واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا9%

واقعۂ کربلا مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 438

واقعۂ کربلا
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 438 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 192904 / ڈاؤنلوڈ: 5407
سائز سائز سائز
واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

میں آنا ، آپ کا اسیر ہو نا، قصر کے دروازہ پر پہنچ کر پانی طلب کرنااورآپ کوپانی پلائے جانے کاواقعہ اسی شخص کے حوالے سے مرقوم ہے ۔(ج٥،ص٣٧٥)

'' طبری ''نے اس شخص کو'' قدامہ بن سعیدبن زائدہ بن قدامہ ثقفی'' کے نام سے یاد کیاہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ زائدہ بن قدامہ ، قدامہ بن سعید کے دادا ہیں اور وہ کوفہ کی پر ماجراداستان میں موجود تھا اور اس کا پوتا'' قدامہ بن سعید ''وہ ہے جسے جناب شیخ طوسی نے اما م صادق علیہ السلام کے اصحاب میں ذکر کیا ہے۔ (طبری ،ص٢٧٥،ط نجف) لہٰذاہمارے نزدیک یہی صحیح ہے کہ'' قدامہ بن سعید، زائدہ بن قدامہ ثقفی'' سے روایت نقل کرتے ہیں ۔

٥٨ ہجری میں عام الجماعة(١) کے بعد معاویہ بن ابی سفیان کی طرف سے عبدالرحمن بن ام حکم ثقفی کے دور حکومت میں قدامہ بن سعیدکا دادا زائدہ بن قدامہ کو فہ کی پو لیس کا سربراہ تھا۔ (ج٥ ،ص٣١٠)جب ابن زیاد نے جناب مسلم علیہ السلام کے ارد گرد سے لوگوں کو جدا کرنے کے لئے پرچم امان بلند کیا تو'' عمر و بن حریث ''کے ہمراہ یہ شخص اس پرچم امن کا پرچمدار تھا۔ اسی شخص نے اپنے چچا زاد بھائی مختار کی سفار ش کی تھی، یہی وہ شخص ہے جو کوفہ میں ابن زیاد کے قید خانے سے مختار کا خط لیکر مختار کے بہنوئی عبداللہ بن عمر کے پاس لے گیا تھا۔ تاکہ وہ یزید کے پاس جا کرمختار کی رہائی کی سفارش کرے۔ صفیہ بنت ابی عبید ثقفی کے شوہر عبداللہ بن عمر ، مختار کے بہنوئی نے جاکر وہاں سفارش کی تو مختار کو ابن زیاد نے آزاد کردیا ، لیکن ابن زیاد نے اس فعل پر ''زائد بن قدامہ'' کا پیچھاکیا تو وہ بھاگ نکلا یہاں تک کہ ان کے لئے امن کی ضمانت حاصل کی گئی۔ (ج٥،ص٥٧١)جب عبداللہ بن زبیر کی طرف سے مقرر والی کوفہ عبداللہ بن مطیع کی بیعت ہونے لگی تو بیعت کرنے والوں کے ہمراہ'' زائد بن قدامہ ''نے بھی ابن مطیع کی بیعت کی ابن مطیع نے بیعت کے فوراً بعد ابن ''قدامہ'' کو مختار کی طرف روانہ کیا تاکہ مختار کو بیعت کی دعوت دیں ،لیکن ابن قدامہ نے جب مختار کو اس کی خبر دی تو مختار نے خوشی کا اظہار نہیں کیا۔ (ج٦،ص١١)

____________________

١۔ جماعت کا سال وہ سال ہے جس کا نام معاویہ نے جماعت کا سال رکھا تھا جسکے بعد اہلسنت خود کو اہلسنت والجماعت کہنے لگے ۔

۶۱

کوفہ سے مختار کے قیام کا آغاز اسی شخص کے باغ سے ہواتھا جو محلہ'' سبخہ'' میں تھا۔ (ج٦ ،ص٢٢) ابن زبیر کے مقرر کردہ والیٔ کوفہ عمر بن عبدالرحمن مخزومی کو ہٹانے کے لئے مختار نے اسی شخص کو روانہ کیا تھا اور ابن قدامہ نے اسے دھمکی اورمال کی لالچ دیکرہٹادیا ۔(ج٦، ص٧٢) کچھ دنوں کے بعد یہ شخص عبدالملک بن مروان سے ملحق ہوگیااور اس کے ہمراہ مصعب بن زبیر سے جنگ شروع کی یہاں تک کہ ''دیر جاثلیق ''میں مختار کے خون کا انتقام لینے کے لئے اس نے مصعب کے خون سے اپنی شمشیر کو سیراب کر دیا ۔(ج٦،ص١٥٩)

بالآخر حجاج نے ابن قدامہ کوایک ہزار فوج کے ہمراہ مقام'' رودباد ''میں شبیب خارجی سے مقابلہ کرنے کے لئے روانہ کیا۔وہاں پر اس نے خوب جنگ کی یہاں تک کہ وہ ماراگیا؛ جبکہ اس کے ساتھی اس کے ارد گرد تھے۔، یہ واقعہ ٧٦ہجری کے آس پاس کا ہے۔ (ج٦ ،ص٢٤٦)اس سے یہ صاف واضح ہے کہ'' قدامہ بن سعید بن زائد ہ'' جن سے ابومخنف نے روایت نقل کی ہے کوفہ میں جناب مسلم کے قیام کے عینی شاہد نہیں ہیں ، پس صحیح یہی ہے کہ'' قدامہ بن سعید ''نے ''زائدہ بن قدامہ'' سے روایت نقل کی ہے کیونکہ زائدہ (جیسا کہ گذشتہ سطروں میں ملاحظہ کیا) عمروبن حریث کے ہمراہ تھا لہٰذا حضرت مسلم کی طرف ابن زیادکی جانب سے محمدبن اشعث کو بھیجے جانے کی خبر اسی شخص نے اپنے پوتے قدامہ بن سعید سے نقل کی ہے ۔

١٠۔عمارہ بن عقبہ بن ابی معیط اموی:

مسلم بن عقیل کا پانی طلب کرنا اور اس پر انھیں پانی پلائے جانے کی خبر اسی شخص کے پوتے سعید بن مدرک بن عمارہ بن عقبہ نے اس سے نقل کی ہے اور ابو مخنف نے اس سے روایت کی ہے۔ تقریب التہذیب میں لکھا ہے : یہ شخص روایت میں مورد اعتماد ہے جس کی وفات ١١٦ ہجری میں واقع ہوئی ہے۔

١١۔عمر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام مخزومی :

صقعب بن زہیر کے حوالے سے اس شخص نے مکہ سے امام حسین علیہ السلام کے نکلتے وقت کی خبر کو ذکر کیا ہے۔(ج٥، ص ٣٨٢)مختار کے زمانے میں عبداللہ بن زبیر نے اس شخص کو کوفہ کا والی بنایا تو مختار نے مال کی لالچ اور ڈرا دھمکا کر اسے اس عہدہ سے ہٹادیا۔ (ج٦، ص٧١) تہذیب التہذیب میں اس کا تذکرہ موجود ہے ، صاحب کتاب کا بیان ہے کہ ابن حبان نے اسے ثقات میں شمار کیا ہے ، دوسرا بیان یہ ہے کہ صحابہ کی ایک جماعت سے یہ شخص روایت نقل کرتا ہے ۔

۶۲

١٢۔ عبداللہ اور مذری :

عبداللہ بن مسلم اور مذری بن مشمعل یہ دونوں قبیلہ بنی اسد سے تعلق رکھتے ہیں ۔حجر اسود اور باب کعبہ کے پاس امام حسین علیہ السلام کا ابن زبیر سے روبرو ہونا ، فرزدق کی امام سے ملاقات اور'' ثعلبیہ'' کے مقام پر امام علیہ السلام کا جناب مسلم کی شہادت سے باخبر ہونا،انھیں دونوں افراد نے دو واسطوں :(١) ابی جنا ب یح ٰبن ابی حیةالوداعی کلبی سے اور اس نے عدی بن حرملہ اسدی سے نقل کیا ہے۔یہ دونوں افراد وہ ہیں جنہوں نے امام حسین علیہ السلام کی فریاد سنی لیکن آپ کی مدد نہیں کی عبد اللہ بن مسلم اسدی ٧٧ ہجری تک زندہ رہا۔(٢)

١٣۔امام علی بن الحسین بن علی علیہماالسلام :

عبداللہ بن جعفر کا اپنے فرزند عون ومحمد کے ہمراہ خط ، عمرو بن سعید اشدق کا اپنے بھائی یحٰی کے ہمراہ خط اور امام علیہ السلام کا جواب چوتھے امام علیہ السلام سے ایک واسطہ سے مروی ہے اور وہ واسطہ حارث بن کعب والبی ہے ۔(٣)

١٤۔ بکر بن مصعب مزنی :

عبداللہ بن بقطر کی شہادت اور منزل'' زبالہ'' کا واقعہ ایک واسطہ سے اسی شخص سے مروی ہے اور وہ واسطہ ا بو علی انصاری ہے ۔(٤) قابل ذکر بات یہ ہے کہ علماء رجال کی نگاہوں میں ان دونوں کی کوئی شناخت نہیں ہے ۔

١٥۔ فزّاری :

سدّی کے واسطہ سے زہیر بن قین کے امام حسین علیہ السلام کے لشکر سے ملحق ہونے کی خبر اسی شخص سے مروی ہے۔ روایت کا جملہ اس طرح ہے :'' رجل من بنی فزار ''(٥) بنی فزارہ کے ایک شخص نے بیان کیا ہے ۔

١٦۔ طرماح بن عدی :

طرماح بن عدی کی روایت ایک واسطہ سے ''جمیل بن مرثد غنوی '' نے نقل کی ہے کہ طرماح نے امام حسین علیہ السلام سے ملاقات کا شرف حاصل کیا ۔ امام حسین ے انہیں اپنی مدد کے لئے بلایا تو انھوں نے اپنی تنگ دستی اور عیال کے رزق کی فراہمی کا عذر پیش کیا ۔ امام علیہ السلام

____________________

١۔تہذیب التہذیب، ج٧ ، ص٤٧٢ وخلاصہ تذہیب تہذیب الکمال ،ص٢٨٤

٢۔طبری ،ج٦ ، ص٩٥ ٢ --٣۔طبری، ج٥ ،ص٣٨٧،٣٨٨--٤۔ج٥، ص٣٩٨۔ ٣٩٩ --٥۔ج٥،ص٣٩٦

۶۳

نے بھی ان کو نہیں روکا ؛اس طرح طرماح امام علیہ السلام کی نصرت کے شرف سے محروم رہ گئے۔شیخ طوسی نے آپ کا تذکرہ امیر امومنین اور امام حسین علیہما السلام کے اصحاب میں کیا ہے ۔

لیکن مامقانی نے آپ کی توثیق کرتے ہوئے یہ فرمایا ہے :''انه ادرک نصرة الامام علیه السلام وجرح و برء ثم مات بعد ذالک'' (١)

''آپ امام علیہ السلام کی نصرت ومدد سے شرفیاب ہو ئے اور جنگ کے دوران زخمی ہو ئے لیکن بعد میں آپ کا زخم مندمل ہو گیا؛ پھر اس کے بعد آپ نے وفات پائی ہے '' لیکن ما مقانی نے اس سلسلے میں کو ئی ما خذذکر نہیں کیا ہے ۔

١٧۔ عامر بن شراحیل بن عبد الشعبی ہمدانی :

مجالد بن سعید کے حوالے سے انھوں نے قصر بنی مقاتل کی خبر کا تذکرہ کیا ہے ۔(٢) مذکورہ شخص نے ٢١ ہجری میں اس سرائے فانی میں آنکھ کھولی(٣) اس کی ماں ١٦ ہجری کے ''جلولائ''کے اسیروں میں شمار ہو تی ہے۔یہی دونوں باپ بیٹے ہیں جنہوں نے جناب مختار کو سب سے پہلے مثبت جواب دیا اور ان کی حقانیت کی گواہی دی۔(٤) ٦٧ ہجری میں یہ دو نوں باپ بیٹے جناب مختار کے ہمراہ مدائن کے شہر ''ساباط ''کی طرف نکل گئے۔(٥) مختار کے بعد عامر بن شراحیل ، اموی جلا د''حجاج بن یوسف ثقفی ''سے ملحق ہو کر اس کا ہمنشین ہو گیا(٦) لیکن ٨٢ ہجری میں ''عبد الرحمن بن اشعث بن قیس کندی ''کے ہمراہ حجاج کے خلاف قیام کر دیا(٧) اور جب عبد الرحمن نے شکست کھا ئی تو ''ری'' میں حجاج کے والی قتیبہ بن مسلم سے ملحق ہو گئے اور امن کی درخواست کی تو حجاج نے امان دیدیا۔(٨) اسی طر ح ز ندگی گذارتا رہا یہاں تک کہ عمر بن عبدالعزیزکے دور حکومت میں ٩٩ھ سے ١٠١ ھ تک یزید بن عبد الملک بن مروان کی طرف سے اسے کوفہ کے قاضیوں کا سربراہ قرار دیا گیا۔

____________________

١۔ تنقیح المقال ،ج٢، ص١٠٩ یہ بات پہلے گذرچکی ہے کہ یہ وہی معروف مقتل ہے جو ابو مخنف کی طرف منسوب ہے اور یہ وہی روایت ہے جس پر نفس المہموم کے صفحہ ١٩٥پر محدث قمی نے تعلیقہ لگا یا ہے ۔ ٢۔ طبری ج٥، ص٧

٣۔ج٤ص١٤٥ ---٤۔ج٦،ص٦۔٧

٥۔ج٦،ص٣٥

٦۔ج٦،ص٣٢٧

٧۔ج٦،ص٣٥٠

٨۔طبری، ج٦، س ٣٤٤

۶۴

یہی وہ شخص ہے جس نے جناب مسلم اور امام حسین علیہماالسلام کی مدد سے سر پیچی کی اور امام علیہ السلام کا سا تھ نہیں دیا۔ ابو مخنف ان سے بطور مرسل حدیث نقل کر تے ہیں اور''الکنی والا لقاب'' کے مطابق ١٠٤ ھمیں نا گہاں اس کو موت آگئی۔(١)

تا ریخ طبری میں اس شخص سے ١١٤ روایتیں مو جود ہیں ۔ تہذیب التہذیب میں مذکورہ شخص کا تذکر ہ مو جود ہے؛ اس کتاب میں عجلی سے یہ روایت نقل ہوئی ہے کہ شعبی نے ٤٨صحابہ سے حدیثیں سنی ہیں اور اس نے حضر ت علی علیہ السلام کے زمانے کو بھی درک کیا ہے۔ ایک نقل کے مطابق ١١٠ ھمیں وفات ہوئی ۔(٢)

١٨۔ حسان بن فائدبن

بکیرعبسی : نضر بن صالح بن حبیب بن زہیرعبسی کے حوالے سے اس شخص نے پسر سعد کے اس خط کا تذکرہ کیا ہے جو اس نے عبید اللہ بن زیاد کے پاس روانہ کیا تھا اور اس کے بعد ابن زیاد کے جواب کا بھی تذکرہ موجود ہے۔روایت کا جملہ یہ ہے :''اشهد ان کتاب عمربن سعد جاء الی عبیدالله بن زیاد وأ نا عنده فاذا فیه... ''(١) میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ عمر بن سعد کا خط عبید اللہ بن زیاد کے پاس آیااور میں اس وقت وہاں موجود تھا ؛اس خط میں یہ لکھا تھا ...۔

اس شخص نے.عبد اللہ بن زبیر کی طرف سے مقرر کر دہ والیٔ کو فہ عبد اللہ بن مطیع عدوی کے لشکر کے سر براہ راشد بن ایاس کے ہمراہ جناب مختار اور ان کے ساتھیوں کے خلاف جنگ میں شرکت کی تھی؛(٢) جب قصر کوفہ کا محاصرہ کیا گیا تو یہ شخص ابن معیط کے ہمراہ اس میں موجود تھا۔(٣) آخر کارر ٦٤ ھمیں ابن معیط کے ساتھیوں کے ہمراہ مقام'' مضر'' کو فہ کے کوڑے خانہ کے پاس قتل کر دیاگیا ۔

تہذیب التہذیب میں مذکو رہ شخص کا تذکرہ اس طرح ہے : ابن حبان نے ان کو ثقات میں شمار کیا ہے اور سورہ نساء کی آیہ ٥١ میں ''جبت'' کی تفسیر میں بخاری نے شعبہ سے، اس نے ابو اسحاق سبیعی سے،

____________________

١۔الکنی والا لقاب ،ج٢،ص٣٢٨

٢۔ تہذیب التہذیب ،ج٥،ص ٦٥

٣۔ طبری، ج٥، ص٤١١

٤۔ طبری، ج٦، ص٢٦،

٥۔ ج٦، ص٣١

۶۵

اس نے حسان سے اور اس نے عمر بن خطاب سے روایت کی ہے کہ ''جبت'' یعنی سحر اور یہ بھی کہا ہے کہ اس شخص کا شمار کوفیوں میں ہوتا ہے۔(١)

١٩۔ ابوعمار ہ عبسی :

ابوجعفر عبسی کے حوالہ سے اس شخص نے یحےٰی بن حکم کی گفتگو اور دربار یزید کا تذکرہ کیا ہے۔(٢)

٢٠۔قاسم بن بخیت :

شہداء کے سروں کا دمشق لا یاجانا،مروان کے بھائی یحیٰی بن حکم بن عاص کی گفتگو ،زوجہ یزید ہندکی گفتگو اور یزید کا چھڑی سے امام حسین علیہ السلام کے لبوں کے ساتھ بے ادبی کر نے کا تذکرہ اسی شخص نے ابوحمزئہ ثمالی سے اور انھوں نے عبداللہ ثمالی اور انھوں نے قاسم کے ذریعہ کیا ہے۔(٣)

٢١۔'' ابو الکنودعبدالرحمن بن عبید'' :

اس نے ام لقمان بنت عقیل بن ابی طالب کے اشعارکو سلیمان بن ابی راشد کے حوالے سے نقل کیا ہے۔(٤) '' زیاد بن ابیہ'' کی طرف سے یہ شخص کوفہ کا والی تھا۔(٥) یہ مختار کے ساتھیوں میں تھا اور اس نے دعویٰ کیا کہ اسی نے شمر کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ ابو مخنف کے حوالے سے تاریخ طبری میں اس سے ٩ روایتیں مذکور ہیں جیسا کہ'' اعلا م'' میں بھی ملتا ہے ۔

٢٢۔ فاطمہ بنت علی :

طبری کے بیان مطابق یہ خاتو ن جناب امیر کی دختر ہیں ۔ابو مخنف نے حارث بن کعب والبی کے حوالہ سے دربار یزید کا منظر انھیں خاتون سے نقل کیاہے۔الغرض ان لوگوں میں ٢١ افراد وہ ہیں جو یا تو ان مظالم میں شریک تھے یا اس دلسوز واقعہ کے معاصرتھے جنہوں نے روایتیں نقل کی ہیں اور ابو مخنف نے ان لوگوں سے ایک یا دو واسطوں سے روایتیں نقل کی ہیں ۔

____________________

١۔ تہذیب التہذیب، ج٢، ص٢٥١

٢۔ طبری ،ج٥، ص٤٦٠۔ ٤٦١

٣۔ طبری ،ج٥ ، س٤٦٥

٤۔ ج٥، ص ٤٦٦

٥۔ج٥، ٢٤٦

۶۶

پا نچویں فہرست

یہ وہ گروہ ہے جس سے ابو مخنف نے دویا چند واسطوں سے روایتیں نقل کی ہیں ۔ یہ گروہ ٢٩ افراد پر مشتمل ہے ۔

١۔ عبد الملک بن نوفل بن عبداللہ بن مخرمہ:

مدینہ سے نکلتے وقت امام حسین علیہ السلام کے اشعارکو انھوں نے ابو سعد سعیدبن ابی سعید مقبری کے حوالے سے نقل کیا ہے۔(١)

اسکے علاوہ اپنی موت کے وقت معاویہ کا لوگوں سے یزید کی بیعت لینا، معاویہ کے سپاہیوں کے سر برا ہ اور اس کے ا مورد فن کے ذمہ دارضحاک بن قیس فہری کی گفتگواور اپنے باپ معاویہ کی خبر مرگ سن کر یزید کے اشعاراسی شخص نے واسطوں کی تصریح کئے بغیر ذکر کئے ہیں ۔

ابو مخنف کے حوالے سے تاریخ طبری میں اس شخص سے ١٥روایتیں مذکور ہیں جنھیں خود ابو مخنف نے ایک شخص کے واسطے سے نقل کیا ہے ۔ان میں اکثر وبیشترروایتیں مکہ میں ابن زبیر اور مدنیہ میں عبد اللہ بن حنظلہ کے خروج سے متعلق ہیں ۔ ان میں سے ایک روایت وہ اپنے باپ نوفل سے نقل کر تا ہے(٢) تو دوسر ی روایت عبداللہ بن عروہ سے،(٣) اور تیسری روایت معاویہ کے ایک دوست حمید بن حمزہ سے منقول ہے۔(٤)

سات روایتیں بنی امیہ کے ایک چاہنے والے شخص بنام حبیب بن کرّہ سے منقول ہیں یہ مروان بن حکم کا پر چمدار بھی تھا(٥) اور آخری خبر سعید بن عمر وبن سعید بن عاص اشدق کے حوالے سے مروی ہے۔(٦) غالباً عبدالملک نے معاویہ کی وصیت اور اس کے دفن ہو نے کی روایت کو بنی امیہ کے کسی موالی سے نقل کیاہے؛ اگر چہ اس کے نام کی تصریح نہیں کی ہے۔عبد الملک کا باپ نوفل بن مساحق بن مطیع کی جانب سے دو یا پانچ ہزارکی فوج کا کما نڈر ا مقرر تھا ۔خود ابن مطیع کو ابن زبیر نے مقرر کیا تھا۔ ایک

____________________

١۔ طبری، ج٥، ص ٣٤٢

٢۔ج٥، ص ٤٧٤

٣۔ج٥،ص٤٧٨

٤۔ج٥،ص٤٧٨

٥۔ ج٥ ، ص ٤٨٢اور ٥٣٩

٦۔ج٥ ،ص ٥٧٧

۶۷

بار میدان جنگ میں ابراہیم بن مالک اشتر نخعی نے اسے اپنے قبضہ میں لے لیا اور گردن پر تلوار رکھ دی لیکن پھر چھوڑدیا ۔

عسقلانی نے تہذیب التہذیب(١) اور الکا شف(٢) میں مذکور ہ شخص کی روایتوں کو قابل اعتماد بتایا ہے ۔

٢۔ ابو سعید عقیصا :

مسجد الحرام میں احرام کی حالت میں امام حسین علیہ السلام کا عبداللہ بن زبیر سے روبرو ہونا اسی شخص نے اپنے بعض ساتھیوں کے حوالے سے نقل کیا ہے ۔(٣) علامہ حلی اپنی کتاب ''خلا صہ '' کے باب اول میں ابو سعید کو امیر المو منین علیہ السلام کے اصحاب میں شمار کرتے ہیں ۔(٤) ، ذہبی نے بھی'' میزان الاعتدال'' میں ان کا تذکرہ کرتے ہوئے یو ں کہا ہے : ''یہ شخص علی علیہ السلام سے روایتیں نقل کرتا ہے۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ ابن سعید نے کہا ہے کہ یہ ثقہ ہیں اور ان کانام دینار ہے ۔ یہ شیعہ ہیں اور انھوں نے١٢٥ ھمیں وفات پائی ہے۔(٥)

تہذیب التہذیب میں عسقلانی کہتے ہیں : ''واقدی کہتے ہیں کہ یہ ثقہ ہیں ان سے بہت زیادہ حدیثیں مروی ہیں ۔ پہلی صدی ہجری میں ان کی وفات ہوئی۔ ابن سعد نے کہا کہ انھوں نے ولیدبن عبدالملک کے زمانے میں وفات پائی۔بعضوں نے کہا ہے کہ عمر نے ابوسعید کو قبریں کھود نے پر مامور کیا تھا اور بعضوں کا یہ کہنا ہے کہ چونکہ یہ پائیتی سے قبر میں اترتے تھے لہٰذا ان کو مقبری کہا جانے لگا۔(٦)

____________________

١۔ تہذیب التہذیب، ج٦، ص٤٢٨

٢۔الکا شف، ج٢ ،ص٢١٦

٣۔طبری ،ج٥، ص٣٨٥

٤۔ الخلا صہ، ص١٩٣

٥۔ میزان الا عتدال، ج٢،ص ١٣٩وج٣ ،ص٨٨ ؛ کا مل الزیارات کے ص ٢٣ پر ابن قولو یہ نے اپنی سند سے ابو سعید عقیصا کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں : ''میں نے کافی دیر تک امام حسین علیہ السلام کو عبد اللہ بن زبیر کے ساتھ آہستہ آہستہ گفتگو کر تے ہوئے سنا۔راوی کہتا ہے : پھر امام علیہ السلام عبد اللہ بن زبیر سے اپنا رخ موڑ کر لوگو ں سے مخاطب ہوئے اور فرمایا : یہ مجھ سے کہتا ہے کہ حرم کے کبوتر و ں کی طرح ہو جایئے جبکہ اگر مجھے حرم میں شرف کے ساتھ قتل کیا جائے تو مجھ کو اس سے زیادہ یہ پسند ہے کہ مجھ کو کسی ایسی جگہ دفن کیا جائے جہا ں فقط ایک بالشت زمین ہو۔اگر مجھ کو طف (کربلا) میں قتل کیا جائے تو حرم میں قتل ہونے سے زیادہ مجھ کو یہی پسند ہے کہ میں کر بلا میں قتل کیا جاؤ ں ''اس روایت سے یہ اندازہ ہو تا ہے کہ راوی نے خود امام علیہ السلام سے حدیث سنی ہے، نہ اس طرح جس طرح ابو مخنف نے سند ذکر کی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ''کامل '' اکمل ہے ۔

٦۔تہذیب التہذیب، ج٨،ص٤٥٣ولسان المیزان، ج٢، ص٤٢٢

۶۸

٣۔ عبد الرحمن بن جندب ازدی :

مذکورہ شخص کی کچھ روایتیں عقبہ بن سمعان کے حوالے سے نقل ہوئی ہیں ۔تاریخ طبری میں اس شخص سے تقریباً ٣٠ روایتیں کے مروی ہیں جن میں جنگ جمل ، صفین، نہروان اور کر بلا کا واقعہ ایک واسطہ عقبہ بن سمعان سے منقول ہے۔وہ حجاج کے زمانے کا واقعہ کسی واسطے کے بغیر نقل کر تا ہے کیو نکہ ابن جندب نے ٧٦ھ میں زائدہ بن قدامہ کی سر براہی میں حجاج کی فوج کے ہمراہ رودبار میں شبیب خارجی کے خلاف جنگ میں شرکت کی(١) اوراس میں اسیر کر لیا گیا۔ خوف کے عالم میں اس نے شبیب کے ہاتھوں پر بیعت کرلی(٢) پھر کسی طرح کوفہ پہنچ گیا۔یہ وہ موقع تھا جب حجاج دوسری مرتبہ شبیب پرحملہ کرنے کے لئے تقریر کررہاتھا اوریہ ٧٧ھ کا زمانہ تھا۔(٣) استرآبادی کی ''رجال الوسیط'' کے حوالے سے مقدس اردبیلی نے ابن جندب کو اصحاب امیر المومنین علیہ السلام میں شمار کیا ہے(٤) اور'' لسان المیزان'' میں عسقلانی نے بھی ان کا تذکرہ کرتے ہوئے یوں کہا ہے :''یہ کمیل بن زیاد اور ابو حمزہ ثمالی سے روایتیں نقل کرتے ہیں ۔''(٥)

٤۔حجاج بن علی بارقی ہمدانی :

مذکورہ شخص کی تمام روایتیں محمد بن بشر ہمدانی کے واسطے سے نقل ہوئی ہیں لہٰذا محمد بن بشر کی طرف مراجعہ کیا جائے۔ تاریخ طبری میں بارقی سے ابن بشر کے علاوہ کسی دوسرے سے کوئی روایت نقل نہیں ہوئی ہے'' لسان المیزان'' میں ان کاتذکرہ یوں ملتا ہے : ''شیخ روی عنہ ابو مخنف''یہ ایسے بزرگ ہیں کہ ابو مخنف ان سے روایتیں نقل کر تے ہیں ۔(٦)

٥۔ نمیر بن وعلة الہمدانی ینا عی :

مذکور ہ شخص اپنی روایتیں ابو ودّاک جبربن نو فل ہمدانی ، ایوب بن مشرح خیوانی اور ربیع بن تمیم کے حوالے سے نقل کر تا ہے ۔ تاریخ طبری میں اس شخص سے ١٠ روایتیں موجود ہیں ۔ آخری روایت شعبی سے ٠ ٨ ھ میں حجاج بن یوسف ثقفی کے دربار کے بارے میں ہے۔(٧) لسان المیزان میں یناعی کا تذکرہ یوں ملتا ہے

____________________

١۔طبری ،ج٦،ص٢٤٤ ---٢۔طبری، ج٦،ص٢٤٢ ---٣۔طبری ،ج٦،ص٢٦٢

٤۔جامع الرواة،ج١، ص٤٤٧ ---٥۔لسان المیزان، ج٣ ،ص٤٠٨،ط حیدر آباد

٦۔ لسان المیزان، ج٢، ص ١٧٨ ---٧۔ طبری، ج٦، ص ٣٢٨

۶۹

اور یہ شعبی سے روایت کر تے ہیں اور ان سے ابو مخنف روایت کر تے ہیں ۔''(١) مغنی میں بھی یہی مطلب موجود ہے۔(٢)

٦۔ صقعب بن زہیرازدی :

مذکورہ شخص اپنی روایتیں ابو عثمان نہدی ،عون بن ابی جحیفہ سوائی اور عبدالر حمن بن شریح معافری اسکندری کے حوالے سے نقل کرتا ہے۔ تہذیب التہذیب کی جلد٦ ،ص ١٩٣ پر مرقوم ہے کہ ١٦٧ ہجری میں اسکندرہی میں ''صقعب ''نے وفات پائی وہ عمر بن عبدالر حمن بن حا رث بن ہشام مخزومی اور حمید بن مسلم کی روایتوں کو بھی نقل کرتا ہے ۔

تاریح طبری میں ابن زہیر سے ٢٠ خبریں منقول ہیں اور تمام خبریں اس طرح ہیں ''عن ابی مخنف عنہ'' ابو مخنف ان (صقعب) سے روایت نقل کرتے ہیں ۔ ان روایتوں میں ٣روایتیں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات سے متعلق ہیں ۔ چونکہ یہ جنگ صفین میں حضرت علی علیہ السلام کے لشکر میں تھے لہٰذا جناب عمار بن یاسرکی شہادت کا بھی تذکرہ کیا ہے(٣) اسی طرح حجر بن عدی کی شہادت کے واقعہ کا بھی تذکرہ کیا ہے۔(٤) کر بلاکے سلسلے میں نو روایتیں نقل کی ہیں اور تین روایتیں مختار کے قیام کے سلسلے میں ہیں ۔ تہذیب التہذیب میں عسقلانی کا بیان اس طرح ہے: ابن حبان نے ان کو ثقات میں شمار کیا ہے۔ ابوزرعہ کا بیان ہے کہ روایت کے سلسلے میں یہ مورد اعتماد ہیں ؛ ابو حاتم کا بیا ن ہے کہ یہ مشہور نہیں ہیں ۔(٥) ''خلا صة تہذیب ا لتہذیب الکمال '' کے حاشیہ پر ہے کہ ابو زرعہ نے ان کی توثیق کی ہے۔(٦)

٧۔ معلی بن کلیب ہمدانی :

کر بلا کا دلسوز واقعہ انھوں نے ابو وداک جبر بن نو فل کے واسطہ سے نقل کیا ہے لہٰذا ابو وداک کی روایتوں کو دیکھا جائے ۔

٨۔ یوسف بن یزید بن بکر ازدی :

مذکورہ شخص عبداللہ بن حازم ازدی اور عفیف بن زہیر بن ابی اخنس سے روایتیں نقل کر تا ہے۔ تار یخ طبری میں ان کاپورانام مذکورہے(٧) اور ان سے ١٥روایتیں نقل

____________________

١۔ لسان المیزان، ج٦، ص١٧١،ط حیدرآباد ---٢۔ج٢، ص٧٠١، طبع دارالدعوہ

٣۔ج٥، ص ٣٨ ---٤۔ ج٥ ، ص٢٥٣ ---٥۔تہذیب التہذیب ج٤، ص ٤٣٢، ---٦۔ الخلا صہ ،ص ١٧٦، ط دارالد عوہ

٧۔طبری ،ج٦، ص ٢٨٤

۷۰

ہوئی ہیں ٧٧ھ کے بعد تک انھوں نے زندگی گزاری ہے۔ ذہبی نے'' میزان الاعتدال'' میں ان کا اس طرح ذکر کیا ہے : آپ بڑے سچے شریف اور بصرہ کے رہنے والے تھے، آپ سے ایک جماعت نے روایتیں نقل کی ہیں اور بہت سارے لوگوں نے ان کی تعریف کی ہے ۔وہ اپنی حدیثیں خودلکھا کر تے تھے۔(١) تہذیب التہذیب میں عسقلا نی نے ان کا اس طرح تذکرہ کیا ہے : ابن حبان نے انھیں ثقات میں شمار کیا ہے۔مقدسی نے کہا کہ یہ ثقہ ہیں ۔ابو حاتم کا بیا ن ہے کہ وہ اپنی حدیثیں خود لکھا کر تے تھے۔(٢) یہی تذکرہ خلاصة تذ ہیب تہذیب الکمال میں بھی ملتا ہے۔(٣)

٩۔یونس بن ابی اسحاق :

ابو اسحاق عمروبن عبداللہ سبیعی ہمدانی کوفی کے فرزندیونس، عباس بن جعدہ جدلی کے حوالے سے روایتیں نقل کرتے ہیں اورحضرت مسلم بن عقیل کے قیام کے سلسلے میں انھوں نے روایت کی ہے کہ آپ کے مقابلہ میں چار ہزار کا لشکر تھا ۔

علامہ سید شرف الدین موسوی اپنی گرانقدر کتاب ''المراجعات''میں فرماتے ہیں :'':یونس کے والد ابو اسحاق عمروبن عبدللہ بن سبیعی ہمدانی کوفی، کے شیعہ ہونے کی تصریح ابن قتیبہ نے اپنی کتاب ''المعارف ''اور شہرستانی نے اپنی کتاب ''الملل و النحل''میں کی ہے۔ آپ ان محدثین کے سربراہ تھے جن کے مذہب کو دشمنان اہل بیت کسی طرح لائق ستائش نہیں سمجھتے ،نہ ہی اصول میں اور نہ ہی فروع میں کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو اہل بیت اطہار علیہم السلام کے نقش قدم پرچلتے ہیں اوردین کے مسئلہ میں فقط اہل بیت اطہار کی پیروی کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ جوزجانی (گرگانی) (جیسا کہ میزان الاعتدال میں زبیدی کے شرح حال میں ذکر ہواہے)(٤) نے کہا ہے کہ اہل کوفہ میں کچھ لوگوں کا تعلق ایسے گروہ سے تھا ۔جن کے مذہب ومرام کو لوگ اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے جبکہ یہ لوگ محدثین کوفہ کے بزرگوں میں سے تھے مثلاًابو اسحاق ، منصور ، زبید الیامی ، اعمش اوران جیسے دوسرے افراد، ان لوگوں کی روایتیں فقط ان کے سچے ہونے کی بنیاد پر قبول کی جاتی ہیں ؛ لیکن اگر ان کی طرف سے مرسلہ روایتیں نقل ہوں تو

____________________

١۔میزان الا عتدال، ج ٤، ص ٤٧٥

٢۔ تہذیب التہذیب، ج١١، ص ٤٢٩

٣۔الخلا صہ ،ص ٤٤٠

٤۔میزان الاعتدال، ج٢،ص٦٦،ط حلبی

۷۱

چوں و چرا کیا جاتا ہے۔ نمونے کے طور پر ان میں سے ایک روایت جسے دشمنان اہل بیت ابو اسحاق کے مراسل(مرسلہ کی جمع وہ روایت جس میں درمیان سے راوی حذف ہو)میں شمار کرتے ہوئے انکار کرتے ہیں ابو اسحاق کی وہ روایت ہے جسے عمرو بن اسماعیل نے (جیسا کہ میزان الاعتدال میں عمرو بن اسماعیل کے شرح حال میں مذکور ہے)(١) ابو اسحاق سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا :''قال رسول اللّه صلی اللّه علیه و آله وسلم مثل علیٍّ کشجرةانااصلهاوعلی فرعها و الحسن والحسین ثمرها والشیعةورقها ''نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی کی مثال اس درخت کی سی ہے کہ جس کی جڑ میں ہوں شاخ علی ہیں ،حسن و حسین اس کے پھل اور شیعہ اس کے پتے ہیں ۔

پھر علامہ شرف الدین اعلی اللہ مقامہ فرماتے ہیں کہ (جیسا کہ میزان الاعتدا ل میں ہے کہ) مغیرہ کا یہ بیان کہ اہل کوفہ کی حدیثوں کو ابو اسحاق اور اعمش جیسے لوگوں نے تباہ کیا ہے ،(٢) یایہ کہ اہل کوفہ کو ابو اسحاق اور اعمش جیسے لوگوں نے ہلاک کیا ہے(٣) فقط اس لئے ہے کہ یہ دونوں آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خالص پیرو تھے اور ان کی سنتوں میں جو چیزیں ان کی خصوصیات و صفات کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں ۔ اس کے محافظ و نگراں تھے ۔

پھر فرماتے ہیں : صحاح ستہ اور غیر صحاح (اہل سنت کی ٦کتابیں جنہیں وہ صحاح کے نام سے یاد کرتے ہیں ) کے مصنفین نے ان دونوں سے روایتوں کونقل کیا ہے۔(٤)

بہر حال ''الو فیات '' کے بیان کے مطابق عثمان کی خلافت ختم ہونے کے ٣سال قبل یعنی ٣٣ھ میں آپ کی ولادت ہوئی اور ابن معین و مدائنی کے بیان کے مطابق ١٣٢ھ میں آپ نے وفات پائی ۔

آپ کے فرزند یونس آپ ہی سے روایتیں نقل کرتے ہیں جنکی وفات ١٥٩ ھ میں ہوئی اور اس وقت آپ کی عمر ٩٠ سال کی تھی ۔ یہ وہی شخص ہیں جو ابو مخنف سے عباس بن جعدہ کے حوالے سے کوفہ میں جناب مسلم کے قیام کے واقعہ کو بیان کرتے ہیں ۔ تاریخ طبری میں اس خبر کے علاوہ یونس سے ایک اور خبر

____________________

١۔میزان الاعتدال، ج٣ ،ص٢٧٠

٢۔ میزان الاعتدال، ج٣ ،ص ٢٧٠

٣۔ میزان الاعتدال ، ج٢ ،ص ٢٢٤

٤۔ المراجعات، ص ١٠٠ ،ط دار الصادق

۷۲

منقول ہے لیکن کسی کا حوالہ موجود نہیں ہے اور وہ خبر ابن زیاد کے سلسلے میں ہے کہ ابن زیاد نے ایک لشکر روانہ کیا تاکہ کوفہ پہنچنے سے پہلے امام حسین علیہ السلام کو گھیر لے ، اس کے علاوہ تاریخ طبری میں گیارہ دوسری روایتیں بھی ہیں جنہیں ابو مخنف نے یونس سے نقل کیاہے نیز ١٣روایتیں اور ہیں لیکن وہ ابو مخنف کے علاوہ کسی اور سے مروی ہیں ۔

تہذیب التہذیب میں عسقلانی کا بیان ہے کہ ابن حبان نے آپ کو ثقات میں شمار کیا ہے۔ ابن معین کا بیان ہے کہ آپ ثقہ ہیں ۔ ابو حاتم نے کہا کہ آپ بہت سچے تھے۔نسائی کا بیان ہے کہ ان کی روایتوں میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ ابن عدی کا بیان ہے کہ ان کی روایتیں بہت اچھی ہیں ۔ لوگ ان سے روایتیں نقل کرتے ہیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ ١٥٩ھ میں ان کی وفات ہوئی ہے۔(١)

١٠۔ سلیمان بن راشدازدی :

مذکورہ شخص عبداللہ بن خازم بکری ازدی ، حمید بن مسلم ازدی اور ابو کنود عبد الرحمن بن عبید کی روایتوں کو نقل کرتا ہے۔ تاریخ طبری میں اس شخص سے ٢٠روایتیں نقل ہوئی ہیں جن میں اکثر و بیشتر بالواسطہ ہیں وہ ٨٥ ھتک زندہ رہے۔(٢)

١١۔ مجالد بن سعید ہمدانی :

یہ شخص عامر شعبی ہمدانی سے روایتیں نقل کرتا ہے۔ اس کی روایت قصر بنی مقاتل کے سلسلے میں ہے ۔(٣) مسلم بن عقیل کے ساتھ کوفیوں کی بے وفائی ، جناب مسلم علیہ السلام کی تنہائی اور غریب الوطنی ، آپ کا طوعہ کے گھر میں داخل ہونا ، ابن زیاد کا خطبہ ، بلال بن طوعہ کی خبر اور ابن زیاد کااشعث کے بیٹے کو جناب مسلم علیہ السلام سے لڑنے کے لئے بھیجنے کے سلسلے میں بھی'' مجالد ''کی روایتیں موجود ہیں لیکن وہ مرسل ہیں جن کو طبری نے کسی کی طرف مستند نہیں کیا ہے۔(٤)

تاریخ طبری میں مجالد سے ٧٠ خبریں نقل ہوئی ہیں جن میں سے اکثر و بیشتر شعبی کے حوالے سے ہیں ۔ ابو مخنف اسے محدث کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔(٥)

____________________

١۔تہذیب التہذیب ،ج١ ، ص ٤٣٣

٢۔ طبری ،ج٦ ، ص ٣٦٠

٣۔طبری ،ج٥ ص ٤٠٧

٤۔ ج٥، ص ٣٧١۔٣٧٣

٥۔ طبری، ج٥ ، ص٤١٣

۷۳

ذہبی نے میزان الاعتدال میں ''مجالد'' کا تذکرہ اس طرح کیا ہے : یہ مشہور اور صاحب روایت ہیں اور ''اشبح ''نے ذکر کیا ہے کہ وہ خاندان رسالت کے پیرو تھے۔ مجالد کی وفات ١٤٣ھ میں ہوئی ۔اس کے بعد ذہبی، بخاری سے روایت کرتے ہیں کہ بخاری نے مجالد کے شرح حال میں ان سے روایت نقل کی ہے اور وہ شعبی سے اور وہ ابن عباس سے روایت نقل کرتے ہیں کہ ابن عباس نے کہا : جب بنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس دنیا میں قدم رکھ کر اس دنیا کو منور کیا تو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کا نام ''منصورہ '' رکھا۔ اسی وقت جبرائیل نازل ہوئے اور فرمایا : اے محمد !اللہ آپ پر تحفۂ درودسلام بھیجتا ہے اور آپ کے گھر پیدا ہونے والی بچی کے لئے بھی ہدیہ درود و سلام بھیجتا اورفرماتا ہے: '' مااحب مولود احب الی منھا '' ہمارے نزدیک اس مولود سے زیادہ کوئی دوسرا مولود محبوب نہیں ہے لہٰذا خداوند عالم نے اس نام سے بہتر نا م منتخب کیا ہے؛ جسے آپ نے اس بیٹی کے لئے منتخب کیا ہے ، خدا نے اس کا نا م'' فاطمہ'' رکھا ہے'' لانھا تفطم شیعتھا من النار''کیونکہ یہ اپنے شیعوں کو جہنم سے جداکرے گی ،لیکن یہ حدیث ذہبی کے حلق سے کیسے اتر سکتی ہے لہٰذا انہو ں نے فوراًاس حدیث کو جھٹلایا اور دلیل یہ پیش کی کہ بنت رسول کی ولادت تو بعثت سے قبل ہوئی ہے۔ (اگر چہ ذہبی کا یہ نظریہ غلط ہے لیکن دشمنی اہل بیت اطہار میں وہ بے بنیاد حدیث کو بھی صحیح ما ن لیتے ہیں اور فضائل کی متواتر حدیث کو ایڑی چوٹی کا زور لگا کر ضعیف ثابت کر نے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ) اسی حدیث کی بنیا د پر ذہبی نے کہہ دیا کہ وہ توشیعہ تھے۔(١)

١٢۔ قدامہ بن سعید بن زائدہ بن قدامہ ثقفی :

قدامہ اپنے دادا زائدہ بن قدامہ سے روایتیں نقل کرتے ہیں ۔قدامہ کی روایت ہے کہ محمد بن اشعث مسلم بن عقیل علیہ السلام سے جنگ کے لئے نکلا ،پھر جناب مسلم قید کئے گئے ، آپ نے دار الامارہ کے دروازہ پر پانی طلب کیا اور آپ کو پانی پیش کیا گیا۔(٢) طبری نے ان کا ذکر کیا ہے لیکن ان کے باپ یا دادا سے استناد نہیں کیا اور ظاہراًیہ صحیح نہیں ہے کیونکہ قدامہ کوفہ میں ان واقعات کے رونما ہوتے وقت موجود ہی نہیں تھے وہ تو ان کے دادا ''زائدہ''تھے جو اس

____________________

١۔ میزان الاعتدال، ج ٣ ، ص ٤٣٨ ،ایک قول یہ ہے کہ ١٤٢ یا ١٤٤ ہجری ذی الحجہ کے مہینہ میں مجالد نے وفات پائی۔ ذہبی نے تہذیب التہذیب میں یہی لکھا ہے ۔

٢۔ طبری ،ج ٥ ، ص ٣٧٣ ۔ ٣٧٥

۷۴

وقت وہاں موجود تھے اور عمر و بن حریث کے ہمراہ کوفہ کی جامع مسجد میں ابن زیاد کا پرچم امن لہرارہے تھے ، کیونکہ ابن زیاد نے یہ کہا تھا کہ مسلم سے جنگ کے لئے محمدبن اشعث کے ہمراہ بنی قیس کے ٧٠ جوان بھیجے جائیں(١) اور اس وقت زائدہ نے اپنے چچازاد بھائی مختار کے لئے سفارش کی تھی،(٢) لیکن قدامہ بن سعید کو شیخ طوسی علیہ الرحمہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام کے اصحاب میں ذکر کیا ہے(٣) جس کی تفصیل پہلے گذرچکی ہے لہٰذا وہاں دیکھاجائے ۔

١٣۔ سعید بن مدرک بن عمارہ بن عقبہ بن ابی معیط اموی :

یہ شخص اپنے دادا عمارہ بن عقبہ سے روایت نقل کر تا ہے کہ اس کے دادا نے اپنے غلام قیس کو اپنے گھر روانہ کیا تا کہ وہ پا نی لے کر آئے اور محل کے دروازہ پر کھڑ ے مسلم ابن عقیل کو ابن زیاد کے پاس لے جانے سے پہلے پا نی پلا دے۔(٤) کتا ب کی عبارت ہے : ''حد ثنی سعید ان عمارہ بن عقبہ '' '' سعید نے ہم سے حدیث نقل کی ہے کہ عمارہ بن عقبہ ...''اس عبارت سے یہی ظاہر ہو تا ہے کہ حدیث بغیر کسی سند کے بلا واسطہ نقل ہو رہی ہے لیکن یہ بہت بعید ہے۔ظاہر یہی ہے کہ سعید اپنے دادا عمارہ کے حوالے سے حدیثیں نقل کر تے ہیں ۔ہمارے نزدیک پا نی لا نے کے سلسلے میں قدامہ بن سعید ہی کی روایت تر جیح رکھتی ہے جس میں اس بات کی صراحت ہے کہ پا نی عمر وبن حریث لے کر آیا تھا، نہ کہ عمارہ یا اس کا غلام۔ اس حقیقت کا تذکر ہ اس کتاب میں صحیح موقع پر کیا گیا ہے۔

١٤۔ ابو جناب یحٰی بن ابی حیہ وداعی کلبی :

یہ شخص عدی بن حرملہ اسدی سے اور وہ عبد اللہ بن سلیم اسدی ومذری بن مشمعل اسدی سے اور وہ ہا نی بن ثبیت حضرمی سے روایتیں نقل کر تا ہے۔ یہ روایتیں کبھی کبھی مرسل بھی نقل ہو ئی ہیں جن میں کسی سند کا تذکرہ نہیں ہے۔ انھیں میں سے ایک روایت جناب مسلم کے ساتھیوں کا ابن زیاد سے روبروہو نا،(٥) ابن زیاد کاجناب مسلم اور جناب ہا نی کے سروں کو یزید کے پا س بھیجنا اور اس سلسلے میں یزید کو ایک خط لکھنا بھی ہے۔(٦)

____________________

١۔طبری ،ج ٥ ،ص ٣٧٣ --٢۔ طبری، ج ٥ ، ص ٥٧٠

٣۔ رجال شیخ ، ص ٢٧٥ ،ط نجف--٤۔ طبری، ج٥، ص ٣٧٦

٥۔ج٥ ،ص ٣٦٩۔ ٣٧٠ --٦۔ج٥ص٣٨٠

۷۵

جیسا کہ یہ بات پہلے گذرچکی ہے کہ ظاہراً ان واقعات کو ابو جناب نے اپنے بھائی ہانی بن ابی حیہ و داعی کلبی کے حوالے سے نقل کیا ہے جس کو ابن زیاد نے جناب مسلم کے سراور اپنے نامے کے ساتھ یزید کے پاس بھیجا تھا۔(١) تا ریخ طبری میں ٢٣روایتیں با لو اسطہ جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان کے سلسلے میں نقل ہوئی ہیں اور ٩روایتیں واقعۂ کر بلا کے سلسلے میں ہیں جن میں سے پا نچ بالواسطہ اور تین مر سل ہیں ، لیکن ظاہر یہ ہے کہ در حقیقت یہ تینو ں روایتیں بھی مستند ہیں ۔ان روایتوں سے یہ انداز ہ ہو تا ہے کہ وہ ان لو گوں میں سے نہ تھا جو دشمن کے لشکر میں تھے ،البتہ اس کا ان کے ہم عصروں میں شمار ہو تا ہے ۔

آخری مرسل روایت جو میری نظروں سے گذری ہے یہ ہے کہ جناب مختار کے قیام کے بعد ٦٧ ھمیں مصعب بن زبیر نے ابراہیم بن مالک اشتر کو خط لکھوا کر اپنی طرف بلا یا ۔(٢) عسقلانی تہذیب التہذیب میں کہتے ہیں : ابن حبان نے ان کو ثقات میں شمار کیا ہے۔اسی طرح ابن نمیر، ابن خراش، ابو زرعہ اور ساجی نے کہا کہ یہ کو فہ کے رہنے والے تھے اور بہت سچے تھے۔ ابو نعیم کا بیان ہے کہ ان کی روایتوں میں کو ئی مشکل نہیں ہے۔ ١٥٠ہجری میں ان کی وفات ہوئی ،اگرچہ ابن معین کا بیان ہے کہ ٧ ١٤ھ میں وفات پا ئی۔(٣)

١٥۔ حارث بن کعب بن فقیم والبی ازدی کوفی :

حارث بن کعب عقبہ بن سمعان ، امام زین العابدین علیہ السلام اور فاطمہ بنت علی کے حوالے سے روایتیں نقل کرتے ہیں ۔وہ شروع میں کیسا نیہ مذہب سے تعلق رکھتے تھے(٤) (جو جناب مختار کو امام سمجھتے تھے) لیکن بعد میں امام زین العابدین علیہ السلام کی امامت کے قائل ہوگئے اور ان سے روایتیں بھی نقل کرنے لگے۔(٥) ایسا اندازہ ہو تا ہے کہ یہ کو فہ سے مدینہ منتقل ہو گئے تھے کیو نکہ انھوں نے امام زین العابدین اور فاطمہ بنت علی علیہما السلام سے خودحد یثیں سنی ہیں ۔(٦)

____________________

١۔ ج ٥ ،ص ٣٨٠

٢۔طبری، ج٦، ص ١١

٣۔ تہذیب التہذیب، ج١١،ص ٢٠١

٤۔طبری، ج٦، ص ٢٣

٥۔طبری ،ج٥،ص ٣٨٧

٦۔ ج٥، ص ٤٦١

۷۶

شیخ طوسی علیہ الرحمہ نے آپ کو امام زین العابدین علیہ السلام کے اصحاب میں شمار کیا ہے،لیکن نجف سے طبع ہو نے والی اس کتاب میں جو رجال شیخ کے نام سے معروف ہے شیخ نے کعب کی جگہ حر بن کعب ازدی کو فی کر دیا ہے۔ محقق کتاب نے حاشیہ میں ایک دوسرے نسخہ کی مدد سے حارث لکھا ہے اور یہی صحیح ہے ۔

١٦ ۔ اسما عیل بن عبد الرحمن بن ابی کریمہ سدّی کو فی :

زہیر بن قین کے واقعہ کو یہ فزاری کے حوالے سے نقل کر تے ہیں ۔

ذہبی نے'' میزان الا عتدال'' میں ان کا تذکرہ کر تے ہو ئے کہا ہے : ان پر تشیع کی نسبت دی گئی ہے اور وہ ابو بکر وعمر پر لعنت وملا مت کر تے تھے ا۔بن عدی نے کہا ہے کہ یہ میرے نزدیک بڑے سچے ہیں ۔ احمد نے کہا کہ یہ ثقہ ہیں ۔یحٰی نے کہا کہ میں نے کسی کو نہیں دیکھا مگر یہ کہ وہ سدّی کو اچھے نا م سے یاد کرتا ہے اور ان کو کسی نے ترک نہیں کیا ۔ ان سے شعبہ اور ثوری روایت کر تے ہیں ۔(١) تا ریخ طبری میں ان سے ٨٤ روایتیں نقل ہوئی ہیں جن میں دوسری صدی ہجری کے واقعات بیان ہوئے ہیں ۔

''تہذیب التہذیب اور ''الکاشف '' میں مذکور ہے کہ انھوں نے ٧ ١٢ھمیں وفات پائی، چونکہ یہ مسجد کو فہ کے درواز ہ پر با لکل وسط میں بیٹھا کر تے تھے لہٰذ ان کو'' سدّی'' کہا جا نے لگا ۔یہ قر یش کے موالی میں شمار ہو تے ہیں اور امام حسن علیہ السلا م سے روایتیں نقل کر تے ہیں ۔

١٧۔ ابو علی انصاری :

یہ بکر بن مصعب ْمزنی ّ سے روایت نقل کر تے ہیں ۔عبد اللہ بن بقطر کی شہادت کا تذکرہ انھیں کی روایت میں مو جو د ہے۔ تاریخ طبری میں اس روایت کے علاوہ ان کی کو ئی دوسری روایت موجود نہیں ہے۔ رجال کی کتا بوں میں ان کا کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے ۔

١٨۔ لو ذان :

یہ شخص اپنے چچا کے حوالے سے امام حسین علیہ السلام سے راستے میں اپنے چچا کی ملا قات کا تذکرہ کر تا ہے اورخود غیر معروف ہے ۔

١٩۔ جمیل بن مر ثدی غنوی :

یہ شخص طر ماح بن عدی طائی سے انھیں کی خبر کو نقل کر تا ہے ۔

____________________

١۔تہذیب التہذیب، ج١،ص ٢٣٦،ط جلی

۷۷

٢٠ ۔ ابو زہیر نضربن صالح بن حبیب عبسی :

مذکو رہ شخص حسان بن فا ئد بن بکیر عبسی کے حوالے سے پسر سعد کے ابن زیاد کو خط لکھنے کی روایت اور ابن زیاد کے جواب دینے کا تذکرہ کر تا ہے۔اس کے علا وہ قرہ بن قیس تمیمی کے حوا لے سے جناب حر کا واقعہ بیان کر تا ہے ۔

تا ریخ طبری میں اس راوی سے ٣١ روایتیں منقول ہیں ۔ ابو زہیر نے جناب مختار کے زما نے کو بھی درک کیا ہے۔(١) اس کے بعد ٦٨ ہجری میں مصعب بن زبیر کے ہمراہ یہ قطریّ خارجی سے جنگ کے لئے میدان نبرد میں اتر آئے ،پھر ٧٧ ہجری میں مطرف بن مغیرہ بن شعبہ ثقفی خارجی کے مدائن میں نگہبان اور دربان ہوگئے۔ اس وقت ان کی جوانی کے ایام تھے لہٰذا ہر وقت مطرف کی نگہبانی کے لئے تلوار کھینچے کھڑے رہتے تھے ،نیز اسی سال انھوں نے مطرف کی فوج میں رہ کر حجاج کے لشکر سے جنگ کی،(٢) اس کے بعد کوفہ پلٹ گئے۔(٣)

امام رازی نے اپنی کتاب ''الجرح والتعدیل'' میں ان کا تذکرہ کرتے ہوے کہا ہے :''میں نے اپنے باپ سے سنا ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ ابو مخنف ان سے روایت نقل کرتے ہیں اوروہ بالواسطہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں ۔(٤)

٢١۔ حارث بن حصیرہ ازدی :

یہ شخص بعض روایتوں کو عبداللہ بن شریک عامری نہدی کے حوالے سے نقل کرتا ہے اور بعض روایتوں کو اس کے واسطے سے امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل کرتا ہے ۔

ذہبی نے'' میزان الاعتدال'' میں ان کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے : ابو احمد زبیری کا بیا ن ہے کہ یہ رجعت پر ایمان رکھتے تھے اور یحٰی بن معین نے کہا ہے کہ یہ ثقہ ہیں ۔ان کو خشبی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ اس خشب (لکڑی) کی طرف منسوب ہیں جس پر زید بن علی کو پھانسی دی گئی تھی ۔

ابن عدی کا بیان ہے کہ ان کا شمار کوفہ کے شدید شیعوں میں ہوتا ہے ۔ ابوحاتم رازی کہتے ہیں کہ ان کا شماربہت قدیم شیعوں میں ہوتا ہے لیکن اگر ثوری نے ان سے روایت نقل نہ کی ہوتی تو یہ متروک تھے۔(٥)

____________________

١۔ طبری ،ج ٦، ص ٨١ ---٢۔ ج٦ ، ص٢٩٨

٣۔ ج٦، ص٢٩٩ ---٤۔الجرح والتعدیل،ج٨، ص ٤٧٧ --٥۔میزان الاعتدال، ج ، ص٤٣٢،ط حلبی

۷۸

ذہبی نے نفیع بن حارث نخعی ہمدانی کوفی اعمی (جو اندھے تھے) کے شرح حال میں حارث بن حصیرہ سے روایت نقل کرتے ہوئے کہا ہے : '' بہت سچے تھے لیکن رافضی تھے۔ اس کے بعد سند روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ حارث بن حصیرہ نے عمران بن حصین سے روایت نقل کی ہے کہ انھوں نے کہا :''کنت جالساعندالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وعلیُّ الی جنبہ '' میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے پاس بیٹھاتھا اور علی (علیہ السلام) ان کے پہلو میں بیٹھے تھے ،''اذقرأ النبی صلی الله علیه وآله'' ( امن یجیب المضطرّاذا دعاه و یکشف السوء و یجعلکم خلفاء الارض'' ) (١)

اسی درمیان پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیہ شریفہ ''امن یجیب المضطر...''کی تلاوت فرمائی'' فارتعد عَلِیّ ،فضرب النبی صلی اللہ علیہ وآلہ بیدہ علی کتفہ''آیت کو سن کر علی لرزنے لگے تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو علی کے شانے پر رکھا''فقال: لایحبک الا مومن ولا یبغضک الا منافق الی یوم القیا مة'' (٢) اور فرمایا: قیامت تک تم سے محبت نہیں کریگا مگر مومن او ر دشمنی نہیں کرے گا مگر منافق۔

تاریخ طبری میں ابن حصیرہ سے ١٠ روایتیں موجود ہیں اور ان تمام روایتوں کو ابو مخنف نے ان سے نقل کیاہے۔ شیخ طوسی نے اپنے رجال میں ان کو امیر المومنین علیہ السلام کے اصحاب میں شمار کیا ہے(٣) لیکن آپ نے حارث بن حصین ازدی نامی شخص کا تذکرہ امام محمد باقر علیہ السلام کے اصحاب میں کیا ہے جو غلط ہے ۔

٢٢۔ عبداللہ بن عاصم فائشی ہمدانی :

یہ ضحاک بن عبداللہ مشرقی ہمدانی کی روایتوں کو نقل کرتے ہیں ۔مقدس اردبیلی نے ''جامع الرواة ''میں ذکر کیا ہے کہ کافی میں تیمم کے وقت کے سلسلے میں ان سے امام جعفر صادق علیہ السلام کی زبانی ایک روایت منقول ہے ۔

تہذیب میں عسقلانی نے ان کا تذ کرہ کیا ہے، نیز بصائر الدرجات میں بھی ان کا تذکرہ موجود ہے۔ ان سے ابان بن عثمان اور جعفر بن بشیر نے روایتیں نقل کی ہیں ۔(٤)

____________________

١۔نمل ٦٢

٢۔میزان الاعتدال، ج ٤ ،ص٢٧٢

٣۔ رجال شیخ ، ص ٣٩،ط نجف

٤۔جامع الرواة ،ج١،ص ٤٩٤

۷۹

٢٣۔ ابو ضحاک :

یہ شب عاشور کا واقعہ امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں ۔

ذھبی نے'' میزان الاعتدال ''(١) میں اور عسقلانی نے'' تہذیب التہذیب''(٢) میں ان کا تذکرہ کیا ہے۔ شعبہ نے ان سے روایت نقل کی ہے ۔

٢٤۔ عمرو بن مرّہ الجملی :

یہ ابو صالح حنفی سے اوروہ عبد ربہ انصاری کے غلام سے روایتیں نقل کرتے ہیں ۔ان کی خبر میں جناب بریر بن خضیر کی شوخی کا تذکرہ ہے ۔(١) ذہبی نے ''میزان الاعتدال''(٢) میں ا ور عسقلانی نے'' تہذیب التہذیب''(٣) میں انکا تذکرہ کیا ہے۔وہ کہتے ہیں :ابن حبان نے ان کو ثقہ میں شمار کیا ہے اس کے بعد کہتے ہیں کہ انھوں نے ١١٦ھ میں وفات پائی۔احمد بن حنبل نے ان کی ذکاوت اورپاکیزگی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی وفات ١١٨ ہجری میں ہوئی اور بخاری کا بیان ہے کہ علی (علیہ السلام) سے انھوں نے تقریبا١٠٠روایتیں نقل کی ہیں ۔ شعبہ کا بیا ن ہے کہ یہ بڑے صاحب علم تھے۔ابو حاتم کہتے ہیں کہ وہ سچے اور مورد اعتماد ہیں ابن معین کا بیا ن ہے کہ وہ ثقہ ہیں ۔

٢٥۔ عطأ بن سائب :

انھوں نے جنگ کے شروع میں ابن حوزہ کی شہادت کا تذکرہ عبدالجبار بن وائل حضرمی کے حوالے سے اور اس نے اپنے بھائی مسروق بن وائل حضرمی کے حوالے سے نقل کیا ہے۔(٤)

عسقلانی نے'' تہذیب التہذیب'' میں انکا اس طرح تذکرہ کیا ہے : عبدالجبار بن وائل اپنے بھائی سے روایت نقل کرتا ہے۔ ابن حبان نے ان کو ثقات میں شمار کیا ہے،اس کے بعد کہتے ہیں کہ ١٢٢ھ میں ان کی وفات ہوئی ہے۔عطاء مکہ کے رہنے والے ہیں ٦٤ ہجری میں ابن زبیر کے ہاتھوں خانہ کعبہ کی خرابی اور اس کی تجدید کوانھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔یہ ان لوگوں میں سے ہیں جو ٩٤ ہجری تک حجاج کے ہاتھوں قتل نہ ہوسکے۔(٧) '' تہذیب التہذیب'' میں ہے کہ ابن حبان نے ان کو ثقات میں شمار کیا ہے۔ ابن سعد نے طبقات میں بھی ان کا تذکرہ کیا ہے ، اور یہ کہا ہے کہ ان کی وفات١٣٧ ہجری میں ہوئی ہے ۔

____________________

١۔میزان الاعتدال، ج٤ ،ص ٥٤٠،ط حیدر آباد ---٢۔تہذیب التہذیب، ج١٢ ،ص ١٣٦

٣۔طبری ،ج٥ ،ص ٥٢٣ ---٤۔ میزان الاعتدال، ج٣ ،ص ٢٨٨

٥۔ تہذیب التہذیب، ج ٨ ، ص ١٠٢ --٦۔طبری ،ج٥ ص٤٣١ --٧۔ج٦،ص٤٨٨

۸۰

٢٦۔ علی بن حنظلہ بن اسعد شبامی ہمدانی :

زہیر بن قین کے خطبہ کی روایت کو انھوں نے کثیر بن عبداللہ شعبی ہمدانی کے حوالے سے نقل کیاہے۔حنظلہ بن اسعد شبامی اصحاب امام حسین علیہ السلام میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے کربلا میں جام شہادت نوش فرمایا ہے۔ علی ان کے فرزند ہیں ؛ایسا لگتا ہے کہ یا تو علی اس وقت کربلا میں موجود نہ تھے یا کمسن ہونے کی وجہ سے قتل نہ ہو پائے ۔یہ بلا واسطہ کوئی خبر نقل نہیں کرتے ہیں ۔ مذکورہ روایت انھوں نے کثیر بن عبداللہ شعبی قاتل زہیر بن قین کے حوالے سے نقل کی ہے ۔

٢٧۔ حسین بن عقبہ مرادی :

یہ عمر و بن حجاج کے حملے کا تذکرہ زبیدی کے حوالے سے نقل کرتے ہیں ۔

٢٨۔ ابو حمزہ ثابت بن دینار ثمالی :

اہل حرم کی شام میں اسیری کی روایت کو یہ قاسم بن بخیت کے حوالے سے نقل کرتے ہیں ۔ آپ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے بلکہ تعریف و تمجید سے بالا تر ہے ۔

٢٩۔ ابو جعفر عبسی :

یحٰبن حکم کے اشعار کو یہ ابو عمارہ عبسی کے حوالے سے نقل کرتے ہیں ۔

یہ وہ ٢٩افراد ہیں جو ابو مخنف اور عینی گواہوں کے درمیان واسطہ ہیں ۔

۸۱

چھٹی فہرست

اس فہرست میں ائمہ علیہم السلام ، ان کے اصحا ب اور مورخین موجود ہیں جو ١٤ افراد پر مشتمل ہیں ۔

١۔ امام زین العابدین علیہ السلام:

اپنے دونوں فرزند عون اور محمد کے ہمراہ عبداللہ بن جعفر کا امام حسین علیہ السلام کے نام خط اورمکہ سے نکلتے وقت امام علیہ السلام کے پاس سعید بن عاص اشدق کا اپنے بھائی یحٰی بن سعید بن عا ص کے ہمراہ خط لانا اور امام علیہ السلام کا اس خط کا جواب دیناحارث بن کعب والبی ازدی کے واسطے سے امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل ہوا ہے ۔(١)

اسی طرح حارث بن کعب والبی عبداللہ بن شریک عامری نہدی کے حوالے سے امام زین العابدین علیہ السلام سے روایت کرتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے٩ محرم کو ایک شب کی مہلت لی اور اپنے اصحاب کے درمیا ن خطبہ دیا۔(٢) اسی طرح حارث بن کعب والبی ازدی اور ابو ضحاک

____________________

١۔طبری ،ج٥ ،ص ٣٨٧ ۔ ٣٨٨

٢۔طبری، ٥ ،ص٤١٨

۸۲

کے حوالے سے امام حسین علیہ السلام کے شب عاشور کے اشعار ، حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی امام علیہ السلام سے گفتگو، اس پر امام حسین علیہ السلام کا جواب آپ سے منقول ہے۔(١)

٢۔ اما م محمد باقر علیہ السلام :

عقبہ بن بشیر اسدی کے حوالے سے شیر خوار کی شہادت کا واقعہ امام علیہ السلام سے نقل ہوا ہے۔(٢)

٣۔ امام جعفر صادق علیہ السلام :

ایک مرسل روایت میں امام حسین علیہ السلام کے جسم مبارک پر شمشیر و تیر و تبر کے زخموں کی تعداد آپ ہی سے مروی ہے ۔

٤۔ زید بن علی بن حسین علیہماالسلام :

زید بن علی اور داود بن عبید اللہ بن عباس کے حوالے سے فرزندان عقیل کی حماسہ آفرین تقریر منقول ہے۔ ان دونوں حضرات سے روایت کرنے والے شخص کا نام عمر و بن خالد واسطی ہے جو بنی ہاشم کے چاہنے والوں میں شمار ہوتا ہے۔ وہ پہلے کوفہ میں رہتاتھا پھر ''واسط '' منتقل ہوگیا وہ زید اورامام جعفر صادق سے روایتیں نقل کرتا ہے ۔

نجاشی نے ان کا تذکرہ کیا ہے اور کہا ہے : ''ان کی ایک بہت بڑی کتاب ہے جس سے نصر بن مزاحم منقری وغیرہ روایتیں نقل کرتے ہیں ۔(٣)

شیخ طوسی نے ان کو امام با قرعلیہ السلا م کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔(٤) اس کے علاوہ مامقانی نے تنقیح المقال میں ان کا ذکر کیا۔ ) اسی طرح عسقلانی نے بھی'' تہذیب التہذیب'' میں ان کا تذکرہ کیا ہے۔(٦)

٥۔ فاطمہ بنت علی :

آپ کا تذکرہ طبری نے کیا ہے۔ حارث بن کعب والبی ازدی کے واسطے سے دربار یزید کا واقعہ انہی مخدرہ سے منقول ہے۔(٧) واضح رہے کہ ان بی بی اور امام سجاد علیہ السلام سے روایت کرنے والا راوی ایک ہی ہے ۔

____________________

١۔طبری ،ج٥ ، ص ٤٢٠ ۔ ٤٢١ ---٢۔ طبری، ج ٥ ،ص ٤٤٨

٣۔ رجال نجاشی، ص ٢٠٥ ،ط ھند ---٤۔ رجال شیخ ،ص ١٢٨ ،ط نجف

٥ ۔تنقیح المقال ،ج ٢، ص ٣٣٠ ---٦۔ تہذیب التہذیب، ج ٨ ، ص ٣٦

٧۔طبری ،ج ٥ ، ص ٤٦١ ۔ ٤٦٢

۸۳

٦۔ ابو سعید عقیصا:

مسجد الحرام میں امام حسین علیہ السلام سے ابن زبیر کے رو برو ہونے کی روایت اپنے بعض اصحاب کے واسطے سے انھوں نے نقل کی ہے۔(١) علاّمہ حلی نے اپنی کتاب'' الخلاصہ'' کی قسم اول میں آپ کو امیر المومنین کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔(٢)

'' میزان الاعتدال ''میں ذہبی نے بھی ان کاتذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے : یہ علی علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں : شعبہ نے کہا ہے کہ یہ ثقہ ہیں ۔ ان کا نام دینار ہے اور اہل بیت کے پیرو ہیں ۔ ان کی وفات ١٢٥ ھ میں ہوئی ۔(٣) ان کے حالات پہلے گزر چکے ہیں ۔

٧۔محمد بن قیس :

قیس بن مصھرصیداوی کو خط دے کر امام حسین علیہ السلام کا ان کو اہل کوفہ کی طرف روانہ کرنا ، جناب مسلم علیہ السلام کی شہادت کی خبر ، عبد اللہ بن مطیع کی امام حسین علیہ السلام سے گفتگو، نیزحضرت (ع)کا جواب(٤) اور جناب حبیب بن مظاہر کی شہادت کی روایت انھوں نے نقل کی ہے۔(٥) واضح رہے کہ عبداللہ بن مطیع والی روایت اور جناب حبیب بن مظاہر کی شہادت کی خبر ان سے بطور مرسل نقل ہوئی ہے یعنی درمیان سے راوی حذف ہے۔

کشی نے ذکر کیا ہے : ''یہ امام باقر علیہ السلام سے بڑی شدید محبت رکھتے تھے لہذاآپ نے ان کو فلاں اور فلاں کی باتیں سننے سے منع کیاتھا۔(٦) اس کے بعد کشی نے ذکر کیا ہے کہ آپ امام محمد باقر علیہ السلام کی امامت کے مدافع تھے۔(٧) نجاشی نے ان کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے : یہ ثقہ ، سر شناس اور کوفی ہیں ۔ امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہما السلام سے روایتیں نقل کرتے ہیں ۔(٨)

شیخ طوسی نے اپنی فہرست کے رقم ٥٩١و٦٤٤(٩) اور رجال میں آپ کو امام جعفر صادق کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔اور آپ کو اس نا م سے چار بار یاد کیا ہے۔(١٠) اسی طرح علامہ حلی نے الخلاصہ میں آپ کا تذکرہ کیا ہے۔(١١)

____________________

١۔طبری ،ج ٥، ص ٣٨٥ ---٢۔ الخلاصہ ،ص ١٩٣، ط نجف

٣۔ میزان الاعتدال، ج ٢، ص ١٣٩ ---٤۔طبری، ج٥، ص ٣٩٤ ۔ ٣٩٦

٥۔ طبری، ج٥ ، ص ٤٤٠ ---٦۔ص ٣٤٠ حدیث، رقم ٦٣٠

٧۔ص٢٣٧ حد یث ٤٣٠ ---٨۔رجال نجاشی، ص ٢٢٦،ط ھند ٩۔فہرست، ص ١٥٧و١٧٦

١٠۔ رجال شیخ ،ص ٢٩٨رقم ٢٩٤ ،طبع نجف ---١١۔ الخلاصہ، ص ١٥٠رقم ٦٠اور اس کے بعد ،ط نجف

۸۴

٨۔ عبداللہ بن شریک عامری نہدی :

امام حسین علیہ السلام کا شب عاشور مہلت مانگنا، شب عاشورآپ کے خطبے اور اشعار، حضرت زینب سلام اللہ علیہاکی گفتگو اور امام حسین علیہ السلام کے جواب کو یہ راوی امام زین العابدین علیہ السلام کے حوالے سے نقل کرتا ہے۔اسی طرح ایک مرسل روایت میں یہ راوی شمر کا حضرت عباس کے لئے شب عاشور امان نامہ لانا اور ٩ محرم کو غروب کے نزدیک پسر سعد ملعون کا امام علیہ السلام کے لشکر پر حملہ آور ہونے کا واقعہ نقل کرتا ہے۔(١)

کشی نے ذکر کیا ہے : ''یہ امام باقر اور صادق علیہما السلام کے خاص اصحاب میں شمار ہوتے ہیں ''۔(٢)

ایک روایت میں آیا ہے کہ عبد اللہ بن شریک امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی سپاہ میں بڑھ بڑھ کے حملہ کرنے والوں میں ہوں گے۔(٣) اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اس زمانہ میں یہ علمدار لشکر ہوں گے۔(٤)

تاریخ طبری سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جناب مختار کے خاص ساتھیوں میں سے تھے۔(٥) اس کے بعد مصعب بن زبیر کے اصحاب میں شمار ہونے لگے۔(٦) پھر ٧٢ ہجری میں عبدالملک بن مروان کے امان نامہ کی وجہ سے مصعب سے جدا ہوگئے۔ اس کے بعدشاید انھوں نے توبہ کرلی اور پھر ائمہ علیہم السلام کے اصحاب میں شمار ہونے لگے ۔

٩۔ ابو خالد کابلی :

انھوں نے ایک مرسل روایت میں صبح عاشورامام حسین علیہ السلا م کی دعا کو نقل کیا ہے۔ طبری نے ان کا نام ابو خالد کاہلی لکھا ہے لیکن کتب رجالی میں اس نا م کا کوئی شخص موجود نہیں ہے۔ مشہور وہی ہے جوہم نے ذکر کیا ہے اور یہی صحیح ہے ۔

کشی نے ذکر کیا کہ وہ حجاج کے خوف سے مکہ بھاگ نکلے اور وہاں خود کو چھپائے رکھا؛ اس طرح خود کو حجا ج کے شر سے نجات دلائی اور جناب محمد بن حنفیہ کے خدمت گذار ہوگئے یہاں تک کہ ان کی

____________________

١۔طبری، ج٥ ، ص ٤١٥ ۔ ٤١٦

٢۔رجال کشی ،ص١٠ ، حدیث ٢٠

٣۔ص ٣١٧، حدیث ٣٩٠

٤۔ص ٢١٧ ، ٣٩١

٥۔طبری ،ج ٦ ص ٤٩، ٥١و١٠٤

٦۔ج٦، ص ١٦١

۸۵

امامت کے قائل ہوگئے لیکن بعد میں اس باطل عقیدہ سے منھ موڑ کرامام سجاد علیہ السلام کی امامت کے معتقد ہوگئے۔اس کے بعد ان کاعقیدہ اتنا راسخ ہوا کہ آپ کے خاص اصحاب میں شمار ہونے لگے اور ایک عمر تک امام علیہ السلام کی خدمت گذاری کے شرف سے شرفیاب ہوتے رہے، پھر اپنے شہر کی طرف چلے گئے ۔(١) شیخ طوسی نے رجال میں ان کو امام سجاد علیہ السلام کے اصحاب میں ذکر کیا ہے ۔

ظاہراً یہ ان لوگوں سے محبت کرتے تھے جو جناب مختار کے ساتھ تھے، اسی لئے جناب محمدبن حنفیہ کی امامت کے قائل ہوگئے اور اسی وجہ سے وہ حجاج کے چنگل سے نکل کر مکہ کی طرف بھاگ نکلے، ورنہ مکہ کی طرف بھاگنے کا اس کے علاوہ کوئی دوسرا سبب نہیں ہوسکتا۔

١٠۔ عقبہ بن بشیر اسدی :

شیر خوار کی شہادت کا واقعہ انھوں نے امام صادق علیہ السلام کے حوالے سے نقل کیا ہے۔کشّی نے ان کا اس طرح ذکر کیا ہے:''عقبہ نے امام با قرعلیہ السلا م سے اجازت طلب کی کہ وہ حکومت وقت کی طرف سے اپنی قوم میں اپنے قبیلہ کے کارگزار بن جائیں ۔امام علیہ السلام نے انھیں اجازت نہیں دی۔ انھوں نے شیر خوار کی شہادت کو نقل کیا ہے۔(٢)

شیخ طوسی نے رجال میں ان کو امام زین العابدین(٣) اور امام محمد باقرعلیہ ا لسلام(٤) کے اصحاب میں ذکر کیا ہے۔ تاریخ طبری میں جناب مختار کے ساتھیوں کی مصیبت اور غم میں ان کے مر ثیے موجو د ہیں جسے پڑھاکرتے تھے۔(٥)

١١۔ قدامہ بن سعید :

قدامہ بن سعید بن زائدہ بن قدامہ ثقفی اپنے دادا سے روایتیں نقل کرتے ہیں جناب مسلم بن عقیل کے مقابلہ کیلئے محمد بن اشعث بن قیس کندی کے میدان نبرد میں آنے کی خبر، جناب مسلم کا قید کیاجانا ،(٦) آپ کاقصر دار الامارہ کے دروازہ پر پانی مانگنا اور آپ کو پانی پلائے جانے کی خبر(٧) قدامہ نے اپنے دادا زائد سے نقل کی ہے ۔شیخ طوسی نے ان کو امام صادق علیہ السلام کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔(٨)

____________________

١۔رجال کشی ،ص ١٢١ ،حدیث ١٩٣ ؛ رجال شیخ، ص١٠٠ رقم ٢ ---٢۔ رجال کشی، ص ٢٠٣ ،حدیث ٣٥٨

٣۔ رجال شیخ ،ص ٣٢ ---٤۔ص١٢٩ ،رقم ٢٩ ،ط نجف

٥۔طبری ،ج٦ ،ص ١١٦ ---٦۔ج٥ ، ص ٣٧٣

٧۔ج ٥ ، ص ٣٧٥ ---٨۔رجال شیخ، ص ٢٧٥،ط نجف

۸۶

١٢۔ حارث بن کعب والبی ازدی :

حارث بن کعب نے عقبہ بن سمعان ، امام زین العابدین علیہ السلام اور فاطمہ بنت علی علیہما السلام کے حوالے سے روایتیں نقل کرتے ہیں ۔

یہ جناب مختار کے ساتھیوں میں تھے، پھرکوفہ سے مدینہ منتقل ہوگئے اور وہاں پر امام علیہ السلام سے حدیثیں سنیں ۔شیخ طوسی نے ان کو اپنے رجال میں امام زین العابدین علیہ السلام کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔(١)

١٣۔ حارث بن حصیرہ ازدی :

یہ عبداللہ بن شریک عامری نہدی اور وہ امام علی بن الحسین علیہما السلام کے حوالے سے روایتیں نقل کرتے ہیں ۔ ان کے بارے میں تفصیلات گذرچکی ہے۔ شیخ طوسی نے ان کو امام زین العابدین اور امام محمد باقر علیھما السلام کے اصحاب میں ذکر کیا ہے۔(٢)

١٤۔ ابو حمزہ ثمالی :

ابوحمزہ ثابت بن دینار ثمالی ازدی عبداللہ ثمالی ازدی اور قاسم بن بخیت کے حوالے سے روایتیں نقل کرتے ہیں ۔ ان کی روایت شام میں اہل حرم کی اسیری کے سلسلے میں ہے۔ کشی نے ان کا تذکرہ کرتے ہوئے امام رضا علیہ السلام سے ایک روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا : ''ابوحمزة الثمالی فی زمانہ ،کلقمان فی زمانہ ، و ذالک انہ خدم ار بعةمنّا علی بن الحسین و محمد بن علی و جعفر بن محمد و بر ھة من عصر موسی بن جعفر ''(٣)

ابو حمزہ، لقمان زمانہ تھے اس کا سبب یہ ہے کہ انھوں نے ہم میں سے چار(اماموں) کو درک کیا ہے ؛ علی بن الحسین،محمد بن علی، جعفر بن محمد اور موسی بن جعفر کے تھوڑے سے زمانے کو درک کرنے کا شرف حاصل کیا ہے ۔

عامر بن عبداللہ بن جذاعہ ازدی نے امام جعفر صادق علیہ ا لسلام سے نشہ آور چیزوں کے بارے میں سوال کیاآپ نے فرمایا : ''کل مسکر حرام'' ہر مست کرنے والی چیز حرام ہے۔ عامر بن عبداللہ نے کہا: لیکن ابو حمزہ تو بعض مسکرات کو استعمال کرتے ہیں ! جب یہ خبر ابو حمزہ کو ملی تو انھوں نے تہہ دل سے

____________________

١۔رجال طوسی، ص ٨٧، ط نجف

٢۔ ص٣٩ ۔ ١١٨ ،ط نجف

٣۔ طبری ،ج٥، ص ٤٦٥

۸۷

توبہ کی اور کہا :''استغفر اللّه منه الان و اتوب الیه '' میں ابھی خدا سے استغفار کرتا ہوں اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں ۔

ابو بصیر امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوئے تو امام علیہ السلام نے ابو حمزہ ثمالی کے بارے میں سوال کیا۔ انھوں نے عرض کیا :میں جب ان کو چھوڑ کے آیا تو وہ مریض تھے۔ امام علیہ السلام نے فرما یا : جب پلٹنا تو ان کو میرا سلام کہنا اور ان کو بتا دینا کہ وہ فلاں مہینے او رفلاں روزوفات پائیں گے ۔

علی بن حسن بن فضال کہتے ہیں : حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت کے تقریباً ایک سال بعدابو حمزہ ، زرارہ اور محمد بن مسلم کی وفات ایک ہی سال میں واقع ہوئی ہے۔

نجاشی نے آپ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے: یہ کوفہ کے رہنے والے اور ثقہ تھے۔ محمد بن عمر جعابی تمیمی کا بیان ہے کہ آپ مہلب بن ابو صفرہ کے آزاد کردہ تھے۔آپ کے بیٹے منصور اور نوح سب کے سب زید بن علی بن حسین علیھما السلام کے ہمراہ شہیدکئے گئے ۔

آپ نے امام زین العابدین ، امام محمد باقر ، امام جعفر صادق اور امام موسی کاظم علیہ السلام کا زمانہ دیکھا ہے اور ان تما م ائمہ علیہم السلام سے روایتیں نقل کیں ہیں آپ کا شمار ہمارے نیکو کار بزرگوں اور روایت و حدیث میں معتمد و ثقہ لوگوں میں ہوتا ہے۔(١)

شیخ طوسی نے فہرست(٢) اور رجال میں آپ کو امام سجاد(٣) امام محمد باقر(٤) امام جعفر صادق(٥) اور امام موسی کاظم علیہم السلام کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔ ذہبی نے'' میزان الاعتدال''(٦) اور عسقلانی نے ''تہذیب ''(٧) میں آپ کا تذکرہ کیا ہے۔

____________________

١۔رجال نجاشی، ص ٨٣، ط ہند ---٢۔فہرست شیخ، ص٦٦، ط نجف

٣۔رجال شیخ، ص ٨٤، ط نجف --٤۔ص ٠ ١١

٥۔ ١٦٠،ط نجف

٦۔میزان الاعتدال، ج١، ص ٣٦٣

٧۔تہذیب التہذیب ،ج ٢،ص ٧

۸۸

یہ ہیں وہ چودہ ١٤ افراد جو ائمہ معصومین علیہم السلام اور ان کے اصحاب پر مشتمل ہیں اور اس کتاب کی سند میں واقع ہوئے ہیں ۔ ان کے علاوہ ابو مخنف نے عون بن ابی جحیفہ سوائی کوفی متوفیٰ ١١٦ھ سے یعنی اس کتاب میں تاریخ کے حوالے سے روایتیں نقل کی ہیں لیکن ان سے عینی شاہدین کے عنوان سے نہیں بلکہ بعنوان مورخ روایت نقل کی ہے ۔جیسا کہ'' تقریب التہذیب'' میں یہی مذکورہے۔ اس مورخ نے صقعب بن زھیر کے حوالے سے مدینہ سے مکہ کی طرف امام علیہ السلام کی روانگی ، مکہ میں آپ کی مدت اقامت اور پھر وہاں سے کوچ ...کا تذکرہ کیا ہے ۔

اب ہم اسی مقام پر اپنے مقدمہ کو اس امید کے ساتھ ختم کرتے ہیں کہ خداوند متعال ہمیں توفیق عطافر مائے کہ ہم سید الشہداء امام حسین بن علی علیہما السلام کی صحیح خدمت نیزان کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرسکیں ۔

۸۹

امام حسین علیہ السلام مدینہ میں

* معاویہ کی وصیت

* معاویہ کی ہلاکت

* یزید کا خط ولید کے نام

* مروان سے مشورت

* قاصد بیعت

* امام حسین علیہ السلام مدینہ میں

* ا بن زبیر کا موقف

* امام حسین علیہ السلام کا مدینہ سے سفر

۹۰

امام حسین علیہ السلام مد ینہ میں

معاویہ کی وصیت(١)

طبری نے اپنی تاریخ میں جلد ٥،ص ٣٢٢پراس طرح ذکر کیا ہے : پھر ٦٠ ھ کا زمانہ آگیا ...اور اس سال معاویہ نے ان تمام لوگوں کو بلایا جو عبید اللہ کی ہمراہی میں وفد کی شکل میں یزید کی بیعت کے لئے لوگوں کودعوت دے رہے تھے ...ان تمام لوگوں کو بلا کر اس نے عہدو پیمان باندھے جسے ہشام بن محمد نے ابو مخنف کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔ابو مخنف کہتے ہیں کہ ہم سے عبد الملک بن نوفل بن مساحق بن عبداللہ بن مخرمہ نے بیا ن کیا ہے کہ معاویہ جس مرض الموت میں ہلاک ہوا اسی مرض کی حالت میں اس نے اپنے

____________________

١۔معاویہ بن صخربن حرب بن امیہ بن عبدالشمس،ہجرت سے ٢٥سال پہلے متولد ہوا۔(طبری، ج٥، ص ٣٢٥)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف جنگو ں میں اس کے باپ ابو سفیان سے جنگ کی ہے۔ آخر کار ٨ھ میں فتح مکہ کے موقع پراپنے باپ ابو سفیان کے ساتھ دامن اسلام میں پناہ لی اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاویہ اور اس کے باپ کو مولفة القلوب میں شمار کیا۔ (طبری ،ج٣ ، ص ٩٠) عمر نے اپنے دور حکومت میں اس کو شا م کا گورنر بنادیا ۔(طبری ،ج٣، ص ٦٠٤)عثمان کے قتل تک اسی طرح یہ گورنری پر باقی رہا ۔ عثمان کے قتل کے بعد امیر المومنین علی علیہ السلام سے عثمان کے خون کا بدلہ لینے پر آمادہ ہوا اور جنگ صفین میں حضرت کے خلاف میدان جنگ میں آگیا۔ اس جنگ و جدال اور مخالفت کا سلسلہ جاری رہایہا ں تک کہ حضرت علی علیہ السلام شھید ہوگئے تو اس نے امام حسن علیہ السلام سے جنگ شروع کردی ؛بالآخر جمادی الاولیٰ٤١ ھ میں صلح ہوگئی اور اس سال کانام''عام الجماعة''رکھا گیا۔اس کے بعد ١٩سال ٣مہینہ یا٣مہینہ سے کچھ کم امیر شام نے حکو مت کی یہا ں تک کہ ٦٠ھ ماہ رجب میں اس کی موت ہوگئی۔ اس وقت معاویہ کا سن ٨٥ سال تھا ۔ اس واقعہ کوطبری نے کلبی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ کلبی نے اپنے والد سے نقل کیا ہے (تاریخ طبری،ج٥، ص ٣٢٥)

۹۱

بیٹے یزید(١) کو بلایا اور کہا :اے میرے بیٹے!میں نے رنج سفر سے تجھے آسودہ ، تمام چیزوں کو تیرے لئے مہیا ، تیرے لئے دشمنوں کو سرنگوں ، ذلیل و رسوا ، سارے عرب کی گردن کو تیرے آگے جھکادیااور تمام چیزوں کو تیرے لئے جمع کردیا ہے۔(٢)

اس کے بعد معاویہ نے ایک خط زیاد بن سمیہ کو اس عنوان سے لکھا (اس زمانے میں زیاد معاویہ کی طرف سے بصرہ کا گورنر تھا جس کی ابتدا ء ٤٥ھ سے ہوئی) کہ وہ اس امر میں مشورہ چاہتاہے۔ زیاد نے عبید بن کعب نمیری ازدی کو معاویہ کے پاس روانہ کیا اور اس تک یہ پیغام پہنچایا کہ زیاد یہ سمجھتا ہے کہ یزید کچھ دنوں کے لئے اپنی ایسی رنگینیوں سے دست بردارہوجائے جو لوگوں کو انتقام لینے پر مجبور کردیتی ہیں تاکہ گورنروں کو یزید کی ولی عہدی کی بیعت لینے میں آسانی ہو ...پھر ٣ ٥ھماہ مبارک رمضان میں زیاد بن سمیہ فی النار ہوا۔

____________________

١۔ ٢٨ھ میں یزید نے دنیا میں جنم لیا۔ اس کی ما ں کا نام میسون بنت بجدل کلبی ہے۔معاویہ نے لوگو ں کو اپنے بعدیزید کی ولی عہدی کی بیعت کے سلسلہ میں بلایا ۔بیعت یزید کی دعوت کا سلسلہ ٥٦ھ میں شروع ہوا ۔اور ٥٩ھ میں معاویہ نے وفد بھیج کر بیعت لینا شروع کیا ۔ یزید کی ولی عہدی کا سلسلہ ماہ رجب ٦٠ھ سے شروع ہوا ۔اس وقت وہ ٣٢سال کچھ مہینہ کا تھا اور ربیع الاول کی ١٤تاریخ کو ٦٤ھمیں مقام حوارین میں فی النار ہوا ۔(طبری ،ج٥ ،ص ٤٩٩) اس طرح اس کی مدت حکومت ٣سال ٨ مہینہ ١٤ دن ہوئی اور کل حیات ٣٦سال ہوئی ۔

آئندہ گفتگو میں یہ بات آ ئے گی کہ باپ کی موت کے وقت یزید وہا ں موجود تھا۔ اس کے وجود کی موافقت سبط بن جوزی نے'' تذکرة خواص الامة ''،ص٢٣٥پر کی ہے لیکن شیخ صدوق نے اپنی'' امالی'' میں امام زین العابدین علیہ السلام کے حوالے سے نقل کیا ہے اور اسی کو خوارزمی نے اپنے مقتل کے ص١٧٧پر ''اعثم کوفی'' متوفیٰ٣١٤ھکے حوالے سے نقل کیا ہے کہ وہ موجود تھا لیکن پھر شکار کے لئے چلا گیا اورتین دنو ں کے بعد واپس آیا تو محل میں داخل ہوگیا اور پھر ٣دن کے بعد باہرنکلا ۔ ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ معاویہ نے دووصیتی ں کی ہو ں ، پہلی یزید کی موجودگی میں اوردوسری یزید کی غیر موجودگی میں اور یہ وصیتی ں دو لوگو ں کے واسطے سے ہیں جن کا ذکر بعد میں آئے گا ،یہی وجہ ہے کہ دونو ں وصیتو ں میں اختلاف ہے ۔

٢۔ یہ کام معاویہ نے ١٠ سال میں کیا ہے، جس کی ابتدائ٥٠ ھسے ہوئی اور اس کے مرگ پر تمام ہوئی ہے ۔طبری نے اس کے سبب کو ج٥، ص ٣٠١ پر ذکر کیا ہے :مغیرہ بن شعبہ ٤٩ ھ میں طاعون کے خوف سے بھاگ کر کوفہ سے معاویہ کے پاس پہنچا (٤١ہجری یعنی عام الجماعةہی کے زمانے سے مغیرہ کوفہ کا گورنر تھا) اور معاویہ سے اپنی ناتوانی کا تذکرہ کرتے ہوئے چاہا کہ اسے دوبارہ کوفہ جانے سے معاف رکھا جائے معاویہ نے اسکے عذر کو قبول کرلیااور سعیدبن عاص کو اس کی جگہ پر کوفہ کاگورنر بنا کر بھیجنے کا ارادہ کرلیا ۔ اس واقعہ نے مغیرہ کی حسد کی چنگاری کو آتش فشا ں میں تبدیل کردیا لہٰذا وہ فوراً یزید کے پاس آیا اور ولی عہدی کے عنوان سے یزید کی بیعت کا سلسلہ چھیڑا ۔اس بات کو یزید نے اپنے باپ تک پہنچایا تو اس پر معاویہ نے مغیرہ کو کوفہ لوٹا دیااور حکم دیا کہ لوگو ں سے یزید کے لئے بیعت لے۔ اس طرح مغیرہ کوفہ لوٹا اور یزید کی بیعت کے سلسلہ میں کام کرنے لگا اور وفد کی شکل میں گروہ گروہ بنا کرلوگو ں کو معاویہ کے پاس بھیجنے لگا ۔

۹۲

اس وقت وہ کوفہ اور بصرہ دونوں کا گورنر تھا۔٥٦ھ ماہ رجب میں معاویہ نے عمرہ کا پروگرام بنایا اوروہاں پہنچ کر اس نے یزید کی ولی عہدی کا اعلان کرتے ہوئے لوگوں کو اس کی بیعت کی دعوت دینے لگا ۔ اس پرسعید بن عثمان سامنے آیا اور اس نے اس کی بڑی مخالفت کی تو یزید کی سفارش پرمعاویہ نے اسے خراسان کا گورنر بنادیا۔ اس کے بعد ٥٤ھ سے معاویہ کا نمک خوار مروان جو اس وقت سے لیکر آج تک مدینہ کا گورنرتھا معاویہ کے سامنے آیا اوربہت مخالفت کی تو معاویہ نے اسے خوب پھٹکارااور ٥٧ھ میں اسے گورنری سے معزول کردیا۔ طبری نے اس واقعہ کو اسی طرح لکھا ہے۔ ملاحظہ ہو ج٥، ص٣٠٩ ۔ مسعودی نے اپنی کتاب کی تیسری جلد کے٣٨ویں صفحہ پر مروان کی مخالفت کا مفصل تذکرہ کیا ہے۔عبیداللہ بن زیادجو ٥٥ھسے بصرہ کا گورنر تھا اس نے ٦٠ ھ میں ایک وفد شام کی طرف روانہ کیا تاکہ وہ معاویہ کے سامنے یزید کی بیعت کرے۔ (طبری ،ج ٥، ص ٣٢٢)

مجھکو اس حکومت کے سلسلے میں جو میں نے تیرے لئے استوار کی ہے قریش کے چار افرادسے خوف ہے :

١۔حسین بن علی(١) ٢۔ عبد اللہ بن عمر(٢)

____________________

١۔ امام حسین علیہ السلام نے ماہ شعبان ٤ھ میں اس دار فانی میں آنکھی ں کھولی ں ۔(طبری، ج٣ ، ص٥٥٥) اس طرح آپ نے ٦سال اپنے جد رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ زندگی بسر کی۔ اس کے بعد ٣٠ سال اپنے والد امیر المومنین علیہ السلام کے ساتھ زندگی گزاری ۔ ٣٠ سال کے سن میں عثمان کی خلافت کے زمانے میں اپنے بھائی امام حسن علیہ السلام، حذیفہ بن یمانی ، عبداللہ بن عباس اور اصحاب کے ایک گروہ کے ہمراہ سعید بن عاص کی سربراہی میں خراسان کی جنگ میں شرکت فرمائی۔ (طبری ،جلد٤ ،ص ٢٦٩) امام علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد ١٠ سال اپنے بھائی امام حسن کے ہمراہ ان کی خوشی و غم میں شریک رہے ۔یہی ١٠سال امام حسن علیہ السلا م کی امامت کی مدت ہے جو معاویہ کا بھی زمانہ ہے، یہا ں تک کہ وہ ہلاک ہوگیا اور آپ١٠ محرم ٦١ھبروزجمعہ شہید کردئے گئے۔ اس وقت آپ کی عمر ٥٦سال ٦مہینے تھی۔

٢۔عثمان کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی بیعت نہ کرنے والو ں میں سے ایک یہ بھی ہیں ۔ بیعت نہ کرنے پرحضرت علی علیہ السلام نے ابن عمر سے کہا :''انک لَسَیی ء الخلق صغیراً و کبیراً''(طبری ،ج ٤ ،ص ٤٢٨) تمہاری خلقت ہی خراب ہے چھوٹے رہو یا بڑے ہوجائو ۔دوسری جگہ ملتا ہے کہ آپ نے فرمایا :'' لولامااعرف من سوء خلقک صغیراً و کبیراً لأنکرتنی'' (طبری ،ج ٤، ص٤٣٦) اگر مجھے تمہار ی بری خلقت کی معرفت نہ ہوتی تو بھی تم میری مخالفت کرتے ؛لیکن حفصہ نے اپنے بھائی عبداللہ کوعائشہ کی ہمراہی سے روک دیا ۔(طبری، ج ٤، ص ٤٥١) اسی طرح حضرت علی علیہ السلام کے خلاف طلحہ و زبیر کے قیام کی درخواست کا جواب دینے سے بھی حفصہ نے عبداللہ بن عمر کو روک دیا۔ (طبری، ج ٤ ،ص ٤٦٠) عبد اللہ بن عمرابو موسی اشعری کا داماد تھا ، جب جنگ صفین میں ابو موسی کو حَکَم کے لئے منتخب کیا گیا تو ابو موسی نے اس کو (عبد اللہ بن عمر) بلایا اور اس کے ساتھ ایک جماعت کو دعوت دی ۔ عمروعاص نے اسے خلافت کی دعوت دی لیکن اس نے قبول نہیں کیا۔جب مرحلہ معاویہ تک پہنچ گیاتو یہ معاویہ کے پاس چلا گیا (طبری ،ج٥، ص ٥٨) اس نے اگر چہ یزید کی بیعت نہیں کی تھی لیکن امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعدا س نے اپنے داماد مختارکی آزادی کے لئے یزید کو ایک خط لکھا اور یزید نے بھی اس کی درخواست کو رد نہیں کیا۔ شاید اس کے بعد اس نے یزید کی بیعت کی ہے۔ (طبری، ج٥،ص ٥٧١) مسعودی کا بیان ہے کہ اس کے بعد اس نے ولید کے ہاتھو ں پر یزید کے لئے اور حجاج کے ہاتھو ں پر مروان کے لئے بیعت کی ہے۔ (مروج الذہب، ج ٢،ص٣١٦)

۹۳

٣۔ عبداللہ بن زبیر(١) ٤۔عبد الرحمن بن ابی بکر(٢)

ان میں سے عبد اللہ بن عمر وہ ہے جسے عبادت نے تھکا دیا ہے؛ اگر وہ تنہا رہ جا ئے گا تو بیعت کر لے گا ،لیکن حسین بن علی وہ ہیں کہ اگر اہل عراق ان کو دعوت دیں گے تو وہ قیام کر یں گے؛(٣) اگر وہ

____________________

١۔عبد اللہ بن زبیرپہلی یا دوسری ہجری میں متولد ہوا۔جب عثمان کا گھر اؤ ہوا تھا تو اسی نے عثمان کی مدد کی یہا ں تک کہ خود مجروح ہوگیا ۔ (طبری، ج ٤،ص ٣٨٢) یہ کا م اس نے اپنے باپ زبیر کے حکم پر انجام دیا تھا ۔(طبری ،ج٤،ص٣٨٥) اور عثمان نے زبیر سے اس کے سلسلہ میں ایک وصیت کی تھی۔ (طبری ،ج٤،ص٤٥١) یہ اپنے باپ کے ساتھ جنگ جمل میں شریک تھا۔اور اس کو حق کی طرف پلٹنے اور تو بہ کر نے سے روکا تھا۔ (طبری ،ج٤،ص ٥٠٢) عائشہ نے اسے بصرہ کے بیت المال کا امیر بنا یا تھاکیو نکہ یہ عائشہ کا مادری بھا ئی تھا جس کا نام''ام رومان'' تھا (ج٤،ص ٣٧٥)پھر یہ زخمی ہوا اور وہا ں سے بھاگ نکلا پھرٹھیک ہوگیا ۔(ج٤،ص٥٠٩) حضرت علی علیہ السلام نے اسے'' برائیو ں کے فرزند'' کے نام سے یاد کیا ہے۔ (ج٤،ص٥٠٩) یہ معاویہ کے ساتھ تھا تو معاویہ نے عمر وعاص کے ہمراہ اسے محمدبن ابی بکر سے جنگ کے لئے بھیجا ۔جب عمروعاص نے محمد کو قتل کر نے کا ارادہ کیا تو اس نے محمد کے سلسلے میں سفارش کی لیکن معاویہ نے اس کی سفارش قبول نہیں کی (طبری، ج ٥،ص ١٠٤) امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد یہ مکہ نکل گیا (طبری ،ج٥،ص ٤٧٤) اور ١٢ سال تک وہا ں ان لو گو ں سے لڑتا رہا یہا ں تک کہ عبد الملک بن مروان کے زمانے میں جمادی الاولی ٧٣ ھمیں حجاج نے اس کو قتل کر دیا۔(ج٦ ،ص ١٨٧) اس کے ایک سال قبل اس کا بھا ئی مصعب'' انبار'' نامی جگہ پر قتل ہوا جس کی طرف خود عبدالملک نے اقدام کیا تھا۔

٢۔ اسد ا لغابہ میں ہے کہ عبدالرحمن بن ابی بکر یزید کی بیعت کے مطالبہ سے پہلے ہی مدینہ سے نکل گئے تھے اور حبشی نامی جگہ پر وفات ہو چکی تھی جو مکہ سے ١٠ میل کے فاصلہ پر ہے۔ یہ واقعہ ٥٥ ھ کا ہے لہٰذا یہ بات معاویہ کی وصیت سے یہ موا فقت نہیں رکھتی ہے، واللہ اعلم ۔

٣۔ اس کا اندازہ اس سے ہو تا ہے جیسا کہ یعقوبی نے روایت کی ہے کہ اہل عراق نے امام علیہ السلام کو اس وقت خط لکھا جب آپ مدینہ میں تھے اور امام حسن علیہ السلام شہید ہو چکے تھے۔ اس خط میں تحریر تھا کہ وہ لوگ امام علیہ السلام کے حق کے لئے قیام کے منتظر ہیں ۔ جب معاویہ نے یہ سنا تو اس پر اس نے امام علیہ السلام کی مذمت کرنے کی کو شش کی ۔ امام علیہ السلام نے اس کی تکذیب کی اور اس کو خاموش کردیا ۔

۹۴

خروج کریں تو ان سے جنگ کر کے ان پر فتح حاصل کر نا لیکن ان کے قتل سے درگذر کرنا اور گزشتہ سیاست پر عمل کرنا( ١) کیونکہ ان سے رشتہ داری بھی ہے اور ان کا حق بھی بزرگ ہے ۔اور جہاں تک ابوبکر کے بیٹے کی بات ہے تو اس کی رائے وہی ہو گی جو اس کے حاشیہ نشینوں کا مطمح نظر ہو گا۔ اس کا ہم وغم فقط عورتیں اور لہوو لعب ہے؛ لیکن جوشیر کی طرح تمہاری گھات میں لگا ہے اور لو مڑی کی طرح تجھ کو موقع ملتے ہی فریب دینا چاہتاہے اور اگر فر صت مل جائے تو تجھ پر حملہ کردے وہ ابن زبیر ہے ؛ اگر اس نے تیرے ساتھ ایسا کیا تو اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دینا ۔(٢)

معاویہ کی ہلا کت

٦٠ ھ میں معاویہ واصل جہنم ہوا(٣) معاویہ کی موت کے بعد ضحاک بن قیس فہری(٤) اپنے ہاتھوں میں معاویہ کا کفن لپیٹے باہر نکلا اور منبر پر گیا۔ خدا کی حمد و ثنا کی اور اس طرح کہنے لگا : بیشک معاویہ قوم عرب کی تکیہ گا ہ تھے۔ ان کی شمشیر براں کے ذریعہ خدا نے فتنوں کو ٹالا،بندوں پر حکومت عطا کی اور ملکوں پر فتح و ظفر عنایت فرمائی۔ اب وہ مر چکے ہیں اور یہ ان کا کفن ہے ہم اس میں ان کو لپیٹ کر قبر میں لٹادیں

____________________

١۔یہ بات پو شیدہ نہیں رہنی چا ہئے کہ امیر شام نے یہ کہا تھا کہ'' فان خرج علیک فظفرت ''، یعنی اگر وہ خروج کری ں تو ان کے ساتھ فتح وظفر تک لڑتے رہنا لیکن قتل نہ کر نا۔ اس طرح وہ دو خوبیو ں کو جمع کر نا چاہتا تھا؛ ایک فتح وظفر دوسرے انتقام نہ لینا ۔اس مطلب پر معاویہ کا وہ خط دلالت کر تا ہے جو اس نے امام حسین علیہ السلام سے جنگ کرنے کے سلسلے میں لکھا تھا اور اپنے غلام سر جون رومی کے پاس امانت کے طور پر رکھو ایا تھا؛ جس میں اس نے یہ لکھا تھا کہ اگر عراق میں حالات خراب ہونے لگی ں تو فوراًابن زیاد کو وہا ں بھیج دینا؛ جیسا کہ آئندہ اس کی روداد بیان ہو گی ۔

٢۔اس کی روایت خوارزمی نے اپنی کتاب کے ص١٧٥ پر کچھ اضافے کے ساتھ کی ہے ۔

٣۔ طبری ،ج ٥،ص ٣٢٤پر ہشام بن محمد کا بیان ہے اور ص ٣٣٨۔ پر ہشام بن محمد ابو مخنف سے نقل کرتے ہیں کہ ماہ رجب ٦٠ ھ میں یزید نے حکو مت کی باگ ڈور سنبھالی ۔

٤۔ ضحاک بن قیس فہری جنگ صفین میں معاویہ کے ہمرا ہ تھا۔ وہا ں معاویہ نے اسے پیادہ یا قلب لشکر کا سر برا ہ بنا یا تھا۔ اس کے بعد اپنی حکومت میں جزیرہ'' حران'' کا والی بنایا ۔وہا ں پر عثمان کے چاہنے والے کوفہ وبصرہ سے اس کے ارد گرد جمع ہونے لگے۔ اس پر علی علیہ السلام نے اس کی طرف مالک اشتر نخعی کو روانہ کیا اور ٣٦ھ میں جناب مالک اشتر نے اس سے جنگ کی ،پھر

۹۵

معاویہ نے دمشق میں اسے اپنی پولس کی سربراہی پر مقرر کردیایہا ں تک کہ ٥٥ھمیں جب یزید کی ولی عہدی کی بیعت لینے کا ارادہ کیا تو اسے کوفہ بھیج دیا ۔پھر ٥٨ھ میں اسے کوفہ سے واپس بلا کر دوبارہ پولس کا سربراہ بنا دیا٦٠ ھتک وہ اس عہدے پرمقرر رہا یہا ں تک کہ بصرہ سے عبیداللہ بن زیاد کا ایک گروہ وفد کی شکل میں وہا ں پہنچا اور معاویہ نے ان لوگو ں سے اپنے بیٹے یزید کی بیعت لی ۔(مسعودی ،ج٢،ص٣٢٨)

ان واقعات کی طبیعی مسیر سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ملعون اس وقت تک اپنے منصب پر باقی تھا جب آل محمد کا قافلہ شام پہنچا ہے۔ ٦٤ھ میں معاویہ بن یزید مر گیا توپہلے ضحاک نے لوگو ں کو اپنی طرف بلایا پھر لوگو ں کو ابن زبیر کی طرف دعوت دی یہا ں تک کہ جب مروان مدینے سے اور عبید اللہ بن زیاد عراق سے شام پہونچے تو ابن زیاد نے مروان کو خلافت کی لالچ دلائی لہٰذا مروان نے لوگو ں کو اپنی طرف بلایا اور لوگو ں نے مروان کی بیعت کر لی ،اس پر ضحاک دمشق میں متحصن ہوگیا پھر وہا ں سے نکل کر مقام ''مرج راھط''(دمشق سے چند میل کے فاصلہ) پر مروان سے جنگ پر آمادہ ہوگیا۔ ٢٠ دنو ں تک یہ جنگ چلتی رہی۔ آخر کار ضحاک کے ساتھی بھاگ کھڑے ہوے اوروہ خود ماراگیا۔ اس کا سرماہ محرم ٦٤ھیا ٦٥ھمیں مروان کے پاس لایا گیا۔ (طبری ،ج ٥،ص ٥٣٥،٥٤٤)یہ شخص اتنا ملعون تھا کہ امیر المومنین علی علیہ السلام ہر نماز کے قنوت میں اس پر لعنت بھیجا کرتے تھے۔(طبری ،ج ٥،ص ٧١ووقعةصفےّن، ص ٦٢)

۹۶

گے اوران کو ان کے عمل کے ساتھ وہاں چھوڑ دیں گے۔ تم میں سے جو ان کی تشییع جنازہ میں شرکت کرناچاہتا ہے وہ ظہر کے وقت آجائے ، اس کے بعداس نے نامہ برکے ذریعہ یزید کے پاس معاویہ کی بیماری کی خبر بھجوائی۔(١)

____________________

١۔طبری نے وصیت کو اسی طرح نامہ بر کے حوالے سے لکھا ہے کہ نامہ بر یزید تک پہنچا لیکن یزید نے کب سفر کیا اور کہا ں غائب تھا اس کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ طبری نے ہشام سے اور اس نے عوانہ بن حکم (متوفیٰ١٥٧ ھ)سے اس طرح روایت نقل کی ہے کہ یزید غائب تھا تو معاویہ نے ضحاک بن قیس جو اس وقت اس کی پولس کا سربراہ تھا اور مسلم بن عقبہ مری جس نے مدینہ میں واقعہ حرہ کے موقع پر یزید کے لشکر کی سربراہی کی تھی ، کو بلایا اور ان دونو ں سے وصیت کی اور کہا : تم دونو ں یزید تک میری یہ وصیت پہنچادینا۔

وصیت کی یہ روایت ابومخنف کی روایت سے کچھ مختلف ہے۔ بطور نمونہ (الف) ابو مخنف کی روایت میں چار افراد کا تذکرہ ہے جن سے معاویہ کو خوف تھا کہ وہ یزید کی مخالفت کری ں گے جن میں سے ایک عبدالرحمن بن ابی بکر ہے لیکن اس روایت میں مذکورہ شخص کا کو ئی تذکرہ نہیں ہے۔ (ب)ابومخنف کی روایت میں ہے کہ معاویہ نے کہا کہ امام حسین علیہ السلام سے عفو وگذشت سے کام لینا لیکن اس روایت میں ہے کہ امید ہے کہ خدا ان کو کوفیو ں کے لشکر سے بچائے جنہو ں نے ان کے باپ کو قتل کیا اور بھائی کوتنہا چھوڑ دیا۔ (ج) ابومخنف کی روایت میں ہے کہ ابن زبیر کو ٹکڑے ٹکڑے کردینا لیکن اس روایت میں صلح کی وصیت ہے اور قریش کے خون سے آ غشتہ نہ ہونے کا تذکرہ ہے۔یزید کا ولید کو خط لکھ کر لوگو ں کا نام پیش کرنا اور اس میں ابن ابی بکر کا تذ کرہ نہ کرنا اس روایت کی تائید کرتاہے۔ اسی طرح سر جون رومی کے پاس محفوظ خط میں معاویہ کا ابن زیاد کو عراق کے حاکم بنانے کی وصیت کرنا بھی اس روایت کی تائید کرتی ہے ۔

۹۷

اب رہا سوال کہ یزید کہاں غائب تھا تو طبری نے علی بن محمد سے (ج٥،ص١٠) پر روایت کی ہے کہ یزید مقام ''حوارین''پر تھا ۔ خوارزمی نے(ص١٧٧)پر ابن اعثم کے حوالے سے ذکر کیا ہے کہ یزید اس دن وصیت کے بعد شکار کے لئے نکل گیا تھا۔ اس طرح وصیت کے وقت حاضر ہونے اور موت کے وقت غائب رہنے کا فلسفہ سمجھ میں آتاہے ۔

خط کو پڑھ کر یزید نے یہ کہا :

جاء البرید بقرطاس یخب به

فاوجس القلب من قرطاسه فزعا

قلنا لک الویل ما ذافی کتابکم؟

کأنّ اغبرمن ا ر کانها ا نقطعا

من لا تزل نفسه توفی علی شرف

توشک مقالید تلک النفس ان تقعا

لماانتهیناوباب الدارمنصفق

وصوت رمله ریع القلب فانصدعا(١)

نامہ بر شتاباں خط لے کر آیا، جس کی وجہ سے دل بیتاب اور ہراساں ہوگیا ،میں نے اس سے کہا وائے ہو تجھ پر تیرے اس خط میں کیا پیغام ہے، گویا زمین اپنے ارکان سے جدا ہو گئی ہے ،اس نے کہا حقیقت یہ ہے کہ خلیفہ بستر علالت پر ہیں ، یہ سن کر میں نے کہا:جس کی حیات شرافت و درستی سے عجین ہے قریب ہے کہ اس کی زندگی کا خاتمہ ہوجائے، جب پہنچاتو گھر کا دروازہ بند تھا اور دل رملہ کے نالہ و شیوان سے پھٹنے لگا ۔

یزید کا خط ولید کے نام

یزید نے ماہ رجب میں حکومت کی باگ ڈور سنبھالی۔ اس وقت مدینہ کا حاکم ولید بن عتبہ بن ابو سفیان،(٢) مکہ کا حاکم عمر بن سعید بن عاص ،(٣) کوفہ(٤) کا حاکم نعمان بن بشیر انصاری ،(٥) اور بصرہ کا گورنر عبید اللہ بن زیاد(٦) تھا۔

____________________

١۔طبری ،ج٥،ص٣٢٧ ۔یہ روایت ہشام بن محمد سے ابی مخنف کے حوالے سے نقل ہوئی ہے کہ ابو مخنف نے کہا کہ مجھ سے عبد الملک بن نوفل بن مساحق بن عبداللہ بن مخرمہ نے روایت کی ہے کہ اسی نے کہا :'' لما مات معاویہ خرج ...''جب معاویہ کو موت آئی تو وہ نکلا

۹۸

٢۔ ٥٨ھ میں یہ معاویہ کی طرف سے مدینہ کا حاکم مقرر ہوا ۔(طبری، ج ٥ ،ص ٣٠٩) جب اس نے امام حسین علیہ السلام کے سلسلے میں سستی کا مظاہرہ کیا تو یزید نے اس سال اسے معزول کر کے عمر وبن سعید اشدق کو مدینہ کا حاکم بنا دیا۔(طبری، ج ٥،ص ٣٤٣) اس کا باپ عتبہ صفین میں معاویہ کے لشکر کے ساتھ تھا اور اس کے دادا کو حضر ت علی علیہ السلام نے فی النار کیا تھا ۔(وقعہ صفین، ص ١٧) آخری موضوع جو تاریخ طبری میں اس شخص کے سلسلے میں نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ یزید کی ہلا کت کے بعد ضحاک نے لوگو ں کو ابن زبیر کی بیعت کے لئے بلا یا تو ولید نے اسے گا لیا ں دی ں جس پر ضحاک نے اس کو قید کردیا۔ (طبری ،ج٥،ص٥٣٣) تتمتہ المنتھی کے ص٤٩ پر محدث قمی فرماتے ہیں کہ معاویہ بن یزید بن معاویہ کے جنازہ پر نماز پڑھتے وقت ولید پر حملہ کیا گیا اور اسی حملہ میں وہ مرگیا ۔

٣۔ماہ رمضان ٦٠ھ میں یزید نے اسے مدینہ کا گورنر بنا یا پھر مو سم حج کی سر براہی بھی اسی کے سپرد کی۔ اس نے ٦٠ھ میں حج انجام دیا ۔یہ مطلب اس روایت کی تا یید کرتا ہے جس میں اس طرح بیان ہو اہے : '' ان یزید اوصاہ بالفتک بالحسین اینما وجد ولو کان متعلقا با ستا ر الکعبہ'' یزید نے اپنے اس پلید عنصر کو حکم دیا کہ حسین کو جہا ں پاؤ قتل کر دو چاہے وہ خانہ کعبہ کے پر دہ سے کیو ں نہ لپٹے ہو ں ۔

خالد بن معاویہ بن یزید (جو مروان بن حکم کے بعد حاکم بناتھا) کے بعد عمروبن سعید اموی۔ حکمرانی کے لئے نا مزد ہوا ۔. بیعت کے مراسم مقام ''جو لان''میں اداکئے گئے جو دمشق اوراردن کے درمیان ہے۔بیعت کا یہ جشن ٤یا ٥ ذی قعدہ ٦٤ ھ چہار شنبہ یا پنجشنبہ کے دن منایا گیا۔ یہ واقعہ معاویہ بن یزید کی ہلا کت کے بعد ہوا اور اسی دن سے دمشق کی حکو مت عمروبن سعید کے ہا تھو ں میں آگئی ۔

پھر جب ضحاک بن قیس فہری دمشق سے ان لوگو ں کی طرف نکلا تا کہ لوگو ں کو اپنی طرف یا ابن زبیر کی طرف دعوت دے اور مروان نے ارادہ کیا کہ اس سے نبرد آزمائی کرے تو عمروبن سعید میمنہ پر تھا (طبری، ج٥،ص ٢٢٧) پھر اس نے مروان کے لئے مصر کو فتح کیا اور مصعب بن زبیر سے فلسطین میں جنگ کی یہا ں تک کہ اسے ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔(طبری ،ج٥،ص٥٤٠) وہا ں سے لوٹ کر جب یہ مروان کے پاس آیا تو مروان کو معلوم ہوا کہ حسان بن بجدل کلبی جو یزید بن معاویہ کا مامو ں اور قبیلۂ بنی کلاب کا بزرگ تھا(یہ وہی شخص ہے جس نے لوگو ں کو مروان کی بیعت کے لئے برا نگیختہ کیا تو لوگو ں نے اس کی بیعت کی) اس نے خود جا کر لوگو ں سے عمروبن سعید کے لئے بیعت لی ۔یہ خبر سنتے ہی مروان نے حسان کو بلا یا اور جو بایت ں اس تک پہنچی تھی ں اس سے با خبر کرایا تو حسان نے انکار کر تے ہوئے کہا :'' انا اکفیک عمرواً ''میں عمرو کے لئے تنہا ہی کا فی ہو ں پھر جب رات کے وقت لوگ جمع ہوئے تو وہ تقریر کے لئے اٹھا اور لوگو ں کو مروان کے بعد عبد الملک کی بیعت کے لئے دعوت دی۔ اس پر لوگو ں نے اس کی بیعت کی۔ ٦٩ھ یا ٧٠ ھیا ٧١ھ میں عبدالملک بن مروان زفر بن حارث کلابی سے جنگ کے ارادہ سے باہر نکلا یا دیرجا ثلیق کی طرف گیا تاکہ مصعب بن زبیر سے جنگ کرے اور دمشق میں اپنا جانشین عبد الرحمن ثقفی کو بنا یا تو اشدق نے عبدالملک سے کہا :'' انک خارج الی العراق فاجعل لی ہذا الا مرمن بعدک '' آپ عراق جا رہے ہیں لہٰذا اپنی جگہ پر مجھے جا نشین بنادیجئے ۔اس کے بعد اشدق دمشق پہنچا تو ثقفی وہا ں سے بھاگ گیا ،پھر جب عبدالملک دمشق پہنچا تو اس نے صلح کرائی اس کے بعد وہ دمشق میں داخل ہوا پھر اسی نے راتو ں رات اپنے ہی محل میں اسے اپنے ہاتھو ں سے قتل کردیا ۔ (طبری ،ج٥،ص ١٤٠۔ ١٤٨) اس کا باپ سعید بن عاص وہی ہے جو عثمان کے دور حکومت میں کوفہ کا گورنر تھا اور شراب پیتا تا ، اہل کوفہ نے اس کی عثمان سے شکایت کی لیکن اسکے باوجودبھی وہ شراب نوشی کی عادت سے باز نہیں آیا لہٰذا امیر المومنین علی علیہ السلام نے اس پر حد جاری کی ۔

مجمع الزواید، ج ٥، ص ٦٤٠ پر ابن حجر ہیثمی نے اور تطہیر الجنان میں لکھا ہے کہ ابو ہر یرہ نے کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کو کہتے سنا ہے :'' لیر فعن علی منبری جبارمن جبا برة بنی امیہ فیسیل رعافة'' بنی امیہ کے ظالم وجابر حکمرانو ں

۹۹

میں سے ایک جبار کی نکسیر میرے منبر پر پھو ٹے گی اور اس کا خون جاری ہوگا ۔. پیغمبر اسلام کی یہ پیشین گوئی عمروبن سعید کے سلسلے میں سچی ثابت ہوئی کیو نکہ اس کی نکسیر اس وقت پھو ٹی جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ کے منبر پر بیٹھا تھا یہا ں تک کہ اس کا خون جاری ہونے لگا ۔

٤۔ ''جلو لا ئ'' میں مسلمانو ں کو کا میابی ملنے کے بعد سپہ سالا ر لشکر سعد بن ابی وقاص نے عمر کو خط لکھا جس کا. عمر نے اس طرح جواب دیا : '' ابھی وہیں رہو اور لوگو ں کی بات نہ سنو اوراسے مسلمانو ں کے لئے دار ہجرت اور منزل جہاد قرار دو! '' توسعد نے مقام ''انبار'' پر پڑائو ڈالا لیکن وہا ں فوج شدید بخار میں گر فتارہو گئی تو سعد نے خط لکھ کر عمر کو با خبر کیا؛عمر نے سعد کو یہ جواب دیا : عرب کے لئے وہی زمین مناسب ہے جہا ں اونٹ اور بکریا ں آرام سے رہ سکی ں لہٰذا ایسی جگہ دیکھو جو دریا کے کنا رے ہو اور وہیں پڑائوڈال دو ۔سعد وہا ں سے چل کر کوفہ پہنچے، (طبری ،ج٣،ص ٥٧٩) کوفہ کے معنی ریتیلی اور پتھر یلی زمین ہے (طبری ،ج٣،ص ٦١٩) جہا ں فقط سرخ ریت ہوتی ہے اسے ''سہلہ '' کہتے ہیں اور جہا ں یہ دونو ں چیز ی ں ملی ہو ں اسے ''کوفہ '' کہتے ہیں ۔ (طبری، ج ٤،ص ٤١) کوفہ میں ٣ دیر تھے : دیر حرقہ ، دیر ام عمرو اور دیر سلسلہ۔(طبری ،ج٤،ص ٤١)ان مسلمانو ں نے محرم ١٧ ھ میں نرکل اور بانس سے مکان تیار کیا لیکن کچھ دنو ں کے بعد شوال کے مہینہ میں ایک بھیانک آگ نے سارے کوفہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جسکی وجہ سے ٨٠ سائبان نذر آتش ہو گئے اور تمام نرکل اور بانس کے بنے ہوئے مکان جل گئے۔ اس حالت کو دیکھ کر سعد نے ایک آدمی کو عمر کے پاس بھیجا تا کہ وہ اس بات کی اجازت لے کر آئے کہ یہا ں اینٹ کے مکانات تعمیر ہو سکی ں ۔ عمر نے کہا : اسے انجام دو لیکن خیال رہے کہ ہر گھر میں ٣ کمرو ں سے زیادہ نہ ہو ں اور اس سلسلے میں کو ئی زیادہ روی نہ ہو ۔اس وقت گھرو ں کی تعمیر کا ذمہ دار ابوالھیاج تھا، لہٰذا سعد نے عمر کے بتائے ہوئے نقشہ کو اس کے سامنے پیش کیا اور درخواست کی کہ اس روش کے مکا نات تعمیر کرائے۔ اس طرح اس شہر کی تعمیر نو کا آغاز ہوا جس کا نام کو فہ ہے ۔ عمر نے اپنے نقشہ میں لکھا تھا کہ اصلی شاہراہ ٤٠ ذراع ہو اور اس کے اطراف کی سڑ کی ں اہمیت کے اعتبار سے ٢٠ اور ٣٠ ذراع ہو ں ۔ اسی طرح گلیا ں ٧ میٹر ہو ں ، لہٰذ ا انجینیر و ں کی ایک کمیٹی نے بیٹھ کر مشورہ کر نے کے بعد کام شروع کیا ۔ ابو الہیاج نے سب کے ذمہ کا م تقسم کر دیا سب سے پہلے جو چیز کو فہ میں بنائی گئی وہ مسجد ہے۔مسجد کے اطراف میں بازار بنایا گیا جس میں کھجور اور صابون بیچنے والے رہنے لگے اس کے بعد ایک بہترین تیر انداز درمیان سے اٹھا اور اس نے داہنی طرف ، آگے اور پیچھے تیر پھینکا اور حکم دیا کہ جو چاہے تیر کے گرنے کی جگہ کے آگے سے اپنے اپنے گھر بنالے اور مسجد کے آگے ایک سائبان بنایا گیا جو سنگ مرمر کا تھا اور کسریٰ سے لایا گیا تھا۔ اس کی چھت رومیو ں کے کنیسہ جیسی تھی۔ بیچ میں ایک خندق کھودی گئی تا کہ مکان بنانے میں آگے پیچھے نہ کر سکی ں ۔ سعد کے لئے ایک ایسا گھر بنایا گیا جس کا ایک راستہ دوسوذراع کا بنایا گیا جو نقیبو ں کے لئے تھا جس میں بیت المال بنائے گئے۔ یہی قصر کوفہ کہا جا تا ہے جسے ''روز بہ ''نے مقام ''حیرة'' سے اینٹی ں لا کر کسری جیسی عمارت بنائی تھی۔ (طبری، ج٤ ،ص ٤٤۔٤٥) سعد نے اس محل میں سکونت اختیار کی؛ جو محراب مسجد سے متصل تھا اور اسی میں بیت المال رکھا اور اس پر ایک نقیب (نگرا ں) کو معین کیا جو لوگو ں سے اموال لیتا تھا۔ ان تمام مطالب کی روداد سعد نے عمر تک پہنچائی ۔اس کے بعد مسجد کو منتقل کیا گیا اور

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438