واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا9%

واقعۂ کربلا مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 438

واقعۂ کربلا
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 438 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 192916 / ڈاؤنلوڈ: 5407
سائز سائز سائز
واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

میں آنا ، آپ کا اسیر ہو نا، قصر کے دروازہ پر پہنچ کر پانی طلب کرنااورآپ کوپانی پلائے جانے کاواقعہ اسی شخص کے حوالے سے مرقوم ہے ۔(ج٥،ص٣٧٥)

'' طبری ''نے اس شخص کو'' قدامہ بن سعیدبن زائدہ بن قدامہ ثقفی'' کے نام سے یاد کیاہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ زائدہ بن قدامہ ، قدامہ بن سعید کے دادا ہیں اور وہ کوفہ کی پر ماجراداستان میں موجود تھا اور اس کا پوتا'' قدامہ بن سعید ''وہ ہے جسے جناب شیخ طوسی نے اما م صادق علیہ السلام کے اصحاب میں ذکر کیا ہے۔ (طبری ،ص٢٧٥،ط نجف) لہٰذاہمارے نزدیک یہی صحیح ہے کہ'' قدامہ بن سعید، زائدہ بن قدامہ ثقفی'' سے روایت نقل کرتے ہیں ۔

٥٨ ہجری میں عام الجماعة(١) کے بعد معاویہ بن ابی سفیان کی طرف سے عبدالرحمن بن ام حکم ثقفی کے دور حکومت میں قدامہ بن سعیدکا دادا زائدہ بن قدامہ کو فہ کی پو لیس کا سربراہ تھا۔ (ج٥ ،ص٣١٠)جب ابن زیاد نے جناب مسلم علیہ السلام کے ارد گرد سے لوگوں کو جدا کرنے کے لئے پرچم امان بلند کیا تو'' عمر و بن حریث ''کے ہمراہ یہ شخص اس پرچم امن کا پرچمدار تھا۔ اسی شخص نے اپنے چچا زاد بھائی مختار کی سفار ش کی تھی، یہی وہ شخص ہے جو کوفہ میں ابن زیاد کے قید خانے سے مختار کا خط لیکر مختار کے بہنوئی عبداللہ بن عمر کے پاس لے گیا تھا۔ تاکہ وہ یزید کے پاس جا کرمختار کی رہائی کی سفارش کرے۔ صفیہ بنت ابی عبید ثقفی کے شوہر عبداللہ بن عمر ، مختار کے بہنوئی نے جاکر وہاں سفارش کی تو مختار کو ابن زیاد نے آزاد کردیا ، لیکن ابن زیاد نے اس فعل پر ''زائد بن قدامہ'' کا پیچھاکیا تو وہ بھاگ نکلا یہاں تک کہ ان کے لئے امن کی ضمانت حاصل کی گئی۔ (ج٥،ص٥٧١)جب عبداللہ بن زبیر کی طرف سے مقرر والی کوفہ عبداللہ بن مطیع کی بیعت ہونے لگی تو بیعت کرنے والوں کے ہمراہ'' زائد بن قدامہ ''نے بھی ابن مطیع کی بیعت کی ابن مطیع نے بیعت کے فوراً بعد ابن ''قدامہ'' کو مختار کی طرف روانہ کیا تاکہ مختار کو بیعت کی دعوت دیں ،لیکن ابن قدامہ نے جب مختار کو اس کی خبر دی تو مختار نے خوشی کا اظہار نہیں کیا۔ (ج٦،ص١١)

____________________

١۔ جماعت کا سال وہ سال ہے جس کا نام معاویہ نے جماعت کا سال رکھا تھا جسکے بعد اہلسنت خود کو اہلسنت والجماعت کہنے لگے ۔

۶۱

کوفہ سے مختار کے قیام کا آغاز اسی شخص کے باغ سے ہواتھا جو محلہ'' سبخہ'' میں تھا۔ (ج٦ ،ص٢٢) ابن زبیر کے مقرر کردہ والیٔ کوفہ عمر بن عبدالرحمن مخزومی کو ہٹانے کے لئے مختار نے اسی شخص کو روانہ کیا تھا اور ابن قدامہ نے اسے دھمکی اورمال کی لالچ دیکرہٹادیا ۔(ج٦، ص٧٢) کچھ دنوں کے بعد یہ شخص عبدالملک بن مروان سے ملحق ہوگیااور اس کے ہمراہ مصعب بن زبیر سے جنگ شروع کی یہاں تک کہ ''دیر جاثلیق ''میں مختار کے خون کا انتقام لینے کے لئے اس نے مصعب کے خون سے اپنی شمشیر کو سیراب کر دیا ۔(ج٦،ص١٥٩)

بالآخر حجاج نے ابن قدامہ کوایک ہزار فوج کے ہمراہ مقام'' رودباد ''میں شبیب خارجی سے مقابلہ کرنے کے لئے روانہ کیا۔وہاں پر اس نے خوب جنگ کی یہاں تک کہ وہ ماراگیا؛ جبکہ اس کے ساتھی اس کے ارد گرد تھے۔، یہ واقعہ ٧٦ہجری کے آس پاس کا ہے۔ (ج٦ ،ص٢٤٦)اس سے یہ صاف واضح ہے کہ'' قدامہ بن سعید بن زائد ہ'' جن سے ابومخنف نے روایت نقل کی ہے کوفہ میں جناب مسلم کے قیام کے عینی شاہد نہیں ہیں ، پس صحیح یہی ہے کہ'' قدامہ بن سعید ''نے ''زائدہ بن قدامہ'' سے روایت نقل کی ہے کیونکہ زائدہ (جیسا کہ گذشتہ سطروں میں ملاحظہ کیا) عمروبن حریث کے ہمراہ تھا لہٰذا حضرت مسلم کی طرف ابن زیادکی جانب سے محمدبن اشعث کو بھیجے جانے کی خبر اسی شخص نے اپنے پوتے قدامہ بن سعید سے نقل کی ہے ۔

١٠۔عمارہ بن عقبہ بن ابی معیط اموی:

مسلم بن عقیل کا پانی طلب کرنا اور اس پر انھیں پانی پلائے جانے کی خبر اسی شخص کے پوتے سعید بن مدرک بن عمارہ بن عقبہ نے اس سے نقل کی ہے اور ابو مخنف نے اس سے روایت کی ہے۔ تقریب التہذیب میں لکھا ہے : یہ شخص روایت میں مورد اعتماد ہے جس کی وفات ١١٦ ہجری میں واقع ہوئی ہے۔

١١۔عمر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام مخزومی :

صقعب بن زہیر کے حوالے سے اس شخص نے مکہ سے امام حسین علیہ السلام کے نکلتے وقت کی خبر کو ذکر کیا ہے۔(ج٥، ص ٣٨٢)مختار کے زمانے میں عبداللہ بن زبیر نے اس شخص کو کوفہ کا والی بنایا تو مختار نے مال کی لالچ اور ڈرا دھمکا کر اسے اس عہدہ سے ہٹادیا۔ (ج٦، ص٧١) تہذیب التہذیب میں اس کا تذکرہ موجود ہے ، صاحب کتاب کا بیان ہے کہ ابن حبان نے اسے ثقات میں شمار کیا ہے ، دوسرا بیان یہ ہے کہ صحابہ کی ایک جماعت سے یہ شخص روایت نقل کرتا ہے ۔

۶۲

١٢۔ عبداللہ اور مذری :

عبداللہ بن مسلم اور مذری بن مشمعل یہ دونوں قبیلہ بنی اسد سے تعلق رکھتے ہیں ۔حجر اسود اور باب کعبہ کے پاس امام حسین علیہ السلام کا ابن زبیر سے روبرو ہونا ، فرزدق کی امام سے ملاقات اور'' ثعلبیہ'' کے مقام پر امام علیہ السلام کا جناب مسلم کی شہادت سے باخبر ہونا،انھیں دونوں افراد نے دو واسطوں :(١) ابی جنا ب یح ٰبن ابی حیةالوداعی کلبی سے اور اس نے عدی بن حرملہ اسدی سے نقل کیا ہے۔یہ دونوں افراد وہ ہیں جنہوں نے امام حسین علیہ السلام کی فریاد سنی لیکن آپ کی مدد نہیں کی عبد اللہ بن مسلم اسدی ٧٧ ہجری تک زندہ رہا۔(٢)

١٣۔امام علی بن الحسین بن علی علیہماالسلام :

عبداللہ بن جعفر کا اپنے فرزند عون ومحمد کے ہمراہ خط ، عمرو بن سعید اشدق کا اپنے بھائی یحٰی کے ہمراہ خط اور امام علیہ السلام کا جواب چوتھے امام علیہ السلام سے ایک واسطہ سے مروی ہے اور وہ واسطہ حارث بن کعب والبی ہے ۔(٣)

١٤۔ بکر بن مصعب مزنی :

عبداللہ بن بقطر کی شہادت اور منزل'' زبالہ'' کا واقعہ ایک واسطہ سے اسی شخص سے مروی ہے اور وہ واسطہ ا بو علی انصاری ہے ۔(٤) قابل ذکر بات یہ ہے کہ علماء رجال کی نگاہوں میں ان دونوں کی کوئی شناخت نہیں ہے ۔

١٥۔ فزّاری :

سدّی کے واسطہ سے زہیر بن قین کے امام حسین علیہ السلام کے لشکر سے ملحق ہونے کی خبر اسی شخص سے مروی ہے۔ روایت کا جملہ اس طرح ہے :'' رجل من بنی فزار ''(٥) بنی فزارہ کے ایک شخص نے بیان کیا ہے ۔

١٦۔ طرماح بن عدی :

طرماح بن عدی کی روایت ایک واسطہ سے ''جمیل بن مرثد غنوی '' نے نقل کی ہے کہ طرماح نے امام حسین علیہ السلام سے ملاقات کا شرف حاصل کیا ۔ امام حسین ے انہیں اپنی مدد کے لئے بلایا تو انھوں نے اپنی تنگ دستی اور عیال کے رزق کی فراہمی کا عذر پیش کیا ۔ امام علیہ السلام

____________________

١۔تہذیب التہذیب، ج٧ ، ص٤٧٢ وخلاصہ تذہیب تہذیب الکمال ،ص٢٨٤

٢۔طبری ،ج٦ ، ص٩٥ ٢ --٣۔طبری، ج٥ ،ص٣٨٧،٣٨٨--٤۔ج٥، ص٣٩٨۔ ٣٩٩ --٥۔ج٥،ص٣٩٦

۶۳

نے بھی ان کو نہیں روکا ؛اس طرح طرماح امام علیہ السلام کی نصرت کے شرف سے محروم رہ گئے۔شیخ طوسی نے آپ کا تذکرہ امیر امومنین اور امام حسین علیہما السلام کے اصحاب میں کیا ہے ۔

لیکن مامقانی نے آپ کی توثیق کرتے ہوئے یہ فرمایا ہے :''انه ادرک نصرة الامام علیه السلام وجرح و برء ثم مات بعد ذالک'' (١)

''آپ امام علیہ السلام کی نصرت ومدد سے شرفیاب ہو ئے اور جنگ کے دوران زخمی ہو ئے لیکن بعد میں آپ کا زخم مندمل ہو گیا؛ پھر اس کے بعد آپ نے وفات پائی ہے '' لیکن ما مقانی نے اس سلسلے میں کو ئی ما خذذکر نہیں کیا ہے ۔

١٧۔ عامر بن شراحیل بن عبد الشعبی ہمدانی :

مجالد بن سعید کے حوالے سے انھوں نے قصر بنی مقاتل کی خبر کا تذکرہ کیا ہے ۔(٢) مذکورہ شخص نے ٢١ ہجری میں اس سرائے فانی میں آنکھ کھولی(٣) اس کی ماں ١٦ ہجری کے ''جلولائ''کے اسیروں میں شمار ہو تی ہے۔یہی دونوں باپ بیٹے ہیں جنہوں نے جناب مختار کو سب سے پہلے مثبت جواب دیا اور ان کی حقانیت کی گواہی دی۔(٤) ٦٧ ہجری میں یہ دو نوں باپ بیٹے جناب مختار کے ہمراہ مدائن کے شہر ''ساباط ''کی طرف نکل گئے۔(٥) مختار کے بعد عامر بن شراحیل ، اموی جلا د''حجاج بن یوسف ثقفی ''سے ملحق ہو کر اس کا ہمنشین ہو گیا(٦) لیکن ٨٢ ہجری میں ''عبد الرحمن بن اشعث بن قیس کندی ''کے ہمراہ حجاج کے خلاف قیام کر دیا(٧) اور جب عبد الرحمن نے شکست کھا ئی تو ''ری'' میں حجاج کے والی قتیبہ بن مسلم سے ملحق ہو گئے اور امن کی درخواست کی تو حجاج نے امان دیدیا۔(٨) اسی طر ح ز ندگی گذارتا رہا یہاں تک کہ عمر بن عبدالعزیزکے دور حکومت میں ٩٩ھ سے ١٠١ ھ تک یزید بن عبد الملک بن مروان کی طرف سے اسے کوفہ کے قاضیوں کا سربراہ قرار دیا گیا۔

____________________

١۔ تنقیح المقال ،ج٢، ص١٠٩ یہ بات پہلے گذرچکی ہے کہ یہ وہی معروف مقتل ہے جو ابو مخنف کی طرف منسوب ہے اور یہ وہی روایت ہے جس پر نفس المہموم کے صفحہ ١٩٥پر محدث قمی نے تعلیقہ لگا یا ہے ۔ ٢۔ طبری ج٥، ص٧

٣۔ج٤ص١٤٥ ---٤۔ج٦،ص٦۔٧

٥۔ج٦،ص٣٥

٦۔ج٦،ص٣٢٧

٧۔ج٦،ص٣٥٠

٨۔طبری، ج٦، س ٣٤٤

۶۴

یہی وہ شخص ہے جس نے جناب مسلم اور امام حسین علیہماالسلام کی مدد سے سر پیچی کی اور امام علیہ السلام کا سا تھ نہیں دیا۔ ابو مخنف ان سے بطور مرسل حدیث نقل کر تے ہیں اور''الکنی والا لقاب'' کے مطابق ١٠٤ ھمیں نا گہاں اس کو موت آگئی۔(١)

تا ریخ طبری میں اس شخص سے ١١٤ روایتیں مو جود ہیں ۔ تہذیب التہذیب میں مذکورہ شخص کا تذکر ہ مو جود ہے؛ اس کتاب میں عجلی سے یہ روایت نقل ہوئی ہے کہ شعبی نے ٤٨صحابہ سے حدیثیں سنی ہیں اور اس نے حضر ت علی علیہ السلام کے زمانے کو بھی درک کیا ہے۔ ایک نقل کے مطابق ١١٠ ھمیں وفات ہوئی ۔(٢)

١٨۔ حسان بن فائدبن

بکیرعبسی : نضر بن صالح بن حبیب بن زہیرعبسی کے حوالے سے اس شخص نے پسر سعد کے اس خط کا تذکرہ کیا ہے جو اس نے عبید اللہ بن زیاد کے پاس روانہ کیا تھا اور اس کے بعد ابن زیاد کے جواب کا بھی تذکرہ موجود ہے۔روایت کا جملہ یہ ہے :''اشهد ان کتاب عمربن سعد جاء الی عبیدالله بن زیاد وأ نا عنده فاذا فیه... ''(١) میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ عمر بن سعد کا خط عبید اللہ بن زیاد کے پاس آیااور میں اس وقت وہاں موجود تھا ؛اس خط میں یہ لکھا تھا ...۔

اس شخص نے.عبد اللہ بن زبیر کی طرف سے مقرر کر دہ والیٔ کو فہ عبد اللہ بن مطیع عدوی کے لشکر کے سر براہ راشد بن ایاس کے ہمراہ جناب مختار اور ان کے ساتھیوں کے خلاف جنگ میں شرکت کی تھی؛(٢) جب قصر کوفہ کا محاصرہ کیا گیا تو یہ شخص ابن معیط کے ہمراہ اس میں موجود تھا۔(٣) آخر کارر ٦٤ ھمیں ابن معیط کے ساتھیوں کے ہمراہ مقام'' مضر'' کو فہ کے کوڑے خانہ کے پاس قتل کر دیاگیا ۔

تہذیب التہذیب میں مذکو رہ شخص کا تذکرہ اس طرح ہے : ابن حبان نے ان کو ثقات میں شمار کیا ہے اور سورہ نساء کی آیہ ٥١ میں ''جبت'' کی تفسیر میں بخاری نے شعبہ سے، اس نے ابو اسحاق سبیعی سے،

____________________

١۔الکنی والا لقاب ،ج٢،ص٣٢٨

٢۔ تہذیب التہذیب ،ج٥،ص ٦٥

٣۔ طبری، ج٥، ص٤١١

٤۔ طبری، ج٦، ص٢٦،

٥۔ ج٦، ص٣١

۶۵

اس نے حسان سے اور اس نے عمر بن خطاب سے روایت کی ہے کہ ''جبت'' یعنی سحر اور یہ بھی کہا ہے کہ اس شخص کا شمار کوفیوں میں ہوتا ہے۔(١)

١٩۔ ابوعمار ہ عبسی :

ابوجعفر عبسی کے حوالہ سے اس شخص نے یحےٰی بن حکم کی گفتگو اور دربار یزید کا تذکرہ کیا ہے۔(٢)

٢٠۔قاسم بن بخیت :

شہداء کے سروں کا دمشق لا یاجانا،مروان کے بھائی یحیٰی بن حکم بن عاص کی گفتگو ،زوجہ یزید ہندکی گفتگو اور یزید کا چھڑی سے امام حسین علیہ السلام کے لبوں کے ساتھ بے ادبی کر نے کا تذکرہ اسی شخص نے ابوحمزئہ ثمالی سے اور انھوں نے عبداللہ ثمالی اور انھوں نے قاسم کے ذریعہ کیا ہے۔(٣)

٢١۔'' ابو الکنودعبدالرحمن بن عبید'' :

اس نے ام لقمان بنت عقیل بن ابی طالب کے اشعارکو سلیمان بن ابی راشد کے حوالے سے نقل کیا ہے۔(٤) '' زیاد بن ابیہ'' کی طرف سے یہ شخص کوفہ کا والی تھا۔(٥) یہ مختار کے ساتھیوں میں تھا اور اس نے دعویٰ کیا کہ اسی نے شمر کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ ابو مخنف کے حوالے سے تاریخ طبری میں اس سے ٩ روایتیں مذکور ہیں جیسا کہ'' اعلا م'' میں بھی ملتا ہے ۔

٢٢۔ فاطمہ بنت علی :

طبری کے بیان مطابق یہ خاتو ن جناب امیر کی دختر ہیں ۔ابو مخنف نے حارث بن کعب والبی کے حوالہ سے دربار یزید کا منظر انھیں خاتون سے نقل کیاہے۔الغرض ان لوگوں میں ٢١ افراد وہ ہیں جو یا تو ان مظالم میں شریک تھے یا اس دلسوز واقعہ کے معاصرتھے جنہوں نے روایتیں نقل کی ہیں اور ابو مخنف نے ان لوگوں سے ایک یا دو واسطوں سے روایتیں نقل کی ہیں ۔

____________________

١۔ تہذیب التہذیب، ج٢، ص٢٥١

٢۔ طبری ،ج٥، ص٤٦٠۔ ٤٦١

٣۔ طبری ،ج٥ ، س٤٦٥

٤۔ ج٥، ص ٤٦٦

٥۔ج٥، ٢٤٦

۶۶

پا نچویں فہرست

یہ وہ گروہ ہے جس سے ابو مخنف نے دویا چند واسطوں سے روایتیں نقل کی ہیں ۔ یہ گروہ ٢٩ افراد پر مشتمل ہے ۔

١۔ عبد الملک بن نوفل بن عبداللہ بن مخرمہ:

مدینہ سے نکلتے وقت امام حسین علیہ السلام کے اشعارکو انھوں نے ابو سعد سعیدبن ابی سعید مقبری کے حوالے سے نقل کیا ہے۔(١)

اسکے علاوہ اپنی موت کے وقت معاویہ کا لوگوں سے یزید کی بیعت لینا، معاویہ کے سپاہیوں کے سر برا ہ اور اس کے ا مورد فن کے ذمہ دارضحاک بن قیس فہری کی گفتگواور اپنے باپ معاویہ کی خبر مرگ سن کر یزید کے اشعاراسی شخص نے واسطوں کی تصریح کئے بغیر ذکر کئے ہیں ۔

ابو مخنف کے حوالے سے تاریخ طبری میں اس شخص سے ١٥روایتیں مذکور ہیں جنھیں خود ابو مخنف نے ایک شخص کے واسطے سے نقل کیا ہے ۔ان میں اکثر وبیشترروایتیں مکہ میں ابن زبیر اور مدنیہ میں عبد اللہ بن حنظلہ کے خروج سے متعلق ہیں ۔ ان میں سے ایک روایت وہ اپنے باپ نوفل سے نقل کر تا ہے(٢) تو دوسر ی روایت عبداللہ بن عروہ سے،(٣) اور تیسری روایت معاویہ کے ایک دوست حمید بن حمزہ سے منقول ہے۔(٤)

سات روایتیں بنی امیہ کے ایک چاہنے والے شخص بنام حبیب بن کرّہ سے منقول ہیں یہ مروان بن حکم کا پر چمدار بھی تھا(٥) اور آخری خبر سعید بن عمر وبن سعید بن عاص اشدق کے حوالے سے مروی ہے۔(٦) غالباً عبدالملک نے معاویہ کی وصیت اور اس کے دفن ہو نے کی روایت کو بنی امیہ کے کسی موالی سے نقل کیاہے؛ اگر چہ اس کے نام کی تصریح نہیں کی ہے۔عبد الملک کا باپ نوفل بن مساحق بن مطیع کی جانب سے دو یا پانچ ہزارکی فوج کا کما نڈر ا مقرر تھا ۔خود ابن مطیع کو ابن زبیر نے مقرر کیا تھا۔ ایک

____________________

١۔ طبری، ج٥، ص ٣٤٢

٢۔ج٥، ص ٤٧٤

٣۔ج٥،ص٤٧٨

٤۔ج٥،ص٤٧٨

٥۔ ج٥ ، ص ٤٨٢اور ٥٣٩

٦۔ج٥ ،ص ٥٧٧

۶۷

بار میدان جنگ میں ابراہیم بن مالک اشتر نخعی نے اسے اپنے قبضہ میں لے لیا اور گردن پر تلوار رکھ دی لیکن پھر چھوڑدیا ۔

عسقلانی نے تہذیب التہذیب(١) اور الکا شف(٢) میں مذکور ہ شخص کی روایتوں کو قابل اعتماد بتایا ہے ۔

٢۔ ابو سعید عقیصا :

مسجد الحرام میں احرام کی حالت میں امام حسین علیہ السلام کا عبداللہ بن زبیر سے روبرو ہونا اسی شخص نے اپنے بعض ساتھیوں کے حوالے سے نقل کیا ہے ۔(٣) علامہ حلی اپنی کتاب ''خلا صہ '' کے باب اول میں ابو سعید کو امیر المو منین علیہ السلام کے اصحاب میں شمار کرتے ہیں ۔(٤) ، ذہبی نے بھی'' میزان الاعتدال'' میں ان کا تذکرہ کرتے ہوئے یو ں کہا ہے : ''یہ شخص علی علیہ السلام سے روایتیں نقل کرتا ہے۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ ابن سعید نے کہا ہے کہ یہ ثقہ ہیں اور ان کانام دینار ہے ۔ یہ شیعہ ہیں اور انھوں نے١٢٥ ھمیں وفات پائی ہے۔(٥)

تہذیب التہذیب میں عسقلانی کہتے ہیں : ''واقدی کہتے ہیں کہ یہ ثقہ ہیں ان سے بہت زیادہ حدیثیں مروی ہیں ۔ پہلی صدی ہجری میں ان کی وفات ہوئی۔ ابن سعد نے کہا کہ انھوں نے ولیدبن عبدالملک کے زمانے میں وفات پائی۔بعضوں نے کہا ہے کہ عمر نے ابوسعید کو قبریں کھود نے پر مامور کیا تھا اور بعضوں کا یہ کہنا ہے کہ چونکہ یہ پائیتی سے قبر میں اترتے تھے لہٰذا ان کو مقبری کہا جانے لگا۔(٦)

____________________

١۔ تہذیب التہذیب، ج٦، ص٤٢٨

٢۔الکا شف، ج٢ ،ص٢١٦

٣۔طبری ،ج٥، ص٣٨٥

٤۔ الخلا صہ، ص١٩٣

٥۔ میزان الا عتدال، ج٢،ص ١٣٩وج٣ ،ص٨٨ ؛ کا مل الزیارات کے ص ٢٣ پر ابن قولو یہ نے اپنی سند سے ابو سعید عقیصا کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں : ''میں نے کافی دیر تک امام حسین علیہ السلام کو عبد اللہ بن زبیر کے ساتھ آہستہ آہستہ گفتگو کر تے ہوئے سنا۔راوی کہتا ہے : پھر امام علیہ السلام عبد اللہ بن زبیر سے اپنا رخ موڑ کر لوگو ں سے مخاطب ہوئے اور فرمایا : یہ مجھ سے کہتا ہے کہ حرم کے کبوتر و ں کی طرح ہو جایئے جبکہ اگر مجھے حرم میں شرف کے ساتھ قتل کیا جائے تو مجھ کو اس سے زیادہ یہ پسند ہے کہ مجھ کو کسی ایسی جگہ دفن کیا جائے جہا ں فقط ایک بالشت زمین ہو۔اگر مجھ کو طف (کربلا) میں قتل کیا جائے تو حرم میں قتل ہونے سے زیادہ مجھ کو یہی پسند ہے کہ میں کر بلا میں قتل کیا جاؤ ں ''اس روایت سے یہ اندازہ ہو تا ہے کہ راوی نے خود امام علیہ السلام سے حدیث سنی ہے، نہ اس طرح جس طرح ابو مخنف نے سند ذکر کی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ''کامل '' اکمل ہے ۔

٦۔تہذیب التہذیب، ج٨،ص٤٥٣ولسان المیزان، ج٢، ص٤٢٢

۶۸

٣۔ عبد الرحمن بن جندب ازدی :

مذکورہ شخص کی کچھ روایتیں عقبہ بن سمعان کے حوالے سے نقل ہوئی ہیں ۔تاریخ طبری میں اس شخص سے تقریباً ٣٠ روایتیں کے مروی ہیں جن میں جنگ جمل ، صفین، نہروان اور کر بلا کا واقعہ ایک واسطہ عقبہ بن سمعان سے منقول ہے۔وہ حجاج کے زمانے کا واقعہ کسی واسطے کے بغیر نقل کر تا ہے کیو نکہ ابن جندب نے ٧٦ھ میں زائدہ بن قدامہ کی سر براہی میں حجاج کی فوج کے ہمراہ رودبار میں شبیب خارجی کے خلاف جنگ میں شرکت کی(١) اوراس میں اسیر کر لیا گیا۔ خوف کے عالم میں اس نے شبیب کے ہاتھوں پر بیعت کرلی(٢) پھر کسی طرح کوفہ پہنچ گیا۔یہ وہ موقع تھا جب حجاج دوسری مرتبہ شبیب پرحملہ کرنے کے لئے تقریر کررہاتھا اوریہ ٧٧ھ کا زمانہ تھا۔(٣) استرآبادی کی ''رجال الوسیط'' کے حوالے سے مقدس اردبیلی نے ابن جندب کو اصحاب امیر المومنین علیہ السلام میں شمار کیا ہے(٤) اور'' لسان المیزان'' میں عسقلانی نے بھی ان کا تذکرہ کرتے ہوئے یوں کہا ہے :''یہ کمیل بن زیاد اور ابو حمزہ ثمالی سے روایتیں نقل کرتے ہیں ۔''(٥)

٤۔حجاج بن علی بارقی ہمدانی :

مذکورہ شخص کی تمام روایتیں محمد بن بشر ہمدانی کے واسطے سے نقل ہوئی ہیں لہٰذا محمد بن بشر کی طرف مراجعہ کیا جائے۔ تاریخ طبری میں بارقی سے ابن بشر کے علاوہ کسی دوسرے سے کوئی روایت نقل نہیں ہوئی ہے'' لسان المیزان'' میں ان کاتذکرہ یوں ملتا ہے : ''شیخ روی عنہ ابو مخنف''یہ ایسے بزرگ ہیں کہ ابو مخنف ان سے روایتیں نقل کر تے ہیں ۔(٦)

٥۔ نمیر بن وعلة الہمدانی ینا عی :

مذکور ہ شخص اپنی روایتیں ابو ودّاک جبربن نو فل ہمدانی ، ایوب بن مشرح خیوانی اور ربیع بن تمیم کے حوالے سے نقل کر تا ہے ۔ تاریخ طبری میں اس شخص سے ١٠ روایتیں موجود ہیں ۔ آخری روایت شعبی سے ٠ ٨ ھ میں حجاج بن یوسف ثقفی کے دربار کے بارے میں ہے۔(٧) لسان المیزان میں یناعی کا تذکرہ یوں ملتا ہے

____________________

١۔طبری ،ج٦،ص٢٤٤ ---٢۔طبری، ج٦،ص٢٤٢ ---٣۔طبری ،ج٦،ص٢٦٢

٤۔جامع الرواة،ج١، ص٤٤٧ ---٥۔لسان المیزان، ج٣ ،ص٤٠٨،ط حیدر آباد

٦۔ لسان المیزان، ج٢، ص ١٧٨ ---٧۔ طبری، ج٦، ص ٣٢٨

۶۹

اور یہ شعبی سے روایت کر تے ہیں اور ان سے ابو مخنف روایت کر تے ہیں ۔''(١) مغنی میں بھی یہی مطلب موجود ہے۔(٢)

٦۔ صقعب بن زہیرازدی :

مذکورہ شخص اپنی روایتیں ابو عثمان نہدی ،عون بن ابی جحیفہ سوائی اور عبدالر حمن بن شریح معافری اسکندری کے حوالے سے نقل کرتا ہے۔ تہذیب التہذیب کی جلد٦ ،ص ١٩٣ پر مرقوم ہے کہ ١٦٧ ہجری میں اسکندرہی میں ''صقعب ''نے وفات پائی وہ عمر بن عبدالر حمن بن حا رث بن ہشام مخزومی اور حمید بن مسلم کی روایتوں کو بھی نقل کرتا ہے ۔

تاریح طبری میں ابن زہیر سے ٢٠ خبریں منقول ہیں اور تمام خبریں اس طرح ہیں ''عن ابی مخنف عنہ'' ابو مخنف ان (صقعب) سے روایت نقل کرتے ہیں ۔ ان روایتوں میں ٣روایتیں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات سے متعلق ہیں ۔ چونکہ یہ جنگ صفین میں حضرت علی علیہ السلام کے لشکر میں تھے لہٰذا جناب عمار بن یاسرکی شہادت کا بھی تذکرہ کیا ہے(٣) اسی طرح حجر بن عدی کی شہادت کے واقعہ کا بھی تذکرہ کیا ہے۔(٤) کر بلاکے سلسلے میں نو روایتیں نقل کی ہیں اور تین روایتیں مختار کے قیام کے سلسلے میں ہیں ۔ تہذیب التہذیب میں عسقلانی کا بیان اس طرح ہے: ابن حبان نے ان کو ثقات میں شمار کیا ہے۔ ابوزرعہ کا بیان ہے کہ روایت کے سلسلے میں یہ مورد اعتماد ہیں ؛ ابو حاتم کا بیا ن ہے کہ یہ مشہور نہیں ہیں ۔(٥) ''خلا صة تہذیب ا لتہذیب الکمال '' کے حاشیہ پر ہے کہ ابو زرعہ نے ان کی توثیق کی ہے۔(٦)

٧۔ معلی بن کلیب ہمدانی :

کر بلا کا دلسوز واقعہ انھوں نے ابو وداک جبر بن نو فل کے واسطہ سے نقل کیا ہے لہٰذا ابو وداک کی روایتوں کو دیکھا جائے ۔

٨۔ یوسف بن یزید بن بکر ازدی :

مذکورہ شخص عبداللہ بن حازم ازدی اور عفیف بن زہیر بن ابی اخنس سے روایتیں نقل کر تا ہے۔ تار یخ طبری میں ان کاپورانام مذکورہے(٧) اور ان سے ١٥روایتیں نقل

____________________

١۔ لسان المیزان، ج٦، ص١٧١،ط حیدرآباد ---٢۔ج٢، ص٧٠١، طبع دارالدعوہ

٣۔ج٥، ص ٣٨ ---٤۔ ج٥ ، ص٢٥٣ ---٥۔تہذیب التہذیب ج٤، ص ٤٣٢، ---٦۔ الخلا صہ ،ص ١٧٦، ط دارالد عوہ

٧۔طبری ،ج٦، ص ٢٨٤

۷۰

ہوئی ہیں ٧٧ھ کے بعد تک انھوں نے زندگی گزاری ہے۔ ذہبی نے'' میزان الاعتدال'' میں ان کا اس طرح ذکر کیا ہے : آپ بڑے سچے شریف اور بصرہ کے رہنے والے تھے، آپ سے ایک جماعت نے روایتیں نقل کی ہیں اور بہت سارے لوگوں نے ان کی تعریف کی ہے ۔وہ اپنی حدیثیں خودلکھا کر تے تھے۔(١) تہذیب التہذیب میں عسقلا نی نے ان کا اس طرح تذکرہ کیا ہے : ابن حبان نے انھیں ثقات میں شمار کیا ہے۔مقدسی نے کہا کہ یہ ثقہ ہیں ۔ابو حاتم کا بیا ن ہے کہ وہ اپنی حدیثیں خود لکھا کر تے تھے۔(٢) یہی تذکرہ خلاصة تذ ہیب تہذیب الکمال میں بھی ملتا ہے۔(٣)

٩۔یونس بن ابی اسحاق :

ابو اسحاق عمروبن عبداللہ سبیعی ہمدانی کوفی کے فرزندیونس، عباس بن جعدہ جدلی کے حوالے سے روایتیں نقل کرتے ہیں اورحضرت مسلم بن عقیل کے قیام کے سلسلے میں انھوں نے روایت کی ہے کہ آپ کے مقابلہ میں چار ہزار کا لشکر تھا ۔

علامہ سید شرف الدین موسوی اپنی گرانقدر کتاب ''المراجعات''میں فرماتے ہیں :'':یونس کے والد ابو اسحاق عمروبن عبدللہ بن سبیعی ہمدانی کوفی، کے شیعہ ہونے کی تصریح ابن قتیبہ نے اپنی کتاب ''المعارف ''اور شہرستانی نے اپنی کتاب ''الملل و النحل''میں کی ہے۔ آپ ان محدثین کے سربراہ تھے جن کے مذہب کو دشمنان اہل بیت کسی طرح لائق ستائش نہیں سمجھتے ،نہ ہی اصول میں اور نہ ہی فروع میں کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو اہل بیت اطہار علیہم السلام کے نقش قدم پرچلتے ہیں اوردین کے مسئلہ میں فقط اہل بیت اطہار کی پیروی کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ جوزجانی (گرگانی) (جیسا کہ میزان الاعتدال میں زبیدی کے شرح حال میں ذکر ہواہے)(٤) نے کہا ہے کہ اہل کوفہ میں کچھ لوگوں کا تعلق ایسے گروہ سے تھا ۔جن کے مذہب ومرام کو لوگ اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے جبکہ یہ لوگ محدثین کوفہ کے بزرگوں میں سے تھے مثلاًابو اسحاق ، منصور ، زبید الیامی ، اعمش اوران جیسے دوسرے افراد، ان لوگوں کی روایتیں فقط ان کے سچے ہونے کی بنیاد پر قبول کی جاتی ہیں ؛ لیکن اگر ان کی طرف سے مرسلہ روایتیں نقل ہوں تو

____________________

١۔میزان الا عتدال، ج ٤، ص ٤٧٥

٢۔ تہذیب التہذیب، ج١١، ص ٤٢٩

٣۔الخلا صہ ،ص ٤٤٠

٤۔میزان الاعتدال، ج٢،ص٦٦،ط حلبی

۷۱

چوں و چرا کیا جاتا ہے۔ نمونے کے طور پر ان میں سے ایک روایت جسے دشمنان اہل بیت ابو اسحاق کے مراسل(مرسلہ کی جمع وہ روایت جس میں درمیان سے راوی حذف ہو)میں شمار کرتے ہوئے انکار کرتے ہیں ابو اسحاق کی وہ روایت ہے جسے عمرو بن اسماعیل نے (جیسا کہ میزان الاعتدال میں عمرو بن اسماعیل کے شرح حال میں مذکور ہے)(١) ابو اسحاق سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا :''قال رسول اللّه صلی اللّه علیه و آله وسلم مثل علیٍّ کشجرةانااصلهاوعلی فرعها و الحسن والحسین ثمرها والشیعةورقها ''نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی کی مثال اس درخت کی سی ہے کہ جس کی جڑ میں ہوں شاخ علی ہیں ،حسن و حسین اس کے پھل اور شیعہ اس کے پتے ہیں ۔

پھر علامہ شرف الدین اعلی اللہ مقامہ فرماتے ہیں کہ (جیسا کہ میزان الاعتدا ل میں ہے کہ) مغیرہ کا یہ بیان کہ اہل کوفہ کی حدیثوں کو ابو اسحاق اور اعمش جیسے لوگوں نے تباہ کیا ہے ،(٢) یایہ کہ اہل کوفہ کو ابو اسحاق اور اعمش جیسے لوگوں نے ہلاک کیا ہے(٣) فقط اس لئے ہے کہ یہ دونوں آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خالص پیرو تھے اور ان کی سنتوں میں جو چیزیں ان کی خصوصیات و صفات کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں ۔ اس کے محافظ و نگراں تھے ۔

پھر فرماتے ہیں : صحاح ستہ اور غیر صحاح (اہل سنت کی ٦کتابیں جنہیں وہ صحاح کے نام سے یاد کرتے ہیں ) کے مصنفین نے ان دونوں سے روایتوں کونقل کیا ہے۔(٤)

بہر حال ''الو فیات '' کے بیان کے مطابق عثمان کی خلافت ختم ہونے کے ٣سال قبل یعنی ٣٣ھ میں آپ کی ولادت ہوئی اور ابن معین و مدائنی کے بیان کے مطابق ١٣٢ھ میں آپ نے وفات پائی ۔

آپ کے فرزند یونس آپ ہی سے روایتیں نقل کرتے ہیں جنکی وفات ١٥٩ ھ میں ہوئی اور اس وقت آپ کی عمر ٩٠ سال کی تھی ۔ یہ وہی شخص ہیں جو ابو مخنف سے عباس بن جعدہ کے حوالے سے کوفہ میں جناب مسلم کے قیام کے واقعہ کو بیان کرتے ہیں ۔ تاریخ طبری میں اس خبر کے علاوہ یونس سے ایک اور خبر

____________________

١۔میزان الاعتدال، ج٣ ،ص٢٧٠

٢۔ میزان الاعتدال، ج٣ ،ص ٢٧٠

٣۔ میزان الاعتدال ، ج٢ ،ص ٢٢٤

٤۔ المراجعات، ص ١٠٠ ،ط دار الصادق

۷۲

منقول ہے لیکن کسی کا حوالہ موجود نہیں ہے اور وہ خبر ابن زیاد کے سلسلے میں ہے کہ ابن زیاد نے ایک لشکر روانہ کیا تاکہ کوفہ پہنچنے سے پہلے امام حسین علیہ السلام کو گھیر لے ، اس کے علاوہ تاریخ طبری میں گیارہ دوسری روایتیں بھی ہیں جنہیں ابو مخنف نے یونس سے نقل کیاہے نیز ١٣روایتیں اور ہیں لیکن وہ ابو مخنف کے علاوہ کسی اور سے مروی ہیں ۔

تہذیب التہذیب میں عسقلانی کا بیان ہے کہ ابن حبان نے آپ کو ثقات میں شمار کیا ہے۔ ابن معین کا بیان ہے کہ آپ ثقہ ہیں ۔ ابو حاتم نے کہا کہ آپ بہت سچے تھے۔نسائی کا بیان ہے کہ ان کی روایتوں میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ ابن عدی کا بیان ہے کہ ان کی روایتیں بہت اچھی ہیں ۔ لوگ ان سے روایتیں نقل کرتے ہیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ ١٥٩ھ میں ان کی وفات ہوئی ہے۔(١)

١٠۔ سلیمان بن راشدازدی :

مذکورہ شخص عبداللہ بن خازم بکری ازدی ، حمید بن مسلم ازدی اور ابو کنود عبد الرحمن بن عبید کی روایتوں کو نقل کرتا ہے۔ تاریخ طبری میں اس شخص سے ٢٠روایتیں نقل ہوئی ہیں جن میں اکثر و بیشتر بالواسطہ ہیں وہ ٨٥ ھتک زندہ رہے۔(٢)

١١۔ مجالد بن سعید ہمدانی :

یہ شخص عامر شعبی ہمدانی سے روایتیں نقل کرتا ہے۔ اس کی روایت قصر بنی مقاتل کے سلسلے میں ہے ۔(٣) مسلم بن عقیل کے ساتھ کوفیوں کی بے وفائی ، جناب مسلم علیہ السلام کی تنہائی اور غریب الوطنی ، آپ کا طوعہ کے گھر میں داخل ہونا ، ابن زیاد کا خطبہ ، بلال بن طوعہ کی خبر اور ابن زیاد کااشعث کے بیٹے کو جناب مسلم علیہ السلام سے لڑنے کے لئے بھیجنے کے سلسلے میں بھی'' مجالد ''کی روایتیں موجود ہیں لیکن وہ مرسل ہیں جن کو طبری نے کسی کی طرف مستند نہیں کیا ہے۔(٤)

تاریخ طبری میں مجالد سے ٧٠ خبریں نقل ہوئی ہیں جن میں سے اکثر و بیشتر شعبی کے حوالے سے ہیں ۔ ابو مخنف اسے محدث کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔(٥)

____________________

١۔تہذیب التہذیب ،ج١ ، ص ٤٣٣

٢۔ طبری ،ج٦ ، ص ٣٦٠

٣۔طبری ،ج٥ ص ٤٠٧

٤۔ ج٥، ص ٣٧١۔٣٧٣

٥۔ طبری، ج٥ ، ص٤١٣

۷۳

ذہبی نے میزان الاعتدال میں ''مجالد'' کا تذکرہ اس طرح کیا ہے : یہ مشہور اور صاحب روایت ہیں اور ''اشبح ''نے ذکر کیا ہے کہ وہ خاندان رسالت کے پیرو تھے۔ مجالد کی وفات ١٤٣ھ میں ہوئی ۔اس کے بعد ذہبی، بخاری سے روایت کرتے ہیں کہ بخاری نے مجالد کے شرح حال میں ان سے روایت نقل کی ہے اور وہ شعبی سے اور وہ ابن عباس سے روایت نقل کرتے ہیں کہ ابن عباس نے کہا : جب بنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس دنیا میں قدم رکھ کر اس دنیا کو منور کیا تو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کا نام ''منصورہ '' رکھا۔ اسی وقت جبرائیل نازل ہوئے اور فرمایا : اے محمد !اللہ آپ پر تحفۂ درودسلام بھیجتا ہے اور آپ کے گھر پیدا ہونے والی بچی کے لئے بھی ہدیہ درود و سلام بھیجتا اورفرماتا ہے: '' مااحب مولود احب الی منھا '' ہمارے نزدیک اس مولود سے زیادہ کوئی دوسرا مولود محبوب نہیں ہے لہٰذا خداوند عالم نے اس نام سے بہتر نا م منتخب کیا ہے؛ جسے آپ نے اس بیٹی کے لئے منتخب کیا ہے ، خدا نے اس کا نا م'' فاطمہ'' رکھا ہے'' لانھا تفطم شیعتھا من النار''کیونکہ یہ اپنے شیعوں کو جہنم سے جداکرے گی ،لیکن یہ حدیث ذہبی کے حلق سے کیسے اتر سکتی ہے لہٰذا انہو ں نے فوراًاس حدیث کو جھٹلایا اور دلیل یہ پیش کی کہ بنت رسول کی ولادت تو بعثت سے قبل ہوئی ہے۔ (اگر چہ ذہبی کا یہ نظریہ غلط ہے لیکن دشمنی اہل بیت اطہار میں وہ بے بنیاد حدیث کو بھی صحیح ما ن لیتے ہیں اور فضائل کی متواتر حدیث کو ایڑی چوٹی کا زور لگا کر ضعیف ثابت کر نے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ) اسی حدیث کی بنیا د پر ذہبی نے کہہ دیا کہ وہ توشیعہ تھے۔(١)

١٢۔ قدامہ بن سعید بن زائدہ بن قدامہ ثقفی :

قدامہ اپنے دادا زائدہ بن قدامہ سے روایتیں نقل کرتے ہیں ۔قدامہ کی روایت ہے کہ محمد بن اشعث مسلم بن عقیل علیہ السلام سے جنگ کے لئے نکلا ،پھر جناب مسلم قید کئے گئے ، آپ نے دار الامارہ کے دروازہ پر پانی طلب کیا اور آپ کو پانی پیش کیا گیا۔(٢) طبری نے ان کا ذکر کیا ہے لیکن ان کے باپ یا دادا سے استناد نہیں کیا اور ظاہراًیہ صحیح نہیں ہے کیونکہ قدامہ کوفہ میں ان واقعات کے رونما ہوتے وقت موجود ہی نہیں تھے وہ تو ان کے دادا ''زائدہ''تھے جو اس

____________________

١۔ میزان الاعتدال، ج ٣ ، ص ٤٣٨ ،ایک قول یہ ہے کہ ١٤٢ یا ١٤٤ ہجری ذی الحجہ کے مہینہ میں مجالد نے وفات پائی۔ ذہبی نے تہذیب التہذیب میں یہی لکھا ہے ۔

٢۔ طبری ،ج ٥ ، ص ٣٧٣ ۔ ٣٧٥

۷۴

وقت وہاں موجود تھے اور عمر و بن حریث کے ہمراہ کوفہ کی جامع مسجد میں ابن زیاد کا پرچم امن لہرارہے تھے ، کیونکہ ابن زیاد نے یہ کہا تھا کہ مسلم سے جنگ کے لئے محمدبن اشعث کے ہمراہ بنی قیس کے ٧٠ جوان بھیجے جائیں(١) اور اس وقت زائدہ نے اپنے چچازاد بھائی مختار کے لئے سفارش کی تھی،(٢) لیکن قدامہ بن سعید کو شیخ طوسی علیہ الرحمہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام کے اصحاب میں ذکر کیا ہے(٣) جس کی تفصیل پہلے گذرچکی ہے لہٰذا وہاں دیکھاجائے ۔

١٣۔ سعید بن مدرک بن عمارہ بن عقبہ بن ابی معیط اموی :

یہ شخص اپنے دادا عمارہ بن عقبہ سے روایت نقل کر تا ہے کہ اس کے دادا نے اپنے غلام قیس کو اپنے گھر روانہ کیا تا کہ وہ پا نی لے کر آئے اور محل کے دروازہ پر کھڑ ے مسلم ابن عقیل کو ابن زیاد کے پاس لے جانے سے پہلے پا نی پلا دے۔(٤) کتا ب کی عبارت ہے : ''حد ثنی سعید ان عمارہ بن عقبہ '' '' سعید نے ہم سے حدیث نقل کی ہے کہ عمارہ بن عقبہ ...''اس عبارت سے یہی ظاہر ہو تا ہے کہ حدیث بغیر کسی سند کے بلا واسطہ نقل ہو رہی ہے لیکن یہ بہت بعید ہے۔ظاہر یہی ہے کہ سعید اپنے دادا عمارہ کے حوالے سے حدیثیں نقل کر تے ہیں ۔ہمارے نزدیک پا نی لا نے کے سلسلے میں قدامہ بن سعید ہی کی روایت تر جیح رکھتی ہے جس میں اس بات کی صراحت ہے کہ پا نی عمر وبن حریث لے کر آیا تھا، نہ کہ عمارہ یا اس کا غلام۔ اس حقیقت کا تذکر ہ اس کتاب میں صحیح موقع پر کیا گیا ہے۔

١٤۔ ابو جناب یحٰی بن ابی حیہ وداعی کلبی :

یہ شخص عدی بن حرملہ اسدی سے اور وہ عبد اللہ بن سلیم اسدی ومذری بن مشمعل اسدی سے اور وہ ہا نی بن ثبیت حضرمی سے روایتیں نقل کر تا ہے۔ یہ روایتیں کبھی کبھی مرسل بھی نقل ہو ئی ہیں جن میں کسی سند کا تذکرہ نہیں ہے۔ انھیں میں سے ایک روایت جناب مسلم کے ساتھیوں کا ابن زیاد سے روبروہو نا،(٥) ابن زیاد کاجناب مسلم اور جناب ہا نی کے سروں کو یزید کے پا س بھیجنا اور اس سلسلے میں یزید کو ایک خط لکھنا بھی ہے۔(٦)

____________________

١۔طبری ،ج ٥ ،ص ٣٧٣ --٢۔ طبری، ج ٥ ، ص ٥٧٠

٣۔ رجال شیخ ، ص ٢٧٥ ،ط نجف--٤۔ طبری، ج٥، ص ٣٧٦

٥۔ج٥ ،ص ٣٦٩۔ ٣٧٠ --٦۔ج٥ص٣٨٠

۷۵

جیسا کہ یہ بات پہلے گذرچکی ہے کہ ظاہراً ان واقعات کو ابو جناب نے اپنے بھائی ہانی بن ابی حیہ و داعی کلبی کے حوالے سے نقل کیا ہے جس کو ابن زیاد نے جناب مسلم کے سراور اپنے نامے کے ساتھ یزید کے پاس بھیجا تھا۔(١) تا ریخ طبری میں ٢٣روایتیں با لو اسطہ جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان کے سلسلے میں نقل ہوئی ہیں اور ٩روایتیں واقعۂ کر بلا کے سلسلے میں ہیں جن میں سے پا نچ بالواسطہ اور تین مر سل ہیں ، لیکن ظاہر یہ ہے کہ در حقیقت یہ تینو ں روایتیں بھی مستند ہیں ۔ان روایتوں سے یہ انداز ہ ہو تا ہے کہ وہ ان لو گوں میں سے نہ تھا جو دشمن کے لشکر میں تھے ،البتہ اس کا ان کے ہم عصروں میں شمار ہو تا ہے ۔

آخری مرسل روایت جو میری نظروں سے گذری ہے یہ ہے کہ جناب مختار کے قیام کے بعد ٦٧ ھمیں مصعب بن زبیر نے ابراہیم بن مالک اشتر کو خط لکھوا کر اپنی طرف بلا یا ۔(٢) عسقلانی تہذیب التہذیب میں کہتے ہیں : ابن حبان نے ان کو ثقات میں شمار کیا ہے۔اسی طرح ابن نمیر، ابن خراش، ابو زرعہ اور ساجی نے کہا کہ یہ کو فہ کے رہنے والے تھے اور بہت سچے تھے۔ ابو نعیم کا بیان ہے کہ ان کی روایتوں میں کو ئی مشکل نہیں ہے۔ ١٥٠ہجری میں ان کی وفات ہوئی ،اگرچہ ابن معین کا بیان ہے کہ ٧ ١٤ھ میں وفات پا ئی۔(٣)

١٥۔ حارث بن کعب بن فقیم والبی ازدی کوفی :

حارث بن کعب عقبہ بن سمعان ، امام زین العابدین علیہ السلام اور فاطمہ بنت علی کے حوالے سے روایتیں نقل کرتے ہیں ۔وہ شروع میں کیسا نیہ مذہب سے تعلق رکھتے تھے(٤) (جو جناب مختار کو امام سمجھتے تھے) لیکن بعد میں امام زین العابدین علیہ السلام کی امامت کے قائل ہوگئے اور ان سے روایتیں بھی نقل کرنے لگے۔(٥) ایسا اندازہ ہو تا ہے کہ یہ کو فہ سے مدینہ منتقل ہو گئے تھے کیو نکہ انھوں نے امام زین العابدین اور فاطمہ بنت علی علیہما السلام سے خودحد یثیں سنی ہیں ۔(٦)

____________________

١۔ ج ٥ ،ص ٣٨٠

٢۔طبری، ج٦، ص ١١

٣۔ تہذیب التہذیب، ج١١،ص ٢٠١

٤۔طبری، ج٦، ص ٢٣

٥۔طبری ،ج٥،ص ٣٨٧

٦۔ ج٥، ص ٤٦١

۷۶

شیخ طوسی علیہ الرحمہ نے آپ کو امام زین العابدین علیہ السلام کے اصحاب میں شمار کیا ہے،لیکن نجف سے طبع ہو نے والی اس کتاب میں جو رجال شیخ کے نام سے معروف ہے شیخ نے کعب کی جگہ حر بن کعب ازدی کو فی کر دیا ہے۔ محقق کتاب نے حاشیہ میں ایک دوسرے نسخہ کی مدد سے حارث لکھا ہے اور یہی صحیح ہے ۔

١٦ ۔ اسما عیل بن عبد الرحمن بن ابی کریمہ سدّی کو فی :

زہیر بن قین کے واقعہ کو یہ فزاری کے حوالے سے نقل کر تے ہیں ۔

ذہبی نے'' میزان الا عتدال'' میں ان کا تذکرہ کر تے ہو ئے کہا ہے : ان پر تشیع کی نسبت دی گئی ہے اور وہ ابو بکر وعمر پر لعنت وملا مت کر تے تھے ا۔بن عدی نے کہا ہے کہ یہ میرے نزدیک بڑے سچے ہیں ۔ احمد نے کہا کہ یہ ثقہ ہیں ۔یحٰی نے کہا کہ میں نے کسی کو نہیں دیکھا مگر یہ کہ وہ سدّی کو اچھے نا م سے یاد کرتا ہے اور ان کو کسی نے ترک نہیں کیا ۔ ان سے شعبہ اور ثوری روایت کر تے ہیں ۔(١) تا ریخ طبری میں ان سے ٨٤ روایتیں نقل ہوئی ہیں جن میں دوسری صدی ہجری کے واقعات بیان ہوئے ہیں ۔

''تہذیب التہذیب اور ''الکاشف '' میں مذکور ہے کہ انھوں نے ٧ ١٢ھمیں وفات پائی، چونکہ یہ مسجد کو فہ کے درواز ہ پر با لکل وسط میں بیٹھا کر تے تھے لہٰذ ان کو'' سدّی'' کہا جا نے لگا ۔یہ قر یش کے موالی میں شمار ہو تے ہیں اور امام حسن علیہ السلا م سے روایتیں نقل کر تے ہیں ۔

١٧۔ ابو علی انصاری :

یہ بکر بن مصعب ْمزنی ّ سے روایت نقل کر تے ہیں ۔عبد اللہ بن بقطر کی شہادت کا تذکرہ انھیں کی روایت میں مو جو د ہے۔ تاریخ طبری میں اس روایت کے علاوہ ان کی کو ئی دوسری روایت موجود نہیں ہے۔ رجال کی کتا بوں میں ان کا کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے ۔

١٨۔ لو ذان :

یہ شخص اپنے چچا کے حوالے سے امام حسین علیہ السلام سے راستے میں اپنے چچا کی ملا قات کا تذکرہ کر تا ہے اورخود غیر معروف ہے ۔

١٩۔ جمیل بن مر ثدی غنوی :

یہ شخص طر ماح بن عدی طائی سے انھیں کی خبر کو نقل کر تا ہے ۔

____________________

١۔تہذیب التہذیب، ج١،ص ٢٣٦،ط جلی

۷۷

٢٠ ۔ ابو زہیر نضربن صالح بن حبیب عبسی :

مذکو رہ شخص حسان بن فا ئد بن بکیر عبسی کے حوالے سے پسر سعد کے ابن زیاد کو خط لکھنے کی روایت اور ابن زیاد کے جواب دینے کا تذکرہ کر تا ہے۔اس کے علا وہ قرہ بن قیس تمیمی کے حوا لے سے جناب حر کا واقعہ بیان کر تا ہے ۔

تا ریخ طبری میں اس راوی سے ٣١ روایتیں منقول ہیں ۔ ابو زہیر نے جناب مختار کے زما نے کو بھی درک کیا ہے۔(١) اس کے بعد ٦٨ ہجری میں مصعب بن زبیر کے ہمراہ یہ قطریّ خارجی سے جنگ کے لئے میدان نبرد میں اتر آئے ،پھر ٧٧ ہجری میں مطرف بن مغیرہ بن شعبہ ثقفی خارجی کے مدائن میں نگہبان اور دربان ہوگئے۔ اس وقت ان کی جوانی کے ایام تھے لہٰذا ہر وقت مطرف کی نگہبانی کے لئے تلوار کھینچے کھڑے رہتے تھے ،نیز اسی سال انھوں نے مطرف کی فوج میں رہ کر حجاج کے لشکر سے جنگ کی،(٢) اس کے بعد کوفہ پلٹ گئے۔(٣)

امام رازی نے اپنی کتاب ''الجرح والتعدیل'' میں ان کا تذکرہ کرتے ہوے کہا ہے :''میں نے اپنے باپ سے سنا ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ ابو مخنف ان سے روایت نقل کرتے ہیں اوروہ بالواسطہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں ۔(٤)

٢١۔ حارث بن حصیرہ ازدی :

یہ شخص بعض روایتوں کو عبداللہ بن شریک عامری نہدی کے حوالے سے نقل کرتا ہے اور بعض روایتوں کو اس کے واسطے سے امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل کرتا ہے ۔

ذہبی نے'' میزان الاعتدال'' میں ان کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے : ابو احمد زبیری کا بیا ن ہے کہ یہ رجعت پر ایمان رکھتے تھے اور یحٰی بن معین نے کہا ہے کہ یہ ثقہ ہیں ۔ان کو خشبی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ اس خشب (لکڑی) کی طرف منسوب ہیں جس پر زید بن علی کو پھانسی دی گئی تھی ۔

ابن عدی کا بیان ہے کہ ان کا شمار کوفہ کے شدید شیعوں میں ہوتا ہے ۔ ابوحاتم رازی کہتے ہیں کہ ان کا شماربہت قدیم شیعوں میں ہوتا ہے لیکن اگر ثوری نے ان سے روایت نقل نہ کی ہوتی تو یہ متروک تھے۔(٥)

____________________

١۔ طبری ،ج ٦، ص ٨١ ---٢۔ ج٦ ، ص٢٩٨

٣۔ ج٦، ص٢٩٩ ---٤۔الجرح والتعدیل،ج٨، ص ٤٧٧ --٥۔میزان الاعتدال، ج ، ص٤٣٢،ط حلبی

۷۸

ذہبی نے نفیع بن حارث نخعی ہمدانی کوفی اعمی (جو اندھے تھے) کے شرح حال میں حارث بن حصیرہ سے روایت نقل کرتے ہوئے کہا ہے : '' بہت سچے تھے لیکن رافضی تھے۔ اس کے بعد سند روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ حارث بن حصیرہ نے عمران بن حصین سے روایت نقل کی ہے کہ انھوں نے کہا :''کنت جالساعندالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وعلیُّ الی جنبہ '' میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے پاس بیٹھاتھا اور علی (علیہ السلام) ان کے پہلو میں بیٹھے تھے ،''اذقرأ النبی صلی الله علیه وآله'' ( امن یجیب المضطرّاذا دعاه و یکشف السوء و یجعلکم خلفاء الارض'' ) (١)

اسی درمیان پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیہ شریفہ ''امن یجیب المضطر...''کی تلاوت فرمائی'' فارتعد عَلِیّ ،فضرب النبی صلی اللہ علیہ وآلہ بیدہ علی کتفہ''آیت کو سن کر علی لرزنے لگے تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو علی کے شانے پر رکھا''فقال: لایحبک الا مومن ولا یبغضک الا منافق الی یوم القیا مة'' (٢) اور فرمایا: قیامت تک تم سے محبت نہیں کریگا مگر مومن او ر دشمنی نہیں کرے گا مگر منافق۔

تاریخ طبری میں ابن حصیرہ سے ١٠ روایتیں موجود ہیں اور ان تمام روایتوں کو ابو مخنف نے ان سے نقل کیاہے۔ شیخ طوسی نے اپنے رجال میں ان کو امیر المومنین علیہ السلام کے اصحاب میں شمار کیا ہے(٣) لیکن آپ نے حارث بن حصین ازدی نامی شخص کا تذکرہ امام محمد باقر علیہ السلام کے اصحاب میں کیا ہے جو غلط ہے ۔

٢٢۔ عبداللہ بن عاصم فائشی ہمدانی :

یہ ضحاک بن عبداللہ مشرقی ہمدانی کی روایتوں کو نقل کرتے ہیں ۔مقدس اردبیلی نے ''جامع الرواة ''میں ذکر کیا ہے کہ کافی میں تیمم کے وقت کے سلسلے میں ان سے امام جعفر صادق علیہ السلام کی زبانی ایک روایت منقول ہے ۔

تہذیب میں عسقلانی نے ان کا تذ کرہ کیا ہے، نیز بصائر الدرجات میں بھی ان کا تذکرہ موجود ہے۔ ان سے ابان بن عثمان اور جعفر بن بشیر نے روایتیں نقل کی ہیں ۔(٤)

____________________

١۔نمل ٦٢

٢۔میزان الاعتدال، ج ٤ ،ص٢٧٢

٣۔ رجال شیخ ، ص ٣٩،ط نجف

٤۔جامع الرواة ،ج١،ص ٤٩٤

۷۹

٢٣۔ ابو ضحاک :

یہ شب عاشور کا واقعہ امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں ۔

ذھبی نے'' میزان الاعتدال ''(١) میں اور عسقلانی نے'' تہذیب التہذیب''(٢) میں ان کا تذکرہ کیا ہے۔ شعبہ نے ان سے روایت نقل کی ہے ۔

٢٤۔ عمرو بن مرّہ الجملی :

یہ ابو صالح حنفی سے اوروہ عبد ربہ انصاری کے غلام سے روایتیں نقل کرتے ہیں ۔ان کی خبر میں جناب بریر بن خضیر کی شوخی کا تذکرہ ہے ۔(١) ذہبی نے ''میزان الاعتدال''(٢) میں ا ور عسقلانی نے'' تہذیب التہذیب''(٣) میں انکا تذکرہ کیا ہے۔وہ کہتے ہیں :ابن حبان نے ان کو ثقہ میں شمار کیا ہے اس کے بعد کہتے ہیں کہ انھوں نے ١١٦ھ میں وفات پائی۔احمد بن حنبل نے ان کی ذکاوت اورپاکیزگی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی وفات ١١٨ ہجری میں ہوئی اور بخاری کا بیان ہے کہ علی (علیہ السلام) سے انھوں نے تقریبا١٠٠روایتیں نقل کی ہیں ۔ شعبہ کا بیا ن ہے کہ یہ بڑے صاحب علم تھے۔ابو حاتم کہتے ہیں کہ وہ سچے اور مورد اعتماد ہیں ابن معین کا بیا ن ہے کہ وہ ثقہ ہیں ۔

٢٥۔ عطأ بن سائب :

انھوں نے جنگ کے شروع میں ابن حوزہ کی شہادت کا تذکرہ عبدالجبار بن وائل حضرمی کے حوالے سے اور اس نے اپنے بھائی مسروق بن وائل حضرمی کے حوالے سے نقل کیا ہے۔(٤)

عسقلانی نے'' تہذیب التہذیب'' میں انکا اس طرح تذکرہ کیا ہے : عبدالجبار بن وائل اپنے بھائی سے روایت نقل کرتا ہے۔ ابن حبان نے ان کو ثقات میں شمار کیا ہے،اس کے بعد کہتے ہیں کہ ١٢٢ھ میں ان کی وفات ہوئی ہے۔عطاء مکہ کے رہنے والے ہیں ٦٤ ہجری میں ابن زبیر کے ہاتھوں خانہ کعبہ کی خرابی اور اس کی تجدید کوانھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔یہ ان لوگوں میں سے ہیں جو ٩٤ ہجری تک حجاج کے ہاتھوں قتل نہ ہوسکے۔(٧) '' تہذیب التہذیب'' میں ہے کہ ابن حبان نے ان کو ثقات میں شمار کیا ہے۔ ابن سعد نے طبقات میں بھی ان کا تذکرہ کیا ہے ، اور یہ کہا ہے کہ ان کی وفات١٣٧ ہجری میں ہوئی ہے ۔

____________________

١۔میزان الاعتدال، ج٤ ،ص ٥٤٠،ط حیدر آباد ---٢۔تہذیب التہذیب، ج١٢ ،ص ١٣٦

٣۔طبری ،ج٥ ،ص ٥٢٣ ---٤۔ میزان الاعتدال، ج٣ ،ص ٢٨٨

٥۔ تہذیب التہذیب، ج ٨ ، ص ١٠٢ --٦۔طبری ،ج٥ ص٤٣١ --٧۔ج٦،ص٤٨٨

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

وہ شیعوں پر فقط اس لئے سب وشتم کرتے ہیں کہ شیعہ ام المومنین(عائشہ) کو اتنی فضیلت نہیں دیتے ہیں( اگر برا بھلا کہنے کا بھی معیار ہے تو) اپنی صحاح اور اپنے ان علماء کو کیوں برا نہیں کہتے جنہوں نے ازواج نبی(ص) کو اہل بیت(ع کے زمرہ سے نکالا ہے.

( يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ وَ لا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ‏ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَ قُولُوا قَوْلًا سَدِيداً يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمالَكُمْ وَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ فَقَدْ فازَ فَوْزاً عَظِيماً ) احزاب. آیت/71

اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کرو تاکہ وہ تمہارے اعمال کی اصلاح کر دے اور تمہارے گناہوں کو بخش دے اور جو بھی خدا اور اس کے رسول(ص) کی اطاعت کرے گا وہ عظیم کامیابی کے درجہ پر فائز ہوگا.

۱۸۱

چوتھی فصل

عام صحابہ سے متعلق

بے شک تمام شرعی احکام اور اسلامی عقائد ہم تک صحابہ کے ذریعہ پہونچے اور کوئی بھی اس بات کا دعویدار نہیں ہے کہ وہ کتاب خدا اور سنت رسول(ص) کے ذریعہ خدا کی عبادت نہیں کرتا ہے اور ان دونوں بنیادی مصدروں تک دنیا کے ہر مسلمان کی رسائی کا ذریعہ ہی ہیں.

چونکہ رسول(ص) کے بعد صحابہ کے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا اور وہ متفرق ہوگئے اور ایک دوسرے پر سب و شتم اور لعنت و مذمت کرنے لگے یہاں تک کہ بعض نے بعض کو قتل کر دیا اس حالت کے ہوتے ہوئے ان سے بغیر چھان بین کے احکام حاصل کرنا ممکن نہیں ہے اور اسی طرح ان کے حالات کا مطالعہ کئے بغیر اور ان کی تاریخ پڑھے بغیر کہ حیات نبی(ص) اور بعد نبی(ص) ان کے کیا کارنامے تھے ان کے حق میں یا ان کے خلاف حکم لگانا ممکن نہیں ہے ہم حق کو باطل سے اور مومن

۱۸۲

کو منافق سے جدا کرتے ہیں اور پلٹ جانے والوں سے شکر گذاروں کو پہچانتے ہیں.

جب کہ تمام اہلسنت اس بات کو اہمیت نہیں دیتے ہیں اور صحابہ پرتنقید و تبصرہ کرنے کو شدت سے منع کرتے ہیں اور ان پر بلا استثناء ایسے ہی درود بھیجتے ہیں جیسے محمد(ص) و آل(ع) محمد(ص) پر درود بھیجتے ہیں.

اہل سنت و الجماعت سے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ کیا صحابہ پر تنقید و جرح کرنے سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے. یا اس سے کتاب (خدا) و سنت(رسول(ص)) کی مخالفت لازم آتی ہے؟

اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے مجھے حیات نبی(ص) اور حیات نبی(ص) کے بعد بعض صحابہ کے اعمال و اقوال پیش کرنا پڑیں گے. اس کا جواب ہمیں علمائے اہل سنت کی صحاح و مسانید اور تواریخ سےبھی مل جائے گا اس سلسلہ میں شیعوں کی کتابوں کا تذکرہ ضروری نہیں ہے. کیونکہ بعض صحابہ کے بارے میں شیعوں کا موقف شہرت یافتہ ہے پھر یہ بات زیادہ توضیح کی محتاج بھی نہیں ہے.

میں تمام شبہات کو رفع کئے دیتا ہوں تاکہ مد مقابل کے لئے کوئی حجت باقی نہ رہے جس سے وہ میرے اوپر احتجاج کرے. واضح رہے کہ اس فصل میں ہم جہاں بھی صحابہ کے متعلق گفتگو کریں گے اس سے تمام صحابہ مراد نہیں ہیں. بلکہ بعض صحابہ مراد ہیں. ظاہر ہے کہ بعض میں کبھی اکثریت ہوتی ہے اور کبھی اقلیت، اس چیز کو تو ہم بحث ہی سے سمجھ پائیں گے اس لئے کہ فتنہ پرور ہمارے اوپر اتہام لگاتے ہیں کہ ہم صحابہ کے خلاف ہیں. ہم صحابہ پر سب و شتم کرتے ہیں. اس طرح وہ سامعین کو بھڑکاتے ہیں اور تحقیق کرنے والوں کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں. جبکہ ہم صحابہ کو سب و شتم سے پاک سمجھتے ہیں.

۱۸۳

اور ہم ان صحابہ کی خوشنودی کے خواہان ہیں جنہیں قرآن میں شاکرین کے نام سے یا کیا گیا ہے. ہاں جو لوگ نبی(ص) کے بعد اپنے پچھلے پائوں لوٹ گئے اور مرتد ہوگئے اور اکثر مسلمانوں کی گمراہی کا سبب بنے، ان پر تبرا کرتے ہیں، ان پر ہم سب لعن طعن کرتے ہیں. ہم تو صرف ان کے افعال کو منکشف کرتے ہیں جنہیں مورخین و محدثین نے بیان کیا ہے. تاکہ تحقیق کرنے والے کے لئے حق روشن ہو جائے یہ بھی ہمارے سنی بھائیوں کو برا لگتا ہے. اور وہ اسے سب و شتم کا نام دیتے ہیں.

جب قرآن مجید نے حق بیان کرنے میں تامل سے کام نہیں لیا بلکہ اسی نے ہمارے لئے یہ دروازہ وا کیا ہے اور اسی نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ صحابہ میں سے کچھ منافقین. فاسقین، ظالمین، مکذبین، مشرکین اور کفر کی طرف پلٹ جانے والے تھے اور خدا و رسول(ص) کو اذیت دینے والے تھے.

جب رسول(ص) کو جو اپنی خواہش نفس سے کچھ نہیں کہتے اور خدا کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہیں کرتے انہوں نے ہمارے لئے تبرے کا باب کھولا ہے اور انہوں نے ہمیں یہ خبر دی کہ صحابہ میں مرتدین، مارقین، ناکثین، قاسطین اور انہیں میں سے وہ شخص بھی ہے جو جہنم میں داخل ہوگا اور صحابیت اسے کچھ فائدہ نہ پہونچائے گی بلکہ یہ صحبت (رسول(ص)) اس پر حجت ہو جائے گی جو اس کے عذاب میں اضافہ کا سبب بنے گی.اس کے باوجود ہم ان سے بے زاری اختیار نہ کریں جب کہ قرآن مجید اور سنت رسول(ص) اس کی شہادت دے رہی ہے اہلسنت صحابہ پر تنقید کرنے سے اس لئے منع کرتے ہیں تا کہ حق آشکار نہ ہونے پائے اور مسلمانوں کو اس کی معرفت نہ ہونے پائے کہ وہ اولیائے خدا سے محبت اور دشمن خدا و رسول(ص) سے نفرت کرنے لگیں.

۱۸۴

اس روز میں تیونس کے دار الحکومة کی بڑی مسجد میں (نماز پڑھنے کے لئے) گیا فریضہ کی ادائیگی کے بعد امام صاحب نمازیوں کے درمیان بیٹھے اور صحابہ پر سب و شتم کرنے والے لوگوں کو برا بھلا کہنے اور انہیں کافر ثابت کرنے لگے. انہوں نے اپنی بحث کو طول دیتے ہوے کہا:

ان لوگوں سے ہوشیار ہو جو حق کی معرفت اور علمی بحث کے دعووں کے پردے میں صحابہ کی عزت سے کھیلتے ہیں، ان پر خدا و رسول(ص) و ملائکہ اور لوگوں کی لعنت ہو. وہ لوگوں کو ان کے دین کے بارے میں مشکوک کرنا چاہتے ہیں جبکہ رسول(ص) نے فرمایا ہے کہ:

" جب میرے صحابی کے بارے میں تمہارے پاس کوئی غلط خبر پہونچے تو تم خاموش رہنا اس لئے کہ اگر تم(کوہ) احد کے برابر سونے کا انفاق کروگے تب بھی ( ان کی عظمت کے) دسویں حصہ کے برابر تمہیں عظمت نہیں ملے گی"

شیعیت کی طرف مائل میرے ایک ساتھی نے اس کی بات کا سلسلہ یہ کہتے ہوئے منقطع کردیا کہ یہ حدیث جھوٹی ہے اور رسول(ص) کی طرف اس کی نسبت دینا غلط ہے.

میرے ساتھی کی اس بات سے پیش امام اور بعض حاضرین مسجد آپے سے باہر ہوگئے اور پیشانیوں پر بل ڈال کر ہماری طرف متوجہ ہوئے. میں نے نرمی اختیار کی اور پیش امام سے کہا: میرے سید و سردار شیخ جلیل اس

۱۸۵

مسلمان کی کیا تقصیر ہے جو قرآن مجید میں اس آیت کی تلاوت کرتا ہے:

( وَ ما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ‏ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَ فَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلى‏ أَعْقابِكُمْ وَ مَنْ يَنْقَلِبْ عَلى‏ عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئاً وَ سَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ ) آل عمران آیت/144

اور محمد(ص) تو صرف ایک رسول(ص) ہیں جن سے پہلے بہت سے رسول گذر چکے ہیں کیا اگر وہ مرجائیں یا قتل ہو جائیں تو تم الٹے پیروں پلٹ جائو گے، تو جو بھی ایسا کرے گا وہ خدا کا کوئی نقصان نہیں کرے گا اور خدا تو عنقریب شکر گذاروں کو ان کی جزا دے گا.

اور اس مسلمان کا کیا گناہ ہے جو صحیح بخاری و مسلم میں اپنے صحابہ سے متعلق رسول(ص) کا یہ قول دیکھتا ہے.

قیامت کے دن تمہیں شمال کی طرف لے جایا جائے گا تو میں پوچھوں گا کہ کہاں؟ جواب ملے گا جہنم میں. خدا کی قسم میں پھر کہوں گا: پروردگارا یہ میرے صحابی ہیں جواب دیا جائے گا تمہیں نہیں معلوم انہوں نے تمہارے بعد کیا کیا، یہ کافر ہی رہے، تو میں کہوں گا خدا عارت کرے ان کو کہ جنہوں نے میرے بعد شریعت بدلی، اور میں مخلصین کو بہت کم پاتا ہوں.

وہ سب میری طرف کان لگائے خاموشی کے عالم میں میری بات سن رہے تھے، بعض افراد نے مجھ سے معلوم کیا، کیا آپ وثوق کے ساتھ

۱۸۶

کہہ رہے ہیں کہ یہ روایت بخاری میں موجود ہے؟ میں نے جواب دیا جی ہاں میں اتنے ہی یقین کے ساتھ کہہ رہا ہوں جیسا مجھے خدا کے واحد ہونے اور اس کے شریک نہ ہونے کا یقین ہے. اور اس بات کا یقین ہے محمد اس کے بندے اور رسول(ص) ہیں.

جب پیش امام صاحب نے دیکھا کہ میرے احادیث بیان کرنے سے لوگوں پر اثر ہو رہا ہے تو انہوں نے کہا: ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ فتنہ دبا ہوا ہے خدا اس پر لعنت کرے جو اسے بھڑکائے.

میں نے کہا: حضور فتنہ بھڑکان ہوا ہے دبا نہیں ہے. لیکن ہم سو رہے ہیں. ہم میں سے حق کی معرفت کے لئے جو بیدار ہوجاتا ہے. اور آنکھیں کھول لیتا ہے تو آپ اس پر یہ تہمت لگاتے ہیں کہ یہ فتنہ کو ہوا دے رہا ہے. بہر حال تمام مسلمانوں کی یہی خواہش ہے کہ وہ کتاب خدا سنت رسول(ص) کا اتباع کریں وہ ہمارے ان بزرگوں کا اتباع نہیں کرنا چاہتے جو معاویہ و یزید اور ابن عاص سے راضی ہوگئے.

میری بات کو امام نے یہ کہتے ہوئے کاٹ دیا کہ کیا تم سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کاتب وحی سے راضی نہیں ہو؟ میں نے کہا اس موضوع کی شرح بہت طویل ہے اگر اس سلسلہ میں آپ میرا نظریہ معلوم کرنا چاہتے ہیں تو میں آپ کو اپنی کتاب " ثم اہتدیت" ہدیہ کرتا ہوں شاید وہ آپ کو گہری نیند سے بیدار کر دے اور آپ کی آنکھوں کے سامنے بعض حقائق کو آشکار کردے. پیش امام صاحب نے تردد کے ساتھ میری بات اور ہدیہ قبول کر لیا. لیکن ایک ماہ بعد انہوں نے مجھے بہترین خطا لکھا اور اس میں تحریر فرمایا کہ خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے صراط مستقیم کی ہدایت فرمائی اور ولایت اہل بیت علیہم السلام کو آشکار کیا. میں نے ان سے اس

۱۸۷

خط کو ثم اھتدیت کے تیسرے ایڈیشن میں شائع کرنے کی اجازت طلب کی کیونکہ اس میں مودة کے معنی اس روح با صفا کا تذکرہ تھا کہ جس نے حق پہچانتے ہی اپنا لیا تھا اور کہا تھا ہے کہ اکثر اہل سنت حقائق کی طرف مائل تو ہیں بس پردہ ہٹنے کی دیر ہے.

لیکن انہوں نے تحریر فرمایا کہ اس خط کو مخفی رکھا جائے شائع نہ کیا جائے کیونکہ پیش امام صاحب کو اپنے مقتدیوں کو مطمئن و قانع کرنے کے لئے. خاصا وقت چاہئے، ان کی تعبیر کے مطابق ان کی کوشش بھی یہی ہے کہ ان کی دعوت (حق) بغیر کسی ہرج و مرج کے مکمل ہو جائے.

ہم اپنے مضمون کی طرف پلٹتے ہیں. گفتگو صحابہ کے متعلق ہو رہی تھی تا کہ ہم اس تلخ حقیقت کا انکشاف کریں جسے قرآن مجید اور سنت رسول(ص) نے بیان کیا ہے.

اس کا آغاز ہم کلام خدا سے کرتے ہیں کیونکہ اس میں کسی طرف سے بھی باطل داخل نہیں ہوسکتا ہے پس وہ قول فیصل اور صحیح حکم ہے بعص صحابہ کے بارے میں خداوند عالم کا ارشاد ہے:

( وَ مِنْ‏ أَهْلِ‏ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ لا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلى‏ عَذابٍ عَظِيمٍ .) توبہ / آیت/101

اہل مدینہ میں وہ بھی ہیں جو نفاق میں ماہر اور سرکش ہیں تم ان کو نہیں جانتے لیکن ہم خوب جانتے ہیں عنقریب ہم ان پر دہرا عذاب کریں گے اور پھر یہ عظیم عذاب کی طرف پلٹا دیئے جائیں گے.

( يَحْلِفُونَ‏ بِاللَّهِ‏ ما قالُوا وَ لَقَدْ قالُوا كَلِمَةَ

۱۸۸

الْكُفْرِ وَ كَفَرُوا بَعْدَ إِسْلامِهِمْ وَ هَمُّوا بِما لَمْ يَنالُوا )

یہ اپنی باتوں پر اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ ایسا نہیں کیا حالانکہ انہوں نے کلمہ کفر کہا ہے اور اپنے اسلام کے بعد کافر ہوگئے ہیں انہوں نے وہ ارادہ کیا جو حاصل نہ کرسکے. توبہ/74

( وَ مِنْهُمْ‏ مَنْ‏ عاهَدَ اللَّهَ لَئِنْ آتانا مِنْ فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِينَ. فَلَمَّا آتاهُمْ مِنْ فَضْلِهِ بَخِلُوا بِهِ وَ تَوَلَّوْا وَ هُمْ مُعْرِضُونَ. فَأَعْقَبَهُمْ نِفاقاً فِي قُلُوبِهِمْ إِلى‏ يَوْمِ يَلْقَوْنَهُ بِما أَخْلَفُوا اللَّهَ ما وَعَدُوهُ وَ بِما كانُوا يَكْذِبُونَ ) توبہ آیت/77

ان میں وہی ہیں جنہوں نے اپنے خدا سے عہد کیا کہ اگر وہ اپنے فضل و کرم سے کچھ عطا کر دے گا تو اس کی راہ میں صدقہ دیں گے اور نیک بندوں میں شامل ہو جائیں گے جب خدا نے اپنے فضل سے عطا کردیا تو بخل سے کام لیا اور کنارہ کش ہوکر پلٹ گئے تو ان کے بخل نے ان کے دلوں میں نفاق راسخ کردیا اس دن تک کے لئے جب یہ خدا سے ملاقات کریں گے کیونکہ انہوں نے خدا سے کئے ہوئے وعدہ کی مخالفت کی ہے اور جھوٹ بولے ہیں.

( الْأَعْرابُ‏ أَشَدُّ كُفْراً وَ نِفاقاً وَ أَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ ما أَنْزَلَ اللَّهُ عَلى‏ رَسُولِهِ وَ اللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ )

یہ دیہاتی کفر اور نفاق میں بہت سخت ہیں اور اسی قابل ہیں کہ جو کتاب خدا نے اپنے رسول(ص) پر نازل کی ہے

۱۸۹

اس کے حدود اور احکام کو نہ پہچانیں اور اللہ خوب جاننے والا اور صاحب حکمت ہے. توبہ/ آیت/97

( وَ مِنَ‏ النَّاسِ‏ مَنْ‏ يَقُولُ‏ آمَنَّا بِاللَّهِ وَ بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَ ما هُمْ بِمُؤْمِنِينَ. يُخادِعُونَ اللَّهَ وَ الَّذِينَ آمَنُوا وَ ما يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَ ما يَشْعُرُونَ. فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً وَ لَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ بِما كانُوا يَكْذِبُونَ )

کچھ ایسے بھی ہیں جو صاحب ایمان نہیں ہیں یہ خدا اور صاحبان ایمان کو دھوکا دینا چاہتے ہیں حالانکہ اپنے ہی کو دھوکا دیتے رہے ہیں اور اس کو سمجھتے بھی نہیں ہیں ان کے دلوں میں بیماری ہے جس کو خدا نے نفاق کی بنا پر اور بڑھا دیا ہے اب اس جھوٹ کے عوض میں انہیں دردناک عذاب ملے گا.

( إِذا جاءَكَ الْمُنافِقُونَ قالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ‏ لَرَسُولُ‏ اللَّهِ‏ وَ اللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَ اللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنافِقِينَ لَكاذِبُونَ اتَّخَذُوا أَيْمانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ إِنَّهُمْ ساءَ ما كانُوا يَعْمَلُونَ ذلِكَ بِأَنَّهُمْ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا فَطُبِعَ عَلى‏ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لا يَفْقَهُونَ )

( اے میرے) پیغمبر یہ منافقین آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول(ص) ہیں اور اللہ ہی جانتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافقین اپنے دعوی میں جھوٹے ہیں انہوں نے اپنی قسموں کو

۱۹۰

سپر بنا لیا ہے اور لوگوں کو راہ خدا سے روک رہے ہیں یہ ان کے بدترین اعمال ہیں کہ جو یہ انجام دے رہے ہیں یہ اس لئے ہے کہ یہ پہلے ایمان لائے پھر کافر ہوگئے تو ان کے دلوں پر مہر لگادی گئی تو اب کچھ نہیں سمجھ رہے ہیں. منافقون آیت3.

( أَ لَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِما أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَ ما أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ‏ أَنْ‏ يَتَحاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَ قَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ وَ يُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالًا بَعِيداً وَ إِذا قِيلَ لَهُمْ تَعالَوْا إِلى‏ ما أَنْزَلَ اللَّهُ وَ إِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ بِما قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ثُمَّ جاؤُكَ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنْ أَرَدْنا إِلَّا إِحْساناً وَ تَوْفِيقاً )

کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کا خیال یہ ہے کہ وہ آپ پر اور آپ کے پہلے نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لے آئے ہیں اور پھر یہ چاہتے ہیں کہ سرکش لوگوں کے پاس فیصلہ کرائیں جب کہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ طاغوت کا انکار کریں اور شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ انہیں گمراہی میں دور تک کھینچ کر لے جائے اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ حکم خدا اور اس کے رسول(ص) کی طرف آئو تو تم منافقین کو دیکھو گے کہ وہ شدت سے انکار کر دیتے ہیں پس اس وقت کیا ہوگا جب ان پر ان کے اعمال کی بنا پر مصیبت نازل ہوگی اور وہ آپ کے پاس آکر خدا کی قسم کھائیں گے کہ ہمارا مقصد فقط نیکی کرنا اور اتحاد پیدا کرنا تھا. نساء آیت/62

۱۹۱

( إِنَ‏ الْمُنافِقِينَ‏ يُخادِعُونَ‏ اللَّهَ‏ وَ هُوَ خادِعُهُمْ وَ إِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالى‏ يُراؤُنَ النَّاسَ وَ لا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيلًا ) ( النساء: 142)

منافقین خدا کو دھوکا دینا چاہتے ہیں اور خدا انہیں دھوکے میں رکھنے والا ہے اور یہ نماز کے لئے اٹھتے بھی ہیں تو سستی کے ساتھ لوگوں کو دکھانے کے لئے عمل کرتے ہیں اور اللہ کو بہت کم یاد کرتے ہیں.

( وَ إِذا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ‏ أَجْسامُهُمْ‏ وَ إِنْ يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ‏ كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُسَنَّدَةٌ يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ قاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ ‏) ( المنافقون:4)

اور جب آپ انہیں دیکھیں گے تو ان کے جسم بہت اچھے لگیں گے اور بات کریں گے تو اس طرح کہ آپ سننے لگیں لیکن حقیقت میں یہ ایسے ہیں جیسے دیوار سے لگائی ہوئی سوکھی لکڑیاں کہ ہر چیخ کو اپنے ہی خلاف سمجھتے ہیں اور یہ واقعا دشمن ہیں ان سے ہوشیار رہیئے خدا انہیں غارت کرے یہ کہاں بہکے چلے جا رہے ہیں.

( قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الْمُعَوِّقِينَ‏ مِنْكُمْ‏ وَ الْقائِلِينَ لِإِخْوانِهِمْ هَلُمَّ إِلَيْنا وَ لا يَأْتُونَ الْبَأْسَ إِلَّا قَلِيلًا أَشِحَّةً عَلَيْكُمْ فَإِذا جاءَ الْخَوْفُ رَأَيْتَهُمْ يَنْظُرُونَ إِلَيْكَ تَدُورُ أَعْيُنُهُمْ كَالَّذِي يُغْشى‏ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ فَإِذا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوكُمْ بِأَلْسِنَةٍ حِدادٍ أَشِحَّةً عَلَى الْخَيْرِ أُولئِكَ لَمْ يُؤْمِنُوا فَأَحْبَطَ اللَّهُ أَعْمالَهُمْ وَ كانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً" ) (احزاب :19)

۱۹۲

خدا ان لوگوں کو بھی خوب جانتا ہے جو جنگ سے روکنے والے ہیں اور اپنے بھائیوں سے یہ کہنے والے ہیں کہ ہماری طرف آجائو اور یہ خود میدان جنگ میں بہت کم آتے ہیں یہ تم سے جان چراتے ہیں اور جب خوف سامنے آجائے گا تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کی طرف اس طرح دیکھیں گے جیسے ان کی آنکھوں یوں پھر رہی ہیں جیسے موت کی غشی طاری ہو اور جب خوف چلا جائے گا تو آپ پر تیزتر زبانوں کے ساتھ حملہ کریں گے اور انہیں ملا غنیمت کی حرص ہوگی. یہ لوگ شروع ہی سے ایمان نہیں لائے ہیں لہذا خدا نے ان کے اعمال کو بر باد کر دیا ہے اور خدا کے لئے یہ کام بڑا آسان ہے.

( وَ مِنْهُمْ مَنْ‏ يَسْتَمِعُ‏ إِلَيْكَ‏ حَتَّى إِذا خَرَجُوا مِنْ عِنْدِكَ قالُوا لِلَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ ما ذا قالَ آنِفاً أُولئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّهُ عَلى‏ قُلُوبِهِمْ وَ اتَّبَعُوا أَهْواءَهُمْ‏ ) ( محمد:16)

اور ان میں سے کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو آپ کی باتیں بظاہر غور سے سنتے ہیں اور اس کے بعد جب آپ کے پاس سے باہر نکلتے ہیں تو جن لوگوں کو علم دیا گیا ہے ان سے کہتے ہیں کہ انہوں نے ابھی کیا تھا یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر خدا نے مہر لگا دی ہے اور انہوں نے اپنی خواہشات کا اتباع کر لیا ہے.

( أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَنْ لَنْ‏ يُخْرِجَ‏ اللَّهُ‏ أَضْغانَهُمْ‏

۱۹۳

وَ لَوْ نَشاءُ لَأَرَيْناكَهُمْ فَلَعَرَفْتَهُمْ بِسِيماهُمْ وَ لَتَعْرِفَنَّهُمْ فِي لَحْنِ الْقَوْلِ وَ اللَّهُ يَعْلَمُ أَعْمالَكُمْ‏ .)

کیا جن لوگوں کے دلوں میں نفاق کا مرض ہے یہ خیال کرتے ہیں کہ خدا ان کے دلوں کے کینوں کو باہر نہیں لائے گا اور اگر ہم چاہتے تو تمہیں ان لوگوں کو دکھا دیتے تو آپ ان کی پیشانی ہی سے ان کو پہچان لیتے. اور تم انہیں ان کے اندر گفتگو ہی سے ضرور پہچان لوگے اور خدا تمہارے اعمال سے واقف ہے.

( سَيَقُولُ‏ لَكَ‏ الْمُخَلَّفُونَ‏ مِنَ الْأَعْرابِ شَغَلَتْنا أَمْوالُنا وَ أَهْلُونا فَاسْتَغْفِرْ لَنا يَقُولُونَ بِأَلْسِنَتِهِمْ ما لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ... ) (الفتح.1)

عنقریب یہ پیچھے رہ جانے والے گنوار آپ سے کہیں گے کہ ہمارے اموال اور اولاد نے مصروف کر دیا تھا لہذا آپ ہمارے حق میں استغفار کریں یہ لوگ اپنی زبان سے ایسی باتیں کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہے.

قرآن مجید کی یہ واضح آیتیں ان لوگوں کے نفاق کو بیان کر رہی ہیں جو مخلص صحابہ کی صفوں میں ایسے دھنس گئے تھے کہ اگر وحی کے ذریعہ خدا نہ بتاتا تو رسول(ص) سے بھی ان کی حقیقت کو نہ سمجھ پاتے.

لیکن ہمیشہ اہلسنت پر یہ ہمارا اعتراض رہا ہے کہ جو یہ کہتے ہیں کہ منافقین سے ہمیں کیا سروکار صحابہ منافق نہیں ہیں. یا کہتے ہیں کہ جو منافقین ہیں وہ صحابہ نہیں ہیں لیکن جب آپ ان سے سوال کریں گے کہ وہ منافقین کون لوگ ہیں جن کے بارے میں سورہ توبہ اور منافقون میں ایک سو پچاس سے زیادہ آیتیں نازل ہوئیں تو وہ جواب دیں گے کہ وہ عبداللہ ابن ابی اور عبداللہ ابن ابی سلول ہیں ان کے پاس ان دو ناموں

۱۹۴

کے علاوہ تیسرا کوئی نام ہیں ہے.

سبحان اللہ! منافقین کی اتنی بڑی تعداد کہ نبی(ص) بھی ان میں سے بہت سوں کو نہیں جانتے تھے. تو پھر نفاق کو ابن ابی اور ابن ابی سلول میں کیسے منحصر کیا جاسکتا ہے؟ کہ جن کو تمام مسلمان جانتے تھے.اور جب رسول(ص) ان میں سے بعض کو جانتے تھے اور آپ نے حذیفہ یمانی کو ان کے نام بھی بتا دیئے تھے، جیسا کہ تم خود کہتے ہو. اور انہیں ان ناموں کے نقل کرنے سے منع کیا تھا. یہاں تک کہ عمر ابن خطاب نے اپنی خلافت کے زمانہ میں حذیفہ سے اپنے متعلق دریافت کیا کہ کیا میرا نام بھی منافقین کی فہرست میں ہے؟ کیا نبی(ص) نے میرا نام بھی بتایا ہے جیسا تم اپنی کتابوں میں روایت کرتے ہو؟(1) اور جب رسول(ص) نے منافقین کی ایک علامت بتا دی تھی کہ جس سے وہ پہچانے جاتے تھے اور وہ علامت ہے بغض علی ابن ابی طالب(ع) جب کہ تم اپنی صحاح میں لکھتے ہو.(2) پس وہ صحابہ کون ہیں جنہیں تم بلند مقام دیتے اور جن کے لئے رضی اللہ عنہ کہتے ہو جبکہ انہیں علی(ع) سے اتنا بغض ہوگیا تھا کہ آپ سے جنگ کی، آپ کو قتل کیا آپ(ع) کی زندگی اور موت کے بعد آپ(ع) پر اور آپ(ع) کے اہل بیت(ع) و محبین پر لعنت کی اور یہ سب تمہارے نزدیک اصحاب اخیار ہیں! رسول(ص) کی حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ آپ حذیفہ یمانی کو ان( منافقون) کے نام بتادیں اور مسلمانوں کو منافقون کی علامت بتا دیں تاکہ لوگوں پر حجت قائم

____________________

1.کنز العمال جلد/7 ص24، تاریخ ابن عساکر جلد/4 ص97، احیاء العلوم جلد/1 ص129

2.صحیح مسلم ج/1 ص61، ترمذی ج/5 ص306، سنن نسائی ج/8 ص116، کنزالعمال جلد/15 ص105

۱۹۵

ہو جائے اور بعد میں نہ کہہ سکیں کہ ہمیں کچھ معلوم ہی نہ تھا.

آج اہل سنت کے اس قول کی کوئی حقیقت نہیں ہے کہ " ہم امام علی رضی اللہ عنہ و کرم اللہ وجہہ سے محبت رکھتے ہیں" ان کے لئے ہمارا یہ مشورہ ہے کہ قلب مومن میں ولی خدا اور دشمن خدا کی محبت جمع نہیں ہوتی ہے. خود امام علی(ع) نے فرمایا ہے کہ جو ہم کو اور ہمارے دشمنوں کو برابر قرار دے وہ ہم میں سے نہیں ہے.(1) پھر قرآن نے جہاں صحابہ کے بارے میں گفتگو کی ہے وہاں ان کے کچھ اور اوصاف بھی بیان کئے ہیں، اور کی شناخت بتائی ہے. جب ہم ان میں سے مخلص صحابہ کو علیحدہ کر لیتے ہیں تو باقی کو قرآن حکیم فاسق، خائن، متخاذلین، ناکثین واپس پلٹ جانے والے،خدا و رسول(ص) پر شک کرنے والے، میدان جہاد سے فرار کرنے والے، حق کے منکر، حکم خدا و رسول(ص) کا عصیان کرنے والے، جہاد سے جی چرانے والے، ہوائے نفس اور تجارت کے رسیاء تارک الصلوة، قول و فعل میں تضاد رکھنے والے، اپنے اسلام سے رسول(ص) پر احسان جتانے والے، سنگ دل، حق کو قبول نہ کرنے والے، خدا سے خوف نہ کھانے والے، نبی(ص) کی آواز پر آواز بلند کرنے والے، رسول(ص) کو اذیت دینے والے، منافقین کی باتوں پر کان نہ دھرنے والے قرار دیتا ہے. ہمیں اس مختصر مقدار پر ہی اکتفاء کرنی چاہئیے، کیونکہ اس موضوع پر بہت سی آیات موجود ہیں جنہیں ہم نے اختصار کے پیش نظر قلم بند نہیں کیا ہے. لیکن افادیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ان آیات میں سے بعض کا تذکرہ کر دینا ضروری ہے.

____________________

1.نہج البلاغہ جلد/1 ص155

۱۹۶

کہ جو صحابہ کی مذمت میں نازل ہوئی ہیں. اور وہ ان صفات سے متصف بھی تھے. لیکن وہ سیاست کے طفیل میں بعد رسول(ص) اور سلسلہ وحی کے انقطاع کے بعد سارے عادل ہوگئے اور اب کسی مسلمان میں ان کے متعلق کسی قسم کی تنقید کی جرات نہیں ہے.

قرآن بعض صحابہ کی حقیقت کا انکشاف کرتا ہے

منافقین والی آیتوں میں معاند کا تو وہم بھی نہیں ہوتا ہے منافقین کو صحابہ سے جدا کرنے کی کوشش کرتا ہے جیسا کہ اہل سنت کو قول ہے. ہم منافقین سے مخصوص آیات کو سلسلہ وار جمع کیا ہے.

قرآن مجید میں خداوند عالم کا ارشاد ہے:

( يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي‏ سَبِيلِ‏ اللَّهِ‏ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ أَ رَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ فَما مَتاعُ الْحَياةِ الدُّنْيا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ )

اے ایمان لانے والو تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا گیا کہ راہ خدا میں جہاد کے لئے نکلو تو تم زمین سے چپک کر رہ گئے. کیا تم آخرت کے بدلے زندگانی دنیا سے راضی ہوگئے ہو تو یاد رکھو کہ آخرت میں اس متاع زندگانی دنیا کی حقیقت بہت قلیل ہے

۱۹۷

( يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ‏ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ‏ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَ يُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكافِرِينَ يُجاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَ لا يَخافُونَ لَوْمَةَ لائِمٍ ذلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشاءُ وَ اللَّهُ واسِعٌ عَلِيمٌ )

اے صاحبان ایمان تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پلٹ جائے گا تو عنقریب خدا ایک قوم کو لے آئے گا جو اس کی محبوب اور اس سے محبت کرنے والی، مومنین کے سامنے خاکسار اور کفار کے سامنے صاحب عزت، راہ خدا میں جہاد کرنے والی اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کرنے والی ہوگی یہ فضل خدا ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے، وہ صاحب وسعت اور عظیم و دانا بھی ہے. مائدہ، آیت/54

( يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَخُونُوا اللَّهَ‏ وَ الرَّسُولَ وَ تَخُونُوا أَماناتِكُمْ وَ أَنْتُمْ تَعْلَمُونَ وَ اعْلَمُوا أَنَّما أَمْوالُكُمْ وَ أَوْلادُكُمْ فِتْنَةٌ وَ أَنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ )

اے ایمان والو خدا و رسول اور اپنی امانتوں کے بارے میں خیانت نہ کرو جبکہ تم جانتے بھی ہو اور یہ جان لو کہ یہ تمہاری اولاد اور تمہارے اموال ایک آزمائش ہیں اور خدا کے پاس اجر عظیم ہے. انفال، آیت/28

( يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَ لِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ‏ لِما يُحْيِيكُمْ‏ وَ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِهِ وَ أَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ وَ اتَّقُوا فِتْنَةً لا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ

۱۹۸

ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقابِ )

اے ایمان والو اللہ اور رسول(ص) کی آواز پر لبیک کہو جب وہ تمہیں اس امر کی طرف دعوت دیں جس میں تمہاری زندگی ہے اور یاد رکھو کہ خدا انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہو جاتا ہے اور تم سب اسی کی طرف حاضر کئے جائو گے اور تم اس فتنہ سے بچو جو صرف ظالمین کو پہونچنے والا نہیں ہے اور یاد رکھو کہ اللہ سخت ترین عذاب کا مالک ہے. انفال، آیت/25

( يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ‏ عَلَيْكُمْ إِذْ جاءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَ جُنُوداً لَمْ تَرَوْها وَ كانَ اللَّهُ بِما تَعْمَلُونَ بَصِيراً إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَ مِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَناجِرَ وَ تَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا هُنالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَ زُلْزِلُوا زِلْزالًا شَدِيداً وَ إِذْ يَقُولُ الْمُنافِقُونَ وَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَ رَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً )

اے ایمان لانے والو اس وقت اللہ کی نعمت کو یاد رکھو جب کفر کے لشکر تمہارے سامنے آگئے اور ہم نے ان کے خلاف تمہاری مدد کے لئے تیز ہوا اور ایسے لشکر بھیج دیئے جن کو تم نے دیکھا بھی نہیں تھا اور اللہ تمہارے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے اس وقت جب کفار تمہارے اوپر کی طرف سے اور نیچے کی سمت سے آگئے اور دہشت سے نگاہیں خیرہ کرنے لگیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے اور تم خدا کے بارے میں طرح طرح کے خیالات میں مبتلا ہوگئے

۱۹۹

اس وقت مومنین کا با قاعدہ امتحان لیا گیا. اور انہیں شدید قسم کے جھٹکے دئے گئے اور جب منافقین اور جن کے دلوں میں مرض تھا یہ کہہ رہے تھے کہ خدا و رسول(ص) نے ہم سے صرف دھوکہ دینے والا وعدہ کیا ہے. احزاب، آیت/12

( يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ‏ تَقُولُونَ‏ ما لا تَفْعَلُونَ كَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللَّهِ‏ أَنْ تَقُولُوا ما لا تَفْعَلُونَ )

اے ایمان والو آخر وہ بات کیوں کہتے ہو جس پر عمل نہیں کرتے ہو اللہ کے نزدیک یہ سخت ناراضگی کا باعث ہے کہ تم وہ کہو جس پر عمل نہیں کرتے ہو. صف، آیت/3

( أَ لَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ‏ تَخْشَعَ‏ قُلُوبُهُمْ‏ لِذِكْرِ اللَّهِ وَ ما نَزَلَ مِنَ الْحَقِ )

کیا صاحبان ایمان کے لئے وہ وقت نہیں آیا ہے کہ ان کے دل ذکر خدا اور اس کی طرف سے نازل ہونے والے حق کے لئے نرم ہو جائیں. ( حدید آیت16)

( يَمُنُّونَ‏ عَلَيْكَ‏ أَنْ أَسْلَمُوا- قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ بَلِ اللَّهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ- أَنْ هَداكُمْ لِلْإِيمانِ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ ‏) حجرات، آیت/17

یہ لوگ آپ پر احسان جتاتے ہیں کہ اسلام لے آئے ہیں تو آپ کہدیجئے کہ ہمارے اوپر احسان نہ رکھو بلکہ یہ تو خدا کا احسان ہے

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438