واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا13%

واقعۂ کربلا مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 438

واقعۂ کربلا
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 438 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 192924 / ڈاؤنلوڈ: 5407
سائز سائز سائز
واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

ہے۔ کو فہ میں سلیمان بن قتّہ ہاشمی(١) کے ان اشعار کو جو اس نے امام حسین علیہ السلام کی قبر پر کہے تھے : '' مررت علیٰ ابیات آل محمدٍ ''(٢) مولف نے اسی شہر زوری کی طرف منسوب کر دیا ہے۔ اسی طرح شام میں سہل بن سعد ساعدی کی خبر کو اسی سہل بن سعید شہر زوری کے نام سے منسوب کر دیا ،(٣) گویا مؤلف نے گمان کیا ہے کہ یہ شخص وہی سھل ساعدی ہے۔

١٩۔اس کتاب میں امام حسین علیہ السلام سے رزمیہ اشعار اور رجز کو منسوب کیا گیا ہے جو تقریباً تیس اشعار پر مشتمل ہیں ۔(٤) اسی طرح عبید اللہ بن زیاد کے نزدیک عبداللہ بن عفیف ازدی کے قصید ہ کو بیان کیا ہے جو تقر یباً ٣٠ اشعار پر مشتمل ہے۔(٥)

٢٠۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کتاب میں ایسے الفاظ کی بہتات ہے جسے بعد میں آ نے والوں نے عربی میں داخل کر دیا ہے جب کہ وہ کو چہ و بازارکے الفاظ ہیں اور ایسے جملے ابو مخنف کی زبان سے اداہی نہیں ہو سکتے ، مثلا جناب مسلم کے لئے گڑھا کھودنے کے سلسلے میں یہ جملے ہیں :''واقبل علیهم لعین! وقال لهم... ونطمّها با لد غل و التراب ...وننهز م قدامه '' وہ لعین ان لوگوں کے پاس آیا اور ان سے کہا :'' اور اسے خس و خاشاک اور مٹی سے بھر دو ...اور ہم آگے سے ان پر حملہ کریں گے۔'' (ص ٣٥) دوسری جگہ یہ جملہ ہے:''راحت انصاره ''اس کے ساتھی ان کے پاس گئے۔(ص ١٣٥) تیسری جگہ یہ جملہ ہے :'' ویقظا نہ'' ان کو بیدار کیا ۔

____________________

١۔ شیخ محمد سماوی نے اس پر تعلیقہ لگا یا ہے کہ وہ شخص خاندان بنی ہا شم کا چاہنے والا تھا ۔ اس کی والدہ کا نام قتہ اور باپ کا نام حبیب تھا۔اس نے ١٢٦ ہجری میں دمشق میں وفات پائی ۔مسعودی نے انساب قر یش جو زبیر بن بکار کی کتاب ہے ، سے استفادہ کیا ہے کہ اس کا نام ابن قتتہ تھا (ج٤،ص٧٤)

٢۔ص١٠٢، ١٠٣

٣۔ص ١٢٣

٤۔ ص ٨٦ ۔٨٧، ان میں سے ١٧ بیتی ں علی بن عیسیٰ اربلی متوفی ٦٩٣ نے اپنی کتاب کشف الغمہ ، ج٢، ص ٢٣٨،طبع تبریزپر احمدبن ا عثم کوفی متوفی ٣١٤ھ کی کتاب الفتوح کے حوالے سے ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ امام علیہ السلام کا شیر خوار جب شہید ہو گیا تو آپ نے اپنے ننھے بچے کی قبر کھو دتے وقت یہ اشعار پڑھے تھے۔ اسی طرح اسی کتاب نے اس مو قع پر امام کے اشعار کو ذکر کیا ہے کہ جب آپ نے دشمن کی فوج پر زبر دست حملہ کیا تھا اور وہ فوج بھاگ گئی در حالیکہ ان میں سے ١٥٠٠ افراد فی النار ہو گئے امام یہ اشعار پڑھتے ہو ئے خیمے کی طرف بڑھے ۔ اربلی نے ص ٢٥٠پر اس بات کی صراحت کی ہے کہ یہ ابیات جس کا پہلا جملہ ''غدرالقوم''ہے جو بہت مشہور ہے اسے ابو مخنف نے ذکر نہیں کیا ہے، واللہ اعلم ۔ خو ارزمی ،متوفی ٥٦٨ہجری نے ابن اعثم ہی کے حوالے سے ان میں سے ٣ اشعار ذکر کئے ہیں ۔ (ج٦،ص٣٣)

٥۔ص١٠٨۔١٠٩

(ص ١٢٩) چو تھی جگہ جملہ یہ ہے : ''ویتحر ش''وہ دھوکہ دے رہا تھا۔ (ص١٣٦)

۴۱

ان تمام محذورات اورمشکلات کے باوجود میں تصور نہیں کرتا کہ کسی واقف کا ر انسان کے لئے اس کا احتمال بھی درست ہو کہ یہ کتاب ابو مخنف کی ہے بلکہ اس میں کو ئی شک نہیں ہے کہ یہ کتا ب جعلی ہے ۔

اسناد ابی مخنف

اب ہم آپ کے لئے تفصیلی طور پر ان راویوں کے اسماء کی فہر ست پیش کر تے ہیں جو ابو مخنف اور اس جانسوز واقعہ کے درمیان واسطہ ہیں ۔ہم ہر راوی کے نام کے سامنے اس روایت کو بھی ذکر کر یں گے جو انھوں نے نقل کی ہے۔ اس صورت میں خود کتاب کی احادیث کی فہرست بھی سامنے آ جا ئے گی۔

راویوں کے اختلاف، روایت کے کوائف اور ابی مخنف نے جن لوگوں سے روایتیں نقل کی ہیں ان کے اختلاف کے اعتبار سے ان اسماء کی فہرست چھ٦گروہ پر تقسیم ہوتی ہے ۔

راویوں کے اسماء

١۔پہلا گرو ہ وہ ہے جو اس جانسوزواقعہ کا عینی شاہد ہے اور اس نے ابی مخنف سے بلا واسطہ بطورمستقیم ان واقعات کو بیان کیا ہے؛ اس طرح ابو مخنف نے فقط ایک واسطہ سے معرکۂ کربلا کو صفحہ قرطاس پر تحریر کیا ہے۔ یہ گروہ تین افراد پر مشتمل ہے ۔

٢۔دوسرا گروہ بھی وہی ہے جو اس واقعہ کا عینی گواہ ہے لیکن اس نے اس واقعہ کوابومخنف سے بلا واسطہ نقل نہیں کیا ہے بلکہ ابو مخنف نے ایک یا دو واسطوں سے ان لوگوں سے واقعات نقل کئے ہیں یعنی معرکۂ کربلا کو دو یاتین واسطوں سے نقل کیا ہے۔اس گروہ میں ١٥افرادہیں ۔اس طرح کربلا کے روح فرسا واقعات کے عینی شاہدین کی تعداد١٨ہوتی ہے ۔

٣۔تیسرا گروہ وہ ہے جو واقعہ کربلا سے قبل یا بعد کسی نہ کسی طرح اس واقعہ میں شریک تھا ۔ان لوگوں نے ابو مخنف سے ان واقعات کی حکایت بلا واسطہ کی ہے اور ابو مخنف نے ان لوگوں سے ایک واسطہ سے اس معرکہ کا نقشہ پیش کیا ہے۔ یہ گروہ پانچ افراد پر مشتمل ہے ۔

۴۲

٤۔ چوتھے گروہ میں بھی وہی لوگ ہیں جو کسی نہ کسی طرح واقعہ کر بلا کے پہلے یا بعد اس جا نسوز واقعہ میں شریک تھے لیکن ابو مخنف نے ایک یا دو واسطہ سے ان لوگوں سے روایت نقل کی ہے اور وہ ١ ٢افراد ہیں ۔

٥۔ پانچواں گروہ وہ ہے جو نہ تو اس واقعہ کا عینی شاہد ہے اور نہ ہی اس واقعہ میں شریک ہے یہ افر اد ابو مخنف کی روایت اور ان راویوں کے در میان واسطہ ہیں ۔ اس بنا پر ابو مخنف نے معرکہ کربلا اور وہاں گزرنے والے واقعات کو ان لوگوں سے ایک یا چند واسطوں سے نقل کیا ہے اور وہ ٢٩ افراد ہیں ۔

٦۔چھٹاگروہ وہ ہے جو عادل اور نیک کردار ہے، جس میں ائمہ کے اصحاب یا خود ائمہ علیہم السلام موجود ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جو نہ تو اس معرکہ کے عینی شاہد ہیں نہ ہی العیاذ باللہ اس واقعہ میں شامل تھے۔ اس طرح یہ افراد بھی وسائط ہی میں شمار ہوتے ہیں لیکن ان لوگوں نے واسطہ سے حدیثیں نہیں بیان فرمائی ہیں یا واسطہ کی صراحت نہیں کی ہے اور یہ ١٤افراد ہیں ۔

اس جدول سے یہ روشن ہوجا تا ہے کہ جن لوگوں نے بالواسطہ یا بلا واسطہ ابو مخنف سے حدیثیں نقل کی ہیں وہ کل انتالیس(٣٩) افراد ہیں جنھوں نے سند کے ساتھ٦٥ روایات نقل کی ہیں اور کتاب ابو مخنف کل انھیں روایتوں کا مجموعہ ہے جو فی الوقت ہماری دست رس میں نہیں ہے۔ ہم نے ان افراد کی شرح احوال یا تو کتب رجالی سے حاصل کی ہے یا تاریخ طبری میں ان کی روایت کے سلسلے میں تحقیق کے ذریعہ حاصل کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بعض لوگوں کاکوئی پتہ نہ چل سکا۔ اب ہم تفصیلی طور پرمذکورہ فہرست کو بیان کررہے ہیں ۔

پہلی فہرست

وہ لوگ جو واقعہ کربلاکے عینی شاہد ہیں اور انھوں نے ابو مخنف سے بلا واسطہ روایتیں نقل کی ہیں جن کی تعداد تین ٣افراد پر مشتمل ہے۔

۴۳

١۔ ثابت بن ہبیرہ :

اس شخص نے عمرو بن قرظہ بن کعب انصار ی اور اس کے بھائی علی بن قرظہ کی شہادت کا تذکرہ کیا ہے۔پورے مقتل میں اس راوی سے فقط یہی ایک روایت نقل ہوئی ہے اور مجھے رجال کی کسی کتاب میں اس کا تذکرہ نہیں ملا۔، کتاب کی عبارت اس طرح ہے :'' قال ابومخنف عن ثابت بن هبیره : فقتل عمرو بن قرظه بن کعب...'' (١) ابومخنف ، ثابت بن ہبیرہ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ عمر وبن قرظةبن کعب نے جام شہادت نوش فرمایااس عبارت سے ظا ہر ہوتا ہے کہ راوی کربلا میں تھا اور اس نے اس روایت کو بلا واسطہ نقل کیا ہے ۔

٢۔ یحٰی بن ہانی بن عروة المرادی المذحجی:

اس نے نافع بن ہلال جملی کی شہادت کا تذکرہ کیا ہے۔ متن روایت اس طرح ہے : ''حدثنی یحٰی ان نافع ...''(٢) مجھ سے یحٰی نے بیان کیا ہے کہ نافع ۔واضح ہے کہ راوی نے بلا واسطہ نقل کیاہے۔

یحٰی کی ماں کا نام روعہ بنت حجاج زبیدی ہے جو عمرو بن حجاج زبیدی کی بہن ہے یعنی مذکورہ شخص یحٰی کا ماموں ہے۔(٣) یہ ملعون اپنے ماموں عمر وبن حجاج کے ساتھ عمر بن سعد کے لشکر میں تھا اور اس نے نافع بن ہلال جملی کی شہادت کا تذکرہ کیا ہے۔اسی ملعون نے نقل کیا ہے کہ میں نے اپنے ماموں عمروبن حجاج زبیدی کو نافع بن ہلال کی شہادت کے بعد یہ کہتے سنا کہ وہ اپنے لشکر کو جنگ سے روک رہا تھا اور حکم دے رہا تھا کہ حسین اور اصحاب حسین(علیہم السلام) پر پتھر برسائیں ۔ اس کے بعد یحٰی نے اپنے ماموں سے اس واقعہ کے بارے میں کچھ نقل نہیں کیا ہے۔(٤) اسی یحٰی نے ابن زبیر کی طرف سے منسوب والیٔ کوفہ عبداللہ بن مطیع عدوی کے لئے اپنے ماموں کی اس گفتار کو بھی نقل کیا ہے کہ جوعبد اللہ بن مطیع کو مختار بن ابو عبید ثقفی کے خلاف جنگ کرنے پر بھڑ کا رہی تھی۔ خود یحٰی مختار کے خلاف جنگ میں اپنے ماموں کے ہمراہ شریک تھا۔(٥)

ا بن حباّن نے یحٰی کو ثقات میں شمار کیا ہے۔ دار قطنی نے کہاکہ اس کی باتوں کے ذریعہ استدلال کیا جاسکتا ہے۔نسائی کہتے ہیں :یہ ثقہ ہے اور ابو حاتم نے اضافہ کیا ہے کہ یہ بزرگان کوفہ میں شمار

____________________

١۔تاریخ طبری، ج٥،ص٤٣٤

٢۔ طبری ،ج٥ ،ص٤٣٥

٣۔ طبری ،ج٥، ص٣٦٣

٤۔ طبری ،ج٥ ،ص٤٣٥

٥۔طبری،ج٦ ،ص٢٨

۴۴

ہوتا ہے۔ شعبہ نے کہا : ''کان سید اہل الکوفة''یہ اہل کوفہ کا سید و سردار ہے ، جیسا کہ تہذیب التہذیب میں بھی یہی مرقوم ہے۔

٣۔ زہیربن عبدالرحمن بن زہیر خثعمی :

اسی نے سوید بن عمروبن ابی مطاع خثعمی کی شہادت کاذکر کیا ہے متن روایت اس طرح ہے :''حدثنی ...قال ...کان ''اس نے مجھ سے بیان کیا ہے ...اسی نے کہا(١) اس شخص سے فقط یہی ایک روایت نقل ہوئی ہے اورکتب رجالی میں ہم کو کہیں بھی اس کا تذکرہ نہیں ملا ۔

دوسری فہرست

یہ گر وہ بھی کر بلا کے دلسوز واقعہ کا چشم دید گواہ ہے لیکن ابو مخنف نے ان لو گوں سے ایک یا دو واسطوں سے واقعات کر بلا کو نقل کیا ہے اور یہ ١٥ افراد ہیں ۔

١۔ عقبیٰ بن سمعان:(٢)

اس شخص نے امام حسین علیہ السلام کے کربلا پہنچنے کی روایت کو نقل کیا ہے نیز ابن زیاد کی طرف سے حر کو خط لکھنے کی خبر بھی اسی نے بیان کی ہے۔ (ج٥،ص٤٠٧)اس شخص سے ابو مخنف ایک واسطہ سے روایت نقل کر تے ہیں ۔

٢۔ ہانی بن ثبیت حضرمی سکونی :

اسی شخص نے کر بلا میں امام حسین علیہ السلام کے وارد ہو نے کے بعد دونوں لشکر کے درمیا ن امام حسین علیہ السلام اور پسر سعد کی ملا قات کو نقل کیا ہے۔اسی طر ح عاشورا سے قبل بھی ایک ملا قات کو نقل کیا ہے ۔ روایت کامتن اس طرح ہے :''حدّ ثنی ابو جناب عن ها نی وکا ن قد شهد قتل الحسین'' مجھ سے ابو جناب نے ہا نی کے حوالے سے نقل کیا ہے در حا لیکہ وہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا عینی شاہدہے۔ (ج٥ ، ص٤١٣) یہی شخص عبداللہ بن عمیر کلبی کی شہادت میں شریک ہے جو سپا ہ امام حسین علیہ السلام کے دوسرے شہید ہیں ۔ (ج٥، ص ٤٣٦) اسی

____________________

١۔ طبری، ج٥، ص٤٤٦

٢۔یہ شخص سکینہ بنت الحسین علیہ السلام کی ما ں جناب رباب بنت امر ء القیس کلبیہ کا خد مت گذار ہے عاشور کے دن اسے پکڑ کر عمر بن سعد کے پاس لایا گیا اور اس سے پو چھاگیا کہ تو کون ہے؟ تو اس نے جواب دیا : ''انا عبد مملوک'' میں ایک مملوک (غلام) ہو ں ، تو پسر سعد نے اسے چھوڑ دیا ۔ طبری (ج٥ ، ص ٤٥٤)

۴۵

ملعون نے امیر المو منین کے دو فر زند عبد اللہ اور جعفر کو شہید کیا۔ اسی طرح خا ندان امام حسین علیہ السلام کے ایک نوجوان کو قتل کیا ، نیز اسی گمراہ شخص نے امام حسین علیہ السلام کے فرزند عبداللہ کو شہید کر کے جناب رباب کی آغوش کو ویران کر دیا ۔ (ج٥، ص ٤٦٨)

٣۔حمید بن مسلم ازدی :

اس شخص سے مندرجہ ذیل خبریں نقل ہوئی ہیں :

(الف) ابن زیاد نے پسر سعد کو خط لکھا کہ حسین اور اصحاب حسین علیہم السلام پر فوراً پانی بند کر دیا جائے اورشب ٧ محرم کو حضر ت ابو الفضل العباس پانی کی غرض سے باہر نکلے۔(ج٥، ص ٤١٢)

(ب) شمر ملعون کو کر بلا بھیجا گیا۔ (ج٥،ص ٤١٤)

(ج) امام حسین علیہ السلام کی سپاہ پر یزید ی فوج نے حملہ کر دیا ۔(ج٥،ص٤٦٩)

(د)امام حسین علیہ السلام کی شہادت سے قبل جب شمر نے مخدارت عصمت کے خیمہ پر حملہ کیا تو امام حسین علیہ السلام نے اسے للکا را اور فرمایا:'' شیعہ آل ابی سفیان''نیز نماز ظہر اور جناب حبیب بن مظاہر کی شہادت ۔(ج٥،ص٤٣٩)

(ھ) جناب علی اکبر کی شہادت پر امام حسین علیہ السلام کا بیان ، آپ کی شہادت پر حضرت زینب کبری کا خیمہ سے باہر نکل آنا، جناب قاسم بن حسن علیہ السلام کی شہادت اور امام حسین علیہ السلام کی آغوش میں آپ کے نو نہال عبداللہ کی شہادت ۔(ج٥، ص ٤٤٦۔ ٤٤٨)

(و) اپنے تمام اصحاب وانصار کی شہادت کے بعد سے لے کر اپنی شہادت تک سر کا ر سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام کی حالت ۔(ج٥، ص٥٥١۔ ٤٥٢)

(ز) امام کی شہادت کے بعد آپ کے فرزند امام زین العابدین علیہ السلام کے قتل پر لشکر میں اختلاف عقبیٰ بن سمعان کی گر فتاری اور رہائی کی خبر ، امام حسین علیہ السلام کے جسم مبارک پر گھوڑے دوڑانا اور حمیدبن مسلم کا خولی بن یزید اصبحی کے ہمراہ امام حسین علیہ السلام کے سر کو ابن زیادکے پاس لے جا نا۔ (ج٥، ص ٤٥٥)

۴۶

(ح)ابن زیاد کا خولی کو اپنے گھر کی طرف روانہ کرنا تاکہ وہ ابن زیاد کے اہل وعیال تک اس کی خیریت کی خبر پہنچا دے ، ابن زیاد کا دربارمیں چھڑی کے ذریعہ امام حسین علیہ السلام کے لبوں سے بے ادبی کر نا ، اس جانکاہ منظر کو دیکھ کر زید بن ارقم کا ابن زیاد کو حدیث نبوی کی طرف متوجہ کرانا، اس پر ابن زیاد کا زید کو جواب دینا ، پلٹ کر زید بن ارقم کا ابن زیاد کو جواب دینا، حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا دربارابن زیاد میں وارد ہو نا ،نیز اس ملعون کا ستانے کی غرض سے حضرت سے ہم کلام ہو نا ،اس پر حضرت زینب کبریٰ کا ابن زیاد کو مسکت جواب دینا ،پر یشان ہو کر ابن زیاد کا دوبارہ چھڑی کے ذریعہ اما م حسین کے لبوں سے بے ادبی کر نا ، عمرو بن حریث اور ابن زیاد کا امام زین العابدین علیہ السلام سے ہم کلام ہو نا ، اس پرامام علیہ السلام کا اسے جواب دینا ، اس جواب سے غصہ میں آکرابن زیادکا امام علیہ السلام کو قتل کر دینے کا ارادہ کرنا، اس پر آپ کی پھو پھی زینب کا امام علیہ السلام سے لپٹ جانا اور آخرمیں ابن زیاد کا مسجد میں خطبہ دینا ،اس پر عبداللہ بن عفیف کا اعتراض اور ان کی شہادت کی روداد، یہ سب حمید بن مسلم نے نقل کیا ہے ۔

روایات کی سند

ان تمام روایات میں ابو مخنف کے لئے حمید بن مسلم سے روایت نقل کرنے کا واسطہ سلیمان بن ابی راشد ہیں ۔جستجو کر نے والے پر یہ بات روشن ہے کہ مختلف منا سبتوں کے اعتبارسے اس سند میں تقطیع (درمیان سے حذف کرنا) کی گئی ہے۔ان اخبار کو ملا حظہ کر نے کے بعد اندازہ ہو تا ہے کہ یہ پورا واقعہ شمرکے بھیجے جانے سے شروع ہو تاہے اور ابن زیاد کے درباراور عبداللہ بن عفیف کی شہاد ت پر تمام ہو تا ہے ۔

۴۷

یہیں سے دقت کر نے پر یہ بات بھی واضح ہو جا تی ہے کہ حمید بن مسلم ، شمر بن ذ ی الجوشن کلا بی کے لشکر کے ہمراہ تھا ، خصوصاًیہ بات وہاں پر اور واضح ہو جاتی ہے جب یہ دیکھتے ہیں کہ حمید نے متعددمر تبہ شمر سے گفتگوکی ہے اور بہت سارے مواردمیں اسی نے شمر کی سرزنش کی ہے۔ اسی طرح حمید بن مسلم کا امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد خیموں میں موجود ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ شخص شمر کے لشکر میں تھاکیو نکہ امام کی شہا دت کے بعد اسی ملعون نے اپنے اوباش ساتھیوں کے ساتھ خیمے پر حملہ کیا تھا اور اس کے علاوہ کسی نے بھی یہ قبیح فعل انجام نہیں دیا ہے۔

اسکے بعد یہی حمید بن مسلم تو ابین کے انقلاب میں بھی ہمیں شر یک نظر آتا ہے ، (ج ٥، ص٥٥٥)نیز قید خانے میں حمید نے مختار سے بھی ملا قات کی ہے لیکن سلیما ن کو مختا ر سے برحذر کیا اور انھیں خبری دی کہ مختار لو گو ں کو تمہاری مدد کرنے سے روک رہے ہیں ۔یہ سنتے ہی حمید ، مختار سے منہ موڑ لیتا ہے(ج٥، ص٥٨١۔ ٨٥٤)اور تو ابین کے ساتھ شکست کھا کر لوٹ جا تاہے۔ (ج٥، ص٦٠٦) حمید بن مسلم ، ابرا ہیم بن مالک اشتر نخعی کا دوست تھا اور اس کا ابراہیم کے یہاں آنا جانا تھا لہٰذاتو ابین کے انقلاب کے بعد وہ ہرشب ابر اہیم کے ہمراہ مختار کے پاس جا یا کر تاتھا ، صبح تک تدبیر امور میں مشغول رہتااور صبح ہو تے ہی لوٹ آتا تھا۔ (ج٦،ص ١٨) حمید بن مسلم شب سہ شنبہ شب قیام مختار ابر اہیم کے ہمراہ ان کے گھر سے نکلا اور سو(١٠٠) برہنہ شمشیر سپا ہیوں کے ہمراہ جو اپنی قباؤں کے اندر زرہ پوش تھے (ج٦،ص١٩) مختار کے گھر پہنچا (ج٦،ص٣٦)لیکن جب اس کو معلوم ہو اکہ مختار کا مصمم ارادہ یہ ہے کہ قاتلین امام حسین علیہ السلام سے انتقام لیں گے تو اس نے عبدالرحمن بن مخنف ازدی (ابو مخنف کے چچا) کے ہمراہ مختار کے خلاف خروج کر دیا۔اس مڈبھیڑ میں جب عبدالرحمن زخمی ہو اتو حمید نے چند رثائی اشعار کہے (ج٦،ص٥١) اور جب عبدالرحمن بن مخنف نے کو فہ سے فرار کر کے بصرہ میں مصعب بن زبیرکے یہاں پناہ لی تو حمید بھی اس سے ملحق ہو گیا۔ (ج٦،ص٥٨) تاریخ طبری میں اس کا آخری تذکرہ اس طرح سے ملتا ہے (ج٦،ص٢١٣)کہ اس نے عبد الرحمن بن مخنف پر اس وقت مرثیہ سرائی کی جب '' کا زرون'' کے نزدیک خوارج کے ایک گروہ نے ٧٥ ہجری میں اسے اس وقت قتل کردیا جب وہ مھلب بن صفرہ کے ہمراہ حجاج بن یوسف ثقفی کی طرف سے گروہ خوارج کے ساتھ جنگ کر رہا تھا۔ذہبی نے میزان الاعتدل (ج١،ص ٦١٦)میں اور ابن قدامہ نے مغنی (ج١،ص١٩٥) میں اس مطلب کا ذکر کیا ہے ۔

۴۸

٤۔ضحاک بن عبداللہ مشرقی ہمدانی:

شب عاشور اور روز عاشور کا واقعہ اسی شخص کی زبانی نقل ہوا ہے نیز لشکر کا مقابلہ اورروزعاشور امام علیہ السلام کا مفصل خطبہ بھی اسی راوی نے نقل کیا ہے (ج٥،ص٤١٨۔٤١٩، اور٤٢١،٤٢٣،٤٢٥،٤٤٤)

ابو مخنف نے ان واقعات کو ایک واسطہ سے ضحاک بن عبد اللہ سے نقل کیا ہے اور اس واسطہ کا نام عبد اللہ بن عاصم فائشی ہمدانی ہے ۔یہ بات پو شیدہ نہیں ہے کہ یہ شخص بھی ہمدانی ہے اور یہ وہی شخص ہے جس نے امام حسین علیہ السلام سے اس شرط پر ساتھ رہنے کا عہد کیا تھا کہ اگر آپ کے اصحا ب شہید ہو گئے تو میں نکل بھا گوں گا؛ امام علیہ السلام نے بھی اسے قبول کر لیا اور وہی ہوا کہ جب اصحاب وانصار شہید ہو گئے تو یہ شخص اپنی جان بچا کرعین معرکہ سے بھا گ گیا۔ (ج٥،ص ٤١٨، ٤٤٤) شیخ طوسی نے اپنی کتاب رجال میں اسے امام زین العابدین علیہ السلام کے اصحاب میں شمار کیا ہے! ۔

٥۔ امام زین العابدین :

امام علیہ السلام سے شب عاشورکا واقعہ دو واسطوں سے نقل کیا گیاہے ۔

(الف) حار ث بن حصیرہ نے عبداللہ بن شریک عامر ی سے اورعامری نے امام سجاد سے روایت نقل کی ہے۔ (ج٥،ص٤١٨)

(ب) حارث بن کعب والبی ازدی کو فی اور ابو ضحاک بصری دونوں نے امام علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے۔ (ج٥،ص٤٢٠)

٦۔ عمرو حضرمی :

یہ شخص عمر بن سعد کے لشکر کا کا تب تھا۔ (ج٥،ص٤٢٢) عمرو حضرمی دو و اسطوں سے حدیث بیان کر تا ہے۔ لیکن اہل رجال کے نزدیک یہ شخص غیر معروف ہے ۔

٧۔ غلام عبد الر حمن انصاری :

عبد الرحمن بن عبد ربّہ انصاری کے غلام سے شب عاشور بریر بن خضیر ہمدانی کے مزاح کا واقعہ منقول ہے۔ ابو مخنف نے یہ واقعہ دو واسطوں سے نقل کیا ہے اور وہ دونوں واسطے اس طرح ہیں : ''عمروبن مرّہ جملی نے ابی صالح حنفی سے نقل کیاہے'' دو سری خبر میں اس طر ح آیا: ''جب میں نے ان لو گو ں کو تیزی کے ساتھ آتے ہو ئے دیکھا تو پیچھے ہو گیا اور ان کو چھوڑ دیا''۔ (ج٥،ص٤٢١و٤٢٢)

۴۹

٨۔ مسروق بن وائل حضرمی :

جنگ شروع ہوتے وقت ابن حوزہ کی روایت اسی شخص سے دو واسطوں (عطاء بن سائب اور عبد الجبار بن وائل حضرمی) کے ذریعہ نقل ہوئی ہے۔اس نے کہا :''کنت فی اوائل الخیل ممن سارالی الحسین ''میں اس لشکر میں آگے آگے تھا جو امام حسین کی طرف روانہ کیا گیا تھا میں اس آرزو میں تھا کہ حسین کا سر کا ٹ کر ابن زیاد کے پاس لیجاؤں تا کہ اس کے دربار میں مجھے کو ئی مقام حاصل ہو سکے۔''...فرجع مسروق وقال لقد رایت من اهل هذالبیت شیئاًلا اقاتلهم ابداً'' (ج٥، ص ٤٢١)

پھر مسروق وہاں سے پلٹ آیا اور اس نے کہا : میں نے اس خاندان میں ایسی چیزدیکھی ہے کہ میں کبھی بھی ان سے نہیں لڑوں گا ۔

٩۔ کیثر بن عبداللہ شعبی ہمدانی :

ابو مخنف نے زہیربن قین کا خطبہ علی بن حنظلہ بن اسعد شبامی کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔ شبامی نے اس خطبہ کو اپنے ہی قبیلہ کے ایک شخص سے نقل کیا ہے جو امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا شاہد تھا ،اس کانام کثیر بن عبداللہ شعبی ہے۔ (ج٥،ص ٤٢٦) طبری نے ہشام سے اوراس نے عوانہ سے نقل کیا ہے کہ وہ بڑا شجاع اور بے باک تھا کبھی بھی پیٹھ نہیں دکھا تاتھا۔ جب عمر بن سعد نے اپنے لشکر کے سپہ سالاروں سے چاہاکہ وہ امام حسین علیہ السلام کے پاس جائیں اوران سے سوال کریں کہ وہ کیوں آئے ہیں اور کیا چاہتے ہیں ؟ تو تمام لوگوں نے انکارکردیا اور امام حسین کے سامنے جانے میں جھجھک کا اظہار کیا ،کوئی بھی جانے کے لئے تیار نہیں ہوا۔ اسی اثنا میں کثیر بن عبداللہ شعبی اٹھا اور بولا : میں حسین کی طرف جاؤں گا ، خدا کی قسم اگر آپ چاہیں تو غافل گیر کر کے میں ان کا خاتمہ بھی کر سکتا ہوں یہ شخص اسلحے سے لیس ہو کر وہاں پہنچا تو زہیر قین نے کہا : اپنی تلوار اپنے جسم سے جدا کر کے آئو ! اس ملعون نے کہا : ہر گز نہیں !خد ا کی قسم یہ میری کرامت کے منافی ہے۔ اس کے بعد دونوں میں نوک جھونک ہو نے لگی ...۔(ج٥ ،ص٤١٠)

یہی وہ شخص ہے جس نے مہاجر بن اوس کے ہمراہ زہیر بن قین بجلی پرحملہ کیا اور ان دونوں ملعونوں نے مل کر اس شجاع اور پاک طینت انسان کو شہید کر دیا(ج٥، ص ٤٤١)

۵۰

١٠۔ زبیدی :

یہ شخص دوسرے حملہ کی خبر نقل کر تاہے۔(ج٥، س٤٣٥) یہ یمن کے قبیلہ زبید کا ایک فرد ہے جو اپنے قبیلہ کے سردار عمروبن حجاج زبیدی کی سپہ سالا ری کے واقعات کی روایت کر تا ہے۔

١١۔ ایو ب بن مشر ح خیوانی:

اس شخص نے مادروہب کلبی کی جانثاری ، فداکاری اور خلوص کا تذکرہ کیا ہے۔اس کے علاوہ جناب حر کے گھوڑے کو اسی نے پئے کیا تھا ۔ جب جناب حر کی شہادت کے بعد قبیلہ والوں نے اسے للکارا اور آپ کی شہادت کے سلسلے میں اسے متہم کیا تو اس نے کہا :''لا واللّه ما انا قتلته ولکن قتله غیری'' نہیں خدا کی قسم میں نے انہیں قتل نہیں کیاہے ، انہیں تو میرے علاوہ کسی دوسرے نے قتل کیا ہے''وما احبّانی قتلته'' : نہ فقط یہ کہ میں نے انہیں قتل نہیں کیابلکہ میں تواس بات کو پسند بھی نہیں کرتا تھاکہ میں ان کے قتل میں شرکت کرو ں ۔اس پر'' ابو ودّاک جبر بن نوف ہمدانی ''نے کہا :ولم لا ترضی بقتله ،تم ا ن کے قتل سے کیوں راضی نہیں تھے ؟ اس نے کہا :''زعموا انہ کان من الصا لحین'' لوگ یہ سمجھتے تھے کہ وہ نیک سرشت ہیں ''فو اللّه لئن کان آثما... ''خدا کی قسم اگروہ گناہگار تھے اورخداوندعالم اگر مجھے جہنم میں ان کوزخمی کرنے کے گناہ میں ڈالنا چاہتاتو اس موقف کو پسند کرتا بجائے اس کے کہ مجھے ان میں سے کسی ایک کے قتل کردینے کے عذاب میں مبتلاکردے،ا س پر ابوودّاک نے کہا:''مااراک الا ستلقی اللّه بأثم قتلهم اجمعین...انتم شرکاء کلکم فی دمائهم ''میں تو اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں سمجھتا کہ عنقریب خدائے متعال تم کو ان سب کے قتل کے عذاب میں مبتلاکرے گا...تم سب کے سب ان کے خون میں شریک ہو۔ (ج٥،ص٤٣٧)

١٢۔ عفیف بن زہیر بن ا بی الاخنس :

یہ شخص بریر بن خضیر ہمدانی کی شہادت کو بیان کرتا ہے ، وہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا عینی گواہ ہے۔وہ اپنی اس روایت میں یہ کہتا ہے کہ واقعہ کربلا سے قبل بریر مسجد کوفہ میں ان ظالموں کو قرآن مجید کا درس دیا کرتے تھے ۔ (ج٥ ،ص ٤٣١)

١٣۔ ربیع بن تمیم ہمدانی :

اس شخص نے عابس بن شبیب شاکری کے مقتل کو بیان کیا ہے اور وہ کربلا کے جانسوز واقعے کا عینی شاہد ہے ۔(ج ٥، ص٤٤٤)

۵۱

١٤۔ عبداللہ بن عمار با رقی :

اس نے دشمنوں پر حملہ کے وقت امام حسین علیہ السلام کی حالت کو بیان کیاہے اور یہ شخص بھی امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا عینی گواہ ہے۔ لوگوں نے جب اس بات پر اس کی ملامت کی کہ تو امام حسین کی شہادت کے وقت وہاں موجود تھا تو اس ملعون نے اپنی جنایت کاریوں کی توجیہ کرتے ہوئے کہا :''ان لی عند بنی ہاشم لَےَداً ''میں نے بنی ہاشم کی خدمت کی ہے اس سلسلے میں کسی حد تک ان پر حق رکھتا ہوں ۔لوگوں نے اس سے پوچھا : بنی ہاشم کے پاس تمہارا کونسا حق ہے ؟ تو اس ملعون نے کہا : میں نے نیزوں سے حسین پر حملہ کیا یہاں تک کہ بالکل ان کے نزدیک پہنچ گیا لیکن وہاں پہنچ کر میں اپنے ارادہ سے منصرف ہو گیااور تھوڑی دور پر جا کرکھڑا ہوگیا ۔(ج٥ ، ص٤٥١)

١٥۔ قرة بن قیس حنظلی تمیمی :

اس شخص نے شہداء کے سرکو تن سے جداکئے جانے اور اہل بیت اطہار کی اسیری کی غم انگیز اور جگر سوز داستان کو بیا ن کیا ہے ۔ (ج٥ ، ص ٤٥٥)یہ شخص اپنے قبیلہ کے سر دار حر بن یزید ریاحی تمیمی کے ہمراہ اس لشکرمیں تھا جو امام حسین علیہ السلام کاراستہ روکنے کے لئے آیا تھا ۔ (ج٥،ص٤٢٧) یہ وہی شخص ہے جسے پسر سعد نے امام حسین علیہ السلام کے پاس بھیجا تھا تاکہ وہ آپ سے سوال کرے کہ آپ کس لئے آئے ہیں اور کیا چاہتے ہیں ؟ جب یہ شخص امام حسین علیہ السلام کے پاس آیا تو اس نے امام علیہ السلام کو سلام کیا ۔حبیب بن مظاہر اسدی نے اس کو امام حسین علیہ السلام کی نصرت و مددکی طرف دعوت دی لیکن اس نے انکار کردیا۔ (ج٥ ،ص ٤١١) یہی وہ شخص ہے جس نے روایت نقل کی ہے کہ جب حر نے امام حسین علیہ السلام کی طرف جانے کاارادہ کیا تو مجھ سے پوچھا : کیا تم اپنے گھوڑے کوپانی پلانا نہیں چاہتے ہو ؟ یہ کہہ کر حر اس سے دور ہوگئے اور امام حسین علیہ السلام سے ملحق ہوگئے ۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اگر حر نے مجھے اپنے ارادے سے آگا ہ کردیا ہوتاتو میں بھی ان کے ہمراہ حسین سے ملحق ہوجاتا ۔(ج٥ ، ص٤٢٧)

جی ہاں یہی وہ ١٥افراد ہیں جو کربلا کے دلسوز اور غمناک واقعہ کے عینی شاہد ہیں اور ابومخنف نے ان لوگوں سے ایک یا دو واسطوں سے روایت نقل کی ہے ۔

۵۲

تیسری فہرست

تیسری فہرست میں وہ لوگ ہیں جو ان واقعات کے شاہد ہیں اور وہاں حاضر تھے۔ ان لوگوں نے بغیر کسی واسطے کے خود ابو مخنف سے واقعات بیان کئے ہیں اور یہ چارافراد ہیں :

١۔ ابو جناب یحٰی بن ابی حیہّ الوداعی کلبی :

اس شخص نے ا بن زیاد سے جناب مسلم بن عقیل کے ساتھیوں کے مقابلہ کو نقل کیا ہے (ج٥ ص ٣٦٩ و ٣٧٠) نیز جناب مسلم اور ہانی بن عروہ کے سر کو یزید کی طرف بھیجے جانے اور خط لکھ کر اس خبر سے آگاہ کرنے کی روایت بھی اسی شخص سے ملتی ہے۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ ابو جناب ان خبروں کو اپنے بھائی ہانی بن ابی حیہ وداعی کلبی کے حوالے سے نقل کرتا ہے ، کیونکہ ہانی بن ابی حیہ کے ہاتھوں ابن زیاد نے یزید کو خط روانہ کیا تھا۔

تاریخ طبری میں اس شخص سے ٢٣ روایتیں منقول ہیں ، جن میں سے ٩روایتیں جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان سے متعلق ہیں جو بالواسطہ ہیں اور ٩روایتیں کربلا سے متعلق ہیں جن میں سے پانچ بالواسطہ ہیں اور چار مرسل ہیں (یعنی درمیان سے راوی حذف ہے) ۔آخری روایت جو میرے ذہن میں ہے اورمرسل ہے وہ مصعب بن زبیر کا ابراہیم بن مالک اشتر کو خط لکھنے کا واقعہ ہے جس میں مصعب نے ابراہیم کو مختار کے بعد ٦٧ ہجری میں اپنی طرف بلایا تھا۔ (ج٦ص١١١) تہذیب التہذیب (ج١١،ص٢٠١)پر اس کی پوری بایو گرافی موجود ہے۔ اس میں راوی کے سلسلے میں یہ جملہ ملتا ہے : ''کوفی صدق مات ٤٧ھ ''یہ شخص کوفی تھا ،سچا تھا اور ١٤٧ ہجری میں اس کی وفات ہوئی۔

۵۳

٢۔ جعفر بن حذیفہ طائی:

جناب مسلم نے اپنی شہادت سے پہلے امام حسین علیہ السلام کو اہل کوفہ کی بیعت کے سلسلے میں جو خط لکھا ہے اس کی روایت اسی شخص سے نقل ہوئی ہے، نیز محمد بن اشعث بن قیس کندی اور ایاس بن عثل طائی کے خط کاراوی بھی یہی شخص ہے جس میں ان لو گو ں نے امام حسین کو جناب مسلم کی گر فتاری اور ان کی شہادت کی خبر پہنچائی تھی۔ (ج ٥، ص٣٧٥)

ذہبی نے میزان الاعتدال میں اس کا تذکر ہ کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ شخص علی سے روایت نقل کرتا ہے اور اس سے ابومخنف نے روایت نقل کی ہے۔جنگ صفین میں یہ شخص علی علیہ السلام کے ہمراہ تھا ۔ ابن حبان نے اسے ثقات(معتبر وثقہ راویوں) میں شمار کیا ہے ، پھر کہا ہے کہ معلوم نہیں ہے کہ یہ کون ہے ؟

طبری نے اس شخص سے ٥روایتیں نقل کی ہیں ،جن میں سے دو روایتیں جنگ صفین سے متعلق ہیں ،دوروایتیں خوارج کے ایک گروہ جس کا تعلق قبیلہ طئی سے تھا، کے سلسلے میں اورایک واقعہ کر بلا کے ذیل میں و ہی مسلم بن عقیل کی خبر ہے جو گزشتہ سطروں میں بیان ہوچکی ہے ۔

٣۔ دلہم بنت عمرو :

یہ خاتون، زہیربن قین کی زوجہ ہیں ۔ جناب زہیر بن قین کا امام حسین کے لشکر میں ملحق ہو نے کا واقعہ انھیں خاتون سے مروی ہے۔ روایت کا جملہ اس طرح ہے کہ ابو مخنف کہتے ہیں دلہم نے مجھ سے اس طرح روایت نقل کی ہے ۔(ج٥، ص٣٩٦)

۵۴

٤۔ عقبہ بن ابی العیزار :

امام حسین علیہ السلام کی دواہم خطبے جسے آپ نے مقام '' بیضہ'' اور مقام ذی حسم میں پیش کیا تھا اسی شخص سے مروی ہیں ،نیز امام حسین علیہ السلام کے جواب میں زہیر بن قین کی گفتگو،امام حسین علیہ السلام کے اشعار اور طرماح بن عدی کے اشعار کی بھی اسی شخص سے روایت نقل ہوئی ہے ۔(ج٥ ، ص٤٠٣) ایسا لگتا ہے کہ یہ شخص حر کے لشکر میں تھالہٰذانجات پا گیا۔ اپنی رجالی کتا بوں میں ہمیں اس کا تذکرہ کہیں نہیں ملا۔ ہاں لسان المیزان میں اس کا ذکر موجود ہے۔لسان المیزان کے الفاظ اس طرح ہیں :'' یعتبر حدیثہ'' اس کی حدیث معتبر ہے، نیز وہیں اس بات کی بھی یاد آوری کی گئی ہے کہ ابن حبان نے اسے ثقات میں شمار کیا ہے ۔

یہی وہ چار افراد ہیں جو ظاہراً ان واقعات کے شاہد ہیں اورابو مخنف نے ان سے بلا واسطہ حدیثیں نقل کی ہیں ۔

چو تھی فہرست

یہ وہ لوگ ہیں جو اس جانسوزواقعہ میں موجود تھے یا اس دلسوزحادثہ کے معاصر تھے لہٰذا انہوں نے ان واقعات کو نقل کیا ہے ۔ ابومخنف نے ان لوگوں سے ایک یا دو واسطوں سے روایت نقل کی ہے۔ یہ ٢١افراد ہیں ۔

١۔ ابو سعید دینار:

اس شخص کو'' کیسان''یا '' عقیصامقبری ''بھی کہا جا تا ہے۔مدینہ سے نکلتے وقت امام حسین علیہ السلام کے اشعارکو اسی شخص نے ایک واسطہ سے عبدالملک بن نوفل بن مساحق بن مخرمہ سے نقل کئے ہیں ۔(ج٥، ص٣٤٢) ذہبی نے اس کا ذکر میزان الاعتدال میں کیا ہے۔ ذہبی کہتا ہے: وہ ابو ہریر ہ کے ہمنشین اور اس کے بیٹے کے دوست تھے۔ وہ ثقہ اور حجت ہیں ۔پیرانہ سالی کے باوجودذہن مختل نہیں ہوا تھا ۔آپ کی وفات ١٢٥ ہجری میں ہوئی ۔آپ کا شمار بنی تمیم کے طر فداروں میں ہوتا ہے۔ابن حبان نے بھی ان کو ثقات میں شمارکیا ہے اور حاکم نے کہا ہے کہ یہ مورداعتماد اور بھروسہ مند ہیں ۔ (لسا ن المیزان، ج٢،ص١٣٩)

۵۵

تہذیب التہذیب میں لکھاہے کہ واقدی نے کہا : یہ ثقہ ہیں اور ان سے بہت زیادہ حدیثیں مروی ہیں ۔پہلی صدی ہجری میں آپ کی وفات ہوئی ۔ بعضوں کا کہنا ہے کہ ولید بن عبدالملک کی خلا فت کے عہد میں وفات پائی۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ عمر نے انھیں قبر کھود نے کے کام پر مامور کیا تھا لہذا وہ قبروں کو کھود ا کر تے تھے اور مردوں کو قبروں میں اتار تے تھے لہٰذا ''المقبری'' کے نام سے مشہور ہو گئے ''۔ (تہذیب التہذیب، ج٨، ص ٤٥٣)شیخ طوسی نے اپنی کتاب ''الرجال''میں ان کا تذکرہ حضرت علی علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے اصحاب میں ''دینار ''کے نام سے کیا ہے ان کی کنیت ابو سعید اور لقب عقیصاذکر کیا ہے۔ اس لقب کا سبب وہ شعر ہے جسے ''دینار ''نے کہا تھا۔(رجال شیخ طوسی ، ص٤٠ ،ط نجف) شیخ صدوق ابو سعید عقیصا کے حوالے سے اپنی ''امالی ''میں امام حسین علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ وہ اپنے والد سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کر تے ہیں کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فر مایا :''یاعلی!انت اخی و انا اخوک، اناالمصطفیٰ النبوة، وانت المجتبیٰ للامامة ، وانا صاحب التنزیل ، وانت صاحب التاویل ،واناوانت ابواهذه الامة،انت وصيّوخلیفتی ووزیری و وارثی وابو ولدوشیعتک شیعتی''اي علی!تم میرے بھائی ہو اور میں تمہارا بھائی ہوں ، خدا نے مجھ کو نبوت کے لئے منتخب کیا اور تم کو امامت کیلئے چن لیا،میں صاحب تنزیل (قرآن)ہوں تم صاحب تاویل ہو ،میں اور تم دونوں اس امت کے باپ ہیں ،تم میرے وصی،خلیفہ،وزیر،میرے وارث اورمیرے فرزندں کے باپ ہو،تمہارے شیعہ اورپیروکارمیرے شیعہ وپیرو کارہیں ۔

٢۔عقبہ بن سمعان :

مدینہ سے امام حسین علیہ السلام کے نکلنے کی خبر ، عبداللہ بن مطیع عدوی سے آپ کی ملاقات ، مکہ پہنچنے کی خبر، (ج٥،ص ٥٣١)مکہ سے نکلتے وقت ابن عباس اور ابن زبیر کی امام علیہ السلام سے گفتگو، (ج٥ ، ص٣٨٣) والی مکہ عمرو بن سعید بن عاص اشدق کے قاصد کاامام حسین تک پہنچنا اور حاکم مکہ کی جانب سے امام حسین علیہ السلام کو مکہ واپس لوٹانے کی خبر، منزل تنعیم پر '' ورس الیمن ''کی خبر ، قصر بنی مقاتل سے گذرنے کے بعد حضرت علی اکبر علیہ السلام کی اپنے بابا سے گفتگو ، نینوا میں اس نورانی کارواں کا ورود ،ابن زیاد کے پیغامبر کا حر تک ابن زیاد کا خط لیکر پہنچنا امام علیہ السلام اور پسر سعد کا کربلا میں وارد ہونا (ج٥،ص٤٠٧ ۔٤٠٩) اور وہ شرطیں جو امام حسین نے پسر سعد کے سامنے پیش کی تھیں اسی شخص سے مروی ہیں ۔ (ج٥ ،ص٤١٣)یہ تمام روایتیں اس نے ایک واسطہ سے حارث بن کعب و البی ہمدانی سے نقل کی ہیں ۔ یہ اس بات کی تائید ہے کہ ابو مخنف نے مناسبتوں کے مطابق روایتوں کی اسناد میں تقطیع (درمیان سے راوی کو حذف کردینا) کی ہے۔ عقبہ بن سمعان کی سوانح زندگی گذشتہ صفحات پر گذرچکی ہے لہٰذ ا اسے وہاں دیکھا جا سکتا ہے ۔

۵۶

٣۔محمد بن بشر ہمدانی :

معاویہ کی موت کے بعد کوفہ کے شیعوں کا سلیمان بن صرد خزاعی کے گھر اجتماع ، سلیمان بن صرد کا خطبہ اور اجتماعی طور سے سب کاامام حسین علیہ السلام کو خط لکھنا ، مسلم بن عقیل کے ہمراہ امام حسین علیہ السلام کا ان لوگوں کو جواب، (ج٥ ،ص٣۔ ٣٥٢)راستے ہی سے جناب مسلم کا امام حسین علیہ السلام کو خط لکھنا ، پھر امام علیہ السلام کا جواب دینا ، مسلم کا کوفہ پہنچنا اور کوفہ کے شیعوں کا جناب مختار کے گھر میں مسلم کے پاس آناجانا (ج٥ص٣٥٤۔ ٣٥٥) اورہانی بن عروہ کی شہادت کے بعد ابن زیاد کا خطبہ،ان تمام روایتوں کو محمد بن بشیر ہمدانی نے ایک واسطہ سے حجاج بن علی بارقی ہمدانی کے حوالے سے نقل کیا ہے ۔

یہ شخص سلیمان بن صرد کے گھر میں شیعوں کے اس اجتماع میں حاضر تھا ،کیونکہ وہ کہتا ہے :''فذکرنا هلاک معاویه فحمد نا الله علیه فقال لنا سلیمان بن صرد ''تو ہم نے معایہ کی ہلاکت کا تذکرہ کیا او راس پر خدا کا شکر ادا کیا تو سلیما ن بن صرد نے ہم سے کہا ''ثم سرحنابالکتاب ...''پھر خط لے کر ہم لوگ نکلے ،''وامر نا هما با لنجاء ''اور ہم نے ان دونوں کو کاملاًرازداری کا حکم دیا،'' ...ثم سرحنا الیہ ..''.پھر ہم لوگ اس کی طرف گئے''ثم لبثنا یومین آخرین ثم سرحنا الیه ...''پھر ہم لوگ دو دنوں تک ٹھہرتے رہے پھر اس کی طرف گئے ''...وکتبنا معھما ..''اور ہم نے ان دونوں کے ساتھ لکھا۔ (ج٥، ص٣٥٤ ۔ ٣٥٥)یہ شخص مختار کے گھر میں مسلم کے سامنے اس شیعی اجتماع میں حاضر تھا لیکن جنگ و جدال سے بچے رہنے کی غرض سے مسلم کی بیعت نہ کی، کیونکہ راوی حجاج بن علی کا بیان ہے کہ میں نے محمد بن بشیر سے کہا :''فھل کان منک ان تقول''؟کیا تم اس مورد میں کوئی عہد پیمان کروگے تو محمد بن بشیر نے جواب دیا:''ان کنت لأ حب ان یعز اللّه أصحابی با لظفر'' اگرچہ میں چاہتاہوں کہ خدا ہمارے ساتھیوں کو فتح وظفر کی عزت سے سر فراز کرے ''وما کنت احب ان اقتل !وکر هت ان اکذب'' (ج٥، ص٣٥٥) لیکن میں قتل ہو نا نہیں چاہتااور میں جھوٹ بولنا بھی پسند نہیں کر تا ۔

۵۷

لسان المیزان میں ابو حاتم کے حوالے سے اس کا ذکر ہے کہ ابو حاتم کہتے ہیں :''یہ شخص محمد بن سائب کلبی کو فی ہے۔اسے اس کے جد محمد بن سائب بن بشر کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے۔(١) شیخ طوسی نے اپنی کتاب رجال میں اس شخص کو امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہما السلام کے اصحاب میں شمار کیا ہے ۔(٢)

٤۔ ابو الودّاک جبربن نوف ہمدانی :

کوفہ میں نعمان بن بشیر انصاری (معاویہ اوریزید دونوں کی جانب سے کوفہ کاحاکم) کا خطبہ ، کو فیوں کا خط یزیدکے نام ،(ج٥، ص٣٥٥۔٣٥٦) کوفہ میں ابن زیاد کا خطبہ، (ج٥،ص٣٥٨۔ ٣٥٩)مسلم کا ہانی کے گھر منتقل ہو نا ، ابن زیاد کی طرف سے معقل شامی کا جاسوسی کے ذریعہ مسلم کا سراغ پانا ، ابن زیاد کا ہانی کی عیادت کو آنا اور عمارہ بن عبید سلولی کا اشارہ کرنا کہ ابن زیاد کو قتل کردیں ، لیکن ہانی کا اس مشورہ کو پسند نہ کرنا ، ہانی کے گھر ابن زیاد کا شریک بن اعور حارثی ہمدانی کی عیادت کو آنا اور شریک کا مسلم کو اشارہ کرنا کہ ابن زیادکو قتل کر دیں لیکن مسلم کا انکار کر نا،جس پر ہانی کا کبیدہ خاطر ہونا ، ابن زیاد کا ہانی کو طلب کر نا اور انہیں زدو کوب کرنااور قید کردینا ،اس پر عمروبن حجاج زبید ی کا قبیلہ کے جوانوں اور بہادروں کو لے کر دارالامارہ کے ارد گردہانی کی رہائی کے لئے ہجوم کرنا، اس پر دھوکہ اور فریب کے ساتھ قاضی شریح کا ہانی کے پاس جانااور واپس لوٹ کر جھوٹی خبر دینا کہ ہانی صحیح سالم ہیں ، اس پر قبیلہ والوں کاواپس پلٹ جا نا ،مندرجہ بالا تمام خبریں اسی ابو ودّاک سے مروی ہیں ۔اس نے ان تمام اخبار کو نمیر بن وعلہ ہمدانی کے حوالے سے نقل کیا ہے، فقط آخری خبر معلی بن کلیب سے نقل کی ہے ۔

____________________

١۔لسان المیزان ،ج٥، ص٩٤

٢۔ رجال الشیخ ،ص ١٣٦۔٢٨٩ ط نجف ،طبری نے ''ذیل المذیل'' ،ص٦٥١مطبوعہ دارسویدان پر طبقات بن سعدج ،٦ ،ص٣٥٨، کے حوالے سے ذکر کیا ہے منصورکی خلا فت کے زمانے میں ،١٤٦، ہجری میں شہر کو فہ اس کی وفات ہوئی ۔

۵۸

ابو ودّاک کا پورا نام امیر المومنین کے اس خطبہ میں ملتا ہے جس کی روایت خود اس نے کی ہے کہ'' نخیلہ'' میں خوارج کی ہدایت سے مایوس ہونے کے بعد حضرت علی علیہ السلام نے ایک خطبہ دیا۔ (ج٥،ص٧٨) ظاہراًامام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد یہ شخص کوفہ ہی میں تھا ۔ ایک دن اس نے ایوب بن مشرح خیوانی کی اس بات پر بڑی مذمت کی کہ اس نے حر کے گھوڑے کو کیوں پئے کیا ؛اس نے ایوب سے کہا : ''میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ خدا تم کو ان سب کے قتل کے عذاب میں واصل جہنم کرے گا،کیا تو نہیں جانتا ہے کہ اگر تو نے ان میں سے کسی پر تیر نہ چلایا ہوتا ، کسی کے گھوڑے کو پئے نہ کیا ہوتا ، کسی پرتیر بارانی نہ کی ہوتی، کسی کے روبرو نہ آیا ہوتا ، کسی پر ہجوم نہ کیا ہو تا ، کسی پر اپنے ساتھیوں کو بر انگیختہ نہ کیا ہوتا ، کسی پر اپنے ساتھیوں کی کثرت کے ساتھ حملہ آ ور نہ ہوا ہوتا ، جب تجھ پر حملہ ہواہوتا تو مقابلہ کرنے کے بجا ئے اگر تو عقب نشینی کرلیتا اور تیرے دوسرے ساتھی بھی ایسا ہی کرتے تو کیا حسین اور ان کے اصحاب شہید ہوجاتے ؟ تم سب کے سب ان پاک سرشت اور نیک طینت افراد کے خون میں شریک ہو۔ (ج٥،ص٣٥٧، ٣٥٨) ذہبی نے ان کا تذکرہ میزان الاعتدال میں کیا ہے۔،ذہبی کا بیان ہے: ''صاحب ابی سعید الغدری صدوق مشہور'' یہ ابو سعید غدری کے ساتھی اور صداقت میں مشہور تھے۔(١) تہذیب میں اس طرح ہے :''ابن حبان نے ان کا ذکر ثقات میں کیا ہے اور ابن معین نے کہا ہے کہ یہ ثقہ ہیں ۔نسائی نے کہا ہے کہ صالح ہیں اور اپنی کتاب سنن میں ان سے روایت نقل کی ہے۔''(٢)

٥۔ ابو عثمان نہدی :

اہل بصرہ کے نام امام حسین علیہ السلام کا خط اور ابن زیاد کا اپنے بھائی عثمان کو بصرہ کا والی بنا کر کوفہ کی طرف روانہ ہونے کی خبر اسی شخص نے ایک واسطہ صقعب بن زہیر کے حوالے سے نقل کی ہے۔ یہ شخص مختار کے ساتھیوں میں تھا؛ جب یہ ابن مطیع کی حکومت میں کوفہ وارد ہواتو اسے ناداروں کی دادرسی کے امور پر مقرر کیا گیا۔ (ج٥، ص٢٢و٢٩)

____________________

١۔میزان الاعتدال، ج٤، ص٥٨٤ ،ط حلبی ۔

٢۔تہذیب التہذیب، ج٢،ص٦٠وتنقیح المقال ،ج٣،ص٢٧

۵۹

تہذیب التہذیب میں اس کا ذکرملتا ہے۔روایت میں ہے کہ وہ قبیلہ قضاعہ سے تھا۔ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا زمانہ درک کیا ہے لیکن آپ کے دیدار کا شرف اسے حاصل نہ ہوا ۔یہ شخص کوفہ کا باشندہ تھا ۔جب امام حسین علیہ السلام شہید ہوگئے تو اس نے بصرہ کو اپنا مسکن بنا لیا۔ یہ شخص اپنی قوم میں معروف آدمی تھا، ٦٠حج انجام دئے، اس کا شمارصائم النہار اورقائم اللیل میں ہوتا تھا(یعنی دن روزں میں گذرتا تھا اور شب عبادت میں ) اس پر لوگ بھروسہ کیا کرتے تھے، ایک سو تیس(١٣٠)سا ل کے سن میں ٩٥ھ میں وفات پائی ۔(١)

٦۔ عبداللہ بن خازم کثیری ازدی :

یہ شخص یوسف بن یزید کے حوالے سے حضرت مسلم بن عقیل کی جنگ کا تذکرہ کرتا ہے اور سلیمان بن ابی راشد کے واسطہ سے لوگوں کے مسلم کو دھوکہ دینے کے واقعہ کو نقل کرتا ہے۔ اس شخص نے پہلے مسلم بن عقیل علیہ السلام کی بیعت کی۔ جناب مسلم نے اسے ابن زیاد کے قصر کی طرف بھیجا تاکہ ہانی کا حال معلوم کرکے آئے ، پھر اس شخص نے جناب مسلم اورامام حسین علیہما السلام دونوں کو دھوکہ دیا ۔ (ج٥، ص٣٦٨۔٣٦٩)آخر کار اپنے کئے پر نادم ہوا اورتوابین کے ساتھ ہوگیا اور انھیں کے ہمراہ خروج کیا۔ (ج٥،ص٥٨٣) یہاں تک کہ قتل ہوگیا ۔(ج٥، ص٦٠١)

٧۔ عباس بن جعدہ جُدلی :

اس شخص کو عیاش بن جعدہ جُدلی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ جناب مسلم کا اموی حاکم کے خلاف قیام ، کوفیوں کی مسلم کے ساتھ دغااور ابن زیادکا موقف اسی شخص نے یونس بن ابی اسحاق سبیعہمدانی کے واسطہ سے نقل کیا ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس نے حضرت مسلم کے ہاتھوں پر بیعت کی اور ان کے ہمراہ نبرد میں شریک رہا، پھر درمیان جنگ سے غائب ہوگیا اوردکھائی نہ دیا ، روایت کا جملہ اس طرح ہے۔'' خرجنا مع مسلم..''.ہم لوگ مسلم کے ہمراہ سپاہ سے نبرد آزمائی کے لئے نکل پڑے ۔

٨۔عبدالرحمن بن ابی عمیر ثقفی :

مختار کو ابن زیا د کے پرچم امان کے تلے آنے کی دعوت دینااسی شخص سے منقول ہے ۔

٩۔ زائد ہ بن قدامہ ثقفی :

جناب مسلم بن عقیل سے جنگ کے لئے محمد بن اشعث کا میدان نبرد

____________________

١۔تہذیب التہذیب، ج٦،ص٢٧٧

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

نہ نوازا ہوتا تو وہ کبھی بھی حجت اور دلیل نہیں بن سکتی تھی اور اسکے مطابق فیصلہ ممکن نہیں تھا۔

یہی وجہ ہے کہ روایات میں آیا ہے کہ خداوند عالم عقل کے مطابق ہی جزا یا سزا دیگا۔

۲۔اطاعت خدا

جب فہم وادراک اورنظری معرفت کے میدان میں عقل کی اس قدر اہمیت ہے۔۔۔تو اسی نظری معرفت کے نتیجہ میں عملی معرفت پیدا ہوتی ہے جسکی بنا پر انسان کیلئے کچھ واجبات کی ادائیگی اور محرمات سے پرہیز واجب ہوجاتا ہے ۔

چنانچہ جس نظری معرفت کے نتیجہ میںعملی معرفت پیدا ہوتی ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ انسان خداوند عالم کے مقام ربوبیت والوہیت کو پہچان لے اور اس طرح اسکی عبودیت اور بندگی کے مقام کی معرفت بھی پیدا کرلے اورجب انسان یہ معرفت حاصل کرلیتاہے تو اس پر خداوند عالم کے احکام کی اطاعت وفرمانبرداری واجب ہوجاتی ہے۔

یہ معرفت ،عقل کے خصوصیات میں سے ایک ہے اور یہی وہ معرفت ہے جو انسان کو خدا کے اوامر کی اطاعت اور نواہی سے پرہیز (واجبات و محرمات )کا ذمہ دار اور انکی ادائیگی یا مخالفت کی صورت میں جزاوسزا کا مستحق قرار دیتی ہے اور اگر معرفت نظری کے بعد یہ معرفت عملی نہ پائی جائے تو پھر انسان کے اوپر اوامر اور نواہی الٰہیہ نافذ(لاگو)نہیں ہوسکتے یعنی نہ اسکے اوپر کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور نہ ہی اسکو جزااور سزا کا مستحق قرار دیا جاسکتا ہے۔

اسی بیان کی طرف مندرجہ ذیل روایات میں اشارہ موجود ہے:

۸۱

امام محمد باقر نے فرمایا ہے:

(لماخلق ﷲ العقل استنطقه ثم قال له أقبل فأقبل،ثم قال له أدبرفأدبر،ثم قال له:وعزّتی وجلا لی ماخلقت خلقاً هوأحب لیّ منک،ولااکملک الافیمن احبأمانی یّاک آمرو یّاکأنهیٰ ویّاک اُعاقب ویّاک أثیب )( ۱ )

''یعنی جب پروردگار عالم نے عقل کو خلق فرمایا تو اسے گویا ہونے کاحکم دیا پھر اس سے فرمایا سامنے آ،تو وہ سامنے آگئی اسکے بعد فرمایا پیچھے ہٹ جا تو وہ پیچھے ہٹ گئی تو پروردگار نے اس سے فرمایا کہ میری عزت وجلالت کی قسم میں نے تجھ سے زیادہ اپنی محبوب کوئی اور مخلوق پیدا نہیں کی ہے اور میں تجھے اسکے اندر کامل کرونگا جس سے مجھے محبت ہوگی۔یاد رکھ کہ میں صرف اور صرف تیرے ہی مطابق کوئی حکم دونگا اور تیرے ہی مطابق کسی چیز سے منع کرونگا اور صرف تیرے مطابق عذا ب کرونگا اور تیرے ہی اعتبار سے ثواب دونگا''

امام جعفر صادق نے فرمایا:

(لماخلق ﷲ عزوجل العقل قال له ادبرفادبر،ثم قال اقبل فاقبل،فقال وعزتی وجلالی ماخلقت خلقاً احسن منک،یّاک آمرویّاک انهی،یّاک اُثیب ویّاکاُعاقب )( ۲ )

''جب ﷲ تعالی نے عقل کو پیدا کیا تو اس سے فرمایا واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی اسکے بعد فرمایا سامنے آ ،تو وہ آگئی تو ارشاد فرمایا کہ میری عزت وجلالت کی قسم : میں نے تجھ سے زیادہ حسین و جمیل کوئی مخلوق پیدا نہیں کی ہے لہٰذا صرف اور صرف تیرے ہی مطابق امرونہی کرونگا اور صرف اورصرف تیرے ہی مطابق ثواب یا عذاب دونگا''

بعینہ یہی مضمون دوسری روایات میں بھی موجود ہے ۔( ۳ )

ان روایات میں اس بات کی طرف کنایہ واشارہ پایا جاتا ہے کہ عقل، خداوند عالم کی مطیع

____________________

(۱)اصول کافی ج۱ص۱۰۔

(۲)بحارالانوارج۱ص۹۶۔

(۳)بحارالانوار ج۱ ص ۹۷ ۔

۸۲

وفرمانبردار مخلوق ہے کہ جب اسے حکم دیا گیا کہ سامنے آ، تو سامنے آگئی اور جب کہا گیا کہ واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی ۔

روایات میں اس طرح کے اشارے اورکنائے ایک عام بات ہے۔

علم وعمل کے درمیان رابطہ کے بارے میں حضرت علی کا یہ ارشاد ہے:

(العاقل اذا علم عمل،واذا عمل اخلص )( ۱ )

'' عاقل جب کوئی چیز جان لیتا ہے تو اس پر عمل کرتا ہے اور جب عمل کرتا ہے تو اسکی نیت خالص رہتی ہے''

ﷲ تعالیٰ کی اطاعت وبندگی اور اسکے احکامات کی فرمانبرداری میں عقل کیا کردار ادا کرتی ہے اسکے بارے میں اسلامی کتابو ں میں روایات موجود ہیں جنمیں سے ہم نمونے کے طورپر صرف چند روایات ذکر کر رہے ہیں۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

(العاقل من أطاع ﷲ )( ۲ )

''عاقل وہ ہے جو خدا کا فرمانبردار ہو''

روایت ہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے؟

قال :(العمل بطاعة الله،ان العمال بطاعة الله هم العقلاء )

''فرمایا :حکم خدا کے مطابق عمل کرنا، بیشک اطاعت خدا کے مطابق چلنے والے ہی صاحبان عقل ہیں''( ۳ )

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص۱۰۱۔

(۲)بحارالانوارج۱ص۱۶۰۔

(۳)بحارالانوار ج۱ص۱۳۱۔

۸۳

امام جعفر صادق سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے؟تو آپ نے فرمایا :

''جس سے خداوند عالم (رحمن)کی عبادت کی جائے اور جنت حاصل کی جائے''راوی کہتا ہے کہ میںنے عرض کیا کہ پھر معاویہ کے اندر کیا تھا؟فرمایا:وہ چال بازی اور شیطنت تھی''( ۱ )

حضرت علی :(اعقلکم اطوعکم )( ۲ )

''سب سے بڑا عاقل وہ ہے جو سب سے زیادہ اطاعت گذار ہو''

امام جعفر صادق :

(العاقل من کان ذلولاً عند اجابة الحق )( ۳ )

''عاقل وہ ہے جو دعوت حق کو لبیک کہتے وقت اپنے کو سب سے زیادہ ذلیل سمجھے''

۳۔خواہشات کے مقابلہ کے لئے صبروتحمل(خواہشات کا دفاع)

یہ وہ تیسری فضیلت ہے جس سے خداوند عالم نے انسانی عقل کو نوازا ہے ۔اور یہ عقل کی ایک بنیادی اور دشوار گذار نیزاہم ذمہ داری ہے جیسا کہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ اسکی یہ ذمہ داری اطاعت الٰہی کا ہی ایک دوسرا رخ تصور کی جاتی ہے بلکہ در حقیقت(واجبات پر عمل اور محرمات سے پرہیز)ہی اطاعت خدا کے مصداق ہیں اور ان کے درمیان صرف اتنا فرق ہے کہ پہلی صورت میں واجبات پر عمل کرکے اسکی اطاعت کی جاتی ہے اور دوسری صورت میں اسکی حرام کردہ چیزوں سے پر ہیز کرکے خواہشات سے اپنے نفس کو روک کر اوران پر صبرکر کے اسکی فرمانبرداری کیجاتی ہے اس بنا پر عقل کی یہ ذمہ داری اور ڈیوٹی ہے کہ وہ خواہشات نفس کواپنے قابو میں رکھے اورانھیں اس طرح اپنے ماتحت رکھے کہ وہ کبھی اپنا سر نہ اٹھا سکیں۔

____________________

(۱)بحارالانوارج۱ص۱۱۶۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۷۹۔

(۳)بحارالانوار ج۱ص۱۳۰۔

۸۴

خواہشات نفس کوکنڑول کرنے کے بارے میں عقل کی اس ڈیوٹی کے سلسلہ میں بیحد تاکید کی گئی ہے۔نمونہ کے طور پر حضرت علی کے مندرجہ ذیل اقوال حاضر خدمت ہیں:

٭(العقل حسام قاطع )( ۱ )

''عقل (خواہشات کو)کاٹ دینے والی تیز شمشیر ہے''

٭ (قاتل هواک بعقلک )( ۲ )

''اپنی عقل کے ذریعہ اپنی خواہشات سے جنگ کرو''

٭ (للنفوس خواطرللهویٰ،والعقول تزجر وتنهیٰ )( ۳ )

''نفس کے اندر ہویٰ وہوس کی بنا پر مختلف حالات پیدا ہوتے رہتے ہیں اور عقل ان سے منع کرتی ہے''

٭ (للقلوب خواطر سوء والعقول تزجرمنها )( ۴ )

''دلوں پر برے خیالات کا گذر ہوتا ہے تو عقل ان سے روکتی ہے''

٭ (العاقل من غلب هواه،ولم یبع آخرته بدنیاه )( ۵ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی خواہش کا مالک ہو اور اپنی آخرت کو اپنی دنیا کے عوض فروخت نہ کرے''

٭ (العاقل من هجرشهوته،وباع دنیاه بآخرته )( ۶ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی شہوت سے بالکل دور ہوجائے اور اپنی دنیا کو اپنی آخرت کے عوض

____________________

(۱)نہج البلاغہ ۔

(۲)گذشتہ حوالہ۔

(۳)تحف العقول ص۹۶۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۱۲۱۔

(۵)غررالحکم ج۱ ص ۰۴ ۱ ۔

(۶)غررالحکم ج۱ص۸۶۔

۸۵

فروخت کرڈالے''

٭ (العاقل عدولذ ته والجاهل عبد شهوته )( ۱ )

''عاقل اپنی لذتوں کا دشمن ہوتا ہے اور جاہل اپنی شہوت کا غلام ہوتا ہے''

٭ (العاقل من عصیٰ هواه فی طاعة ربه )( ۲ )

''عاقل وہ ہے جو اطاعت الٰہی کے لئے اپنی خواہش نفس (ہوس)کی مخالفت کرے''

٭ (العاقل من غلب نوازع أهویته )( ۳ )

''عاقل وہ ہے جو اپنے خواہشات کی لغزشوں پر غلبہ رکھے''

٭ (العاقل من أمات شهوته،والقوی من قمع لذته )( ۴ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی شہوت کو مردہ بنادے اور قوی وہ ہے جو اپنی لذتوں کا قلع قمع کردے''

لہٰذا عقل کے تین مرحلے ہیں:

۱۔معرفت خدا

۲۔واجبات میں اسکی اطاعت

۳۔جن خواہشات نفس اور محرمات سے ﷲ تعالی نے منع کیا ہے ان سے پرہیز کرنا۔

اس باب (بحث)میں ہماری منظور نظر عقل کا یہی تیسراکردارہے یعنی اس میں ہم خواہشات کے مقابلہ کا طریقہ ان پر قابو حاصل کرنے نیز انھیں کنٹرول کرنے کے طریقے بیان کرینگے ۔لہٰذا اب آپ نفس کے اندر عقل اور خواہشات کے درمیان موجود خلفشار اور کشمکش کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص۲۸۔

(۲)غررالحکم ج۲ص۸۷۔

(۳)غررالحکم ج۲ص۱۲۰۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۵۸۔

۸۶

عقل اور خواہشات کی کشمکش اور انسان کی آخری منزل کی نشاندہی

عقل اور خواہشات کے درمیان جو جنگ بھڑکتی ہے اس سے انسان کے آخری انجام کی نشاندہی ہوجاتی ہے کہ وہ سعادت مند ہونے والا ہے یا بد بخت ؟

یعنی نفس کی اندرونی جنگ دنیاکے تمام لوگوں کو دو الگ الگ حصوں میں تقسیم کردیتی ہے :

۱۔متقی

۲۔فاسق وفاجر

اس طرح بشری عادات و کردار کی بھی دوقسمیں ہیں:

۱۔تقویٰ وپرہیزگاری(نیک کردار)

۲۔فسق وفجور ( بد کردار)

تقویٰ یعنی خواہشات کے اوپر عقل کی حکومت اورفسق وفجور اور بد کرداری یعنی عقل کے اوپر خواہشات کا اندھا راج ،لہٰذا اسی دوراہے سے ہر انسان کی سعادت یا بدبختی کے راستے شمال و جنوب کے راستوں کی طرح ایک دوسرے سے بالکل جدا ہوجاتے ہیںاور اصحاب یمین (نیک افراد) اور اصحاب شمال (یعنی برے لوگوں)کے درمیان یہ جدائی بالکل حقیقی اور جوہری جدائی ہے جس میں کسی طرح کا اتصال ممکن نہیں ہے۔اور یہ جدائی اسی دو راہے سے پیدا ہوتی ہے کیونکہ کچھ لوگ اپنی خواہشات پر اپنی عقل کو حاکم رکھتے ہیں لہٰذا وہ متقی،صالح اور نیک کردار بن جاتے ہیں اور کچھ اپنی عقل کی باگ ڈوراپنی خواہشات کے حوالہ کردیتے ہیں لہٰذا وہ فاسق وفاجر بن جاتے ہیں اس طرح اہل دنیا دوحصوں میں بٹے ہوئے ہیں کچھ کا راستہ خدا تک پہنچتا ہے اور کچھ جہنم کی آگ کی تہوں میں پہونچ جاتے ہیں۔

۸۷

امیر المومنین نے اس بارے میں ارشاد فرمایا ہے:

(من غلب عقله هواه افلح،ومن غلب هواه عقله افتضح )( ۱ )

''جس کی عقل اسکی خواہشات پر غالب ہے وہ کامیاب وکامران ہے اور جسکی عقل کے اوپر اسکے خواہشات غلبہ پیدا کرلیں وہ رسواو ذلیل ہوگیا''

آپ نے ہی یہ ارشاد فرمایا ہے:

(العقل صاحب جیش الرحمٰن،والهویٰ قائد جیش الشیطان والنفس متجاذبة بینهما،فأیهمایغلب کانت فی حیّزه )( ۲ )

''عقل لشکر رحمن کی سپہ سالارہے اور خواہشات شیطان کے لشکر کی سردار ہیں اور نفس ان دونوں کے درمیان کشمکش اور کھنچائو کا شکاررہتا ہے چنانچہ ان میں جو غالب آجاتا ہے نفس اسکے ماتحت رہتا ہے''

اس طرح نفس کے اندر یہ جنگ جاری رہتی ہے اور نفس ان دونوں کے درمیان معلق رہتا ہے جب انمیں سے کوئی ایک اس جنگ کو جیت لیتا ہے تو انسان کا نفس بھی اسکی حکومت کے ماتحت چلاجاتا ہے اب چاہے عقل کامیاب ہوجائے یا خواہشات۔

حضرت علی :

(العقل والشهوة ضدان، مؤید العقل العلم،مزین الشهوة الهویٰ،والنفس متنازعة بینهما،فأیهما قهرکانت فی جانبه )( ۳ )

''عقل اور شہوت ایک دوسرے کی ضد ہیں عقل کا مددگار علم ہے اور شہوت کو زینت بخشنے والی چیز

____________________

(۱)غررالحکم ج۲ص۱۸۷۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۱۳۔

(۳)گذشتہ حوالہ ۔

۸۸

ہوس اور خواہشات ہیں اور نفس ان دونوں کے درمیان متذبذب رہتا ہے چنانچہ انمیں سے جوغالبآجاتا ہے نفس بھی اسی کی طرف ہوجاتا ہے''

یعنی نفس کے بارے میں عقل اور خواہشات کے درمیان ہمیشہ جھگڑا رہتا ہے ۔چنانچہ انمیں سے جوغالب آجاتا ہے انسان کا نفس بھی اسی کا ساتھ دیتا ہے۔

ضعف عقل اورقوت ہوس

شہوت(خواہشات)اور عقل کی وہ بنیادی لڑائی جسکے بعد انسان کی آخری منزل (سعادت وشقاوت) معین ہوتی ہے اس میں خواہشات کا پلڑاعقل کے مقابلہ میں کافی بھاری رہتا ہے جسکی وجہ یہ ہے کہ عقل فہم وادراک کا ایک آلہ ہے جبکہ خواہشات جسم کے اندر انسان کو متحرک بنانے والی ایک مضبوط طاقت ہے۔

اور یہ طے شدہ بات ہے کہ عقل ہرقدم سوچ سمجھ کر اٹھاتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی اسکو نفس کی قوت محرکہ نہیں کہاجاتا ہے۔

جبکہ خواہشات کے اندر انسان کو کسی کام پر اکسانے بلکہ بھڑکانے کے لئے اعلیٰ درجہ کی قدرت وطاقت وافرمقدار میں پائی جاتی ہے۔

حضرت علی نے فرمایا:

(کم من عقل اسیرعند هویٰ امیر )( ۱ )

''کتنی عقلیں خواہشات کے آمرانہ پنجوںمیں گرفتار ہیں''

خواہشات انسان کو لالچ اور دھوکہ کے ذریعہ پستیوں کی طرف لیجاتی ہیں اور انسان بھی ان کے ساتھ پھسلتا چلا جاتا ہے ۔جبکہ عقل انسان کو ان چیزوںکی طرف دعوت دیتی ہے جن سے اسے نفرت ہے اور وہ انھیں پسند نہیں کرتا ہے۔

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت۲۱۱

۸۹

امیر المومنین فرماتے ہیں:

(اکره نفسک علی الفضائل،فان الرذائل انت مطبوع علیها )( ۱ )

''نیک کام کرنے کے لئے اپنے نفس کے اوپر زور ڈالو،کیونکہ برائیوں کی طرف تو تم خود بخودجاتے ہو''

کیونکہ خواہشات کے مطابق چلتے وقت راستہ بالکل مزاج کے مطابق گویاڈھلان دار ہوتا ہے لہٰذاوہ اسکے اوپر بآسانی پستی کی طرف اتر تا چلاجاتا ہے لیکن کمالات اور اچھائیوں میں کیونکہ انسان کا رخ بلند یو ںکی طرف ہوتا ہے لہٰذا اس صورت میںہر ایک کو زحمت اور مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عقل اور شہوت کے درمیان جو بھی جنگ چھڑتی ہے اس میں شہوتیں اپنے تمام لائو لشکر اور بھر پور قدرت وطاقت اور اثرات کے ساتھ میدان میں اترتی ہیں اوراسکے سامنے عقل کمزور پڑجاتی ہے۔

اور اکثر اوقات جب عقل اور خواہشات کے درمیان مقابلہ کی نوبت آتی ہے تو عقل کو ہتھیار ڈالنا پڑتے ہیں کیونکہ وہ اسکے اوپر اس طرح حاوی ہوجاتی ہیں کہ اسکو میدان چھوڑنے پر مجبور کردیتی ہیں اور اسکا پورا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیکر اسے بالکل لاچار بنادیتی ہیں۔

____________________

(۱)مستدرک وسائل الشیعہ ج ۲ ص۳۱۰۔

۹۰

عقل کے لشکر

پروردگار عالم نے انسان کے اندر ایک مجموعہ کے تحت کچھ ایسی قوتیں ، اسباب اور ذرائع جمع کردئے ہیں جو مشکل مرحلوں میں عقل کی امداد اور پشت پناہی کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور نفس کے اندر یہ خیروبرکت کا مجموعہ انسان کی فطرت ،ضمیر اورنیک جذبات (عواطف)کے عین مطابق ہے اور اس مجموعہ میں خواہشات کے مقابلہ میں انسان کو تحریک کرنے کی تمام صلاحیتیں پائی جاتی ہیں

اور یہ خواہشات اور ہوس کو روکنے اور ان پر قابو پانے اور خاص طور سے ہوی وہوس کو کچلنے کے لئے عقل کی معاون ثابت ہوتی ہیں۔

کیونکہ(جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیںکہ) عقل تو فہم وادراک اور علم ومعرفت کا ایک آلہ ہے۔ جو انسان کو چیزوں کی صحیح تشخیص اور افہام وتفہیم کی قوت عطا کرتا ہے اور تنہااسکے اندر خواہشات کے سیلاب کو روکنے کی صلاحیت نہیں پائی جاتی ہے۔لہٰذا ایسے مواقع پر عقل خواہشات کو کنٹرول کرنے اور ان پر قابو پانے کے لئے ان اسباب اور ذرائع کا سہارا لیتی ہے جوخداوند عالم نے انسان کے نفس کے اندر ودیعت کئے ہیںاور اس طرح عقل کیلئے خواہشات کا مقابلہ اورانکا دفاع کرنے کی قوت پیدا ہوجاتی ہے لہٰذاان اسباب کے پورے مجموعہ کو اسلامی اخلاقیات اور تہذیب و تمدن کی زبان میں عقل کے لشکروں کا نام دیا گیا ہے۔جو ہر اعتبار سے ایک اسم بامسمّیٰ ہے۔

نمونہ کے طور پر اسکی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

کبھی کبھی انسان مال و دولت کی محبت کے جذبہ کے دبائو میں آکر غلط اور نا جا ئز راستوں سے دولت اکٹھا کرنے لگتا ہے ۔کیونکہ ہر انسان کے اندر کسی نہ کسی حد تک مال و دولت کی محبت پائی جاتی ہے مگر بسا اوقات وہ اس میں افراط سے کام لیتا ہے ۔ایسے مواقع پر انسانی عقل ہر نفس کے اندر موجود ''عزت نفس ''کے ذخیرہ سے امداد حا صل کرتی ہے چنا نچہ جہاں تو ہین اور ذلت کا اندیشہ ہو تا ہے عزت نفس اسے وہاں سے دولت حاصل کرنے سے روک دیتی ہے اگر چہ اس میں کو ئی شک و شبہ نہیں ہے کہ جس جگہ بھی تو ہین اور ذلت کا خطرہ ہو تا ہے عقل اسکو اس سے اچھی طرح آگاہ کر دیتی ہے لیکن پھر بھی ایسے مو اقع پر مال و دو لت سمیٹنے سے روکنے کے لئے عقل کی رہنما ئی تنہا کا فی نہیں ہے بلکہ اسے عزت نفس کا تعا ون درکارہوتاہے جسکو حاصل کرکے وہ حب مال کی ہوس اور جذبہ کا مقابلہ کرتی ہے ۔

۹۱

۲۔جنسی خو ا ہشات انسان کے اندر سب سے زیادہ قوی خو ا ہشات ہو تی ہیں اوران کے دبائو کے بعد انسان اپنی جنسی جذبات کی تسلی کے لئے طرح طرح کے غلط اور حرام راستوں پردوڑتا چلا جاتا ہے اور اس میں بھی کو ئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ ایسے اکثر حالات میں عقل جنسی بے راہ روی کے غلط مقامات کا بخوبی مقابلہ نہیں کر پاتی اور اسے صحیح الفطرت انسان کے نفس کے اندر مو جود ایک اور فطری طاقت یعنی عفت نفس (پاک دامنی )کی مدد حا صل کرنا پڑتی ہے ۔چنانچہ جب انسان کے سامنے اس کی عفت اور پاکدا منی کا سوال پیدا ہو جاتا ہے تو پھر وہ اس بری حرکت سے رک جاتا ہے ۔

۳۔کبھی کبھی انسان کے اندرسربلندی ،انانیت اور غرور وتکبر کا اتنا مادہ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے سامنے دوسروں کو بالکل ذلیل اور پست سمجھنے لگتا ہے اور یہ ایک ایسی صفت ہے جس کو عقل ہر اعتبار سے برا سمجھتی ہے اسکے باوجود جب تک عقل، نفس کے اندر خداوند عالم کی ودیعت کردہ قوت تواضع سے امداد حاصل نہ کرے وہ اس غرور و تکبر کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہے۔

۴۔کبھی کبھی انسان اپنے نفس کے اندر موجود ایک طاقت یعنی غیظ وغضب اور غصہ کا شکار ہوجاتا ہے جسکے نتیجہ میں وہ دوسروں کی توہین اور بے عزتی کرنے لگتا ہے۔چنانچہ یہ کام عقل کی نگاہ با بصیرت میں کتنا ہی قبیح اور براکیوں نہ ہواسکے باوجود عقل صرف اورصرف اپنے بل بوتے پر انسان کے ہوش وحواس چھین لینے والی اس طاقت کا مقابلہ کرنے سے معذور ہے لہٰذا ایسے مواقع پر عقل، عام طور سے انسان کے اندر موجود ،رحم وکرم کی فطری قوت وطاقت کو سہارا بناتی ہے۔کیونکہ اس صفت (رحم وکرم)میں غصہ کے برابر یا بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی قوت اور صلاحیت پائی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ انسان غصہ کی بنا پر کوئی جرم کرنا چاہتا ہے تو رحم وکرم کی مضبوط زنجیر یں اسکے ہاتھوں کو جکڑلیتی ہیں۔

۵۔اسی طرح انسان اپنی کسی اور خواہش کے اشارہ پر چلتا ہواخداوند عالم کی معصیت اور گناہ کے راستوں پر چلنے لگتا ہے تب عقل اسکو''خوف الٰہی''کے سہارے اس گناہ سے بچالیتی ہے۔

اس قسم کی اور بے شمار مثالیں موجود ہیں جن میں سے مذکورہ مثالیں ہم نے صرف وضاحت کے لئے بطور نمونہ پیش کردی ہیں ان کے علاوہ کسی وضاحت کے بغیر کچھ اورمثالیں ملاحظہ فرمالیں۔

جیسے نمک حرامی کے مقابلہ میں شکر نعمت، بغض و حسد کے مقابلہ کے لئے پیار ومحبت اورمایوسی کے مقابلہ میں رجاء وامید کی مدد حاصل کرتی ہے۔

۹۲

لشکر عقل سے متعلق روایات

معصومین کی احادیث میں نفس کے اندر موجود پچھتّر صفات کو عقل کا لشکر کہا گیا ہے جن کا کام یہ ہے کہ یہ ان دوسری پچھتّر صفات کا مقابلہ کرتی ہیں جنہیں خواہشات اور ہوس یاحدیث کے مطابق جہل کا لشکر کہا جاتا ہے ۔

چنانچہ نفس کے اندر یہ دونوں متضاد صفتیں درحقیقت نفس کے دو اندرونی جنگی محاذوں کی صورت اختیار کرلیتے ہیں جن میں ایک محاذ پر عقل کی فوجوںاور دوسری جانب جہل یا خواہشات کے لشکروں کے درمیان مسلسل جنگ کے شعلے بھرکتے رہتے ہیں۔

علامہ مجلسی (رح)نے اپنی کتاب بحارالانوار کی پہلی جلدمیں اس سے متعلق امام جعفرصادق اور امام موسی کاظم سے بعض روایات نقل کی ہیںجن کو ہم ان کی سند کے ساتھ ذکر کررہے ہیں تاکہ آئندہ ان کی وضاحت میں آسانی رہے۔

پہلی روایت

سعد اور حمیری دونوں نے برقی سے انھوں نے علی بن حدید سے انھوں نے سماعہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ :میں امام جعفر صادق کی خدمت موجود تھا اور اس وقت آپ کی خدمت میں کچھ آپ کے چاہنے والے بھی حاضر تھے عقل اور جہل کا تذکرہ درمیان میں آگیا تو امام جعفر صادق نے ارشاد فرمایاکہ: عقل اور اسکے لشکر کواور جہل اور اسکے لشکر کو پہچان لو تو ہدایت پاجائوگے۔ سماعہ کہتے ہیں کہ:میںنے عرض کی میں آپ پر قربان، جتنا آپ نے ہمیں سکھا دیا ہے ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں تو امام جعفر صادق نے فرمایا کہ خداوند عالم نے اپنی روحانی مخلوقات میں اپنے نور کے عرش کے دائیں حصہ سے جس مخلوق کو سب سے پہلے پیدا کیا ہے وہ عقل ہے۔پھر اس سے فرمایا سامنے آ:تو وہ سامنے حاضر ہوگئی پھر ارشاد فرمایا:واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی ،تو ارشاد الٰہی ہوا، میں نے تجھے عظیم خلقت سے نوازا ہے اور تجھے اپنی تمام مخلوقات پر شرف بخشا ہے پھر آپ نے فرمایا:کہ پھر خداوند عالم نے جہل کو ظلمتوں کے کھار ی سمندرسے پیدا کیا اور اس سے فرمایا کہ پلٹ جا تو وہ پلٹ گیا پھر فرمایا : سامنے آ:تو اس نے اطاعت نہیں کی تو خداوند عالم نے اس سے فرمایا : تو نے غرور وتکبر سے کام لیا ہے؟پھر(خدانے) اس پر لعنت فرمائی ۔

۹۳

اسکے بعد عقل کے پچھتّر لشکر قرار دئے جب جہل نے عقل کے لئے یہ عزت و تکریم اور عطا دیکھی تو اسکے اندر عقل کی دشمنی پیدا ہوگئی تو اس نے عرض کی اے میرے پروردگار، یہ بھی میری طرح ایک مخلوق ہے جسے تو نے پیدا کرکے عزت اور طاقت سے نوازا ہے۔اور میں اسکی ضد ہوں جبکہ میرے پاس کوئی طاقت نہیں ہے لہٰذا جیسی فوج تو نے اسے دی ہے مجھے بھی ایسی ہی زبردست فوج عنایت فرما۔تو ارشاد الٰہی ہوا :بالکل ( عطاکرونگا)لیکن اگر اسکے بعد تونے میری نا فرمانی کی تومیں تجھے تیرے لشکر سمیت اپنی رحمت سے باہر نکال دونگا اس نے کہا مجھے منظور ہے تو خداوند عالم نے اسے بھی پچھتّر لشکر عنایت فرما ئے ۔چنانچہ عقل اورجہل کو جو الگ الگ پچھتّر لشکر عنایت کئے گئے انکی تفصیل یہ ہے:

خیر، عقل کا وزیرہے اور اسکی ضد شر کو قرار دیا جو جہل کا وزیر ہے ۔

ایمان کی ضد کفر

تصدیق کی ضد انکار

رجاء (امید)کی ضد مایوسی

عدل کی ضد ظلم وجور

رضا(خشنودی )کی ضد ناراضگی

شکرکی ضد کفران(ناشکری)

لالچ کی ضد یاس

توکل کی ضدحرص

رافت کی ضدغلظت؟

رحمت کی ضد غضب

علم کی ضد جہل

فہم کی ضد حماقت

عفت کی ضد بے غیرتی

زہد کی ضد رغبت(دلچسپی)

قرابت کی ضدجدائی

خوف کی ضد جرائت

۹۴

تواضع کی ضد تکبر

محبت کی ضدتسرع (جلد بازی)؟

علم کی ضد سفاہت

خاموشی کی ضد بکواس

سر سپردگی کی ضد استکبار

تسلیم(کسی کے سامنے تسلیم ہونا)کی ضدسرکشی

عفوکی ضد کینہ

نرمی کی ضد سختی

یقین کی ضد شک

صبر کی ضدجزع فزع (بے صبری کا اظہار کرنا)

خطا پر چشم پوشی (صفح)کی ضد انتقام

غنیٰ کی ضد فقر

تفکر کی ضد سہو

حافظہ کی ضد نسیان

عطوفت کی ضد قطع(تعلق)

قناعت کی ضد حرص

مواسات کی ضد محروم کرنا (کسی کا حق روکنا)

مودت کی ضد عداوت

وفا کی ضد غداری

اطاعت کی ضد معصیت

خضوع کی ضد اظہارسر بلندی

سلامتی کا ضد بلائ

حب کی ضد بغض

۹۵

صدق کی ضد کذب

حق کی ضد باطل

امانت کی ضد خیانت

اخلاص کی ضد ملاوٹ

ذکاوت کی ضد کند ذہنی

فہم کی ضد ناسمجھی

معرفت کی ضد انکار

مدارات کی ضد رسوا کرنا

سلامت کی ضد غیب

کتمان کی ضد افشا(ظاہر کر دینا)

نماز کی ضد اسے ضائع کرنا

روزہ کی ضد افطار

جہاد کی ضد بزدلی(دشمن سے پیچھے ہٹ جانا)

حج کی ضد عہد شکنی

راز داری کی ضدفاش کرنا

والدین کے ساتھ نیکی کی ضد عاق والدین

حقیقت کی ضد ریا

معروف کی ضد منکر

ستر(پوشش)کی ضد برہنگی

تقیہ کی ضد ظاہر کرنا

انصاف کی ضدحمیت

ہوشیاری کی ضد بغاوت

صفائی کی ضدگندگی

۹۶

حیاء کی ضد بے حیائی

قصد (استقامت )کی ضد عدوان

راحت کی ضدتعب(تھکن)

آسانی کی ضد مشکل

برکت کی ضدبے برکتی

عافیت کی ضد بلا

اعتدال کی ضد کثرت طلبی

حکمت کی ضد خواہش نفس

وقار کی ضد ہلکا پن

سعادت کی ضد شقاوت

توبہ کی ضد اصرار (برگناہ)

استغفار کی ضداغترار(دھوکہ میں مبتلارہنا)

احساس ذمہ داری کی ضد لاپرواہی

دعا کی ضدیعنی غرور وتکبر کا اظہار

نشاط کی ضد سستی

فرح(خوشی)کی ضد حزن

الفت کی ضد فرقت(جدائی)

سخاوت کی ضد بخل

پس عقل کے لشکروں کی یہ ساری صفتیں صرف نبی یا نبی کے وصی یا اسی بندئہ مومن میں ہی جمع ہوسکتی ہیں جس کے قلب کا اللہ نے ایمان کے لئے امتحان لے لیا ہو!البتہ ہمارے بقیہ چاہنے والوں میں کوئی ایسا نہیں ہے جسمیںان لشکروں کی بعض صفتیںنہ پائی جائیں یہاں تک کہ جب وہ انہیں اپنے اندر کامل کرلے اور جہل کے لشکر سے چھٹکارا پا لے تو وہ بھی انبیاء اوراوصیاء کے اعلیٰ درجہ میں پہونچ جائے گا ۔بلا شبہ کامیابی عقل اور اسکے لشکر کی معرفت اور جہل نیز اس کے لشکر سے دوری کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے ۔

۹۷

خداوند عالم ہمیں اور خصوصیت سے تم لوگوں کو اپنی اطاعت اور رضا کی توفیق عطا فرمائے ۔( ۱ )

دوسری روایت

ہشام بن حکم نے یہ روایت امام موسیٰ کاظم سے نقل کی ہے اور شیخ کلینی (رہ)نے اسے اصول کافی میں تحریر کیا ہے اور اسی سے علامہ مجلسی (رہ)نے اپنی کتاب بحارالانوار میں نقل کیاہے۔( ۲ )

یہ روایت چونکہ کچھ طویل ہے لہٰذا ہم صرف بقدر ضرورت اسکااقتباس پیش کر رہے ہیں:

امام موسی کاظم نے فرمایا :اے ہشام عقل اور اسکے لشکروں کو اور جہل اور اسکے لشکروں کو پہچان لو اور ہدایت یافتہ لوگوں میں سے ہوجائو:ہشام نے عرض کی ہمیں تو صرف وہی معلوم ہے جوآپ نے سکھادیا ہے تو آپ نے فرمایا :اے ہشام بیشک خداوند عالم نے عقل کو پیدا کیا ہے اور ﷲ کی سب سے پہلی مخلوق ہے۔۔۔پھر عقل کے لئے پچھتّر لشکر قرار دئے چنانچہ عقل کو جو پچھتّر لشکر دئے گئے وہ یہ ہیں:

خیر ،عقل کا وزیر اور شر، جہل کا وزیر ہے

ایمان، کفر

تصدیق، تکذیب

اخلاص ،نفاق

رجا ئ،ناامیدی

عدل،جور

خوشی ،ناراضگی

____________________

(۱)بحار الانوار ج۱ ص۱۰۹۔۱۱۱ کتاب العقل والجہل۔

(۲)اصول کافی جلد۱ص۱۳۔۲۳،بحارالانوار جلد۱ص۱۵۹۔

۹۸

شکر، کفران(ناشکری)

طمع رحمت ،رحمت سے مایوسی

توکل،حرص

نرم دلی،قساوت قلب

علم، جہل

عفت ،بے حیائی

زہد،دنیا پرستی

خوش اخلاقی،بد اخلاقی

خوف ،جرائت

تواضع ،کبر

صبر،جلدبازی

ہوشیاری ،بے وقوفی

خاموشی،حذر

سرسپردگی، استکبار

تسلیم،اظہار سربلندی

عفو، کینہ

رحمت، سختی

یقین ،شک

صبر،بے صبری (جزع)

عفو،انتقام

استغنا(مالداری) ، فقر

تفکر،سہو

حفظ،نسیان

۹۹

صلہ رحم، قطع تعلق

قناعت ،بے انتہالالچ

مواسات ،نہ دینا (منع)

مودت ،عداوت

وفاداری ،غداری

اطاعت، معصیت

خضوع ،اظہار سربلندی

صحت ،(سلامتی )بلائ

فہم ،غبی ہونا(کم سمجھی)

معرفت، انکار

مدارات،رسواکرنا

سلامة الغیب ،حیلہ وفریب

کتمان (حفظ راز)،افشائ

والدین کے ساتھ حسن سلوک ،عاق ہونا

حقیقت،ریا

معروف ،منکر

تقیہ،ظاہر کرنا

انصاف ،ظلم

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438