واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا13%

واقعۂ کربلا مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 438

واقعۂ کربلا
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 438 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 192925 / ڈاؤنلوڈ: 5407
سائز سائز سائز
واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

میں آنا ، آپ کا اسیر ہو نا، قصر کے دروازہ پر پہنچ کر پانی طلب کرنااورآپ کوپانی پلائے جانے کاواقعہ اسی شخص کے حوالے سے مرقوم ہے ۔(ج٥،ص٣٧٥)

'' طبری ''نے اس شخص کو'' قدامہ بن سعیدبن زائدہ بن قدامہ ثقفی'' کے نام سے یاد کیاہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ زائدہ بن قدامہ ، قدامہ بن سعید کے دادا ہیں اور وہ کوفہ کی پر ماجراداستان میں موجود تھا اور اس کا پوتا'' قدامہ بن سعید ''وہ ہے جسے جناب شیخ طوسی نے اما م صادق علیہ السلام کے اصحاب میں ذکر کیا ہے۔ (طبری ،ص٢٧٥،ط نجف) لہٰذاہمارے نزدیک یہی صحیح ہے کہ'' قدامہ بن سعید، زائدہ بن قدامہ ثقفی'' سے روایت نقل کرتے ہیں ۔

٥٨ ہجری میں عام الجماعة(١) کے بعد معاویہ بن ابی سفیان کی طرف سے عبدالرحمن بن ام حکم ثقفی کے دور حکومت میں قدامہ بن سعیدکا دادا زائدہ بن قدامہ کو فہ کی پو لیس کا سربراہ تھا۔ (ج٥ ،ص٣١٠)جب ابن زیاد نے جناب مسلم علیہ السلام کے ارد گرد سے لوگوں کو جدا کرنے کے لئے پرچم امان بلند کیا تو'' عمر و بن حریث ''کے ہمراہ یہ شخص اس پرچم امن کا پرچمدار تھا۔ اسی شخص نے اپنے چچا زاد بھائی مختار کی سفار ش کی تھی، یہی وہ شخص ہے جو کوفہ میں ابن زیاد کے قید خانے سے مختار کا خط لیکر مختار کے بہنوئی عبداللہ بن عمر کے پاس لے گیا تھا۔ تاکہ وہ یزید کے پاس جا کرمختار کی رہائی کی سفارش کرے۔ صفیہ بنت ابی عبید ثقفی کے شوہر عبداللہ بن عمر ، مختار کے بہنوئی نے جاکر وہاں سفارش کی تو مختار کو ابن زیاد نے آزاد کردیا ، لیکن ابن زیاد نے اس فعل پر ''زائد بن قدامہ'' کا پیچھاکیا تو وہ بھاگ نکلا یہاں تک کہ ان کے لئے امن کی ضمانت حاصل کی گئی۔ (ج٥،ص٥٧١)جب عبداللہ بن زبیر کی طرف سے مقرر والی کوفہ عبداللہ بن مطیع کی بیعت ہونے لگی تو بیعت کرنے والوں کے ہمراہ'' زائد بن قدامہ ''نے بھی ابن مطیع کی بیعت کی ابن مطیع نے بیعت کے فوراً بعد ابن ''قدامہ'' کو مختار کی طرف روانہ کیا تاکہ مختار کو بیعت کی دعوت دیں ،لیکن ابن قدامہ نے جب مختار کو اس کی خبر دی تو مختار نے خوشی کا اظہار نہیں کیا۔ (ج٦،ص١١)

____________________

١۔ جماعت کا سال وہ سال ہے جس کا نام معاویہ نے جماعت کا سال رکھا تھا جسکے بعد اہلسنت خود کو اہلسنت والجماعت کہنے لگے ۔

۶۱

کوفہ سے مختار کے قیام کا آغاز اسی شخص کے باغ سے ہواتھا جو محلہ'' سبخہ'' میں تھا۔ (ج٦ ،ص٢٢) ابن زبیر کے مقرر کردہ والیٔ کوفہ عمر بن عبدالرحمن مخزومی کو ہٹانے کے لئے مختار نے اسی شخص کو روانہ کیا تھا اور ابن قدامہ نے اسے دھمکی اورمال کی لالچ دیکرہٹادیا ۔(ج٦، ص٧٢) کچھ دنوں کے بعد یہ شخص عبدالملک بن مروان سے ملحق ہوگیااور اس کے ہمراہ مصعب بن زبیر سے جنگ شروع کی یہاں تک کہ ''دیر جاثلیق ''میں مختار کے خون کا انتقام لینے کے لئے اس نے مصعب کے خون سے اپنی شمشیر کو سیراب کر دیا ۔(ج٦،ص١٥٩)

بالآخر حجاج نے ابن قدامہ کوایک ہزار فوج کے ہمراہ مقام'' رودباد ''میں شبیب خارجی سے مقابلہ کرنے کے لئے روانہ کیا۔وہاں پر اس نے خوب جنگ کی یہاں تک کہ وہ ماراگیا؛ جبکہ اس کے ساتھی اس کے ارد گرد تھے۔، یہ واقعہ ٧٦ہجری کے آس پاس کا ہے۔ (ج٦ ،ص٢٤٦)اس سے یہ صاف واضح ہے کہ'' قدامہ بن سعید بن زائد ہ'' جن سے ابومخنف نے روایت نقل کی ہے کوفہ میں جناب مسلم کے قیام کے عینی شاہد نہیں ہیں ، پس صحیح یہی ہے کہ'' قدامہ بن سعید ''نے ''زائدہ بن قدامہ'' سے روایت نقل کی ہے کیونکہ زائدہ (جیسا کہ گذشتہ سطروں میں ملاحظہ کیا) عمروبن حریث کے ہمراہ تھا لہٰذا حضرت مسلم کی طرف ابن زیادکی جانب سے محمدبن اشعث کو بھیجے جانے کی خبر اسی شخص نے اپنے پوتے قدامہ بن سعید سے نقل کی ہے ۔

١٠۔عمارہ بن عقبہ بن ابی معیط اموی:

مسلم بن عقیل کا پانی طلب کرنا اور اس پر انھیں پانی پلائے جانے کی خبر اسی شخص کے پوتے سعید بن مدرک بن عمارہ بن عقبہ نے اس سے نقل کی ہے اور ابو مخنف نے اس سے روایت کی ہے۔ تقریب التہذیب میں لکھا ہے : یہ شخص روایت میں مورد اعتماد ہے جس کی وفات ١١٦ ہجری میں واقع ہوئی ہے۔

١١۔عمر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام مخزومی :

صقعب بن زہیر کے حوالے سے اس شخص نے مکہ سے امام حسین علیہ السلام کے نکلتے وقت کی خبر کو ذکر کیا ہے۔(ج٥، ص ٣٨٢)مختار کے زمانے میں عبداللہ بن زبیر نے اس شخص کو کوفہ کا والی بنایا تو مختار نے مال کی لالچ اور ڈرا دھمکا کر اسے اس عہدہ سے ہٹادیا۔ (ج٦، ص٧١) تہذیب التہذیب میں اس کا تذکرہ موجود ہے ، صاحب کتاب کا بیان ہے کہ ابن حبان نے اسے ثقات میں شمار کیا ہے ، دوسرا بیان یہ ہے کہ صحابہ کی ایک جماعت سے یہ شخص روایت نقل کرتا ہے ۔

۶۲

١٢۔ عبداللہ اور مذری :

عبداللہ بن مسلم اور مذری بن مشمعل یہ دونوں قبیلہ بنی اسد سے تعلق رکھتے ہیں ۔حجر اسود اور باب کعبہ کے پاس امام حسین علیہ السلام کا ابن زبیر سے روبرو ہونا ، فرزدق کی امام سے ملاقات اور'' ثعلبیہ'' کے مقام پر امام علیہ السلام کا جناب مسلم کی شہادت سے باخبر ہونا،انھیں دونوں افراد نے دو واسطوں :(١) ابی جنا ب یح ٰبن ابی حیةالوداعی کلبی سے اور اس نے عدی بن حرملہ اسدی سے نقل کیا ہے۔یہ دونوں افراد وہ ہیں جنہوں نے امام حسین علیہ السلام کی فریاد سنی لیکن آپ کی مدد نہیں کی عبد اللہ بن مسلم اسدی ٧٧ ہجری تک زندہ رہا۔(٢)

١٣۔امام علی بن الحسین بن علی علیہماالسلام :

عبداللہ بن جعفر کا اپنے فرزند عون ومحمد کے ہمراہ خط ، عمرو بن سعید اشدق کا اپنے بھائی یحٰی کے ہمراہ خط اور امام علیہ السلام کا جواب چوتھے امام علیہ السلام سے ایک واسطہ سے مروی ہے اور وہ واسطہ حارث بن کعب والبی ہے ۔(٣)

١٤۔ بکر بن مصعب مزنی :

عبداللہ بن بقطر کی شہادت اور منزل'' زبالہ'' کا واقعہ ایک واسطہ سے اسی شخص سے مروی ہے اور وہ واسطہ ا بو علی انصاری ہے ۔(٤) قابل ذکر بات یہ ہے کہ علماء رجال کی نگاہوں میں ان دونوں کی کوئی شناخت نہیں ہے ۔

١٥۔ فزّاری :

سدّی کے واسطہ سے زہیر بن قین کے امام حسین علیہ السلام کے لشکر سے ملحق ہونے کی خبر اسی شخص سے مروی ہے۔ روایت کا جملہ اس طرح ہے :'' رجل من بنی فزار ''(٥) بنی فزارہ کے ایک شخص نے بیان کیا ہے ۔

١٦۔ طرماح بن عدی :

طرماح بن عدی کی روایت ایک واسطہ سے ''جمیل بن مرثد غنوی '' نے نقل کی ہے کہ طرماح نے امام حسین علیہ السلام سے ملاقات کا شرف حاصل کیا ۔ امام حسین ے انہیں اپنی مدد کے لئے بلایا تو انھوں نے اپنی تنگ دستی اور عیال کے رزق کی فراہمی کا عذر پیش کیا ۔ امام علیہ السلام

____________________

١۔تہذیب التہذیب، ج٧ ، ص٤٧٢ وخلاصہ تذہیب تہذیب الکمال ،ص٢٨٤

٢۔طبری ،ج٦ ، ص٩٥ ٢ --٣۔طبری، ج٥ ،ص٣٨٧،٣٨٨--٤۔ج٥، ص٣٩٨۔ ٣٩٩ --٥۔ج٥،ص٣٩٦

۶۳

نے بھی ان کو نہیں روکا ؛اس طرح طرماح امام علیہ السلام کی نصرت کے شرف سے محروم رہ گئے۔شیخ طوسی نے آپ کا تذکرہ امیر امومنین اور امام حسین علیہما السلام کے اصحاب میں کیا ہے ۔

لیکن مامقانی نے آپ کی توثیق کرتے ہوئے یہ فرمایا ہے :''انه ادرک نصرة الامام علیه السلام وجرح و برء ثم مات بعد ذالک'' (١)

''آپ امام علیہ السلام کی نصرت ومدد سے شرفیاب ہو ئے اور جنگ کے دوران زخمی ہو ئے لیکن بعد میں آپ کا زخم مندمل ہو گیا؛ پھر اس کے بعد آپ نے وفات پائی ہے '' لیکن ما مقانی نے اس سلسلے میں کو ئی ما خذذکر نہیں کیا ہے ۔

١٧۔ عامر بن شراحیل بن عبد الشعبی ہمدانی :

مجالد بن سعید کے حوالے سے انھوں نے قصر بنی مقاتل کی خبر کا تذکرہ کیا ہے ۔(٢) مذکورہ شخص نے ٢١ ہجری میں اس سرائے فانی میں آنکھ کھولی(٣) اس کی ماں ١٦ ہجری کے ''جلولائ''کے اسیروں میں شمار ہو تی ہے۔یہی دونوں باپ بیٹے ہیں جنہوں نے جناب مختار کو سب سے پہلے مثبت جواب دیا اور ان کی حقانیت کی گواہی دی۔(٤) ٦٧ ہجری میں یہ دو نوں باپ بیٹے جناب مختار کے ہمراہ مدائن کے شہر ''ساباط ''کی طرف نکل گئے۔(٥) مختار کے بعد عامر بن شراحیل ، اموی جلا د''حجاج بن یوسف ثقفی ''سے ملحق ہو کر اس کا ہمنشین ہو گیا(٦) لیکن ٨٢ ہجری میں ''عبد الرحمن بن اشعث بن قیس کندی ''کے ہمراہ حجاج کے خلاف قیام کر دیا(٧) اور جب عبد الرحمن نے شکست کھا ئی تو ''ری'' میں حجاج کے والی قتیبہ بن مسلم سے ملحق ہو گئے اور امن کی درخواست کی تو حجاج نے امان دیدیا۔(٨) اسی طر ح ز ندگی گذارتا رہا یہاں تک کہ عمر بن عبدالعزیزکے دور حکومت میں ٩٩ھ سے ١٠١ ھ تک یزید بن عبد الملک بن مروان کی طرف سے اسے کوفہ کے قاضیوں کا سربراہ قرار دیا گیا۔

____________________

١۔ تنقیح المقال ،ج٢، ص١٠٩ یہ بات پہلے گذرچکی ہے کہ یہ وہی معروف مقتل ہے جو ابو مخنف کی طرف منسوب ہے اور یہ وہی روایت ہے جس پر نفس المہموم کے صفحہ ١٩٥پر محدث قمی نے تعلیقہ لگا یا ہے ۔ ٢۔ طبری ج٥، ص٧

٣۔ج٤ص١٤٥ ---٤۔ج٦،ص٦۔٧

٥۔ج٦،ص٣٥

٦۔ج٦،ص٣٢٧

٧۔ج٦،ص٣٥٠

٨۔طبری، ج٦، س ٣٤٤

۶۴

یہی وہ شخص ہے جس نے جناب مسلم اور امام حسین علیہماالسلام کی مدد سے سر پیچی کی اور امام علیہ السلام کا سا تھ نہیں دیا۔ ابو مخنف ان سے بطور مرسل حدیث نقل کر تے ہیں اور''الکنی والا لقاب'' کے مطابق ١٠٤ ھمیں نا گہاں اس کو موت آگئی۔(١)

تا ریخ طبری میں اس شخص سے ١١٤ روایتیں مو جود ہیں ۔ تہذیب التہذیب میں مذکورہ شخص کا تذکر ہ مو جود ہے؛ اس کتاب میں عجلی سے یہ روایت نقل ہوئی ہے کہ شعبی نے ٤٨صحابہ سے حدیثیں سنی ہیں اور اس نے حضر ت علی علیہ السلام کے زمانے کو بھی درک کیا ہے۔ ایک نقل کے مطابق ١١٠ ھمیں وفات ہوئی ۔(٢)

١٨۔ حسان بن فائدبن

بکیرعبسی : نضر بن صالح بن حبیب بن زہیرعبسی کے حوالے سے اس شخص نے پسر سعد کے اس خط کا تذکرہ کیا ہے جو اس نے عبید اللہ بن زیاد کے پاس روانہ کیا تھا اور اس کے بعد ابن زیاد کے جواب کا بھی تذکرہ موجود ہے۔روایت کا جملہ یہ ہے :''اشهد ان کتاب عمربن سعد جاء الی عبیدالله بن زیاد وأ نا عنده فاذا فیه... ''(١) میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ عمر بن سعد کا خط عبید اللہ بن زیاد کے پاس آیااور میں اس وقت وہاں موجود تھا ؛اس خط میں یہ لکھا تھا ...۔

اس شخص نے.عبد اللہ بن زبیر کی طرف سے مقرر کر دہ والیٔ کو فہ عبد اللہ بن مطیع عدوی کے لشکر کے سر براہ راشد بن ایاس کے ہمراہ جناب مختار اور ان کے ساتھیوں کے خلاف جنگ میں شرکت کی تھی؛(٢) جب قصر کوفہ کا محاصرہ کیا گیا تو یہ شخص ابن معیط کے ہمراہ اس میں موجود تھا۔(٣) آخر کارر ٦٤ ھمیں ابن معیط کے ساتھیوں کے ہمراہ مقام'' مضر'' کو فہ کے کوڑے خانہ کے پاس قتل کر دیاگیا ۔

تہذیب التہذیب میں مذکو رہ شخص کا تذکرہ اس طرح ہے : ابن حبان نے ان کو ثقات میں شمار کیا ہے اور سورہ نساء کی آیہ ٥١ میں ''جبت'' کی تفسیر میں بخاری نے شعبہ سے، اس نے ابو اسحاق سبیعی سے،

____________________

١۔الکنی والا لقاب ،ج٢،ص٣٢٨

٢۔ تہذیب التہذیب ،ج٥،ص ٦٥

٣۔ طبری، ج٥، ص٤١١

٤۔ طبری، ج٦، ص٢٦،

٥۔ ج٦، ص٣١

۶۵

اس نے حسان سے اور اس نے عمر بن خطاب سے روایت کی ہے کہ ''جبت'' یعنی سحر اور یہ بھی کہا ہے کہ اس شخص کا شمار کوفیوں میں ہوتا ہے۔(١)

١٩۔ ابوعمار ہ عبسی :

ابوجعفر عبسی کے حوالہ سے اس شخص نے یحےٰی بن حکم کی گفتگو اور دربار یزید کا تذکرہ کیا ہے۔(٢)

٢٠۔قاسم بن بخیت :

شہداء کے سروں کا دمشق لا یاجانا،مروان کے بھائی یحیٰی بن حکم بن عاص کی گفتگو ،زوجہ یزید ہندکی گفتگو اور یزید کا چھڑی سے امام حسین علیہ السلام کے لبوں کے ساتھ بے ادبی کر نے کا تذکرہ اسی شخص نے ابوحمزئہ ثمالی سے اور انھوں نے عبداللہ ثمالی اور انھوں نے قاسم کے ذریعہ کیا ہے۔(٣)

٢١۔'' ابو الکنودعبدالرحمن بن عبید'' :

اس نے ام لقمان بنت عقیل بن ابی طالب کے اشعارکو سلیمان بن ابی راشد کے حوالے سے نقل کیا ہے۔(٤) '' زیاد بن ابیہ'' کی طرف سے یہ شخص کوفہ کا والی تھا۔(٥) یہ مختار کے ساتھیوں میں تھا اور اس نے دعویٰ کیا کہ اسی نے شمر کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ ابو مخنف کے حوالے سے تاریخ طبری میں اس سے ٩ روایتیں مذکور ہیں جیسا کہ'' اعلا م'' میں بھی ملتا ہے ۔

٢٢۔ فاطمہ بنت علی :

طبری کے بیان مطابق یہ خاتو ن جناب امیر کی دختر ہیں ۔ابو مخنف نے حارث بن کعب والبی کے حوالہ سے دربار یزید کا منظر انھیں خاتون سے نقل کیاہے۔الغرض ان لوگوں میں ٢١ افراد وہ ہیں جو یا تو ان مظالم میں شریک تھے یا اس دلسوز واقعہ کے معاصرتھے جنہوں نے روایتیں نقل کی ہیں اور ابو مخنف نے ان لوگوں سے ایک یا دو واسطوں سے روایتیں نقل کی ہیں ۔

____________________

١۔ تہذیب التہذیب، ج٢، ص٢٥١

٢۔ طبری ،ج٥، ص٤٦٠۔ ٤٦١

٣۔ طبری ،ج٥ ، س٤٦٥

٤۔ ج٥، ص ٤٦٦

٥۔ج٥، ٢٤٦

۶۶

پا نچویں فہرست

یہ وہ گروہ ہے جس سے ابو مخنف نے دویا چند واسطوں سے روایتیں نقل کی ہیں ۔ یہ گروہ ٢٩ افراد پر مشتمل ہے ۔

١۔ عبد الملک بن نوفل بن عبداللہ بن مخرمہ:

مدینہ سے نکلتے وقت امام حسین علیہ السلام کے اشعارکو انھوں نے ابو سعد سعیدبن ابی سعید مقبری کے حوالے سے نقل کیا ہے۔(١)

اسکے علاوہ اپنی موت کے وقت معاویہ کا لوگوں سے یزید کی بیعت لینا، معاویہ کے سپاہیوں کے سر برا ہ اور اس کے ا مورد فن کے ذمہ دارضحاک بن قیس فہری کی گفتگواور اپنے باپ معاویہ کی خبر مرگ سن کر یزید کے اشعاراسی شخص نے واسطوں کی تصریح کئے بغیر ذکر کئے ہیں ۔

ابو مخنف کے حوالے سے تاریخ طبری میں اس شخص سے ١٥روایتیں مذکور ہیں جنھیں خود ابو مخنف نے ایک شخص کے واسطے سے نقل کیا ہے ۔ان میں اکثر وبیشترروایتیں مکہ میں ابن زبیر اور مدنیہ میں عبد اللہ بن حنظلہ کے خروج سے متعلق ہیں ۔ ان میں سے ایک روایت وہ اپنے باپ نوفل سے نقل کر تا ہے(٢) تو دوسر ی روایت عبداللہ بن عروہ سے،(٣) اور تیسری روایت معاویہ کے ایک دوست حمید بن حمزہ سے منقول ہے۔(٤)

سات روایتیں بنی امیہ کے ایک چاہنے والے شخص بنام حبیب بن کرّہ سے منقول ہیں یہ مروان بن حکم کا پر چمدار بھی تھا(٥) اور آخری خبر سعید بن عمر وبن سعید بن عاص اشدق کے حوالے سے مروی ہے۔(٦) غالباً عبدالملک نے معاویہ کی وصیت اور اس کے دفن ہو نے کی روایت کو بنی امیہ کے کسی موالی سے نقل کیاہے؛ اگر چہ اس کے نام کی تصریح نہیں کی ہے۔عبد الملک کا باپ نوفل بن مساحق بن مطیع کی جانب سے دو یا پانچ ہزارکی فوج کا کما نڈر ا مقرر تھا ۔خود ابن مطیع کو ابن زبیر نے مقرر کیا تھا۔ ایک

____________________

١۔ طبری، ج٥، ص ٣٤٢

٢۔ج٥، ص ٤٧٤

٣۔ج٥،ص٤٧٨

٤۔ج٥،ص٤٧٨

٥۔ ج٥ ، ص ٤٨٢اور ٥٣٩

٦۔ج٥ ،ص ٥٧٧

۶۷

بار میدان جنگ میں ابراہیم بن مالک اشتر نخعی نے اسے اپنے قبضہ میں لے لیا اور گردن پر تلوار رکھ دی لیکن پھر چھوڑدیا ۔

عسقلانی نے تہذیب التہذیب(١) اور الکا شف(٢) میں مذکور ہ شخص کی روایتوں کو قابل اعتماد بتایا ہے ۔

٢۔ ابو سعید عقیصا :

مسجد الحرام میں احرام کی حالت میں امام حسین علیہ السلام کا عبداللہ بن زبیر سے روبرو ہونا اسی شخص نے اپنے بعض ساتھیوں کے حوالے سے نقل کیا ہے ۔(٣) علامہ حلی اپنی کتاب ''خلا صہ '' کے باب اول میں ابو سعید کو امیر المو منین علیہ السلام کے اصحاب میں شمار کرتے ہیں ۔(٤) ، ذہبی نے بھی'' میزان الاعتدال'' میں ان کا تذکرہ کرتے ہوئے یو ں کہا ہے : ''یہ شخص علی علیہ السلام سے روایتیں نقل کرتا ہے۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ ابن سعید نے کہا ہے کہ یہ ثقہ ہیں اور ان کانام دینار ہے ۔ یہ شیعہ ہیں اور انھوں نے١٢٥ ھمیں وفات پائی ہے۔(٥)

تہذیب التہذیب میں عسقلانی کہتے ہیں : ''واقدی کہتے ہیں کہ یہ ثقہ ہیں ان سے بہت زیادہ حدیثیں مروی ہیں ۔ پہلی صدی ہجری میں ان کی وفات ہوئی۔ ابن سعد نے کہا کہ انھوں نے ولیدبن عبدالملک کے زمانے میں وفات پائی۔بعضوں نے کہا ہے کہ عمر نے ابوسعید کو قبریں کھود نے پر مامور کیا تھا اور بعضوں کا یہ کہنا ہے کہ چونکہ یہ پائیتی سے قبر میں اترتے تھے لہٰذا ان کو مقبری کہا جانے لگا۔(٦)

____________________

١۔ تہذیب التہذیب، ج٦، ص٤٢٨

٢۔الکا شف، ج٢ ،ص٢١٦

٣۔طبری ،ج٥، ص٣٨٥

٤۔ الخلا صہ، ص١٩٣

٥۔ میزان الا عتدال، ج٢،ص ١٣٩وج٣ ،ص٨٨ ؛ کا مل الزیارات کے ص ٢٣ پر ابن قولو یہ نے اپنی سند سے ابو سعید عقیصا کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں : ''میں نے کافی دیر تک امام حسین علیہ السلام کو عبد اللہ بن زبیر کے ساتھ آہستہ آہستہ گفتگو کر تے ہوئے سنا۔راوی کہتا ہے : پھر امام علیہ السلام عبد اللہ بن زبیر سے اپنا رخ موڑ کر لوگو ں سے مخاطب ہوئے اور فرمایا : یہ مجھ سے کہتا ہے کہ حرم کے کبوتر و ں کی طرح ہو جایئے جبکہ اگر مجھے حرم میں شرف کے ساتھ قتل کیا جائے تو مجھ کو اس سے زیادہ یہ پسند ہے کہ مجھ کو کسی ایسی جگہ دفن کیا جائے جہا ں فقط ایک بالشت زمین ہو۔اگر مجھ کو طف (کربلا) میں قتل کیا جائے تو حرم میں قتل ہونے سے زیادہ مجھ کو یہی پسند ہے کہ میں کر بلا میں قتل کیا جاؤ ں ''اس روایت سے یہ اندازہ ہو تا ہے کہ راوی نے خود امام علیہ السلام سے حدیث سنی ہے، نہ اس طرح جس طرح ابو مخنف نے سند ذکر کی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ''کامل '' اکمل ہے ۔

٦۔تہذیب التہذیب، ج٨،ص٤٥٣ولسان المیزان، ج٢، ص٤٢٢

۶۸

٣۔ عبد الرحمن بن جندب ازدی :

مذکورہ شخص کی کچھ روایتیں عقبہ بن سمعان کے حوالے سے نقل ہوئی ہیں ۔تاریخ طبری میں اس شخص سے تقریباً ٣٠ روایتیں کے مروی ہیں جن میں جنگ جمل ، صفین، نہروان اور کر بلا کا واقعہ ایک واسطہ عقبہ بن سمعان سے منقول ہے۔وہ حجاج کے زمانے کا واقعہ کسی واسطے کے بغیر نقل کر تا ہے کیو نکہ ابن جندب نے ٧٦ھ میں زائدہ بن قدامہ کی سر براہی میں حجاج کی فوج کے ہمراہ رودبار میں شبیب خارجی کے خلاف جنگ میں شرکت کی(١) اوراس میں اسیر کر لیا گیا۔ خوف کے عالم میں اس نے شبیب کے ہاتھوں پر بیعت کرلی(٢) پھر کسی طرح کوفہ پہنچ گیا۔یہ وہ موقع تھا جب حجاج دوسری مرتبہ شبیب پرحملہ کرنے کے لئے تقریر کررہاتھا اوریہ ٧٧ھ کا زمانہ تھا۔(٣) استرآبادی کی ''رجال الوسیط'' کے حوالے سے مقدس اردبیلی نے ابن جندب کو اصحاب امیر المومنین علیہ السلام میں شمار کیا ہے(٤) اور'' لسان المیزان'' میں عسقلانی نے بھی ان کا تذکرہ کرتے ہوئے یوں کہا ہے :''یہ کمیل بن زیاد اور ابو حمزہ ثمالی سے روایتیں نقل کرتے ہیں ۔''(٥)

٤۔حجاج بن علی بارقی ہمدانی :

مذکورہ شخص کی تمام روایتیں محمد بن بشر ہمدانی کے واسطے سے نقل ہوئی ہیں لہٰذا محمد بن بشر کی طرف مراجعہ کیا جائے۔ تاریخ طبری میں بارقی سے ابن بشر کے علاوہ کسی دوسرے سے کوئی روایت نقل نہیں ہوئی ہے'' لسان المیزان'' میں ان کاتذکرہ یوں ملتا ہے : ''شیخ روی عنہ ابو مخنف''یہ ایسے بزرگ ہیں کہ ابو مخنف ان سے روایتیں نقل کر تے ہیں ۔(٦)

٥۔ نمیر بن وعلة الہمدانی ینا عی :

مذکور ہ شخص اپنی روایتیں ابو ودّاک جبربن نو فل ہمدانی ، ایوب بن مشرح خیوانی اور ربیع بن تمیم کے حوالے سے نقل کر تا ہے ۔ تاریخ طبری میں اس شخص سے ١٠ روایتیں موجود ہیں ۔ آخری روایت شعبی سے ٠ ٨ ھ میں حجاج بن یوسف ثقفی کے دربار کے بارے میں ہے۔(٧) لسان المیزان میں یناعی کا تذکرہ یوں ملتا ہے

____________________

١۔طبری ،ج٦،ص٢٤٤ ---٢۔طبری، ج٦،ص٢٤٢ ---٣۔طبری ،ج٦،ص٢٦٢

٤۔جامع الرواة،ج١، ص٤٤٧ ---٥۔لسان المیزان، ج٣ ،ص٤٠٨،ط حیدر آباد

٦۔ لسان المیزان، ج٢، ص ١٧٨ ---٧۔ طبری، ج٦، ص ٣٢٨

۶۹

اور یہ شعبی سے روایت کر تے ہیں اور ان سے ابو مخنف روایت کر تے ہیں ۔''(١) مغنی میں بھی یہی مطلب موجود ہے۔(٢)

٦۔ صقعب بن زہیرازدی :

مذکورہ شخص اپنی روایتیں ابو عثمان نہدی ،عون بن ابی جحیفہ سوائی اور عبدالر حمن بن شریح معافری اسکندری کے حوالے سے نقل کرتا ہے۔ تہذیب التہذیب کی جلد٦ ،ص ١٩٣ پر مرقوم ہے کہ ١٦٧ ہجری میں اسکندرہی میں ''صقعب ''نے وفات پائی وہ عمر بن عبدالر حمن بن حا رث بن ہشام مخزومی اور حمید بن مسلم کی روایتوں کو بھی نقل کرتا ہے ۔

تاریح طبری میں ابن زہیر سے ٢٠ خبریں منقول ہیں اور تمام خبریں اس طرح ہیں ''عن ابی مخنف عنہ'' ابو مخنف ان (صقعب) سے روایت نقل کرتے ہیں ۔ ان روایتوں میں ٣روایتیں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات سے متعلق ہیں ۔ چونکہ یہ جنگ صفین میں حضرت علی علیہ السلام کے لشکر میں تھے لہٰذا جناب عمار بن یاسرکی شہادت کا بھی تذکرہ کیا ہے(٣) اسی طرح حجر بن عدی کی شہادت کے واقعہ کا بھی تذکرہ کیا ہے۔(٤) کر بلاکے سلسلے میں نو روایتیں نقل کی ہیں اور تین روایتیں مختار کے قیام کے سلسلے میں ہیں ۔ تہذیب التہذیب میں عسقلانی کا بیان اس طرح ہے: ابن حبان نے ان کو ثقات میں شمار کیا ہے۔ ابوزرعہ کا بیان ہے کہ روایت کے سلسلے میں یہ مورد اعتماد ہیں ؛ ابو حاتم کا بیا ن ہے کہ یہ مشہور نہیں ہیں ۔(٥) ''خلا صة تہذیب ا لتہذیب الکمال '' کے حاشیہ پر ہے کہ ابو زرعہ نے ان کی توثیق کی ہے۔(٦)

٧۔ معلی بن کلیب ہمدانی :

کر بلا کا دلسوز واقعہ انھوں نے ابو وداک جبر بن نو فل کے واسطہ سے نقل کیا ہے لہٰذا ابو وداک کی روایتوں کو دیکھا جائے ۔

٨۔ یوسف بن یزید بن بکر ازدی :

مذکورہ شخص عبداللہ بن حازم ازدی اور عفیف بن زہیر بن ابی اخنس سے روایتیں نقل کر تا ہے۔ تار یخ طبری میں ان کاپورانام مذکورہے(٧) اور ان سے ١٥روایتیں نقل

____________________

١۔ لسان المیزان، ج٦، ص١٧١،ط حیدرآباد ---٢۔ج٢، ص٧٠١، طبع دارالدعوہ

٣۔ج٥، ص ٣٨ ---٤۔ ج٥ ، ص٢٥٣ ---٥۔تہذیب التہذیب ج٤، ص ٤٣٢، ---٦۔ الخلا صہ ،ص ١٧٦، ط دارالد عوہ

٧۔طبری ،ج٦، ص ٢٨٤

۷۰

ہوئی ہیں ٧٧ھ کے بعد تک انھوں نے زندگی گزاری ہے۔ ذہبی نے'' میزان الاعتدال'' میں ان کا اس طرح ذکر کیا ہے : آپ بڑے سچے شریف اور بصرہ کے رہنے والے تھے، آپ سے ایک جماعت نے روایتیں نقل کی ہیں اور بہت سارے لوگوں نے ان کی تعریف کی ہے ۔وہ اپنی حدیثیں خودلکھا کر تے تھے۔(١) تہذیب التہذیب میں عسقلا نی نے ان کا اس طرح تذکرہ کیا ہے : ابن حبان نے انھیں ثقات میں شمار کیا ہے۔مقدسی نے کہا کہ یہ ثقہ ہیں ۔ابو حاتم کا بیا ن ہے کہ وہ اپنی حدیثیں خود لکھا کر تے تھے۔(٢) یہی تذکرہ خلاصة تذ ہیب تہذیب الکمال میں بھی ملتا ہے۔(٣)

٩۔یونس بن ابی اسحاق :

ابو اسحاق عمروبن عبداللہ سبیعی ہمدانی کوفی کے فرزندیونس، عباس بن جعدہ جدلی کے حوالے سے روایتیں نقل کرتے ہیں اورحضرت مسلم بن عقیل کے قیام کے سلسلے میں انھوں نے روایت کی ہے کہ آپ کے مقابلہ میں چار ہزار کا لشکر تھا ۔

علامہ سید شرف الدین موسوی اپنی گرانقدر کتاب ''المراجعات''میں فرماتے ہیں :'':یونس کے والد ابو اسحاق عمروبن عبدللہ بن سبیعی ہمدانی کوفی، کے شیعہ ہونے کی تصریح ابن قتیبہ نے اپنی کتاب ''المعارف ''اور شہرستانی نے اپنی کتاب ''الملل و النحل''میں کی ہے۔ آپ ان محدثین کے سربراہ تھے جن کے مذہب کو دشمنان اہل بیت کسی طرح لائق ستائش نہیں سمجھتے ،نہ ہی اصول میں اور نہ ہی فروع میں کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو اہل بیت اطہار علیہم السلام کے نقش قدم پرچلتے ہیں اوردین کے مسئلہ میں فقط اہل بیت اطہار کی پیروی کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ جوزجانی (گرگانی) (جیسا کہ میزان الاعتدال میں زبیدی کے شرح حال میں ذکر ہواہے)(٤) نے کہا ہے کہ اہل کوفہ میں کچھ لوگوں کا تعلق ایسے گروہ سے تھا ۔جن کے مذہب ومرام کو لوگ اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے جبکہ یہ لوگ محدثین کوفہ کے بزرگوں میں سے تھے مثلاًابو اسحاق ، منصور ، زبید الیامی ، اعمش اوران جیسے دوسرے افراد، ان لوگوں کی روایتیں فقط ان کے سچے ہونے کی بنیاد پر قبول کی جاتی ہیں ؛ لیکن اگر ان کی طرف سے مرسلہ روایتیں نقل ہوں تو

____________________

١۔میزان الا عتدال، ج ٤، ص ٤٧٥

٢۔ تہذیب التہذیب، ج١١، ص ٤٢٩

٣۔الخلا صہ ،ص ٤٤٠

٤۔میزان الاعتدال، ج٢،ص٦٦،ط حلبی

۷۱

چوں و چرا کیا جاتا ہے۔ نمونے کے طور پر ان میں سے ایک روایت جسے دشمنان اہل بیت ابو اسحاق کے مراسل(مرسلہ کی جمع وہ روایت جس میں درمیان سے راوی حذف ہو)میں شمار کرتے ہوئے انکار کرتے ہیں ابو اسحاق کی وہ روایت ہے جسے عمرو بن اسماعیل نے (جیسا کہ میزان الاعتدال میں عمرو بن اسماعیل کے شرح حال میں مذکور ہے)(١) ابو اسحاق سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا :''قال رسول اللّه صلی اللّه علیه و آله وسلم مثل علیٍّ کشجرةانااصلهاوعلی فرعها و الحسن والحسین ثمرها والشیعةورقها ''نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی کی مثال اس درخت کی سی ہے کہ جس کی جڑ میں ہوں شاخ علی ہیں ،حسن و حسین اس کے پھل اور شیعہ اس کے پتے ہیں ۔

پھر علامہ شرف الدین اعلی اللہ مقامہ فرماتے ہیں کہ (جیسا کہ میزان الاعتدا ل میں ہے کہ) مغیرہ کا یہ بیان کہ اہل کوفہ کی حدیثوں کو ابو اسحاق اور اعمش جیسے لوگوں نے تباہ کیا ہے ،(٢) یایہ کہ اہل کوفہ کو ابو اسحاق اور اعمش جیسے لوگوں نے ہلاک کیا ہے(٣) فقط اس لئے ہے کہ یہ دونوں آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خالص پیرو تھے اور ان کی سنتوں میں جو چیزیں ان کی خصوصیات و صفات کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں ۔ اس کے محافظ و نگراں تھے ۔

پھر فرماتے ہیں : صحاح ستہ اور غیر صحاح (اہل سنت کی ٦کتابیں جنہیں وہ صحاح کے نام سے یاد کرتے ہیں ) کے مصنفین نے ان دونوں سے روایتوں کونقل کیا ہے۔(٤)

بہر حال ''الو فیات '' کے بیان کے مطابق عثمان کی خلافت ختم ہونے کے ٣سال قبل یعنی ٣٣ھ میں آپ کی ولادت ہوئی اور ابن معین و مدائنی کے بیان کے مطابق ١٣٢ھ میں آپ نے وفات پائی ۔

آپ کے فرزند یونس آپ ہی سے روایتیں نقل کرتے ہیں جنکی وفات ١٥٩ ھ میں ہوئی اور اس وقت آپ کی عمر ٩٠ سال کی تھی ۔ یہ وہی شخص ہیں جو ابو مخنف سے عباس بن جعدہ کے حوالے سے کوفہ میں جناب مسلم کے قیام کے واقعہ کو بیان کرتے ہیں ۔ تاریخ طبری میں اس خبر کے علاوہ یونس سے ایک اور خبر

____________________

١۔میزان الاعتدال، ج٣ ،ص٢٧٠

٢۔ میزان الاعتدال، ج٣ ،ص ٢٧٠

٣۔ میزان الاعتدال ، ج٢ ،ص ٢٢٤

٤۔ المراجعات، ص ١٠٠ ،ط دار الصادق

۷۲

منقول ہے لیکن کسی کا حوالہ موجود نہیں ہے اور وہ خبر ابن زیاد کے سلسلے میں ہے کہ ابن زیاد نے ایک لشکر روانہ کیا تاکہ کوفہ پہنچنے سے پہلے امام حسین علیہ السلام کو گھیر لے ، اس کے علاوہ تاریخ طبری میں گیارہ دوسری روایتیں بھی ہیں جنہیں ابو مخنف نے یونس سے نقل کیاہے نیز ١٣روایتیں اور ہیں لیکن وہ ابو مخنف کے علاوہ کسی اور سے مروی ہیں ۔

تہذیب التہذیب میں عسقلانی کا بیان ہے کہ ابن حبان نے آپ کو ثقات میں شمار کیا ہے۔ ابن معین کا بیان ہے کہ آپ ثقہ ہیں ۔ ابو حاتم نے کہا کہ آپ بہت سچے تھے۔نسائی کا بیان ہے کہ ان کی روایتوں میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ ابن عدی کا بیان ہے کہ ان کی روایتیں بہت اچھی ہیں ۔ لوگ ان سے روایتیں نقل کرتے ہیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ ١٥٩ھ میں ان کی وفات ہوئی ہے۔(١)

١٠۔ سلیمان بن راشدازدی :

مذکورہ شخص عبداللہ بن خازم بکری ازدی ، حمید بن مسلم ازدی اور ابو کنود عبد الرحمن بن عبید کی روایتوں کو نقل کرتا ہے۔ تاریخ طبری میں اس شخص سے ٢٠روایتیں نقل ہوئی ہیں جن میں اکثر و بیشتر بالواسطہ ہیں وہ ٨٥ ھتک زندہ رہے۔(٢)

١١۔ مجالد بن سعید ہمدانی :

یہ شخص عامر شعبی ہمدانی سے روایتیں نقل کرتا ہے۔ اس کی روایت قصر بنی مقاتل کے سلسلے میں ہے ۔(٣) مسلم بن عقیل کے ساتھ کوفیوں کی بے وفائی ، جناب مسلم علیہ السلام کی تنہائی اور غریب الوطنی ، آپ کا طوعہ کے گھر میں داخل ہونا ، ابن زیاد کا خطبہ ، بلال بن طوعہ کی خبر اور ابن زیاد کااشعث کے بیٹے کو جناب مسلم علیہ السلام سے لڑنے کے لئے بھیجنے کے سلسلے میں بھی'' مجالد ''کی روایتیں موجود ہیں لیکن وہ مرسل ہیں جن کو طبری نے کسی کی طرف مستند نہیں کیا ہے۔(٤)

تاریخ طبری میں مجالد سے ٧٠ خبریں نقل ہوئی ہیں جن میں سے اکثر و بیشتر شعبی کے حوالے سے ہیں ۔ ابو مخنف اسے محدث کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔(٥)

____________________

١۔تہذیب التہذیب ،ج١ ، ص ٤٣٣

٢۔ طبری ،ج٦ ، ص ٣٦٠

٣۔طبری ،ج٥ ص ٤٠٧

٤۔ ج٥، ص ٣٧١۔٣٧٣

٥۔ طبری، ج٥ ، ص٤١٣

۷۳

ذہبی نے میزان الاعتدال میں ''مجالد'' کا تذکرہ اس طرح کیا ہے : یہ مشہور اور صاحب روایت ہیں اور ''اشبح ''نے ذکر کیا ہے کہ وہ خاندان رسالت کے پیرو تھے۔ مجالد کی وفات ١٤٣ھ میں ہوئی ۔اس کے بعد ذہبی، بخاری سے روایت کرتے ہیں کہ بخاری نے مجالد کے شرح حال میں ان سے روایت نقل کی ہے اور وہ شعبی سے اور وہ ابن عباس سے روایت نقل کرتے ہیں کہ ابن عباس نے کہا : جب بنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس دنیا میں قدم رکھ کر اس دنیا کو منور کیا تو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کا نام ''منصورہ '' رکھا۔ اسی وقت جبرائیل نازل ہوئے اور فرمایا : اے محمد !اللہ آپ پر تحفۂ درودسلام بھیجتا ہے اور آپ کے گھر پیدا ہونے والی بچی کے لئے بھی ہدیہ درود و سلام بھیجتا اورفرماتا ہے: '' مااحب مولود احب الی منھا '' ہمارے نزدیک اس مولود سے زیادہ کوئی دوسرا مولود محبوب نہیں ہے لہٰذا خداوند عالم نے اس نام سے بہتر نا م منتخب کیا ہے؛ جسے آپ نے اس بیٹی کے لئے منتخب کیا ہے ، خدا نے اس کا نا م'' فاطمہ'' رکھا ہے'' لانھا تفطم شیعتھا من النار''کیونکہ یہ اپنے شیعوں کو جہنم سے جداکرے گی ،لیکن یہ حدیث ذہبی کے حلق سے کیسے اتر سکتی ہے لہٰذا انہو ں نے فوراًاس حدیث کو جھٹلایا اور دلیل یہ پیش کی کہ بنت رسول کی ولادت تو بعثت سے قبل ہوئی ہے۔ (اگر چہ ذہبی کا یہ نظریہ غلط ہے لیکن دشمنی اہل بیت اطہار میں وہ بے بنیاد حدیث کو بھی صحیح ما ن لیتے ہیں اور فضائل کی متواتر حدیث کو ایڑی چوٹی کا زور لگا کر ضعیف ثابت کر نے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ) اسی حدیث کی بنیا د پر ذہبی نے کہہ دیا کہ وہ توشیعہ تھے۔(١)

١٢۔ قدامہ بن سعید بن زائدہ بن قدامہ ثقفی :

قدامہ اپنے دادا زائدہ بن قدامہ سے روایتیں نقل کرتے ہیں ۔قدامہ کی روایت ہے کہ محمد بن اشعث مسلم بن عقیل علیہ السلام سے جنگ کے لئے نکلا ،پھر جناب مسلم قید کئے گئے ، آپ نے دار الامارہ کے دروازہ پر پانی طلب کیا اور آپ کو پانی پیش کیا گیا۔(٢) طبری نے ان کا ذکر کیا ہے لیکن ان کے باپ یا دادا سے استناد نہیں کیا اور ظاہراًیہ صحیح نہیں ہے کیونکہ قدامہ کوفہ میں ان واقعات کے رونما ہوتے وقت موجود ہی نہیں تھے وہ تو ان کے دادا ''زائدہ''تھے جو اس

____________________

١۔ میزان الاعتدال، ج ٣ ، ص ٤٣٨ ،ایک قول یہ ہے کہ ١٤٢ یا ١٤٤ ہجری ذی الحجہ کے مہینہ میں مجالد نے وفات پائی۔ ذہبی نے تہذیب التہذیب میں یہی لکھا ہے ۔

٢۔ طبری ،ج ٥ ، ص ٣٧٣ ۔ ٣٧٥

۷۴

وقت وہاں موجود تھے اور عمر و بن حریث کے ہمراہ کوفہ کی جامع مسجد میں ابن زیاد کا پرچم امن لہرارہے تھے ، کیونکہ ابن زیاد نے یہ کہا تھا کہ مسلم سے جنگ کے لئے محمدبن اشعث کے ہمراہ بنی قیس کے ٧٠ جوان بھیجے جائیں(١) اور اس وقت زائدہ نے اپنے چچازاد بھائی مختار کے لئے سفارش کی تھی،(٢) لیکن قدامہ بن سعید کو شیخ طوسی علیہ الرحمہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام کے اصحاب میں ذکر کیا ہے(٣) جس کی تفصیل پہلے گذرچکی ہے لہٰذا وہاں دیکھاجائے ۔

١٣۔ سعید بن مدرک بن عمارہ بن عقبہ بن ابی معیط اموی :

یہ شخص اپنے دادا عمارہ بن عقبہ سے روایت نقل کر تا ہے کہ اس کے دادا نے اپنے غلام قیس کو اپنے گھر روانہ کیا تا کہ وہ پا نی لے کر آئے اور محل کے دروازہ پر کھڑ ے مسلم ابن عقیل کو ابن زیاد کے پاس لے جانے سے پہلے پا نی پلا دے۔(٤) کتا ب کی عبارت ہے : ''حد ثنی سعید ان عمارہ بن عقبہ '' '' سعید نے ہم سے حدیث نقل کی ہے کہ عمارہ بن عقبہ ...''اس عبارت سے یہی ظاہر ہو تا ہے کہ حدیث بغیر کسی سند کے بلا واسطہ نقل ہو رہی ہے لیکن یہ بہت بعید ہے۔ظاہر یہی ہے کہ سعید اپنے دادا عمارہ کے حوالے سے حدیثیں نقل کر تے ہیں ۔ہمارے نزدیک پا نی لا نے کے سلسلے میں قدامہ بن سعید ہی کی روایت تر جیح رکھتی ہے جس میں اس بات کی صراحت ہے کہ پا نی عمر وبن حریث لے کر آیا تھا، نہ کہ عمارہ یا اس کا غلام۔ اس حقیقت کا تذکر ہ اس کتاب میں صحیح موقع پر کیا گیا ہے۔

١٤۔ ابو جناب یحٰی بن ابی حیہ وداعی کلبی :

یہ شخص عدی بن حرملہ اسدی سے اور وہ عبد اللہ بن سلیم اسدی ومذری بن مشمعل اسدی سے اور وہ ہا نی بن ثبیت حضرمی سے روایتیں نقل کر تا ہے۔ یہ روایتیں کبھی کبھی مرسل بھی نقل ہو ئی ہیں جن میں کسی سند کا تذکرہ نہیں ہے۔ انھیں میں سے ایک روایت جناب مسلم کے ساتھیوں کا ابن زیاد سے روبروہو نا،(٥) ابن زیاد کاجناب مسلم اور جناب ہا نی کے سروں کو یزید کے پا س بھیجنا اور اس سلسلے میں یزید کو ایک خط لکھنا بھی ہے۔(٦)

____________________

١۔طبری ،ج ٥ ،ص ٣٧٣ --٢۔ طبری، ج ٥ ، ص ٥٧٠

٣۔ رجال شیخ ، ص ٢٧٥ ،ط نجف--٤۔ طبری، ج٥، ص ٣٧٦

٥۔ج٥ ،ص ٣٦٩۔ ٣٧٠ --٦۔ج٥ص٣٨٠

۷۵

جیسا کہ یہ بات پہلے گذرچکی ہے کہ ظاہراً ان واقعات کو ابو جناب نے اپنے بھائی ہانی بن ابی حیہ و داعی کلبی کے حوالے سے نقل کیا ہے جس کو ابن زیاد نے جناب مسلم کے سراور اپنے نامے کے ساتھ یزید کے پاس بھیجا تھا۔(١) تا ریخ طبری میں ٢٣روایتیں با لو اسطہ جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان کے سلسلے میں نقل ہوئی ہیں اور ٩روایتیں واقعۂ کر بلا کے سلسلے میں ہیں جن میں سے پا نچ بالواسطہ اور تین مر سل ہیں ، لیکن ظاہر یہ ہے کہ در حقیقت یہ تینو ں روایتیں بھی مستند ہیں ۔ان روایتوں سے یہ انداز ہ ہو تا ہے کہ وہ ان لو گوں میں سے نہ تھا جو دشمن کے لشکر میں تھے ،البتہ اس کا ان کے ہم عصروں میں شمار ہو تا ہے ۔

آخری مرسل روایت جو میری نظروں سے گذری ہے یہ ہے کہ جناب مختار کے قیام کے بعد ٦٧ ھمیں مصعب بن زبیر نے ابراہیم بن مالک اشتر کو خط لکھوا کر اپنی طرف بلا یا ۔(٢) عسقلانی تہذیب التہذیب میں کہتے ہیں : ابن حبان نے ان کو ثقات میں شمار کیا ہے۔اسی طرح ابن نمیر، ابن خراش، ابو زرعہ اور ساجی نے کہا کہ یہ کو فہ کے رہنے والے تھے اور بہت سچے تھے۔ ابو نعیم کا بیان ہے کہ ان کی روایتوں میں کو ئی مشکل نہیں ہے۔ ١٥٠ہجری میں ان کی وفات ہوئی ،اگرچہ ابن معین کا بیان ہے کہ ٧ ١٤ھ میں وفات پا ئی۔(٣)

١٥۔ حارث بن کعب بن فقیم والبی ازدی کوفی :

حارث بن کعب عقبہ بن سمعان ، امام زین العابدین علیہ السلام اور فاطمہ بنت علی کے حوالے سے روایتیں نقل کرتے ہیں ۔وہ شروع میں کیسا نیہ مذہب سے تعلق رکھتے تھے(٤) (جو جناب مختار کو امام سمجھتے تھے) لیکن بعد میں امام زین العابدین علیہ السلام کی امامت کے قائل ہوگئے اور ان سے روایتیں بھی نقل کرنے لگے۔(٥) ایسا اندازہ ہو تا ہے کہ یہ کو فہ سے مدینہ منتقل ہو گئے تھے کیو نکہ انھوں نے امام زین العابدین اور فاطمہ بنت علی علیہما السلام سے خودحد یثیں سنی ہیں ۔(٦)

____________________

١۔ ج ٥ ،ص ٣٨٠

٢۔طبری، ج٦، ص ١١

٣۔ تہذیب التہذیب، ج١١،ص ٢٠١

٤۔طبری، ج٦، ص ٢٣

٥۔طبری ،ج٥،ص ٣٨٧

٦۔ ج٥، ص ٤٦١

۷۶

شیخ طوسی علیہ الرحمہ نے آپ کو امام زین العابدین علیہ السلام کے اصحاب میں شمار کیا ہے،لیکن نجف سے طبع ہو نے والی اس کتاب میں جو رجال شیخ کے نام سے معروف ہے شیخ نے کعب کی جگہ حر بن کعب ازدی کو فی کر دیا ہے۔ محقق کتاب نے حاشیہ میں ایک دوسرے نسخہ کی مدد سے حارث لکھا ہے اور یہی صحیح ہے ۔

١٦ ۔ اسما عیل بن عبد الرحمن بن ابی کریمہ سدّی کو فی :

زہیر بن قین کے واقعہ کو یہ فزاری کے حوالے سے نقل کر تے ہیں ۔

ذہبی نے'' میزان الا عتدال'' میں ان کا تذکرہ کر تے ہو ئے کہا ہے : ان پر تشیع کی نسبت دی گئی ہے اور وہ ابو بکر وعمر پر لعنت وملا مت کر تے تھے ا۔بن عدی نے کہا ہے کہ یہ میرے نزدیک بڑے سچے ہیں ۔ احمد نے کہا کہ یہ ثقہ ہیں ۔یحٰی نے کہا کہ میں نے کسی کو نہیں دیکھا مگر یہ کہ وہ سدّی کو اچھے نا م سے یاد کرتا ہے اور ان کو کسی نے ترک نہیں کیا ۔ ان سے شعبہ اور ثوری روایت کر تے ہیں ۔(١) تا ریخ طبری میں ان سے ٨٤ روایتیں نقل ہوئی ہیں جن میں دوسری صدی ہجری کے واقعات بیان ہوئے ہیں ۔

''تہذیب التہذیب اور ''الکاشف '' میں مذکور ہے کہ انھوں نے ٧ ١٢ھمیں وفات پائی، چونکہ یہ مسجد کو فہ کے درواز ہ پر با لکل وسط میں بیٹھا کر تے تھے لہٰذ ان کو'' سدّی'' کہا جا نے لگا ۔یہ قر یش کے موالی میں شمار ہو تے ہیں اور امام حسن علیہ السلا م سے روایتیں نقل کر تے ہیں ۔

١٧۔ ابو علی انصاری :

یہ بکر بن مصعب ْمزنی ّ سے روایت نقل کر تے ہیں ۔عبد اللہ بن بقطر کی شہادت کا تذکرہ انھیں کی روایت میں مو جو د ہے۔ تاریخ طبری میں اس روایت کے علاوہ ان کی کو ئی دوسری روایت موجود نہیں ہے۔ رجال کی کتا بوں میں ان کا کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے ۔

١٨۔ لو ذان :

یہ شخص اپنے چچا کے حوالے سے امام حسین علیہ السلام سے راستے میں اپنے چچا کی ملا قات کا تذکرہ کر تا ہے اورخود غیر معروف ہے ۔

١٩۔ جمیل بن مر ثدی غنوی :

یہ شخص طر ماح بن عدی طائی سے انھیں کی خبر کو نقل کر تا ہے ۔

____________________

١۔تہذیب التہذیب، ج١،ص ٢٣٦،ط جلی

۷۷

٢٠ ۔ ابو زہیر نضربن صالح بن حبیب عبسی :

مذکو رہ شخص حسان بن فا ئد بن بکیر عبسی کے حوالے سے پسر سعد کے ابن زیاد کو خط لکھنے کی روایت اور ابن زیاد کے جواب دینے کا تذکرہ کر تا ہے۔اس کے علا وہ قرہ بن قیس تمیمی کے حوا لے سے جناب حر کا واقعہ بیان کر تا ہے ۔

تا ریخ طبری میں اس راوی سے ٣١ روایتیں منقول ہیں ۔ ابو زہیر نے جناب مختار کے زما نے کو بھی درک کیا ہے۔(١) اس کے بعد ٦٨ ہجری میں مصعب بن زبیر کے ہمراہ یہ قطریّ خارجی سے جنگ کے لئے میدان نبرد میں اتر آئے ،پھر ٧٧ ہجری میں مطرف بن مغیرہ بن شعبہ ثقفی خارجی کے مدائن میں نگہبان اور دربان ہوگئے۔ اس وقت ان کی جوانی کے ایام تھے لہٰذا ہر وقت مطرف کی نگہبانی کے لئے تلوار کھینچے کھڑے رہتے تھے ،نیز اسی سال انھوں نے مطرف کی فوج میں رہ کر حجاج کے لشکر سے جنگ کی،(٢) اس کے بعد کوفہ پلٹ گئے۔(٣)

امام رازی نے اپنی کتاب ''الجرح والتعدیل'' میں ان کا تذکرہ کرتے ہوے کہا ہے :''میں نے اپنے باپ سے سنا ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ ابو مخنف ان سے روایت نقل کرتے ہیں اوروہ بالواسطہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں ۔(٤)

٢١۔ حارث بن حصیرہ ازدی :

یہ شخص بعض روایتوں کو عبداللہ بن شریک عامری نہدی کے حوالے سے نقل کرتا ہے اور بعض روایتوں کو اس کے واسطے سے امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل کرتا ہے ۔

ذہبی نے'' میزان الاعتدال'' میں ان کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے : ابو احمد زبیری کا بیا ن ہے کہ یہ رجعت پر ایمان رکھتے تھے اور یحٰی بن معین نے کہا ہے کہ یہ ثقہ ہیں ۔ان کو خشبی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ اس خشب (لکڑی) کی طرف منسوب ہیں جس پر زید بن علی کو پھانسی دی گئی تھی ۔

ابن عدی کا بیان ہے کہ ان کا شمار کوفہ کے شدید شیعوں میں ہوتا ہے ۔ ابوحاتم رازی کہتے ہیں کہ ان کا شماربہت قدیم شیعوں میں ہوتا ہے لیکن اگر ثوری نے ان سے روایت نقل نہ کی ہوتی تو یہ متروک تھے۔(٥)

____________________

١۔ طبری ،ج ٦، ص ٨١ ---٢۔ ج٦ ، ص٢٩٨

٣۔ ج٦، ص٢٩٩ ---٤۔الجرح والتعدیل،ج٨، ص ٤٧٧ --٥۔میزان الاعتدال، ج ، ص٤٣٢،ط حلبی

۷۸

ذہبی نے نفیع بن حارث نخعی ہمدانی کوفی اعمی (جو اندھے تھے) کے شرح حال میں حارث بن حصیرہ سے روایت نقل کرتے ہوئے کہا ہے : '' بہت سچے تھے لیکن رافضی تھے۔ اس کے بعد سند روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ حارث بن حصیرہ نے عمران بن حصین سے روایت نقل کی ہے کہ انھوں نے کہا :''کنت جالساعندالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وعلیُّ الی جنبہ '' میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے پاس بیٹھاتھا اور علی (علیہ السلام) ان کے پہلو میں بیٹھے تھے ،''اذقرأ النبی صلی الله علیه وآله'' ( امن یجیب المضطرّاذا دعاه و یکشف السوء و یجعلکم خلفاء الارض'' ) (١)

اسی درمیان پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیہ شریفہ ''امن یجیب المضطر...''کی تلاوت فرمائی'' فارتعد عَلِیّ ،فضرب النبی صلی اللہ علیہ وآلہ بیدہ علی کتفہ''آیت کو سن کر علی لرزنے لگے تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو علی کے شانے پر رکھا''فقال: لایحبک الا مومن ولا یبغضک الا منافق الی یوم القیا مة'' (٢) اور فرمایا: قیامت تک تم سے محبت نہیں کریگا مگر مومن او ر دشمنی نہیں کرے گا مگر منافق۔

تاریخ طبری میں ابن حصیرہ سے ١٠ روایتیں موجود ہیں اور ان تمام روایتوں کو ابو مخنف نے ان سے نقل کیاہے۔ شیخ طوسی نے اپنے رجال میں ان کو امیر المومنین علیہ السلام کے اصحاب میں شمار کیا ہے(٣) لیکن آپ نے حارث بن حصین ازدی نامی شخص کا تذکرہ امام محمد باقر علیہ السلام کے اصحاب میں کیا ہے جو غلط ہے ۔

٢٢۔ عبداللہ بن عاصم فائشی ہمدانی :

یہ ضحاک بن عبداللہ مشرقی ہمدانی کی روایتوں کو نقل کرتے ہیں ۔مقدس اردبیلی نے ''جامع الرواة ''میں ذکر کیا ہے کہ کافی میں تیمم کے وقت کے سلسلے میں ان سے امام جعفر صادق علیہ السلام کی زبانی ایک روایت منقول ہے ۔

تہذیب میں عسقلانی نے ان کا تذ کرہ کیا ہے، نیز بصائر الدرجات میں بھی ان کا تذکرہ موجود ہے۔ ان سے ابان بن عثمان اور جعفر بن بشیر نے روایتیں نقل کی ہیں ۔(٤)

____________________

١۔نمل ٦٢

٢۔میزان الاعتدال، ج ٤ ،ص٢٧٢

٣۔ رجال شیخ ، ص ٣٩،ط نجف

٤۔جامع الرواة ،ج١،ص ٤٩٤

۷۹

٢٣۔ ابو ضحاک :

یہ شب عاشور کا واقعہ امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں ۔

ذھبی نے'' میزان الاعتدال ''(١) میں اور عسقلانی نے'' تہذیب التہذیب''(٢) میں ان کا تذکرہ کیا ہے۔ شعبہ نے ان سے روایت نقل کی ہے ۔

٢٤۔ عمرو بن مرّہ الجملی :

یہ ابو صالح حنفی سے اوروہ عبد ربہ انصاری کے غلام سے روایتیں نقل کرتے ہیں ۔ان کی خبر میں جناب بریر بن خضیر کی شوخی کا تذکرہ ہے ۔(١) ذہبی نے ''میزان الاعتدال''(٢) میں ا ور عسقلانی نے'' تہذیب التہذیب''(٣) میں انکا تذکرہ کیا ہے۔وہ کہتے ہیں :ابن حبان نے ان کو ثقہ میں شمار کیا ہے اس کے بعد کہتے ہیں کہ انھوں نے ١١٦ھ میں وفات پائی۔احمد بن حنبل نے ان کی ذکاوت اورپاکیزگی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی وفات ١١٨ ہجری میں ہوئی اور بخاری کا بیان ہے کہ علی (علیہ السلام) سے انھوں نے تقریبا١٠٠روایتیں نقل کی ہیں ۔ شعبہ کا بیا ن ہے کہ یہ بڑے صاحب علم تھے۔ابو حاتم کہتے ہیں کہ وہ سچے اور مورد اعتماد ہیں ابن معین کا بیا ن ہے کہ وہ ثقہ ہیں ۔

٢٥۔ عطأ بن سائب :

انھوں نے جنگ کے شروع میں ابن حوزہ کی شہادت کا تذکرہ عبدالجبار بن وائل حضرمی کے حوالے سے اور اس نے اپنے بھائی مسروق بن وائل حضرمی کے حوالے سے نقل کیا ہے۔(٤)

عسقلانی نے'' تہذیب التہذیب'' میں انکا اس طرح تذکرہ کیا ہے : عبدالجبار بن وائل اپنے بھائی سے روایت نقل کرتا ہے۔ ابن حبان نے ان کو ثقات میں شمار کیا ہے،اس کے بعد کہتے ہیں کہ ١٢٢ھ میں ان کی وفات ہوئی ہے۔عطاء مکہ کے رہنے والے ہیں ٦٤ ہجری میں ابن زبیر کے ہاتھوں خانہ کعبہ کی خرابی اور اس کی تجدید کوانھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔یہ ان لوگوں میں سے ہیں جو ٩٤ ہجری تک حجاج کے ہاتھوں قتل نہ ہوسکے۔(٧) '' تہذیب التہذیب'' میں ہے کہ ابن حبان نے ان کو ثقات میں شمار کیا ہے۔ ابن سعد نے طبقات میں بھی ان کا تذکرہ کیا ہے ، اور یہ کہا ہے کہ ان کی وفات١٣٧ ہجری میں ہوئی ہے ۔

____________________

١۔میزان الاعتدال، ج٤ ،ص ٥٤٠،ط حیدر آباد ---٢۔تہذیب التہذیب، ج١٢ ،ص ١٣٦

٣۔طبری ،ج٥ ،ص ٥٢٣ ---٤۔ میزان الاعتدال، ج٣ ،ص ٢٨٨

٥۔ تہذیب التہذیب، ج ٨ ، ص ١٠٢ --٦۔طبری ،ج٥ ص٤٣١ --٧۔ج٦،ص٤٨٨

۸۰

نہ نوازا ہوتا تو وہ کبھی بھی حجت اور دلیل نہیں بن سکتی تھی اور اسکے مطابق فیصلہ ممکن نہیں تھا۔

یہی وجہ ہے کہ روایات میں آیا ہے کہ خداوند عالم عقل کے مطابق ہی جزا یا سزا دیگا۔

۲۔اطاعت خدا

جب فہم وادراک اورنظری معرفت کے میدان میں عقل کی اس قدر اہمیت ہے۔۔۔تو اسی نظری معرفت کے نتیجہ میں عملی معرفت پیدا ہوتی ہے جسکی بنا پر انسان کیلئے کچھ واجبات کی ادائیگی اور محرمات سے پرہیز واجب ہوجاتا ہے ۔

چنانچہ جس نظری معرفت کے نتیجہ میںعملی معرفت پیدا ہوتی ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ انسان خداوند عالم کے مقام ربوبیت والوہیت کو پہچان لے اور اس طرح اسکی عبودیت اور بندگی کے مقام کی معرفت بھی پیدا کرلے اورجب انسان یہ معرفت حاصل کرلیتاہے تو اس پر خداوند عالم کے احکام کی اطاعت وفرمانبرداری واجب ہوجاتی ہے۔

یہ معرفت ،عقل کے خصوصیات میں سے ایک ہے اور یہی وہ معرفت ہے جو انسان کو خدا کے اوامر کی اطاعت اور نواہی سے پرہیز (واجبات و محرمات )کا ذمہ دار اور انکی ادائیگی یا مخالفت کی صورت میں جزاوسزا کا مستحق قرار دیتی ہے اور اگر معرفت نظری کے بعد یہ معرفت عملی نہ پائی جائے تو پھر انسان کے اوپر اوامر اور نواہی الٰہیہ نافذ(لاگو)نہیں ہوسکتے یعنی نہ اسکے اوپر کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور نہ ہی اسکو جزااور سزا کا مستحق قرار دیا جاسکتا ہے۔

اسی بیان کی طرف مندرجہ ذیل روایات میں اشارہ موجود ہے:

۸۱

امام محمد باقر نے فرمایا ہے:

(لماخلق ﷲ العقل استنطقه ثم قال له أقبل فأقبل،ثم قال له أدبرفأدبر،ثم قال له:وعزّتی وجلا لی ماخلقت خلقاً هوأحب لیّ منک،ولااکملک الافیمن احبأمانی یّاک آمرو یّاکأنهیٰ ویّاک اُعاقب ویّاک أثیب )( ۱ )

''یعنی جب پروردگار عالم نے عقل کو خلق فرمایا تو اسے گویا ہونے کاحکم دیا پھر اس سے فرمایا سامنے آ،تو وہ سامنے آگئی اسکے بعد فرمایا پیچھے ہٹ جا تو وہ پیچھے ہٹ گئی تو پروردگار نے اس سے فرمایا کہ میری عزت وجلالت کی قسم میں نے تجھ سے زیادہ اپنی محبوب کوئی اور مخلوق پیدا نہیں کی ہے اور میں تجھے اسکے اندر کامل کرونگا جس سے مجھے محبت ہوگی۔یاد رکھ کہ میں صرف اور صرف تیرے ہی مطابق کوئی حکم دونگا اور تیرے ہی مطابق کسی چیز سے منع کرونگا اور صرف تیرے مطابق عذا ب کرونگا اور تیرے ہی اعتبار سے ثواب دونگا''

امام جعفر صادق نے فرمایا:

(لماخلق ﷲ عزوجل العقل قال له ادبرفادبر،ثم قال اقبل فاقبل،فقال وعزتی وجلالی ماخلقت خلقاً احسن منک،یّاک آمرویّاک انهی،یّاک اُثیب ویّاکاُعاقب )( ۲ )

''جب ﷲ تعالی نے عقل کو پیدا کیا تو اس سے فرمایا واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی اسکے بعد فرمایا سامنے آ ،تو وہ آگئی تو ارشاد فرمایا کہ میری عزت وجلالت کی قسم : میں نے تجھ سے زیادہ حسین و جمیل کوئی مخلوق پیدا نہیں کی ہے لہٰذا صرف اور صرف تیرے ہی مطابق امرونہی کرونگا اور صرف اورصرف تیرے ہی مطابق ثواب یا عذاب دونگا''

بعینہ یہی مضمون دوسری روایات میں بھی موجود ہے ۔( ۳ )

ان روایات میں اس بات کی طرف کنایہ واشارہ پایا جاتا ہے کہ عقل، خداوند عالم کی مطیع

____________________

(۱)اصول کافی ج۱ص۱۰۔

(۲)بحارالانوارج۱ص۹۶۔

(۳)بحارالانوار ج۱ ص ۹۷ ۔

۸۲

وفرمانبردار مخلوق ہے کہ جب اسے حکم دیا گیا کہ سامنے آ، تو سامنے آگئی اور جب کہا گیا کہ واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی ۔

روایات میں اس طرح کے اشارے اورکنائے ایک عام بات ہے۔

علم وعمل کے درمیان رابطہ کے بارے میں حضرت علی کا یہ ارشاد ہے:

(العاقل اذا علم عمل،واذا عمل اخلص )( ۱ )

'' عاقل جب کوئی چیز جان لیتا ہے تو اس پر عمل کرتا ہے اور جب عمل کرتا ہے تو اسکی نیت خالص رہتی ہے''

ﷲ تعالیٰ کی اطاعت وبندگی اور اسکے احکامات کی فرمانبرداری میں عقل کیا کردار ادا کرتی ہے اسکے بارے میں اسلامی کتابو ں میں روایات موجود ہیں جنمیں سے ہم نمونے کے طورپر صرف چند روایات ذکر کر رہے ہیں۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

(العاقل من أطاع ﷲ )( ۲ )

''عاقل وہ ہے جو خدا کا فرمانبردار ہو''

روایت ہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے؟

قال :(العمل بطاعة الله،ان العمال بطاعة الله هم العقلاء )

''فرمایا :حکم خدا کے مطابق عمل کرنا، بیشک اطاعت خدا کے مطابق چلنے والے ہی صاحبان عقل ہیں''( ۳ )

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص۱۰۱۔

(۲)بحارالانوارج۱ص۱۶۰۔

(۳)بحارالانوار ج۱ص۱۳۱۔

۸۳

امام جعفر صادق سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے؟تو آپ نے فرمایا :

''جس سے خداوند عالم (رحمن)کی عبادت کی جائے اور جنت حاصل کی جائے''راوی کہتا ہے کہ میںنے عرض کیا کہ پھر معاویہ کے اندر کیا تھا؟فرمایا:وہ چال بازی اور شیطنت تھی''( ۱ )

حضرت علی :(اعقلکم اطوعکم )( ۲ )

''سب سے بڑا عاقل وہ ہے جو سب سے زیادہ اطاعت گذار ہو''

امام جعفر صادق :

(العاقل من کان ذلولاً عند اجابة الحق )( ۳ )

''عاقل وہ ہے جو دعوت حق کو لبیک کہتے وقت اپنے کو سب سے زیادہ ذلیل سمجھے''

۳۔خواہشات کے مقابلہ کے لئے صبروتحمل(خواہشات کا دفاع)

یہ وہ تیسری فضیلت ہے جس سے خداوند عالم نے انسانی عقل کو نوازا ہے ۔اور یہ عقل کی ایک بنیادی اور دشوار گذار نیزاہم ذمہ داری ہے جیسا کہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ اسکی یہ ذمہ داری اطاعت الٰہی کا ہی ایک دوسرا رخ تصور کی جاتی ہے بلکہ در حقیقت(واجبات پر عمل اور محرمات سے پرہیز)ہی اطاعت خدا کے مصداق ہیں اور ان کے درمیان صرف اتنا فرق ہے کہ پہلی صورت میں واجبات پر عمل کرکے اسکی اطاعت کی جاتی ہے اور دوسری صورت میں اسکی حرام کردہ چیزوں سے پر ہیز کرکے خواہشات سے اپنے نفس کو روک کر اوران پر صبرکر کے اسکی فرمانبرداری کیجاتی ہے اس بنا پر عقل کی یہ ذمہ داری اور ڈیوٹی ہے کہ وہ خواہشات نفس کواپنے قابو میں رکھے اورانھیں اس طرح اپنے ماتحت رکھے کہ وہ کبھی اپنا سر نہ اٹھا سکیں۔

____________________

(۱)بحارالانوارج۱ص۱۱۶۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۷۹۔

(۳)بحارالانوار ج۱ص۱۳۰۔

۸۴

خواہشات نفس کوکنڑول کرنے کے بارے میں عقل کی اس ڈیوٹی کے سلسلہ میں بیحد تاکید کی گئی ہے۔نمونہ کے طور پر حضرت علی کے مندرجہ ذیل اقوال حاضر خدمت ہیں:

٭(العقل حسام قاطع )( ۱ )

''عقل (خواہشات کو)کاٹ دینے والی تیز شمشیر ہے''

٭ (قاتل هواک بعقلک )( ۲ )

''اپنی عقل کے ذریعہ اپنی خواہشات سے جنگ کرو''

٭ (للنفوس خواطرللهویٰ،والعقول تزجر وتنهیٰ )( ۳ )

''نفس کے اندر ہویٰ وہوس کی بنا پر مختلف حالات پیدا ہوتے رہتے ہیں اور عقل ان سے منع کرتی ہے''

٭ (للقلوب خواطر سوء والعقول تزجرمنها )( ۴ )

''دلوں پر برے خیالات کا گذر ہوتا ہے تو عقل ان سے روکتی ہے''

٭ (العاقل من غلب هواه،ولم یبع آخرته بدنیاه )( ۵ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی خواہش کا مالک ہو اور اپنی آخرت کو اپنی دنیا کے عوض فروخت نہ کرے''

٭ (العاقل من هجرشهوته،وباع دنیاه بآخرته )( ۶ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی شہوت سے بالکل دور ہوجائے اور اپنی دنیا کو اپنی آخرت کے عوض

____________________

(۱)نہج البلاغہ ۔

(۲)گذشتہ حوالہ۔

(۳)تحف العقول ص۹۶۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۱۲۱۔

(۵)غررالحکم ج۱ ص ۰۴ ۱ ۔

(۶)غررالحکم ج۱ص۸۶۔

۸۵

فروخت کرڈالے''

٭ (العاقل عدولذ ته والجاهل عبد شهوته )( ۱ )

''عاقل اپنی لذتوں کا دشمن ہوتا ہے اور جاہل اپنی شہوت کا غلام ہوتا ہے''

٭ (العاقل من عصیٰ هواه فی طاعة ربه )( ۲ )

''عاقل وہ ہے جو اطاعت الٰہی کے لئے اپنی خواہش نفس (ہوس)کی مخالفت کرے''

٭ (العاقل من غلب نوازع أهویته )( ۳ )

''عاقل وہ ہے جو اپنے خواہشات کی لغزشوں پر غلبہ رکھے''

٭ (العاقل من أمات شهوته،والقوی من قمع لذته )( ۴ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی شہوت کو مردہ بنادے اور قوی وہ ہے جو اپنی لذتوں کا قلع قمع کردے''

لہٰذا عقل کے تین مرحلے ہیں:

۱۔معرفت خدا

۲۔واجبات میں اسکی اطاعت

۳۔جن خواہشات نفس اور محرمات سے ﷲ تعالی نے منع کیا ہے ان سے پرہیز کرنا۔

اس باب (بحث)میں ہماری منظور نظر عقل کا یہی تیسراکردارہے یعنی اس میں ہم خواہشات کے مقابلہ کا طریقہ ان پر قابو حاصل کرنے نیز انھیں کنٹرول کرنے کے طریقے بیان کرینگے ۔لہٰذا اب آپ نفس کے اندر عقل اور خواہشات کے درمیان موجود خلفشار اور کشمکش کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص۲۸۔

(۲)غررالحکم ج۲ص۸۷۔

(۳)غررالحکم ج۲ص۱۲۰۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۵۸۔

۸۶

عقل اور خواہشات کی کشمکش اور انسان کی آخری منزل کی نشاندہی

عقل اور خواہشات کے درمیان جو جنگ بھڑکتی ہے اس سے انسان کے آخری انجام کی نشاندہی ہوجاتی ہے کہ وہ سعادت مند ہونے والا ہے یا بد بخت ؟

یعنی نفس کی اندرونی جنگ دنیاکے تمام لوگوں کو دو الگ الگ حصوں میں تقسیم کردیتی ہے :

۱۔متقی

۲۔فاسق وفاجر

اس طرح بشری عادات و کردار کی بھی دوقسمیں ہیں:

۱۔تقویٰ وپرہیزگاری(نیک کردار)

۲۔فسق وفجور ( بد کردار)

تقویٰ یعنی خواہشات کے اوپر عقل کی حکومت اورفسق وفجور اور بد کرداری یعنی عقل کے اوپر خواہشات کا اندھا راج ،لہٰذا اسی دوراہے سے ہر انسان کی سعادت یا بدبختی کے راستے شمال و جنوب کے راستوں کی طرح ایک دوسرے سے بالکل جدا ہوجاتے ہیںاور اصحاب یمین (نیک افراد) اور اصحاب شمال (یعنی برے لوگوں)کے درمیان یہ جدائی بالکل حقیقی اور جوہری جدائی ہے جس میں کسی طرح کا اتصال ممکن نہیں ہے۔اور یہ جدائی اسی دو راہے سے پیدا ہوتی ہے کیونکہ کچھ لوگ اپنی خواہشات پر اپنی عقل کو حاکم رکھتے ہیں لہٰذا وہ متقی،صالح اور نیک کردار بن جاتے ہیں اور کچھ اپنی عقل کی باگ ڈوراپنی خواہشات کے حوالہ کردیتے ہیں لہٰذا وہ فاسق وفاجر بن جاتے ہیں اس طرح اہل دنیا دوحصوں میں بٹے ہوئے ہیں کچھ کا راستہ خدا تک پہنچتا ہے اور کچھ جہنم کی آگ کی تہوں میں پہونچ جاتے ہیں۔

۸۷

امیر المومنین نے اس بارے میں ارشاد فرمایا ہے:

(من غلب عقله هواه افلح،ومن غلب هواه عقله افتضح )( ۱ )

''جس کی عقل اسکی خواہشات پر غالب ہے وہ کامیاب وکامران ہے اور جسکی عقل کے اوپر اسکے خواہشات غلبہ پیدا کرلیں وہ رسواو ذلیل ہوگیا''

آپ نے ہی یہ ارشاد فرمایا ہے:

(العقل صاحب جیش الرحمٰن،والهویٰ قائد جیش الشیطان والنفس متجاذبة بینهما،فأیهمایغلب کانت فی حیّزه )( ۲ )

''عقل لشکر رحمن کی سپہ سالارہے اور خواہشات شیطان کے لشکر کی سردار ہیں اور نفس ان دونوں کے درمیان کشمکش اور کھنچائو کا شکاررہتا ہے چنانچہ ان میں جو غالب آجاتا ہے نفس اسکے ماتحت رہتا ہے''

اس طرح نفس کے اندر یہ جنگ جاری رہتی ہے اور نفس ان دونوں کے درمیان معلق رہتا ہے جب انمیں سے کوئی ایک اس جنگ کو جیت لیتا ہے تو انسان کا نفس بھی اسکی حکومت کے ماتحت چلاجاتا ہے اب چاہے عقل کامیاب ہوجائے یا خواہشات۔

حضرت علی :

(العقل والشهوة ضدان، مؤید العقل العلم،مزین الشهوة الهویٰ،والنفس متنازعة بینهما،فأیهما قهرکانت فی جانبه )( ۳ )

''عقل اور شہوت ایک دوسرے کی ضد ہیں عقل کا مددگار علم ہے اور شہوت کو زینت بخشنے والی چیز

____________________

(۱)غررالحکم ج۲ص۱۸۷۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۱۳۔

(۳)گذشتہ حوالہ ۔

۸۸

ہوس اور خواہشات ہیں اور نفس ان دونوں کے درمیان متذبذب رہتا ہے چنانچہ انمیں سے جوغالبآجاتا ہے نفس بھی اسی کی طرف ہوجاتا ہے''

یعنی نفس کے بارے میں عقل اور خواہشات کے درمیان ہمیشہ جھگڑا رہتا ہے ۔چنانچہ انمیں سے جوغالب آجاتا ہے انسان کا نفس بھی اسی کا ساتھ دیتا ہے۔

ضعف عقل اورقوت ہوس

شہوت(خواہشات)اور عقل کی وہ بنیادی لڑائی جسکے بعد انسان کی آخری منزل (سعادت وشقاوت) معین ہوتی ہے اس میں خواہشات کا پلڑاعقل کے مقابلہ میں کافی بھاری رہتا ہے جسکی وجہ یہ ہے کہ عقل فہم وادراک کا ایک آلہ ہے جبکہ خواہشات جسم کے اندر انسان کو متحرک بنانے والی ایک مضبوط طاقت ہے۔

اور یہ طے شدہ بات ہے کہ عقل ہرقدم سوچ سمجھ کر اٹھاتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی اسکو نفس کی قوت محرکہ نہیں کہاجاتا ہے۔

جبکہ خواہشات کے اندر انسان کو کسی کام پر اکسانے بلکہ بھڑکانے کے لئے اعلیٰ درجہ کی قدرت وطاقت وافرمقدار میں پائی جاتی ہے۔

حضرت علی نے فرمایا:

(کم من عقل اسیرعند هویٰ امیر )( ۱ )

''کتنی عقلیں خواہشات کے آمرانہ پنجوںمیں گرفتار ہیں''

خواہشات انسان کو لالچ اور دھوکہ کے ذریعہ پستیوں کی طرف لیجاتی ہیں اور انسان بھی ان کے ساتھ پھسلتا چلا جاتا ہے ۔جبکہ عقل انسان کو ان چیزوںکی طرف دعوت دیتی ہے جن سے اسے نفرت ہے اور وہ انھیں پسند نہیں کرتا ہے۔

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت۲۱۱

۸۹

امیر المومنین فرماتے ہیں:

(اکره نفسک علی الفضائل،فان الرذائل انت مطبوع علیها )( ۱ )

''نیک کام کرنے کے لئے اپنے نفس کے اوپر زور ڈالو،کیونکہ برائیوں کی طرف تو تم خود بخودجاتے ہو''

کیونکہ خواہشات کے مطابق چلتے وقت راستہ بالکل مزاج کے مطابق گویاڈھلان دار ہوتا ہے لہٰذاوہ اسکے اوپر بآسانی پستی کی طرف اتر تا چلاجاتا ہے لیکن کمالات اور اچھائیوں میں کیونکہ انسان کا رخ بلند یو ںکی طرف ہوتا ہے لہٰذا اس صورت میںہر ایک کو زحمت اور مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عقل اور شہوت کے درمیان جو بھی جنگ چھڑتی ہے اس میں شہوتیں اپنے تمام لائو لشکر اور بھر پور قدرت وطاقت اور اثرات کے ساتھ میدان میں اترتی ہیں اوراسکے سامنے عقل کمزور پڑجاتی ہے۔

اور اکثر اوقات جب عقل اور خواہشات کے درمیان مقابلہ کی نوبت آتی ہے تو عقل کو ہتھیار ڈالنا پڑتے ہیں کیونکہ وہ اسکے اوپر اس طرح حاوی ہوجاتی ہیں کہ اسکو میدان چھوڑنے پر مجبور کردیتی ہیں اور اسکا پورا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیکر اسے بالکل لاچار بنادیتی ہیں۔

____________________

(۱)مستدرک وسائل الشیعہ ج ۲ ص۳۱۰۔

۹۰

عقل کے لشکر

پروردگار عالم نے انسان کے اندر ایک مجموعہ کے تحت کچھ ایسی قوتیں ، اسباب اور ذرائع جمع کردئے ہیں جو مشکل مرحلوں میں عقل کی امداد اور پشت پناہی کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور نفس کے اندر یہ خیروبرکت کا مجموعہ انسان کی فطرت ،ضمیر اورنیک جذبات (عواطف)کے عین مطابق ہے اور اس مجموعہ میں خواہشات کے مقابلہ میں انسان کو تحریک کرنے کی تمام صلاحیتیں پائی جاتی ہیں

اور یہ خواہشات اور ہوس کو روکنے اور ان پر قابو پانے اور خاص طور سے ہوی وہوس کو کچلنے کے لئے عقل کی معاون ثابت ہوتی ہیں۔

کیونکہ(جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیںکہ) عقل تو فہم وادراک اور علم ومعرفت کا ایک آلہ ہے۔ جو انسان کو چیزوں کی صحیح تشخیص اور افہام وتفہیم کی قوت عطا کرتا ہے اور تنہااسکے اندر خواہشات کے سیلاب کو روکنے کی صلاحیت نہیں پائی جاتی ہے۔لہٰذا ایسے مواقع پر عقل خواہشات کو کنٹرول کرنے اور ان پر قابو پانے کے لئے ان اسباب اور ذرائع کا سہارا لیتی ہے جوخداوند عالم نے انسان کے نفس کے اندر ودیعت کئے ہیںاور اس طرح عقل کیلئے خواہشات کا مقابلہ اورانکا دفاع کرنے کی قوت پیدا ہوجاتی ہے لہٰذاان اسباب کے پورے مجموعہ کو اسلامی اخلاقیات اور تہذیب و تمدن کی زبان میں عقل کے لشکروں کا نام دیا گیا ہے۔جو ہر اعتبار سے ایک اسم بامسمّیٰ ہے۔

نمونہ کے طور پر اسکی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

کبھی کبھی انسان مال و دولت کی محبت کے جذبہ کے دبائو میں آکر غلط اور نا جا ئز راستوں سے دولت اکٹھا کرنے لگتا ہے ۔کیونکہ ہر انسان کے اندر کسی نہ کسی حد تک مال و دولت کی محبت پائی جاتی ہے مگر بسا اوقات وہ اس میں افراط سے کام لیتا ہے ۔ایسے مواقع پر انسانی عقل ہر نفس کے اندر موجود ''عزت نفس ''کے ذخیرہ سے امداد حا صل کرتی ہے چنا نچہ جہاں تو ہین اور ذلت کا اندیشہ ہو تا ہے عزت نفس اسے وہاں سے دولت حاصل کرنے سے روک دیتی ہے اگر چہ اس میں کو ئی شک و شبہ نہیں ہے کہ جس جگہ بھی تو ہین اور ذلت کا خطرہ ہو تا ہے عقل اسکو اس سے اچھی طرح آگاہ کر دیتی ہے لیکن پھر بھی ایسے مو اقع پر مال و دو لت سمیٹنے سے روکنے کے لئے عقل کی رہنما ئی تنہا کا فی نہیں ہے بلکہ اسے عزت نفس کا تعا ون درکارہوتاہے جسکو حاصل کرکے وہ حب مال کی ہوس اور جذبہ کا مقابلہ کرتی ہے ۔

۹۱

۲۔جنسی خو ا ہشات انسان کے اندر سب سے زیادہ قوی خو ا ہشات ہو تی ہیں اوران کے دبائو کے بعد انسان اپنی جنسی جذبات کی تسلی کے لئے طرح طرح کے غلط اور حرام راستوں پردوڑتا چلا جاتا ہے اور اس میں بھی کو ئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ ایسے اکثر حالات میں عقل جنسی بے راہ روی کے غلط مقامات کا بخوبی مقابلہ نہیں کر پاتی اور اسے صحیح الفطرت انسان کے نفس کے اندر مو جود ایک اور فطری طاقت یعنی عفت نفس (پاک دامنی )کی مدد حا صل کرنا پڑتی ہے ۔چنانچہ جب انسان کے سامنے اس کی عفت اور پاکدا منی کا سوال پیدا ہو جاتا ہے تو پھر وہ اس بری حرکت سے رک جاتا ہے ۔

۳۔کبھی کبھی انسان کے اندرسربلندی ،انانیت اور غرور وتکبر کا اتنا مادہ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے سامنے دوسروں کو بالکل ذلیل اور پست سمجھنے لگتا ہے اور یہ ایک ایسی صفت ہے جس کو عقل ہر اعتبار سے برا سمجھتی ہے اسکے باوجود جب تک عقل، نفس کے اندر خداوند عالم کی ودیعت کردہ قوت تواضع سے امداد حاصل نہ کرے وہ اس غرور و تکبر کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہے۔

۴۔کبھی کبھی انسان اپنے نفس کے اندر موجود ایک طاقت یعنی غیظ وغضب اور غصہ کا شکار ہوجاتا ہے جسکے نتیجہ میں وہ دوسروں کی توہین اور بے عزتی کرنے لگتا ہے۔چنانچہ یہ کام عقل کی نگاہ با بصیرت میں کتنا ہی قبیح اور براکیوں نہ ہواسکے باوجود عقل صرف اورصرف اپنے بل بوتے پر انسان کے ہوش وحواس چھین لینے والی اس طاقت کا مقابلہ کرنے سے معذور ہے لہٰذا ایسے مواقع پر عقل، عام طور سے انسان کے اندر موجود ،رحم وکرم کی فطری قوت وطاقت کو سہارا بناتی ہے۔کیونکہ اس صفت (رحم وکرم)میں غصہ کے برابر یا بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی قوت اور صلاحیت پائی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ انسان غصہ کی بنا پر کوئی جرم کرنا چاہتا ہے تو رحم وکرم کی مضبوط زنجیر یں اسکے ہاتھوں کو جکڑلیتی ہیں۔

۵۔اسی طرح انسان اپنی کسی اور خواہش کے اشارہ پر چلتا ہواخداوند عالم کی معصیت اور گناہ کے راستوں پر چلنے لگتا ہے تب عقل اسکو''خوف الٰہی''کے سہارے اس گناہ سے بچالیتی ہے۔

اس قسم کی اور بے شمار مثالیں موجود ہیں جن میں سے مذکورہ مثالیں ہم نے صرف وضاحت کے لئے بطور نمونہ پیش کردی ہیں ان کے علاوہ کسی وضاحت کے بغیر کچھ اورمثالیں ملاحظہ فرمالیں۔

جیسے نمک حرامی کے مقابلہ میں شکر نعمت، بغض و حسد کے مقابلہ کے لئے پیار ومحبت اورمایوسی کے مقابلہ میں رجاء وامید کی مدد حاصل کرتی ہے۔

۹۲

لشکر عقل سے متعلق روایات

معصومین کی احادیث میں نفس کے اندر موجود پچھتّر صفات کو عقل کا لشکر کہا گیا ہے جن کا کام یہ ہے کہ یہ ان دوسری پچھتّر صفات کا مقابلہ کرتی ہیں جنہیں خواہشات اور ہوس یاحدیث کے مطابق جہل کا لشکر کہا جاتا ہے ۔

چنانچہ نفس کے اندر یہ دونوں متضاد صفتیں درحقیقت نفس کے دو اندرونی جنگی محاذوں کی صورت اختیار کرلیتے ہیں جن میں ایک محاذ پر عقل کی فوجوںاور دوسری جانب جہل یا خواہشات کے لشکروں کے درمیان مسلسل جنگ کے شعلے بھرکتے رہتے ہیں۔

علامہ مجلسی (رح)نے اپنی کتاب بحارالانوار کی پہلی جلدمیں اس سے متعلق امام جعفرصادق اور امام موسی کاظم سے بعض روایات نقل کی ہیںجن کو ہم ان کی سند کے ساتھ ذکر کررہے ہیں تاکہ آئندہ ان کی وضاحت میں آسانی رہے۔

پہلی روایت

سعد اور حمیری دونوں نے برقی سے انھوں نے علی بن حدید سے انھوں نے سماعہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ :میں امام جعفر صادق کی خدمت موجود تھا اور اس وقت آپ کی خدمت میں کچھ آپ کے چاہنے والے بھی حاضر تھے عقل اور جہل کا تذکرہ درمیان میں آگیا تو امام جعفر صادق نے ارشاد فرمایاکہ: عقل اور اسکے لشکر کواور جہل اور اسکے لشکر کو پہچان لو تو ہدایت پاجائوگے۔ سماعہ کہتے ہیں کہ:میںنے عرض کی میں آپ پر قربان، جتنا آپ نے ہمیں سکھا دیا ہے ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں تو امام جعفر صادق نے فرمایا کہ خداوند عالم نے اپنی روحانی مخلوقات میں اپنے نور کے عرش کے دائیں حصہ سے جس مخلوق کو سب سے پہلے پیدا کیا ہے وہ عقل ہے۔پھر اس سے فرمایا سامنے آ:تو وہ سامنے حاضر ہوگئی پھر ارشاد فرمایا:واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی ،تو ارشاد الٰہی ہوا، میں نے تجھے عظیم خلقت سے نوازا ہے اور تجھے اپنی تمام مخلوقات پر شرف بخشا ہے پھر آپ نے فرمایا:کہ پھر خداوند عالم نے جہل کو ظلمتوں کے کھار ی سمندرسے پیدا کیا اور اس سے فرمایا کہ پلٹ جا تو وہ پلٹ گیا پھر فرمایا : سامنے آ:تو اس نے اطاعت نہیں کی تو خداوند عالم نے اس سے فرمایا : تو نے غرور وتکبر سے کام لیا ہے؟پھر(خدانے) اس پر لعنت فرمائی ۔

۹۳

اسکے بعد عقل کے پچھتّر لشکر قرار دئے جب جہل نے عقل کے لئے یہ عزت و تکریم اور عطا دیکھی تو اسکے اندر عقل کی دشمنی پیدا ہوگئی تو اس نے عرض کی اے میرے پروردگار، یہ بھی میری طرح ایک مخلوق ہے جسے تو نے پیدا کرکے عزت اور طاقت سے نوازا ہے۔اور میں اسکی ضد ہوں جبکہ میرے پاس کوئی طاقت نہیں ہے لہٰذا جیسی فوج تو نے اسے دی ہے مجھے بھی ایسی ہی زبردست فوج عنایت فرما۔تو ارشاد الٰہی ہوا :بالکل ( عطاکرونگا)لیکن اگر اسکے بعد تونے میری نا فرمانی کی تومیں تجھے تیرے لشکر سمیت اپنی رحمت سے باہر نکال دونگا اس نے کہا مجھے منظور ہے تو خداوند عالم نے اسے بھی پچھتّر لشکر عنایت فرما ئے ۔چنانچہ عقل اورجہل کو جو الگ الگ پچھتّر لشکر عنایت کئے گئے انکی تفصیل یہ ہے:

خیر، عقل کا وزیرہے اور اسکی ضد شر کو قرار دیا جو جہل کا وزیر ہے ۔

ایمان کی ضد کفر

تصدیق کی ضد انکار

رجاء (امید)کی ضد مایوسی

عدل کی ضد ظلم وجور

رضا(خشنودی )کی ضد ناراضگی

شکرکی ضد کفران(ناشکری)

لالچ کی ضد یاس

توکل کی ضدحرص

رافت کی ضدغلظت؟

رحمت کی ضد غضب

علم کی ضد جہل

فہم کی ضد حماقت

عفت کی ضد بے غیرتی

زہد کی ضد رغبت(دلچسپی)

قرابت کی ضدجدائی

خوف کی ضد جرائت

۹۴

تواضع کی ضد تکبر

محبت کی ضدتسرع (جلد بازی)؟

علم کی ضد سفاہت

خاموشی کی ضد بکواس

سر سپردگی کی ضد استکبار

تسلیم(کسی کے سامنے تسلیم ہونا)کی ضدسرکشی

عفوکی ضد کینہ

نرمی کی ضد سختی

یقین کی ضد شک

صبر کی ضدجزع فزع (بے صبری کا اظہار کرنا)

خطا پر چشم پوشی (صفح)کی ضد انتقام

غنیٰ کی ضد فقر

تفکر کی ضد سہو

حافظہ کی ضد نسیان

عطوفت کی ضد قطع(تعلق)

قناعت کی ضد حرص

مواسات کی ضد محروم کرنا (کسی کا حق روکنا)

مودت کی ضد عداوت

وفا کی ضد غداری

اطاعت کی ضد معصیت

خضوع کی ضد اظہارسر بلندی

سلامتی کا ضد بلائ

حب کی ضد بغض

۹۵

صدق کی ضد کذب

حق کی ضد باطل

امانت کی ضد خیانت

اخلاص کی ضد ملاوٹ

ذکاوت کی ضد کند ذہنی

فہم کی ضد ناسمجھی

معرفت کی ضد انکار

مدارات کی ضد رسوا کرنا

سلامت کی ضد غیب

کتمان کی ضد افشا(ظاہر کر دینا)

نماز کی ضد اسے ضائع کرنا

روزہ کی ضد افطار

جہاد کی ضد بزدلی(دشمن سے پیچھے ہٹ جانا)

حج کی ضد عہد شکنی

راز داری کی ضدفاش کرنا

والدین کے ساتھ نیکی کی ضد عاق والدین

حقیقت کی ضد ریا

معروف کی ضد منکر

ستر(پوشش)کی ضد برہنگی

تقیہ کی ضد ظاہر کرنا

انصاف کی ضدحمیت

ہوشیاری کی ضد بغاوت

صفائی کی ضدگندگی

۹۶

حیاء کی ضد بے حیائی

قصد (استقامت )کی ضد عدوان

راحت کی ضدتعب(تھکن)

آسانی کی ضد مشکل

برکت کی ضدبے برکتی

عافیت کی ضد بلا

اعتدال کی ضد کثرت طلبی

حکمت کی ضد خواہش نفس

وقار کی ضد ہلکا پن

سعادت کی ضد شقاوت

توبہ کی ضد اصرار (برگناہ)

استغفار کی ضداغترار(دھوکہ میں مبتلارہنا)

احساس ذمہ داری کی ضد لاپرواہی

دعا کی ضدیعنی غرور وتکبر کا اظہار

نشاط کی ضد سستی

فرح(خوشی)کی ضد حزن

الفت کی ضد فرقت(جدائی)

سخاوت کی ضد بخل

پس عقل کے لشکروں کی یہ ساری صفتیں صرف نبی یا نبی کے وصی یا اسی بندئہ مومن میں ہی جمع ہوسکتی ہیں جس کے قلب کا اللہ نے ایمان کے لئے امتحان لے لیا ہو!البتہ ہمارے بقیہ چاہنے والوں میں کوئی ایسا نہیں ہے جسمیںان لشکروں کی بعض صفتیںنہ پائی جائیں یہاں تک کہ جب وہ انہیں اپنے اندر کامل کرلے اور جہل کے لشکر سے چھٹکارا پا لے تو وہ بھی انبیاء اوراوصیاء کے اعلیٰ درجہ میں پہونچ جائے گا ۔بلا شبہ کامیابی عقل اور اسکے لشکر کی معرفت اور جہل نیز اس کے لشکر سے دوری کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے ۔

۹۷

خداوند عالم ہمیں اور خصوصیت سے تم لوگوں کو اپنی اطاعت اور رضا کی توفیق عطا فرمائے ۔( ۱ )

دوسری روایت

ہشام بن حکم نے یہ روایت امام موسیٰ کاظم سے نقل کی ہے اور شیخ کلینی (رہ)نے اسے اصول کافی میں تحریر کیا ہے اور اسی سے علامہ مجلسی (رہ)نے اپنی کتاب بحارالانوار میں نقل کیاہے۔( ۲ )

یہ روایت چونکہ کچھ طویل ہے لہٰذا ہم صرف بقدر ضرورت اسکااقتباس پیش کر رہے ہیں:

امام موسی کاظم نے فرمایا :اے ہشام عقل اور اسکے لشکروں کو اور جہل اور اسکے لشکروں کو پہچان لو اور ہدایت یافتہ لوگوں میں سے ہوجائو:ہشام نے عرض کی ہمیں تو صرف وہی معلوم ہے جوآپ نے سکھادیا ہے تو آپ نے فرمایا :اے ہشام بیشک خداوند عالم نے عقل کو پیدا کیا ہے اور ﷲ کی سب سے پہلی مخلوق ہے۔۔۔پھر عقل کے لئے پچھتّر لشکر قرار دئے چنانچہ عقل کو جو پچھتّر لشکر دئے گئے وہ یہ ہیں:

خیر ،عقل کا وزیر اور شر، جہل کا وزیر ہے

ایمان، کفر

تصدیق، تکذیب

اخلاص ،نفاق

رجا ئ،ناامیدی

عدل،جور

خوشی ،ناراضگی

____________________

(۱)بحار الانوار ج۱ ص۱۰۹۔۱۱۱ کتاب العقل والجہل۔

(۲)اصول کافی جلد۱ص۱۳۔۲۳،بحارالانوار جلد۱ص۱۵۹۔

۹۸

شکر، کفران(ناشکری)

طمع رحمت ،رحمت سے مایوسی

توکل،حرص

نرم دلی،قساوت قلب

علم، جہل

عفت ،بے حیائی

زہد،دنیا پرستی

خوش اخلاقی،بد اخلاقی

خوف ،جرائت

تواضع ،کبر

صبر،جلدبازی

ہوشیاری ،بے وقوفی

خاموشی،حذر

سرسپردگی، استکبار

تسلیم،اظہار سربلندی

عفو، کینہ

رحمت، سختی

یقین ،شک

صبر،بے صبری (جزع)

عفو،انتقام

استغنا(مالداری) ، فقر

تفکر،سہو

حفظ،نسیان

۹۹

صلہ رحم، قطع تعلق

قناعت ،بے انتہالالچ

مواسات ،نہ دینا (منع)

مودت ،عداوت

وفاداری ،غداری

اطاعت، معصیت

خضوع ،اظہار سربلندی

صحت ،(سلامتی )بلائ

فہم ،غبی ہونا(کم سمجھی)

معرفت، انکار

مدارات،رسواکرنا

سلامة الغیب ،حیلہ وفریب

کتمان (حفظ راز)،افشائ

والدین کے ساتھ حسن سلوک ،عاق ہونا

حقیقت،ریا

معروف ،منکر

تقیہ،ظاہر کرنا

انصاف ،ظلم

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438