠۔ عقبہ بن بشیر اسدی : ۸۶

١١۔ قدامہ بن سعید : ۸۶

١٢۔ حارث بن کعب والبی ازدی : ۸۷

١٣۔ حارث بن حصیرہ ازدی : ۸۷

١٤۔ ابو حمزہ ثمالی : ۸۷

امام حسین علیہ السلام مد ینہ میں ۹۱

معاویہ کی وصیت(١) ۹۱

معاویہ کی ہلا کت ۹۵

یزید کا خط ولید کے نام ۹۸

مروان سے مشورہ ۱۰۶

قاصد بیعت ۱۰۶

امام حسین علیہ السلام ولید کے پاس ۱۱۱

۴۳۰

ابن زبیر کا موقف ۱۱۳

امام حسین علیہ السلام مسجد مدینہ میں ۱۱۴

محمدبن حنفیہ کا موقف(٢) ۱۱۵

امام حسین علیہ السلام کا مدینہ سے سفر ۱۱۷

امام حسین علیہ السلام مکہ میں ۱۲۱

عبد اللہ بن مطیع عدوی(٢) ۱۲۱

امام حسین علیہ السلام کامکہ میں ورود ۱۲۲

کوفیوں کے خطوط(٢) ۱۲۴

امام حسین علیہ السلام کا جواب ۱۳۵

حضرت مسلم علیہ السلام کا سفر ۱۳۶

راستہ سے جناب مسلم کا امام علیہ السلام کے نام خط ۱۳۷

مسلم کواما م علیہ السلام کا جواب ۱۳۸

کو فہ میں جناب مسلم علیہ السلام کا داخلہ ۱۴۰

اہل بصرہ کے نام امام علیہ السلام کا خط ۱۴۸

بصرہ میں ابن زیاد کا خطبہ ۱۵۵

کوفہ میں ابن زیاد کا داخلہ ۱۵۶

کوفہ میں داخلہ کے بعد ابن زیاد کا خطبہ ۱۵۷

مسلم ، ہانی کے گھر(٣) ۱۵۸

خط کا مضمون یہ تھا: ۱۶۰

معقل شامی کی جاسوسی ۱۶۰

۴۳۱

ابن زیاد کے قتل کا منصوبہ ۱۶۲

معقل کی جناب مسلم سے ملاقات ۱۶۳

ہانی کا دربار میں طلب کیا جانا ۱۶۴

ہانی، ابن زیاد کے دربار میں ۱۶۷

ہانی، ابن زیاد کے روبرو ۱۶۸

موت کی دھمکی ۱۷۱

ہانی کو قید کرنے کے بعد ابن زیاد کا خطبہ ۱۷۴

جناب مسلم علیہ السلام کاقیام ۱۷۵

اشراف کوفہ کا اجتماع ۱۷۵

پرچم امان کے ساتھ اشراف کوفہ ۱۷۷

جناب مسلم علیہ السلام کی غربت و تنہائی ۱۷۸

ابن زیاد کا موقف ۱۸۳

مسلم کی تنہائی کے بعد ابن زیاد کا خطبہ ۱۸۵

ابن زیاد مسلم کی تلا ش میں ۱۸۵

مختار کا نظریہ ۱۸۷

دوسری صبح ۱۸۸

محمد بن اشعث جناب مسلم کے مقابلے میں ۱۸۹

جناب مسلم کا ابن اشعث سے جہاد ۱۸۹

آگ اور پتھر کی بارش ۱۹۰

فریب امان اور گرفتاری ۱۹۱

۴۳۲

حضرت مسلم کی محمد بن اشعث سے وصیت ۱۹۲

مسلم قصر کے دروازے پر ۱۹۳

عمر بن سعد سے مسلم کی وصیت ۱۹۵

مسلم علیہ السلام ابن زیاد کے رو برو ۱۹۷

حضرت مسلم علیہ السلام کی شہادت ۱۹۹

جناب ہانی کی شہادت ۲۰۲

تیسرا شہید : ۲۰۳

چو تھا شہید : ۲۰۳

مختار قید خانہ میں ۲۰۴

یزید کے پاس سروں کی روانگی ۲۰۴

یزید کا جواب ۲۰۵

مکہ سے امام حسین علیہ السلام کی روانگی(١) ۲۱۰

امام علیہ السلام کے ساتھ ابن زبیر کا موقف ۲۱۰

ابن عباس کی گفتگو ۲۱۲

ابن عباس کی ایک دوسری گفتگو ۲۱۵

عمر بن عبد الرحمن مخزومی کی گفتگو ۲۱۶

امام علیہ السلام کے ساتھ ابن زبیر کی آخری گفتگو ۲۱۸

عمرو بن سعید اشدق کا موقف ۲۱۹

عبداللہ بن جعفر کاخط ۲۲۱

راستہ کی چودہ (١٤)منزلیں ۲۲۶

۴۳۳

پہلی منزل :تنعیم(١) ۲۲۶

دوسری منزل : الصفاح(٢) ۲۲۷

تیسری منزل : حاجر(١) ۲۳۰

چو تھی منزل : چشمۂ آب ۲۳۱

پانچو یں منزل:خزیمیہ(٢) ۲۳۲

زہیر بن قین کا امام حسین علیہ السلام سے ملحق ہونا ۲۳۳

ایک اور نامہ بر ۲۳۵

چھٹی منزل: زرود(١) ۲۳۶

ساتویں منزل : ثعلبیہ(١) ۲۳۷

آٹھویں منزل : زبالہ(١) ۲۳۹

نویں منزل : درّہ عقبہ(٢) ۲۴۰

دسویں منزل : شراف(٣) ۲۴۱

گیارہویں منزل : ذوحسم(١) ۲۴۲

بارہویں منزل : البیضة(٢) ۲۴۷

تیرہویں منزل ؛'' عذیب الھجانات ''(١) ۲۵۰

چودہویں منزل : قصر بنی مقاتل(١) ۲۵۵

قربان گاہ عشق :نینوا(١) ۲۵۷

امام حسین علیہ السلام کی جانب پسر سعد کی روانگی ۲۶۴

ابن زیاد کے نام عمر بن سعد کا خط ۲۶۹

ابن زیاد کا جواب ۲۷۰

۴۳۴

پسر سعد کی امام علیہ السلام سے ملاقات ۲۷۰

ابن زیاد کے نام عمر بن سعد کا دوسرا خط ۲۷۲

ابن زیاد کا پسر سعد کے نام دوسرا جواب ۲۷۴

خط کے ہمراہ شمر کا کر بلا میں ورود ۲۷۵

جناب عباس اور ان کے بھائیوں کے نام امان نامہ ۲۷۶

امام علیہ السلام اور ان کے اصحاب پر پانی کی بندش ۲۷۷

امام حسین علیہ السلام کی طرف پسر سعد کا ہجوم ۲۸۱

ایک شب کی مہلت ۲۸۴

شب عاشور کی روداد ۲۸۷

شب عاشور امام حسین علیہ السلام کا خطبہ ۲۸۷

ہاشمی جوانوں کا موقف ۲۸۸

اصحاب کا موقف ۲۸۹

امام حسین علیہ السلا م اورشب عاشور ۲۹۱

شب عاشورامام حسین اور آپ کے اصحاب مشغول عبادت ۲۹۴

صبح عاشورا ۲۹۸

سپاہ حسینی میں صبح کا منظر ۲۹۹

روز عاشورا امام حسین علیہ السلام کا پہلا خطبہ ۳۰۱

زہیر بن قین کا خطبہ ۳۰۹

حر ریاحی کی بازگشت ۳۱۵

حر بن یزید ریاحی کا خطبہ ۳۱۸

۴۳۵

آغاز جنگ ۳۲۲

پہلا تیر ۳۲۲

الحملة الا ولی (پہلا حملہ) ۳۲۴

کرامت وہدایت ۳۲۴

بر یر کا مباہلہ اور ان کی شہادت ۳۲۶

عمر وبن قرظہ انصاری کی شہادت ۳۳۰

نافع بن ہلال ۳۳۲

الحملة الثانےة (دوسرا حملہ) ۳۳۲

مسلم بن عوسجہ(١) ۳۳۳

الحملةالثالثة (تیسرا حملہ) ۳۳۵

اصحاب حسین کے حملے اور نبرد آزمائی ۳۳۵

الحملة الرابعہ (چوتھا حملہ) ۳۳۷

نماز ظہر کی آمادگی ۳۳۸

حبیب بن مظاہر کی شہادت(١) ۳۴۰

حر بن یزید ریاحی کی شہادت ۳۴۳

نماز ظہر ۳۴۴

زہیر بن قین کی شہادت ۳۴۴

نافع بن ہلال جملی کی شہادت(٢) ۳۴۵

غفاری برادران ۳۴۷

قبیلہ جابری کے دو جوان ۳۴۸

۴۳۶

حنظلہ بن اسعد شبامی کی شہادت ۳۴۹

عا بس بن ابی شبیب شاکری اور ان کے غلام شوذب کی شہادت(١) ۳۵۱

یزید بن زیاد ابو شعثاء کندی کی شہادت ۳۵۳

چار دوسرے اصحاب کی شہادت ۳۵۳

سوید خثعمی و بشر حضر می ۳۵۴

بنی ہاشم کے شہداء ۳۵۷

علی بن الحسین اکبر کی شہادت ۳۵۷

قاسم بن حسن کی شہادت ۳۶۲

عباس بن علی اور ان کے بھائی ۳۶۴

لشکر حسینی کے سردار ۳۶۶

آپ کے امتیازات و خصوصیات ۳۶۶

١۔ حسن ورشاد ت ۳۶۶

٢۔معنوی شوکت ۳۶۷

٣۔ علمدار کربلا ۳۶۸

٤۔ سقائی ۳۶۹

٥۔سالار عشق و ایمان ۳۶۹

٦۔ اسلام کا غیرت مند سپاہی ۳۷۱

٧۔معراج وفا ۳۷۲

حسین علیہ السلام کا شیر خوار ۳۷۵

عبداللہ بن جعفر کے دو فرزندوں کی شہادت ۳۷۷

۴۳۷

آل عقیل کی شہادت ۳۷۷

حسن بن علی علیہما السلام کے فر زندوں کی شہادت ۳۷۹

امام حسین علیہ السلام کی شہادت ۳۸۱

آخری لمحات ۳۸۷

خیموں کی تا راجی ۳۸۸

پامالی ۳۹۱

اہل حرم کی کوفہ کی طرف روانگی ۳۹۳

امام حسین علیہ السلام کا سر ابن زیاد کے دربار میں ۳۹۴

دربار ابن زیاد میں اسیروں کی آمد ۳۹۷

عبداللہ بن عفیف کا جہاد ۴۰۱

شہداء کے سر اور اسیروں کی شام کی طرف روانگی ۴۰۳

اہل بیت کی مدینہ واپسی ۴۱۳

اہل کوفہ میں سب سے پہلا حسینی زائر ۴۱۷

خاتمہ ۴۲۰

سخن مترجم ۴۲۰

فہرست منابع ۴۲۱

فہرست ۴۲۵

۴۳۸