تفسیر نمونہ جلد ۴

تفسیر نمونہ 9%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

جلد ۱ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱ جلد ۱۲ جلد ۱۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 148 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27817 / ڈاؤنلوڈ: 4617
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد ۴

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

کتاب : تفسیرنمونه جلد چہارم

مصنف : آیت اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

تفسیرنمونه ، آیه الله العظمی مکارم شیرازی (مدظله العالی) کی ۱۵ ساله زحمات کا نتیجه ہے جس کو معظم له نے اہل قلم کی ایک جماعت کی مدد سے فارسی زبان میں تحریر فرمایا ، اس کا اردو اور عربی زبان میں ترجمه ہو کر شایع ہوچکا ہے.

تعداد جلد: ۱۵جلد

زبان: اردو

مترجم : مولانا سید صفدر حسین نجفی (رح)

قطع: وزيرى

تاریخ اشاعت: ربیع الثانی ۱۴۱۷هجری

بیداری تیار رہنے اور خطرے کے مقابلے میں چوکس

”حذر“ بروزن ” خضر“بیداری تیار رہنے اور خطرے کے مقابلے میں چوکس اور مستعد رہنے کے معنی میں ہے ” بعض اوقات یہ لفظ اس وسیلہ اور ذریعہ کے معنی میں بھی آتا ہے جس کی مدد سے خطرے کا مقابلہ کیا جاسکے ۔ ”ثبات“ ثبہ( بروزن گنہ ) کی جمع ہے ۔ غیر منظم اور منتشر دستوں کے میں لیا گیا ہے ۔ قرآن مجید مندرجہ بالا آیت میں تمام مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے انھیں اجتماع اور وجود کے تحفظ کے لئے دو احکام اور ہدایات دیتا ہے

پہلے کہتا ہے اے وہ لوگو! جو ایمان لاچکے ہو، بڑی باریک بینی سے دشمنوں اور ان کے جاسوسوں پر نظر رکھے رہو ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم ان کی طرف سے غافل ہو کر کسی خطرے سے دو چار ہو جاو( یا ایھا الذین امنوا خذو اخذرکم ) اس کے بعد حکم دیتا ہے کہ دشمن سے مقابلہ کرنے کے لئے مختلف طریقوں اور تکنیکوں ( TECHNIQUES )سے استفادہ کرو اور متعدد دستوں کی صورت میں یا اکھٹے ہو کر دشمن کو زیر کرکے نکل پڑو

( فَانفِرُوا ثُبَاتٍ اٴَوْ انفِرُوا جَمِیعًا ) جہاں مختلف دستوں اور بکھری ہوئی ٹولیوں کی صورت میں حرکت کرنا ضروری ہو وہاں اس طریقے سے آگے بڑھو اور جہاں یہ امر لازمی ہو کہ سب ایک متحد لشکر کی صورت میں دشمن کے مقابلے پر نکلیں ، وہاں اجتماعیت سے غفلت نہ ہو تو ۔۔۔بعض مفسرین نے مندرجہ بالا آیت میں ” حذر“ کی تفسیر صرف اسلحہ کی معنی میں کی ہے حالانکہ حذر کے وسیع معنی ہیں اور اس کا مفہوم اسلحہ تک محدود نہیں ہے ۔ علاوہ ازیں خود اسی سورہ کی آیہ ۱۰۲ میں واضح دلیل موجود ہے جہاں حذر اسلحہ سے مختلف معنی میں استعمال ہوا ہے جہاں خدا فرماتا ہے :

( ان تضعوا اسلحتکم و خذو حذرکم )

کوئی حرج نہیں کہ ضرورت کے وقت نماز کے موقع پر میدان جنگ میں اپنے ہتھیار زمین پر رکھ دو ۔ لیکن حذر یعنی نگرانی اور آمادگی پر مستعد رہو ۔

یہ آیت جامع ہے اور اپنے اندر تمام پہلو لئے ہوئے ہے ۔ تمام مسلمانوں کے لئے اس میں ہر عہد اور ہر دور کے مطابق حکم موجود ہے ۔

کہ اپنی امنیت کی حفاظت اور اپنی سر حدوں کے دفاع کے لئے ہمیشہ مستعد رہو ۔ اور ایک قسم کی مادی و معنوی آمادگی ہمیشہ تمہاری جمعیت پر غالب و حاکم رہے ۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ” حذر“کا معنی اس قدر وسیع ہے کہ جو ہر قسم کے مادی روحانی اور معنوی وسیلہ اور ذریعہ کو اپنے اندر سمو ئے ہوئے ہے ۔ ان باتوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ وقت اور ہر زمانے میں دشمن کی حیثیت، اس کے ہتھیاروں اور جنگی طو طریقوں سے باخبر ہوں اور اپنی تیار ی کے معیار کے ساتھ دشمن کے اسلحہ کی تعداداورکار کردگی کو جانتے ہوں ۔ کیونکہ یہ تمام مذکورہ باتیں دشمن کی طرف سے خطرہ کی پیش بندی اور ” حذر“ کے مفہوم کو سمجھنے میں موثر ہیں ۔

دوسری طرف اپنے دفاع کے لئے ہر طرح کی مادی اور روحانی تیاری ناگزیر ہے ، یہ تیاری تعلیمی ، اقتصادی اور افرادی وقوت کو فراہمی کے حوالے سے بھی مکمل ہونا چاہئیے ۔ اسی طرح جدید اسلحہ کی فراہمی اور اس کے استعمال کے طور طریقوں سے آگاہی بھی ضروری ہے ۔

یہ امر مسلم ہے کہ مسلمانوں نے اگر صرف اسی ایک آیت کو اپنی زندگی پر منطبق کرلیا ہوتا تو اپنی تمام تاریخ میں کبھی شکست اور ناکامی کا منہ نہ دیکھتے ۔ جیسا کہ اوپ والی آیت میں اشارہ ہے کہ جنگ کے مختلف طور طریقوں سے استفادہ کرتے ہوئے کبھی جمود اور دقیانوسیت کا شکار نہ ہونا ، بلکہ وقت اور مقام کے تقاضوں اوردشمن کی حیثیت دیکھتے ہوئے قدم اٹھانا چاہئیے ۔ جہاں دشمن کی حالت اس قسم کی ہے کہ وہاں مختلف دستوں کی صورت میں اس کی طرف پیش قدمی کرنا چاہئیے تو اس طریقے سے استفادہ کرو اور دشمن کے مقابلہ میں ہر دستہ کی مخصوص حکمت عملہ ہو اور جہاں ضرورت ہو کہ سب منظم ہو کر ایک حکمت عملی کے مطابق حملہ کریں تو وہاں ایک ہی صف میں کھڑے ہوجائیں ۔ یہاں واضح ہو جاتا ہے کہ بعض افراد جو اصرار کرتے ہیں کہ اپنی اجتماعی جنگوں میں سب مسلمان ایک ہی طریقہ کو اپنا ئیں اور ان کی تکنیکوں میں کسی قسم کا فرق نہیں ہو نا چاہئیے ، ان کا مولف درست نہیں ۔ ویسے بھی یہ بات منطبق اور تجربے کے خلاف ہے اور اسلامی تعلیمات کی روح کے منافی ہے اور شاید او پر والی آیت اس پہلو کی طرف اشارہ کرتی ہو ۔ حقیقی مقاصد و اہداف کے حصول کے لئے یہ ایک اہم کلیہ ہے ۔

ضمنی طور پر ” جمیعاً“ کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ دشمن کے مقابلہ کے لئے تمام مسلمان بغیر کسی استثناء کے شر کت کریں

اور یہ حکم کسی معین دستہ سے مخصوص نہیں ہے ۔

آیات ۷۲،۷۳

۷۲۔( وَإِنَّ مِنْکُمْ لَمَنْ لَیُبَطِّئَنَّ فَإِنْ اٴَصَابَتْکُمْ مُصِیبَةٌ قَالَ قَدْ اٴَنْعَمَ اللهُ عَلَیَّ إِذْ لَمْ اٴَکُنْ مَعَهُمْ شَهِیدًا ) ۔

۷۳۔( وَلَئِنْ اٴَصَابَکُمْ فَضْلٌ مِنَ اللهِ لَیَقُولَنَّ کَاٴَنْ لَمْ تَکُنْ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَهُ مَوَدَّةٌ یَالَیْتَنِی کُنتُ مَعَهُمْ فَاٴَفُوزَ فَوْزًا عَظِیمًا ) ۔

ترجمہ

۷۲۔ تمہارے درمیان کچھ( منافق)لوگ ہیں کہ وہ خود بھی کاہل ہیں اور دوسروں کو بھی سست بناتے ہیں اگر کوئی مصیبت آپہنچے تو وہ کہتے ہیں کہ خدا نے ہم پر احسان کیا کہ ہم مجاہدین کے ساتھ نہیں تھے کہ ہم (اس مصیبت) کو دیکھتے ۔

۷۳۔ اگر کوئی مالِ غنیمت تمہیں مل جائے تو ٹھیک ،حالانکہ تم میں اور ان میں کوئی مودت و دوستی نہیں ۔ پھر بھی وہ بالکل اس طرح سے کہتے ہیں : کاش ! ہم بھی ان کے ساتھ ہوتے اور نجات اور عظیم کامیابی سے ہمکنار ہوتے ۔

دشمن کے مقابلہ میں جہاد

دشمن کے مقابلہ میں جہاد اور تیاری کے عمومی حکم کے بعد کہ جو گذشتہ آیت میں بیان ہوا ہے ، اس آیت میں منافقین کی ایک جماعت کی حالت بتاتے ہوئے اللہ فرماتا ہے : یہ دو چہروں والے افراد جو تمہارے درمیان ہیں پوری کوشش کرتے ہیں کہ حق کی راہ میں لڑنے والوں کی صفوں میں شریک ہونے سے بچ جائیں ۔

( وَإِنَّ مِنْکُمْ )

۱ یہ بات توجہ طلب ہے کہ اوپر والی آیت میں خطاب مومنین سے ہے لیکن بات منافقین سے کہی جارہی ہے ، باوجود اس کے کہ ” منکم “ کی تعبیر کےس اتھ انھیں مومنین کا جزو شمار کیا ہے ۔ یہ اس بنا پر ہے کہ منافقین ہمیشہ مومنین کے درمیان ہی رہتے تھے اور ظاہراً انہی میں شمار ہوتے تھے ۔

( لَمَنْ لَیُبَطِّئَن )

۲لیبطئن مادہ بطئو( بر وزن قطب) چلنے میں کاہلی اور سستی کے معنی میں ہے اور اہل لغت اور مفسرین کی ایک جماعت کے بقول لازم اور متعدی دونوں معنی رکھتا ہے یعنی چلنے میں بھی کاہل اور سست ہیں اور دوسروں کو بھی اس کام میں شریک کرتے ہیں شاید اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ یہ باب تفصیل میں ہے لہٰذا صرف متعدی و الا معنی رکھتا ہے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ کبھی اپنے آپ کو اور کبھی دوسرو ں کو کاہلی اور سستی پر ابھارتا ہے ؟

لیکن جب مجاہدین میدان جنگ سے واپس آتے ہیں یا میدان جنگ کی خبریں انھیں ملتی ہیں اگر مسلمانوں کو شکست یا شہادت نصیب ہوئی ہو تو مسرت و انبساط سے کہتے ہیں کہ خدانے ہمیں کتنی بڑی نعمت دی ہے ۔ ہم یہ دلخراش منظر دیکھنے کے لئے ان کے ساتھ نہیں تھے ۔

( فَإِنْ اٴَصَابَتْکُمْ مُصِیبَةٌ قَالَ قَدْ اٴَنْعَمَ اللهُ عَلَیَّ إِذْ لَمْ اٴَکُنْ مَعَهُمْ شَهِیدًا ) ۔

لیکن اگر انھیں یہ خبر ملے کہ حقیقی مومنین کامیاب ہوگئے ہیں اور نتیجے میں مال غنیمت ان کے ہاتھ لگا ہے تو یہ منچلے بیگانوں کی طرح حسرت و یاس سے کہتے ہیں کہ کاش ہم بھی مجاہدین کے ساتھ ہوتے اور ہمیں بھی بڑا حصہ ( مال غنیمت کا)ملتا۔ جیسے مومنین سے تو ان کا کوئی ربط ہی نہ ہو ۔

( وَلَئِنْ اٴَصَابَکُمْ فَضْلٌ مِنَ اللهِ لَیَقُولَنَّ کَاٴَنْ لَمْ تَکُنْ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَهُ مَوَدَّةٌ یَالَیْتَنِی کُنتُ مَعَهُمْ فَاٴَفُوزَ فَوْزًا عَظِیمًا ) ۔

اگر چہ اوپر والی آیت میں مال غنیمت کا ذکر نہیں ہوا۔ لیکن واضح ہے کہ جو راہ خدا میں شہادت کو ایک بلا اور مصیبت تصور کرتا ہے اور شہادت کا شعور نہ رکھنے کو خد اکی نعمت تصور کرتا ہے ، اس کے نزدیک صرف مادی اور جنگی غنائم کا حصول عظیم کامیابی اور فتح ہے ۔ یہ دو رخے افراد جن کے متعلق افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہر معاشرے میں تھے اور ہیں ، وہ حقیقی مومنین کی کامیابیوں اور شکستوں سے اپنے قیافے فورا ً بدل لیتے ہیں ۔ غم و آلام میں کبھی ان کا ساتھ نہیں دیتے، مصیبت او رمشکل میں ان کے ہم قدم نہیں ہوتے لیکن اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کامیابیوں اور کامرانیوں کی صورت میں انھیں ( مال غنیمت) ملے اور حقیقی مومنین جیسے امتیازات انھیں حاصل ہوں ۔

آیت ۷۴

۷۴۔( فَلْیُقَاتِلْ فِی سَبِیلِ اللهِ الَّذِینَ یَشْرُونَ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا بِالْآخِرَةِ وَمَنْ یُقَاتِلْ فِی سَبِیلِ اللهِ فَیُقْتَلْ اٴَوْ یَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِیهِ اٴَجْرًا عَظِیمًا ) ۔

ترجمہ

۷۴۔ وہ لوگ جنھوں نے دنیا کی زندگی آخرت کے بدلے بیچی ہے انھیں چاہئیے کہ خدا کی راہ میں جنگ کریں اور جو شخص راہ ِ خدا میں جنگ کرے اورقتل ہو جائے یا غالب آجائے تو ہم اسے اجر عظیم دیں گے ۔

تفسیر

مومنین کو جہاد کے لئے آمادہ کرنا

گذشتہ آیات میں منافقین کو مومنین کی صفوں سے جدا کرکے دکھا یا گیا ہے اس آیت میں اور اس کے بعد آنے والی چند آیات میں صاحب ایمان افراد کو اثر انگیز دلائل کے ساتھ راہ خدا میں جہاد کرنے کی دعوت دی گئی ہے ۔ اس طرف بھی توجہ کرنی چاہئیے کہ یہ آیات ایک ایسے زمناے میں نازل ہوئی ہیں جب طرح طرح کے اندرونی او ربیرونی دشمن اہل ِ اسلام کو ڈرا دھمکا رہے تھے ایسے میں ان آیات کی اہمیت زیادہ واضح ہو جاتی ہے جن میں مسلمانوں کی روحِ جہاد کو ابھارا گیا ہے ۔ آیت کی ابتدامیں خدا فرماتا ہے : راہ خدا میں وہ افراد جنگ کریں جو دنیا کی پست مادی زندگی کا دوسرے جہان کی ابدی اور جاودان زندگی سے تبادلہ کرنے کو تیار ہیں ۔

( فَلْیُقَاتِلْ فِی سَبِیلِ اللهِ الَّذِینَ یَشْرُونَ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا بِالْآخِرَةِ )

یعنی صرف وہ لو گ حقیقی مجاہدین کہلاسکتے ہیں جو اس بات کے لئے آمادہ ہوں اور انھوں نے بجا طور پر یہ جان لیا ہو کہ مادی دنیا کی زندگی جیساکہ لفظ دنیا ( بمعنی پست تر) سے ظاہر ہوتا ہے ہمیشہ رہنے والی زندگی کے لئے باعزت موت کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی لیکن جو لوگ مادی زندگی کو گراں بہا و انسانی مقدس اہداف و مقاصد سے بالاتر سمجھتے ہیں وہ کبھی اچھے مجاہد نہیں ہو سکتے ۔ اس کے بعد آیت کے ذیل میں فرماتا ہے : ” ایسے مجاہدین کا انجام واضح ہے کیونکہ وہ شہید ہو جائیں گے یا دشمن کو تباہ کردیں گے اور ان پر غالب آجائیں گے اور دونوں صورتوں میں ہم انھیں اجر عظیم دیں گے “

( وَمَنْ یُقَاتِلْ فِی سَبِیلِ اللهِ فَیُقْتَلْ اٴَوْ یَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِیهِ اٴَجْرًا عَظِیمًا )

یہ مسلم ہے کہ ایسے جانبازوں کی لغت میں شکست کا وجود نہیں ہے وہ دونوں صورتوں میں اپنے آپ کو کامیاب سمجھتے ہیں یہی ایک جذبہ اس امر کے لئے کافی ہے کہ دشمن ان کے لئے کامیابی کے وسائل فراہم کرے ۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ مسلمانوں کو ایسے دشمنوں پر تیزی سے غلبہ حاصل ہوا جو تعدا، ساز و سامان او رجنگی تیاریوں کے لحاظ سے ان کے مقابلے میں کئی گنا بالادستی رکھتے تھے ۔ اس کا محرک یہی ناقابلِ شکست جذبہ تھا۔ یہاں تک کہ غیر مسلم علماء جنھوں نے رسول اللہ کے زمانے اور آپ کے بعد اسلام او ر مسلمانوں تیز رفتار کامیابیوں پر بحث کی ہے انھوں نے بھی اس جذبے کو ان کی پیش رفت کا محرک قرار دیا ہے ۔

مغرب کا ایک مشہور مورخ رقمطراز ہے ۔(۱)

” نئے مذہب کی بر کت اور جن انعامات کا آخرت میں وعدہ کیا گیا تھا، ان کی وجہ سے وہ موت سے بالکل نہیں ڈرتے تھے اور دوسرے جہان کو چھوڑ کر اس زندگی کی نظر میں کوئی حقیقت نہ تھی ، لہٰذا وہ اس زندگی سے محبت کرنے سے اجتناب کرتے تھے ۔ “

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اوپر والی آیت میں قرآن کی دوسری بہت سی آیات کی طرح اس جہاد کو مقدس قرار دیا گیا ہے جو”فی سبیل الله “ یعنی خدا کی راہ میں ہو، بندگان خدا کی نجات کا ذریعہ ہو، اصول حق و انصاف کی خاطر ہو اور پاکیزگی و تقویٰ کے لئے ہو، نہ کہ وہ جنگیں جو توسیع پسندی م تعصب اور استعمار و سامراجی مقاصد کے لئے لڑی جائیں ۔

____________________

۱تاریخ تمدن اسلام و عرب گوستان و لبون صفحہ ۱۵۵۔

آیت ۷۵

۷۵( وَمَا لَکُمْ لاَتُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللهِ وَالْمُسْتَضْعَفِینَ مِنْ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِینَ یَقُولُونَ رَبَّنَا اٴَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ اٴَهْلُهَا وَاجْعَل لَنَا مِنْ لَدُنْکَ وَلِیًّا وَاجْعَل لَنَا مِنْ لَدُنْکَ نَصِیرًا ) ۔

ترجمہ

۷۵۔کیوں تم خدا کی راہ میں مردوں عورتوں اور بچوں کے لئے کہ ( جو ستمگروں کے ہاتھوں ) کمزور کردئیے گئے ہیں جنگ نہیں کرتے وہ ( ستم زدہ ) افراد جو کہتے ہیں کہ خدا یا ہمیں اس شہر ( مکہ) سے نکال لے جہاں کے رہنے والے ظالم ہیں اور ہمارے لئے اپنی طرف سے ایک سر پرست بھیج اور ہمارے لئے اپنی طرف سے کوئی مدد گار بھیج ۔

تفسیر

انسانی جذبوں کو مظلوموں کی مدد کے لئے ابھارا گیا ہے

گذشتہ آیت میں مومنین کو جہاد کی دعوت دی گئی ہے لیکن خدا و قیامت پر ایمان اور سودوزیاں کے استدلال کا سہارالیا گیا ہے ۔ اس آیت میں انسانی جذبات و احساسات کی بنیاد پر جہاد کی طرف دعوت دیتے ہوئے کہتا ہے : کیوں تم راہ خدا میں اور مظلوم و بیکس مردوں ، عورتوں اور بچوں کے لئے جو ستم گروں کے چنگل میں گرفتار ہیں جنگ نہیں کرتے کیا تمہارے انسانی جذبات اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ خاموش بیٹھے رہو اور ان رقت انگیز مناظر کو دیکھتے رہو

( وَمَا لَکُمْ لاَتُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللهِ وَالْمُسْتَضْعَفِینَ مِنْ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَان ) ۱)

اس کے بعد مومنین کے احساسات کو ولولہ انگیز بنانے کے لئے کہتا ہے : یہ مستضعفین وہی لوگ ہیں جو گھٹے ہوئے ماحول میں گرفتار ہو چکے ہیں اور ہر جگہ سے ناامید ہو چکے ہیں لہٰذا دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہوئے خدا سے در خواست کرتے ہیں کہ وہ اس ظلم و ستم کے ماحول سے انھیں نجات دے ۔

( الَّذِینَ یَقُولُونَ رَبَّنَا اٴَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ اٴَهْلُهَا )

نیز اپنے خدا سے یہ تقاضا بھی کرتے ہیں کہ وہ ایک ولی و سر پرست ان کی حمایت کے لئے بھیج دے ۔

( وَاجْعَل لَنَا مِنْ لَدُنْکَ وَلِیًّا ) اور کہتے ہیں : ہمارے لئے کوئی یاور و مدد گار بھیج( وَاجْعَل لَنَا مِنْ لَدُنْکَ نَصِیرًا )

حقیقت میں اوپر والی آیت اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ خدا نے ان کی دعا کوقبول لیا ہے اور اس عظیم انسانی پیغام ِ رسالت کو تمہارے ذمہ قرار دیا ہے اور تم خد اکی طرف سے ” ولی و نصیر“ موجود ان کی حمایت اور نجات کے لئے معین کئے گئے ہو ۔

لہٰذا ایسانہیں ہونا چاہئیے کہ تم اس موقع اور اعلیٰ حیثیت کو اپنے ہاتھ سے گنوا بیٹھو ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ اسلامی جہاد کے دو ہدف

جہاد اسلامی جیسا کہ پہلے بھی اشارہ ہوا ہے ، مال و متال ، مقام و مرتبہ وسائل اور دوسرے ممالک کے خام مال پر قبضہ کے لئے نہیں ہے اور نہ ہی منڈیاں تلاش کرنے یا عقیدہ اور سیاست ٹھونسنے کے لئے ہے بلکہ صرف اصولِ فضیلت و ایمان کی نشر و اشاعت اور محکوم ، ستم رسیدہ مردوں ، عورتوں اور محروم و مظلوم بچوں کے دفاع کے لئے ہے ۔ اس طرح جہاد کے دو جامع ہدفاور مقاصد ہیں جن کی طرف مندرجہ بالا آیت میں اشارہ ہوا ہے ایک ” خدا کی ہدف“ اور دوسرا” انسانی ہدف“ یہ دونوں حقیقت میں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں اور ان کی باز گشت ایک ہی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔

۲۔ معاشرے میں آزادیِ فکر و نظر

اسلام کی نگاہ میں وہ معاشرہ اور ماحول زندگی بسر کرنے کے قابل ہے جس میں آزادانہ اپنے صحیح عقیدے کے مطابق عمل کیا جاسکے، باقی رہا وہ ماحول یا معاشرہ جس میں گلا گھونٹ دیا جائے اور یہاں تک کہ انسان اتنا آزاد بھی نہ ہوکہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہہ سکے ، اس میں زندگی نہیں گذاری جا سکتی ، جہاں صاحبِ ایمان افراد یہ آرزو کرتے ہوں کہ وہ ایسے ماحول سے باہر چلے جائیں کیونکہ ایسے ماحول میں صرف ستمگر کی بالا دستی ہوتی ہے ۔

قابل توجہ امر یہ ے کہ ” مکہ “ نہایت مقدس شہر اور مہاجرین کا اصل وطن تھا اس کے باوجود اس کی پر آشوب اور گھٹن زدہ کیفیت اس بات کا سبب بنی کہ وہ خدا سے در خواست کریں کہ وہ وہاں سے باہر نکل جائیں ۔

۳۔ یاور سے پہلے رہبر

مندرجہ بالاآیت میں ہے کہ وہ مسلمان جو دشمن کے چنگل میں گرفتار تھے انھون نے پہلے تو اپنی نجات کے لئے خدا کی طرف سے ولی بھیجے جانے کا تقاضا کیا اور پھر ظالموں کے چنگل سے چھٹکاراحاصل کرنے کے لئے نصیر اور مدد گارکی آرزوکی ۔ کیونکہ ہر چیز سے پہلے قابل اور درد مند ” رہبر“ اور سر پرست کا وجود ضروری ہے اور اس کے بعد یار و مددگار کی اور کافی تعداد میں افراد کی ضرورت ہے لہٰذا یہ یاور و مدد گار جتنے بھی ہوں ایک صحیح رہبر کے بغیر بے سود ہیں ۔

۴۔ بار گاہ الہٰی میں دستِ نیاز

صاحبِ ایمان افراد ہرچیز خدا سے چاہتے ہیں اور وہ دستِ نیاز اس کے علاوہ کسی کے آگے نہیں دراز کرتے ، یہاں تک کہ اگر وہ ولی و مدد گار کا تقاضا کریں تب بھی اسی سے ( مدد) چاہتے ہیں ۔

____________________

۱ مستضعف اور ضعیف میں واضح فرق ہے ضعیف وہ ہے جو ناتمام ہو اور مستضعف وہ ہے جو دوسروں کے ظلم و ستم کے باعث کمزور ہو گیا ہو چاہے یہ کمزوری فکری اور ثقافتی اعتبار سے ہو یا اخلاقی نقطہ نظر سے یا اقتصادی حوالے سے یا سیاسی اور اجتماعی نقطہ نظر سے اس طرح یہ ایک جامع تعبیر ہے کہ جو ہر طرح کے استعمار زدہ اور ستم رسیدہ کے لئے استعمال ہوا ہے

آیت ۷۶

۷۶۔( الَّذِینَ آمَنُوا یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللهِ وَالَّذِینَ کَفَرُوا یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُوا اٴَوْلِیَاءَ الشَّیْطَانِ إِنَّ کَیْدَ الشَّیْطَانِ کَانَ ضَعِیفًا ) ۔

ترجمہ

جو صاحبِ ایمان ہیں وہ راہِ خدا میں جنگ کرتے ہیں اورجو کافر ہیں وہ طاغوت ( اور فسادی لوگوں ) کی راہ میں لڑتے ہیں لہٰذا تم ان شیطان کے دوستوں سے جنگ کرو ( اور ان سے ڈرو نہیں ) کیونکہ شیطان کا مکرو فریب( اس کی طاقت کی طرح ) ضعیف و کمزور ہے ۔

تفسیر

پھر اس آیت میں مجاہدین کو شجاعت پر ابھارا گیا ہے اور انھیں دشمن کے ساتھ مبارزہ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے ۔

اس کے علاوہ مجاہدین کی صفوں اور اہداف و مقاصد کو مشخص و ممتاز کرنے کے لئے اس طرح فرماتا ہے :

” صاحبِ ایمان افراد خدا کی راہ میں اس کے لئے جو خدا کے بندوں کے لئے سود مند ہے جنگ کرتے ہیں ، لیکن بے ایمان افراد طاغوت یعنی تباہ کرنے والی طاقتوں کی راہ میں ( جنگ کرتے ہیں )“

( الَّذِینَ آمَنُوا یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللهِ وَالَّذِینَ کَفَرُوا یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ الطَّاغُوتِ )

یعنی بہر حال ان کی زندگی کے دن مبارزہ اور مقابلہ سے خالی نہیں ہیں ۔ زیادہ سے زیادہ ایک گروہ حق کی راہ میں اور دوسرا باطل اور شیطان کی راہ میں برسر پیکار ہے ۔ اس کے بعد کہتا ہے : شیطان کے ساتھیوں سے جنگ کرواور ان سے ڈرو نہیں( فَقَاتِلُوا اٴَوْلِیَاءَ الشَّیْطَان ) ۔

طاغوت، فسادی قووتیں اور ظالم طاقتیں ظاہراً جتنی بھی بڑی اور قوی نظر آئیں لیکن باطن میں زبوں حال اور ناتواں ہیں ۔

ان کے ظاہری سازو سامان ، تیاری اور آراستہ و پیراستہ ہونے سے نہ ڈرو ۔ کیونکہ ان کا باطن کھوکھلا ہے اور ان کے منصوبے اور سازشین ان کی طاقت اور توانائی کی طرح ناقص و کمزور ہیں ۔ کیونکہ خدا ئے لایزل کی قدرت پر ان کا تکیہ نہیں ہے بلکہ وہ شیطانی طاقتوں پر بھروسہ کئے ہوئے ہیں (إِنَّ کَیْدَ الشَّیْطَانِ کَانَ ضَعِیفًا) ۔اس کمزوری اور ناتوانی کی دلیل واضح ہے کیونکہ ایک طرف سے صاحب ِ ایمان افراد اہداف اور حقائق کی راہ میں قدم آگے بڑھاتے ہیں کہ قانونِ آفرینش سے ہم آہنگ اور ہم صا ہیں اور ابدی و جاودانی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں وہ انسانوں کو آزاد کرنے اور ظلم و ستم کے مظاہر کو ختم کرنے کے لئے بر سر پیکار ہیں جبکہ طاغوت کے طرفدار استعماری اور لوٹ مار کری والی قوتیں ناپائیدار شہوت کی راہ میں چلنے والے جن کا اثر معاشرے کی تباہی اور قانونِ آفرینش کے بر خلاف ہے ، سعی و کوشش کرتے ہیں ۔ دوسری طرف سے صاحبِ ایمان افراد روحانی قوتوں پر بھروسہ کرکے مطمئن ہیں کہ وہ ان کی کامیابی کے ضامن ہیں اور وہ انھیں قوت بخشیں گے ۔ جبکہ بے ایمان لوگوں کو کوئی مستحکم سہارا نہیں ہے ۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس آیت میں طاغوت کا شیطان سے مکمل ربط بیان ہواہے کہ کس طرح طاغوت شیطان صفت مختلف طاقتوں سے مدد حاصل کرتا ہے یہاں تک کہ خدا کہتا ہے کہ طاغوت کے ساتھی وہی شیطان کے دوست ہیں ۔ سورہ اعراف آیہ ۲۷ میں یہی مضمون آیا ہے :

( انا جعلنا الشیاطین اولیاء للذین لایومنون )

ہم نے شیاطین کو بے ایمان افراد کا سر پرست بنا دیا ہے ۔

آیت ۷۷

۷۷۔( اٴَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِینَ قِیلَ لَهُمْ کُفُّوا اٴَیْدِیَکُمْ وَاٴَقِیمُوا الصَّلاَةَ وَآتُوا الزَّکَاةَ فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْهِمْ الْقِتَالُ إِذَا فَرِیقٌ مِنْهُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَةِ اللهِ اٴَوْ اٴَشَدَّ خَشْیَةً وَقَالُوا رَبَّنَا لِمَ کَتَبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَ لَوْلاَاٴَخَّرْتَنَا إِلَی اٴَجَلٍ قَرِیبٍ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیلٌ وَالْآخِرَةُ خَیْرٌ لِمَنْ اتَّقَی وَلاَتُظْلَمُونَ فَتِیلًا ) ۔

ترجمہ

۷۷۔ کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنھیں ( مکہ میں ) کہا گیا کہ ( وقتی طور پر) جہاد سے دستبردار ہو جاو اور نماز قائم کرو اور زکوٰة ادا کرو( مگر وہ اس حکم سے رنجیدہ اور غیر مطمئن تھے ) لیکن جس وقت ( مدینہ میں ) انھیں جہاد کا حکم دیا گیا تو ان میں سے ایک گروہ لوگوں سے ایسے ڈرتاتھا جس طرح خدا سے ڈرتے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ وہ کہنے لگے پر وردگار! تونے ہم پر جہاد کیوں فرض کیا ہے کیوں یہ حکم دینے میں تاخیر نہیں کی ۔ ان سے کہہ دو زندگانیِ دنیا کاسرمایہ ناچیز اور کم تر ہے اور جو پر ہیز گار ہو اس کی آخرت بہتر ہے اور تم پر چھوٹے سے چھوٹا ظلم بھی نہیں ہوگا۔

شان ِ نزول

مفسرین کی ایک جماعت مثلاً عظیم مفسر طوسی مولف” تبیان “ او ر،ولفین ” تفسیر قرطبی“ اور ” المنار“ ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی ایک جماعت جب مکہ میں مقیم تھی اور مشرکین کی طرف سے اس پر ظلم و ستم توڑے جارہے تھے اس جماعت کے افراد پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم قبول ِ اسلام سے پہلے محترم اور معزز تھے لیکن قبول اسلام کے بعد ہماری حالت دگر گوں ہ وگئی اور ہم وہ عزت اور احترام کھو بیٹھے ہیں ہمیں دشمن نے اذیت اور مصیبت میں مبتلا کردیا ہے ۔

اگر آپ اجازت دیں تو ہم دشمنوں سے جنگ کریں تاکہ اپنا وقار اور مرتبہ دوبارہ بحال کرسکیں ۔ اس روز پیغمبر نے فرمایا ابھی مجھے جنگ کرنے کا حکم نہیں ہے لیکن جب مسلمان مدینہ میں جابسے اور مقابلے کے لئے زمین ہموارہو گئی، جہاد کاحکم نازل ہوا تو ان میں سے بعض جو پہلے لڑنے کے لئے تلے بیٹھے تھے اب میدان جہاد میں کانے سے کترانے لگے اور اس دن کا جوش و ولولہ ٹھنڈا پڑگیا تھا۔ اس پر مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی او رمسلمانوں میں جذبہ شجاعت بیدار کرنے کے لئے اور جہاد سے گریز کرنے والے افراد کو ملامت کرتے ہوئے حقائق بیان کیے ۔

وہ جو صرف باتیں کرنا جانتے ہیں

قرآن یہاں کہتا ہے ، اس گروہ کی حالت واقعاً تعجب خیز ہے جو ایک نامناسب موقع پر بڑی گرم جوشی اور شور و غوغا سے تقاضا کرتا تھا کہ انھیں جہاد کی اجازت دی جائے انھیں حکم دیا گیا کہ ابھی اپنی حفاظت اورتعمیر کا کام کریں ، نماز پڑھیں ، اپنی تعدادبڑھائیں اور زکوٰة دیتے رہیں لیکن جب ہر لحاظ سے فضا ہموار ہو گئی اور جہاد کاحکم نازل ہوا تو ان پرخوف طاری ہو گیا اور وہ اس حکم کے سامنے زبانِ اعتراض دراز کرنے لگے ۔

( اٴَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِینَ قِیلَ لَهُمْ کُفُّوا اٴَیْدِیَکُمْ وَاٴَقِیمُوا الصَّلاَةَ وَآتُوا الزَّکَاةَ فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْهِمْ الْقِتَالُ إِذَا فَرِیقٌ مِنْهُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَةِ اللهِ اٴَوْ اٴَشَدَّ خَشْیَةً )

وہ اعتراض میں صراحت کے ساتھ کہتے تھے خدا یا تونے اتنا جلدی جہاد کا حکم نازل کر دیا کیا اچھا ہوتااگر اس حکم کو تاخیر میں ڈال دیتا یا یہ پیغام ِ رسالت آئندہ کی نسلوں کے ذمہ ڈال دیا جا تا۔(۱)

( وَقَالُوا رَبَّنَا لِمَ کَتَبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَ لَوْلاَاٴَخَّرْتَنَا إِلَی اٴَجَلٍ قَرِیبٍ )

قرآن اس قسم کے افراد کو دو طرح کے جواب دیتا ہے ، پہلا جواب یہ ہے کہ جو( یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَةِ اللهِ اٴَوْ اٴَشَدَّ خَشْیَةً ) کی عبارت کے دوران دیا جاچکا ہے ۔ یعنی وہ لوگ بجائے اس کے کہ خدائے قاہر سے ڈریں کمزور اور ناتواں انسانوں سے خوف زدہ ہیں بلکہ وہ ان نحیف و ناتواں لوگوں سے خدا کی نسبت زیادہ ڈرتے ہیں دوسرا یہ کہ ایسے افراد کہا جائے کہ فرض کروں چند دن جہاد نہ کرنے کی وجہ سے آرام و سکون حاصل کرلو گے ، پھر بھی یہ زندگی فانی اور بے قیمت ہے لیکن ابدی اور دائمی جہاں تو پرہیز گار لوگوں کے لئے زیادہ قدر و قیمت رکھتا ہے ، خصوصاً جب انھیں مکمل طور پر عوض اور اجر مل جائے گا معمولی سے معمولی ظلم بھی ان پر نہیں ہوگا..

( قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیلٌ وَالْآخِرَةُ خَیْرٌ لِمَنْ اتَّقَی وَلاَتُظْلَمُونَ فَتِیلًا ) ۔(۲)

____________________

۱-بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے حضرت مہدی (علیه السلام) کے قیام کے بارے میں کچھ باتیں سن رکھی تھیں ۔ لہٰذا ان میں سے بعض اس انتظار میں تھے کہ جہاد کا معاملہ قیامِ مہدی (علیه السلام) کے زمانے سے مخصوص ہو جائے ۔ ( نور الثقلین جلد اول ص۵۱۸)

۲-فتیل ایک باریک دھاگہ ہے جو کھجور کے دانے کے درمیان شگاف میں ہوتا ہے جس طرح کہ اس کی تفصیل تیسری جلد میں گزر چکی ہے ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ صرف نماز اور زکوٰة کا تذکرہ کیوں ؟

سب سے پہلے یہ سوال ہوتا ہے کہ تمام احکام ِ سلام میں صرف نماز اور زکوٰة کا کیوں ذکر ہوا ہے حالانکہ احکام اسلامی انہی دو میں منحصر نہےں ہیں ۔

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ نماز خدا سے وابستہ ہونے اور زکوٰة مخلوق خدا سے رشتہ استوار کرنے کی رمز ہے ۔

لہٰذا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو حکم دیا جائے کہ خدا سے محکم و ابستگی اور بند گانِ خدا سے مضبوط رشتہ استوار کرکے اپنے جسم و جان اور اجتماع و معاشرے کو جہاد کے لئے آمادہ کریں ۔ اصطلاح کے مطابق اپنی تربیت کریں ۔ یہ بات مسلم ہے کہ کسی قسم کا جہاد افراد کی روحانی اور جسمانی آمادگی مستحکم رشتوں کے بغیر شکست سے ہمکنار ہو جائے گا۔ مسلمان نماز اور عبادت خدا کے سایے میں اپنے ایمان کو محکم اور اپنے راحانی جذبہ کی پر ورش کرتا ہے اور ہر قسم کے ایثار اور قربانی کے لئے آمادہ ہوتا ہے اور زکوٰة کے ذریعے اجتماعی فاصلوں کو مٹا تا ہے ۔ زکوٰة ہی کے ذریعے آزمودہ کار افراد اور جنگی سازو سامان مہیا کرنے کے لئے ایک اقتصادی معاونت کرتا ہے اور حکم جہاد کے صادر ہونے پر دشمن سے مقابلہ کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہو جاتا ہے ۔

۲۔ مکہ میں حکم زکوٰة

ہم جانتے ہیں کہ زکوٰة کا قانون مدینہ میں نازل ہوا اور مکہ میں مسلمانوں پر زکوٰة واجب نہیں ہوئی تھی اس کے باوجود یہ کیسے ممکن ہے کہ مندروجہ بالا آیت میں مکہ کے مسلمانوں کی حالت و کیفیت بیان کی جارہی ہو ۔ شیخ طوسی مرحوم نے اس سوال کا جواب تفسیر” تبیان “ میں دیا ہے وہ کہتے ہیں کہ مندرجہ بالاآیت میں زکوٰة سے مراد مستحب زکوٰة تھی ۔ جوکہ مکہ میں نافذ تھی ۔ یعنی قرآن مسلمانوں کو ( حتی مکہ میں بھی ) حاجت مندوں کی مالی امداد نو مسلم افرادکے لئے ضرورات مہیا کرنے کی طرف راغب کرتا ہے ۔

۳۔ مکہ اور مدینہ میں مختلف لائحہ عمل

مندرجہ بالا آیت میں ضمنی طور پر ایک اہم حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے اور وہ یہ ہے کہ مکہ میں مسلمانوں کا ایک لائحہ عمل تھا اور مدینہ میں دوسرا۔ مکہ کا تیرہ سالہ قیام مسلمانوں کے انسان سازی کا تھا ۔ پیغمبر اکرم نے شب و روز مسلسل کوشش کی کہ انھیں بت پرستی اور زمانہ جاہلیت کے بیہودہ عناصر سے نجات دلا کر اس قسم کے انسان بنائیں جو زندگی کے بڑے حادثات کا مقابلہ کرتے ہوئے استقامت ، پا مردی اور ایثار کا مظاہرہ کریں اگر مکہ کے قیام کے زمانے میں یہ چیز موجود نہ ہوتی تو مدینہ کے مسلمانوں کو اتنی حیران کن اور پے در پے کامیابیاں نصیب نہ ہوتیں ۔ مکہ کے قیام کا دور مسلمانوں کی تعلیم و تربیت اور تجربہ حاصل کر نے کا دور ہے ۔ اس بنیاد پر قرآن کی ایک سو چودہ سورتوں میں سے تقریباً نوّے سورتیں مکہ میں نازل ہوئیں ۔ ان میں سے زیادہ تر سورتیں عقیدہ، مکتب اور نظر یات کا منبع تھیں لیکن مدینہ کا زمانہ تشکیل حکومت اور ایک مکمل معاشرے کی بنیادیں استوار کرنے کا دور تھا ۔ اس لئے نہ تو مکہ میں جہاد واجب تھا اور نہ ہی زکوٰة ۔ کیونکہ جہاد اسلامی حکومت کے فرائض میں سے ہے جیساکہ بیت المال کی تشکیل بھی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔

حضرت مریم

ماں نے نذر مانی خیال تھا بیٹا ہو گا مگر حضرت مریم کی ولادت ہوئی۔ اللہ نے بیٹی کو بھی خدمت بیت المقدس کے لئے قبول کر لیا۔( وَإِنِّیْ سَمَّیْتُهَا مَرْیَمَ وَإِنِّیْ أُعِیذُهَا بِکَ ) ۔ "میں نے اس لڑکی کا نام مریم رکھا۔ میں اسے شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ (آل عمران: ۳۶) پھر بڑی ہو گئیں۔ خدا کی طرف سے میوے آتے۔ ذکریا پوچھتے۔ بتاتیں۔ من عنداللہ۔ اللہ کی طرف سے ہیں۔حتیٰ کہ جوان ہو گئیں۔ ارشاد رب العزت ہے:

( وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابِ مَرْیَمَ إِذَ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَکَانًا شَرْقِیًّا فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِهِمْ حِجَابًا فَأَرْسَلْنَا إِلَیْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّا قَالَتْ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِالرَّحْمَانِ مِنْکَ إِنْ کُنْتَ تَقِیًّا قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِأَهَبَ لَکِ غُلَامًا زَکِیًّا قَالَتْ أَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلَامٌ وَلَمْ یَمْسَسْنِی بَشَرٌ وَّلَمْ اَ کُ بَغِیًّا قَالَ کَذٰلِکِ قَالَ رَبُّکِ هُوَ عَلَیَّ هَیِّنٌ وَلِنَجْعَلَه آیَة لِّلنَّاسِ وَرَحْمَة مِّنَّا وَکَانَ أَمْرًا مَقْضِیًّا فَحَمَلَتْهُ فَانتَبَذَتْ بِه مَکَانًا قَصِیًّا فَأَجَائَهَا الْمَخَاضُ إِلٰی جِذْعِ النَّخْلَة قَالَتْ یَالَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ هَذَا وَکُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا فَنَادَاهَا مِنْ تَحْتِهَا أَلاَّ تَحْزَنِیْ قَدْ جَعَلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِیًّا وَهُزِّیْ إِلَیْکِ بِجِذْعِ النَّخْلَة تُسَاقِطْ عَلَیْکِ رُطَبًا جَنِیًّا فَکُلِیْ وَاشْرَبِیْ وَقَرِّی عَیْنًا فَإِمَّا تَرَیِنَ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُوْلِی إِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمَانِ صَوْمًا فَلَنْ أُکَلِّمَ الْیَوْمَ إِنْسِیًّا فَأَتَتْ بِه قَوْمَهَا تَحْمِلُه قَالُوْا یَامَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّا یَاأُخْتَ هَارُوْنَ مَا کَانَ أَبُوْکِ امْرَأَ سَوْءٍ وَّمَا کَانَتْ أُمُّکِ بَغِیًّا فَأَشَارَتْ إِلَیْهِ قَالُوْا کَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِی الْمَهْدِ صَبِیًّا قَالَ إِنِّیْ عَبْدُ الله آتَانِیَ الْکِتَابَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا وَّجَعَلَنِیْ مُبَارَکًا أَیْنَ مَا کُنْتُ وَأَوْصَانِیْ بِالصَّلَاة وَالزَّکَاة مَا دُمْتُ حَیًّا وَبَرًّا بِوَالِدَتِیْ وَلَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا وَالسَّلَامُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُ وَیَوْمَ أَمُوتُ وَیَوْمَ ) ( أُبْعَثُ حَیًّا )

"( اے محمد) اس کتاب میں مریم کا ذکر کیجئے۔ جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر مشرق کی جانب گئی تھیں۔ یوں انہوں نے ان سے پردہ اختیار کیا تھا۔ تب ہم نے ان کی طرف اپنا فرشتہ بھیجا۔ پس وہ ان کے سامنے مکمل انسان کی شکل میں ظاہر ہوا۔ مریم نے کہا۔ اگر تو پرہیز گار ہے تو میں تجھ سے رحمان کی پناہ مانگتی ہوں۔ اس نے کہا میں تو بس آپ کے پروردگار کا پیغام رساں ہوں۔ تاکہ آپ کو پاکیزہ بیٹا دوں۔ مریم نے کہا۔ میرے ہاں بیٹا کیسے ہو گا۔ مجھے تو کسی بشر نے چھوا تک نہیں۔ اور میں کوئی بدکردار بھی نہیں ہوں۔ فرشتے نے کہا۔ اسی طرح ہو گا۔ آپ کے پروردگار نے فرمایا ہے کہ یہ تو میرے لئے آسان ہے اور یہ اس لئے ہے کہ ہم اس لڑکے کو لوگوں کے لئے نشانی قرار دیں۔ اور وہ ہماری طرف سے رحمت ثابت ہو اور یہ کام طے شدہ تھا اور مریم اس بچہ سے حاملہ ہو گئیں اور وہ اسے لیکر دور چلی گئیں۔ پھر زچگی کا درد انہیں کھجور کے تنے کی طرف لے آیا۔ کہنے لگیں۔ اے کاش میں اس سے پہلے مر گئی ہوتی اور صفحہ فراموشی میں کھو چکی ہوتی۔ فرشتے نے مریم کے پیروں کے نیچے سے آواز دی غم نہ کیجئے آپ کے پروردگار نے آپ کے قدموں میں ایک چشمہ جاری کیا ہے اور کھجور کے تنے کو ہلائیں تو آپ پر تازہ کھجوریں گریں گی۔ پس آپ کھائیں پئیں اور آنکھیں ٹھنڈی کریں اور اگر کوئی آدمی نظر آئے تو کہہ دیں۔ میں نے رحمان کی نذر مانی ہے۔ اس لئے آج میں کسی آدمی سے بات نہیں کروں گی۔ پھر وہ اس بچے کو اٹھا کر اپنی قوم کے پاس لے آئیں۔ لوگوں نے کہا اے مریم۔ تو نے غضب کی حرکت کی۔ اے ہارون کی بہن۔ نہ تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ ہی تیری ماں بدکردار تھی۔ "پس مریم نے بچے کی طرف اشارہ کیا۔ لوگ کہنے لگے ہم اس کیسے بات کریں۔ جو بچہ ابھی گہوارہ میں ہے۔ بچے نے کہا میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اس نے مجھے کتاب دی ہے۔ اور مجھے نبی بنایا ہے اور میں جہاں بھی ہوں مجھے بابرکت بنایا ہے۔۔ اور زندگی بھر نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کا حکم دیا ہے اور اپنی والدہ کے ساتھ بہتر سلوک کرنے والا قرار دیا ہے اور اس نے مجھے سرکش اور شقی نہیں بنایا۔ اور سلام ہو مجھ پر جس روز میں پیدا ہوا جس روز میں وفات پاؤں گا اور جس روز دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا۔" (مریم: ۱۶ تا ۳۳) حضرت مریم خدا کی خاص کنیز۔بیت المقدس میں ہر وقت رہائش۔ اللہ کی طرف سے جنت کے کھانے و میوے۔ برگزیدہ مخلوق۔ بہت بڑے امتحان میں کامیاب ہوئی۔ ۳ گھنٹہ یا ۳ دن کے بچے نے اپنی نبوت اپنی کتاب اور اپنے بابرکت ہونے کی خبر دے کر کے اپنی والدہ ماجدہ کی عصمت کی گواہی دی اور بتایا مجھے والدہ ماجدہ سے بہترین سلوک کا حکم ملا ہے۔ پھر مریم کے پاؤں کے نیچے چشمہ جاری ہوا۔ خشک درخت سے تر و تازہ کھجوریں۔یہ اللہ کی طرف سے اظہار ہے کہ جو میرا بن جائے خواہ عورت ہو یا مرد۔ میں اس کا بن جاتا ہوں ، عزت کی محافظت میرا کام، اشکالات کے جوابات میری طرف سے اور وہ سب کو ایسے برگزیدہ لوگوں (مرد ہو یا عورت)کے سامنے جھکا دیتا ہے۔تو میرے سامنے جھک جا۔دنیا تیرے سامنے سرنگوں ہو گی۔ حضرت مریم کی تعریف و ثناء ارشاد رب العزت ہے:

( وَإِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِکَة یَامَرْیَمُ إِنَّ الله اصْطَفَاکِ وَطَهَّرَکِ وَاصْطَفَاکِ عَلٰی نِسَاءِ الْعَالَمِیْنَ یَامَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ وَاسْجُدِیْ وَارْکَعِیْ مَعَ الرَّاکِعِیْنَ )

"اور (وہ وقت یاد کرو) جب فرشتوں نے کہا اے مریم۔ اللہ نے تمہیں برگزیدہ کیا ہے اور تمہیں پاکیزہ بنایا ہے اور تمہیں دنیا کی تمام عورتوں سے برگزیدہ کیا ہے اے مریم اپنے رب کی اطاعت کرو اور سجدہ کرتی رہو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرتی رہو۔" (آل عمران : ۴۲ ۔ ۴۳)

( إِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِکَة یَامَرْیَمُ إِنَّ الله یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَة مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِیْحُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَة وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَکَهْلًا وَّمِنَ الصَّالِحِیْنَ قَالَتْ رَبِّ أَنّٰیْ یَکُوْنُ لِیْ وَلَدٌ وَّلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ قَالَ کَذٰلِکِ الله یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ إِذَا قَضٰی أَمْرًا فَإِنَّمَا یَقُوْلُ لَه کُنْ فَیَکُوْنُ وَیُعَلِّمُهُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَة وَالتَّوْرَاة ) ( وَالْإِنجِیْلَ ) ۔

" جب فرشتوں نے کہا اے مریم۔ اللہ تجھے اپنی طرف سے ایک کلمے کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہو گا وہ دنیا و آخرت میں آبرو مند ہو گا اور مقرب لوگوں میں سے ہو گا اور وہ لوگوں سے گہوارہ میں گفتگو کرے گا اور صالحین میں سے ہو گا۔ مریم نے کہا۔ پروردگار! میرے ہاں لڑکا کس طرح ہو گا مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ فرمایا ایسا ہی ہو گا۔ اللہ جو چاہتا ہے خلق فرماتا ہے۔ جب وہ کسی امر کا ارادہ کر لیتا ہے تو اس سے کہتا ہے۔ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔ اور (اللہ) اسے کتاب و حکمت اور توریت و انجیل کی تعلیم دے گا۔" (آل عمران : ۴۵ ۔ ۴۸) اللہ حضرت مریم کو طاہرہ، منتخب ہو اور پاکیزہ ہونے کی سند کے ساتھ عالمین کی عورتوں کی سردار قرار دے رہا ہے۔ کلمۃ اللہ۔ روح اللہ کی ماں اعجاز خدا کا مرکز۔ طہارۃ و پاکیزگی کا مرقع ایسے ان لوگوں کی اللہ تعریف کرتا ہے مرد ہو یا عورت۔ "عورت بھی خدا کی معزز مخلوق ہے۔"

ازواج نبی اعظم

ارشاد رب العزت:( النَّبِیُّ أَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُه أُمَّهَاتُهُمْ ) ۔ نبی مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے اور نبی کی ازواج ان کی مائیں ہیں۔" (احزاب : ۶) ازواج میں بدکرداری و زنا وغیرہ کا تصور نہیں۔ حرم رسول ہیں۔ ا ن میں اس طرح کی خرابی نہیں ہو سکتی۔ ارشاد رب العزت :

( إِنَّ الَّذِیْنَ جَائُوْا بِالْإِفْکِ عُصْبَة مِّنْکُمْ لَاتَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّکُمْ بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ لِکُلِّ امْرِءٍ مِّنْهُمْ مَّا اکْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَه مِنْهُمْ لَه عَذَابٌ عَظِیْمٌ لَوْلاَإِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَیْرًا وَّقَالُوا هَذَا إِفْکٌ مُّبِیْنٌ لَوْلاَجَائُوْا عَلَیْهِ بِأَرْبَعَة شُهَدَاءَ فَإِذْ لَمْ یَأْتُوْا بِالشُّهَدَاءِ فَأُوْلٰئِکَ عِنْدَ الله ) ( هُمُ الْکَاذِبُوْنَ ) ۔

"جو لوگ بہتان باندھتے ہیں وہ یقیناً تمہارا ہی ایک گروہ ہے۔ اسے اپنے لئے برا نہ سمجھنا بلکہ وہ تمہارے لئے اچھا ہے۔ ان میں سے جس نے جتنا گناہ کمایا اس کا اتنا ہی حصہ ہے اور ان میں سے جس نے اس میں سے بڑا بوجھ اٹھایا اس کے لئے بڑا عذاب ہے۔ جب تم نے یہ بات سنی تھی تو مومن مردوں اور مومنہ عورتوں نے اپنے دلوں میں نیک گمان کیوں نہیں کیا اور کیوں نہیں کہا یہ صریح بہتان ہے۔ وہ لوگ اس بات پر چار گواہ کیوں نہ لائے۔ اب چونکہ وہ گواہ نہیں لائے ہیں تو وہ اللہ کے نزدیک جھوٹے ہیں۔" (نور: ۱۱ تا ۱۳) نبی اعظم کی زوجہ (عورت) پر تہمت لگی تو سختی کے ساتھ دفاع کیا گیا تاکہ عورت کی عظمت پر داغ نہ لگ جائے اور مومن مردوں کے ساتھ مومنہ عورتوں سے بھی کہا گیا آپ لوگوں کی پہلی ذمہ داری تھی کہ دفاع کرتے۔ احکام میں دونوں برابر۔(مرد و عورت) اللہ کے احکام امہات المومنین کے نام۔ لیکن ان میں سب عورتیں شریک ہیں۔ ارشاد رب العزت ہے:

( یَاأَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّأَزْوَاجِکَ إِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیَاة الدُّنْیَا وَزِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ أُمَتِّعْکُنَّ وَأُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا وَإِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الله وَرَسُوْلَه وَالدَّارَ الْآخِرَة فَإِنَّ الله أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْکُنَّ أَجْرًا عَظِیْمًا یَانِسَاءَ النَّبِیِّ مَنْ یَّأْتِ مِنْکُنَّ بِفَاحِشَة مُّبَیِّنَة یُّضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی الله یَسِیْرًا وَمَنْ یَّقْنُتْ مِنْکُنَّ لِلّٰهِ وَرَسُولِه وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَیْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا کَرِیْمًا یَانِسَاءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ إِنَ اتَّقَیْتُنَّ فَلَاتَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِه مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَاتَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّة الْأُوْلٰی وَأَقِمْنَ الصَّلَاة وَآتِیْنَ الزَّکَاة وَأَطِعْنَ الله وَرَسُولَه ) ۔

"اے نبی اپنی ازواج سے کہہ دیجئے۔ اگر تم دنیاوی زندگی اور اس کی آسائش کی خواہاں ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دے کرشائستہ طریقہ سے رخصت کر دوں۔ لیکن اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور منزل آخرت کی خواہاں ہو تو تم میں سے جو نیکی کرنے والی ہیں ان کے لئے اللہ نے اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے۔ اے نبی کی بیویو۔ تم میں سے جو کوئی صریح بے حیائی کی مرتکب ہو جائے اسے دگنا عذاب دیا جائیگا اور یہ بات اللہ کے لئے آسان ہے اور تم میں سے جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گی اور نیک عمل انجام دے گی اسے ہم اس کا دگنا ثواب دیں گے اور ہم نے اس کے لئے عزت کا رزق مہیا کر رکھا ہے۔ اے نبی کی بیویو۔ تم دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم تقویٰ رکھتی ہو تو (غیروں کے ساتھ) نرم لہجہ میں باتیں نہ کرنا کہ کہیں وہ شخص لالچ میں نہ پڑ جائے جس کے دل میں بیماری ہے اور معمول کے مطابق باتیں کیا کرو۔اور اپنے گھر میں جم کر بیٹھی رہو اور قدیم جاہلیت کے طریقت سے اپنے آپ کو نمایاں نہ کرتی پھرو۔ نیز نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ " (احزاب: ۲۸ تا ۳۳ ) ان آیات میں بعض چیزوں سے روکا گیا اور بعض کا حکم دیا گیا تاکہ غلط روی سے عورت بچ جائے اور فضائل و کمالات سے اپنے آپ کو آراستہ و پیراستہ کرے۔ اس میں کامیابی و کامرانی کا راستہ ہے۔ قرآن مجید نے ازواج نبی میں سے دو کا تذکرہ کیا ہے چنانچہ اپنی طرف سے تبصرہ کے بجائے آیات اور ان کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔ ارشاد رب العزت۔

( یَاأَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ الله لَکَ تَبْتَغِیْ مَرْضَاة أَزْوَاجِکَ وَالله غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ قَدْ فَرَضَ الله لَکُمْ تَحِلَّة أَیْمَانِکُمْ وَالله مَوْلَاکُمْ وَهُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِیُّ إِلٰی بَعْضِ أَزْوَاجِه حَدِیْثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِه وَأَظْهَرَهُ الله عَلَیْهِ عَرَّفَ بَعْضَه وَأَعْرَضَ عَنْم بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِه قَالَتْ مَنْ أَنْبَأَکَ هَذَا قَالَ نَبَّأَنِیْ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ إِنْ تَتُوْبَا إِلَی الله فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَیْهِ فَإِنَّ الله هُوَ مَوْلاَهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمَلاَئِکَة بَعْدَ ذٰلِکَ ظَهِیْرٌ عَسٰی رَبُّه إِنْ طَلَّقَکُنَّ أَنْ یُّبْدِلَه أَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَیِّبَاتٍ وَّأَبْکَارًا ) ۔

"اے نبی ! تم کیوں اس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہے۔(کیا اس لئے) کہ تم اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہو۔ اللہ معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ اللہ نے تم لوگوں کے لئے اپنی قسموں سے نکلنے کا طریقہ مقرر کر دیا ہے۔ اللہ تمہارا مولیٰ اور وہی علیم و حکیم ہے۔ (ترجمہ آیات از تفہیم القرآن مولانا مودودی ) (اور یہ معاملہ بھی قابل توجہ ہے کہ) نبی نے ایک بات اپنی ایک بیوی سے راز میں کہی تھی۔ پھر جب اس بیوی نے (کسی اور ) وہ راز ظاہر کر دیا اور اللہ نے نبی کو اس (افشاء راز) کی اطلاع دیدی۔ تو نبی نے اس پر کسی حد تک (اس بیوی کو) خبردار کیا اور کسی حد تک اس سے در گزر کیا۔ پھر جب نبی نے اسے (افشاء راز کی) یہ بات بتائی تو اس نے پوچھا آپ کو اس کی کس نے خبر دی۔ نبی نے کہا۔ مجھے اس نے خبر دی جو سب کچھ جانتا ہے اور خوب باخبر ہے۔ اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرتی ہو (تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے) کیونکہ تمہارے دل سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں اور اگر نبی کے مقابلہ میں تم نے باہم جتھہ بندی کی تو جان رکھو کہ اللہ اس کا مولیٰ ہے اور اس کے بعد جبرائیل اور تمام صالح اہل ایمان اور سب ملائکہ اس کے ساتھی اور مددگار ہیں۔ بعید نہیں کہ اگر نبی تم سب بیویوں کو طلاق دے دے۔ تو اللہ اسے ایسی بیویاں تمہارے بدلے میں عطا فرما دے۔ جو تم سے بہتر ہوں ، سچی مسلمان ، باایمان ، اطاعت گزار ، توبہ گزار، عبادت گزار اور روزہ دار۔ خواہ شوہر دیدہ ہوں یا باکرہ۔ جناب مولانا مودودی کے ترجمہ سے واضح ہو رہا ہے (اور باقی تراجم بھی اسی طرح ہی ہیں) کہ حال پتلا ہے کچھ اچھا نہیں۔ خدا خیر کرے۔ ( ۱۴) جناب خدیجۃ الکبریٰ (زوجۂ رسول اعظم ) واقعاً ایک تاریخ ساز خاتون جس نے گھر میں بیٹھ کر تجارت کی۔ مختلف دیار اور امصار میں پھیلی ہوئی تجارت کو سنبھالے رکھا۔ سب سے زیادہ مالدار۔ لیکن عرب شہزادوں ، قبائلی سرداروں اور رؤساء کے پیغام ہائے عقد کو ٹھکرا کر رسول اعظم سے ازدواج کیا اور عورت کی عظمت کو چار چاند لگا دئیے۔ عورت کھلونا نہیں۔ عورت عظمت ہے۔ عورت شرافت ہے۔ عورت جانتی ہے کہ میرا شوہر کون ہو سکتا ہے۔ سب کو ٹھکرا دیا کسی کی خوبصورتی، مالدار ہونا سامنے نہیں رکھا بلکہ نور الہی کو پسند کر کے اللہ و رسول کی خوشنودی کو ترجیح دی۔ واہ رے تیری عظمت اے خدیجہ! خویلد کے اس معزز ترین خاندان کی فرد۔ جو تین پشتوں کے بعد چوتھی میں رسول اعظم سے مل جاتا ہے۔ تزویج سے قبل طاہرہ و سیدۂ قریش کے لقب سے پکاری جاتی تھی۔

قال زبیر کانت تدعٰی فی الجاھلیہ طاہرہ استیعاب برحاشیہ اصابہ جلد ۴ ص ۲۷۹ کانت تدعی فی الجاھلیۃ بالطاہرہ و کان قیل لہا السیدہ قریش۔

(سیرت حلبیہ جلد ۱ ، ص ۱۸۷) حضور مدنی زندگی میں اکثر خدیجہ کا ذکر کرتے رہتے اور فرماتے تھے۔: رزقنی ا لله اولادھا و حرمنی اولاد النساء۔ خدا نے خدیجہ سے مجھے اولاد عطا کی جب کہ اور عورتوں سے نہیں ہوئی، کبھی ارشاد فرماتے : آمنت اذا کفرالناس و صدقتنی اذکذبنی الناس۔ (اصابہ جلد ۴ ص ۲۸۳) وہ مجھ پر تب ایمان لائیں جب کہ لوگ منکر تھے اور انہوں نے میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلاتے تھے۔ تربیتی انداز میں قرآن مجید کی آیات( جن میں امہات المومنین ازواج نبی کو بعض چیزوں سے منع اور بعض کا حکم دیا گیا ہے) مدینہ میں نازل ہوئی ہیں۔ حضرت خدیجہ اس قدر تربیت یافتہ۔ سلیقہ شعار۔ خدا و رسول کے فرامین پر عمل پیرا۔ رسول اعظم کے اشاروں و کنایوں کو سمجھنے والی۔ رسول اعظم کی قلبی راز دار۔ کہ ان کے زمانہ میں ایسے احکام کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ وہ خود عاملہ صالحہ مومنہ کاملہ تھیں۔ تاریخ عالم میں برگزیدہ و عظیم خواتین گزری ہیں لیکن رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے معیار (بہترین عادات و خصائل۔ اعلیٰ خدمات اور عظیم قربانیوں کے عنوان سے) چار عورتیں ہی پوری اتریں۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خیر نساء العالمین اربع۔ مریم بنت عمران و ابنۃ مزاح، امراۃ فرعون و خدیجہ بنت خویلد و فاطمہ بنت محمد۔ (استیعاب بر حاشیہ اصابہ۔ جلد ۴ ، ۳۸۴) نوٹ: مریم بنت عمران، اینہ مزا، زوجہ فرعون، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد یہ پانچ خواتین ہوتی ہیں جبکہ حدیث مین چار بتائی گئی ہیں۔ ( ۱۵) امہات المومنین میں سے زینب بنت جحش جناب زینب کے ساتھ حضور کی تزویج بڑا مشکل اور حساس مسئلہ ہے اللہ کے حکم ہی نے اس مسئلہ کو انتہا تک پہنچایا ، یہ تزویج اللہ کی طرف سے ہوئی۔ جناب زینب فرمایا کرتی تھیں: میرے جیسا کون ہے سب کی شادیاں رسول اعظم کے ساتھ ان کی خواہش یا والدین کی طرف سے ہوئیں اور میری تزویج براہ راست خدا کی طرف سے ہے۔ جناب زینب حضور کی پھوپھی زادہ ، خاندان بنی ہاشم کی چشم و چراغ۔ لیکن حضور نے خود ان کی تزویج اپنے آزاد کردہ غلام اور پھر جس کو متبنیٰ (منہ بولے بیٹے ) زید بن حارث کے ساتھ کی۔ کافی دیر ملا پ رہا لیکن اختلاف بھی رہا۔ بالآخر انہوں نے طلاق دے دی تو اللہ کا حکم ہوا کہ حضور شادی کر لیں۔ اب مشکل درپیش ہے۔ ۱ ۔ متبنی۔(منہ بولے بیٹے) کی زوجہ سے شادی کا فیصلہ ۲ ۔ آزاد کردہ غلام کی مطلقہ سے شادی وہ بھی حضور کی۔ لیکن اللہ کا ارادہ حکم بن کر آیا اور خدا کی طرف سے شادی ہو گئی۔ ارشاد رب العزت ہے:

( وَإِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْ أَنْعَمَ الله عَلَیْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَیْهِ أَمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ وَاتَّقِ الله وَتُخْفِیْ فِیْ نَفْسِکَ مَا الله مُبْدِیْهِ وَتَخْشَی النَّاسَ وَالله أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ فَلَمَّا قَضٰی زَیْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاکَهَا لِکَیْ لاَیَکُوْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ حَرَجٌ فِیْ أَزْوَاجِ أَدْعِیَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا وَکَانَ أَمْرُ الله مَفْعُوْلًا مَا کَانَ عَلَی النَّبِیِّ مِنْ حَرَجٍ فِیْمَا فَرَضَ الله لَه سُنَّة الله فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَکَانَ أَمْرُ الله قَدَرًا مَّقْدُوْرًا ) ۔

"اور (اے رسول یاد کریں وہ وقت) جب آپ اس شخص سے جس پر اللہ نے اور آپ نے احسان کیا تھا کہہ رہے تھے۔ اپنی زوجہ کو نہ چھوڑو اور اللہ سے ڈرو۔ اور وہ بات آپ اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا ہے اور آپ لوگوں سے ڈر رہے تھے حالانکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس سے ڈریں۔ پھر جب زید نے اس (خاتون) سے اپنی حاجت پوری کر لی۔ تو ہم نے اس خاتون کا نکاح آپ سے کر دیا تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں (سے شادی کرنے) کے بارے میں کوئی حرج نہ رہے۔ جب کہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر چکے ہوں اور اللہ کا حکم نافذ ہو کر رہے گا۔"نبی کے لئے اس (عمل کے انجام دینے میں) کوئی مضائقہ نہیں جو اللہ نے اس کے لئے مقرر کیا ہے۔ جو (انبیاء) پہلے گذر چکے ہیں ان کے لئے بھی اللہ کی سنت یہی رہی ہے۔ اور اللہ کا حکم حقیقی انداز سے طے شدہ ہوتا ہے۔" (سورہ احزاب آیت ۳۷ ۔ ۳۸) اس میں کوئی شک نہیں کہ کائنات کی عظیم شخصیت اور سب سے برتر اور معزز شخصیت حضور کی ذات ہے۔ بعد از خدا توئی قصہ مختصر حضور کی محبت کا تقاضا۔ ان کے متعلقین سے پیار اور ان کی عزت کرنا ہے۔ لہٰذا ازواج نبی عزت و عظمت کی مالک ہیں۔ اللہ نے ان کودو خصوصیات عطا کی ہیں۔ ۱ ۔ ازواج نبی۔ مومنین کی مائیں ہیں۔( وَأَزْوَاجُه أُمَّهَاتُهُمْ ) ۔( سورہ احزاب آیت ۶) ۲ ۔ نبی کی ازواج سے اگرچہ طلاق ہو جائے کسی کو شادی کا حق نہیں۔( وَلَاأَنْ تَنْکِحُوْا أَزْوَاجَه مِنْم بَعْدِه أَبَدًا ) ۔ سورہ احزاب آیت ۵۳ اور ان کی ازواج سے ان کے بعد کبھی بھی نکاح نہ کرو۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ بے اعتدالی اور حد سے تجاوز ان سے بھی ہوا ہے حکم تھا کہ گھر میں جم کر بیٹھی رہو۔( وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ آیَاتِ الله وَالْحِکْمَة إِنَّ الله کَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا ) ۔ "اور اللہ کی ان آیات اور حکمت کو یاد رکھو جن کی تمہارے گھروں میں تلاوت ہوتی ہے۔ اللہ یقیناً باریک بین خوب باخبر ہے۔" (احزاب۔ ۳۴) لیکن گھر سے باہر جانا ہوا حوأب کے کتوں نے بھونکتے ہوئے متوجہ کیا، پھر جنگ جمل کی کمان ، نبی اعظم کے خلاف جتھہ بندی۔ سازش، اللہ کی طرف سے دل ٹیڑھے ہونے کا تذکرہ۔( إِنْ تَتُوْبَا إِلَی الله فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَیْهِ فَإِنَّ الله هُوَ مَوْلاَهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمَلاَئِکَة بَعْدَ ذٰلِکَ ظَهِیْرٌ ) (سورہ تحریم: ۴) اللہ کی طرف سے دھمکی آمیز فرمان ،تم کو طلاق بھی ہو سکتی ہے اور تم سے بہتر ازواج مل سکتی ہیں۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ عورت بڑے گھر میں رہنے کے باوجود عورت ہی رہتی ہے۔ بڑے گھر میں آنے سے حقیقی عظمت پیدا نہیں ہوتی۔ لیکن باین ہمہ ازواج نبی انتہائی قابل عزت ، قابل تکریم ہیں کوئی ایسا کلمہ نہ کہا جائے جو عظمت کے منافی ہو۔ خداوند عالم نے ایک طرف ازواج کی طرف سے رسول اعظم کے خلاف سازش۔ دل کا ٹیڑھا ہونے کا تذکرہ کیا ہے دوسری طرف نوح و لوط کی بیویوں کی مخالفت اور کفر کا ذکر کیا نیز زوجۂ فرعون کی عظمت اور مادر عیسیٰ کی تکریم و ثناء کر کے واضح کیا ہے کہ صرف کسی نبی کی زوجہ ہو نا کافی نہیں اصل میں دیکھنا یہ ہو گا کہ فرامین خداوندی پر کس قدر عمل ہوا۔ ارتباط بہ خدا کس قدر ہے نبی کی اطاعت کا پیمانہ کیا ہے۔ مثبت پہلو رکھنے والی زوجہ انتہائی عظیم۔ منفی پہلو رکھنے والی زوجہ اپنی سزا کی مستحق۔

حضرت فاطمۃ الزہراء

رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی اکلوتی بیٹی ، پر عظمت بیٹی ، معصومہ بیٹی جس کی رضا خدا کی رضا، جس کی ناراضگی خدا کی ناراضگی، باپ کا میوہ دل، جس کے متعلق حضور کا فرمان۔ فاطمہ ہی ام ابیہا۔ بغقہ منی میرا ٹکڑا۔مھجۃ قلبی۔ دل کا ٹکڑا۔ جس کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتے اپنی مسند پر بٹھاتے تھے۔ حضرت مریم علیہا السلام کی عظمت و طہارۃ قرآن میں مذکور۔ جناب فاطمہ زہراء کی عظمت کا ذکر قرآن مجید کر رہا ہے، سیدہ زہراء سلام علیہا کو قرآن نے مصطفی (فاطر۔ ۳۲) مرتضیٰ (جن، ۲۷) مجتبیٰ (آل عمر ان : ۱۷۰) اور پھر اذہاب رجس اور یطرکم تطہیرا سے نوازا گیا(احزاب : ۳۳) ۔ فاطمہ زہرا ، ان کے شوہر اور ان کی اولاد کی محبت اجررسالت قرار پائی۔ (شوریٰ ۲۳) نصاریٰ نجران کے مقابل میں مباہلہ میں شرکت۔

( اَلْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ فَلَاتَکُنْ مِّنْ الْمُمْتَرِینَ فَمَنْ حَاجَّکَ فِیْهِ مِنْم بَعْدِمَا جَائَکَ مِّنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَائَنَا وَأَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُم ْوَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَة الله عَلَی الْکَاذِبِیْنَ )

(آل عمران ۶۱) زہرا ،حسین و زینب کبری کی ماں جنہوں نے جان و چادر دیکر اسلام کو زندۂ و جاوید بنا دیا۔ فدک کی مالک فاطمہ ، دربار میں خطبہ دینے والی فاطمہ ، پانی جس کا حق مہر فاطمہ ، جس کی تزویج پہلے عرش عُلیٰ پر پھر زمین پر ہوئی۔ فاطمہ ، بس فاطمہ۔ فاطمہ ،فاطمہ ہی ہے، فاطمہ و اولاد فاطمہ اللہ کے محبوب۔ جان کا نذرانہ پیش کرنے والے۔ جنہوں نے بچے دئیے ، بھتیجے دئیے، بھانجے دئیے، بھائی دئیے، اصحاب و انصار دئیے ، جان کا نذرانہ پیش کیا۔ چادر دی، ہتکڑیاں و طوق پہنے جن کے ہاتھ پس پشت باندھے گئے۔ سیدانیوں کو درباروں ، بازاروں میں پھرایا گیا۔ سب کچھ برداشت ، سب کچھ قبول۔کیوں؟ اسلام بچ جائے۔ انسانیت کی عظمت محفوظ رہے۔ انسانیت کی محافظ ، فاطمہ بنت فاطمہ ، اولاد فاطمہ۔ زینب (عورت) کی عظمت کہ حسین کے کارنامہ کو بازاروں ، درباروں میں خطبہ دے کے واضح و آشکار کیا۔ جب بھی عورت کی عظمت میں تذبذب ، شک ہو تو زینب ، رباب ، ام لیلیٰ ، کلثوم ، سکینہ کے کارنامے دیکھ لیا کرو۔ گردن جھک جائے گی۔ مرد قوام علی النساء۔ لیکن فاطمہ فاطمہ ہے۔ زینب زینب ہے۔ ان کی برابری کیسے ہو؟ عورت بیٹی ، زوجہ ، والدہ بیٹی اللہ کی طرف سے رحمت اور بیٹا نعمت ہے۔نعمت سے رحمت کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے رحمت ہی سے نظام چل رہا ہے۔ باران رحمت انسانی زندگی کے لیے عظیم تحفہ ہے بہرحال قرآن رحمت رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )رحمت ، رحمت جباریت و قہاریت سے زیادہ وسیع ہے اور بیٹی بھی رحمت۔ جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے :

( إِذْ قَالَتِ امْرَأة عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّیْ وَضَعْتُهَا أُنْثٰی وَالله أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَیْسَ الذَّکَرُ کَالْأُنْثٰی وَإِنِّیْ مَّیْتُهَا مَرْیَمَ وَإِنِّیْ أُعِیْذُهَا بِکَ وَذُرِّیَّتَهَا مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَّأَنْبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَّکَفَّلَهَا زَکَرِیَّا کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا قَالَ یَامَرْیَمُ أَنّٰی لَکِ هَذَا قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ الله إِنَّ الله یَرْزُقُ مَنْ یَّشَاءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ )

"(اور وہ وقت یاد کرو) جب عمران کی عورت نے کہا کہ اے پروردگار جو (بچہ) میرے شکم میں ہے اسے تیری نذر کرتی ہوں وہ اور باتوں سے آزاد ہو گا تو میری طرف سے قبول فرما بے شک تو بڑا سننے والا۔ جاننے والا ہے۔ پھر جب اسے جن چکی تو کہنے لگی، مالک۔ میں نے تو بیٹی جنی ہے۔ اللہ کے بارے میں بہتر جانتا ہے کہ جو اس (مادر مریم )نے جنا۔ اور بیٹا اس بیٹی جیسا نہیں ہو سکتا اور میں نے اس (بیٹی)کا نام مریم رکھا ہے اور میں اسے اور اسکی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں چنانچہ اسکے رب نے اسکی نذر (لڑکی) کو بوجہ احسن قبول کیا اوار اس کی بہترین نشوونما کا اہتمام کیا اور زکریا کو اس کا سر پر ست بنا دیا جب زکریا اس کے حجرہ عبادت میں آتے تو اسکے پاس طعام موجود پاتے پوچھا اے مریم یہ (کھانا) تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے۔ وہ کہتی اللہ کے ہاں سے۔ بے شک خدا جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔" )سورہ آل عمران آیت نمبر ۳۵ ۔ ۳۶ ۔ ۳۷ ۔( عام طور پر نذر لڑکوں کی ہوتی ہے ادر مریم بھی پریشان ہوئی لیکن اللہ نے اس کی نذر کو بوجہ احسن قبول فرمایا ارشا د ہو ایس الذکر کالانثی یعنی لڑکا ،لڑکی جیسا نہیں ہو سکتا معلوم ہوا کہ بیٹی کی اہمیت اس کام میں بھی (جس کی نذر کی تھی)بیٹے سے کم نہیں ہے کہ جسے بوجہ احسن قبول فرمایا گیا۔ پھر جب زکریاجیسے نبی ہی کھانا و طعام ملاحظہ فرماتے ہیں تو اللہ کی طرف سے ان نعمات کی آمد پر شکر بجا لاتے۔ بیٹی کی عظمت کی دلیل بیٹی کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ خدا نے رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )کو بیٹی ہی دی۔ صرف ایک بیٹی۔ لیکن وہ اس عظمت کی مالک کہ جب تشریف لاتیں تورسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) بنفس نفیس تعظیم کے لیے کھڑے ہو جاتے۔ جب ارشاد رب العزت ہوا: وآتِ ذَا الْقُرْبیٰ حَقَّہ۔ "قریبی رشتہ داروں کو انکا حق دیا کرو۔" (بنی اسرائیل: ۲۶) تب رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وا ٓلہ وسلم )نے جناب فاطمہ الزہرا کو فدک دے دیا۔ الدر المنثور جلد ۴ ص ۳۲۰ روایت حضرت ابن عباس۔ اسی طرح ارشاد رب العزت ہے:( قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْرًا إِلاَّ الْمَوَدَّة فِی الْقُرْبَی ) "کہہ دیجیے کہ میں اس تبلیغ پر کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے اپنے قریب ترین رشتہ داروں کی محبت کے۔" ( سورۂ شوریٰ: ۲۳ ) اس آیت میں بھی قربت کا محور جناب سیدہ ہیں۔ مزید ارشاد رب العزت ہے:( إِنَّمَا یُرِیْدُ الله لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیْرًا ) ۔ "اے اہل بیت اللہ کا ارادہ بس یہی ہے کہ ہر طرح کی ناپاکی کو آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسا پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔ "( سورہ احزاب: ۳۳ ) آیت تطہیر کا محور بھی جناب سیدہ دختر رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )ہیں چنانچہ وقت تعارف کہا گیا ہے ہم فاطمۃ وابوھا وبعلھا وبنوھا یعنی مرکز تعارف بیٹی ہی بن رہی ہے۔ عورت( بیٹی) کا مقام سیدہ زینب بنت علی کیوں نہ ایک اور بیٹی کا ذکر بھی کر دیا جائے جس نے باپ کے زانو پر بیٹھے ہوئے پوچھا تھا بابا آپ کو ہم سے محبت ہے۔ حضرت نے فرمایا تھا جی ہاں عرض کی یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ سے محبت بھی ہو اور بیٹی سے محبت بھی ہو پھر خود کہا ہاں۔ اللہ سے محبت۔ بیٹی اور اولاد پر شفقت ہے۔ کیا کہنا عظمتِ ثانی زہرا ء۔ کیا شان ہے دختر مرتضی کی جس نے اپنے خطبات سے اسلام کو زندہ و پائندہ بنا دیا۔ حق کو روز روشن کی طرح پوری دنیا کے سامنے واضح کیا کہ حسین۔باغی نہیں نواسہ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )ہے بہرحال تم بیٹی یعنی عورت کو کم درجہ کی مخلوق نہ سمجھو مرد کے کام کی تکمیل عورت ہی کرتی ہے عورت و مرد کا کوئی فرق نہیں ہے۔ معیار ِتفاضل صرف تقویٰ اور ارتباط بہ خدا ہے۔ عورت زوجہ شادی اور تزویج فطرت کی تکمیل ہے۔ حدیث میں ہے کہ شادی کے بغیر مرد کا دین آدھا ہے تزویج سے اسکے دین کی تکمیل ہو گی۔ بعض روایات میں غیر شادی شدہ مرد کو بد ترین کہا گیا ہے ارشاد ہوتا ہے۔ شرا ء کم عزابکم تم میں سے بد ترین افراد غیر شادی شدہ ہیں۔(تفسیر مجمع البیان ) شادی ہی سے اجتماعیت کا تصور پید ا ہوتا ہے اس وقت انسان خود سے ہٹ کر سوچنے کاسلسلہ شروع کرتا ہے۔قرآن مجید نے دعا کی تلقین کی ہے اے انسان یہ دعا طلب کیاکر :( رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّة أَعْیُنٍ ) "پروردگار ہماری ازواج اور ہماری اولا دسے ہماری آنکھوں کو ٹھنڈک عطا فرما۔" (سورہ فرقان : ۷۴) ارشاد رب العزت ہے:( وَأَنْکِحُوْا الْأَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصَّالِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَإِمَائِکُمْ إِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَاءَ یُغْنِهِمُ الله مِنْ فَضْلِه وَالله وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ) "تم میں سے جو لوگ بے نکاح ہوں۔ اور تمہارے غلاموں کنیزوں میں سے جو صالح ہوں ان کے نکاح کر دو اگر وہ نادار ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر د ے گا اور اللہ بڑا وسعت والا علم والا ہے۔" (سورہ نور: ۳۲) انسانیت کی بقا کے لیے سلسلہ تناسل کا جاری رہنا ضروری ہے سلسلہ تناسل کے لیے عورت اسکا لازمی جز و ہے۔انسانیت کی بقا ء مرد و عورت دونوں کی مرہون منت ہے مرد کی طرح عورت بھی اہمیت رکھتی ہے۔عورت کا وجود لازمی اور ضروری ہے۔ اس لیے حکم دیاگیاکہ بے نکاح لوگوں کے نکاح کرو یعنی ایسے اسباب مہیا کرو کہ ان کی شادی ہو سکے نکاح کے اسباب وسائل مہیا کرو تا کہ صالح مرد اور صالحہ عورتوں کے ملاپ سے انسانیت کی بقاء ہو۔ بہرحال اسلام نے بہترین توازن پیدا کیا اور ایسا نظام دیا جس میں ان دونوں کی عزت ،عظمت اور اہمیت ظاہر رہے۔ خطبہ طلب زوجہ بھی (شادی کرنے کی خواہش کا اظہار)مرد کی طرف سے ہے برات مرد کی طرف سے ہے لیکن برأت کے آنے سے نکاح کا صیغہ عورت کی طرف سے ہو گا۔گویا عورت برات کا استقبال کر رہی ہے۔ ایجاب عورت کی طرف سے ہو رہا ہے۔ اب اس عزت و احترام کے ساتھ عورت کا ور ود مرد کے گھر میں ہوتا ہے تاکہ عورت (زوجہ ) کی اہمیت واضح ہو جائے۔ مرد سمجھے کہ کسی نے اپنے جگر کا ٹکڑا اس کے پاس امانت کے طور پر رکھوایا ہے۔ اسی لیے تو اس لڑکی کا باپ یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ میری امانت آپ کے حوالے ہے۔

٭٭٭

حضرت مریم

ماں نے نذر مانی خیال تھا بیٹا ہو گا مگر حضرت مریم کی ولادت ہوئی۔ اللہ نے بیٹی کو بھی خدمت بیت المقدس کے لئے قبول کر لیا۔( وَإِنِّیْ سَمَّیْتُهَا مَرْیَمَ وَإِنِّیْ أُعِیذُهَا بِکَ ) ۔ "میں نے اس لڑکی کا نام مریم رکھا۔ میں اسے شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ (آل عمران: ۳۶) پھر بڑی ہو گئیں۔ خدا کی طرف سے میوے آتے۔ ذکریا پوچھتے۔ بتاتیں۔ من عنداللہ۔ اللہ کی طرف سے ہیں۔حتیٰ کہ جوان ہو گئیں۔ ارشاد رب العزت ہے:

( وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابِ مَرْیَمَ إِذَ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَکَانًا شَرْقِیًّا فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِهِمْ حِجَابًا فَأَرْسَلْنَا إِلَیْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّا قَالَتْ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِالرَّحْمَانِ مِنْکَ إِنْ کُنْتَ تَقِیًّا قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِأَهَبَ لَکِ غُلَامًا زَکِیًّا قَالَتْ أَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلَامٌ وَلَمْ یَمْسَسْنِی بَشَرٌ وَّلَمْ اَ کُ بَغِیًّا قَالَ کَذٰلِکِ قَالَ رَبُّکِ هُوَ عَلَیَّ هَیِّنٌ وَلِنَجْعَلَه آیَة لِّلنَّاسِ وَرَحْمَة مِّنَّا وَکَانَ أَمْرًا مَقْضِیًّا فَحَمَلَتْهُ فَانتَبَذَتْ بِه مَکَانًا قَصِیًّا فَأَجَائَهَا الْمَخَاضُ إِلٰی جِذْعِ النَّخْلَة قَالَتْ یَالَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ هَذَا وَکُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا فَنَادَاهَا مِنْ تَحْتِهَا أَلاَّ تَحْزَنِیْ قَدْ جَعَلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِیًّا وَهُزِّیْ إِلَیْکِ بِجِذْعِ النَّخْلَة تُسَاقِطْ عَلَیْکِ رُطَبًا جَنِیًّا فَکُلِیْ وَاشْرَبِیْ وَقَرِّی عَیْنًا فَإِمَّا تَرَیِنَ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُوْلِی إِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمَانِ صَوْمًا فَلَنْ أُکَلِّمَ الْیَوْمَ إِنْسِیًّا فَأَتَتْ بِه قَوْمَهَا تَحْمِلُه قَالُوْا یَامَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّا یَاأُخْتَ هَارُوْنَ مَا کَانَ أَبُوْکِ امْرَأَ سَوْءٍ وَّمَا کَانَتْ أُمُّکِ بَغِیًّا فَأَشَارَتْ إِلَیْهِ قَالُوْا کَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِی الْمَهْدِ صَبِیًّا قَالَ إِنِّیْ عَبْدُ الله آتَانِیَ الْکِتَابَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا وَّجَعَلَنِیْ مُبَارَکًا أَیْنَ مَا کُنْتُ وَأَوْصَانِیْ بِالصَّلَاة وَالزَّکَاة مَا دُمْتُ حَیًّا وَبَرًّا بِوَالِدَتِیْ وَلَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا وَالسَّلَامُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُ وَیَوْمَ أَمُوتُ وَیَوْمَ ) ( أُبْعَثُ حَیًّا )

"( اے محمد) اس کتاب میں مریم کا ذکر کیجئے۔ جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر مشرق کی جانب گئی تھیں۔ یوں انہوں نے ان سے پردہ اختیار کیا تھا۔ تب ہم نے ان کی طرف اپنا فرشتہ بھیجا۔ پس وہ ان کے سامنے مکمل انسان کی شکل میں ظاہر ہوا۔ مریم نے کہا۔ اگر تو پرہیز گار ہے تو میں تجھ سے رحمان کی پناہ مانگتی ہوں۔ اس نے کہا میں تو بس آپ کے پروردگار کا پیغام رساں ہوں۔ تاکہ آپ کو پاکیزہ بیٹا دوں۔ مریم نے کہا۔ میرے ہاں بیٹا کیسے ہو گا۔ مجھے تو کسی بشر نے چھوا تک نہیں۔ اور میں کوئی بدکردار بھی نہیں ہوں۔ فرشتے نے کہا۔ اسی طرح ہو گا۔ آپ کے پروردگار نے فرمایا ہے کہ یہ تو میرے لئے آسان ہے اور یہ اس لئے ہے کہ ہم اس لڑکے کو لوگوں کے لئے نشانی قرار دیں۔ اور وہ ہماری طرف سے رحمت ثابت ہو اور یہ کام طے شدہ تھا اور مریم اس بچہ سے حاملہ ہو گئیں اور وہ اسے لیکر دور چلی گئیں۔ پھر زچگی کا درد انہیں کھجور کے تنے کی طرف لے آیا۔ کہنے لگیں۔ اے کاش میں اس سے پہلے مر گئی ہوتی اور صفحہ فراموشی میں کھو چکی ہوتی۔ فرشتے نے مریم کے پیروں کے نیچے سے آواز دی غم نہ کیجئے آپ کے پروردگار نے آپ کے قدموں میں ایک چشمہ جاری کیا ہے اور کھجور کے تنے کو ہلائیں تو آپ پر تازہ کھجوریں گریں گی۔ پس آپ کھائیں پئیں اور آنکھیں ٹھنڈی کریں اور اگر کوئی آدمی نظر آئے تو کہہ دیں۔ میں نے رحمان کی نذر مانی ہے۔ اس لئے آج میں کسی آدمی سے بات نہیں کروں گی۔ پھر وہ اس بچے کو اٹھا کر اپنی قوم کے پاس لے آئیں۔ لوگوں نے کہا اے مریم۔ تو نے غضب کی حرکت کی۔ اے ہارون کی بہن۔ نہ تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ ہی تیری ماں بدکردار تھی۔ "پس مریم نے بچے کی طرف اشارہ کیا۔ لوگ کہنے لگے ہم اس کیسے بات کریں۔ جو بچہ ابھی گہوارہ میں ہے۔ بچے نے کہا میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اس نے مجھے کتاب دی ہے۔ اور مجھے نبی بنایا ہے اور میں جہاں بھی ہوں مجھے بابرکت بنایا ہے۔۔ اور زندگی بھر نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کا حکم دیا ہے اور اپنی والدہ کے ساتھ بہتر سلوک کرنے والا قرار دیا ہے اور اس نے مجھے سرکش اور شقی نہیں بنایا۔ اور سلام ہو مجھ پر جس روز میں پیدا ہوا جس روز میں وفات پاؤں گا اور جس روز دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا۔" (مریم: ۱۶ تا ۳۳) حضرت مریم خدا کی خاص کنیز۔بیت المقدس میں ہر وقت رہائش۔ اللہ کی طرف سے جنت کے کھانے و میوے۔ برگزیدہ مخلوق۔ بہت بڑے امتحان میں کامیاب ہوئی۔ ۳ گھنٹہ یا ۳ دن کے بچے نے اپنی نبوت اپنی کتاب اور اپنے بابرکت ہونے کی خبر دے کر کے اپنی والدہ ماجدہ کی عصمت کی گواہی دی اور بتایا مجھے والدہ ماجدہ سے بہترین سلوک کا حکم ملا ہے۔ پھر مریم کے پاؤں کے نیچے چشمہ جاری ہوا۔ خشک درخت سے تر و تازہ کھجوریں۔یہ اللہ کی طرف سے اظہار ہے کہ جو میرا بن جائے خواہ عورت ہو یا مرد۔ میں اس کا بن جاتا ہوں ، عزت کی محافظت میرا کام، اشکالات کے جوابات میری طرف سے اور وہ سب کو ایسے برگزیدہ لوگوں (مرد ہو یا عورت)کے سامنے جھکا دیتا ہے۔تو میرے سامنے جھک جا۔دنیا تیرے سامنے سرنگوں ہو گی۔ حضرت مریم کی تعریف و ثناء ارشاد رب العزت ہے:

( وَإِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِکَة یَامَرْیَمُ إِنَّ الله اصْطَفَاکِ وَطَهَّرَکِ وَاصْطَفَاکِ عَلٰی نِسَاءِ الْعَالَمِیْنَ یَامَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ وَاسْجُدِیْ وَارْکَعِیْ مَعَ الرَّاکِعِیْنَ )

"اور (وہ وقت یاد کرو) جب فرشتوں نے کہا اے مریم۔ اللہ نے تمہیں برگزیدہ کیا ہے اور تمہیں پاکیزہ بنایا ہے اور تمہیں دنیا کی تمام عورتوں سے برگزیدہ کیا ہے اے مریم اپنے رب کی اطاعت کرو اور سجدہ کرتی رہو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرتی رہو۔" (آل عمران : ۴۲ ۔ ۴۳)

( إِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِکَة یَامَرْیَمُ إِنَّ الله یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَة مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِیْحُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَة وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَکَهْلًا وَّمِنَ الصَّالِحِیْنَ قَالَتْ رَبِّ أَنّٰیْ یَکُوْنُ لِیْ وَلَدٌ وَّلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ قَالَ کَذٰلِکِ الله یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ إِذَا قَضٰی أَمْرًا فَإِنَّمَا یَقُوْلُ لَه کُنْ فَیَکُوْنُ وَیُعَلِّمُهُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَة وَالتَّوْرَاة ) ( وَالْإِنجِیْلَ ) ۔

" جب فرشتوں نے کہا اے مریم۔ اللہ تجھے اپنی طرف سے ایک کلمے کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہو گا وہ دنیا و آخرت میں آبرو مند ہو گا اور مقرب لوگوں میں سے ہو گا اور وہ لوگوں سے گہوارہ میں گفتگو کرے گا اور صالحین میں سے ہو گا۔ مریم نے کہا۔ پروردگار! میرے ہاں لڑکا کس طرح ہو گا مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ فرمایا ایسا ہی ہو گا۔ اللہ جو چاہتا ہے خلق فرماتا ہے۔ جب وہ کسی امر کا ارادہ کر لیتا ہے تو اس سے کہتا ہے۔ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔ اور (اللہ) اسے کتاب و حکمت اور توریت و انجیل کی تعلیم دے گا۔" (آل عمران : ۴۵ ۔ ۴۸) اللہ حضرت مریم کو طاہرہ، منتخب ہو اور پاکیزہ ہونے کی سند کے ساتھ عالمین کی عورتوں کی سردار قرار دے رہا ہے۔ کلمۃ اللہ۔ روح اللہ کی ماں اعجاز خدا کا مرکز۔ طہارۃ و پاکیزگی کا مرقع ایسے ان لوگوں کی اللہ تعریف کرتا ہے مرد ہو یا عورت۔ "عورت بھی خدا کی معزز مخلوق ہے۔"

ازواج نبی اعظم

ارشاد رب العزت:( النَّبِیُّ أَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُه أُمَّهَاتُهُمْ ) ۔ نبی مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے اور نبی کی ازواج ان کی مائیں ہیں۔" (احزاب : ۶) ازواج میں بدکرداری و زنا وغیرہ کا تصور نہیں۔ حرم رسول ہیں۔ ا ن میں اس طرح کی خرابی نہیں ہو سکتی۔ ارشاد رب العزت :

( إِنَّ الَّذِیْنَ جَائُوْا بِالْإِفْکِ عُصْبَة مِّنْکُمْ لَاتَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّکُمْ بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ لِکُلِّ امْرِءٍ مِّنْهُمْ مَّا اکْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَه مِنْهُمْ لَه عَذَابٌ عَظِیْمٌ لَوْلاَإِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَیْرًا وَّقَالُوا هَذَا إِفْکٌ مُّبِیْنٌ لَوْلاَجَائُوْا عَلَیْهِ بِأَرْبَعَة شُهَدَاءَ فَإِذْ لَمْ یَأْتُوْا بِالشُّهَدَاءِ فَأُوْلٰئِکَ عِنْدَ الله ) ( هُمُ الْکَاذِبُوْنَ ) ۔

"جو لوگ بہتان باندھتے ہیں وہ یقیناً تمہارا ہی ایک گروہ ہے۔ اسے اپنے لئے برا نہ سمجھنا بلکہ وہ تمہارے لئے اچھا ہے۔ ان میں سے جس نے جتنا گناہ کمایا اس کا اتنا ہی حصہ ہے اور ان میں سے جس نے اس میں سے بڑا بوجھ اٹھایا اس کے لئے بڑا عذاب ہے۔ جب تم نے یہ بات سنی تھی تو مومن مردوں اور مومنہ عورتوں نے اپنے دلوں میں نیک گمان کیوں نہیں کیا اور کیوں نہیں کہا یہ صریح بہتان ہے۔ وہ لوگ اس بات پر چار گواہ کیوں نہ لائے۔ اب چونکہ وہ گواہ نہیں لائے ہیں تو وہ اللہ کے نزدیک جھوٹے ہیں۔" (نور: ۱۱ تا ۱۳) نبی اعظم کی زوجہ (عورت) پر تہمت لگی تو سختی کے ساتھ دفاع کیا گیا تاکہ عورت کی عظمت پر داغ نہ لگ جائے اور مومن مردوں کے ساتھ مومنہ عورتوں سے بھی کہا گیا آپ لوگوں کی پہلی ذمہ داری تھی کہ دفاع کرتے۔ احکام میں دونوں برابر۔(مرد و عورت) اللہ کے احکام امہات المومنین کے نام۔ لیکن ان میں سب عورتیں شریک ہیں۔ ارشاد رب العزت ہے:

( یَاأَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّأَزْوَاجِکَ إِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیَاة الدُّنْیَا وَزِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ أُمَتِّعْکُنَّ وَأُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا وَإِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الله وَرَسُوْلَه وَالدَّارَ الْآخِرَة فَإِنَّ الله أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْکُنَّ أَجْرًا عَظِیْمًا یَانِسَاءَ النَّبِیِّ مَنْ یَّأْتِ مِنْکُنَّ بِفَاحِشَة مُّبَیِّنَة یُّضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی الله یَسِیْرًا وَمَنْ یَّقْنُتْ مِنْکُنَّ لِلّٰهِ وَرَسُولِه وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَیْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا کَرِیْمًا یَانِسَاءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ إِنَ اتَّقَیْتُنَّ فَلَاتَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِه مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَاتَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّة الْأُوْلٰی وَأَقِمْنَ الصَّلَاة وَآتِیْنَ الزَّکَاة وَأَطِعْنَ الله وَرَسُولَه ) ۔

"اے نبی اپنی ازواج سے کہہ دیجئے۔ اگر تم دنیاوی زندگی اور اس کی آسائش کی خواہاں ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دے کرشائستہ طریقہ سے رخصت کر دوں۔ لیکن اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور منزل آخرت کی خواہاں ہو تو تم میں سے جو نیکی کرنے والی ہیں ان کے لئے اللہ نے اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے۔ اے نبی کی بیویو۔ تم میں سے جو کوئی صریح بے حیائی کی مرتکب ہو جائے اسے دگنا عذاب دیا جائیگا اور یہ بات اللہ کے لئے آسان ہے اور تم میں سے جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گی اور نیک عمل انجام دے گی اسے ہم اس کا دگنا ثواب دیں گے اور ہم نے اس کے لئے عزت کا رزق مہیا کر رکھا ہے۔ اے نبی کی بیویو۔ تم دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم تقویٰ رکھتی ہو تو (غیروں کے ساتھ) نرم لہجہ میں باتیں نہ کرنا کہ کہیں وہ شخص لالچ میں نہ پڑ جائے جس کے دل میں بیماری ہے اور معمول کے مطابق باتیں کیا کرو۔اور اپنے گھر میں جم کر بیٹھی رہو اور قدیم جاہلیت کے طریقت سے اپنے آپ کو نمایاں نہ کرتی پھرو۔ نیز نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ " (احزاب: ۲۸ تا ۳۳ ) ان آیات میں بعض چیزوں سے روکا گیا اور بعض کا حکم دیا گیا تاکہ غلط روی سے عورت بچ جائے اور فضائل و کمالات سے اپنے آپ کو آراستہ و پیراستہ کرے۔ اس میں کامیابی و کامرانی کا راستہ ہے۔ قرآن مجید نے ازواج نبی میں سے دو کا تذکرہ کیا ہے چنانچہ اپنی طرف سے تبصرہ کے بجائے آیات اور ان کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔ ارشاد رب العزت۔

( یَاأَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ الله لَکَ تَبْتَغِیْ مَرْضَاة أَزْوَاجِکَ وَالله غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ قَدْ فَرَضَ الله لَکُمْ تَحِلَّة أَیْمَانِکُمْ وَالله مَوْلَاکُمْ وَهُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِیُّ إِلٰی بَعْضِ أَزْوَاجِه حَدِیْثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِه وَأَظْهَرَهُ الله عَلَیْهِ عَرَّفَ بَعْضَه وَأَعْرَضَ عَنْم بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِه قَالَتْ مَنْ أَنْبَأَکَ هَذَا قَالَ نَبَّأَنِیْ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ إِنْ تَتُوْبَا إِلَی الله فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَیْهِ فَإِنَّ الله هُوَ مَوْلاَهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمَلاَئِکَة بَعْدَ ذٰلِکَ ظَهِیْرٌ عَسٰی رَبُّه إِنْ طَلَّقَکُنَّ أَنْ یُّبْدِلَه أَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَیِّبَاتٍ وَّأَبْکَارًا ) ۔

"اے نبی ! تم کیوں اس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہے۔(کیا اس لئے) کہ تم اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہو۔ اللہ معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ اللہ نے تم لوگوں کے لئے اپنی قسموں سے نکلنے کا طریقہ مقرر کر دیا ہے۔ اللہ تمہارا مولیٰ اور وہی علیم و حکیم ہے۔ (ترجمہ آیات از تفہیم القرآن مولانا مودودی ) (اور یہ معاملہ بھی قابل توجہ ہے کہ) نبی نے ایک بات اپنی ایک بیوی سے راز میں کہی تھی۔ پھر جب اس بیوی نے (کسی اور ) وہ راز ظاہر کر دیا اور اللہ نے نبی کو اس (افشاء راز) کی اطلاع دیدی۔ تو نبی نے اس پر کسی حد تک (اس بیوی کو) خبردار کیا اور کسی حد تک اس سے در گزر کیا۔ پھر جب نبی نے اسے (افشاء راز کی) یہ بات بتائی تو اس نے پوچھا آپ کو اس کی کس نے خبر دی۔ نبی نے کہا۔ مجھے اس نے خبر دی جو سب کچھ جانتا ہے اور خوب باخبر ہے۔ اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرتی ہو (تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے) کیونکہ تمہارے دل سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں اور اگر نبی کے مقابلہ میں تم نے باہم جتھہ بندی کی تو جان رکھو کہ اللہ اس کا مولیٰ ہے اور اس کے بعد جبرائیل اور تمام صالح اہل ایمان اور سب ملائکہ اس کے ساتھی اور مددگار ہیں۔ بعید نہیں کہ اگر نبی تم سب بیویوں کو طلاق دے دے۔ تو اللہ اسے ایسی بیویاں تمہارے بدلے میں عطا فرما دے۔ جو تم سے بہتر ہوں ، سچی مسلمان ، باایمان ، اطاعت گزار ، توبہ گزار، عبادت گزار اور روزہ دار۔ خواہ شوہر دیدہ ہوں یا باکرہ۔ جناب مولانا مودودی کے ترجمہ سے واضح ہو رہا ہے (اور باقی تراجم بھی اسی طرح ہی ہیں) کہ حال پتلا ہے کچھ اچھا نہیں۔ خدا خیر کرے۔ ( ۱۴) جناب خدیجۃ الکبریٰ (زوجۂ رسول اعظم ) واقعاً ایک تاریخ ساز خاتون جس نے گھر میں بیٹھ کر تجارت کی۔ مختلف دیار اور امصار میں پھیلی ہوئی تجارت کو سنبھالے رکھا۔ سب سے زیادہ مالدار۔ لیکن عرب شہزادوں ، قبائلی سرداروں اور رؤساء کے پیغام ہائے عقد کو ٹھکرا کر رسول اعظم سے ازدواج کیا اور عورت کی عظمت کو چار چاند لگا دئیے۔ عورت کھلونا نہیں۔ عورت عظمت ہے۔ عورت شرافت ہے۔ عورت جانتی ہے کہ میرا شوہر کون ہو سکتا ہے۔ سب کو ٹھکرا دیا کسی کی خوبصورتی، مالدار ہونا سامنے نہیں رکھا بلکہ نور الہی کو پسند کر کے اللہ و رسول کی خوشنودی کو ترجیح دی۔ واہ رے تیری عظمت اے خدیجہ! خویلد کے اس معزز ترین خاندان کی فرد۔ جو تین پشتوں کے بعد چوتھی میں رسول اعظم سے مل جاتا ہے۔ تزویج سے قبل طاہرہ و سیدۂ قریش کے لقب سے پکاری جاتی تھی۔

قال زبیر کانت تدعٰی فی الجاھلیہ طاہرہ استیعاب برحاشیہ اصابہ جلد ۴ ص ۲۷۹ کانت تدعی فی الجاھلیۃ بالطاہرہ و کان قیل لہا السیدہ قریش۔

(سیرت حلبیہ جلد ۱ ، ص ۱۸۷) حضور مدنی زندگی میں اکثر خدیجہ کا ذکر کرتے رہتے اور فرماتے تھے۔: رزقنی ا لله اولادھا و حرمنی اولاد النساء۔ خدا نے خدیجہ سے مجھے اولاد عطا کی جب کہ اور عورتوں سے نہیں ہوئی، کبھی ارشاد فرماتے : آمنت اذا کفرالناس و صدقتنی اذکذبنی الناس۔ (اصابہ جلد ۴ ص ۲۸۳) وہ مجھ پر تب ایمان لائیں جب کہ لوگ منکر تھے اور انہوں نے میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلاتے تھے۔ تربیتی انداز میں قرآن مجید کی آیات( جن میں امہات المومنین ازواج نبی کو بعض چیزوں سے منع اور بعض کا حکم دیا گیا ہے) مدینہ میں نازل ہوئی ہیں۔ حضرت خدیجہ اس قدر تربیت یافتہ۔ سلیقہ شعار۔ خدا و رسول کے فرامین پر عمل پیرا۔ رسول اعظم کے اشاروں و کنایوں کو سمجھنے والی۔ رسول اعظم کی قلبی راز دار۔ کہ ان کے زمانہ میں ایسے احکام کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ وہ خود عاملہ صالحہ مومنہ کاملہ تھیں۔ تاریخ عالم میں برگزیدہ و عظیم خواتین گزری ہیں لیکن رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے معیار (بہترین عادات و خصائل۔ اعلیٰ خدمات اور عظیم قربانیوں کے عنوان سے) چار عورتیں ہی پوری اتریں۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خیر نساء العالمین اربع۔ مریم بنت عمران و ابنۃ مزاح، امراۃ فرعون و خدیجہ بنت خویلد و فاطمہ بنت محمد۔ (استیعاب بر حاشیہ اصابہ۔ جلد ۴ ، ۳۸۴) نوٹ: مریم بنت عمران، اینہ مزا، زوجہ فرعون، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد یہ پانچ خواتین ہوتی ہیں جبکہ حدیث مین چار بتائی گئی ہیں۔ ( ۱۵) امہات المومنین میں سے زینب بنت جحش جناب زینب کے ساتھ حضور کی تزویج بڑا مشکل اور حساس مسئلہ ہے اللہ کے حکم ہی نے اس مسئلہ کو انتہا تک پہنچایا ، یہ تزویج اللہ کی طرف سے ہوئی۔ جناب زینب فرمایا کرتی تھیں: میرے جیسا کون ہے سب کی شادیاں رسول اعظم کے ساتھ ان کی خواہش یا والدین کی طرف سے ہوئیں اور میری تزویج براہ راست خدا کی طرف سے ہے۔ جناب زینب حضور کی پھوپھی زادہ ، خاندان بنی ہاشم کی چشم و چراغ۔ لیکن حضور نے خود ان کی تزویج اپنے آزاد کردہ غلام اور پھر جس کو متبنیٰ (منہ بولے بیٹے ) زید بن حارث کے ساتھ کی۔ کافی دیر ملا پ رہا لیکن اختلاف بھی رہا۔ بالآخر انہوں نے طلاق دے دی تو اللہ کا حکم ہوا کہ حضور شادی کر لیں۔ اب مشکل درپیش ہے۔ ۱ ۔ متبنی۔(منہ بولے بیٹے) کی زوجہ سے شادی کا فیصلہ ۲ ۔ آزاد کردہ غلام کی مطلقہ سے شادی وہ بھی حضور کی۔ لیکن اللہ کا ارادہ حکم بن کر آیا اور خدا کی طرف سے شادی ہو گئی۔ ارشاد رب العزت ہے:

( وَإِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْ أَنْعَمَ الله عَلَیْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَیْهِ أَمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ وَاتَّقِ الله وَتُخْفِیْ فِیْ نَفْسِکَ مَا الله مُبْدِیْهِ وَتَخْشَی النَّاسَ وَالله أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ فَلَمَّا قَضٰی زَیْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاکَهَا لِکَیْ لاَیَکُوْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ حَرَجٌ فِیْ أَزْوَاجِ أَدْعِیَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا وَکَانَ أَمْرُ الله مَفْعُوْلًا مَا کَانَ عَلَی النَّبِیِّ مِنْ حَرَجٍ فِیْمَا فَرَضَ الله لَه سُنَّة الله فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَکَانَ أَمْرُ الله قَدَرًا مَّقْدُوْرًا ) ۔

"اور (اے رسول یاد کریں وہ وقت) جب آپ اس شخص سے جس پر اللہ نے اور آپ نے احسان کیا تھا کہہ رہے تھے۔ اپنی زوجہ کو نہ چھوڑو اور اللہ سے ڈرو۔ اور وہ بات آپ اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا ہے اور آپ لوگوں سے ڈر رہے تھے حالانکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس سے ڈریں۔ پھر جب زید نے اس (خاتون) سے اپنی حاجت پوری کر لی۔ تو ہم نے اس خاتون کا نکاح آپ سے کر دیا تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں (سے شادی کرنے) کے بارے میں کوئی حرج نہ رہے۔ جب کہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر چکے ہوں اور اللہ کا حکم نافذ ہو کر رہے گا۔"نبی کے لئے اس (عمل کے انجام دینے میں) کوئی مضائقہ نہیں جو اللہ نے اس کے لئے مقرر کیا ہے۔ جو (انبیاء) پہلے گذر چکے ہیں ان کے لئے بھی اللہ کی سنت یہی رہی ہے۔ اور اللہ کا حکم حقیقی انداز سے طے شدہ ہوتا ہے۔" (سورہ احزاب آیت ۳۷ ۔ ۳۸) اس میں کوئی شک نہیں کہ کائنات کی عظیم شخصیت اور سب سے برتر اور معزز شخصیت حضور کی ذات ہے۔ بعد از خدا توئی قصہ مختصر حضور کی محبت کا تقاضا۔ ان کے متعلقین سے پیار اور ان کی عزت کرنا ہے۔ لہٰذا ازواج نبی عزت و عظمت کی مالک ہیں۔ اللہ نے ان کودو خصوصیات عطا کی ہیں۔ ۱ ۔ ازواج نبی۔ مومنین کی مائیں ہیں۔( وَأَزْوَاجُه أُمَّهَاتُهُمْ ) ۔( سورہ احزاب آیت ۶) ۲ ۔ نبی کی ازواج سے اگرچہ طلاق ہو جائے کسی کو شادی کا حق نہیں۔( وَلَاأَنْ تَنْکِحُوْا أَزْوَاجَه مِنْم بَعْدِه أَبَدًا ) ۔ سورہ احزاب آیت ۵۳ اور ان کی ازواج سے ان کے بعد کبھی بھی نکاح نہ کرو۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ بے اعتدالی اور حد سے تجاوز ان سے بھی ہوا ہے حکم تھا کہ گھر میں جم کر بیٹھی رہو۔( وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ آیَاتِ الله وَالْحِکْمَة إِنَّ الله کَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا ) ۔ "اور اللہ کی ان آیات اور حکمت کو یاد رکھو جن کی تمہارے گھروں میں تلاوت ہوتی ہے۔ اللہ یقیناً باریک بین خوب باخبر ہے۔" (احزاب۔ ۳۴) لیکن گھر سے باہر جانا ہوا حوأب کے کتوں نے بھونکتے ہوئے متوجہ کیا، پھر جنگ جمل کی کمان ، نبی اعظم کے خلاف جتھہ بندی۔ سازش، اللہ کی طرف سے دل ٹیڑھے ہونے کا تذکرہ۔( إِنْ تَتُوْبَا إِلَی الله فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَیْهِ فَإِنَّ الله هُوَ مَوْلاَهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمَلاَئِکَة بَعْدَ ذٰلِکَ ظَهِیْرٌ ) (سورہ تحریم: ۴) اللہ کی طرف سے دھمکی آمیز فرمان ،تم کو طلاق بھی ہو سکتی ہے اور تم سے بہتر ازواج مل سکتی ہیں۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ عورت بڑے گھر میں رہنے کے باوجود عورت ہی رہتی ہے۔ بڑے گھر میں آنے سے حقیقی عظمت پیدا نہیں ہوتی۔ لیکن باین ہمہ ازواج نبی انتہائی قابل عزت ، قابل تکریم ہیں کوئی ایسا کلمہ نہ کہا جائے جو عظمت کے منافی ہو۔ خداوند عالم نے ایک طرف ازواج کی طرف سے رسول اعظم کے خلاف سازش۔ دل کا ٹیڑھا ہونے کا تذکرہ کیا ہے دوسری طرف نوح و لوط کی بیویوں کی مخالفت اور کفر کا ذکر کیا نیز زوجۂ فرعون کی عظمت اور مادر عیسیٰ کی تکریم و ثناء کر کے واضح کیا ہے کہ صرف کسی نبی کی زوجہ ہو نا کافی نہیں اصل میں دیکھنا یہ ہو گا کہ فرامین خداوندی پر کس قدر عمل ہوا۔ ارتباط بہ خدا کس قدر ہے نبی کی اطاعت کا پیمانہ کیا ہے۔ مثبت پہلو رکھنے والی زوجہ انتہائی عظیم۔ منفی پہلو رکھنے والی زوجہ اپنی سزا کی مستحق۔

حضرت فاطمۃ الزہراء

رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی اکلوتی بیٹی ، پر عظمت بیٹی ، معصومہ بیٹی جس کی رضا خدا کی رضا، جس کی ناراضگی خدا کی ناراضگی، باپ کا میوہ دل، جس کے متعلق حضور کا فرمان۔ فاطمہ ہی ام ابیہا۔ بغقہ منی میرا ٹکڑا۔مھجۃ قلبی۔ دل کا ٹکڑا۔ جس کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتے اپنی مسند پر بٹھاتے تھے۔ حضرت مریم علیہا السلام کی عظمت و طہارۃ قرآن میں مذکور۔ جناب فاطمہ زہراء کی عظمت کا ذکر قرآن مجید کر رہا ہے، سیدہ زہراء سلام علیہا کو قرآن نے مصطفی (فاطر۔ ۳۲) مرتضیٰ (جن، ۲۷) مجتبیٰ (آل عمر ان : ۱۷۰) اور پھر اذہاب رجس اور یطرکم تطہیرا سے نوازا گیا(احزاب : ۳۳) ۔ فاطمہ زہرا ، ان کے شوہر اور ان کی اولاد کی محبت اجررسالت قرار پائی۔ (شوریٰ ۲۳) نصاریٰ نجران کے مقابل میں مباہلہ میں شرکت۔

( اَلْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ فَلَاتَکُنْ مِّنْ الْمُمْتَرِینَ فَمَنْ حَاجَّکَ فِیْهِ مِنْم بَعْدِمَا جَائَکَ مِّنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَائَنَا وَأَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُم ْوَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَة الله عَلَی الْکَاذِبِیْنَ )

(آل عمران ۶۱) زہرا ،حسین و زینب کبری کی ماں جنہوں نے جان و چادر دیکر اسلام کو زندۂ و جاوید بنا دیا۔ فدک کی مالک فاطمہ ، دربار میں خطبہ دینے والی فاطمہ ، پانی جس کا حق مہر فاطمہ ، جس کی تزویج پہلے عرش عُلیٰ پر پھر زمین پر ہوئی۔ فاطمہ ، بس فاطمہ۔ فاطمہ ،فاطمہ ہی ہے، فاطمہ و اولاد فاطمہ اللہ کے محبوب۔ جان کا نذرانہ پیش کرنے والے۔ جنہوں نے بچے دئیے ، بھتیجے دئیے، بھانجے دئیے، بھائی دئیے، اصحاب و انصار دئیے ، جان کا نذرانہ پیش کیا۔ چادر دی، ہتکڑیاں و طوق پہنے جن کے ہاتھ پس پشت باندھے گئے۔ سیدانیوں کو درباروں ، بازاروں میں پھرایا گیا۔ سب کچھ برداشت ، سب کچھ قبول۔کیوں؟ اسلام بچ جائے۔ انسانیت کی عظمت محفوظ رہے۔ انسانیت کی محافظ ، فاطمہ بنت فاطمہ ، اولاد فاطمہ۔ زینب (عورت) کی عظمت کہ حسین کے کارنامہ کو بازاروں ، درباروں میں خطبہ دے کے واضح و آشکار کیا۔ جب بھی عورت کی عظمت میں تذبذب ، شک ہو تو زینب ، رباب ، ام لیلیٰ ، کلثوم ، سکینہ کے کارنامے دیکھ لیا کرو۔ گردن جھک جائے گی۔ مرد قوام علی النساء۔ لیکن فاطمہ فاطمہ ہے۔ زینب زینب ہے۔ ان کی برابری کیسے ہو؟ عورت بیٹی ، زوجہ ، والدہ بیٹی اللہ کی طرف سے رحمت اور بیٹا نعمت ہے۔نعمت سے رحمت کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے رحمت ہی سے نظام چل رہا ہے۔ باران رحمت انسانی زندگی کے لیے عظیم تحفہ ہے بہرحال قرآن رحمت رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )رحمت ، رحمت جباریت و قہاریت سے زیادہ وسیع ہے اور بیٹی بھی رحمت۔ جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے :

( إِذْ قَالَتِ امْرَأة عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّیْ وَضَعْتُهَا أُنْثٰی وَالله أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَیْسَ الذَّکَرُ کَالْأُنْثٰی وَإِنِّیْ مَّیْتُهَا مَرْیَمَ وَإِنِّیْ أُعِیْذُهَا بِکَ وَذُرِّیَّتَهَا مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَّأَنْبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَّکَفَّلَهَا زَکَرِیَّا کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا قَالَ یَامَرْیَمُ أَنّٰی لَکِ هَذَا قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ الله إِنَّ الله یَرْزُقُ مَنْ یَّشَاءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ )

"(اور وہ وقت یاد کرو) جب عمران کی عورت نے کہا کہ اے پروردگار جو (بچہ) میرے شکم میں ہے اسے تیری نذر کرتی ہوں وہ اور باتوں سے آزاد ہو گا تو میری طرف سے قبول فرما بے شک تو بڑا سننے والا۔ جاننے والا ہے۔ پھر جب اسے جن چکی تو کہنے لگی، مالک۔ میں نے تو بیٹی جنی ہے۔ اللہ کے بارے میں بہتر جانتا ہے کہ جو اس (مادر مریم )نے جنا۔ اور بیٹا اس بیٹی جیسا نہیں ہو سکتا اور میں نے اس (بیٹی)کا نام مریم رکھا ہے اور میں اسے اور اسکی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں چنانچہ اسکے رب نے اسکی نذر (لڑکی) کو بوجہ احسن قبول کیا اوار اس کی بہترین نشوونما کا اہتمام کیا اور زکریا کو اس کا سر پر ست بنا دیا جب زکریا اس کے حجرہ عبادت میں آتے تو اسکے پاس طعام موجود پاتے پوچھا اے مریم یہ (کھانا) تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے۔ وہ کہتی اللہ کے ہاں سے۔ بے شک خدا جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔" )سورہ آل عمران آیت نمبر ۳۵ ۔ ۳۶ ۔ ۳۷ ۔( عام طور پر نذر لڑکوں کی ہوتی ہے ادر مریم بھی پریشان ہوئی لیکن اللہ نے اس کی نذر کو بوجہ احسن قبول فرمایا ارشا د ہو ایس الذکر کالانثی یعنی لڑکا ،لڑکی جیسا نہیں ہو سکتا معلوم ہوا کہ بیٹی کی اہمیت اس کام میں بھی (جس کی نذر کی تھی)بیٹے سے کم نہیں ہے کہ جسے بوجہ احسن قبول فرمایا گیا۔ پھر جب زکریاجیسے نبی ہی کھانا و طعام ملاحظہ فرماتے ہیں تو اللہ کی طرف سے ان نعمات کی آمد پر شکر بجا لاتے۔ بیٹی کی عظمت کی دلیل بیٹی کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ خدا نے رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )کو بیٹی ہی دی۔ صرف ایک بیٹی۔ لیکن وہ اس عظمت کی مالک کہ جب تشریف لاتیں تورسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) بنفس نفیس تعظیم کے لیے کھڑے ہو جاتے۔ جب ارشاد رب العزت ہوا: وآتِ ذَا الْقُرْبیٰ حَقَّہ۔ "قریبی رشتہ داروں کو انکا حق دیا کرو۔" (بنی اسرائیل: ۲۶) تب رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وا ٓلہ وسلم )نے جناب فاطمہ الزہرا کو فدک دے دیا۔ الدر المنثور جلد ۴ ص ۳۲۰ روایت حضرت ابن عباس۔ اسی طرح ارشاد رب العزت ہے:( قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْرًا إِلاَّ الْمَوَدَّة فِی الْقُرْبَی ) "کہہ دیجیے کہ میں اس تبلیغ پر کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے اپنے قریب ترین رشتہ داروں کی محبت کے۔" ( سورۂ شوریٰ: ۲۳ ) اس آیت میں بھی قربت کا محور جناب سیدہ ہیں۔ مزید ارشاد رب العزت ہے:( إِنَّمَا یُرِیْدُ الله لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیْرًا ) ۔ "اے اہل بیت اللہ کا ارادہ بس یہی ہے کہ ہر طرح کی ناپاکی کو آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسا پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔ "( سورہ احزاب: ۳۳ ) آیت تطہیر کا محور بھی جناب سیدہ دختر رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )ہیں چنانچہ وقت تعارف کہا گیا ہے ہم فاطمۃ وابوھا وبعلھا وبنوھا یعنی مرکز تعارف بیٹی ہی بن رہی ہے۔ عورت( بیٹی) کا مقام سیدہ زینب بنت علی کیوں نہ ایک اور بیٹی کا ذکر بھی کر دیا جائے جس نے باپ کے زانو پر بیٹھے ہوئے پوچھا تھا بابا آپ کو ہم سے محبت ہے۔ حضرت نے فرمایا تھا جی ہاں عرض کی یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ سے محبت بھی ہو اور بیٹی سے محبت بھی ہو پھر خود کہا ہاں۔ اللہ سے محبت۔ بیٹی اور اولاد پر شفقت ہے۔ کیا کہنا عظمتِ ثانی زہرا ء۔ کیا شان ہے دختر مرتضی کی جس نے اپنے خطبات سے اسلام کو زندہ و پائندہ بنا دیا۔ حق کو روز روشن کی طرح پوری دنیا کے سامنے واضح کیا کہ حسین۔باغی نہیں نواسہ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )ہے بہرحال تم بیٹی یعنی عورت کو کم درجہ کی مخلوق نہ سمجھو مرد کے کام کی تکمیل عورت ہی کرتی ہے عورت و مرد کا کوئی فرق نہیں ہے۔ معیار ِتفاضل صرف تقویٰ اور ارتباط بہ خدا ہے۔ عورت زوجہ شادی اور تزویج فطرت کی تکمیل ہے۔ حدیث میں ہے کہ شادی کے بغیر مرد کا دین آدھا ہے تزویج سے اسکے دین کی تکمیل ہو گی۔ بعض روایات میں غیر شادی شدہ مرد کو بد ترین کہا گیا ہے ارشاد ہوتا ہے۔ شرا ء کم عزابکم تم میں سے بد ترین افراد غیر شادی شدہ ہیں۔(تفسیر مجمع البیان ) شادی ہی سے اجتماعیت کا تصور پید ا ہوتا ہے اس وقت انسان خود سے ہٹ کر سوچنے کاسلسلہ شروع کرتا ہے۔قرآن مجید نے دعا کی تلقین کی ہے اے انسان یہ دعا طلب کیاکر :( رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّة أَعْیُنٍ ) "پروردگار ہماری ازواج اور ہماری اولا دسے ہماری آنکھوں کو ٹھنڈک عطا فرما۔" (سورہ فرقان : ۷۴) ارشاد رب العزت ہے:( وَأَنْکِحُوْا الْأَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصَّالِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَإِمَائِکُمْ إِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَاءَ یُغْنِهِمُ الله مِنْ فَضْلِه وَالله وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ) "تم میں سے جو لوگ بے نکاح ہوں۔ اور تمہارے غلاموں کنیزوں میں سے جو صالح ہوں ان کے نکاح کر دو اگر وہ نادار ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر د ے گا اور اللہ بڑا وسعت والا علم والا ہے۔" (سورہ نور: ۳۲) انسانیت کی بقا کے لیے سلسلہ تناسل کا جاری رہنا ضروری ہے سلسلہ تناسل کے لیے عورت اسکا لازمی جز و ہے۔انسانیت کی بقا ء مرد و عورت دونوں کی مرہون منت ہے مرد کی طرح عورت بھی اہمیت رکھتی ہے۔عورت کا وجود لازمی اور ضروری ہے۔ اس لیے حکم دیاگیاکہ بے نکاح لوگوں کے نکاح کرو یعنی ایسے اسباب مہیا کرو کہ ان کی شادی ہو سکے نکاح کے اسباب وسائل مہیا کرو تا کہ صالح مرد اور صالحہ عورتوں کے ملاپ سے انسانیت کی بقاء ہو۔ بہرحال اسلام نے بہترین توازن پیدا کیا اور ایسا نظام دیا جس میں ان دونوں کی عزت ،عظمت اور اہمیت ظاہر رہے۔ خطبہ طلب زوجہ بھی (شادی کرنے کی خواہش کا اظہار)مرد کی طرف سے ہے برات مرد کی طرف سے ہے لیکن برأت کے آنے سے نکاح کا صیغہ عورت کی طرف سے ہو گا۔گویا عورت برات کا استقبال کر رہی ہے۔ ایجاب عورت کی طرف سے ہو رہا ہے۔ اب اس عزت و احترام کے ساتھ عورت کا ور ود مرد کے گھر میں ہوتا ہے تاکہ عورت (زوجہ ) کی اہمیت واضح ہو جائے۔ مرد سمجھے کہ کسی نے اپنے جگر کا ٹکڑا اس کے پاس امانت کے طور پر رکھوایا ہے۔ اسی لیے تو اس لڑکی کا باپ یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ میری امانت آپ کے حوالے ہے۔

٭٭٭


4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31