تفسیر نمونہ جلد ۴

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 23290
ڈاؤنلوڈ: 3122


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 148 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 23290 / ڈاؤنلوڈ: 3122
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 4

مؤلف:
اردو

آیات ۱۳۱،۱۳۲،۱۳۳

۱۳۱۔( وَ لِلَّهِ ما فِی السَّماواتِ وَ ما فِی الْاٴَرْضِ وَ لَقَدْ وَصَّیْنَا الَّذینَ اٴُوتُوا الْکِتابَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ إِیَّاکُمْ اٴَنِ اتَّقُوا اللَّهَ وَ إِنْ تَکْفُرُوا فَإِنَّ لِلَّهِ ما فِی السَّماواتِ وَ ما فِی الْاٴَرْضِ وَ کانَ اللَّهُ غَنِیًّا حَمیداً ) ۔

۱۳۲۔( وَ لِلَّهِ ما فِی السَّماواتِ وَ ما فِی الْاٴَرْضِ وَ کَفی بِاللَّهِ وَکیلاً ) ۔

۱۳۳۔إ( ِنْ یَشَاٴْ یُذْهِبْکُمْ اٴَیُّهَا النَّاسُ وَ یَاٴْتِ بِآخَرینَ وَ کانَ اللَّهُ عَلی ذلِکَ قَدیراً ) ۔

ترجمہ

۱۳۱۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے ، اللہ کا ہے او رجنھیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور تمہیں ہم نے وصیت کی کہ خدا کی ( نافرمانی) سے ڈرو اور پرہیز کرواور اگر کا فر ہو جاو تو ( خدا کا کوئی نقصان نہیں کیونکہ ) جو کچھ آسمانوں او رزمین میں ہے اللہ کا مال ہے اور خدا بے نیاز ہے اور لائق تعریف ہے ۔

۱۳۲۔ اور جو کچھ آسمانوں او رزمین میں ہے خدا کے لئے ہے اور خدا ان کی حفاظت اور نگہبانی کے کافی ہے ۔

۱۳۳۔ اے لوگو! اگر وہ چاہے تو تمہیں یہاں سے لے جائے اور ( تمہاری جگہ ) دوسرے لوگوں کو لے آئے اور خدا اس کام کی طاقت و قدرت رکھتا ہے ۔

۱۳۴۔ جو لوگ دنیا کی جزا اور سزا چاہتے ہیں ( او رمعنوی اور اخروی نتائج کے طلبگار نہیں وہ فہمی میں متلا ہیں کیونکہ )خدا کے پاس تو دنیا و آخرت دونوں کی جزا و ثواب ہے اور وہ سننے اور دیکھنے والا ہے ۔

ایسی لا متناہی ملکیت اور بے پایاں قدرت

گذشتہ آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہو چکا ہے کہ اگر حالات مجبور کریں کہ میاں بیوی ایک دوسرے سے جد اہ وجائیں اور ا س کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو تو اس اقدام میں کوئی حرج نہیں اور آیندہ کے حالات سے نہیں ڈرنا چاہئیے ۔ کیونکہ خدا انھیں اپنے فضل و کرم سے مطمئن اور بے نیاز کردے گا۔

زیر نظر آیات میں سلسلہ کلام جاری ہے پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے کہ ہمیں انھیں بے نیاز اور مستغنی کرنے کی قدرت رکھتے ہیں ۔ کیونکہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ اللہ کی ملکیت ہے( وَ لِلَّهِ ما فِی السَّماواتِ وَ ما فِی الْاٴَرْضِ ) ۔

جوذات ایسی لا متناہی ملکیت اور بے پایاں قدرت رکھتی ہے وہ اپنے بندوں کو بے نیاز کرنے سے عاجز نہیں ہو سکتی ۔

اس کے بعد اس موقع پر اور دیگر مواقع پر ہر پرہیزگاری اختیار کرنے کی تاکید کرتے ہوئے فرما گیا ہے : یہودی و نصاریٰ کو اور ان لوگوں کو جو تم سے پہلے صاحبِ کتاب ہیں اور اسی طرح تمہیں بھی ہم نے وصیت کی ہے کہ پر ہیز گاری اختیار کرو( وَ لَقَدْ وَصَّیْنَا الَّذینَ اٴُوتُوا الْکِتابَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ إِیَّاکُمْ اٴَنِ اتَّقُوا اللَّهَ ) ۔

اس کے بعد روئے سخن مسلمانوں کی طرفکرتے ہوئے فرمایا : تقویٰ اختیار کرنے کا یہ حکم تمہارے فائدے میں ہے اور خدا کو اس کی ضرورت نہیں ہے اور اگر تم رو گردانی کرو، نافرمانی کی راہ اپناو تو خدا کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ۔

کیونکہ آسمانوں او رزمین میں جو کچھ ہے اسی کی ملکیت ہے اور وہ بے نیاز ہے اور لائق ستائش ہے( وَ إِنْ تَکْفُرُوا فَإِنَّ لِلَّهِ ما فِی السَّماواتِ وَ ما فِی الْاٴَرْضِ وَ کانَ اللَّهُ غَنِیًّا حَمیداً ) ۔

در اصل حقیقی معنی میں غنی اور بے بیاد تو خدا ہی ہے کیونکہ وہ غنی بالذات ہے اور کسی اور کی بے نیازی اسی کی مدد سے ہے ۔ ورنہ ذاتی طور پر تو سب محتاج اور نیاز مند ہیں اسی طرح وہی بالذات لائق ستا ئش ہے کیونکہ جن کمالا ت کی وجہ سے وہ تعریف و ستائش کے لائق ہے وہ اس کی ذات میں ہیں نہ کہ دوسروں کی کمالات کی طرح کہ جو عاریتاً انھیں دئیے جاتے ہیں اور اور کسی دوسرے کی طرف سے ہیں ۔

بعد والی آیت میں یہ جملہ تیسری مرتبہ آیا ہے کہ آسمانوں او رزمین میں جو کچھ ہے خدا کی ملکیت ہے اور خدا ان حفاظت و نگہبانی اور انتظام و انصرام کرتا ہے( وَ لِلَّهِ ما فِی السَّماواتِ وَ ما فِی الْاٴَرْضِ وَ کَفی بِاللَّهِ وَکیلاً ) ۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنے مختصر سے فاصلے میں ایک مطلب کا تین مرتبہ تکرار کیوں کیا گیا ہے ۔ کیا یہ تکرار صرف تاکید کے لئے ہے یا کچھ اور اشارے بھی اس میں مضمر ہیں ۔آیات میں غور و فکر کیا جائے اور دقت نظر سے کام لیا جائے تو ہر مرتبہ اس بات کے ذکر میں ایک نکتہ دکھائی دیتا ہے ۔

پہلی مرتبہ دونوں میاں بیوی سے عدہ کرتا ہے کہ ایک دوسرے سے الگ ہو جانے کے بعد خدا انھیں بے نیاز کر دے گا ۔ اس موقع پر یہ ظاہر کرنے کے لئے وہ اپنا وعدہ پورا کرنے پر قدرت رکھتا ہے اس نے اپنی زمین و آسمان کی وسعتوں کی ملکیت کا تذکرہ کیا ہے ۔

دوسری مرتبہ تقویٰ و پر ہیز گاری کی وصیت کے بعد یہ ذکر ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ واضح کیا جائے کہ اس فرمان کی اطاعت کا خدا کو کوئی فائدہ نہیں ہے یا اس کی مخالفت اس کے لئے ضررساں نہیں ہے ۔ درحقیقت یہ بات اس کے مشابہ ہے جو حضرت امیر المومنین علی (علیه السلام) نے نہج البلاغہ میں خطبہ ہمام کی ابتداء میں فرمایا ہے :

ان الله سبحانه و تعالیٰ خلق الخلق حین خلقتهم غنیا عن طاعتهم اٰمنا من معصیتهم لانه لاتضره معصیة من عصاه و لا تنفعه طاعة من اطاعه

یعنی خدا ئے متعال نے انسانوں کو پیدا کیا جب کہ وہ ان کی طاعت سے بے نیاز تھا اور ان کی نافرمانی سے امان میں تھا کیونکہ نہ تو گنہ گاروں کی نافرمانی اسے نقصان پہنچاتی ہے اور نہ اطاعت کرنے والوں کی طاعت اسے فائدہ پہنچاتی ہے ۔ ( نہج البلاغہ۔ خطبہ ۱۹۲) ۔

تیسری مرتبہ آیة ۱۳۳ میں موجود بحث کے عنوان کے طور پر اس کا تذکرہ ہے ا س کے بعد فرمایا گیا ہے : خدا کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں کہ تمہیں ختم کردے اور تمہاری جگہ زیادہ آمادہ پختہارادے والا گروہ پیدا کردے جو اس کی اطاعت میں زیادہ کوشاں ہو اور خدا ایسا کرنے پر قادر ہے (ا( ِٕنْ یَشَاٴْ یُذْهِبْکُمْ اٴَیُّهَا النَّاسُ وَ یَاٴْتِ بِآخَرینَ وَ کانَ اللَّهُ عَلی ذلِکَ قَدیراً ) ۔

تفسیرتبیان اور مجمع البیان میں پیغمبر اکرم سے منقول ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم نے اپنا ہاتھ سلمان کی پشت پرمارا اور فرمایا:وہ گروہ عجم اور فارس کے یہ لوگ ہیں ۔

حضور کا یہ فرمان در حقیقت ان عظیم خدمات کی پیش گوئی ہے جو ایرانی مسلمانوں نے اسلام کے لئے کیں ہیں ۔

آخری آیت میں ان لوگوں کے بارے میں بیچ میں گفتگو آگئی ہے جو خدا پر ایمان لانے کا دم بھر تے ہیں ، میدان جہاد میں شرکت کرتے ہیں اور احکام اسلام کی پابندی کرتے ہیں مگر ان کا مقصد رضائے الہٰی کا حصول نہیں ہوتا ، بلکہ مادی نتائج مثلاًمالِ غنیمت کا حصول ہوتا ہے ارشاد فرمایا گیا ہے : جو لوگ صرف دنیا کی جزا چاہتے ہیں وہ غلط فہی میں مبتلا ہیں کیونکہ خدا کے پاس تو دنیا و آخرت دونوں کی جزا اور ثواب ہے( مَنْ کانَ یُریدُ ثَوابَ الدُّنْیا فَعِنْدَ اللَّهِ ثَوابُ الدُّنْیا وَ الْآخِرَةِ ) ۔لہٰذا وہ دونوں کی جستجو کیوں نہیں کرتے اور خدا سب کی نیتوں سے آگاہ اور ہر محل و مقام پرا سکی نظرہے اور منافق صفت لوگوں کے اعمال سے باخبر ہے( وَ کانَ اللَّهُ سَمیعاً بَصیراً ) ۔

یہ آیت ایک مرتبہ پھر حقیقت بیان کرتی ہیں کہ اسلام کی نگاہ صرف معنوی اور خروی پہلو و ں پر نہیں بلکہ وہ اپنے پیرو کاروں کے لئے مادی اور روھانی دونوں طرح کی سعادتیں چاہتا ہے ۔

آیت ۱۳۵

۱۳۵۔( یا اٴَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا کُونُوا قَوَّامینَ بِالْقِسْطِ شُهَداء َ لِلَّهِ وَ لَوْ عَلی اٴَنْفُسِکُمْ اٴَوِ الْوالِدَیْنِ وَ الْاٴَقْرَبینَ إِنْ یَکُنْ غَنِیًّا اٴَوْ فَقیراً فَاللَّهُ اٴَوْلی بِهِما فَلا تَتَّبِعُوا الْهَوی اٴَنْ تَعْدِلُوا وَ إِنْ تَلْوُوا اٴَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ کانَ بِما تَعْمَلُونَ خَبیراً ) ۔

ترجمہ

۱۳۵۔ اے ایمان والو! مکمل طور پر عدالت کے ساتھ قیام کرو،خدا کے لئے گواہی دو اگر چہ یہ خود تمہارے لئے یا تمہارے والدین کے لئے اقرباء کے لئے نقصان دی ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اگر وہ غنی یا فقیر ہو ں تو خدا حق رکھتا ہے کہ ان کی حمایت کرے اس لئے ہوا و ہوس کی پیروی نہ کرو، اس طرح تو حق سے منحرف ہو جاو گے ۔ اور حق میں تحریف کرو گے یا اس کے اظہارسے اعراض کرو گے تو جو کچھ تم انجام دیتے ہو خدا اس سے آگاہ ہے ۔

عدالت ِاجتماعی

گذشتہ آیات میں خصوصیت سے یتیموں او ربیویوں سے عدالت کے بارے میں احکام تھے اب زیر نظر آیت میں بلا استثناء ایک بنیادی او رکلی قانون کے ذریعے سب اہل ایمان کو اجرائے عدالت کا حکم دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ وہ عدالت قائم کریں اور عدالت سے کام لیں( یا اٴَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا کُونُوا قَوَّامینَ بِالْقِسْطِ ) ۔

توجہ رہے کہ” قوامین “ ” قوام“ کی جمع ہے یہ مبالغے کا صیغہ ہے جس کا معنی ہے ” بہت قیام کرنے والا“ یعنی ہر حالت میں ، ہر کام میں ، ہر مقام پر اور ہر دور میں عدالت کے ساتھ قیام کرو تاکہ عمل تمہارے اخلاق او ر عدالت کا حصہ بن جائے اور اس سے انحراف تمہاری طبیعت ،مزاج اور روح کے خلاف ہو جائے ۔

” قیام“ شاہد یہاں اس بنا پر استعمال کیا گیا ہے کہ انسان کو چاہئیے کہ عام طور پر کام کرنے کے لئے اٹھ کھڑا ہواور کام کے پیچھے لگ جائے اس لئے کسی کام کے قیام کا مطلب یہ ہے کہ اس کام کے لئے عزم راسخ او رمضبوط ارادے سے اقدام کیاجائے ۔ اگر چہ وہ کام حکم قاضی کی مثل قیام و تحرک کا محتاج بھی نہ ہو ۔ نیز ممکن لفظ ”قیام “ کا استعمال اس لحاظ سے ہو کہ عام طور پر قائم اس چیز کو کہتے ہیں کہ جو زمین پر عمودی شکل میں ہو او رکسی طرف بھی تھوڑا سا جھکاو بھی نہ رکھتی ہو یعنی تمہیں عدالت کا جراء اس طرح کرنا چاہئیے کہ تھوڑا سا انحراف بھی نہ ہو ۔

اس کے بعد تاکید کے لئے مسئلہ شہادت کے حوالے سے ارشاد ہوتا ہے : خاص طور پر شہادت اور گواہی کے معاملے میں تما مفادات اوتر تعلقات کو ایک طرف کرکے فقط خدا کے لئے گواہی دو اگر وہ وہ خود تمہاری ذات ،تمہارے ماں باپ اور اعزا و اقرباء کے نقصان میں ہو( شُهَداء َ لِلَّهِ وَ لَوْ عَلی اٴَنْفُسِکُمْ اٴَوِ الْوالِدَیْنِ وَ الْاٴَقْرَبینَ ) ۔

یہ بات تمام معاشروں میں موجود ہے اور خصوصاً زمانہ جاہلیت کا معاشرہ اس کا شکار تھا کہ عام طور پر گواہی دینے والے اپنی محبت و نفرت کے جذبات کے زیر اثر گواہی دیتے اور حق و عدالت کی ان کے ہاں کوئی اہمیت نہ ہوتی ۔ ابن عباس سے منقول ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نو مسلم افراد مدینہ میں آجانے کے بعد بھی رشتہ داری کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے عزیزوں کے نقصان میں گواہی دینے سے احتراز کرتے تھے ۔ مندرجہ بالاآیت اسی ضمن میں نازل ہوئی اور اس کے ذریعے ایسے لوگوں کو تنبیہ کی گئی ۔(۱)

جیسا کہ آیت اشارہ کررہی ہے یہ کام روح ِ ایمان سے مطابقت نہیں رکھتا۔ حقیقی مومن وہی ہے جو حق اور عدالت کے سامنے کسی کا لحاظ نہ کرے یہاں تک کہ اپنے رشتہ داروں کے مفادات کی پرواہ نہ کرے ۔

اس جملے سے ضمنی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ عدالت کو پیش نظر رکھتے ہوئے رشتہ دار ایک دوسرے کے نفع یا نقصان میں گواہی دے سکتے ہیں ( ہاں اس میں اس تہمت کا اندیشہ نہ ہو کہ طرفداری یا تعصب سے کام لیا جارہا ہے ) ۔

اس کے بعد اصولِ عدالت سے انحراف کے کچھ اور عوامل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : نہ دولت مندوں کی دولت شہادت ِ حق سے مانع ہو اور نہ فقیر ، خدا اس کے حالات سے زیادہ آگاہ ہے ۔ پر وردگارکی حمایت کے مقابلے میں اہل ثروت و اہل اقتدار سچی گواہی دینے والے کو نقصان نہیں پہنچاسکتے اور نہ عدالت کے اجراء سے فقیرہی بھوکا رہ سکتا ہے( إِنْ یَکُنْ غَنِیًّا اٴَوْ فَقیراً فَاللَّهُ اٴَوْلی بِهِما ) ۔

دوبارہ تاکید کے طور پر حکم دیا گیا ہے : ہوا و ہوس کی پیروی نہ کرو، مبا دا اجرائے عدالت میں رکاوٹ پیدا ہوجائے( فَلا تَتَّبِعُوا الْهَوی اٴَنْ تَعْدِلُوا ) ۔(۲)

اس جملے سے اچھی طرح معلوم ہوتا جا تاہے کہ ظلم و ستم کا سر چشمہ ہوا پرستی ہے اور اگر کوئی معاشرہ ہوا پرست نہ ہو تو ظلم و ستم وہاں قدم ن ہیں رکھ سکتا۔

دوبارہ قیام عدالت کی اہمیت کے پیش نظر فرماتا ہے : اگر تم حق دار تک اس کا حق پہنچنے میں حائل ہو ئے تو یاحق میں تحریف کی یا حق آشکار ہو جانے کے بعد اس سے اعراض کیا تو خدا تمہارے اعمال سے آگاہ ہے( وَ إِنْ تَلْوُوا ) (۳)

”تلووا“ در اصل تحریف حق اور حق میں تغیر و تبدل کی طرف اشارہ ہے ۔” تعرضوا“ حق کی مطابق حکم کرنے کے اعراض اور منہ موڑنے کے معنی میں ہے ۔ یہی بات امام باقر سے منقول ایک حدیث میں بیان کی گئی ہے ۔ (تفسیر تبیان جلد ۵ صفحہ ۳۵۶)

یہ امر قابل توجہ ہے کہ آیت میں ” خبیر “ کالفظ آیا ہے ” علیم “ کا نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ” خبیر“ عموماً اسے کہتے ہیں جو کسی چیز کی جزئیات اور ذرہ ذرہ سے واقف ہو ۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ خدا تعالیٰ حق سے تمہارے ذرا سے انحراف سے بھی واقف ہے چاہے تم اسے کسی نہانے سے کرو اور چاہے اسے حق بجانب قرار دے لو اور وہ اس کی سزا بھی دے گا ۔

زیر نظر آیت اجتماعی عدالت کے بارے میں اسلام کی گہری دلچسپی کو ظاہر کرتی ہے اور ا س کی ہر شکل و صورت کو مکمل طور پر واضح کرتی ہے اس سلسلے میں عدالت اجتماعی کے بارے میں ان چند جملو میں موجودطرح طرح کی تاکید یں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اسلام اس اہم انسانی مسئلے میں کس قدر حساس ہے البتہ یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ مسلمانوں کا عمل اور اسلام کے اس بلند پایہ حکم کے درمیان زمین و آسمان کا فاصلہ ہے اور مسلمانوں کی پسماندگی کا ایک عامل ان کا یہ طرز عمل بھی ہے ۔

____________________

۱- المنار جلد ۵ صفحہ ۴۵۵۔

۲ ۔لفظ. تعداد ممکن ہے ” عدالت“ کے مادہ سے ہو یا ”عدول“ کے مادہ سے ہو اگر ” عدالت“ کے مادہ سے ہو تو اس کا معنی یہ ہوگا ”فلا تتبعوا الهوی لان تعدلوا “ ( ہوس پرستی کی راہ نہ اپناو تاکہ تم عدالت کا جر ا کرسکو) اور اگر ” عدول “ کے مادہ سے ہوتو اس کا معنی یوں ہوگا فلا تتبعوا الھوی فی ان تعدلوا( انحراف حق کی راہ میں ہو وہوس کی پیروی نہ کرو) ۔

۳ ۔”تلووا“ مادہ ”لی “ ( بروزن”طی“) سے ہے اس کا معنی ہے ” روکنا“ یا تاخیر ، یہاں در اصل پیچ و تاب دینے کی معنی میں آیاہے ۔اٴَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ کانَ بِما تَعْمَلُونَ خَبیراً ) ۔

آیت ۱۳۶

۱۳۶۔( یا اٴَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّهِ وَ رَسُولِهِ وَ الْکِتابِ الَّذی نَزَّلَ عَلی رَسُولِهِ وَ الْکِتابِ الَّذی اٴَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ وَ مَنْ یَکْفُرْ بِاللَّهِ وَ مَلائِکَتِهِ وَ کُتُبِهِ وَ رُسُلِهِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالاً بَعیداً ) ۔

ترجمہ

۱۳۶۔ اے ایمان لانے والو! ( واقعی ) ایمان لے آو خدا پر ، اس کے پیغمبر پر ، اس کی کتاب پر جو اس پر نازل ہوئی اور ان ( آسمانی) کتب پر جو اس سے پہلے بھیجی گئی ہیں اور جو شخص خدا، اس کے ملائکہ اس کی کتب ، اس کے رسل اور روزِ آخرت کا انکار کرے وہ بہت دور کی گمراہی میں مبتلا ہے ۔

شان ِ نزول

ابن عباس سے منقول ہے کہ یہ آیت اہل کتاب کے بعض سر بر آور دہ لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔

اس میں عبد اللہ بن سلام، ، اسد بن کعب اور اس کا بھائی اسید بن کعب اور بعض دوسرے لوگ شامل تھے وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ ابتداء میں خد مت ِ پیغمبر میں حاضر ہوئے او رکہنے لگے کہ ہم آپ پر ، آپ کی کتاب پر ، حضرت موسیٰ پر تورات پر اور عزیر پر ایمان لائے ہیں لیکن ہم باقی آسمانی کتب اور اسی طرح دیگر انبیاء پر ایمان نہیں لائے ۔

مندرجہ بالا آیت اسی سلسلے میں نازل ہوئی جس میں انھیں تعلیم دی گئی کہ انھیں سب پر ایمان لانا چاہئیے ( تفسیر مجمع البیان و المنار )

تفسیر

شان ِ نزول سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت کا روئے سخن اہل کتاب کے بعض مومنین کی طرف ہے جو مخصوص تعصبات کی وجہ سے اسلام قبول کرلینے کے بعد صرف اپنے سابق مذہب او ردین اسلام پر اظہار ایمان کرتے تھے اور باقی انبیاء اور آسمانی کتب کو قبول نہیں کرتے تھے لیکن قرآن انھیں نصیحت کرتا ہے کہ وہ تمام انبیاء اور آسمانی کتب کو باقاعدہ تسلیم کریں کیونکہ سب ایک ہی حقیقت کا تسلسل ہیں ، سب کا ہدف ایک ہی ہے اور سب ایک ہی مبداء کی طرف سے مبعوث ہوئے ہیں ( اگر چہ تعلیم کے درجوں کی مختلف کلاسوں کی طرح مراتب کا فرق موجود ہے اور ہر کوئی گذشتہ دین سے کامل تردین کے ساتھ آیاہے ) اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ ان میں سے بعض کو تو قبول کرلیا جائے اور بعض کو نہ کیا جائے کیا ایک ہی حقیقت کو کئی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے اور کیا تعصبات حقائق پرپر دہ ڈال سکتے ہیں لہٰذا آیت کہتی ہے :

اے ایمان لانے والو! خدا پر ، اس کے پیغمبر ( رسول اسلام )پر اور جو کتاب اس پر نازل ہو ئی ہے اس پر نیز گذشتہ آسمانی کتب ایمان لے آو( یا اٴَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّهِ وَ رَسُولِهِ وَ الْکِتابِ الَّذی نَزَّلَ عَلی رَسُولِهِ وَ الْکِتابِ الَّذی اٴَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ ) ۔

مذکورہ شانِ نزول سے قطع نظر آیت کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ہے کہ روئے سخن ان تمام مومنین کی طرف ہو جو ظاہراً اسلام قبول کرچکے ہیں لیکن ابھی تک ایمان کی روح کی گہرائیوں میں نہیں اترا۔ یہاں انھیں دعوت دی جارہی ہے کہ وہ صمیم قلب سے مومن بن جائیں ۔

یہ احتمال بھی ہے کہ روئے سخن ان تمام مومنین کی طرف ہو جو اجمالی طور پر خدا اور پیغمبر پر ایمان لاچکے ہیں لیکن اسلام کی جزئیات اور عقائد کی تفصیلات سے آشنا نہیں ہیں ۔ یہاں قرآن انھیں حکم دیتا ہے کہ حقیقی مومنین کو چاہئیے کہ وہ تمام انبیاء، گذشتہ کتب اور خدا کے فرشتوں پر ایمان لے آئیں ، کیونکہ ان پر ایمان نہ لانے والے کا مطلب حکمت ِ خدا وندی کا انکار ہے کیا یہ ممکن ہے کہ وہ اللہ جو حکیم ہے اس نے گذشتہ انسانوں کو بغیر رہبروں و رہنما کے چھوڑ دیا ہو کہ وہ میدان ِ حیات میں سر گر داں رہیں ۔

یہا ں ایک سوال پیدا ہو تا ہے کہ کیا جن فرشتوں پر ایمان لانے کے لئے کہا گیا ہے ان سے مراد وحی لانے والے فرشتے ہیں کہ جن پر ایمان لانا انبیاء اور کتب آسمانی پر ایمان کے ساتھ لازم و ملزوم ہے یا پھر یہاں تمام فرشتے مراد وحی ہیں کیونکہ جیسے ان میں سے بعض وحی و تشریع کے معاملے میں دخیل ہیں بعض عالم تکوین کی تدبیر پر بھی مامورہیں اور ان پر ایمان لانا حکمت ِ الہٰی پر ایمان لانے کا حصہ ہے ۔

آیت کے آخر میں ان لوگوں کا انجام بیان کیا گیا ہے جو ان حقائق سے غافل ہیں ارشاد ہوتا ہے : جو شخص خدا ، ملائکہ ، کتب الہٰی ، خدا کے فرستادہ انبیاء او ریوم ِ آخرت کا انکار کرے تو وہ بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ہے( وَ مَنْ یَکْفُرْ بِاللَّهِ وَ مَلائِکَتِهِ وَ کُتُبِهِ وَ رُسُلِهِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالاً بَعیداً ) ۔

در حقیقت اس آیت میں پانچ اصولو پر ایمان لانا ضروری قرار دیا گیا ہے او روہ ہیں مبداء، معاد ، آسمانی کتب، انبیاء او رملائکہ ۔

ضلال بعید ( دور کی گمراہی) یہ ایک لطیف تعبیر ہے یعنی ایسے لوگ اس طرح سے دور پھینک دئے گئے ہیں کہ حقیقی شاہراہ کی طرف ان کی واپسی آسانی سے ممکن نہیں ہے ۔

آیات ۱۳۷،۱۳۸،۱۳۹

۱۳۷۔إ( ِنَّ الَّذینَ آمَنُوا ثُمَّ کَفَرُوا ثُمَّ آمَنُوا ثُمَّ کَفَرُوا ثُمَّ ازْدادُوا کُفْراً لَمْ یَکُنِ اللَّهُ لِیَغْفِرَ لَهُمْ وَ لا لِیَهْدِیَهُمْ سَبیلاً ) ۔

۱۳۸۔( بَشِّرِ الْمُنافِقینَ بِاٴَنَّ لَهُمْ عَذاباً اٴَلیماً ) ۔

۱۳۹۔( الَّذینَ یَتَّخِذُونَ الْکافِرینَ اٴَوْلِیاء َ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنینَ اٴَ یَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمیعاً ) ۔

ترجمہ

۱۳۷۔ وہ لوگ جو ایمان لاکر کافر ہو گئے پھر ایمان لائے اور دوبارہ کافر ہوگئے پھر اپنے کفر میں بڑھ گئے خدا انھیں ہرگز نہیں بخشے گا اور نہ ہی انھیں راہِ راست کی ہدایت کرے گا۔

۱۳۸۔ منافقین کو بشارت دوکہ دردناک عذاب ان کے انتظار میں ہے ۔

۱۳۹۔ جولوگ اہل ایمان کی بجائے کفار کو اپنا دوست چن لیتے ہیں کیا وہ چاہتے ہیں کہ ان سے عزت و آبرو حاصل کریں حالانکہ تمام عزتیں تو خدا کے ساتھ مخصوص ہیں ۔

ہٹ دھرم منافقین کا انجام

گذشتہ آیت میں بتا یا گیا ہے کہ کفارہ درد کی گمراہی میں ہیں اب اسی مناسبت سے زیر نظر آیت میں سلسلہ کلام آگے بڑھتا ہے پہلی آیت میں ایک ایسے گروہ کی طرف اشارہ ہے جو اپنے آپ کو ایک نئی شکل و صورت میں پیش کرتا ہے یہ لوگ ایک دن مومنین کی صف میں ہوتے ہیں ، دوسرے دن کفار کے ساتھ ، اگلے روز پھر اہل ایمان کے ساتھ ہوتے ہیں پھر خطر ناک او رمتعصب کا فروں کی صفوں میں موجود ہوتے ہیں ۔ خلاصہ یہ کہ وہ بت عیار کی طرح ہرلمحہ ایک نیاروپ اختیار کرتے ہیں ہر روز ایک نئے رنگ میں ظاہر ہوتے ہیں اور آخر کار کفر اور بے ایمانی کی حالت میں جان دے دیتے ہیں ۔

مندرجہ بالا آیات میں سے پہلی آیت ایسے شخص کے انجام کے بارے میں کہتی ہے : وہ لوگ جو ایمان لانے کے بعد کافر ہ وگئے ، پھر ایمان لائے اور پھر کافر ہو گئے او راپنے کفر میں بڑھ گئے خدا انھیں ہر گز نہیں بخشے گا اور راہِ راست کی ہدایت نہیں کرے گا (ا( ِٕنَّ الَّذینَ آمَنُوا ثُمَّ کَفَرُوا ثُمَّ آمَنُوا ثُمَّ کَفَرُوا ثُمَّ ازْدادُوا کُفْراً لَمْ یَکُنِ اللَّهُ لِیَغْفِرَ لَهُمْ وَ لا لِیَهْدِیَهُمْ سَبیلاً ) ۔

طرز روش کا یہ تغیّر ، ہر روز رنگ و روپ کی یہ تبدیلی اور تلون مزاجی کا یہ عالم در اصل اسلامی اصولوں کی صحیح طور پر تحقیق نہ کرنے کا نتیجہ ہے او ریا منافقین اور اہل کتاب میں سے متعصب کفار کی سازش ہے تاکہ حقیقی مومنین کو متزلزل کیا جا سکے کیونکہ ان کے زعم میں ان کی یہ آمد و رفت حقیقی مومنین کے ایمان کو ڈانوا ں ڈول کردے گی ۔ جیسا کہ سورہ آل ِ عمران آیة ۷۲ میں گذر چکا ہے ۔

زیر بحث آیت میں ایسے لوگوں کی توبہ قبول نہ ہونے کے بارے میں کوئی دلیل نہیں ہے آیت کا موضوع ِ سخن صرف وہ لوگ ہیں جو شدت کفر کی حالت میں بالآخراس دنیا سے آنکھیں بند کرلیتے ہیں ایسے لوگ اپنے ایمان اور عمل کے پیشِ نظر نہ بخشش کے لائق ہیں نہ ہدایت کے مگر یہ کہ وہ اپنے معاملے میں تجدید نظر کرلیں ۔

بعد ازں اگلی آیت میں فرمایا گیا ہے : ان منافقین کو بشارت دیجئے کہ دردناک عذاب ان کے لئے تیار ہے( بَشِّرِ الْمُنافِقینَ بِاٴَنَّ لَهُمْ عَذاباً اٴَلیماً ) ۔

”عذاب الیم “ کے لئے ”بشارت“ یا تو ان کے لغو اور بے ہودہ افکار نظر یات کا استہزا ہے یا پھر ” بشر“ چہرہ کے معنی سے ہے جو ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے اور ہر اس خبر کو بشارت کہتے ہیں جو انسان کے چہرے پر اثر انداز ہو اور اسے مسرور یا مغموم کردے ۔

آخری آیت میں منا منافقین کی یوں توصیف کی گئی ہے : وہ مومنین کی بجائے کافروں کو اپنی دوست بناتے ہیں( الَّذینَ یَتَّخِذُونَ الْکافِرینَ اٴَوْلِیاء َ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنین ) ۔

پھر بتا یا گیا ہے کہ اس میں ان کا ہدف اور مقصد کیا ہے : کیا وہ اس دوستی کے ذریعہ واقعی کوئی عزت و آبرو حاصل کرنا چاہتے ہیں( اٴَ یَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ ) ۔جبکہ تمام عزتیں خدا کے لئے مخصوص ہیں( فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمیعاً ) ۔ کیونکہ علم کا سر چشمہ ہمیشہ علم و قدرت ہوتا ہے اور جن کی قدرت کی کوئی حیثیت نہ ہو اور ان کا علم بھی ان نکی قدرت جیسا ہو وہ کسی کو کیا صاحب عزت کرسکتے ہیں ۔

یہ آیت تمام مسلمانوں کو تنبیہ کرتی ہے کہ وہ اپنی عزت و آبرو کے لئے چاہے وہ اقتصادی یا ثقافتی پہلو سے ہو یا سیاسی حوالے سےدشمنانِ اسلام کی دوستی تلاش نہ کریں بلکہ ذاتِ الہٰی پر بھروسہ کریں جو تمام عزتوں کا سر چشمہ ہے ۔ دشمنان اسلام کی اپنی بھی کوئی عزت نہیں وہ دوسروں کو کیا دیں گے اور اگر ان کی بظاہر کچھ عزت ہو بھی تو وہ قابل اعتماد نہیں ہیں کیونکہ جب بھی ان کے مفاد کا تقاضا ہوا وہ فوراً اپنے مخلص ترین اتحادیوں کو بھی چھوڑ کر اپنی راہ لیں گے او ران کی یہ حالت ہو گی جیسے کبھی شناسائی نہ تھی ۔ دورِ حاضر کی تاریخ بھی ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے ۔

آیت ۱۴۰

۱۴۰۔( وَ قَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِی الْکِتابِ اٴَنْ إِذا سَمِعْتُمْ آیاتِ اللَّهِ یُکْفَرُ بِها وَ یُسْتَهْزَاٴُ بِها فَلا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّی یَخُوضُوا فی حَدیثٍ غَیْرِهِ إِنَّکُمْ إِذاً مِثْلُهُمْ إِنَّ اللَّهَ جامِعُ الْمُنافِقینَ وَ الْکافِرینَ فی جَهَنَّمَ جَمیعاً ) ۔

ترجمہ

۱۴۰۔ اللہ نے قرآن میں تم پر ( یہ حکم ) نازل کیا ہے کہ جب تم سنو کہ کچھ لوگ آیاتِ الہٰی کا انکار اور استہزا کررہے ہیں تو ان کے ساتھ نہ بیٹھو جب تک وہ کوئی اور گفتگو نہ کرنے لگیں ورنہ اس صورت میں تم بھی ان جیسے ہو جاو گے ۔ خدا منافقوں اور کافروں سب کو جہنم میں جمع کردے گا ۔

شان نزول

ابن عباس سے اس آیت کی شان ِ نزول کے بارے میں منقول ہے کہ بعض منافقین یہودی علماء کی بیٹھکوں میں جابیٹھتے تھے ۔ ان میٹنگوں میں آیاتِ قرآنی کا مذاق اڑا یا جاتا تھا ۔ اسی سلسلے میں یہ آیت نازل ہوئی جس میں ان کام کا برا انجام بتایا گیا ۔

بری مجلس میں نہ بیٹھو

سورہ انعام قرآن حکیم کی مکی سورتوں میں سے ہے کہ اس کی آیت ۶۸ میں صراحت میں سے پیغمبر اکرم کو حکم دیا گیا ہے کہ :

اگر آپ دیکھیں کہ کچھ لوگ قرآنی آیات کا مذاق اڑاتے ہیں او رناپسند یدہ باتیں کہتے ہیں تو ان سے اعراض کیجئے ۔

یہ بات مسلم ہے کہ یہ حکم نبی کریم سے مخصوص نہیں بلکہ ایک عمومی حکم ہے البتہ اس میں خطاب پیغمبر سے کیا گیا ہے اس کا فلسفہ بھی بالکل واضح ہے کیونکہ یہ ایسے کاموں سے مقابلے کی ایک منفی صورت ہے زیر بحث آیت میں اس اسلامی حکم کی تاکید کی گئی ہے اور مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ : قرآن میں تمہیں پہلے حکم دیا گیا ہے کہ جب سنو کہ کچھ لوگ آیات قرانی سے کفر کرتے ہیں اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں تو اس وقت تک ان کے ساتھ نہ بیٹھو جب تک وہ اس کام سے صرفِ نظر کرکے دوسرا کام شروع نہ کریں( وَ قَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِی الْکِتابِ اٴَنْ إِذا سَمِعْتُمْ آیاتِ اللَّهِ یُکْفَرُ بِها وَ یُسْتَهْزَاٴُ بِها فَلا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّی یَخُوضُوا فی حَدیثٍ غَیْرِهِ ) ۔

اس کے بعد اس کام کا نتیجہ بیان کیا گیا ہے : اگر تم ایسی مجلس میں شر کت کرو گے تو ان جیسے ہو جاو گے اور تمہارا انجام بھی ان جیسا ہو گا

( ا( ِٕنَّکُمْ إِذاً مِثْلُهُمْ ) ۔

تاکید مزید کے لئے فرمایا گیا ہے : ایسی میٹنگوں میں شر کت روحِ نفاق کی علامت ہے اور خدا منافقین اور کفار کو جہنم میں جمع کردے گا

( إِنَّ اللَّهَ جامِعُ الْمُنافِقینَ وَ الْکافِرینَ فی جَهَنَّمَ جَمیعاً ) ۔

چند اہم نکات

۱۔ مجلس گناہ میں شرکت ارتکابِ گناہ کی مانند ہے اگر چہ شریک ہونے والا خاموش ہی بیٹھا رہے کیونکہ ایسی خاموشی ایک طرح کی رضا مندی اور عملی تائید ہے ۔

۲۔ نہی عن المنکر ”مثبت“ صورت میں ممکن نہ ہوتو کم از کم ”منفی “ صورت میں ہی انجام دینا چاہیئے ا س طرح سے کہ انسان گناہ کے ماحول اور گناہ کی مجلس سے ہی دور ہے ۔

۳۔ جولوگ سکو ت اور ایسی مجالس میں شریک ہوکر عملی طور پر گناہگاروں کی تشویق کا باعث بنتے ہیں ان کی سزا بھی ارتکاب گناہ کرنے والوں کی طرح ہے ۔

۴۔ کفار کے ساتھ اس صورت میں نشست و بر خاست جبکہ وہ آیات ِ خدا وندی کی توہیں نہ کریں اور ان سے کوئی خطرہ بھی نہ ہو ممنوع نہیں ہے کیونکہ” حتی ٰ یخوضوا فی حدیث غیرہ“ کے جملہ سے ظاہر ہو تا ہے کہ یہ کام مباح ہے ۔

۵۔ ایسے گنہ گاروں سے اچھا بر تاو نفاق کی علامت ہے کیونکہ حقیقی مسلمان کسی ایسی مجلس میں ہرگز شر کت نہیں کر سکتا کہ ایک حقیقی مسلمان ایسی مجلس میں ہو او ر نہ اعتراض کرے اور نہ اظہار ناپسندیدگی کے لئے محفل کو چھوڑ ے ۔