تفسیر نمونہ جلد ۴

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 23149
ڈاؤنلوڈ: 3083


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 148 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 23149 / ڈاؤنلوڈ: 3083
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 4

مؤلف:
اردو

آیت ۱۷۱

۱۷۱۔( یَااٴَهْلَ الْکِتَابِ لاَتَغْلُوا فِی دِینِکُمْ وَلاَتَقُولُوا عَلَی اللهِ إِلاَّ الْحَقَّ إِنَّمَا الْمَسِیحُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ رَسُولُ اللهِ وَکَلِمَتُهُ اٴَلْقَاهَا إِلَی مَرْیَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ فَآمِنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ وَلاَتَقُولُوا ثَلاَثَةٌ انتَهُوا خَیْرًا لَکُمْ إِنَّمَا اللهُ إِلَهٌ وَاحِدٌ سُبْحَانَهُ اٴَنْ یَکُونَ لَهُ وَلَدٌ لَهُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْاٴَرْضِ وَکَفَی بِاللهِ وَکِیلًا ) ۔

ترجمہ

۱۷۱۔ اے اہل کتاب : اپنے دین میں غلو (اور زیادہ روی ) نہ کرو اور حق کے سوا خدا کے بارے میں کچھ نہ کہو ۔ مسیح عیسٰی بن مریم صرف خدا کے فرستادہ اور اس کا کلمہ (اور مخلوق ) ہیں کہ جنھیں اس نے مریم کی طرف القا کیا اور وہ اس کی طرف سے (شائتہ ) روح تھے ۔ اس لیے خدا اور اس کے پیغمبر وں پر ایمان لے آؤ اور نہ یہ کہو کہ وہ منّزہ ہے کہ اس کاکوئی بیٹا ہو (بلکہ ) جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اس کا ہے اور ان کی تد بیر و سرپر ستی کے لیے خدا کا کافی ہے ۔

خیالی تثلیث

اس آیت میں اور اس کے بعد والی آیت میں کفار اور اہل کتاب کے بارے میں جاری مباحث کے حوالے سے مسیحی معا شرے کے اہم ترین انحراف کا ذکر کیا گیا ہے اور وہ ہے تثلیث یا تین خدا ؤ ں کا مسئلہ ۔ مختصر سے استدلالی جملو ں کے ساتھ انھیں اس عظیم انحراف کے انجام بد سے ڈرایا گیا ہے ۔

پہلے انھیں خطرے سے آگاہ کرتے ہو ئے کہتا ہے : اپنے دین میں غلو کی راہ نہ چلو اور حق کے علاوہ خدا کے بارے میں کچھ نہ کہو( یا اهل الکتاب لا تغلو ا فی دینکم ولا تقو لو ا علی الله الا الحق ) ۔

آسمانی ادیان سے انحراف میں ایک ہم ترین بات یہ ہے کہ لوگوں نے پشیوا ؤ ں اور راہنما ؤ ں کے کے بارے میں غلو سے کام لیا ۔ انسان چو نکہ اپنے آپ سے لگاؤ رکھتا ہے لہذا وہ چاہتا ہے کہ اپنے رہبروں کو بھی ان کے اصل مقام سے بلند تر بنا کر پیش کرے تاکہ اس طرح اس کی اپنی عظمت میں اضافہ ہو ۔ بعض اوقات لوگ اس ہولناک بھنو ر میں اس لیے پھنس جاتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پیشواؤ ں کے بارے میں غلوان سے عشق اور لگاؤ کی نشانی ہے غلو کا سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ وہ مذہب کی اصلی بنیاد یعنی خدا پر ستی اور تو حید کو خراب کردیتا ہے اسی لیے غالیو ں کے بارے میں اسلام کا روّیہ نہایت شدید اور سخت ہے اور عقائد وفقہ کی کتب میں غالیو ں کو کفار کی بدترین قسم قرار دیا گیا ہے ۔

تثلیث اور الوہیّت ِ مسیح کا ابطال

اس سلسلے میں چند نکات پیش خدمت ہیں :۔

۱۔عیسٰی مریم کے بیٹے ہیں : قرآن حکیم میں عیسٰی کا نام ان کی والدہ کے نام کے ساتھ سولہ مرتبہ آیا ہے (انما المسیح عیسی ابن مریمہ )یعنی عیسی صرف مریم کے بیٹے ہیں یہ بات کی نشاندہی ہے کہ مسیح بھی دیگر انسانوں کیطرح رحم مادر میں رہے اور ان پر بھی جنین کا دور گذرا وہ دیگر انسانوں کی طرح پیدا ہوئے ، دودھ پیا اور آغوش ِ مادر میں پر ورش پائی یعنی تمام بشری صفا ت ان میں موجود تھیں ۔ لہذا کیسے ممکن ہے کہ ایسا شخص جو قوانین طبیعت اور عالم مادہ کا متمول ومحکوم ہو اوہ خدائے ازلی و ابدی بن جائے ۔

خصو صاً لفظ ” انما “ جو زیر بحث آیت میں آیا ہے وہ اس وہم کا جواب ہے اگر عیسی کا باپ نہیں تو اس کا یہ معنی نہیں کہ وہ خدا کا بیٹا ہے بلکہ وہ صرف مریم کا بیٹا ہے ۔

۲۔ عیسی خدا کے رسو ل ہیں :عیسی خدا کے فرستادہ اور رسول ہیں (رسول اللہ )عیسی کا یہ مقام اور حیثیت بھی ان کی الوہیت سے مناسبت نہیں رکھتا

یہ بات قابل ِ توجہ ہے کہ حضرت عیسی کی مختلف باتیں جن میں سے کچھ اناجیل موجود ہ میں بھی ہیں ، سب انسانی ہداہت کے لیے ان کی نبوّت و رسالت کی حکایت کرتی ہیں نہ کہ ان کی الوہیّت اور خدائی کی ۔

۳۔ عیسی خداکا کلمہ ہیں :عیسی خدا کا کلمہ ہیں جو مریم کی طرف القا ء ہوا( وکلمة القا ها الی مریمه ) قرآن کی چند آیات میں عیسی کو کلمہ کہا گیا ہے یہ تعبیر مسیح کے مخلوق ہونے کی طرف اشارے کے لیے ہے جیسے ہمارے کلمات ، ہماری مخلوق اور ایجاد ہیں ، اسی طرح عالم آفرنیش کے موجودات بھی خدا کی مخلوق ہیں ۔ نیز جیسے ہمارے کلمات ہمارے اندر ونی اسرار کا مظہر ہوتے ہیں اور ہمارے جذبات و صفات کے تر جمان ہوتے ہیں اسی طرح مخلوقا ت ِ عالم بھی خدا کی صفات جمال وجلال کو واضح کرتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آیات قرآنی میں متعدد مقامات پر تمام مخلوقات کے لیے لفظ ” کلمة “ استعمال کیا گیا ہے (مثلاًکہف ۱۰۹،اور لقمان ۲۹ ) البتہ یہ کلمات آپس میں مختلف ہیں ۔ بعض بہت اہم اور بلند ہیں اور بعض نسبتاً معمولی اور کم تر ہیں ۔ حضرت عیسی آفرنیش کے لحاظ سے خصو صیت کے ساتھ مقام ِ رسالت کے علاوہ یہ امتیاز بھی رکھتے تھے کہ وہ بغیر باپ کے پیدا کئے گیئے ۔

۴۔ عیسی روح ہیں :۔حضرت عیسی روح ہیں ، جنھیں خدا نے پیدا کیا ہے ( ورح منہ) یہ تعبیر قرآن حکیم میں حضرت آدم کے بارے میں بھی آئی ہے ۔ ایک معنی کے لحاظ سے تمام نوع ِ انسانی کے بارے میں ہے یہ اس روح کی عظمت کی طرف اشارہ ہے جیسے خدا نے دیگر انسانوں میں عموماً اور حضرت مسیح اور باقی انبیا ء میں خصوصیت سے پیدا کیا ۔

بعض لوگوں نے حضرت مسیح کے بارے میں اس تعبیر سے غلط فائدہ اٹھانے کوشش کی ہے انھوں نے کہا ہے کہ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ عیسی خدا کا جز ء ہیں ” منہ “ اس کیلیے دلیل ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسے مواقع پر ” من “ تبعیض کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اصطلا ح کے مطابق یہ ” من “ نشو یہ ہے جو کسی چیز کی پیدائش کا سر چشمہ اور منشاء بیان کرنے کے لیے ہوتا ہے ۔

یہ امر لائق توجہ ہے کہ تواریخ میں ہے کہ ہارون رشید کا ایک عیسائی طبیب تھا اس نے ایک روز علی بن حسین واقدی سے مناظرہ کیا ، واقدی علماء اسلام میں سے تھا ۔

طبیب نے کہا : تمھاری آسمانی کتاب میں ایک آیت ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح خدا کا جز و ہیں پھر اس نے زیر بحث آیت کی تلا وت کی

واقدی نے فوراً قرآن کی یہ آیت تلاوت کی :( وسخر لکم مافی السموات وما فی الارض جمیعاً من )

یعنی ۔۔۔جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب تمھارے لیے مسخر کیا گیا ہے اور یہ سب اس کی طرف سے ہے ۔(۱)

اور مزید کہا :

اگر ” من “ جزو بتانے کے لیے ہے تو پھر اس آیت کے مطابق آسمانوں وزمین کے تمام مو جودات خدا کاجزو ہیں ۔

یہ بات سن کر عیسائی طبیب فوراً مسلمان ہوگیا ۔ ہارون رشید اس واقعے سے بہت خوش ہوا اور اس نے واقدی کو انعام دیا ۔(۲)

علاوہ از یں یہ امر تعجب خیز ہے کہ عیسائی حضرت والد کے بغیر حضرت عیسی کی ولادت کو ان کی الو ہیت کی دلیل قرار دیتے ہیں حالانکہ وہ بھول جاتے ہیں کہ حضرت آدم ماں اور باپ دونوں کے بغیر پیدا ہوئے اس مخصو ص خلقت کو کو ئی بھی ان کی الوہیت کی دلیل نہیں سمجھتا ۔

اس بیان کے بعد قرآن کہتا ہے : اب جبکہ ایسا ہے تو خدائے یگانہ اور اس کے پیغمبر وں پر ایمان لے آؤ اور یہ نہ کہوکہ تین خدا ہیں اور اگر اس بات سے اجتناب کرو تو اس میں تمھارا ہی فائدہ ہے( فامنو اباالله ورسله ولا تقو لو ا ثلا ثة انتهوا خیراً لکم ) ۔

دوبارہ تاکید کی گئی ہے کہ خدا ہی معبو د یکتا ہے( انماالله اله واحد ) یعنی تم اس بات کو مانتے ہو کہ تثلیث کے ہوتے ہوئے بھی خدا اکیلا اور یگانہ ہے ۔حالانکہ اگر اس کا بیٹا ہوتو وہ اس کا شبیہ ہوگا ، تو پھر یکتائی کاکوئی معنی نہیں رہے گا ۔ کیسے ممکن ہے کہ خدا کاکوئی بیٹا ہو جبکہ وہ بیوی اور بیٹے کی احتیاج کے نقص : اور جسم اور عوارض جسم کے نقص سے مبّرا و منّزہ ہے( سبحانه ان یکون له ولد )

علاوہ از یں وہ ان تمام چیزوں کامالک ہے جو آسمان وزمین میں ہیں اس کی مخلوق ہیں اور وہ ان کا خالق ہے اور مسیح بھی ان کی مخلوق میں سے ایک ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ ان کے لیے ایک استشنائی حالت کا قائل ہوا جائے ۔ کیا ممکن ہے کہ مملوک و مخلوق اپنے خالق ومالک کا بیٹا بن جائے

( له مافی السمٰوٰات ومافی لارض ) خدا صرف ان کا خالق ومالک ہے بلکہ ان کا مدبر ،محافظ ، رزّاق اور سر پر ست بھی ہے( وکفیٰ باالله وکیلا ) اصولی طور پر وہ خدا جو ازلی و ابدی ہے اور ازل تا ابد تمام مخلو قات کی سر پر ستی اپنے ذمّہ لیے ہوئے ہے اسے بیٹے کی کیا ضرورت ہے ،کیا وہ ہماری طرح ہے کہ اپنی موت کے بعد جا نشینی کے لیے بیٹے کی خواہش رکھتا ہو ۔

تثلیث ۔۔۔۔۔عیسائیّت کی سب سے بڑی کجروی عیسائیت جن انحرافات اور کجرویوں کا شکار ہے ان میں سے تثلیث سے بدتر کوئی نہیں ۔ وہ تصریح سے کہتے ہیں کہ خداتین ہیں اور یہ بھی کہ اس کے باوجود وہ ایک اور یکتا ہے یعنی وہ وحدت کو بھی سمجھے ہیں اور تثلیث کوبھی ۔اس بات نے عیسائیت کے محققّین کے لیے ایک بہت بڑی مشکل پیدا کردی ہے اگر خدا کی یکتائی کو مجازی اور تثلیث کو حقیقی سمجھتے تو بھی ایک بات تھی اور اگر توحید کو حقیقی مان لیتے اور تثلیث کو مجازی ، پھر بھی معاملہ آسان تھا لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ دونوں کو حقیقی اور واقعی سمجھتے ہیں ۔

اس آخری دور میں عیسائیوں کی طرف سے بے خبر لوگوں کو بعض تبلیغی تصانیف دی گئی جن میں انھوں نے تثلیث مجازی کا ذکر کیا ہے یہ اصل میں ریاکاری ہے جو مسیحیت کے اصلی منابع وکتب اور ان کے علماء کے حقیقی عقائد سے مطابقت نہیں رکھتی ۔یہ وہ مقام ہے جہاں مسیحی ایک غیر معقو ل مطلب سے دوچار ہیں ۔کیونکہ ۱ ۔ ۲ کو ابجد پڑھنے والا بچہ بھی قبول نہیں کرسکتا ۔ اسی لیے تو وہ عموماً کہتے رہتے ہیں کہ اس مسئلے کا تعلق میزانِ عقل سے نہیں بلکہ جذئبہ عبادت اوردل سے ہے ۔

یہیں سے منطق و عقل سے مذہب کی لاتعلقی کامعاملہ شروع ہوتا اور مسیحیت کو اس خطرناک وادی میں کھنیچ لے جاتا ہے جہاں کہا جاتا ہے کہ مذہب عقلی پہلونہیں رکھتا بلکہ وہ صرف قلبی و تعبدی پہلو رکھتا ہے یہاں سے علم اور مذہب کی بے گانگی سامنے آتی ہے اور موجودہ مسیحیت کی منطق سے دونوں کا تضاد واضح ہوتا ہے ۔ کیونکہ علم کہتا ہے کہ تین کاعدد ہر گز ایک کے عدد کے مساوی نہیں ہے لیکن موجودہ مسیحیت کہتی ہے کہ مساوی ہے ۔

___________________

۱جاثیہ ۱۳ (القرآن )

۲ تفسیر المنار جلد ۶ صفحہ ۸۴

۳ ۔صوفیوں کے نظر یہ وحدت الوجود سے مراد وحدت موجود ہے وہ کہتے ہیں کہ ہستی بس ایک ہے جو مختلف چیزوں میں ظاہر ہوتی ہے اور وہ ہستی ایک خدا ہے ۔

تثلیث کے بارے میں چند اہم نکات

۱ ۔ اناجیل میں عقیدئہ تثلیث نہیں ہے :

موجودہ کسی انجیل میں بھی مسئلہ تثلیث کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہے اسی لیے عیسائی محققین کا نظریہ ہے کہ تثلیث کاسر چشمہ اناجیل میں مخفی اور غیر واضح ہے ۔

ایک امر یکی مصنف مسڑباکس کہتا ہے :

لیکن مسئلہ تثلیث عہد عتیق اور عہد جدید میں مخفی اور غیر واضح ہے۔ ۱ قا موس مقدس ص ۳۴۵ طبع بیروت

جیسا کہ بعض موئر خین لکھا ہے مسئلہ تثلیث تقریباً تیسری صدی کے بعد عیسائیوں میں پیدا ہوا ، یہ ایک بدعت ہے جو ایک طرف سے غلو کی بناپر اور دوسری طرف سے عیسائیوں کے دیگر اقوام سے میل جول کی بنا پر حقیقی مسیحیت میں داخل ہوگئی ۔

بعض نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ عیسائیوں کی تثلیث اصولی طور پر ہندؤوں کی سہ گانہ پر ستی جیسے” ثالوث ہندی “ کہتے ہیں سے لی گئی ہے ۔ ۱ بیسویں صدی کے دائرة المعارف (فرید وجدی )مادہ ثالوث کی طرف رجوع کریں ،ہندؤوں کے تین خدابرہما ، قیشنو اور سیفاتھے ۔

۲۔ عقیدئہ ِ تثلیث خلا ف عقل ہے :

تثلیث خصوصاً تثلیث در وحدت (یعنی ۔ایک ہوتے ہوئے تین )ایک ایسا مطلب ہے جو بالکل نامعقو ل اور ہدایت عقلی کے خلاف ہے اور ہم جانتے ہیں کہ دین کبھی عقل وعلم سے جدا نہیں ہوسکتا ۔حقیقی علم حقیقی مذہب سے ہمیشہ ہم آہنگ ہوتا اور یہ دونوں ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہوتے ہیں یہ بات کہ مذہب کو عبد ہونے کے ناقے قبول کرلیا جائے بہت ہی غلط ہے کیونکہ اگر کسی مذہب کے اصول قبول کرنے میں عقل کو ایک طرف رکھ دیا جائے اور عبد ہونے کے حوالے سے ہی اسے قبول کرلیا جائے تو پھر اس مذہب اور دیگر مذاہب میں کوئی فرق باقی نہیں رہے گا ۔ اس موقع پر پھر کون سی دلیل ہے کہ کہا جائے کہ انسان کو خدا پرست ہونا چاہیے نہ کہ بت پرست اور یونہی پھر کیوں آخرمسیحی اپنے مذہب کی تبلیغ کریں ، لیکن دوسرے مذاہب نہ کریں اور وہ کون سی خصوصیات ہیں جو وہ مسیحیت کے لیے سمجھتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ لوگ اس کی طرف آئیں یہ سب سوالات اس بات کی دلیل ہیں کہ مذہب کو منطق کے ذریعے پہچانا جائے اور یہ بات اس دعویٰ کے بالکل خلاف ہے کہ جس کے مطابق وہ مسئلہ تثلیث میں مذہب کو عقل سے جدا کرتے ہیں ۔ بہر حال مذہب کی بنیا د وں کو تو ڑنے لے لیے اس سے بدتر کوئی بات نہیں کہ ہم کہیں کہ مذہب عقلی و منطقی پہلو نہیں رکھتابلکہ عہد ہونے کے حولے سے اختیار کیا جاتا ہے ۔

۳۔ خدا ہر لحاظ سے یکتا ہے :

توحیدکی بحث میں بہت سی دلیلیں پیش کی گئی ہیں جو ذاتِ خدا کی یکتائی اور یگانگی کو ثابت کرتی ہیں اور ہر طرح کی دوگانگی ،سہ گانگی یاتعدد کی نفی کرتی ہیں ۔ خدا ایک ہی ہے جو لا متنا ہی وجود ہے ، جوعلم ، قدرت اور توانائی کے لحاظ سے ازلی وابدی اور غیر محدود ہے ہم جانتے ہیں کہ لا متنا ہی وجود میں تعدد اور دوگانگی کا تصور نہیں کیا جاسکتا ۔ کیونکہ اگر دو کولا متنا ہی فرض کریں تو دونوں ہی محدود ہوں گے کیونکہ پہلا وجود دوسرے کی قدرت وتوانائی اور ہتی کا فاقد ہے اور دوسرا وجود اسی طرح پہلے وجود اور اس کے امتیاز ات و خصوصیات کا فاقد ہے یعنی پہلے وجود کا اپنا وجود اور امتیاز ات ہیں اور دوسرے کا اپنا وجود اور امتیازات اس بنا پر پہلا وجود بھی محدود ہوگا اور دوسرا بھی ۔واضح تر الفاظ میں اگر دووجود تمام جہات سے لا متنا ہی فرض کریے جائیں تو یقینا پہلا ”لا متناہی “ وجود جب دوسرے ”لامتناہی“ وجود کی حد تک پہنچے گا تو وہ تمام ہوجائے گا اور دوسرا ” لامتناہی “ وجود جب پہلے ” لامتناہی “ وجود کی حد تک پہنچے گا تو وہ بھی تمام ہو جائے گا ۔ لہذا دونوں محدود اور متناہی ہوں گے ۔ اس کا نیتجہ یہ ہے کہ وہ ذاتِ خدا جو ایک لامتناہی وجود ہے اس میں ہر گز تعدد نہیں ہوسکتا ۔ اسی لیے اگر ہم یہ اعتقاد رکھیں کہ ذاتِ خدا تین اقنو م یاتین ذاتوں سے مرکب ہے تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ تینوں محدود ہوں نہ کہ غیر محدود اور لامتناہی ۔علاوہ ازیں ہر مرکب اپنے اجزاء کا محتا ج ہے اور اس کا ودجود ان کے وجود کا معلول ہے ذات ِ خدا بھی تر کیب ما ننے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ محتاج اور معلو ل ہو حالانکہ ہم جا نتے ہیں کہ بے نیاز ہے اور عالم ِ ہستی کی پہلی عّلت ہے ۔

۴۔ خدا انسانی لباس میں کیونکر ممکن ہے :

ان سب باتوں سے قطع نظر یہ کیونکر ممکن ہے کہ ذات خدا انسانی روپ میں ظاہر ہوا اور اسے جسم ، مکان ،غذا اور لبا س وغیرہ کی احیتاز پیدا ہوجائے ،خدائے ازلی وابدی کو ایک انسان کے جسم میں محدود کرنا ااور اسے مادر ِ رحم میں جنین کی حالت میں سمجھنا بدترین تہمتوں میں سے ہیں جو ذات ِ مقدسِ الہیٰ سے وابستہ کی جائیں ۔اسی طرح خدا کی طرف بیٹے کی نسبت دینا ایک غیر منطقی اور بالکل نا معقول بات ہے کیونکہ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ خدا کے لیے مختلف عوارض جسمانی کا قائل ہواجائے یہی وجہ ہے کہ جس شخص نے مسیحیت کے ماحول میں پرورش پائی اورر بچپن سے اسے ان موہوم اور غلط تعلیمات کی عادت نہیں ہے وہ فطرت وعقل کے خلاف یہ باتیں سن کر کڑھنے لگتا ہے خود عیسائی ” باپ خدا “ اور ” بیٹاخدا“ جیسی باتیں سن کر اس لیے پریشان نہیں ہوتا کیونکہ وہ بچپن سے ان غلط مفاہیم سے مانوس ہو چکا ہوتا ہے ۔

۵۔ پر فریب تشبیہیں :

اس دور میں دیکھا جاتا ہے کہ بعض مسحیی مبلّغین بے خبر لوگوں کو غافل رکھنے کیلیے پر فریب مثالوں کا سہارا لیتے ہیں ۔ مثلاً وحدت در تثلیث (یعنی تین ہوتے ہوئے ایک ) کو کرّہ آفتاب ، اس کانور اور اس کی حرارت سے تشبیہ دیتے ہیں یعنی یہ تین چیزیں ہیں اس کے باوجود ایک حقیقت ہیں ۔اسی طرح وہ اسے ایسے وجود سے تشبیہ دیتے ہیں جس کا عکس تین آیئنو ں میں پڑ رہا ہو باوجود یکہ وہ ایک ہی وجود ہے پھر بھی تین وجود نظر آتے ہیں ۔ اسی طرح وہ مثلث کی مثال دیتے ہیں جس کے تین زاویے ہوتے ہیں لیکن اگر ان زاویوں کو اندر کو بڑھائیں تو ایک ہی نقطے تک جا پہچنتے ہیں ۔

تھوڑے سے غور وفکر سے واضح ہوجاتا ہے کہ ان مثالوں کا زیر بحث مسئلے سے کوئی ربط نہیں ۔ مسلّم ہے کہ کرہ آفتاب اور اس کانور دوچیزیں ہیں نور قرمزی رنگ سے مافوق لہروں کو کہتے ہیں وہ سائنسی نقطہ نظر سے حرارت سے مختلف ہے جو کہ امواج ِ مادونِ قرمز ہیں اگر انھیں ایک کہا جا ئے تو یہ غلط فہمی اور مجاز سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا ۔

اس زیادہ واضح جسم اور آئینو ں کی مثال ہے کیونکہ جو عکس آئینوں میں پڑتا ہے وہ انعکاس ِ نور کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں اور مسلّم ہے کہ ورشنی کا انعکاس خود جسم کے علاوہ چیز ہے اس لیے انھیں ایک چیز نہیں کہا جاسکتا اور جس نے بھی کسی سکول میں طبیعا ت (( PHYSISCS کی پہلی کتاب پڑھی ہو وہ یہ بات جانتا ہے ۔

مثلث والی مثال بھی ایسی ہے ،مثلث کے زاویے یقینا متعدد ہوتے ہیں اور مثلث کے اندرونی طرف بڑھتے جانے سے زاویے جب ایک نقطے میں بدل جاتے ہیں تو اس کا مثلث سے کوئی تعلق نہیں ۔

باعث تعجب ہے کہ بعض مشرقی عیسائی توحید در تثلیث کے نظرئیے کو صوفیا(۳)

کی وحدت ِ وجود کی منطبق کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ کہے بغیر واضح ہے کہ اگر کوئی شخص وحدت ِ وجود کے غلط اور انحرافی عقیدے کو قبول بھی کرے تو بھی اسے چاہیے کہ اس عالم کے تمام موجودات کو ذات ِخدا کا جزو سمجھے بلکہ اس کا عین تصّور کرے اس لیے اس میں سے تثلیث کا تو کوئی مطلب نہیں نکلتا بلکہ چھوٹے سے لے کر بڑے تک تمام موجودات اس کا جزو یا مظہر قرار پائیں گی ۔ لہٰذا مسیحیت کی تثلیث کا وحدت ِ وجود سے کوئی ربط نہیں اگر اپنے مقام پر صو فیوں کے وحدت الوجود کا نظریہ بھی باطل ہوچکا ہے ۔

۶۔ایک اور اشتباہ :۔

بعض اورقات کچھ عیسائی کہتے ہیں کہ ہم جو عیسی کو ابن اللہ کہتے ہیں تو اسی طرح ہے ، جیسے تم امام حسین کو ثاراللہ وابن ثارہ (خون خدا اور فرزند خون خدا )کہتے ہو یا بعض روایات میں حضرت علی کو ” ید اللہ “ (اللہ کا ہا تھ کہا گیاہے )۔

اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو یہ ایک بہت بڑا اشتباہ ہے کہ بعض نے ” ثار“ کا معنی خون کیا ہے کیونکہ لفظ” ثار“ عربی میں کھبی بھی ”خون “ کے معنی میں نہیں آیا بلکہ اس کا معنی ہے ” خون بہا“ عربی میں خون کے لیے ” دم “ کا لفظ استعمال ہوتا ہے اس لیے ”ثاراللہ “ کا مطلب ہے ”اے وہ شخص جس کا خون بہا اللہ سے تعلق رکھتا ہے اور وہی تیراخونبہالے گا “ یعنی تو کسی ایک خاندان سے تعلق نہیں رکھتا کہ تیرا خون بہا اس خاندان کا سر براہ لے اور نہ ہی تو کسی ایک قبیلے سے تعلق رکھتا ہے کہ سربراہ ِ قبیلہ تیرا خون بہالے ، تو عالم ِ انسانیت سے تعلق رکھتا ہے کہ اور تیرا تعلق تو عالم ِ، ہستی اور خدا کی ذات پاک سے ہے ۔ لہٰذا تیرا خون بہا اسے لینا چاہیے ، اسی طرح تو علی ابن ِ ابی طالب کا بیٹا ہے جو شہید راہ ِ خدا تھے اور ان کا خون بہا بھی خدا ہی کو لینا چاہیے ۔دوسرا یہ کہ اگر کسی عبادت میں مردانِ خدا کے لیے ” ید اللہ “ یا اسی طرح کا کوئی لفظ آیا ہے تو یہ تشبیہ کنایہ اور مجاز کے طور پر ہے ۔ کیا کوئی حقیقی عیسائی اس بات پر تیار ہے کہ مسیح کے لیے ابن اللہ کہنے کو ایک طرح کا مجاز اور کنایہ قرار دے ۔ مسلماً اایسا نہیں ہے کیونکہ مسیحیت کی اصلی کتب اور مصادر میں انھیں خدا کا حقیقی بیٹا قرار دیا گیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ یہ صفت مسیح کے ساتھ مخصوص ہے کسی اور کے لیے ایسا نہیں ہے ۔یہ جو عیسائیوں کی بعض سطحی تبلیغاتی تحریروں میں نظر آتا ہے کہ وہ ” ابن اللہ “ کوکنایہ اور تشبیہ قرار دیتے ہیں یہ زیادہ تر عوام کو فریب دینے کے لیے ہے اس کی وضاحت کے لیے مند رجہ ذیل عبارت کی طرف توجہ کریں ۔ یہ عبارت قاموس کتاب مقدس کے مو لف نے لفظ ” خدا“ کے ضمن میں تحریر کی ہے :

اور ” ابن اللہ “ ہما رے نجات دہندہ اور فدیہ بننے والے کا ایک لقب ہے جو اس کے علاوہ سی اور کے لیے نہیں بولا جا سکتا ، مگر ایسے مقام پر کہ جہاں قرائن سے معلوم ہوکہ مقصد خدا کا حقیقی بیٹا ہے ( قاموس مقدس ص ۲۴۵ ،طبع بیروت )

آیات ۱۷۲،۱۷۳

۱۷۲۔( لَنْ یَسْتَنکِفَ الْمَسِیحُ اٴَنْ یَکُونَ عَبْدًا لِلَّهِ وَلاَالْمَلاَئِکَةُ الْمُقَرَّبُونَ وَمَنْ یَسْتَنکِفْ عَنْ عِبَادَتِهِ وَیَسْتَکْبِرْ فَسَیَحْشُرُهُمْ إِلَیْهِ جَمِیعًا ) ۔

۱۷۳۔( فَاٴَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَیُوَفِّیهِمْ اٴُجُورَهُمْ وَیَزِیدُهُمْ مِنْ فَضْلِهِ وَاٴَمَّا الَّذِینَ اسْتَنکَفُوا وَاسْتَکْبَرُوا فَیُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا اٴَلِیمًا وَلاَیَجِدُونَ لَهُمْ مِنْ دُونِ اللهِ وَلِیًّا وَلاَنَصِیر )

ترجمہ

۱۷۲۔ مسیح اس سے ہرگز پہلو تہی اور انکار نہیں کرتا کہ وہ اللہ کا بندہ ہو اور نہ اس کے مقّرب فرشتے (اس کاانکار کرتے ہیں ) اور جو اس کی عبودیت اور بندگی سے پہلو تہی کرے اور تکبر کرے ، بہت جلد وہ ان سب کو اپنی طرف محشور کرے گا (انھیں قیامت میں اٹھا ئے گا ) ۔

۱۷۳۔ باقی رہے وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال انجام دیے ان کی پوری اجزاانھیں دے گا اور اپنے فضل وبخشش سے انھیں مزید دے گا ۔ لیکن جنھو ں نے پہلو تہی کی تکبر کیا انھیں دردناک سزادے گا اور وہ خدا کے علاوہ اپنے لیے کوئی سر پر ست اور یا ور مددگا ر نہیں پا ئیں گے ۔

شانِ نز ول

بعض مفسرین نے ان آیات اکے سلسلے میں ایک شانِ نزول روایت یہ ہے :

نجرا ن کے کچھ عیسائی پیغمبر اسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ انھوں نے عرض کیا : ۔

آپ ہمارے پیشوا پر کیو ں تنقید کرتے ہیں ؟

پیغمبر اسلا منے فرفایا : میں نے ان پر کون ساعیب لگایا ہے ؟

وہ کہنے لگے :۔ آپ کہتے ہیں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسو ل ہیں ۔

اس پر یہ آیات نازل ہوئیں اور انھیں جواب دیا گیا ۔

عیسیٰ خدا کے بندے ہیں

اگر چہ زیر نظر آیات کی مخصوص شانِ نزول ہے اس کے باوجود وہ گذشتہ آیات سے مربوط ہیں جن میں الوہیت مسیح کی نفی اور مسئلہ تثلیث کا ابطال کیا گیا ہے ۔

پہلے تو ایک اور پہلو سے الو ہیت مسیح کی نفی کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : تم عیسی کی الو ہیت کاکیسے عقیدہ رکھتے ہو جبکہ نہ عیسی پروردگار سے پہلو تہی کرتے ہیں نہ خدا کے مقّرب فرشتے اس سے پہلو تہی کرتے ہیں( لن یستنکف المسیح ان یکون عبداً الله ولا الملئکة المقربون ) مسلّم ہے کہ جو شخص خود عبادت کرنے والا ہو اس کے معبود ہونے کا کوئی معنی نہیں ہے ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی اپنی ہی عبادت کرے یا یہ کہ عابد ومعبود اور بندہ وخدا یک ہی ہوں ۔

یہ بات قابل ِ تو جہ ہے کہ امام علی بن موسیٰ رضا سے ایک احدیث مروی ہے آپ نے کجروعیسائیوں کو جو حضرت عیسی کی الوہیت کے مدعی تھے مغلو ب کرنے کے لیے ان کے ایک بزرگ جا ثلیق سے فرمایا : عیسی کی باقی با تیں تو اچھی ہیں ان میں صرف ایک عیب تھا اور وہ یہ کہ وہ زیادہ عبادت نہیں کرتے تھے ۔

وہ عیسائی جنھجلااٹھا اور امام سے کہنے لگا : آپ کتنی غلط بات کہہ رہے ہیں ۔ اس بات پر تو اتفاق ہے کہ وہ سب سے زیادہ عبادت گذارتھے ۔

امام نے فوراً فرما یا : وہ کس کی عبادت اکرتے تھے ؟ کیا خداکے علاوہ کسی کی عبادت کرتے تھے ؟ لہذا خود تیر ے اعتراف کے مطابق وہ خدا کے بندے ، مخلوق اور اس کی عبادت کرنے والے تھے ، نہ کہ معبود اور خدا تھے ۔

وہ عیسائی خاموش ہوگیا اور کوئی جوا ب نہ دے سکا۔ ۱ منا قب ابن شہر آشوب ج ۴ ص ۳۵۲

اس کے بعد قرآن مزید یہ کہتا ہے : جو لوگ پروردگار کی عبادت اور بندگی سے پہلو تہی کریں اور اس کی وجہ تکّبر ہوتو خدا ان سب کوقیامت کے دن حاضر کرے گا اور ہر ایک کومناسب سزادے گا( وَمَنْ یَسْتَنکِفْ عَنْ عِبَادَتِهِ وَیَسْتَکْبِرْ فَسَیَحْشُرُهُمْ إِلَیْهِ جَمِیعًا )

اس دن اہل ایمان اور نیک عمل کرنے والوں کو ان کی مکمل جزا دے گا اور اپنے فضل و رحمت سے اس پر اضافہ کرے گا اور جنھوں نے بندگی سے انکار کیا اور راہِ تکبّر اختیار کی وہ دردناک عذاب میں گرفتار ہوں گے اور خدا کے سواانھیں کوئی سر پرست ، حامی اور مد گار نہیں ملے گا( فَاٴَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَیُوَفِّیهِمْ اٴُجُورَهُمْ وَیَزِیدُهُمْ مِنْ فَضْلِهِ وَاٴَمَّا الَّذِینَ اسْتَنکَفُوا وَاسْتَکْبَرُوا فَیُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا اٴَلِیمًا وَلاَیَجِدُونَ لَهُمْ مِنْ دُونِ اللهِ وَلِیًّا وَلاَنَصِیر ) ۔

دو اہم نکات

۱۔ استنکفو ا اور استکبرو ا :

استنکاف کا معنی ہے کسی چیز سے امتنا ع اور کسی سے پر ے ہٹ جانا ۔ اس لیے یہ لفظ ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے لیکن اِستکبروا کہہ کر اسے محدود کردیا گیا ہے کیونکہ خدا کی بندگی سے پہلو تہی اور امتناع کھبی جہل ونادانی کی وجہ سے ہوتا ہے اور کبھی تکبّر ، خود بینی اور سر کشی کی بناپر ، اگر چہ یہ دونوں برے ہیں لیکن دوسرا کئی گنا بد تر ہے ۔

۲۔ ملا ئکہ انکا رِ عبادت نہیں کرتے :

ملا ئکہ کے انکار عبادت نہ کرنے کا تذکرہ یا تو اس لیے ہے کہ عیسائی تین معبودوں کے قائل تھے (باپ ،بیٹا ، اور روح القدس ، یا دوسر ے لفظوں میں باپ خدا ،بیٹا خدا اور دونوں کے درمیا ن واسطہ ) اس لیے اس آیت میں قرآن چاہتا ہے کہ دوسرے معبودوں یعنی مسیح اور روح القدس فرشتہ ہر دو کی نفی کی جائے تاکہ ذات پروردگار کی توحید ثابت اہوجائے یا پھر یہ اس بنا ء بناپر ہے کہ آیت میں عیسائیوں کے شرک کاجواب دیتے ہوئے عرب بت پر ستوں کے شرک کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جو فرشتوں کو خداکی اولا د اور پر وردگار کا جز و سمجھتے تھے یہ انھیں بھی ایک جواب ہے۔

ملا ئکہ کے بارے میں ان دونوں بیانات کی طرف توجہ کرنے سے اس بحث کی گنجائش نہیں رہتی کہ کیا زیر نظر آیت انبیا ء پر ملا ئکہ کی افضلیت پر دلالت اکڑتی ہے یا نہیں ، کیونکہ آیت تو تثلیث کے تیسرے اقنو م یا مشرکین عرب کے معبودوں کی نفی کے لیے ہے نہ کہ ملا ئکہ کی مسیح پر فضیلت بیان کرنے کے لیے ہے ۔

آیات ۱۷۴،۱۷۵

۱۷۴۔( یَااٴَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَائَکُمْ بُرْهَانٌ مِنْ رَبِّکُمْ وَاٴَنزَلْنَا إِلَیْکُمْ نُورًا مُبِینًا )

۱۷۵۔( فَاٴَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا بِاللهِ وَاعْتَصَمُوا بِهِ فَسَیُدْخِلُهُمْ فِی رَحْمَةٍ مِنْهُ وَفَضْلٍ وَیَهْدِیهِمْ إِلَیْهِ صِرَاطًا مُسْتَقِیمًا )

تر جمہ

۱۷۴۔ اے لوگو ! تمھارے پروردگا کی طرف سے تمھارے لیے واضح دلیل آئی اور ہم نے واضح نرتمھاری طرف بھیجا ۔

۱۷۵۔ رہے وہ لوگ جو خدا پر ایمان لے آئے اور اس (آسمانی کتاب ) سے وابستہ ہوئے بہت جلد ان سب کو اپنی رحمت اور فضل میں داخل کردے گا اور اپنی طرف سید ھے راستے کی ہدا یت کرے گا ۔

نو رِ مبین

سابقہ آیات میں توحید اور تعلیماتِ انبیا ء سے اہل کتاب کے انحراف کی بحث تھی ۔ اب ان دوآیتوں میں آخری بات کہی گئی ہے اور راہِ نجا ت کو مشخص و معیّن کردیا گیا ہے پہلے تو اس عالم کے تمام لوگوں کو مخا طب کرتے ہوئے کہتا ہے : اے لوگو ! تمھا رے پر وردگار کی طرف سے تمھارے پاس ایک پیغمبر آیا ہے کہ جس کے پاس واضح دلائل و براہین موجود ہے اور اسی طرح اس کے ساتھ ایک نور ِ آشکار بھیجا گیا ہے جس کا نام قرآن ہے جو تمھا ری راہِ سعادت کو روشن کرتا ہے( یَااٴَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَائَکُمْ بُرْهَانٌ مِنْ رَبِّکُمْ وَاٴَنزَلْنَا إِلَیْکُمْ نُورًا مُبِینًا ) ۔

بعض علماء کے نظریئے کے مطابق ” برہان “ ۔”برہ “ (بروزن ” فرح “ ) کے مادہ سے ہے جس کا معنی ہے سفید ہو نا اور چونکہ واضح استدلا ل سننے والے کے لیے حق کے چہرے کو آشکار ، نورانی اور سفید کردیتا ہے لہذا سے برہا ن کہا جاتا ہے ۔

جیسا کہ بعض مفسّرین کہتے ہیں اور قرائن بھی گواہی دیتے ہیں کہ زیر نظر آیت میں برہان سے مراد پیغمبر اسلام کی ذات ِ بابرکت ہے اور نور سے مراد قرآن مجید ہے جبکہ دوسری آیات میں اسے نور سے تعبیر کیا گیا ہے ۔

تفسیر نور الثقلین ، علی بن ابراہیم اور مجمع البیان میں طرق اہل بیت سے کئی ایک احادیث نقل کی گئی جن میں کہا گیا ہے کہ لفظ برہان پیغمبر اکرم کے لیے ہے اور نور سے مراد حضرت علی ہیں ۔ یہ تفسیر کے منافی نہیں ہے کیونکہ ممکن ہے کہ نور کا یہاں وسیع مفہوم ہو ، جس میں قرآن بھی شامل ہو اور امیر المو منین علی بھی جو کہ قرآن کے محافظ ، مفسّر اور مدافع ہیں ۔

بعد والی آیت میں اس برہان اور نور کی پیروی کے نتیجے کا ذکر ہے : باقی رہے وہ جو خداپر ایمان لائے اور انھوں نے اس آسمانی کتاب سے تمسک کیا ، بہت جلد وہ انھیں اپنی وسیع رحمت میں داخل کرے گا اور پنے فضل و رحمت سے ان کی جزامیں اضافہ کرے گا اور انھیں صراط ِ مستقیم اور راہِ راست کی طرف ہدایت کرے گا( فَاٴَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا بِاللهِ وَاعْتَصَمُوا بِهِ فَسَیُدْخِلُهُمْ فِی رَحْمَةٍ مِنْهُ وَفَضْلٍ وَیَهْدِیهِمْ إِلَیْهِ صِرَاطًا مُسْتَقِیمًا ) ۔(۱)

____________________

۱۔صراط مستقیم کے بارے میں تفسیر نمونہ جلد اوّل میں سورئہ حمد کی تفسیر کے ضمن میں تفصیل سے گفتگوکی جا چکی ہے (اردوترجمہ ص ۷۳)