واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا13%

واقعۂ کربلا مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 438

واقعۂ کربلا
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 438 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 192906 / ڈاؤنلوڈ: 5407
سائز سائز سائز
واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

ہے۔ کو فہ میں سلیمان بن قتّہ ہاشمی(١) کے ان اشعار کو جو اس نے امام حسین علیہ السلام کی قبر پر کہے تھے : '' مررت علیٰ ابیات آل محمدٍ ''(٢) مولف نے اسی شہر زوری کی طرف منسوب کر دیا ہے۔ اسی طرح شام میں سہل بن سعد ساعدی کی خبر کو اسی سہل بن سعید شہر زوری کے نام سے منسوب کر دیا ،(٣) گویا مؤلف نے گمان کیا ہے کہ یہ شخص وہی سھل ساعدی ہے۔

١٩۔اس کتاب میں امام حسین علیہ السلام سے رزمیہ اشعار اور رجز کو منسوب کیا گیا ہے جو تقریباً تیس اشعار پر مشتمل ہیں ۔(٤) اسی طرح عبید اللہ بن زیاد کے نزدیک عبداللہ بن عفیف ازدی کے قصید ہ کو بیان کیا ہے جو تقر یباً ٣٠ اشعار پر مشتمل ہے۔(٥)

٢٠۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کتاب میں ایسے الفاظ کی بہتات ہے جسے بعد میں آ نے والوں نے عربی میں داخل کر دیا ہے جب کہ وہ کو چہ و بازارکے الفاظ ہیں اور ایسے جملے ابو مخنف کی زبان سے اداہی نہیں ہو سکتے ، مثلا جناب مسلم کے لئے گڑھا کھودنے کے سلسلے میں یہ جملے ہیں :''واقبل علیهم لعین! وقال لهم... ونطمّها با لد غل و التراب ...وننهز م قدامه '' وہ لعین ان لوگوں کے پاس آیا اور ان سے کہا :'' اور اسے خس و خاشاک اور مٹی سے بھر دو ...اور ہم آگے سے ان پر حملہ کریں گے۔'' (ص ٣٥) دوسری جگہ یہ جملہ ہے:''راحت انصاره ''اس کے ساتھی ان کے پاس گئے۔(ص ١٣٥) تیسری جگہ یہ جملہ ہے :'' ویقظا نہ'' ان کو بیدار کیا ۔

____________________

١۔ شیخ محمد سماوی نے اس پر تعلیقہ لگا یا ہے کہ وہ شخص خاندان بنی ہا شم کا چاہنے والا تھا ۔ اس کی والدہ کا نام قتہ اور باپ کا نام حبیب تھا۔اس نے ١٢٦ ہجری میں دمشق میں وفات پائی ۔مسعودی نے انساب قر یش جو زبیر بن بکار کی کتاب ہے ، سے استفادہ کیا ہے کہ اس کا نام ابن قتتہ تھا (ج٤،ص٧٤)

٢۔ص١٠٢، ١٠٣

٣۔ص ١٢٣

٤۔ ص ٨٦ ۔٨٧، ان میں سے ١٧ بیتی ں علی بن عیسیٰ اربلی متوفی ٦٩٣ نے اپنی کتاب کشف الغمہ ، ج٢، ص ٢٣٨،طبع تبریزپر احمدبن ا عثم کوفی متوفی ٣١٤ھ کی کتاب الفتوح کے حوالے سے ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ امام علیہ السلام کا شیر خوار جب شہید ہو گیا تو آپ نے اپنے ننھے بچے کی قبر کھو دتے وقت یہ اشعار پڑھے تھے۔ اسی طرح اسی کتاب نے اس مو قع پر امام کے اشعار کو ذکر کیا ہے کہ جب آپ نے دشمن کی فوج پر زبر دست حملہ کیا تھا اور وہ فوج بھاگ گئی در حالیکہ ان میں سے ١٥٠٠ افراد فی النار ہو گئے امام یہ اشعار پڑھتے ہو ئے خیمے کی طرف بڑھے ۔ اربلی نے ص ٢٥٠پر اس بات کی صراحت کی ہے کہ یہ ابیات جس کا پہلا جملہ ''غدرالقوم''ہے جو بہت مشہور ہے اسے ابو مخنف نے ذکر نہیں کیا ہے، واللہ اعلم ۔ خو ارزمی ،متوفی ٥٦٨ہجری نے ابن اعثم ہی کے حوالے سے ان میں سے ٣ اشعار ذکر کئے ہیں ۔ (ج٦،ص٣٣)

٥۔ص١٠٨۔١٠٩

(ص ١٢٩) چو تھی جگہ جملہ یہ ہے : ''ویتحر ش''وہ دھوکہ دے رہا تھا۔ (ص١٣٦)

۴۱

ان تمام محذورات اورمشکلات کے باوجود میں تصور نہیں کرتا کہ کسی واقف کا ر انسان کے لئے اس کا احتمال بھی درست ہو کہ یہ کتاب ابو مخنف کی ہے بلکہ اس میں کو ئی شک نہیں ہے کہ یہ کتا ب جعلی ہے ۔

اسناد ابی مخنف

اب ہم آپ کے لئے تفصیلی طور پر ان راویوں کے اسماء کی فہر ست پیش کر تے ہیں جو ابو مخنف اور اس جانسوز واقعہ کے درمیان واسطہ ہیں ۔ہم ہر راوی کے نام کے سامنے اس روایت کو بھی ذکر کر یں گے جو انھوں نے نقل کی ہے۔ اس صورت میں خود کتاب کی احادیث کی فہرست بھی سامنے آ جا ئے گی۔

راویوں کے اختلاف، روایت کے کوائف اور ابی مخنف نے جن لوگوں سے روایتیں نقل کی ہیں ان کے اختلاف کے اعتبار سے ان اسماء کی فہرست چھ٦گروہ پر تقسیم ہوتی ہے ۔

راویوں کے اسماء

١۔پہلا گرو ہ وہ ہے جو اس جانسوزواقعہ کا عینی شاہد ہے اور اس نے ابی مخنف سے بلا واسطہ بطورمستقیم ان واقعات کو بیان کیا ہے؛ اس طرح ابو مخنف نے فقط ایک واسطہ سے معرکۂ کربلا کو صفحہ قرطاس پر تحریر کیا ہے۔ یہ گروہ تین افراد پر مشتمل ہے ۔

٢۔دوسرا گروہ بھی وہی ہے جو اس واقعہ کا عینی گواہ ہے لیکن اس نے اس واقعہ کوابومخنف سے بلا واسطہ نقل نہیں کیا ہے بلکہ ابو مخنف نے ایک یا دو واسطوں سے ان لوگوں سے واقعات نقل کئے ہیں یعنی معرکۂ کربلا کو دو یاتین واسطوں سے نقل کیا ہے۔اس گروہ میں ١٥افرادہیں ۔اس طرح کربلا کے روح فرسا واقعات کے عینی شاہدین کی تعداد١٨ہوتی ہے ۔

٣۔تیسرا گروہ وہ ہے جو واقعہ کربلا سے قبل یا بعد کسی نہ کسی طرح اس واقعہ میں شریک تھا ۔ان لوگوں نے ابو مخنف سے ان واقعات کی حکایت بلا واسطہ کی ہے اور ابو مخنف نے ان لوگوں سے ایک واسطہ سے اس معرکہ کا نقشہ پیش کیا ہے۔ یہ گروہ پانچ افراد پر مشتمل ہے ۔

۴۲

٤۔ چوتھے گروہ میں بھی وہی لوگ ہیں جو کسی نہ کسی طرح واقعہ کر بلا کے پہلے یا بعد اس جا نسوز واقعہ میں شریک تھے لیکن ابو مخنف نے ایک یا دو واسطہ سے ان لوگوں سے روایت نقل کی ہے اور وہ ١ ٢افراد ہیں ۔

٥۔ پانچواں گروہ وہ ہے جو نہ تو اس واقعہ کا عینی شاہد ہے اور نہ ہی اس واقعہ میں شریک ہے یہ افر اد ابو مخنف کی روایت اور ان راویوں کے در میان واسطہ ہیں ۔ اس بنا پر ابو مخنف نے معرکہ کربلا اور وہاں گزرنے والے واقعات کو ان لوگوں سے ایک یا چند واسطوں سے نقل کیا ہے اور وہ ٢٩ افراد ہیں ۔

٦۔چھٹاگروہ وہ ہے جو عادل اور نیک کردار ہے، جس میں ائمہ کے اصحاب یا خود ائمہ علیہم السلام موجود ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جو نہ تو اس معرکہ کے عینی شاہد ہیں نہ ہی العیاذ باللہ اس واقعہ میں شامل تھے۔ اس طرح یہ افراد بھی وسائط ہی میں شمار ہوتے ہیں لیکن ان لوگوں نے واسطہ سے حدیثیں نہیں بیان فرمائی ہیں یا واسطہ کی صراحت نہیں کی ہے اور یہ ١٤افراد ہیں ۔

اس جدول سے یہ روشن ہوجا تا ہے کہ جن لوگوں نے بالواسطہ یا بلا واسطہ ابو مخنف سے حدیثیں نقل کی ہیں وہ کل انتالیس(٣٩) افراد ہیں جنھوں نے سند کے ساتھ٦٥ روایات نقل کی ہیں اور کتاب ابو مخنف کل انھیں روایتوں کا مجموعہ ہے جو فی الوقت ہماری دست رس میں نہیں ہے۔ ہم نے ان افراد کی شرح احوال یا تو کتب رجالی سے حاصل کی ہے یا تاریخ طبری میں ان کی روایت کے سلسلے میں تحقیق کے ذریعہ حاصل کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بعض لوگوں کاکوئی پتہ نہ چل سکا۔ اب ہم تفصیلی طور پرمذکورہ فہرست کو بیان کررہے ہیں ۔

پہلی فہرست

وہ لوگ جو واقعہ کربلاکے عینی شاہد ہیں اور انھوں نے ابو مخنف سے بلا واسطہ روایتیں نقل کی ہیں جن کی تعداد تین ٣افراد پر مشتمل ہے۔

۴۳

١۔ ثابت بن ہبیرہ :

اس شخص نے عمرو بن قرظہ بن کعب انصار ی اور اس کے بھائی علی بن قرظہ کی شہادت کا تذکرہ کیا ہے۔پورے مقتل میں اس راوی سے فقط یہی ایک روایت نقل ہوئی ہے اور مجھے رجال کی کسی کتاب میں اس کا تذکرہ نہیں ملا۔، کتاب کی عبارت اس طرح ہے :'' قال ابومخنف عن ثابت بن هبیره : فقتل عمرو بن قرظه بن کعب...'' (١) ابومخنف ، ثابت بن ہبیرہ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ عمر وبن قرظةبن کعب نے جام شہادت نوش فرمایااس عبارت سے ظا ہر ہوتا ہے کہ راوی کربلا میں تھا اور اس نے اس روایت کو بلا واسطہ نقل کیا ہے ۔

٢۔ یحٰی بن ہانی بن عروة المرادی المذحجی:

اس نے نافع بن ہلال جملی کی شہادت کا تذکرہ کیا ہے۔ متن روایت اس طرح ہے : ''حدثنی یحٰی ان نافع ...''(٢) مجھ سے یحٰی نے بیان کیا ہے کہ نافع ۔واضح ہے کہ راوی نے بلا واسطہ نقل کیاہے۔

یحٰی کی ماں کا نام روعہ بنت حجاج زبیدی ہے جو عمرو بن حجاج زبیدی کی بہن ہے یعنی مذکورہ شخص یحٰی کا ماموں ہے۔(٣) یہ ملعون اپنے ماموں عمر وبن حجاج کے ساتھ عمر بن سعد کے لشکر میں تھا اور اس نے نافع بن ہلال جملی کی شہادت کا تذکرہ کیا ہے۔اسی ملعون نے نقل کیا ہے کہ میں نے اپنے ماموں عمروبن حجاج زبیدی کو نافع بن ہلال کی شہادت کے بعد یہ کہتے سنا کہ وہ اپنے لشکر کو جنگ سے روک رہا تھا اور حکم دے رہا تھا کہ حسین اور اصحاب حسین(علیہم السلام) پر پتھر برسائیں ۔ اس کے بعد یحٰی نے اپنے ماموں سے اس واقعہ کے بارے میں کچھ نقل نہیں کیا ہے۔(٤) اسی یحٰی نے ابن زبیر کی طرف سے منسوب والیٔ کوفہ عبداللہ بن مطیع عدوی کے لئے اپنے ماموں کی اس گفتار کو بھی نقل کیا ہے کہ جوعبد اللہ بن مطیع کو مختار بن ابو عبید ثقفی کے خلاف جنگ کرنے پر بھڑ کا رہی تھی۔ خود یحٰی مختار کے خلاف جنگ میں اپنے ماموں کے ہمراہ شریک تھا۔(٥)

ا بن حباّن نے یحٰی کو ثقات میں شمار کیا ہے۔ دار قطنی نے کہاکہ اس کی باتوں کے ذریعہ استدلال کیا جاسکتا ہے۔نسائی کہتے ہیں :یہ ثقہ ہے اور ابو حاتم نے اضافہ کیا ہے کہ یہ بزرگان کوفہ میں شمار

____________________

١۔تاریخ طبری، ج٥،ص٤٣٤

٢۔ طبری ،ج٥ ،ص٤٣٥

٣۔ طبری ،ج٥، ص٣٦٣

٤۔ طبری ،ج٥ ،ص٤٣٥

٥۔طبری،ج٦ ،ص٢٨

۴۴

ہوتا ہے۔ شعبہ نے کہا : ''کان سید اہل الکوفة''یہ اہل کوفہ کا سید و سردار ہے ، جیسا کہ تہذیب التہذیب میں بھی یہی مرقوم ہے۔

٣۔ زہیربن عبدالرحمن بن زہیر خثعمی :

اسی نے سوید بن عمروبن ابی مطاع خثعمی کی شہادت کاذکر کیا ہے متن روایت اس طرح ہے :''حدثنی ...قال ...کان ''اس نے مجھ سے بیان کیا ہے ...اسی نے کہا(١) اس شخص سے فقط یہی ایک روایت نقل ہوئی ہے اورکتب رجالی میں ہم کو کہیں بھی اس کا تذکرہ نہیں ملا ۔

دوسری فہرست

یہ گر وہ بھی کر بلا کے دلسوز واقعہ کا چشم دید گواہ ہے لیکن ابو مخنف نے ان لو گوں سے ایک یا دو واسطوں سے واقعات کر بلا کو نقل کیا ہے اور یہ ١٥ افراد ہیں ۔

١۔ عقبیٰ بن سمعان:(٢)

اس شخص نے امام حسین علیہ السلام کے کربلا پہنچنے کی روایت کو نقل کیا ہے نیز ابن زیاد کی طرف سے حر کو خط لکھنے کی خبر بھی اسی نے بیان کی ہے۔ (ج٥،ص٤٠٧)اس شخص سے ابو مخنف ایک واسطہ سے روایت نقل کر تے ہیں ۔

٢۔ ہانی بن ثبیت حضرمی سکونی :

اسی شخص نے کر بلا میں امام حسین علیہ السلام کے وارد ہو نے کے بعد دونوں لشکر کے درمیا ن امام حسین علیہ السلام اور پسر سعد کی ملا قات کو نقل کیا ہے۔اسی طر ح عاشورا سے قبل بھی ایک ملا قات کو نقل کیا ہے ۔ روایت کامتن اس طرح ہے :''حدّ ثنی ابو جناب عن ها نی وکا ن قد شهد قتل الحسین'' مجھ سے ابو جناب نے ہا نی کے حوالے سے نقل کیا ہے در حا لیکہ وہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا عینی شاہدہے۔ (ج٥ ، ص٤١٣) یہی شخص عبداللہ بن عمیر کلبی کی شہادت میں شریک ہے جو سپا ہ امام حسین علیہ السلام کے دوسرے شہید ہیں ۔ (ج٥، ص ٤٣٦) اسی

____________________

١۔ طبری، ج٥، ص٤٤٦

٢۔یہ شخص سکینہ بنت الحسین علیہ السلام کی ما ں جناب رباب بنت امر ء القیس کلبیہ کا خد مت گذار ہے عاشور کے دن اسے پکڑ کر عمر بن سعد کے پاس لایا گیا اور اس سے پو چھاگیا کہ تو کون ہے؟ تو اس نے جواب دیا : ''انا عبد مملوک'' میں ایک مملوک (غلام) ہو ں ، تو پسر سعد نے اسے چھوڑ دیا ۔ طبری (ج٥ ، ص ٤٥٤)

۴۵

ملعون نے امیر المو منین کے دو فر زند عبد اللہ اور جعفر کو شہید کیا۔ اسی طرح خا ندان امام حسین علیہ السلام کے ایک نوجوان کو قتل کیا ، نیز اسی گمراہ شخص نے امام حسین علیہ السلام کے فرزند عبداللہ کو شہید کر کے جناب رباب کی آغوش کو ویران کر دیا ۔ (ج٥، ص ٤٦٨)

٣۔حمید بن مسلم ازدی :

اس شخص سے مندرجہ ذیل خبریں نقل ہوئی ہیں :

(الف) ابن زیاد نے پسر سعد کو خط لکھا کہ حسین اور اصحاب حسین علیہم السلام پر فوراً پانی بند کر دیا جائے اورشب ٧ محرم کو حضر ت ابو الفضل العباس پانی کی غرض سے باہر نکلے۔(ج٥، ص ٤١٢)

(ب) شمر ملعون کو کر بلا بھیجا گیا۔ (ج٥،ص ٤١٤)

(ج) امام حسین علیہ السلام کی سپاہ پر یزید ی فوج نے حملہ کر دیا ۔(ج٥،ص٤٦٩)

(د)امام حسین علیہ السلام کی شہادت سے قبل جب شمر نے مخدارت عصمت کے خیمہ پر حملہ کیا تو امام حسین علیہ السلام نے اسے للکا را اور فرمایا:'' شیعہ آل ابی سفیان''نیز نماز ظہر اور جناب حبیب بن مظاہر کی شہادت ۔(ج٥،ص٤٣٩)

(ھ) جناب علی اکبر کی شہادت پر امام حسین علیہ السلام کا بیان ، آپ کی شہادت پر حضرت زینب کبری کا خیمہ سے باہر نکل آنا، جناب قاسم بن حسن علیہ السلام کی شہادت اور امام حسین علیہ السلام کی آغوش میں آپ کے نو نہال عبداللہ کی شہادت ۔(ج٥، ص ٤٤٦۔ ٤٤٨)

(و) اپنے تمام اصحاب وانصار کی شہادت کے بعد سے لے کر اپنی شہادت تک سر کا ر سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام کی حالت ۔(ج٥، ص٥٥١۔ ٤٥٢)

(ز) امام کی شہادت کے بعد آپ کے فرزند امام زین العابدین علیہ السلام کے قتل پر لشکر میں اختلاف عقبیٰ بن سمعان کی گر فتاری اور رہائی کی خبر ، امام حسین علیہ السلام کے جسم مبارک پر گھوڑے دوڑانا اور حمیدبن مسلم کا خولی بن یزید اصبحی کے ہمراہ امام حسین علیہ السلام کے سر کو ابن زیادکے پاس لے جا نا۔ (ج٥، ص ٤٥٥)

۴۶

(ح)ابن زیاد کا خولی کو اپنے گھر کی طرف روانہ کرنا تاکہ وہ ابن زیاد کے اہل وعیال تک اس کی خیریت کی خبر پہنچا دے ، ابن زیاد کا دربارمیں چھڑی کے ذریعہ امام حسین علیہ السلام کے لبوں سے بے ادبی کر نا ، اس جانکاہ منظر کو دیکھ کر زید بن ارقم کا ابن زیاد کو حدیث نبوی کی طرف متوجہ کرانا، اس پر ابن زیاد کا زید کو جواب دینا ، پلٹ کر زید بن ارقم کا ابن زیاد کو جواب دینا، حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا دربارابن زیاد میں وارد ہو نا ،نیز اس ملعون کا ستانے کی غرض سے حضرت سے ہم کلام ہو نا ،اس پر حضرت زینب کبریٰ کا ابن زیاد کو مسکت جواب دینا ،پر یشان ہو کر ابن زیاد کا دوبارہ چھڑی کے ذریعہ اما م حسین کے لبوں سے بے ادبی کر نا ، عمرو بن حریث اور ابن زیاد کا امام زین العابدین علیہ السلام سے ہم کلام ہو نا ، اس پرامام علیہ السلام کا اسے جواب دینا ، اس جواب سے غصہ میں آکرابن زیادکا امام علیہ السلام کو قتل کر دینے کا ارادہ کرنا، اس پر آپ کی پھو پھی زینب کا امام علیہ السلام سے لپٹ جانا اور آخرمیں ابن زیاد کا مسجد میں خطبہ دینا ،اس پر عبداللہ بن عفیف کا اعتراض اور ان کی شہادت کی روداد، یہ سب حمید بن مسلم نے نقل کیا ہے ۔

روایات کی سند

ان تمام روایات میں ابو مخنف کے لئے حمید بن مسلم سے روایت نقل کرنے کا واسطہ سلیمان بن ابی راشد ہیں ۔جستجو کر نے والے پر یہ بات روشن ہے کہ مختلف منا سبتوں کے اعتبارسے اس سند میں تقطیع (درمیان سے حذف کرنا) کی گئی ہے۔ان اخبار کو ملا حظہ کر نے کے بعد اندازہ ہو تا ہے کہ یہ پورا واقعہ شمرکے بھیجے جانے سے شروع ہو تاہے اور ابن زیاد کے درباراور عبداللہ بن عفیف کی شہاد ت پر تمام ہو تا ہے ۔

۴۷

یہیں سے دقت کر نے پر یہ بات بھی واضح ہو جا تی ہے کہ حمید بن مسلم ، شمر بن ذ ی الجوشن کلا بی کے لشکر کے ہمراہ تھا ، خصوصاًیہ بات وہاں پر اور واضح ہو جاتی ہے جب یہ دیکھتے ہیں کہ حمید نے متعددمر تبہ شمر سے گفتگوکی ہے اور بہت سارے مواردمیں اسی نے شمر کی سرزنش کی ہے۔ اسی طرح حمید بن مسلم کا امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد خیموں میں موجود ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ شخص شمر کے لشکر میں تھاکیو نکہ امام کی شہا دت کے بعد اسی ملعون نے اپنے اوباش ساتھیوں کے ساتھ خیمے پر حملہ کیا تھا اور اس کے علاوہ کسی نے بھی یہ قبیح فعل انجام نہیں دیا ہے۔

اسکے بعد یہی حمید بن مسلم تو ابین کے انقلاب میں بھی ہمیں شر یک نظر آتا ہے ، (ج ٥، ص٥٥٥)نیز قید خانے میں حمید نے مختار سے بھی ملا قات کی ہے لیکن سلیما ن کو مختا ر سے برحذر کیا اور انھیں خبری دی کہ مختار لو گو ں کو تمہاری مدد کرنے سے روک رہے ہیں ۔یہ سنتے ہی حمید ، مختار سے منہ موڑ لیتا ہے(ج٥، ص٥٨١۔ ٨٥٤)اور تو ابین کے ساتھ شکست کھا کر لوٹ جا تاہے۔ (ج٥، ص٦٠٦) حمید بن مسلم ، ابرا ہیم بن مالک اشتر نخعی کا دوست تھا اور اس کا ابراہیم کے یہاں آنا جانا تھا لہٰذاتو ابین کے انقلاب کے بعد وہ ہرشب ابر اہیم کے ہمراہ مختار کے پاس جا یا کر تاتھا ، صبح تک تدبیر امور میں مشغول رہتااور صبح ہو تے ہی لوٹ آتا تھا۔ (ج٦،ص ١٨) حمید بن مسلم شب سہ شنبہ شب قیام مختار ابر اہیم کے ہمراہ ان کے گھر سے نکلا اور سو(١٠٠) برہنہ شمشیر سپا ہیوں کے ہمراہ جو اپنی قباؤں کے اندر زرہ پوش تھے (ج٦،ص١٩) مختار کے گھر پہنچا (ج٦،ص٣٦)لیکن جب اس کو معلوم ہو اکہ مختار کا مصمم ارادہ یہ ہے کہ قاتلین امام حسین علیہ السلام سے انتقام لیں گے تو اس نے عبدالرحمن بن مخنف ازدی (ابو مخنف کے چچا) کے ہمراہ مختار کے خلاف خروج کر دیا۔اس مڈبھیڑ میں جب عبدالرحمن زخمی ہو اتو حمید نے چند رثائی اشعار کہے (ج٦،ص٥١) اور جب عبدالرحمن بن مخنف نے کو فہ سے فرار کر کے بصرہ میں مصعب بن زبیرکے یہاں پناہ لی تو حمید بھی اس سے ملحق ہو گیا۔ (ج٦،ص٥٨) تاریخ طبری میں اس کا آخری تذکرہ اس طرح سے ملتا ہے (ج٦،ص٢١٣)کہ اس نے عبد الرحمن بن مخنف پر اس وقت مرثیہ سرائی کی جب '' کا زرون'' کے نزدیک خوارج کے ایک گروہ نے ٧٥ ہجری میں اسے اس وقت قتل کردیا جب وہ مھلب بن صفرہ کے ہمراہ حجاج بن یوسف ثقفی کی طرف سے گروہ خوارج کے ساتھ جنگ کر رہا تھا۔ذہبی نے میزان الاعتدل (ج١،ص ٦١٦)میں اور ابن قدامہ نے مغنی (ج١،ص١٩٥) میں اس مطلب کا ذکر کیا ہے ۔

۴۸

٤۔ضحاک بن عبداللہ مشرقی ہمدانی:

شب عاشور اور روز عاشور کا واقعہ اسی شخص کی زبانی نقل ہوا ہے نیز لشکر کا مقابلہ اورروزعاشور امام علیہ السلام کا مفصل خطبہ بھی اسی راوی نے نقل کیا ہے (ج٥،ص٤١٨۔٤١٩، اور٤٢١،٤٢٣،٤٢٥،٤٤٤)

ابو مخنف نے ان واقعات کو ایک واسطہ سے ضحاک بن عبد اللہ سے نقل کیا ہے اور اس واسطہ کا نام عبد اللہ بن عاصم فائشی ہمدانی ہے ۔یہ بات پو شیدہ نہیں ہے کہ یہ شخص بھی ہمدانی ہے اور یہ وہی شخص ہے جس نے امام حسین علیہ السلام سے اس شرط پر ساتھ رہنے کا عہد کیا تھا کہ اگر آپ کے اصحا ب شہید ہو گئے تو میں نکل بھا گوں گا؛ امام علیہ السلام نے بھی اسے قبول کر لیا اور وہی ہوا کہ جب اصحاب وانصار شہید ہو گئے تو یہ شخص اپنی جان بچا کرعین معرکہ سے بھا گ گیا۔ (ج٥،ص ٤١٨، ٤٤٤) شیخ طوسی نے اپنی کتاب رجال میں اسے امام زین العابدین علیہ السلام کے اصحاب میں شمار کیا ہے! ۔

٥۔ امام زین العابدین :

امام علیہ السلام سے شب عاشورکا واقعہ دو واسطوں سے نقل کیا گیاہے ۔

(الف) حار ث بن حصیرہ نے عبداللہ بن شریک عامر ی سے اورعامری نے امام سجاد سے روایت نقل کی ہے۔ (ج٥،ص٤١٨)

(ب) حارث بن کعب والبی ازدی کو فی اور ابو ضحاک بصری دونوں نے امام علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے۔ (ج٥،ص٤٢٠)

٦۔ عمرو حضرمی :

یہ شخص عمر بن سعد کے لشکر کا کا تب تھا۔ (ج٥،ص٤٢٢) عمرو حضرمی دو و اسطوں سے حدیث بیان کر تا ہے۔ لیکن اہل رجال کے نزدیک یہ شخص غیر معروف ہے ۔

٧۔ غلام عبد الر حمن انصاری :

عبد الرحمن بن عبد ربّہ انصاری کے غلام سے شب عاشور بریر بن خضیر ہمدانی کے مزاح کا واقعہ منقول ہے۔ ابو مخنف نے یہ واقعہ دو واسطوں سے نقل کیا ہے اور وہ دونوں واسطے اس طرح ہیں : ''عمروبن مرّہ جملی نے ابی صالح حنفی سے نقل کیاہے'' دو سری خبر میں اس طر ح آیا: ''جب میں نے ان لو گو ں کو تیزی کے ساتھ آتے ہو ئے دیکھا تو پیچھے ہو گیا اور ان کو چھوڑ دیا''۔ (ج٥،ص٤٢١و٤٢٢)

۴۹

٨۔ مسروق بن وائل حضرمی :

جنگ شروع ہوتے وقت ابن حوزہ کی روایت اسی شخص سے دو واسطوں (عطاء بن سائب اور عبد الجبار بن وائل حضرمی) کے ذریعہ نقل ہوئی ہے۔اس نے کہا :''کنت فی اوائل الخیل ممن سارالی الحسین ''میں اس لشکر میں آگے آگے تھا جو امام حسین کی طرف روانہ کیا گیا تھا میں اس آرزو میں تھا کہ حسین کا سر کا ٹ کر ابن زیاد کے پاس لیجاؤں تا کہ اس کے دربار میں مجھے کو ئی مقام حاصل ہو سکے۔''...فرجع مسروق وقال لقد رایت من اهل هذالبیت شیئاًلا اقاتلهم ابداً'' (ج٥، ص ٤٢١)

پھر مسروق وہاں سے پلٹ آیا اور اس نے کہا : میں نے اس خاندان میں ایسی چیزدیکھی ہے کہ میں کبھی بھی ان سے نہیں لڑوں گا ۔

٩۔ کیثر بن عبداللہ شعبی ہمدانی :

ابو مخنف نے زہیربن قین کا خطبہ علی بن حنظلہ بن اسعد شبامی کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔ شبامی نے اس خطبہ کو اپنے ہی قبیلہ کے ایک شخص سے نقل کیا ہے جو امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا شاہد تھا ،اس کانام کثیر بن عبداللہ شعبی ہے۔ (ج٥،ص ٤٢٦) طبری نے ہشام سے اوراس نے عوانہ سے نقل کیا ہے کہ وہ بڑا شجاع اور بے باک تھا کبھی بھی پیٹھ نہیں دکھا تاتھا۔ جب عمر بن سعد نے اپنے لشکر کے سپہ سالاروں سے چاہاکہ وہ امام حسین علیہ السلام کے پاس جائیں اوران سے سوال کریں کہ وہ کیوں آئے ہیں اور کیا چاہتے ہیں ؟ تو تمام لوگوں نے انکارکردیا اور امام حسین کے سامنے جانے میں جھجھک کا اظہار کیا ،کوئی بھی جانے کے لئے تیار نہیں ہوا۔ اسی اثنا میں کثیر بن عبداللہ شعبی اٹھا اور بولا : میں حسین کی طرف جاؤں گا ، خدا کی قسم اگر آپ چاہیں تو غافل گیر کر کے میں ان کا خاتمہ بھی کر سکتا ہوں یہ شخص اسلحے سے لیس ہو کر وہاں پہنچا تو زہیر قین نے کہا : اپنی تلوار اپنے جسم سے جدا کر کے آئو ! اس ملعون نے کہا : ہر گز نہیں !خد ا کی قسم یہ میری کرامت کے منافی ہے۔ اس کے بعد دونوں میں نوک جھونک ہو نے لگی ...۔(ج٥ ،ص٤١٠)

یہی وہ شخص ہے جس نے مہاجر بن اوس کے ہمراہ زہیر بن قین بجلی پرحملہ کیا اور ان دونوں ملعونوں نے مل کر اس شجاع اور پاک طینت انسان کو شہید کر دیا(ج٥، ص ٤٤١)

۵۰

١٠۔ زبیدی :

یہ شخص دوسرے حملہ کی خبر نقل کر تاہے۔(ج٥، س٤٣٥) یہ یمن کے قبیلہ زبید کا ایک فرد ہے جو اپنے قبیلہ کے سردار عمروبن حجاج زبیدی کی سپہ سالا ری کے واقعات کی روایت کر تا ہے۔

١١۔ ایو ب بن مشر ح خیوانی:

اس شخص نے مادروہب کلبی کی جانثاری ، فداکاری اور خلوص کا تذکرہ کیا ہے۔اس کے علاوہ جناب حر کے گھوڑے کو اسی نے پئے کیا تھا ۔ جب جناب حر کی شہادت کے بعد قبیلہ والوں نے اسے للکارا اور آپ کی شہادت کے سلسلے میں اسے متہم کیا تو اس نے کہا :''لا واللّه ما انا قتلته ولکن قتله غیری'' نہیں خدا کی قسم میں نے انہیں قتل نہیں کیاہے ، انہیں تو میرے علاوہ کسی دوسرے نے قتل کیا ہے''وما احبّانی قتلته'' : نہ فقط یہ کہ میں نے انہیں قتل نہیں کیابلکہ میں تواس بات کو پسند بھی نہیں کرتا تھاکہ میں ان کے قتل میں شرکت کرو ں ۔اس پر'' ابو ودّاک جبر بن نوف ہمدانی ''نے کہا :ولم لا ترضی بقتله ،تم ا ن کے قتل سے کیوں راضی نہیں تھے ؟ اس نے کہا :''زعموا انہ کان من الصا لحین'' لوگ یہ سمجھتے تھے کہ وہ نیک سرشت ہیں ''فو اللّه لئن کان آثما... ''خدا کی قسم اگروہ گناہگار تھے اورخداوندعالم اگر مجھے جہنم میں ان کوزخمی کرنے کے گناہ میں ڈالنا چاہتاتو اس موقف کو پسند کرتا بجائے اس کے کہ مجھے ان میں سے کسی ایک کے قتل کردینے کے عذاب میں مبتلاکردے،ا س پر ابوودّاک نے کہا:''مااراک الا ستلقی اللّه بأثم قتلهم اجمعین...انتم شرکاء کلکم فی دمائهم ''میں تو اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں سمجھتا کہ عنقریب خدائے متعال تم کو ان سب کے قتل کے عذاب میں مبتلاکرے گا...تم سب کے سب ان کے خون میں شریک ہو۔ (ج٥،ص٤٣٧)

١٢۔ عفیف بن زہیر بن ا بی الاخنس :

یہ شخص بریر بن خضیر ہمدانی کی شہادت کو بیان کرتا ہے ، وہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا عینی گواہ ہے۔وہ اپنی اس روایت میں یہ کہتا ہے کہ واقعہ کربلا سے قبل بریر مسجد کوفہ میں ان ظالموں کو قرآن مجید کا درس دیا کرتے تھے ۔ (ج٥ ،ص ٤٣١)

١٣۔ ربیع بن تمیم ہمدانی :

اس شخص نے عابس بن شبیب شاکری کے مقتل کو بیان کیا ہے اور وہ کربلا کے جانسوز واقعے کا عینی شاہد ہے ۔(ج ٥، ص٤٤٤)

۵۱

١٤۔ عبداللہ بن عمار با رقی :

اس نے دشمنوں پر حملہ کے وقت امام حسین علیہ السلام کی حالت کو بیان کیاہے اور یہ شخص بھی امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا عینی گواہ ہے۔ لوگوں نے جب اس بات پر اس کی ملامت کی کہ تو امام حسین کی شہادت کے وقت وہاں موجود تھا تو اس ملعون نے اپنی جنایت کاریوں کی توجیہ کرتے ہوئے کہا :''ان لی عند بنی ہاشم لَےَداً ''میں نے بنی ہاشم کی خدمت کی ہے اس سلسلے میں کسی حد تک ان پر حق رکھتا ہوں ۔لوگوں نے اس سے پوچھا : بنی ہاشم کے پاس تمہارا کونسا حق ہے ؟ تو اس ملعون نے کہا : میں نے نیزوں سے حسین پر حملہ کیا یہاں تک کہ بالکل ان کے نزدیک پہنچ گیا لیکن وہاں پہنچ کر میں اپنے ارادہ سے منصرف ہو گیااور تھوڑی دور پر جا کرکھڑا ہوگیا ۔(ج٥ ، ص٤٥١)

١٥۔ قرة بن قیس حنظلی تمیمی :

اس شخص نے شہداء کے سرکو تن سے جداکئے جانے اور اہل بیت اطہار کی اسیری کی غم انگیز اور جگر سوز داستان کو بیا ن کیا ہے ۔ (ج٥ ، ص ٤٥٥)یہ شخص اپنے قبیلہ کے سر دار حر بن یزید ریاحی تمیمی کے ہمراہ اس لشکرمیں تھا جو امام حسین علیہ السلام کاراستہ روکنے کے لئے آیا تھا ۔ (ج٥،ص٤٢٧) یہ وہی شخص ہے جسے پسر سعد نے امام حسین علیہ السلام کے پاس بھیجا تھا تاکہ وہ آپ سے سوال کرے کہ آپ کس لئے آئے ہیں اور کیا چاہتے ہیں ؟ جب یہ شخص امام حسین علیہ السلام کے پاس آیا تو اس نے امام علیہ السلام کو سلام کیا ۔حبیب بن مظاہر اسدی نے اس کو امام حسین علیہ السلام کی نصرت و مددکی طرف دعوت دی لیکن اس نے انکار کردیا۔ (ج٥ ،ص ٤١١) یہی وہ شخص ہے جس نے روایت نقل کی ہے کہ جب حر نے امام حسین علیہ السلام کی طرف جانے کاارادہ کیا تو مجھ سے پوچھا : کیا تم اپنے گھوڑے کوپانی پلانا نہیں چاہتے ہو ؟ یہ کہہ کر حر اس سے دور ہوگئے اور امام حسین علیہ السلام سے ملحق ہوگئے ۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اگر حر نے مجھے اپنے ارادے سے آگا ہ کردیا ہوتاتو میں بھی ان کے ہمراہ حسین سے ملحق ہوجاتا ۔(ج٥ ، ص٤٢٧)

جی ہاں یہی وہ ١٥افراد ہیں جو کربلا کے دلسوز اور غمناک واقعہ کے عینی شاہد ہیں اور ابومخنف نے ان لوگوں سے ایک یا دو واسطوں سے روایت نقل کی ہے ۔

۵۲

تیسری فہرست

تیسری فہرست میں وہ لوگ ہیں جو ان واقعات کے شاہد ہیں اور وہاں حاضر تھے۔ ان لوگوں نے بغیر کسی واسطے کے خود ابو مخنف سے واقعات بیان کئے ہیں اور یہ چارافراد ہیں :

١۔ ابو جناب یحٰی بن ابی حیہّ الوداعی کلبی :

اس شخص نے ا بن زیاد سے جناب مسلم بن عقیل کے ساتھیوں کے مقابلہ کو نقل کیا ہے (ج٥ ص ٣٦٩ و ٣٧٠) نیز جناب مسلم اور ہانی بن عروہ کے سر کو یزید کی طرف بھیجے جانے اور خط لکھ کر اس خبر سے آگاہ کرنے کی روایت بھی اسی شخص سے ملتی ہے۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ ابو جناب ان خبروں کو اپنے بھائی ہانی بن ابی حیہ وداعی کلبی کے حوالے سے نقل کرتا ہے ، کیونکہ ہانی بن ابی حیہ کے ہاتھوں ابن زیاد نے یزید کو خط روانہ کیا تھا۔

تاریخ طبری میں اس شخص سے ٢٣ روایتیں منقول ہیں ، جن میں سے ٩روایتیں جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان سے متعلق ہیں جو بالواسطہ ہیں اور ٩روایتیں کربلا سے متعلق ہیں جن میں سے پانچ بالواسطہ ہیں اور چار مرسل ہیں (یعنی درمیان سے راوی حذف ہے) ۔آخری روایت جو میرے ذہن میں ہے اورمرسل ہے وہ مصعب بن زبیر کا ابراہیم بن مالک اشتر کو خط لکھنے کا واقعہ ہے جس میں مصعب نے ابراہیم کو مختار کے بعد ٦٧ ہجری میں اپنی طرف بلایا تھا۔ (ج٦ص١١١) تہذیب التہذیب (ج١١،ص٢٠١)پر اس کی پوری بایو گرافی موجود ہے۔ اس میں راوی کے سلسلے میں یہ جملہ ملتا ہے : ''کوفی صدق مات ٤٧ھ ''یہ شخص کوفی تھا ،سچا تھا اور ١٤٧ ہجری میں اس کی وفات ہوئی۔

۵۳

٢۔ جعفر بن حذیفہ طائی:

جناب مسلم نے اپنی شہادت سے پہلے امام حسین علیہ السلام کو اہل کوفہ کی بیعت کے سلسلے میں جو خط لکھا ہے اس کی روایت اسی شخص سے نقل ہوئی ہے، نیز محمد بن اشعث بن قیس کندی اور ایاس بن عثل طائی کے خط کاراوی بھی یہی شخص ہے جس میں ان لو گو ں نے امام حسین کو جناب مسلم کی گر فتاری اور ان کی شہادت کی خبر پہنچائی تھی۔ (ج ٥، ص٣٧٥)

ذہبی نے میزان الاعتدال میں اس کا تذکر ہ کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ شخص علی سے روایت نقل کرتا ہے اور اس سے ابومخنف نے روایت نقل کی ہے۔جنگ صفین میں یہ شخص علی علیہ السلام کے ہمراہ تھا ۔ ابن حبان نے اسے ثقات(معتبر وثقہ راویوں) میں شمار کیا ہے ، پھر کہا ہے کہ معلوم نہیں ہے کہ یہ کون ہے ؟

طبری نے اس شخص سے ٥روایتیں نقل کی ہیں ،جن میں سے دو روایتیں جنگ صفین سے متعلق ہیں ،دوروایتیں خوارج کے ایک گروہ جس کا تعلق قبیلہ طئی سے تھا، کے سلسلے میں اورایک واقعہ کر بلا کے ذیل میں و ہی مسلم بن عقیل کی خبر ہے جو گزشتہ سطروں میں بیان ہوچکی ہے ۔

٣۔ دلہم بنت عمرو :

یہ خاتون، زہیربن قین کی زوجہ ہیں ۔ جناب زہیر بن قین کا امام حسین کے لشکر میں ملحق ہو نے کا واقعہ انھیں خاتون سے مروی ہے۔ روایت کا جملہ اس طرح ہے کہ ابو مخنف کہتے ہیں دلہم نے مجھ سے اس طرح روایت نقل کی ہے ۔(ج٥، ص٣٩٦)

۵۴

٤۔ عقبہ بن ابی العیزار :

امام حسین علیہ السلام کی دواہم خطبے جسے آپ نے مقام '' بیضہ'' اور مقام ذی حسم میں پیش کیا تھا اسی شخص سے مروی ہیں ،نیز امام حسین علیہ السلام کے جواب میں زہیر بن قین کی گفتگو،امام حسین علیہ السلام کے اشعار اور طرماح بن عدی کے اشعار کی بھی اسی شخص سے روایت نقل ہوئی ہے ۔(ج٥ ، ص٤٠٣) ایسا لگتا ہے کہ یہ شخص حر کے لشکر میں تھالہٰذانجات پا گیا۔ اپنی رجالی کتا بوں میں ہمیں اس کا تذکرہ کہیں نہیں ملا۔ ہاں لسان المیزان میں اس کا ذکر موجود ہے۔لسان المیزان کے الفاظ اس طرح ہیں :'' یعتبر حدیثہ'' اس کی حدیث معتبر ہے، نیز وہیں اس بات کی بھی یاد آوری کی گئی ہے کہ ابن حبان نے اسے ثقات میں شمار کیا ہے ۔

یہی وہ چار افراد ہیں جو ظاہراً ان واقعات کے شاہد ہیں اورابو مخنف نے ان سے بلا واسطہ حدیثیں نقل کی ہیں ۔

چو تھی فہرست

یہ وہ لوگ ہیں جو اس جانسوزواقعہ میں موجود تھے یا اس دلسوزحادثہ کے معاصر تھے لہٰذا انہوں نے ان واقعات کو نقل کیا ہے ۔ ابومخنف نے ان لوگوں سے ایک یا دو واسطوں سے روایت نقل کی ہے۔ یہ ٢١افراد ہیں ۔

١۔ ابو سعید دینار:

اس شخص کو'' کیسان''یا '' عقیصامقبری ''بھی کہا جا تا ہے۔مدینہ سے نکلتے وقت امام حسین علیہ السلام کے اشعارکو اسی شخص نے ایک واسطہ سے عبدالملک بن نوفل بن مساحق بن مخرمہ سے نقل کئے ہیں ۔(ج٥، ص٣٤٢) ذہبی نے اس کا ذکر میزان الاعتدال میں کیا ہے۔ ذہبی کہتا ہے: وہ ابو ہریر ہ کے ہمنشین اور اس کے بیٹے کے دوست تھے۔ وہ ثقہ اور حجت ہیں ۔پیرانہ سالی کے باوجودذہن مختل نہیں ہوا تھا ۔آپ کی وفات ١٢٥ ہجری میں ہوئی ۔آپ کا شمار بنی تمیم کے طر فداروں میں ہوتا ہے۔ابن حبان نے بھی ان کو ثقات میں شمارکیا ہے اور حاکم نے کہا ہے کہ یہ مورداعتماد اور بھروسہ مند ہیں ۔ (لسا ن المیزان، ج٢،ص١٣٩)

۵۵

تہذیب التہذیب میں لکھاہے کہ واقدی نے کہا : یہ ثقہ ہیں اور ان سے بہت زیادہ حدیثیں مروی ہیں ۔پہلی صدی ہجری میں آپ کی وفات ہوئی ۔ بعضوں کا کہنا ہے کہ ولید بن عبدالملک کی خلا فت کے عہد میں وفات پائی۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ عمر نے انھیں قبر کھود نے کے کام پر مامور کیا تھا لہذا وہ قبروں کو کھود ا کر تے تھے اور مردوں کو قبروں میں اتار تے تھے لہٰذا ''المقبری'' کے نام سے مشہور ہو گئے ''۔ (تہذیب التہذیب، ج٨، ص ٤٥٣)شیخ طوسی نے اپنی کتاب ''الرجال''میں ان کا تذکرہ حضرت علی علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے اصحاب میں ''دینار ''کے نام سے کیا ہے ان کی کنیت ابو سعید اور لقب عقیصاذکر کیا ہے۔ اس لقب کا سبب وہ شعر ہے جسے ''دینار ''نے کہا تھا۔(رجال شیخ طوسی ، ص٤٠ ،ط نجف) شیخ صدوق ابو سعید عقیصا کے حوالے سے اپنی ''امالی ''میں امام حسین علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ وہ اپنے والد سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کر تے ہیں کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فر مایا :''یاعلی!انت اخی و انا اخوک، اناالمصطفیٰ النبوة، وانت المجتبیٰ للامامة ، وانا صاحب التنزیل ، وانت صاحب التاویل ،واناوانت ابواهذه الامة،انت وصيّوخلیفتی ووزیری و وارثی وابو ولدوشیعتک شیعتی''اي علی!تم میرے بھائی ہو اور میں تمہارا بھائی ہوں ، خدا نے مجھ کو نبوت کے لئے منتخب کیا اور تم کو امامت کیلئے چن لیا،میں صاحب تنزیل (قرآن)ہوں تم صاحب تاویل ہو ،میں اور تم دونوں اس امت کے باپ ہیں ،تم میرے وصی،خلیفہ،وزیر،میرے وارث اورمیرے فرزندں کے باپ ہو،تمہارے شیعہ اورپیروکارمیرے شیعہ وپیرو کارہیں ۔

٢۔عقبہ بن سمعان :

مدینہ سے امام حسین علیہ السلام کے نکلنے کی خبر ، عبداللہ بن مطیع عدوی سے آپ کی ملاقات ، مکہ پہنچنے کی خبر، (ج٥،ص ٥٣١)مکہ سے نکلتے وقت ابن عباس اور ابن زبیر کی امام علیہ السلام سے گفتگو، (ج٥ ، ص٣٨٣) والی مکہ عمرو بن سعید بن عاص اشدق کے قاصد کاامام حسین تک پہنچنا اور حاکم مکہ کی جانب سے امام حسین علیہ السلام کو مکہ واپس لوٹانے کی خبر، منزل تنعیم پر '' ورس الیمن ''کی خبر ، قصر بنی مقاتل سے گذرنے کے بعد حضرت علی اکبر علیہ السلام کی اپنے بابا سے گفتگو ، نینوا میں اس نورانی کارواں کا ورود ،ابن زیاد کے پیغامبر کا حر تک ابن زیاد کا خط لیکر پہنچنا امام علیہ السلام اور پسر سعد کا کربلا میں وارد ہونا (ج٥،ص٤٠٧ ۔٤٠٩) اور وہ شرطیں جو امام حسین نے پسر سعد کے سامنے پیش کی تھیں اسی شخص سے مروی ہیں ۔ (ج٥ ،ص٤١٣)یہ تمام روایتیں اس نے ایک واسطہ سے حارث بن کعب و البی ہمدانی سے نقل کی ہیں ۔ یہ اس بات کی تائید ہے کہ ابو مخنف نے مناسبتوں کے مطابق روایتوں کی اسناد میں تقطیع (درمیان سے راوی کو حذف کردینا) کی ہے۔ عقبہ بن سمعان کی سوانح زندگی گذشتہ صفحات پر گذرچکی ہے لہٰذ ا اسے وہاں دیکھا جا سکتا ہے ۔

۵۶

٣۔محمد بن بشر ہمدانی :

معاویہ کی موت کے بعد کوفہ کے شیعوں کا سلیمان بن صرد خزاعی کے گھر اجتماع ، سلیمان بن صرد کا خطبہ اور اجتماعی طور سے سب کاامام حسین علیہ السلام کو خط لکھنا ، مسلم بن عقیل کے ہمراہ امام حسین علیہ السلام کا ان لوگوں کو جواب، (ج٥ ،ص٣۔ ٣٥٢)راستے ہی سے جناب مسلم کا امام حسین علیہ السلام کو خط لکھنا ، پھر امام علیہ السلام کا جواب دینا ، مسلم کا کوفہ پہنچنا اور کوفہ کے شیعوں کا جناب مختار کے گھر میں مسلم کے پاس آناجانا (ج٥ص٣٥٤۔ ٣٥٥) اورہانی بن عروہ کی شہادت کے بعد ابن زیاد کا خطبہ،ان تمام روایتوں کو محمد بن بشیر ہمدانی نے ایک واسطہ سے حجاج بن علی بارقی ہمدانی کے حوالے سے نقل کیا ہے ۔

یہ شخص سلیمان بن صرد کے گھر میں شیعوں کے اس اجتماع میں حاضر تھا ،کیونکہ وہ کہتا ہے :''فذکرنا هلاک معاویه فحمد نا الله علیه فقال لنا سلیمان بن صرد ''تو ہم نے معایہ کی ہلاکت کا تذکرہ کیا او راس پر خدا کا شکر ادا کیا تو سلیما ن بن صرد نے ہم سے کہا ''ثم سرحنابالکتاب ...''پھر خط لے کر ہم لوگ نکلے ،''وامر نا هما با لنجاء ''اور ہم نے ان دونوں کو کاملاًرازداری کا حکم دیا،'' ...ثم سرحنا الیہ ..''.پھر ہم لوگ اس کی طرف گئے''ثم لبثنا یومین آخرین ثم سرحنا الیه ...''پھر ہم لوگ دو دنوں تک ٹھہرتے رہے پھر اس کی طرف گئے ''...وکتبنا معھما ..''اور ہم نے ان دونوں کے ساتھ لکھا۔ (ج٥، ص٣٥٤ ۔ ٣٥٥)یہ شخص مختار کے گھر میں مسلم کے سامنے اس شیعی اجتماع میں حاضر تھا لیکن جنگ و جدال سے بچے رہنے کی غرض سے مسلم کی بیعت نہ کی، کیونکہ راوی حجاج بن علی کا بیان ہے کہ میں نے محمد بن بشیر سے کہا :''فھل کان منک ان تقول''؟کیا تم اس مورد میں کوئی عہد پیمان کروگے تو محمد بن بشیر نے جواب دیا:''ان کنت لأ حب ان یعز اللّه أصحابی با لظفر'' اگرچہ میں چاہتاہوں کہ خدا ہمارے ساتھیوں کو فتح وظفر کی عزت سے سر فراز کرے ''وما کنت احب ان اقتل !وکر هت ان اکذب'' (ج٥، ص٣٥٥) لیکن میں قتل ہو نا نہیں چاہتااور میں جھوٹ بولنا بھی پسند نہیں کر تا ۔

۵۷

لسان المیزان میں ابو حاتم کے حوالے سے اس کا ذکر ہے کہ ابو حاتم کہتے ہیں :''یہ شخص محمد بن سائب کلبی کو فی ہے۔اسے اس کے جد محمد بن سائب بن بشر کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے۔(١) شیخ طوسی نے اپنی کتاب رجال میں اس شخص کو امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہما السلام کے اصحاب میں شمار کیا ہے ۔(٢)

٤۔ ابو الودّاک جبربن نوف ہمدانی :

کوفہ میں نعمان بن بشیر انصاری (معاویہ اوریزید دونوں کی جانب سے کوفہ کاحاکم) کا خطبہ ، کو فیوں کا خط یزیدکے نام ،(ج٥، ص٣٥٥۔٣٥٦) کوفہ میں ابن زیاد کا خطبہ، (ج٥،ص٣٥٨۔ ٣٥٩)مسلم کا ہانی کے گھر منتقل ہو نا ، ابن زیاد کی طرف سے معقل شامی کا جاسوسی کے ذریعہ مسلم کا سراغ پانا ، ابن زیاد کا ہانی کی عیادت کو آنا اور عمارہ بن عبید سلولی کا اشارہ کرنا کہ ابن زیاد کو قتل کردیں ، لیکن ہانی کا اس مشورہ کو پسند نہ کرنا ، ہانی کے گھر ابن زیاد کا شریک بن اعور حارثی ہمدانی کی عیادت کو آنا اور شریک کا مسلم کو اشارہ کرنا کہ ابن زیادکو قتل کر دیں لیکن مسلم کا انکار کر نا،جس پر ہانی کا کبیدہ خاطر ہونا ، ابن زیاد کا ہانی کو طلب کر نا اور انہیں زدو کوب کرنااور قید کردینا ،اس پر عمروبن حجاج زبید ی کا قبیلہ کے جوانوں اور بہادروں کو لے کر دارالامارہ کے ارد گردہانی کی رہائی کے لئے ہجوم کرنا، اس پر دھوکہ اور فریب کے ساتھ قاضی شریح کا ہانی کے پاس جانااور واپس لوٹ کر جھوٹی خبر دینا کہ ہانی صحیح سالم ہیں ، اس پر قبیلہ والوں کاواپس پلٹ جا نا ،مندرجہ بالا تمام خبریں اسی ابو ودّاک سے مروی ہیں ۔اس نے ان تمام اخبار کو نمیر بن وعلہ ہمدانی کے حوالے سے نقل کیا ہے، فقط آخری خبر معلی بن کلیب سے نقل کی ہے ۔

____________________

١۔لسان المیزان ،ج٥، ص٩٤

٢۔ رجال الشیخ ،ص ١٣٦۔٢٨٩ ط نجف ،طبری نے ''ذیل المذیل'' ،ص٦٥١مطبوعہ دارسویدان پر طبقات بن سعدج ،٦ ،ص٣٥٨، کے حوالے سے ذکر کیا ہے منصورکی خلا فت کے زمانے میں ،١٤٦، ہجری میں شہر کو فہ اس کی وفات ہوئی ۔

۵۸

ابو ودّاک کا پورا نام امیر المومنین کے اس خطبہ میں ملتا ہے جس کی روایت خود اس نے کی ہے کہ'' نخیلہ'' میں خوارج کی ہدایت سے مایوس ہونے کے بعد حضرت علی علیہ السلام نے ایک خطبہ دیا۔ (ج٥،ص٧٨) ظاہراًامام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد یہ شخص کوفہ ہی میں تھا ۔ ایک دن اس نے ایوب بن مشرح خیوانی کی اس بات پر بڑی مذمت کی کہ اس نے حر کے گھوڑے کو کیوں پئے کیا ؛اس نے ایوب سے کہا : ''میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ خدا تم کو ان سب کے قتل کے عذاب میں واصل جہنم کرے گا،کیا تو نہیں جانتا ہے کہ اگر تو نے ان میں سے کسی پر تیر نہ چلایا ہوتا ، کسی کے گھوڑے کو پئے نہ کیا ہوتا ، کسی پرتیر بارانی نہ کی ہوتی، کسی کے روبرو نہ آیا ہوتا ، کسی پر ہجوم نہ کیا ہو تا ، کسی پر اپنے ساتھیوں کو بر انگیختہ نہ کیا ہوتا ، کسی پر اپنے ساتھیوں کی کثرت کے ساتھ حملہ آ ور نہ ہوا ہوتا ، جب تجھ پر حملہ ہواہوتا تو مقابلہ کرنے کے بجا ئے اگر تو عقب نشینی کرلیتا اور تیرے دوسرے ساتھی بھی ایسا ہی کرتے تو کیا حسین اور ان کے اصحاب شہید ہوجاتے ؟ تم سب کے سب ان پاک سرشت اور نیک طینت افراد کے خون میں شریک ہو۔ (ج٥،ص٣٥٧، ٣٥٨) ذہبی نے ان کا تذکرہ میزان الاعتدال میں کیا ہے۔،ذہبی کا بیان ہے: ''صاحب ابی سعید الغدری صدوق مشہور'' یہ ابو سعید غدری کے ساتھی اور صداقت میں مشہور تھے۔(١) تہذیب میں اس طرح ہے :''ابن حبان نے ان کا ذکر ثقات میں کیا ہے اور ابن معین نے کہا ہے کہ یہ ثقہ ہیں ۔نسائی نے کہا ہے کہ صالح ہیں اور اپنی کتاب سنن میں ان سے روایت نقل کی ہے۔''(٢)

٥۔ ابو عثمان نہدی :

اہل بصرہ کے نام امام حسین علیہ السلام کا خط اور ابن زیاد کا اپنے بھائی عثمان کو بصرہ کا والی بنا کر کوفہ کی طرف روانہ ہونے کی خبر اسی شخص نے ایک واسطہ صقعب بن زہیر کے حوالے سے نقل کی ہے۔ یہ شخص مختار کے ساتھیوں میں تھا؛ جب یہ ابن مطیع کی حکومت میں کوفہ وارد ہواتو اسے ناداروں کی دادرسی کے امور پر مقرر کیا گیا۔ (ج٥، ص٢٢و٢٩)

____________________

١۔میزان الاعتدال، ج٤، ص٥٨٤ ،ط حلبی ۔

٢۔تہذیب التہذیب، ج٢،ص٦٠وتنقیح المقال ،ج٣،ص٢٧

۵۹

تہذیب التہذیب میں اس کا ذکرملتا ہے۔روایت میں ہے کہ وہ قبیلہ قضاعہ سے تھا۔ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا زمانہ درک کیا ہے لیکن آپ کے دیدار کا شرف اسے حاصل نہ ہوا ۔یہ شخص کوفہ کا باشندہ تھا ۔جب امام حسین علیہ السلام شہید ہوگئے تو اس نے بصرہ کو اپنا مسکن بنا لیا۔ یہ شخص اپنی قوم میں معروف آدمی تھا، ٦٠حج انجام دئے، اس کا شمارصائم النہار اورقائم اللیل میں ہوتا تھا(یعنی دن روزں میں گذرتا تھا اور شب عبادت میں ) اس پر لوگ بھروسہ کیا کرتے تھے، ایک سو تیس(١٣٠)سا ل کے سن میں ٩٥ھ میں وفات پائی ۔(١)

٦۔ عبداللہ بن خازم کثیری ازدی :

یہ شخص یوسف بن یزید کے حوالے سے حضرت مسلم بن عقیل کی جنگ کا تذکرہ کرتا ہے اور سلیمان بن ابی راشد کے واسطہ سے لوگوں کے مسلم کو دھوکہ دینے کے واقعہ کو نقل کرتا ہے۔ اس شخص نے پہلے مسلم بن عقیل علیہ السلام کی بیعت کی۔ جناب مسلم نے اسے ابن زیاد کے قصر کی طرف بھیجا تاکہ ہانی کا حال معلوم کرکے آئے ، پھر اس شخص نے جناب مسلم اورامام حسین علیہما السلام دونوں کو دھوکہ دیا ۔ (ج٥، ص٣٦٨۔٣٦٩)آخر کار اپنے کئے پر نادم ہوا اورتوابین کے ساتھ ہوگیا اور انھیں کے ہمراہ خروج کیا۔ (ج٥،ص٥٨٣) یہاں تک کہ قتل ہوگیا ۔(ج٥، ص٦٠١)

٧۔ عباس بن جعدہ جُدلی :

اس شخص کو عیاش بن جعدہ جُدلی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ جناب مسلم کا اموی حاکم کے خلاف قیام ، کوفیوں کی مسلم کے ساتھ دغااور ابن زیادکا موقف اسی شخص نے یونس بن ابی اسحاق سبیعہمدانی کے واسطہ سے نقل کیا ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس نے حضرت مسلم کے ہاتھوں پر بیعت کی اور ان کے ہمراہ نبرد میں شریک رہا، پھر درمیان جنگ سے غائب ہوگیا اوردکھائی نہ دیا ، روایت کا جملہ اس طرح ہے۔'' خرجنا مع مسلم..''.ہم لوگ مسلم کے ہمراہ سپاہ سے نبرد آزمائی کے لئے نکل پڑے ۔

٨۔عبدالرحمن بن ابی عمیر ثقفی :

مختار کو ابن زیا د کے پرچم امان کے تلے آنے کی دعوت دینااسی شخص سے منقول ہے ۔

٩۔ زائد ہ بن قدامہ ثقفی :

جناب مسلم بن عقیل سے جنگ کے لئے محمد بن اشعث کا میدان نبرد

____________________

١۔تہذیب التہذیب، ج٦،ص٢٧٧

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

وجہ سے آپ کی سانس رکنے لگ جاتی تھی_(۴۷۳)

امام حسن علیہ السلام کے حالات میں لکھا ہے کہ نماز کی حالت میں آپ کا بدن مبارک لرزنے لگتا تھا اور جب بہشت یا دوزخ کی یاد کرتے تو اس طرح لوٹتے پوٹتے کہ جیسے سانپ نے ڈس لیا ہو اللہ تعالی سے بہشت کی خواہش کرتے اور دوزخ سے پناہ مانگتے تھے_(۴۷۴)

حضرت عائشےہ رسول خدا(ص) کے بارے میں فرماتی ہیں کہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے گفتگو کر رہی ہوتی جب نماز کا وقت آیات تو آپ اس طرح منقلب ہوتے کہ گویا آپ مجھے نہیں پہچانتے اور میں انہیں نہیں پہچانتی_(۴۷۵)

امام زین العابدین علیہ السلام کے بارے میں لکھا ہے کہ آپ نماز کی حالت میں تھے کہ آپ کے کندھے سے عبا گر گئی لیکن آپ متوجہ نہیں ہوئے جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ کے اصحاب میں سے ایک نے عرض کی اے فرزند رسول(ص) آپ کی عباء نماز کی حالت میں گر گئی اور آپ نے توجہ نہیں کی؟ آپ نے فرمایا کہ افسوس ہو تم پر جانتے ہو کہ میں کس ذات کے سامنے کھڑا ہوا تھا؟ اس ذات کی توجہ نے مجھے عباء کے گرنے کی توجہ سے روکا ہوا تھا_ کیا تم نہیں جانتے کہ بندہ کی نماز اتنی مقدار قبول ہوتی ہے کہ جتنا وہ خدا کی طرف حضور قلب رکھتا ہو_ اس نے عرض کی _ اے فرزند رسو ل(ص) پس ہم تو ہلاک ہوگئے؟ آپ نے فرمایا '' نہیں _ اگر تم نوافل پڑھو تو خدا ان کے وسیلے سے تمہاری نماز کو پورا کر دے گا_(۴۷۶)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ نماز کی حالت میں آپ کا چہرہ متغیر ہوجاتا تھا اور آپ کے سینے سے غلفے کی طرح آواز اٹھتی ہوئی سنی جاتی تھی اور جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اس لباس کی طرح جو زمین پر گرا ہوا ہو حرکت نہیں کیا کرتے تھے_

۲۶۱

حضور قلب کے مراتب

حضور قلب اول اللہ تعالی کی طرف توجہ کرنے کے مختلف درجات ہیں کہ ان میں سے بعض کامل اور دوسرے بعض زیادہ کامل ہیں_ عارف انسان آہستہ آہستہ ان درجات کو طے کرے تا کہ قرب اور شہود کے اعلی درجے اور عالیتر مقام کو حاصل کر لے_ یہ ایک طویل راستہ ہے اور متعدد مقامات رکھتا ہے کہ جس کی وضاحت مجھ جیسے محروم انسان سے دور ہے دور سے دیکھتے والا جو حسرت کی آگ میں جل رہا ہے یہ اس کی قدرت اور طاقت سے خارج ہے لیکن اجمالی طور سے بعض مراتب کی طرف اشارہ کرتا ہوں شاید کہ عارف انسان کے لئے فائدہ مند ہو_

پہلا مرتبہ

یوں ہے کہ نماز پڑھنے والا تمام نماز یا نماز کے بعض حصے میں اجمالی طور سے توجہ کرے کہ خداوند عالم کے سامنے کھڑا ہوا ہے اور اس ذات کے ساتھ ہم کلام اور راز و نیاز کر رہا ہے گرچہ اسے الفاظ کے معانی کی طرف توجہ نہ بھی ہو اور تفضیلی طور سے نہیں جانتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے_

دوسرا مرتبہ

قلب کے حضور اور توجہ کا یوں ہونا کہ نمازی علاوہ اس کے کہ وہ نماز کی حالت میں اپنے آپ کو یوں جانے کہ خدا کے سامنے کھڑا اور آپ سے راز و نیاز کر رہا ہے ان کلمات کے معانی کی طرف بھی توجہ کرے جو پڑھ رہا ہے اور سمجھے کہ وہ خدا سے کیا کہہ رہا ہے اور کلمات اور الفاظ کو اس طرح ادا کرے کہ گویا ان کے معانی کو اپنے دل پر خطور دے رہا ہے مثل اس ماں کے جو الفاظ کے ذریعے اپنے فرزند کو معانی کو تعلیم دیتی ہے_

۲۶۲

تیسرا مرتبہ

یہ ہے کہ نمازی تمام سابقہ مراتب بجا لاتے ہوئے تکبیر اور تسبیح تقدیس اور تحمید اور دیگر اذکار اور کلمات کی حقیقت کو خوب جانتا ہو اور ان کو علمی دلیلوں کے ذریعے پہچانتا ہو اور نماز کی حالت میں ان کی طرف متوجہ ہو اور خوف جانے کہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا چاہتا ہے اور کس ذات سے ہم کلام ہے_

چوتھے مرتبہ

یہ ہے کہ نمازی ان سابقہ مرحلوں کے ساتھ کلمات اور اذکار کے معانی اور معارف کو اچھی طرح اپنی ذات کے اندر سموئے اور کامل یقین اور ایمان کے درجے پر جا پہنچے اس حالت میں زبان دل کی پروی کرے گی اور دل چونکہ ان حقائق کا ایمان رکھتا ہے زبان کو ذکر کرنے پر آمادہ اور مجبور کرے گا_

پانچواں مرتبہ

یہ ہے کہ نمازی سابقہ تمام مراحل کے ساتھ کشف اور شہود اور حضور کامل تک جاپہنچے اللہ تعالی کے کمالات اور صفات کو اپنی باطنی آنکھوں سے مشاہدہ کرے اور سوائے خدا کے اور کسی چیز کو نہ دیکھے یہاں تک کہ اپنے آپ اور اذکار اور افعال اور حرکات کی طرف بھی متوجہ نہ ہو خدا سے ہم کلام ہے یہاں تک کہ متکلم اور کلام سے بھی غافل ہے اپنے آپ کو بھی گم اور ختم کر چکا ہے_ اور اللہ تعالی کے جمال کے مشاہدے میں محو اور غرق ہے_ یہ مرتبہ پھر کئی مراتب اور درجات رکھتا ہے کہ عارف انسانوں کے لحاظ سے فرق کر جاتا ہے _ یہ مرتبہ ایک عمیق اور گہرا سمندر ہے بہتر یہی ہے کہ مجھ جیسا محروم انسان اس میں وارد نہ ہو اور اس کی وضاحت ان کے اہل اور مستحق لوگوں کی طرف منتقل کردے_اللهم ارزقنا حلاوة ذکرک و

۲۶۳

مشاهدة جمالک

حضور قلب اور توجہ کے اسباب

جتنی مقدار حضور قلب اور توجہ کی ارزش اور قیمت زیادہ ہے اتنی مقدار یہ کام مشکل اور سخت دشوار بھی ہے _ جب انسان نماز میں مشغول ہوتا ہے تو شیطان وسوسہ ڈالنا شروع کردیتا ہے او ردل کو دائما ادھر ادھر لے جاتا ہے اور مختلف خیالات اور افکارمیں مشغول کر دیتا ہے_ اسی حالت میں انسان حساب کرنا شروع کر دیتا ہے بقشے بناتا ہے اور گذرے ہوئے اور آئندہ کے مسائل میں فکر کرنا شروع کر دیتا ہے_ علمی مطالب کو حل کرتا ہے اور بسا اوقات ایسے مسائل اور موضوعات کو کہ جن کو بالکل فراموش کر چکا ہے نماز کی حالت میں یاد کرتا ہے اور اس وقت اپنے آپ میں متوجہ ہوتا ہے کہ جب نماز ختم کر چکا ہوتا ہے اور اگر اس کے درمیان تھوڑا سا نماز کی فکر میں چلا بھی جائے تو اس سے فورا منصرف ہوجاتا ہے_

بہت سی تعجب اور افسوس کا مقام ہے _ کیا کریں کہ اس سرکش اور بیہودہ سوچنے والے نفس پر قابو پائیں کس طرح نماز کی حالت میں مختلف خیالات اور افکار کو اپنے آپ سے دور کریں اور صرف خدا کی یاد میں رہیں_ جن لوگوں نے یہ راستہ طے کر لیا ہے اور انہیں اس کی توفیق حاصل ہوئی ہے وہ ہماری بہتر طریقے سے راہنمایی کر سکتے ہیں_ بہتر یہ تھا کہ یہ قلم اور لکھنا اس ہاتھ میں ہوتا لیکن یہ حقیر اور محروم بھی چند مطالب کی طرف اشارہ کرتا ہے جو حضور قلب اور توجہہ کے فائدہ مند ہوں گے_

۱_ گوشہ نشینی

اگر مستحب نماز یا فرادی نماز پڑھے تو بہتر ہے کہ کسی تنہائی کے مکان کو منتخب کرے کہ ج ہاں شور و شین نہ ہو اور وہاں کوئی فوٹو و غیرہ یا کوئی ایسی چیز نہ ہو کہ جو نمازی کو اپنی طرف متوجہ کرے اور عمومی جگہ پر نماز پڑھے اور اگر گھر میں نماز پڑھے تو

۲۶۴

بہتر ہے کہ کسی خاص گوشے کو منتخب کر لے اور ہمیشہ وہاں نماز پڑھتا رہے نماز کی حالت میں صرف سجدہ گاہ پر ن گاہ رکھے یا اپنی آنکھوں کو بند رکھے اور ان میں سے جو حضور قلب اور توجہہ کے لئے بہتر ہو اسے اختیار کرے اور بہتر یہ ہے کہ چھوٹے کمرے یا دیوار کے نزدیک نماز پڑھے کہ دیکھنے کے لئے زیادہ جگہ نہ ہو اور اگر نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھے تو پھر صرف سجدہ گاہ پر نگاہ کرے اور اگر پیش نماز بلند آواز سے قرات پڑھے تو اس کی قرائت کی طرف خوب توجہ کرے_

۲_ رکاوٹ کا دور کرنا

نماز شروع کرنے سے پہلے جو حضور قلب اور توجہ کا مانع اور رکاوٹ ہے اسے دور کرے پھر نماز پڑھنے میں مشغول ہوجائے اور اگر پیشاب اور پاخانے کا زور ہو تو پہلے اس سے فارغ ہو جائے اس کے بعد وضو کرے اور نماز میں مشغول ہو اور اگر سخت بھوک اور پیاس لگی ہوئی ہو تو پہلے کھانا اور پانی پی لے اور اس کے بعد نماز پڑھے اور اگر پیٹ کھانے سے بھرا ہوا اور نماز پڑھنے کو دل نہ چاہتا ہو تو پھر ٹھہر جائے اور صبر کرے یہاں تک کہ نماز پڑھنے کو دل چاہنے لگے_

اور اگر زیادہ تھکاوٹ یا نیند کے غلبے سے نماز پڑھنے کو دل نہ چاہتا ہو_ تو پہلے اپنی تکاوٹ اور نیند کو دور کرے اس کے بعدنماز پڑھے_ اور اگر کسی مطلب کے واضح نہ ہونے یا کسی واقعہ کے رونما ہونے سے پریشان ہو اگر ممکن ہو تو پہلے اس پریشانی کے اسباب کو دور کرے اور پھر نماز میں مشغول ہو سب سے بڑی رکاوٹ دنیاوی امور سے محبت اور علاقہ اور دلبستگی ہوا کرتی ہے_ مال و متاع _ جاہ و جلال اور منصب و ریاست اہل و عیال یہ وہ چیزیں ہیں جو حضور قب کی رکاوٹ ہیں ان چیزوں سے محبت انسان کے افکار کو نماز کی حالت میں اپنی طرف مائل کر دیتے ہیں اور ذات الہی کی طرف متوجہ ہونے کو دور کر دیتے ہیں_ نماز کو ان امور سے قطع تعلق کرنا چاہئے تا کہ اس کی توجہ اور حضور قلب اللہ تعالی کی طرف آسان ہوجائے_

۲۶۵

۳_ قوت ایمان

انسان کی اللہ تعالی کی طرف توجہ اس کی معرفت اور شناخت کی مقدار کے برابر ہوتی ہے اگر کسی کا اللہ تعالی پر ایمان یقین کی حد تک پہنچا ہوا ہو اور اللہ تعالی کی قدرت اور عظمت اور علم اور حضور اور اس کے محیط ہونے کا پوری طرح یقین رکھتا ہو تو وہ قہر اللہ تعالی کے سامنے خضوع اور خشوع کرے گا_ اور اس غفلت اور فراموشی کی گنجائشے باقی نہیں رہے گی_ جو شخض خدا کو ہر جگہ حاضر اور ناظر جانتا ہو اور اپنے آپ کو اس ذات کے سامنے دیکھتا ہو تو نماز کی حالت میں جو ذات الہی سے ہم کلامی کی حالت ہوتی ہے کبھی بھی اللہ تعالی کی یاد سے غافل نہیں ہوگا_ جیسے اگر کوئی طاقت ور بادشاہ کے سامنے بات کر رہا ہو تو اس کے حواس اسی طرف متوجہ ہونگے اور جانتا ہے کہ کیا کہہ رہاہے اور کیا کر رہا ہے اگر کوئی اللہ تعالی کو عظمت اور قدرت والا جانتا ہو تو پھر وہ نماز کی حالت میں اس سے غافل نہیں ہوگا لہذا انسان کو اپنے ایمان اور معرفت الہی کو کامل اور قوی کرنا چاہئے تا کہ نماز میں اسے زیادہ حضور قلب حاصل ہوسکے_

پیغمبر اکرم نے فرمایا ہے کہ '' خدا کی اس طرح عبادت کر کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے_(۴۷۸)

ابان بن تغلب کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ میں نے امام زین العابدین علیہ السلام کو دیکھا ہے کہ آپ کا نماز میں ایک رنگ آتا تھآ اور جاتا تھا؟ آپ نے فرمایا '' ہاں وہ اس مبعود کو کہ جس کے سامنے کھڑے تھے کامل طور سے پہچانتے تھے_(۴۷۹)

۴_ موت کی یاد

حضور قلب اور توجہ کے پیدا ہونے کی حالت کا ایک سبب موت کا یاد کرنا ہو

۲۶۶

سکتا ہے اگر انسان مرنے کی فکر ہیں اور متوجہ ہو کہ موت کا کوئی وقت نہیں ہوتا ہر وقت اور ہر شرائط میں موت کاواقع ہونا ممکن ہے یہاں تک کہ شاید یہی نماز اس کی آخری نماز ہو تو اس حالت میں وہ نماز کو غفلت سے نہیں پڑھے گا بہتر ہے کہ انسان نماز سے پہلے مرنے کی فکر میں جائے اور یوں تصور کرے کہ اس کے مرنے کا وقت آ پہنچا ہے اور حضرت عزرائیل علیہ السلام اس کی روح قبض کرنے کے لئے حاضر ہو چکے ہیں تھوڑا سا وقت زیادہ نہیں رہ گیا اور اس کے اعمال کا دفتر اس کے بعد بند ہو جائیگا اور ابدی جہاں کی طرف روانہ ہوجائے گا وہاں اس کے اعمال کا حساب و کتاب لیا جائے گا جس کا نتیجہ یا ہمیشہ کی سعادت اور اللہ تعالی کے مقرب بندوں کے ساتھ زندگی کرنا ہوگا اور یا بدبختی اور جہنم کے گڑھے میں گر کر عذاب میں مبتلا ہونا ہوگا_

اس طرح کی فرک اور مرنے کو سامنے لانے سے نماز میں حضور قلب اور توجہ کی حالت بہتر کر سکے گا اور اپنے آپ کو خالق کائنات کے سامنے دیکھ رہا ہوگا اور نماز کو خضوع اور خشوع کی حالت میں آخری نمازسمجھ کر بجا لائیگا نماز کے شروع کرنے سے پہلے اس طرح اپنے آپ میں حالت پیدا کرے اور نماز کے آخر تک یہی حالت باقی رکھے_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' واجب نماز کو اس کے وقت میں اس طرح ادا کرو کہ وہ تمہاری وداعی اور آخری نماز ہے اور یہ خوف رہے کہ شاید اس کے بعد نماز پڑھنے کی توفیق حاصل نہ ہو_ نماز پڑھنے کی حالت میں سجدہ گاہ پر نگاہ رکھے اور اگر تجھے معلوم ہوجائے کہ تیرے نزدیک کوئی تجھے دیکھ رہا ہے اور پھر تو نماز کو اچھی طرح پڑھنے لگے تو جان لے کہ تو اس ذات کے سامنے ہے جو تجھے دیکھ رہا ہے لیکن تو اس کو نہیں دیکھ رہا_(۴۸۰)

۵_ آمادگی

جب نمازی نے تمام رکاوٹیں دور کر لی ہوں تو پھر کسی خلوت اور تنہائی کی

۲۶۷

مناسب جگہ جا کر نماز پڑھنے کے لئے تیار ہوجائے اور نماز شروع کرنے سے پہلے اللہ تعالی کی بے پناہ عظمت اور قدرت اور اپنی ناتوانی اور کمزوری کو یاد کرے اور یہ یاد کرے کہ وہ پروردگار اور تمام چیزوں کے مالک کے سامنے کھڑا ہے اور اس سے ہمکلام ہے_ ایسی عظیم ذات کے سامنے کھڑا ہے کہ جو تمام افکار یہاں تک کہ مخفی سوچ اور فکر کو جانتا ہے_ موت اور اعمال کے حساب اور کتاب بہشت اور دوزخ کو سامنے رکھے اور احتمال دے کہ شاید یہ اس کی آخری نماز ہو اپنی اس سوچ اور فکر اتنا زیادہ کرے کہ اس کی روح اس کی تابع اور مطیع ہوجائے اس وقت توجہ اور حضور قلب سے اذان اور اقامہ کہتے اور اس کے بعد نماز کی طرف مہیا ہونے والی یہ دعا پڑھے _ اللہم الیک توجہت و مرضاتک طلبت و ثوابک ابتقیت و بک امنت و علیک توکلت اللہم صل علی محمد و آلہ محمد و افتح مسامع قلبی لذکرک و ثبتنی علی دینک و دین نبیک و لا تزغ قلبی بعد اذ ہدیتنی و ہب لی من لدنک رحمة انک انت الوہاب

اس دعا کے پڑھتے کے وقت ان کلمات کی معانی کی طرف توجہ کرے پھر یہ کہے _ یا محسن قد اتاک المسئی یا محسن احسن الی

اگر حضور قلب اور توجہہ پیدا ہوجائے تو پھر تکبیر الاحرام کہے اور نماز میں مشغول ہوجائے اور اگر احساس ہوجائے کہ ابھی وہ حالت پیدا نہیں ہوئی تو پھر استغفار کرے اور شیطانی خیالات سے خداوند عالم سے پناہ مانگے اور اتنا اس کو تکرار کرے کہ اس میں وہ حالت پیدا ہوجائے تو اس وقت حضور قلب پیدا کر کے تکبیرة الاحرام کے معنی کی طرف توجہہ کرے نماز میں مشغول ہوجائے لیکن متوجہ رہے کہ وہ کس ذات سے ہمکلام ہے اور کیا کہہ رہا ہے اور متوجہ رہے کہ زبان اور دل ایک دوسرے کے ہمراہوں اور جھوٹ نہ بولے کیا جانتا ہے کہ اللہ اکبر کے معنی کیا ہیں؟ یعنی اللہ تعالی اس سے بلند و بالا ہے کہ اس کی تعریف اور وصف کی جا سکے درست متوجہ رہے کہ کیا

۲۶۸

کہتا ہے آیا جو کہہ رہا ہے اس پر ایمان بھی رکھتا ہے_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جب تو نماز کے قصد سے قبلہ رخ کھڑا ہو تو دنیا اور جو کچھ اس میں ہے لوگوں اور ان کے حالات اور اعمال سب کو ایک دفعہ بھولا دے اور اپنے دل کو ہر قسم کے ایسے کام سے جو تجھے یاد خدا سے روکتے ہوں دل سے نکال دے اور اپنی باطنی آنکھ سے ذات الہی کی عظمت اور جلال کا مشاہدہ کر اور اپنے آپ کو خدا کے سامنے اس دن کے لئے حاضر جان کہ جس دن کے لئے تو نے اپنے اعمال اگلی دنیا کے لئے بھیجے ہیں اور وہ ظاہر ہونگے اور خدا کی طرف رجوع کریں گے اور نماز کی حالت میں خوف اور امید کے درمیان رہ تکبرة الاحرام کہنے کے وقت جو کچھ زمین اور آسمان کے درمیان ہے معمولی شمار کر کیونکہ جب نمازی تکبیرة الاحرام کہتا ہے خداوند عالم اسکے دل پر نگاہ کرتا ہے اگر تکبیر کی حقیقت کی طرف متوجہ نہ ہو تو اسے کہتا ہے اے جھوٹے_ مجھے دھوکا دینا چاہتا ہے؟ مجھے عزت اور جلال کی قسم میں تجھے اپنے ذکر کی لذت سے محروم کرونگا اور اپنے قرب اور اپنی مناجات کرنے کی لذت سے محروم کر دونگا_(۴۸۱)

درست ہے کہ نیت اور تکبرة الاحرام کے وقت اس طرح کی تیاری قلب کے حضور کے لئے بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے لیکن سب سے مہم تر یہ ہے کہ ایسی حالت استمرار پیدا کرے اگر معمولی سے غفلت طاری ہوگئی تو انسان کی روح ادھر ادھر پرواز کرنے لگے گی اور حضور اور توجہہ خداوند عالم کی طرف سے ہٹ جائیگی_ لہذا نمازی کو تمام نماز کی حالت میں اپنے نفس کی مراقبت اور حفاظت کرنی چاہئے اور مختلف خیالات اور افکار کو روکنا چاہئے ہمیشہ اپنے آپ کو خدا کے سامنے حاضر سمجھے اور اس طرح نماز پڑھے کہ خدا کے ساتھ کلام کر رہا ہے اور اس کے سامنے رکوع اور سجود کر رہا ہے اور کوشش کرے کہ قرائت کرتے وقت ان کے معانی کی طرف متوجہ رہے اور غور کرے کہ کیا کہہ رہا ہے اورکس عظیم ذات کے ساتھ گفتگو کر رہا ہے اس حالت کو

۲۶۹

نماز کے آخر تک باقی رکھے گرچہ یہ کام بہت مشکل اور دشوار ہے لیکن نفس کی مراقبت اور کوشش کرنے سے آسان ہو سکتا ہے و الذین جاہدوا فینا لنہدینہم سبلنا اگر اسے اس کی ابتداء میں توفیق حاصل نہ ہو تو ناامید نہ ہو بلکہ بطور حتمی اور کوشش کر کے عمل میں وارد ہوتا کہ تدریجاً نفس پر تسلط حاصل کرلے_ مختلف خیالات کو دل سے نکالے اور اپنے آپ کو خدا کی طرف توجہ دے اگر ایک دن یا کئی ہفتے اور مہینے یہ ممکن نہ ہوا ہو تو مایوس اور نا امید نہ ہو اور کوشش کرے کیونکہ یہ بہرحال ایک ممکن کام ہے_ انسانوں کے درمیان ایسے بزرگ انسان تھے اور ہیں کہ جو اول نماز سے آخر نماز تک پورا حضور قلب رکھے تھے اور نماز کی حالت میں خدا کے علاوہ کسی طرف بالکل توجہ نہیں کرتے تھے_ ہم بھی اس بلند و بالا مقام تک پہنچنے سے نا امید نہ ہوں اگر کامل مرتبہ تک نہیں پہنچے پائے تو کم از کم جتنا ممکن ہے اس تک پہنچ جائیں تو اتنا ہی ہمارے لئے غنیمت ہے_(۴۸۲)

دوم _ نوافل

پہلے بیان ہوچکا ہے کہ سیر اور سلوک اور اللہ تعالی سے تقرب کا بہترین راستہ نماز ہے_ اللہ تعالی انسان کی خلقت کی خصوصیت کے لحاظ سے اس کے تکامل اور کمال حاصل کرنے کے طریقوں کو دوسروں سے زیادہ بہتر جانتا ہے_ اللہ تعالی نے نماز کو بنایا ہے اور پیغمبر علیہ السلام کے ذریعے انسانوں کے اختیار میں دیا ہے تا کہ وہ اپنی سعادت اور کمال حاصل کرنے کے لئے اس سے فائدہ حاصل کریں _ نماز کسی خاص حد تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سے ہر زمانے میں ہر مکان اور ہر شرائط میں فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے نماز کی دو قسمیں ہیں ایک واجب نمازیں اور دوسری مستحب نمازیں_

چھ نمازیں واجب ہیں پہلی پنجگانہ نمازیں یعنی دن اور رات میں پانچ نمازیں دوسری نماز آیات تیسری نماز میت چوتھی نماز اطراف پانچویں وہ نمازیں جو نذر یا قسم یا

۲۷۰

عہد سے انسان پر واجب ہوتی ہیں چھٹی باپ کی نمازیں جو بڑے لڑکے پر واجب ہیں_

پنجگانہ نمازیں تو تمام مکلفین مرد اور عورت پر واجب ہیں لیکن باقی نمازیں خاص زمانے اور خاص شرائط سے واجب ہوتی ہیں_ جو انسان اپنی سعادت اور کمال کا طالب ہے اس پر پہلے ضروری ہے کہ وہ واجب نمازوں کو اس طرح جس طرح بنائی گئی ہیں انجام دے_ اگر انہیں خلوص اور حضور قلب سے انجام دے تو یہ بہترین اللہ تعالی سے تقرب کا موجب ہوتی ہیں_ واجبات کو چھوڑ کر مستحبات کا بجا لانا تقرب کا سبب نہیں ہوتا_ اگر کوئی خیال کرے کہ فرائض اور واجبات کو چھوڑ کر مستحبات اور اذکار کے ذریعے تقرب یا مقامات عالیہ تک پہنچ سکتا ہے تو اس نے اشتباہ کیا ہے_ ہاں فرائض کے بعد نوافل اور مستحبات سے مقامات عالی اور تقرب الہی کو حاصل کر سکتا ہے_ دن اور رات کے نوافل پینتیں ہیں ظہر کی آٹھ ظہر سے پہلے اور عصر کی آٹھ عصر سے پہلے اور تہجد کی گیارہ رکعت ہیں_ احادیث کی کتابوں میںنوافل کے پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے اور انہیں واجب نمازوں کا متمم اور نقص کو پر کرنے والا بتلایا گیا ہے_ دن اور رات کی نوافل کے علاوہ بھی بعض نوافل خاص خاص زمانے اور مکان میں بجالانے کا کہا گیا ہے او ران کا ثواب بھی بیان کیا گیا ہے آپ مختلف مستحب نمازوں اور ان كّے ثواب اور ان کے فوائد اور اثرات کو حدیث اور دعا کی کتابوں سے دیکھ سکتے ہیں اور نفس کے کمال تک پہنچنے میں ان سے استفادہ کرسکتے ہیں ان سے فائدہ حاصل کرنے کا طریقہ ہمیشہ کے لئے کھالا ہوا ہے_ اس کے علاوہ بھی ہر وقت ہر جگہ اور ہر حالت میں نماز پڑھنا مستحب ہے_

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا '' مستحب نمازیں مومن کے لئے تقرب کا سبب ہوا کرتی ہیں_(۴۸۳)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کبھی آدھی اور کبھی تہائی اور چوتھائی نماز اوپر جاتی ہے_ یعنی قبول ہوتی ہے_ اتنی نماز اوپر جاتی ہے اور قبول ہوتی ہے کہ

۲۷۱

جتنی مقدار اس میں حضور قلب ہو اسی لئے مستحب نمازوں کے پڑھنے کا کہا گیا ہے تا کہ ان کے ذریعے جو نقصان واجب نماز میں رہ گیا ہے پورا کیا جائے_(۴۸۴)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' مومن بندہ میرے نزدیک محبوب ہے اور اس کے لئے واجبات پر عمل کرنے سے اور کوئی چیز بہتر نہیں ہے مستحبات کے بجالانے سے اتنا محبوب ہوجاتا ہے کہ گویا میں اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں کہ جس سے وہ دیکھتا ہے اور گویا میں اس کی زبان ہوجاتا ہوں کہ جس سے وہ بولتا ہے اور گویا میں اس کا ہاتھ ہوجاتا ہوں کہ جس سے وہ چیزوں کو پکڑتا ہے اور گویا میں اس کا پاؤں ہو جاتا ہوں کہ جس سے وہ چلتا ہے اگر وہ مجھے پکارے تو میں قبول کرتا ہوں اور جواب دیتا ہوں اور اگر کوئی چیز مجھ سے مانگے تو اسے عطا کرتا ہوں میں نے کسی چیز میں تردید اور ٹھہراؤ پیدا نہیں کیا جتنا کہ مومن کی روح قبض کرنے میں کیا ہے وہ مرنے کو پسند نہیں کرتا اور میں بھی اس کا ناپسندی کو ناپسند کرتا ہوں_(۴۸۵)

سوّم_ تہجّد

مستحبات میں سے تہجد کی نماز کی بہت زیادہ فضیلت حاصل ہے قرآن مجید اور احادیث میں اس کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے خداوند عالم کی ذ ات پیغمبر علیہ السلام کو فرماتا ہے کہ ''رات کو تھوڑے سے وقت میں تہجد کی نماز کے لئے کھڑا ہو یہ تیرے لئے مستحب ہے شاید خدا تجھے خاص مقام کے لئے مبعوث قرار دے دے_(۴۸۶)

اللہ تعالی اپنے خاص بندوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ '' کچھ لوگ رات کو اپنے پروردگار کے لئے سجدے اور قیام کے لئے رات گذارتے ہیں_(۴۸۷)

اللہ تعالی مومنین کی صفات میں یوں ذکر کرتا ہے کہ '' رات کو بستر سے اپنے آپ کو جدا کرتے ہیں اور امید اور خوف میں خدا کو پکارتے ہیں اور جو کچھ انہیں دیا گیا ہے

۲۷۲

خرچ کرتے ہیں کوئی نہیں جان سکتا کہ کتنی نعمتیں ہیں جو ان کی آنکھ کے روشنی اور ٹھنڈک کا موجب بنیں گی جنہیں ان کے اعمال کی جزاء کے طور پر محفوظ کیا جاچکا ہے_(۴۸۸)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ خداوند عالم نے دنیا کو وحی کی ہے کہ اپنی خدمت کرنے والوں کو مصیبت اورمشقت میں ڈال اور جو ترک کر دے اس کی خدمت کر جب کوئی بندہ رات کی تاریکی میں اپنے خالق سے خلوت اور مناجات کرتا ہے تو خدا اس کے دل کو نورانی کردیتا ہے جب وہ کہتا ہے با رب یا رب تو خدا کی طرف سے کہا جاتا ہے_ لبیک یا عبدی_ تو جو چاہتا ہے طلب کرتا کہ میں تجھے عطا کروں مجھ پر توکل اور آسرا کرتا کہ میں تجھے کفایت کروں اس کے بعد اپنے فرشتوں سے کہتا ہے کہ میرے بندے کو دیکھو کس طرح تاریکی میں میرے ساتھ مناجات کر رہا ہے جب کہ بیہودہ لوگ لہو اور لعب میں مشغول ہیں اور غافل انسان سوئے ہوئے ہیں تم گواہ رہو کہ میں نے اسے بخش دیا ہے_(۴۸۹)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرماتے ہیں کہ '' جبرائیل مجھے تہجد کی نماز میں اتنی سفارش کر رہا تھا کہ میں نے گمان کیا کہ میری امت کے نیک بندے رات کو کبھی نہیں سوئیں گے_(۴۹۰)

پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' آدھی رات میں دو رکعت نماز پڑھنا میرے نزدیک دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے_(۴۹۱)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' تہجد کی نماز شکل کو خوبصورت اور اخلاق کو اچھا اور انسان کو خوشبودار بناتی ہے اور رزق کو زیادہ کرتی ہے اور قرض کو ادا کراتی ہے اور غم اور اندوہ کو دور کرتی ہے اور آنکھوں کو روشنائی اور جلادیتی ہے_(۴۹۲)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' تہجد کی نماز اللہ تعالی کی خوشنودی اورملائکہ سے دوستی کا وسیلہ ہے_ تہجد کی نماز پیغمبروں کاطریقہ اور سنت اور ایمان اور معرفت کے لئے نور اور وشنی ہے_ کیونکہ تہجد کی نماز کے ذریعے ایمان قوی ہوتا ہے) بدن کو آرام دیتی ہے اور شیطان کو غضبناک کرتی ہے_ دشمنوں

۲۷۳

کے خلاف ہتھیار ہے دعا اور اعمال کے قبول ہونے کا ذریعہ ہے انسان کی روزی کو وسیع کرتی ہے_ نمازی اور ملک الموت کے درمیان شفیع ہوتی ہے_ قبر کے لئے چراغ اور فرش ہے اور منکر اور نکیر کا جواب ہے_ قبر میں قیامت تک مونس اور نمازی کی زیارت کرتی رہے گی_ جب قیامت برپا ہوگی تو نمازی پر سایہ کرے گی اس کے سرکا تاج اور اس کے بدن کا لباس ہوگی_ اس کے سامنے نور اور روشنی ہوگی اور جہنم اور دوزخ کی آگ کے سامنے نور اور روشنی ہوگی اور جہنم اور دوزخ کی آگ کے سامنے رکاوٹ بنے گی_ مومن کے لئے اللہ تعالی کے نزدیک حجت ہے اور میران میں اعمال کو بھاری اور سنگین کردے گی پل پر عبور کرنے کا حکم ہے اور بہشت کی چابی ہے کیونکہ نماز تکبیر اور حمد تسبیح اور تمجید تقدیس اور تعظیم قرات اور دعا ہے_ یقینا جب نماز وقت میں پڑھی جائے تو تمام اعمال سے افضل ہے_(۴۹۳)

تہجد کی نماز میں بہت زیادہ آیات اوراحادیث وارد ہوئی ہیں_ تہجد کی نماز کو پڑھنا پیغمبروں اور اولیاء خدا کا طریقہ اور سنت ہے_ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آئمہ اطہار نماز تہجد کے بارے میں خاص اہمیت اور توجہ اور عنایت رکھتے تھے_ اللہ کے اولیاء اور عرفاء شب کو ہمیشہ بجالانے سے اور سحر کیوقت دعا اور ذکر سے عالی مراتب تک پہنچے ہیں_ کتنا ہی اچھا اور بہتر اور لذت بخش ہے کہ انسان سحری کے وقت نیند سے بیدار ہوجائے اور نرم اور آرام وہ بستر کو چھوڑ دے اور وضوء کرے اور رات کی تاریکی میں جب کہ تمام آنکھیں نیند میں گم اور سوئی ہوئی ہیں اللہ تعالی کے حضور راز و نیاز کرے اور اس کے وسیلے روحانی معراج کے ذریعے بلندی کی طرف سفر کرے اور آسمان کے فرشتوں سے ہم آواز بنے اور تسبیح اور تہلیل تقدیس اور تمجید الہی میں مشغول ہوجائے اس حالت میں اس کا دل اللہ تعالی کے انوار اور اشراقات مرکز قرار اپائیگا اورخدائی جذب سے مقام قرب تک ترقی کرے گا (مبارک ہو ان لوگوں کو جو اس کے اہل ہے)

۲۷۴

نماز شب کی کیفیت

تہجد کی نماز گیارہ رکعت ہے دو دو رکعت کر کے صبح کی نماز کی طرح پڑھی جائے باین معنی کہ اٹھ رکعت کو تہجد کی نیت سے اور دور رکعت نماز شفع کی نیت سے اور ایک رکعت نماز وتر کی نیت سے پڑھے_ کے لئے کچھ آداب اور شرائط بیان کئے گئے ہیں_ جنہیں دعاؤں اور احادیث کی کتابوں میں دیکھےا جا سکتا ہے_

۲۷۵

چوتھا وسیلہ

جہاد اور شہادت

اسلام کو وسعت دینے اور کلمہ توحید کے بلند و بالا کرنے اسلام کی شوکت اور عزت سے دفاع کرنے قرآن کے احکام اور قوانین کی علمداری اور حاکمیت کو برقرار کرنے ظلم اور تعدی سے مقابلہ کرنے محروم اور مستضعفین کی حمایت کرنے کے لئے جہاد کرنا ایک بہت بڑی عبادت ہے اور نفس کے تکامل اور ذات الہی سے تقرب اور رجوع الی اللہ کا سبب ہے_ جہاد کی فضیلت میں بہت زیادہ روایات اور آیات وارد ہوئی ہیں_

خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ '' جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور اپنے وطن سے ہجرت کر لی ہے اور اپنے مال اور جان سے خدا کے راستے میں جہاد کرتے ہیں وہ اللہ کے نزدیک ایک بلند و بالا مقام اور رتبہ رکھتے ہیں اور وہی نجات پانے والے لوگ ہیں خدا انہیں اپنی رحمت اور رضوان اور بہشت کی کہ جس میں دائمی نعمتیں موجود ہیں خوشخبری اور بشارت دیتا ہے_ وہ بہشت میں ہمیشہ رہیں گے اور یقینا اللہ تعالی کے نزدیک یہ ایک بہت بڑی جزا اور ثواب ہے_(۴۹۴)

اللہ تعالی فرماتا ہے کہ '' اللہ تعالی نے مجاہدوں کو جہاد نہ کرنے والوں پر بہت زیادہ ثواب دیئے جانے میں برتری اور بلندی دی ہوئی ہے_(۴۹۵)

۲۷۶

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' بہشت کا ایک دروازہ ہے کہ جس کا نام باب المجاہدین ہے_ جب مجاہد بہشت کی طرف روانہ ہوں گے تووہ دروازہ کھل جائیگا جب کے جانے والوں نے اپنی تلواروں کو اپنے کندھوں پر ڈال رکھا ہو گا دوسرے لوگ قیامت کے مقام پر کھڑے ہونگے اور فرشتوں ان کا استقبال کریں گا_(۴۹۶)

پیغمبر اسلام نے فرمایا ہے کہ '' ہر نیکی کے اوپر کوئی نہ کوئی اور نیک موجود ہے یہاں تک کہ انسان اللہ کے راستے میں مارا جائے کہ پھر اس سے بالاتر اور کوئی نیکی موجود نہیں ہے_(۴۹۷)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص اللہ کے راستے میں شہادت پالے تو خداوند عالم سے اس کا کوئی یاد نہیں دلائے گا_(۴۹۸)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' خداوند عالم شہید کو سات چیزیں عنایت فرمائیگا_ ۱_ جب اس کے خون کا پہلا قطرہ بہتا ہے تو اس کے تمام گناہ معاف کر دیتا ہے_ ۲_ شہادت کے بعد اس کا سر دو حوروں کے دامن میں قرار دیتا ہے اور وہ اس کے چہرے سے غبار کو ہٹاتی ہیں اور کہتی ہیں_ تم پر شاباش ہو وہ بھی ان کے جواب میں ایسا کہتا ہے_ ۳_ اسے بہشت کا لباس پہنایا جاتا ہے_ ۴_ بہشت کے خزانچی اس کے لئے بہترین عطر اور خوشبو پیش کرتے ہیں کہ ان میں سے جسے چاہے انتخاب کرلے_

۵_ شہادت پانے کے وقت وہ اپنی جگہ بہشت میں دیکھتا ہے_ ۶_ شہادت کے بعد اس کی روح کی خطاب ہوتا ہے کہ بہشت میں جس جگہ تیرا دل چاہتا ہے گردش کر_ ۷_ شہید اللہ تعالی کے جمال کا مشاہدہ کرتا ہے اور اس میں ہر پیغمبر اور شہید کو آرام اور سکون ہے_(۴۹۹)

خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ '' خداوند عالم مومنین کے جان اور مال کو خرید تا ہے تا کہ اس کے عوض انہیں بہشت عنایت فرمائے یہ وہ مومن ہیں جو اللہ کے راستے میں جنگ کرتے ہیں اور دشمنوں کو قتل کرتے ہیں اور خود بھی قتل ہوجاتے ہیں یہ ان سے

۲۷۷

اللہ تعالی کا وعدہ ہے جو تو رات اور انجیل اور قرآن میں اللہ تعالی نے لکھ دیا ہے اور اللہ تعالی سے کون زیادہ وعدہ کو پورا کرنے والا ہے؟ تمہیں یہ معاملہ مبارک ہو کہ جو تم نے خدا سے کر لیا ہوا ہے اور یہ ایک بڑی سعادت ہے_(۵۰۰)

قرآن مجید کی یہ آیت ایک بڑی لطیف اور خوش کن آیت ہے کہ جو لوگوں کو عجیب اور لطیف ارو ظریف انداز سے جہاد کا شوق دلاتی ہے _ ابتداء میں کہتی ہے _ کہ اللہ تعالی نے مومنین کے مال اور جان کو خرید لیا ہے اور اس کے عوض ان کو بہشت دیتا ہے یہ کتنا بہترین معاملہ ہے؟ اللہ تعالی جو غنی مطلق اور جہان کا مالک ہے وہ خریدار ہے اور فروخت کرنے والے مومنین ہیں جو خدا اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں_ اور جن چیزوں پر معاملہ کیا ہے وہ مومنین کے مال اور جان ہیں اور اس معاملہ کا عوض بہشت ہے اس کے بعد خدا فرماتا ہے کہ تورات اورانجیل اور قرآن یعنی تین آسمانی بڑی کتابیں ہیں جن میں اس طرح کا ان سے وعدہ درج کیا گیا ہے_ پھر خدا فرماتا ہے کہ کس کو پیدا کر سکتے ہو کہ اللہ تعالی سے وعدہ پر عمل کرے آخر میں خدا مومنین کو خوشخبری دیتا ہے کہ یہ ایک بہت بڑی نیک بختی اورسعادت ہے_

قرآن مجید ان لوگوں کے لئے جو خدا کے راستے میں شہید ہوجاتے ہیں مقامات عالیہ کو ثابت کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ '' ان لوگوں کو مردہ گمان نہ کرو جو اللہ کے راستے میں شہید ہوجاتے ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں اور اللہ تعالی کے ہاں روزی پاتے ہیں_(۵۰۱) لفظ عندہم جو اس آیت میں ہے وہ بلند و بالا مقام کی طرف اشارہ ہے مرنے کے بعد انسان کی روح کا زندہ رہنا شہیدکے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام انسان زندہ ہیں لیکن شہداء کی خصوصیت یہ ہے کہ شہید اللہ کے ہاں عالیترین مقامات اور درجات میں زندہ رہتا ہے اور انہیں مقامات عالیہ میں روزی دیا جاتا ہے اور یہ واضح ہے کہ ان مقامات میں روزی دیا جانا دوسروں کے ساتھ مساوی اور برابر نہیں ہے_ اللہ تعالی کے راستے میں شہادت بہت بڑی قیمت اور بڑی عبادت ہے_ عارف اس ممتاز راستے میں عالی مقامات تک جاپہنچتا ہے_ اس بزرگ عبادت کو دوسری عبادت سے دو چیزوں کی وجہ

۲۷۸

سے خصوصیت اورامتیاز حاصل ہے_ پہلی_ مجاہد انسان کی غرض اور غایت اپنے ذاتی مفاد اور لواحقین کے مفاد کو حاصل کرنا نہیں ہوتا وہ کوتاہ نظر اور خودخواہ نہیں ہوتا بلکہ وہ جہاں میں خدا خواہ ہوا کرتا ہے_ مجاہد انسان کلمہ توحید اور اسلام کی ترویج اور وسعت کو چاہتا ہے اور ظلم اور ستم اور استکبار کے ساتھ مبارزہ اور جہاد کرتا ہے اور محروم طبقے اور مستضعفین سے دفاع کرتا ہے اور اجتماعی عدالت کے جاری ہونے کا طلبکار ہوتا ہے اور چونکہ یہ غرض سب سے بلند اور بالا ترین غرض ہے لہذا وہ اعلی درجات اور مراتب کو پالیتا ہے_

دوسری _ ایثار کی مقدار

مجاہد انسان اللہ تعالی سے تقرب اور اس کی ذات کی طرف سیر اور سلوک کے لئے ارزشمند اور قیمتی چیز کا سرمایہ ادا کرتا ہے اگر کوئی انسان صدقہ دیتا ہے تو تھوڑے سے مال سے درگذر اور صرف نظر کرتا ہے اور اگر عبادت کرتا ہے تو تھوڑا سا وقت اور طاقت اس میں خرچ کرتا ہے لیکن مجاہد انسان تمام چیزوں سے صرف نظر اور درگذر کرتا ہے اور سب سے بالاتر اپنی جان سے ہاتھ دھولیتا ہے اور اپنی تمام ہستی کو اخلاص کے ساتھ اللہ تعالی کے سپرد کر دیتا ہے_ مال اور جاہ و جلال مقام اور منصب اور اہل اور عیال اور رشتہ داروں سے صرف نظر کرتا ہے اور اپنی جان اور روح کو اپنے پروردگار کے سپرد کر دیتا ہے_ جس کام کو متدین اور عارف لوگ پوری عمر کرتے ہیں مجاہد انسان ان سب سے زیادہ تھوڑے سے وقت میں انجام دے دیتا ہے_ مجاہد انسان کی عظیم او رنورانی روح کے لئے مادیات اور مادی جہان تنگ ہوتا ہے اسی واسطے وہ شیر کی طرح مادی جہان کے پنجرے کو توڑتا ہے اور تیز پرواز کبوتر کی طرح وسیع عالم اور رضایت الہی کی طرف پرواز کرتا ہے اور اعلی مقامات اور مراتب تک اللہ تعالی کی طرف جاپہنچتا ہے_ اگر دوسرے اولیاء خدا ساری عمر میں تدریجاً محبت اور عشق اور شہود کے مقام تک پہنچتے ہیں تو مجاہد شہید ایک رات میں سو سال کا راستہ طے کر لیتا ہے اور

۲۷۹

مقام لقاء اللہ تک پہنچتا ہے _ اگر دوسرے لوگ ذکر اور ورد قیام اور قعود کے وسیلے سے اللہ کا تقرب حاصل کرتے ہیں_ تو اللہ تعالی کے راستے میں جہاد کرنے والا انسان زخم اور درد سختی اور تکلیف کو برداشت کرتے ہوئے اپنی جان کی قربانی دے کر اللہ تعالی کا تقرب ڈھونڈتا ہے_

ان دو میں بہت زیادہ فرق ہے_ جنگ اور جہاد کا میدان ایک خاص قسم کی نورانیت اور صفا اور معنویت رکھتا ہے_ شور و شفب اور عشق اور حرکت اور ایثار کا میدان ہے_ محبوب کے را ستے میں بازی لے جانے اور ہمیشگی زندگی کا میدان ہے_ مورچے میں بیٹھتے والوں کا زمزمہ ایک خاص نورانیت اور صفا اور جاذبیت رکھتا ہے کہ جس کی نظیر اور مثال مساجد اورمعابد میں بہت کم حاصل ہوتی ہے_

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438